مجلس ادبیاتِ عالیہ کی پیشکش، قدیم داستانی ادب میں ایک اہم تصنیف
مذہبِ عشق معروف بہ گلِ بکاؤلی
از قلم
منشی نہال چند لاہوری
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
آغاز داستان
کہتے ہیں کہ پورب کے شہزادوں میں کسی شہر کا بادشاہ زین الملوک نام، جمال اس کا جیسے ماہِ منیر، عدل و انصاف اور شجاعت و سخاوت میں بے نظیر۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ ہر ایک علم و فضل میں علامہ زمان اور جوانمردی میں رستم دوراں۔ خدا کی قدرت کاملہ سے اور ایک بیٹا آفتاب کی طرح جہاں کا روشن کرنے والا اور چودھویں رات کے چاند کی طرح دنیا کے اندھیرے دور کرنے والا پیدا ہوا۔
قمر اس کی جبین سے داغ کھائے
مہ نو پیش ابرو سر جھکائے
اگر چین جبین اس کی بنائے
مصور چین کا چیں بول جائے
بلا انگیز دو آنکھیں جادو آمیز
مئے گلرنگ سے دو جام لبریز
کبھی دیکھی تھی اس گلرو کی کاکل
پریشان آج تک ہے حال سنبل
جہاں مجروح ہو تیغ نظر سے
پلک سے پار ہو خنجر جگر سے
وہ مکھڑا مہر اگر دیکھے تو تھرّائے
قمر کے چہرے کا بھی رنگ اڑ جائے
عجب انداز سے تل گال پر تھا
کہ گنج حسن پر کالا ہو بیٹھا
وہ سینہ تختۂ بلور سا صاف
یہ کیا کہتا ہوں میں ہیرا تھا شفاف
ریاض حسن کا سرو سر افراز
غرض وہ تھا سراپا مایہ ناز
بادشاہ نے باغ باغ ہو کر جشن کیا اور نجومیوں کو بلا کر کہا کہ اس کی لگن دیکھو۔ ہر ایک نے کنڈلی کھینچ کر اس کا نام تاج الملوک رکھ دیا اور کچھ انگلیوں پر گن گنا کے عرض کی کہ یہ باغ عالم میں گل تازہ ہے، اس کے نصیبوں میں دولتِ دنیاوی بے اندازہ ہے۔ صاحب ہمت اس طرح کا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ یقین ہے کہ ایسا شہریار ہو تو عالم جنات بھی مطیع اور فرماں بردار ہو مگر ایک قباحت بھی اس کے ساتھ ہے۔ جب بادشاہ کی اس پر نظر پڑے تو فوراً بادشاہ کی آنکھوں سے بینائی جاتی رہے۔ بادشاہ نے کچھ شاد کچھ ناشاد ہو کر ان کو رخصت کیا اور وزیر سے فرمایا کہ ایک محل میں بتفاوت تمام ہماری گزرگاہ سے اُس کی ماں سمیت رکھو۔ چنانچہ موجب ارشاد کے وزیر عمل میں لایا۔
چند سال کے بعد وہ نونہال باغ سلطنت کا کمال ناز و نعمت سے پرورش پا کر ہوائے علم و ہنر سے سے سر سبز ہوا۔ ایک روز اس کو شکار کی خواہش ہوئی، سوار ہو کر جنگل میں گیا اور شکار کے پیچھے گھوڑا اٹھایا۔ سچ ہے کہ ہونے والی بات بے ہوئے نہیں رہتی:
تقدیر کے لکھے کو امکان نہیں دھوتا
اتفاقاً بادشاہ بھی اسی دن شکار کو سوار ہوئے تھے۔ ایک ہرن کے پیچھے گھوڑا ڈالے اسی طرف کو آنکلے۔ مشہور ہے کہ کانے چوٹ کنوڈے بھینٹ۔ جونہی شہزادے پر نگاہ پڑی آنکھوں کی بصارت جاتی رہی۔ ارکان دولت نے شہزادے کو دیکھ کر بادشاہ کے نا بینا ہونے کا سبب دریافت کیا، حضرت نے فرمایا کہ لازم یوں تھا کہ بیٹے کو دیکھ کر باپ کی آنکھیں اور روشن ہوں، سو یہ طرفہ ماجرا ہے کہ برعکس ظہور میں آیا۔ پس اب یہ بہتر ہے کہ اِس کو میرے ممالک محروسہ سے نکال دو اور اس کی ماں کے واسطے خدمت جاروب کشی کی مقرر کرو۔
یہ فرما کے بادشاہ الٹے پاؤں تخت گاہ کی طرف پھر آیا اور اسے دل سے نکال دیا۔
دوسری داستان
چاروں بیٹوں کے جانے کی بکاؤلی کے واسطے
کہتے ہیں کہ جب بڑے بڑے حکیم مسیحا خصلت اور بو علی طبیعت آنکھوں کے علاج کے لیے بلائے، سب نے متفق ہو کر عرض کی کہ بکاؤلی کے سِوا کسی اور دوا سے ممکن نہیں کہ بادشاہ شفا پائے۔ اگر کسی صورت سے گل بکاؤلی پیدا ہو تو حضرت کیا بلکہ اندھا مادر زاد بھی آنکھیں پائے۔
یہ سن کر بادشاہ نے اپنے تمام ملک میں منادی پھروا دی کہ جو گل بکاؤلی پیدا کرے یا اس کی خبر لائے تو اس کو بہت انعام و اکرام دے کر نہال کروں۔ اس طرح بادشاہ نے ایک مدت تک اس کے انتظار میں رو رو کر حضرت یعقوبؑ کی طرح اپنی آنکھوں کو سفید کیا اور اس غم میں مانند حضرت ایوبؑ کے آپ کو گھلا دیا۔ ہر چند کہ خونِ جگر پیا لیکن کسی طرف سے کچھ اس کا سراغ نہ ملا۔
ایک روز چاروں بیٹوں نے بادشاہ کی خدمت میں دست بستہ عرض کی کہ سعادتمند وہی لڑکا ہے کہ جو ماں باپ کی خدمت بجا لائے اور اگر سعی و کوشش میں جان دے تو وہ سعادت دارین پائے۔ اس واسطے ہم امیدوار ہیں۔ رخصت فرمائیے تو گل بکاؤلی کی تلاش کو نکلیں۔ بادشاہ نے فرمایا کہ ایک تو آگے ہی میں اپنی آنکھیں کھو بیٹھا ہوں، نور چشم کو رو بیٹھا ہوں، وہ داغ اب تک جگر سے نہیں گیا۔ جو چشم و چراغ ہیں ان کو برباد کس طرح ہونے دوں؟ یہ صدمہ دیدہ و دانستہ دل پر لوں۔ شہزادوں نے پھر مکرر عرض کی تب چار و ناچار بادشاہ نے رخصت دی اور وزیروں سے فرمایا کہ جو اسباب سفر کا چاہیے مہیا کرو۔ چنانچہ انہوں نے بموجب حکم کے نقد و جنس و دواب و لشکر سے لے کر جتنا درکار تھا موجود کر دیا۔ تب بادشاہ سے رخصت ہو کر شہزادوں نے اپنا راستہ لیا۔ شہزادے منزل بمنزل جاتے تھے۔ اتفاقاً تاج الملوک کہ جس کو باپ نے شہر بدر کیا تھا، دشت آوارگی کو قدم پریشانی سے ناپتے ناپتے ان سے دوچار ہوا۔ کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کہاں جاتے ہیں۔ اس نے بادشاہ کے اندھے ہونے کا اور سبب ان کے سفر کا گل بکاؤلی کی تلاش کے واسطے تاج الملوک سے بیان کیا۔
شہزادے نے دل میں کہا: ؏
کہ اٹھ بخت کو تو بھی اب آزما
مصلحت نیک تو یہ ہے کہ میں بھی بھائیوں کے ہمراہ گل بکاؤلی کی جستجو کروں اور اپنے زر قسمت کو محکِّ امتحان پر کسوں۔ اس میں اگر دامن کو گلِ مراد سے بھروں تو فھو المراد، نہیں تو اس وسیلے سے باپ کے ملک سے باہر نکلوں۔ یہ دل میں ٹھان کر ایک سردار کے پاس کہ نام اس کا سعید تھا، گیا اور بہ ادب اسلام کیا۔ اس کی نظر جو شہزادے پر پڑی تو دیکھا کہ اس کے گالوں کی چمک خورشید کی روشنی کے ساتھ برابری کر رہی ہے اور چاند سی پیشانی زلفِ شب رنگ کے پہلو میں ماہِ تمام کی طرح جلوہ گر ہے۔ پوچھا تم کون ہو اور کہاں سے آنا ہوا۔ تاج الملوک نے عرض کی کہ میں بیچارہ غریب مسافر ہوں اور بیکس و آشفتہ خاطر ہوں۔ نہ کوئی غمگسار ہے کہ غمخواری کرے، نہ یار ہے کہ شرط یاری بجا لائے، نہ کوئی مددگار ہے کہ مددگاری کرے۔ سعید نے اس یوسف ثانی کی شیریں زبانی سے محظوظ ہو کر بصد آرزو و خواہش اپنی رفاقت میں رکھا اور ہر روز عنایت زیادہ کرتا۔
کہتے ہیں کہ شہزادے ایک مدت کے بعد شہر فردوس میں کہ تخت نشین وہاں کا رضوان شاہ تھا، پہنچے اور شام کے وقت دریا کے کنارے اس ارادے سے کہ چند روز یہاں ٹھہریں، خیمے ایستادہ کیے۔ جب مسافر آفتاب ملک مغرب کی سیر کو گرم رفتار ہوا اور سیّاح ماہتاب رات کے مشکی گھوڑے پر سوار ہو کر مشرق کی طرف سے باگ اٹھا کر چلا تب چاروں شہزادے اپنے اپنے سمند باد رفتار پر سوار ہو کر بطریق سیر شہر میں آئے اور ادھر ادھر گشت کرنے لگے۔ اس میں ایک محل منقّش اور مکلف کہ جس کے جا بجا دروازوں پر زردوزی کے پردے پڑے ہوئے تھے نظر آیا۔
وہاں کے باشندوں میں سے ایک سے پوچھا کہ یہ مکان عالیشان کس کا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کی مالک دلبر لکھا بیسوا ہے۔ شہزادوں نے کہا، اللہ اکبر! یہ محل بادشاہی اس نے کہاں سے پایا۔ وہ شخص پھر کہنے لگا کہ یہ رنڈی اس زمانے میں یکتا ہے اور ملاحت میں بے ہمتا۔ شہرہ آفاق، اپنے کام میں طاق، رعنائی اور زیبائی میں نہایت دلجو، خوبی اور دلربائی میں بغایت خوب رو، چشم خورشید مدام اس کی شمع جمال پر پروانے کی طرح شیدا اور چہرۂ ماہتاب دوام اس کے مکھڑے پر فدا۔
کسی نے راہ میں اس کے اگر قدم مارا
تو اپنی عقل کی فہرست پر قلم مارا
اسی نے تج دیا ناموس و ننگ کو اپنے
کہ جس نے دزہ بھی خواہش میں اس کے دم مارا
صاحبانِ مباشرت کے واسطے ایک نقارہ مع چوب اس نے اپنے دروازے پر رکھا ہے، جو کوئی اسے جا کر بجائے وہ عیارہ زمانے کی اسے گھر میں بلائے اور لاکھ روپے لے، تب اس سے ملے۔ شہزادے کہ اپنے مال و دولت پر نہایت مغرور تھے، نشۂ بادۂ نخوت سے چور تھے، نشانِ ہمت اس کے میدان شوق میں بلند کر کے دروازے پر گئے اور جاتے ہی بے تحاشا نقارہ بجا دیا۔
سنتے ہی اس مکارۂ دوراں نے دل میں کہا کہ الحمد للہ مدت مدید کے بعد کسی ایسے نیک بخت نے میرے گھر کا قصد کیا۔ چاہیے کہ میرے حجرے کو روشن کرے اور ایسے موٹے تازے شکار نے میرے جال میں آنے کا ارادہ کیا، اغلب ہے کہ دام میں پھنسے، پھڑک پھڑک کر مرے۔ نقل مشہور ہے کہ یہ طائفہ اسی تردد میں رہتا ہے کہ کوئی عقل کا اندھا گانٹھ کا پورا ملے، سو خدا نے ویسے ہی شخص بھیج دیے۔ جھٹ پٹ بناؤ سنگار کر کے زیور مرصع، لعل، موتی، ہیرا، زمرد جا بجا موقعے سے پہن کر بڑی آن بان سے بن ٹھن کر بیٹھی۔ یہ بھی اس میں آ پہنچے۔ چند قدم استقبال کر کے ہر ایک کو سونے کی کرسی پر بٹھایا۔
اتنے میں کچھ رات گئی کہ ساقیانِ گل عذار شیشۂ شراب اور ساغرِ زرنگار لیے حضور میں آئے اور جام کو گردش میں لائے۔ اسی طرح آدھی رات گئی، تب اس عیار نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو تختہ نرد منگواؤں، باقی رات اس شغل میں بسر ہو کر سحر ہو۔ شہزادوں نے کہا کہ منگواؤ، اس سے کیا بہتر۔
مکارہ نے ایک بلی کے سر پر چراغ رکھا اور لاکھ روپے کی بازی بد کر کھیلنے لگی۔
لکھنے والے نے یوں لکھا ہے کہ شہزادوں نے اس آدھی رات کے عرصہ میں پچاس لاکھ روپے ہارے۔ اس میں خورشید گردوں زمردی تختے پر نمودار ہوا اور سمیں مہرۂ ماہ اپنے گھر گیا۔ اس مکر ہائی نے بھی بساط بازی لپیٹی۔ شہزادے اپنے مکانوں کو گئے۔ دوسرے روز جب آفتاب سیاحوں کی طرح مغرب کی منزل میں پہنچا اور ماہتاب بادشاہوں کی صورت سپاہِ انجم کو لیے تخت فیروزہ رنگ پر رونق بخش ہوا۔ شہزادے اُسی آن بان سے اس کے مکان میں آئے اور بدستور سونے کی چوکیوں پر اجلاس فرمایا۔ حور لقا لونڈیاں خدمت میں آ کر حاضر ہوئیں اور طرح طرح کا کھانا سونے چاندی کے خوانوں میں لا کر دسترخوانوں پر چُن دیا۔
بعد تناولِ طعام تختۂ نرد منگوا کر دس لاکھ روپے کی بازی بد کر کھیلنے لگے۔ غرض اُس رات کو سب مال و متاع، نقد و جنس، ہاتھی گھوڑے، اونٹ وغیرہ جس قدر کہ رکھتے تھے ہار گئے۔ تب اس مکّارہ نے بازی سے ہاتھ کھینچ کر کہا ’’اے جوانو! تمہارا سرمایہ آخر ہو چکا، اب بساط بازی لپیٹو، اپنے گھر کی راہ لو‘‘۔
شہزادوں نے کہا کہ اب کی بار ہم زرِ طالع کو ترازوئے امتحان میں تولیں۔ اگر ہمارے بخت کا پلہ جھکے تو اپنی ہاری ہوئی سب نقد و جنس کہ گرہ میں تو نے باندھی ہے، کھول لیں۔ نہیں تو ہم چاروں تیرے فرماں بردار ہیں، غلام ہو کر رہیں۔ کچھ نہ بولیں۔
جب یہ قول و قرار ٹھہرا تب اُس اُچھال چھکّا نے طُرفۃ العین میں وہ بھی بازی جیت لی اور بہت اسباب نقد و جنس اپنی سرکار میں داخل کیا۔ ان کو قیدیوں کے سلسلہ میں کہ ویسے سیکڑوں تھے بھیج دیا۔ لشکر اور سپاہ اور رفیق اُن کے گل خزاں دیدہ کے پتوں کی طرح درہم برہم ہو گئے۔
تاج الملوک نے دل سے مصلحت کی کہ اب کچھ ایسی حکمت کیا چاہیے جو اُن کی خلاصی کا سبب ہو۔ مجھ سے جو یہ کام نمایاں ہو، دنیا میں نام ہو، آخرت میں اجر فراواں ہو۔
یہ دل میں سوچ کر شہر میں آ ایک امیر کے درِ دولت پر جا کر دربانوں سے کہا: ’’مسافرہوں بے خانماں، کسی قدر دان امیر کو ڈھونڈتا ہوں۔ تمہارے صاحب کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ پسندیدہ سن کر آیا ہوں، اگر بندہ کو اپنی بندگی میں لیں اور بندہ نوازی فرمائیں، بہ دل و جان خدمت بجا لاؤں۔‘‘
ان میں سے ایک نے جا کر امیر کی خدمت میں شہزادے کی کیفیت بیان کی۔ فرمایا ’’اسے حاضر کر!‘‘ وہ لے گیا، امیر نے اُس کے منہ کو دیکھ کر کہا ’’یا الٰہی! کیا آفتاب چوتھے آسمان سے انسان کے قالب میں آیا یا کوئی غِلمان بہشتِ بریں سے؟‘‘
پیشانیِ نازنین پہ اس کے
چمکے تھا ستارۂ بلندی
غرض کہ امیر نے اس کو اپنی خدمت میں سرفراز کیا۔