اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


تعارف و معیار۔۔۔ اسلم عمادی

اردو ادبی تحریروں کے مطالعات پر مبنی

تعارف و معیار

از قلم

اسلم عمادی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں……

 

عرفانؔ صدیقی … غزل کا ایک نادر لہجہ

 گزشتہ پچاس برس کا دور اُردو غزل کے لیے تجرباتی دور میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں اظہار کے اس تنگ راستہ میں نت نئے انداز کے آہنگ اور اسلوبیاتی پہلوؤں کو بدل بدل کر نہ جانے کتنے خوبصورت اور نادر پرتو پیش کیے گئے ہیں۔ ہر لہجہ اور ہر اُسلوب اپنے نئے نویلے پن کے سبب عجیب سی ساحری اور دِل فریب سی کشش رکھتا ہے۔ وہیں اس مدت میں اتنا یا بس اور فاضل کلام بھی شائع ہوا کہ اس خرمن سے سوزن کا چننا کارِ دارد ہے۔ اس تخلیقات کے طوفان بے کراں میں چند ہی قابلِ قدر شعری فکر کے نمائندہ جزیرے نظر آتے ہیں جس سے ادب کی زندگی پر ایقان باقی رہتا ہے۔ ایسا ہی تازہ کار فکر و نظریات سے آباد ایک جزیرہ عرفانؔ صدیقی کی شاعری ہے۔

 عرفانؔ صدیقی کے اشعار سے میرا تعلق دیر سے ہوا، لیکن دیرپا ہوا، ان کے اشعار ہمارے فکری نظام سے اس قدر مانوس کیفیات رکھتے ہیں کہ ذہن پر چسپاں ہو جاتے ہیں لیکن ان اشعار میں عمومی الفاظ بالکل جدا ملبوس اور مختلف رنگ و آہنگ میں ایسے ملتے ہیں کہ آپ جس مقصود معنی کی امید رکھ رہے تھے اس سے ہٹ کر بالکل نئی بات سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ یہ تو بڑی خلاقیت ہے کہ سادہ الفاظ کو آپس میں ٹکرا کر یا پھر کبھی مدغم کر کے بالکل نئی ترسیلی زبان میں کچھ کہا جائے۔ عرفانؔ اس میں امید اور سامع کی تمنا سے بڑھ کر اپنی قادرالکلامی کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں کچھ مثالیں شاید اس تجزیے کی بہتر تشریح کریں:

ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذاب رفتہ کے

پھر آسماں پہ ظاہر وہی ستارہ ہوا

یہ موج موج کا اک ربط درمیاں ہی سہی

تو کیا ہوا میں اگر دوسرا کنارہ ہوا

اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے

یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہم سفر میرے

ہیں اسی کوچہ میں اب تو مری آنکھیں آباد

صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا

 ان اشعار میں نہ تو کوئی نو ساختہ ترکیب ہے نہ کوئی اجنبی استعارہ یا تشبیہ! بالکل صریح سی زبان ہے لیکن لفظوں سے جھلکنے والے مطالب یا اشارہ بن کر یا پھر حق و باطل کے رزم سے اٹھی ہوئی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ موج موج کے درمیان ربط کی موہوم سی تمنا حیات سے کس قدر انسیت کی آئینہ دار ہے۔ سوچیے تو ’’آنکھیں‘‘ کے ساتھ ’’آباد‘‘ کا لفظ ’’اور ’’گھنے جنگلوں‘‘ کی پیش گوئی کے غیر عمومی استعمال دونوں اشعار کس قدر تحیر آمیز لگتے ہیں۔

 میرا اندازہ ہے (یقین کے ساتھ تو کہنا مشکل ہے) کہ عرفانؔ اپنے اشعار میں قوت شامل کرنے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں ان کی نشست اور مناسبت کو خوب پرکھتے تھے، بڑی محنت سے ہر شعر کو اظہار کا ایک کامران پیکر بنا کر پیش کرتے تھے۔ ان کی غزلوں میں کم زور، بھرتی کے اور فقط رسمی قسم کے اشعار مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ ہر شعر ان کے زور بیاں اور منتخب اسلوب کی مثال بن گیا ہے۔

 ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ابھرتا ہے کہ اسی لفظ کو جو ہم سے عام ملبوس میں ملتا ہے تو مروجہ معنی سے آگے نہیں جاتا، شاعر نے اس لفظ کے حرف حرف اور صوت صوت کو خوش نمائی سے لکھ کر نئے آہنگ سے روشناس کر دیا ہے۔ وقف و تحرک کے ٹکراؤ سے اس میں ایک نئی کھنک آ گئی ہے۔ گویا یہ لفظ پھر ناطق بن گیا ہے۔ یہ فن کاری محض مشاقی سے نہیں بلکہ گہرے اسلوبیاتی مطالعہ سے ناتج ہو سکتی ہے۔ اس طرح ایسا فن پارہ سامع / قاری کو عجیب سی مسرت بخش دیتا ہے۔

 ان کی شاعری کے تقریباً تمام موضوعات ان کی ذات پر مرکوز ہیں وہ اکثر اشیا اور تجربوں کو اپنی ذات سے منسلک / متعلق کر کے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس میں خلوص بھی ہے اور داخلی حرارت بھی۔ اسی وجہ سے یہ شعر ہم خیالوں کو قریب تر لگتے ہیں۔ بہت سے لفظی استعمالات، دو لفظی ہوئے ہیں اور دو لفظوں کے واسطے سے ایک داخلی منظر نامے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں:

یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم (مرا چارہ)

ترے سمند بھی میرے غزال بھی آزاد (میرے غزال)

ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار (مری خزاں)

اس کو منظور نہیں ہے مری گم راہی بھی (مری گم راہی)

عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم راہی (میرے ستارہ ادا)

 اگر ان کے کلام کی اس نقطۂ نگاہ سے تحلیل کی جائے تو ایسی مبنی بر متکلم تراکیب بے شمار ہیں اور ہر ترکیب ایک جدا پہلو لیے ہوئے ہے۔ مذکورہ بالا تراکیب ہی کو لیں تو ان میں ایک غیر محسوس سا ابہام بھی ہے اور دزدیدہ کنایہ بھی۔ ’’مرا چارہ‘‘ ایک قطعاً غیر مستعمل لیکن معنی خیز سی بات ہے۔ ’’مرے غزال‘‘ غالباً غزال تخیلات سے متعلق ہے اسی طرح ’’مری خزاں‘‘، ’’مری گم راہی‘‘ اور ’’میرے ستارہ ادا‘‘ خوب لفظی مرکبات ہیں جو اپنائیت کا رخ بھی رکھتے ہیں اور ندرت کا بھی۔ اردو شاعری میں ایسے الفاظ پر مرکوز لسانی روش بہت کم ملتی ہے۔ ظفر اقبال اور منیر نیازی نے بھی اس طرح کے لسانی تجربے کیے ہیں لیکن ان کا انداز کچھ اور ہی ہے۔ اپنے طرزِ اظہار کو عرفانؔ نے ارادی طور پر ممیز اور جداگانہ رکھا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ رویّہ فطرتاً بھی ہو لیکن اس کی شناخت تو شاعر ہی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کے پڑھنے اور سننے والے وارفتگی کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ شاید یہ کلام ہمارے مزاج کی نوعی اور مخفی حرارت سے مطابقت رکھتا ہے۔

 ایک اہم رخ عرفانؔ کی شاعری میں رومانوی ماحول کا پس منظر ہے۔ عشق اور شوق جو کہ صدیوں اردو شاعری (بلکہ مشرقی شاعری) کی عنصری طاقت رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں مختلف ڈرامائی سچویشن جیسے سین کے پیچھے بدلتی ہوئی روشنی کا کام کرتے ہیں۔ اس ڈرامے کے کردار شاید مخصوص نام اور شناخت نہیں رکھتے لیکن کسی منتخبہ جذبے کی غیر مرئی تجسیم ضرور کرتے ہیں۔ عاشق / معشوق / رقیب یہ تو پرانے کردار تھے جو اب بالکل نئے ظروف میں نظر آتے ہیں۔ ذرا عشق کے تناظر میں یہ بھی سنیں:

کسی اُفق پہ تو ہو اتصال ظلمت و نور

کہ ہم خراب بھی ہوں اور وہ خوش خیال بھی آئے

عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اُس پار

میں اُس کے ساتھ رہا اور اُدھر چلا بھی گیا

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد

خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

مری عاشقی، مری شاعری ہے سمندروں کی شناوری

وہی ہم کنار اُسے چاہنا، وہی بے کراں اسے دیکھنا

 واہ بے حد قدیم موضوع کو بے حد تازہ اسلوب میں کس خوبی سے برتا گیا ہے۔ گویا عرفانؔ صدیقی نے ایک بے حد با وفا عاشق کے کردار کی تصویر کشی اس طرح کی ہے کہ ’’اک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ کا لطف آ گیا ہے۔

 عرفانؔ واقعات، حادثات اور مناظر کی عکاسی کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ منبع اور اصل کی طرف توجہ نہ جائے اور اصل کے مقصود کی تصویر ایک آرٹ کی طرح پیش ہو جائے۔ اس کے لیے انھوں نے اپنی بے شمار غزلوں میں تلمیحاتی اظہار کا استعمال کیا ہے۔ کبھی وہ کسی غزوہ یا جنگ کا ماحول وضع کرتے ہیں تو کبھی کسی خانہ بدوش بے سمت کے مسافر، قبیلہ کے فرد بن جاتے ہیں، کبھی وہ شہادت حسینؓ سے دِلی نسبت سے سوگوار ہوتے ہیں تو کبھی بزم عرفان میں حلقہ بدوش ہو جاتے ہیں۔ وہ اکثر اہلِ صفا کے قافلے کے ساتھ ہولیتے ہیں جو نشۂ ایماں میں مست و بے خود، تشنہ لب، ایقان بہ قلب، صدق بر لسان ظالم کے سامنے سینہ سپر ہے اس طرح حق و باطل کی جنگ میں شاعر حق کے لیے جہاد اور جستجو کر رہا ہے۔

 اکثر غزلوں میں عرفان حالات حاضرہ کو اسی تناظر میں رکھ کر، اس سے متناسب زیریں رو کے مدھم سر سے ابھر کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ہر بار ان کی جذباتی صالحیت نعرہ فگن نظر آتی ہے تیر و تبر کے سامنے ان کی جری فکر سینہ سپر رہتی ہے۔ وہ اس مجسم خوبی پیمبر / امام / رہبر / مرشد / شیخ کے تابع ہیں جو محبوب تر ہے۔ ذرا شہادت حسینؓ واقعۂ کربلا کو ذہن میں لا کر عرفان کے یہ اشعار پڑھیں:

جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں

سو وہ سربریدہ بھی پشت فرس سے اترتا نہیں

ذرا کشتگاں صبر کرتے تو آج

فرشتوں کے لشکر اُترنے کو تھے

اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو

کنارے آب ہے پہرہ لگا ہوا کیسا

پانی پہ کس کے دوست بریدہ کی مہر ہے

کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا

پانی نہ پائیں ساقی کوثر کے اہل بیت

موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟

 بلا شبہ عرفانؔ صدیقی ترسیل کی راہوں میں شمع جلا کرا پنے مسافروں کو غزل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کوئی ناکام نامکمل ترسیل ان کے پاس نہیں ملتی۔ انھوں نے بنیادی طور پر کوئی قابل بیان فنی تجربہ نہیں کیا، نہ تو اسلوب میں نہ فارم میں۔ متوقع راستہ سے انحراف ان کا طریقہ نہیں۔ وہ زندگی کے حقائق سے قریب تر رہ کر غزل کی بنیادی تعریف اور مستند ڈکشن سے ہٹے بغیر نئی وضع اور نئی طرح سے یوں کہا ہے کہ سامع اور قاری کی توجہ نہیں ہٹتی۔

 تصوف اور عرفان ذات کی راہوں میں بھی وہ اسی قلندریتے چلے ہیں، جنون شوق سے سرشار، عشق، کو حسن کی تابناکی میں گم کرنے کے لیے کوشاں۔ یہ عارفانہ کلام بھی کچھ عام نہیں ہے اس میں بھی وہ ندرت اور قوت ملتی ہے۔ ان کی فکری کی خانقاہ بسیط اور وسیع ہے۔ ان کی بے نیازی بے مثل ہے۔ ان کی فنائیت بقا سے بلند تر ہے۔ مثلاً:

ان کا فقیر دولت عالم سے بے نیاز

کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا

شاخ کے بعد زمیں سے بھی فنا ہونا ہے

برگ افتادہ ابھی رقص ہوا ہونا ہے

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرے شریک

مسند خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی مری نمود

میں خاک ہوں ہنر کو زہ گر پہ راضی ہوں

 عرفانؔ کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے ہم ایک آراستہ پیراستہ گلشن سے گزر رہے ہیں جس کے درختوں، جھاڑیوں، فضاؤں میں مناظر کی طرح کمال فن کاری سے تخلیق شدہ پھل، پھول، پتے، شگوفے سجا دیے گئے ہیں۔

 اُمید کہ زود فراموش اُردو والے اس اہم شاعر کو فصیل فراموش گاری کے پیچھے نہیں بھیج دیں گے اور یہ کلام اُردو نئی شاعری کے ہر انتخاب میں مناسب مقام پائے گا۔

٭٭٭

(مطبوعہ ’’خاص نمبر: عرفان صدیقی‘‘ مرتبہ: عزیز نبیل

مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو)

منجمد پُر شور دریا (مصحفؔ اقبال توصیفی کی شاعری کی ایک جھلک)

 اُردو کی نئی شاعری اس معاملے میں بہت خوش بخت ہے کہ اس کے دامن میں کئی نمائندہ اور قابل ذکر شاعر اپنے اپنے منفرد لب و لہجہ (زبان، ڈکشن اور فکر) کے ساتھ رونق پذیر ہیں۔ یہ شاعر ہندوستان، پاکستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے بھی ایک حد تک اسی فکری لہر سے ارتباط رکھتے ہیں جو جدید شاعری کی شناخت ہے۔ ایسے ہی ایک اہم شاعر جناب مصحفؔ اقبال توصیفی بھی ہیں۔ ہند و پاک میں جب بھی جدید شاعری کی بات ہو گی تو اس میں اہم ترین ناموں میں مصحفؔ کا ذکر ضرور آئے گا۔

 مصحفؔ نے شاعری کو سراسر اظہار ذات کے وسیلے کی طرح استعمال کیا ہے وہ اپنی سوچ کی ترسیل کے لیے ارتکاز کے ساتھ ایک مخصوص ڈکشن کو پسند کرتے ہیں اور یہی ڈکشن ان کی شاعری کی پہچان ہے۔

 ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک مانوس سے ماحول میں آ گئے ہیں، جہاں کے سارے کردار کچھ جانے پہچانے سے ہیں لیکن جہاں کے موسم اجنبی اور جداگانہ سے ہیں، یہ تحیر آمیز صورت حال مصحف نے غضب کی فن کارانہ صلاحیت سے پیدا کی ہے۔

 مصحفؔ کی شاعری کی اہم ترین قوت ان کی صداقت ہے وہ جذبات کے اظہار کے لیے کوئی غیر معمولی فطری ماحول نہیں گھڑتے بلکہ کچھ حد تک راست طور سے لیکن شاعرانہ تیور سے اپنا اصل مقصود بیان کرتے ہیں۔ ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں ہی اس معاملے میں ان کے ذاتی تجربات، ذاتی شعور اور قریب ترین ماحول سے متعلق ہیں۔ اس لحاظ سے مصحفؔ کی شاعری بنیادی طور پر دونوں ہی فارم (نظم اور غزل) میں اپنی جداگانہ تخصیص رکھنے کے باوجود خلوص اظہار پر مرکوز ہیں۔ پھر بھی دونوں ہی اصناف میں ان کے دوبے حد الگ اور واضح طرز بیان سامنے آئے ہیں۔ جہاں ان کی نظمیں، بیش تر نیم مکالماتی یا خود کلامی یا بیانیہ میں سے کسی ایک لہجہ کو استعمال کرتی ہیں ان کی غزل سراسر شاعرانہ، سہل ممتنع اور راست اور کچھ حد تک روایتی انداز پر مائل ہے۔ ندرت تو ہے لیکن تجربہ اور علامتی اظہار (جو کہ جدید شاعری کا رویہ ہے) کا کم ہی تناسب ملتا ہے۔

 ایک اور بات جو مصحف کی شاعری کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ عمیق، گنجلک اور مجہول موضوعات سے شاعری کو بوجھل، دور افتادہ یا نارسا بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے شاعر آپ سے قریب تر ہے، وہ آپ کا شریک سفر ہے، وہ آپ کو وہ باتیں سناتا ہے جس سے آپ شاید مانوس ہیں لیکن ان کی پرتیں اور ان کی زیریں رو کی نشان دہی بھی کرتا ہے جو آپ کے لیے شاید نئی ہوں۔ کچھ حد تک ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی نے شاعر کے جس (Role) رول کے بارے میں اشارہ کیا تھا وہی منصب یا رول (زیرک فکر کے امتزاج کے ساتھ) مصحف نے نبھایا ہے۔

 ان کی نظمیں متوسط طول کی بلکہ کچھ حد تک مختصر طوالت کی ہوتی ہیں کسی موضوع کے ساتھ دیر تک، دور تک اور تکرار کے ساتھ چلنے سے گریز کیا گیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شاعر موضوع کو برتنے کے لیے سطحیں تبدیل کرتا ہوا، پرتیں کھولتا ہوا، زاویے بدلتا ہوا، انحراف یا گریز کرتا ہوا طویل فکری اظہار کی طرف مائل ہو۔ اس کے لیے مختصر لمحہ کا اظہار زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ایسے ہی کئی مختصر لمحے مل کر طویل زندگی کی آئینہ داری کر سکتے ہیں۔

 جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ان کی نظموں میں عام طور سے مکالماتی (بلکہ نیم مکالماتی کہوں تو بہتر ہے) انداز کو منتخب کیا گیا ہے۔ شاعر عموماً اپنے کردار کے تعارف کے لیے اس کے اطراف و اکناف اور احباب سے تعلق و نسبت کو اجاگر کرتا ہے۔ ان نظموں میں کچھ حد ایک نا محسوس قسم کی کردار نگاری بھی ملتی ہے۔ یہ کردار بیش تر رائج الوقت اور ہم عصر (Contemporary) سماج کی تمثیل کی طرح ہیں۔ شاعر اس کردار کو اس کے لب و لہجے اور Approach کے تناظر میں پیش کر کے نئی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ عکاسی بالکل صریح اور راست بھی نہیں بلکہ کئی مائل سطحوں سے ہو کر ایک مقصود منظر کو پیش کرتی ہے۔

 غزلوں میں جہاں شاعر نے سہل ممتنع طرز بیان کو ترجیح دی ہے وہیں ان کا ہر شعر واضح اکائی کی طرح ایک خاص موضوع کا اظہار ہے۔ شعر کی زبان میں ایک خفیف سی پیاس، ایک غیر متوقع اچانک پن اور محتاط طور پر لفظوں کا انتخاب اور عام طرز سے ہلکا سا اعراض ان کی غزلوں کو جدید غزلوں میں ایک بین شناخت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں کی سب سے اہم جہت ’’غزل‘‘ پن ہے۔ ان کے موضوعات میں ’’ہم تم‘‘ کا تذکرہ (کچھ حد تک رومان)، ہم سفری کے تجربات، وقت گزاری کے اشغال اور ذاتی مشاہدات بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ چند شعرا اس ضمن میں:

تو بھی مجھ سے روٹھی تھی

میں اک کروٹ لیٹا تھا

محفلوں میں کم نظر آتا ہوں میں

اپنی تنہائی سے گھبراتا ہوں میں

یہ آئینہ خانہ کیا کروں میں

میں تجھ کو کہاں رکھوں چھپا کر

ذرہ ذرہ مری لاکھوں آنکھیں

لمحہ لمحہ ترا جادو ہوتا

میری آنکھوں کے دروازے پر دستک دی

سوتے ہوئے اک غم کو جگایا کس نے؟ تم نے!

بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر!

کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک!

رات تم نے روشنی کے کھیل میں

کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا

چار سو میں نے بچھا دیں آنکھیں

ہر طرف تو، تھی، نظارے تیرے

 مصحفؔ کا الفاظ سے رشتہ خالص طور پر ترسیل کے تناظر میں ہے، وہ لفظ کو ایک آلہ کی طرح (بلکہ ایک زنجیر کی کڑی کی طرح) استعمال کرتے ہیں، یہ آلہ سراسر اکہرا نہیں ہے، وہ ہر لفظ کو ایک منتخب سطح سے متشرح کرتے ہیں، کبھی وہ مناظر کو نیم بازحد تک کھولتے ہیں یا کبھی ان میں ایسا رنگ بھر دیتے ہیں جو نئی معنویت بخشے، جس سے ایک غیر عمومی حساس فضا پیدا ہو جاتی ہے ایسی فضا جو ہر غیر مرئی لہر سے اہتزاز انگیز اور مرتعش ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نجی زندگی کے کسی تجربے کو شاعر وسعت دے کر ایک عالمی تجربہ میں بدل دینا چاہتا ہے اور وہ بھی یوں کہ نجی محسوسات ضائع نہ ہوں۔

 مصحفؔ کی شعری زبان ان کی نظموں میں بہت حد تک نثری بیانیہ اسلوب میں ہیں جن میں مجید امجد اور اختر الایمان کی نظموں جیسا کھردرا پن ہے۔

 لب و لہجہ میں پُر فریب لفاظی اور نرم و شیریں تراکیب سے احتراز کیا گیا ہے تاکہ بات حقیقت سے بعید نہ ہو پائے اور اسی ارتکاز سے ترسیل ہو جس کو شاعر مرغوب سمجھے۔ نظموں میں ایک عمومی زندگی سے منتخب مناظر اور علامتیں پیش کیے گئے ہیں جو قریب تر محسوس ہوں مثلاً چائے، نکڑ، کافی ہاؤس، گیند، کھلونا، شیو (Shave)، سگریٹ، ریل، کھانے کی میز، ممی پپا، مائیکرو فلم، اسکوٹر وغیرہ۔

 جیسا کہ میں نے اس سے پہلے ایک مضمون میں اشارہ کیا تھا، مصحف کی نظموں میں وقت ایک اہم رکن ہے، وہ وقت پل پل سے لیکن صدیوں تک ناپتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ تراکیب اور بندشوں میں ایک طویل بیان کو محو اور منجمد کر دیتے ہیں۔

 ان کی نظموں میں ذاتی کرب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، فرد کی گرسنگی، دوستوں کے بچھڑنے کا غم، معصوم زندگی سے دور ہو جانے کا الم، رشتوں میں مثبت و منفی تعلق، اظہار و ترسیل کے مسائل اور ایسے ہی کئی اہم موضوعات ہیں جو ان کی نظموں میں خصوصیت سے ملتے ہیں۔

 مصحفؔ کی نظموں کے ماحول اور کردار دونوں ہی متوسط درجہ کے سماج سے منتخب شدہ ہوتے ہیں، اس لیے آپ کو ان کا کلام پڑھتے ہوئے نا مانوسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی نظموں کے چند گوشے نمونتاً پیش ہیں:

’’تم بڑے چالاک ہو

اور سفاک بھی

تم چاہتے ہو

میں اپنے ہونٹوں کی سیپیاں ضرور کھولوں

اپنے سینے کے راز

ایک گٹھری میں باندھ کر

تمھاری چوکھٹ پر رکھ دوں۔۔۔‘‘

(مجھے شاعری نہیں آتی)

’’میں ترے کرتے کا دامن تھاموں

آؤ ہم ریل بنائیں۔۔۔

آؤ ہم ریل کو پیچھے لے جائیں۔۔۔‘‘

(وقت کی ریل گاڑی)

’’ہوش میں آؤ۔۔۔ ہم کو

وقت کے دھارے پر بہنا ہے

ہم کو ان لوگوں میں

اس دنیا میں رہنا ہے‘‘

(بند دروازے)

’’پھر ایک نرم ہوا کا جھونکا

اور منظر نے کروٹ لی

میرے جسم کے گملے میں اظہار کا پردا

ایک ٹہنی پر نطق کا پھول اپنی پلکیں جھپکاتا

پنکھڑیوں کی اوٹ سے آنکھیں کھول رہا تھا!!

(تو خاموش تھی)

 مصحفؔ کی نظموں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بے حد حساس، دردمند اور بے لوث زندگی کا شاعر آپ سے ہم کلام ہے۔ وہ فرد کے قریب تر مسائل سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ وہی معصوم زندگی کی رعنائیوں کے شائق ہیں۔ مصحفؔ نے اصولوں، عقائد اور اس قسم کے ناصحانہ موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ نہیں دی ہے لیکن ان کی تخلیقات کے پس منظر سے ایک ایسا فرد احساس پر ابھرتا ہے جو صالح سوچ، متوازن زندگی اور سادہ طرز حیات کی تجسیم ہے۔ آپ مصحفؔ کے کلام کے مختلف ادوار سے گزریں گے تو یہ ضرور محسوس کریں گے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کی شاعری کے تار و پود کی زیریں رو میں آہستہ آہستہ ایک نمائندہ تبدیلی بہت حد تک زندگی کی بدلتی ہوئی روش اور شاعر کے خالص تجربات حیات کے اکتساب سے منتج ہوتی ہے۔

 وہی شاعر جو ابتدائی دور میں چاہتوں، دوست داریوں اور کار جہاں کی جہد میں مصروف ملتا ہے اب حقائق سے روشناس ہو کر غیر رومانی فلسفیانہ صداقتوں سے دوچار ہے اور بکھرتی ہوئی زندگی کو سمیٹنے کے لیے کوشاں ملتا ہے اور کمال یہ کہ دونوں ادوار میں اسلوب کی مخصوص انفرادیت قائم ہے۔

 بلا شبہ مصحفؔ اقبال توصیفی جدید شاعری کا ایک اہم نام ہے اور ان کی شاعری ایک منجمد لیکن پُر شور دریا کی طرح ہے کہ رواں ہو جائے تو سیل در سیل اپنے مخاطب کو بہا لے جائے، اپنی جاری و ساری حسیت کی لہروں پر!

٭٭٭

  (مطبوعہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد) 

 

 

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید