ادبیات عالیہ کی ایک اور پیشکش
نو طرزِ مرصّع
اردو محفل کے اراکین مجلس ادبیات عالیہ کی طرف سے تحفہ
محمد حسین عطا خان تحسینؔ
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
دیباچہ
اوپر دانشوران شیریں سخن بزم درایت و رزانت کے اور عاقلان صاحب طبع انجمن بلاغت و متانت کے مخفی و پوشیدہ نہ رہے کہ یہ عاجز ترین خلق اللہ میر محمد حسین عطا خاں متخلص بہ تحسینؔ مخاطب بہ خطاب‘‘مرصع رقم‘‘ بعد رحمت والد بزرگوار حضرت میر محمد باقر خاں صاحب متخلص بہ شوقؔ کے کہ تمام ممالک ہندوستان میں نزدیک ارباب کمال کے کمالات دینی و دنیوی سے شہرہ آفاق تھے اور واقعی یوں ہے کہ بیچ میدان تشریح و توصیف ذات اس مفرد کائنات کے نسریں ہلال آہوئے قلم کا، اوپر صفحۂ گلشنِ افلاکِ چراگاہِ سفیدۂ کاغذ کے جلوہ نمائش کا پا کر نافہ ریز بہار عرصہ تحریر کا نہیں ہو سکتا۔ اگر ذات فائض البرکات ان کے تئیں طغرا منشور فراست عالی یا عنوان مثال بے مثالی کا کہوں، بجا ہے۔ ایزد تعالیٰ غریق رحمت کا کرے۔ برکت صحبت، فیض موہبت، سر حلقۂ سخن طرازانِ دقائق فصاحت و قابلیت، سر دفتر نکتہ پردازانِ حقائق لطافت و اہلیت، فہرست مجموعۂ فنون سخنوری و سخن دانی، بسم اللہِ نسخۂ جامع قانونِ الفاظ و معانی، انجمن آرائے ضوابط آئین خوشنویسی و عبارت طرازی، چمن پیرائے شرائط رنگین فن شاعری و انشا پردازی، خطاط زبردست، صاحب کمال، روشن قلم یعنی حضرت اعجاز رقم خاں صاحب کے سے کہ بیچ اس زمانے کے اقلیم رقم علم و ہنر کے تئیں آرائش دے کر علم استادی کا بلند رکھتے ہیں، استفاضہ آثار تربیت و شاگردی کا حاصل کر کے مزاج اپنے کے تئیں اوپر شوقِ مطالعہ قصہ ہائے رنگیں اور لکھنے افسانہ ہائے شیریں کے از بس مصروف رکھتا تھا، اتفاقاً ایک مرتبہ بیچ رفاقت نواب مبارز الملک افتخار الدولہ، جرنیل اسمتھ بہادر صولت جنگ، سالار افواج انگریزی کے درمیان گنگ بہ سواری بجرہ و مور پنکھی کے سفر کلکتہ کا درپیش آیا لیکن بہ سبب مسافت دور دراز کے بعضے وقت طوطیِ فارغ البال دل کی خفگی مکان کے سے بیچ قفس کشتی کے رکتی۔ اس وقت واسطے شغل قطع منازل کے ایک عزیز سراپا تمیز کہ بیچ رفاقت میری کے قمری وار حلقۂ محبت و اخلاص کا اوپر گردن کے رکھتے تھے، عندلیبِ زبان کے تئیں بیچ داستان سرائی حکایات عجیب و غریب کے اوقات خوش کرتے۔ چنانچہ ایک روز بلبل ہزار داستان اس حکایت دلفریب کے تئیں بھی بیچ گلزار گفتگوئے کہانی کے مترنم کیا جو ہر ایک صدائے ترنم اس کے کی بے اختیار دل کو لبھاتی تھی کہ سننے سے تعلق ہے، طاؤس نگاریں خیال کا، بیج دماغ خاطر کے یوں جلوہ گر ہوا کہ اگرچہ پیشتر دو تین نسخے از قسم انشائے تحسینؔ و ضوابط انگریزی و تواریخ قاسمی وغیرہ کے بقدر حوصلہ اپنے بیچ عبارت فارسی کے تصنیف کیے ہیں، لیکن مضمون اس داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگیں زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اردوئے معلیٰ کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستۂ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحوائے کلام کا حاصل کرے کہ واسطے علم مجلس کے لسّانی زبان ہندوستان کی بیچ حق آدمی بیرون جات کے خراد کندۂ نا تراش کے تئیں ہے۔ چنانچہ چند فقرے بیچ تفنن طبع کے شروع داستان اول میں نوک ریز خامۂ عجز نگار کے کیے۔ بعد ازاں کہ جرنیل بہادر نیں وقت روانگی ولایت کے اس بندہ عاجز کے تئیں کلکتے سے بہ سرفرازی بعضے خدمات عمدہ صوبہ عظیم آباد کے و مختاریِ مقدمات نظامت کے امتیاز بخشے، اس وقت بیچ تردد خدمات متعلقہ کے دماغ انشا پردازی کا معلوم، مگر منظور نظر و مرکوز خاطر کے تھا کہ اگر زمانہ چند صباح موافقت کرے تو اس آغاز کا انجام دینا گویا بنا زندگانی کی روز محشر تلک مستحکم کرنا ہے۔ آخرش بہ مضمون اس کے کل امر امرھون باوقا تھا چند روز تصنیف کرنا اس کا ملتوی رکھ کے داخل صوبہ کا ہوا۔ اور یہ تماشا قسمت کا دیکھیے کہ بعد ہَرج مَرج مقدمہ سلطنت اور برہمی سلسلہ بندگی دودمانِ تقدس نشان خاندان تیموریہ کے و بہ سبب ارتحال والد بزرگوار اور انقلابات روزگار غدار کے کہ فی الجملہ آئینۂ روزگار میرے کا صیقل توجہات بے غایات سرداران انگریز کے سے جلا پذیر ہو چلا تھا سو بواسطہ زنگ ناتواں بینی بعضے اشخاص مختار معاملہ صوبہ کے سے مُکّدر ہوا۔ لاچار گردش فلکی سے نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن، اس وقت چندے اشعار مرزا سوداؔ صاحب کے کہ داد سخن کی دیتا ہے میرے تئیں حسب حال اپنے یاد پڑے کہ یہ سپہر رو سیاہ ؎
در پے رنج و تعب رہتا ہے اہلِ درد کے
دکھ دہندوں کی ہوا خواہی میں دے ہے اپنی جاں
میل کھینچے دیدۂ بینا میں یہ تاریک عقل
پُر کرے کحل الجواہر لے کے چشم سرمہ داں
ابرِ دریا بار کو برساوے دشتِ یاس پر
خشک رکھے مَزرعِ امیدِ ہر پیر و جواں
ہنس کو موتی چگاتا ہے سدا یہ بے تمیز
پوست کھینچے ہے ہُما کا دے کے مُشتِ استخواں
آن میں اوجِ حسب کو پہنچے مجہول النسب
خاک ذلت پر گرے پل میں فلاں ابن فلاں
تا کجا کیجے بیاں اس سفلہ دوں کا مزاج
اک وتیرے پر نہیں، گاہے چنیں گاہے چناں
اس کے تئیں پڑھتے پڑھتے ایک روز بیچ خوابِ شیرینِ فکر کے گیا ہوں کہ ایک مرتبہ مُلہمِ غیبی نے اوپر دل میرے کہ الہام دیا کہ اے بے خبر! آیۂ کریمہ فَاِنَّ مَعَ العُسرِ یسراً وَ اِنَّ مَعَ العسرِ یسراً جو تو نیں بیشتر اوقات اپنے نہایت خوش حالی و فارغ البالی سے صرف کیے پس چند روز ایام تکلیف کے بھی بسر لے جانا مضائقہ نہیں ؏
چناں نماند و چنیں نیز ہم نخواہد ماند
اور اب جو تصدیعہ کے تئیں اپنے مزاج پر گوارا کیا ان شاء اللہ تعالیٰ بیچ تلافی اس کے عنقریب عروس تمنا کی ہم آغوش شاہد مدعا کے ہوتی ہے۔ زینہار غبار تردد اور اندیشے کا اوپر دامن خاطر کے نہ جھاڑ اور شیشۂ جمعیت دل کا اوپر سنگ تفرقہ کے چور نہ کر، شاید اس میں کچھ بہتر ہو۔ بہ حکم اس کے کہ فعل الحَکیمِ لَا یَخلو عَنِ الحِکمة لیکن تدبیر اس کی یوں ملحق ساتھ تقدیر کے ہے کہ توں ذرۂ بے مقدار جوہر وفا داری اپنے کے تئیں اقتباس نور خورشید قدر دانی اس جناب عالی کے سے منور کر کہ اگر تخم اوصاف بزرگی اس کے کا بیچ تختہ بندی خیابانِ کاغذ کے بووے تو بے شائبہ تکلف، نہال عبارت کا رونق بہار شجرِ طوبیٰ کی لا کے رشک گلزارِ جنت کا ہو۔ یعنی نواب مستطاب معلیٰ القاب، گردوں رکاب، شعاعِ شمس الضحیٰ آسمانِ جلال حیدری، جلائے بدر الدجیٰ سپہرِ اقبال صفدری، فرازندۂ لوائے وزارت و عالی مقداری، طرازندۂ بساطِ امارت و نامداری، لعلِ شب چراغ افسرِ حشمت و اجلال، دُرّۃُ التاجِ تارَکِ ثروت و اقبال، فیروزۂ تاج سلطانِ ملکِ دولت و کامرانی، یاقوتِ اکلیلِ خاقان ولایتِ شوکت و حکم رانی، اخترِ برجِ شجاعت و فتوت، گوہرِ درج سخاوت و مروت، رکن السلطنۃ القاہرہ، عضُد الدولۃ الباہرہ، صاحب السیف و القلم، رافع الجاہ و العلم، وزیر اعظم، صاحب تدبیر، مدبر معظم، روشن ضمیر، دستگیر درماندگاں، چارہ سازِ بیچارگاں، افتخار ممالکِ ہندوستاں، خداوندِ نعمت، قدر داں، حلیم الوضع، سلیم الطبع، عامل، عادل، فیاض، جواد، مومن، محسن، وجیہ، جمیل، خیّر، مدبر، عالم، عابد، زاہد، مصلی، متقی، صالح، مُصلح، امیر، کبیر، شجاع، منصور، غازی، مظفر، وزیر الممالک، عمدۃ الملک، مدار المہام، آصف جاہ، شجاع الملک، اعتماد الدولہ، برہان الملک نواب شجاع الدولہ ابو المنصور خان بہادر صفدر جنگ ادامَ اللہ افضالہٗ و اجلالہٗ کہ کارپردازانِ ملاءِ اعلیٰ میں فدوی قسمت تیری کے تئیں روز ازل سے بیچ زمرۂ نمک چشانی خوانِ مائدۂ فضل و کرم اس کے کی مستفیض کیا ہے اور دروازہ کشائش مطالب دلی تیرے کا کلیدِ تفضّلات اسی عالی جناب کے سے کھولا۔ بارے بندہ بہ موجب حکم اس سروش غیب کے بیچ زینت البلاد فیض آباد کے کہ فی الحقیقت نگینِ خاتم مملکتِ ہندوستان کا ہے، دیدہ سے قدم کر کے داخل ہوا سبحان اللہ، ہر صفحہ اس صحیفۂ فیض کا برائے خود ایک گلشن ہے کہ ہر طرف تختہ تختہ بہار خط و خال شاہدانِ زرّیں لباس کی بیچ اس کے رونق افزائے دیدۂ نظارگیوں کے ہو رہی ہے اور ہر کوچہ اس بلدۂ خاص الخاص کا علیٰحدہ علیٰحدہ ایک گلبن ہے کہ ہر سمت رنگ برنگ گلزار حسن و جمال مہوشان گلگوں قبا کے فروغ بخش چشم تماشا بینوں کے ہوتی ہے۔ وسعت صحن قطعۂ چوک کی اگر ملاحظہ کیجیے تو لذت سیر قطعۂ بہشت کی گوشۂ خاطر سے فراموش ہو جاوے اور جو رفعت محراب ترپولیہ کی دیکھیے تو ثنا پردازی بہار ارتفاع کمانچہ قوس و قزح کے سے زبان دل کی خاموش ہو جاوے۔ واقعی کہ شہر کیا ہے ایک تماشا قدرتِ الٰہی کا ہے۔ ایزد تعالیٰ اس دار الامن کے تئیں ہمیشہ رونق سواد دیدۂ ہفت کشور کا رکھے۔
زبس ہوا نیں طراوت سے واں کیا ہے گزار
عقیق رنگ بدل کر کے ہے زمرد وار
کمال فیضِ طراوت سے بر سرِ ہر سنگ
شرر کے تخم سے جمتا ہے وھاں درختِ انار
گر اس طرف سے صبا ہو کے باغ میں جاوے
درخت خشک وہیں سبز ہو کے لاوے بار
ق
ہے بے مبالغہ گر ساکنانِ جنت سے
کرے جو سیر کوئی اس دیار کا گلزار
یقین جانیو دل میں زبس تماشے سے
بہ طور دیدۂ نرگس کے ہو رہے سرشار
جو خوب غور سے دیکھا چمن میں قدرت کے
تو رشک خلد ہے اس قطعۂ زمیں کی بہار
کبھو نہ اس کو گزندِ سپہر سے ہو ہراس
جسے ہے مسکن و ماوا کے واسطے یہ دیار
شہر پناہ کی خوبی کا گر بیاں کیجے
کتاب خوب پہ جدول کا جیسے ہو سنگار
شجاع گڑھ کی صفت مجھ سے گر کوئی پوچھے
قلعہ کی شکل زمیں پر ہوا فلک کو قرار
حَصَانت اس کی حصانت سے آسماں کی زیاد
ہے بلکہ رشک سے اس کے دوتا سما کا حصار
خدا نے جب کیا شرف البلاد فیض آباد
کہ سب صفت میں یہ موصوف ہے بہ عز و وقار
غرض میں کر نہیں سکتا ہوں اس کی کچھ تعریف
کہ ہے وہ زینتِ ہندوستاں بہ نقش و نگار
الحمد للہ و المِنّۃ کہ بہ مجرد پہنچنے کے حضیضِ غربت سے اوپر اوج عزت کے فائز ہو کر شرف ملازمت اس عالی جناب کرامت مآب کا حاصل کیا اور اسی وقت سے بہ مقتضائے تفضلات کمال سے بیچ سِلکِ بندگانِ خاص کے منسلک ہوا۔ جب خورشید قدر دانی پرورش خدا یگانی کا اوپر مطلع فیض رسانی روز افزوں کے منور ہو کر نخل تمنا میری کا گلِ مراد سے بارور ہوا، ایک دن تقریباً دو چار فقرے اس داستان کے کہ اول ذکر اس کا بیان کر گیا ہوں، بیچ سمعِ مبارک حضرت ولیِ نعمت کے پہنچائے۔ از بسکہ شاہد رعنا اس حکایت دل فریب کا جلوہ گری کے عالم میں شوخ و شنگ ہے، توجہ دل سے مقبول خاطر و منظور نظرِ اشرف کے کر کے ارشاد فرمایا کہ از سر تا پا اس محبوب دل پسندیدۂ دلہا کے تئیں زیور عبارت سے آراستہ کر۔ اس قلیل البضاعت نیں حسب الامر جلیل القدر کے درخور حوصلہ اپنے کے اس داستان کے معشوق کو حُلی بند زیب و زینت کا کر کے چاہتا تھا کہ اس نازنیں کے تئیں نظر مبارک سے گزرانوں کہ اس عرصے میں زمانے نیں اور ہی رنگ دکھلایا اس وقت بہ مقتضائے اس کے ؎
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
آہ ٹک اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
لاچار پائے تردد و تلاش کا بیچ دامنِ قناعت کے کھینچ کر کے بیچ کنجِ خموشی کے چپکا ہو رہا۔
بعد ازاں کہ اس جناب مغفرت مآب کے خلف الاعظم امیر المعظم، زیب دودمانِ عالی شان، فخر ہندوستان جنت نشان، تاج الامارت العلیا، سراج الوزارت الکبریٰ، اعتضاد السلاطین، افتخار المومنین، پناہ الغریبین، ملاذ المساکین، شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ، صدر العلیٰ، کہف الوریٰ، قرّۂ باصرۂ صلابت و اقبال، غرّۂ ناصیۂ شہامت و اجلال، مہر سپہر عظمت و کرامت، سپہرِ مہر شجاعت و سخاوت، جامع علوم دانش و فرہنگ یعنی نواب آصف الملک آصف الدَّولہ امیر یحییٰ خاں بہادر ہِزبَر جنگ دام عمرہٗ و اقبالہٗ کے خضرِ تَفَضُّلاتِ بے غایات نیں اوپر جانِ ناتواں اس ضعیف البنیان کے آبِ حیات سرفرازی کا چھڑکا، تب بہ مضمون اس کے کہ صرّاف چار سوئے عبارت گُستری کے نقودِ الفاظ کے تئیں جب تلک اوپر سکّۂ حرفِ تحسین زبانِ فصاحت بیانِ بندگان ممدوحِ جہاں کے نہ پہنچاویں، دوکان بیان کی نہ کھولیں اور جوہری بازار مضمون شناسی کے مرواریدِ معانی کے تئیں جب تلک بیچ رشتۂ لفظ آفریں دہانِ معجز نشان جناب مخدوم عالم کے نہ کھینچیں، قیمت رواج کی نہ بولیں، بیچ خیال میرے کے گذرا کہ شاہد اس افسانۂ موزوں کا کہ ساتھ زیور تجویز نام ’’انشائے نو طرز مرصع‘‘ کے آرائش پاتا ہے جب تک کہ طرّہ بسم اللہ دیباچہ مدح طرازیِ بندگانِ جنابِ عالی مُتعالیٰ کا اوپر دستارِ عبارت کے رکھ کے موردِ عنایاتِ خلعتِ فاخرۂ واہ واہ و سر پیچ تحسین و جیغہ آفریں کا حضور عالی سے نہ ہووے زینت شہرت کی نہ پاوے۔ چنانچہ ایک قصیدہ درخور لیاقت اپنی کے بیچ مدح جناب عالی کے لکھ کر تیار کرتا ہوں اوپر مدد ستارہ سعید اپنے کے کہ ذرّہ طالع یاور میرے کے تئیں ظہور روشنی کا پرتو تجلائے نور اُس مہر انور کے سے پایا کہ جس کے شعشعۂ جمال جہاں آرا سے میدان وسیع شش جہت عالم کا مشرقستان نیّر اعظم کا ہو رہا ہے۔
قصیدہ
اگر مِداد ہو دریا و ہوں قلم اشجار
نہ لکھ سکے کوئی اُس کے کمال کا طُومار
پھر اب زبان مری کو کہاں یہ طاقت ہے
جو اُس کی مدح کے لکھنے کا کچھ کروں اقرار
مگر ضرور ہے اتناں کہ گر تمام صفت
نہ ہو سکے تو بھلا ایک تو لکھوں زہزار
کہ اُس کا وصف، مدَارُ المُہام ہے سو بجا
کہ ہے وہ عقل کے میدان کا بڑا سردار
امورِ سلطنت اس کی سوائے فطرت کے
اگرچہ ہووے ارسطو نہ کر سکے زنہار
جو ہووے جلوہ فزا مسندِ عدالت پر
بدل کرے اثرِ بد زِکوکبِ سیّار
جو اُس کے عدل کی میزان میں تُلے خردَل
تو کیا شبہ ہے کہ ہووے برابرِ کُہسار
اور اُس کی ہمّتِ عالی کی کیا کروں تعریف
ہوا ہے عرصۂ دنیا کہ جس سے گوہر بار
چمن زمانے کا شبنم سیتی رہے محروم
اگر نہ اُس کی سخاوت کا برسے ابرِ بہار
’’نہیں‘‘ کا نام زمانے سے ہو گیا مفقود
زبانِ فیض ستی لفظِ ’’ہست‘‘ ہے دُربار
تماشا یہ ہے کہ وہ ہست و کم سے واقف نئیں
یہ فضل حق ہے کہ ہو ہست اور ہو بسیار
ق
ہے اُس کی ضبطِ شجاعت کا اس قدر جگ میں
نگاہِ کرم جدھر کو نظر کرے یک بار
اور اُس طرف کبھی رستم ہزار صف سے ہو
تو روح ڈر ستی قالب سے ہو سکے نہ بَرآر
نہ ہوئے کیونکہ شجاع ہووے جو ہزبرِ جنگ
کہ تیغ اُس کی جہاں میں ہے قاتلِ کفّار
فکیف تیغ جسے برق سے نہیں کچھ فرق
پڑے جو فرَق پہ دشمن کے پا تلک ہو بغار
ق
کمال تیر چلانے کا یہاں تلک ہے گا
کہ جس کی تیز روی کا میں کیا کروں اذکار
جہاں خیال کا پہنچے نہ تیر جلدی سے
وہاں گذر کرے اُس کے خدنگ کا سوفار
ق
شناوری میں یہ قدرت کہ قعرِ دریا ہے
اور اُس کے دل میں یہ آوے کہ اس سے ہو جیے پار
تو اُس کے علم شنا کی سُبک روی آگے
مجال کیا ہے جو پانی سے ہو ہَوا کا گذار
نگاہ چشم تلک بھی نہ پہنچنے پاوے
کہ اِس طرف ستی جا اُس طرف سے پھر ہو پار
ق
یہ زور حق نے دیا اس کے دست و باز میں
کہ اُس کی خاطرِ اشرف میں گر ہو عزم شکار
تو شیر ترس سے بُرجِ اسد میں جا کے چھُپے
مگر ہو بحر کے تحت الثری کو رُو بہ فرار
ق
اگر طیور کی صید افگنی پہ ہو مرغوب
تو اُس شکار کی تعریف کیا کروں اظہار
جو چھوٹے دست مبارک سے چرخ پر شہباز
عقاب شمس کا مغرب میں جا چھپے در غار
وگر زمیں پہ کرے رُخز عالم بالا
پرند کیا ہے وہ خرگوش کو کرے ہے شکار
ق
کمیت خامہ کا اب اُس کے سیر گلگوں کو
کرے ہے صفحۂ قرطاس کے تئیں مِضمار
بیان جلدی کا اُس کی کہاں تلک کیجے
فلک کو جس کی سواری کا عزم ہو دشوار
خیال کیجے کہ ایسے پہ کس کا ہے مقدور
کرے جو ذکر سواری کا غیر استغفار
مگر ہے راکب اُسی کا وہی امیر العہد
مدد ہے جس کی شہِ دین حیدر کرار
اگر وہ شرق میں چاہے کہ چھیڑ کر اُس کو
میں پہنچوں غرب تلک لفظ ہاں کا کہہ اک بار
زباں سے لب تلک آواز ’’ہاں‘‘ نہ پہنچنے پائے
کہ یہاں سے وھاں پہنچ اور وھاں سے پھر یہاں ہو دوچار
ق
زباں نہیں جو سواری کے فیل کی شوکت
بیان ہو سکے یا اُس کا کچھ کروں گفتار
کہ بیٹھنے میں ہے کوہ اُٹھنے میں ہے ابرِ سیاہ
بلند عرش سا، چلنے میں چرخ کی رفتار
جب اُس پہ لے کے کجک ہووے فیل باں قائم
گویا فلک پہ کیا ماہِ نو نیں استقرار
ستارے جھول کے اس لطف سے چمکتے ہیں
اندھیری رات میں تاروں کی جس طرح ہو بہار
اور اُس کے ہودجِ زرّیں اُپر جناب نواب
ہے جیسے ابرِ سیہ بیچ مہر پُر انوار
جلوس وقت سواری کا کیا کہوں جو کہوں
زبس بہار سے فوجوں کی ہو رہی گلزار
صدائے ڈنکے کی ایسی ہی بجتی ہے کہ اگر
ہو دل میں جُبن کسی کے تو مرد ہو یک بار
ق
تجمل اُس کے عساکر کا کیا کروں تقریر
کہ موکب اُس کا ہے کوکب کی فوج سے بسیار
غلام کہنہ و دیرینہ جس کا ہے اقبال
فتح رکاب میں جس کے ہے ایک خدمت گار
تمام فوج کی تعریف تو کہاں ہووے
پر ایک ہند میں تحفہ ہوا ہے یہ اسرار
کہ اس جناب میں فطرت سے اپنی ہی بے غیر
کریں ہیں ایسی ہی جرّار پلٹنیں تیار
کہ ہووے گرچہ فلاطوں نہ کر سکے یہ فکر
جو ذات مظہر عالی سیتی ہوا اظہار
بہ مرتضی جو کہوں صف بہ صف کھڑے ہوویں
نظر پڑے ہے کچھ اور ہی طرح کا لیل و نہار
بطور فوج ولایت کے جب کریں ہیں فیر
تو آگے کوہ جو ہو اُس کو بھی کریں مسمار
صلابت ایسی ہی ہے توپ خانہ عالی کی
کہ جسم رعد کا غرش سے جس کے ہے بیزار
گرجنا اس کا قیامت کے شور سے نزدیک
تڑپ سے جس کے عدو کا جگر فگار فگار
ق
شکوہ خیمہ کی رفعت کا گر کہوں تم سے
کہاں خیال کو طاقت کہ پا سکے وھاں بار
اُسی کے رشک سے اب تک فلک ہے گردش میں
اُسی کے بار سے ہے تختۂ زمیں کو قرار
ق
جو اُس کے مطبخ عالی کو پوچھیے مجھ سے
تو کیا کہوں کہ زیادہ ہے وہز حد و شمار
یقیں ہے حاصلِ ہندوستاں نہ ہو کافی
اگر ہو اُس کے مصارف کے واسطے درکار
زہے نواب امیرِ زمان پناہ جہاں
کہ جس کے جاہ کا حشمت کا یہ کیا اذکار
غرض کہ جس کا ہو تحسیںؔ جناب اس درجہ
کروں میں وصف کو اُس کے کہاں تلک اظہار
کہ وہ ہے مہر درخشاں، و میں ہوں ذرہ مثال
خدا کے واسطے ذرّہ کا یہاں ہے کیا مقدار
قلم زباں کی وہ، اور خامہ کی زباں یہ کچھ
بھلا ہو غنچہ دہانوں سے کیونکہ حرف برآر
بس اب زبان و قلم ہر دو معترف بہ قصور
کہاں میں اور کہاں وصفِ وارثِ تلوار
وہ کون شخص ہے، نواب آصف الدولہ
کہ جس کی ذات سے ہے ہند کو سکون و قرار
اگرچہ کام خوشامد کے کرنے کا جگ میں
ہمیشہ سیتی چلا آتا ہے بہ ملک و دیار
ولے قسم ہے مجھے اپنے دین و ایماں کی
کہ بے مبالغہ کہتا ہوں اس کو میں صد بار
نہیں زمانے میں ایسا بہ جاہ و حشم و شکوہ
مرے نواب کا ث انی کوئی سپہ سالار
خدا رکھے اسے تب تک سلامت اور قائم
کہ جب تلک رہے سر سبز دہر کا گُلزار
بارے الحمد للہ و المنّۃ کہ نجم امید کا اوپر معراج مدعا کے جلوہ گر ہوا کہ فراغ خاطر سے گلدستۂ داستان کے تئیں اس رنگ سے بیچ محفل بیان کے زیب و زینت ترتیب کیے دیتا ہوں۔