حقیقت اور تصور کا امتزاج
پروفیسر غلام شبیر رانا
کا نیا ناول
کرگسوں میں گھرا شاہین
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
مستریاں والی بستی
جھنگ بھی ایک عجیب شہر ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ دریائے چناب کے مشرقی کنارے پر واقع اِس قدیم شہر کے ایک نشیبی علاقے کی ایک بستی جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد لاتا ہے آج بھی اپنی داستانِ حسرت سناتی دکھائی دیتی ہے۔ کہرام ٹھگ کے آباء و اجداد گزشتہ کئی صدیوں سے اس علاقے میں رہتے تھے۔ سلطان جب اس طرف سے گزرتا تو کہرام ٹھگ کی بستی کو حیرت سے دیکھتا اور دیدۂ گریاں کی روانی چھُپانے کے لیے گل افشانیِ گفتار کا سہارا لیتا تھا۔ المیہ ہو یا طربیہ سلطان کی ہر بات کے پس منظر میں احساس کی تمازت اور جذبات کی شدت اس سے ملنے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ حکیم کمال نے جب سلطان کوبستی مستریاں والا کے آسیب زدہ ہونے کے بارے میں بتایا تو سلطان نے اس کی بات خندۂ استہزا میں اُڑا دی اور کہا:
’’جس بستی میں کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے جیسا ٹھگ رندہ چلاتا ہو وہاں بھوت یا آسیب کا پھندہ اور چڑیلوں اور ڈائنوں کا گورکھ دھندہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کے گھر میں کئی آدم خور بھوت، چڑیلیں او ڈائنیں موجود ہیں جو انسانوں کا بھیس بنا کر اہل جنوں کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ان ننگ انسانیت درندوں کے گھر میں ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک آسیب، ڈائن، چڑیل اور جادو گر ساحرہ نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ یہ ایسے آدم خور ہیں جو طے شدہ منصوبے کے تحت شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حرص، ہوس اور جنسی جنون کے جذبۂ بے اختیار کے تحت یہ درندے جب مظلوموں پر کوہِ ستم توڑتے ہیں تو آسیب بھی منھ چھپاتے پھرتے ہیں۔‘‘
بستی مستریاں والا کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ یہاں چُونا لگانے والے اور چُونا کرنے والے لوگوں کا بسیرا ہے۔ اس پر اسرار بستی سے لے کر دریا کے مشرقی کنارے تک میلوں تک پھیلے ہوئے خود رو گھنے قدرتی جنگل بیلے میں دشوار گزار خار دار جھاڑیاں ہیں۔ یہ پُر اسرارگھنا جنگل اور خار دار جھاڑیاں جنگلی درندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خود رو جنگل آسیب زدہ ہے اور اس جنگل کے کناروں کے ساتھ بہنے والے دریائے جہلم کے گرداب میں عوج بن عنق جیسے عفریت دیکھے گئے ہیں۔ یہاں کے ہر عفریت اور چڑیل کی جان ٹخنوں میں ہوتی ہے اسی لیے یہ آسیب اور بھوت پاؤں پٹخ کر چلنے کے عادی ہیں۔ مشرق میں جہاں جنگل ختم ہوتا ہے وہاں سرسبز و شاداب چراگاہیں موجود ہیں جہاں گلہ بان اور چروا ہے مقامی کسانوں کے مویشی چَرانے کے لیے پہنچتے ہیں اور رسہ گیر اِن مویشیوں کو چُرانے کے لیے آ دھمکتے ہیں۔ کچھ چروا ہے ایسے بھی ہیں جنھوں نے پالتو جانوروں کی حفاظت کا خاص انتظام کر رکھا ہے۔ ان کے ریوڑ کے ساتھ ایک فربہ السیشن کتا موجود ہوتا ہے کچھ سادہ لوح لوگ اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے ایک کتیا بھی پال لیتے ہیں مگر ایسی نمک حرام کاتک کی کتیا ہمیشہ کی طرح چوروں سے مِل جاتی ہے اور چروا ہے ہاتھ مَل کر جی کا زیاں کرتے ہیں۔ حفاظتی بند کے جنوب میں جھنگ کا قدیم شہر آباد ہے یہاں کی کچھ عمارتیں تو طوفانِ نوحؑ کی باقیات خیال کی جاتی ہیں۔ اس پر اسرار مقام پر چغد، زاغ و زغن، چمگادڑ اور ہجوم کر گساں دیکھ کر ہر شخص دنگ رہ جاتا۔ جب بھی کوئی فریب خوردہ شاہین اس ہجوم کرگساں کے نرغے میں پھنس جاتا لوگ اُس کی جان کو رو لیتے۔ یہ خون آشام کرگس ہر بار نیا بھیس بنا کر گردشِ ایام کی زد میں آ جانے والے کسی نہ کسی شاہین کو زیرِ دام لانے میں کا میاب ہو جاتے اور یوں ہر بار ایک نیا المیہ سامنے آتا۔ جھنگ کے قدیم اور تاریخی شہر کو دریائے چناب میں آنے والے سیلابوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر محکمہ آب پاشی نے ایک حفاظتی بند تعمیر کیا ہے جو شمال مشرق میں ایک قدیم گاؤں شہابل سے شروع ہو کر جنوب مغرب میں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم تریموں ہیڈ ورکس پر ختم ہو جاتا ہے۔ پچاس فٹ بلند اور تیس فٹ چوڑا کچی مٹی سے بنایا گیا یہ بند بھی ایک عجوبہ ہے جو دریائے چناب کی طوفانی لہروں کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتا تھا اور ان بپھری ہوئی موجوں کو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی مزاحمت نہ کرتا تھا۔ یہ مثال سال 1950 اور سال 1973 میں سامنے آئی جب اس حفاظتی بند کے بہہ جانے کے نتیجے میں قدیم شہر کھنڈرات اور ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔
اگست 1973ء میں دریائے چناب میں آنے والے قیامت خیز سیلاب نے بے ستون مکانوں کے مکین کہرام ٹھگ اور اس کے پروردہ سسلین مافیا کو ایسا طمانچہ لگایا کہ اُن کی رعونت کا قصر عالی شان ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔ شام کا وقت تھا ایک طرف پُورا شہر ڈُوب رہا تھا تو دُوسری طرف آسمان پر سُورج بھی ڈُوب رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ہر با ضمیر شخص کی آنکھ اشک بار تھی اور دل سے ایک ہُوک اُٹھ رہی تھی۔ سیلاب کے بعد مو سلا دھار بارش سے جل تھل ایک ہو گیا محنت کش دہقانوں، مزارعوں اور مزدوروں نے اپنے روشن مستقبل کے جو خواب دیکھے تھے وہ سب لہروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سیلاب نے کچی آبادیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا اور دریا کی لہریں غریب لوگوں کا سارا مال و اسباب بہا لے گئیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں کہرام ٹھگ کے ساتھی لُوٹ مار میں مصروف رہے۔ امدادی کاموں میں مصروف شہری دفاع کے رضاکاروں نے دیکھا کہ اس سیلاب زدہ علاقے کے مکینوں کی آنکھوں میں ویرانی ہی بچی تھی باقی سب اسباب تو کہرام ٹھگ کے اُچکے ساتھیوں نے لُوٹ لیا تھا۔
جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک کے شمال کی جانب نشیبی علاقے کی ایک کچی آبادی کو مستریاں والا محلہ کہتے ہیں۔ مستریاں والی بستی میں ہوس آمیز جنسی جنون کو پروان چڑھانے میں کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے نے نہایت قبیح کردار ادا کیا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا اور اپنے شکار کو نگل جانے کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہانا ان موذیوں کا وتیرہ تھا۔ ہر موقع پر نئے بھیس بدل کر یہ دونوں ٹھگ لوگوں سے زر و مال بٹور لیتے تھے۔ ان فریب کاروں کے جو رُوپ تھے اُن میں اتائی، نجومی، رمال، جوتشی، ستارہ شناس، عامل اور تارک الدنیا سادھو شامل ہیں۔ ان عادی دروغ گو عیاروں کی طبیعت ایک طرفہ تماشا تھی، یہ بگلا بھگت اس قدر منافق تھے کہ کسی کا اعتبار ہی نہ کرتے اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ یہ اپنا اعتبار کھو بیٹھے۔ ان میں سے اکثر تھالی کے بینگن اور چکنے گھڑے تھے جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنی دروغ گوئی اور مکر کی چالوں کا دفاع کرتے اور اسے اپنے موقف پر استقامت سے تعبیر کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر اپنے ماضی کے کردار اور ٹھگی کے وار کو بھول جاتے اور پرانے شکاری کی حیثیت سے کوئی نیا جال تیار کر کے میدان ٹھگی میں کُود پڑتے تھے۔ نئی نسل کو اپنے مکر و فریب کی داستانوں کا احوال بتانے میں انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ نہایت راز داری سے لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھتے۔ جب کبھی اِن کا جھُوٹ پکڑا جاتا تو یہ جھُوٹے حلف کو ڈھال بنا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھُول جھونکتے تھے۔ اس بستی میں ہر کام اور ہر بگڑی ہوئی مشین کے ایسے مستری اپنی جھگیوں میں مقیم ہیں جو ہتھیلی پر سرسوں جما کر پلک جھپکتے میں مشینوں کے بگاڑ کو سدھار کر اپنے مزدوری وصول کر لیتے ہیں۔ یہاں کچھ اناڑی مستری ایسے بھی ہنہناتے پھرتے ہیں جو مشینوں کے سادہ لوح مالکوں سے مشینیں اور مرمت کا معاوضہ اینٹھ کر اپنے گھر کے کواڑ بند کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں اور یوں بگاڑ میں اصلاح کی آڑمیں اِن غریبوں کی دنیا ہی اُجاڑ دیتے ہیں۔ خیالی پلاؤ پکانا، بے پر کی اُڑانا اور وادی ٔ خیال میں مجنونانہ صحرا نوردی کرنے ولاوں سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ باتیں بنانے کے بجائے یہ ٹھگی کرتے وقت ہتھیلی پر سرسوں جما دیتے اور ثابت کر دیتے کہ فریب کاری، دھولہ دہی، مکر، سفلگی اور سادیت پسندی کے بدلتے ہوئے انداز کیا ہیں۔ کہرام ٹھگ مستریاں والی بستی کا مکین تھاوہ اپنے ساتھیوں کو بتاتا تھا کہ جب بھی سیلاب آیا سیلاب کی تباہ کاریوں سے شہر کا نظام تہ و بالا ہو گیا۔ سیلاب کا پانی اُترتا تو کہرام اپنے ساتھیوں سمیت سیلابی علاقوں پر دھاوا بول دیتا اور مکانات کے ملبے کے ڈھیر سے قیمتی سامان اور سونے چاندی کے زیورات لُوٹ لیتا تھا۔ لُوٹ مار سے فارغ ہونے کے بعد مستریاں والی بستی کا عشقی ٹڈا کہرام ہر وقت اداکارہ مدھو بالا (1933-1969) کے نام کی مالا جپتا رہتا تھامستریاں والامحلہ کو جھنگ کا سہراب گوٹھ بھی کہا جاتا ہے جہاں جنس و جنوں اور منشیات کی دستیابی کی تمام ممکنہ صورتیں دستیاب ہیں۔ اس محلے میں کئی اِتائی بھی رہتے تھے جو کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا کی شراکت سے دوا، علاج اور جعلی حکمت کی آڑ میں ٹھگی کا قبیح دھندہ اور اکھاڑ پچھاڑ کا پھندہ لگا کر لُوٹ مار کرتے تھے۔ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے نے دیسی شراب کی بھٹی سے بہت کالا دھن کمایا۔ گردشِ ایام کا شکار ہونے اور آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے سادہ لوح، درماندہ اور مظلوم طبقے کے پاس مر ہم بہ دست پہنچ کر اُن سے جعلی اظہار ہمدردی کر کے اُن کا اعتماد حاصل کرنا ان کا وتیرہ تھا۔ یہی وہ حربہ تھا جسے استعمال کر کے وہ غریبوں کو زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر دیتے تھے۔ انجمن اصلاح معاشرہ کے رضاکاروں نے انسانیت کے خلاف ان بے ضمیروں کے ناقابلِ فراموش جرائم سے تنگ آ کر ایک مرتبہ ان منشیات فروشوں کا قرع انبیق اور ٹین کا پی پا توڑ دیا۔ ان رضاکاروں کاخیال تھا کہ ان سفہا کے جرائم کو محض ایک بستی تک محدودنہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پوری انسانیت پرمسموم اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ کردار سے عاری، جذبوں کی صداقت اور منطق کی حقیقت سے نا آشنا کہرام ٹھگ اس موقع پر بے حسی اور بے حیائی کامجسمہ بنا ہنہنا رہا تھا۔ اس نے نہایت ڈھٹائی سے کہا:
تم کتنے پی پے توڑو گے
ہر گھر سے پی پا نکلے گا
تم اپنا ہی سر پھوڑو گے
’’جنسی جنون اور مے نوشی اس بستی کے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ دولت مند والدین کے بیٹے اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمارے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا رخ کرتے ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس لیے ہم بھی اپنی ضرورت کی خاطر نا چار جنسی جنون، اغوا، چوری، ڈاکے، ٹھگی اور منشیات کے دھندے پر انحصار کرتے ہیں۔ جس طرح چوہے کی جلد کے بالوں میں پسو گھُس جاتے ہیں اسی طرح ٹھگی اور جرائم ہماری سرشت میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہی بات تو آسٹریا کے قانون دان ہینز کیلسن (Hans Kelsen: 1881-1973) نے کہی تھی کہ ضرورت کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتی۔‘‘
یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور اس کچی آبادی میں اقامت کا پکا پیمان وفا باندھ چُکے تھے۔ اپنی دیانت داری، جا نفشانی اور کار گزاری کے باوجود تنگ دستی اور فاقہ کشی ان کا مقدر بن چُکی تھی۔ مستریاں والا محلہ کے اردگرد سدا ریت اورخاک اُڑتیر ہتی تھی مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ صدیوں پہلے یہاں ایک بے آب و گیاہ صحرا ہوتا تھاجو مجنوں کی ہلاکت کے بعد نجد سے بے نیلِ مرام لوٹنے والی صحرائی مخلوق کی بے ہنگم جھگیوں کے نیچے تاریخ کے طوماروں میں دب گیا ہے۔ بڑی سڑک پر ٹریفک کی ازدحام کے باعث سڑک کے کنارے واقع اس بستی میں بڑھتے ہوئے شور غل سے لوگوں کے معمولات اور کاربار بھی شدید متاثر ہوا۔ محلہ مستریاں والا کی ایک تنگ و تاریک گزرگاہ میں گھنشام داس نامی ایک بوڑھا رہتا تھا جس کے پوشیدہ دھندے اور پر اسرار پھندے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ گھنشام داس ایک عیار اِتائی تھا جو جڑی بوٹیوں اور قدرتی دھاتوں کو ملا کر مٹی کے برتنوں میں بند کر کے آگ پر رکھتا، اس کے بعد مٹی کے برتن کو گڑھا کھود کر زمین میں دبا دیتا اور اس پر کئی دن تک آگ اور ہرمل کی دھُونی دیتارہتا اس طرح وہ کشتے تیار کرتا تھا۔ کئی بار یہ کُشتے خام رہ جاتے تو کشتوں کے پُشتے لگ جاتے۔ اس حال میں بھی کوئی اس کا احتساب نہ کرتا اور یہ مُوذی و مکار جعلی معالج نہایت ڈھٹائی سے سادہ لوح لوگوں سے زر و مال بٹور لیتا۔ بستی کے لوگ اسے سل باتیں سناتے تھے اور یہ مورکھ اپنی تذلیل کی ہر دلیل سُنتا ار سر دھُنتا تھا۔ اس کے ایک پیشہ ور ڈاکو اور اُجرتی بد معاش بیٹے کا نام کہرام ٹھگ تھا۔ یہ سفاک قاتل جس طرف سے گزرتا وہاں خوف اور دہشت کے باعث کہرام مچ جاتا۔ اسی وجہ سے لوگ بہرام ٹھگ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اِس سفاک ڈاکو اور پیشہ ور قاتل کو کہرام ٹھگ کے نام سے پچانتے تھے۔ اُجرتی بد معاشوں، پیشہ ور ٹھگوں، چوروں اور قزاقوں کے گروہ جو بھی انجمن بناتے کہرام ٹھگ اُس کی روح و رواں ہوتا تھا۔
محلہ مستریاں والا میں کہرام ٹھگ کے چنڈوخانے میں بیری کا ایک قدیم درخت تھا جس پر بے شمار زاغ و زغن، چُغد، چھپکلیوں اورچمگادڑوں کا بسیرا تھا۔ کہرام ٹھگ کے چنڈو خانے کے کچے فرش پر ہر طرف طائرانِ بد نوا کے ضماد سے ایک کھڑونجا سا بن گیا تھا۔ کچے گھر کی دیواریں سیم کی وجہ سے اس قدر بوسیدہ ہو گئی تھیں کہ کسی وقت بھی وہ زمیں بوس ہو سکتی تھیں۔ کہرام ٹھگ کے ٹھکانے کے پاس درختوں کے جھنڈپر چغد، چمگادڑ، چھپکلیاں، گدھ اور زاغ و زغن موسم کے بدلنے کا اعلان کرتے تھے۔ اس کے چنڈو خانے کی دیواروں میں بے شمار کیڑوں، مکوڑوں اور چیونٹیوں کے بِل تھے۔ کئی اُلو اور اُلو کے پٹھے تو سورج طلوع ہوتے ہی اس کے گھر کی دیواروں کے گرد منڈلاتے دکھائی دیتے تھے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔ کہرام ٹھگ کے گھر کا دروازہ مغربی جانب ایک انتہائی متعفن گلی میں کھُلتا تھا جس میں نالیوں سے بہتا ہوا گندا پانی ایک گہرے جوہڑ میں جمع ہو جاتا تھا۔ اس جگہ پر غلاظت اکٹھی ہو جانے کی وجہ سے یہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنا محال تھا۔ گندے پانی کے جوہڑ میں جو عجیب الخلقت حشرات پائے جاتے تھے اُن میں سنپولیے، جونکیں، کچھوے، کن کھجورے، مینڈک، کینچوے اور سانپ کی شکل کی مچھلیاں شامل تھیں۔ معلوم نہیں کس طرح اس متعفن پانی سے لبالب بھرے جوہڑ میں مچھلیاں بھی پروان چڑھنے لگیں۔ رات کی تاریکی میں کہرام ٹھگ گندے پانی کے جوہڑ میں جال پھینک کر مچھلیاں پکڑتا اور دِن چڑھے بستی میں یہ کہہ کر فروخت کرتا کہ وہ دریائے چناب اور جہلم کے سنگم پر تریموں کے مقام سے یہ تازہ مچھلیاں پکڑ کر لایا ہے۔ بھور بازار میں اس کے پروردہ ٹھگ گندے پانی کے جوہڑ سے پکڑی گئی اسی مچھلی کے کباب بنا کر بیچتے اور یہ ظاہر کرتے کہ یہ تازہ دریائی مچھلی کے کباب ہیں۔ اپنی عادات و اطوار کے اعتبار سے کہرام ٹھگ ردودِ خلائق تھا یہ ناہنجار جس طرف جاتا دو طرف ندامت اور مظلوم انسانوں کی ملامت اس کا تعاقب کرتی تھی۔ پکوڑے اور کباب بیچنے کے ساتھ ساتھ کباب میں ہڈی بن جانا بھی اس شُوم کا وتیرہ تھا۔
کہرام ٹھگ نوسر بازی اور فریب کاری سے جو کچھ کماتا وہ قحبہ خانوں، چنڈو خانوں اور قمار خانوں میں اُڑا دیتا تھا۔ اس کے گھر کے مطبخ سے کبھی دھُواں اُٹھتا تو پڑوسی سمجھتے کہ شاید اس سفلہ ٹھگ کے مکان میں آتش زدگی کاسانحہ ہو گیا ہے۔ پریشانی کے عالم میں سب لوگ آگ بجھانے کے لیے ریت اور پانی کی بھری بالٹیاں لے کر اس نا ہنجار کے گھر کی طرف لپکتے مگر وہاں تو ہر طرف اُلّو بول رہے ہوتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا مہمان آ نکلتا تو دال، ساگ اور دلیہ پکانے کی نوبت آ جاتی۔ کھانا تو شاذ و نادر ہی پکتا تھا البتہ کہرام ٹھگ کے گھر کی عورتیں بستی کے نواحی کھیتوں کے کناروں پر خود رو جڑی بوٹیوں پیلکاں، ڈیہلے، پیلوں، الونک، اکروڑی، کاسنی، لسوڑے، تاندلا اور بتھوا مفت توڑ کر لاتیں اور انھیں پکا کر سب لوگ کے ساتھ کھاتے تھے۔ گرمی کے موسم میں خشک جو کو بھُون کر اُسے پیسا جاتا اور اُس کے آٹے میں شکر ڈال کر شبت بنایا جاتا تھا۔ بینگن کو اُپلوں کی آگ پر بھُون کر اس میں ہری مرچ اور لسی ڈال کر بھُرتا بنایا جاتا۔ عورتیں کھیتوں سے خود رو جڑی بوٹی تاندلہ توڑ کر لاتیں اور اسمیں ہری مرچ کُوٹ کر ملاتیں اور آٹا گوندھ کر اس میں تاندلہ ملاتی تھیں۔ تاندلا مِلی یہ روٹیاں جب تنور سے پک کر آتیں تو سب لوگ شوق سے کھاتے اور پتلی لسی (کَنگ) کا گلاس پی کر اپنے خالق کا شکر ادا کرتے تھے۔ کہرام ٹھگ کے گھر میں صرف عید الاضحی کے موقع پر وہ گوشت پکتا تھا جو مخیر لوگ ان کے گھر بھجواتے تھے۔ بعض اوقات صدقے کے جانور کا گوشت یا بیمار جانور کا گوشت بھی انھیں مِل جاتا تھا اور یوں زبان کا ذائقہ بدلنے کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی تھی۔ کہرام ٹھگ کے گھر میں داخل ہوتے ہی دروازے کی جنوبی سمت میں ایک ہینڈ پمپ تھا جس کے فرش کے ارد گرد کوئی دیوار نہ تھی اور جس سے پانی نکلنے کا عمل عرصے سے بند تھا۔ یہیں پر غسل اور رفع حاجت کے لیے نلکے کے گرد چارپائیاں کھڑی کر کے عارضی پردہ بنایا جاتا تھا۔ مستریاں والی بستی میں پینے کا پانی میسر نہ تھا۔ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے بستی کی عورتیں گھڑے اُٹھا کر مسجد کی کھُوہی کے کنارے پہنچتیں اور رسی سے بندھے ڈول کو لٹکا کر کھُوہی سے پانی نکالتیں اور پانی سے اپنے گھڑے بھر کر اپنے گھر لاتی تھیں۔ گھر کی جنوبی دیوار کے ساتھ اناڑی بڑھئی کی کیکر کی لکڑی کی بنی ہوئی ایک گھڑونچی رکھی تھی جس پر مٹی کے تین گھڑے نلکے کے پانی سے بھر کر دھر دئیے گئے تھے۔ مٹی کے تین پیالے بھی گھڑونچی پر رکھے گھڑوں کے منھ پر چپنی کے طور پر دھرے رہتے تا کہ پانی پینے والوں کو کسی برتن کو تلاش کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ اس کچی آبادی کے باشندوں کا معیار زندگی دیکھ کر یقین ہو جاتا کہ یہ لوگ غربت کی انتہائی پست لکیر سے بھی نیچے زندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔
گلی میں کہرام ٹھگ کے گھر کا دروازہ تھا اس دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک چھپر تھا اس سے آگے صحن میں بیری کا ایک درخت تھا۔ چند گز کے فاصلے پر کہرام ٹھگ کے گھر کے تنگ و تاریک کمرے کے بعد ایک دوسرا کمرہ شروع ہو جاتا جہاں روشنی اور تازہ ہوا کا گزر بعید از قیاس تھا۔ اس عقوبت خانے کی شمالی دیوار کے ساتھ کچی مٹی سے بنائی گئی ایک سیڑھی تھی جس کی ڈاٹ کے نیچے کچی مٹی اور گوبر کو ملا کر بنایا گیا ایک بھڑولا رکھا تھا۔ اس بھڑولے میں اُوپر سے ڈال کر گندم ذخیرہ کی جاتی تھی اور اس کے منھ کو بند کرنے کے لیے کچی مٹی کا ایک ڈھکن تیار کیا جاتا تھا۔ گندم نکالنے کے لیے بھڑولے کے نچلے حصے میں چار انچ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتا تھا۔ آٹا رکھنے کے لیے مٹی کا ایک چھوٹا سا دابڑا بھی کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ برسات کا موسم گزر جاتا تو گہئی، کلوٹی، دابڑے اور بھرولے میں رکھی گندم کو دھُوپ میں سُکھانے کے بارے میں سوچا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے کچے کمرے کی چھت جو سرکنڈے اور کڑیوں سے بنی ہوتی تھی اس میں بھڑولے کے عین اُوپر پہلے سے ایک گول سوراخ رکھ لیا جاتا تھا۔ یہ سوراخ جو ’’مگھ‘‘ کہلاتا تھا اس کے محیط کو گوبر اور کچی مٹی سے لپائی کر کے مضبوط بنایا جاتا تھا۔ بارش کے پانی کے بہاؤ کو بھڑولے میں گرنے سے روکنے کے لیے مگھ کے محیط کو چھت کی سطح سے ایک انچ بلند رکھا جاتا تھا۔ بارش کی بوچھاڑ سے بھڑولے کے مگھ کو بچانے کے لیے مگھ کو مٹی کے پکے بھڑاندے سے ڈھانپ دیا جاتا تھا۔ بھڑانڈا مٹی کا ایک پختہ برتن ہوتا تھا جسے ٹپ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ گندم کو خشک کرنے کے لیے چنگیروں میں اسے بھرا جاتا اور چنگیریں سر پر اُٹھا کر گندم چھت پر پھیلا دی جاتی تھی۔ سارا دِن گندم سورج کی دھُوپ میں خشک ہوتی رہتی اس کے بعد سہ پہر کے وقت گندم کو چھاج میں پھٹک کر اور پرون میں چھان کر اسے مگھ کے ذریعے واپس گہئی، کلوٹی، دابڑے اور بھرولے میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔ زمانہ کیا بدلا کہ سارے انداز ہی بدل گئے اب کنالی، پر ٹوٹے، صحنک، چھُونی، کاڑھنی، کولی، مُنگر، کڑچھی، چَٹُو، دَوری، کُوزہ، صراحی اور استاوا جیسے برتن کہیں دکھائی نہیں دیتے۔
اس گھروندے کے صحن میں جنوبی دیوار کے ساتھ کچی مٹی سے بنا ہوا شکستہ سا چولھا پڑا ہوتا تھا یہی مطبخ تھا اور یہی سب افراد خانہ کے مِل بیٹھ کر طعام کھانے کی جگہ تھی۔ چولھے میں جلانے کے لیے کہرام ٹھگ کے گھر کی عورتیں دریا کے کنارے سے خود رو جھاڑی ’’لئی‘‘ اور چراگاہوں سے خشک گوبر اُٹھا کر لاتی تھیں۔ گوبر کو محفوظ کرنے کے لیے اسے کمرے کی چھت پر جوڑ کر اس پر کچی مٹی کی لپائی کر کے کے ’’سروڑ‘‘ بنایا جاتا تھا۔ خود رو جھاڑی ’’لئی‘‘ کی گیلی لکڑیاں سوکھنے کے لیے کمرے کی چھت پر رکھ دی جاتی تھیں۔ گھر کی مشرقی اور مغربی اور شمالی و جنوبی دیواروں میں میخیں گاڑ کر ان میں لوہے کی دو مضبوط موٹی تاریں باندھ دی گئی تھیں۔ افراد خانہ کے استعمال شدہ میلے کپڑے، کھیس، دھسے اور چادریں دھونے کے لیے کھار کا استعمال عام تھا۔ خود رو جڑی بوٹی ’’لانی‘‘ دریا کے کنارے جنگلوں میں مفت دستیاب تھی اس کو مٹی پر جلایا جاتا اور اس ’’لانی‘‘ کی راکھ کو کھار کے طور پر کپڑے دھونے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ چھُٹی کے دِن اس بستی کی عورتیں ٹین کے ایک پی پا لیتیں اس میں مٹھی بھر کھار ڈالتیں اور چولھے پر ٹین کا پی پا رکھ کر اُس میں حسبِ ضرورت پانی ڈال کر پانی کو خوب اُبالتی تھیں۔ جب پانی کھول جاتا تو اُس میں عفونت زدہ میلے کپڑے ڈال دیتی تھیں۔ کچھ دیر بعد پی پا آگ سے اتار لیا جاتا اور اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیا جاتا تھا۔ نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بستی کے نواح میں کیکر والا کنواں موجود تھا۔ مقامی کسان اس کنویں میں بیل جوت کر کھیتوں کی آب پاشی کرتے تھے۔ صبح کے ناشتے سے فارغ ہو کر گھر کی مالکن ٹین کا پی پا اپنے سر پر اُٹھا کر بغل میں ایک تختہ اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھامے کیکر والا کنویں کا رخ کرتی۔
اپنے سر پر ٹین کا پی پا رکھ کر جب حسین عورتیں میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے کنویں کی طرف جانے کے لیے اپنے گھر سے نکلتیں تو اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی حال مست ستم ظریف بی بے بھی اس طرف اُمڈ آتے اور دبے لفظوں میں یہ کہتے:
’’سر پہ تمھارے پی پا ہے اور تیرے قدموں کی دھُول یہ بی با ہے۔‘‘
کپڑے دھو کر نچوڑ کر الگ رکھ لیے جاتے اور پی پے میں کھار کا جو پانی بچ جاتا اُسی پانی سے بچے بھی نہاتے اور خاتون خانہ بھی کپڑوں سمیت اسی سے وہیں کنویں پر نہا کر گھر روانہ ہوتی تھی۔ کچھ ریشمی کپڑے مٹی کی پرانی کُنالی میں پڑے گھریلو پیمانے پر تیار کیے گئے خود ساختہ صابن پر میلے کپڑے رگڑ کر نلکے کے فرش پر ڈنڈے سے پِیٹ کر اُنھیں تغاری میں دھو کر دھُوپ میں خشک ہونے کے لیے رسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ کپڑے خشک ہو جاتے تو انھیں گٹھڑی میں باندھ کر ایک تونگ میں رکھ کر اُوپر ڈھکن چڑھا دیا جاتا تھا۔ بستی کے عام مکینوں کی طرح اس گھر میں بھی صندوق نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ گھر کے تمام کپڑے پچھڑوں یا بڑے تونگ میں رکھے جاتے تھے۔ نئی نسل کو اَب پچھڑے، پچھی، شیشے والی پنکھی، مصلیٰ، پھُوہڑی اور تونگ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ گھریلو دست کاریوں کی ماہر خواتین کھجور کے گاچے اکھاڑ کر لاتیں اور ان گاچوں کے سفید پتوں کو دھوپ میں سکھا کر انھیں اپنی پسند کے رنگوں میں رنگ لیتی تھیں۔ وہ کھیتوں کے کنارے اُگے سرکنڈوں کی سر درانتی سے کاٹ کر لاتیں اور یہ سر خشک کر کے اسے آدھ انچ موٹائی کے بربار رکھ کر اس کے گر کھجور کے رنگین پتے لپیٹ کر بڑی سوئی کے ساتھ کھجور کے پتوں ہی سے اس کی سلائی کرتی چلی جاتی تھیں۔ اس کے بعد اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق اس کا سائز تیار کرتی تھیں۔ چنگیریں، چھابے، چھبیاں، ڈھاکویں، پچھڑے، پچھی، شیشے والی پنکھی، مصلیٰ، پھُوہڑی اور تونگ کی تیاری کے لیے یہ مراحل طے کیے جاتے تھے۔ پلاسٹک کے برتن کیا آئے کہ صدیوں سے مستعمل برتن اور گھریلو دست کاریاں بھی قصۂ پارینہ بن گئیں۔
مستریاں والی بستی کے اکثر گھروں میں ہاتھ سے چلائی جانے والی پتھر کی چکی ہوتی تھی۔ اس چکی پر نمک، مرچیں، دالیں، مکئی، گندم، جوار، باجرہ، دھنیا، اور منڈوا پیسا جاتا تھا۔ چینا اور دھان چھڑنے کے لیے ہر گھر میں اوکھلی اور موہلا بستی موجود ہوتا تھا میں کسانوں نے خراس لگایا تو یہاں کے مکینوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ خراس ایک بڑی چکی تھی جسے بیلوں کی جوڑی کھینچتی تھی اور وہ کام جو ہاتھ سے چلائی جانے والی چکی سے ایک گھنٹے میں مکمل ہوتا تھا وہ خراس پر دس منٹ تکمیل کو پہنچ جاتا تھا۔ ان گھروں کے برتن دیوار کے ساتھ کیلوں سے لگے ایک لکڑی کے تختے یا مٹی سے بنے ایک فٹ چوڑی پڑچھتی پر جوڑ دئیے جاتے تھے۔ اجناس خوردنی کو محفوظ کرنے کے لیے مٹی کی چٹوریوں کی پالیاں کمرے کے ایک گوشے میں جوڑ دی جاتی تھیں۔ ہر چٹوری میں مختلف قسم کی دال یا جنس رکھی جاتی تھی۔