ایک مزید ضخیم تفسیر
فہم القرآن
ترجمہ و تفسیر
میاں محمد جمیل
جمع و ترتیب : اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
حصہ اول: سورۂ فاتحہ تا آل عمران
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ دوم: سورۃ النساء تا الاعراف
حصہ سوم: سورۂ الانفال تا ابراہیم
حصہ چہارم: سورۂ الحجر تا فرقان
حصہ پنجم: سورۃ الشعراء تا سورۃ حٰمٓ السجدہ
حصہ ششم، آخری: سورۃ الشعراء تا الناس
ٹیکسٹ فائل: دو حصوں میں (ایک حصے میں اپ لوڈ نہیں ہو سکی)
2: حشر تا الناس
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
۱۔ فاتحہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
سورة فاتحہ کے اسمائے گرامی اور ان کی وجہِ تسمیہ
مقام نزول: مکہ معظمہ، ایک رکوع، آیات سات، الفاظ پچیس اور حروف ایک سو تینتیس ہیں۔
رسول مکرّمﷺ سے سورة فاتحہ کے کئی نام منقول ہیں جن میں سے مشہور نام یہ ہیں:
۱۔ فاتحۃ الکتاب: قرآن حکیم کا آغاز اور دنیا و آخرت کے حقائق کے انکشاف کا سر چشمہ۔ (بخاری و مسلم)
۲۔ اُمّ القرآن: قرآن مجید کے عناوین و مضامین کا مرقع۔ (مسلم، سنن نسائی)
۳۔ الشفاء: جسمانی بیماریوں کا علاج، روحانی پریشانیوں کا تریاق۔ (الاتقان)
۴۔ السبع المثانی: نماز میں بار بار پڑھی جانے والی سات آیات مقدّسات۔ (القرآن) (بخاری: کتاب التفسیر)
فاتحہ اور قرآن مجید کے مضامین
قرآن مجید کے مضامین میں پہلا مرکزی مضمون توحید ہے اور فاتحہ کی ابتدا ہی توحید سے ہوتی ہے۔ توحید میں سب سے پہلے اللہ کی ذات، اس کی صفات کا ادراک اور اقرار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کائنات کا رب ہے جس کے معانی خالق، رازق، مالک اور بادشاہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔
قرآن حکیم کا دوسرا مضمون یہ ہے کہ اس جہاں کے علاوہ اور بھی جہاں ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس دنیا میں تمہارا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اور وہ تمہیں مارنے کے بعد آخرت میں زندہ کر کے اپنی عدالت عظمیٰ میں طلب کرے گا۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دے گا۔ وہ عادل و منصف اور حاکم مطلق ہے اور اس کا سارا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن مجید میں دنیا و آخرت کے بارے میں عدل و انصاف اور جزاء و سزا کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔
تیسرا مضمون: جس کو قرآن عبادت کا نام دے کر اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے تقاضا کرتا ہے کہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق طالب و مطلوب، عابد و معبود اور مخلوق و خالق، محکوم و حاکم کا ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا طریقہ ٹھیک نہیں۔ یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اس لیے اپنے رب کی عبادت کرنا اور اسی سے ہی مدد طلب کرنا چاہیے کیونکہ اس کے اذن اور امر کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔
چوتھا مضمون صراط مستقیم ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندے کو اپنے رب کے احکام و ارشادات کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے۔ صراط مستقیم کا تعیّن فرماتے ہوئے قرآن مجید اس کی تشریح اور تقاضے بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ یہ انعام یافتہ انبیاء، شہداء، صدیقین اور صالحین کا راستہ ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزماںﷺ تک تمام انبیاءؑ اسی راستے کی دعوت دیتے رہے۔ اس کے بغیر نہ کوئی صراط مستقیم ہے اور نہ ہی کوئی طریقۂ حیات قابل قبول ہو گا۔ اس سے نبوت کی ضرورت و اہمیت از خود عیاں ہو جاتی ہے۔ کیونکہ محمد مصطفیٰﷺ کے اسوہ میں ہی عبادات، معاملات کا طریقہ اور اخلاقیات کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں اور یہی صراط مستقیم ہے۔
پانچواں مضمون: قرآن مجید سورة فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج و زوال بیان کرتا ہے تاکہ سمع و اطاعت اور تسلیم و رضا کا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے، باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایا جائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات و احکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اسی بنیاد پر سورة الحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتاب مبین کی ابتداء میں رکھا گیا ہے۔ ادبی زبان میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں:
* فاتحہ ابتدا ہے * قرآن اس کی تکمیل
* فاتحہ دعا ہے * قرآن اس کا جواب
* فاتحہ عنوان ہے * قرآن اس کا مضمون
* فاتحہ خلاصہ ہے * قرآن اس کی تفصیل
* فاتحہ پھول ہے * قرآن اس کی خوشبو ہے
* فاتحہ دروازہ ہے * قرآن اس کا محل ہے
فاتحہ کی فضیلت
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قالَ بَیْنَمَا جِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّﷺ سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَآءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّا أُعْطِیْتَہٗ) (رواہ مسلم: کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الفاتحۃ)
’’حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیلؑ رسول اقدسﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا یہ ایسا فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر نازل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر اس فرشتے نے رسول اللہﷺ کو سلام کیا اور کہا دو نوروں کی خوشخبری سنیے! یہ دونوں نور آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسرا سورة البقرۃ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہو جائے گی۔‘‘
فاتحہ کی فرضیت
(قَال اللّٰہُ تَعَالٰی قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ أَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ وَإِذَا قَال الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ أَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ وَإِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً فَوَّضَ إِلَیَّ عَبْدِیْ فَإِذَا قَالَ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ فَإِذَا قَالَ إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ) (رواہ مسلم: کتاب الصلوۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ)
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر لیا ہے۔ میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ جب بندہ کہتا ہے ’’أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ جب بندہ کہتا ہے ’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد و ستائش کی۔ جب بندہ کہتا ہے۔ ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی کا اقرار کیا۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے میرے بندے نے اپنے کام کو میرے سپرد کر دیا۔ جب بندہ عرض کرتا ہے:’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ تو اللہ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کا معاملہ ہے۔ میں نے اپنے بندے کو عطا کیا جو اس نے مانگا۔ جب بندہ درخواست کرتا ہے۔”إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ چیز مل جائے گی جس کا اس نے سوال کیا۔‘‘
فاتحہ کی عظمت
(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَآ أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلَا فِی الْإِنْجِیْلِ وَلَا فِی الزَّبُوْرِ وَلَا فِی الْفُرْقَانِ مِثْلَھَا وَإِنَّھَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنُ الَّذِیْ أُعْطِیْتُہٗ) [رواہ الترمذی: فضائل القرآن، باب ماجاء فی فضل فاتحۃ الکتاب]
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس سورت جیسی کوئی سورة تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی۔ یقیناً یہ بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔‘‘
فاتحہ اور نماز
(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ لَاصَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ) (رواہ البخاری: کتاب الأذان، باب وجوب القرأۃ للإمام والمأموم في الصلوات کلھا)
’’رسول معظمﷺ نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہیں پڑھی۔‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُفْتَحُ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ اَبْتَرُ اَوْقَالَ اَقْطَعُ) [مسند احمد: کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقي المسند السابق]
’’جس کام کی ابتدا اللہ کے ذکر سے نہ کی جائے وہ بے برکت اور نامکمل ہے۔‘‘
رسول کریمﷺ کے حکم کے مطابق ہر کام کی ابتدا بسم اللہ یعنی اللہ کے اسم مبارک سے کرنا چاہیے۔ آپﷺ کی سنت مبارکہ اور ارشادات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے سے مراد بسم اللہ کے الفاظ پڑھنا نہیں بلکہ کام اور موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور اس کا نام لینا ہے تاکہ اس اسم مبارک سے ابتدا کرتے ہوئے کام اور موقع کا احساس آدمی کو رب کریم کے قریب کر دے جیسا کہ سونے اور نیند سے بیدار ہونے کے وقت دعا کے الفاظ احساس دلاتے ہیں کہ نیند اور بیداری، موت اور زندگی کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کو ایسے ہی مرنا اور اٹھنا ہو گا۔ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے تصور ابھرتا ہے کہ بڑائی اور کبریائی اللہ کی ذات کو زیبا ہے۔ یہ اللہ کا مال ہے اس پر کسی غیر کا نام لینے کی بجائے صرف مالک حقیقی کا نام ہی لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو۔ سواری پر براجمان ہوتے ہوئے لفظ ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ‘‘ سے دعا کا آغاز کرتے ہوئے یہ خیال آنا چاہیے کہ جس مالک نے اس کو میرے تابع کیا ہے مجھے بھی اس ذات کبریا کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔ سواری کو حاصل اور مطیع کرنا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
(فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔) [النحل: ۹۸]
’’جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کرو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
ثابت ہے کہ موقع کی مناسبت سے ہر کام کا آغاز رب کریم کے مبارک نام سے ہونا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کے ارشاد میں یہ فلسفہ پایا جاتا ہے کہ جب کوئی کام شروع کیا جائے تو اس پر اللہ کا نام لیتے ہوئے احساس پیدا ہو کہ جو کام کرنا چاہتا ہوں وہ میرے لیے جائز بھی ہے یا نہیں۔ اگر کام حرام اور نا جائز ہو تو مومن کو اللہ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اس کام سے باز آنا چاہیے۔ جائز کام کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے سے آدمی کا عقیدہ تازہ اور پختہ ہو جائے گا کہ اس کام کی ابتدا رحمن و رحیم کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور اس کی تکمیل بھی اس کے کرم کا صلہ ہے۔
’’بسم اللہ‘‘ ہر سورة کا حصہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں میرا رجحان ان دلائل کی طرف ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر سورت کا حصہ نہیں اس سے سورت کی ابتدا ہونے کے ساتھ دو سورتوں میں فرق کا پتہ چلتا ہے البتہ سورة فاتحہ اور سورة النمل کی آیت ۹۸ ہونے کے حوالے سے یہ قرآن مجید کا جزو ہے۔
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قالَ کَان النَّبِیُّﷺ لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّوْرَۃِ حَتّٰی تُنْزَلَ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) (رواہ ابو داؤد: کتاب الصلاۃ، باب من جھر بھا)
’’حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ سورت کے فرق کو نہیں سمجھ سکتے تھے یہاں تک کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ نازل ہوئی۔‘‘
(إذا قرأتم الحمد للہ فاقرءوا بسم اللہ الرحمن الرحیم إنہا أم القرآن و أم الکتاب و السبع المثانی و بسم اللہ الرحمن الرحیم إحداہا) (السلسلۃ الصحیحۃ: ۱۱۸۳)
’’جب تم سورة فاتحہ کی قراءت کرو تو اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرو یہ ام القرآن اور ام الکتاب اور بار بار پڑھی جانے والی ہے، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیات میں سے ایک ہے۔‘‘
اسم ’’اللہ‘‘ کی خصوصیت
’’اللہ‘‘ کا نام صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت و حیات کا مالک کہنے والے حتی کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کہلوانے والا بھی ہوا ہے۔ مگر اس نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’اللہ‘‘ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کر سکا اور نہ کر سکے گا۔ مکہ کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو ’’اللہ‘‘ کہنے کی جرأت نہیں کر سکے تھے۔ ’’اللہ‘‘ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام ’’بِسْمِ اللّٰہ‘‘ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خالقیت، مالکیت، جلالت و صمدیت، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام ۲۶۹۷ مرتبہ آیا ہے۔ ایمان کی تازگی کے لیے چند مقامات تلاوت کیجیے۔
۱ ۔ اللہ ہی خالق ہے:
(اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ) (الزمر: ۶۲)
۲ ۔ اللہ ہی رازق ہے:
(إِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ) (الذاریات: ۵۸)
۳ ۔ اللہ ہی معبود حقیقی ہے:
(شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَآاِلٰہَ إِلَّا ھُوَ) (آل عمران: ۱۸)
۴ ۔ اللہ ہی اقتدار، زوال اور عزت و ذلّت کا مالک ہے:
(قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُضِلُّ مَنْ تَشَآءُ) (آل عمران: ۲۶)
۵ ۔ اللہ ہی حاکم مطلق اور خالق کل ہے:
(اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ) (الأعراف: ۵۴)
۶ ۔ اللہ ہی مالک اور ہر چیز پر قادر ہے:
(تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔) (الملک: ۱)
۷ ۔ اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے:
(أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْء) (النمل: ۶۲)
۸ ۔ اللہ ہی اول و آخر اور ظاہر و باطن ہے:
(ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ) (الحدید: ۳)
۹ ۔ اللہ ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے:
(عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ) (الحشر: ۲۲)
۱۰ ۔ اللہ ہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے:
(اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ) (الملک: ۲)
۱۱۔ اللہ ہی زمین و آسمان کا نور ہے:
(اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ) (النور: ۳۵)
۱۲۔ اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے:
(وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔) (البقرۃ: ۲۱۳)
۱۳۔ اللہ ہی مومنوں کا دوست ہے:
(اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) (البقرۃ: ۲۵۷)
۱۴۔ اللہ ہی کفار کو گھیرنے والا ہے:
(وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ م بالْکَافِرِیْنَ) (البقرۃ: ۱۹)
۱۵۔ اللہ ہی قیامت کے دن کا مالک ہے:
(مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) (الفاتحۃ: ۳)
آیت ۱
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۱
(عربی متن نیلے رنگ کے حروف میں دیا جا رہا ہے)
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
(ترجمے کا متن سبز رنگ کے حروف میں دیا جا رہا ہے)
اللہ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قدر چاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جا رہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے فضا میں اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک لے رہے ہیں اور اپنے ماحول میں مطمئن اور خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشو و نما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جا رہی ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی جز ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی کا تعارف رب اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اور یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات و نشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔
(فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔) [المؤمنون: ۱۴]
’’اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
مانگنے کا صحیح طریقہ اور اسلامی تہذیب کا جزو لازم ہے کہ انسان ہر حال میں اپنے رب کا حمد خواں اور شکر گزار رہے۔ حمد گوئی سے یہ بات خود بخود ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی عطا اور ملکیت ہے۔ اور انسان انتہائی ناتواں اور بے بس ہے۔ اس سے انسان کے دل میں یہ عقیدہ بھی جڑ پکڑتا ہے کہ جمال و کمال کسی کا اپنا نہیں بلکہ اللہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اس لیے حقیقی اور ہمہ وقتی حمد و ستائش اسی مالک کو زیبا ہے۔ پھر مالک بھی ایسا جو صرف انسانوں اور جنّات کا ہی نہیں وہ تو حیوانات، جمادات، نباتات حتی کہ ارض و سمٰوٰت کا رب ہے۔ جو ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کی ضرورت کو کمال رحمت اور ربوبیت سے پورا کر رہا ہے۔ حمد میں دوسرے کی ذات کی بڑائی اور اس کے احسانات کا احساس و اعتراف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید ابتدا ہی میں انسان کو یہ باور کرواتا ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے رب کی تعریف و توصیف اور حمد و شکر بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔
(سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) [الحشر: ۱]
’’زمین و آسمان میں موجود ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘
اے انسان! اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے تجھے مانگنے سے پہلے اپنے رب کی حمد و شکر اور اس کی عنایت و عطا کا اعتراف کرتے ہوئے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ شکر گزار ہی تابع فرمان ہوا کرتے ہیں۔
رسول کریمﷺ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا یوں بیان کیا کرتے تھے:
(أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) [رواہ مسلم: کتاب الصلاۃ، باب مایقال في الرکوع و السجود]
’’اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کر سکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔‘‘
(سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَ رِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ) [رواہ مسلم: کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والإستغفار، باب التسبیح أول النھار وعند النوم]
’’اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ اس کی مخلوق کی تعداد، اس کے نفس کی رضا، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر۔‘‘
حدیث الحمد کی فضیلت۔۔
مسائل
۱۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کی حمد و ستائش کرتا ہے۔
تفسیر بالقرآن
حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے:
۱۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے کے لیے ہیں۔ (الانعام: ۴۵)
۲۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ (التوبۃ: ۱۱۲)
۳۔ صبح و شام اللہ کی حمد بیان کرنے کا حکم ہے۔ (فاطر: ۵۵)
۴۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (الرعد: ۱۳)
۵۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی ثنا خواں ہے۔ (بنی اسرائیل: ۴۴)
آیت ۲
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ۲
بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
رحمن فعلان کے وزن پر مبالغے یعنی سپر ڈگری (Super Degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔
الرحمن: لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے اور لفظ ’’الرحیم‘‘ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔
اس لحاظ سے معنیٰ یہ ہوا کہ وہ ’’اللہ‘‘ بے انتہا مہربان، ہمہ وقت اور ہر حال میں رحم فرمانے والا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رحیم کسی مشفق شخصیت کو کہا جا سکتا ہے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ’’الرحمن‘‘ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحیمیت کسی اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اس کی رحمانیت کا عین تقاضا ہے۔ اس صفت کا تذکرہ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں پایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جس قدر سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے لیکن جب اللہ کے حضور یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہوتا ہے کہ الٰہی! میرے جرائم اور خطاؤں کی آندھیوں نے میرے گلشن حیات کو برباد کر دیا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے ہوئے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی حیات نو سے ہمکنار کر دے۔ بندۂ مومن کی عاجزی اور سر افگندگی پر رحمن و رحیم کی رحمت کے سمندر میں ایک تلاطم برپا ہو جاتا ہے۔ جس کی وسعتوں کا تذکرہ رسول کریمﷺ یوں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت اس قدر وسیع و عریض ہے جیسے بحر بیکراں میں سوئی ڈبو کر نکال لی جائے تو اس سے سمندر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے ہی کائنات کے تمام جن و انس کی حاجات اور تمناؤں کو پورا کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سمندر میں سوئی ڈبو کر باہر نکال لینے کے برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔
[رواہ مسلم: کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم]
اللہ تعالیٰ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے کیونکہ اس نے ابتدائے آفرینش سے لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔
[رواہ البخاری: کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ و یحذرکم اللہ نفسہ]
مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری رحمت و شفقت ہر آن ان کے قریب رہتی ہے۔
(رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ) [الأعراف: ۱۵۶]
’’میری رحمت تمام اشیاء پر محیط ہے۔‘‘
(کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ) [الأنعام: ۵۴]
’’تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔‘‘
(عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یا رسول اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْءًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ) [رواہ البخاری: کتاب المرضٰی، باب تمني المریض الموت]
’’حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اے اللہ کے پاک نبی! آپ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! میں بھی نہیں سوائے اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نواز دے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ وہ نیک ہو گا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہو جائے گا۔ اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کر لے۔‘‘
رسول اکرمﷺ کی دعا:
(اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِيْ إِلٰی نَفْسِيْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ کُلَّہٗ لَآإِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ)
[رواہ ابو داؤد: کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح]
’’اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلب گار ہوں مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا اور میرے سب کاموں کی اصلاح فرما تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
مسائل
۱۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ۲۔ اللہ کی شفقت و مہربانی نے زمین و آسمان کا احاطہ کر رکھا ہے۔
تفسیر بالقرآن
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعتیں:
۱۔ اللہ ایک ہے، بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ۱۶۳)
۲۔ سب کچھ جاننے کے باوجود نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ (الحشر: ۲۲)
۳۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (الاعراف: ۱۵۶)
۴۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے۔ (الانعام: ۵۴)
۵۔ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر: ۵۳)
۶۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف: ۵۶)
حوالہ۔۔ اللہ کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔
آیت ۳
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۳
قیامت کے دن کا مالک ہے۔
اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت جو بیان ہو رہی ہے وہ قرآن مجید کا تیسرا مرکزی مضمون ہے۔ اللہ جزاء و سزا کے دن کا مالک ہے۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد اور اس کی ابتدائی تعلیم میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی اس کی ان گنت نعمتوں اور بے پایاں رحمتوں کے تذکرے کے بعد ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ کہیں انسان اس کی رحمت و شفقت دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ مجھے میرے کیے دھرے پر پوچھا ہی نہیں جائے گا اور انسان کو دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اے انسان! نہ صرف تجھے موت آنی ہے بلکہ موت کے بعد تو اٹھایا اور اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا پھر تجھے اپنی ایک ایک حرکت اور عمل کا پورا پورا حساب دینا ہے اور جزا یا سزا سے تیرا واسطہ پڑنا ہے۔ قرآن مجید کے عظیم مفسر اور نکتہ دان حضرت امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں کہ سورة الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسم اعظم کے ساتھ چار صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں یہ واضح کیا ہے کہ اے انسان! میں ہی وہ اللہ ہوں جس نے تجھے پیدا کیا اور میں ہی اپنی آغوش نعمت میں تیری پرورش کرتا ہوں۔ تجھ سے کوئی خطا ہو جائے تو بے پایاں رحمت کے ساتھ تیری پردہ پوشی کرتا ہوں۔ جب تو میری بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہے تو میں ہی تیری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہوں۔’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کی صفت میں یہ اشارہ دیا ہے کہ نیک اعمال کے بدلے قیامت کے دن تجھے پوری پوری جزائے خیر سے نوازا جائے گا۔
مالک کا لفظ استعمال فرما کر یہ واضح کر دیا گیا کہ اس دن کا برپا ہونا بدیہی امر ہے۔ اس دن نیک و بد کو سزا دلوانے یا معاف کروانے کا کسی کو اختیار نہیں ہو گا۔ بڑے بڑے سرکش اور نافرمان خمیدہ کمر اور سر جھکائے رب کبریا کی عدالت میں ذلت و رسوائی کی حالت میں پیش کئے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دوسرا عکس ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکوں کو پوری پوری جزا اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ اس لیے عقیدۂ آخرت ایمان کا اہم جز قرار پایا ہے۔ اس دن انبیائے کرامؑ بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے اور رب ذو الجلال دنیا کے سفّاک، ظالم اور متکبر حکمرانوں اور انسانوں کو اس طرح خطاب کرے گا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول محترمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کر کے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم و سفّاک اور نخوت و غرور رکھنے والے آج کہاں ہیں؟
(یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ.) (رواہ مسلم: کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار)
دین کے معانی:
اطاعت و بندگی۔ (الزمر: ۱۱) شریعت: (یونس: ۱۰۴) قانون: (یوسف: ۷۶)
حکمرانی: (المومن: ۵۶) جزاء و سزا (بدلہ): (الذاریات: ۶)
مسائل
۱۔ قیامت کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اس دن نیکوں کو جزا اور بروں کو سزا ملے گی۔
۲۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا فرض ہے۔
تفسیر بالقرآن
قیامت برپا ہو کر رہے گی:
۱۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج: ۱)
۲۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن: ۱۶)
۳۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار: ۱۹)
۴۔ قیامت کے دن ’’اللہ‘‘ ہی کی بادشاہی ہو گی۔ (الفرقان: ۲۶)
۵۔ قیامت کے دن ’’اللہ‘‘ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج: ۵۶)
مختلف مراحل کے حوالے سے قیامت کے اہم ترین نام:
۱۔ اَلسَّاعَۃُ (الاعراف: ۱۸۷) گھڑی (مقرر وقت)
۲۔ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ (البقرۃ: ۱۱۳) کھڑے ہونے کا دن (مُردوں کے کھڑے ہونے کا دن)
۳۔ اَلْیَوْمُ الْحَقُّ (النباء: ۳۹) سچا دن (جس کے آنے میں نہ کوئی شک ہے اور نہ اس دن کسی فیصلہ میں کوئی غلطی ہو گی)
۴۔ یَوْمٌ مَّعْلُوْمٌ (الشعراء: ۳۸) جانا ہوا دن یا مقررہ دن)
۵۔ اَلْوَقْتُ الْمَعْلُوْمُ (الحجر: ۳۸) جانا ہوا وقت یا مقررہ وقت)
۶۔ اَلْیَوْمُ الْمَوْعُوْدُ (البروج: ۲) وعدے کا دن)
۷۔ اَلْیَوْمُ الْاٰخِرُ (النساء: ۳۸) پچھلا دن)
۸۔ یَوْمُ الْاٰزِفَۃِ (المومن: ۱۸) قریب آنے والی مصیبت کا دن)
۹۔ یَوْمٌ عَسِیْرٌ (المدثر: ۹) سخت دن)
۱۰۔ یَوْمٌ عَظِیْمٌ (الانعام: ۱۵) بڑا دن)
۱۱۔ یَوْمٌ عَصِیْبٌ (ہود: ۷۷) سخت دن)
۱۲۔ یَوْمُ الْبَعْثِ (الروم: ۵۶) جی اٹھنے کا دن)
۱۳۔ یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن: ۱۵) (افسوس کا دن)
۱۴۔ یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن: ۱۵) باہم ملنے کا دن)
۱۵۔ یَوْمُ التَّنَادِ (المومن: ۳۲) پکار کا دن)
۱۶۔ یَوْمُ الْجَمْعِ (الشوری: ۷) اکٹھا ہونے کا دن)
۱۷۔ یَوْمُ الْحِسَابِ (ص: ۱۶) حساب کا دن
۱۸۔ یَوْمُ الْحَسْرَۃِ (مریم: ۳۹) حسرت کا دن (
۱۹۔ یَوْمُ الْخُرُوْجِ (ق: ۴۲) قبروں سے) نکلنے کا دن)
۲۰۔ یَوْمُ الْفَصْلِ (الدخان: ۴) فیصلے کا دن)
۲۱۔ اَلْقَارِعَۃُ (القارعۃ: ۱) کھڑکھڑانے والی)
۲۲۔ اَلْغَاشِیَۃُ (الغاشیۃ: ۱) چھا جانے والی)
۲۳۔ اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ (النازعات: ۳۴) بڑی مصیبت)
۲۴۔ اَلنَّبَأُ الْعَظِیْمُ (النباء: ۲) بڑی خبر)
۲۵۔ اَلْحَآقَّۃُ (الحاقۃ: ۱) ضرور آنے والی گھڑی)
۲۶۔ اَلْوَعْدُ (الانبیاء: ۳۸) وعدہ)
۲۷۔ اَلْوَاقِعَۃُ (الواقعۃ: ۱) وقوع پذیرہونے والا)
۲۸۔ اَمْرُ اللّٰہِ (الحدید: ۱۴) اللہ کا حکم)
۲۹۔ اَلصَّآخَّۃُ (عبس: ۳۴) بہرہ کرنے والی گھڑی)
۳۰۔ یَوْمُ الدِّیْنِ (الفاتحۃ: ۳) بدلے کا دن)
۳۱۔ یَوْمٌ کَبِیْرٌ (ہود: ۳) بڑا دن)
۳۲۔ یَوْمٌ اَلِیْمٌ (ہود: ۲۶) دردناک دن)
۳۳۔ یَوْمٌ مُّحِیْطٌ (ہود: ۸۴) گھیرنے والا دن)
۳۴۔ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ (ہود: ۱۰۳) حاضری کا دن)
آیت ۴
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۴
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
’’اللہ‘‘ کے حضور نمازی غلامانہ انداز میں ہاتھ باندھ کر اور سراپا عجز و انکساری کے ساتھ اس بات کا اقرار اور اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ اے اللہ! تو ہی میرا معبود ہے اس لیے میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ اس میں نہ کسی کو سہیم سمجھتا ہوں اور نہ کسی کو آپ کے ساتھ شریک کرتا ہوں۔ نمازی یہ عہد و اقرار ابتداءً قیام کی حالت میں اور آخر میں تشہد میں بیٹھ کر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ابتدا میں اس نے جامع الفاظ میں اقرار کیا تھا اور تشہد میں فقیروں کی طرح دامن پھیلا کر عرض کرتا ہے کہ میری تمام مناجات و عبادات اور نذرو نیاز اللہ وحدہٗ لا شریک کے لیے ہیں۔
(اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ) [رواہ البخاری: باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ]
’’ہمہ قسم کی لسانی، بدنی اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں‘‘۔
یہی وہ مطالبہ ہے جو رسالت مآبﷺ کی زبان اطہر سے کروایا گیا ہے۔ اس میں یہ تقاضا بھی کیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور بلا شرکت غیرے ہونی چاہیے۔
(قُلْ إِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَاَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔) (الانعام: ۱۶۳۔ ۱۶۴)
’’آپ اعلان کریں! یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرنے والا ہوں۔‘‘
اس کے بعد مومن دل کی اتھاہ گہرائیوں اور انتہائی عاجزی کے ساتھ عرض گزار ہوتا ہے کہ الٰہی! یہ حاضری اور عاجزی تیری توفیق اور عنایت کا نتیجہ ہے کیونکہ کتنے ہی انسان ہیں جو صحت، فرصت اور تونگری کے باوجود تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت نہیں پاتے۔ اے اللہ! تیری مدد ہمیشہ میرے شامل حال رہے۔ میرا ایمان ہے کہ تیرے بغیر کوئی میری مدد نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میں ہر دم تجھ سے مدد کا طلبگار اور تیری دستگیری کا خواستگار ہوں۔ میرا تیرے حضور یہ عہد ہے کہ میں تجھے مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے تجھ ہی سے نصرت و حمایت کا طلبگار ہوں گا کیونکہ تو داتا ہے میں محتاج، تو غنی ہے میں تیرے در کا فقیر، تو بے نیاز ہے میں نیاز مند، تو بادشاہ ہے میں فقیر بے نوا۔ اس لیے میری مدد فرما۔ میں تیری دستگیری اور مدد کے بغیر نہ اپنا ایمان سلامت رکھ سکتا ہوں اور نہ اپنی عزت و جان کی حفاظت کر سکتا ہوں۔
یہی عقیدہ رسول گرامیﷺ نے سکھلایا اور اسی عقیدہ کو نماز کے بعد دعا کی صورت میں دہراتے اور مانگتے تھے۔
(اَللّٰھُمَّ لَامَانِعَ لِمَآ أَعْطَیْتَ وَلَامُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ۔۔) (بخاری: کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلوۃ)
’’اے اللہ! جو چیز تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں۔‘‘
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّيْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ اسَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ.)
(رواہ الترمذی: کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق والورع، باب منہ)
’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریمﷺ کے پیچھے سوار تھا آپﷺ نے فرمایا: بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہو جائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔‘‘
مسائل
۱۔ ہر شخص کو صرف اللہ کی عبادت کرنا اور اس سے مدد کا طلب گار ہونا چاہیے۔
تفسیر بالقرآن
عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہیے:
۱۔ جنوں اور انسانوں کو اللہ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (الذّاریات: ۵۶)
۲۔ ہر رسول، اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا۔ (النحل: ۳۶)
۳۔ اللہ ہی کے لیے رکوع و سجود اور ہر عبادت ہونی چاہیے۔ (الحج: ۷۷)
۴۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء: ۳۶)
۵۔ اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔ (الزمر: ۲)
۶۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ (الانفال: ۱۰)
۷۔ اللہ ہی سے مدد مانگنا چاہیے۔ (البقرۃ: ۴۵)
۸۔ اللہ تعالیٰ غنی اور کائنات کے سارے انسان اس کے در کے فقیر ہیں۔ (فاطر: ۱۵)
آیت ۵
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۵
ہمیں سیدھے راستے کی راہنمائی فرما۔
اہل علم نے ہدایت کے مدارج کی بہت سی قسمیں بیان فرمائی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی چار اقسام ہیں: ۱ طبعی اور فطری ہدایت ۲ الہامی ہدایت ۳ توفیقی ہدایت ۴ ہدایت وحی۔
طبعی اور فطری ہدایت:
چاند، سورج اور سیارے طبعی رہنمائی کے مطابق اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ہوائیں اسی اصول کی روشنی میں رخ بدلتی اور چلتی ہیں۔ بادل فطری رہنمائی سے ہی راستے تبدیل کرتے اور برستے ہیں حتیٰ کہ اسی اصول کے تحت درخت روشنی کی تلاش میں ایک دوسرے سے اوپر نکلتے ہیں۔ فطری ہدایت کے مطابق ہی مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی ماں کے قدموں میں پڑ جاتا ہے، بطخ کا بچہ خود بخود پانی کی طرف چلتا اور انسان کا نومولود ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طبعی اور فطری ہدایت کی قرآن نے اس طرح رہنمائی فرمائی ہے:
(وَھَدَیْنَاہ النَّجْدَیْنِ ۔) [البلد: ۱۰]
’’ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیئے۔‘‘
الہامی ہدایت:
الہام وحی کی ایک قسم ہے لیکن وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جب کہ الہام انبیاء کے علاوہ نیک اور عام آدمی حتی کہ قرآن مجید نے شہد کی مکھیوں کے لیے بھی وحی یعنی الہام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات القا فرما دیتا ہے۔ اسے ہدایت وہبی بھی کہا جاتا ہے۔
ہدایت بمعنیٰ توفیق اور استقامت:
ہدایت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور توفیق سے اپنے بندے کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما دے۔ رسول اللہﷺ اکثر یہ دعا کرتے تھے۔
(یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) (رواہ الترمذی: کتاب الدعوات)
’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ) (رواہ الترمذی: کتاب الدعوات، باب ماء فی جامع الدعوات)
’’اے اللہ! میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔‘‘
وحی اور حقیقی ہدایت:
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ہدایت کی دو شکلیں ہیں اور دونوں آپس میں لازم و ملزوم اور ضروری ہیں۔ ایک ہدایت ہے ہر نیکی کی ظاہری حالت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ جو ہر حال میں سنت نبوی کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسری اس کی روح اور اصل۔ اسے قرآن نے اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے۔
اخلاص کے اثرات دل پر اثر انداز ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہو گی جس کا بدلہ جنّت ہے۔ کردار پر مرتب ہوں گے تو نفس اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا ہو گی جس سے آدمی کو دنیا میں نیک نامی اور کامیابی حاصل ہو گی۔ بندہ اللہ کے حضور ہاتھ باندھے، نظریں جھکائے، نہایت عاجزی اور بے بسی کے عالم میں عرض کرتا ہے۔ میرے خالق و مالک! میں تیری بارگاہ میں عرض گزار ہوں کہ میں دنیا کی رزم گاہ میں کمزور اور ناتواں ہوں۔ میرا دشمن بڑا ذلیل، طاقت ور، عیّار اور چالاک ہے جو چاروں طرف سے اپنے لشکروں کے ساتھ ہر آن مجھ پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اور میں اسے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ وہ ہر دم مجھے پھسلانے کے درپے ہے۔ تیری دست گیری اور رہنمائی کے بغیر نہ میں اس کا مقابلہ کر سکتا ہوں اور نہ ہی سیدھی راہ پر گامزن رہ سکتا ہوں۔ دنیا کے گھٹا ٹوپ اندھیروں، مسائل کے طوفانوں اور مشکلات کے جھکڑوں میں میری عاجزانہ درخواست ہے کہ مجھے لمحہ لمحہ اور قدم قدم پر صراط مستقیم کی رہنمائی اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق نصیب فرما۔
مومن اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی ہدایت اور مدد کا طالب ہوتا ہے تاکہ ایک فرد کی بجائے ہدایت یافتہ لوگوں کا ایک قافلہ اور کارواں ہو تاکہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرنا اور غلبۂ دین آسان ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو گفتگو کا ملکہ اور ایسا معجزانہ اسلوب عنایت فرمایا تھا جو بنی نوع انسان میں کسی کو نہ حاصل ہوا نہ ہو گا۔ آپ نے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل چند الفاظ اور انتہائی سادہ انداز میں بیان فرما دیے ہیں۔ لیکن صراط مستقیم کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس مسئلہ کو ایک نقشہ کے ذریعے سمجھانے کا طریقہ اختیار فرمایا تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
(عَنْ عَبْدِ اللّٰہِؓ قَالَ خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ خَطًّا بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذَا سَبِیْلُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا قَالَ ثُمَّ خَطَّ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذِہِ السُّبُلُ وَلَیْسَ مِنْھَا سَبِیْلٌ إِلَّا عَلَیْہِ شَیْطَانٌ یَدْعُوْ إِلَیْہِ ثُمَّ قَرَأَ (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ) (مسند احمد: کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ بن مسعود)
’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں۔ ان میں ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی (بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔‘‘
قرآن مجید نے اس راستے کو نبیﷺ کا راستہ قرار دیا اور اسے بصیرت سے تعبیر کیا ہے۔
(قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ) (یوسف: ۱۰۸)
’’آپ فرما دیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اور میرے پیرو کار بصیرت کی بنیاد پر اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘
(عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَؓ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ فَقُلْنَا یا رسول اللّٰہِ إِنَّ ھٰذِہٖ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْھَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَآءِ لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا لَایَزِیْغُ عَنْھَا بَعْدِيْ إِلَّاھَالِکٌ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِيْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ عَضُّوْا عَلَیْھَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَیْثُمَا قِیْدَانْقَادَ) [رواہ ابن ماجۃ: کتاب المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین]
’’حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے ایسا وعظ فرمایا جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے ہم نے کہا اللہ کے رسول یقیناً یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے لہٰذا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں واضح دین پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات بھی دن کی مانند ہے ہلاک ہونے والے کے علاوہ کوئی اس سے نہیں ہٹے گا تم میں سے جو زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ تم پر جو میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ پر چلنا لازم ہے اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا اور امیر کی اطاعت کرتے رہنا اگرچہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ مومن نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے اسے جہاں بھی لے جایا جائے وہ جاتا ہے۔‘‘
مسائل
۱۔ اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ اور ہر قدم پر صراط مستقیم کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔
تفسیر بالقرآن
صراط مستقیم:
۱۔ صراط مستقیم کی بنیاد۔ (آل عمران: ۱۰۱)
۲۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران: ۵۱)
۳۔ صراط مستقیم کے سنگ میل۔ (الانعام: ۱۵۱ تا ۱۵۳)
۴۔ ہر کسی کو صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا چاہیے۔ (الانعام: ۱۵۳)
۵۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس: ۶۱)
آیت ۶ ۔ ۷
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ۬ۦ۶
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠۷
۶۔ ہمیں سیدھے راستے کی راہنمائی فرما
۷۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا سوائے ان کے راستے کے جن پر غضب ہوا اور وہ گمراہ ہوئے۔
اب انعام یافتہ اور ہدایت یافتہ جماعت کا راستہ، ان کے ساتھ محبت اور ان کی معیت کی درخواست کی جاتی ہے جب کہ دوسرے گروہ سے اجتناب اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کارواں کے راستہ کی دعا کی جا رہی ہے وہ محض عقیدت کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ ان کے کردار اور اعلیٰ مقام کی وجہ سے ہے۔ جو خدا کے فرستادہ، پسندیدہ اور انعام یافتہ انبیائے کرام (علیہم السلام) ہیں ان پر سب سے بڑا انعام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو سیدھا راستہ بتلائیں اور اس پر چل کر دکھائیں۔ اس قافلۂ قدسیہ کے معزز افراد ایک مشن کے داعی، خاندان نبوت کے افراد اور رشتۂ رسالت کے حوالے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا:
(اَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَالْأَنْبِیَآءُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ) (رواہ البخاری: کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم)
’’لوگو! میں عیسیٰ بن مریمؑ کے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں جدا جدا ہیں لیکن دین ایک ہے۔‘‘
انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ:
(فَأُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰءِٓکَ رَفِیْقًا۔) (النساء: ۶۹)
’’تو وہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘
پہلے انبیاء کی نبوّتوں اور شخصیتوں کی تائید کرنا ہمارے لیے ضروری اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن سمع و طاعت صرف نبی آخر الزمان محمد رسول اللہﷺ کی کرنا ہو گی۔ اس سے اس نظریہ کی از خود نفی ہو جاتی ہے جو رسالت مآبﷺ کے ارشادات کے مقابلہ میں کسی نبی یا شخصیت کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ فاتحہ کے آخر میں جس گروہ سے نفرت کا اظہار اور جن کی عادات اور رسومات سے بچنے کی دعا کی جا رہی ہے وہ صرف گروہ بندی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان سے اس لیے الگ رہنا ہے کہ وہ اپنی بے اعتدالیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کے سزا وار ٹھہرے ہیں۔
’’آمین‘‘:
(عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ أَنَّ النَّبِیَّﷺ قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوْا فَإِنَّہٗ مَنْ وَّافَقَ تَأْمِیْنُہٗ تَامِیْنَ الْمَلآءِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ) (رواہ البخاری: کتاب الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین)
’’حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہو گئی اس کے پہلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
آمین کی فضیلت و اہمیت:
(عَنْ أَبِيْ مُصَبِّحِ الْمَقْرَاءِيِّ قَالَ کُنَّا نَجْلِسُ إِلٰی أَبِي زُھَیْرٍ النُّمَیْرِيِّ وَکَانَ مِنَ الصَّحَابَۃِ فَیَتَحَدَّثُ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ فَإِذَا دَعَا الرَّجُلُ مِنَّا بِدُعَاءٍ قَالَ اخْتِمْہُ بآمِیْنَ فَإِنَّ آمِیْنَ مِثْلُ الطَّابِعِ عَلَی الصَّحِیْفَۃِ)
[رواہ ابو داوٗد: کتاب الصلاۃ، باب التأمین وراء الإمام]
’’حضرت ابو مصبح المقرائیؓ فرماتے ہیں ہم ابو زہیر نمیریؓ کے ہاں بیٹھے تھے جو صحابی تھے وہ اچھی اچھی باتیں بیان کرتے تھے۔ ہم میں سے ایک آدمی نے دعا شروع کی تو صحابی نے فرمایا دعا ’’آمین‘‘ کے ساتھ ختم کرو کیونکہ دعا کو آمین کے ساتھ ختم کرنا ایسے ہی ہے جیسے خط پر مہر لگا دی جائے۔‘‘
سورة فاتحہ کی آیات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورة فاتحہ کا حصہ ہے اور یہی ساتویں آیت ہے اور اس کا پڑھنا واجب ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق بسم اللہ سورة فاتحہ کا حصہ نہیں بلکہ صراط الذین انعمت علیھم الگ آیت ہے اور غیر المغضوب علیھم والضالین الگ آیت ہے۔ (دیکھیے ایسر التفاسیر جلد ۱ صفحہ نمبر ۱۰)
مسائل
۱۔ صراط مستقیم کے ساتھ دنیا اور آخرت میں انعام یافتہ لوگوں کی رفاقت کی دعا کرنا چاہیے۔
۲۔ مغضوب لوگوں کے طریقے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگنا چاہیے۔
تفسیر بالقرآن
انعام یافتہ اور مغضوب لوگ:
۱۔ انبیاء، صدیق، شہداء اور صالحین انعام یافتہ لوگ ہیں۔ (النساء: ۶۹)
۲۔ حضرت آدم، نوح، ابراہیم اور یعقوبؑ انعام یافتہ حضرات تھے۔ (مریم: ۵۸)
۳۔ مشرکوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔ (الاعراف: ۱۵۲)
۴۔ بنی اسرائیل مغضوب لوگ ہیں۔ (البقرۃ: ۶۱)
۵۔ مغضوب لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ (حوالہ ۔۔)
گمراہ اور مغضوب کو دلی دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (الممتحنۃ: ۱۳)
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول: سورۂ فاتحہ تا آل عمران
حصہ دوم: سورۃ النساء تا الاعراف
حصہ سوم: سورۂ الانفال تا ابراہیم
حصہ چہارم: سورۂ الحجر تا فرقان
حصہ پنجم: سورۃ الشعراء تا سورۃ حٰمٓ السجدہ
حصہ ششم، آخری: سورۃ الشعراء تا الناس
ٹیکسٹ فائل: دو حصوں میں (ایک حصے میں اپ لوڈ نہیں ہو سکی)
2: حشر تا الناس