"کتاب” اینڈرائیڈ ایپ سے حاصل کردہ ناولٹ
کبھی عشق کبھی جفا
از قلم
سمیرا گُل عثمان
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
کبھی عشق کبھی جفا
’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا پھر ٹائم پاس بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ میں کس نمبر پر تھی یہ میں بھی نہیں جانتا۔‘‘ کلائی کی رگ کاٹتے ہوئے اسے اتنا درد نہیں ہوا تھا جتنی اذیت ان چند جملوں پر ہو رہی تھی۔
’’ٹائم پاس، وقت گزاری، فلرٹ۔‘‘ اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اوپر کہکشاؤں پرلے جا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو وہ جیسے خلا میں معلق تھی جہاں ہوا کا وجود ناگزیر تھا وہ بمشکل سانس کھینچ رہی تھی۔
اس کا دم گھٹ رہا تھا اور حواس تاریکیوں میں ڈوب گئے تھے، کبھی کسی نے تاریکیوں میں اجالے دیکھے ہیں، مگر وہ دیکھ رہی تھی، لیکن وہ اجالا تو نہیں تھا اجالا تو روشنی ہے اور روشنی تو امید ہوتی ہے یہ آگ تھی، جو شمال کے کنارے سے زمین کی سمت لپک رہی تھی، اس کے دل پر وحشت چھانے لگی خوف کی شدت جبکہ سماعتیں ہولناک دھماکوں کی زد میں تھیں، یوں لگتا تھا جیسے وہ آگ ساری کائنات کو جلا کر خاکستر کر ڈالے گی۔
’’کیا میں مر رہی ہوں۔‘‘ آگ نے اس کا دامن پکڑا تھا جب اچانک اس کے حواس لوٹ آئے اس نے خوفزدہ نظروں سے اپنے اوپر جھکی مایا کو دیکھا وہ لندن ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں تھی۔
’’بھگوان کا شکر ہے کہ تمہیں ہوش آ گیا۔‘‘ ابھی وہ شکر گزاری کے ابتدائی مراحل میں تھی کہ اچانک اس کی زرد پڑتی رنگت اور کانپتے وجود پر بوکھلا کر رہ گئی۔
’’حریم کیا ہوا؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا تھا جبکہ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں کس نیکی کے عوض اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا تھا۔
’’والدین کی ناراضگی اس پر اقدام خود کشی اگر میں مر جاتی تو…‘‘ اس سے آگے کا منظر اس قدر وحشت ناک تھا جس کی ہیبت اور ہولناکی ابھی تک اس کے دل پر طاری تھی۔
’’حریم پلیز ہوش میں آؤ یہ پانی پیو۔‘‘ مالا اسے سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی اس نے ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کر کہ واپس رکھ دیا تھا۔
’’میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی مالا اس نے میری زندگی برباد کر دی ہے میں بھی اسے کبھی آباد نہیں ہونے دوں گی مجھے سعودیہ جانا ہے، بس۔‘‘
’’اچھا ابھی تم پہلے ٹھیک تو ہو جاؤ میں خود چلوں گی تمہارے ساتھ۔‘‘ مالا نے اسے بہلاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دی اور ٹشو سے اس کا چہرہ صاف کیا وہ سمجھ سکتی تھی کہ اس وقت وہ کس قدر اذیت اور ذہنی ابتری کا شکار ہے۔
اسے تو پہلے ہی شک تھا کہ وہ شخص حریم کے ساتھ مخلص نہیں ہے وہ تو ایک فیک ورلڈ تھی جھوٹی دنیا، جہاں لوگ ایک چہرے پر دس چہرے سجائے پھرتے ہیں اور اصل حقیقت کسی کو نظر نہیں آتی۔
’’حریم یہ سب کیوں کیا تم نے۔‘‘ زیب ابھی ابھی ایگزمینیشن ہال سے واپس آئی تھی اور اسے ہوش میں دیکھ کر متفکر سی اس کے سامنے کھڑی تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی حریم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
’’تم نے واپس جانے سے منع کر دیا تھا میں نے تمہارا ساتھ دیا مما کو کنوینس کیا پھر یہ سب کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔‘‘ اب وہ اس کے پاس بیٹھ چکی تھی مگر وہ ہنوز لب باہم پیوست کیے بیٹھی رہی تھی زیب نے اس کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر مالا کو دیکھا۔
’’مالا تمہیں تو معلوم ہو گا۔‘‘
’’کچھ خاص نہیں بس اس کے گھر والوں نے کزن میرج سے انکار پر اس کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس پر یہ بہت ڈیپریس ہو گئی تھی۔‘‘ اس نے بروقت ایک مثبت جواز تراش کر صورتحال کنٹرول کی تھی۔
’’اوہو حریم تم نے جسٹ اپنا حق استعمال کیا ہے اب زیادہ گلٹ فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی وقتی غصہ ہے بے فکر رہو چند دنوں میں مان جائیں گے مالا تم اسے جوس وغیرہ پلاؤ میں ڈیوز کلیئر کر کے آتی ہو۔‘‘ اسے تسلی سے نوازنے کے بعد مالا کو ہدایت کرتی وہ دروازے سے واپس پلٹی تھی۔
’’خود کشی کا کیس تھا کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی۔‘‘
’’ڈاکٹر ولیم میرے جاننے والے تھے انہوں نے ہینڈل کر لیا تھا۔‘‘ انرجی ڈرنک کاٹن کھولتے ہوئے وضاحت آمیز بیان کے بعد وہ حریم کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’چلو یہ سوپ پیو جلدی سے اور دماغ پر اب بالکل بوجھ نہیں ڈالنا خوش رہا کرو یار، ڈپریشن کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے الٹا تم اپنی صحت خراب کر لو گی رنگت دیکھو ذرا، ایک ہی دن میں کس قدر زرد ہو چکی ہے۔‘‘ زیب اس کا آج کل بہت خیال رکھ رہی تھی مالا بھی فری ٹائم میں اسے کمپنی دینے آ جاتی تھی مگر اس کے وجود میں جیسے آگ دہک رہی تھی دل کی جگہ آتش فشاں بھڑک رہا تھا کیا وہ اتنی ارزاں تھی کہ اسے دل بہلانے کی خاطر استعمال کیا جاتا اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
اعتبار اور مان تو ٹوٹا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سارے خواب بھی راکھ کا ڈھیر ہو گئے تھے۔
’’ایان کو بھی اتنا ہی درد ہوا ہو گا۔‘‘ آج اپنے دل پر چوٹ لگی تھی تو اس کے ساتھ کی گئی بیوفائی کا احساس بھی جاگ اٹھا تھا۔
’’تمہیں میرے دل پر لگے ایک ایک زخم کا حساب دینا ہو گا میں تمہاری زندگی کو جہنم بنا دوں گی۔‘‘ غم و غصے کا احساس اس قدر حاوی تھا کہ اس کا بس چلتا تو وہ ساری دنیا کو تہس نہس کر دیتی، اوور کوٹ کی پاکٹ میں رکھے سیل فون کے ٹکڑے نکال کر اس نے کچرا دان میں پھینک دئیے تھے۔
’’مالا وہ جس اٹالین کمپنی میں جاب کرتا ہے، اس کا مرکزی دفتر برمنگھم میں ہے، ہمیں وہاں سے اس کا مکمل ایڈریس مل سکتا ہے ویسے بھی زیب کے ایگزیم ختم ہو چکے ہیں وہ اپنے ماموں کے پاس چھٹیاں گزارنے کا پلان بنا رہی ہے میں بھی اس کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘ اسٹور سے واپسی پر واک کرتے ہوئے اس نے مالا کو اپنے لائحہ عمل سے آگاہ کیا تو وہ رک کر ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’حریم میری جان کیوں خود کو تھکا رہی ہو جو ہوا فارگیٹ اٹ۔‘‘
’’بہت مشکل ہے مالا۔‘‘ پلکوں پر امڈ آنے والی نمی کو اس نے بمشکل آنسوؤں میں ڈھلنے سے روکا اور تیزی سے فرسٹ فلور کی سیڑھیاں چڑھ گئی، لیکن اپارٹمنٹ میں قدم رکھتے ہی اس کی نظروں میں جیسے زمان و مکان گھوم کر رہ گئے تھے۔
کھٹکے پر دونوں نے سر اٹھا کر مرکزی دروازے کی سمت دیکھا تو زیب کے لبوں پر استقبالیہ مسکراہٹ امڈ آئی تھی جبکہ شہروز اسے کسی حسین یونانی مورتی کی مانند دروازے میں ایستادہ دیکھ کر بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا تھا، وہ جس چہرے کی تلاش میں لاہور کی خاک تک چھان آیا تھا وہ یہاں تھی اس کی کزن کے اپارٹمنٹ میں، عجیب اتفاق تھا لیکن انتہائی خوشگوار بھی، ابھی چند روز قبل ہی اس نے اپنا تبادلہ برمنگھم سٹی میں کروایا تھا لیکن آفس جوائن کرنے سے قبل وہ ایک بار اس چہرے کو تلاش کرنا چاہتا تھا جس کے بغیر اب خوابوں کے رنگ پھیکے تھے۔
اس کی ذات ادھوری تھی اور دل خالی تھا، یہ ساری چھٹیاں اس نے لاہور پھپھو کے گھر کم اور جناح پارک میں زیادہ گزاری تھیں اور اب جبکہ وہ بالکل مایوس ہو کر لوٹ آیا تھا، تو تقدیر اسے اچانک سامنے لے آئی تھی، اسے جانے کیوں یقین سا تھا کہ وہ ملے گی ضرور اور اب اسے سامنے دیکھ کر اسے احساس ہوا تھا کہ اس کی لگن اس کا یقین سچا ہی تھا۔
’’کیا اللہ مجھ پر ابھی بھی اتنا مہربان ہے اس نے مجھے ایک بار پھر خوار ہونے سے بچا لیا ہے ورنہ اس شخص کی تلاش میں جانے کہاں کہاں بھٹکنا پڑتا۔‘‘ زیب کل سے ہی بے حد پر جوش تھی اپنے کزن کی بھرپور مردانہ وجاہت پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے اس کے لئے خاصی ڈشز تیار کروائی گئی تھیں ان سب کے برعکس وہ اپنی ذاتی تیاری پر بھی بہت کانشس ہو رہی تھی۔
’’ماموں کا ارادہ میری اور شہروز کی انگیج منٹ کا ہے رات فون کر کے مما نے میری مرضی دریافت کی تھی اف حریم میں کیا بتاؤں کہ میں کتنی خوش ہوں وہ اتنا ڈیشنگ اور چارمنگ ہے کہ بس بندہ دیکھتا ہی رہ جائے۔‘‘ رات اس نے کس قدر پر جوش اور والہانہ انداز میں اسے سب بتایا تھا اور وہ واقعی دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔
’’حریم وہاں کیوں کھڑی ہو آؤ نا ان سے ملو یہ میرے کزن ہے شہزور، اور یہ میری دوست حریم ہے۔‘‘ زیب نے اسے بازو سے تھام کر تعارف کروایا تھا۔
’’نائس ٹو میٹ یو۔‘‘ وہ مبہم سا مسکرایا، جبکہ حریم ساکت کھڑی اس کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق ڈھونڈ رہی تھی، مگر وہاں تو کسی اور ہی جذبوں کا رنگ تھا، وہ رنگ جو کچھ روز قبل وہ اس کی آنکھوں سے نوچ کر پھینک چکا تھا اسے جانے کیوں لگا کہ وہ اس کے چہرے سے واقف تھا اور نام سے انجان جبکہ حقیقت تو اس کے برعکس تھی۔
’’حریم تم جلدی سے پیکنگ کر لو شہروز ہمارے ساتھ ہی جائے گا۔‘‘ کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے زیب نے دونوں مگ اٹھائے اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
’’حریم، نائس نیم۔‘‘ وہ توصیفی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے یوں بولا جیسے یہ نام پہلی بار سنا ہو وہ اک سرسری نگاہ اس پر ڈال کر اپنے بیڈ روم میں چلی آئی تھی جبکہ دل اس قدر زور سے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا دھڑکنوں کی بے اختیاری سے گھبرا کر اس نے جلدی سے پیکنگ شروع کر دی تھی زیب کے دو سوٹ کیس تیار پڑھے تھے جس کا مطلب تھا وہ اپنی پیکنگ کر چکی ہے اپنا مختصر سا سامان سمیٹ کر جب وہ باہر آئی تو زیب ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا لگائے منتظر بیٹھی تھی۔
’’آ جاؤ بھئی تمہارے انتظار میں ہم نے بھی کھانا شروع نہیں کیا۔‘‘ اس قدر پذیرائی۔
مانا کہ وہ بہت خوش اخلاق، ملنسار اور پر خلوص لڑکی تھی مگر حریم نہیں چاہتی تھی کہ وہ اب اس کا اس قدر خیال کرے۔
’’کیا میں اتنی خود غرض اور بے حس ہو چکی ہوں۔‘‘ پلیٹ میں خالی چمچ چلاتے ہوئے اس نے زیب کو دیکھا خوشی دھنک رنگوں میں ڈھل کر اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی، آنکھوں میں شوخی، لبوں پر شرمگیں سا تبسم، وہ کتنے اصرار سے اس کی پلیٹ میں ہر دو منٹ کے بعد کچھ نہ کچھ ڈالے جا رہی تھی، مگر وہ… زیب کی بجائے اس کی سمت متوجہ تھا۔
پر شوق نگاہوں میں ان کہے جذبوں کی آنچ تھی حریم کا دل سلگنے لگا وہ اتنی حسین تھی کہ کوئی بھی اسے دیکھ کر پہلی نظر کی محبت کا شکار ہو سکتا تھا مگر اس کے انداز بتاتے تھے جیسے وہ برسوں سے اس کے حسن کا اسیر ہو۔
لاتعلقی کا مظاہر کرتے ہوئے اس نے اپنی تمام تر توجہ کھانے کی جانب مبذول کر دی تھی وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی ایک بار کا تجربہ کافی تھا۔
’’میں اسے جتنا اگنور کروں میرے فیور میں اتنا ہی اچھا ہے بڑا غرور ہے نا اسے اپنی شاندار مردانہ وجاہت پر، بھلا نظر انداز ہونا کہاں گوارہ کرے گا۔‘‘
’’کھانا تو بہت ٹیسٹی ہے تم اتنی اچھی کک نہیں ہو سکتی۔‘‘ مشرومز والا پاستا بریانی اور مٹن کباب کے بعد اب شاہی ٹکڑوں سے مکمل انصاف کرتے ہوئے اس نے زیب کو دیکھا تو وہ حریم کی سمت اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
’’یہ سب ان محترمہ کا کمال ہے۔‘‘
’’زیب میں مالا سے مل کر آتی ہوں۔‘‘ نیپکن سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ کرسی گھسیٹ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی زیب اس کی سنجیدگی کو سابقہ حالات کا تقاضا سمجھ کر خاموشی رہی جبکہ شہروز کو اس کا یہ بے نیازی بھرا انداز اچھا لگا تھا وہ پریوں سی آن بان والی لڑکی ایسا ہی شاہانہ مزاج ڈیزرو کرتی تھی۔
٭٭٭
مالا سے مل کر وہ واپس آئی تو زیب اپارٹمنٹ لاک کر رہی تھی شہروز پارکنگ سے گاڑی نکال چکا تھا اس نے آگے جھک کر اپنا بیگ اٹھایا اور دونوں باتیں کرتے ہوئے لفٹ میں داخل ہو گئیں۔
’’تمہیں شہروز کیسا لگا۔‘‘ زیب کو جاننے کی بے تابی تھی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی تو زیب کا صدمے سے برا حال ہو گیا۔
’’ہاں بس ٹھیک۔‘‘ سن گلاسز آنکھوں پر ٹکاتے ہوئے لفٹ سے نکل آئی تو وہ زیب اس کی پشت کو گھورتے ہوئے بڑبڑائی۔
’’اب اتنی بھی کیا خود پسندی۔‘‘
’’تم کیا جانو مجھے کس قدر نفرت ہے اس شخص سے۔‘‘ اپنے اندر اٹھتے ابال کو بمشکل ضبط کرتے ہوئے وہ گاڑی تک آئی تو زیب کو فرنٹ ڈور کھولتے دیکھ کر اسے کچھ یاد آ گیا تھا۔
’’جب میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا آئی وش تم میرے ساتھ فرنٹ پر بیٹھو۔‘‘ اس کی سماعتیں سلگنے لگیں بس نہیں چل رہا تھا کہ اس ہنستے ہوئے شخص کا منہ نوچ لے اس کا حلیہ بگاڑ دے وہ حشر کرے کہ لوگ اس کے خوبصورت چہرے سے نفرت کرنے لگیں، مگر افسوس اسے بھیانک انجام سے دوچار کرنے کے لئے ابھی ضبط کے کڑے مراحل باقی تھے۔
’’ایان بھی میرے متعلق یہی سوچتا ہو گا۔‘‘ اگلا خیال اسے اندر تک جھنجھوڑ گیا تھا۔
’’مجھے اس شخص کے ساتھ ساتھ خود سے بھی نفرت کرنی چاہیے میں بھی تو خود غرض، بے وفا اور مطلب پرست نکلی ہوں یہ اذیت جو میرے حصے میں آئی ہے وہ بھی تو سہہ رہا ہو گا۔‘‘
’’حریم کچھ کھاؤ گی۔‘‘ شہروز سے باتیں کرتے ہوئے اسے اچانک گھنٹہ بھر سے خاموش بیٹھی حریم کا خیال آیا تو شہروز نے بھی بیک مرر اس پر ٹکا دیا تھا وہ اچھی خاصی جز بز ہوئی۔
’’نہیں۔‘‘ لیکن انکار کے باوجود شہروز نے راستے سے انہیں برگر، کولڈ ڈرنک اور چپس وغیرہ لے کر دی تھیں اس کے علاوہ وہ ایک جیولری شاپ پر بھی رکا تھا زیب نے اس سے پوچھا بھی کہ کیا لائے ہو مگر وہ خوبصورتی سے ٹال گیا تھا۔
’’تم بور تو نہیں ہو رہی۔‘‘ وہ سیٹ کی پشت پر ہاتھ رکھے اب مکمل طور پر اس کی سمت متوجہ تھی اس نے نفی میں سر ہلا دیا اس وقت اس کا کوئی بھی بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔
’’اور میں تمہیں بور ہونے بھی نہیں دوں گی دیکھنا یہ دن تمہاری زندگی کے سب سے یادگار دن ہوں گے تم بہت انجوائے کرو گی۔‘‘ وہ یادگار پر زور دیتے ہوئے پورے وثوق سے بولی تھی۔
’’دن تو یہ تمہارے یادگار ہوں گے مجھ سے اتنی محبت نہ کرو کہ میرے لئے تمہاری نفرت بہت مشکل ہو جائے۔‘‘ سیٹ کی پشت پر سر ٹکاتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔
’’یہ کیا میں پژمردہ سی بیٹھی ہوں ایسا سوگوار روتا بسورتا چہرہ اسے بھلا کیا خاک اچھا لگے گا لیکن نہیں اسرار میں تو کھوج ہوتی ہے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کے رنگ نہیں کسی جنون کا عکس جھلملاتا ہے مجھے اس مقام پر مات نہیں ہو گی۔‘‘ گھر آنے تک وہ اپنا مائینڈ اچھا خاصا میک اوور کر چکی تھی۔
شہروز راستہ بھر بیک ویو مرر میں سے اسے دیکھتے ہوئے آیا تھا پورے سفر میں وہ محض دو بار بولی تھی جبکہ اس کا بار بار دل چاہا تھا کہ وہ اسے مخاطب کرے مگر اس کے سنجیدہ رویے اور سپاٹ انداز نے کسی بھی قسم کی پیش قدمی سے باز رکھا تھا۔
وہ اپنی تصویر سے بھی زیادہ دلکش اور حسین تھی سوگواریت میں ڈھلا اس کا نوخیز پیکر، کتابی چہرہ، گوری رنگت، ہیزل گرین آنکھیں، سیاہ سلکی بال اور شنگرفی لبوں کے کونے میں چمکتا ہوا سیاہ تل، پر وقار چال کے ساتھ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو ایسا لگا جیسے برمنگھم کا موسم مہک اٹھا ہو، وہ اس کے گھر میں تھی یہ خیال ہی کس قدر مسرت آمیز تھا۔
٭٭٭
آرٹسٹک طرز پر بنا یہ گھر قدیم دور کی حسین یادگار تھا مگر اس کے اندر کئی جدید تبدیلیاں بھی دکھائی دے رہی تھی انٹریئر ڈیکوریشن انتہائی شاندار تھا لاؤنج کے انٹرس پر مغلیہ نیچرز کی حامل بڑی خوبصورت سی مورتیاں کھڑی تھیں، اندر کا نقشہ کسی ٹی وی ڈرامے کے سیٹ سے کم نہیں تھا، باہر پورچ میں تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔
’’کیا سب پانے کے بعد مجھے پھر سے سب کھونا ہو گا۔‘‘ اس خیال پر وہ تھوڑا کمزور پڑی تھی لیکن دماغ نے اس کی ایک نہیں سنی۔
’’میں نے ساری خواہشیں دل کے اندر کہیں دفن کر دی ہیں اب اسے بھی روز اس قبر پر اپنی ناکام حسرتوں کا دیپ جلانا ہو گا۔‘‘
’’آپ آئیے میں آپ کو گیسٹ روم تک چھوڑ آؤں۔‘‘ شہروز اس کے عقب سے بولا تھا زیب تو راہداری سے گزرتے ہوئے جانے کس موڑ پر غائب ہو چکی تھی اس نے مدھم سا مسکراتے ہوئے اس کی معیت میں قدم بڑھا دئیے۔
’’آپ یہاں آرام کریں کسی چیز کی ضرورت ہو تو یہ بیل بجا دیجئے گا پھر ملاقات ہو گی۔‘‘ دروازے پر رک کر اس نے چند فارمل سے جملے ادا کیے اور واپس مڑ گیا نرم گرم بستر میں گھستے ہوئے وہ خوب جی بھر کر سوئی تھی، مغرب کے قریب آنکھ کھلی تو کمرہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، اس نے اٹھ کر لائیٹس آن کیں پھر منہ ہاتھ دھو کر اپنا حلیہ درست کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔
راہداری سیدھے لاؤنج کی سمت جاتی تھی جہاں اس وقت گھر کے تمام افراد گرین ٹی کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔
عارفہ بیگم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں اور شہروز ان کی گود میں سر رکھے نیچے کارپٹ پر بیٹھا ہوا تھا محبت کے اس پیار بھرے مظاہرے نے اس کے اندر چنگاریاں سی بھر دی تھیں جب سے اس کے دل کا کشکول ان سکوں سے خالی ہوا تھا اس وقت سے اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس شخص سے بھی ہر رشتہ چھین لے۔
’’میں وہ دیمک ہوں شہروز جو تمہارے وجود کو کھوکھلا کر دے گی قسم سے اتنی محبت کروں گی کہ تم میرے سوا ساری دنیا کو بھول جاؤ گے اور پھر میں تمہیں چھوڑ دوں گی وہ کھیل جو تم نے میرے ساتھ کھیلا تھا اب اس کھیل کے سارے مہرے میرے ہاتھ میں ہیں۔‘‘
’’ارے آؤ حریم۔‘‘ زیب اسے آتا دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ماموں آپ تو ان سے مل چکے ہیں ممانی جان یہ میری دوست حریم ہے اور حریم یہ میری سویٹ ممانی ہیں اور یہ مہروز ہیں شہروز سے چھوٹے اور اتنے ہی کھوٹے۔‘‘ ناک سیکٹر تے ہوئے اس نے جس ادا سے کہا تھا اس کا بے ساختہ قہقہہ ابل پڑا البتہ مہروز نے خوب کڑے تیوروں سے اسے گھورا تھا۔
وہ سب کو مشترکہ سلام کرنے کے بعد زیب کے قریب ہی بیٹھ گئی، شہروز نے اپنے سامنے رکھا گرین ٹی کا کپ اس کی سمت بڑھا دیا تو سب کی نظریں اس منظر پر جم گئیں۔
’’میں اور بنا لاتی ہوں۔‘‘ زیب نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’اٹس اوکے میرا ویسے بھی موڈ نہیں تھا۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولا تو حریم نے کافی ہچکچاہٹ کے بعد کپ تھام لیا تھا۔
’’دھیان سے حریم یہ ایک سپ لگا چکا ہے۔‘‘ زیب نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے یونہی بے پر کی اڑائی تو مہروز نے فوراً ٹکڑا لگایا۔
’’کوئی بات نہیں جھوٹا پینے سے یوں بھی محبت بڑھتی ہے۔‘‘ فوراً ایک اور قہقہہ پڑا تھا۔
اس کا گھونٹ حلق میں اٹک گیا نظر بے ساختہ اس کی سمت اٹھی تھی وہ بھی زیر لب مسکراتے ہوئے بڑی دلچسپی سے اس کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا، میرون اور سی گرین کنٹر اس میں وہ کتنی حسین لگ رہی تھی، حریم کو زیب کے ماموں اور عارفہ بیگم کا چہرہ بھی کچھ شناسا لگ رہا تھا بہت سوچنے پر اسے شوروم کے باہر گاڑی میں بیٹھی وہ خاتون یاد آ گئی تھیں جسے دیکھ کر اس نے کتنی حسرت سے سوچا تھا۔
’’کاش میں بھی اس گاڑی میں اتنے ہی کروفر اور شان سے بیٹھ سکتی۔‘‘ اور اب وہ ان کے گھر میں موجود تھی ان کی گاڑیوں میں گھوم رہی تھی اور بہت جلد اسے اس گھر کی مالکن بھی بن جانا تھا۔
ایک پل کو اس کا دل چاہا وہ انتقام کی ضد چھوڑ کر مزے سے یہاں اپنی تمام خواہشوں اور نا آسودہ تمناؤں کے ساتھ عیش کرے، مگر اپنی زخمی بلبلاتی انا کا کیا کرتی عزت نفس کا سودا تو اسے کسی بھی طور منظور نہیں تھا، ماموں اور عارفہ بیگم کچھ دیر بعد انہیں شب بخیر کہتےجا چکے تھے اور اب ہال کمرے میں ان چاروں کی محفل جمی تھی، زیب برمنگھم گھومنے کی فرمائش کر رہی تھی اور مہروز نے ہاتھ اٹھا کر کہہ دیا تھا۔
’’ڈرائیور میں بن جاؤں گا لیکن لنچ تمہاری طرف سے ہو گا۔‘‘
’’شرم کرو میں مہمان ہوئی تمہاری۔‘‘ اس نے آنکھیں دکھائیں۔
’’ہاں لیکن تمہاری میزبانی پر مجھے کوئی تمغہ نہیں ملنے والا جو میں اپنی جیب کا کباڑا کروں ہاں اگر گرل فرینڈ ہوتی تو اور بات تھی۔‘‘ آنکھیں مٹکاتے ہوئے وہ جس قدر معنی خیزی سے بولا تھا زیب نے کشن اٹھا کر اس کے منہ پر دے مارا۔
’’بہت کمینے ہو۔‘‘
’’ٹاس کر لیتے ہیں۔‘‘ شہروز نے آسان حل نکالا۔
’’نہیں یہ میرے ساتھ بیت بازی کا مقابلہ کرے گا۔‘‘ زیب نے تو اپنی جانب سے خوب گھیرا تھا مگر وہ خباثت سے مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ گیا۔
’’چونکہ میں جانتا تھا آپ میری دکھتی رگ پر ہاتھ ضرور رکھیں گی سو اس بار میں خوب تیاری کے ساتھ میدان میں اترا ہوں بشرط کہ پہلا شعر حریم سنائیں تم مجھے ’’ی‘‘ میں اٹکا دیتی ہو۔‘‘ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اخبار کا رول بنا کر اس نے انتہائی احترام کے ساتھ مائیک کی صورت حریم کے سامنے کیا تو وہ اس بے تکی فرمائش پر قدرے سٹپٹا کر رہ گئی۔
’’مجھے کوئی شعر نہیں آتا۔‘‘ اس نے صاف معذرت کر لی تھی۔
’’یہ کیا بات ہوئی کچھ تو آتا ہو گا۔‘‘ زیب ماننے کو تیار نہیں تھی مہروز کا اصرار بھی بڑھ گیا تھا البتہ وہ خاموش بیٹھا گہری پر شوق نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
امید نہ رکھنا کسی سے سچے پیار کی ساقی
بڑے پیار سے دھوکہ دیتے ہیں شدت سے چاہنے والے
’’دیکھ لو ’’ی‘‘ آ گئی۔‘‘ زیب نے تالیاں بجاتے ہوئے مہروز کو چڑایا اور پھر اس سے مخاطب ہوئی۔
’’تم نے تو ابھی تک کھانا نہیں کھایا اصل میں تمہیں دو بار بلانے گئی تھی لیکن تم سو رہی تھی شہروز تم اسے کچن دکھا دو میں ذرا اس سے نمٹ لوں۔‘‘ شہروز جو اس شعر کے سیاق و سباق میں الجھا ہوا تھا چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آئیے۔‘‘ اسے بھوک تو نہیں تھی پھر بھی کسی خیال کے تخت اس کے ساتھ چلی آئی تھی شہروز نے خود مائیکروویو میں اس کے لئے کھانا گرم کیا تھا۔
وہ کچن میں رکھی چار کرسیوں والی میز پر بیٹھی اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ چکن پاستا، بریانی اور بادام کا حلوہ گرم کرنے کے بعد اب وہ شامی کباب والی ڈش اٹھا رہا تھا جب اس نے ٹوک دیا مگر اس نے ان سنی کرتے ہوئے سلیقے سے تمام تر ڈشز ٹیبل پر منتقل کی تھیں۔
’’میڈم اور کچھ۔‘‘ وہ اب اچھے ویٹر کی مانند استفسار کر رہا تھا حریم بڑی مشکل سے مسکراتے ہوئے شان بے نیازی سے بولی۔
’’اور آپ۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔
’’آپ میرا ساتھ نہیں دیں گے۔‘‘ عارضوں پر جھکی ریشمی پلکوں کی جھالر اٹھی تو یوں لگا جیسے پانی میں چراغ جل اٹھا ہو ہیزل گرین آنکھوں کا کانچ ہیرے کی مانند دمک رہا تھا۔
’’آپ کا ساتھ تو میرے لئے باعث اعزاز ہے۔‘‘ذ و معنی لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا وہ اس کے یوں دیکھنے پر کچھ سمٹ گئی تھی۔
’’مرد ہار بھی جائے تو نقصان عورت کا ہوتا ہے۔‘‘ کوئی اس کی سماعتوں میں بولا تھا کون… شاید اس کا وجدان۔
٭٭٭
کھانے کے دوران دونوں میں اچھی خاصی انڈر سٹیڈنگ ہو چکی تھی دونوں ایک دوسرے کی غیر نصابی سرگرمیوں، شوق اور دلچسپیوں پر کافی دیر باتیں کرتے رہے۔
اس نے بتایا تھا کہ اسے گارڈننگ کار ریس اور بکس پڑھنے کا شوق ہے اس کی ڈیٹ آف برتھ سترہ مارچ تھی اسے ایکشن اور ہارر موویز اچھی لگتی تھی اس کا فیورٹ رنگ وائیٹ تھا کھانے میں اسے اٹالین پیزا اور مشروم والا پاستا پسند تھا خوشبو وہ D&G یوز کرتا تھا اسے آرٹ اور ہسٹری میں بہت انٹرسٹ تھا اور ان ساری باتوں میں کوئی ایک بات بھی اس کی سابقہ گفتگو سے میچ نہیں کرتی تھی۔
لیکن خواتین پر آ کر اس نے صاف معذرت کر لی تھی۔
’’اس سلسلے میں میرے پاس کوئی طویل فہرست نہیں بس اک چہرے نے دل پر کلک کیا تھا اور آج جبکہ وہ سراپا مجسم میرے سامنے براجمان ہیں تو ان کی ہر بات اچھی لگ رہی ہے۔‘‘ حریم نے چونک کر الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ دھماکہ اس قدر اچانک ہوا تھا کہ وہ بے یقین ہو کر رہ گئی تھی۔
’’آئیے میرے ساتھ سب سمجھ جائیں گی۔‘‘ وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا حریم چند لمحے یونہی خالی الذہن کی کیفیت میں دیکھتی رہی۔
’’آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کا تذبذب بھانپ کر مسکرایا اور اس کے دل کو جیسے کوئی نشتر چھو کر گزرا تھا، یہ شخص اعتبار کی بات کر رہا تھا جس کے اعتبار کو محبت کا سائبان سمجھ کر اس نے ہر رشتے کو چھوڑ دیا تھا اور وہ ابر کی مانند ذرا ایک پل کو اس کے سر پہ ٹھہرا تھا پھر ہوا کا رخ بدلتے ہی کسی اور نگر کو نکل گیا۔
’’میں کس جلتے صحرا میں تنہا کھڑی ہوں تم نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ وہاں کتنی دھوپ تھی کتنی وحشت تھی کیسا کرب تھا کتنی اذیت تھی، تمہیں بھی اس مقام پر لے جا کر تنہا چھوڑوں گی۔‘‘ اس کے تعاقب میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی تو وہ اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولے اسے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔
وہ غائب دماغی کی کیفیت میں اندر داخل ہوئی تو شہروز نے اس کا ہاتھ تھام کر عقب میں دروازہ بند کر دیا۔
٭٭٭