کلیات میر کی ایک غزل کا تفصیلی تجزیہ
سرہانے میر کے
از قلم
احمد جاوید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
تشریحی مطالعہ
میر ایسے شاعر ہیں جن کے تعارف کا پہلا فقرہ طے شدہ ہے۔ اور وہ یہ کہ میر اپنی زبان کے سب سے بڑے شاعر ہیں، بلکہ اردو کے تمام بڑے شعرا کے مقابلے میں بھی یہ بہت زیادہ فرق کے ساتھ عظیم تر شاعر ہیں۔ ان کی بڑائی کے کئی پہلو ہیں، مثال کے طور پر میر حافظ کے ہم پلہ ہیں اور بعض پہلوؤں سے تو حافظ کے مقابلے میں بھی زیادہ مکمل شاعر ہیں کیونکہ فارسی زبان کی تعمیر و تشکیل میں حافظ کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے لیکن اردو زبان کو اندر باہر سے بنانے اور سنوارنے میں میر کا حصہ غالباً کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ہے۔ بہت سے بڑے شعرا ہیں جن کی بڑائی کو مانتے ہوئے بھی انہیں مکمل شاعر نہیں کہا جا سکتا، لیکن میر کا مکمل شاعر ہونا ان کی شاعرانہ عظمت کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ فلاں شاعر بلکہ فلاں بڑا شاعر مکمل شاعر بھی ہے یا نہیں، تو اس کی شاعری میں کچھ سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے چاہیں۔
1۔ یہ شاعر جس روایت سے تعلق رکھتا ہے، اس کے بنیادی معانی و مضامین کا احاطہ کر کے ان پر کوئی ایسا اضافہ کرتا ہے کہ وہ معانی و مضامین اس اضافے کی وجہ سے اس شاعر کے ساتھ کسی حد تک خاص ہو جائیں اور اس کی انفرادیت کے قیام کی وجہ بن جائیں؟
2۔ سلیم احمد نے اردو تنقید میں ایک اصطلاح متعارف کروائی ہے: پورا آدمی! اس شاعر کے ہاں پورا آدمی اظہار پاتا ہے یا نہیں؟
3۔ شاعری کسی تہذیب میں ہوتی ہے۔ اس شاعر کے ہاں اپنی تہذیب کے اصولی تصورات اور طرزِ احساس وغیرہ کا اظہار، چاہے حالتِ تردید میں ہو، پایا جاتا ہے یا نہیں؟
4۔ یہ جس زبان کا شاعر ہے، اس زبان کے نظامِ لفظ و معنی پر اول تو یہ کہ اسے کتنی دسترس ہے، اور دوسرے یہ کہ اس زبان کی لفظی اور معنوی توسیع میں اس کا کیا کردار ہے؟
اردو میں میر کے سوا کوئی شاعر نہیں جس کی شاعری ان چاروں سوالوں کے شافی جواب دے سکتی ہو۔ مثلا میر صاحب نے زبان کی تکنیکی، لفظی اور معنوی سطحوں پر جو نئے اسٹرکچر بنائے ہیں وہ ایسے ہیں کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان پر اضافہ تو دور کی بات ہے، انہیں برقرار رکھنا بھی محال ہو گیا۔ میر کے لسانیاتی کارنامے اتنی باریکی اور گہرائی کے ساتھ ہیں کہ ان کی طرف ان کے ہمعصروں اور بعد میں آنے والوں کی نظر ہی نہ جا سکی۔ اسی لیے میر کی صناعی اور فنکاری کے مطالعے کی روایت جڑ نہ پکڑ سکی۔ اللہ شمس الرحمان فاروقی کو خوش رکھے، انہوں نے ’’شعرِ شور انگیز‘‘ میں ہماری غفلت اور نالائقی کا ازالہ کرنے کی اپنے بس بھر ایک منظم کوشش کی اور میر کی شعری عظمت کے فنی اسباب کو شاید پہلی مرتبہ ہمارے سامنے رکھا۔ تنقید ہی نہیں، میر کی پیروی کے دعوے کے ساتھ وجود پانے والی شاعری میں بھی میر کی قدرتِ کلام اور دقتِ اظہار کے معمولی عناصر بھی منتقل نہیں ہوئے، کیونکہ عقاب کی پروازکی روایت چڑیاں نہیں نبھا سکتیں۔ تو میر ان معنوں میں بہت اکیلے ہیں۔
انسان جس دنیا میں رہتا ہے، وہ شعور و وجود کے قطبیں پر قائم ہے، اور object اور subject کے رشتوں پر چلنے والی دنیا ہے۔ object یعنی شعور کا ہدف، یعنی شے، اور subject یعنی انا، یعنی ذہن۔ انسان خود ایک سرگرمی ہے اور اس سرگرمی کا پورا دائرہ subject اور object کی مستقل اور عارضی نسبتوں سے بنا ہے۔ شاعری میں، یا دوسرے لفظوں میں شاعری کی دنیا میں subject آدمی ہے اور object لفظ۔ کسی شاعر کے مرتبے کا تعین کرتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی شاعری میں لفظ اور آدمی کے درمیان کارفرما جبری نسبت کہاں تک اختیاری بنی ہے، یا ذہنی، حسی اور عملی نسبت کس حد تک تخلیقی بنی ہے۔ بڑا شاعر ان دونوں کی تشکیلِ نو کرتا ہے اور انہیں نئے نئے فنی اور نفسیاتی مراحلِ تکمیل سے گزار کر ان کے درمیان تازہ نسبتیں اور معنویتیں دریافت کرتا ہے۔ اور شاعر اگر رومی جیسا ہو تو لفظ اور آدمی میں ایک جدلیاتی مزاجِ تعلق پیدا کر کے انہیں اس کُل میں کھپا دیتا ہے جہاں ان کی دوئی بھی رفع ہو جاتی ہے۔ لیکن خیر، میر بہرحال رومی نہیں ہیں، ان کی سب بڑائیاں شاعرانہ ہی ہیں، عارفانہ نہیں۔ تو میر کی شاعری کو اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ انہوں نے لفظ کو کہاں تک پہنچایا اور انسان کے بارے میں ہمارے بنے بنائے تصور میں کن گہرائیوں کا اضافہ کیا؟ تو ہم پر ان کی بڑائی بالکل واضح ہو جائے گی۔ جس شاعر کو بھی بڑا شاعر کہا جاتا ہے، اس کی شاعری میں یہ دو باتیں ضرور دیکھنی چاہییں۔ پھر یہ ہو گا کہ یا تو اس کا واقعی بڑا ہونا یقین کے ساتھ واضح ہو جائے گا یا پھر یہ پتا چل جائے گا کہ اس کی عظمت ایک دھوکا ہے، ایک propaganda ہے۔ جو شاعر لفظ کی لفظیت میں اور آدمی کی آدمیت میں کچھ اضافے نہ کرے اور ان اضافوں کو خیال اور احساس کی سطح پر مربوط رہنے کے نئے زاویے فراہم نہ کرے، ان کے درمیان نئے پل نہ بنائے، وہ بڑا شاعر نہیں ہے۔
لفظ ہو یا آدمی، دونوں حتماً متعین ہیں اور ان کی تعریفات کم و بیش مکمل ہیں۔ لفظ کو دوبارہ بننے کی ضرورت نہیں ہے اور آدمی کو پھر سے define ہونے کی حاجت نہیں ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک fixity ہیں جس میں کوئی اسٹرکچرل انقلاب ممکن ہے نہ ضروری۔ تاہم بڑا شاعر اس fixity کے اندر کے ماحول کو بدل دیتا ہے۔ یعنی لفظ اور انسان کے اندر معنویت، احوال اور کیفیات وغیرہ کا ایک نظام کار فرما ہے، بڑا شاعر ان سب کے درمیان تعلق کی نئی نئی جہتیں نکالتا ہے، انہیں آگے پیچھے کر کے ان میں توسیع اور تنوع کی گنجائش بڑھاتا ہے اور ان کے درمیان کچھ ترجیحات کو داخل کر دیتا ہے۔ حتی کہ ان کے آپسی تعامل کو نئے مرکز بھی فراہم کرتا ہے۔ ذرا لفظ ہی پر غور کیجیے کہ اس کی معنویت اور کیفیت کو نئے معنی اور نئے حال میں ڈھال دینا کوئی معمولی کام ہے! اسی طرح انسان کے اندر احوال، کیفیات، احساسات، جذبات، خیالات اور افکار کے کچھ فاعلی اور انفعالی جوہر ہیں، ان کو reshuffle کر کے ان کے درمیان نئی نسبتوں کو فعال کر کے انہیں کوئی تازہ مرکزیت اور نیا context فراہم کر دینا اچھے بھلے شاعروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ جب ہم لفظ کہتے ہیں تو اس سے مراد پوری زبان بلکہ زبان کا آرکیٹائپ ہے، اور انسان وہ فرد ہے جس میں پوری نوع سمائی ہوئی ہے بلکہ وہ فرد نوع سے زیادہ مکمل ہو جانے کی استعداد رکھتا ہے۔ یہ خیال رہے، یہ ہماری اب تک کی باتوں کا مستقل پس منظر اور لازمی تناظر ہے۔ بڑا شاعر انسان کی نوع پر وارد ہونے والی مسلمہ تعریف کو محض میکانکی اور تصوری نہیں رہنے دیتا، اسے انفرادی اور شخصی بھی بنا دیتا ہے۔ اس سطح پر اردو شاعری میں میر کے سوا کسی کا گزر نہیں۔ یہ شاعری کی زمین پر بلند ترین مینار بنانے کا گارا ہے جو ہماری شاعری میں صرف ایک مینار کی تعمیر میں پوری طرح صرف ہوا، اور وہ ہے میر کی شاعری کا مینار۔ میر کی بڑائی کا یہ عالم ہے کہ آپ کسی بڑے اردو شاعر کا کچھ مشترک امور میں میر کے ساتھ موازنہ کرنے کی کوشش کریں گے تو اس شاعر کی عظمت مشتبہ ہو جائے گی۔ میر سے موازنہ کوالیفائی کرنے کے لیے، یوں کہہ لیں کہ، حافظ ہونا ضروری ہے۔
تو یہ ہیں وہ صاحب جن کا کچھ کلام پڑھنے کی ہم کوشش کریں گے مگر پہلے یاددہانی کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ وہ آدمی ہے جس نے لفظوں کی مسیحائی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آدمیت کے بہت سے معطل حصوں کی بیداری کا سامان بھی کیا ہے۔ میر وہ شاعر ہے جس کے لمسِ اظہار سے مردہ لفظ زندہ ہو جاتا ہے اور زندہ لفظ ابدیت حاصل کر لیتا ہے۔ اور دوسری طرف آپ دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ ہمارے عقائد و نظریات، خیالات و افکار ہمیں گویا ہمارے مکان کی آخری منزل تک محدود رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم اس گھر کی نچلی منزلوں سے لاتعلق رہ جاتے ہیں۔ میر نے آ کر دکھایا کہ اس کئی منزلہ عمارت کا تہہ خانہ بھی اس کی سب سے اونچی منزل کی ضرورت ہے، اور اس تہہ خانے اور بقیہ تمام منزلوں کے درمیان ایک بہت زندہ نسبت ہے۔ میر نے معمولی ترین احساسات اور تجربات کو روحانی وجود اور مابعد الطبیعی ذہن میں راسخ تخیلات، افکار، نظریات اور جذبات و احساسات سے متعلق کر دکھایا۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری یہ تجربہ کروا دیتی ہے کہ احساس کی ایک سطح ایسی بھی ہوتی ہے جہاں آدمی ذہن سے مستغنی ہو کر معنی کی تہہ داریاں سیر کر لیتا ہے۔ میر نے احساس کی توسیع کر کے بڑے بڑے معانی کو ذہن کے چنگل سے نکال دکھایا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے اندر ذہن اور طبیعت کی لڑائی چلتی رہتی ہے۔ ہمارا تصور یہی ہے کہ اس لڑائی میں فتح ذہن کی ہونی چاہیے۔ میر کو پڑھتے ہیں تو وہ جیسے جھڑک کر کہتے ہیں کہ تمہارے پاس ذہن ہے نہ طبیعت۔ تمہیں کیا معلوم کہ ذہن اور طبیعت میں صرف لڑائی کا تعلق نہیں ہے بلکہ کچھ مراحل ایسے آتے ہیں جہاں طبیعت ذہن کی دستگیری کرتی ہے۔ ذہن کو جس حالتِ حضور کی تمنا ہے، اسے ذہن خود سے حاصل نہیں کر سکتا۔ ذہن کی یہ آرزو طبیعت کی امداد کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ میر کی شاعری میں طبیعت اپنے پورے وفور کے ساتھ ذہن کی اسی تمنا کی تکمیل کرتی ہے۔ طبیعت تو آپ سمجھتے ہیں ناں؟ جبلت اور احساس کا مجموعہ! میر کو پڑھتے وقت کم از کم مجھے تو اس اصولی بات کی یاد دہانی ہوتی رہتی ہے کہ شعور، یعنی ذہنی اور وجودی دونوں حالتوں میں، ایک مادۂ حضور اور ایک مادۂ غیاب سے بنا ہے۔ وجود کے بھی یہی دو اصول ہیں، ظاہر ہے مگر مخفی بھی، اور حاضر ہے مگر غائب بھی۔ طبیعت یعنی حس و احساس کی شمولیت کے بغیر شعور کی استعدادِ حضور بیدار نہیں ہوتی۔ میر اپنے کلیات کے تقریباً ہر صفحے پر پڑھنے والے کو یہ مشاہدہ کروا دیتے ہیں کہ احساس کس طرح ذہن کی کفالت کرتا ہے اور طبیعت کتنی گہرائی کے ساتھ ذہن پر چھائی ہوئی دھند کو صاف کر دیتی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے، بہت ہی بڑی بات۔ جہاں لوگ فکر و خیال وغیرہ کو پالش کر کر کے ان میں چکا چوند پیدا کرنے کی مصنوعی کوشش کرتے ہیں، وہاں میر واقعتاً بڑے تخیلات و تصورات کو احساس کی کائنات کے ایک گوشے میں صرف کر کے دکھا دیتے ہیں اور اس میں بھی مبالغے کا رنگ یا تو بالکل نہیں ہوتا، یا ہوتا بھی ہے تو بہت ہی کم۔ مبالغہ شاعری کی بڑی ضرورت ہے مگر میر اسے کم ہی کام میں لاتے ہیں۔ وہ اپنی باتوں کو قاری کے لیے بے تکلفی کے ساتھ لائقِ تجربہ بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں پیچیدگی کم نظر آتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے احوال اب تک ادھورے تھے، میر ان کی تکمیل کر رہے ہیں، ایک زندہ اور فطری ڈھب سے۔
یہ انسان کی بڑی آرزو ہے کہ وہ خیال کو تجربہ کر لے، علمِ یقین کو عینِ یقین بنا لے۔ حضرت ابراہیمؑ نے نہیں کہا تھا کہ یا اللہ مجھے دکھا دیجیے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرتے ہیں تا کہ مجھے دل کا اطمینان نصیب ہو جائے! سیدنا ابراہیمؑ کی اس طلب تک تو ظاہر ہے کہ ہم نہیں پہنچ سکتے، انہیں تو خود بھی یقین تھا کہ میری کوئی طلب پوری ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ ہم بھلا اس درجۂ طلب تک کیسے پہنچیں گے، ہماری اوقات ہی کیا ہے۔ ہم تو محض اپنی بات کو ایک اٹل سند فراہم کر رہے ہیں کہ یہ آرزو بے اصل نہیں ہے۔ تو خیر، اس واقعے سے اتنا تو ثابت ہے کہ دل کا اطمینان، عقل اپنی بہترین قوتوں کو استعمال میں لا کر فراہم نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ایک شدتِ احساس درکار ہے جس سے ذہن بھی سیراب ہو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہیں شعور اور وجود کی اس عینیت (identity) اور وحدت کا انکشاف یا جزوی انکشاف ہو جاتا ہے جو ان دونوں کی مشترکہ منزل ہے۔ ہماری اصطلاح میں یہ منزل اطمینانِ نفس کی ہے جو اپنی فوری ساخت میں ذہنی نہیں ہے، طبعی ہے۔ گو کہ میر مثلاً عراقی کی طرح عارف شاعر نہیں ہیں تاہم ان کی شاعری میں یہ تاثیر پائی جاتی ہے کہ اس کے اثر سے حقائق اور معانی کا ذہنی پن کمزور پڑ سکتا ہے اور حقائق کو اطمینان کے حالی تناظر سے محسوسات کی رو میں داخل ہونے کا راستہ کھلتا ہوا دکھائی دے سکتا ہے۔ اس بات کی ذرا اور وضاحت کر دوں کہ ٹی ایس ایلیٹ کی اصطلاح میں میر مابعد الطبیعی شاعر نہیں ہیں۔ ان کی شاعری ہرگز عرفانی نہیں ہے کہ حقائق کا ذہنی یا قلبی حضور فراہم کر سکے، ان کا آدمی بھی کسی حقیقتِ جامعہ کا مظہر نہیں بلکہ محض ایک تہذیبی اور نفسیاتی وجود ہے جس کی گراوٹ اور کمزوری بھی میر کے نزدیک قیمتی اور بامعنی ہے، لیکن اس گوشت پوست کے آدمی کو بھی میر مابعد الطبیعی سیاق و سباق رکھنے والے تصورِ انسان کے مقابلے میں رکھنے کے میلان کے باوجود میر اس کے نفسی بلکہ جبلی در و بسط میں بھی ایسی مربوط تہہ داری کو بر سرِ عمل دکھا دیتے ہیں جو انسان کے بارے میں قائم grand تصورات کے ساتھ عملی اور احوالی ہم آہنگی پیدا کرنے میں مؤثر ہو سکتی ہے یا بنائی جا سکتی ہے۔ یہ وضاحت ضروری تھی کیونکہ مابعد الطبیعیات، دینیات، روحانیت وغیرہ میں میر کی حیثیت کچھ نہیں تھی۔ انہوں نے جہاں جہاں رسمی طور پر ان موضوعات کو ہاتھ لگایا ہے، بچگانہ پن، اناڑی پن اور نا سمجھی ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔
آئیے اب کلیات میر کی پہلی غزل پڑھتے ہیں۔