"دَخمہ” مجموعے سے ایک طویل کہانی
نمی دانم کہ ۔۔۔
از قلم
بیگ احساس
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
اقتباس
شہر کے اس علاقے میں آنے سے وہ گریز کرتا تھا۔ کافی بھیڑ ہوتی تھی۔ اکثر ٹریفک جام ہو جاتا، سواریاں رینگنے لگتیں۔ شہر کا مرکزی ریلوے اسٹیشن بھی اسی علاقے میں تھا۔ اسٹیشن پر تو ’’حیدر آباد‘‘ کے بورڈ لگے تھے لیکن وہ ’’نام پلی‘‘ کہلاتا تھا۔ اکثر باہر سے آنے والے کنفیوز ہو جاتے۔ ایک بار ابّا کے دوست نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا یہ کیا نام ہوا ’’نام پلی‘‘ … … …!!
’’یہ نام ہماری ملی جلی تہذیب کی علامت ہے‘‘ ابّا نے سنجیدگی سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا تھا۔ ’’عبد اللہ قطب شاہ کے دیوان سلطنت رضا قلی کا خطاب ’’نیک نام خاں‘‘ تھا۔ یہ علاقہ ان کی جاگیر تھا۔ عوام نے ان کے خطاب سے ’’نام‘‘ لیا اور تلگو کا لفظ پلّی جوڑ دیا۔ ’’نام پلی‘‘ … …..!! شہر میں ایسے کئی محلے ہیں۔ تاریخی شہروں کا اپنا ایک الگ کردار ہوتا ہے‘‘ ابّا کے دوست کھسیانے ہو گئے تھے انھوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ ابّا اتنا سنجیدہ ہو جائیں گے۔ ’’سرکار چاہے کسی نام کے بورڈ لگا دے عوامی نام نہیں بدلتے …‘‘
سہ راہے سے وہ درگاہ کے راستے پر مڑ گیا۔ بے پناہ ہجوم تھا۔ دونوں جانب لاج تھے۔ معمولی درجے کی ہوٹلیں، چائے کے علاوہ لقمی کباب، سموسے، عثمانیہ بسکٹ، چاول کے ساتھ دال فری ملتی تھی۔ دوسری جانب آٹو رکشا کے رپیرنگ سینٹر تھے یہاں ڈینٹنگ کی جاتی تھی۔ نمبر پلٹیں بنائی جاتیں۔ اکثر ڈرائیور آٹو کے عقبی حصے پر اپنے ذوق کا کوئی شعر لکھوا لیتے۔ کچھ ’’ماں کی دعا‘‘ پر ہی اکتفا کر لیتے۔ اندرونی حصے میں دونوں جانب اداکاروں و اداکاراؤں کی تصویریں لگوائی جاتیں۔
وہ اسکوٹر سے اتر گیا اور اسکوٹر کا ہینڈل تھامے پیدل چلنے لگا۔ سامنے درگاہ کا باب الداخلہ تھا۔ اس نے اسکوٹر حفاظت میں رکھوا دیا۔ ایک ہجوم تھا۔ جمعرات کا دن تھا۔ درگاہ کے احاطے میں قدم رکھتے ہی وہاں بیٹھے فقیر آوازیں لگانے لگے ’’جوتا یہاں چھوڑ کے جاؤ صاب‘‘ … …. اس نے جوتے بھی رکھوا دیے۔ فرش پر ننگے پیر چلنے میں بڑا تکلف ہو رہا تھا۔ بڑا گندا فرش تھا۔ اس کی نفاست پسند طبیعت پر بہت بار گزر رہا تھا۔ آگے بڑھتے ہی ایک شور بلند ہوا۔ ’’صاب پھول چاہیے … …؟ ہر دکان دار اسے اپنی طرف ہلا رہا تھا۔ وہ گھبرا گیا۔ ’’مجھے حضت قبلہ سے ملنا ہے‘‘ اس نے ایک شخص سے کہا۔ اس نے عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’انوں تو مغرب کے بادچ ملیں گے، آپ پہلے پھولاں چڑھا کے آئیے‘‘ اس نے اس کے ہاتھوں میں پورا پیکیج تھما دیا۔ اگر بتیاں، نقل کا پیکٹ، پھولوں کی چادر … …! جتنے پیسے اس شخص نے مانگے اس نے دے دئیے۔ مزار کے اطراف کافی لوگ تھے۔ ہر مذہب کے افراد تھے۔ پورا احاطہ عود اور لوبان کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ مزار کے قریب کھڑے باریش آدمی نے وہ ساری چیزیں لے لیں۔ مزار پر چادر چڑھا دی، اگر بتیاں سلگا دیں وہ ایک طرف چپ چاپ کھڑا رہا۔ کچھ لوگ بڑی عقیدت سے فاتحہ پڑھ رہے تھے کچھ لوگ مزار کا غلاف ذرا سا ہٹا کر ماتھا ٹیک رہے تھے۔ اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے آنکھیں موند لیں۔
’’مجھے مکان واپس دلوا دیجئے‘‘ یہی ایک جملہ وہ بار بار دہرانے لگا … …. قریب سے اذان کی آواز آئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ ’تبرک لے لو میاں‘‘ باریش آدمی نے نُقل کا کھلا ہوا پیکٹ اور پھول کی پتیاں اسے پکڑا دیں۔ وہ جلدی سے باہر آ گیا۔ اذاں کی آواز سن کر وہ سارا ہجوم مسجد میں سمٹ آئے گا اس نے سوچا اور تیزی سے مسجد میں داخل ہو گیا۔ ادھر اُدھر سے کچھ لوگ آ گئے۔ تین چار صفیں بنیں۔ مزار کے اطراف بے پناہ ہجوم تھا۔ خود اس نے کتنے عرصہ بعد با جماعت نماز پڑھی تھی اسے یاد بھی نہیں تھا۔ نماز کے بعد اس نے وہی دعا دہرائی ’’وہ مکان واپس دلوا دیجئے، میرے پروردگار۔ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ مالک۔‘‘ اس نے گڑگڑا کر دعا کی … … جب مسجد سے سب نکل گئے تو اس نے ایک شخص سے پوچھا ’’حضرت قبلہ کہاں ہیں؟ اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ ایک اونچا چبوترا تھا۔ وہاں کچھ فقیر دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔ چلم کے کش لگا رہے تھے۔ ان ہی میں حضرت قبلہ بھی تھے۔ نورانی چہرہ، نیم وا آنکھیں، لمبی داڑھی، کندھوں تک بالوں کی لٹیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ قریب سے انھیں دیکھنے لگا۔
الکلّ فی الکلّ … …. ولایت عبارت از فنا و بقا است‘‘
وہ دھیرے دھیرے کہہ رہے تھے۔ وہ سب کسی ذکر میں مصروف تھے۔ حضرت قبلہ نے ایک لمبا کش بھرا … … اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔ فقیروں میں سے کوئی نہیں اٹھا۔ ایک طرف تیز قدموں سے چلنے لگے جہاں قوالی ہو رہی تھی۔ قوال عجیب کیفیت میں یہ شعر بار بار دہرا رہا تھا۔
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم پہ ایں شوقے کہ پیش یار می رقصم
قوالی سننے والوں نے ان کے لیے راستہ بنایا۔ وہ اگلی صف میں قوالوں کے روبرو بیٹھ گئے۔ قوالوں نے ادب سے سلام کیا۔ محفل میں جان پڑ گئی۔ قوالی سننے والوں میں سے کسی پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی وہ جھومنے لگتا۔ حضرت قبلہ کا ہاتھ چھوا کر قوالوں کو نذرانہ پیش کیا جا رہا تھا۔ وہ وہیں بیٹھ کر حضرت قبلہ کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ کافی رات تک قوالی چلتی رہی۔ حضرت قبلہ اٹھے تو ان کے پیچھے مریدوں کا حلقہ بھی چلا۔ وہ تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنے مکان میں چلے گئے۔ وہ منھ دیکھتا رہ گیا۔