فکشن تنقید کے ضمن میں ایک اہم مقالہ
فاقصص القصص۔۔۔
از قلم
حقانی القاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
فاقصص القصص۔۔۔
کہانی کسے کہتے ہیں؟ اس کا شجرۂ نسب کیا ہے؟ مجھے نہیں پتہ!
[شاید کہانی کدم کا پھول ہے، کٹج کی کلی ہے، کرشن کی بانسری ہے یا جوہی، کیتکی، یاسمن، نیلوفر، سنبل، مالتی، سرس، سوسن، ریحان، رعنا، زیبا، کبود کی خوشبوؤں کا منتھن ہے۔]
کہانی جب کرشن کی بانسری بن جاتی ہے تو کہانی کو معراج نصیب ہوتی ہے۔ جس کہانی میں کرشن کی بانسری نہ ہو، وہ کہانی، کہانی نہیں ہوتی۔ کہانی تو ’مدھوبن‘ میں جنم لیتی ہے۔ لکشمی کے مدور استنوں پر وشرام کرتی ہے۔
[شاید استنوں سے لذت اور قوت کشید کرنے کا نام ہی کہانی ہے۔ اِندر کی زعفرانی شراب بھی کہانی ہے اور محافے میں بیٹھی ہوئی حسین دلربا قتالۂ عالم رقاصۂ فلک بھی۔]
کہانی کا محل وقوع گنگا، جمنا اور سرسوتی کے ساحل بھی ہیں اور دارۂ جلجل بھی۔ کہانی قتّان پہ بھی رہتی ہے، کتیفہ پہ بھی۔ دماوند میں بھی، دمون میں بھی۔ راوی میں بھی، راہون میں بھی۔ زبرجد پہ بھی، زبرون میں بھی۔ شعب بوان میں بھی، شوالک میں بھی۔ ہر مکھ میں بھی، ہمالہ میں بھی۔ کہانیاں وہی زندہ رہتی ہیں جن کے اندر تخلیقیت کا ترفع اور تجمل ہو۔ بغیر تجمل اور ترفع کے کہانی زندہ نہیں رہتی۔ ہماری افسانوی تاریخ میں ’مشہود بالاجادہ‘ کہانیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ ہاں کچھ ناقابل فراموش افسانے ضرور ہیں مثلاً کفن (پریم چند) ان داتا (کرشن چندر) پھندنے، ٹوبہ ٹیک سنگھ (منٹو) لاجونتی (بیدی) لحاف (عصمت چغتائی) سوکھے ساون (ضمیرالدین احمد) مدن سینا اور صدیاں (عزیز احمد) میگھ ملہار (ممتاز شیریں ) کچھوے، آخری آدمی، کشتی (انتظار حسین) گائے، کونپل (انور سجاد) ماچس، کمپوزیشن سریز (بلراج مینرا) تلقارمس، جمغورہ الفریم (سریندر پرکاش) فوٹو گرافر، ہاؤسنگ، سوسائٹی (قرۃ العین حیدر) رقص مقابر (زاہدہ حنا) سواری (خالدہ حسین) کلو (بانو قدسیہ) عطر کافور (نیر مسعود) آگ، الاؤ، صحرا (قمر احسن) پرندہ پکڑنے والی گاڑی (غیاث احمد گدی) بجوکا (سلام بن رزاق) ڈار سے بچھڑے (سید محمد اشرف) ہانکا (ساجد رشید) زہرا ( محسن خان) چابیاں (طارق چھتاری) میرے حصے کا زہر (فیاض رفعت) صدی کو الوداع کہتے ہوئے (مشرف عالم ذوقی)۔ ۔
’بین العدمین‘ کچھ کہانیاں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور کچھ کہانیوں کی عمر صرف چودہ دن ہوتی ہے۔ ۔ جن کہانیوں کو گاندھاری کی نظر کی شکتی میسر ہوتی ہے، وہ امر ہو جاتی ہیں۔ جن کہانیوں کو گاندھاری کی نظر نہیں لگتی۔ وہ کہانیاں بس یوں ہی سی رہ جاتی ہیں۔ اور ان کہانیوں کے جسم زخمی اور لہولہان ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے ناک نقشے بھی ٹیڑھے میڑھے ہوتے ہیں۔ کہانی تو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلی مانگتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہمارا تخلیقی ادب ابھی تک ابوالعلا معری کی ’’الانسان والحیوان‘‘ اور ابن طفیل کے ’’حی بن یقظان‘‘ جیسے عظیم تخلیقی اظہاریہ کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ بغیر باپ کے پیدا ہونے والے ہرن کی آغوش میں پرورش پانے والے ایک ایسے بچے کی داستان ہے جو اپنی مسلسل جستجو سے ایک مافوق الفطرت ہستی کو تلاش کر لیتا ہے۔ الف لیلہ ولیلہ، کلیلہ دمنہ اور مقامات روائی ادب کی اولین شناخت ہیں۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر یہ تحریریں زندہ جاوید رہیں گی۔
بلراج مینرا نے بہت صحیح لکھا ہے کہ اردو کے بیشتر ادیب نہ جی رہے ہیں نہ ادب لکھ رہے ہیں بلکہ تنبولا کھیل رہے ہیں۔ ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اردو میں Hoax زیادہ ہیں، تخلیق کار کم اور یہ بھی ’مساس ملاعبہ‘ تک ہی موقوف و محدود ہیں۔ تخلیق کاروں نے مجربات بو علی سینا کے ’میموں‘ کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ اس لیے ان کی تخلیق حد درجہ نحیف و ضعیف ہو گئی ہے۔ بو علی سینا کے ’میموں‘ کا متروک ہو جانا تخلیقی توانائی اور افسانوی صحت کے لیے مضر ثابت ہوا ہے۔ تخلیق کار مبہیات، ممسکات کا استعمال کرتے تو افسانہ نہ ذیابیطس کا شکار ہوتا نہ سیلان و جریان کا اور لطف تو یہ ہے کہ بعض تخلیق کار، اذریطوس اوکتے ہیں۔ کتے کہانیوں کے کہتے ہیں کہ ہماری کہانیوں کاسرچشمہ’ پنچ تنتر‘ ہے جو حیوانوں کی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس زمانے میں جب دستورِ زباں بندی تھی تو حیوان مطلق کی زبان، حیوان ناطق کا ذریعۂ اظہار بن گئی تھی۔ حیوانی حرکات، اشارات، علامات، انسانی اظہار کے مؤثر ترین ذرائع تھے اور حیوان اس لحاظ سے بہت ممتاز تھا کہ اس کے اوپر کوئی دارو گیر، کوئی گرفت نہیں تھی۔ بعد کے زمانوں میں ان حیوانات نے کافی ارتقائی یاترا کی۔ دِمیری نے ’حیاۃ الحیوان‘ لکھا اور جاحظ نے ’کتاب الحیوان‘۔ ۔ گوکہ ہمارے افسانہ نگاروں نے نہ دِمیری کو پڑھا اور نہ جاحظ کو۔ ۔ پھر بھی ان کے افسانوں میں حیوانی کردار پوری قوت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بالخصوص سید رفیق حسین کے افسانوں میں اور ان میں بھی ’کتے‘ کو اشرفیت اور افضلیت حاصل ہے۔ سب سے زیادہ بطور استعارہ اسی کا استعمال ہوا ہے۔ ہمارے بیشتر کہانی کاروں نے ’کتے‘ سے کئی سیاسی سماجی، تہذیبی استعارے اور ثقافتی خلقیے خلق کئے ہیں اور کتے کی جبلی، نفسیاتی کیفیات کی مؤثر عکاسی کی ہے اور انسانی سچویشن کے تناظر میں ’کتے‘ کو منفرد کردار کی حیثیت سے پیش بھی کیا ہے۔ مثلاً سلام بن رزاق نے اپنی کہانی ’قصہ دیوجانس جدید‘ میں کتے کا استعاراتی استعمال کیا ہے :
’’جب بھی کوئی اس سے ملنے جاتا وہ کتوں میں گھرا ہوا ملتا۔ اسے کئی کئی منٹ تک پتہ ہی نہ چلتا کہ کوئی اس سے ملنے آیا ہے۔ ایسا لگتا تھا اسے اپنے کتوں کے سوا دنیا میں کسی اور چیز سے دلچسپی ہی نہیں ہے۔ کتوں کی مختلف حرکات و سکنات اور ان کے ردِّ عمل سے پیدا ہونے والے نتائج کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کرتا۔ اس کی شخصیت بستی والوں کی نظر میں روز بروز پراسرار ہوتی گئی۔ ایک ڈھنڈورچی نے تھالی پیٹ پیٹ کر مذکورہ اعلان کیا۔ لوگوں کا سویا ہوا تجسس ایک دم سے جاگ پڑا۔ سارے لوگ کاٹھ اور مٹی کے پتلوں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے اور کان اس کی آواز پر لگے تھے۔ لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ وہ اسٹول پر کھڑا دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتا کسی کتے کی طرح بھونک رہا ہے۔‘‘
( قصہ دیوجانس جدید)
مشرف عالم ذوقی کے یہاں یہی ’کتا‘ کنزیومر ورلڈ کی نئی علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔ ’’یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیں ہے‘‘ ذوقی کی مشہور کہانی ہے، جو دو حصوں میں ہے۔ یہاں کتا بیک وقت جانور بھی ہے، انسان بھی۔ اپنی جبلت اور درندگی وہ انسان کو دے چکا ہے اور درد مندی کے ساتھ اس سے تھوڑی سی انسانیت مانگ رہا ہے۔
(۱)
دروازہ شاید رات میں کھلا رہ گیا تھا۔ اب مجھے خوف کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ کوئی قریب ہی کھڑا تھا اور میں اس کی باتوں کو صاف سن رہا تھا۔ وہ جو بھی تھا۔ لیکن مجھ سے یوں مخاطب تھا۔
’’سنئے آپ ہماری درندگی اور جبلّت سب کچھ لے چکے ہیں ____ نرم شائستہ لہجہ____ آپ سن رہے ہیں نا____ مہینوں میں، برسوں میں اور شاید صدیوں میں آپ تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے انسان ہونے کے خطرے کو ____ (ہنسی) کم کرتے رہے ہیں ____ برا مت مانیے ____ انسان تو آپ کو اپنے علاوہ پسند تھے نہیں ____ جانور آپ کے پالتو بن چکے تھے … آہ، سن رہے ہیں نا، خیر۔ اس غیر دلچسپ گفتگو سے مجھے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں صرف اتنی التجا کرنے آیا ہوں کہ اگر آپ کو ہم سے کچھ لینے کا حق ہے تو ہمیں بھی____ آپ سمجھ رہے ہیں نا____ آپ ہم سے ہماری جبلّت لے چکے ہیں ____ آپ اپنی تھوڑی سی انسانیت ہمیں دے سکتے ہیں‘‘
(۲)
اب کہانی بالکل ختم پر ہے ____ میری نیند اچٹ گئی وہی دھیما اور مہذب لہجہ… جیسے کوئی میرے قریب کھڑا چبا چبا کر نرمی اور متانت سے لفظوں کی ادائیگی کر رہا ہو، اور ادائیگی کرنے والا اتنا پاس کھڑا ہو کہ اس کی سانسیں بھی گننے میں مجھے کوئی دشواری نہ ہو… وہی نرم ملائم اور مہذب انداز گفتگو۔
’’سنئے اب یہاں آپ کو، یا سب کو میری ضرورت ہی کیا ہے وفا داری اور غلامی کی آپ کی نظروں میں قیمت ہی کیا رہی؟ ناراض مت ہوئیے۔ غور کیجئے، آپ ہم میں سے سب کچھ لے چکے ہیں۔ ہماری حیوانیت، درندگی___ جبلت۔ نہیں اس میں افسوس کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے محترم____ اچھا اب مجھے اجازت دیجئے، لیکن اتنا یاد رکھئے گا____ اپنی وفا داری اور غلامی، میں نے ٹھیک طرح سے نبھائی ____ کیوں ٹھیک ہے نا؟ تو جاتے جاتے آپ سے تھوڑی سی انسانیت مانگ رہا ہوں۔ اگر آپ کے اندر بچ گئی ہے تو … نہیں؟ … اچھا الوداع…‘‘
میں جانتا تھا شمو بھائی، آپ یقین نہیں کریں گے، مگر اس وقت یہاں میری موجودگی کی حد تک، جس کا آپ کہیں تو ثبوت بھی دے سکتا ہوں … وہ راکسی ہی تھا، اور وہ وہی میرے مخصوص لباس میں تھا____ سوٹ، ہیٹ____ ہاتھ میں اسٹک____ اس نے ہیٹ اتار کر، جھک کر مجھے سلام کیا پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
(یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیں ہے (۱)… ذوقی)
اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ پاتے، کانسٹبل چلا کر بولا۔ سر، چمتکار ہو گیا۔ انہونی ہو گئی۔
سینئر غصے میں دہاڑا۔ ’’بکو کیا بکنا چاہتے ہو؟‘‘
’’سر۔ اس کتے کی آواز سنئے۔ جی ہاں سر۔ غور سے سنیے۔‘‘
اور… بالکل سچ کہتا ہوں صاحبو، وہ کتا انسانی آواز میں بول رہا تھا۔
’’شرافت کا زمانہ نہیں رہا۔ سراسر ظلم ہے، زیادتی ہے۔ آپ لوگ کسی بھی شریف کتے کو پکڑ کر اندر بند کر لیتے ہیں۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘
کتا بڑ بڑا رہا تھا۔ سینئر کی آنکھیں پھیل گئی تھیں ____ جونیئر پر غشی طاری تھی۔ اور تب سینئر نے دھیرے سے جونیئر کے کندھے تھپتھپائے۔ بولا____ ’’سنو … غور سے سنو۔ ایسا ہوتا ہے … ایک خاص مدت میں … جب ہم ارتقا پذیر ہوتے ہیں … سمجھ رہے ہونا… ارتقا پذیر… تنزلی کے راستے بھی یہیں سے پھوٹتے ہیں، سمجھ رہے ہو نا… یعنی اگر کچھ بدل جائے۔ ہم تم ہو جائیں۔ تم ہم… فیشن سے لے کر اخلاقیات … یعنی کتا انسان ہو جائے اور انسان… ایک خاص وقت میں … یعنی یہ ارتقاء کا بہت معمولی سا دستور ہے … تم سمجھ رہے ہونا… در اصل زمین اپنے مرکز سے ہٹ رہی ہے۔ نیا پرانا ہو رہا ہے۔ یعنی… میں جو کہہ رہا ہوں … تم سمجھ…‘‘
سینئر ٹھہر ٹھہر کر سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر صاحبو، جو بات اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، وہ ناقابل یقین ہے۔ سینئر بول ضرور رہا تھا مگر۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ بولنے کی کوشش ضرور کر رہا تھا مگر اس کے نرخرے سے مستقل کتوں جیسی آواز نکل رہی تھی اور سب چونک کر حیرت سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔
(یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیں ہے (۲)… ذوقی)
شوکت حیات کے یہاں بھی یہی ’کتا‘ باندازِ دگر آتا ہے :
’’گلی کا کتا اس کی بغل میں بیٹھا ہوا اس کا بدن چاٹتا اور اس کی کانپتی ہوئی انگلیوں کی تال پر دم ہلاتا رہتا۔ گردن اٹھائے ہوئے کتے کے ساتھ وہ گردن اٹھاتا۔ گردن جھٹکتے ہوئے کتے کے ساتھ وہ گردن جھٹکتا۔ ناخن رگڑتے ہوئے کتے کے ساتھ وہ اپنی انگلیاں توڑتا اور پھر لمحوں کے اوپر۔ نیچے بیچ یا کسی بھی لمحے میں پیچھے کی جانب سے ہاتھوں میں کچھ روٹیوں کے سر کتے ہی اس کی گردن نیچے جھک جاتی۔ انگلیاں کانپنے لگتیں اور کانپتی ہوئی ہتھیلیوں پر کانپتی ہوئی روٹیوں کو دیکھ کر کتے کی زبان بھی کانپتی۔ اس کی گردن اور بھی نیچے جھک جاتی۔ کانپتی ہوئی ہتھیلیوں پر کانپتی ہوئی روٹیوں کو دیکھ کر کتے کی زبان رال ٹپکاتی۔ اس کی گردن اور بھی نیچے جھک جاتی۔ کانپتی ہوئی ہتھیلیوں پر کانپتی ہوئی روٹیوں کو دیکھ کر کتا بھونکتا۔ اس کی گردن اور بھی۔۔‘‘
م۔ ق۔ خان نے بھی ’کتے‘ کو ایک نئی معنویت عطا کرتے ہوئے اپنی کہانی کا موضوع بنایا ہے۔ اس میں ’کتے‘ کی قلبِ ماہیت اور اس کی ممتا کا بیان تحیر سے خالی نہیں :
’’غار میں ساتھ دینے والا اصحاب کہف کا کتا ہو، اندھیری رات میں بھیڑوں کی حفاظت اور رکھوالی کرتا ہوا گڈریے کا کتا ہو۔ مجرم کی تلاش میں مدد کرتا ہوا پولیس کا تربیت یافتہ کتا ہو، Romulus اور Remus کا اسطوری قصہ ہو۔ آج کے خلائی دور کی کتیا Lyka ہو۔ انسان اور کتوں کا رشتہ بڑا ہی پرانا، معتبر اور دلچسپ ہے۔ یہ کہانی اسی رشتے کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ واقعہ کسی خاص شہر کا ہے لیکن ایسے حالات ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس رات وہ کتیا رونی آواز میں گیٹ کے پاس بھونکتی رہی اور مجھے رات بھر نیند نہیں آئی۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اس لڑکے اور کتے میں کیسا رشتہ تھا؟ مجھے اسطوری قصوں پر یقین ہونے لگا۔ جنہیں میں محض علامتی قصے کہانیاں تصور کرتا تھا۔ خاص کر اس زرد کتیا کا عجیب کردار تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کتیا اس لڑکے کی اپنی ماں ہو۔ وہ نہ صرف لڑکے کے ساتھ کھیلا کرتی تھی بلکہ اسے کھانا لاکر بھی دیتی تھی اور اپنی بساط بھر اس کی حفاظت بھی کرتی رہتی تھی۔ (رشتے —م۔ ق۔ خان)
انور عظیم کے یہاں ’کتا‘ ایک جنسی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے :
’’اور جب کبھی گراج کے مالک کی بیوی جو ماڈرن قسم کی سٹھانی ہے، نظر آ جاتی ہے تو بلا وجہ طوطے کی طرح چونچ نکال کر سیٹی بجانے لگتا ہے اور اپنے جھبرے کتے کی گردن پر یوں ہاتھ پھیرنے لگتا ہے جیسے سوتی ہوئی عورت کی شہوت جگانے کے لیے ران سہلا رہا ہو۔‘‘
(آخری رات— انور عظیم)
بلراج کومل کی کہانی ’’تیسرا کتا‘‘ میں بھی کتا Social Status کی ایک علامت بن کر ابھرا ہے۔ یہ سماجی سوچ کا نیا زاویہ ہے، جو کتے کے حوالے سے ان کی کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی کاکردار ایسا ہے جوکتے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اچھی نسل کا کتا اس کے اچھے خاندانی ہونے کا واحد ثبوت بن جاتا ہے :
’’مسز لکشمی داس جس کی صحت کثرتِ احتیاط، کثرت اولاد، کفایت شعاری اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی ہوئی قیمتوں کے کارن تباہ ہو چکی تھی۔ ہر شام پلے کو سینے سے لگا کر محلے کے ان تمام مکانوں کے سامنے سے مٹرگشت کرتی ہوئی نکلتی جن کے اندر کتوں کی مختلف نسلوں کے نمونے روز و شب راگ الاپتے رہتے تھے۔ اس کے چہرے کی زردی کچھ دیر تک اس وقار تلے دب جاتی جو پلے کے لمس سے اس کے چہرے پر پیدا ہو جاتا۔ وہ دل ہی دل میں اس کے لیے دعا کرتی۔‘‘
’’دوسرے پلے کی نسل اچھی تھی۔ اس کا جنم ایک پلیا کے اس فراخ دل دوست کے خاندانی دو منزلہ مکان کے پچھواڑے کے ایک جھنڈ میں ہوا تھا۔ پلے کا رنگ اچھا تھا اور دیکھنے میں بڑا تندرست تھا۔ ۔ نیا پلا بڑا خوبصورت تھا۔ ہر روز کہیں نہ کہیں گھومتا پھرتا، کھیلتا کودتا نظر آ جاتا۔ لکشمی داس کے بچے اس کے ساتھ بہت پیار کرتے۔ اس کو اس قسم کے کرتب سکھاتے۔ اس کے بعد اپنی ممی کی ہدایات اور رسم و زمانے کے مطابق غلط سلط انگریزی میں بات کرتے۔ کتا بہت خوش ہوتا۔‘‘
’’تیسرا کتا پہلے دونوں کتوں سے بہتر تھا۔ اس کی تھوتھنی سفید تھی، آنکھیں بھوری، نوکے لیے لمبے کان، چھریرا بدن اور گھپے دار دم اور اس پر طرہ یہ کہ کتا بلا کا چست تھا۔ اس بار سیر کے لیے جاتے ہوئے جب لکشمی داس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس بار اس نے کتا پوری چھان بین کے ساتھ حاصل کیا ہے اور اس کا ارادہ اس کو مستقل طور پر رکھنے کا ہے۔ پہلے دو کتوں کا نام غالباً لکشمی داس نے رکھا تھا یا نہیں۔ بہرحال ان کے ناموں کا علم نہ ہو سکا۔ یہ بلند کردار کتا بڑا خوش بخت نکلا۔ اس کا نام ریمو رکھا گیا اور چونکہ یہ کتا پہلے دو کتوں سے زیادہ محبت، عزت اور روشن مستقبل کے امکانات لیے ہوئے تھا۔ اس لیے ٹینو اور وینا نے کچھ ہی دنوں میں اسے لکشمی داس پوپلی کے خاندان کا فرد قرار دے کر اسے بھی ریمو پوپلی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ ۔
(تیسرا کتا — بلراج کومل)
ناصرن بغدادی کا افسانہ ’’خوف زدہ کتے‘‘ بھی اسی نوع کی کہانی ہے۔ اس کا ایک کردار جرمن شیفرڈ کتا شیرو ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے شہر کی ہے جہاں جبر اور تخویف کا ماحول ہے۔ ناصر بغدادی کی کہانی کا کتا’ شیرو‘ انسانی بستی سے بیزار ہو کر کہیں دور نکل جاتا ہے۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے :
’’شیرو اپنے باوقار طرز عمل سے سب پر یہ واضح کر دیتا تھا کہ وہ اعلیٰ نسل کا کتا ہے۔ محلے کے کتوں سے میل ملاپ اور یاری دوستی کو وہ بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ اپنا زیادہ تر وقت وہ گھر ہی میں گزارتا تھا۔ یہ کتا پچھلے دو برسوں سے ہمارے گھر میں بڑے مزے سے رہ رہا تھا۔ جب گھر میں لایا گیا تھا تو بالکل چھوٹا سا کھلونا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت زیادہ تر دودھ پر ہی اس کا گزارا ہوتا تھا۔ مگر اب تو توانا اور تنومند ہو گیا تھا۔ اس کی حرکات و سکنات سے تو یہی محسوس ہوتا تھا کہ اس کا کسی بے حد شائستہ گھرانے سے تعلق تھا۔ اس کو ہر چیز کھانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چھچڑے اور کچا گوشت تو دور کی بات ہے۔ وہ ایسی ویسی ڈشوں کو دیکھ کر ہی اپنا منہ پھیر لیتا تھا۔‘‘ (خوف زدہ کتے —ناصر بغدادی)