عربی قرآنی تفسیروں میں اہم
تفسیر جلالین( اردو)، جلد اول
سورۃ الفاتحہ تا النساء
جلال الدین السیوطی اور جلال الدین المحلّی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
سورۃ الفاتحہ
سورۃ فاتحہ مکی ہے، مع بسم اللہ سات آیتیں ہیں۔
قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ
تسمیہ: سورۃ کے لفظی معنی بلندی یا بلند منزل کے ہیں، السُّوْرَۃُ: الرفیعۃ (لسان) السورۃ المنزلۃ الرفیعۃ (راغب) گویا ہر سورت بلند مرتبہ کا نام ہے، سورۃ کے ایک معنی فصیل (شہر پناہ) کے ہیں، سورۃ المدینۃ، حَائطُھَا (راغب) قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مضامین کا اسی طرح احاطہ کئے رہتی ہیں جس طرح فصیل شہر کا احاطہ کئے رہتی ہے۔
الفاتحۃ: فاتحۃ کے لفظی معنی ہیں ابتداء کرنے والی، قرآن مجید کی اس پہلی سورت کو بھی فاتحہ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے، گویا کہ یہ دیباچہ قرآن ہے، قرآنی سورتوں کے نام بھی توقیفی ہیں اور ایک ایک سورت کے کے کئی کئی نام بھی ہیں، (وقد ثَبَتَتْ جمیعُ اسماءِ السُوَرِ بِالتَوْقِیْفِ مِنَ الْاَحَادِیْثِ وَالْآثَارِ) (اتقان)
سورۃ الفاتحہ کے متعدد نام احادیث میں آئے ہیں، بعض حضرات نے ان کی تعداد بیس تک پہنچائی ہے، ان میں سے چند مشہور نام یہ ہیں۔
(۱) سورۃ الشفاء، (۲) سورۃ الوافیۃ، (۳) ام القرآن، (۴) سورۃ الکنز، (۵) الکافیہ، (۶) السبع المثانی۔
سورۃ فاتحہ کے فضائل و خصوصیات
سورۃ فاتحہ کی سب سے پہلی سورت ہے، اور مکمل سورت کی حیثیت سے نزول کے اعتبار سے بھی پہلی سورت ہے، غالباً اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۃ فاتحہ رکھا گیا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سورت ایک حیثیت سے پورے قرآن کا متن ہے اور پورا قرآن اس کی شرح، یہ سورت اپنے مضمون کے اعتبار سے ایک دعاء ہے، ایک طالب حق کو چاہیے کہ حق کی تلاش و جستجو کرتے وقت یہ دعاء بھی کرے کہ اسے صراط مستقیم کی ہدایت عطا ہو، دراصل یہ ایک دعاء ہے، جو ہر اس شخص کو سکھائی گئی ہے جو حق کا متلاشی ہو، اس بات کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن اور سورۃ فاتحہ کے درمیان صرف کتاب اور اس کے مقدمہ کا ساہی تعلق نہیں، بلکہ دعاء اور جواب دعاء کا سا بھی ہے، سورۃ فاتحہ بندے کی جانب سے ایک دعاء ہے، اور قرآن اس کا جواب ہے، خدا کی جناب میں، بندہ دعاء کرتا ہے کہ اے پروردگار! تو میری رہنمائی کر، جواب میں اللہ تعالیٰ پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت اور رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے
ایک تنبیہ: اس سورت کی ابتداء، الحمد للہ رب العالمین سے کر کے اس بات کی تعلیم دی گئ ہے کہ دعاء جب مانگو، تو مہذب طریقہ سے مانگو یہ کوئی تہذیب نہیں، کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کر دیا، تہذیب کا تقاضہ یہ ہے کہ جس سے دعاء کر رہے ہو پہلے اس کی خوبیوں کا، اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو پھر جو کچھ مانگنا ہو شوق سے مانگو۔
بسم اللہ سے متعلق مباحث: بسم اللہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا صرف سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے، یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے بلکہ ایک سورت کو دوسری سورت سے ممتاز کرنے کے لئے ہر سورت کے آغاز میں لکھی جاتی ہے؟ قراء مکہ و کوفہ نے اسے ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے، جب کہ قراء مدینہ بصرہ و شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا سوائے سورۃ نمل کی آیت ۳۰ کے کہ اس میں بالاتفاق بسم اللہ سورت کا جز ہے، اسی طرح جہری نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے میں بھی اختلاف ہے بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری آواز سے، امام ابو حنیفہؒ اور اکثر علماء سری آواز سے پڑھنے کو راجح قرار دیتے ہیں۔
سورۃ فاتحہ کے مضامین: سورۃ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے اور آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی آیت دونوں چیزوں میں مشترک ہے، اس میں کچھ حمد کا پہلو ہے اور کچھ دعاء و درخواست کا۔
اھدنا الصراط المستقیم یہ ایک بڑی اور جامع دعاء ہے جس چیز کی اس میں دعاء کی گئی ہے اس سے کوئی فرد بے نیاز نہیں، اور وہ ہے ’’صراط مستقیم‘‘ صراط مستقیم کی ہر کام میں ضرورت ہوتی ہے خواہ دین کا ہو یا دنیا کا، اب رہی یہ بات کہ وہ صراط مستقیم ہے کیا؟ اس کی نشاندہی اگلی آیت میں کی گئی ہے۔
صراط الذین انعمت علیھم یعنی ان لوگوں کا راستہ کہ جن میں افراط و تفریط نہ ہو، اور وہ، وہ لوگ ہیں جن پر تو نے انعام فرمایا، اور ان منعم علیہم کو ایک دوسری آیت ’’الَّذِیْنَ اَنَعَمَ اللہ عَلَیھم‘‘ (الآیۃ) میں بیان کیا گیا ہے یعنی وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا، یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، مقبولین بارگاہ کے یہ چار درجات ہیں جن میں سب سے اعلیٰ انبیاءؑ ہیں۔
اس آیت میں پہلے مثبت اور ایجابی طریق سے صراط مستقیم کو متعین کیا گیا ہے کہ ان چار طبقوں کے لوگ جس راستہ پر چلیں وہ صراط مستقیم ہے، اس کے بعد آخری آیت میں سلبی طریقہ پر اس کی تعین کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
غیر المغضوب علیھم ولا الضالین یعنی نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب نازل ہوا، اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے بھٹک گئے، مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین کے احکام کو جاننے پہچاننے کے باوجود شرارت یا نفسانی اغراض کی وجہ سے ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جیسا کہ عام طور پر یہود کا یہی حال تھا کہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاءؑ کی توہین کرتے تھے۔ اور ضالین سے وہ لوگ مراد ہیں جو ناواقفیت اور جہالت کے سبب دین کے معاملہ میں غلط راستہ پر پڑ گئے ہیں، جیسا کہ نصاریٰ کا عام طور پر یہی حال تھا کہ نبی کی تعظیم میں اتنے بڑھے کہ انہیں خدا بنا لیا، اور دوسری طرف یہ ظلم کہ اللہ کے نبیوں کی بات نہ مانی، بلکہ انہیں قتل کرنے تک سے گریز نہ کیا۔ (واللہ اعلم بالصواب)