ایک تحقیقی نوعیت کا کارنامہ
اردو کا پہلا اساطیری افسانہ
از قلم
ڈاکٹر قاضی عابد
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
اقتباس
اُسطورہ قصے اور کہانی کا اس کائنات میں قدیم ترین روپ ہے۔ عربی زبان کے اس لفظ کا مادہ ’سطر ‘ہے (۱) اور یہ معانی کی سطح پر اپنے یونانی متبادل Muthos سے حیران کن حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ ’اسطورہ‘ کے معنی ایک ایسی کہانی کے ہیں جس کی سچائی کو عام طریقوں سے ثابت نہ کیا جا سکے جبکہ Muthos اور Logos کے تال میل سے جنم لینے والا لفظ Myth بھی کم و بیش انہی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے بالعموم ایسی کہانی تصور کیا جاتا ہے جس کی واقعیت اس ثقافت کے لوگوں کے عقیدے، ایمان یا روایت کا اس طرح سے اٹوٹ حصہ ہو کہ اس ثقافت سے متعلق لوگوں کی اکثریت اس کی واقعیت یا سچائی کو زیرِ بحث نہ لاتی ہو (۲)۔
مختصر لفظوں میں ’اسطورہ‘ ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں دیوی دیوتاؤں یا ان کی نمائندہ یا قائم مقام شخصیات کے اوصاف و فضائل یا کارنامے بیان کیے گئے ہوں یا پھر مذہبی روایات سے متعلق ایسی کہانی جس میں کسی ماورائی یا مافوق الفطرت نوعیت کے مذہبی یا مابعد الطبیعاتی تجربے کو بیان کیا گیا ہو (۳)۔ لیکن اساطیر فہمی میں اسے کسی معین کلیے کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ اساطیر شناسوں کی ایک جماعت اساطیر کو کائنات اور فطرت کے رموز کو بیان کرنے والی کہانیاں بھی قرار دیتی ہے (۴)۔ یہ کہانیاں جدید نثری قصوں (داستان، ناول، افسانہ) کے قدیم اجداد میں شمار کی جاتی ہیں، اس لئے ان جدید نثری اصناف پر ان کہانیوں کے اثرات بھی بہت گہرے اور واضح ہیں، اس مضمون میں اردو کے اُس اولین افسانے کی نشاندہی کی جائے گی جس نے قدیم اساطیر سے اپنا رشتہ جوڑ کر اردو افسانے کو ایک نئی راہ دکھائی۔
پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم کو اردو افسانے کا بانی قرار دیا جاتا رہا ہے اور اسی حوالے سے دوستووسکی کا وہ جملہ کہ ’’ہم سب گوگول کے اوور کوٹ سے نکلے ہیں ‘‘ بطرزِ تعریض بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن جدید تحقیق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ راشد الخیری (۵) اردو کے پہلے افسانہ نگار (پہلا افسانہ نصیر اور خدیجہ، مخزن، شمارہ۳، جلد۶، دسمبر ۱۹۰۳ء) ہیں۔ (۶) دوسری بات یہ کہ اردو افسانے کے ناقدین نے مغربی تنقید سے مرعوب ہو کر جن مباحث کو اپنا موضوع بنایا اس سے بھی یوں ہی لگتا ہے کہ افسانے کی صنف کو ہم نے باقاعدہ کسٹم ڈیوٹی ادا کر کے مغرب سے درآمد کیا۔ (۷) لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس حوالے سے پریم چند پر اعتراض کرنے والے ناقدین بھی پریم چند کے ابتدائی افسانوں کو فراموش کر دیتے ہیں جو مواد، تکنیک اور مزاج تینوں اعتبار سے داستان سے گہرے طور پر جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، اسی طرح سے راشد الخیری اور سجاد حیدر یلدرم کے افسانے بھی کئی حوالوں سے داستان کے مزاج کے قریب ہیں، مغرب کا اثر تو پریم چند اور ان کے مقلدین نے بہت دیر میں جا کر قبول کیا۔ پریم چند کے ہاں تو مطالعے کی ابتداء بھی داستان سے ہوئی۔ ڈاکٹر انوار احمد کے بقول ’’ایک تمباکو فروش کے ہم مکتب بیٹے کے ساتھ ’’طلسم ہوشربا‘‘ کے مطالعہ نے پریم چند کو کہانی بننے کا جو شعور دیا اس کا کھلا اظہار ان کے ابتدائی افسانوں میں ملتا ہے۔ ‘‘ (۸)
خود پریم چند نے ’’میرے بہترین افسانے‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ عوام آج الف لیلیٰ کی کہانیوں سے جس قدر محظوظ ہوتے ہیں اتنا جدید ناولوں سے نہیں ہوتے۔ ‘‘ (۹) ہمارے ناقدین کی سہل انگاری کے سبب مقبول ہونے والا یہ نظریہ کہ افسانہ ہم نے مغرب سے درآمد کیا یا ہمارا افسانہ بھی ’’گوگول‘‘ کے اوور کوٹ سے نکلا، ادھوری صداقت پر مبنی ہے۔ افسانے نے اپنے تخلیقی اور تکنیکی نقوش داستان سے جدا کرتے ہوئے بھی داستان کے کئی اثرات کو اپنے اندر سمیٹا، انہی اثرات اور عناصر میں سے ایک اساطیر کے ساتھ تخلیقی وابستگی بھی ہے۔
اردو افسانے نے ابتداء ہی سے اساطیر کے ساتھ ایک زندہ تخلیقی تعلق استوار کیا، یہ افسانے کی اندرونی ضرورت تھی یا افسانہ نگاروں کی، یہ اس امر پر بحث کا محل نہیں لیکن اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں نے شعور اور لاشعور ہر دو سطحوں پر اساطیر کو اپنی تخلیق کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔
اردو کے اوّلین افسانہ نگار راشد الخیری کے ہاں ہمیں اسلامی اساطیر کے ساتھ ایک تخلیقی تعلق قائم کرنے کی کوشش ملتی ہے لیکن ان کے ہاں ’’مصور غم‘‘ ہونے کی خواہش اور کمزور مرثیوں والی رقت اس عنصر کو ابھرنے یا پنپنے نہیں دیتی، ان کے افسانے ’’کلونیتاں‘‘ اور ’’خیالستان کی پری‘‘ اپنے تمثیلی انداز اور اسلامی ہیروز کی وجہ سے ’’جدید اسطورہ‘‘ بن سکتے تھے لیکن راشد الخیری کی جذباتیت نے ان کرداروں کے اندر وہ ’’سورمائی خصائص‘‘ پیدا نہیں ہونے دئیے جو اساطیری کرداروں کو ’’اساطیری کردار‘‘ بناتے ہیں۔ اصلاح پسندی کے جذبے نے راشد الخیری کو فن کے حوالے سے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اسلامی تاریخ سے اسی شغف کی وجہ سے پریم چند نے بھی راشد الخیری کی افسانہ نگاری پر کئی اعتراضات کئے۔
’’ان کے جتنے سوشل ناول اور افسانے ہیں، وہ بھی جوش اصلاح سے لبریز ہیں۔ وہ استقلال سے بھی کام لیتے ہیں، نصیحتوں سے بھی اور اسلام کی تاریخ اور روایات اور شرعی احکام سے بھی، کاش ان کی آواز صورِ اسرافیل کی سی ہنگامہ خیز ہوتی۔ اس انہماک میں بعض اوقات ان کی تصانیف میں فنی خامیاں پیدا ہو گئی ہیں، کبھی کبھی ایسا خیال ہونے لگتا ہے کہ یہ کسی خطیب کی اپیل ہے کوئی ادبی تخلیق نہیں۔ ‘‘ (۱۰)
سید سجاد حیدر یلدرم، وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جن کے ہاں افسانے کی بنت میں اساطیر کی شمولیت کا عمل واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے یلدرم کے افسانے ’’خارستان و گلستان‘‘ کو اردو کا پہلا جنسی افسانہ قرار دیا ہے۔ یہی افسانہ اردو کا پہلا اساطیری افسانہ بھی ہے۔ (۱۱) اس افسانے کا موضوع مرد اور عورت کے تعلقات کی اساس ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد کا خیال ہے کہ ’’اس افسانے میں اگرچہ بُعد زمان و مکان کی داستانوی تکنیک اختیار کی گئی ہے، مگر گلستان خارستان اور پھر شیرازہ کے عنوان سے تین حصے قائم کئے گئے ہیں۔ پہلے دو ادھوری دنیاؤں اور تیسرا مکمل اور بھرپور کائنات کا مظہر ہے۔ ‘‘ (۱۲) اساطیر کا یہ ٹکڑا پہلی ادھوری دنیا میں موجود ہے:
’’اس نے دیکھا کہ اس کے پاس ایک سفید براق ہنس پھر رہا ہے، اسے ہی اس نے گود میں لے لیا اور اس کے سفید سینے کو اپنے دھڑکتے ہوئے سینے سے لگا لیا، اس کی گردن کو اپنی گردن سے ملا دیا اور تمام قوت سے اسے بھیچنا شروع کیا اور اس طرح پرندے کے نرم پروں میں اپنی آنکھوں کو کچھ کھولے، کچھ بند کئے، بدن کو جھکائے، دیر تک بے حرکت پڑی رہی۔ ‘‘ (۱۳)
شمس الرحمن فاروقی اردو تنقید میں وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اس ٹکڑے کی اساطیری جہت کی طرف نشان دہی کی ہے اور اسے یونانی اساطیر کے ایک واقعہ سے جوڑا ہے۔
’’یونانی صنمیات کی ‘Leda’ کی یہ صدائے بازگشت یلدرم کی پلپلی نثر میں آ کر خاصی رکیک معلوم ہونے لگی ہے۔ ‘‘ (۱۴)
مسئلہ یہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک عظیم ترین خیالات کی ترسیل شاعری کے ذریعے ممکن ہے اس لئے انہیں ڈبلیو، بی ییٹس کی نظم Leda and the Swan”” (۱۵) تو اعلیٰ لگتی ہے لیکن موضوع کے سیاق و سباق میں جڑی ہوئی یہ تصویر ’’پلپلی‘‘ محسوس ہوتی ہے، اس اساطیری حصے سے پہلے سیاق و سباق میں موجود یہ جملے اس حصے کو برمحل بھی بناتے ہیں اور معنویت کو بھی آگے بڑھاتے ہیں۔
’’اتنے میں ایک قسم کی چھوٹی پریاں، صدف بحر کی بنی ہوئی نفیریاں اور دف اور سارنگی اور ستار غرض یہ کہ پورا ساز لئے ہوئے نسرین نوش کے گرد اڑنے اور ستار بجانے لگیں۔ ‘‘
’’ماہتاب دھیما دھیما ہو کے غائب ہو گیا مگر نسرین نوش کے جسم نازک کو نو طلوع آفتاب کے سپرد کرتا گیا۔ اس وقت نسرین نوش کا چلنا، اس نہر کے پانی کی مانند ہوتا تھا جو بلور کی زمین پر بہہ رہی ہو۔ ‘‘
’’نسرین نوش اس نشۂ شعر کی کیفیت سے لذت یاب معلوم ہوتی تھی اور اس آئین آفتاب پرستی میں دل سے شریک تھی۔ ‘‘
’’کاشانۂ بلور کے نزدیک جو نہر بہتی تھی، اس تک گئی اور نہر کے اندر جا کر لیٹ گئی اور دیر تک اس میں بے حرکت پڑی رہی۔ ‘‘ (۱۶)
شمس الرحمن فاروقی کی نظر ایک دور دراز کے تہذیبی منطقے کی اسطورہ (۱۷) کی طرف تو گئی ہے جس میں زیئس راج ہنس کا روپ دھار کر لیڈا سے محبت اور پھر شادی کرتا ہے لیکن اپنے تہذیبی خطے کی اساطیر کی طرف نہیں گئی، نل اور دمینتی کا قصہ جو مہا بھارت کے تیسرے حصے ’’بن پرب‘‘ میں موجود ہے اس میں راج ہنس نل کا پیامِ الفت دمینتی کی طرف لے جاتا ہے، میکنزی کے الفاظ ہیں :
"All the fair young women gazed in wonder on the Swans, admiring their graceful forms and their plumage gleaming with gold, and eve long they began to pursue them among the trees. Then all of a sudden the bird which Damayanati followed spoke to her in human language.
"Damayanati Hear! The Noble King Nala dwells in Nishadha. Comely is he as a god nor can his equal be found in the world. Thou art the pearl of women and he is the pride of men.
If thou wert wed to him, then would perfect beauty and noble birth be united. Blessed in deed would be the union of the peerless with the peerless.”
(۱۸)
ڈاکٹر آرزو چوہدری (۱۹) اور ابن حنیف نے بھی اپنی کتابوں میں یہ اسطورہ بیان کی ہے، ابن حنیف کی کتاب ’’بھولی بسری کہانیاں، بھارت‘‘ میں اس کہانی پر خاصی تحقیق کی گئی ہے انہوں نے مہا بھارت کا یہ حصہ اس طرح نقل کیا ہے:
’’اے دمینتی! نل نشدھاؤں کا راجہ ہے، وہ اشون(شہ سوار) کی طرح شکیل ہے اور انسانوں میں اس کا کوئی ہم سر نہیں، وہ مجسم کندرپ کی طرح جمیل ہے، اے خوش رنگ (دمینتی) اے پتلی کمر والی اگر تو اس کی بیوی بن جائے تو تیرے وجود اور تیری سندرتا کا مقصد پورا ہو جائے۔ ‘‘ (۲۰)
……