ایک تحقیقی مضمون
قرآنی زندگی اور غیر قرآنی زندگی کا تقابل اور جائزہ
از قلم
آسیہ رشید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
ابتدائیہ
انعامات ربانی میں ایک بہترین انعام، امت مسلمہ کو نبی کریمﷺ کے ذریعے دیا جانے والا قرآن حکیم کا عظیم تحفہ ہے۔ سورہ یونس میں قرآن مجید کو رحمتِ خداوندی سے موسوم کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللَّہ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ہوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ (1)
(یہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ یہ نعمت تمہیں نصیب ہوئی، پس یہ وہ چیز ہے، جس پر لوگوں کو چاہیے کہ خوشیاں منائیں، جتنی بھی چیزیں دنیا میں لوگ سمیٹتے ہیں، قرآن کی نعمت، ان سب سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہے۔)
قرآن کریم کے نزول کا بنیادی مقصد ہی انسانی زندگی کے اسلوب کو راہ حق دکھا کر اوصاف خداوندی سکھا کر درست طرز زندگی پر ڈھالنا تھا۔ بد تہذیبی ختم کرنے اور بد سلیقہ اور نا شائستہ ہونے کے سبب اور پوری دنیا کی اصلاح کرنے، تہذیب سکھانے اور اسلوب زندگی درست کرنے کو اللہ نے اتارا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إِنَّا أَنْزَلْنَاہ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (2)
(بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تا کہ تم سمجھو۔)
مگر چونکہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے جو انسان کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ‘ اس لئے اس کی روح ابدی‘ کلام کی تاثیر روحانی اور اس کی تعلیمات آفاقی ہیں یعنی یہ انسان کے لئے ضابطہ حیات ہے۔ انسان قرآنی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے اگر وہ اس سے نظر پھیرتا ہے اور احکامات الٰہی سے رو گردانی کرتا ہے تو خسارہ اٹھانے کا خود ہی ذمہ دار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب بیان بھی انسانی فکر و نظر اور ذوق سلیم کے مطابق ہے یعنی انسان جب قرآن پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ایک ایک نصیحت اس کے دل میں اترتی جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجھ ہی سے ہم کلام ہے۔ اس قرآن کا موضوع ہی انسان ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ کا مطلوب ہے کہ انسان قرآنی انداز فکر قرآنی اسلوب پر زندگی گزارے۔ ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس کا اسلوب بیان اس انداز کا ہے کہ ہر نفس کو فرداً فرداً یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت یہی باور کراتا ہے کہ قرآن اس کے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ تاہم قرآن کے اسلوب بیان کے کئی پہلو ہیں جن کو سمجھنا چاہئے۔ ویسے اس کے اسلوب کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے سورۃ یوسف میں قرآن کا اسلوب کیا ہے جو زندگی میں راہنمائی فراہم کرتا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ہذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہ لَمِنَ الْغَافِلِینَ (3)
(ہم تمہیں سب اچھا بیان سناتے ہیں اس لئے کہ ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اگرچہ بے شک اس سے پہلے تمہیں خبر نہ تھی۔)
اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
قَدْ جَاءَکُمْ مِنَ اللَّہ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ (4)
(بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔)
ایک اور جگہ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (5)
(بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے قرآن اپنے بندے پر اتارا جو سارے جہاں کو ڈر سنانے والا ہو۔)
اسی طرح ایک اور جگہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
إِنَّ ہذَا الْقُرْآنَ یَہدِی لِلَّتِی ہیَ أَقْوَمُ (6)
(بلا شبہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔)