زمانۂ قدیم سے انگریزی کی مقبول عام کتاب
جنگلی جانور اور ان کے طور طریقے
از قلم
سر سیموئیل بیکر
ترجمہ: محمد منصور قیصرانی
یہ کتاب مکمل بھی شائع کی جا رہی ہے اور اصل کتاب کی مانند دو حصوں میں بھی
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب
حصہ اول
حصہ دوم
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
ہاتھی
اس جانور کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے خاص اہمیت دی جاتی رہی ہے کہ اس کی جسامت بہت عجیب اور رویہ وحشیانہ ہوتا ہے۔ یہ سوال بھی کئی بار سامنے آتا ہے کہ آیا ہاتھی زیادہ ذہین ہے یا کتا؟ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کتا انسان کا ساتھی ہے اور ہاتھی اس کا غلام۔
ہم سب کتے کی وفاداری سے بخوبی آگاہ ہیں جو وہ نسلِ انسانی سے روا رکھتا ہے۔ کتا انسان کی عسرت یا دولت سے متاثر نہیں ہوتا اور جب اس کے مالک کو اس کے تمام تر دوست احباب بھی چھوڑ چکے ہوں، کتا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اس کی یاداشت قابل قدر ہے حالانکہ فطرت نے اس کی عمر زیادہ نہیں رکھی۔
خطرے کی صورت میں کتا ہمیشہ اپنے مالک کا دفاع کرے گا اور اس سلسلے میں اس کی اپنی ذہانت کافی ہے۔ وہ فوراً دشمن کو پہچان کر اس پر حملہ کر دے گا۔ شکار کے دوران مالک کے برابر خوش ہو گا۔ شکار سے واپسی پر رات کو وہ اپنے مالک کے قدموں میں سو جائے گا اور وہ مالک کے گھر کا ہی ایک رکن ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہاتھی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسے تربیت دے کر کچھ کام کرنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے مگر وہ کبھی اپنی مرضی سے کام کرنے کو سامنے نہیں آئے گا۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ ہاتھی نے اپنے مالک کو ڈوبنے سے بچایا ہو یا حملے کی صورت میں خود سے اس کا دفاع کیا ہو۔ آپ کو آپ کا دشمن آپ کے پسندیدہ ہاتھی کے سامنے مار ڈالے تو بھی ہاتھی یا تو مداخلت نہیں کرے گا یا پھر بھاگ جائے گا اور جب تک مہاوت اسے اشارہ نہ کرے، وہ دخل نہیں دے گا۔ جب تک ہاتھی کو حکم نہ دیا جائے، ہاتھی کبھی بھی کوئی کام یا حرکت نہیں کرے گا۔
اس بات سے قطع نظر، ہاتھی کی یاداشت اور سیکھنے کی صلاحیت حیران کن ہے اور محیر العقول کام کر سکتا ہے، تاہم یہ کام کرنے کے لیے اسے باقاعدہ حکم دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھی کی طاقت بے پناہ ہوتی ہے۔
میں نے ہاتھیوں کے ساتھ بہت برس کام کیا ہے اور ایشیا اور افریقہ کے ہاتھیوں کے ساتھ بھی اور میرا خیال ہے کہ ہاتھی فطرتاً بزدل ہوتا ہے۔ آزاد حالت میں افریقی نر ہاتھی بالخصوص خطرناک ہوتا ہے مگر جھنڈ کی شکل میں ہاتھیوں کو جب دشمن کی بو آئے تو وہ فرار ہو جاتے ہیں۔ پالتو بننے سے ہاتھی مزید بزدل ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہاتھی مشکل سے ہی ملتا ہے جو کسی جنگلی جانور کے حملے کا سامنا بہادری سے کر سکے۔ عموماً ایسی صورت میں ہاتھی دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اگر جنگل پاس ہی ہو تو سواروں کے لیے یہ فرار مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ایشیائی اور افریقی ہاتھیوں کا فرق واضح ہے۔ اگرچہ مردہ ہاتھی کی درست پیمائش دینا تو ممکن نہیں کہ کہ مرنے کے بعد ہاتھی کی اونچائی لیٹی حالت سے فرق ہوتی ہے کہ کھڑی حالت میں وزن سے اونچائی کم ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے چڑیا گھر نے جب امریکہ کو جمبو نامی مشہور افریقی ہاتھی بیچا تو وہ بچپن سے ہی قید میں تھا اور آمد کے وقت اس کی اونچائی ۴ فٹ ۶ انچ تھی۔ انگلینڈ سے روانگی کے وقت اس کی پیمائش پوری توجہ سے کی گئی جو شانے پر پوری ۱۱ فٹ تھی اور وزن ساڑھے چھ ٹن۔ اس کے اگلے پیر کی گولائی اس کی اونچائی کا عین نصف تھی۔ میں نے افریقہ میں اس سے بھی بڑے بہت سے ہاتھی دیکھے ہیں مگر ہندوستان میں اتنا بڑا کوئی ہاتھی نہیں دیکھا۔
افریقی ہاتھی کو سدھانا مشکل نہیں مگر ان کو زیادہ تعداد میں حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ افریقی باشندے وحشی ہیں اور فطری طور پر وہ جانور کو پکڑ کر سدھانے کی بجائے اسے ہلاک کرنے اور کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وسطی افریقہ میں نو سال قیام کے دوران میں نے ایک مرتبہ بھی کسی جنگلی جانور یا پرندے کو پالتو نہیں دیکھا۔ سدھا ہوا ہاتھی افریقہ میں مہم جوؤں کے لیے بہت قیمتی ہو سکتا ہے کہ بہت گہرے دریا بھی عبور کر سکتا ہے اور مگرمچھوں سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ ایشیائی ہاتھی کی نسبت افریقی ہاتھی بہت کم سدھائے گئے ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ افریقی ہاتھی کی نسبت ہندوستانی ہاتھی زیادہ شریف اور آسانی سے سدھایا جا سکتا ہے۔ افریقی ہاتھی زیادہ طاقتور بھی ہوتا ہے۔ ہندوستانی نر ہاتھی بمشکل نو فٹ جبکہ مادہ آٹھ فٹ تک پہنچتے ہیں۔ دس فٹ تک شاید ہی کوئی ہاتھی پہنچ پائے۔ مہاوت اپنے ہاتھی کی پیمائش کرتے ہوئے مبالغے سے کام لیتے ہیں۔
چونکہ جمبو قید میں ہی گیارہ فٹ کا ہو گیا تھا، سو یہ کہنا غلط نہیں کہ افریقی ہاتھی آزاد حالت میں بارہ فٹ تک بھی پہنچ سکتے ہوں گے۔ میں نے بہت مرتبہ اس سے بھی بڑے ہاتھی دیکھے ہیں مگر یقین سے ان کی پیمائش کا نہیں کہہ سکتا۔
افریقی ہاتھی کی جسمانی ساخت ایشیائی سے فرق ہے۔ اس کے جسم کا بلند ترین مقام اس کا شانہ ہوتا ہے اور پشت خالی، ہندوستانی ہاتھی کی کمر خمدار اور شانہ نسبتاً نیچے ہوتا ہے۔ دونوں کے سر کی ساخت فرق ہوتی ہے اور افریقی ہاتھی کے کان بہت بڑے اور جب پیچھے کی طرف ہوں تو کندھے کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ جب افریقی ہاتھی کا کان اس کے جسم سے لگا ہوا ہو تو اس کے سرے پر چلائی گئی گولی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ یہ گولی سیدھی پھیپھڑوں کے درمیان سے گزرے گی۔ ہندوستانی ہاتھی کے کھانے کے دانت افریقی سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کی خوراک فرق ہوتی ہے۔ افریقی ہاتھی پتوں اور مموسا وغیرہ جیسے درختوں کی رسیلی جڑیں کھاتے ہیں جو وہ اپنے بیرونی دانتوں کی مدد سے کھود نکالتے ہیں۔ افریقی جنگلات اکثر سدابہار ہوتے ہیں اور درخت کی چھال بھی رسدار ہوتی ہے۔ ہندوستانی جنگل گرمی کے موسم میں بالکل خالی ہو جاتے ہیں۔ دونوں نسل کے ہاتھیوں میں چار دانت ہوتے ہیں جو بہت سخت ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان نرم سطح ہوتی ہے جو عمر کے ساتھ دانتوں کو گھسنے سے بچاتی ہے۔ جبڑے کے پیچھے ایک غدود سے رطوبت خارج ہوتی ہے جو دانت کی مرمت کا کام کرتی ہے۔
ہاتھی کی عمر کے بارے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ قید میں ہاتھی کی زندگی کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ ہاتھی کے بیرونی دانت لگ بھگ چالیس سال کی عمر تک جا کر مکمل ہوتے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جنگل میں ہاتھی کی زندگی لگ بھگ ڈیڑھ سو سال ہونی چاہیے۔
قید میں ہاتھی کی زندگی فطرت سے دور ہوتی ہے۔ ہندوستانی جنگلی ہاتھی کو سورج سے نفرت ہوتی ہے اور دن نکلنے کے بعد شاید ہی کبھی کھلے میں دکھائی دے۔ رات کے دوران وہ جنگل میں ہر جگہ پھرتا ہے اور صبح سورج طلوع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل جنگل میں سایہ دار جگہ پر رک جاتا ہے۔ پیٹ بھرتے ہوئے جتنی شاخیں توڑتا ہے، بمشکل ان میں سے نصف کو کھاتا ہے۔ درختوں کی چھال اکھاڑتا ہے مگر زیادہ تر کھائے بغیر چھوڑ دیتا ہے۔ ساری رات ہاتھی پیٹ بھرتا ہے۔ اس کی خوراک دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح کی خوراک پسند کرے گا۔ زیادہ تر جنگلی جانوروں کو ایک خاص حد تک نباتات کا علم ہوتا ہے جن سے وہ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ جانوروں میں محض اونٹ ہی ایسا جانور ہے جو اپنا پیٹ بھرنے کے چکر میں زہر بھی کھا سکتا ہے۔ تاہم ہاتھی اپنی ضروریات کے مطابق انتہائی توجہ سے خوراک کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جنگل کے کتنے کم درخت اس کی خوراک بن سکتے ہیں۔ کچھ درختوں کے پتے، کچھ کی کھال، کچھ کی جڑیں اور کچھ کے تنے (گنا اس کی ایک مثال ہے) پسند کرتا ہے۔ ایک درخت کے چھلکے کو اتار کر اس کی لکڑی کھاتا ہے۔
جنگلی ہاتھی شب بیدار جانور ہے اور درختوں کو چھو کر اور سونگھ کر پہچانتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں درخت کے پتے دیکھ کر پہچان ممکن نہیں ہوتی۔ جنگلی جانوروں میں ہاتھی کی قوتِ شامہ سب سے تیز ہوتی ہے اور ہزار گز دور سے بھی دشمن کی بو سونگھ لیتا ہے اور اگر ہوا موافق ہو تو اس سے بھی زیادہ دور سے سونگھ لیتا ہے۔ سونڈ کے اعصاب بہت طاقتور ہوتے ہیں اور اگرچہ اس کی کھال موٹی ہوتی ہے مگر سونڈ کے سرے پر بنے ابھاروں سے چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اٹھا سکتا ہے۔
سونڈ پر لگنے والا زخم ہاتھی کے لیے شدید تکلیف کا سبب بنتا ہے اور جب شیر حملہ کرے تو ہاتھی اپنی سونڈ کے نچلے حصے کو گول کر کے سینے کے نیچے چھپا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زخمی ہونے کے بعد ہاتھی بہت بزدل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے بہت عمدہ ہاتھی جب شیر کے ہاتھوں زخمی ہوتا ہے تو پھر لگ بھگ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو جاتا ہے۔ قدیم دور میں ہاتھیوں کو جنگ کے دوران زرہ بکتر پہنائی جاتی تھی تاکہ تیر اور بھالے سے زخمی نہ ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ شکار والے ہاتھی کے مہاوت کتنی لاپرواہی سے سونڈ کو خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ آسانی سے اس پر حفاظتی تہہ چڑھائی جا سکتی ہے۔
کمشنر کی طرف سے مجھے ایک بڑا نر ہاتھی دیا گیا تھا جس کی سونڈ کے لیے میں نے حفاظتی خود بنوایا تھا۔ اس کی پہلی تہہ سانبھر کی نرم کھال سے بنی تھی جو پورے سر کو ڈھانپ لیتی تھی اور گلے کے نیچے تسموں سے
باندھی جاتی تھی۔ سونڈ کی جڑ سے تین فٹ تک کا حصہ بھی چھپا ہوتا تھا۔ سونڈ کا نچلا حصہ خالی تھا اور حملے کی صورت میں ہاتھی اسے اوپر اٹھا لیتا تھا۔ اس کے اوپر بھینس کی رنگی ہوئی کھال کی تہہ ہوتی تھی جو اتنی پھسلواں تھی کہ شیر کے پنجے یا دانت اس پر پھسل جاتے تھے۔ ہاتھی کو سونڈ ہلانے میں کوئی دقت بھی نہیں ہوتی تھی۔ آنکھوں کے لیے چھ چھ انچ کے دو سوراخ بنے ہوئے تھے۔
اچھا تربیت یافتہ ہاتھی جلد ہی اس کا عادی ہو جائے گا اور اس کے اعتماد اور بہادری میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
بے پناہ طاقت کے باوجود ہاتھی بہت نازک جانور ہے اور کئی طرح کی بیماریوں اور مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ گلے کی سوج عام پائی جاتی ہے اور ہاتھی خوراک کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ایک اور مرض میں ٹانگیں سوج کر بہت تکلیف کا سبب بنتی ہیں اور چھونا ممکن نہیں رہتا۔ یہ بیماری عموماً تب ہوتی ہے جب سارا دن گرمی میں چلنے کے بعد ہاتھی کو ٹھنڈے پانی کے تالاب میں گھس کر آبی پودوں سے پیٹ بھرنے دیا جائے۔
ہاتھی سے زیادہ شاید ہی کوئی اور جانور دھوپ سے پریشان ہوتا ہو۔ ہاتھی ہمیشہ تاریک ترین مقامات پر رہنا پسند کرتا ہے۔ گہرے رنگ اور بڑی جسامت کی وجہ سے ہاتھی کا جسم سورج کی زیادہ سے زیادہ حرارت جذب کرتا ہے اور جب ہندوستان میں ہاتھی سامان اٹھا کر دھوپ میں چلے تو آپ اس کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ صرف مہاوت کے وزن کے ساتھ صبح نو بجے کے بعد چلتے ہوئے ہاتھی کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔ چلتے ہوئے ہاتھی سونڈ کو اپنے حلق میں ڈال کر معدے سے پانی نکالتا ہے اور اپنے اگلی ٹانگوں اور پہلوؤں پر بوچھاڑ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سواروں کو بھی یہ پانی سہنا پڑتا ہے۔ ہاتھی یہ کام ہر پانچ منٹ بعد کرتا رہتا ہے۔
ہاتھی کی یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح معدے سے وہ پانی نکال سکتا ہے اور اس پانی میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی۔ دیگر جانوروں کے برعکس ہاتھی کے جسم سے کوئی بو نہیں آتی۔ اس کی کھال کو چھوئیں تو ہاتھ میں کوئی بو نہیں آتی چاہے سونڈ کو چھوئیں یا کسی اور مقام کو۔ گھوڑوں کی بو بہت زیادہ ہوتی ہے اور اصطبل کے قریب رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے بہت مرتبہ ایسی جگہ خیمے میں رات گزاری ہے جہاں پچاس یا ساٹھ یا سو گز دور کئی ہاتھی کئی روز تک بندھے رہے تھے مگر کوئی بو نہیں آئی۔
ہاتھی کی غذا ہمیشہ تازہ اور صاف ہوتی ہے اور انہضام کا عمل بھی تیز۔ اس کا ایک معدہ ہوتا ہے اور مختصر سی آنت، سو جلد ہضم کر لیتا ہے۔ تاہم اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہاتھی کو زیادہ مقدار میں مسلسل کھاتے رہنا پڑتا ہے۔ ایک ہاتھی کو کم از کم ۶۰۰ پاؤنڈ روز کا چارہ درکار ہوتا ہے۔
ہاتھی کی خوراک کے بارے اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔ آسام کے کھیڈا محکمے کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر جی پی سینڈرسن کی رائے اس بارے حرفِ آخر ہے کہ ہاتھیوں کے چارے کے علاوہ انہیں غلہ بھی دینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ چارے پر منحصر ہے کہ ہاتھی کو اور کیا چاہیے۔ جہاں کیلے بکثرت ہوں وہاں اس کے تنے ہاتھی شوق سے کھاتے ہیں۔ تاہم اگر یہ ہاتھی کے سامنے ایسے ہی ڈال دیے جائیں تو کافی حد تک ضائع ہو سکتے ہیں۔ ہاتھی چھال کی تہیں اتار کر پھینکتا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں چاول ساتھ دینے مقصود ہوں وہاں کیلے کے تنے کو درمیان سے چیر کر دو دو فٹ لمبے ٹکڑے بنا لینے چاہیئں۔ ہر ٹکڑے کے دونوں سروں کو ملایا جائے تو کھوکھلی نالی سی بن جاتی ہے۔ اس میں مٹھی بھر چاول ڈال کر کیلے کی چھال سے باندھ دینا چاہیے۔ اس طرح کے پیکٹ ہر ہاتھی کے لیے تیار کرنا بہتر ہے۔ جب یہ تیار ہو جائیں تو مہاوت ایک ایک کر کے ہاتھی کو یہ پیکٹ دیتا جائے گا۔
ہاتھی اپنی خوراک کے بارے بہت حساس ہوتا ہے اور اگر کوئی چیز ذرا سی بھی ناپسند ہو تو فوراً اسے رد کر دیتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک ہاتھی دیکھا جو برہم پترا میں ڈھابری کی پولیس کے پاس تھا۔ اسے کافی مقدار میں چاول ملتے تھے جو تین چوتھائی پاؤنڈ جتنی مقدار میں مندرجہ بالا پیکٹ کی شکل میں دیے جاتے تھے۔ ایک خاتون نے اس ہاتھی کو ایک میٹھا بسکٹ کھانے کو دیا جو بمشکل ایک انچ لمبا اور نصف انچ چوڑا تھا۔ ہاتھی نے اسے سونڈ میں لیتے ہی پھینک دیا۔ مہاوت نے اس خاتون کو شرمندگی سے بچانے کے لیے بسکٹ اٹھایا اور چاول کے اگلے پیکٹ میں ڈال کر ہاتھی کے منہ میں رکھ دیا۔ پہلی بار چباتے ہی ہاتھی نے ناگواری کا اظہار کیا اور نوالے کو باہر اگل دیا۔ سارا نوالہ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا جو ظاہر کرتا تھا کہ ہاتھی کو بسکٹ کتنا ناگوار گزرا تھا۔ اس کے بعد ہاتھی نے اپنی سونڈ کی مدد سے پورے منہ سے چاول کا ایک ایک دانہ صاف کیا جس پر کئی منٹ لگ گئے۔
ہاتھی اپنی سونڈ سے کئی کام لے سکتا ہے۔ ایک بار میرے پاس ایک ہاتھی تھا جسے بانس کی کھپچیوں سے بنی ٹوکری میں چاول ڈال کر دیے جاتے تھے۔ ہاتھی اس میں سے دانہ دانہ چن کر کھا جاتا تھا اور ٹوکری بالکل خالی ہو جاتی تھی۔
ہاتھیوں کی خوراک کا لگا بندھا اصول بنانا ممکن نہیں کہ ہر علاقے اور ہر کام کی ضروریات الگ ہوتی ہیں۔ اگر ہاتھی کو جنگل میں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ بانس، برگد، پیپل اور انجیر کی نسل کے درختوں سے پیٹ بھرتا رہے گا۔ تاہم اگر ہاتھی نے سفر کرنا ہو اور کام بھی، تو کمشنریٹ کی طرف سے ہر ہاتھی کو ۱۵ پاؤنڈ آٹا ہر روز اضافی دیا جاتا ہے اور ۶۰۰ پاؤنڈ سبز چارہ الگ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک پاؤنڈ دیسی گھی میں نمک اور گڑ ملا کر دیا جاتا ہے۔ میں جنگل میں کام کے دوران ہر ہاتھی کا راشن دوگنا کر کے ۳۰ پاؤنڈ آٹا کر دیتا ہوں۔ یہ آٹا دو دو پاؤنڈ وزنی روٹیوں کی شکل میں کھلایا جاتا ہے۔
ہاتھیوں کو سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ قبل چارہ دیا جاتا ہے اور اندھیرا چھانے سے قبل پانی پلانے لے جاتے ہیں۔ ہاتھی کی تندرستی کے لیے صفائی انتہائی اہم ہے۔ ہاتھی کو روز نہانا چاہیے اور پورے جسم کو اینٹ یا نرم پتھر سے رگڑ کر صاف کرنا چاہیے۔ ہاتھی اسے اتنا پسند کرتا ہے کہ اپنے بھاری بھرکم جثے کے باوجود مطلوبہ انداز سے لیٹ کر حکم مانتا ہے۔ ہاتھی کا سر اکثر پانی کی سطح کے نیچے ہوتا ہے اور سونڈ باہر نکال کر سانس لیتا رہتا ہے۔ پورے جسم کی صفائی کے بعد ہاتھی تالاب میں گھس کر اپنے بدن پر پانی بہاتا ہے۔ نہانے کے بعد ہاتھی کا رنگ کالا سیاہ نکل آتا ہے مگر چند منٹ بعد ہاتھی اپنے بھیگے بدن پر باریک مٹی پھینکتا ہے جو چپک جاتی ہے اور ہاتھی کا رنگ مٹی جیسا ہو جاتا ہے۔
ہاتھی سے زیادہ کوئی چوپایہ پانی میں اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا خشکی پر۔ آزاد حالت میں ہاتھی بہت چوڑے دریا بھی عبور کر لیتا ہے اور دلدلی علاقوں میں جنگلی بھینسے یا سور کی طرح گھسا اور لوٹنیاں مارتا رہتا ہے۔ اس طرح اس پر مٹی اور کیچڑ کی موٹی تہہ چڑھ جاتی ہے اور مچھروں اور مکھیوں سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ پالتو حالت میں ہاتھی زمین کی سختی جانچنے یا دلدل کو پہچاننے کے قابل نہیں رہتا اور کسی پُل سے گزرنے سے قبل سونڈ مار کر اور ایک قدم رکھ کر اس کی مضبوطی جانچتا ہے۔
ہاتھی کی تیراکی کی صلاحیت کے بارے درست اندازہ لگانا تو ممکن نہیں کہ اس کا انحصار کئی باتوں پر ہوتا ہے جیسا کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے یا بہہ رہا ہے، مگر ہاتھی بغیر تھکے کئی گھنٹے تک سطح پر رہ سکتا ہے۔ ہاتھی کا جسم کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ڈوب نہیں سکتا۔ پانی میں موجود ہاتھی کو گولی ماری جائے تو مرتے ہی اس کی لاش تیرنا شروع کر دے گی۔ ہاتھی کا ایک پہلو پانی سے اوپر نکل آئے گا اور کئی افراد کا وزن سہار سکے گا۔ دریائی گھوڑے کو گولی لگے تو وہ پتھر کی مانند ڈوب جائے گا اور جب جسم میں گیسیں جمع ہو جائیں گی تو دو گھنٹے بعد ابھرے گا۔ سو ہاتھی کی نسبت دریائی گھوڑے کا جسم زیادہ بھاری ہوتا ہے حالانکہ وہ پانی میں رہنے والا جانور ہے۔
مہاوت جب پالتو ہاتھیوں پر سوار ہو کر دریا عبور کرتے ہیں تو وہ ہاتھی کی کمر پر کھڑے ہو کر ہاتھی کی گردن سے بندھی رسی کی مدد سے توازن برقرار رکھتے ہیں۔ عام انسان اگر ہاتھیوں کے جھنڈ کو دریا عبور کرتے دیکھے تو یہی سمجھے گا کہ ہاتھی ڈوب رہے ہیں حالانکہ وہ محض کلیلیں کرتے جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک بار میں نے چالیس ہاتھیوں کو دریائے برہم پترا عبور کرتے دیکھا جب دریا کا پاٹ ایک میل سے بھی زیادہ تھا۔ پہلے ہاتھی نے ۳۵ فٹ اونچے کنارے کو اپنے پیروں سے دھکیلا تو مٹی نیچے گری اور ڈھلوان بن گئی۔ پھر پچھلے پیروں پر بیٹھ کر ہاتھی پھسلتا ہوا نیچے اترا جبکہ اگلی ٹانگوں اور سونڈ کی مدد سے توازن برقرار رکھتا رہا۔ جب وہ نیچے اترا تو کافی ساری مٹی بھی ساتھ پہنچی اور دوسرے ہاتھیوں کے لیے اچھا خاصا راستہ بن گیا۔ چند ہی منٹ میں ہاتھیوں کے جھنڈ نے باقاعدہ راستہ بنا دیا۔
میں نے بہت مرتبہ ایسی جگہیں دیکھی ہیں جہاں سے ہاتھی اس طرح راستہ بنا کر گزرے تھے اور بظاہر وہاں سے ہاتھی کا گزرنا ممکن نہ دکھائی دیتا تھا۔ دریا میں پہنچتے ہی ہاتھیوں کی مستیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ سارا دن گرمی میں کام کرنے کے بعد برہم پترا کے ٹھنڈے اور گہرے پانی میں پہنچ کر ہاتھی پانی میں گم ہو جاتے ہیں اور ان کے مہاوت ان کی پشت پر سوار ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے پانی کی سطح پر چل رہے ہوں۔ ہاتھی کی سونڈ ہمیشہ پانی سے باہر رہتی ہے اور کبھی کبھار پورا سر بھی نکل آتا ہے۔ دریا عبور کرتے ہوئے ہاتھیوں کی رفتار کافی تیز ہوتی ہے اور دریا عبور کرنے پر وقت بھی نہیں لگتا اور ہاتھی اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔
پہلی بار جب آپ مہاوت کو ہاتھی پر آنکس استعمال کرتے دیکھتے ہیں تو ہاتھی پر ترس آتا ہے۔ یہ بیس انچ لمبا اور قدیم لنگر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اس کے سرے پر تیز ہُک لگا ہوا ہوتا ہے۔ ہاتھی کو آگے بڑھانے کے لیے مہاوت یہ اس کے سر میں گاڑتا ہے اور رکنے کے لیے کانوں کے پیچھے نرم جگہ پر چبھوتا ہے۔ آنکس کا وزن ۴ سے ۶ پاؤنڈ ہوتا ہے اور کافی خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ بعض آنکس دو یا تین سو سال پرانے اور بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ اگرچہ پہلے تو ہاتھی پر ترس آتا ہے مگر جلد ہی انکشاف ہوتا ہے کہ آنکس کے بغیر ہاتھی کو قابو نہیں رکھا جا سکتا۔ آنکس ایک ایسی طاقت ہے کہ جس کے بغیر ہاتھی کو محض پیار محبت سے قابو نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک سزا کا خوف نہ ہو، ہاتھی کسی قیمت پر انسان کی خدمت کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ چھوٹے بچے کے ہاتھ میں چھڑی دیکھ کر بھی ہاتھی ڈر جاتا ہے۔ اگر بچہ ہاتھی کی سونڈ اور منہ پر چھڑی مارے تو ہاتھی انتہائی خوف سے اپنی سونڈ اگلی ٹانگوں کے بیچ دبا لیتا ہے۔ مادہ کی نسبت نر زیادہ ناقابلِ اعتبار ہوتا ہے۔ بظاہر شکار کی نیت سے انسان سوچتا ہے کہ نر ہاتھی اپنی طاقت اور ہمت کی وجہ سے زیادہ بہتر سواری ثابت ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دو بڑے بیرونی دانت حفاظت کا اچھا سبب بن سکتے ہیں تاہم اس کے باوجود مادہ کو زیادہ فرمانبردار ہونے کی وجہ سے ترجیح دی جاتی ہے۔
نر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور مستی کی حالت میں انتہائی ناقابلِ اعتبار ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت ہر سال دو سے چار ماہ تک جاری رہتی ہے۔ اس کیفیت میں ہاتھی کو خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے اور اگلی ٹانگوں میں مضبوط بیڑیاں لازمی ہو جاتی ہیں۔ کچھ ہاتھی سارا سال ایک جیسے رہتے ہیں تو کچھ مست کی حالت میں جیسے دیوانے ہو گئے ہوں اور اپنے مہاوت کو مار ڈالنے اور گڑبڑ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایسی کسی حالت میں ذمہ داری مہاوت کی ہوتی ہے کیونکہ اگر ہاتھی کا مناسب خیال رکھا جائے اور بروقت مناسب بیڑیاں اور زنجیریں ڈال کر رکھی جائیں تو ہاتھی نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہ جاتا۔
بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہاوت غفلت کی وجہ سے ہاتھی پر زنجیریں نہیں ڈالتا یا پھر پرانی اور مرمت طلب زنجیریں استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے ہاتھی فرار ہو کر تباہی پھیلاتا ہے اور سب سے پہلے مہاوت ہی مارا جاتا ہے کہ وہی اسے دوبارہ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
مست کیفیت کی آمد کے ساتھ ہی ہاتھی کی کنپٹیوں پر بنے سوراخوں سے چکنا اور بدبودار مواد بہنا شروع ہو جاتا ہے جو کولتار جیسا دکھائی دیتا ہے۔ سوراخ کے گرد تقریباً چار انچ جتنا حصہ گیلا دکھائی دیتا ہے اور اس کی بو اونٹ کی گردن سے نکلنے والی بو سے مماثل ہوتی ہے۔
میں نے کئی نر ایسے بھی دیکھے ہیں جو کبھی مسئلہ نہیں پیدا کرتے، مگر مست کی حالت میں ان پر خاص توجہ دی جاتی تھی کہ ان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کئی نر ہمیشہ مسئلہ بنے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اگر انہیں زنجیروں میں بھی جکڑ دیا جائے تو بھی وہ پیر سے مٹی اڑاتے رہتے ہیں اور کبھی خاموش نہیں ہوتے اور سر ہلاتے رہتے ہیں۔ ان کی ہر حرکت سے بے چینی ظاہر ہوتی ہے اور اجنبی افراد بھی فوراً خطرہ بھانپ لیتے ہیں۔ ایسے ہاتھیوں کے قریب جاتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے اور ہمیشہ پہلو سے قریب جانا چاہیے، سامنے سے کسی بھی قیمت پر نہیں۔
ہاتھی اکثر دھوکا دیتا ہے اور اگر اس کے قریب غیر محتاط ہو کر کھڑے ہوں تو اچانک اس کی سونڈ ٹکرا سکتی ہے۔ اسی طرح ہاتھی کے عین پیچھے کھڑا ہونے سے گریز کرنا چاہیے کہ ہاتھی دولتی بھی چلاتے ہیں۔ اتنا بڑا جانور اتنی سہولت سے دولتی چلاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ہاتھی کی رفتار کے بارے کافی بحث ہوتی رہی ہے اور یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ پالتو اور آزاد ہاتھی کی رفتار میں کافی فرق ہو گا۔ ایشیائی ہاتھی کی نسبت افریقی ہاتھی زیادہ تیز رفتار ہوتا ہے کہ افریقی ہاتھی کی ٹانگیں لمبی اور قدم بھی اسی حساب سے بڑا ہوتا ہے۔ افریقی ہاتھی زیادہ طویل سفر کا عادی ہوتا ہے جبکہ ایشیائی ہاتھی گنے چنے جنگلاتی قطعوں تک محدود رہتا ہے۔ زیادہ سفر کی وجہ سے افریقی ہاتھی زیادہ چست و چوبند ہوتا ہے۔ میرے خیال میں افریقی ہاتھی کی رفتار ابتدائی دو سے تین سو گز پر پندرہ میل فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے جس کے بعد کم ہو کر دس میل فی گھنٹہ پر آ جاتی ہے اور ایک گھنٹے میں اتنا فاصلہ طے بھی کر لیتا ہے۔ ایشیائی ہاتھی پندرہ میل فی گھنٹہ دو تین سو گز تک تو دوڑ لیتا ہے مگر اس کے بعد اس کی رفتار بمشکل آٹھ میل فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔ پانچ میل کے بعد یہ رفتار مزید کم ہو کر چھ میل تک پہنچ جاتی ہے۔
ہاتھی کی اتنی تیز رفتاری کا تجربہ محض اس وقت ہو سکتا ہے جب ہاتھی غصے سے پاگل ہو کر کسی انسان کا پیچھا کرے۔ ایسا بدقسمت انسان بمشکل ہی دوڑ کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ پہلے پچاس یا سو گز تک ہاتھی کی رفتار پندرہ میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ غیر ہموار زمین پر گھوڑے پر سوار ہو کر بھی انسان بمشکل ہاتھی سے بچ سکتا ہے۔ میں جوانی میں بالکل ہموار میدان میں ہاتھی سے مرتے مرتے بچا۔ ہموار میدان میں اچھا صحت مند انسان اٹھارہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے جو اسے ہاتھی سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے ہموار زمین کم ہی ملتی ہے کہ ہاتھی عموماً ایسی جگہوں پر ملتے ہیں جو ہاتھیوں کے لیے فائدہ مند ہوں اور وہاں جھاڑ جھنکار اور کٹی پھٹی زمین پر بھاگتے ہوئے انسان متواتر ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔
سومالی لینڈ میں حال ہی میں مرحوم انگرم گھوڑے پر سوار تھا مگر ہاتھی نے پکڑ کر ہلاک کر دیا تھا۔ انگرام ہتھنی کے پیچھے تھا اور اس پر .۴۵۰ بور کی رائفل سے گولیاں چلا رہا تھا۔ ہتھنی نے حملہ کیا اور خاردار جھاڑیوں کی وجہ سے گھوڑا تیز نہ بھاگ سکا اور ہتھنی نے اسے گرا کر دانتوں سے ہلاک کر دیا۔
افریقی اور ایشیائی ہاتھیوں میں ہاتھی دانت بھی فرق ہوتے ہیں۔ افریقی ہاتھی کے دانت بڑے اور بھاری ہوتے ہیں اور مادہ کے بھی دانت ہوتے ہیں جبکہ ایشیائی ہاتھی میں ہتھنی کے دانت دو یا تین انچ سے زیادہ باہر نہیں نکلتے۔ ایک بار میرے پاس ۱۴۹ پاؤنڈ وزنی ہاتھی دانت تھا۔ خرطوم میں ایک بار دانتوں کا جوڑا دیکھا جو ۳۰۰ پاؤنڈ وزنی تھا۔ ایک بار ایک دانت ۱۷۲ پاؤنڈ وزنی بھی دیکھا۔ ۱۸۷۴ میں لندن میں ایک ہاتھی دانت ۱۸۸ پاؤنڈ وزنی بھی نیلام ہوا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی دانت استثنائی صورت رکھتے ہیں۔ عام افریقی ہاتھی دانت کا جوڑا ۱۴۰ پاؤنڈ اور ایک دانت ۷۵ پاؤنڈ جبکہ دوسرا ۶۵ پاؤنڈ کا اوسط وزن رکھتا ہے۔ کم وزن والا دانت وہی ہوتا ہے جو کھدائی کے لیے زیادہ استعمال ہو۔
ہاتھی کھدائی کا بہت شائق ہوتا ہے اور بہت سی اقسام کے درختوں کی جڑیں کھود کر کھاتا ہے۔ عموماً دائیں دانت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور مسلسل استعمال ہی کی وجہ سے نسبتاً پتلا اور ہلکا ہوتا ہے۔ عرب اسے ‘خادم‘ دانت کہتے ہیں۔ چونکہ افریقی ہاتھی زیادہ مقدار میں جڑیں کھاتا ہے، سو ایشیائی ہاتھی کی نسبت زیادہ تباہی پھیلاتا ہے۔ ہاتھیوں کے جھنڈ کے گزرنے پر اکھڑے ہوئے درختوں کی تعداد دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور مموسا کے بہت بڑے درخت جو ایک ہاتھی کے بس کا روگ نہ ہوں، وہاں پورا جھنڈ مل کر ان کی جڑیں کھودتا اور ان درختوں کو گراتا ہے۔ میں نے دو سے تین فٹ موٹے تنے والے درخت اکھڑے دیکھے ہیں جو ہاتھی رسیلی جڑوں اور پتوں کی وجہ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ایسے درختوں کی جڑوں کو کھودنے کے لیے مختلف جسامت کے ہاتھی دانت کے سوراخ ہوتے ہیں اور آس پاس چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہاتھیوں کے پگ دکھائی دیتے ہیں۔
ایک بار میں نے ایک بڑے درخت سے ہاتھی کو سر ٹکراتے دیکھا جو درخت کو جھنجھوڑ کر پھل گرا رہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہاتھی بوقتِ ضرورت کتنی قوت صرف کر سکتا ہے۔ اُس وقت ہم دریائے نیل کے پاس ایک جگہ چھپ کر آبی اینٹلوپ کا انتظار کر رہے تھے اور سورج غروب ہونے میں نصف گھنٹہ باقی تھا کہ ہمیں جنگل سے زور کی چنگھاڑ اور شور کی آواز آئی اور پھر جیسے ایک شاخ ٹوٹی ہو۔ ہمیں پتہ چل گیا کہ ہاتھی آ رہے ہیں۔
پھر کئی سمتوں سے ہاتھی نمودار ہوئے اور ان میں سے ایک ہاتھی تو اتنا بڑا تھا کہ میں نے اس سے بڑا ہاتھی آج تک نہیں دیکھا۔ یہ ہاتھی ہمارے مقام سے ۱۲۰ گز تک پہنچ گئے مگر ہم دریا کے کنارے اونچی زمین پر جھاڑی کے پیچھے بیٹھے تھے، سو ہاتھی ہمیں نہ دیکھ پائے۔ اس بڑے ہاتھی کے دانت انتہائی بڑے تھے مگر ہمارے پاس چھوٹے بور کی رائفلیں تھیں، سو ہم صبر سے بیٹھے رہے۔
اُس جگہ ایک بہت بڑا اور بھاری درخت تھا جس کا تنا تین فٹ چوڑا تھا اور اس کی بالائی شاخوں پر بڑی کھجور جیسا پھل لگا ہوا تھا۔ یہ پھل خوشبودار اور رسیلے ہونے کی وجہ سے ہاتھیوں کو بہت پسند ہیں اور دور دور سے ہاتھی اس پھل کے پکنے کے وقت پہنچ جاتے ہیں۔ اِس وقت ہاتھی نے نیچے گرے کچھ پھل کھائے اور پھر سر اٹھا کر باقی پھلوں کا جائزہ لیا اور پھر درخت کو ہلانے کا فیصلہ کیا۔ چند فٹ پیچھے ہٹ کر اس نے پھر اپنے سر سے درخت کو ٹکر ماری۔ ٹکر اتنی زور کی تھی کہ سارا درخت نیچے سے اوپر تک لرز گیا اور بارش کی طرح پھل نیچے گرے اور ہاتھی نے فوراً انہیں کھانا شروع کر دیا۔ میرے ساتھ اُس روز کمانڈر بیکر تھا اور ہمارا یہی خیال تھا کہ اگر اس درخت پر کوئی انسان چڑھا ہوا ہوتا تو اس ٹکر کی شدت سے بچنے کے لیے اسے بہت زور سے درخت کو پکڑنا پڑتا۔
اگر ایک ہاتھی کا وزن چھ سے سات ٹن ہو اور جب وہ حرکت کر رہا ہو تو اس کا وزن کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے جو بڑے درخت کے مجموعی وزن سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ٹکر اتنی زوردار لگتی ہے۔
ہاتھی کی یاداشت بہت اچھی ہوتی ہے اور مختلف مقامات پر مختلف موسموں میں پائے جانے والے پھلوں کو یاد رکھتے ہیں۔ سائیلون کے جنوبی اضلاع میں بہت بڑی تعداد میں ایک خاص درخت پایا جاتا ہے جس کا پھل کرکٹ کی بڑی گیند کے برابر ہوتا ہے۔ اس کا خول سخت ہوتا ہے اور جب یہ پک جائے تو بھورا ہو جاتا ہے اور کسی سخت چیز سے ضرب لگا کر توڑا جا سکتا ہے۔ پھل کا بھورے رنگ کا گودا بہت خوشبودار اور بہت میٹھا ہوتا ہے۔ اندر موجود بیج ناشپاتی کے بیجوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ جب تک یہ پھل پورا نہ پک جائے، ہاتھی اسے کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ بغیر کسی کیلنڈر کے ہاتھیوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ پھل اب پکنے والا ہے اور بہت بڑی تعداد میں ہاتھی اس جگہ پہنچ جاتے ہیں۔
ہاتھی کو بخوبی یاد رہتا ہے کہ کون سا شخص اس کے ساتھ محبت سے پیش آیا اور کس نے برا سلوک کیا، چاہے برا سلوک کرنے والا خود بھول جائے۔ ایک بار میں سات ماہ انگلستان میں گزار کر واپس آیا تو کمشنریٹ کی طرف سے دیا ہوا ہاتھی مجھے دیکھتے ہی فوراً پہچان گیا۔ میں کئی ماہ تک ہر روز اس ہاتھی کو اپنے ہاتھ سے گنے اور دیگر مزے کی چیزیں کھلاتا رہا تھا۔ ہاتھی نے اس بات کو یاد رکھا۔
اسی طرح ہاتھی بڑی حد تک ایسے افراد کو بھی یاد رکھتا ہے جو اسے ناپسند ہوں۔ مست کی حالت میں ایسے افراد اگر ہاتھی کی سونڈ کے قریب پہنچیں تو ان کے لیے بہت خطرہ ہوتا ہے۔ مہاوت یا دیگر افراد جو ہاتھیوں کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں، جب وہ ہاتھیوں کے ساتھ برا سلوک کریں تو ہاتھیوں کے بدلہ لینے کی داستانیں مشہور ہیں۔ تاہم بہت مرتبہ بالکل انجان افراد کے ساتھ بھی ہاتھی کافی برا سلوک کرتے ہیں۔ شاید جیسے بعض انسان نشے کی حالت میں اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتے ہیں، ویسے ہی مست حالت میں کچھ ہاتھی دوسروں کی نسبت زیادہ پرتشدد ہو جاتے ہوں گے۔
وسطی صوبجات میں کئی سال قبل بالاگھاٹ کے ضلع میں ایک ہاتھی اپنے رویے کی وجہ سے کافی مشہور ہوا تھا۔ زنجیروں کو توڑ کر یہ ہاتھی مہاوت کو ہلاک کرنے کے بعد سیدھا جنگلوں میں گھس گیا۔ عجیب بات ہے کہ سدھائے جانے کے باوجود ہاتھیوں کو جب بھی پناہ درکار ہو تو سیدھا جنگل کا رخ کرتے ہیں۔ اگر کھلے میدان میں ہاتھی ہیجان کا شکار ہو تو سیدھا قریب ترین جنگل کا رخ کرتا ہے تاکہ وہاں چھپ سکے۔ مندرجہ بالا ہاتھی بھی اسی طرح فرار ہوا مگر برسوں کی انسانی رفاقت کے باعث اس میں چالاکی کا عنصر پیدا ہو گیا۔ یہ ہاتھی آس پاس کے علاقے کے لیے خطرہ بن گیا۔ پورا ایک سو میل لمبا اور چالیس یا پچاس میل چوڑا علاقہ ہاتھی کے خوف میں ڈوب گیا۔
اس کے حملوں سے علاقے کا کوئی بھی دیہات نہ بچ سکا۔ طویل فاصلے طے کر کے اور غیرمتوقع طور پر کسی دیہات میں نمودار ہوتا تو دیہاتی خوفزدہ ہو کر اپنی جان بچانے کو بھاگ کھڑے ہوتے۔ ہاتھی ان کے غلے کے گوداموں اور گھروں کو تباہ کرتا اور اگر کوئی انسان ہتھے چڑھتا تو اسے بھی چیر ڈالتا۔
اس ہاتھی کو انسانی جانوں سے کھیلنے کا چسکا پڑ گیا تھا۔ نہ صرف وہ پیٹ بھرنے کے لیے دیہاتوں پر حملے کرتا بلکہ کھیتوں میں چوکیداروں کی کمین گاہوں کو بھی تباہ کرتا جہاں بیٹھ کر دیہاتی اپنی جنگلی جانوروں سے اپنی فصلیں رات کو بچانے بیٹھتے۔ یہ کمین گاہیں عموماً زمین سے سولہ فٹ کی بلندی پر چار مضبوط بلیوں پر تختہ لگا کر بنائے جاتے اور اس پر چھت ڈال دی جاتی تھی۔ چھت سے شبنم اور بارش سے بچاؤ ہو جاتا۔ ایسی اونچی جگہوں پر بیٹھ کر ساری رات دیہاتی شور مچاتے ہوئے اپنی فصلوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے۔
ایسی کمین گاہوں کو ہاتھی خوشی خوشی تباہ کرتا تھا اور کبھی دیہاتیوں کے شور کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ الٹا وہ ان دیہاتیوں کے شور کو سن کر اندھیرے میں ان کے سر پر جا پہنچتا۔ یہ بلیاں جتنی مضبوط سہی، ہاتھی کا مقابلہ نہ کر سکتی تھیں اور دیہاتی حملے کے ساتھ ہی اڑتے ہوئے نیچے جا گرتے۔ پھر ہاتھی انہیں یا تو موقع پر کچل دیتا یا پھر ان کا تعاقب کر کے سونڈ سے ان کے ہاتھ پیر نوچ کر الگ کر ڈالتا۔ اس طرح اس ہاتھی نے ضلع بھر میں کم از کم ۲۰ افراد ہلاک کیے اور اس ہاتھی کی ہلاکت ضروری ہو گئی۔
آخرکار یہ کام کرنل بلوم فیلڈ اور اس کے ایک دوست نے کیا جنہوں نے اس جان لیوا اور مہلک کام کو پورا کرنے کے لیے خطرہ مول لیا۔ یہ لوگ مقامی افراد کی اطلاع پر جاتے رہے۔ تاہم یہ ہاتھی بہت مکار تھا اور حملہ کرتے ہی بہت دور کسی جنگل میں چھپ جاتا اور اگلے حملے کے لیے وہاں سے باہر نکلتا۔ کرنل بلوم فیلڈ نے مجھے اس بارے بتایا کہ اس نے کتنے دنوں تک تھکن کا مقابلہ کرتے ہوئے صبر سے ہاتھی کا پیچھا جاری رکھا۔ دونوں شکاری مقامی کھوجیوں کی مدد سے آخرکار ہاتھی تک پہنچ گئے جو گھنی گھاس اور خاردار جھاڑیوں کے قطعے میں سو رہا تھا۔ تاہم ہاتھی نے انہیں آتا بھانپ لیا اور بیدار ہو کر فرار ہو گیا۔ تاہم انہوں نے پیچھا جاری رکھا اور جہاں کہیں موقع ملتا، ہاتھی کے جسم میں گولی اتار دیتے۔ آخرکار ایک صاف قطعے میں پہنچ کر تکلیف اور غصے کے مارے ہاتھی نے ان کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں شکاری بہترین رائفلوں سے مسلح تھے اور ہاتھی اب تک نہتے دیہاتیوں کی جان سے کھیلتا رہا تھا۔ جونہی ہاتھی حملہ کرنے کے لیے مڑا تو دونوں ماہر شکاریوں نے اس کے بھیجے میں گولیاں اتار دیں۔ کرنل بلوم فیلڈ کی گولی ہاتھی کے سر کے پار ہو گئی تھی۔
یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ اگر یہ ہاتھی پکڑ کر دوبارہ سدھایا جاتا تو کیا وہ پھر سے پہلے جیسا ہو جاتا۔ تاہم مست ہاتھیوں کے کئی قصے مشہور ہیں جہاں انہوں نے مہاوت اور کئی دیگر افراد کو ہلاک کر دیا تھا مگر بعد میں جب پکڑے گئے تو پھر پہلے کی طرح شریف النفس بن گئے۔ جی پی سینڈرسن آسام کے سرکاری کھیڈا محکمےکا سربراہ تھا، اس نے مجھے ایک ایسے ہی ہاتھی کا واقعہ سنایا ہے جو مست حالت میں اپنے مہاوت اور چند دوسرے دیہاتیوں کو ہلاک کر کے فرار ہو گیا تھا اور پورے علاقے میں دہشت پھیلا دی تھی۔ اس نے کئی دیہات تباہ کر دیے اور حکام نے اس کی ہلاکت پر انعام مشتہر کرا دیا۔
سینڈرسن کا خیال تھا کہ یہ ہاتھی بہت قیمتی ہے اور اس طرح اس کی ہلاکت مناسب نہیں۔ سو اس نے اس ہاتھی کو زندہ پکڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہمراہ کھیڈا کے تین بہترین تربیت یافتہ ہاتھی لیے۔ ضلعے بھر کی پولیس کو ہدایات کر دی گئیں کہ ہاتھی کی اطلاع ملتے ہی اسے پہنچائی جائے۔ جلد ہی اطلاع مل گئی کہ ہاتھی کہاں موجود ہے۔ ہاتھی ایک دیہات کو تباہ کر کے وہیں کچھ روز سے مقیم تھا اور چاول اور غلے سے پیٹ بھر رہا تھا۔
دو مادہ اور ایک نر ہاتھی کے ساتھ سینڈرسن نے فوراً اس مقام کا رخ کیا۔ نر ہاتھی کا نام موتا گوچی تھا اور بہت بہادر اور نڈر تھا۔ اس ہاتھی کو کھیڈا میں پکڑے جانے والے دوسرے مشکل ہاتھیوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تمام تر ضروری رسیاں اور زنجیریں ساتھ تھیں اور یہ چھوٹا سا مگر تجربہ کار گروہ روانہ ہو گیا۔ سینڈرسن کے پاس ایک لمبا نیزہ تھا اور موتا گوچی کی پشت پر ہودے پر سوار تھا۔ ایک گھنٹے بعد یہ لوگ مطلوبہ دیہات جا پہنچے جہاں تباہی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ یہ دیہات کھلے میدان میں تھا اور پون میل دور جنگل شروع ہوتا تھا جہاں یہ ہاتھی بے چین اِدھر اُدھر چلتا دکھائی دیا۔
ماداؤں کو پیچھے چھوڑ کر سینڈرسن اور موتا گوچی آگے بڑھے۔ جب یہ لوگ مفرور ہاتھی سے دو سو گز دور رہ گئے تو اس نے پہلی بار انہیں دیکھا۔ پہلے پہل تو ہاتھی انہیں اتنے قریب دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس دوران موتا گوچی نوے یا سو گز دور پہنچ گیا۔ پھر دونوں ہاتھیوں نے رک کر ایک دوسرے کا جائزہ لیا۔ جونہی مفرور ہاتھی چند قدم پیچھے ہٹا، موتا گوچی حملے کے لیے تیار ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے دونوں ہاتھی ٹکرائے۔ ٹکراؤ اتنا شدید تھا کہ سینڈرسن کے ہاتھ سے نیزہ گر گیا۔ موتا گوچی بہت تجربہ کار ہاتھی تھا، سو اس نے پہلے اپنا سر جھکا لیا تھا جس سے اگرچہ مہاوت غیرمحفوظ ہو گیا تھا مگر اس طرح اس نے مخالف ہاتھی کو سونڈ کے نیچے گلے سے تھام لیا اور زور لگا کر اسے الٹا پھینک دیا۔ جونہی دوسرا ہاتھی نیچے گرا، موتا گوچی اس کے سر پر سوار ہو گیا۔
اسی دوران سینڈرسن نے اتر کر ہاتھی کے ایک پیر میں زنجیر ڈال دی اور اسی دوران اشارہ پا کر دونوں ہتھنیاں بھی پہنچ گئیں۔ چند لمحوں میں اس ہاتھی کو بیڑیاں ڈال دی گئیں اور وہ مکمل طور پر بے بس ہو گیا۔ پھر اس ہاتھی کو چلا کر چند میل دور اُس کیمپ لے جایا گیا جہاں سے وہ فرار ہوا تھا۔ دونوں ہتھنیاں اس کے پہلوؤں پر چل رہی تھیں اور جب بھی ہاتھی ذرا اڑیل پن دکھاتا تو پیچھے سے موتا گوچی ہاتھی دانت چبھو کر اسے آگے بڑھا دیتا۔
پھر مست حالت ختم ہوئی تو یہ ہاتھی پھر سے فرمانبردار بن گیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مست حالت میں ہاتھی کیسے پاگل ہو جاتا ہے اور توجہ سے کیسے اسے پکڑ کر پھر سدھایا جا سکتا ہے۔
اس واقعے کے بعد موتا گوچی اور کھیڈا کے چالیس دوسرے ہاتھی سینڈرسن نے میرے حوالے کر دیے تاکہ میں ۲۵ روزہ شکاری دورے پر جا سکوں۔ ہماری منزل چُر یعنی دھبری کے جنوب میں دریائے برہم پترا میں بنے جزیرے تھے۔
ہندوستان میں شیر اور ہاتھی اس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں کہ انہیں الگ کرنا ممکن نہیں۔ موتا گوچی اگرچہ بہت زیادہ دوستانہ ہاتھی نہ تھا مگر پھر بھی اسے اپنی جانب رکھنا اہم تھا۔ اس دوران سینڈرسن بیمار تھا اور میرا ساتھ دینے سے قاصر۔ اب اتنے سارے ہاتھیوں کی طویل قطار میں محض ایک ہی شکاری تھا۔ عام طور پر اتنی طویل قطار میں چار شکاری ہوتے ہیں۔ پہلے تو مجھے لگا کہ یہ دورہ بیکار جائے گا کہ نہ تو مجھے زبان آتی تھی اور نہ ہی ہاتھیوں یا مہاوتوں میں سے کسی سے واقفیت تھی۔ تاہم جلد ہی واضح ہو گیا کہ سینڈرسن کی سربراہی میں یہ لوگ انتھک محنت کے عادی ہیں اور افسران کے احکام اور ان کے طور طریقے سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ جلد ہی ہم سب اچھے دوست بن گئے۔
میں نے ہاتھیوں کو قطار میں ان کی رفتار اور خوبیوں کے اعتبار سے رکھا۔ ہر روز ہر ہاتھی اپنے مخصوص مقام پر رہتا تھا اس طرح تمام ہاتھی اپنے دائیں بائیں والے ہاتھیوں کو پہچاننے لگے۔ درمیان میں سست رفتار ہاتھی تھے اور دونوں سروں پر سبک رفتار ہاتھی۔ دو انتہائی تیز ہاتھیوں اور ان کے ذہین مہاوتوں کو سکاؤٹ کے طور پر میں دونوں جانب چوتھائی میل آگے رکھتا تھا۔
میرے اپنے ہاتھی کے ایک جانب موتا گوچی تھا تو دوسری جانب ایک اور قابلِ اعتبار ہاتھی تھا۔ یہ دونوں ہمیشہ میرے ساتھ رہے اور اگر جنگلی گلاب کی جھاڑیوں سے شیر نہ نکلتا تو یہ تین ہاتھی اسے دھکے دے کر باہر نکال دیتے۔
یہ نظام بہت اچھا تھا اور چند روز کی مشق کے بعد ایسے لگتا تھا جیسے پیدل فوجیوں کی قطار چل رہی ہو۔ بسا اوقات میں اضافی ہاتھی بھی شامل کر لیتا کہ میرے پاس کل پچاس سے زیادہ ہاتھی تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک بار جب کوئی تیندوا یا شیر اپنی جگہ چھوڑتا تو ہم ہر قیمت پر اسے شکار کر لیتے۔ بعض اوقات کئی کئی گھنٹے لگ جاتے، مگر کوئی جانور بچ کر نہ جا سکا۔ ایک بار ہم ایک بڑے جزیرے برغ پر تھے جو کئی ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا اور زیادہ تر مقامات پر گھاس اور جھول کے گھنے جھنڈ تھے۔ گرمی کے موسم میں شیر یہاں شوق سے پناہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دلدلی علاقوں پر بھی وسیع جنگل تھا جہاں بارہ سے چودہ فٹ اونچی گھاس اگی ہوئی تھی اور ہاتھی کے لیے بھی وہاں گھسنا مشکل تھا۔
حسبِ معمول میں طلوع آفتاب سے ذرا دیر بعد شکار پر نکل آیا تھا کہ ہمارے شکاریوں نے آن کر بتایا کہ گزشتہ رات ہمارا باندھا گیا کوئی بھی بیل نہیں مارا گیا ۔ سو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہاتھیوں کو قطار کی شکل میں چلا کر اونچی گھاس میں شکار کے قابل جانور تلاش کیے جائیں۔ اسی طرح پھر ہم جھول کے جھنڈوں کو بھی دیکھتے۔
ہم سیدھی قطار میں آگے بڑھے اور ہماری قطار میں ۳۵ ہاتھی تھے۔ اس طرح ہم ایک میل آگے بڑھے کہ دیمک کی بمیٹھی پر کھڑے ایک مقامی بندے نے ہمیں اپنی طرف بلایا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس نے بتایا کہ گزشتہ روز شام کو شیر اس کی گائے کو ہلاک کر کے انتہائی گھنے جنگل میں لے گیا۔ پیچھا کرنے کی ہمت اس بندے کو نہ ہوئی۔ یہ اچھی خبر تھی سو ہم نے اس بندے کو ایک ہاتھی پر سوار کیا اور رہنما بنا کر روانہ ہو گئے۔
ہاتھی اسی طرح ایک قطار میں آگے بڑھتے رہے اور کبھی سور نکلتے یا پاڑے نکلتے جو کہ یہاں بکثرت پائے جاتے تھے۔ اگر ان پر گولی چلانے کا ارادہ بھی ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ گھاس اتنی گھنی تھی۔ جانور دکھائی نہ دیتے تھے بلکہ گھاس ہلنے سے ان کا پتہ چلتا تھا۔
بیس منٹ میں ہم گھاس کو عبور کر کے اونچی مزروعہ زمین پر پہنچ گئے جہاں زمین نسبتاً سیدھی ہو گئی تھی۔ اس کھلے میدان کے ساتھ وسیع جنگل تھا جس میں ایک فٹ گولائی کے درخت اگے ہوئے تھے۔ یہ درخت ایک انچ موٹی اور اٹھارہ فٹ اونچی گھاس کے ساتھ اس طرح گتھے ہوئے تھے کہ ناقابلِ عبور دکھائی دیتے تھے۔ یہاں کی زمین بہت زرخیز تھی۔ اگرچہ یہ گھاس وغیرہ نسبتاً خشک دکھائی دے رہی تھی مگر آگ نہیں پکڑتی تھی۔ کئی جگہ ادھ جلی گھاس دکھائی دے رہی تھی۔
ہمارے رہنما نے وہ مقام دکھایا جہاں شیر اس کی گائے کو لے کر گیا تھا۔ نرم مٹی پر شیر کے پنجوں سے اس کی جنس اور جسامت واضح ہو گئی۔
اس بات پر سب متفق تھے کہ شیر یہیں موجود ہے۔ تاہم اسے باہر کیسے نکالا جائے۔ یہ جنگل لگ بھگ ایک میل تک اسی طرح گھنا تھا اور اس کی چوڑائی نصف میل تھی۔ اس کی ایک جانب مسطح مزروعی زمین تھی اور دوسری جانب اونچی گھاس اگی ہوئی تھی جو کئی جگہوں پر جلی ہوئی تھی۔
اگر شیر کی روانگی پر مناسب طور پر نگرانی کی جاتی تو ڈیڑھ سو گز پر دکھائی دے سکتا تھا۔
زمین اتنی مسطح تھی کہ اگر شیر نکلتا تو کہنا دشوار تھا کہ کس سمت جاتا۔ یہ بھی کہنا مشکل تھا کہ شیر اس محفوظ پناہ گاہ سے نکلے گا یا نہیں۔
جب آپ نے ہانکا کرانا ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مطلوبہ جانور کہاں سے اور کس راستے سے آیا تھا کہ واپسی بھی اسی راستے سے اسی جگہ کو ہو گی۔ اتنی اونچی گھاس اور بے شمار جزیروں کی وجہ سے کہنا مشکل تھا کہ شیر کس سمت سے آیا ہو گا۔ تاہم ایک سمت محفوظ تھی کہ شیر کبھی بھی مزروعہ زمین کو نہیں فرار ہو گا۔ دوسری سمت ہمیں کڑی نگاہ رکھنی ہوتی تاکہ شیر وہاں سے نہ نکل جائے۔
سو میں نے فیصلہ کیا کہ میں جنگل کے کنارے اس جگہ جا کر رکوں جہاں سے ہم ابھی آئے تھے۔ اُس جگہ جلی ہوئی گھاس اور جنگل ملتے تھے اور پاس ہی سے شیر گائے کی لاش کو گھسیٹ کر لے گیا تھا۔ سو میں نے ہاتھیوں کو مخالف سمت بھیجا تاکہ وہ دو سو گز دوری سے میری جانب آئیں۔ میرا خیال تھا کہ شیر لاش سے زیادہ دور نہ ہو گا۔ اس کے علاوہ میں نے اونچی گھاس والی جانب دو سکاؤٹ ہاتھی بھیج دیے جو مجھے موجودہ مقام سے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ سو کونے پر کھڑا ہونے کی وجہ سے دو سمتیں مجھے صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
میں نے زور سے سیٹی بجائی تو ہانکا شروع ہو گیا۔ دور سے ہاتھیوں نے جب جھاڑ جھنکار کو کچل کر راستہ بنانا شروع کیا تو ایسا لگا جیسے بہت زور سے ہوا چل رہی ہو۔ کبھی کبھی کسی شاخ کے ٹوٹنے کی بھی آواز آ جاتی جو ہاتھیوں کے راستے میں ہوتی۔
میں ایک ہتھنی پر سوار تھا جس کا نام نیلموں تھا۔ اس کے بارے کہا گیا کہ بہادر ہتھنی ہے مگر جوں جوں ہاتھیوں کا شور قریب آتا گیا، اس کا ہیجان بڑھتا گیا۔ کوئی چھوٹا ہرن بھی نکلتا تو ہتھنی ٹھٹھک جاتی۔
بہت کم ہاتھی ہی ہانکے کی قطار کے سامنے کھڑے بے چینی ظاہر نہیں کرتے، چاہے ہانکا انسان کر رہے ہوں یا ہاتھی۔ چونکہ اس مرتبہ بہت زیادہ شور ہو رہا تھا اور اچانک ایک ہاتھی چنگھاڑا اور پھر شیر کی مدھم غراہٹ سنائی دی اور پھر ہاتھیوں نے ٹرائی آنک کی آوازیں نکالنا شروع کر دیں۔ نیلموں کو علم ہو گیا کہ اس کا خوفناک دشمن قطار کے آگے اسی کی سمت بڑھتا آ رہا ہے۔
چونکہ میں کونے پر کھڑا تھا، سو اپنے دائیں اور بائیں جانب ہاتھی نمودار ہوتے دکھائی دیے۔ قطار بہت خوبصورتی اور اتنے قریب سے آگے بڑھی تھی اور کوئی بھی شیر ان سے بچ کر واپس نہ جا سکتا تھا۔
میرا ملازم مائیکل میرے پیچھے ہودے پر بیٹھا تھا۔ وہ خاموش طبع اور کام سے کام رکھنے والا تھا۔ خود سے شاید ہی اس نے کبھی کوئی بات کی ہو۔ اس بار وہ بولا: ‘ہانکا خالی ہے صاحب‘۔
میں نے جواب دیا: ‘مائیکل، تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ جب تک ہانکا پوری طرح تمام نہ ہو جائے، اس طرح کی بات نہ کیا کرو‘۔ زیادہ تر ہاتھی باہر نکل آئے تھے اور شاید پانچ یا چھ ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے تاہم ان کی قطار بالکل سیدھی چلی آ رہی تھی۔ دس یا بارہ گز کا فاصلہ طے کر کے وہ بھی باہر نکل آتے۔ قطار چلتی رہی، دو تین مہاوتوں نے کہا بھی کہ شاید شیر پیچھے رہ گیا ہو گا، واپس چلیں۔ چھ سات گز بچ گئے اور ہاتھی بڑھتے چلے آئے کہ اچانک شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ چند انتہائی بڑے شیروں میں سے ایک سیدھا نیلموں کی جانب بڑھا اور یہ کہتے افسوس ہوتا ہے کہ نیلموں فوراً مڑی اور گولی چلانے کا بہترین موقع ضائع ہو گیا۔ تمام ہاتھی مختلف سمتوں میں بھاگے۔ شیر فوراً واپس اسی جگہ گم ہو گیا۔
انتہائی کامیاب ہانکا، انتہائی فضول نتیجہ، میری ہتھنی عین وقت پر دغا دے گئی۔ ایسے جنگل میں اب یہ شیر یا تو ہانکے کے ہاتھیوں پر حملہ کرتا یا پھر چھپتا چھپاتا فرار ہو جاتا۔
میں نے گھڑی دیکھی تو ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ مہاوتوں نے تجویز پیش کی کہ ابھی شیر کو سونے دیا جائے اور دوپہر میں ہانکا کیا جائے۔ اتنے ہاتھی دیکھنے کے بعد میرا نہیں خیال کہ شیر آرام سے سو جاتا۔ ظاہر ہے کہ مہاوت اس خوفناک جنگل میں ہانکے سے خوفزدہ تھے۔ اس بار انہوں نے مجھے قطار کے وسط میں چلنے کی درخواست کی تاکہ شیر اگر حملہ کرے تو ان کا دفاع ہو سکے۔
مجھے بخوبی علم تھا کہ قطار کے اندر رہتے ہوئے شکار کا موقع نہ ملتا کیونکہ گھاس اور جھاڑ جھنکار بہت گھنا تھا اور ایک فٹ دور کی چیز بھی دکھائی نہ دے سکتی تھی۔ تاہم میں نے چند ہاتھی قطار کی شکل میں پون میل دور ایک پگڈنڈی پر بھجوا دیے اور باقی ہاتھیوں کو شانے سے شانہ ملا کر چلنے کا حکم دیا۔ اس طرح ہم گھاس پھونس کو کچلتے ہوئے جاتے اور شیر کہیں بھی دبک کر بچ نہ پاتا۔
کئی بار ہاتھیوں نے خطرے کی آواز نکالی اور ہمیں علم تھا کہ شیر بہت قریب ہے، مگر ہم اسے دیکھ نہ سکے۔
تین بار ہم نے اس طرح قطار چلائی اور تیسری مرتبہ میں نے اپنا ہاتھی بڑھا کر پگڈنڈی پر دیگر سکاؤٹ ہاتھیوں کے ساتھ روک دیا۔ قطار یہاں پہنچ کر رک جاتی۔
اچانک مجھے ہاتھیوں کی قطار سے شور سنائی دیا اور دو تین ہاتھیوں نے آواز نکالی۔ ایک لحظے کو مجھے مدھم سا سایہ دکھائی دیا جو جلی ہوئی گھاس والے کنارے کے قریب تھا۔ تاہم میری ہتھنی اتنی بے چین تھی کہ نشانہ لینا ممکن نہ تھا۔ اس کے علاوہ سایہ اتنا مدھم تھا کہ اگر میں پوری طرح متوجہ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی نہ دکھائی دیتا۔ فوراً ہی ایک مہاوت چلایا کہ اس نے شیر کو راستہ عبور کر کے دوسری جانب جاتے دیکھا ہے۔ ہانکا ناکام رہا۔ ابھی تک ہم نے شیر کو چوتھائی میل لمبے اور نصف میل چوڑے قطعے تک محدود رکھا تھا اور اب شیر نئی جگہ پر پہنچ گیا جو پون میل لمبی اور نصف میل چوڑی تھی۔
ہانکا جاری رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ سو ہم نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے کی طرح اس جنگل کا ہانکا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک شیر نہ دکھائی دیا۔ ساڑھے بارہ بجے گرمی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور آسمان پر بادل کا ٹکڑا بھی نہ تھا۔ ہاتھی ایک بار پھر اس جنگل سے نکلے اور اپنے معدوں سے پانی نکال کر اپنے اوپر چھڑکنے لگے۔ مہاوت بھی تھکے ہوئے اور مایوس تھے۔ انہوں نے کہا: ‘ہانکا بیکار ہے۔ شیر سیدھا نکل گیا ہو گا۔ یا جب آپ نے گولی چلائی تھی شاید وہ زخمی ہو گیا ہو یا بغیر زخمی ہوئے نکل گیا ہو گا؟ شاید ڈر کر فرار ہو گیا ہو؟ اب وہ پھر کبھی نہیں دکھائی دے گا۔ شدید گرمی کی وجہ سے ہاتھی بھی تھک گئے ہیں۔ سو اب ہاتھیوں کو دریا پر لے چلتے ہیں تاکہ وہ نہا لیں‘۔ میں نے مشورہ کے لیے سب کو جمع کیا۔ سارے ہاتھی میرے گرد جمع ہو گئے۔ جب ہمراہی تھکے اور مایوس ہوں تو ان کے سامنے کوئی نئی تجویز پیش کرنی چاہیے۔ سو میں نے انہیں کہا: ‘ہم صبح سے مصروف ہیں اور ہاتھی بھی گرمی کی شدت سے نڈھال ہیں۔ شیر بھی اسی طرح تھکا ہوا ہو گا کیونکہ وہ پہلی بار ساڑھے آٹھ بجے نکلا تھا۔ یاد ہے کہ کل میں نے دریا کے کنارے ایک ہرن مارا تھا؟ اگر شیر بھی گرمی سے نڈھال ہے تو وہ بھی اسی تالاب کی طرف گیا ہو گا۔ تم لوگ ایسے کرو کہ قطار بنا کر پندرہ منٹ بعد پانی کی طرف چل پڑو۔ میں پہلے وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ اگر شیر راستے میں ہوا تو سیدھا پانی کو آئے گا۔ اگر وہ پہلے سے پانی میں ہوا تو میں اسے دیکھ لوں گا۔ اگر شیر نہ بھی ملا تو بھی ہم پانی تک پہنچ جائیں گے اور ہمارا کیمپ اس کی سیدھ میں موجود ہے ہی۔ اس بات پر سبھی متفق ہو گئے اور خوشی خوشی قطار بنانے لگے۔ میں نے نیلموں کو پانی کی جانب دوڑایا۔
پون میل بعد جنگل میں جھول کے درخت دکھائی دینے لگے اور مجھے یقین ہو گیا کہ کل جہاں میں نے ہرن مارا تھا، وہ جگہ یہاں سے قریب ہو گی۔ سو میں نے مہاوت سے کہا کہ وہ بائیں مڑ کر آگے بڑھے جہاں پانی ہو گا۔ اس جگہ پچاس یا ساٹھ گز کی ہلکی سی ڈھلوان تھی اور اسی میں نامعلوم گہرائی تک شفاف پانی بھرا ہوا تھا۔
ابھی میں اسی جگہ پہنچا ہی تھا کہ میں نے بولنے کی بجائے مہاوت کو اشارہ کیا کہ رک جائے۔
اس جگہ مجھے ایسا منظر دکھائی دیا کہ میرا دل خوش ہو گیا اور سارے دن کی محنت کا پھل مل گیا۔ ۱۲۰ گز دور میرے بائیں جانب ایک شیر کی گردن اور سر پانی کے اوپر دکھائی دیے۔ باقی سارا جسم ٹھنڈے پانی میں نظروں سے اوجھل تھا۔ ہم اتنی دیر سے جنگل میں گرمی میں تھکے ماندے ہانکا کر رہے تھے اور یہاں شیر پانی میں نہا رہا تھا۔ مہاوت فضل اگرچہ عقلمند انسان تھا مگر اس نے کہا کہ گولی چلائیں۔
میں نے سرگوشی میں جواب دیا کہ فاصلہ بہت ہے۔
مہاوت بولا کہ گولی چلا دیں، آپ کی رائفل بہترین ہے اور اگر شیر نے ہمیں دیکھ لیا گا تو فرار ہو جائے گا۔
میں نے سرگوشی میں اسے چپ رہنے کو کہا اور بتایا کہ سورج عین ہمارے پیچھے چمک رہا ہے اور شیر ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔ شیر کی آنکھیں چمکدار سبز رنگ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ اسی دوران شیر نہا کر فارغ ہوا اور کتے کی طرح پچھلی ٹانگوں پر بیٹھ گیا۔ میں نے کبھی اتنا خوبصورت شیر پھر نہیں دیکھا۔ اس کا خوبصورت سر اور قممقوں کی مانند سبز آنکھیں سامنے تھیں۔ تاہم اس کی کھال سے کیچڑ ٹپک رہا تھا کیونکہ وہ شیر تہہ میں بیٹھا تھا۔
اب مہاوت بولا کہ اب وقت آ گیا ہے، نشانہ خطا نہیں ہو سکتا۔ گولی چلائیے، ورنہ شیر نکل جائے گا۔ میں نے اسے چپ کرایا اور ایک منٹ بعد شیر پھر پانی میں لیٹ گیا۔
میں نے مہاوت سے کہا کہ خاموشی سے ہاتھی کو واپس الٹے قدموں لے جائے اور مڑے نہیں۔ نیلموں نے ذرا سی بھی آہٹ پیدا کیے بنا فاصلہ طے کیا اور ہم پھر جنگل میں پہنچ گئے۔ اب ہمیں تسلی ہوئی۔
میں نے مہاوت سے کہا کہ وہ سیدھا چلے اور جب میں اس کے سر کو چھوؤں تو دائیں مڑے اور جھول کے جھنڈ سے نیچے جائے اور جب دوبارہ اس کی پگڑی کو چھوؤں تو رک جائے۔
ہتھنی کے قدم گنتے ہوئے میں نے فاصلے کا تیّقن کیا۔ پھر میں نے مہاوت کی پگڑی کو چھوؤا اور نیلموں دائیں جانب مڑ گئی۔ گہرے سبز رنگ کے جھول کے درختوں سے ہوتے ہوئے جب ہم رکے تو شیر ہمارے عین سامنے مگر پچہتر گز دور تھا۔
میں نے مہاوت سے کہا کہ وہ ہتھنی کو بالکل ایک ہی جگہ رکھے اور پھر نشست پر بیٹھ کر میں نے نشانہ لیا تو جھول کی ایک شاخ عین میرے سامنے جھول رہی تھی۔ پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے میں نے مہاوت سے کہا کہ اسے موڑ دے جو اس نے موڑ دی۔
اب منظر واضح تھا۔ شیروں کی آنکھیں سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ ہتھنی بالکل ساکن ہو گئی اور میں نے لبلبی دبا دی۔
اعشاریہ ۵۷۷ بور کی رائفل میں جب ۶ ڈرام بارود جلا تو پانی کی سطح پر کہیں گولی لگتی دکھائی نہ دی اور شیر کا سر اب عجیب سے زاویے پر تھا، اس کا ایک گال پانی کے اوپر اور ایک نیچے تھا۔ اس کی ایک آنکھ پانی کی سطح کے اوپر ابھی تک سبز رنگ کے یاقوت کی مانند چمک رہی تھی۔
میں نے مہاوت کو کہا کہ وہ ہتھنی بھگائے اور جلد ہی ہم شیر کی لاش کے قریب پہنچ گئے۔ شیر پوری طرح مر چکا تھا۔ میں نے زور سے سیٹی بجائی اور گھڑی پر دیکھا تو ایک بج رہا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے سے ہم اس شیر کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور اب اس کا انجام بخیر ہوا۔
جلد ہی باقی ہاتھی بھی پہنچ گئے کہ انہوں نے گولی کی آواز اور میری سیٹی بھی سن لی تھی۔
موتا گوچی سب سے پہلے پہنچا اور شیر کی آنکھ کو دیکھتے ہی اس نے سوچا کہ شیر ابھی زندہ ہے۔ سو اس نے فوراً اس کے سر پر پہنچ کر اسے اپنے دانتوں سے کئی فٹ اوپر اچھالا اور پھر لات ماری تو شیر پھر ہوا میں اچھلا۔ اگر مہاوت آنکس بروئے کار نہ لاتا تو موتا گوچی اس شیر کو کچل کر اس کی کھال کو خراب کر دیتا۔
جلد ہی شیر کی گردن سے رسی باندھ کر موتا گوچی کے ذریعے اسے پانی سے باہر نکال کر اچھی طرح دھویا گیا اور پھر گولی کا نشان تلاش کیا گیا۔
شیر پر کوئی بھی گولی کا نشان نہ تھا کہ گولی اس کے نتھنے سے گھسی تھی اورگردن توڑتی ہوئی جسم میں گھس گئی۔ پہلی گولی شاید کسی ٹہنی سے لگ کر بھٹک گئی تھی۔ جب اس شیر کو لٹایا گیا تو بغیر کھینچے اس کی لمبائی ۹ فٹ اور ۸ انچ تھی۔