مشہور شکاری کاربٹ کا ایک اور شاہکار
مندر کا شیر اور کماؤں کے مزید آدم خور
از قلم
جم کاربٹ
ترجمہ: مقبول جہانگیر
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
مندر کا شیر
جو شخص کبھی دیبی دھورا نہیں گیا وہ اس کے گرد و پیش کے مناظر کے حُسن کا کبھی اندازہ نہیں کر سکتا۔ یہاں ‘پرماتما کے پہاڑ’ کی چوٹی کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں کھڑے ہو کر آپ جِدھر نظر اٹھائیں گے آپ کو ازلی و ابدی حُسن کے طلسمی نظارے دکھائی دیں گے۔ ریسٹ ہاؤس سے دریائے پانار کی ڈھلان شروع ہو جاتی ہے۔ اس وادی سے پرے پہاڑیوں کا سلسلہ ابدی برف میں کھو جاتا ہے۔
نینی تال سے ایک غیر ہموار اور پیچیدہ سڑک لوہر گھاٹ کی طرف جاتی ہے جو دیبی دھورا کے اندر سے ہو کر گزرتی ہے۔ اسی سڑک کی ایک شاخ دیبی دھورا کو الموڑہ سے ملاتی ہے۔ اسی مؤخر الذکر سڑک پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کھیل رہا تھا کہ مجھے محکمۂ تعمیرات کے اوورسیز نے بتایا کہ اس چیتے نے دیبی دھورا میں ایک شخص ہلاک کر دیا ہے۔ لہذا میں دیبی دھورا کی سمت چل پڑا۔
اپریل کی ایک گرم دوپہر کو ابھی میں دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچا ہی تھا اور چائے سے خود کو تازہ دم کر رہا تھا کہ دیبی دھورا کے مندر کا پجاری میرے پاس آیا۔ دو برس پہلے جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے آیا تھا تو اس بوڑھے نحیف و نزار آدمی سے میری دوستی ہو گئی تھی۔ وہ مقامی مندر کا پجاری تھا۔ تھوڑی دیر پہلے مندر کے قریب سے گزرتے وقت میں نے اسے سلام کیا تھا۔ مگر اس نے فقط سر ہلا کر جواب دینے میں اکتفا کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ عبادت میں مصروف تھا۔ اب عبادت ختم کر کے وہ میرے پاس آ گیا تھا اور برآمدے کے فرش پر بیٹھا میرے ساتھ گپ بازی میں مصروف تھا۔ میں بھی سفر کی تھکاوٹ کا مارا ہوا تھا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے سوا کچھ نہ کرنا چاہتا تھا۔
پجاری سے مجھے پتا چلا کہ اوورسیز نے مجھے غلط بتایا تھا کہ دیبی دھورا میں چیتے نے ایک آدمی کو ہلاک کر دیا تھا۔ وہ آدمی اس پجاری کا مہمان تھا اور اس نے رات اس کے پاس مندر میں ہی بسر کی تھی۔ وہ شخص پجاری کی نصیحت کے خلاف رات کو باہر مندر کے چبوترے پر سو گیا تھا۔ نصف شب کے قریب جب مندر کے گرد و پیش کی چٹانیں مندر پہ سایہ فگن تھیں تو آدم خور چیتا رینگتا ہوا اس جگہ آیا اور اس چبوترے پر سوئے ہوئے شخص کا ٹخنا پکڑ کر اسے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ وہ شخص ہڑبڑا کر اٹھا اور قریبی الاؤ سے سلگتی ہوئی ایک لکڑی پکڑ کر چیتے کو مار بھگایا۔ اس کے شور سے مندر کے اندر سوئے ہوئے بعض دوسرے پجاری بھی جاگ اٹھے۔ وہ ایک دم اس کی مدد کو پہنچ گئے۔ اپنے لیئے صورتحال خطرناک دیکھ کر چیتا راہِ فرار اختیار کر گیا۔ اس شخص کے زخم زیادہ تشویش ناک نہ تھے۔ گاؤں کے وید نے ان پر بعض جڑی بوٹیوں کا مرہم لگا دیا جس کے بعد وہ آگے اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔
پجاری کی یہ باتیں سن کر میں نے دیبی دھورا ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔ گرد و پیش کے دیہات کے لوگ ہر روز مندر میں اور وید کی دوکان پر آیا جایا کرتے تھے۔ یہ لوگ میری آمد کی خبر چاروں طرف پھیلا سکتے تھے اور جب آدم خور چیتا کسی انسان یا جانور کو ہلاک کرتا تو لوگوں کو مجھے تلاش کرنے میں آسانی رہتی۔
جب بڈھا پجاری شام کے قریب مجھ سے رخصت ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ گرد و پیش کے علاقے میں کون سی جگہ شکار کے لیئے موزوں رہے گی۔ کیونکہ میرے آدمیوں نے کئی دن سے گوشت نہ چکھا تھا اور دیبی دھورا میں کسی قیمت پر گوشت ملنا محال تھا۔
’جی ہاں‘ اس نے جواب دیا۔ ‘یہاں مندر کا شیر جو ہے۔‘
میری اس یقین دہانی پر کہ اس کے شیر کو ہلاک کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں، اس نے ایک قہقہہ لگا کر کہا ‘جناب آپ اسے بے شک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔‘
اور اس طرح مجھے دیبی دھورا کے مندر کے شیر کا پتہ چلا جس نے مجھے شکار کا ایک دلچسپ ترین تجربہ بخشا اور جسے میں اب آپ کے سامنے بیان کروں گا۔
اگلی صبح میں لوہر گھاٹ کی طرف اس غرض سے نکل گیا کہ آدم خور چیتے کے پنجوں کے نشان تلاش کر سکوں یاس کے متعلق گرد و پیش کے دیہات کے لوگوں سے کچھ اطلاعات لے سکوں کیونکہ چیتا رات کو اس مسافر پر حملہ کر کے اس سمت گیا تھا۔ جب میں دوپہر کو کھانے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس میں آیا تو میں نے ایک شخص کو اپنے ایک ملازم سے باتیں کرتے دیکھا۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ اس کا نام بالا سنگھ ہے۔ رات کو اسے پجاری سے پتا چلا تھا کہ میں شکار کھیلنا چاہتا ہوں اور وہ مجھے چند بارہ سینگوں کا اتا پتا دینے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کھانے کے بعد میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔ کھانے کے بعد حسب وعدہ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ میرے پاس بالکل نئی بندوق تھی جو کچھ عرصے پہلے میں نے کلکتہ سے اپنے ایک اسلحہ فروش دوست کی دوکان سے خریدی تھی۔ وہ بندوق مارکیٹ میں بالکل نئی تھی اور لوگ اس کے نام سے پہلے واقف نہ ہونے کی بنا پر اسے خریدنے سے گریز کرتے تھے۔ میں نے بھی وہ بندوق اس شرط پر خریدی تھی کہ اگر وہ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کر سکی تو میں اسے واپس کر جاؤں گا۔
دیبی دھورا کے جنوب کی سمت کی پہاڑیوں کی ڈھلوان شمال کی پہاڑیوں کی ڈھلوان کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ہم دیودار کے درختوں میں سے گزرتے ہوئے شمال کی سمت ہی جا رہے تھے۔ وادی کی مشرق کی سمت، گھاس کے ایک قطعے کی طرف جو گنجان جنگل سے گھرا ہوا تھا اشارہ کرتے ہوئے اس شخص نے کہا کہ بارہ سیں گے یہیں گھاس چرنے آتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسوادی کی دائیں طرف ایک پگڈنڈی ہے جودیبی دھورا اور اس کے گاؤں کو آپس میں ملاتی ہے۔ اور اس پگڈنڈی سے اس نے بارہ سینگوں کو اس گھاس کے قطعے میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔ میری رائفل پانچ سو گز تک مار کر سکتی تھی۔ چونکہ اس پگڈنڈی اور گھاس کے قطعے کا درمیانی فاصلہ بمشکل تین سو گز تھا۔ لہذا میں نے وہیں بیٹھ کر شکار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
جب ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو میں نے سامنے قدرے بائیں طرف چند گِدھ آسمان پہ منڈلاتے دیکھے۔ میں نے اپنے ساتھی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ جس پر اس نے کہا کہ گھاس کے قطعے کی دوسری طرف ایک گاؤں ہے۔ ممکن ہے وہاں کوئی مویشی مر گیا ہو اور گِدھ اس کی لاش کو ہضم کرنے کی فکر میں ہوں۔ اس کی اس تشریح سے میری تسلّی نہ ہوئی اور ہم دونوں اس گاؤں کی سمت چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ گاؤں فقط ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی سے پرے کچھ فاصلے پر ایک بیل مرا پڑا تھا اور گِدھ اس کا گوشت نوچ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ایک شخص جھونپڑی سے باہر نکلا۔ ہمارا پُر تپاک خیر مقدم کرنے کے بعد اس نے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور چیتے کا شکار کرنے آیا ہوں تو اس نے بڑے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ کاش اسے کل میری آمد کا پتہ چل جاتا، تب آپ اس شیر کا شکار کر سکتے تھے جس نے میرا بیل ہلاک کیا ہے۔‘ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے پندرہ مویشی کھیت میں بندھے ہوئے تھے۔ رات کو شیر آیا اور اس کا ایک بیل ہلاک کر گیا۔ اس کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔ لہذا وہ بے چارگی کے عالم میں بیل کو شیر کی نذر ہوتا دیکھتا رہا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے یہ معلوم تھا کہ دیبی دھورا کے علاقے میں شیر رہتا ہے تو پھر اس نے اپنے مویشی کھُلے کھیت میں کیوں باندھے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس سے پیشتر شیر نے کبھی کسی پالتو مویشی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
جب میں وہاں سے جانے لگا تو اس شخص نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ بارہ سینگوں کا شکار کرنے۔ اس پر وہ ملتجی لہجے میں کہنے لگا کہ اس وقت میں بارہ سینگوں کا خیال ترک کر کے شیر کا شکار کروں، ‘آپ جانتے ہیں کہ میری ملکیت بہت چھوٹی سی ہے۔ اگر شیر اسی طرح میرے بیلوں بھینسوں کو ہلاک کرتا رہا تو میں اور میرے بال بچے بھوکوں مر جائیں گے۔‘
گِدھ مُردہ بیل ختم کر چکے تھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیونکہ گزشتہ رات شیر کو اپنے شکار کی خاطر کسی قسم کی دقّت نہ اٹھانی پڑی تھی۔ اس بنا پر میرا خیال تھا کہ وہ آج رات کو بھی آئے تھے۔ میرا ساتھی بھی اب بارہ سینگوں کے بجائے شیر کے شکار کو ترجیع دینے لگا تھا۔ میں ان آدمیوں کو وہیں چھوڑ کر یہ معلوم کرنے کی خاطر چل پڑا کہ شیر کس سمت گیا تھا۔ چونکہ گاؤں کے آس پاس کوئی درخت نہ تھا جس پر میں اپنی مچان تیار کر سکتا تھا۔ لہذا میں چاہتا تھا کہ شیر کو اُس کی واپسی پر راستے میں ہی جا ملوں۔ وہاں کی زمین بڑی سخت تھی جس پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی نہ دیتے تھے۔ دو دفعہ گاؤں کے چکر کاٹنے کے بعد میں پاس ہی بہنے والی برساتی ندی کی سمت چل پڑا۔ وہاں ہموار و نمدار زمین پر ایک بڑے شیر کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ ان نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ شیر اپنا شکار کھانے کے بعد ندی کی بالائی سمت گیا تھا اور یہ فرض کر لینا بے جا نہ تھا کہ وہ اسی سمت سے واپس آئے گا۔ جھونپڑی وہاں سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر تھی۔ ندی کے جس کنارے پر میں نے شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ وہیں ایک دیودار کا درخت تھا جس پر جنگلی گلاب کی ایک بیل چڑھی ہوئی تھی۔ درخت کی ایک موٹی سی شاخ ندی پر جھکی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اس کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دو شاخوں کے درمیان بڑے آرام سے بیٹھا جا سکتا ہے۔
جھونپڑی میں واپس آ کر میں نے ان دونوں دیہاتیوں کو بتایا کہ میں اپنی بھاری رائفل لینے کی خاطر ریسٹ ہاؤس جا رہا ہوں۔ لیکن میرے راہبر نے بڑی زندہ دِلی سے کہا کہ میں یہ تکلیف نہ کروں، وہ خود ہی میری رائفل لے آئے گا۔ اسے ضروری ہدایات دینے کے بعد میں اس دیہاتی کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی باتیں سننے لگا کہ اسے کس طرح اپنے سر پر گھاس پھوس کی چھت کا سایہ قائم رکھنے کے لیے فطرت اور جنگلی جانوروں سے نبرد آزمائی کرنی پڑتی ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلا جاتا تو اس نے بڑی سادگی سے کہا، ‘یہی تو میرا گھر ہے‘۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں نے جھونپڑی کی سمت دو آدمی آتے دیکھے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی بندوق نہ تھی۔ ان میں سے ایک بالا سنگھ تھا۔ جس نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ بالا سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ میری بھاری رائفل نہ لا سکا تھا کیونکہ اس کے کارتوس سُوٹ کیس میں بند تھے اور میں اس سُوٹ کیس کی چابی بھیجنا بھول گیا تھا۔ لہذا اب شیر کو نئی رائفل ہی سے شکار کیا جا سکتا تھا۔
درخت پر چڑھنے سے پہلے میں نے کسان سے کہا کہ میری کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو خاموش رکھے اور بیوی کو اس وقت تک چولہا نہ جلانے دے جب تک میں شیر شکار نہ کر لوں یا جب تک یہ فیصلہ نہ کر لوں کہ شیر نہیں آ رہا۔ بالا سنگھ کو میں نے یہ ہدایت دیں کہ وہ جھونپڑی کے مکینوں کو خاموش رکھے اور جب میں سیٹی بجاؤں تو لالٹین روشن کر دے۔ اس کے بعد میری مزید ہدایات کا منتظر رہے۔
جب سورج کا آخری شعلہ بھی پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو اس کے ساتھ ہی وادی میں چہچہانے والے ہزاروں پرندوں کی آوازیں تھم گئیں۔ شفق گہری ہونے کے ساتھ ہی پہاڑی کے اوپر ایک اُلّو بولنے لگا۔ چاند طلوع ہونے سے پہلے نیم تاریکی کا ایک چھوٹا سا وقفہ آیا۔ یہ وقفہ آتے ہی جھونپڑی کے مکین مُردوں کی طرح خاموش ہو گئے۔ میں نے مضبوطی سے اپنی رائفل پکڑ رکھی تھی اور اندھیرے میں دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زور دے رہا تھا کہ شیر میرے درخت کے نیچے سے گزرنے کے بجائے پرے سے گزر کر اپنے گزشتہ شب والے شکار کے پاس گیا۔ اور وہاں فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر غصے میں آ گیا۔ وہ مدھم آواز میں گِدھوں کو برا بھلا کہنے لگا جو اس کے شکار پر ہاتھ صاف کر گئے تھے۔ وہ تین چار منٹ تک بڑبڑاتا رہا اور پھر اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ چاندنی لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی۔ چند منٹ بعد چاند سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا تھا۔ بیل کی ہڈیاں چاندنی میں سفید سفید چمک رہی تھیں۔ مگر شیر کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا۔ شدّتِ احساس سے میرے ہونٹ خشک ہو گئے تھے۔ میں نے ان پر زبان پھیر کر انہیں نمدار کیا اور پھر آہستہ سے سیٹی بجائی۔ بالا سنگھ پہلے ہی چوکنا بیٹھا تھا۔ اس نے فوراً لالٹین روشن کر دی اور جھونپڑی کا دروازہ کھول کر باہر کھڑا ہو کر اگلے حکم کا انتظار کرنے لگا۔ جب سے میں اس درخت پر بیٹھا تھا اس سیٹی کے سوا میں نے کوئی آواز نہ نکالی تھی اور اب جو میں نے نیچے دیکھا تو شیر شفاف چاندنی میں درخت کے نیچے کھڑا تھا اور اپنے داہنے کندھے پر سے بالا سنگھ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میری بندوق کی نالی اور شیر کے سر کے درمیان پانچ فٹ سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب شیر میری مُٹھّی میں ہے اور میری ایک ہی گولی اسے ٹھنڈا کر دے گی۔ میں نے بڑے اعتماد سے نشست باندھی اور رائفل کی لبلبی دبا دی۔ لبلبی میری انگلی کے دباؤ تلے دبتی چلی گئی اور کچھ بھی نہ ہوا۔
خدایا! میں کس قدر غیر محتاط واقع ہوا تھا۔ درخت پر بیٹھنے سے پہلے میں نے رائفل میں پانچ کارتوس بھرے تھے۔ کارتوسوں کو باہر نکال کر اس کا معائنہ کرنے کی غرض سے میں نے رائفل کھولی تو کارتوس اپنی جگہ بالکل فِٹ تھے۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ گھوڑا دبانے پر اس نے چلنے سے انکار کر دیا تھا؟ اس کی وجہ مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی۔ اگر بندوق پرانی ہوتی تو میں اپنی غلطی کو فوراً درست کر لیتا۔ بندوق کو دوبارہ راست کر کے میں نے ابھی اُس کا گھوڑا بھی نہ دبایا تھا کہ وہ خود بخود چل گئی۔ ایک زور دار دھماکا ہوا اور شیر ایک ہی چھلانگ لگا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے جلدی سے بالا سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بھاگ کر جھونپڑی کے دروازے کے اندر داخل ہو رہا تھا۔
اب درخت پر بیٹھنا فضول تھا۔ میں نے بالا سنگھ کو آواز دی تاکہ وہ درخت سے اترنے میں میری مدد کر سکے۔ جھونپڑی میں آ کر میں نے جو رائفل کا بغور معائنہ کیا تو جس دکان سے میں نے اسے خریدا تھا اس دکاندار کی مجھے ایک نصیحت یاد آ گئی جو اس رائفل کے متعلق اس نے مجھے کی تھی۔ وہ دُہرے سسٹم والی رائفل تھی اور جب تک اس کے دونوں تالے نہ کھولے جائیں وہ چل نہ سکتی تھی۔ یہ نقطہ میرے ذہن سے بالکل نکل گیا تھا اور جب میں نے اپنی ناکامی کی وجہ بالا سنگھ کو بتائی تو وہ خود کو ملامت کرنے لگا۔ ‘اگر آپ کی بھاری رائفل اور سُوٹ کیس دونوں یہاں اٹھا لاتا تو ہرگز ایسا نہ ہوتا۔‘ اس وقت میں اُس سے متفق ہو گیا۔ لیکن بعد میں جب دن گزرتے گئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر اُس شام میرے پاس بھاری رائفل بھی ہوتی تو شاید پھر بھی میں اُس شیر کو شکار نہ کر پاتا۔
اگلی صبح میں شیر کے متعلق کوئی نئی خبر حاصل کرنے کی خاطر بڑی دیر تک نواحی علاقوں میں پھرتا رہا۔ اور جب ریسٹ ہاؤس میں آیا تو ایک شخص بڑی بے تابی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ شیر نے ابھی ابھی اُس کی ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ اُس گائے نے نیا نیا بچھڑا جنا تھا اور اب دودھ نہ ملنے کی صورت میں بچھڑے کی موت کا بھی خطرہ تھا کیونکہ اس وقت اس کی اور کوئی گائے بھی دودھ نہ دے رہی تھی۔
گزشتہ شب شیر کو اس کی خوش قسمتی نے بچا لیا تھا۔ لیکن آخر کب تک قسمت اس کا ساتھ دی گی۔ ان سب شکاروں کا حساب اسے اپنی موت کی صورت میں دینا ہو گا۔ اِس پہاڑی علاقے میں مویشی پہلے ہی کم تھے اور ایک مویشی کا ہلاک ہو جانا بڑا سنجیدہ مسئلہ تھا۔ اُس شخص کو اپنے دوسرے مویشیوں کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ کیونکہ وہ بھاگ کر اُس کے گاؤں پہنچ چکے تھے۔ لہذا اُس نے مجھے کہا کہ میں بڑے آرام سے کھانا کھاؤں۔ دوپہر کے ایک بجے کھانے سے فارغ ہو کر میں اُس شخص کے ساتھ ہولیا۔ میرے دو آدمی مچان کا سامان اٹھائے ہمارے پیچھے چل رہے تھے۔
ہمارا قریبی راستہ پہاڑی کی چوٹی پر سے گزرتا تھا لیکن میں شیر کے کام میں مُخل نہ ہونا چاہتا تھا۔ لہذا ہم نے پہاڑی کے گِرد چکر کاٹ کر اُس جگہ پہنچنے کا فیصلہ کیا جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی۔ راہ میں نمدار زمین پر بھگوڑے مویشیوں کے کھُروں کے گہرے نشان موجود تھے۔ ان پر چلتے ہوئے ہم جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ وہاں خون کا ایک تالاب تھا۔ اس کے اندر سے گائے کو گھسیٹنے کی کشادہ لکیر موجود تھی۔ یہ لکیر کوئی دو سو گز تک جا کر ایک ندی کے کنارے ختم ہو گئی تھی۔ وہاں گھنے درخت تھے۔ ندی میں پاؤں پاؤں پانی تھا۔ شیر اپنا شکار لے کر ندی کے کنارے انہی گھنے درختوں میں کہیں چھپا تھا۔
گائے صبح کے کوئی دس بجے کے قریب ہلاک کی گئی تھی۔ شیر کی اوّلین خواہش یہی ہو گی کہ اپنے شکار کو کسی ایسی جگہ چھپا دے جہاں اس کو کوئی نہ دیکھ سکے۔ لہذا وہ اپنا شکار درختوں کے جھنڈ میں چھپا کر ندی میں سے گزر کر وادی میں اتر گیا تھا۔ جیسا کہ اس کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوتا تھا۔ ایک ایسا علاقہ جہاں انسان اور مویشی عام چلتے پھرتے ہوں وہاں اس قِسم کا اندازہ کرنا کہ شیر کہاں لیٹا ہو گا بعید از قیاس ہے کیونکہ ہلکی سی مدافعت سے بھی وہ اپنی جگہ بدل لیتا ہے۔ اگرچہ شیر کے پنجوں کے نشان وادی میں اتر گئے تھے لیکن میں اور میرے آدمیوں نے بڑی احتیاط سے ندی کے کنارے تک چل کر رک جانا مناسب سمجھا۔
یہ ندی کوئی دو سو گز شمال سے ایک ایسے تالاب سے شروع ہوتی تھی جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا رہتا تھا۔ یہاں کوئی پندرہ فٹ لمبا ایک گڑھا تھا جس کے دہانے پر گھاس وغیرہ اگی ہوئی تھی۔ ہمارا پہلا اندازہ غلط نکلا۔ شیر نے ندی کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں اپنا شکار چھپانے کے بجائے مؤخر الذکر گڑھے میں چھپا رکھا تھا۔ اپنی گائے کو اپنے سامنے مردہ دیکھ کر اس دیہاتی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرے پاس ہمدردی کے چند الفاظ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ شیر نے گائے کو ابھی تک چھوا نہ تھا۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر اسے بڑے آرام سے کھانا چاہتا تھا۔
ہمیں اب اس گڑھے کے پاس ایسی جگہ تلاش کرنی تھی جہاں آرام سے بیٹھا جا سکے۔ ندی کے دوسرے کنارے چند دیودار کے درخت تھے مگر وہ سب کے سب گڑھے سے دور تھے اور وہاں سے شیر پر ٹھیک سے گولی نہ چلائی جا سکتی تھی۔ علاوہ بریں ان پر چڑھنا مشکل تھا۔ گڑھے سے تیس گز کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا مضبوط درخت ندی کی بائیں سمت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں خاصی گھنیری تھیں۔ زمین سے صرف چھ فٹ اوپر جا کر درخت کا تنا دو شاخوں میں بٹ گیا تھا۔ جن کے درمیان میں آسانی سے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ جگہ زمین کے اتنے قریب تھی کہ میرے ساتھیوں نے میرے وہاں بیٹھنے کے خلاف احتجاج کیا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ کرنے سے پہلے میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ گزشتہ شب والی جھونپڑی میں واپس چلے جائیں اور وہاں اس وقت تک میرا انتظار کریں جب تک میں انہیں آواز نہ دوں یا ان کے پاس نہ چلا آؤں۔ وہ جھونپڑی وہاں سے زیادہ دور نہ تھی اور درختوں کی شاخوں میں سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔
میرے ساتھی شام کے چار بجے کے قریب رخصت ہو گئے۔ میں درخت کی شاخوں میں چھپ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے خاصی دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ تجربات سے مجھے معلوم تھا کہ شیر سورج غروب ہونے سے پہلے یہاں نہ آئے گا۔ میری بائیں سمت ندی کوئی پچاس گز تک دکھائی دے رہی تھی۔ جو میرے سامنے کوئی دس گز پر بہہ رہی تھی۔ یہ ندی دس گز گہری اور بیس گز چوڑی تھی۔ میرے سامنے درختوں سے خالی پہاڑی چٹانیں تھیں۔ میری دائیں طرف وہ گڑھا تھا جہاں شیر اپنا شکار چھپا گیا تھا۔ مُردہ گائے میری نظروں سے اوجھل تھی۔ کیونکہ لمبی لمبی گھاس نے اسے ڈھانپ رکھا تھا۔ میری پشت پر لمبی لمبی گہری جنگلی گھاس تھی، جو میرے درخت تک آئی ہوئی تھی اور اسی گھاس نے گائے کو بھی چھپا رکھا تھا۔ شیر اپنا شکار یہاں چھپانے کے بعد ندی میں سے گزر کر وادی کی دوسری سمت چلا گیا تھا اور اس کی واپسی کا امکان بھی اسی راہ سے تھا۔ لہذا میں متواتر ندی کی سمت دیکھ رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جونہی شیر ندی کے اس کنارے نمودار ہو اس پر فوراً گولی چلا دوں۔
میرے گرد و پیش کئی قسم کے جانور اور پرندے تھے جو مجھے شیر کی آمد سے مطلع کر سکتے تھے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ پرندوں اور جانوروں کی تنبیہی آواز سنے بغیر میں نے اچانک شیر کو اپنے شکار کے قریب غراتے ہوئے دیکھا۔ وہ میرے قریب سے گزرنے کے بجائے دوسری سمت سے وہاں پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس سے مجھے کوئی تردّد نہ ہوا۔ میں تجربے سے جانتا تھا کہ شیر دن کے وقت اپنے شکار کے قریب جم کر کھڑا نہیں رہتا اور وہ تھوڑی دیر بعد ضرور کھلے میدان میں میرے سامنے آئے گا۔ اب وہ اپنا شکار کھا رہا تھا۔ ہڈیاں ٹُوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پندرہ منٹ گزر گئے۔ اچانک مجھے اپنی بائیں سمت سے ایک کالا ریچھ آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت بڑا ریچھ تھا۔ اچانک وہ رک گیا۔ اور اپنی تھوتھنی ہوا میں بلند کر کے زور زور سے سونگھنے لگا۔ اس نے گوشت اور شیر کی بو سونگھ لی تھی۔ میں شکار کے دائیں سمت تھا۔ چونکہ ہوا شمال سے جنوب کو چل رہی تھی اس لئے ریچھ میری بُو نہ سونگھ سکا۔ تب اچانک وہ زمین پر لیٹ گیا اور چند لمحوں کے بعد بڑی احتیاط سے آہستہ آہستہ شیر کی سمت بڑھنے لگا۔ وہ ایک سائے کی طرح حرکت کر رہا تھا۔ جوں جوں وہ گڑھے کے قریب آ رہا تھا، زیادہ محتاط ہوتا جا رہا تھا۔ جب وہ گڑھے سے چند ہی قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو پیٹ کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر وہ رینگتا ہوا گڑھے کے کنارے پر پہنچ گیا اور اپنا سر اٹھا کر اس کے اندر جھانکنے لگا۔ شیر بڑے مزے سے اپنا شکار کھانے میں مصروف تھا۔ اب کیا ہو گا؟ شدّتِ احساس سے میرا جسم ایک تنے ہوئے رسّے کی طرح تھرّارہا تھا اور میرے ہونٹ اور حلق سوکھ گئے تھے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ریچھ اتنا احمق نہیں ہو سکتا کہ جنگل کے بادشاہ کے شکار میں مُخل ہو۔ لیکن ریچھ کی حرکات میری سوچ کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئیں تھیں۔ چند لمحے ریچھ اسی طرح گڑھے کے اندر جھانکتا رہا۔ پھر اچانک وہ ایک زبردست چیخ مارکر گڑھے کے اندر کود گیا۔ اس چیخ کا مقصد میرے خیال میں شیر کو ہراساں کرنا تھا۔ لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ شیر ایک دم مشتعل ہو گیا کیونکہ ریچھ کی چیخ کے جواب میں مجھے ایک تیز گرج سنائی دی۔
میں نے جنگلی درندوں کی نبرد آزمائی بہت کم دیکھی ہے۔ یہ شاید میرا دوسرا تجربہ تھا۔ گڑھے کے اندر شیر اور ریچھ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے اور ان کی تیز خوفناک آوازیں آس پاس گونج رہی تھیں۔ مقابلہ زبردست تھا۔ وقت ایک دم سانس روک کر کھڑا ہو گیا۔ شدت احساس سے میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ یہ جنگ کوئی تین یا چار منٹ جاری رہی ہو گی۔ بہر حال جب شیر نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دشمن کو خاصا نقصان پہنچا چکا ہے تو چھلانگ لگا کر گڑھے سے باہر نکل آیا اور میرے سامنے سے تیزی سے بھاگتا ہوا نکل گیا۔ اس کے پیچھے چیختا چلّاتا ہوا ریچھ تھا۔ شیر ابھی میرے سامنے سے گزرا ہی تھا کہ میں نے بندوق اٹھا کر نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔ گولی کی آواز پر شیر غصے سے گرجا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔ چند لمحے وہ گھاس میں چلتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال تھا کہ گولی اس کے دل میں لگی تھی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا تھا۔
اس قسم کے پہاڑی علاقے میں بندوق کی گولی کی آواز توپ کے گولے کی گرج سے کم نہیں ہوتی۔ مگر اس گرج کا پاگل ریچھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ شیر کے تعاقب میں اندھا دھند میری طرف بھاگا چلا آ رہا تھا۔ میں ایک ایسے جانور کو ہلاک نہ کرنا چاہتا تھا جس میں اتنے عظیم دشمن کو بھگا دینے کی جرات تھی۔ لیکن اس کی میرے قریب تر آتی ہوئی منحوس چیخ میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ جب وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو میں نے بندوق کی بائیں نالی کی گولی اس کے ماتھے میں پیوست کر دی۔ وہ پیٹ کے بل آہستہ سے زمین پر لیٹ گیا اور پھر نہ اٹھ سکا۔
جہاں ایک لمحہ پہلے دو خوفناک درندوں کی ہیبت ناک آوازوں سے جنگل گونج رہا تھا اب سارے میں مکمل خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ میرا دل اپنی اصلی حالت پہ آیا تو میں پائپ سلگا کر اپنے اعصاب کو بحال کرنے لگا۔ ابھی میں نے بندوق کو اپنی گود میں رکھ کر پائپ کے ایک دو کش لگائے ہی تھے کہ اپنے سامنے کچھ فاصلے پر مجھے شیر بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ میری طرف نہیں اپنے مردہ دشمن کی طرف دیکھ رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ یہ واقعات پڑھ کر ایک اچھا شکاری بلا شبہ مجھ پر ایک اناڑی شکاری ہونے کا الزام لگا دے گا۔ میرے پاس دفاع کی کوئی صورت نہیں لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی طرف سے میں پوری طرح ہوشیار تھا۔ جب میں نے شیر کی پشت پر گولی چلائی تھی تو مجھے یقین تھا کہ میں اسے ایک مہلک ضرب لگا رہا ہوں اور گولی چلانے کے بعد میں نے شیر کی جو چیخ سنی تھی اس سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں نے اسے ڈھیر کر لیا ہے۔ میری دوسری گولی سے ریچھ چت ہو گیا تھا۔ لہذا اب میں بندوق کو دوبارہ بھرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا تھا اور اسے اپنی گود میں رکھے ہوئے تھا۔
شیر کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر میں کوئی دو سیکنڈ حیرت میں غلطاں رہا۔ اس کے بعد میں نے جلدی سے رائفل میں کارتوس بھرے۔ اب شیر مجھ سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر تھا اور اس کی رفتار بھی مدھم ہو گئی تھی۔ وہ سامنے والی پہاڑی پر اسی ڈگری کا زاویہ بنائے ہوئے تھا۔ میں نے بندوق اٹھائی اور نشانہ باندھ کر داغ دی۔ شیر لڑکھڑاتا ہوا اپنے پچھلے قدموں پر گرا مگر پھر جلدی سے سنبھل کر پہاڑی کی دوسری سمت کود گیا۔ گولی شیر کے منہ سے کوئی پانچ انچ نیچے چٹان پر لگی تھی جس کے باعث شیر گھبرا کر پیچھے گر پڑا تھا مگر اب کے پھر صاف بچ کر نکل گیا تھا۔
تھوڑی دیر پائپ پینے کے بعد میں ریچھ کو دیکھنے کی نیت سے درخت پر سے اترا۔ میرے خیال کے برعکس ریچھ بہت بڑا نکلا۔ شیر سے اس کی لڑائی واقعی قابل تحسین تھی۔ اس کی گردن اور جسم پر دانتوں کے بڑے بڑے زخم تھے۔ جن سے خون رس رہا تھا۔ ممکن تھا وہ ان زخموں کی زیادہ پرواہ نہ کرتا مگر اس کی ناک پر جو زخم آیا تھا اس نے اسے مشتعل کر دیا تھا۔ ہر نر جانور ناک کے زخم کے متعلق بڑا حساس ہوتا ہے اور اسے ایک طرح اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا اور میری پہلی گولی کی آواز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے شیر کا تعاقب جاری رکھا تھا۔
اب میرے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ میں ریچھ کی کھال اتارنے کے لیے اپنے آدمیوں کو بلاتا۔ لہذا میں انہیں ملنے کے لیے جھونپڑی کی سمت چل پڑا۔ انہیں ساتھ لے کر میں شام سے پہلے ریسٹ ہاؤس میں پہنچ جانا چاہتا تھا کیونکہ اس علاقے میں آدم خور چیتا بھی تو گھوم رہا تھا۔ جھونپڑی کے باہر کوئی ایک درجن آدمی مجھے بڑے غور سے آتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اور جب میں ان کے پاس پہنچ گیا تو حیرت کے مارے ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ آخر بالا سنگھ کی زبان میں سکت آئی اور جب اس نے مجھے ساری بات سنائی تو مجھے اس پر حیرت نہ ہوئی کہ تمام آدمی مجھے کیوں اس طرح دیکھ رہے تھے۔ جیسے میں مردہ ہو کر جی اٹھا تھا۔ آخر بالا سنگھ کہنے لگا، ‘آپ نے ہمیں جھونپڑی کے اندر ٹھہرنے کی نصیحت کی تھی۔ اور جب ہم نے شیر کی پہلی گرج کے بعد آپ کی چیخ سنی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر نے آپ کو درخت سے نیچے گھسیٹ لیا ہے اور آپ زندگی کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ اور جب شیر کی گرج بند ہو گئی اور آپ کی چیخ سنائی دیتی رہی تو ہم سمجھے کہ شیر آپ کو اٹھائے لیئے جا رہا ہے۔ بعد میں ہم نے آپ کی بندوق کی دو گولیوں کی آواز سنی۔ اس کے بعد تیسری آواز سے تو ہم بڑی شش و پنج میں پڑ گئے۔ یعنی شیر کے منہ میں آیا ہوا انسان کس طرح گولی چلا سکتا ہے۔ اور اب ہم مشورہ کر رہے تھے کہ آپ اس طرف آتے دکھائی دیئے۔ جس کے سبب حیرت کے مارے ہماری زبانیں بولنا بھول گئیں۔‘ بات یہ تھی کہ انسان اور ریچھ کی چیخ ایک دوسرے سے اس قدر ملتی ہیں کہ دور سے انسان ان میں امتیاز نہیں کر سکتا۔
تب میں نے ان سب کو شیر اور ریچھ کی خوفناک جنگ کے بارے میں بتایا۔ ریچھ کی چربی عام طور پر گٹھیا کے مرض کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ مجھے چربی کی ضرورت نہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ دوسری صبح ہم ریچھ کی کھال اتارنے چل پڑے۔ میرے ساتھ آدمیوں کا ایک ہجوم تھا جو ریچھ کی چربی کے خواہش مند تھے۔ علاوہ بریں وہ ایک ایسے بہادر ریچھ کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے شیر کو بھگا دیا تھا۔ لوگوں نے ریچھ کی چربی آپس میں تقسیم کر لی اور اس کی کھال میں نے بالا سنگھ کو دے دی جسے حاصل کر کے وہ خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت تصور کر رہا تھا۔
شیر اس گائے کو کھانے دوبارہ اس جگہ نہ آیا۔ یوں بھی شام تک گِدھ اسے ختم کر چکے تھے۔
ریچھ کی چربی کی خبر تھوڑی دیر میں سارے نواحی علاقے میں پھیل گئی۔ یہ خبر محکمۂ جنگلات کے ایک محافظ کے پاس بھی پہنچی۔ اس کا باپ کئی برس سے گٹھیا میں مبتلا تھا۔ وہ چربی لینے کی خاطر دیبی دھورا کی سمت آ رہا تھا کہ راستے میں اسے چند مویشی بھاگتے ہوئے دکھائ دیئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک نوجوان گڈریا بھی تھا۔ جس نے اسے بتایا کہ ابھی ابھی اس کی ایک گائے شیر نے ہلاک کر دی ہے۔ جب اس محافظ نے یہ خبر ہم تک پہنچائی تو میں اور وہ محافظ اس طرف چل پڑے۔ اس وادی میں دیودار کے درخت جگہ جگہ اگے ہوئے تھے۔ میں وادی کے کنارے پر کھڑا اپنے سامنے پھیلے سبزہ زار کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر میں اور وہ محافظ وادی میں اتر گئے۔ تھوڑی دور چل کر ہمیں خشک پتّوں کا ایک ڈھیر دکھائی دیا۔ اگرچہ اس کے اندر سے گائے کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ شیر نے گائے کو اس کے اندر چھپا رکھا ہے۔ بد قسمتی سے میں نے یہ بات اپنے ساتھی کو نہ بتائی۔ بعد میں اس نے بھی مجھے بتایا کہ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ شیر اس طرح بھی اپنا شکار چھپا دیا کرتا ہے۔ جب شیر اس طرح اپنا شکار چھپا دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فی الحال کہیں آس پاس نہیں ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ فرض نہ کر لینا چاہیے۔ اگرچہ وادی میں داخل ہونے سے پہلے میں نے اس کا بغور جائزہ لے لیا تھا۔ لیکن اب میں اپنی طرف سے پورا محتاط تھا۔
پتّوں کے اس ڈھیر سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی پینتالیس ڈگری کا زاویہ بنا رہی تھی۔ اسی پہاڑی کے اوپر چالیس گز کے فاصلے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ میں ان پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا کہ شیر پر میری نظر پڑ گئی۔ جو وہاں زمین پر لیٹا تھا۔ اور اس کی پشت میری طرف تھی۔ اس کے سر کا ایک حصّہ اور جسم کی ایک دھاری بھی مجھے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے سر پر گولی چلانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اور جسم پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ میرے سامنے ساری دوپہر اور شام پڑی تھی۔ لہذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ چھپ کر شیر کے اِدھر آنے کا انتظار کروں۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ یا ہی تھا کہ مجھے اپنی بائیں سمت ایک حرکت سی دکھائی دی۔ سر پھیر کے دیکھا تو ایک ریچھ پتّوں کے ڈھیر کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ شاید ریچھ نے شیر کو شکار کرتے دیکھ لیا تھا اور اب موقع پا کر اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں شیر کے شکار کے قریب کھڑا ہونے کے بجائے وادی کے کنارے پر کھڑا ہوتا تو ایک دلچسپ منظر دیکھنے میں آتا۔ ریچھ نے شیر کا شکار ہضم کرنے کی کوشش کرنی تھی۔ جس پر شیر نے بیدار ہو جانا تھا اور پھر ان کے مابین جو لڑائی ہوتی وہ واقعی قابلِ دید ہوتی۔
محکمۂ جنگلات کا محافظ جو اب تک میرے پیچھے کھڑا تھا اس اب تک شیر دکھائی نہ دیا تھا۔ وہ مجھے ریچھ کی سمت دیکھتے ہوئے خود بھی اس سمت دیکھنے لگا۔ ریچھ کو دیکھنا تھا کہ وہ ایک دم چلّا اٹھا، ‘دیکھو صاحب بھالُو! بھالُو!’ اس کی آواز سن کر شیر ایک دم اٹھا اور ایک ہی جست میں بجلی کی طرح آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے اسے بیس گز کھلی زمین کا ایک قطعہ طے کرنا تھا۔ جب وہ وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے رائفل اٹھائی اور لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ جنگل کے محافظ نے یہ سمجھا کہ میں نے ریچھ کو نہیں دیکھا اور غلط سمت میں گولی چلانے لگا ہوں۔ لہذا اس نے جلدی سے رائفل کی نال پکڑ کر اس کا رخ ریچھ کی سمت کر دیا۔ بندوق کی گولی مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک درخت میں لگی۔ غصّے میں آنا بے سود تھا۔ اور وہ بھی جنگل میں۔ محافظ جو اب تک پوری بات سے بے خبر تھا اور اس تاثر کے تحت تھا کہ اس نے میری توجہ ریچھ کی جانب کرا کے مجھے ایک آفت سے بچا لیا ہے۔ گولی کی آواز سے ریچھ بھی چوکنا ہو گیا۔ اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ جلدی سے وادی کے نیچے اتر گیا۔ میرا ساتھی یہی کہتا رہ گیا، ‘مارو صاحب مارو۔‘ لیکن جب میں نے اسے ساری بات بتائی تو وہ ایک دم غمگین ہو گیا۔ وہاں سے ہم بنگلے واپس چلے آئے۔
دوسری صبح جب میں پھر اس وادی میں گیا تو میرا یہ شبہ صحیح نکلا کہ شیر اب اپنا شکار کھانے نہ آئے گا۔ جب میں وہاں پہنچا تو تینوں ریچھ شکار پر ہاتھ صاف کر چکے تھے اور بچی کچی ہڈیاں گِدھ نوچ رہے تھے۔
صبح ہوئے ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی۔ میں سامنے والی پہاڑی پر چڑھ کر اس سمت چلنے لگا جِدھر شیر گیا تھا۔ دوپہر کے وقت جب میں بنگلے میں لوٹا تو ایک شخص میرا منتظر تھا۔ اس نے بتایا کہ شیر نے ایک اور گائے ہلاک کر دی ہے۔ وہ شخص ایک مقدمے کے سلسلے میں الموڑا جا رہا تھا اور اس نے راستے میں شیر کو گائے شکار کرتے دیکھا تھا۔ وہ راستے کا تھوڑا سا چکر لگا کر مجھے فقط یہ اطلاع دینے آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ تو نہ جا سکتا تھا۔ مگر اس نے زمین پر نقشہ کھینچ کر بتادیا کہ شیر نے کس جگہ گائے ہلاک کی تھی۔ اگر اس شخص نے صحیح نقشہ بنایا تھا تو یہ جگہ اس جگہ سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھی جہاں کل میں نے شیر پر گولی چلائی تھی۔ اب کی دفعہ اس نے ایک ندی کے کنارے شکار کیا تھا۔
گزشتہ دن شیر نے جہاں اپنا شکار کیا تھا اسے اس نے وہیں رہنے دیا تھا۔ لیکن آج جب میں جائے حادثہ پر پہنچا تو شیر اپنا شکار گھسیٹ کر دور لے گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً دو میل ہو گا۔ اب گائے کے گھسٹنے کی لکیر درختوں کے گھنے جھنڈوں میں گزر رہی تھی۔ تھوڑی دور آگے گیا تو گائے کی ایک پچھلی ٹانگ ٹوٹ کر دو درختوں کے درمیان پھنسی ہوئی ملی۔ چند قدم آگے چل کر سرسبز جھاڑیوں کے ایک گھنے جھنڈ میں شیر کا شکار پڑا تھا۔ اس نے اسے ڈھانپنے کی بھی کوشش نہ کی تھی۔
دو میل کا فاصلہ یوں محتاط ہو کر طے کرنے اور رائفل کے بوجھ سے میرا جسم پسینے سے شرابور تھا اور پیاس کے مارے حلق خشک ہو رہا تھا۔ اس سے میں بخوبی اندازہ کر سکتا تھا کہ اتنا بڑا بوجھ اتنی دور گھسیٹنے سے شیر کو کس قدر پیاس لگی ہو گی۔ پیاس بجھانے کے ارادے سے میں ندی کی سمت چل پڑا۔ وہ ندی جس کے کنارے میں نے ریچھ کو ہلاک کیا تھا، وہ یہاں سے کوئی نصف میل دور تھی۔
میں ندی کے کنارے کھڑا تھا۔ اس جگہ درختوں کا گھنا سایہ تھا۔ ایک چٹان کی عقب سے چکر لگا کر میں ندی میں اترا ہی تھا کہ مجھ سے کوئی بیس گز کے فاصلے پر شیر ندی کے کنارے نرم نرم ٹھنڈی ریت پر سویا ہوا تھا۔ یہاں سے ندی دائیں سمت کو ایک دم مڑ جاتی تھی۔ اس کی پشت میری سمت تھی اور میں فقط اس کی پچھلی ٹانگیں اور دُم دیکھ سکتا تھا۔ میرے اور شیر کے درمیان خشک شاخوں کی ایک دیوار سی تھی۔ جو درخت کے نیچے کی سمت لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ شاخیں ہٹا کر شیر کی سمت جانا ممکن نہ تھا کیونکہ شاخوں کی ہلکی سی بھی آواز سے شیر بیدار ہو جاتا۔ دوسری سمت سے ریت پر سے گزر کر اس تک پہنچنا بھی مشکل تھا کیونکہ کنارے کی ڈھلوان سے ریت کے سرکنے سے شیر جاگ جاتا۔ اب میرے پاس فقط یہی صورت تھی کہ میں وہیں بیٹھ کر اس بات کا انتظار کروں کہ شیر کب مجھے خود پر گولی چلانے کا موقع دیتا ہے۔
تھکاوٹ سے چور شیر پانی پینے کے بعد گہری نیند سو رہا تھا۔ نصف گھنٹے تک وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ تب اس نے داہنی سمت پہلو بدلا اور اس کی ٹانگیں کچھ مزید دکھائی دینے لگیں۔ اس حالت میں وہ کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا اور ندی کے خم سے باہر نکل آیا۔ رائفل کے گھوڑے پر انگلی رکھے میں اس کے دوبارہ نمودار ہونے کا منتظر رہا کیونکہ اس کا شکار میرے عقب میں پہاڑی کے پیچھے تھا۔ چند منٹ گزر گئے۔ پھر ایک ہرن کی تیز آواز سنائی دی۔ اتنے میں ایک جنگلی مرغ بھی زور زور سے بولنے لگا۔ شیر جا چکا تھا۔ وہ کیوں چلا گیا تھا اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اسے میری خوشبو آ گئی ہو گی ایسا نہیں تھا کیونکہ شیر میں سونگھنے کی حس نہیں ہوتی۔ خیر میرے لیئے اس میں پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ تھوڑی دیر میں ضرور اپنا شکار کھانے کے لیئے آئے گا۔ جسے وہ اتنی مشکل سے گھسیٹ کر لایا تھا۔ ندی کے جس گڑھے سے شیر نے پانی پیا تھا میں نے بھی وہیں جا کر اپنی پیاس بجھائی۔ پانی برف سا ٹھنڈا تھا۔ پانی پینے کے بعد میں نے پائپ سلگا لیا۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں گائے سے دس گز دائیں طرف دیودار کے ایک درخت پر چڑھ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ شیر نے مغرب کی سمت سے اپنے شکار کے پاس آنا تھا۔ اور میں نہ چاہتا تھا کہ اس کا شکار میرے اور اس کے درمیان ہو۔ کیونکہ شیر کی بینائی بہت اچھی ہوتی ہے۔ درخت پر سے میں سامنے پھیلی ہوئی وادی اور اس کے پیچھے پہاڑیوں کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ اور جب سورج آس پاس کی پہاڑیوں پر آگ بکھیر کر بجھنے والا تھا تو پہلے ایک بارہ سینگے کی آواز سنائی دی۔ شیر حرکت کر رہا تھا۔ اسے یہاں پہنچنے میں خاصی دیر لگنی تھی۔ اس کے باوجود اتنی روشنی متوقع تھی کہ میں بڑے آرام سے اُس پر گولی چلا سکتا تھا۔
آگ کا گولا اُفق کے پیچھے چھپ گیا۔ شفق کی سرخی ختم ہو گئی۔ ہر طرف اندھیروں کی پھُوار پڑنے لگی۔ ہر طرف ایک گہرا سکوت محیط تھا۔ ستاروں کی روشنی ہمالیہ کے دامن سے بڑھ کر کہیں اور زیادہ چمکیلی نہیں ہوتی۔ میں اس روشنی میں گائے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ گائے کا سر میری طرف تھا اور اگر شیر پیچھے سے آ کر اسے کھانے لگتا تو میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اس صورت میں شیر کو ہلاک کرنے کا پچاس فیصد امکان تھا۔ لیکن اسے فقط صرف زخمی کرنا مجھے نہ تھا کیونکہ زخم مندمل ہو جانے کے بعد اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ وہ آدم خور بن جاتا۔ اب تک اس نے جنگل کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کی تھی۔ میں اسے فقط دیہاتیوں کی سہولت کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
مشرق کی سمت سے روشنی آ رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں زمین پر مبہم سے سائے ڈال رہی تھیں۔ تب چاند نکل آیا اور کھلی وادی میں چاندنی کا دھارا بہنے لگا۔ اب شیر کے آنے کا وقت تھا۔ میں اسے دیکھ تو نہ سکتا تھا لیکن مجھے اس کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کیا وہ اپنے شکار سے پرے کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا؟ یہ نا ممکن تھا کیونکہ میں درخت کے اوپر اس طرح چھپا بیٹھا تھا کہ اس کا ایک حصہ بن کر رہ گیا تھا اور شیر کسی وجہ کے بغیر جنگل کے ہر درخت کو بغور نہیں دیکھتا۔ اس کے باوجود شیر وہاں شیر وہاں موجود تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔
اب اتنی روشنی تھی کہ میں گرد و پیش بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اپنے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب میں نے اپنا سر داہنی طرف پھیر کر اپنے بالکل پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو میری نظر شیر پر پڑی۔ وہ اپنے پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا۔ اس کا منہ اپنے شکار کی طرف تھا مگر وہ سر پھیر کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے مجھے اپنی سمت دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اپنے کان ڈھیلے چھوڑ دیئے اور جب میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا تو اس نے پھر سے کان کھڑے کر لیئے۔ جیسے وہ خود سے کہ رہا ہو، ‘خیر اب تم نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ مگر اب تم کیا کرو گے؟’ اور میں واقعی کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کیونکہ شیر پر گولی چلانے کی خاطر مجھے درخت پر پہلو بدل کر پہلے داہنی طرف اور پھر عقب کی سمت مڑنا تھا۔ لیکن ایسا کرنا شیر کو خبردار کرنے کے مترادف تھا جو پندرہ فٹ کے فاصلے سے مجھے برابر گھُورے جا رہا تھا۔ اب اس پر گولی چلانے کا فقط ایک ہی امکان تھا اور وہ تھا بائیں کندھے کے اوپر سے۔ میں نے اس تجویز کو لباسِ عمل پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ رائفل میرے گھٹنوں پر پڑی تھی اور اس کا منہ بائیں سمت ہی تھا۔ جب میں نے اسے بڑی آہستگی سے اٹھا کر اس کا منہ ہولے ہولے اپنی داہنی سمت پھیرنا شروع کیا تو شیر نے اپنا سر نیچا اور کان چوڑے کر لیئے۔ میں وہیں کا وہیں رک گیا۔ اس پوزیشن میں شیر تب تک رہا جب تک میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا لیکن جب میں نے پھر رائفل گمانی شروع کی تو وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور سایوں میں گھل مل گیا۔
شیر ایک دفعہ پھر مجھے مات دے گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ چاہے جتنی دیر تک درخت پر بیٹھا رہوں وہ واپس نہ آئے گا۔ لیکن اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو ممکن ہے وہ لوٹ آئے اور چونکہ وہ ساری گائے فقط ایک رات میں نہیں کھا سکتا تھا۔ لہذا اگلے دن اس سے ٹکر لینے کا مجھے ایک اور موقع مل سکتا تھا۔
اب میرے سامنے یہ سوال تھا کہ رات کہاں بسر کروں۔ اس دن میں نے پہلے ہی کوئی بیس میل کا سفر کیا تھا۔ وہاں سے ریسٹ ہاؤس آٹھ میل دور تھا۔ وہاں تک پہنچنے کی مجھ میں سکت نہ تھی اور پھر راستے میں بھرپور جنگل تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ شکار سے کوئی دو، تین سو گز کے فاصلے پر کھلی وادی میں سو جاؤں مگر مجھے آدم خور چیتے کا خیال آیا اور آدم خور چیتے ہمیشہ رات کو شکار کرتے ہیں۔ آخر مجھے دور مویشیوں کی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آئیں۔ یہ دیہاتیوں کا کوئی پڑاؤ تھا۔ میں درخت سے اترا اور اس سمت چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ تھکاوٹ کے مارے میری بری حالت ہو رہی تھی۔ دیہاتیوں نے میری حسبِ توفیق خاطر تواضع کی۔ پھر میں چارپائی پر لیٹ کر پائپ پینے لگا۔
دوسری صبح سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا کہ اپنے گرد و پیش کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ تین آدمی میرے پاس کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے گرم گرم تازہ دودھ سے بھرا ہوا پیالہ پکڑ رکھا تھا۔ انہوں نے مجھے کھانے کی پیشکش کی مگر میں نے ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کر کے یہ دیکھنے کی خاطر کہ اب شیر اپنا شکار کہاں لے گیا ہو گا پھر سے وادی کی سمت چل پڑا۔ مجھے دیکھ کے حیرت ہوئی کہ گائے وہیں جوں کی توں پڑی ہے۔ گِدھوں سے بچانے کی خاطر میں نے اسے شاخوں سے ڈھانپ دیا اور تازہ دم ہونے کے لیئے ریسٹ ہاؤس کی سمت چل پڑا۔
ہندوستانی ملازم اپنے آقا کے بڑے وفادار ہوتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے کی غیر حاضری کے بعد جب میں وہاں پہنچا تو میرے ملازم حیران نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے مجھ سے کوئی سوال پوچھا۔ غسل کے لیئے گرم پانی تیار تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر نظروں کے سامنے پھیلی ہوئی دلکش وادی سے حظ اٹھانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ نینی تال سے تو میں پانار کے آدم خور چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا۔ وہی چیتا جس نے اس روز مندر کے چبوترے پر سوئے ہوئے مسافر کی ٹانگ کھینچی تھی۔ اس کے بعد اس کے متعلق کچھ نہ سنا گیا تھا۔ لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بعض اوقات وہ چیتا کافی عرصے کے لیئے دیبی دھورا سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن اچانک آ جاتا ہے۔ آج کل وہ وہاں سے غائب تھا اور کوئی نہ کہ سکتا تھا کہ کب واپس آئے گا۔ میں تو اصل میں اس چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا اور اس میں مجھے ناکامی ہوئی تھی۔ اب دیبی دھورا میں مزید بیٹھے رہنا میرے لیئے کسی طرح سودمند نہ تھا۔ لیکن مندر کے شیر کا مسلہ بدستور میرے سامنے تھا۔ اس شیر کو ہلاک کرنا میں کسی طرح اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرتا تھا۔ لیکن اس کے سبب دیہاتیوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا اس کے پیش نظر میں نے اسے شکار کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کا معاوضہ بھی ادا کیا تھا۔ مگر وہ ہر بار مجھے چکمہ دے گیا تھا۔ لیکن اتنا میں ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ اس نے مجھے شکار کے نہایت دلچسپ تجربات سے آشنا کرایا تھا۔ اس کے ہاتھوں اپنی شکستوں کے باوجود مجھے اس پر کوئی غصہ نہ تھا۔ وہ ایک نہایت ذہین شیر تھا اور میں نے اس جیسے بہت کم شیر دیکھے تھے۔ گزشتہ چار دن سے ہم ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے۔ اور ان چار دنوں میں میں بے حد تھک گیا تھا۔ لہذا میں نے آج کا دن آرام کر کے اگلے دن نینی تال واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی، ‘سلام صاحب! میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ شیر نے میری ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔‘ شیر کو شکار کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ خواہ میں اس دفعہ کامیاب رہوں یا ناکام بہر صورت کل نینی تال ضرور لوٹ جاؤں گا۔
انسانوں اور ریچھوں کی مداخلت سے تنگ آ کر شیر نے اپنی جائے شکار بدل لی تھی اور یہ آخری شکار اس نے دیبی دھورا کی مشرقی پہاڑیوں پر اس جگہ سے چند میل دور ادھر کیا تھا جہاں میں گزشتہ شب اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ یہ جگہ اونچی نیچی تھی اور کہیں کہیں ہی کوئی اِکّا دُکّا درخت دکھائی دیتا تھا۔
مشرقی پہاڑیوں کے نیچے ایک وادی تھی جس میں جھاڑیاں بکثرت اُگی تھیں۔ اور ان کے درمیان کہیں کہیں گھاس کے قطعات تھے۔ انہی قطعات میں سے ایک کے کنارے شیر نے گائے ہلاک کی تھی اور اسے گھسیٹ کر بائیں سمت کی جھاڑیوں میں لے گیا تھا۔ چند قدم چلنے پر مجھے گائے نظر آ گئی۔ وہیں دیودار کا ایک درخت تھا۔ میں نے اس پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔
میرے ملازم میرے ساتھ تھے۔ وہ میرے لیئے چائے بنانے میں مصروف ہو گئے۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید شیر کہیں آس پاس لیٹا ہو اور اس پر گولی چلانے کا مجھے موقع مل جائے۔ میں ادھر ادھر گھومنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر یہیں کہیں وادی میں لیٹا ہو گا۔ میں ایک گھنٹے تک اسے تلاش کرتا رہا مگر وہ دکھائی نہ دیا۔
جس درخت پر میں بیٹھا تھا اس کا تنا قدرے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس کے بڑے تنے پر زمین سے کوئی دو گز کے فاصلے پر گھنی شاخیں اگی ہوئی تھیں۔ جس کے باعث درخت پر چڑھنا آسان تھا۔ مگر درخت پر چڑھنے کے بعد تنے کی نیچے والی زمین گھنی شاخوں کے باعث بالکل دکھائی نہ دینی تھی۔ شام کے چار بجے میں نے اپنے ملازم روانہ کر دیئے اور خود درخت کے اوپر زمین سے کوئی بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آرام دہ جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے ملازموں سے کہا تھا کہ وہ مشرقی پہاڑی کے قریب میرا انتظار کریں۔ کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ اگر شیر شام سے پہلے آ گیا تو بہتر ورنہ وہاں رات گزارنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔
گائے سر سبز کھلی زمین پر مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس کی پچھلی ٹانگیں جھاڑیوں کے ایک جھُنڈ کو چھو رہی تھیں۔ وہاں بیٹھے مجھے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ میں اوپر نظریں اٹھائے آسمان سے گزرنے والے مختلف پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گائے کو دیکھنے کی نیت سے جونہی میں نے سر پھیرا تو شیر کا سر ان جھاڑیوں سے نمودار ہوتا ہوا دکھائی دیا جنہیں گائے کی پچھلی ٹانگیں چھو رہی تھیں۔ وہ لیٹا ہوا تھا اور اس کا سر زمین سے بہت قریب تھا اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنا ایک پنجہ بڑھایا اور پھر دوسرا اور پھر بڑی آہستگی سے پیٹ کے بل رینگ کر اپنے شکار کے پاس آ گیا۔ یہاں وہ کسی حرکت کے بغیر چند منٹ لیٹا رہا۔ تب بدستور اپنی نگاہیں مجھ پر گاڑے ہوئے اس نے منہ سے گائے کی دُم کاٹ کر اسے ایک طرف رکھا اور پھر کھانے لگا۔ تین دن پہلے ریچھ سے لڑائی کے بعد اس نے کچھ نہ کھایا تھا اور بے حد بھوکا تھا۔ وہ یوں کھا رہا تھا جیسے کوئی آدمی سیب کھاتا ہے۔ وہ کھال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گائے کی ران سے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے پھاڑ رہا تھا۔
بندوق میری گود میں پڑی تھی اور اس کا رخ شیر کی سمت تھا۔ میں نے فقط یہ کرنا تھا کہ اسے کندھے کے قریب لا کر گھوڑے کو دبا دوں۔ یہ موقع مجھے اس وقت مل جاتا جب چند سیکنڈ کے لیئے بھی شیر اپنی نظریں اِدھر اُدھر کر لیتا۔ لیکن شاید شیر میرے دل کی بات بھانپ گیا تھا اور اس خطرے سے آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ مجھ سے نظریں ہٹائے بغیر بڑے اطمینان سے اپنا شکار کھا رہا تھا۔ جب وہ کوئی دس بارہ سیر گوشت کھا چکا اور اس کے عَقب والی جھاڑی میں ایک بُلبُل بولنے لگی تو میں نے سوچا یہ میرے لیئے بہترین موقع ہے۔ میں رائفل کو نہایت آہستہ آہستہ اٹھاؤں تو شاید شیر کو میری ہاتھوں کی جُنبش کا پتا نہ چلے۔ اور جب بُلبُل تیزی سے بولنے لگی تو میں نے اپنی تجویز کو لباسِ عمل پہنانا شروع کر دیا۔ ابھی میں نے بندوق کو چھ انچ ہی اوپر اٹھایا ہو گا کہ شیر ایک دم ہی پیچھے کی سمت ہٹ گیا جیسے کسی بڑے سپرنگ نے اسے پیچھے کی سمت کھینچ لیا ہو۔ اب بندوق کندھے پہ جمائے اور کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے میں منتظر تھا کہ شیر فقط لمحہ بھر کے لیئے اپنا سر جھاڑیوں سے باہر نکالے اور مجھے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گا۔ وقت گزرتا گیا اور پھر مجھے شیر کی آواز سنائی دی۔ وہ جھاڑیوں کے عقب سے دبے پاؤں چل کر میرے درخت کے نیچے آ کھڑا ہوا تھا اور اب اپنے اگلے پنجوں سے درخت کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان درخت کے تنے کے گرد اگی ہوئی جھاڑیاں تھیں۔ جن کے باعث میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ شیر زور زور سے اپنے پنجے تنے کے گرد مار کر اس کی چھال کھرچ رہا تھا۔
میں جانتا تھا کہ کوّوں اور بندروں میں ظرافت کی حِس ہوتی ہے۔ لیکن اس روز مجھے پتا چلا کہ یہ حِس شیر میں بھی موجود ہے۔ نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ جنگلی جانور اس قدر خوش قسمت بھی ہو سکتا ہے جتنا یہ شیر تھا۔ گزشتہ پانچ دنوں میں اس نے پانچ گائیں ہلاک کی تھیں۔ میں نے کوئی آٹھ مرتبہ اسے دیکھا تھا اور کوئی چار مرتبہ اس پر گولی چلائی تھی۔ اور اب کوئی نصف گھنٹے تک میرے سامنے بیٹھ کر مجھے گھور کر اور اپنا شکار کھا کر میرے درخت کے گرد چکّر لگا رہا تھا۔ جیسے میرا مذاق اڑا رہا ہو۔
اس وقت مجھے مندر کے پجاری کے وہ فقرے یاد آ رہے تھے جو اس نے برآمدے میں بیٹھ کر اِس شیر کے متعلق کہے تھے۔ ‘جناب آپ اسے بے شک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔‘ پجاری نے جو کہا تھا شیر اسے ثابت کر رہا تھا۔ یہ میرا اور شیر کا آخری مقابلہ تھا۔ اس سارے وقت میں ہم دونوں کو کوئی ضرب نہ آئی تھی۔ لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ شیر اس طرح میرا مذاق اڑا کر آرام سے لوٹ جائے۔ میں نے بندوق گود میں رکھ لی اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں دے کر شیر کے وہاں سے ہٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں شیر پورے زور سے گرجا۔ آس پاس کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ تب شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا وادی کے نیچے اتر گیا۔ اتنے میں میرے آدمی بھی وہاں آ پہنچے۔ وہ کہنے لگے ‘ہم نے شیر کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی دُم ہوا میں اٹھی ہوئی تھی۔ اور یہ دیکھیئے اس نے درخت کا کیا حشر کیا ہے۔‘ کچھ دیر اور اگر شیر درخت کو یونہی نوچتا رہتا تو وہ گر ہی جاتا۔
دوسرے دن میں دیبی دھورا سے رخصت ہو گیا لیکن وہاں سے جانے سے پہلے میں نے اپنے دوستوں کو یقین دلایا کہ جب آدم خور چیتے کی سرگرمیاں یہاں بڑھ جائیں گی تو میں پھر آ جاؤں گا۔
بعد میں مجھے کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ لیکن میں نے کسی سے بھی یہ نہ سنا کہ کسی شکاری نے مندر کے شیر کو ہلاک کیا ہے۔
٭٭٭