قرآنیات میں ایک تحقیقی کارنامہ
کتابتِ مصاحف اور علم الرسم
از قلم
پروفیسر حافظ احمد یار
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
اقتباس
خدمت قرآن کے بیسیوں میدان اور مطالعۂ قرآن کے سینکڑوں عنوان ہیں۔ اور قرآن کریم سے متعلق یہ "علمی میدان” اور "علمی عنوان” متعدد تحریکات اور سینکڑوں۔ تالیفات کو وجود میں لائے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم اور بنیادی میدان ہے، النص القرآنی (کلمات قرآن) کی (مصحف میں (۳)) کتابت۔ اور اسی (کتابت مصحف) کے قواعد و ضوابط کے بیان کا علمی عنوان ہے۔ "علم الرسم”- اور اس علم کا مختصر سا تعارف ہی اس مقالہ کا موضوع ہے۔
(۲) عربی زبان میں "لکھائی” کے لیے متعدد (قریباً) ہم معنی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً الکتابۃ، الخط، الزبر، السطر، الرقم، الرشم (بالشین)، الرسم اور الھجاء وغیرہ (۴)۔ ان میں سے قرآن کریم کی کتابت کے ضمن میں لفظ "خط” سے عموماً خطاطی اور خوشنویسی کا بیان اور اس کی تاریخ مراد لی جاتی ہے۔ اور یہ خطاط اور مؤرخ خط کا میدان ہے۔ اور "الھجاء” اور "الرسم” (اور اس کے مشتقات) اور ان پر مبنی بعض تراکیب، املاء قرآن (۵) کے اصول و قواعد کے معنوں میں ایک علم اور فن کا اصطلاحی نام بن چکے ہیں۔
گزشتہ چودہ صدیوں میں اس علم کے نام کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً ابتداء میں تو کتابت یا خط کے لفظ ہی سامنے آئے (۶) پھر آگے چل کر مختلف اسباب و عوامل کی بنا پر اس کے لیے "ھجاء” کا استعمال شروع ہوا۔ مثلاً "ھجاء المصاحف”، "ھجاء مصاحف الامصار”، "ھجاء التنزیل” وغیرہ۔ لفظ "الھجاء” کے لفظی معنی ہیں: حرفوں (کے ناموں) کی ابتدائی آوازوں سے لفظ بنانا۔ مثلاً بکر کا ھجاء”ب ک ر” ہے۔ اس طرح ھجاء المصاحف کا مطلب ہوا: قرآن کے لفظوں کو لکھنے کے لیے ان کے حرفوں کو ترتیب وار گن کر باہم جوڑنے کا طریقہ یا اس کے قواعد۔
قریباً پانچویں صدی ہجری سے لفظ "الرسم” اور "مرسوم” کا استعمال شروع ہوا مثلاً "رسم المصحف”، "رسم مصاحف الامصار”، "مرسوم المصاحف”، "رسم القرآن”، "مرسوم خط التنزیل” وغیرہ۔ ابن خلدون (ت۸۰۸ھ) نے اسے فن الرسم اور الرسم المصحفی لکھا ہے (۷)۔ قلقشندی نے اسے المصطلح الرسمی اور الاصطلاح السلفی کہا ہے (۸)۔
گیارھویں بارھویں صدی ہجری سے "رسم” کے ساتھ (ترکیب میں) حضرت عثمانؓ یا ان کی طرف منسوب مصاحف کا نام زیادہ استعمال ہونے لگا مثلاً "رسم المصاحف العثمانیہ”، "رسوم مصاحف عثمان”، "رسم المصحف الامام” اور "الرسم العثمانی” وغیرہ۔ آج کل اس کے لیے جامع اصطلاح "علم الرسم” یا صرف "الرسم” اختیار کی جاتی ہے۔ اس لفظ کے علی الاطلاق استعمال کی صورت میں یعنی کسی توصیفی یا اضافی ترکیب کے بغیر۔ بھی اس سے مراد "رسم المصحف” ہی ہوتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے "رسم قرآن”، "قرآنی رسم الخط” یا "رسم عثمانی” (۹) کے الفاظ اور فارسی میں "املاء قرآن” اور بعض دفعہ "رسم مصحف” کی اصطلاح کا رواج ہے۔
الرسم کے لفظی معنی ہیں اثر یا نشان۔ اور اس کی جمع رسوم (آثار۔ نشانات) آتی ہے۔ غالباً قرآن کریم کی کتابت کے آداب و قواعد کے لیے اس لفظ کے مختص ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں عہد نبوی اور عہد راشدین کی کتابت اور طریق املاء کو ایک یادگار کے طور پر محفوظ کر لینے کا تصور شامل ہو گیا ہے۔ اسی تاریخی پہلو کی طرف اشارہ کے لیے "علم الرسم” کی تعریف ہی”الخط المرسوم فی المصاحف العثمانیہ” سے کی جاتی ہے (۱۰) اور اسے رسم عثمانی کہنے کی بنیاد بھی تاریخی ہے۔
چونکہ املاء قرآن بعض باتوں میں عام عربی املاء سے مختلف ہے اس لیے دونوں کا فرق واضح کرنے کے لیے بعض دفعہ عام املاء کے لیے بھی "رسم” کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے مگر ترکیب کے ساتھ مثلاً [الرسم القرآنی یا الرسم الاصطلاحی کے مقابلے پر] الرسم الاملائی، الرسم القیاسی یا الرسم المعتاد کہہ لیتے ہیں (۱۱)۔ اور ان دونوں کے باہمی فرق اور اختلاف کی وجہ سے علم الرسم کی منطقی حد (تعریف) یوں بیان کی جاتی ہے "ھو علم تعرف بہ مخالفات خط المصاحف العثمانیۃ لاصول الرسم القیاسی (۱۲) [علم الرسم وہ علم ہے جس کے ذریعے مصاحف عثمانیہ کی املاء میں رسم قیاسی کی مخالفت اور اختلافات کا پتہ چلتا ہے]۔
(۳) علم الرسم کی مندرجہ بالا تعریف اور تعارف سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق حضرت عثمانؓ اور ان کے مصاحف سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ علم الرسم کی تمام کتابوں میں سب سے پہلے جمع و تدوین قرآن کے تین معروف مراحل یعنی عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد عثمانی میں اس عمل کے دواعی اور اس کی کیفیت سے بحث کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کے اس عثمانی ایڈیشن یعنی مصاحف عثمانیہ کی تیاری ایک معروف واقعہ ہے۔ یہاں اس کی تفصیلات میں جانا باعث طوالت ہو گا نیز اس وقت ہمارا اصل مرکزی موضوع بھی یہ نہیں ہے۔ تاہم چونکہ "علم الرسم” کی بنیاد یہی مصاحف عثمانیہ بنے، اس لیے اصل موضوع (الرسم) کی مناسبت سے ان مصاحف کے بارے میں چند امور قابل ذکر ہیں۔
۱) حضرت عثمانؓ کا زمانہ خلافت محرم۲۴ھ تا ذی الحجہ ۳۵ھ یعنی بارہ سال ہے۔ اس دوران حضرت عثمانؓ کا یہ مصاحف کی تیاری والا کام کب شروع ہوا؟ اور کب اختتام کو پہنچا؟ اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ تاریخی بحث کی تفصیل میں گئے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام ۲۵ھ تا ۳۰ھ کی درمیانی مدت میں ہی مکمل ہو گیا تھا (۱۳)۔ گویا یہ کام آنحضرتﷺ کی وفات سے ۱۵ تا ۲۰ سال کے اندر اندر۔ اور غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول سے پچاس سال سے بھی کم عرصے میں (۱۴) سرانجام دیا جا چکا تھا۔
۲) ان مصاحف کی کتابت میں سب سے اہم کردار حضرت زید بن ثابت کا تھا۔ انہوں نے عہد نبوی میں بھی کتابتِ وحی کا کام کیا تھا۔ عہد صدیقی میں قرآن کریم کی صحف [چھوٹے چھوٹے اجزاء۔ جن میں سے ہر ایک جزء کم از کم ایک سورت پر مشتمل تھا (۱۵)] میں مکمل کتابت میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا۔ اس ۱۵-۲۰ سال کے عرصے میں عربی املاء کے اصول و قواعد میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔ [یہ تغیرات پہلی صدی ہجری کے اواخر میں سامنے آتے ہیں]۔ اور اہم کاتب بھی ایک ہی آدمی رہا۔ اس لیے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت زیدؓ بن ثابت یا ان کے ساتھ کام کرنے والے کمیٹی کے دوسرے ارکان نے مصاحفِ عثمانیہ کی کتابت اسی طریق املاء کے مطابق کی جو اس وقت حجاز خصوصاً مدینہ منورہ میں رائج تھا۔ اور یہ طریق املاء یقیناً عہد نبوی میں رائج خط اور املاء سے مختلف نہیں تھا۔
۳) مصاحفِ عثمانیہ نقط اور اعجام سے معرّی تھے۔ اس لیے ہر نسخہ کے ساتھ پڑھانے والا ایک مستند قاری بھی بھیجا گیا تھا۔ عہد نبوی سے ہی تعلیم قرآن کی بنیاد محض تحریر پر نہیں بلکہ تلقی اور سماع پر رکھی گئی تھی۔ لوگوں نے اپنی روزانہ تلاوت کے لیے اپنے علاقے کے صدر مقام پر بھیجے گئے مصاحفِ عثمانیہ سے اپنے لیے مصاحف تیار کرنا اور کرانا شروع کر دیئے۔ اب ہر نیا مصحف مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک۔ یا ان سے ہو بہو نقل کردہ کسی ایک نسخہ (مصحف)۔ کی صحیح نقل ہوتا تھا۔ قرآن کریم کی درست قرأت استاد کی شفوی تعلیم پر۔ اور قرآن کی درست کتابت مستند اصل سے ہو بہو نقل پر- منحصر تھی۔ مصاحفِ عثمانیہ کی اس ہو بہو نقل کو ہی مصاحفِ عثمانیہ کے رسم (طریق املاء) کا التزام کہا جاتا ہے۔
۴) حضرت عثمانؓ نے کتنے مصاحف تیار کرائے تھے اور وہ کس کس شہر میں بھیجے گئے؟ روایات میں ان کی تعداد چار سے آٹھ تک بیان کی گئی ہے (۱۶) دو نسخے (مصحف)تو مدینہ منورہ میں رہے ایک پبلک کے لیے مسجد نبوی میں رکھا گیا اور ایک حضرت عثمانؓ کی ذاتی نگرانی میں رہا، جسے المصحف الامام بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق میں ایک ایک مصحف (مع قاری) بھیجا جانا ثابت ہے [چار مصاحف والی روایت میں غالباً صرف ان مصاحف کی بات کی گئی ہے جو مدینہ منورہ سے باہر بھیجے گئے تھے۔]۔ کہتے ہیں کہ ایک ایک نسخہ یمن اور بحرین کے لیے بھی بھیجا گیا تھا، بلکہ بعض نے بحرین کی بجائے مصر یں ایک نسخے کے بھیجے جانے کا ذکر بھی کیا ہے (۱۷)۔ تاہم جن مصاحفِ عثمانیہ سے نقل ہو کر مزید مصاحف تیار ہوئے اور جن کے رسم کا گہری نظر سے لفظ بہ لفظ بلکہ حرف بحرف تنقیدی اور تقابلی مطالعہ کر کے "علم الرسم”کی بنیاد رکھی گئی۔ اس میں صرف پانچ مقامات کے مصاحف عثمانیہ [یا ان سے تیار ہونے والے مصاحف] کا ذکر کتب رسم میں کیا جاتا ہے۔ یعنی مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق کے مصاحف (۱۸)۔
۵) جغرافیائی اعتبار سے اسلامی مملکت کے مختلف حصوں کے لیے ان ارسال کردہ مصاحفِ عثمانیہ کی مرکزی حیثیت کچھ اس طرح مقرر کر دی گئی یا عملاً ہو گئی کہ مکہ اور مدینہ کے مصاحف تمام جزیرہ نمائے عرب کے لیے۔ بصرہ اور کوفہ کے مصاحف تمام مشرقی علاقوں کے لیے اور دمشق کا مصحف شام کے علاوہ تمام مغربی (افریقی) علاقوں کے لیے۔ نئے مصاحف کی تیاری کے لیے اصل کا کام دینے لگے۔ ان مصاحف۔ اور ان کی نقول کو مکی، مدنی، کوفی، بصری اور شامی کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
۶) آگے چل کر علماء رسم نے مختلف مصاحف کے ذکر کے لیے کچھ اصطلاحات مقرر کر لیں مثلاً مدینہ منورہ کے دونوں نسخوں (خاص اور پبلک والے) کا ذکر کرنا ہوتا تو "مدنیین” کہتے اور "مدنیین” اور مکی (یعنی تینوں کا) ذکر کرنا ہوتا تو "الحجازیہ” یا "الحرمیۃ” کہتے اور کوفی اور بصری (دونوں) کے لیے مجموعی طور پر "العراقیین” کی اصطلاح استعمال کرتے۔ تاہم یہ اصطلاحات اس وقت استعمال کرتے جب اصل مصاحفِ عثمانیہ مراد ہوتے اور اگر ان سے تیار ہونے والی نقول مراد ہوتیں تو صرف مصاحفِ عراقی، مصاحفِ اھل الشام وغیرہ کہہ کر ذکر کیا جاتا (۱۹)- کتب الرسم میں ان اصطلاحات کا استعمال عام ہے۔
(۴) ان مراکز خمسہ میں سے ہر ایک مرکزی شہر میں وہاں قیام پذیر صحابہؓ کے ہاتھوں قراء کی ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو قرأت کے ساتھ رسم الکلمات (کا طریقہ) بھی بیان کرتے تھے یعنی ادھر بھی توجہ دلاتے تھے۔ نقط و اعجام سے معرّی مصحف سے قرأت روایت کی بنا پر اور استاد سے بالمشافہ ہی سیکھی جا سکتی تھی۔ تاہم اس مروی قرأت کے مطابق اپنا (ذاتی) مصحف تیار کرنے کے لیے مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک سے یا اس سے نقل شدہ کسی مصحف سے نقل مطابق اصل کئے بغیر بھی چارہ نہ تھا۔ کیونکہ با جماع صحابہؓ یہی مصاحف صحت کا معیار قرار پائے تھے۔ اس طرح شروع سے ہی قرأت اور رسم ساتھ ساتھ چلے۔
اور یہ "نقل مطابق اصل” کا کام اس لیے بھی ضروری تھا یا یوں کہئے کہ "نقل صحیح” کے اس عمل سے یہ بات بھی سامنے آنے لگی تھی کہ مصاحفِ عثمانیہ میں ایسے کلمات بھی ہیں، جن کی کتابت میں کوئی یکساں اصول اختیار نہیں کیا گیا تھا مثلاً لفظ "کتاب” کہیں الف کے ساتھ اور کہیں بحذف الف (کتب) لکھا گیا تھا۔ یا مثلاً لفظ "نعمۃ” یا "رحمۃ” عموماً تو تائے مربوطہ (ۃ) کے ساتھ ہی لکھے گئے مگر بعض مقامات پر تائے مبسوط (ت) کے ساتھ لکھے گئے تھے۔ اور ایک ہی مصحف کے اندر اس قسم کے تفاوت اور اختلاف کی متعدد صورتیں موجود تھیں۔ آگے چل کر ایسے تمام مقامات کا حصر اور کتابت مصاحف میں اس فرق کو برقرار رکھنا علم الرسم کا ایک اہم مسئلہ بن گیا۔
(۵) جیسا کہ ابھی بیان ہوا صحابہؓ نے مصاحف کی کتابت اپنے زمانے کے رائج "طریق املاء” یا رسم کے مطابق ہی کی تھی۔ اس زمانے میں یہی طریق املاء عام کتابت کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا اور یہ طریقہ تابعین (بلکہ تبع تابعین) کے دَور تک جاری رہا (۲۰)۔ کہ قرآنی املاء اور عام عربی املاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ایک لفظ جس طرح قرآن میں لکھا جاتا تھا۔ شعر و ادب میں یا کسی سرکاری یا ذاتی مراسلات وغیرہ میں بھی اسی املاء کے ساتھ لکھا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی قرآنی املاء (یا رسم) کے بعض طریقے عام عربی املاء میں اس طرح رچ بس گئے کہ اس کی بعض یادگاریں عام عربی املاء میں اب تک محفوظ ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر ابھی آگے چل کر آئے گا۔
(۶) جب کوفہ اور بصرہ کی چھاؤنیاں علمی مرکز کے طور پر اُبھریں اور یہاں عربی زبان و لغت اور شعر و ادب کے ساتھ ساتھ صَرف اور نحو کے علوم کی ایجاد اور تدوین ہوئی- اور علمی، سرکاری اور روزمرہ کی سطح پر عربی زبان میں کتابت کی بھی بکثرت ضرورت پڑنے لگی، تو علماء وقت نے عربی املاء کو صرفی اور نحوی اصولوں کی روشنی میں یکساں اور کلی قواعد کے ماتحت کرنا ضروری سمجھا۔ اور اس کے لیے بنیادی طور پر املاء کلمات میں ’’صوتی اصول‘‘ (The Phonetic Principle) یعنی لفظ کو اس کے نطق یا تلفظ کے مطابق لکھنے کا اصول اختیار کرنے کو ترجیح دی گئی مثلاً یہ کہ:
أ۔ الف لینہ متوسطہ کو ہمیشہ بصورت الف ہی لکھنا چاہیے (۲۱) اس لیے جو واؤ صرفی تعلیل کی بنا پر الف میں بدل جائے (بلحاظ تلفظ) اسے لفظ میں بصورت الف ہی لکھنا چاہیے اس قاعدے کے تحت ’’صلوٰۃ‘‘ کو صلاۃ اور ’’نجوۃ‘‘ نجاۃ لکھنا بہتر سمجھا گیا۔
ب۔ اسی طرح واؤ جمع کے بعد زائد الف لکھنا تو تسلیم کر لیا گیا (مثلاً ضربوا اور قالوا میں) مگر کسی ناقص واوی کے صیغہ مضارع واحد غائب (مثلاً یدعو، یمحو) میں واؤ کے بعد الف لکھنا غلط قرار دیا گیا (۲۲)۔
ج۔ اسی (الف لینہ متوسطہ) والے قاعدے کے تحت جمع مؤنث سالم کی آخری ’’ت‘‘ سے پہلے الف لکھنا بھی ضروری سمجھا گیا (مسلمات، حسنات میں)۔
د۔ اسی طرح صیغہ جمع مؤنث غائب کے ساتھ التباس سے بچنے کے لیے ماضی جمع متکلم میں بھی آخر پر الف کا لکھنا ضروری قرار پایا۔ اس قاعدے کی بنا پر ہی ’’انزلنہ‘‘ کو انزلناہ کی شکل میں لکھنے لگے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم میں پہلی شکل استعمال کی گئی تھی۔
اس طرح صرفی اور نحوی قواعد کی روشنی میں ھجاء اور املاء کے قیاسی قواعد کے ارتقاء کا ایک دَور شروع ہوا اور اس کے اصول و قواعد میں تغیر و تبدل اور اصلاح و ترمیم کا عمل جاری رہا (۲۳) [اور کسی حد تک یہ اب بھی جاری ہے] اور اس فن یعنی املاء قیاسی کے اصول وقواعد پر مشتمل مستقل کتابیں لکھی جانے لگیں (۲۴)۔
املاء قیاسی کی اصلاح اور اس کے انضباط کی اس صرفی و نحوی مہم کے نتیجے میں لوگوں نے بہت سے کلمات کا قدیم ھجاء اور املاء ترک کر دیا اور ان کو نئے اصولوں کے مطابق لکھنے لگے (۲۵) تاہم رسم قرآنی کو ان قواعد کے تحت لانے کو قبول نہیں کیا گیا اور قرآن کریم کی کتابت بدستور "نقل مطابق اصل” کے اصول پر برقرار رکھی گئی۔ اس طرح قرآن کریم میں لوگوں کو ان قواعد نحو کی "خلاف ورزی” کی بکثرت مثالیں نظر آنے لگیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ قرآنی رسم تو کبھی ان قواعد کے تابع تھا ہی نہیں۔
(۷) املاء اور ھجاء کے قدیم اصولوں میں ان تبدیلیوں اور اصلاحات کے باوجود کُتّاب مصاحف کے ہاں عثمانی مصاحف کے طریق املاء یا رسم الخط کا اتباع جاری رہنے کی کچھ وجوہ تھیں مثلاً:
الف۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ اس ’’رسم‘‘ میں اب ایک طرح سے تبرک اور تقدیس کا پہلو پیدا ہو گیا تھا [اور رسم قرآنی کا یہ پہلو کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا گیا]۔
ب۔ دوسرے ایک طویل عرصے کے استعمال سے کُتّاب مصاحف اس طریق املاء سے مانوس بھی ہو گئے تھے (۲۶)۔
ج۔ تیسرے یہ بھی کہ مصحف کی کتابت کسی مصحف سے ہی براہ راست اور ہو بہو نقل پر منحصر تھی۔ اس سے بھی ’’رسم‘‘ سے منحرف ہونے کی گنجائش کم ہی نکلتی تھی۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کلمات کا قدیم یا قرآنی طریق املاء (یا رسم الخط) کثرت استعمال کی بنا پر ذہنوں میں اس طرح رچ بس گیا تھا کہ اسے املاء قیاسی کے علمبرداروں نے بھی اپنی اصلی صورت پر برقرار رکھنا قبول کر لیا، بلکہ ان کلمات کو قرآنی املاء کے ساتھ لکھنا ہی درست قرار دیا۔ آج بھی عام عربی املاء (الرسم المعتاد) میں بکثرت ایسے کلمات ملتے ہیں جن کی املاء ’’صوتی اصول‘‘ (The Phonetic Principle) یعنی نطق کے مطابق کتابت کے اصول کی بجائے ایک طرح سے ’’تاریخی اصول‘‘ (the Historic Principle) کے تحت کی جاتی ہے۔ مثلاً:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، لا الہ الا اللہ، الّذین، ھٰھُنا، لٰکِنْ، ھذا، ذالک، اولئک، ھؤلاءِ، اُولُوْ، ھٰاَنتم، اُولاءِ، اُولاتُ، بلیٰ، حتّیٰ، متیٰ، اِلیٰ وغیرہ۔ جن کو اگر رسم املائی کے صوتی یا نحوی اصل پر مبنی قواعد کے مطابق لکھا جائے تو ان کی شکل یوں ہو جائے گی: باسم اللآَہ الرحمان الرحیم، لا اِلاہ الا اللآَہ، اَللَّذین، ھاھنا، لاکن، ھاذا، ذالک، اُلائِک، ھا اُلاءِ، اُولُوْ، ھا انتم، اُلاءِ، اُلاتُ، بلا، حتّا، متا اور اِلا۔ (۲۷)۔
(۸) دریں اثنا نقط و شکل اور علامات ضبط کی ایجاد و اختراع نے قرآنی (اور عام عربی) کلمات کا تلفظ نسبتاً آسان کر دیا تھا۔ تاہم قیاسی یا عام املاء کے مطابق لکھی ہوئی عبارت پڑھ لکھ سکنے والے آدمی کے لیے قرآنی املاء یا رسم المصحف کا رسم قیاسی سے یہ اختلاف ایک الجھن کا باعث بنتا تھا۔ اور غالباً اسی لیے امام مالک بن انسؒ (ت۱۷۹ھ) سے یہ مشہور سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا قرآنی املاء کو بھی جدید املاء کے سانچے میں ڈھال لیا جائے؟ جس کا جواب انہوں نے نفی میں دیا تھا اور سلف کے طریقے کے مطابق رسم المصحف کو علی حالہ برقرار رکھنے پر زور دیا تھا۔ البتہ انہوں نے بچوں کی تعلیم میں سہولت کے لیے (قاعدے یا تختی کی صورت میں) رسم عثمانی سے ہٹ کر قیاسی املاء کے مطابق (اسباق) لکھنے کو جائز قرار دیا تھا (۲۸)۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسم قرآنی بیشتر رسم قیاسی کے مطابق ہی ہے۔ صرف ایک قلیل تعداد کلمات کی ایسی ہے جن میں اختلاف ہے۔ قرآن کریم کے ستر ہزار سے زائد کلمات میں سے قریباً نوے فیصد (۹۰%) کلمات کی املاء عام قیاسی کے مطابق ہی ہے (۹۲)۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ عربی رسم الخط دورِ صحابہ تک اتنی پختگی کو پہنچ چکا تھا کہ اس میں ترمیم و اصلاح کی بڑی محدود سی ضرورت درپیش آئی۔
(۹) فریضۂ حج کے ذریعے وسیع اسلامی مملکت کے مغربی (افریقہ و اندلس) اور مشرقی (ایشیا) علاقوں سے لوگوں کو حرمین شریفین میں آنے کا موقع ملتا رہتا تھا (۳۰) اس کے علاوہ طلب علم کے لیے بھی لوگ ایک علاقے سے دوسرے علاقوں خصوصاً بڑے شہروں کا رخ کرتے تھے۔ ان علمی اور دینی رحلات (سفروں) میں اہل علم کو اپنے اپنے مختص علم وفن کی تحصیل اور تکمیل کے مواقع میسر آتے تھے۔ قراءات اور علم الرسم کے شائقین کو اس ضمن میں مصاحف امصار [یعنی مختلف صوبائی صدر مقامات میں بھیجے گئے مصاحف عثمانیہ یا ان سے تیار کردہ اس علاقے کے مصاحف] دیکھنے، بلکہ ان کا تقابلی اور تنقیدی مشاہدہ کرنے کا مواقع ملے تو دقتِ نظر سے کام لینے والوں کو یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بعض قرآنی کلمات کی املاء یا رسم کسی ایک علاقے کے (مثلاً عراقی) مصاحف میں ایک طریقے سے اور کسی دوسرے علاقے کے (مثلاً شامی یا مکی) مصاحف میں کسی دوسرے طریقے سے کی گئی تھی۔
اس طرح علماءِ رسم کو کتابتِ مصاحف کے ضمن میں تین قسم کے املائی اختلافات سے واسطہ پڑنے لگا:
۱۔ رسم المصحف کا عام رسم قیاسی سے اختلاف۔
۲۔ ایک ہی مصحف کے اندر بعض کلمات کا مختلف مقامات پر مختلف رسم میں لکھا ہوا ملنا۔
۳۔ مصاحف امصار (علاقائی مصاحف) کا بعض کلمات کے رسم میں باہمی اختلاف۔
ذیل میں بطور نمونہ ہر قسم کے اختلافات کی کچھ مثالیں دی جاتی ہیں:
۱۔ رسم قیاسی اور رسم قرآنی کا اختلاف: –
رسم قرآنی رسم قیاسی
اَلْئٰنَ الآنَ
اِیّیَٰ اِیَّایَ
العُلَمٰؤُا. العُلَمَاءُ
جِایْءَجِیْءَ
لِشَایْء. لشَیْءٍ
لَاَ اذْبَحَنَّہٗ لَاَذْبَحَنَّہٗ
دُعٰؤا دُعاء
ساُورِیْکم. ساُریکم
لَتَّخَذْتَ لَاتَّخَذْتَ
الَّیْل. اللَّیْل
الاِنسٰن. الاِنسان
سَلٰسِلاَ. سَلٰسِلَ
یَبْنَؤْمَّ یَابْنَ أُمَّ
بِاَیْیدٍ. بِاَیْدٍ
اَفَائِنْ . اَفإنْ
اَلّٰتِیْ. اَللَّاتِیْ
نُنْجِیْ. نُنْجِیْ
وغیرہ
۲۔ ایک ہی مصحف میں کلمات کی مختلف املاء: –
ایک جگہ دوسری جگہ
کِتٰب. کِتاب
قٰل. قال
طَغَا. طَغیٰ
لدا. لدی
اَیّھَا. اَیُّہَ
مانَشاءٔ. ما نَشٰؤُا
اِبْرَاھٖم. اِبْرَاھِیمْ
کَیْلا. کَیْلا
جَزاؤُا. جَزاءُ
اَئِذا. أَءِذا
یَمْحُوایَمْحُ
شَعائِر. شَعٰئِرْ
تَبٰرَکَ. تَبارَکَ
وغیرہ
۳۔ مصاحف امصار کے اختلاف: –
بعض مصاحف میں اور بعض مصاحف میں
تُکذِّبان تُکَذِّبٰن
طائف. طٰئف
خائف. خٰئفِ
صٰفّٰت. صافّات
کِیْدُونِ. کِیْدُونِی
شرکاؤھم. شرکائھم
ذوا العصْف. ذا العَصْف
تجری تحتھَا. تجری من تحتھِا
منھا مُنقَلَبا. منھما مُنْقَلَبا
۴۔ مصحف میں مماثل کلمات کی مختلف املاء: –
مائۃ میں الف ہے مگر فئۃ بحذف الف ہے اللطیف میں دو لام موجود مگر الیّل ہر جگہ صرف ایک لام کے ساتھ، ایَّاک میں تو الف ہے مگر اِیّیَٰ میں محذوف ہے۔ لدا الباب الف کے ساتھ، مگر لدی الحناجر یاء کے ساتھ، جِایْءَ میں الف موجود مگر سِیْءَ الف کے بغیر، اٰبْوٰب بحذف الف مگر اَکْوَاب باثبات الف لَاَ اذْبَحَنَّہ میں زائد الف موجود مگر لَاُعَذّبَنَّہ اس زیادۃ کے بغیر ہے۔ مِن وَرایِء حِجَاب بزیادۃ یاء مگر مِن وراءِ جُدُر بغیر زیادۃ واؤ جمع کے بعد ہر جگہ الف زائد موجود مگر صرف چار افعال جاءُو، فَاءُو، باءُو اور تبوءُو میں غیر موجود وغیرہ (۳۱)۔
۵۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ بعض کلمات کی قرآنی املاء، قیاسی املاء سے زیادہ سائنٹفک اور قیاس صرفی و نحوی سے زیادہ قریب اور لہٰذا بہتر ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
قیاسی املاء. قرآنی املاء
اشتراء کی بجائے اشترٰہ زیادہ بہتر ہے
مَثْواہ "مَثْوٰہ "”
اِحداھما "اِحدٰھما””
یَغشاھا "یَغشٰھا””
ترضاہ "ترضٰہ””
نَجّاکم”نَجّٰکم””
تَقْواھا”تَقْوٰھا””
وغیرہ