عربی تفسیری کتب میں شامل ایک اہم تفسیر کا اردو ترجمہ
تفسیر جلالین (اردو)
جلد دوم، منزل دوم، مائدہ تا یونس
جلال الدین السیوطی، جلال الدین المحلّی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
۵۔ سورۃ المائدہ
ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے ایمان والو! معاہدوں کو پورا کرو یعنی ان محکم قول و قراروں کو پورا کرو جو تم نے اللہ سے اور انسانوں سے کئے ہیں، تمہارے لئے مویشی چوپایوں مثلاً اونٹ، گائے اور بکری (وغیرہ) کو ذبح کر کے کھانا حلال کر دیا گیا ہے، مگر وہ جانور حلال نہیں کئے گئے جن کی حرمت تم کو آئندہ آیت حرمت علیکم المیتۃ میں بتائی جا رہی ہے یہ استثناء منقطع ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ متصل ہو، اور تحریم موت وغیرہ کے عارض ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن حالت احرام میں شکار کو حلال نہ سمجھو یعنی جب تم محرم ہو، اور غیرَ، کم (کی طرف لوٹنے والی) ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اللہ تعالیٰ حلت (و حرمت) کے جو احکام چاہتا ہے حکم دیتا ہے، اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، حرم میں شکار کر کے اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو شعائر شعیرَۃٌ کی جمع ہے یعنی خدائی دین کی نشانی، اور نہ حرمت والے مہینے کی، اس میں قتل کر کے (بے حرمتی کرو) اور نہ ہدی کے جانوروں پر دست درازی کر کے ان کی بے حرمتی کرو، ہدی وہ مویشی جانور جس کو (قربانی کے لئے) حرم لے جایا جائے۔ اور نہ ان جانوروں پر دست درازی کرو جن کی گردنوں میں (نذر خداوندی کی علّامت کے طور پر حرم کے درخت کے پٹے) پڑے ہوں اور قتال کر کے نہ ان لوگوں کی بے حرمتی کرو جو بیت الحرام کے قصد سے جا رہے ہوں کہ اپنے رب کے فضل اور تجارت کے ذریعہ اپنے رب کے رزق کے اور بزعم خویش بیت اللہ کے قصد سے اس کی رضا مندی کے طالب ہوں، یہ حکم آیت برأت سے منسوخ ہے اور جب تم احرام سے فارغ ہو جاؤ تو شکار کی اجازت ہے (فاصطادوا) میں امر اباحت کے لئے ہے، اور ان لوگوں کی دشمنی کہ جنہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر قتل وغیرہ کے ذریعہ زیادتی کرو (شَنَاٰن) نون کے فتحہ اور سکون کے ساتھ بمعنی بغض ہے، اور نیکی پر اس کام کو کر کے جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے اور تقوے پر اس کام کو ترک کر کے جس سے تم کو منع کیا ہے ایک دوسروں کا تعاون کرتے رہو اور گناہ پر اور اللہ کی حدود میں زیادتی (کی باتوں میں) ایک دوسرے کا تعاون مت کرو (تعاونوا) میں اصل میں دو تاؤں میں سے ایک تاء محذوف ہے، اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہو بایں صورت کہ اس کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ اپنی مخالفت کرنے والے کو سخت سزا دینے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: المَائِدۃ، دستر خوان، جمع موائد۔ قولہ: بالُعُقُوْدِ، واحد عقد پختہ عہد مصدر ہے بطور اسم استعمال ہوا ہے۔
قولہ: بَھِیْمَۃُ، جمع بَھَائِم، مویشی چوپائے عرف عرب میں بھائم کا اطلاق درندو پرند کے علاوہ ہر حیوان پر ہوتا ہے بھیمۃ، ابھام سے ماخوذ ہے چونکہ چوپایوں کی آواز میں ابہام ہوتا ہے اسی وجہ سے ان کو بہائم کہا جاتا ہے۔
قولہ: انعام، واحد نَعْمٌ بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، اونٹ، انعام میں اونٹ کا شامل ہونا ضروری ہے بغیر اونٹ کی شمولیت کے انعام نہیں کہا جاتا، عرب کے نزدیک اونٹ چونکہ بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس کو نعم کہا جانے لگا۔
قولہ: اَکْلاً، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال: حلت و حرمت تو افعال کے اوصاف میں سے ہے یہاں ذات یعنی بہیمۃ الانعام کا وصف قرار دیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔
جواب: اکلاً محذوف مان کر اسی سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
قولہ: تَحْرِیْمُہٗ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بھیم، متلو اشیاء میں سے نہیں ہے؟ جواب: بھیمۃ متلو نہیں ہے بلکہ متلو تحریم بھیمۃ ہے۔
قولہ: فَالاِسْتِثْنَاء مُنْقِطعٌ، اس لئے کہ مستثنیٰ منہ جو کہ بھیمۃ الانعام ہے اور مستثنیٰ جو کہ ما یتلی علیکم ہے ایک جنس کے نہیں ہیں، مستثنیٰ منہ از قبیل ذوات ہے اور مستثنیٰ از قبیل الفاظ۔
قولہ: یَجُوْزُ ان یَّکُوْنَ مُتَّصِلاً، تقدیر مضاف کی صورت میں الا ما یتلی علیکم، احلت لکم بھیمۃ الانعام سے مستثنیٰ متصل ہو گا تقدیر عبارت یہ ہو گی ای اِلآَ محرم ما یتلی علیکم، اور محرم سے مراد میتۃ ہے۔
قولہ: لِمَا عَرَضَ مِنَ الْمَوْتِ، اس میں اشارہ ہے کہ انعام مذکورہ کی حرمت ذاتی نہیں بلکہ موت کی وجہ سے طاری ہے۔
قولہ: و انتم حُرُم یہ جملہ غیر محلِّی الصید کی ضمیر مستتر سے حال ہے جو لکم ضمیر کی طرف راجع ہے یعنی غیر محلِّی الصید ذوالجلال ہے اور وانتم حُرُم حال ہے۔ قولہ: وھذا مَنْسُوْخ بآ یَۃٍ بَرَآءۃ ’’وھی قولہ تعالی، اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم‘‘۔
تفسیر و تشریح
زمانہ نزول: مسند احمد اور طبرانی میں اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں سورۃ مائدہ کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں، اس شان نزول کی روایت کی سند میں اسماء بنت یزید کا پروردہ شہر بن حو شب ایک راوی ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف اور کثیر الارسال لکھا ہے، لیکن تقریب میں اس کو صدوق لکھا ہے شہر بن حو شب کی یہ روایت چونکہ اسماء بنت یزید سے ہے جو شہر بن حو شب کی پرورش کرنے والی ہیں، اس لئے اس سند میں ارسال کا احتمال بھی باقی نہیں رہتا، اس لئے کہ تابعی اگر واسطہ صحابی کے بغیر آنحضرتﷺ سے روایت کرے تو اس کو ارسال کہتے ہیں اور اس کی روایت کو مرسل کہتے ہیں اس سند میں وہ بات نہیں ہے۔
عقد: عقد کسے کہتے ہیں: تفسیر ابن جریر میں علی بن طلحہ کے واسطہ سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی جو روایت ہے اس میں حلال و حرام چیزوں کے جو احکام عہد کے طور پر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان ہی کو عقود کی تفسیر قرار دیا ہے۔
بھیمۃ الانعام: مویشی چوپایوں کو کہتے ہیں ان میں پالتو جانور اونٹ، گائے، بھیڑ بکری اور جنگلی شکار کر کے کھانے کے قابل جانور مثلاً نیل گائے، ہرن وغیرہ بھی داخل ہیں انعام کے مفہوم میں چوپائے درندے شامل نہیں ہیں اس لئے کہ عرب کے محاورے میں درندوں کے نام الگ الگ ہیں، اسی حکم کو بیان کرنے کے لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سب درندے چوپائے حرام ہیں، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت جابرؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرتﷺ نے درندے جانوروں کے حرام ہونے کا ارشاد فرمایا ہے، اسی طرح آپ نے پھاڑنے والے پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جس کے پنجے ہوتے ہیں، جو دوسرے جانوروں کو شکار کرتے ہیں یا مردار خور ہوتے ہیں ابن عباسؓ کی روایت میں ہے ’’نھی رسول اللہﷺ عن کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطر)‘‘۔
اِلآَ مَا یتلیٰ علیکم، کا مطلب ہے کہ آئندہ آیت ’’حرمت علیکم المیتۃ‘‘ میں جن جانوروں کا ذکر فرمایا ہے وہ حرام ہیں غیر محلی الصید وانتم حرم کا مطلب ہے کہ حاجیوں کو احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار حرام ہے غیر محلی الصید وانتم حرم کا مطلب ہے کہ حاجیوں کو احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار حرام ہے البتہ دریائی جانوروں کا شکار بحالت احرام روا ہے بعض جانوروں کے حلال اور بعض کے حرام کرنے کی مصلحت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، اللہ حاکم مطلق ہے اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے، بندوں کو اس کے حکم پر چوں وچرا کرنے کا حق نہیں، اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں لیکن بندہ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی پر مصلحت سمجھتا ہے بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔
شعائر کیا ہیں؟ ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا شعار کہلاتی ہے، کیونکہ وہ اس کے لئے علّامت یا نشانی کا کام دیتی ہے، سرکاری پرچم، فوج، پولیس وغیرہ کی وردی (یونیفارم) سکے اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں، اور وہ اپنے محکموں سے بلکہ جو بھی اس کے زیر اقتدار ہے اس سے احترام کا مطالبہ کرتی ہے گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے لئے، چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے لئے شعائر ہیں، کیس، کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہے یہ سب مسلک اپنے اپنے پیروؤں سے اپنے شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر کوئی شخص کسی نظام کے خلاف دشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اس نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔
شعائر اللہ کا احترام: شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہو جائے ان چند شعائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں، شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جاتا ہے جو عرفاً مسلمان ہونے کی علّامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں، جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ، اور سنت کے مطابق داڑھی، مگر صاف اور صحیح بات وہ ہے جو بحر محیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور علماء سے منقول ہے اور وہ یہ کہ شعائر اللہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں۔
احرام بھی من جملہ شعائر اللہ ہے، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بے حرمتی کرنا ہے۔
شان نزول: یٰایَّھَا الذین آمنوا لا تُحِلُّوْا شَعائر اللہ، (الآیۃ) ابن جریر نے عکرمہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص شریح بن ہند مدینہ آ کر مسلمان ہو گیا تھا اور اپنے وطن جا کر پھر مرتد ہو گیا، اس واقعہ کے ایک سال بعد اس نے حج کا قصد کیا صحابہ نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو شریح بن ہند کے ساتھ جو نیاز کعبہ کے جانور اور تجارت کا مال ہے اس کو لوٹ لیں، آپ نے فرمایا یہ کیونکر ہو سکتا ہے وہ تو نیاز کے جانور لے کر حج کے ارادہ سے جا رہا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مشرکین خود کو ملت ابراہیمی کا پابند سمجھ کر حالت شرک میں بھی حج کیا کرتے تھے، سورۃ برأت میں مشرکین کو حج بیت اللہ سے روکنے کے حکم سے پہلے روکنے کی ممانعت تھی، سورۃ برأت میں جب یہ حکم نازل ہوا کہ مشرکین نجس ہیں آئندہ سال سے وہ لوگ مسجد حرام کے پاس نہ آئیں جس سے سورۃ مائدہ کی اس آیت کا حکم منسوخ ہو گیا، ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے منسوخ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، مفسرین کی ایک جماعت اس آیت سے منسوخ ہونے کی قائل نہیں ہے، اور شاہ ولی اللہؒ تعالیٰ نے بھی فوز الکبیر میں اس آیت کے نسخ کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ حکم میں تخصیص قرار دیا ہے، یعنی پہلے مشرکین اور مسلمین سب کو حج کی اجازت تھی سورۃ برأت کے اس حکم سے تخصیص ہو گئی کہ آئندہ مشرکین مسجد حرام کے پاس نہ آیا کریں، اور شاہ صاحب تخصیص کو نسخ نہیں مانتے۔
حالت احرام میں محرم کے لئے خشکی کے جانوروں کے شکار کی ممانعت کر دی گئی تھی جو احرام سے فارغ ہونے کے بعد باقی رہی اور غیر محرم کا، محرم کو شکار کا گوشت دینا اور محرم کے لئے لینا اور کھانا جائز ہے بشرطیکہ محرم کی خاطر شکار نہ کیا گیا ہو اور محرم اس شکار میں اشارۃ یا دلالۃ شریک نہ ہو۔
شان نزول کا دوسرا واقعہ: بعض مفسرین نے مذکورہ آیت کے شان نزول میں ایک دوسرا واقعہ نقل کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
یمامہ کا ایک دولت مند حطیم نامی تاجر بڑے کر و فر کے ساتھ مدینہ آیا، ابھی یہ شخص مسجد نبوی تک نہ پہنچا تھا کہ آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا، تمہارے پاس قبیلہ یمامہ کا ایک شخص آ رہا ہے جو شیطان کی طرح باتیں بناتا ہے، ادھر حطیم نے یہ کیا کہ اہل قافلہ کو مدینہ کے باہر چھوڑ کر تنہا آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں ارشاد ہوا کہ خدائے پاک کو ایک ماننا محمدﷺ کو پیغمبر تسلیم کرنا، نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، حطیم نے عرض کیا کہ کچھ اور لوگ بھی میرے شریک معاملہ ہیں جن کے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا میں خود بھی اسلام قبول کر لوں گا اور بقیہ اصحاب کو بھی جناب کی خدمت میں حاضر کر دوں گا تاکہ وہ بھی مشرف باسلام ہو سکیں، گفتگو کے بعد جب یہ شخص باہر نکلا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ یہ شخص آیا تو تھا کافر ہو کر اور گیا ہے دھوکہ باز ہو کر، چنانچہ فوراً مع قافلہ واپس ہو گیا اور جاتے وقت مدینہ کی چراگاہ کے سارے مویشی ہانک لے گیا، اتنی تیزی سے واپس چلا گیا کہ تعاقب کے باوجود ہاتھ نہ آیا، اگلے سال آپؐ صحابہ کے ہمراہ عمرۃ القضا کے لئے تشریف لے جا رہے تھے تو راستہ میں یمامہ کے مشرک حاجیوں کے قافلہ کی آوازیں آئیں، آپ نے فرمایا یہ حطیم اور اس کے قافلہ والے آ رہے ہیں تحقیق سے یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ حطیم قافلہ کے ساتھ اس طرح مکہ جا رہا تھا کہ مشرک حاجیوں کا ایک ہجوم ہے اور اونٹوں پر تجارتی سامان لدا ہوا ہے جو جانور مدینہ سے لوٹ کر لایا تھا ان کے گلے میں پٹے ڈال کر کعبۃ اللہ کی نذر کے لئے ہدی بنا کر لے جا رہا ہے۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اگر ہمیں اجازت ملے تو ہم اس دغا باز کو مزا چکھا دیں اور اپنے مویشی واپس لے لیں۔ ارشاد ہوا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ خود حاجی بن کر جا رہا ہے اور جانور نیاز بیت کے لئے لے جا رہا ہے آپ نے صحابہ کو اس کی اجازت نہ دی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ھدایت القرآن ملخصا)
آیت نمبر ۳ تا ۵
ترجمہ: تمہارے لئے مردار اور بہنے والا خون (حرام کر دیا گیا ہے) جیسا کہ سورۃ انعام میں مذکور ہے، اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر (بوقت ذبح) غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو بایں صورت کہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، کا کھانا حرام کر دیا گیا ہے اور گلا گھٹ کر مرا ہوا جانور اور چوٹ کھا کر مرا ہوا جانور اور اوپر سے گر کر مرا ہو جانور، اور وہ جانور جو دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور وہ جانور کہ جس میں سے درندہ نے کھا لیا ہو (کھانا حرام کر دیا گیا ہے) الا یہ کہ تم نے اس کو ذبح کر لیا ہو (تو وہ حرام نہیں ہے) اور وہ جانور جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو نصب، نصاب کی جمع ہے اور وہ بت ہیں (حرام کر دیا گیا ہے) اور پانسوں کے ذریعہ قسمت آزمائی کرنا اور نتیجہ معلوم کرنا (حرام کر دیا گیا ہے) ازلام، زلم کی جمع ہے زاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ مع لام کے فتحہ کے قدح چھوٹا تیر جس میں نہ پر لگے ہوں اور نہ اس میں انّی ہو، قدح قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے اور وہ سات تیر تھے جو بیت اللہ کے خادم کے پاس رہا کرتے تھے، ان پر علّامتیں لگی رہتی تھیں ان سے جواب مانگا کرتے تھے (فال لیا کرتے تھے) اگر وہ ان کو اجازت دیتے تو اس کام کو کرتے اور اگر جواب ممانعت میں نکلتا تو نہ کرتے، یہ فسق ہے یعنی اطاعت سے خروج ہے، اور (آئندہ آیت) حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں نازل ہوئی، اب کافر تمہارے دین (اسلام) سے مرتد ہونے کے بارے میں خواہش رکھنے کے باوجود مایوس ہو چکے ہیں، اس لئے کہ وہ اس دین کی قوت دیکھ چکے ہیں، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین (یعنی) اس کے احکام و فرائض کو مکمل کر دیا چنانچہ اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا اور تم پر میں نے دین مکمل کر کے اپنا انعام تام کر دیا اور کہا گیا ہے کہ مکہ میں مامون طریقہ پر داخل کر کے (انعام تام کر دیا) اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا، پس جو شخص شدت بھوک سے بیتاب ہو اس کے لئے حرام کردہ چیزوں میں کچھ کھا لینا تو مباح ہے۔ بشرطیکہ معصیت کی جانب میلان نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے کھانے کو معاف کرنے والا ہے، اور اس کے لئے اس (کھانے کو) مباح کر کے رحم کرنے والا ہے، بخلاف اس شخص کے کہ جو معصیت کی طرف مائل ہو یعنی (معصیت) کا مرتکب ہو، جیسا کہ راہ زن، باغی، مثلاً، تو اس شخص کے لئے (مذکورہ چیزوں) میں سے کھانا حلال نہیں ہے، اے محمدﷺ آپ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سا کھانا حلال کیا گیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے تمہارے لئے پاکیزہ لذیذ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار جن کو تم نے سدھایا ہے خواہ کتے ہوں یا درندے یا پرندے، بشرطیکہ تم ان کو شکار کے پیچھے چھوڑو (مکلبین) علمتم، کی ضمیر سے حال ہے، اور کلبت الکلب بالتشدید سے ماخوذ ہے ای ارسلت علی الصید حال یہ کہ تم نے اللہ کے سکھائے ہوئے آداب صید میں سے ان کو سکھایا ہو (تعلمونھن) مکلبین کی ضمیر سے حال ہے، ای تؤدبونھن، تو تم اس شکار کو کھا سکتے ہو جو اس نے تمہارے لئے کیا ہے، اگرچہ اس کو مار ڈالا ہو بشرطیکہ اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو، بخلاف بغیر سدھے ہوئے شکاری جانور کے کہ اس کا کیا ہوا شکار حلال نہیں ہے، اور سدھے ہوئے کی پہچان یہ ہے کہ جب اس کو شکار کے پیچھے دوڑایا جائے تو دوڑ پڑے اور جب روکا جائے تو رک جائے، اور شکار کو پکڑ کر اس سے کچھ کھائے نہیں، اور کم سے کم علّامت کہ جس کے ذریعہ جانور کا معلم ہونا معلوم ہو تین بار (شکار کے پیچھے) چھوڑنا ہے، اگر شکاری جانور نے اس شکار سے کچھ کھا لیا تو سمجھ لو کہ یہ اس نے اپنے مالک کے لئے نہیں پکڑا لہٰذا ایسی صورت میں اس شکار کا کھانا حلال نہیں ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے اور اس میں ہے کہ تیر سے کیا ہوا شکار جبکہ تیر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہی ہو تو یہ تیر کا شکار شکاری جانور کے شکار کے مانند (حلال) ہے اور صید معلم کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ جلد حساب لینے والا ہے، آج تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے یعنی یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال کر دیا گیا اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاکدامن مومن عورتیں اور اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کی آزاد عورتیں تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں یعنی تمہارے لئے ان سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ تم ان کے مہر ادا کر دو، حال یہ کہ تم ان سے نکاح کرنے والے ہو، نہ کہ ان سے اعلانیہ (زنا کے ذریعہ) شہوت رانی کرنے والے اور نہ پوشیدہ طور پر ان سے آشنائی کرنے والے کہ ان سے زنا کو چھپانے والے ہو اور جو شخص ایمان کا منکر ہوا یعنی مرتد ہو گیا تو اس کے سابقہ اعمال صالحہ ضائع ہو گئے لہٰذا وہ کسی شمار میں نہ ہوں گے اور نہ ان پر اجر دیا جائے گا، اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہو گا جبکہ وہ ارتداد ہی پر فوت ہوا ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: المَیْتَۃ، اسم صفت ہے، مردار، وہ جانور جو بلا ذبح شرعی کسی حادثہ یا طبعی موت سے مر جائے۔
قولہ: اَکْلھُا، مضاف محذوف مان کر اشارہ کر دیا کہ حلت و حرمت کا تعلق افعال سے ہوتا ہے نہ کہ ذات سے۔
قولہ: اَلمنخَنِقَۃ، اسم فاعل واحد مؤنث (اِنْخِنَاق، انفعال) خَنِقًا (ن) گلا گھونٹنا۔
قولہ: اُھِلَّ، اَلْاِھْلال رفع الصوت، لغیر اللہ بہ میں لام بمعنی باء اور باء بمعنی عند، المعنی، مارفع الصوت عند ذکاتہ باسم غیر اللہ۔
قولہ: المَوْقُوْذَۃُ وَقذ (ض) اسم مفعول واحد مؤنث، چوٹ کھا کر مرا ہوا۔
قولہ: المُتَرَدِّیۃُ اسم فاعل واحد مؤنث تَرَدّی (تفعل) اونچائی سے گر کر مرنے والا جانور۔
قولہ: النَطِیْحَۃُ صیغہ صفت بروزن فَعِیْلۃ بمعنی منطوحَۃ نطع (ف، ن) وہ بکری جو دوسرے کے سینگ کی چوٹ سے مری ہو، بعض اہل لغت نے بکری کی تخصیص نہیں کی ہے۔
سوال: نطیحۃ، بر وزن فعیلۃ ہے فعیلۃ کے وزن میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہوتے ہیں، لہٰذا یہاں تاء کی ضرورت نہیں ہے؟
جواب: نطیحۃ میں تاء انتقال من الوصفیۃ الی الاسمیۃ کے لئے ہے نہ کہ تانیث کے لئے جیسا کہ ذبیحۃ میں ہے۔
قولہ: منہ، مِنْہ کے اضافہ کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ فَاَکَلَ السَبُعُ، کا مطلب ہے کہ جس کو درندہ نے کھا لیا ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ درندے نے جس کو کھا لیا وہ معدوم ہو گیا اور معدوم سے حلت یا حرمت کا کوئی متعلق نہیں ہوتا، مِنہ، کہ کر اس کا یہ جواب دیا کہ جس شکار میں سے کچھ حصہ درندے نے کھا لیا ہو جس کی وجہ سے وہ جانور مر گیا ہو تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔
قولہ: اِلآَ ما ذکَّیْتُمْ، یہ المنخقۃ اور اس کے مابعد سے استثناء ہے۔ قولہ: عَلیٰ اِسْمِ النُّصُبِ۔ سوال: لفظ ’ اسم‘ کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے؟
جواب: تاکہ ذبح کا صلہ عَلیٰ درست ہو جائے، لہٰذا علی بمعنی لام لینے کی ضرورت نہ ہو گی۔ (کما قال البعض)۔
قولہ: ذلک، ای الاستقسام بالازلام خَاصۃً فسق۔
قولہ: رَضِیْتُ، یہ بیان حال کے لئے جملہ مستانفہ ہے، اس کا عطف اکملتُ پر نہیں ہے، اس لئے کہ اس سے لازم آئے گا کہ اسلام سے دین ہونے کے اعتبار سے آج راضی ہوا اس سے پہلے راضی نہیں تھا حالانکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین رہا ہے اور ہر نبی کا دین السلام ہے رضیت متعدی بیک مفعول ہے، اور وہ الاسلام ہے، اور دِینًا تمیز ہے۔
قولہ: اِخْتَرْتُ، بعض حضرات نے کہا ہے کہ رضیت بمعنی اخترتُ ہے جو کہ متعدی بدو مفعول ہے اور اول مفعول، اَلاسلامَ اور دوسرا دِینًا ہے، لہٰذا اس صورت میں دِیْناً کو حال یا تمیز قرار دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
قولہ: غیرَ مُتجانِفٍ، تفاعل سے اسم فاعل واحد مذکر ہے، بدی کی طرف مائل ہونے والا، حق سے روگردانی کرنے والا، غَیْرَ، منصوب علی الحال ہے۔ قولہ: مَخْمَصَۃٍ، اسم، ایسی بھوک کہ جس میں پیٹ لگ جائے۔
قولہ: فَمَنِ اضْطُرَّ فی مخمصۃٍ، یہ آیت تین جگہ آئی ہے یہاں اور سورۃ بقرہ میں اور سورۃ نحل میں۔ جواب شرط کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور بعض حضرات نے، فَلَا اثم عَلَیْہ محذوف مانا ہے، فَمَنْ اضطر الخ، یہ آیت سابقہ آیت کا تتمہ ہے اور ذلکم فسق سے یہاں تک جملہ معترضہ ہے، جو کہ دو کلاموں کے درمیان واقع ہوا ہے۔ قولہ: کقَاطِعِ الطَّرِیْق، ای اِذَا کانا مسافِرَیْنِ۔
تفسیر و تشریح
حرمَتْ علیکم المیتۃ الخ، آیت نمبر ۱ میں حلال جانوروں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان حلال جانوروں کے علاوہ کچھ حرام جانور بھی ہیں جن کی تفصیل آئندہ آئے گی، گویا کہ حرمَتْ عَلَیکُمُ الْمَیْتَۃُ الخ، اِلآ مَا یُتْلیٰ عَلَیْکم، کی تفصیل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اُحِلّت لکم بھِیْمَۃُ الْاَنْعَام، میں عمومی طور پر چوپایوں کے حلال ہونے کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے وہ چوپائے حرام ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مسند امام احمد، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی یہ حدیث مروی ہے کہ مردار جانوروں میں دو مردار جانور مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں اس حدیث کی سند میں بعض علماء نے عبد اللہ بن زید بن اسلم کو اگرچہ ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد نے عبد اللہ بن زید کو ثقہ کہا ہے۔
مردہ اور حرام گوشت والے جانوروں کی مغفرت: جن جانوروں کا گوشت انسان کے لئے مضر ہے خواہ جسمانی طور پر یا روحانی طور پر یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ ہے ان کو قرآن مجید نے خبائث قرار دے کر حرام کر دیا
حرمَتْ علیکم الْمَیْتَۃُ الخ، اس آیت میں مردار جانور کو حرام قرار دیا گیا، مردار جانور سے وہ جانور مراد ہے جو شرعی طریقہ پر ذبح کئے بغیر کسی بیماری کے سبب طبعی یا حادثاتی موت مر جائے ایسے جانور کا گوشت طبی طور پر بھی انسان کے لئے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔ دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیت او دماً مسفوحًا نے بتلا دیا کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے گوشت میں لگا ہوا خون حرام نہیں ہے، جگر و تلیّ باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں حدیث مذکور میں جہاں مردار سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ کیا ہے وہیں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
تیسری چیز لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ہے: اوپر سے چونکہ جانوروں کے گوشت کا ذکر چل رہا ہے اس لئے یہاں بھی لحم الخنزیر فرما دیا ورنہ خنزیر کے بدن کی ہر چیز حرام ہے، یا اس لئے کہ جانور میں اعظم مقصود گوشت ہی ہوتا ہے اس لئے لحم الخنزیر فرمایا۔ اکلہ نجسٌ وَاِنّما خصّ اللحم لِاَنَّہ معظم المقصود۔ سُوَرْ کے گوشت کی جسمانی مضرتوں سے طبی لڑیچر بھرا پڑا ہے، اخلاقی اور روحانی نقصانات کا ذکر ہی کیا!؟ بریدۃ الاسلمی کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کو صحیح مسلم، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے آپﷺ نے فرمایا! چوسر کھیلنے والا شخص جب تک چوسر کھیلتا ہے تو اس کے ہاتھ گویا سور کے خون میں ڈوبے رہتے ہیں، اگرچہ بعض مفسرین نے خنزیر کے بعض اجزاء کو حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
بعض اجزاء کو پاک قرار دینے والے علماء کا استدلال: سورۃ انعام میں یہ بحث شروع کر دی ہے کہ لحم الخنزیر میں ترکین اضافی ہے اور اس طرح کی ترکیب کے بعد جو ضمیر آتی ہے وہ مضاف کی طرف لوٹتی ہے، اس لئے فَاِنَّہٗ میں جو ضمیر ہے وہ لحم کی طرف لوٹے گی، اور معنی یہ ہوں گے کہ سور کا گوشت ناپاک ہے اس معنی کے اعتبار سے سور کے تمام اجزاء کا ناپاک ہونا ثابت نہ ہو گا۔
مذکورہ استدلال کا جواب: بعض علماء نے اس استدلال کا جواب دیا ہے کہ آیت ’’کمثل الحمار یحمل اسفارا‘‘ اور آیت واشکروا نعمۃ اللہ علیکم ان کنتم ایاہ تعبدون کی بھی یہی ترکیب ہے اور ان میں یحمل کا ضمیر اور ایاہ کی ضمیر مضاف الیہ کی طرف راجع ہے نہ کہ مضاف کی طرف اس لئے یہ ضروری نہیں کہ اس طرح کی ترکیب میں ہمیشہہ ضمیر کا مرجع مضاف کی طرف ہی راجع ہو۔
عیسائیوں کے نزدیک سور کا گوشت حرام ہے: اگرچہ اب عیسائی سور کے گوشت کو حرام نہیں سمجھتے تورات کے حصہ استثناء کے باب ۱۴ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عیسائی مذہب مذہب میں سور قطعی حرام ہے۔
بائبل میں سور کے گوشت کی حرمت و نجاست: اور سور کہ اس کا کھر دو حصہ (چرواں) ہوتا ہے پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے۔ (اخبار ۸: ۱۱)
مزید تفصیل کے لئے جلد اول کے صفحہ نمبر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دیکھئے۔
چوتھے وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نام زد کر دیا گیا ہو، اگر ذبح کرتے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام کیا جائے تو وہ کھلم شرک ہے اور جانور بالاتفاق مردار کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت بتوں کا نام لیا کرتے تھے، حضرت علیؓ کے پاس آپﷺ کے ارشادات کی ایک تحریر تھی جسے وہ حفاظت کے خیال سے ہمیشہ تلوار کی میان میں رکھا کرتے تھے، اس تحریر کے الفاظ یہ تھے، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے زمین کی مخصوص علّامات بدل دیں، اللہ اس پر لعنت فرمائے جس نے اپنے باپ پر لعنت کی، اللہ اس پر لعنت کرے کہ جس نے ایسے شخص کو پناہ دی کہ جو دین میں نئے شوشے نکالتا رہتا ہے۔ (رواہ مسلم)
پانچویں منخنقہ، یعنی وہ جانور جو گلا گھونٹ کر یا گردن مروڑ کر مار دیا گیا، یا خود ہی کسی جال یا پھندے میں پھنسنے کی وجہ سے دم گھٹ کر مر گیا ہو۔ چھٹی موقوذۃ، یعنی وہ جانور جو ضرب شدید کی وجہ سے مر گیا ہو، جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ، تیرا گرانی کی طرف سے لگنے کے بجائے دستہ کی طرف سے لگا جس کی ضرب سے شکار مر گیا تو یہ بھی موقوذۃ کے حکم میں ہے جیسا کہ حضرت عدی بن حاتمؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہو گیا ہو اس کو فقہاء نے موقوذۃ میں شمار کیا ہے، امام جصاص نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے نقل کیا ہے کہ فرماتے تھے، المقتولۃ بالبندقۃ تلک الموقوذۃُ، گولی کے ذریعہ جو شکار مرا ہو وہ بھی موقوذہ ہے، امام ابو حنیفہ، شافعی، مالکؓ وغیرہ اسی پر متفق ہیں۔
ساتویں متردیۃ، وہ جانور کہ جو کسی اونچی جگہ مثلاً پہاڑ ٹیلہ وغیرہ سے گر کر مرا ہوا سی طرح کنویں وغیرہ میں گر کر مرنے والا بھی اس میں داخل ہے اسی طرح تیر لگا ہوا جانور اگر پانی میں گر کر مرا تو وہ بھی متردیۃ میں شامل ہو گا، اس لئے کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی ہو۔ آٹھویں نطیحۃ، وہ جانور جو کسی دوسرے جانور کے سینگ مارنے یا ٹکر مارنے یا کسی تصادم مثلاً ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آ کر مر جائے تو ایسا جانور بھی حرام ہے۔ نویں وہ جانور کہ جسے کسی درندے نے پھاڑ دیا ہو جس کے صدمہ سے وہ مر گیا ایسا جانور بھی حرام ہے۔
اِلآ ما ذکیتم، یہ ماقبل میں مذکور نو جانوروں سے استثناء ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مذکور جانوروں میں سے کسی کو زندہ پا لیا اور ذبح کر لیا تو وہ حلال ہے یہ استثناء اول چار قسموں سے متعلق نہیں ہے، اس لئے کہ مردار اور خون میں تو اس کا امکان ہی نہیں اور خنزیر اور مَا اُھِلَّ لغیر اللہ اپنی ذات سے حرام ہیں، ان کا ذبح کرنا نہ کرنا برابر ہے۔
دسویں استھانوں پر ذبح کیا ہوا جانور بھی حرام ہے، نُصُبْ ان پتھروں کو کہا جاتا ہے کہ جو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نصب کئے جاتے ہیں اسی قسم کے ۳۶۰ پتھر کعبۃ اللہ کے اطراف میں نصب کئے ہوئے تھے زمانہ جاہلیت میں مشرکین ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان کے پاس جانور لا کر ذبح کیا کرتے تھے موجودہ اصطلاح میں ان کو استھان اور آستانہ کہتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔
گیارہویں استقسام بالازلام تیروں کے ذریعہ قسمت آزمائی کرنا، نزول قرآن کے وقت عرب میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا خواہ سفر سے متعلق ہو یا شادی و بیاہ وغیرہ سے تو اس کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تیروں سے معلوم کرتے، کعبۃ اللہ میں دس تیر رکھے رہتے تھے ان میں سے بعض پر نعم اور بعض پر لا لکھا رہتا اور بعض خالی ہوتے جب کسی کو کسی اہم معاملہ میں فیصلہ مطلوب ہوتا تو وہ بیت اللہ کے خادم کے پاس جاتا اور اس کو اول کچھ نذرانہ پیش کرتا اس کے بعد قریش کے بت ہبل کی بندگی کے اقرار کے ساتھ چمڑے کے تھیلے میں جس میں وہ تیر رکھے رہتے تھے مجاور ہاتھ ڈال کر تیر نکالتا اگر نعم والا نکل آتا تو وہ اجازت کا اشارہ سمجھا جاتا اور اگر ’ لا‘ والا نکل آتا تو یہ ممانعت کا اشارہ سمجھا جاتا، اور خالی نکل آتا تو وہ عمل مکرر کیا جاتا تا آنکہ نعم یا لا والا تیر نکل آتا۔ استقسام کی دوسری صورت یہ ہوتی کہ دس لوگ موٹی اور فربہ بکریاں خریدتے ان کو ذبح کرنے کے بعد ان کا گوشت یکجا کر دیتے اس کے بعد تھیلے میں سے ہر شریک، ایک تیر نکالتا، ہر تیر پر مختلف حصے لکھے ہوتے تھے کل اٹھائیس ہوتے تھے اور بعض تیر خالی بھی ہوتے تھے تیروں کی کل تعداد دس ہوتی تھی جس کے حصے میں جو تیر آتا اس لکھے ہوئے حصہ کا وہ حق دار ہوتا اور بعض لوگوں کے حصہ میں خالی تیر نکلتا تو وہ گوشت سے محروم رہتا، اس کے علاوہ اور بھی قسمت آزمائی کی صورتیں تھیں جو کہ قمار ہی کی قسمیں تھیں۔
ذلک فسق، یعنی قسمت آزمائی کا مذکورہ طریقہ فسق ہے، ذلک فسق، کا مصداق صرف استقسام بالازلام بھی ہو سکتا ہے، اور ما قبل میں مذکور تمام ممنوعات بھی۔
الیومَ یئسَ الذین کفروا مِنْ دینکم، الیوم سے مراد یوم فتح مکہ بھی ہو سکتا ہے اور مطلقاً زمان حاضر بھی مراد ہو سکتا ہے مطلب یہ ہے کہ آج کفار تمہارے دین پر غالب آنے سے مایوس ہو چکے ہیں اس لئے اب تم ان سے کوئی خوف نہ رکھو صرف مجھ سے ڈرتے رہو۔
مایوس ہونے کا دوسرا مطلب: جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا تو مشرکین مکہ کو یہ امید تھی کہ شاید اسلام کمزور اور ضعیف ہو جائے اور جو لوگ مسلمان ہو چکے ہیں وہ مرتد ہو کر واپس اپنے آبائی مذہب بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں، فتح مکہ کے بعد مشرکین کی مذکورہ امید نا امیدی میں تبدیل ہو گئی اسی کا ذکر مذکورہ آیت میں ہے، کہ مشرکوں کا خوف تو اب ختم ہوا مگر ہر ایماندار کو اللہ کا خوف دل میں رکھنا ضروری ہے، ایسا ہو کہ اللہ سے نڈر ہو کر مسلمان کچھ ایسے کاموں میں مشغول ہو جائیں جن کی وجہ سے اللہ کی جو مدد مسلمانوں کے شامل حال ہے وہ موقوف ہو جائے جس کے نتیجے میں اسلام میں ضعف آ جائے اور کافر غالب ہو جائیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جزیرۃ العرب میں شیطان کے بہکانے سے بت پرستی جو پھیلی ہوئی تھی وہ تو ایسی گئی کہ اب شیطان اس سے مایوس ہو گیا، لیکن آپس میں لڑانے کے لئے شیطان کا اثر باقی ہے
دین مکمل کر دینے سے کیا مراد ہے؟ دین کو مکمل کر دینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر اور اس کو ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
الیوم اکملت لکم دینکم، یہ آیت بہت اہم موقع پر نازل ہوئی تھی ذوالحجہ کی ۹ تاریخ تھی جمہ کا دن تھا عصر کے بعد کا وقت تھا آپ حجۃ الوداع کے موقع پر دعاء میں مصروف تھے، گویا ہر لحاظ سے نہایت مبارک موقع تھا۔ یہ آیت ایک طرف بے انتہاء مسرت کا پیغام تھا دوسری طرف اس میں ایک غم کا پہلو بھی تھا، یعنی اس آیت میں اس بات کا کھلا اشارہ تھا کہ تکمیل دین ہو چکی اور صاحب نبوت کا فرض پورا ہو چکا، چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صرف ۴ ماہ بقید حیات رہے جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت سنی تو بے اختیار رونے لگے آپﷺ نے حضرت عمر سے معلوم کیا عمر کیوں روتے ہو؟ عرض کیا جب تک دین مکمل نہ ہوا تھا ہمارے کمالات میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، اب تکمیل کے بعد اس کی گنجائش کہاں؟ اس لئے کہ ہر کمال کے لئے زوال ہے آپﷺ نے فرمایا سچ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابو ہریرہ کی روایت ہے جس میں آپﷺ نے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک کی شریعتوں کو ایک خوشنما مکان سے تشبیہ دے کر فرمایا کہ اس مکان میں ایک آخری اینٹ کی کسر تھی وہ آخری اینٹ میں ہوں کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں۔
احکامی آخری آیت: حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ الیوم اکملت لکم دینکم الخ، نزول کے اعتبار سے تقریباً آخری آیت ہے اس کے بعد احکام سے متعلق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، اس کے بعد صرف چند آیتیں ترہیب و ترغیب کی نازل ہوئیں، مذکورہ آیت جویں ذی الحجہ ۱۰ھ میں نازل ہوئی اور ۱۱ھ بارہ ربیع الاول کو آنحضرتﷺ کا وصال ہوا۔
غیرَ متجانفٍ لاثمٍ، اسی مضمون کو سورۃ بقرہ آیت ۱۷۳، فَمَنِ اضْطُرَّ غیرَ باغ ولا عادٍ فلا اثم علیہ، میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے، اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے، (۱) یہ کہ واقعی مجبوری کی حالت ہو مثلاً بھوک یا پیاس کی وجہ سے جان بلب ہو گیا ہو یو بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہو اور اس حرام چیز کے علاوہ اور کوئی چیز میسر نہ ہو، (۲) دوسرے یہ کہ خدائی قانون کو توڑنے کی نیت نہ ہو، (۳) تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کرے مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند گھونٹ یا چند قطرے اگر جان بچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے، احناف کے نزدیک مذکورہ آیت کا یہی مطلب ہے، مفسر علّام نے متجانف کی تفسیر قطاع الطریق اور باغی سے اپنے مسلک شافعی کے مطابق کی ہے۔
ربط آیات: یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلّ لَھُمْ، سابقہ آیات میں حلال و حرام جانوروں کا ذکر تھا اس آیت میں اسی معاملہ کے متعلق ایک سوال کا جواب ہے بعض صحابہ کرام کے رسول اللہﷺ سے شکاری کتے اور باز سے شکار کرنے کا حکم دریافت کیا تھا اس آیت میں اس کا جواب مذکور ہے۔
شان نزول: مستدرک حاکم، ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ابو رافع کی شان نزول کی روایت ہے جس کو حاکم نے صحیح کہا ہے، اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبرئیلؑ آنحضرتﷺ کے پاس آ کر دروازہ پر رک گئے، آنحضرت نے اس کا سبب معلوم کیا تو جواب دیا، جس گھر میں کتا ہو اس میں فرشتے نہیں آتے، تلاش سے معلوم ہوا کہ گھر میں کتے کا ایک پلا (بچہ) تھا، آنحضرت نے اس کو نکلوا دیا اور کتوں کو مارنے کا حکم دیا اسی ذیل میں بعض صحابہ نے کتے کے شکار کا حکم آنحضرت سے دریافت کیا، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
شکاری جانور: عام طور پر جو جانور شکاری کہلاتے ہیں وہ کتا، چیتا، باز وغیرہ ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ کے نزدیک ضروری ہے کہ شکاری جانور کو زخمی بھی کر دے، اگر شکار کو زخمی نہ کیا محض پکڑا تھا اور وہ جانور مر گیا تو یہ جانور حلال نہ ہو گا، البتہ اگر زخم خوردہ ہو کر مر جائے تو حلال ہے۔ امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ کے نزدیک وہ تمام شکاری بنائے جا سکتے ہیں جو پھاڑ کھانے والے شمار ہوتے ہیں خواہ ان کا تعلق پرندوں سے ہو یا درندوں سے امام ابو یوسفؒ تعالیٰ نے شیر اور بھیڑئیے کو شکاری جانوروں میں شمار نہیں کیا، امام احمد بن حنبلؒ تعالیٰ کے نزدیک مکمل سیاہ کتا بھی شکاری جانوروں میں شامل نہیں ہے، امام احمد بن حنبل کا مستدل حضرت عبد اللہ بن مغفلؓ کی حدیث ہے، (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) ایک دوسری حدیث جس کو حضرت جابرؓ نے روایت کیا ہے جس میں آپﷺ نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا ابتداء یہ حکم مطلق تھا، پھر آپ نے فرمایا کالا کتا جس کی پیشانی پر نشان ہو اس کو ہرگز نہ چھوڑو کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔
شکاری جانور کو سدھانے کے اصول:
پہلی اصل: یہ ہے کہ جب تم شکاری جانور کو شکار کے پیچھے چھوڑو تو فوراً دوڑ پڑے اور جب روکو تو رک جائے اور شکار کر کے تمہارے پاس لے آئے یا اس کی حفاظت کے لئے اس کے پاس بیٹھا رہے بغیر مالک کی اجازت کے اس میں سے کھانے نہ لگے اور باز، شکرہ وغیرہ شکاری پرندوں کے سدھا ہوا ہونے کی یہ علّامت ہے کہ جب تم اس کو شکار کے پیچھے لگاؤ تو فوراً لگ جائے اور جب بلاؤ تو فوراً واپس آ جائے اب ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار تمہارا کیا ہوا شکار سمجھا جائے گا، اور اگر سدھایا ہوا شکاری جانور کسی وقت اس تعلیم کے خلاف کرے، مثلاً کتا خود شکار کھانے لگے یا باز بلانے پر واپس نہ آئے تو یہ شکار تمہارا نہیں رہا اس لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔
دوسری اصل: یہ ہے کہ شکاری جانور تمہارے چھوڑنے سے شکار کے پیچھے دوڑے نہ کہ از خود آیت مذکورہ میں مکلّبین سے اسی اصل کی طرف اشارہ ہے یہ تکلیف سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتے کو سکھانا ہیں اب مطلقاً شکار کے پیچھے چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، جیسا کہ مفسر علّام نے اَرْسَلْتُہٗ عَلَی الصید، کہ کر اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تیسری اصل: یہ کہ شکاری جانور شکار کو خود نہ کھانے لگے (بشرطیکہ شدید بھوکا نہ ہو) مِمّا اَمْسَکَ علیکم سے اسی شرط کا بیان ہے۔
چوتھی اصل: چوتھی شرط یہ کہ شکار کو جب شکار کے پیچھے چھوڑا ہو تو بسم اللہ کہہ کر چھوڑا ہو، مذکورہ چاروں شرطیں پوری کرنے کے بعد اگر شکار کو تمہارے پاس لانے یا تمہارے شکار کے پاس پہنچنے سے پہلے وہ شکار مر جائے تو حلال ہے ورنہ بغیر ذبح حلال نہ ہو گا
مسئلہ: بعض فقہاء کے نزدیک کتے پر قیاس کرتے ہوئے شکاری پرندے کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ شکاری پرندے نے شکار میں سے کچھ کھایا نہ ہو مگر امام ابو حنیفہ کے نزدیک پرندے کے لئے یہ شرط نہیں ہے۔
مسئلہ: اگر کسی شخص نے ذبح کرنے کے لئے مثلاً ایک بکری لٹائی اس پر بسم اللہ پڑھی اور معاً اس کو چھوڑ کر دوسری بکری ذبح کر ڈالی ازسر نو بسم اللہ نہیں پڑھی تو یہ دوسری بکری حلال نہ ہو گی، اور اگر بکری تو وہی رہی مگر چھری بدل دی تو ذبح کردہ بکری حلال رہے گی
مسئلہ: اگر ایک شخص نے بسم اللہ بڑھ کر ایک شکار پر تیر چلایا لیکن وہ تیر دوسرے شکار کا لگا یہ شکار حلال ہے۔
مسئلہ: اگر کسی شخص نے تیر نکالا اور اس پر بسم اللہ پڑھی پھر معاً تیر بدل کر اسی پہلے شکار پر دوسرا تیر چلایا اور ازسر نو بسم اللہ نہیں پڑھی تو یہ شکار حلال نہ ہو گا۔
مسئلہ: اگر سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ ایک بغیر سدھایا ہوا کتا بھی شکار کرنے میں شریک ہو گیا یا کسی غیر مسلم کا کتا شکار کرنے میں شامل ہو گیا ان تمام صورتوں میں شکار بغیر ذبح کئے حلال نہ ہو گا۔
متفرق مسائل: مسئلہ: حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام درندے جانور حرام ہیں۔
مسئلہ: حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے بلی کا گوشت کھانے اور اسے بیچ کر قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ مسئلہ: بجو اور لومڑی امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ کے نزدیک حرام۔ امام مالکؒ تعالیٰ کے نزدیک مکروہ اور امام شافعی کے نزدیک حلال ہے، زمین کے تمام جانور اور کیڑے مکوڑے حرام ہیں، اس سلسلہ میں امام مالکؒ تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے۔
مسئلہ: گوہ، امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے، باقی تین ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے۔
مسئلہ: ٹڈی امام مالکؒ تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، خواہ مری ہوئی ملے یا ماری جائے۔ امام مالکؒ تعالیٰ کے نزدیک ایسی ٹڈی مکروہ ہے جو مری ہوئی ملے۔
مسئلہ: گدھا اور خچر امام مالکؒ تعالیٰ کے سوا باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حرام ہے۔
مسئلہ: گھوڑے کا گوشت امام ابو یوسفؒ تعالیٰ امام محمدؒ تعالیٰ اور بیشتر ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، البتہ امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ اور امام مالکؒ تعالیٰ کے نزدیک مناسب نہیں ہے۔
مسئلہ: گدھ اور اس جیسے وہ تمام پرندے جو مردار کھاتے ہیں، امام مالکؒ تعالیٰ کے نزدیک مکروہ اور باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حرام ہیں۔
مسئلہ: پانی کے جانوروں میں امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ کے نزدیک صرف مچھلی حلال ہے، امام مالکؒ تعالیٰ کے نزدیک سمندری خنزیر کے علاوہ باقی سب حلال ہیں، امام احمدؒ تعالیٰ کے نزدیک مینڈک اور مگرمچھ کے علاوہ باقی سب بحری جانور حلال ہیں، البتہ مچھلی کے علاوہ جانور امام موصوف کے نزدیک ذبح کرنے سے حلال ہوں گے۔
مسئلہ: جو مچھلی مرنے کے بعد پانی پر تیرتی ہوئی ملے، امام ابو حنیفہؒ تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، (ھدایۃ القرآن) مسئلہ: خرگوش اور مرغی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے۔
ایک اصولی ضابطہ: سابق آیات میں حلال و حرام کی جزئیات کو بیان کرنے کے بعد اب الیوم اُحِلّ لکم الطیبٰت الخ میں ایک اصولی ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جس سے حرام چیزوں کو حلال چیزوں سے بآسانی ممتاز کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ حلال اور حرام اشیاء کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا شمار کرنا آسان نہیں ہے، سابقہ آیت میں غور کرنے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اشیاء میں اصل حلت ہے حرمت عارض ہے جب تک کسی شئ کی حرمت کی صراحت یا مصرح کی علت نہ پائی جائے حرام نہ ہو گی، بخلاف زمانہ جاہلیت کے کہ ان کے یہاں اس کا عکس تھا کہ ہر شئ میں حرمت اصل ہے الایہ کہ اس کی حلت صراحت سے معلوم ہو جائے۔
الیوم اُحِلّ لکم الطیّبٰت، میں یہ ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے صاف ستھری اور پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں مطلب یہ ہے کہ پاکیزہ چیزیں جس طرح تمہارے لئے پہلے سے حلال تھیں آئندہ بھی حلال رہیں گی اب ان میں تبدیل و تنسیخ کا احتمال ختم ہو گیا اس لئے کہ نسخ و تغیر وحی کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے اور اب وحی کا سلسلہ موقوف ہونے جا رہا ہے لہٰذا اب رد و بدل کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ ایک دوسری آیت ویحرم علیہم الخبائث میں گندی چیزوں کو حرام کرنے کا بیان ہے یعنی تمہارے لئے گندی اور قابل نفرت چیزوں کو حرام کیا جاتا ہے، لغت میں طیبات ستھری اور مرغوب چیزوں کو کہا جاتا ہے اور خبائث اس کے بالمقابل گندی اور قابل نفرت چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے، آیت کے اس جملہ نے یہ بتا دیا کہ جتنی چیزیں صاف ستھری مفید اور پاکیزہ ہیں وہ انسان کے لئے حلال کی گئیں اور جو گندی قابل نفرت اور مضر چیز ہیں وہ حرام کی گئی ہیں، وجہ یہ ہے کہ انسان دوسرے جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد زندگی دنیا میں کھانے، پینے، سونے جاگنے اور جینے مرنے تک محدود ہو، اس کو قدرت نے مخدوم کائنات کسی خاص مقصد سے بنایا ہے اور وہ مقصد پاکیزہ اخلاق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اسی لئے بد اخلاق انسان در حقیقت انسان کہلانے کے قابل نہیں، اسی لئے قرآن کریم نے ایسے انسانوں کے لئے ’’بل ہم اضلّ‘‘ فرمایا یعنی ایسے لوگ چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، جب انسان کی انسانیت کا مدار اصلاح اخلاق پر ہے تو ضروری ہے کہ جتنی چیزیں انسانی اخلاق کو گندہ اور خراب کرنے والی ہیں ان سے اس کا مکمل پرہیز کرایا جائے، اسی لئے کھانے پینے کی ساری چیزوں میں احتیاط کو لازمی قرار دیا گیا، چوری، ڈاکہ، رشوت، سود، قمار وغیرہ کی حرام آمدنی جس کے بدن کا جزء بنے گی وہ لازمی طور پر اس کو انسانیت سے دور اور شیطنت سے قریب کر دے گی۔ اسی لئے قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ’’یٰآیّھا الرسل کلوا مِنَ الطیبٰت واعملوا صالحًا‘‘ کیونکہ اکل حلال کے بغیر عمل صالح متصور نہیں۔
طیبٰت اور خبائث کا معیار: اب رہی یہ بات کہ کونسی چیزیں طیب یعنی صاف ستھری مفید اور مرغوب ہیں اور کونسی خبائث یعنی گندی، مضر اور قابل نفرت ہیں، اس کا اصل فیصلہ طبائع سلیمہ کی رغبت و نفرت پر ہے، یہی وجہ ہے کہ جن جانوروں کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے ہر زمانہ کے سلیم الطبع انسان ان کو گندہ اور قابل نفرت سمجھتے رہے ہیں جیسے مردار جانور، خون البتہ بعض چیزوں کا خبث مخفی ہوتا ہے، ایسی چیزوں میں انبیاءؑ کا فیصلہ سب کے لئے حجت ہوتا ہے، اس لئے کہ افراد انسانی میں سب سے زیادہ سلیم الطبع انبیاءؑ ہی ہوتے ہیں، اس لئے کہ وہ اللہ رب العزت کے خصوصی تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور فرشتے ان کی نگرانی پر مامور ہوتے ہیں۔ حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم الانبیاءؑ کے عہد مبارک تک ہر پیغمبر نے مردار جانور اور خنزیر وغیرہ کی حرمت کا اپنے اپنے زمانہ میں اعلان فرمایا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ تعالیٰ نے حجۃ اللہ البالغہ میں بیان فرمایا ہے کہ جتنے جانور شریعت اسلام نے حرام قرار دئیے ہیں اگر ان میں غور کیا جائے تو وہ سمٹ کر دو اصولوں کے تحت آ جاتے ہیں، ایک یہ کہ کوئی جانور اپنی فطرت اور طبیعت کے اعتبار سے خبیث ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ذبح کرنے کا طریقہ غلط ہو جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ذبیحہ مردار قرار پائے گا۔ سورۃ مائدہ کی تیسری آیت میں جن نو چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے ان میں خنزیر قسم اول میں داخل ہے باقی آٹھ قسم دوم میں، قرآن کریم نے ’’ویحرم علیہم الخبائث‘‘ میں اجمالی طور پر خبیث جانوروں کے حرام ہونے کا ذکر فرمایا، اور چند چیزوں کی حرمت کی صراحت کے بعد باقی چیزوں کی حرمت کا بیان رسول اللہﷺ کے سپرد فرما دیا۔
اہل کتاب کے ذبیحہ کی حلت اور مناکحت کی اجازت میں مناسبت اور حکمت: وَالْمحصنتِ مِن المؤمنات و المحصنتِ من الذین
اُوْتوا الکتابَ من قبلکم اِذَا آتیتموھن اجورھُنّ، ابھی کھانے پینے کی چیزوں کی حلت کا ذکر تھا، اس کے معاً بعد کتابیہ سے نکاح کی حلت کا ذکر ہے مناسبت ظاہر ہے کہ جس طرح مواکلت طبعی ضرورت ہے مناکحت بھی انسان کی طبعی خواہش ہے لہٰذا دونوں کو یکجا ذکر کرنا عین باہمی مناسبت کا تقاضہ ہے۔
سوال: اہل کتاب کے ذبیحہ کا مسلمانوں کے لئے حلال ہونے کا بیان سمجھ میں آتا ہے اس لئے کہ مسلمان قرآنی احکام کے مکلف ہیں مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا ذبیحہ اہل کتاب کے لئے حلال ہے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی اس لئے کہ اہل کتاب تو قرآنی احکام کے مکلف ہی نہیں۔
جواب: ایک جواب تو یہ ہے کہ در اصل یہ حکم بھی مسلمانوں ہی کو ہے اس لئے کہ اگر مسلمانوں کا کھانا (ذبیحہ) اہل کتاب کے لئے حرام ہوتا تو کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ کسی اہل کتاب کو اپنا ذبیحہ کھلائے اور اگر کھلاتا تو گنہگار ہوتا مسلمانوں کے ذبیحہ کو اہل کتاب کے لئے حلال کر کے بتا دیا کہ اگر مسلمان اہل کتاب کو اپنا ذبیحہ کھلا دے تو گنہگار نہ ہو گا، لہٰذا مسلمان اپنی قربانی کا گوشت کتابی کو دے سکتے ہیں، اگر مذکورہ حکم نہ ہوتا تو کتابی کو اہل اسلام کے ذبیحہ کا گوشت دینا جائز نہ ہوتا۔
دوسرا جواب: جب نص قرآنی کی رو سے مسلمان کے لئے کتابیہ سے نکاح جائز ہے تو یہ ضروری تھا کہ ذبیحہ کی حلت طرفین سے ہو ورنہ تو ازدواجی زندگی میں نہایت دشواری پیش آتی اس لئے کہ مسلمان کو ذبیحہ اہل کتاب کے لئے حلال نہ ہونے کی صورت میں معاشرتی دشواریاں ازدواجی زندگی میں پیچیدگیاں پیدا ہوتیں یا تو اہل کتاب کے ذبیحہ پر اکتفاء کرنا پڑتا جو دونوں کے لئے حلال تھا یا پھر دونوں کے لئے دو ہانڈیاں الگ الگ پکانی ہوتیں جو کہ ایک امر دشوار ہے۔
سوال: قرآنی نص سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابیہ عورت مسلمان کے لئے حلال ہے مگر مومنہ کتابی کے لئے حلال نہیں ہے اس کی کیا وجہ ہے
جواب: اس میں حکمت یہ ہے کہ مسلمان چونکہ تمام انبیاء سابقین پر اجمالی ایمان رکھتے ہیں اور ان کا احترام سے نام لیتے اور ان کے نام کے لئےؑ کو لازمی جز سمجھتے ہیں لہٰذا اگر کوئی کتابیہ مسلمان کے نکاح میں ہو گی تو وہ روزمرہ کی زندگی میں اپنے نبی کا نام آداب و احترام سے سنے گی جس سے موافقت وانسیت میں اضافہ ہو گا اور ازدواجی زندگی کی ہم آہنگی کو تقویت حاصل ہو گی اس کے برخلاف اہل کتاب چونکہ نبی آخر الزمان محمدﷺ کی نبوت کے قائل نہیں ہیں لہٰذا وہ آپﷺ کا اسم گرامی احترام نبوت کے ساتھ نہ لیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپﷺ کی شان میں بعض اوقات ہتک آمیز کلمات استعمال کریں جن کو سنکر ایک مسلمان عورت جو کسی کتابی کے نکاح میں ہو کبیدہ خاطر ہو، اس کا لازمی اور غیر مختلف نتیجہ یہ ہو گا کہ موافقت کے بجائے نا موافقت اور انس و محبت کے بجائے نفرت و عداوت پیدا ہو جائے جس کے نتیجے میں زندگی کا گلستان محبت وادی پر خار بن جائے۔
کتابیات سے نکاح کے بارے میں ائمہ کا اختلاف: مسلمات اور کتابیات کے درمیان اصلاً قدر مشترک سلسلہ وحی و نبوت پر ایمان ہے، یہود و نصاریٰ کے اعمال فاسقانہ ہوں یا عقائد غالیانہ بہرحال اصلاً یہ لوگ توحید کے قائل اور سلسلہ وحی و نبوت کے ماننے والے ہیں، اور عقائد کے باب میں یہی دو عنوان اہم ترین ہیں البتہ یہ خیال رہے کہ نصرانیت موجودہ یوروپی قوموں کی مسیحیت کے مرادف نہیں ہے۔ کتابیہ سے نکاح بالکل جائز ہے نفس جواز نکاح میں کوئی گفتگو نہیں ہے اور نص کی موجودگی میں گفتگو کی گنجائش بھی نہیں ہو سکتی، البتہ فقہاء نے مفاسد پر نظر کرتے ہوئے اور مصلحت شرعی کا لحاظ رکھتے ہوئے فتویٰ یہ دیا ہے کہ بلا ضرورت شدیدہ ایسے نکاحوں سے بچنا چاہیے۔
یَجُوزُ تزوج الکتابیات والاولیٰ ان لا یفعل، (فتح القدیر) وصح نکاح الکتابیۃ واِنْ کرِہ تنزیھًا، (در مختار) البتہ کتابیہ حربیہ کے نکاح کی کراہت میں شبہ نہیں، تکرہ الکتابیۃ الحربیۃ اجماعاً لافتتاح باب الفتنۃ (فتح القدیر) حنفیہ کے اس قول کا ماخذ حضرت علیؓ کا ایک اثر ہے جس میں آپ نے کتابیہ مقیم دار الحرب سے نکاح پر کراہت ظاہر فرمائی ہے۔ (مسبوط)
علّامہ شامی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر حربیہ سے نکاح مکروہ تنزیہی ہے اور حربیہ سے مکروہ تحریمی۔ (رد المحتار)
جمہور کا مسلک: جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک اگرچہ ازروئے نص قرآن اہل کتاب کی عورتوں سے فی نفسہٖ نکاح حلال ہے، لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے ازروئے تجربہ لازمی طور سے پیدا ہوں گے ان کی بناء پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو وہ بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ جصاص نے احکام القرآن میں شفیق بن سلمہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کر لیا، حضرت فاروق اعظم کو جب اس کی اطلاع ملی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دے دو، حضرت حذیفہؓ نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لئے حرام ہے، تو اس کے جواب میں امیر المؤمنین فاروق اعظم نے لکھا، میں حرام نہیں کہتا لیکن ان لوگوں کی عورتیں عام طور پر عفیف اور پاکدامن نہیں ہوتیں اس لئے مجھے خطرہ ہے کہ کہیں آپ لوگوں کے گھرانوں میں اس راہ سے فحش و بدکاری داخل نہ ہو جائے، اور امام محمد بن حسنؒ تعالیٰ نے کتاب الآثار میں اس واقعہ کو روایت امام ابو حنیفہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم نے جب حضرت حذیفہؓ کو خط لکھا تو اس کے الفاظ مندرجہ ذیل تھے۔
اعزم عَلَیْکَ أن لاتَضَع کتابی ھذا حتیّٰ تخلی سبیلھا فانی اخاف ان یقتدیکَ المسلمون فیختا روا لنساءَ اھل الذمۃ لجمالھِنّ وکفی بذلک فتنۃ لِنساء المسلمین۔ (کتاب الآثار، معارف)
یعنی تم کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کر دو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی تمہاری اقتداء کریں گے اور اہل ذمہ (اہل کتاب) کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں تو مسلمان عورتوں کے لئے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو گی۔
فاروق اعظم کی نظر دوربین: فاروق اعظم کا زمانہ تو خیر القرون کا زمانہ تھا، اس وقت اس کا احتمال بہت کم تھا کہ کوئی یہودی یا نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کر سکے، اس وقت تو صرف یہ خطرات سامنے تھے کہ کہیں ان کے ذریعہ ہمارے گھروں میں بدکاری نہ داخل ہو جائے جس کی وجہ سے ہمارے گھر گندے ہو جائیں، یا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ ان کو ترجیح دینے لگیں، جس کے نتیجے میں مسلمان عورتیں تکلیف میں پڑ جائیں، مگر فاروقی نظروں نے اتنے ہی نتائج کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کیا، اگر آج کا نقشہ اور صورت حال ان کے سامنے ہوتی تو اندازہ کیجئے کہ ان کا اس کے متعلق کیا عمل ہوتا۔ اول تو آج یہودیوں اور مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد مردم شماری کے رجسٹروں میں تو یہود اور نصاریٰ ہیں مگر حقیقت میں وہ بے دین لامذہب دہرئیے ہیں یہودیت اور نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں نہ ان کا ایمان تورات پر ہے اور نہ انجیل پر، ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی عورتیں مسلمانوں کے لئے کس طرح حلال ہو سکتی ہیں اور بالفرض وہ اپنے مذہب کی پابند بھی ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانے میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان کے لئے دینی اور دنیوی تباہی کو دعوت دینا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں اور ہو رہی ہیں جن کے عبرتناک انجام آئے دن آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم اور سلطنت کو تباہ کر دیا، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی سمجھدار ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔
محصنت کے معنی: مذکورہ آیت میں دو جگہ محصنٰت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی عربی لغت نیز عرف و محاورہ کے اعتبار سے دو ہیں ایک آزاد جو باندی کے بالمقابل ہے علّامہ سیوطیؒ تعالیٰ نے یہی معنی مراد لیے ہیں دوسرے عفیف و پاکدامن لغت کے اعتبار سے یہاں یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں جیسا کہ بعض مفسرین سے یہ معنی مراد لئے ہیں، پہلے معنی کی رو سے مطلب یہ ہو گا کہ مسلمانوں کے لئے اہل کتاب کی آزاد عورتیں حلال ہیں باندیاں نہیں مجاہد نے یہاں یہی معنی مراد لئے ہیں، مگر جمہور علماء نے دوسرے معنی، یعنی عفیف مراد لئے ہیں جس طرح عفیف و پاکدامن مومن عورت سے نکاح افضل واولی ہے گو غیر عفیف سے نکاح جائز ہے یہی مطلب اہل کتاب کی عفیفاؤں کے بارے میں ہے۔