مشہور عربی تفسیر "تفسیر جلالین” کا اردو ترجمہ
تفسیر جلالین،جلد چہارم
منزل چہارم، سورۃ اسراء تا سورۃ فرقان
جلال الدین السیوطی، جلال الدین المحلّی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
۲۳۔ سورة المؤمنون
سورة المؤمنون مکیۃ وھی مائۃٌ وثمان أو تسع عشرۃ آیۃً
سورة مومنون مکی ہے، اور ایک سو اٹھارہ یا ایک سو انیس آیتیں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر ۱ تا ۲۲
ترجمہ: بلا شبہ مومنین کامیاب ہوئے جو اپنی نمازوں میں تواضع اختیار کرنے والے ہیں، قَدْ تحقیق کے لئے ہے اور جو لغو باتوں وغیرہ سے اعراض کرنے والے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور جو حرام سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا ان عورتوں سے جن کے وہ مالک ہیں یعنی باندیوں سے کیونکہ ان کے پاس آنے میں (جماع کرنے میں) ان پر کوئی الزام نہیں ہاں جو ان کے علاوہ یعنی بیبیوں اور باندیوں کے علاوہ مثلاً استمنا بالید کا طالب ہو تو ایسے لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں یعنی ایسی چیز کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں جو ان کے لئے حلال نہیں ہے اور جو اپنی امانتوں کی امانات جمع اور مفرد دونوں قرأتیں ہیں آپسی (معاملات) اور اپنے اور اللہ کے درمیان عہد و پیمان (مثلاً) نماز وغیرہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی صلوات جمع اور مفرد دونوں قرأتیں ہیں، ان کے اوقات میں پابندی کے ساتھ قائم کرنے والے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں نہ کہ دوسرے جو فردوس کے وارث ہوں گے وہ اعلیٰ درجہ کی جنت ہے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اس (آیت) میں معاد (انجام) کی جانب اشارہ ہے اس کے بعد مبدا کا ذکر مناسب ہے، قسم ہے ہماری ذات کی کہ ہم نے انسان آدم کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا اور سلالۃ سَلَلْتُ الشئَ من الشئِ سے ماخوذ ہے یعنی میں نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا اور وہ جو ہر مٹی کا خلاصہ ہے، مِنَ الطین کا تعلق سلالۃً سے ہے، پھر ہم نے انسان یعنی نسل آدم کو نطفہ منی سے بنایا جو کہ ایک محفوظ جگہ میں رہا وہ رحم ہے پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا (یعنی) بستہ خون بنایا، پھر ہم نے خون کے اس لوتھڑے کو چبائے جانے کے لائق (چھوٹی) گوشت کی بوٹی بنا دیا پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنا دیا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا، اور ایک قرأت میں دونوں جگہوں پر (عظام کے بجائے) عظم ہے۔ اور خَلَقْنَا تینوں جگہوں پر صَیَّرنا کے معنی میں ہے پھر ہم نے اس کو اس میں روح پھونک کر ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا سو کیسی شان ہے اللہ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر صانع ہے اور خالقین بمعنی مقدرین (اندازہ کرنے والا) ہے اور اَحْسَنَ کی تمیز خلّقًا اس کے معلوم (متعین) ہونے کی وجہ سے محذوف ہے پھر تم اس کے بعد بالیقین مرنے والے ہو پھر تم یقیناً اس کے بعد قیامت کے دن حساب اور جزاء کے لئے اٹھائے جانے والے ہو اور ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے طرائق بمعنی آسمان ہے اور طرائق طریقۃ کی جمع ہے اس لئے کہ آسمان فرشتوں کے راستہ ہیں اور ہم آسمان کے نیچے مخلوق سے بے خبر نہ تھے کہ آسمان ان کے اوپر گر جائے پس وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ ہم آسمانوں کو تھامے ہوئے ہیں جیسا کہ ایک آیت میں ہے یمسک السماءَ أنْ تَقَعَ عَلَی الاَرضِ اور ہم نے (مناسب) مقدار کے ساتھ بقدر کفایت آسمان (بادل) سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس (پانی) کو زمین پر ٹھہرا دیا اور ہم اس (پانی) کو معدوم کر دینے پر بھی قادر ہیں سو سب کے سب معہ اپنے جانوروں کے پیاس سے مر جائیں پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے مذکورہ دونوں چیزیں عرب میں بکثرت پیدا ہونے والے میوے (پھل) ہیں ان میں سے تم کھاتے بھی ہو گرمی اور سردیوں میں اور ہم نے ایک درخت پیدا کیا جو سیناء پہاڑ میں پیدا ہوتا ہے سَیِنا سین کے کسرہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے اور غیر منصرف مانا گیا ہے علمیت کی وجہ سے اور بقعہ کے معنی میں ہونے کی وجہ سے تانیث کے پائے جانے کی سبب سے جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے تنبتُ میں رباعی اور ثلاثی دونوں درست ہیں، پہلی (یعنی رباعی کی) صورت میں با زائدہ ہے، اور دوسری (یعنی ثلاثی کی) صورت میں با تعدیہ کے لئے ہے اور وہ زیتون کا درخت ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے اس کا عطف الدھن پر ہے یعنی سالن جو رنگ دیتا ہے لقمہ کو اس میں ڈبونے کی وجہ سے اور وہ نیل ہے اور تمہارے لئے مویشیوں میں یعنی اونٹ گائے اور بکریوں میں عبرت ہے، یعنی نصیحت ہے کہ جن سے تم عبرت حاصل کر سکتے ہو، کہ ہم تم کو ان کے جوف کی چیز میں سے یعنی دودھ پینے کے لئے دیتے ہیں نسقیکم نون کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور ان سے اور اونٹوں کے بالوں سے اور گائے (وغیرہ) کے بالوں سے اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو اور اونٹوں پر اور کشتیوں پر (سوار ہو کر) کودے پھرتے ہو۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قَدْ تحقیق کے لئے ہے یعنی جب ماضی پر داخل ہوتا ہے تو ثبات پر دلالت کرتا ہے اسی وجہ سے ماضی کو حال کے قریب کر دیتا ہے اور متوقع کو ثابت کر دیتا ہے مومنین چونکہ فضل خداوندی کے امیدوار تھے اس لئے ان کی بشارت کو قد سے شروع فرمایا، اور چونکہ اس بشارت کا وقوع یقینی ہے اس لئے ماضی کے صیغہ سے تعبیر فرمایا۔
قولہ: اَفلحَ فلاح لغت میں مقصد میں کامیابی اور مکروہات سے نجات کو کہتے ہیں (کما فی ابو سعود) اور بعض حضرات نے فرمایا فلاح بقاء فی الخیر کو کہتے ہیں۔
قولہ: للذکوۃ فاعلون، زکوٰۃ معنی مصدری یعنی زکوٰۃ ادا کرنے اور مال زکوٰۃ کو کہتے ہیں یہاں معنی مصدری مراد ہیں اس لئے کہ فاعل معنی حدثی کا ہوتا ہے نہ کہ محل فعل کا، یعنی وہ لوگ کامیاب ہوئے جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اب رہا یہ سوال کہ اداء زکوٰۃ کے سلسلہ میں معروف تعبیر مثلاً ایتاء الزکاۃ یؤتونَ الزکوٰۃ یا اٰتَوْ الزکوٰۃ کو چھوڑ کر للزکوٰۃِ فاعِلُوْنَ کی تعبیر کیوں اختیار فرمائی، جواب یہ ہے کہ للزکوٰۃ فاعلون بھی کلام عرب میں مستعمل ہے، امیہ بن ابی صلت نے کہا المُطْعِمون الطَّعامَ فی السنۃِ الآَزمَۃِ والفاعلون للزکوٰۃ (روح البیان) دوسرا جواب یہ ہے کہ فواصل کی رعایت مقصود ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں عین زکوٰۃ بھی مراد ہو سکتی ہے مگر مضاف محذوف ماننا ہو گا ای والَّذِینَ ھُمْ لتادیتہ الزکوٰۃ فاعلون۔
قولہ: والَّذِیْنَ ھُمْ لفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اس آیت سے حرمت متعہ پر استدلال کیا ہے، اَخْرَجَ ابن ابی حاتم عن القاسم بن محمد انہ سُئِلَ عن المتعۃِ فقرأ ھٰذہ الآیۃ قال فَمن ابتغیٰ وراءَ ذٰلک فھَوَ عادٍ، وروی عن ابن ابی ملیکۃ سألتُ عائشۃؓ عن المتعۃِ فقالت بینی وبینھمُ القرآن، ثم قرء الآیۃ قالت فمَن ابتغیٰ وراءَ ذٰلک غیر مازوجہ اللہ او ملکہ یمینہٗ فَقَدْ عَدا۔
قولہ: ای من ازواجھم اس میں اشارہ ہے کہ علی بمعنی مِن ہے۔
قولہ: اَوْمَا ملکت، ما سے مراد باندیاں ہیں مَنْ کی بجائے ما سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں اور خاص طور پر جو مملوکہ بھی ہوں لہٰذا مشابہ بالبہائم ہونے کی وجہ سے ما سے تعبیر فرمایا ہے مَا ملکت اپنے عموم کی وجہ سے اگرچہ غلام اور باندی دونوں کو شامل ہے مگر یہاں صرف باندیاں ہی مراد ہیں اس لئے کہ مالکن کا اپنے غلام سے وطی کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے غیر ملومین میں اس طرف اشارہ ہے کہ اسی کو مقصد بنا لینا کوئی قابل ستائش بات نہیں ہے ہاں البتہ انسانی طبعی ضروریات کو پورا کرنا کی حد تک اجازت ہے۔
قولہ: کالاستمناء بالید امام مالکؒ اور شافعیؒ نیز ابو حنیفہؒ کے نزدیک استمناء بالید حرام ہے امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے (۱) زنا میں مبتلا ہونے کے اندیشہ کے پیش نظر (۲) مہر ادا کرنے یا باندی خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں (۳) یہ اپنے ہاتھ سے ہو نہ کہ اجنبی یا اجنبیہ کے ہاتھ سے، (حاشیہ جلالین)۔
قولہ: سَرَاری سُرِّیَّۃ کی جمع ہے بمعنی باندی، یہ سرِّ سے ماخوذ ہے جس کے معنی جماع یا اخفا کے ہیں اس لئے کہ بسا اوقات انسان باندی کے ساتھ ہمبستری اپنی آزاد بیوی سے مخفی رکھنا چاہتا ہے اسی لئے اس کو سریہ کہتے ہیں یا پھر سرور سے مشتق ہے جس کے معنی خوشی کے ہیں چونکہ مالک باندی سے خوش ہوتا ہے اس لئے اس کو سرّیہ کہتے ہیں۔
قولہ: فإنھم غیر ملومین یہ استثناء کی علامت ہے۔
قولہ ؛ اولئک ہم الوارثون لاغیرھم لاغیرھم کا اضافہ جملہ معرفۃ الطرفین سے حصر مستفاد کو ظاہر کرنا، جملہ جب معرفۃ الطرفین ہو جیسا کہ مذکورہ جملہ ہے تو اس سے حصر مستفاد ہوتا ہے، نیز طرفین کے درمیان ضمیر ہم یہ بھی حصر پر دلالت کرتی ہے، یہاں حصر سے حصر اضافی مراد ہے نہ کہ حقیقی، اس لئے کہ یہ بات ثابت ہے کہ مذکورہ اشخاص کے علاوہ مثلاً بچے اور مجانین وغیرہ بھی جنت میں داخل ہوں گے اور اگر حصر حقیقی مراد ہو تو جنت الفردوس کے اعتبار سے ہو گا یعنی جنت الفردوس میں مذکورہ اشخاص ہی داخل ہوں گے گو دیگر جنتوں میں دیگر اشخاص بھی داخل ہوں گے۔
قولہ: ویناسبہ ذکر المبداء بعدہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس آیت اور سابقہ آیت کے درمیان مناسبت ربط کو بیان کرنا ہے
قولہ: واللہ لقَدْ خلقنا لفظ اللہ کو محذوف مان کر اشارہ کر دیا کہ واؤ قسمیہ ہے اور لقد میں لام جواب قسم پر داخل ہے۔
قولہ: جعلناہ ای الانسان نسل آدم ہٗ ضمیر ماقبل میں مذکور انسان کی طرف راجع ہے مگر مراد نسل آدم ہے اور انسان سے جو کہ مرجع ہے، آدم مراد ہے غرضیکہ یہاں کلام میں صنعت است خدام ہے، صنعت است خدام اس کو کہتے ہیں کہ مرجع سے ایک معنی مراد ہوں اور مرجع کی طرف لوٹنے والی ضمیر سے دوسرے معنی مراد ہوں۔
قولہ: وانشانا شَجَرَۃً انشانا محذوف مان کر اشارہ کر دیا کہ شجرۃ کا عطف جنات پر ہے۔
قولہ: اَحْسَنُ الخالقین ای المقدرین، المقدرین کے اضافہ کا مقصد اس شبہ کو دور کرنا ہے کہ اسم تفصیل مشارکت کا تقاضہ کرتا ہے حالانکہ خدا کے سوا کوئی خالق نہیں ہے تو جواب دیا کہ خلق سے مراد تقدیر و تصویر ہے نہ کہ ایجاد و تخلیق لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں
قولہ: للعلم بہ چونکہ لفظ خالقین خلقاً پر دلالت کرتا ہے لہٰذا اس قرینہ کی وجہ سے تمیز کو حذف کر دیا۔
قولہ: فوقکُمْ سَبْع طرائقِ فوق سے مراد مطلقاً علو ہے نہ کہ انسانوں کے سروں کے اوپر اس لئے کہ جس وقت آسمانوں کو پیدا کیا گیا تھا اس وقت انسان موجود نہیں تھا تو پھر فوقکم کہنا کس طرح درست ہے، معلوم ہوا فوقکُمْ سے مطلقاً علو مراد ہے۔
تفسیر و تشریح
قد افلح المؤمنون، لفظ فلاح قرآن و سنت میں بکثرت استعمال ہوا ہے اذان و اقامت میں بھی پانچوں وقت مسلمانوں کو صلاح و فلاح کی طرف دعوت دی جاتی ہے، فلاح کے معنی یہ ہیں کہ ہر مراد حاصل ہو اور ہر تکلیف دور ہو، اور یہ ظاہر ہے کہ مکمل فلاح کہ ایک مراد بھی ایسی نہ رہے کہ جو پوری نہ ہو اور ایک بھی تکلیف ایسی نہ ہو کہ دور نہ ہو یہ دنیا میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس میں نہیں چاہے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہفت اقلیم کا مالک ہی کیوں نہ ہو، یا بڑے سے بڑا رسول اور پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز خلاف طبع پیش نہ آئے اور ہر خواہش ہر وقت پوری ہو جائے، یہ متاع گراں مایہ تو ایک دوسرے عالم یعنی آخرت ہی میں جنت میں مل سکتی ہے، البتہ اکثری حالات کے اعتبار سے فلاح دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرما سکتے ہیں، آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے کا وعدہ ان مؤمنین سے کیا ہے جن میں وہ سات صفات موجود ہوں جن کا ذکر ان آیات کے اندر آیا ہے۔
فلاح کے لئے مومن کامل کے سات اوصاف: سب سے پہلا وصف تو مومن ہونا ہے، ایمان کے اصل الاصول اور بنیادی اصول ہونے کی وجہ سے الگ ذکر فرمایا ہے (پہلا وصف) نماز میں خشوع و خضوع ہے، خشوع کے لغوی معنی قلب وجوارح میں سکون کا ہونا یعنی دل اللہ کی طرف مائل اور اعضاء بدن میں سکون ہو عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے، حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے جب بندہ دوسری طرف التفات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے رخ پھیر لیتے ہیں (رواہ احمد و النسائی وغیرہ) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیل رہا ہے تو آپ نے فرمایا لو خَشِبَ قلبُ ھٰذا لخشعَتْ جوارحُہٗ (رواہ حاکم والترمذی بسند ضعیف) یعنی اگر اس شخص کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔ (مظہری)
نماز میں خشوع کا درجہ: امام غزالی و قرطبی اور بعض دوسرے حضرات کے نزدیک نماز میں خشوع فرض ہے اگر پوری نماز بغیر خشوع کے گذر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہو گی، دیگر بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خشوع نماز کی روح ہے اس کے بغیر نماز بے جان ہوتی ہے مگر رکن کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خشوع کے بغیر نماز ہی درست نہ ہو گی، اس کا اعادہ ضروری ہو گا، حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے فرمایا ہے کہ خشوع صحت صلوٰۃ کے لئے موقوف علیہ نہیں ہے ہاں البتہ قبولیت صلوٰۃ کے لئے موقوف علیہ ہو سکتا ہے۔
دوسرا وصف: لغو سے پرہیز کرنا ہے، لغو کے معنی فضول کلام یا فضول کام کے ہیں یعنی جس میں کوئی فائدہ نہ ہو لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ سے اجتناب لازم ہے، اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو اور نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے، آپﷺ نے فرمایا من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوتا ہے جب وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے
تیسرا وصف زکوٰۃ: زکوٰۃ کے معنی لغت میں پاک کرنے کے ہیں اور اصطلاح شرع میں مال کا ایک مخصوص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنا ہے، اور قرآن کریم میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے، اس آیت میں یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں، اس پر یہ شبہ کہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی ہے، اس کا جواب ابن کثیر مفسرین وغیرہ نے یہ دیا ہے کہ اصولی طور پر زکوٰۃ کی فرضیت مکہ ہی میں ہو چکی تھی، سورة مزمل جو بالاتفاق مکی ہے اسمیں اقیموا الصلوٰۃ کے ساتھ آتو الزَّکوٰۃ کا ذکر موجود ہے، مگر اس کے نصاب کی تفصیلات اور سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا نظام ہجرت کے بعد ہوا ہے، بعض حضرات نے یہاں زکوٰۃ کے لغوی معنی مراد لئے ہیں یعنی تزکیہ نفس اس کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں زکوٰۃ سے اصطلاحی کے معنی مراد لئے گئے ہیں وہاں ایتاء الزکوٰۃ، یوتون الزکوٰۃ، وآتوالزکوٰۃ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے یہاں عنوان بدل کر للزکوٰۃ فاعلون کی تعبیر اختیار فرمائی ہے، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوٰۃ کے اصطلاحی معنی مراد نہیں ہیں اگر یہاں زکوٰۃ کے اصطلاحی معنی مراد لئے جائیں تو بغیر تاویل کے نہیں ہو سکتا لہٰذا یہاں تزکیہ نفس ہی مراد ہو گا یعنی اپنے نفس کو رذائل سے پاک صاف کرنا تو وہ بھی فرض ہی ہے کیونکہ شرک، ریاء، تکبر، حسد، بغض وغیرہ رذائل نفس کو پاک کرنا تزکیہ کہلاتا ہے۔
چوتھا وصف: شرمگاہ کی حفاظت حرام سے، والذین ہم لفروجھم حافظون الا علیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم یعنی وہ لوگ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی ناجائز شہوت رانی نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کے لئے بھی فلاح کی ضمانت ہے فانھم غیر ملومین اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھنا چاہیے، مقصد زندگی نہیں بنانا چاہیے ایسا کرنے والا قابل ملامت نہیں۔
فمن ابتغی۔۔۔۔ العدون، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی باندی سے شرعی قاعدے سے قضاء شہوت کرنے کے علاوہ کوئی صورت حلال نہیں ہے اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت اس پر شرعاً حرام ہے اس سے نکاح بھی بحکم زنا ہے، اسی طرح متعہ نیز اپنی بیوی سے حالت حیض و نفاس میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے یعنی کسی مرد یا جانور سے شہوت پوری کرنا بھی اور جمہور کے نزدیک استمناء بالید بھی (بیان القرآن، قرطبی بحوالہ معارف)
پانچواں وصف: امانت کا حق ادا کرنا والذین ہم لأمانتھم کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد بھروسہ کیا گیا ہو اس کی قسمیں چونکہ بیشمار ہیں اسی لئے مصدر ہونے کے باوجود صیغۂ جمع کے ساتھ لایا گیا ہے تاکہ امانت کی تمام قسموں کو شامل ہو جائے خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے حقوق اللہ سے متعلق تمام فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے اجتناب کرنا اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت تو مشہور و معروف ہے ہی، اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی اور ظاہر کرنے سے منع کر دیا بھی یہ امانت ہے بغیر شرعی اذن کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے، اسی طرح مزدور و ملازم کو جا کام سونپا گیا ہے اس کے لئے جتنا وقت صرف کرنا طے کیا گیا ہے اس کو اس کام میں لگانا بھی امانت ہے، کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔
چھٹا وصف: وعھدھم راعون عہد پورا کرنا، ایک عہد تو وہ ہوتا ہے جو طرفین سے ہوتا ہے اس کو عرف میں معاہدہ کہتے ہیں اس کو پورا کرنا فرض اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں مثلاً کسی کو کچھ دینے یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کر لے اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم ہے، حدیث شریف میں ہے العِدۃُ دین یعنی وعدہ ایک قسم کا قرض ہے، جس طرح قرض کی ادائیگی واجب ہے وعدہ پورا کرنا بھی واجب ہے بلا عذر شرعی اس کا خلاف کرنا گناہ ہے فرق دونوں میں یہ ہے کہ معاہدہ کو پورا کرانے کے لئے فریق ثانی کو بذریعہ عدالت بھی مجبور کر سکتا ہے یک طرفہ وعدہ کو پورا کرنے کے لئے بذریعہ عدالت مجبور نہیں کر سکتا، دیانۃً اس کا بھی پورا کرنا لازم ہے۔ (معارف)
ساتواں وصف: نماز کو وقت پر آداب و حقوق کی رعایت کے ساتھ ادا کرنا، دنیوی معاملات میں پڑ کر عبادت الٰہی سے غافل نہ ہونا، یہ ہیں مومنین مصلحین کی سات صفات، یہ بات قابل گور ہے کہ ان سات اوصاف کو شروع بھی نماز سے فرمایا اور ختم بھی نماز پر کیا گیا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر اہم ہے اگر نماز کی پابندی اور آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھا جائے تو باقی اوصاف اس میں خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔
اولئک ہم الوارثون، اوصاف مذکورہ کے حاملین کو اس آیت میں جنت الفردوس کا وارث فرمایا گیا ہے لفظ وارث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کا وارث کو پہنچنا ضروری ہے اسی طرح ان اوصاف کے حاملین کا جنت میں داخل ہونا یقینی و ضروری ہے۔
ولقد خلقنا۔۔۔ طین، اللہ تعالیٰ نے عبادت کی ترغیب اور عبادت پر اور جنت الفردوس کے وعدہ کے بعد مبداء کو بیان فرمایا سابقہ آیت میں معاد کا ذکر فرمایا تھا مبدأ اور معاد میں مناسبت ظاہر ہے۔
قولہ: ولقد، لقد قسم محذوف کا جواب ہے ای واللہ لَقَدْ۔ قولہ: سُلالۃ بمعنی خلاصہ، جوہر۔
قولہ: طین گیلی مٹی، مطلب یہ ہے کہ زمین کے خاص اجزاء نکال کر اس سے انسان کو پیدا کیا گیا، انسان کی تخلیق کی ابتداء حضرت آدمؑ سے اور حضرت آدمؑ کی تخلیق کی ابتدا اس مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اس لئے ابتدائی تخلیق کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس کے بعد ایک انسان کا نطفہ دوسرے انسان کی تخلیق کا سبب بنا، اگلی آیت ثم جعلناہ نطفۃ میں اسی کا بیان ہے۔
تخلیق انسانی کے سات مدارج: آیات مذکورہ میں تخلیق انسانی کے سات مدارج ذکر کئے گئے ہیں سب سے پہلے سُلٰلۃ مِنْ طِین دوسرے دور میں نطفۃ تیسرے دور میں علقہ چوتھے دور میں مضغہ پانچویں دور میں عظام یعنی ہڈیاں چھٹے دور میں ہڈیوں پر گوشت چڑھانا۔ ساتواں دور۔ تخلیق کا ہے یعنی روح پھونکنے کا۔
چم انشاناہ۔۔۔ خلقاً، آخر کی تفسیر حضرت ابن عباس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، ضحاک، ابو العالیہ وغیرہ نے نفخ روح سے فرمائی ہے، اس روح سے روح حیوانی مراد ہے، روح حیوانی جسم لطیف مادی شئ ہے جو جسم انسانی کے ہر ہر جز میں سمایا ہوا ہوتا ہے، اطبا اور فلاسفہ اسی کو روح کہتے ہیں اس کی تخلیق بھی تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے، اس لئے اس کو لفظ ثم سے تعبیر کیا گیا ہے، اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں أمر رب کہا گیا ہے وہیں سے لا کر اس روح حیوانی کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ حق تعالیٰ اپنی قدرت سے پیدا فرما دیتے ہیں، جس کی حقیقت کا پہچاننا انسان کے بس کی بات نہیں ہے، اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہے، انہیں ارواح کو حق تعالیٰ نے ازل میں جمع کر کے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرمایا اور سب نے بلیٰ کے لفظ سے ربوبیت کا اقرار کیا، البتہ اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے اس جگہ اگر نفخ روح سے یہ مراد لیا جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت قائم فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے اور در حقیقت حیات انسان اسی روح حقیقی سے متعلق ہے جب یہ تعلق منقطع ہو جاتا ہے تو روح حیوانی بھی اپنا کام چھوڑ دیتی ہے اسی کو موت کہا جاتا ہے۔
آیت نمبر ۲۳ تا ۳۲
ترجمہ: قسم ہے ہماری عزت و جلال کی کہ ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تو انہوں نے فرمایا سے میری قوم اللہ ہی کی بندگی کیا کرو یعنی اسی کی اطاعت کیا کرو اور اس کی توحید کا عقیدہ رکھو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود بنانے کے لائق نہیں (الٰہ) ما کا اسم ہے اور اس کا ماقبل (لکم) ما کی خبر ہے اور من زائدہ ہے، تو پھر کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ یعنی اس کے غیر کی عبادت کرنے کی صورت میں کیا تم اس کے عذاب سے ڈرتے نہیں ہو؟ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے اپنے ماتحتوں سے کہا یہ شخص بجز اس کے کہ تمہارے ہی جیسا (معمولی) انسان ہے اور کچھ نہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ تم پر فضیلت فوقیت حاصل کرے اس طریقہ پر کہ وہ تمہارا ھاکم اور تم اس کے محکوم ہو جاؤ اور اگر اللہ کو یہ منظور ہوتا کہ اس کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کی جائے تو اس حکم کو لے کر کسی فرشتہ کو بھیجتا نہ کہ انسان کو، ہم نے یہ بات یعنی توحید جس کی طرف نوح دعوت دے رہے ہیں اپنے پہلے بڑوں یعنی گذشتہ امتوں سے نہیں سنی، پس یہ نوح ایک شخص ہے کہ جس کو جنون ہو گیا ہے یعنی جنوں کی کیفیت لاحق ہو گئی ہے، تو ایک خاص وقت یعنی موت تک اس کا انتظار کر لو، نوحؑ نے عرض کیا (دعا کی) اے میرے پروردگار آپ ان کے مقابلہ میں ان کو ہلاک کر کے میری نصرت فرمائیے، اس وجہ سے کہ انہوں نے میری تکذیب کی، حق تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کی دعا قبول فرماتے ہوئے فرمایا پس ہم نے نوحؑ کو حکم بھیجا کہ تم ہماری نگرانی اور حفاظت میں اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ پھر جس وقت ان کی ہلاکت کے لئے ہمارا حکم آ جائے اور نان پُز کے تنور سے پانی ابلنے لگے اور یہ نوحؑ کے لئے کشتی پر سوار ہونے کے لئے علامت تھی، تو اس کشتی میں ہر قسم میں سے نر و مادہ کا ایک جوڑا یعنی ہر نوع میں سے دو دو مذکر اور مؤنث رکھ لینا، اور اثنین (فَاسلُکْ) کا مفعول بہ ہے، اور من کُلّ، اسلک سے متعلق ہے، اور واقعہ میں اس طرح مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوحؑ کے لئے درندوں اور پرندوں وغیرہما کو جمع فرما دیا، تو حضرت نوحؑ ہر نوع میں اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے تھے تو آپ کا داہنا ہاتھ نر پر اور بایاں ہاتھ مادہ پر پڑتا تھا تو آپ ان کو کشتی میں سوار کر دیتے تھے، ایک قرأت میں کُلٍّ تنوین کے ساتھ ہے اس صورت میں زوجین مفعول ہو گا اور اثنین اس کی تاکید ہو گی اور اپنے اہل کو یعنی اپنی (مومنہ) بیوی اور اولاد کو سوار کر لو بجز اس کے کہ جس پر ان میں سے ہلاکت کا حکم نافذ ہو چکا ہے، اور وہ نوحؑ کی (کافرہ) بیوی اور ان کا (کافر) لڑکا کنعان ہے، بخلاف سام، حام، اور یافث کے چنانچہ ان کو اور ان کے تینوں بیویوں کو سوار کر لیا، اور سورة ہود میں ہے وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَہٗ اِلآَ قَلِیْلٌ اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور ان کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے، کہا گیا ہے چھ مرد اور ان کی بیویاں تھیں اور (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ ان تمام کی تعداد جو کشتی میں تھے اٹھتر (۷۸) تھے ان میں سے آدھے مرد اور آدھی عورتیں تھیں، اور تم مجھ سے کافروں کی ترک ہلاکت (یعنی نجات) کے بارے میں کچھ گفتگو نہ کرنا وہ یقیناً غرق کئے جائیں گے پھر جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی پر باطمینان سوار ہو جاؤ تو یوں کہنا کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم کو ظالم یعنی کافر قوم سے نجات دی اور ان کو ہلاک کر کے ہم کو نجات دی (ای فلم نُھْلَکْ مَعَھُمْ) اور کشتی سے اترتے وقت یوں دعاء کرنا رَبِّ أنزِلْنِی مُنزَلاً میم کے ضمہ اور زاء کے فتحہ کے ساتھ منزلاً مصدر ہے یا اسم مکان ہے اور میم کے فتحہ اور زاء کے کسرہ کے ساتھ (مَنْزَلاً) بمعنی اترنے کی جگہ۔ اے میرے پروردگار! آپ مجھے اتارئیے بابرکت اتارنا، برکت کی جگہ اتارنا، دوسری قرأت میں بھی یہی دونوں ترجمے ہوں گے، پہلی قرأت میں تقدیر عبارت یہ ہو گی رَبِّ اَنْزِلْنِیْ اِنْزَالاً مبارَکًا دوسری قرأت میں تقدیر عبارت یہ ہو گی رَبِّ انزلنِی نزلاً مُبارَکاً یا (نزولاً مُبارکاً) صرف فرق یہ ہو گا کہ دوسری قرأت میں اَنْزِلنی (افعال) سے ہے اور (مصدر) نزلاً یا نزولاً ثلاثی مجرد سے جیسا کہ اَنٌبَتَ اللہ نباتاً میں ہے مگر مفسر علام کی عبارت سے یہ وہم ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں مصدر اور اسم مکان دونوں کا احتمال ہے اور دوسری صورت میں صرف مصدر کا احتمال ہے حالانکہ دونوں قرأتوں میں دونوں احتمال ہیں، مُبَارَکاً اسم واحد ذکر غائب، بڑا برکت والا، ذٰلِکَ الاِنْزَال اَوِ المکان مفسر علام نے ذٰلک کے ذریعہ مبارکاً کے اندر ضمیر مستتر کا مرجع ظاہر فرمایا ہے اور منزلاً میں چونکہ دو احتمال ہیں اس لئے الانزال او المکان کہہ کر دونوں احتمالوں کی طرف اشارہ کر دیا، اور آپ مذکورہ دونوں صورتوں میں (یعنی خواہ معنی مصدری کی صورت میں ہو یا اسم مکان کے معنی میں) بہترین نازل کرنے والے ہیں پھر ہم نے (قوم نوح) کے بعد ایک دوسری قوم کو وہ عاد ہے پیدا کیا پھر ہم نے ان میں ایک رسول بھیجا جو ان ہی میں سے تھے یعنی ہودؑ (اس پیغمبر نے کہا) کہ تم اللہ ہی کی بندگی کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ کہ ایمان لے آؤ۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
ولقد ارسلنا نوحا (الآیۃ) اللہ تعالیٰ یہاں سے پانچ قصوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، حضرت آدمؑ کا قصہ اختصاراً اوپر گذر چکا ہے اس میں کل چھ قصے ہیں ان قصوں کے بیان کرنے کا مقصد امت محمدیہﷺ کو سابقہ امتوں کے واقعات کی خبر دینا ہے تاکہ پسندیدہ خصائل میں ان کی اقتداء کریں اور خصائل مذمومہ سے اجتناب کریں نیز ان قصوں میں آپﷺ کو تسلی بھی ہے کہ جو حالات آپ کے ساتھ آپ کی قوم کی طرف سے پیش آ رہے ہیں ویسے حالات سابقہ نبیوں کے ساتھ بھی ان کی امتوں کی جانب سے پیش آ چکے ہیں، آپ کو ان حالات و واقعات سے رنجیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ پانچ قصے جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہیں (۱) قصہ نوح (۲) قصہ ہود (۳) قصہ قرون الآخرین (۴) قصہ موسیٰ و ہارون (۵) قصہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کا، نوح یہ لقب ہے آپ کا نام عبد الغفار یا عبداللہ ہے اور بعض حضرات نے یشکر بھی بتایا ہے، آپ ایک ہزار پچاس سال بقید حیات رہے، چالیس سال کی عمر میں اپ کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا اور ساڑھے نو سو سال آپ نے دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دئیے اور طوفان کے بعد آپ ساٹھ سال بقید حیات رہے اس حساب سے ایک ہزار پچاس سال ہوتے ہیں۔
قولہ: مَالکم من الٰہٍ غیرہ یہ جملہ ما قبل کے لئے بمنزلہ علت ہے۔
قولہ: ہو اسم ما مفسر علام یہاں سے مالکم من الٰہٍ غیرہ کی ترکیب فرما رہے ہیں اِلٰہٍ ما کا اسم مؤخر ہے اور لکم کائناً کے متعلق ہو کر ما کی خبر ہے، غَیْرُہُ پر رفع بھی درست ہے اس وقت اِلٰہٍ کے محل کے تابع ہو گا، اور جر بھی جائز ہے اس وقت الٰہٍ کے لفظ کے تابع ہو گا مفسر کے قول ما قبلہ سے لکم جار مجرور مراد ہے مگر جمہور کے نزدیک یہ ترکیب ضعیف ہے ما چونکہ عامل ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے اسم و خبر کی ترتیب بدلنے کی صورت میں ما عمل نہیں کرتا، لہٰذا مناسب یہ تھا کہ اَلٰہٍ کو مبتداء مؤخر اور لکم کو خبر مقدم قرار دیا جائے
قولہ: اَنْ لا یُعْبَدْ غیرہ اس عبارت کو محذوف ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مشیئۃ کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ: بِذٰلِکَ لَابَشَرًا بذٰلک کا تعلق اَنْزَلَ کے ساتھ ہے، اور ذٰلِکَ کا مشائر الیہ (ان لا یعبد غیرہ) یعنی غیر اللہ کی عبادت نہ کرنے کا حکم ہے۔
قولہ: أن اصنع الفلک میں أن تفسیریہ ہے اس لئے کہ اس کے ماقبل اوحینا ہے جو قول کے معنی پر مشتمل ہے۔
قولہ: باعیننا یہ اصنع کی خبر سے حال ہے اور اَعْیُنُ کو جمع لانا مبالغہ کے طور پر ہے۔
قولہ: بمرأی مِنا وحفظنا کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آیت میں مجاز مرسل ہے، اس لئے کہ نظروں سے دیکھنے کے لئے حفاظت لازم ہے لہٰذا ملزوم بول کر لازم مراد لیا گیا ہے۔
قولہ: وفار التنور یہ جاءَ اَمْرنا کا عطف بیان ہے، اور تنور میں سے پانی کا ابلنا عذاب کے لئے علامت کے طور پر تھا، اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت نوح کو علامت کے طور پر بتا دیا گیا کہ جب تنور سے پانی ابلنے لگے تو سمجھ لینا کہ اب عذاب کا وقت قریب آ گیا ہے
قولہ: زوجتہٗ زوجہ اور اولاد سے زوجہ مومنہ اور اولاد مومن مراد ہے، حضرت نوحؑ کی دو بیویاں تھیں ایک مومنہ جس کو کشتی میں ساتھ لے لیا تھا اور کافرہ اپنے کافر بیٹے کنعان کے ساتھ کشتی میں سوار نہیں ہوئی، حضرت نوحؑ کی کافرہ بیوی کا نام واغلہ تھا، آپ کے چار صاحبزادے تھے ایک کافر تھا جس کا نام کنعان وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا، باقی تین صاحبزادے جو مومن تھے ان کے نام سام، حام، یافث تھے، سام ابو العرب ہیں، اور حام ابو السودان ہیں، اور یافث ابو الترک ہیں۔
قولہ ؛ فقل الحمد للہ یہ اذا کا جواب ہے، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ فقل کے بجائے فقولوا فرماتے تاکہ اترتے وقت سب لوگ دعا میں شریک ہو جاتے، مگر چونکہ آپ کی دعا سب کی دعا کے قائم مقام تھی اس لئے صرف آپ کو حکم کیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
وفار التنورُ تنور مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے اس کو بھی تنور کہا جاتا ہے اور تنور پوری زمین کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور بعض حضرات نے ایک خاص تنور مراد لیا ہے جو کہ کوفہ کی مسجد میں اور بعض کے نزدیک شام میں کسی جگہ تھا، یہاں تنور سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے، عکرمہ اور زہری کا بیان ہے کہ سطح زمین مراد ہے، حسن بصری، مجاہد اور شعبی کہتے ہیں تنور سے وہی تنور مراد ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہیں، اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور ایسی ہی حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت منقول ہے اور یہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ لفظ جب حقیقت اور مجاز میں دائر ہو تو حقیقت ہی پر حمل کرنا اولیٰ ہوتا ہے، حضرت نوحؑ اور ان کے طوفان اور کشتی کا واقعہ پچھلی سورتوں میں تفصیل سے گذر چکا ہے، نیز اس کے ضروری اجزاء تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان تحریر کر دئیے گئے ہیں، دیکھ لیا جائے۔
ثم انشانا۔۔۔۔ آخرین اس سے پہلی آیات میں حضرت نوحؑ کا واقعہ بسلسلہ ہدایت و تسلی ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کچھ حال اجمالاً بغیر نام کی تعیین کے ذکر کیا گیا ہے کہ آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے عاد وثمود یا دونوں قومیں مراد لی ہیں، عاد کی طرف حضرت ہودؑ کی اور ثمود کی جانب حضرت صالحؑ کی بعثت ہوئی تھی۔
آیت نمبر ۳۳ تا ۵۰
ترجمہ: اور ان کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تھا یعنی اس کی طرف رجوع کرنے کو اور ہم نے ان کو دنیوی زندگانی میں خوشحالی عطا کی تھی یعنی انعامات سے نوازا تھا کہنے لگے بس یہ تو تمہاری طرح ایک آدمی ہے وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو واللہ اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کے کہنے پر چلنے لگو تو بیشک تم سخت خسارے والے ہو، یعنی نقصان اٹھانے والے ہو کیا یہ شخص تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤ گے تو تم نکالے جاؤ گے مخرجون أنّکم اولیٰ کی خبر ہے اور ثانی أنّکم پہلے أنکم کی تاکید ہے اِنَّ کے اسم اور اس کی خبر کے درمیان طویل فصل ہونے کی وجہ سے بہت ہی بعید ہے بہت ہی بعید ہے وہ بات جو تم سے کہی جاتی ہے (یعنی) قبروں سے نکالنے کی اور لام زائدہ ہے بیان کے لئے ہماری زندگی تو صرف دنیوی زندگی ہے ہم مرتے جیتے رہتے ہیں اپنے بیتوں کے جینے سے اور ہم دوبارہ زندہ کئے جانے والے نہیں ہیں یہ شخص رسول نہیں ہے یہ تو ایسا شخص ہے جو اللہ پر بہتان باندھتا ہے ہم تو ہرگز اس پر ایمان نہ لائیں گے یعنی مرنے کے بعد وہ زندہ کرنے کے بارے میں تصدیق کرنے والے نہیں ہیں، نبی نے دعاء کی اے میرے پروردگار تو ان سے میرا بدلہ لے لے اس وجہ سے کہ انہوں نے میری تکذیب کی ارشاد ہوا یہ لوگ عنقریب اپنی تکذیب و کفر پر پشیمان ہوں گے عمَّا قلیل میں ما زائدہ ہے بالآخر عدل کے تقاضہ کے مطابق چیخ نے پکڑ لیا چیخ کے عذاب اور ہلاکت نے حال یہ کیا وہ عدل کے تقاضہ کے مطابق تھا چنانچہ سب کے سب مر گئے پھر ہم نے ان کو خس و خاشاک کر دیا غثاءً سوکھی گھاس کو کہتے ہیں، یعنی ہم نے ان کو خس و خاشاک کی مانند کر دیا خشک ہونے میں سو رحمت سے دوری ہو ظالم یعنی تکذیب کرنے والی قوموں کے لئے پھر ان کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کیا اور کوئی امت اپنے وقت مقررہ سے نہ تو آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے بایں طور کہ اپنے وقت مقررہ سے پہلے مر جائے یا اس سے مؤخر ہو جائے (یستاخروں) میں ضمیر کو معنی کی رعایت کی وجہ سے مذکر لائے ہیں، مؤنث لانے کے بعد پھر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے تَتٰرًا تنوین اور بغیر تنوین دونوں ہیں یعنی ایک کے بعد دوسرا دو کے درمیان طویل زمانہ تھا جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا انہوں نے اس رسول کی تکذیب کی تو ہم نے ہلاکت میں ایک کو ایک کے پیچھے لگا دیا اور ہم نے ان کو داستان بنا دیا خدا کی مار ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارونؑ کو احکام اور کھلی دلیل دے کر کھلی دلیلیں وہ یدبیضاء اور عصائے موسیٰ اور دیگر نشانیاں ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان آیات اور اللہ پر ایمان لانے کے بارے میں تکبر کیا اور وہ بنی اسرائیل پر ظلم کے ذریعہ غلبہ حاصل کرنے والے لوگ تھے چنانچہ وہ کہنے لگے کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم ہمارے زیر حکم زیر فرمان اور سرنگوں ہیں چنانچہ وہ لوگ ان دونوں کی تکذیب ہی کرتے رہے آخر کار ہلاک کر دئیے گئے اور ہم نے موسیٰؑ کو کتاب تورات عطا فرمائی تاکہ وہ یعنی موسیٰؑ کی قوم بنی اسرائیل اس کے ذریعہ گمراہی کے راستہ سے ہدایت کے راستہ کی طرف آئیں اور توریت فرعون اور اس کی قوم کے ہلاک ہونے کے بعد یکبارگی عطا کی گئی اور ہم نے ابن مریم عیسیٰ کو اور ان کی والدہ کو نشانی بنا دیا آیتیں نہیں کہا، اس لئے کہ دونوں میں نشانی ایک ہی ہے اور وہ بغیر مرد کے ان کی پیدائش ہے اور ہم نے ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جا کر پناہ دی جو رہنے کے قابل تھی رَبُوَۃَ اونچی جگہ کو کہتے ہیں اور وہ بیت المقدس یاد مشق یا فلسطین ہے یہ (تین) قول ہیں، ذات قرار کا مطلب ہے ہموار تاکہ اس پر اس کے باشندے وہ سکیں، اور چشمہ والی یعنی ظاہری سطح پر جاری پانی والی ہیں، جس کو آنکھیں دیکھ سکیں۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
اَلْمَلأُ اسم جمع ہے، الأمْلَاءُ جمع ہے سرداروں کی جماعت، قوم شرفاء کی جماعت۔
قولہ: وَاللہِ لَئِنْ اَطَعْتُمْ یہاں قسم اور شرط کا اجتماع ہے جہاں یہ دونوں جمع ہو جاتے ہیں تو اول کا جواب لایا جاتا ہے اور چانی کے جواب کو اول کے جواب پر قیاس کر کے حذف کر دیتے ہیں اِنّکم اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ جواب قسم ہے نہ کہ جواب شرط نہ ہونے کا قرینہ یہ بھی ہے کہ یہاں انکم اذًا لَّخٰسرون جملہ اسمیہ ہے اگر یہ جواب شرط ہوتا تو اس پر فا کا داخل ہونا ضروری تھا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہ جواب قسم ہے جواب شرط نہیں ہے۔
قولہ: اِنّکُمْ اِذًا ای اِنْ اَطَعْتُمُوْہٗ لَخٰسِرونَ، کُمْ اِنَّ کا اسم ہے اور خاسرون اس کی خبر ہے لام ابتدائیہ ہے اور اِذًا اِنْ کے اسم اور اس کی خبر کے درمیان مضمون شرط کی تاکید کے لئے ہے، اور اِذًا کی تنوین جملہ شرطیہ محذوف کے عوض میں ہے جیسا یومئِذٍ میں، مفسر علام نے اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ای اِنْ اَطَعْتُمُوہ کا اضافہ کیا ہے اس وقت اس کو جواب کی ضرورت نہ ہوتی اس لئے کہ یہ ماقبل کی تاکید لفظی کے لئے ذکر کیا گیا ہے اور اعادۃ الشئ بمرادفہٖ کے قبیل سے ہے (جمل)
قولہ: اَیَعِدُکُمْ یہ جملہ مستانفہ ماقبل کے مضمون کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔
قولہ: مخرجون أنَّ اولیٰ کی خبر ہے إذا متم مخرجون کا ظرف ہے اور أنکم کا عمل نہیں ہے اس لئے کہ وہ پہلے أنکم کی تاکید لفظی ہے
قولہ: ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ اسم فعل بمعنی ماضی، یہ کلمہ اکثر مکرر استعمال ہوتا ہے ثانی اول کی تاکید ہے چونکہ اس میں اختلاف ہے کہ ھیھاتَ اسم فعل بمعنی ماضی ہے یا بمعنی مصدر ہے اسی اختلاف کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مفسر علام نے بُعْدَا پر دونوں اعراب لگائے ہیں۔ سوال: ھَیْھَاتَ کو اسم فعل کیوں کہتے ہیں؟ یہ تو اجتماع بین الضدین معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ جو اسم ہو گا وہ فعل نہیں ہو سکتا، اور جو فعل ہو گا وہ اسم نہیں ہو سکتا۔
جواب: چونکہ یہ لفظ کے اعتبار سے اسم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی گردان نہیں ہوتی، اس وجہ سے اس کو اسم کہتے ہیں اور اپنے معنی و مدلول کے اعتبار سے یہ فعل ہے اس لئے اس کو فعل کہتے ہیں، دونوں حیثیتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس کا نام اسم فعل رکھ دیا گیا ہے، اور چونکہ ھَیْھَاتَ بمعنی مصدر بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے مفسرعلام نے اسم فعل ماض کہہ کہ پہلے معنی کی طرف اشارہ کیا ہے اور بمعنی مصدرٍ کہہ کر دوسرے معنی کی طرف اشارہ کیا ہے اور انہی دونوں معنی وضاحت کے لئے بعد اً پر دونوں اعراب لگائے ہیں، فعل ماضی کا اعراب بھی لگایا ہے اور مصدر کا بھی۔
خلاصہ کلام: ھَیْھَاتَ اسم فعل ہے بَعُدَ فعل ماضی کے معنی میں اس کے فاعل میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ اس کا فاعل اس میں مضمر ہو اور تقدیر عبارت یہ ہو بَعُدَ التصدیق او الصحۃ او الوقوع لما توعدون نحو ذٰلک اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا فاعل ما ہو اور لام زائدہ ہو بیان استبعاد کے لئے۔ گویا کہ کہا گیا یہ استبعاد کس چیز کا ہے؟ جواب دیا لما توعدون جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی بعث بعد الموت اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ ھَیْھَاتَ، البُعْد بمعنی مصدر مبتدا اور لما توعدون اس کی خبر، مگر بعض حضرات نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، پہلی صورت میں ھَیْھَاتَ کا کوئی محل اعراب نہیں ہو گا۔
قولہ: مِنَ الاخراج منَ القبور مَا توعدون میں ما کا بیان ہے۔
قولہ: بِحَیَاتِ اَبْنَائِنَا یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ مشرکین کا نَمُوْتُ وَنَحْیَا کہنا یہ تو بعث بعد الموت کے منکر ہیں، مفسر علام نے بحیات ابنائنا کہہ کر جواب دے دیا کہ مشرکین کے قول نموت و نحیا کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم مر جاتے ہیں تو ہماری اولاد زندہ رہتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بعث بعد الموت کا نہیں ہے، بعض حضرات نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے ای نَحْیَا و نموتُ۔
قولہ: عَمَّا قلیل بعض حضرات نے کہا ہے ما زائدہ ہے ای عن قلیل من الزمان اور بعض مجرور کس سے متعلق ہے؟ اس میں تین قول ہیں (اول) لیَصْبَحُنَّ کے متعلق ہے (دوسرا) نادمین کے متعلق ہے (تیسرا) محذوف سے متعلق ہے ای عما قلیل ننصرہٗ ماقبل یعنی انصرنی کی دلالت کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے۔
قولہ: صَیْحۃ العذاب میں اضافت بیانیہ ہے ای صیحۃ العذاب والھلاک صیحہ سے مراد عذاب ہے نہ کہ حضرت جبرئیل کی چنگھاڑ، اس لئے کہ قوم عاد حضرت جبرائیلؑ کی چنگھاڑ سے ہلاک نہیں ہوئی تھی۔
قولہ: کائنۃً مفسر علام نے کائنۃ محذوف مان کر اشارہ کر دیا کہ بالحق کائنۃً کے متعلق ہو کر صیحۃ سے حال ہے۔
قولہ: فبعدًا اس کے فعل کو حذف کر کے مصدر کو اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے اس کے فعل ناصب کو حذف کرنا واجب ہے ای فبعدُوْا بُعْدًا یہ کلمہ مشرکین کے لئے بد دعاء کے قائم مقام ہے۔
قولہ: ذُکِّرَ الضمیرُ الخ یعنی یستاخرون میں ضمیر کو مذکر لایا گیا ہے حالانکہ اَجَلھَا کے اندر ضمیر مؤنث لائے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ھا ضمیر اُمَّۃٍ کی طرف راجع ہے اور امت سے قوم مراد ہے جو کہ مذکر ہے اسی وجہ سے یستاخرون میں ضمیر کو مذکر لائے ہیں۔
قولہ: تَتْرًا مصدر محذوف سے حال یا صفت ہے، ای ارسالاً تَتْرًا، تَتْرًا اصل میں وَتْرًا تھا، واؤ کو تا سے بدل دیا وتر متابعت مع المہلت کو کہتے ہیں۔ قولہ: احادیث یہ احدوثۃ کی جمع ہے ما یتحدّثہ الناس یعنی وہ قصے کہانیاں جن کو لوگ وقت گذاری اور تفریح طبع کے لئے کہتے سنتے ہیں۔ قولہ: من امتہ من فاعل پر زائدہ ہے اُمّۃٍ تسبق کا فاعل ہے۔
قولہ: بتحقیق الھمزتین (اول صورت) دونوں ہمزوں کو محقق پڑھیں (دوسری صورت) پہلے ہمزہ کو محقق اور دوسرے کو مسھَّل پڑھیں، یعنی ہمزہ اور واؤ کے درمیان پڑھیں۔
قولہ: جملۃً واحدۃً اس کا تعلق اوتیھا سے بھی ہو سکتا ہے اس وقت مطلب یہ ہو گا فرعون کے ہلاک ہونے کے بعد توریت جملۃً واحدۃً یکبارگی) دے دی گئی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ہلاکت فرعون اور اس کی قوم سے متعلق ہو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ فرعون اور اس کی قوم کو بالکلیہ ہلاک کرنے کے بعد توریت عطا کی گئی۔
تفسیر و تشریح
اس سے پہلی آیات میں حضرت نوحؑ کا قصہ بسلسلہ ہدایت ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کچھ حال اجمالاً نام متعین کئے بغیر ذکر کیا گیا ہے، آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مرادان امتوں سے عاد یا ثمود یا دونوں ہیں، عاد کی طرف حضرت ہودؑ کو بھیجا گیا تھا اور ثمود کے پیغمبر حضرت صالحؑ تھے، اس قصہ میں ان قوموں کا ہلاک ہونا ایک صیحۃ یعنی غیبی سخت آواز کے ذریعہ بیان فرمایا ہے اور صیحہ کے ذریعہ ہلاک ہونا دوسری آیت میں قوم ثمود کا بیان ہوا ہے اس سے بعض حضرات نے فرمایا کہ ان آیات میں قرناً آخرین سے ثمود مراد ہیں مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صیحۃ کا لفظ اس جگہ مطلق عذاب کے معنی میں ہو جیسا کہ تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان اشارہ کیا گیا ہے، اس طریقہ سے اس کا تعلق عاد کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
انھی۔۔۔ (الآیہ) مشرکین کا اعتقاد تھا کہ دنیاوی زندگی کے علاوہ اور کوئی زندگی نہیں ہے، بس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، دوبارہ ان کو زندہ ہونا نہیں ہے، ہر قوم جس نے پیغمبروں کی تکذیب کی ٹھیک اپنے وعدہ پر ہلاک کر دی گئی جس قوم کی جو میعاد تھی اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہوئی۔
ثم ارسلنا رسلنا تترا پھر ہم یکے بعد دیگرے رسول بھیجتے رہے اور مکذبین کو بھی ایک کے پیچھے ایک جو چلتا کرتے رہے، چنانچہ بہت سی قومیں اس طرح تباہ و برباد کر دی گئیں، جن کے قصے کہانیوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہی آج ان کی داستانیں محض عبرت کے لئے پڑھی اور سنی جاتی ہیں فَقَالُوْا أنُؤمِنُ لِبَشَرَیْنِ (الآیہ) مطلب یہ کہ موسیٰ ان کی قوم تو غلام اور خدمت گار ہیں تو ہم انہیں میں کے دو افراد کر اپنا سردار کس طرح بنا لیں، فرعون اور فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے ان کو تورات عطا کی تاکہ لوگ اس پر چل کر جنت اور رضاء الٰہی کی منزل تک پہنچ سکیں وَآوَینٰھُمَا اِلیٰ رَبوَۃٍ ربوۃ اونچی جگہ کو کہتے ہیں مفسر علام نے اس میں تین احتمال ذکر کئے ہیں بیت المقدس، دمشق، فلسطین، ممکن ہے کہ یہ وہی ٹیلہ ہو کہ جہاں وضع حمل کے وقت حضرت مریم تشریف رکھتی تھیں چنانچہ سورة مریم میں فناداھا من تحتھا (الآیہ) دلالت کرتی ہے کہ وہ بلند جگہ تھی، نیچے چشمہ یا نہر بہہ رہی تھی، لیکن عموماً مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کے بچپن کا واقعہ ہے ہیرودس نامی ایک ظالم بادشاہ کو نجومیوں کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو سرداری ملے گی جس کی وجہ سے بچپن ہی میں ان کا دشمن ہو گیا تھا اور قتل کے درپے تھا، حضرت مریم الہام ربانی سے ان کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس ظالم بادشاہ کے مرنے کے بعد پھر شام واپس آئیں چنانچہ انجیل متیٰ میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار دریائے نیل کے ہے ورنہ غرق ہو جاتا، اور ماء معین دریائے نیل ہے، بعض نے ربوہ سے مراد شام یا فلسطین لیا ہے، بہرحال اہل اسلام میں سے کسی نے ربوہ سے کشمیر مراد نہیں لیا، اور نہ حضرت عیسیٰؑ کی قبر کشمیر میں بتائی، البتہ ہمارے زمانے کے بعض زائغین نے ربوہ سے کشمیر مراد لیا ہے، اور وہیں حضرت عیسیٰؑ کی قبر بتائی ہے، جس کا تاریخی حیثیت سے کوئی ثبوت نہیں ہے، محلہ خان یار شری نگر میں جو قبر ’’یوزاسف‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی بابت تاریخی اعظمی کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ لوگ اس کو کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزادہ تھا جو دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا، اس کو حضرت عیسیٰؑ کی قبر بتانا انتہاء درجہ کی حماقت اور سفاہت ہے، ایسی اٹکل پچو اور بے سروپا باتوں سے حضرت مسیحؑ کی حیات کو باطل ٹھہرانا خبط اور جنون کے سوا کچھ نہیں، اگر اس قبر کی تحقیق مطلوب ہو کہ ’’یوزاسف‘‘ کون تھا تو جناب منشی حبیب اللہ صاحب امرتسری کا رسالہ دیکھیں جو خاص اسی موضوع پر نہایت ہی تحقیق سے لکھا گیا ہے، جس میں اس مہمل خیال کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ (فوائد عثمانی ملخصاً)
آیت نمبر ۵۱ تا ۷۷
ترجمہ: اے پیغمبرو! پاکیزہ حلال چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو وہ فرض اور نفل ہیں بلا شبہ میں تمہارے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں تو میں ان کاموں پر تم کو جزاء دوں گا اور یہ بات جان لو کہ یہ یعنی ملت اسلام اے مخاطبو تمہارا دین ہے یعنی تمہارے لئے واجب ہے کہ تم اس پر قائم رہو حال یہ ہے کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے یہ حال لازمہ ہے اور ایک قرأت میں اَنْ کے نون کی تخفیف کے ساتھ ہے اور دوسری قرأت میں ہمزہ کے کسرہ اور نون کی تشدید کے ساتھ ہے اور یہ استیناف کے اعتبار سے ہے میں تمہارا رب ہوں تم مجھ سے ڈرتے رہو پھر وہ متبعین اپنے دینی معاملہ میں آپس میں مختلف ہو گئے زُبُرًا تقطعوا کے فاعل سے حال ہے یعنی آپس میں اختلاف کرنے والی جماعت ہو گئے، جیسا کہ یہود اور نصاریٰ وغیرہ پس ہر گروہ کے پاس جو ہے اسی پر خوش ہے یعنی جو دین ان کے پاس ہے (اسی پر خوش ہے) تو آپ ان کو یعنی اہل مکہ کو ان کی ضلالت میں ایک خاص وقت تک کے لئے چھوڑ دیجئے یعنی ان کی موت تک کیا یوں سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال و اولاد و دنیا میں دے رہے ہیں تو ہم ان کو فائدہ پہچانے میں جلدی کر رہے ہیں نہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان کے لئے ڈھیل ہے بیشک وہ لوگ جو اپنے رب کی ہیبت سے خوف زدہ رہتے ہیں یعنی اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیتوں یعنی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی تصدیق کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ یعنی اس کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہیں کرتے اور وہ لوگ دیتے ہیں جو دیتے ہیں صدقات سے اور کرتے ہیں نیک اعمال جو کرتے ہیں اور ان کے قلوب اس بات سے لرزاں رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکی قبول نہ کی جائے اس لئے کہ ان کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے اَنَّھُمْ سے پہلے لام جر مقدر مانا جائے گا، یہی ہیں وہ لوگ جو نیکیوں میں جلدی کر رہے ہیں اور یہی لوگ اللہ کے علم میں نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں، اور ہم کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کام کا مکلف نہیں بناتے یعنی اس کی طاقت سے (زیادہ) لہٰذا جو شخص کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھے اور جو شخص روزہ نہ رکھ سکے تو نہ رکھے، اور ہمارے پاس ایک دفتر ہے جو ٹھیک ٹھیک (ہر وہ) کام بتادیتا ہے جو کسی نے کیا ہو اور وہ لوح محفوظ ہے جس میں اعمال لکھے جاتے ہیں اور ان عمل کرنے والے لوگوں پر ان کے اعمال کے بارے میں ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا، لہٰذا نہ تو ان نیک اعمال کا اجر کیا جائے گا اور نہ ان کے اعمال بد میں اضافہ کیا جائے گا بلکہ ان کافروں کے قلوب اس قرآن کے بارے میں جہالت میں ہیں اور ان (کافروں کے) مومنین کے اعمال مذکورہ کے برخلاف اور اعمال بھی ہیں جن کو وہ کرتے ہیں تو ان (کافروں) کو ان اعمال پر عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال مالداروں اور سرداروں کو عذاب میں یعنی یوم بدر کی تلوار کے عذاب میں پکڑ لیں گے تو وہ چلانے لگیں گے (تو) ان سے کہا جائے گا، اب مت چلاؤ ہماری طرف سے تمہاری مطلق مدد نہ کی جائے گی میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو تم ایمان سے تکبر کرتے ہوئے الٹے پاؤں بھاگتے پتھے یعنی الٹے پلٹ جاتے تھے بیت اللہ یا حرم کی وجہ سے کہ وہ اہل حرم تھے اور اہل حرم امن میں تھے، بخلاف دیگر تمام لوگوں کے کہ اپنے مقامات میں (کہ غیر مامون تھے) رات کو باتیں بناتے ہوئے بیہودہ بکتے ہوئے یعنی جماعت کی شکل میں بیت اللہ کے گرد جمع ہو کر بیہودہ باتیں بناتے تھے، تَھُجُرُوْنَ ثلاثی سے تَتْرُکُوْنَ القُرآنَ کے معنی میں ہے اور رباعی سے تُھْجِرُوْنَ تقولون کے معنی میں ہے یعنی تم نبی اور قرآن کے بارے میں ناحق باتیں کرتے تھے کیا ان لوگوں نے اس کلام یعنی قرآن میں جو کہ نبیﷺ کی صداقت پر دال ہے غور نہیں کیا؟ یَدَّبرُوا کی اصل یَتَدَبَّرُوْا تھی تا کو دال میں ادغام کر دیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے آباء و اجداد کے پاس نہیں آئی تھی یا یہ لوگ اپنے رسول سے واقف نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کے منکر ہیں یا یہ لوگ آپ کے بارے میں جنون کے قائل ہیں؟ اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوْا میں استفہام اقرار حق پر آمادہ کرنے کے لئے ہے وہ حق نبیﷺ کی صداقت اور امم ماضیہ میں رسولوں کی آمد اور ان کا اپنے رسولوں کی صداقت و امانت کی معرفت اور یہ کہ آپﷺ مجنون نہیں ہیں بلکہ (اصلی وجہ یہ ہے) کہ یہ رسول ان کے پاس حق بات لے کر آئے ہیں، یعنی قرآن کو جو کہ توحید اور قانون اسلام پر مشتمل ہے اور ان میں کے اکثر لوگ حق بات سے نفرت کرتے ہیں اور اگر حق یعنی قرآن ان کی خواہشات کے تابع ہو جاتا بایں طور کہ جو یہ چاہتے وہی لاتا (یعنی) اللہ کے لئے شریک اور اولاد اللہ تعالیٰ اس سے برتر ہے تو آسمان اور زمین اور جواب میں ہیں سب تباہ ہو جاتے یعنی اپنے نظام مشاہد سے نکل جاتے تعدو حکام کے وقت عادۃ شئ میں اختلاف ہونے کی وجہ سے بلکہ ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت کی بات یعنی قرآن جس میں ان کا ذکر اور شرف ہے بھیجی سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے بھی روگردانی کرتے ہیں یا آپ ان سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں یعنی ایمان کی باتوں پر جن کو آپ ان کے لئے لے کر آئے ہیں کچھ اجرت طلب کرتے ہیں تو آمدنی تو آپ کے رب کی یعنی اس کا اجر وثواب اور اس کا رزق بہتر ہے اور ایک قرأت میں دونوں جگہ خَرْجًا ہے اور ایک قرأت میں دونوں جگہ خَراجًا ہے اور وہ دینے والوں میں سب سے اچھا دینے والا ہے یعنی عطا کرنے والوں اور اجر دینے والوں میں وہ سب سے بہتر ہے آپ تو ان کو سیدھے راستہ یعنی دین اسلام کی طرف بلا رہے ہیں اور ان لوگوں کی جو آخرت پر یعنی بعث وثواب و عقاب پر ایمان نہیں رکھتے یہ حالت ہے کہ (سیدھے) راستہ سے ہٹے جاتے ہیں اور اگر ہم ان پر مہربانی فرمائیں اور ان پر جو تکلیف ہے یعنی وہ بھکمری جو سات سال تک مکہ میں ان کو لاحق ہو گئی تھی دور کر دیں تو وہ لوگ اپنی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے اصرار کرتے رہیں اور ہم نے ان کو بھکمری کے عذاب میں گرفتار (بھی) کیا ہے مگر ان لوگوں نے نہ اپنے رب کے سامنے عاجزی تواضع اختیار کی اور نہ تضرع کیا، یعنی نہ دعاء میں اللہ کی طرف رغبت کی یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر بدر کے دن قتل کے ذریعہ شدید عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اچانک اس دن میں ہر خیر سے نا امید ہو گئے۔
قولہ: بل لا یشعرون یہ یحْسَبُوْنَ سے اضراب ہے یعنی ان کا خیال غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
یایھا الرسل۔۔۔ الطیبات اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب محمدﷺ کو ہے مگر مراد ہر نبی ہے، یعنی ہر نبی کو اس کے زمانہ میں یہی حکم تھا۔
قولہ: واعلموا أنَّ ھٰذہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً مفسر علام نے اعلموْا مقدر مان کر اشارہ کر دیا کہ أنَّ فتحہ ہمزہ کے ساتھ ہے اور ھٰذہٖ أنّ کا اسم ہے اور اُمَّتُکُمْ اس کی خبر ہے اور اُمَّۃً حال لازمہ ہے اور وَاحِدَۃً اس کی صفت لازمہ ہے اور ایک قرأت میں تخفیف نون اور فتحہ ہمزہ کے ساتھ ہے یعنی مخفہ عن المثقلہ ہے اس کا اسم ضمیر شان محذوف ہے، اور ایک تیسری قرأت میں اِنَ نون مشددہ اور ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے اس صورت میں یہ جملہ مستانفہ ہو گا جملہ مستانفہ پر عطف ہونے کی وجہ سے، اس لئے کہ معطوف علی المستانفہ، مستانفہ ہوتا ہے۔
قولہ: اَمْرُھُمْ یہ تَقَطَّعُوْا بمعنی قَطَّعُوْا کا مفعول ہے، جیسے تَقَدَّمَ بمعنی قَدَّمَ آتا ہے ای جَعَلُوْا دِینَھُمْ ادیانا مختلفۃً۔
قولہ: زبُرُ یہ زبور کی جمع ہے بمعنی فریق، لوہے کا ٹکڑا یہ تَقَطَّعُوْا کے فاعل سے حال ہے یا اس کا مفعول۔
قولہ: فی غمرَتِھِمْ یہ فذرھم کا مفعول ثانی ہے، ای اُتْرَکھُمْ مستقرین فی غمرتھم۔
قولہ: انَّمَا نُمِدُّھُمْ ما موصولہ ہے اس لئے کہ من مال وبنین اس کا بیان آ رہا ہے یہ ما کے موصولہ ہونے کی دلیل ہے لہٰذا مَا کو اَنَّ سے جدا کر کے لکھا جانا چاہیے تھا لیکن مصحف امام (مصحف عثمانی) کے رسم الخط کی اتباع کرتے ہوئے اِنَ کو مآ کے ساتھ متصل کر دیا، یہ مَا، أنَّ کا اسم ہے اور نسارع جملہ ہو کر خبر ہے اور رابطہ کی ضمیر محذوف ہے ای بہ۔
قولہ: اِنَّ الذین ہم مِنْ خشیَۃِ رَبِّھِمٌ مُشفقونَ الذین اِنَ کا اسم ہے، ھُمْ مبتدا ہے مشفقون مبتداء کی خبر ہے مِنْ خشیَۃ ربھم، مشفقون کے متعلق ہے، ہم مبتدا اپنی خبر مشفقون سے مل کر صلہ موصول کا، موصول اپنے صلہ سے مل کر اِنّ کا اسم ہے، اسی طرح آئندہ آنے والے چاروں موصول اِنّ کا اسم ہیں اور اُولٰئِکَ یُسارعُونَ فی الخَیْرَاتِ جملہ ہو کر اِنّ کی خبر ہے۔
قولہ: والذین یُوتُون یُعطون ما اَعْطَوْا عام مفسرین اس پر ہیں کہ یپوتون ایتاءً سے ہے ای یعطون ما اَعْطَوْا ابن عباسؓ اور عائشہؓ وغیرہما فرماتے ہیں کہ یوتون مَا اَتوا اتیان سے ہے ای یفعلون ما فعلوا من الاعمال الصالحات مفسر علام نے دونوں معنی کی رعایت کرتے ہوئے مَا کے بیان میں دو لفظ ذکر کئے ہیں، من الصدقۃ کا تعلق عام مفسرین کے معنی کے اعتبار سے اور اعمال صالحہ کا تعلق حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ کی قرأت سے ہے۔ قولہ: وَجِلَۃٌ حال ہے یوتون کی ضمیر سے۔
قولہ: یُقَدّرُ قَبْلَہٗ لام الجَرِّ، أنَّھُمْ سے پہلے لام جر مقدر مانا جائے گا تاکہ وَجِلَۃٌ کی علت ہو جائے یعنی ان کے قلوب اس لئے خائف رہتے ہیں کہ ان کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
قولہ: وَھُمْ لَھَا سَابِقُوْن یہ اصل میں وھم سابقون لَھَا تھا فواصل کی رعایت کے لئے لَھَا کو مقدم کر دیا، یہ جملہ مبتدا خبر ہے، وَھُمْ لا یُظْلَمُوْنَ، ہم ضمیر نفس کی طرف راجع ہے جو کہ لاتُکَلِّفُ نَفْسًا میں ہے نفسٗ چونکہ نفی کی تحت واقع ہے جس کی وجہ سے عموم مراد ہے جس کے اندر جمع کے معنی ہیں، اس لئے وَھُمْ لا یُظْلَمُوْنَ میں جمع کا صیغہ لانا درست ہے۔
قولہ: وَلَھُمْ الخ ای للکفار اَعْمَالٗ۔ خبیثۃً مِن دون ذٰلک الأعمال المذکورۃ للمؤمنین قتادہ نے کہا ہے کہ لَھُمْ کی ضمیر کا مرجع مسلمین ہے یعنی مومنین کے لئے اعمال مذکورہ کے علاوہ اور بھی نیک اعمال ہیں جنکو وہ کرتے رہتے ہیں، بغوی نے کہا ہے کہ اول معنی زیادہ ظاہر ہیں
قولہ: حَتّیٰ انتدائیۃً یعنی اس کے بعد سے کلام کی ابتدا ہو رہی ہے۔
قولہ: اِذَا اَخَذْنَا مترفیھم شرط ہے اِذَا ھُمْ یَجْأرُوْنَ اس کی جزاء اِذَا مفا جاتیہ ہے بمعنی فا ہے تقدیر عبارت یہ ہے حَتّیٰ اِذَا اَخَذْنَا مُتْرفِیھم بالعذاب فاجئروا بالصراخ یَجْئَرُوْنَ مضارع جمع مذکر غائب (فتح) جئرًا بے قرار ہو کر فریاد کرنا، گائے بیل کا چلانا، تَنْکِصُوْنَ
مضارع جمع مذکر حاضر ہے (ض) نکوص پھرنا، واپس ہونا۔
قولہ: مستکبرین بہ جار مجرور مستکبرین سے متعلق ہے باسببیہ ہے یا سامرًا سے متعلق ہے بابمعنی فی ہے بہٖ کا مرجع یا قرآن ہے جو کہ کانت آیاتی سے مفہوم ہے یا اس کا مرجع بیت اللہ یا حرم ہے، اگرچہ ان دونوں کا سابق میں ذکر نہیں ہے مگر بیت اللہ اور حرم پر ان کا فخر و استکبار اس قدر مشہور تھا کہ مذکور نہ ہونے کی صورت میں بھی مذکور سمجھا جاتا تھا۔
قولہ: مستکبرین وسامراً وتَھُجَرونَ یہ تینوں ینکصون کی ضمیر سے حال ہیں، مفسر علام کے لئے زیادہ بہتر تھا کہ حالٌ کو تھجرون کے بعد ذکر کرتے اور حالٌ کے بجائے احوال فرماتے۔
قولہ: بِاَنَّھُمْ اَھُلُہٗ باسببیہ ہے بیان علت کے لئے یعنی ایمان سے استکبار کرتے تھے یہ علت اور دلیل بیان کرتے ہوئے کہ ہم بیت اللہ کے منتظم اور متولی ہیں۔ قولہ: اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوْا القول ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور فاعاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَعَمُوْا فَلَمْ یَدَّبرُوْا کیا یہ لوگ (قدرت کی نشانیوں سے) اندھے ہو گئے ہیں کہ (ان میں) غور و فکر نہیں کرتے۔
قولہ: عادۃ یہاں مناسب یہ تھا کہ عادۃ کے بجائے عَقْلاً کہتے، اس لئے کہ وجود مشرک فساد عالم کا عقلاً مقتضی ہے نہ کہ عادۃ۔
قولہ: مبلسون ابلاس سے مشتق ہے اس کے معنی نا امید ہونا، مایوس ہونا، اسی سے ابلیس ہے کہ وہ بھی رحمت خداوندی سے مایوس ہو گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
یایھا الرسل۔۔۔ صالحا، اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام انبیاء کرام کو اپنے اپنے زمانہ میں دو باتوں کی ہدایت دی گئی اول یہ کہ پاکیزہ اور حلال چیزیں کھائیں دوم یہ کہ نیک اعمال کریں، جب انبیاء کرام جو کہ معصوم ہوتے ہیں ان کو یہ ہدایت ہے تو امت تو بطریق اولیٰ اس کی مخاطب ہو گی، بلکہ اصل مقصود امت ہی کو ہدایت کرنا ہے، علماء نے اس حکم سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک عمل کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے، اور جب غذا حرام ہوتی ہے تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود اس میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں، حدیث میں وارد ہے کہ بعض لوگ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور غبار آلود رہتے ہیں پھر اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر ان کا کھانا بھی حرام ہوتا ہے، پینا بھی حرام، لباس بھی حرام ہوتا ہے اور حرام ہی کی ان کو غذا ملتی ہے ایسے لوگوں کی کہاں دعا قبول ہو سکتی ہے؟
اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً واحدۃً لفظ امت جماعت اور کسی خاص پیغمبر کی قوم کے معنی میں معروف و مشہور ہے، اور کبھی یہ لفظ طریقہ اور دین کی معنی میں بھی آتا ہے یہاں یہی معنی مراد ہیں۔
فتقطعوا۔۔۔ زبر، زبور کی جمع ہے جو کتاب کے معنی میں آتا ہے اس معنی کے اعتبار سے مراد آیت کی یہ ہے، اللہ تعالیٰ نے تو تمام انبیاء اور ان کی امتوں کو اصول اور عقائد میں ایک ہی دین اور طریقہ پر چلنے کی ہدایت فرمائی تھی مگر امتوں نے اس کو نہ مانا، اور آپس میں مختلف ٹکڑے ہو گئے ہر ایک نے اپنا اپنا طریقہ الگ اور اپنی کتاب الگ بنا لی، اور زُبُرُ کبھی رُبُرۃ کی جمع بھی آتی ہے جس کے معنی قطعہ اور ٹکڑے کے ہیں یہی معنی اس جگہ زیادہ واضح ہیں، اور مراد آیت کی یہ ہے کہ لوگ عقائد اور اصول میں بھی مختلف فرقہ بن گئے لیکن فروعی اختلاف ائمہ مجتہدین اس میں داخل نہیں کیونکہ ان اختلافات سے دین و ملت الگ نہیں ہو جاتی، اس اجتہادی اور فروعی اختلاف کو فرقہ واریت کا رنگ دینا خالص جہالت ہے جو کسی مجتہد کے نزدیک جائز نہیں۔ (معارف)
والذین۔۔۔۔۔۔ ایتاءً سے مشتق ہے جس کی معنی دینے اور خرچ کرنے کے ہیں اسی لئے اس کی تفسیر صدقات سے کی گئی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک قرأت یَاتُوْنَ مَا آتَوْا بھی منقول ہے یعنی عمل کرنے میں جو کچھ کرتے ہیں، اس میں صدقات نماز روزہ اور دیگر تمام نیک اعمال شامل ہو جاتے ہیں، اسی قرأت کی رعایت کرتے ہوئے مفسر علام نے والاعمال الصالحہ سے تفسیر کی ہے، مشہور قرأت کے مطابق اگرچہ یہاں ذکر صدقات ہی کا ہو گا مگر بہرحال مراد عام اعمال صالحۃ ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یہ کام کر کے ڈرنے والے وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے یا چوری کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا اے صدیق کی بیٹی یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اس کے باوجود اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ہمارے یہ اعمال اللہ کے نزدیک (ہماری کسی کوتاہی کے سبب) قبول نہ ہوں ایسے ہی لوگ نیک کاموں میں مسارعت اور مسابقت کیا کرتے ہیں (رواہ احمد والترمذی) حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نیک عمل کر کے اتنے ڈرتے تھے کہ تم برے عمل کر کے اتنے نہیں ڈرتے۔ (قرطبی)
اولئک۔۔۔۔۔ الخیرات کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار دنیا کے فوائد کے لئے دنیا کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے فکر میں رہتے ہیں یہ حضرات دین کے فوائد کے لئے ایسا ہی عمل کرتے ہیں اسی لئے وہ دین کے کاموں میں دوسروں سے آگے رہتے ہیں۔ (معارف)
ولھم۔۔۔ ذلک، اس آیت کی ضروری تشریح تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے ملاحظہ کر لی جائے، راحج تفسیر یہ ہے کہ ان کی گمراہی کے لئے تو ایک شرک و کفر ہی کا پردۂ غفلت کافی تھا مگر وہ اسی پر بس نہیں کرتے اس کے علاوہ دیگر اعمال خبیثہ بھی مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ قولہ: مُتْرَفِیھِمْ مُتْرَفٌ تَرْفٌ سے مشتق ہے جس کے معنی خوشحالی کے ہیں، اس جگہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کا ذکر ہے جس میں امیر غریب خوشحال بدحال سبھی داخل ہوں گے مگر یہاں خوشحال لوگوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا ہے کہ ایسے ہی لوگ دنیا کے مصائب سے اپنے بچاؤ کے لئے کچھ سامان کر لیا کرتے ہیں مگر جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہی لوگ بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار سے ان کے سروں پر نازل ہوا تھا، اور بعض حضرات نے اس عذاب سے وہ قحط کا عذاب مراد لیا ہے جو رسول اللہﷺ کی بددعا سے مکہ والوں پر مسلط کر دیا گیا تھا، یہاں تک کہ وہ مردار جانور اور کتے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، بعض مفسرین نے عذاب آخرت بھی مراد لیا ہے مگر یہ سیاق وسباق کے مطابق نہیں ہے، نبی کریمﷺ نے کفار کے لئے بددعا بہت کم کی ہے لیکن اس موقع پر مسلمانوں پر ان کے مظالم کی شدت سے مجبور ہو کر یہ بددعا کی تھی ’’اَللّٰھُمَّ اشدد وَطأتکَ علیٰ مَضْر واجعلھَا عَلَیْھم سنین کسنِّی یوسفَ‘‘ (رواہ البخاری و مسلم)
مستکبرین۔۔۔ تھجرون، اس میں بِہٖ کی ضمیر اکثر مفسرین نے حرم کی طرف راجع قرار دی ہے جیسا کہ علامہ محلی کی بھی یہی رائے ہے، حرم کا اگرچہ سابق میں کہیں ذکر نہیں مگر حرم سے قریش مکہ کا گہرا تعلق اور فخر و ناز اتنا معروف و مشہور تھا کہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، اور معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ قریش مکہ کا قرآن کی آیتیں سن کر پچھلے پاؤں بھاگنے (اعراض کرنے) کا سبب حرم مکہ کی نسبت اور اس کی خدمت پر ان کا تکبر اور ناز تھا، اور سَامرًا سَمْرٌ سے مشتق ہے جس کے اصل معنی چاندنی رات کے ہیں، عرب کی عادت تھی کہ چاندنی رات میں بیٹھ کر قصے کہانی کہا کرتے تھے اس لئے لفظ سَمْرٌ قصہ کہانی کے معنی میں استعمال ہونے لگا اور سامر قصہ گو کو کہا جاتا ہے، یہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر معنی میں جمع کے بولا جاتا ہے اس جگہ سامر بمعنی سامرین جمع کے لئے استعمال ہوا ہے، صاحب جلالین نے اسی جمع کے معنی کے لئے جماعۃٌ کا لفظ لا کر اشارہ کیا ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے کہ سمرٌ کے معنی رات کو گفتگو کرنے کے ہیں، یہاں رہتے تھے اور قرآن اور صاحب قرآن کا مذاق اڑاتے ہوئے تفریحی کلمہ چست کرتے تھے اسی بنا پر حق کی بات سننے سے انکار کر دیتے تھے اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن اور آنحضرتﷺ کی شان میں بکواس اور فحش گوئی کرتے تھے۔
عشاء کے بعد فضول جاگنے کی ممانعت: رات کو قصہ گوئی کا مشغلہ عرب اور عجم میں قدیم زمانہ سے چلا آ رہا ہے، اس میں بہت سے فاسد ہیں، نبی کریمﷺ نے اس رسم کو ختم کرنے کے لئے عشاء سے پہلے سونے کی اور عشاء کے بعد فضول قصہ گوئی کو منع فرمایا ہے حکمت یہ تھی کہ عشا کی نماز پر انسان کے اعمال یومیہ ختم ہو رہے ہیں، جو دن بھر کے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے اگر عشاء کے بعد فضول قصہ گوئی میں لگ گیا اولاً تو یہ فعل خود عبث اور مکروہ ہے اس کے علاوہ اس کے ضمن میں غیبت جھوٹ اور دوسرے طرح کے گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، اور ایک اس کا برا انجام یہ ہے کہ جب رات کو دیر تک جاگے تو صبح سویرے نہیں اٹھ سکے گا، اسی لئے فاروق اعظم جب کسی کو عشاء کے بعد فضول قصہ گوئی میں مشغول دیکھتے تو تنبیہ فرماتے تھے اور بعض کو سزا بھی دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جلد سو جاؤ شاید آخر رات میں تہجد کی توفیق ہو جائے۔ (قرطبی)
افلم۔۔۔ القول سے اَمْ یقولون بہٖ جِنۃ تک ایسی پانچ چیزوں کا ذکر ہے جو مشرکین کے لئے رسول اللہﷺ پر ایمان لانے سے کسی درجہ میں مانع ہو سکتی تھیں ان میں سے ہر ایک کے منفی ہونے کا بیان اس کے ساتھ کر دیا ہے، حاصل اس کا یہ ہے کہ جو وجوہ ان لوگوں کے لئے ایمان سے مانع ہو سکتی تھیں ان میں سے کوئی بھی وجہ موجود نہیں اور ایمان لانے کے لئے جو اسباب و وجوہ داعی ہیں وہ سب موجود ہیں اس لئے اب ان کا انکار، ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں جس کا ذکر اس کے بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا بَلْ جَاءَھُمْ بِالحَقِّ وَاَکْثرُھُمْ لِلْحَقِّ کارھُِوْنَ یعنی انکار رسالت کی کوئی عقلی یا طبعی وجہ موجود نہیں پھر انکار کا سبب اس کے سوال کچھ نہیں کہ رسول اللہﷺ حق بات لے کر آئے ہیں اور یہ لوگ حق بات ہی کو برا سمجھتے ہیں سننا نہیں چاہتے جس کا سبب ہوا و ہوس کا غلبہ اور بقاء اقتدار کی خواہش ہے ان پانچ چیزوں میں سے جو کہ بظاہر اقرار بالنبوت سے مانع ہو سکتی ہیں ان میں سے ایک کا بیان مندرجہ ذیل آیت میں ہے۔
ام لم۔۔۔۔ رسولھم یعنی ان کے انکار کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ جو شخص دعوت حق اور دعوائے نبوت لے کر آیا ہے یہ کہیں باہر سے آیا ہوتا کہ یہ لوگ اس کے نام و نسب اور عادات و اطوار سے واقف نہ ہوتے تو یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس مدعی کے حالات سے واقف نہیں اسے کیسے نبی و رسول مان کر اپنا مقتدا بنا لیں مگر یہاں تو یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ رسول اللہﷺ قریش ہی کے اعلیٰ نسب میں اسی شہر مکہ میں پیدا ہوئے، اور بچپن سے لے کر جوانی کا سارا زمانہ انہیں لوگوں کے سامنے گذرا آپ کا کوئی عمل اور عادت ان سے پوشیدہ نہیں تھی اور دعوائے نبوت سے پہلے تک سارے کفار آپ کو صادق و امین کہا کرتے تھے آپ کے کردار عمل پر کسی نے بھی کبھی شبہ ظاہر نہیں کیا تھا تو اب ان کا یہ عذر نہیں چل سکتا کہ وہ ان کو پہچانتے نہیں۔
ولقد۔۔۔ بالعذاب اس سے پہلی آیت میں مشرکین کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ لوگ جو عذاب میں مبتلا ہونے کے وقت اللہ سے یا رسول سے فرماد کرتے ہیں اگر ہم ان کی فریاد پر رحم کھا کر عذاب ہٹا دیں تو ان کی جبلی شرارت و سرکشی کا عالم یہ ہے کہ عذاب سے نجات پانے کے بعد پھر بھی اپنی سرکشی اور نافرمانی میں مشغول ہو جائیں گے اس آیت میں ان کے ایک اسی طرح کے واقعہ کا بیان ہے، کہ ان کو ایک عذاب میں پکڑا گیا، مگر عذاب سے نبی کریمﷺ کی دعا کی بدولت نجات پانے کے بعد بھی یہ اللہ کے سامنے نہیں جھکے اور برابر اپنے کفر و شرک پر جمے رہے۔
اہل مکہ پر قحط کا عذاب: پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مکہ پر قحط کا عذاب مسلط ہونے کی دعا کی تھی جس کی وجہ سے یہ سخت قحط کے عذاب میں مبتلا ہوئے اور مردار وغیرہ کھانے پر مجبور ہو گئے، یہ دیکھ کر ابو سفیان رسول اللہﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کو اللہ کی اور صلہ رحمی کی قسم دیتا ہوں کیا آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں اہل عرب کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، آپ نے فرمایا بیشک کہا ہے اور واقعہ بھی یوں ہی ہے، ابو سفیان نے کہا آپ نے اپنی قوم کے بڑوں کو تو بدر کے معرکہ میں تلوار سے قتل کر دیا اور جو رہ گئے ہیں ان کو بھوک سے قتل کر رہے ہیں، اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہم سے ہٹ جائے، رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی یہ عذاب اسی وقت ختم ہو گیا اسی پر یہ آیت وَلَقَدْ اَخَذْنٰھُمْ بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ نازل ہوئی اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ عذاب میں مبتلا ہونے پھر اس سے نجات پانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے چنانچہ واقعہ یہی تھا کہ رسول اللہﷺ کی دعا سے قحط بھی رفع ہو گیا مگر مشرکین مکہ اپنے شرک و کفر پر اسی طرح جمے رہے، (مظہری وغیرہ بحوالہ معارف)
آیت نمبر ۷۸ تا ۹۲
ترجمہ: وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تمہارے کان بنائے سمع بمعنی اسماع اور آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو ما، قلت کی تاکید کے لئے اور وہ ذات ہے کہ جس نے مٹی سے پیدا کیا اور اسی کی طرف تم جمع کئے جاؤ گے، یعنی مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے اور وہ ایسی ذات کہ جو گوشت کے لوتھڑے میں روح پھونک کر تم کو حیات بخشتی ہے اور موت دیتی ہے اور موت دیتی ہے اور سیاہی اور سفیدی زیادتی اور نقصان کے ذریعہ رات اور دن کو بدلنا اسی کے اختیار میں ہے تو کیا تم اللہ تعالیٰ کی صنعت کو سمجھتے نہیں ہو کہ عبرت حاصل کرو، بلکہ یہ بھی ویسی ہی بات کہتے ہیں جو اگلے لوگ کہتے چلے آئے ہیں پہلے لوگوں نے یوں کہا کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں رہ جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے نہیں، اور ہمزہ میں دونوں جگہوں پر تحقیق ہے اور ثانی ہمزہ کی تسہیل ہے، اور دونوں ہمزوں کے درمیان دونوں صورتوں میں الف داخل کرنا ہے اس کا تو ہم سے اور ہمارے بڑوں سے وعدہ ہوتا چلا آیا ہے یعنی بعث بعد الموت کا، یہ کچھ بھی نہیں محض بے سند جھوٹی باتیں ہیں جو اگلوں سے منقول ہوتی چلی آ رہی ہیں جیسا کہ ہنسی کی اور تعجب کی باتیں، اَساطر اسطورۃ کی جمع ہے ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ آپ ان سے دریافت کیجئے کہ یہ زمین اور اس میں جو مخلوق ہے کس کی ملک ہیں اگر تم اس کے خالق کو اور مالک کو جانتے ہو تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ کی ملک میں ہیں (تو) ان سے کہئے کہ پھر کیوں غور نہیں کرتے تَذَّکرُون (اصل میں تَتَذَکَّرُوْنَ تھا) تاثانیہ کو ذال کیا اور ذال کو ذال میں ادغام کر دیا تَذَّکَّرٗوْنَ ہو گیا، کہ تم جان سکو کہ جو ابتداءً پیدا کرنے پر قادر ہے وہ موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر ہے آپ ان سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ ان ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کرسی کا مالک کون ہے؟ تو وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ یہ بھی اللہ کا ہے (اس وقت) کیئے تو پھر تم غیر اللہ کی عبادت سے کیوں نہیں بچتے؟ آپ ان سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ وہ کون ہے کہ جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے ملکوت میں تا مبالغہ کے لئے ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا یعنی وہ حمایت کرتا ہے اس کے مقابلہ حمایت نہیں کی جا سکتی، اگر تم کو کچھ خبر ہے تو وہ ضرور یہی کہیں گے (ان صفات کا مالک) اللہ ہے اور ایک قرأت میں (اللہ کے بجائے) للہ ہے لام جر کے ساتھ دونوں جگہوں میں اس بات کی طرف نظر کرتے ہوئے کہ (مَنْ بیَدِہٖ) کے معنی مَنْ لہ مَاذُکِرَ کے ہیں تو آپ (اس وقت) کہئے کہ پھر تم کو کیا خبط ہو رہا ہے؟ یعنی دھوکے میں پڑے ہوئے ہو اور حق یعنی اللہ وحدہ کی عبادت سے برگشتہ ہو رہے ہو یعنی تم کو یہ تصور کیسے ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ باطل ہے بلکہ ہم نے ان کو سچی بات پہنچائی ہے اور یقیناً یہ خود جھوٹے ہیں اس سچی بات کی نفی کرنے میں اور وہ سچی بات جو ہم نے پہنچائی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ورنہ تو اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو جدا کر لیتا یعنی خود تن تنہا اس کا مالک ہو جاتا اور دوسرے کو اس پر غلبہ کرنے سے روک دیتا، اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا غلبہ حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ دنیا کے بادشاہ کرتے ہیں اللہ ان تمام مذکورہ باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا ہے جو غائب اور جو ظاہر ہے عَالِمِ کے جر کے ساتھ لفظ اللہ کی صفت ہے اور رفع کے ساتھ ہو مبتداء محذوف کی خبر ہے غرضیکہ وہ ان چیزوں سے بالا تر ہے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قلیلا ما تشکرون ما اس قلت کی تاکید کے لئے ہے جو قلیلاً کی تنوین تنکیر سے مستفاد ہے اور قلیلاً مفعول مطلق کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس کی تقدیر عبارت یہ ہے ای تشکرون شکراً قلیلاً اور یہ عدم شکر سے کنایہ ہے اس لئے کہ قلت عدم کے معنی میں بھی مستعمل ہے اور یہی معنی حال کفار کے زیادہ نامناسب ہیں۔ قولہ: اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ہمزہ، محذوف پر داخل ہے فا عاطفہ ہے ای اَغَفَلْتُمْ فَلاَ تَعْقِلُوْنَ انَّ القَادِرَ انشاء الخلق قادرٌ علیٰ اِعَادَتِھِمْ بَعْدَ المَوْتِ۔ قولہ: بَلْ قَالُوْا ای کفار مکۃَ یہ محذوف سے اضراب انتقالی ہے تقدیر عبارت یہ ہے فَلَمْ یَعْتَبِرُوْا بَل قَالُوْا ابو سعود نھے کہا بَلْ قَالُوْا کا عطف مقدر ہے ای فَلَمْ یَعقِلُوْا۔ قولہ: لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤبَا، آبَاؤنَا کا عطف وُعِدْنَا کی ضمیر متصل پر ہے جب کہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر ضمیر مرفوع متصل پر عطف کرنا ہو تو ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید ضروری ہوتی ہے مگر یہاں چونکہ نحن کا فصل آ گیا ہے جو کہ قائم مقام ہے ضمیر منفصل کے لہٰذا عطف درست ہو گیا ھٰذا، وُعِدْنَا کا مفعول ثانی ہے اور نا ضمیر اس کا نائب فاعل ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ وَعَدَنَا الآنَ محمدﷺ بالبعثِ وَعَدَ غیرہ آبَائَنَا مِنْ قبلِنا بہ۔ قولہ: لا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کۂَاِذَا مِتْنَا میں ہمزہ استفہام انکاری ہے۔ قولہ: اِنْ کنتم تعلمون شرط ہے اس کا جواب محذوف ہے ای اِنْ کنتُمْ تعلمونَ فاخبرُونی بخالقھِا۔ قولہ: مَلَکُوتُ اس میں واؤ اور تا مبالغہ کے لئے زائد ہیں جیسا کہ رحموت میں۔ قولہ: ولا یجارُ علَیہ علیٰ کے ساتھ تعدیہ نصرت کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے۔ قولہ: نظرًا الیٰ أن المعنیٰ مَنْ لہ لفظ اللہ اوپر تین جگہ واقع ہوا ہے پہلی جگہ لام جر کے ساتھ متعین ہے اس لئے کہ سوال میں لام ظاہر ہے یعنی قل لِمَنْ الارض ومَنْ فیھا لہٰذا جواب یعنی سیقولون للہ میں بھی لام کو ظاہر کرنا متعین ہے، دوسرے مقام پر معنی کی رعایت کی وجہ سے لام کو ظاہر کرتے ہیں اور لفظ کی رعایت کی وجہ سے لام کو حذف کرتے ہیں اس لئے کہ سوال کے الفاظ یہ ہیں قل مَن رب السمٰوات (الآیہ) تو اس وقت جواب ہو گا اللہ، اور معنی کی رعایت کریں تو مَن رب السمٰوات معنی میں لِمَن السمٰوات تو اس وقت جواب میں للہ واقع ہو گا، اسی طرح تیسرے مقام قل مَنْ بیدہڈ ملکوتُ کُلَّ شئ اگر سوال کے لفظ کی رعایت کی جائے تو لام حذف ہو گا اور اگر سوال کے معنی کی رعایت کی جائے تو لام ظاہر ہو گا، اس لئے کہ معنی یہ ہیں لِمَن ملکوتُ کُلُّ شئ خلاصہ یہ ہے کہ ان تین مقاموں میں سے پہلے مقام میں اظہار لام جر متعین ہے اور بعد کے دونوں مقاموں میں سوال کے لفظ کی رعایت سے حذف لام ہو گا اور معنی کی رعایت سے اظہار لام ہو گا یعنی اظہار اور حذف دونوں جائز ہیں، قولہ: تُخْدَعُوْنَ تُسْحَرُوْنَ کی تفسیر تُخْدَعُوْنَ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ تُسْحَرُوْنَ مجازاً تخدعُوْن کے معنی میں ہے۔ قولہ: وتُصْرَفُوْنَ عن الحقِّ عِبَادۃِ اللہِ، عِبَادَۃِ اللہِ حق سے بدل ہے اسی وجہ سے عبادۃ اللہ مجرور ہے۔ قولہ: کَیْفَ یُخَیَّلُ لکُمْ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اَنّیٰ کَیْفَ کے معنی میں ہے اور تُسْحَرُوْنَ تُخَیَّلُ کے معنی میں ہے۔ قولہ: مِنْ وَلَدٍ من مفعول پر زائدہ ہے اور مِن الٰہٍ میں مِنْ کان کے اسم پر زائد ہے۔ قولہ: اِذًا ای لو کان معہ الٰہ لَذَھَبَ (الآیہ) اِذًا کے بعد لو کان معہٗ کا اضافہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اذا ایسے کلام پر داخل ہوتا ہے کہ جو شرط و جزاء پر مشتمل ہو اور یہاں لَذَھَبَ صرف جزا ہے جواب یہ ہے کہ شرط محذوف ہے جس کی طرف شارح نے لو کان معہٗ الٰہٌ محذوف مان کر اشارہ کر دیا ہے، اِذًا بمعنی لو امتناعیہ ہے، قولہ: ما ذُکِرَ ای مِن الاولاد والانداد۔ قولہ: عالم الغیبِ جر کے ساتھ ہے لفظ اللہ سے بدل یا صفت واقع ہونے کی وجہ سے اور عالِمُ الغیب کو رفع کے ساتھ پڑھا جائے تو ھُوَ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی، قولہ: فتعالیٰ اس کا عطف ما قبل کے معنی پر ہے، ای عَلِمَ الغَیبَ فتعالیٰ عما یشرکون۔
تفسیر و تشریح
ھو الذی انشالکم (الآیہ) یعنی عقل و فہم اور سننے سمجھنے کی یہ صلاحیتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ وہ حق پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں یہی ان نعمتوں کا شکریہ ہے مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو قبول کرنے والے کم ہی ہیں۔
اَسَاطِرُ و، اُسطُورۃ کی جمع ہے یعنی مُسَطَّرَۃ مکتوبۃ لکھی ہوئی کہانیاں یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ کب سے ہوتا آ رہا ہے، ہمارے آباء و اجداد سے مگر ابھی تک رو بعمل تو نہیں ہوا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں، بھلا کہیں یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں ملنے کے بعد زندہ کئے جائیں گے ایسی باتیں اور ایسے وعدہ تو ہم اپنے باپ دا دوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن ہم نے آج تک خاک کے ذروں اور ہڈیوں کے ریزوں کو آدمی بنتے ہیں دیکھا۔
وھو۔۔۔ علیہ (الآیہ) یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عذاب اور مصیبت سے پناہ دیدے اور یہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے مقابلہ پر کسی کے مقابلہ پر کسی کو پناہ دے کر اس کے عذاب و تکلیف سے بچائے یہ بات دنیا کے اعتبار سے بھی صحیح ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی (قرطبی)۔
قل لمن۔۔۔۔ تعلمون یعنی جب تمہیں یہ تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیاء کا خالق اور مالک تنہا وہی ایک اللہ ہے اور آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے پھر تم اس کی وحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے، تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ کی ربوبیت اور اس کی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ یہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے انہیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا اور یہ سب کچھ صرف اور صرف اس مغالطہ کی بنا پر تھا کہ یہ بھی اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں یہی مغالطہ آج کل کے مردہ پرستوں اور اہل بدعت کو ہے جس کی بنیاد پر وہ فوت شدگان کو مدد کے لئے پکارتے ہیں ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے کہیں نہیں فرمایا کہ تم غیر اللہ کو امداد اور حاجت روائی کے لئے پکارا کرو، اللہ اور اس کے رسول نے تو اچھی طرف واضح کر دیا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور جو لوگ اللہ کے ساتھ غیر کو عبادت میں شریک کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے بلکہ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور آباء پرستی کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی ساجھی، اگر ایسا ہوتا تو ہر شریک اپنے حصہ کی مخلوق لے کر الگ ہو جاتا اور خود اپنی مرضی سے اس کا انتظام کرتا اور ہر شریک دوسرے شریک پر غالب آنے کی کوشش کرتا جیسا کہ دنیوی بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے، اور جب ایسا نہیں ہے اور نظام عالم میں ایسی کوئی کشاکش نہیں ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے جو مشرکین اس کی بابت باور کرتے ہیں۔
آیت نمبر ۹۳ تا ۱۱۸
ترجمہ: آپ دعاء کیجئے کہ اے میرے پروردگار اِمّا اصل میں اِنْ مَا تھا اِنْ شرطیہ کے نون کو ما زائدہ میں ادغام کر دیا جس عذاب کا ان کافروں سے وعدہ کیا جا رہا ہے اگر آپ مجھ کو دکھا دیں تو اے میرے پروردگار مجھے ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجئے کہ میں ان کے ساتھ ہلاک کر دیا جاؤں اور وہ وعدہ (غزوہ) بدر میں قتل کے ذریعہ صادق آیا اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو وعدہ ان سے کر رہے ہیں آپ کو دکھلا دیں آپ ان کو بدی یعنی آپ کو ایذا رسانی کا دفعیہ ایسے طریقہ سے کر دیا کیجئے کہ جو بہت ہی اچھا ہو یعنی ان سے عفو و درگذر کی خصلت کے ذریعہ اور یہ (عفو و درگذر) کا حکم جہاد کی اجازت سے پہلے کا ہے ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ کہا کرتے ہیں یعنی تکذیب کرتے ہیں اور باتیں بناتے ہیں ہم ان کو اس کی سزا دیں گے اور آپ یوں دعا کیا کیجئے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ان شیطانی خیالات سے کہ جن کے ذریعہ وہ وسوسہ ڈالتے ہیں اور اے میرے رب میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں یعنی میرے کاموں میں دخل دیں اس لئے کہ وہ بدی ہی کے ساتھ آتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے، حَتّیٰ ابتدائیہ ہے اور وہ دوزخ کا اپنا ٹھکانا اور جنت کا اپنا ٹھکانا اگر ایمان لاتا دیکھ لیتا ہے تو (اس وقت) کہتا ہے اے میرے رب آپ مجھے واپس بھیج دیجئے اِرْجِعُوْنِ جمع کا صیغہ تعظیم کے لئے تاکہ جس (دنیا) کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں جا کر نیک عمل کروں یعنی لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دوں تاکہ میری یہ شہادت مافات کی تلافی ہو جائے یعنی جو عمر میں نے ضائع کر دی اس کا عوض ہو جائے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا یعنی رجعت نہیں ہو سکتی، بلا شبہ یہ یعنی ربِّ ارجعون ایک کلمہ ہے جس کو یہ بولے جا رہا ہے اور اس کلمہ کے بار بار کہنے میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور ان لوگوں کے آگے ایک آڑ ہے جو ان کو رجوع سے مانع ہے قیامت کے دن تک اور اس کے بعد رجوع نہیں ہے پھر صور میں پھونکا جائے گا یعنی سینگ (جیسی کسی شئ) میں پہلا نفخہ یا ثانیہ تو اس روز ان کے درمیان رشتے ناتے جن پر یہ لوگ فخر کرتے تھے باقی نہیں رہیں اور نہ کوئی رشتے ناتوں کے متعلق پوچھے گا بخلاف دنیا میں ان کی حالت کے، اس لئے کہ ایک امر عظیم قیامت کے بعض مواقع میں ان کو اس (پوچھ گچھ) سے غافل کر دے گا، اور قیامت کے بعض مواقع میں ان کو افاقہ ہو گا اور ایک دوسری آیت میں ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں گے سو جس شخص کا نیکیوں کی وجہ سے پلڑا بھاری ہو گا تو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے اور سیئات کی وجہ سے جس کا پلڑا ہلکا ہو گا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کر لیا سو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی یعنی جلا دے گی اور وہ وہاں بد شکل بنے ہوں گے اور ان کے اوپر کے ہونٹ اوپر کو سکڑے ہوئے ہوں گے اور ان کے نیچے کے ہونٹ دانتوں سے نیچے لٹکے ہوئے ہوں گے، ان سے ارشاد ہو گا کیا تم کو قرآن سے میری آیتیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں یعنی ان آیات کے ذریعہ تم کو خوف نہیں دلایا جاتا تھا پھر بھی تم ان کی تکذیب کرتے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہماری بدنصیبی ہمارے اوپر غالب آ گئی تھی اور ایک قرأت میں شقَاوَتْنَا ہے اول کے فتحہ اور الف کے ساتھ اور یہ دونوں مصدر ہیں دونوں کے ایک ہی معنی ہیں اور بیشک ہم ہدایت سے بھٹکے ہوئے تھے اے ہمارے پروردگار ہم کو جہنم سے نکال دیجئے پس اگر ہم پھر بھی مخالفت کریں تو بلا شبہ ہم قصور وار ہوں گے دنیا کی دوگنی مقدار کے بعد مالک کی زبانی ارشاد ہو گا ذلت کے ساتھ اسی میں پڑے رہو یعنی ذلت کے ساتھ جہنم میں پڑے رہو، اور مجھ سے اپنے رفع عذاب کے بارے میں کلام مت کرو چنانچہ وہ لوگ مایوس ہو جائیں گے میرے بندوں میں ایک جماعت تھی جو عرض کیا کرتی تھی اور وہ مہاجرین کی جماعت تھی اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے ہیں ہم کو بخش دیجئے اور ہم پر رحمت فرمائیے آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں لیکن تم انہیں مذاق میں اڑاتے رہے سخریا سین کے ضمہ اور اس کے کسرہ کے ساتھ بمعنی تمسخر، ان میں بلالؓ اور صہیبؓ اور عمارؓ اور خبابؓ تھے یہاں تک کہ ان لوگوں نے تم کو ہماری یاد بھلا دی سو تم نے ان کے استہزاء میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس یاد کو ترک کر دیا تو گویا کہ وہ لوگ بھلانے کا سبب ہوئے اسی وجہ سے بھلانے کی نسبت ان کی طرف کر دی اور تم ان کی ہنسی ہی اڑاتے رہے، میں نے آج ان کو تمہارے استہزاء اور ایذا پر صبر کرنے کے عوض دائمی نعمتوں کا بدلہ دے دیا بلا شبہ یہی لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اِنّھم کے کسرہ کے ساتھ (اس صورت میں) جملہ مستانفہ ہو گا اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ جَزَیتھُم کا مفعول ثانی ہو گا اللہ تعالیٰ مالک کی زبانی فرمائے گا اور ایک قرأت میں قُلْ ہے کہ تم دنیا میں اور اپنی قبروں میں سالوں کے حساب سے کتنی مدت رہے عَدَدَ سنین، کم کی تمیز ہے (تقدیر عبارت یہ ہے) لبثتم کم عدَدًا مِنَ السنین وہ جواب دیں گے کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے وہ اس مدت قیام میں شک کریں گے اور ابتلائے عذاب کے عظیم ہونے کی وجہ سے قیام دنیا کی مدت کو کم سمجھیں گے سو شمار کرنے والوں یعنی مخلوق کے اعمال کو شمار کرنے والے فرشتوں سے معلوم کر لیجئے اللہ تعالیٰ مالک کی زبانی فرمائیں گے اور ایک قرأت میں قُلْ ہے تم تھوڑی ہی مدت رہے ہو کیا اچھا ہوتا کہ تم اپنے طول قیام کی مدت کو جان لیتے جو بہت کم تھی تمہاری جہنم میں قیام کی نسبت سے کیا تم یہ گمان کئے ہوئے تھے کہ ہم نے تم کو بیکار بغیر کسی حکمت کے پیدا کر دیا اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہ آؤ گے ترجعون معروف اور مجہول دونوں ہیں، نہیں بلکہ (ہم نے تم کو اس لئے پیدا کیا) کہ تم کو امر اور نہی کا مکلف بنائیں اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ اور ہم اس تکلیف پر تم کو جزاء دیں، اور ہم نے جن وانس کو صرف عبادت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے سو اللہ تعالیٰ عبث وغیرہ سے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے برتر ہے، جو کہ بادشاہ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں عرش عظیم کا مالک ہے یعنی کرسی کا جو کہ بہترین تخت ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی بندگی کرے گا کہ جس کے معبود ہونے پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے آخر، اِلٰھًا کی صفت کاشفہ ہے اس کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں، سو اس کا حساب یعنی اس کی جزاء اس کے رب کے یہاں ہو گا یقیناً کافروں کو فلاح نہ ہو گی یعنی سعاد تمند نہ ہوں گے اور آپ یوں دعا کیا کیجئے اے میرے رب معاف فرما اور مومنین پر رحم فرما رحمت میں مغفرت کے مقابلہ میں زیادتی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے یعنی رحمت کے اعتبار سے افضل ہے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ: تُرِیَنِّی تو مجھے دکھلائے اِراء ۃً سے مضارع واحد مذکر حاضر بانون تالکید ثقیلہ مبنی بر فتحہ متعدی بدو مفعول بواسطہ ہمزہی ضمیر متکلم مفعول اول ما موصولہ مفعول ثانی۔
قولہ: فَلَا تَجْعَلْنِیْ جواب شرط فی بمعنی مع لفظ رَبْ کا اعادہ تضرع اور عاجزی میں مبالغہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے فَاَھُلَکُ بِھَلاَکِھِمْ جواب نہی ہے وَاِنَّا علیٰ اَنْ نُرِیَکَ مَا نَعِدُھُمْ لَقٰدِرُوْنَ اِنَّ حرف مشبہ بالفعل ناصب نا اس کا اسم علیٰ حرف جار نُرِیَ فعل بافاعل کَ مفعول اول مَا موصولہ نَعِدُھُمْ جملہ ہو کر صلہ موصول صلہ سے مل کر بتاویل مصدر ہو کر مفعول ثانی نُرِیَ اپنے فاعل اور دونوں مفعولوں سے مل کر مجرور ہو اعلیٰ جار کا جار مجرور سے مل کر متعلق مقدم ہوا قادِرُوْنَ کا، قادرون اپنے متعلق سے مل کر اِنَا کی خبر۔
قولہ: ای خَلَّۃ بمعنی خصلت مفسر علام نے خَلَّۃ کو مقدر مان کر اشارہ کر دیا کہ اَلَّتِیْ حَلَّۃ موصوف مقدر کی صفت ہے اور السَّیّئَۃُ اِدفع کا مفعول بہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اِدْفَعْ السَّیِّئَۃ بالخصلۃ التیھی احسن۔
قولہ: من الصفح والاعراض عنھم میں من بیا نیہ ہے اور الصفح الخ خصلۃ کا بیان ہے۔ قولہ: اَذَاھُمْ ایاکَ، السَّیۃَ کی تفسیر ہے۔
قولہ: ھَمَزَات ھمزٌ کی جمع ہے شیطانی وسوسے، نفسانی خطرات۔
قولہ: حتّیٰ ابتدائیہ ہے یعنی ما بعد کلام ما قبل سے جدا ہے، اس کلام کا مقصد مرنے کے بعد کافروں کا حال بیان کرنا ہے۔
قولہ: الجمع للتعظیم مفسر علام اس عبارت سے ایک سوال مقدر کا جواب دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کہ مخاطب ہے واحد ہے لہٰذا رَبِّ ارْجِعِیْ سے خطاب کرنا چاہیے، جواب یہ ہے کہ تعظیماً جمع کا صیغہ لایا گیا ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ اِرْجعونِ میں واؤ تکرار پر دلالت کرنے کے لئے لایا گیا ہے، ای اِرجِعْنِیْ اِرْجعنی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ’’الَقیا فی جھنم‘‘ میں الف تکرار کے لئے ہے یعنی اَلْقِ اَلْقِ کی معنی میں ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ جمع کا صیغہ ملائکہ کے اعتبار سے ہے۔
قولہ: وَرَائِھِمْ ہم لِاَحَدھم کی طرف راجع ہے جمع کی ضمیر باعتبار معنی کے ہے اس لئے اَحَدھم معنی میں کلہم کے ہے ماقبل میں واحد کی ضمیریں باعتبار لفظ کی ہے۔ قولہ: فَلاَ انْسَابَ بینھُمْ انساب نسب کی جمع ہے بمعنی قرابت، رشتہ داری یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے درمیان نسب اور قرابت تو ثابت شدہ امر ہے اس کی نفی کس طرح صحیح ہے مفسر علام نے یَتَفَاخَرون کا اضافہ کر کے اس سوال کا جواب دے دیا کہ نسب کی نفی کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی صفت جو کہ محذوف ہے اس کی نفی مقصود ہے اور وہ یتفاخرون ہے، یعنی دنیا میں جس نسب اور قرابت پر فخر کیا کرتے تھے وہ سب ختم ہو جائیں گے، اس لئے کہ میدان محشر میں ہولناکی اور دہشت کی وجہ سے تراحم اور تعاطف سب ختم ہو جائیں گے، اسی ہولناکی کی منظر کشی کرتے ہوئے دوسری آیت میں فرمایا یَفِر المرأ مِنْ أخیہِ وأمِّہٖ واَبِیہِ وصَاحِبَتِہٖ وبینہٖ۔
قولہ: لا یتساءلون عنھا ای الانساب خلافَ حَالھم فی الدنیا ای ذٰلک خِلَافَ حالھم۔
قولہ: لِمَا یَشْغُلُھُمْ یہ ولا یتساءلون کی علت ہے یعنی یہ عدم تساؤل ان کے اپنے حالات میں مشغول ہونے کی وجہ سے ہو گا۔
قولہ: فی بعض مواضع القیامۃ الخ مفسر علام نے اس عبارت سے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے، اعتراض یہ ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے روز محشر میں آپس میں پوچھ گچھ نہیں ہو گی اور ایک آیت میں ہے وَاَقْبَلَ بَعضھُم عَلیٰ بَعْضٍ یَتَسَاءَلَون جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ روز محشر میں اوقات اور حالات مختلف ہوں گے، بعض حالات میں جب خوف و دہشت غالب ہو گا تو کسی کی مزاج پرسی کریں گے، مطلب یہ ہے کہ نفخہ اولیٰ کے وقت دہشت غالب ہو گی تو کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا، اور نفخہ ثانیہ کے بعد جب یک گونہ سہولت ہو جائے گی تو آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور مزاج پرسی بھی کریں گے۔
قولہ: موازین کو یا تو عظمت کی وجہ سے جمع لایا گیا ہے یا موزون کے مختلف النوع ہونے کی وجہ سے جمع لایا گیا ہے یعنی ہر قسم کے عمل کو وزن کرنے کے لئے الگ قسم کی ترازو ہو گی جیسا کہ دنیا میں مختلف اقسام کی اقسام کو تولنے کے لئے مختلف قسم کی ترازو (مقیاس) ہوتی ہیں، بالحسنات میں باسببیہ ہے یعنی حسنات کے ثقیل اور بوجھل ہونے کی وجہ سے۔
قولہ: فَھُمْ یہ اشارہ ہے کہ فی جھنم، ھُم مبتداء محذوف کی خبر ہے زمخشری نے کہا ہے کہ فی جھنم خالدون، الذین خسِرُوْا انفُسَھُمْ سے بدل ہے۔ قولہ: تَلْفَحُ جملہ مستانفہ ہے۔ قولہ: شمَّرت شَمَّر کے معنی آستین وغیرہ چڑھانا، سکڑنا، قولہ: والسفلیٰ عن اَسْنانھم سے پہلے فعل محذوف ہے ای اِسْتَرَخَتْ السفلیٰ۔ قولہ: قال تعالیٰ لَھُمْ بلسان مالک، مفسر علام نے اس عبارت سے ایک سوال کا جواب دیا ہے، سوال یہ ہے اللہ تعالیٰ کا قال کَمْ لَبِثتم کے ذریعہ کفار سے خطاب کرنا یہ ان سے کلام کرنے کا متقاضی ہے، حالانکہ دوسری آیت میں فرمایا ہے ولایکلمھم اللہ یہ کلام نہ کرنے کا متقاضی ہے دونوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے، جواب یہ ہے کہ جس آیت سے کلام نہ کرنا معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب ہے کہ براہ راست اور بلا واسطہ ان سے کلام نہ فرمائیں گے، اور جس آیت سے کفار سے کلام کرنا مفہوم ہوتا ہے وہاں بواسطہ مالک کلام کرنا مقصود ہے،۔
قولہ: لَوْ أنّکم کنتم تعلمون مقدار لُبثِکُمْ، لَو امتناعیہ ہے اور تعلمون کا مفعول محذوف ہے مفسر علام نے مقدار لبثکم مقدر مان کر حذف مفعول کی طرف اشارہ کر دیا، جواب لَوْ بھی محذوف ہے جس کی طرف مفسر علام نے کان قلیلاً کہہ کر حذف جواب کی طرف اشارہ کر دیا ای کان قلیلاً فی علمکم۔
قولہ: اَفَحَسِبْتُمْ میں ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور فا عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ أجَھِلْتُم فحسبتُّمْ استفہام تو بیخ کے لئے ہے۔ قولہ: عَبَثًا یا تو مصدر بمعنی اسم فاعل موقع حال میں واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای عابثین یا پھر خلقنا کا مفعول لہ ہے۔
قولہ: لا لحکمۃ یہ عبث کی تفسیر ہے۔ قولہ: أنّکُمْ اِلَیْنَا لا تُرجعون کا عطف انما خَلَقْنَاکم پر ہے۔
قولہ: لابل یہ جواب استفہام کے طور پر مقدر مانا ہے۔
قولہ: ہو سریر الحسن بعض نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔
قولہ: صفۃ کاشفۃ لا مفھوم لھا مفسر علام کا مقصد اس عبارت سے ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ وَمَنْ یَدْعُ مَعَ اللہِ الٰھًا آخر لا بُرْھَانَ لَہٗ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ عبادت میں غیر اللہ کو شریک کرے تو وہ بے برہان اور بے سند ہے، اس سے مفہوم مخالف کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو صرف غیر اللہ کی عبادت کرے تو اس کے پاس برہان اور سند ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے۔
جواب: جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آخر الٰھًا کی صفت کاشفہ ہے جو کہ محض وضاحت کے لئے ہوتی ہے اس کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہوتا، البتہ صفت مخصصہ کے مفہوم مخالف کا اعتبار ہوتا ہے، صفت کاشفہ تو محض تاکید کے لئے ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول طَائِرً یَطِرُک بِجَنَاحَیْہِ یَطِرُُر بجناحَیْہِ طائرً کی صفت کاشفہ ہے جو کہ محض تاکید کے لئے ہے اس لئے کہ ہر پرندہ پروں ہی سے اڑتا ہے، پھر یہ کہنا کہ وہ پرندہ جو پروں سے اڑتا ہے کیا معنی؟ لہٰذا وَمَنْ یَدْعُوْ مَعَ اللہِ اِلٰھًا آخر لاَ بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ سے مفہوم مخالف کے طور پر یہ استدلال کرنا کہ اگر کوئی شخص غیر اللہ کی بندگی اشتراکاً کرے تو وہ بے سند اور بے برہان ہو اور اگر! فراداً غیر اللہ کی بندگی کرے تو وہ باسند اور بابرہان ہو صحیح نہیں ہے۔ (روح البیان) فَاِنَّمَا حِسَابہ عند ربہ یہ جواب شرط ہے۔
قولہ: اِنَّہٗ لایفلحُ الکافرون جمہور کے نزدیک ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ جملہ مستانفہ ہے اور اس میں علت کے معنی ہیں۔
تفسیر و تشریح
قل رب۔۔۔۔۔ الظالمین۔ ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مشرکین و کفار پر عذاب کی وعید مذکور ہے جو عام ہے قیامت میں تو اس کا وقوع قطعی اور یقینی ہے دنیا میں بھی واقع ہونے کا احتمال ہے، پھر یہ عذاب اگر دنیا میں ان پر واقع ہو تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ کے بعد آئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں آپ ہی کے سامنے ان پر اللہ کا عذاب آ جائے، اور دنیا میں جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو بعض اوقات اس عذاب کا اثر صرف ظالموں ہی پر نہیں رہتا بلکہ نیک لوگ بھی اس سے دنیاوی تکلیف سے متاثر ہو جاتے ہیں گو آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہ ہو بلکہ اس دنیا کی تکلیف پر جو ان کو پہنچتی ہے اجر بھی ملے، قرآن کریم کا ارشاد ہے اِتَّقُوْا فِتْنَۃً لاتصیبنّ الذین ظلموا منکم خاصَّۃً یعنی ایسے عذاب سے ڈرو جو اگر آ گیا تو صرف ظالموں ہی تک نہیں رہے گا دوسرے لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
ان آیات میں رسول اللہﷺ کو یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے کہ یا اللہ اگر ان لوگوں پر آپ کا عذاب میرے سامنے اور میرے دیکھتے ہوئے ہی آنا ہے تو مجھے ان ظالموں کے ساتھ نہ رکھئے، رسول اللہﷺ کا معصوم اور عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا اگرچہ آپ کے لئے یقینی تھا مگر پھر بھی اس دعا کی تلقین اس لئے فرمائی گئی کہ ہرحال میں اپنے رب کو یاد رکھیں اس سے فریاد کرتے رہیں تاکہ آپ کا اجر بڑھے۔ (قرطبی بحوالہ معارف)
وانا۔۔۔۔ لقدرون (الآیہ) یعنی ہم کو قدرت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے دنیا ہی میں ان کو سزا دیں لیکن آپ کے مقام بلند اور اعلیٰ اخلاق کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی برائی کو بھلائی سے دفع کریں جہاں تک اس طرح دفع ہو سکتی ہو اور ان کی بیہودہ بکواس سے مشتعل نہ ہوں ان کو ہم خوب جانتے ہیں، وقت پر کافی سزا دی جائے گی آپ کی چشم پوشی اور نرم برتاؤ کا یہ اثر ہو گا کہ بہت سے لوگ گرویدہ ہو کر آپ کی طرف مائل ہوں گے اور دعوت و اصلاح کا مقصود حاصل ہو گا، اس آیت میں آپﷺ کا مکارم اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے جو ہر مسلمان کو باہم معاملات میں ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے، البتہ کفار و مشرکین سے ان کے مظالم کے مقابلہ میں عفو درگذر ہی کرتے رہنا، ان پر ہاتھ نہ اٹھانا یہ حکم آیات جہاد سے منسوخ ہو گیا مگر عین حالت جہاد میں بھی اس حسن خلق کے بہت سے مظاہر باقی رکھے گئے کہ عورت کو قتل نہ کیا جائے بچہ کو قتل نہ کیا جائے، جو مذہبی لوگ مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ میں شریک نہ ہوں ان کو قتل نہ کیا جائے، اور جس کو بھی قتل کریں اس کو مثلہ (مسخ) نہ کریں کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیں، اس لئے بعد کی آیت میں آنحضرتﷺ کو شیطان اور اس کے وساوس سے پناہ مانگنے کی دعا کی تلقین کی گئی کہ عین میدان قتال میں بھی آپ کی طرف سے عدل و انصاف اور مکارم اخلاق کے خلاف کوئی کام شیطان کے غصہ دلانے سے صادر نہ ہو، شیطان کے شر اور اس کے وسوسوں سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں جب تک خدا کی مدد شامل حال نہ ہو اس لئے اس کا علاج صرف استعاذہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جانا تاکہ وہ قادر مطلق شیطان کی چھیڑ خانی اور شر سے محفوظ رکھے، حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ شیطان کی چھیڑ یہ ہے کہ دین کے سوال و جواب میں بے موقع غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے، اسی پر فرمایا برے کا جواب دے اس سے بہتر اور کسی حال میں بھی شیطان کو میرے پاس نہ آنے دیجئے کہ مجھ پر وہ اپنا وار کر سکے۔
مجرب عمل: حضرت خالد بن ولیدؓ کو رات کو نیند نہ آتی تھی رسول اللہﷺ نے ان کو یہ کلمات دعا تلقین فرمائے کہ یہ پڑھ لیا کریں چنانچہ حضرت خالدؓ نے پڑھنا شروع کیا تو یہ شکایت جاتی رہی وہ دعا یہ ہے اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَعِقَابِہٖ وَمِنْ شرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیْطٰنِ وَاَنْ یَحْضُرُوْنَ (معارف)
رَبِّ ارْجَعُوْنِ یعنی موت کے وقت کافر پر جب آخرت کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے تو وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں پھر دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کروں۔
ابن جریر نے بروایت ابن جریج نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کا سامان سامنے دیکھتا ہے تو فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ پھر تمہیں دنیا میں واپس کر دیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو آپ اللہ کے پاس لے جائے اور جب کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے ’’ربِّ ارْجِعُوْنِ‘‘ یعنی مجھے دنیا میں لوٹا دو۔
کلا انھا۔۔۔ قائلھا (الآیہ) برزخ کے لفظی معنی حاجز اور فاصل کے ہیں اس لئے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانہ کو برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیوی حیات اور اخروی حیات کے درمیان حد فاصل ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مرنے والا کافر فرشتوں سے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کے لئے کہتا ہے تو وہ اپنی زبان سے بار بار ’’رب ارجعون‘‘ کا کلمہ دہراتا ہے مگر اس کلمہ کا کوئی فائدہ اب اس لئے نہیں کہ اب وہ برزخ میں پہنچ چکا ہے جس کا قانون یہ ہے کہ برزخ سے لوٹ کر کوئی دنیا میں نہیں آتا اور بعث و نشر سے پہلے دوسری زندگی نہیں ملتی۔ (واللہ اعلم)
فاذا۔۔۔ الصور قیامت کے روز صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا نفخہ اولیٰ اس کا اثر یہ ہو گا کا سارا عالم زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے فنا ہو جائے گا، اور نفخہ ثانیہ سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے، قرآن کریم کی آیت ’’ثمَّ نُفِخَ فِیہ اخریٰ فاِذَا ھُمْ قیام منظرون‘‘ میں اس کی تصریح موجود ہے۔
محشر میں مومنین اور کفار کے حالات میں فرق: فلا انساب بینھم یعنی میدان حشر میں نسبی رشتے اور قرابتیں کام نہ آئیں گی اسی مضمون کو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان فرمایا گیا ہے ’’یومَ یَفِرُّ المرأ مِن اخیہ وأمہٖ وابیہ وصاحبتہٖ وبینہٖ‘‘ مگر یہ حال کافروں کا ذکر کیا گیا ہے، مومنین کا یہ حال نہ ہو گا کیونکہ مومنین کا حال خود قرآن کریم نے یہ ذکر کیا ہے ’’اَلْحقنا بھم ذریتھم‘‘ یعنی مومنین و صالحین کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ (بشرط ایمان) اپنے آباء صالحین کے ساتھ لگا دیں گے، بعض احادیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سارے رشتے ناتے اور دامادی کے تعلقات ختم ہو جائیں گے (یعنی کام نہ آئیں گے) اِلا نسبی و صھری بجز میرے نسب اور صہر کے معلوم ہوا کہ آپ کے تعلقات عموم سے مستثنیٰ ہیں، اسی حدیث کو سن کر حضرت عمرؓ نے ام کلثوم بنت علی سے نکاح کیا اور چالیس ہزار درہم مہر ادا کیا، ایک حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا قیامت کے روز جس وقت سب لوگ پیاس کی وجہ سے بیقرار ہوں گے تو مسلمان بچے جو نابالغی کی حالت میں مر گئے تھے وہ جنت کا پانی لئے ہوئے نکلیں گے لوگ ان سے پانی مانگیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہے ہیں یہ پانی ان کے لئے ہے (رواہ ابن ابی الدنیا عن عبداللہ بن عمر و عن ابی ذرؓ، مظہری)۔ بقیہ آیات کی تفسیر تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے۔
٭٭٭