’دَخمہ‘ مجموعے کا دیباچہ
بیگ احساس کا ’دَخمہ‘
از قلم
مرزا حامد بیگ
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
اقتباس
بیگ احساس کے افسانوں کے تیسرے مجموعے ’’دَخمہ‘‘ کے سارے کے سارے افسانے، افسانہ نگار کی اس انوکھی تدبیر کاری کی عطا ہیں، جسے بیسویں صدی کے ساتویں دہے سے مخصوص جدیدیت کے تحریک کے رد میں اٹھنے والی آوازوں کا ردّ عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور تخلیقی سطح پر جینے کا جتن بھی۔ وہ یوں کہ بیگ احساس کا تعلق بھی ستر ہی کے دہے سے ہے، لیکن وہ جدیدیت کی تحریک سے الگ تھلک رہے۔ نہ ’شب خون‘ الہ آباد میں دکھائی دئیے، نہ اوراق، لاہور میں لیکن انھیں صرف و محض سادہ بیانیہ کبھی نہیں بھایا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے سیدھے سبھاؤ تشکیل دئیے گئے بیانیہ کے اندر پرت در پرت کئی ایک تہیں جما کر کامل علامتی، استعاراتی، کیوبسٹک اور تجریدی افسانہ لکھنے کی بجائے ایک ایسا تہہ دار بیانیہ تشکیل دیا، جس میں معنویت کی کئی ایک پرتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
بیگ احساس کے اس جتن کو قدرے پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑے گا، جب ستّر کے دہے میں میرے ہم راہی: رشید امجد، منشا یاد، اسد محمد خاں، ظہور الحق شیخ، مظہر الاسلام، احمد داؤد، علی تنہا، ذکاء الرحمن پاکستان میں اور سلام بن رزاق، نیر مسعود، قمر احسن، انور قمر، علی امام اور عبد الصمد بھارت میں، علامتی، استعاراتی، اور تجریدی افسانہ لکھ رہے تھے۔ تب ترقی پسند تحریک کی نمائندہ آواز عصمت چغتائی نے استہزایہ:’’سانپ کے تلوے‘‘ اور غیر وابستہ افسانہ نگاروں کے سرخیل ممتاز مفتی نے افسانہ ’’کٹ پیس‘‘ لکھ کر ہم لوگوں کا مضحکہ اڑایا تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے مجلہ ’’فنون‘‘ لاہور میں سیفٹی والو لگا رکھا تھا، علامت، استعارے اور تجرید پر اور ہمارے افسانوں کے مقابل انھیں تیسرے درجے کے سادہ بیانیہ افسانے مرغوب تھے۔ یہی کچھ نقوش، لاہور اور ’نیا دور‘ کراچی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ہمارے افسانوں کی اگر پذیرائی ہوئی تو ’شب خون‘ الہٰ آباد، اوراق، لاہور، سیپ، کراچی اور نئی قدریں، حیدرآباد (سندھ) میں۔ یا پھر، جواز، مالیگاؤں، شاعر، ممبئی، تحریک، دہلی، اسلوب، سہسرام، تخلیقی ادب، کراچی اور جہات، سری نگر نے اردو افسانے میں تکنیکی تجربات کو کھلے دل سے قبول کیا۔ اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے گریٹ ماسٹرز کے چیدہ کام اور پانچویں چھٹے دہوں کے افسانہ نگاروں کے انگلیوں پر گنے جا سکنے والے افسانوں ’’چاپ‘‘ (رام لعل) ’سائے اور ہمسائے‘ اور پرندہ پکڑ نے والی گاڑی (غیاث احمد گدّی)، بیلا نائی رے جولدی جولدی، اور ڈاب اور بیئر کی ٹھنڈی بوتل (مسعودا شعر)، سوکھے ساون، اور پچھم سے چلی پُروا (ضمیر الدین احمد)، کو چھوڑ کر جدید افسانہ اس دور کے بڑے بڑے ناموں کو کھا گیا۔ اکثر نے تو لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب جدید افسانے کے سب سے بڑے اعتراض کنندہ ممتاز مفتی نے ’’چکٹ گاڑی‘،ہونکتا ہوٹر اور موم بتی‘‘ کے عنوان سے پہلا علامتی اور تجریدی افسانہ قلم بند کیا، جو جدید ادب، خان پور کے افسانہ نمبر بابت فروری ۱۹۸۰ء میں رشید امجد، احمد داؤد اور میرے ا فسانوں کے ساتھ شائع ہوا۔ اس افسانے کے بعد انھوں نے ’’چوہا‘‘ اور ’’روغنی پتلے‘‘ کے عنوانات سے دو علامتی افسانے اور لکھے اسی طرح احمد ندیم قاسمی نے اپنا پہلا علامتی افسانہ ’’پہاڑ‘‘ کے عنوان سے لکھا جو ان کے آخری افسانوں میں سے ایک ہے۔ اشفاق احمد کے تین علامتی افسانے’’قصہ نل دمنتی‘‘، ’’بندر لوگ‘‘ اور ’’قصاص‘‘ لکھے۔ رحمان مذنب کا’’ خوشبو دار عورتیں‘‘ اور بانو قدسیہ کا ’’انتر ہوت اداسی‘‘ بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ صرف و محض ناقدین سے ڈر کر تخلیق کار نئے امکانات سے ہاتھ کیسے روک لیتا ہے۔ بیسویں صدی کے آٹھویں دہے کے بعد ایسا کچھ بھی دیکھنے کو ملا، جب ڈاکٹر جمیل جالبی کا علامتی، استعاراتی اور تجریدی افسانے کے خلاف ’’اوراق‘‘ لاہور میں شائع شدہ واحد مضمون شائع ہوا، جس میں ابلاغ کے عنقا ہو جانے کا دکھڑا اس شد و مد کے ساتھ رویا گیا کہ افسانہ بھوسے کا ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ کثیر العباد افسانے کی جگہ سیدھی سادہ کہانی سے مخصوص یک سطحی سادہ بیانیہ نے لے لی۔ جب کہ آٹھویں دہے سے متعلق ایک استثنائی مثال سید محمد اشرف (افسانوی مجموعہ’’ باد صبا کا انتظار‘‘) کی ہے۔ سبحان اللہ! کیا افسانے لکھے انھوں نے کہانی پن کی جستجو میں دُبلے ہو جانے والے افسانہ نگار، جید ناقدین کو لبھانے کی خاطر یک سطحی سادہ بیانہ لکھ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ انھیں صرف و محض زبانی شابشی ہی میسر آئے گی اس لیے کہ کوئی بھی ناقد بھوسے کے ڈھیر پر مہر تصدیق کرے تو کیسے؟
بیگ احساس کے افسانوں پر بات کرنے سے پہلے یہ چند معروضات اس لیے بھی ضروری خیال کیں کہ ساتویں دہے میں اپنے عروج کو پہنچ جانے والی جدیدیت کی تحریک اور بیسویں صدی کے آٹھویں دہے کے وسط تا حال اسے رد کرنے والے پینتیس سالہ دورانیے کے تجزیہ میں آسانی رہے۔