مجموعے ‘رات بہت ہوا چلی’ سے ماخوذ غزلیں
ایک دیے کی دھیمی لَو
شاعر
رئیس فروغ
جمع و ترتیب : اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
غزلیں
پاگل کو نیند آئی ہے
ایک برہنہ پیڑ کے نیچے
میں ہوں یا پُروائی ہے
میری ہنسی جنگل میں کسی نے
دیر تلک دہرائی ہے
روشنیوں کے جال سے باہر
کوئی کرن لہرائی ہے
خاموشی کی جھیل پہ شیاما
کنکر لے کر آئی ہے
دھیان کی ندیا بہتے بہتے
ایک دفعہ تھرّائی ہے
کھیت پہ کس نے سبز لہو کی
چادر سی پھیلائی ہے
میرے اوپر جالا بُننے
پھر کوئی بدلی چھائی ہے
ایک انگوٹھی کے پتّھر میں
آنکھوں کی گہرائی ہے
دیواروں پر داغ لہو کے
پتھریلی انگنائی ہے
میں نے اپنے تنہا گھر کو
آدھی بات بتائی ہے
میں تو اس کا سنّاٹا ہوں
وہ میری تنہائی ہے
صبح ہوئی تو دل میں جیسے
تھکی تھکی انگڑائی ہے
ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کے
رات کی پیاس بجھائی ہے
اپنے بادل کی کٹیا کو
میں نے آگ لگائی ہے
٭٭٭
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمھارے جیتے جی دکھلا دینا
رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں
میں تم سے اک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا
اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے
میرے بدن کی مٹّی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا
دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر کی
ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بِتا دینا
ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ
پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا
فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے
اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا
یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگ
میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا
ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں
تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ مِلا دینا
آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو
شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اُڑا دینا
آج کی رات کوئی بیراگن کسی سے آنسو بدلے گی
بہتے دریا اُڑتے بادل جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا
جاتے سال کی آخری شامیں بالک چوری کرتی ہیں
آنگن آنگن آگ جلانا گلی گلی پہرا دینا
اوس میں بھیگے شہر سے باہر آتے دن سے ملنا ہے
صبح تلک سنسار رہے تو ہم کو جلد جگا دینا
نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں
کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پِلا دینا
تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے
جس نے ہمارا دل توڑا ہے اُس کو بھی بیٹا دینا
٭٭٭
وہ دریا کتنا بدل گیا
کل میرے لہو کی رم جھم میں
سورج کا پہیا پھسل گیا
چہروں کی ندی بہتی ہے مگر
وہ لہر گئی وہ کنول گیا
اِک پیڑ ہَوا کے ساتھ چلا
پھِر گِرتے گِرتے سنبھل گیا
اِک آنگن پہلے چھینٹے میں
بادل سے اونچا اُچھل گیا
اِک اندھا جھونکا آیا تھا
اِک عید کا جوڑا مَسل گیا
اِک سانولی چھت کے گِرنے سے
اِک پاگل سایہ کُچل گیا
ہم دُور تلک جا سکتے تھے
تُو بیٹھے بیٹھے بہل گیا
جھوٹی ہو کہ سچّی آگ تری
میرا پتّھر تو پِگھل گیا
مِٹّی کے کھلونے لینے کو
میں بالک بن کے مچل گیا
گھر میں تو ذرا جھانکا بھی نہیں
اور نام کی تختی بدل گیا
سب کے لیے ایک ہی رستہ ہے
ہیڈیگر سے آگے رسل گیا
٭٭٭
فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا
ہَوا میں دھول تھی میں نے ہَوا سے کچھ نہ کہا
یہی خیال کہ برسے تو خود برس جائے
سو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا
ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
مِلی سڑک پہ تو بادِ صبا سے کچھ نہ کہا
وہ راستوں کو سجاتے رہے انھوں نے کبھی
گھروں میں ناچنے والی بَلا سے کچھ نہ کہا
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بِیت گیا
اُسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
شبوں میں تجھ سے رہی میری گفتگو کیا کیا
دِنوں میں چاند ترے نقشِ پا سے کچھ نہ کہا
٭٭٭
اِک اپنے سلسلے میں تو اہلِ یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں اِس کے علاوہ نہیں ہوں میں
روئے زمیں پہ چار ارب میرے عکس ہیں
ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں
ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن
سچ یہ ہے اِک فلیٹ ہے جس کا مکیں ہوں میں
ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں
جانے وہ کوئی جبر ہے یا اِختیار ہے
دفتر میں تھوڑی دیر جو کُرسی نشیں ہوں میں
میری رگوں کے نیل سے معلوم کیجئے
اپنی طرح کا ایک ہی زہر آفریں ہوں میں
مانا مری نشست بھی اکثر دِلوں میں ہے
اینجائنا کی طرح مگر دل نشیں ہوں میں
میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
٭٭٭