اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


ٹری ٹوپس ۔۔۔ جم کاربٹ/ مترجم: سمیع محمد خان، ٹائپنگ: انیس الرحمٰن

جم کاربٹ کی آخری کتاب

ٹری ٹوپس

مترجم

سمیع محمد خان

ٹائپنگ: انیس الرحمٰن

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں…..

تعارف

جم کوربٹ نے سنہ ۱۹۵۲ میں ملکہ ایلزبتھ کے ٹری ٹوپس پر مدعو کیے جانے کا قصہ کینیا میں اپنے اچانک انتقال سے کچھ عرصے پہلے ۱۹ اپریل ۱۹۵۵ کو مکمل کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر اسی سال تھی۔ سنہ ۱۹۵۱ میں جب وہ انگلینڈ آئے تھے تو ان کے چہرے پر ضعیفی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس زمانے میں وہ انگریز فوجیوں کو برما کے محاذ پر لے جانے سے قبل سینٹرل انڈیا کے جنگلات میں ’جنگل وارفیئر‘ کی ٹریننگ دے رہے تھے، تو وہ سخت علیل ہو گئے تھے اور اس کے بعد وہ کبھی پوری طرح صحتیاب نہ ہو سکے۔

میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کتاب کے مطالعہ کرنے والوں کے خیالات ان سے کس حد تک مختلف ہوں گے۔ جو مرحوم کے دوستوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ایسے ناظرین جو ان سے واقف بھی تھے، ان کی تصانیف کو بہتر سمجھ سکیں گے۔ ایک عظیم پہلو اُن کی زندگی کا یہ تھا کہ اپنی زبان سے وہ کبھی ان تکالیف اور خطرات کا تذکرہ نہیں کرتے تھے جو آدم خور شیروں کے تعاقب اور ان کے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں پیش آتے تھے۔ غالباً ان کا یہ خیال تھا کہ یہ حادثات ان عظیم حیوانوں اور ان کے درمیان ایک ذاتی معاملہ تھا۔ جم کوربٹ ان کی قوّت اور ہمّت کا احترام کرتے تھے اور ان کی گستاخیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر جاتے تھے۔ جم کوربٹ سے واقف اشخاص کی کثیر تعداد ایسی تھی جن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے ہر دلعزیز ہونے کی وجہ سے کماؤں کے میدانی علاقوں سے لے کر فلک بوس پہاڑوں کے جھونپڑوں میں رہنے والے باشندوں تک ان کا نام عبادت کے طور پر لیا جاتا تھا۔ اگر جم کوربٹ کے دل میں ہندوستانی فوجی نابیناؤں کے تربیتی اسکول سینٹ ڈنسٹن کے لیے چندہ فراہم کرنے کا خیال پیدا نہ ہوتا تو ان کی مشہورِ عالم تصنیف ’کماؤں کے آدم خور‘ کا ۱۹۴۴ء میں شائع ہونا نا ممکن تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کتاب سے جمع ہونے والی رقم کے بارے میں ان کا اپنا اندازہ کتنا عاجزانہ تھا۔ ان کو کبھی اس حقیقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوا کہ جو واقعات وہ لکھ رہے تھے کس درجہ خوفناک تھے اور ان کے خوبصورت طرزِ بیان نے کس حد تک دلچسپ بنا دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے چند ماہ بعد ساری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی۔

چونکہ اپنی کہانیوں کہ وہ خود ہی محور تھے۔ اس لیے ان کی زندگی کے حالات اور گذر اوقات کے بارے میں روشنی ڈالنے کی کافی گنجائش ہے۔ جن ناظرین نے ان کی تصانیف ’مائی انڈیا‘ اور ’جنگل لور‘ پڑھی ہیں ان کو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ جم کوربٹ کثیر العیال خاندان کے ایک فرد تھے۔ جن کی پرورش موسمِ گرما میں نینی تال اور موسمِ سرما میں اس کے نیچے ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی بستی کالا ڈھنگی میں ہوئی۔ جہاں اس خاندان کی چھوٹی سی ملکیت تھی۔ اوائل عمری سے شکار ان کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا تھا اور اپنے اس شوق کو بطور فن اپنانے کے لیے بچپن ہی سے جنگل اور اس کے ماحول سے خود کو روشناس کرنے کی کوشش کی تاکہ آئندہ زندگی میں محدود ذرائع ہونے کے باوجود اپنا مقصد پورا کر سکیں۔ جنگل میں بغیر آہٹ کے چلنے کا فن جو بچپن میں سیکھا تھا۔ وہ ان کو ہمیشہ یاد رہا اور تمام عمر شکار میں اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کا فرق اور نشانوں کی پہچان کرنے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ جس کے نتیجے میں رائفل کے استعمال میں پھرتی اور نشانہ کی درستی میں کمال کی مطابقت پیدا ہو گئی تھی، جو ان کی آئندہ زندگی میں مفید اور معاون ثابت ہوئی۔

ان کے اوائل عمری کے ایک ساتھی نے بتایا کہ جوانی میں بھی وہ اپنی کامیابیوں پر کبھی فخر نہیں کرتے تھے۔ اچھا نشانہ لگانا ان کے نزدیک ایک فنی تقاضا تھا۔ جم کوربٹ اس اصول کے پابند تھے کہ جانوروں کو ہلاک کرنے کا طریقہ فوری ہونا چاہیے۔ تاکہ مرنے سے پہلے کی اذیت سے محفوظ رہ سکیں۔

نینی تال کے اسکول سے تعلیم ختم کرنے کے تھوڑے دن بعد ان کو ریلوے کے محکمے میں ملازمت مل گئی۔ ابتداء ایک معمولی عہدے سے ہوئی لیکن کچھ عرصے بعد محکمہ گھاٹ میں جہاں دریائے گنگ نے دو مختلف ریلوں کے درمیان خلا پیدا کر دیا تھا۔ ان کو سامان کے نقل و حمل کا افسر بنا دیا گیا۔ اس دریا کے اوپر اب تو بہت بڑا پل تعمیر ہو گیا ہے، لیکن پہلے لاکھوں من سامان بادبانی کشتیوں کے ذریعے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچایا جاتا تھا۔ کام کی نوعیت انتہائی سخت اور تکلیف دہ تھی لیکن اپنے قوت ارادی اور تحمل کی وجہ سے بیس سال تک ان فرائض کو نہایت خوش اسلوبی اور تندہی سے انجام دیتے رہے۔ اس کامیابی کا راز ان کا اپنے سینکڑوں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ انتہائی مشفقانہ برتاؤ اور ان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہونا تھا۔ اس خوشگوار تعلقات کا ثبوت پہلی جنگِ عظیم کے دوران کماؤں لیبر کور کا قائم کرنا اور ان کا بیرونِ ملک بھیجنا تھا۔ اسی کا ایک حصہ وہ خود فرانس لے کر گئے۔ جم کی عدم موجودگی میں محکمہ گھاٹ کے ہندوستانی ملازمین نے طے کیا کہ جم کی غیر حاضری میں کام اسی خوش اسلوبی سے جاری رہے تاکہ ان کو بحیثیت ٹھیکیدار نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ لڑائی کے دوران ان کو انڈین آرمی میں عارضی میجر کے عہدے سے نوازا گیا۔

لڑائی کے دوران انتہائی مصروفیات کی وجہ سے ان کو شکار کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہیں ملی لیکن تین مرتبہ جب وہ رخصت پر اپنے گھر کماؤں آئے تو دور دراز مقامات کے باشندوں کے تقاضے پر آدم خور شیروں سے نجات دلانے کے لیے ان کو جانا پڑا۔ ۱۹۰۷ اور ۱۹۱۱ کے درمیانی سالوں میں جم کوربٹ نے چمپاوت اور مکتیسر کے آدم خور شیر اور پانار کا تیندوا مارا۔ ان میں سے پہلے اور دوسرے نمبر کے آدم خوروں نے ۸۳۶ انسانوں کو لقمہ اجل بنایا تھا۔ ہمارے زمانے میں جتنے انسان شیروں نے کماؤں کے علاقے میں ہلاک کیے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثلاً سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ردراپریاگ کے آدم خور تیندوے نے تنہا ایک سو پچاس ۱۵۰ اشخاص کو ہلاک کیا تھا۔ یہ تیندوا اس وجہ سے اور بھی بدنام ہو گیا تھا کیونکہ یہ اس نواح سے تیرتھ پر جانے والے یاتریوں کو اپنا نشانہ بناتا تھا۔

محکمہ گھاٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اب وہ آزاد تھے۔ ان کی ضروریات محدود تھیں۔ غیر شادی شدہ تھے لیکن نینی تال اور کالا ڈھنگی میں ان کی دو جاں نثار بہنیں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ایک بہن‘‘میگی’’ جن کا تذکرہ جم نے اکثر اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد تک زندہ رہیں۔ اسی زمانے سے شیروں کے ساتھ خوفناک معرکوں کی ابتداء ہوئی۔ جن کا مفصّل حال انہوں نے نہایت خوبصورت انداز میں اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ہمّت اور چستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ردراپریاگ کے آدم خور تیندوے کو مارنے کی طویل داستان جس میں بھوکے پیاسے اور کئی دن بغیر سوئے تعاقب کرنے کا ذکر کیا ہے، اس وقت ان کی عمر اکیاون ۵۱ سال تھی۔ یہ ایام اتنے خطرناک حالات میں گزرے کہ وہ شکاری بھی تھے اور خود بھی شکار ہونے کے امکانات تھے۔ ٹھاک کا شیر مارتے وقت ان کی عمر تریسٹھ ۶۳ برس تھی۔ ان کی قوتِ برداشت اور حیوانوں سے مقابلہ کرنے کی قابلیت کا کچھ ٹھکانہ نہیں تھا۔

لیکن جو زندگی اب بسر کر رہے تھے اس کا ایک اور پہلو بھی تھا۔ ان کے نزدیک صحیح معنوں میں شکار کھیلنے کا مفہوم بدل گیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ شیر یا تیندوے جب تک مجبوراً انسانوں کی جانیں ضائع نہ کریں، بے ضرر ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں اور وہ ساتھ ہوتے اور پہاڑی علاقے کے رہنے والے ان کے پاس صرف ان کی مدد طلب کرنے آتے تھے۔ اس لیے کہ پورے کماؤں کو معلوم تھا کہ ان کی جان بچانے کی خاطر وہ آدم خور شیروں کے مارنے میں اپنی جان کی بازی لڑا دیتے تھے۔

مشاہدہ کرنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ جنگل کے ماحول کے بارے میں ان کی دلچسپی اب قدرت کے کرشموں سے محفوظ ہونے کی حد تک باقی رہ گئی تھی۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں ان کی سنگت سے زیادہ دلچسپ کوئی اور تفریح نہیں ہو سکتی تھی۔ کسی پتلی شاخ یا لکڑی کے چٹخنے کی آواز یا کسی جانور یا چڑیا کا بولنا ان کے نزدیک معنی رکھتا تھا۔ ان کے لیے قدرتی حالت اور ماحول میں جانوروں کی چلتی پھرتی تصاویر لینا شکار سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ کالا ڈھنگی کے جنگل میں میری نگاہ ان پر اس وقت پڑی جب وہ ایک خاردار جھاڑی کے اندر سے کانٹے ہٹاتے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ ایک شیرنی کا فوٹو لینے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن وہ بے حد غصّے میں تھی اور جتنی مرتبہ جم نے اس کے نزدیک جانے کی کوشش کی۔ شیرنی نے ان کو بھگا دیا۔ مسکرا کر کہنے لگے کہ اس کا قصور نہیں۔ اس بے چاری کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ان کو احساس تھا کہ ہر ماں اپنے بچوں کی حفاظت کے معاملے میں حساس ہوتی ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران حکومت نے فوجیوں کو جنگل میں لڑنے کی تربیت دینے کے لیے ان کو مامور کیا اور اسی سلسلے میں ان کو عارضی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ سنہ ۱۹۴۶ میں حکومتِ برطانیہ نے ان کو سی آئی ای کے خطاب سے نوازا اور ان کو ‘‘آزادیِ جنگلات’’ کا خطاب بھی عطا کیا۔ جو دنیا میں صرف ایک اور شخص کو دیا گیا تھا۔

سنہ۱۹۴۷ء میں پورے کماؤں کو غمزدہ چھوڑ کر اپنی بہن میگی کے ساتھ نیئری، کینیا، مشرقی افریقہ میں سکونت اختیار کی جس کی وجہ سے تصاویر لینے کا شوق جاری رہا۔ اگر یہ کتاب نہ لکھی جاتی تو ملکہ ایلزبتھ کے دورے کا حال بتانے والا کوئی نہ ہوتا۔

ہیلی، لندن،

ستمبر ۱۹۵۵ء

سر میلکم، ہیلی گورنر

یوپی

٭٭٭

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید