ردو تحریر میں اردو ادب کا پہلا آن لائن جریدہ
سَمت
شمارہ ۶۰
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۳ء
مدیر : اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں …..
اردو تحریر میں اردو کا پہلا ادبی جریدہ
سہ ماہی
سَمت
شمارہ ۶۰، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۳ء
مدیر: اعجاز عبید
سرورق عمل: مریم تسلیم کیانی
اداریہ
مجھے کہنا ہے کچھ……
نئے شمارے کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
پچھلے سہ ماہی کے دوران جہاں بر صغیر میں چاند کی دوسری ’ان چھوئی‘ طرف انسانی پہنچ کا خوش گوار واقعہ کامیابی کے ساتھ چندریان ۳ کی شکل میں وقوع پذیر ہوا تو دوسری طرف عالمی ادب میں ملان کنڈیرا کے انتقال کا سانحہ بھی واقع ہوا جسے ایک عہد کا خاتمہ کہا جا سکتا ہے۔ ملان کنڈیرا دنیا بھر کے ادب پر اس طرح اثر انداز رہے تھے کہ ان کو ہر زبان کے جریدے میں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے اور کیا جا رہا ہے۔ اردو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ چنانچہ سَمت میں بھی ان کا گوشہ شامل کیا جا رہا ہے، امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گا۔
پچھلے شمارے میں ظہیر احمد کا ’ڈیزائنر شاعری کا جدید مرکز‘ کے عنوان سے فکاہیہ شامل کیا گیا تھا جسے پسند تو کیا گیا لیکن کچھ قارئین نے ابن انشاء کی اسی قسم کی تحریر کی طرف توجہ دلائی جو ان کے مجموعے ’خمارِ گندم‘ میں شامل ہے۔ چنانچہ اسی شمارے میں ’گاہے گاہے باز خواں‘ سلسلے کے تحت وہ تحریر بھی شائع کی جا رہی ہے۔
اصغر وجاہت ہندی کے مشہور فکشن نگار رہے ہیں۔ ان کے ناول ’من ماٹی‘ کا اردو روپ ’خاکِ دل‘ کے نام سے اسی شمارے سے قسط وار شامل کیا جا رہا ہے۔
ا۔ع۔
عقیدت
نعت ۔۔۔ شبّیر نازشؔ
جسم و جاں میں گھر بساتی آرزو ہو جاؤں مَیں
انؐ لبوں سے ہونے والی گفتگو ہو جاؤں مَیں
وہ ہمیشہ کے لیے ہیں رحمت اللعالمیںؐ
اِک نظر وہؐ دیکھ لیں تو سرخرو ہو جاؤں مَیں
دشت و صحرا کے سفر میں وہؐ کریں پانی طلب
ایک لمحے سے بھی پہلے آب جو ہو جاؤں مَیں
مَیں رہوں تیّار شہرِ عِلم کی دہلیز پر
وہؐ کہیں شبّیر! ادب سے روبرو ہو جاؤں مَیں
کیا خبر وہؐ آج رات آ جائیں نازشؔ! خواب میں
نیند کے آنے سے پہلے با وضو ہو جاؤں مَیں
٭٭٭
اسمِ اعظم ۔۔۔ م م مغل
زندگی سوختہ تارِ آزار پر
رقص کرتی ہوئی
ایک مرد قلندر کی درگاہ پر ٹوٹ کر گر پڑی
آنسوؤں نے صداقت کے نوحے پڑھے
روشنی کی قطار میں اماوس شبی
دف بجاتے ہوئے شور کرنے لگیں
شور سناہٹوں کے جگر چیرنے پر کمر بستہ ہونے لگا
رسم راز و نیازِ مزار
اک بلند احمریں چیخ سے گونج اٹھی تو پھر
زندگی اپنے ہی آپ میں معتکف
تارِ انفاس پر نغمہ بننے لگی
مرشدی مرشدی مرشدی مرشدی
مجھ پہ لطف و کرم کی نظر کیجیے
دفعتاً اک ہیولیٰ مکانِ لحد سے اُٹھا
اور بکھری ہوئی زندگی کو محبت سے آواز دی
زندگی
زندگی سر اٹھاتی ہے چاروں طرف
سب مناجاتیوں کے سلگتے بدن سر جھکائے ہوئے
پھول کی پتیوں سے جبینوں کو آلودہ کرتے ملے …
زندگی نے تحیّر میں ڈوبے ہوئے
خالی خالی سوالی نگاہوں کے دامان کو
اس ہیولے کی جانب اس آواز کی سمت پھیلا دیا
مرشدی مرشدی
ایک اسم ایک اسم
اب ہیولیٰ نہ تھا صرف آواز تھی
’’ مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘
جاروب کشِ صحنِ طیبہ
۔۔۔
حاشیہ: مصرع از احمد رضا خاں بریلوی
٭٭٭
گاہے گاہے باز خواں
غزلیں ۔۔۔ آشفتہ چنگیزی
عجب رنگ آنکھوں میں آنے لگے
ہمیں راستے پھر بلانے لگے
اک افواہ گردش میں ہے ان دنوں
کہ دریا کناروں کو کھانے لگے
یہ کیا یک بہ یک ہو گیا قصہ گو
ہمیں آپ بیتی سنانے لگے
شگن دیکھیں اب کے نکلتا ہے کیا
وہ پھر خواب میں بڑبڑانے لگے
ہر اک شخص رونے لگا پھوٹ کے
کہ آشفتہ جی بھی ٹھکانے لگے۔
٭٭٭
دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
چوباروں کے سر پر خاک
شہر ملامت آ پہنچا
سارے مناظر عبرت ناک
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
تیری نظر سے بچ پائیں
ایسے کہاں کے ہم چالاک
دامن بچنا مشکل ہے
رستے جنوں کے آتش ناک
اور کہاں تک صبر کریں
کرنا پڑے گا سینا چاک
٭٭٭
گھروندے خوابوں کے سورج کے ساتھ رکھ لیتے
پروں میں دھوپ کے اک کالی رات رکھ لیتے
ہمیں خبر تھی زباں کھولتے ہی کیا ہو گا
کہاں کہاں مگر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتے
تمام جنگوں کا انجام میرے نام ہوا
تم اپنے حصہ میں کوئی تو مات رکھ لیتے
کہا تھا تم سے کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں
کبھی تو قافلے والوں کی بات رکھ لیتے
یہ کیا کیا کہ سبھی کچھ گنوا کے بیٹھ گئے
بھرم تو بندۂ ٴ مولیٰ صفات رکھ لیتے
میں بے وفا ہوں، چلو یہ بھی مان لیتا ہوں،
بھلے برے ہی سہی تجربات رکھ لیتے
٭٭٭
گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے
تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے
سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار
یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے
الاؤ ٹھنڈے ہیں لوگوں نے جاگنا چھوڑا
کہانی ساتھ ہے لیکن کسے سنائیں گے
سنا ہے آگے کہیں سمتیں بانٹی جاتی ہیں
تم اپنی راہ چنو ساتھ چل نہ پائیں گے
دعائیں لوریاں ماؤں کے پاس چھوڑ آئے
بس ایک نیند بچی ہے خرید لائیں گے
ضرور تجھ سا بھی ہو گا کوئی زمانہ میں
کہاں تلک تری یادوں سے جی لگائیں گے
٭٭٭
ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ۔۔۔ ابن انشا
(سَمت کے پچھلے شمارے (شمارہ ۵۹) میں ظہیر احمد کا مزاحیہ ’ڈیزائنر شاعری کا جدید مرکز‘ شامل تھا، قارئین نے اسے پسند کرتے ہوئے مدیر کو اس دلچسپ مضمون کی طرف توجہ دلائی۔ ان قارئین کے شکریے کے ساتھ)
پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانہ ہذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔ ناول اسلامی ہو یا جاسوسی، تاریخی یا رومانی۔ مال عمدہ اور خالص لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ناول مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔
پڑھنے کے علاوہ بھی یہ کئی کام آتے ہیں۔ بچہ رو رہا ہو۔ ضد کر رہا ہو۔ دو ضربوں میں راہ راست پر آ جائے گا۔ بلی نے دودھ یا کتے نے نعمت خانہ میں منہ ڈال دیا ہو۔ دور ہی سے تاک کر ماریے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ بیٹھنے کی چوکی اور گھڑے کی گھڑونچی کے طور پر استعمال ہونے کے علاوہ یہ چوروں ڈاکوؤں کے مقابلے میں ڈھال کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے مطالعے سے دل میں شجاعت کے جذبات خواہ مخواہ موجزن ہو جاتے ہیں۔ دوسرے اپنی ضخامت اور پٹھے کی نوکیلی جلد کے باعث۔ خواتین کے لیے ہمارے ہاں واش اینڈ ویئر (Wash and Wear) ناول بھی موجود ہیں تاکہ ہیروئن کا نام بدل کر پلاٹ کو بار بار استعمال کیا جا سکے۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلتا ہے۔ پندرہ بیس ناولوں کے لیے کافی رہتا ہے۔ واش اینڈ وئیر کوالٹی ہمارے اسلامی تاریخی ناولوں میں بھی دستیاب ہے۔ آرڈر کے ساتھ اس امر سے مطلع کرنا ضروری ہے کہ کون سی قسم مطلوب ہے۔ ۶۵% رومان اور ۳۵% تاریخ والی یا ۶۵% تاریخ اور ۳۵% رومان والی۔ اجزائے ترکیبی عام طور پر حسب ذیل ہوں گے۔
۱۔ ہیروئن۔ کافر دوشیزہ۔ تیر تفنگ، بنوٹ پٹے اور بھیس بدلنے کی ماہر۔ دل ایمان کی روشنی سے منور۔ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والی۔
۲۔ کافر بادشاہ۔ ہماری ہیروئن کا باپ لیکن نہایت شقی القلب۔ انجام اس کا برا ہوگا۔
۳۔ لشکر کفار۔ جس کے سارے جرنیل لحیم شحیم اور بزدل۔
۴۔ اہل اسلام کا لشکر۔ جس کا ہر سپاہی سوا لاکھ پر بھاری۔ نیکی اور خدا پرستی کا پتلا۔ پابند صوم و صلوۃ۔ قبول صورت بلکہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والا۔
۵۔ ہیرو۔ لشکر متذکرہ صدر کا سردار۔ اس حسن کی کیا تعریف کریں، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔
۶۔ سبز پوش خواجہ خضر۔ جہاں پلاٹ رک جائے اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، وہاں مشکل کشائی کرنے والا۔
۷۔ ہیرو کا جاں نثار ساتھی۔ نوجوان اور کنوارا تاکہ اس کی شادی بعد ازاں ہیروئن کی وفادار اور محرم راز خادمہ یا سہیلی سے ہو سکے۔
۸۔ کافر بادشاہ کا ایک چشم وزیر جو شہزادی سے اپنے بیٹے کی، بلکہ ممکن ہو تو اپنی شادی رچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چونکہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ لہٰذا ہیروئن کے التفات سے محروم رہتا ہے۔
پلاٹ تو ہمارے ہاں کئی طرح کے ہیں لیکن ایک اسٹینڈرڈ ماڈل جو عام طور پر مقبول ہے، یہ ہے کہ ایک قبیلے کا نوجوان دوسرے قبیلے کی دوشیزہ پر فدا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوشیزہ لامحالہ طور پر دوسرے قبیلے کے سردار کی چہیتی بیٹی ہوتی ہے۔ پانچ انگلیاں پانچوں چراغ۔ خوبصورت، سلیقہ مند، عالم بے بدل۔ لاکھوں اشعار زبانی یاد۔ کرنا خدا کا کیا ہوتا ہے، اس بیچ میں دونوں قبیلوں میں لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ ہمارا ہیر و محبت کو فرض پر قربان کر کے شمشیر اٹھا لیتا ہے اور بہادری کے جوہر دکھاتا، کشتوں کے پشتے لگاتا دشمن کی قید میں چلا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر طالب و مطلوب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اشعار اور مکالموں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہیروئن بی پہلے ایک جان سے پھر ہزار جان سے اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ راستے میں ظالم سماج کئی بار آتا ہے لیکن ہر دفعہ منہ کی کھاتا ہے۔ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔ آخر میں ناول حق کی فتح، محبت کی جیت، نعرہ تکبیر، شرعی نکاح، دونوں قبیلوں کے ملاپ اور مصنف کی طرف سے دعائے خیر کے ساتھ آئندہ ناول کی خوشخبری پر ختم ہوتا ہے۔
آرڈر دیتے وقت مصنف یا ناشر کو بتانا ہوگا کہ ناول پانچ سو صفحے کا چاہیے، ہزار صفحے کا یا پندرہ سو کا؟ وزن کا حساب بھی ہے۔ دو سیری ناول۔ پانچ سیری ناول۔ سات سیری ناول۔ پندرہ بیس سیری بھی خاص آرڈر پرمل سکتے ہیں۔ گاہک کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسی پلاٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ماحول کس ملک کا رکھا جائے۔ عراق کا؟ عرب کا؟ ایران کا؟ افغانستان کا؟ ہیرو اور ہیروئن کے نام بھی گاہک کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ ایک پلاٹ پر تین یا اس سے زیادہ ناول لینے پر ۳۳%رعایت۔
خواتین کے لیے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، گھریلو اور غیر گھریلو ہر طرح کے ناول بکفایت ہمارے ہاں سے مل سکتے ہیں۔ ان میں بھی محبت اور خانہ داری کا تناسب بالعموم ۶۵% اور ۳۵% کا ہوتا ہے۔ فرمائش پر گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ خانہ داری سے مطلب ہے ناول کے کرداروں کے کپڑوں کا ذکر۔ خاندانی حویلی کا نقشہ۔ بیاہ شادی کی رسموں کا احوال۔ زیورات کی تفصیل وغیرہ۔ ہیرو اور ہیروئن کے چچازاد بھائی اور بہنیں۔ سہیلیاں اور رقیب وغیرہ بھی مطلوبہ تعداد میں ناول میں ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے کارخانے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کے ناول مروجہ پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لکھے جاتے ہیں تاکہ بعد ازاں فلم ساز حضرات ان پر مزید فلمیں بنا سکیں۔ معمولی سی اجرت پر ان ناولوں میں گانے اور دو گانے وغیرہ بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس سے مصنف اور فلم ساز کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے۔ باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ مال کی گھر پر ڈلیوری کا انتظام ہے۔
بازار کے ناول بالعموم ایسے گنجان لکھے اور چھپے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ صفحے میں کم سے کم لفظ رہیں۔ مکالمے اور مکالمہ بولنے والے، دونوں کے لیے الگ الگ سطر استعمال کی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے،
شہزادی سبز پری نے کہا،
’’پیارے گلفام!‘‘
پیارے گلفام نے کہا،
’’ہاں شہزادی گلفام۔ ارشاد!‘‘
شہزادی سبز پری،
’’ایک بات کہوں؟‘‘
گلفام،
’’ہاں ہاں کہو۔‘‘
شہزادی،
’’مجھے تم سے پیار ہے۔‘‘
گلفام،
’’سچ!‘‘
شہزادی صاحبہ،
’’ہاں سچ!‘‘
گلفام،
’’تو پھر شکریہ!‘‘
شہزادی نے کہا،
’’پیارے گلفام۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا انسانی فرض تھا۔‘‘
ایک ضروری اعلان۔ ہمارے کارخانے نے ایک عمدہ آئی لوشن تیار کیا ہے جو رقت پیدا کرنے والے ناولوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایسا سین آئے، رونے کے بعد دو دو قطرے ڈراپر سے آنکھوں میں ڈال لیجیے۔ آنکھیں دھل جائیں گی۔ نظر تیز ہو جائے گی۔ مسلسل استعمال سے عینک کی عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ فی شیشی دو روپے۔ تین شیشیوں پر محصول ڈاک معاف۔ آنکھیں پونچھنے کے لیے عمدہ رومال اور دوپٹے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔
ابن انشاء
کتاب: خمار گندم
٭٭٭
یاد رفتگاں ۔۔ گوشہ میلان کنڈیرا
کچھ تذکرہ میلان کنڈیرا کا ۔۔۔ خالد جاوید
میلان کنڈیرا کی پیدائش یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں ہوئی۔ یہ ایک درمیانی طبقے کا خاندان تھا اور میلان کنڈیرا کے والد لڈوک کنڈیرا ایک موسیقار تھے۔ پیانو بجانے میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی، وہ مشہور چیک موسیقار لیوجینک کے شاگرد رہے تھے۔ میلان کنڈیرا نے خود بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔
میلان کنڈیرا کو موسیقی سے حد درجہ لگاؤ رہا ہے، یہاں تک کہ اُن کی تحریروں پر بھی موسیقی اور موسیقی کے اصول و ضوابط کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اپنے ناولوں میں ابواب کی تکرار، پلاٹ میں تنوع اور تبدیلی کا عمل اور تھیم یا موضوع کی وحدت وہ عوامل ہیں جن کو کنڈیرا نے باقاعدہ طور سے علم موسیقی کے ذریعے برتا ہے۔
اُس کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی کے بارے میں بخشیں ملتی ہیں۔ خاص طور پر ناول ’دی جوک‘ میں تو ایک طویل باب ہی موسیقی کے انتہائی دقیق اور پیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔
میلان کنڈیرا کو بچپن سے ہی ادب سے شغف رہا تھا۔ اُس نے اپنی پہلی نظم اُن دنوں لکھی تھی جب وہ ہائی اسکول کا طالبعلم تھا۔ ابتدائی دنوں میں کنڈیرا نے نظمیں ہی لکھی ہیں۔ اُس زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل تھا کہ کچی پکی نظمیں لکھنے والے میلان کنڈیرا کے قالب میں ہمارے عہد کے اہم ترین ناول نگار کی رُوح پوشیدہ ہو گی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اُس زمانے میں اُس کی تعلیم کا سلسلہ ملتوی ہو گیا تھا۔ کنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ چیکوسلوواکیہ کا ’ری پبلک‘ ہونا اُن کے لیے ایک خواب کے مانند رہا ہے۔
لہذا یہ عین فطری تھا کہ دوسری جنگ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پر جرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاص آئیڈیالوجی کی حامی ہو گئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنی کم عمری میں ہی چیکوسلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔
میلان کنڈیرا نے بعد میں پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کی اُس کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات میں بھی ڈگریاں حاصل کیں۔
سن 1952 میں کنڈیرا کا تقرر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں بطور عالمی ادب کے پروفیسر ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اُس نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے۔ اُس نے کئی اہم ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔
مگر اس سب سے پہلے کنڈیرا کی زندگی میں انتشار آمیز عناصر کی شمولیت ہو گئی تھی۔ وہ ایک بے چین زندگی گزار رہا تھا۔ 1948 میں وہ پراگ کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا تھا، مگر صرف دو سال بعد 1950 میں اسے پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کنڈیرا پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے بھی وہ شخصی اور انفرادی رجحانات سے آزاد نہیں رہ سکا تھا۔
حالاں کہ کنڈیرا نے 1956 میں پھر پارٹی جوائن کر لی تھی اور 1970 تک کسی نہ کسی طرح اپنی ممبر شپ کو برقرار رکھا۔
پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے ترجمے کیے، مضامین لکھے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ’مین اے وائیڈ گارڈن‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں دی لاسٹ مئی اور 1965 میں ’مونولاگز‘ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔
ان نظموں میں مارکسٹ آئیڈیالوجی کی چھاپ صاف نمایاں ہیں، مگر اس کے باوجود کنڈیرا اس کٹر قسم کی مارکسی فکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانے میں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔ کنڈیرا اس کٹر ین میں ایک انفرادی اور انسانی چہرے کا ہمیشہ حامی نظر آتا ہے۔ یعنی سب کچھ صرف پرولتاری تحریک، طبقاتی جد و جہد اور سوشلسٹ حقیقت نگاری ہی نہیں ہے۔
مگر 1955 میں اپنی طویل نظم ’دی لاسٹ مئی‘ میں اس نے جولیس فو یک کو خراج عقیدت پیش کیا جو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ایک طرح سے چیکوسلوواکیہ کا کمیونسٹ ہیرو بن گیا تھا کیوں کہ وہ چیکوسلوواکیہ کے نازی جرمنی کے قبضے کے خلاف ایک جنگ کا قائد تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ نظم کنڈیرا نے اپنی مرضی سے نہیں کہی تھی۔ اُسے با قاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کے طور پر لکھوایا گیا تھا اور کنڈیرا کو خود اس بات میں یقین نہ تھا جسے وہ زور شور کے ساتھ نظم کی ہیئت میں ڈھال رہا تھا۔
مگر مونولاگز کی بیشتر نظمیں محبت کی نظمیں ہیں۔ یہاں کسی قسم کا سیاسی پروپیگنڈہ نہیں ہے۔ بجائے اس کے انسانی وجود کے مختلف جہات کی تفتیش کی گئی ہے۔
میلان کنڈیرا کی زیادہ تر نظموں میں دبے چھپے وہ موضوعات یا خیالات پائے جاتے ہیں جو بعد میں اس نے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں کھل کر اور تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ خصوصاً دی جوک میں تو اس کی بہت سی نظموں کا خلاصہ موجود ہے۔
کنڈیرا اس زمانے میں صرف نظمیں ہی نہیں لکھ رہا تھا۔ وہ اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تیار کر رہا تھا۔ دی آنرس آف دی کیز اس نے 1962 میں لکھا تھا، جو اس سال پراگ کے نیشنل تھیٹر میں اسٹیج کیا گیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اس ڈرامے میں بھی کنڈیرا نے کمیونزم کی آمریت کو ایک نرم انسانی جہت دینے کی کوشش کی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ 1950 کے وسط سے ہی میلان کنڈیرا کمیونسٹ چکوسلوواکیہ کی ایک بے حد مشہور مقبول اور اہم ادبی شخصیت بن گیا تھا۔ اس کے مضامین کی شہرت دور دور پھیل چکی تھی۔ 1955 میں اس کا ایک بے حد اہم مضمون شائع ہوا جس کا عنوان آر گوئنگ اباؤٹ آور ان ہیریٹنس تھا۔ اس مضمون میں چیک کی ادبی وراثت اور یورپ کی آواں گارد شاعری، دونوں کا دفاع کیا گیا تھا۔
یورپ کی آواں گارد شاعری کی، ادعائیت پرست کمیونسٹ ادیبوں کے ذریعے بھر پور مذمت کی جاتی تھی مگر کنڈیرا کا موقف یہ تھا کہ یورپ کے آواں گارد یا زوال پرست شاعروں کے ان رجحانات یا عناصر کو قبول نہ کرتے ہوئے جن سے ایک سچے سوشلسٹ آرٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان عناصر کو قبول کرنے میں ایک سوشلسٹ شاعر کو عار نہ ہونا چاہیے جن سے اس کے مقاصد کو تقویت ملتی ہو یا جو اس کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہوں۔
یہی بات موسیقی اور مصوری پر بھی صادق آتی ہے۔ میلان کنڈیرا نے اپنے موقف کی حمایت میں لینن کا بھی حوالہ دیا، جس نے کہا تھا کہ صرف کٹر مادہ پرستوں نے ہی فلسفیانہ عینیت کو رد کیا تھا۔
سن 1960 میں میلان کنڈیرا کا ایک دوسرا اور طویل مضمون ‘دی آرٹ آف ناول: ’ولادیسلاو وینکورا جرنی ٹو دی گریٹ ایپک‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون کو کنڈیرا کی تحریروں میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مضمون میں کنڈیرا نے چیک ادیب اور کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ’وینکورا‘ کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ مضمون مکالمے کی شکل میں ہے۔
کنڈیرا نے فکشن کے بیانہ میں نئے تجربوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ وینکورا کے حوالے سے کنڈیرا نے ناول میں نغمیت، غیر ضروری نفسیاتی تشریح اور بیانیاتی اسلوب کی مخالفت کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اچھے فکشن کو ڈرامائی تناؤ یا ٹکراؤ پر مبنی ہونا چاہیے۔
مگر آج میلان کنڈیرا اپنی اس تحریر کو رد کرتا ہے۔ دراصل 1986 میں اس نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب دی آرٹ آف ناول لکھ کر اس مضمون کے نکات کو ایک بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ 1986 کے میلان کنڈیرا میں زیادہ پختگی ہے اور اس کا ذہن اب ان تمام بندشوں یا تعصبات سے آزاد ہو چکا ہے، جو اس کے اس ابتدائی دنوں میں کسی نہ کسی طور موجود تھے۔ اس کی وجہ اس کا کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہونا بھی سمجھا جانا چاہیے۔
مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ میلان کنڈیرا کے اس مضمون کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسے چیکوسلوواکیہ کے دو اہم ادبی ایوارڈ تفویض کیے گیے ۔ مضمون کو چیکوسلوواکیہ کے مارکسی ادب کا بہترین کارنامہ مانا گیا تھا۔
اب میلان کنڈیرا نہ صرف اس مضمون کو بلکہ اپنی تمام ان تحریروں کو رد کرتا ہے۔ جو اس کی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لووز (مضحکہ خیز محبتیں) سے پہلے کی ہیں۔ لاف ایبل لووز کی پہلی کہانی کو ہی میلان کنڈیرا اب اپنی پہلی تحریر مانتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ بطور ایک ادیب اس کی زندگی کی شروعات اس کہانی سے ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی اس کی نصف زندگی ایک گمنام چیک دانشور سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔ لاف ایبل لووز کی کہانیاں 1958 سے 1968 کے درمیان لکھی گئی تھیں۔
سن 1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہکار ناول دی جوک شائع ہوا۔ 1950 میں جب کنڈیرا کو کمیونسٹ پارٹی سے نکالا گیا تھا تو اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے چیک ادیب ژان تریفلکا کو بھی پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں باہر کر دیا گیا تھا۔ اپنے ناول دی جوک میں کنڈیرا نے اس واقعے کو بیان کیا ہے۔ (خود تریفلکا بھی اپنے ناول ہپینیس رینڈ آن دیم میں اسے لکھ چکا تھا جو 1962 میں شائع ہوا تھا)۔
اگر 1967 سے قبل کی میلان کنڈیرا کی تحریروں کا موازنہ اس کی بعد کی تحریروں سے کیا جائے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
دی جوک سے پہلے کی تحریروں کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ تو نکال سکتا ہے کہ ان کا مصنف ایک بے حد ذہین شخص ہے، مگر شاید ہی اسے یہ گمان ہو کہ یہ مصنف آگے آنے والے وقت میں دنیا کے عظیم اور اہم ترین ناول نگاروں کی صف میں شامل ہونے والا ہے۔
دی جوک کا شائع ہونا دراصل ایک تاریخ کا بننا تھا۔ دی جوک کے شائع ہونے کے بعد ساری دنیا میں میلان کنڈیرا کی شہرت پھیل گئی، اس کی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لوز کو بھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔
کنڈیرا نے اس دور میں کمیونسٹ پارٹی میں اپنی شمولیت برقرار رکھی، مگر ہمیشہ کی طرح وہ پارٹی کی آمریت سے غیر مطمئن تھا۔ وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں کچھ اصلاح یا ترمیم چاہتا تھا۔
اس مقصد کے لیے میلان کنڈیرا تنہا ہی کوشاں نہ تھا اس کے ساتھ بہت سے کمیونسٹ ادیب ایسے تھے جو ریفارمز چاہتے تھے مثلاً پاول کو ہوت جو 1968 کے ’پراگ اسپرنگ‘ میں میلان کنڈیرا کے ساتھ تھا مگر سدھار لانے کی ان سرگرمیوں کا یہ بہت مختصر سا وقفہ ہی رہا اور اگست 1968 میں چیکوسلوواکیہ پر سوویت روس کے حملے اور قبضے کے بعد تو ایسے ادیبوں کی تمام کوششوں کو کچل کر ہی رکھ دیا گیا۔
میلان کنڈیرا پھر بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنا چاہتا تھا۔ وہ چیکوسلوواکیہ کے کمیونزم میں ضروری ترمیمیں کیے جانے کا حامی تھا۔ اس نے اپنے دوست ادیب ویکلا وہاویل سے کہا تھا کہ اس کا حوصلہ پست نہیں ہوا ہے اور یہ کہ ’پراگ کے موسم خزاں کی اہمیت آخر میں پراگ کے موسم بہار سے بڑی ثابت ہو گی۔‘
’پراگ اسپرنگ‘ اصل میں اس تحریک کا نام تھا جو چیک کے کمیونزم میں ریفارمز چاہتی تھی۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تھی تو اس میں ایک انقلابی جوش و خروش شامل تھا مگر سوویت روس کے حملے کے بعد یہ تحریک مٹ گئی اس کے بعد میلان کنڈیرا کا حوصلہ جو یوں شاید نہ بھی پست ہوتا مگر یونیورسٹی سے اس کو نکال دیے جانے کے بعد اور پھر 1970 میں پارٹی سے بھی باہر کر دیے جانے کے بعد بری طرح پست ہو گیا۔
سن 1972 میں اس کا دوسرا ناول فیئرویل والٹز شائع ہوا جسے زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ کچھ عرصے تک کنڈیرا پراگ کے موسم خزاں میں اپنے خواب دیکھتا رہا اور اس کی کتابوں کے لیے چیک کی تمام لائبریریوں کے دروازے بند کر دیے گئے، یہی نہیں کسی پبلشر کو بھی اس کی کتاب چھاپنے کی آزادی نہ تھی۔
یہ دن کنڈیرا کے لیے بے حد پریشانی اور صدمے کے دن تھے۔ فیئرویل والٹز کے بعد اس کا تیسرا ناول مکمل ہو چکا تھا، لیکن وہ اسے شائع کرانے سے معذور تھا۔ بہر حال یہ ناول جس کا عنوان ’لائف از السویئر‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہو گیا۔ اگر چہ اسے شائع کرانے میں میلان کنڈیرا کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اب وقت آ گیا تھا، جب کنڈیرا کو اپنے خوابوں سے دستبردار ہونا تھا۔ آخر 1975 میں اس نے پراگ کو خیر آباد کہا اور فرانس آ کر رہنے لگا۔ رینیس کی یونیورسٹی میں اسے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مقرر کر لیا گیا تھا۔
سن 1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول دی بک آف لافٹر اینڈ فارگیٹنگ میں جو کچھ لکھا گیا تھا، اسے چیکوسلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔
سن 1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی۔
زمانہ وہ تھا جسے پراگ کے موسم بہار کا نام دیا جاتا ہے۔ میلان کنڈیرا کا پہلا ناول دی جوک اور کہانیوں کا مجموعہ لاف ایبل لوز شائع ہو گئے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اس کی یہ تصانیف فروخت ہو چکی تھیں۔ کنڈیرا چیکوسلوواکیہ کے کمیونزم میں ریفارم کرنے کی کوششوں سے حوصلہ نہیں بار رہا تھا مگر آہستہ آہستہ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے، روسی افواج کے چیکوسلوواکیہ پر قبضے کے بعد میلان کنڈیرا کو اپنی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ اس کی تمام کتابوں کو علمی اداروں اور عوامی لائبریریوں سے ہٹا دیا گیا۔
آخر ایک دن میلان کنڈیرا اور اس کی بیوی نے تھوڑی سی کتابیں اور کپڑوں کے کچھ جوڑے کار کے ٹرنک میں ڈالے اور فرانس چلے آئے۔ یہ کنڈیرا کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہی ثابت ہوئی کہ اس کا ضبط شدہ پاسپورٹ کچھ عرصے پہلے اسے واپس کر دیا گیا تھا۔
کنڈیرا اور سولنیسٹن جدید فکشن کی دنیا میں ڈکٹیٹر شپ کے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے موضوعات پر لکھنے والے دو سب سے اہم ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ سولنیسٹن کو جلا وطنی کے زمانے میں سوویت روس میں بے حد احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا مگر یہی بات کنڈیرا کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔ چیکوسلوواکیہ میں اسے اتنا احترام نہیں ملا جتنا باقی تمام دنیا میں اسے حاصل ہوا۔
یہ حیرت انگیز ہے کہ بین الاقوامی شہرت کے مالک کنڈیرا کو اس کے اپنے ملک میں بہت زیادہ قدر اور عزت سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ایک ’چیک‘ نہیں محسوس کرتا ہے۔ وہ خود کو ’یورپین‘ محسوس کرتا ہے۔ مشہور امریکی ادیب فلپ راتھ نے 30 نومبر 1980 کو میلان کنڈیرا سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کی اہمیت اس بات سے ہے کہ دو بڑے ناول نگار دنیا کے اہم مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے نظر آتے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے خیالات اس انٹرویو میں بہت کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ذیل میں میلان کنڈیرا کے جن افکار پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ زیادہ تر اسی انٹرویو سے مستعار ہے۔
فلپ راتھ کا کہنا تھا کہ میلان کنڈیرا کے ناولوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا جلد ہی تباہ ہونے والی ہے۔
میلان کنڈیرا کا جواب تھا کہ یہ احساس بہت قدیم ہے اور اگر کوئی احساس یا خیال اتنے زمانے سے انسان کے ذہن میں رہا ہے تو اس کی کوئی حقیقت تو ضرور ہو گی۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ چیکوسلوواکیہ پر روسی فوج کے حملے اور قبضے نے میلان کنڈیرا کی شخصیت پر گہرے اثرات قائم کیے ہیں۔
میلان کنڈیرا بار بار یہ کہتا ہے کہ 1968 میں روسیوں کے حملے کے بعد ہر چیک شہری کے سامنے یہ اندیشہ موجود تھا کہ اُس کا ملک یا اس کی قوم یورپ کے نقشے سے اچانک اور غیر محسوس طریقے سے غائب نہ ہو جائے۔ آخر پچھلی نصف صدی میں 40 ملین یوکرینین لوگ اچانک دنیا سے غائب ہو گئے تھے اور دنیا نے اس کا نوٹس تک نہ لیا۔ یہی صورت حال لتھوینیا کی بھی رہی ہے جو سترہویں صدی میں ایک بے حد طاقتور یورپی قوم تھی اور آج روسی انھیں کسی وحشی اور معدوم ہوتے ہوئے قبیلے کے بطور رکھے ہوئے ہیں اور یہ کام روسیوں نے اپنے ریزرویشنز یعنی اپنی شرائط پر کیا ہے۔
کنڈیرا کا خیال ہے کہ اسے تو پورا یورپ ہی اب بہت کمزور اور مٹ جانے والا محسوس ہوتا ہے۔ فلپ راتھ نے پوچھا تھا کہ فرانس میں ایک مہاجر کی حیثیت سے کنڈیرا کو کیا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کنڈیرا نے ایک بہت پتے کی بات کہی ہے کہ پراگ میں پیش آنے والے واقعات کو مغربی یورپ کی آنکھ کے ذریعے دیکھا گیا ہے مگر اس کے الٹ فرانس میں جو ہو رہا ہے اسے پراگ کے زاویہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ دو دنیاؤں کا ٹکراؤ ہے۔
ایک طرف میرا ملک ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک نے جمہوریت فاشزم، انقلاب، اسٹالن کی دہشت گردی سب کچھ دیکھ لی ہے۔ یہی نہیں اس ملک نے بعد میں اسٹالنزم کا بکھراؤ، جرمنی کا قبضہ اور پھر روسی افواج کا قبضہ اور بڑے پیمانے پر جلا وطنی کے تماشے بھی دیکھے۔ مغرب کو اپنے ہی گہوارے میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اس لیے یہ ملک تاریخ کے بوجھ سے دب کر رہ گیا ہے۔ یہ ڈوب رہا ہے اور دنیا کی طرف سوائے تشکیک کی نظر سے دیکھنے کے کچھ اور نہیں کر سکتا۔
مگر دوسری طرف فرانس ہے۔ صدیوں سے وہ دنیا کا مرکز رہا ہے، مگر آج بڑے تاریخی واقعات کے لیے ترس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس آج انتہا پسندانہ غیر عملی تصورات اور غنائیت کا مارا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ کسی عظیم واقعے کی تمنا میں گرفتار ہے۔ اسی کا انتظار کر رہا ہے مگر وہ واقعہ ہو کر نہیں ہوتا اور نہ شاید کبھی ہو گا۔
مگر کنڈیرا یہ بھی قبول کرتا ہے کہ وہ فرانسیسی کلچر کا بے حد گرویدہ ہے اور اس کے ادبیوں کا احسان مند بھی۔ فرانس کے ادبیوں میں رے بیل اُسے سب زیادہ پسند ہے اور دیدرو بھی۔ کنڈیرا دیدرو کی تصنیف جیکس دی فیٹلسٹ کا اتنا قائل ہے کہ اس ناول پر اس نے اپنا ڈرامہ جیکس اینڈ ہز ماسٹر لکھ ڈالا۔ اس ناول کو ’لارنس اسٹرن‘ کے ناول ٹراسٹم شینڈی، کے ساتھ رکھتے ہوئے کنڈیرا تاریخ کے عظیم ترین تجربے کا نام دیتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ خود فرانس کے ادب نے ان عظیم تجربوں کو فراموش کر دیا ہے۔ لارنس اسٹرن اور دیدرو دونوں نے ناول کو ایک بھر پور کھیل کی طرح برتا ہے۔ ناول کی فارم میں ان دونوں نے مزاح کے عنصر کو دریافت کیا ہے۔
کنڈیرا کا بیان ہے کہ اسٹالنی دہشت کے زمانے میں وہ پہلی بار مزاح کی اہمیت سے آگاہ ہوا۔ مسکراہٹ کے صرف ایک انداز سے وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ کون سا شخص اسٹالن کی آئیڈیالوجی کا پیروکار ہے اور کون نہیں، یعنی حس مزاح کسی آدمی کی شناخت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن گئی تھی کنڈیرا کو اُس دنیا سے ہول آتا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی حس مزاح کو کھوتی جا رہی ہے۔
ڈکٹیٹر شپ جہنم ہی نہیں ہے بلکہ جنت کا خواب بھی ہے ایک قسم کا یوٹوپیا، ایک خواب کہ ہر شخص مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اس دنیا میں رہے گا۔ آندرے بریتون کی آرزو تھی کہ وہ شیشے کے گھر میں جا کر بس جائے۔ دراصل ڈکٹیٹر شپ انسان کے باطن میں پائے جانے والے آرکی ٹائپ سے تشکیل پاتی ہے اسی لیے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اس میں شامل ہو جاتی ہے۔
کنڈیرا نے فرانس کے بڑے شاعر پال الیار پر سخت گرفت کی ہے اور اسے ’آمریت کا شاعر‘ قرار دیا ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پال الیار سرریئلزم سے تو بہ کر کے ایسی شاعری کرنے لگ گیا جس میں اخوت، انصاف، مستقبل اور امن کی باتیں ہوتی تھیں۔ وہ کامریڈ شپ کے بھی حق میں تھا۔ کلبیت کے خلاف تھا اور معصومیت کے حق میں تھا، مگر 1950 میں جب آمر حکمرانوں نے اُس کے پراگ کے ہمزاد زاویس کلاندرا (جو ایک سریلسٹ شاعر تھا) کے خلاف پھانسی کی سزا کا حکم سنایا تو الیار نے اپنے ہم مشرب کے جذبات کو آدرشوں کی خاطر قابل اعتنا نہ سمجھ کر پھانسی کے اس حکم نامے پر اپنی پسندیدگی کے دستخط کیے۔ جلاد نے پھانسی دی اور ہمارا شاعر نغمے سناتا رہا۔
میلان کنڈیرا عمیق غور و فکر اور باریک بینی کے ساتھ کیے گئے مشاہدے کے ساتھ اس چونکا دینے والے نتیجے تک پہنچا ہے کہ اسٹالنی دہشت گردی کا مکمل دور در اصل ایک اجتماعی اور غنائیت سے بھرا ہوا ہذیان تھا۔ لوگ برابر کہتے رہتے ہیں کہ انقلاب بڑی خوبصورت چیز ہے۔ جو دہشت اس سے پیدا ہوتی ہے وہ ضرور برائی ہے۔ مگر یہ ایک رومانوی اور غنائی رویہ ہے۔ ہر حسن میں برائی پہلے سے موجود ہے۔ جنت کے خواب میں جہنم ابتدا سے موجود ہے۔ آمریت کا عہد جنت سے گزرتا ہوا ’گولاگ‘ تک آ پہنچتا ہے۔
مگر آمریت کے عہد کی اس شاعری کو رد کرنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے، جتنا پہلے تھا۔ اگر چہ اب ساری دنیا ’گولاگ‘ کے تصور کو رد کرتی ہے، مگر اُس شاعری سے لطف اندوز اور اثر پذیر ہوتی رہتی ہے جسے میں ’آمریت کی شاعری‘ کا نام دیتا ہوں۔ میلان کنڈیرا کی فکر کی یہ نہج جتنی بصیرت آمیز ہے اتنی ہی بے رحم بھی۔
فلپ راتھ کا خیال تھا کہ میلان کنڈیرا کی نثر سیاست کی تحلیل نفسی کے فرائض بھی انجام دیتی ہے اور یہ حقیقت ہے کیوں کہ کنڈیرا کے مطابق سیاسی واقعات بھی انھیں قوانین کے پابند ہیں جن کے انسان کے نجی واقعات یہی نہیں بلکہ انسان کی مابعد الطبیعیاتی زندگی میں وہی سب پایا جاتا ہے جو اُس کی عوامی زندگی میں۔ انسان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ موت ہے کیوں کہ موت ذات کا انہدام کر دیتی ہے مگر آخر یہ ذات ہے کیا؟
اصل میں موت سے ہم اس لیے خوف کھاتے ہیں کہ ہمارا ماضی ختم ہو جائے گا یعنی ہمیں مستقبل کے تلف ہو جانے کا ڈر نہیں ہے۔ فراموشی موت کی ایک شکل ہی ہے۔ یہی کام ایک بڑی طاقت بھی کرتی ہے۔ وہ اپنی طاقت کے بل پر ایک چھوٹے سے ملک کو اس کے قومی شعور سے محروم کر دینا چاہتی ہے۔ یعنی فراموشی سیاست کا بھی ایک مسئلہ ہے۔
معاصر چیک ادب کو ابھی تک شائع نہیں کیا جا رہا ہے۔ دو سو چیک ادیب ایسے ہیں جن کی تحریروں کی اشاعت پر پابندی ہے۔ کافکا جیسا عظیم ادیب بھی ان میں شامل ہے۔ 145 چیک مؤرخوں سے اُن کے عہدے چھین لیے گئے ہیں۔ تاریخ کو دوبارہ لکھا جا رہا ہے۔ تاریخی یادگاروں کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ صاف ہے۔ ایک قوم جب اپنے ماضی کا ہی شعور کھو دے گی تو آہستہ آہستہ اپنی ذات کے عرفان سے بھی بیگانہ ہو جائے گی۔
فلسفہ وجودیت والے کچھ بھی کہتے رہیں۔ سیاست ذاتی زندگی کی میٹا فزکس کے اوپر سے پردہ ہٹاتی ہے اور ذاتی زندگی سیاست کی۔
اس لیے آمریت کی دنیا،(خواہ وہ مارکس کے نظریے پر مبنی ہو یا اسلام کے) میں جواب ہی جواب ہیں۔ سوال کوئی نہیں جوابوں سے بھری آمریت کی ایسی دنیا میں ناول کے لیے بھلا کوئی گنجائش کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ ناول کی آواز کو انسانی ایقانات کی بلند آہنگ حماقت کے اوپر سننا شاید ممکن نہیں۔
سن 1985 میں میلان کنڈیرا نے اولگا کارلیسیل کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس انٹرویو میں بھی میلان کنڈیرا نے چند اہم مسائل اور واقعات کے حوالے سے بڑے اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ حالاں کہ جگہ جگہ اس کے یہاں ایک ہی بات کی تکرار بھی ملتی ہے۔ اس انٹرویو میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میلان کنڈیرا پہلے بھی تفصیل کے ساتھ گفتگو کر چکا ہے۔
اولگا کارلیسیل کا بیان ہے کہ کنڈیرا شروع شروع میں اُس سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ میلان کنڈیرا اپنی ذاتی اور نجی زندگی کے بارے میں بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتا ہے۔ فلپ راتھ سے میلان کنڈیرا نے ایک بار کہا تھا کہ؛
’جب میں نیکر پہنے ہوئے ایک چھوٹا بچہ ہوا کرتا تھا، تب ہی سے میں کسی ایسے لیپ کا خواب دیکھا کرتا تھا جسے جسم پر لگا کر میں ناقابل دید بن جاؤں۔ پھر میں بالغ ہوا، لکھنے لگا اور کامیاب ہونا چاہا، اب میں کامیاب ہوں اور وہ لیپ حاصل کرنا چاہتا ہوں جو مجھے دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکے۔‘
وہ اولگا سے بادل نخواستہ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہوا۔ وہ بھی شاید اس سے کہ وہ اولگا کے دادا کی حیثیت سے واقف ہو گیا تھا۔ اولگا کے دادا لیوند ایندریف روس کے مشہور ڈرامہ نگار تھے۔ کنڈیرا نے اپنے جوانی کے دنوں میں انھیں پڑھا تھا اور پسند بھی کیا تھا۔ پھر بھی اُسے ہمیشہ سے ہی روس سے بدگمانی رہی تھی۔ اس لیے کنڈیرا نے اولگا کو پہلے ہی سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ صرف ادب کے موضوع پر گفتگو کر سکتا ہے۔ اپنے بارے میں یا اپنی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا اس کے مزاج کے خلاف ہے۔
کنڈیرا نے بتایا کہ اب وہ فرانس کو ہی اپنا وطن مانتا ہے۔ ’میں اب یہاں خود کو مہاجر محسوس نہیں کرتا۔‘ کنڈیرا نے ناول کے فن پر اپنی تینوں کتابیں فرانسیسی زبان میں ہی لکھی ہیں۔ شروع شروع میں وہ یہ چاہتا تھا کہ ناول چیک زبان میں ہی لکھے کیوں کہ اس کی زندگی کے تجربات، یادیں اور تخیل سب کچھ پراگ سے وابستہ تھا مگر اپنے ناول امورٹیلیٹی (بقائے دوام) کے بعد اس نے جو تین ناول لکھے ہیں وہ بھی فرانسیسی زبان میں ہی ہیں۔
روسی ادب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کنڈیرا نے کہا کہ اسے ٹالسٹائی بہت زیادہ پسند ہے۔ ٹالسٹائی دستوفسکی سے کئی گنا زیادہ ماڈرن ہے۔ ٹالسٹائی وہ پہلا ادیب ہے جس نے انسانی سرشت میں ارریشنل کے عنصر کو گرفت میں لیا ہے۔
’اننا کرنیا‘ کے تعلق سے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ اُس کی خود کشی اور خود کشی سے پہلے اس کے ذہن میں گونجتی ہوئی آواز یں دراصل شعور کی رو اور داخلی خود کلامیوں کے سلسلے سے تعبیر کی جا سکتی ہیں اور اسی طرح یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہو گا کہ داخلی خود کلامیوں کو جوائس سے پہلے ٹالسٹائی نے بھر پور تخلیقیت کے ساتھ اپنے ناول میں استعمال کیا تھا۔
اپنے ناول د ی بک آف لافٹر اینڈ فار گیٹنگ میں میلان کنڈیرا نے اپنے والد کا گہری انسیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کنڈیرا کے والد لڈوک کنڈیرا جدید موسیقار تھے۔ وہ کنسرٹ ہال میں جب بھی اپنی مشکل موسیقی پیش کرتے تھے تو کنسرٹ ہال تقریباً خالی رہا کرتے تھے۔ میلان کنڈیرا کے لیے یہ بہت تکلیف دہ یادوں میں سے ایک ہے۔ اسے اُس عوام سے نفرت ہو گئی جو ایگور سٹراونسکی کو سننے سے انکار کرتی تھی اور پیوٹر ایلیچ چائکوفسکی یا وولف گینگ موزارٹ پر اپنا سر دھنتی تھی۔
جدید آرٹ کے تئیں میلان کنڈیرا کا رجحان اس لیے اور بھی زیادہ قوی تر ہوتا چلا گیا۔ مگر اُس نے موسیقار بننے سے انکار کر دیا۔ کنڈیرا کو موسیقی سے بہت لگاؤ رہا ہے مگر شاید چند نفسیاتی وجوہات کی بنا پر وہ موسیقاروں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اپنے والد کی اعلیٰ اور ماڈرن موسیقی کو جس طرح نظر انداز کیا گیا۔ اسے وہ کبھی نہیں بھول سکا۔
کنڈیرا کا بیان ہے کہ جب وہ اور اُس کی بیوی چیکوسلوواکیہ چھوڑ کر جا رہے تھے تو وہ اپنے ساتھ صرف چند ہی کتابیں لے جا سکتے تھے۔ ان کتابوں میں سے ایک جان اپڈائيک کی کتاب دی سینٹور بھی تھی جس نے میلان کنڈیرا پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے کیوں کہ اس کتاب میں ایک شکست خوردہ اور ’بے عزت‘ کیے گئے باپ کے تئیں ایک کرب انگیز محبت کا بیان تھا۔
اولگا نے کنڈیرا سے ایک اہم سوال پوچھا تھا کہ بچوں کے حوالے سے اس کے نالوں میں عجیب و غریب بیانات پائے جاتے ہیں۔ کیا بچوں سے اسے کسی قسم کی شکایت ہے جبکہ جانوروں کے تئیں (بچوں سے زیادہ) وہ زیادہ نرم نظر آتا ہے؟
کنڈیرا نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے غیر متوقع اور انوکھا ہے۔ بقول کنڈیرا ’یہاں فرانس میں (اور دوسرے ممالک میں بھی) الیکشن سے پہلے ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے پوسٹر نکالتی ہے اور ہر پوسٹر میں ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔ مستقبل، ایک بہتر مستقبل کا نعرہ۔ اور ہر جگہ پوسٹروں میں مسکراتے ہوئے، دوڑتے ہوئے اور کھیلتے ہوئے بچوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔ مگر افسوس ہم انسانوں کا مستقبل بچپن نہیں ہے بلکہ بڑھایا ہے۔ معاشرے کی حقیقی انسانیت ضعیفی کے تئیں اس کے رویے سے آشکار ہوتی ہے مگر یہ بڑھاپا، وہ یقینی مستقبل جس کا ہم میں سے ہر ایک کو سامنا کرنا پڑے گا، کسی بھی پروپیگنڈے کے پوسٹر میں (بائیں بازو یا دائیں بازو والے) نہیں دکھایا جاتا۔‘
یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ میلان کنڈیرا کو دائیں بازو یا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کنڈیرا دنیا کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔ خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی رکھتا ہے؟
آمریت نہ دائیں ہے نہ بائیں اور اس کی حکومت میں دونوں نظریات پھل پھول سکتے ہیں۔
میلان کنڈیرا کہتا ہے کہ وہ مذہبی آدمی کبھی نہیں رہا مگر اسٹالنی دہشت گردی کے دور میں چیکوسلواکیہ کے کیتھولکوں پر جس بے رحمی کے ساتھ مقدمے دائر کیے گئے، ان کی بنا پر وہ ان سے ایک ہم آہنگی محسوس کرنے لگا۔ پراگ میں انھوں نے سوشلسٹوں اور پادریوں کو پھانسی پر چڑھایا اور اس طرح ان پھانسی چڑھنے والوں میں ایک بھائی چارہ پیدا ہوا۔
میلان کنڈیرا اس بات کو قبول نہیں کرتا ہے کہ ظلم اور جبر و استحصال آرٹ اور ادب میں ایک نئی زندگی پھونکتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ محض ایک رومانی رویہ ہے، جبر و استحصال کسی بھی کلچر کو مکمل طور پر تباہ کر دیتا ہے۔ کلچر کو ہمیشہ ایک عوامی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور آزاد تبادلۂ خیالات کی۔ کلچر کو اشاعتی ادارے چاہیے۔ بحث و مباحثے چاہیے اور کھلا پن چاہیے۔ کچھ عرصے تک آمری دور حکومت میں کلچر زندہ رہ سکتا ہے مگر طویل عرصے تک نہیں۔
سن 1968 میں روس کے حملے کے بعد تقریباً تمام چیک ادب کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ تہذیبی زندگی کی آزاد فضا کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ مگر پھر بھی 1970 تک چیک ادب شاندار بنا رہا۔ گروسا، ہربل اسی زمانے کے نثر نگار ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا مگر اس کے بعد؟ آخر کب تک ادب انڈر گراؤنڈ میں زندہ رہ سکتا ہے یورپ کے سامنے ایسے حالات پہلے کبھی نہیں آئے۔ کنڈیرا اپنے ملک کے حوالے سے مطلق مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔
اس نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جبر ناول کے لیے بھی بہت خطرناک ہے۔ یہ سنسر شپ اور پولیس سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ سیاسی جبر اخلاقیات کا بیڑہ اٹھانے کی بھی اداکاری کرتا ہے۔ وہ خیر و شر کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیتا ہے۔ دونوں کی سرحدیں یہاں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ اس لیے ناول نگار اپنا منصب بھول کر خیر و صداقت کی تبلیغ کرنے لگتا ہے۔ وہ لالچ میں پڑ جاتا ہے جبکہ ناول نگار کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ سچ کی تبلیغ کرے اس کا کام سچ کو دریافت کرنا ہے۔
وسطی یورپ کے حوالے سے تو یہ اور بھی زیادہ سچ ہے کیوں کہ چند اقدار ایسی ہیں جو کم از کم اس خطے میں تنقید کا نشانہ کبھی نہیں بنائی جا سکتیں۔ مثال کے طور پر نوجوانی کو عمر کا ایک پڑاؤ نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک قدر کا درجہ حاصل ہے۔ سیاست داں جب بھی اس لفظ (یوتھ) کو ادا کرتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک احمقانہ مسکراہٹ رقص کرنے لگتی۔
مگر کنڈیرا کا کہنا ہے کہ جب وہ جوان تھا اور خوف و دہشت کے عہد میں رہتا تھا تب وہ نوجوان ہی تھے جو کہ دہشت گردی کا دفاع کرتے تھے اور اسے پھیلانے میں مدد کرتے تھے۔ اس کا سبب نوجوانوں کی نا تجربہ کاری، نا پختہ ذہنی اور اخلاقیات کے ایک کچے پکے تصور کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ ساتھ ان نوجوانوں کی غنائی شاعری (لیریکل پوئٹری) تھی۔
میلان کنڈیرا نے اس موضوع پر اپنا ناول لائف از السویئر کے نام سے تحریر کیا ہے۔ اسٹالینی دہشت گردی کے زمانے میں شاعری کا ایڈونچر شاعری کی مسکراہٹ، معصومیت کی خونی مسکراہٹ۔
بقول کنڈیرا شاعری بھی ہمارے معاشرے میں ایک ایسی قدر ہے جس پر آپ انگلی نہیں اٹھا سکتے۔
فرانس کے کمیونسٹ شاعر پال الیار کی مثال سامنے ہے جس نے پراگ کے ادیب اور اپنے دوست کلاندرا کی پھانسی کی سزا پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
کنڈیرا کے ان خیالات کا علم ہونے کے بعد ہمیں اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اسے ذاتی زندگی میں کسی کی بھی مداخلت پسند نہیں ہے۔ جو شخص کسی کی نجی زندگی میں تاک جھانک کرتا ہے۔ اس سے زیادہ بھیانک گنہگار اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ میلان کنڈیرا کے ناولوں اور کہانیوں کے کرداروں میں اس کی اپنی سوانح کا کوئی سراغ یا کوئی عنصر سرے سے ناپید ہے، کنڈیرا کو فکشن میں سوانحی مواد شامل کرنے سے سخت نفرت ہے مگر شاید اس کا ازالہ وہ اس طرح کرتا رہتا ہے کہ اپنے ناولوں میں بحیثیت مصنف، اپنے تخلیق کردہ کرداروں کے اعمال اور حرکات و سکنات کا تجزیہ کرنے کے مقصد سے وہ وہاں ہمیشہ موجود ہے۔
بہر نوع، کنڈیرا کے خیال کے مطابق اس شخص کی زندگی جہنم ہے جو ہمہ وقت دوسروں کی نظروں کا مرکز بنا رہے اور ایک آمری حکومت میں یہی سب ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ نہ محبت اور نہ دوستی اور ناول؟ ناول مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ اس کے لکھنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ کنڈیرا کو انٹرویو دنیا پسند نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انٹرویو لینے والے اکثر اس کی نجی زندگی کے بارے میں سوال پوچھنا چاہتے ہیں اور کنڈیرا اپنی نجی زندگی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔
دوسری وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اکثر صحافیوں نے اس کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے جس کی وجہ سے کنڈیرا کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے کنڈیرا نے کسی کو انٹرویو دینے کے لیے، اپنے انٹرویو پر کاپی رائٹ کی شرط عائد کر دی ہے۔
سن 1989 میں لوئس اوپن ہئیم کو اپنا انٹرویو دیتے وقت میلان کنڈیرا نے بعض جرنلسٹوں کی اس غیر مناسب حرکت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
اس گفتگو کے دوران ایک دلچسپ امر یہ بھی سامنے آیا کہ کنڈیرا جتنے ناول نگاروں کا ذکر کرتا ہے وہ سب مرد ہیں۔ وہ کسی بھی خاتون ناول نگار کا ذکر نہیں کرتا۔
کنڈیرا کا جواب تھا (جو کم دلچسپ نہ تھا) کہ اسے ناول کے اپنے سیکس (جینڈر) میں دلچسپی ہے ناول نگار کے سیکس میں نہیں۔ بقول کنڈیرا ہر بڑا ناول بائی سیکچوئل (دوہری جنس) ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ناول، عورت اور مرد دونوں کی کائنات اور دونوں کے وژن کا اظہار کرتا ہے۔ ناول کا مصنف مرد ہے یا عورت، یہ اس کا نجی معاملہ ہے۔
میلان کنڈیرا اپنی غیر افسانوی تحریروں میں دی آرٹ آف ناول کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ ناول کے بارے اس کتاب میں اُس کے قطعی ذاتی اور خالص خیالات پائے جاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے انگریزی مترجم نے اس کتاب کا نام بدل کر اس کے آخری باب کا نام— مین تھنکس گاڈ لافز رکھنے کی صلاح دی تھی مگر میلان کنڈیرا نے ذاتی اور جذباتی وجوہ کی بنا پر اس صلاح پر عمل نہیں کیا۔ اسی طرح کنڈیرا اپنی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لوز کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ذاتی طور پریہ کتاب اُس کی سب سے زیادہ پسندیدہ کتاب ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں شامل کہانیوں کے ذریعے اُس نے پہلی بار اپنے آپ کو ایک ادیب اور تخلیق کار کی حیثیت سے دیکھا اور اپنی تخلیق کی مسرت سے سرشار ہوا۔ اس سے پہلے اُس نے موسیقار اور شاعر کی حیثیت سے بھی خود کو پہچاننے کی کوشش کی تھی مگر لاف ایبل لوز لکھنے کے بعد اُس نے ’اپنے آپ کو پا لیا‘۔ اُسے اپنے نثر نگار اور فکشن نگار ہونے کا انکشاف ہوا۔ آج کنڈیرا خود کو سوائے ایک نثر نگار، ایک فکشن نگار یا ایک ناول نگار ہونے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا۔ لاف ایبل لوز سے پہلے کی اپنی تخلیقی زندگی سے اُس نے خود کو پوری طرح دستبردار کر لیا ہے۔
تمام بین الاقوامی شہرت اور پذیرائی کے باوجود چیک ری پبلک میں کنڈیرا کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہے جو چیکوسلوواکیہ سے باہر ہے۔
ان کے ایک ناقد تومس کے خیال میں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جلاوطنی کے زمانے میں میلان کنڈیرا نے اپنی تحریروں کو خفیہ طور پر کمیونسٹ چیک میں پہنچانے سے انکار کر دیا تھا۔ تومس کا کہنا ہے کہ مگر یہ اقدام اُس نے خالص فنکارانہ اصولوں کے تحت اٹھایا تھا کیونکہ ہمیشہ سے ہی میلان کنڈیرا اپنی تحریروں کو اشاعت میں جانے سے پہلے اپنی نگرانی میں اُن کا ایک ایک لفظ پڑھنے کا عادی رہا ہے۔ زبان کو جس تخلیقی جہت کے ساتھ وہ استعمال کرنے کا عادی رہا ہے۔ اُسے دیکھتے ہوئے کنڈیرا کا یہ اقدام فطری نظر آتا ہے۔
آہستہ آہستہ کنڈیرا نے بعض وجوہات کی بنا پر اپنے چیک مترجموں سے بالکل ہی رشتہ توڑ لیا۔ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے اُس کے ناول مثلاً آئیڈنٹٹی، اگنورینس اور سلونیس کے چیک ترجموں کو اُس نے رکوا دیا۔ تومس کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیک کی ریڈر شپ دُنیا کی وہ اکیلی ریڈر شپ ہے جسے جدید ترین ناول اور مضامین پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔ میلان کنڈیرا نے جب چیک میں لکھنا ہی بند کر دیا اور صرف فرانسیسی زبان میں ہی لکھنے لگا تو اس قسم کی صورت حال کو اور بڑھاوا ملا یعنی چیک میں میلان کنڈیرا کی مقبولیت میں لگاتار کمی واقع ہوتی گئی۔ میلان کنڈیرا نے ایک بار یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اُس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اُس کے ناولوں یا دیگر تحریروں کا چیک زبان میں ترجمہ کرے۔
غور کیا جائے تو میلان کنڈیرا کے اندر کے ناول نگار کے ساتھ یہ سب بڑا ڈرامائی سا محسوس ہوتا ہے۔ چیک زبان کا ادیب ایسے حالات سے گزرتا ہے کہ اُسے اپنی مادری زبان میں ہی لکھنا بند کرنا پڑتا ہے اور وہ ایک یوروپین زبان میں خوشی خوشی (یا مجبوری کے تحت، غصے اور انتظام کے تحت؟) لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ جلاوطنی کے زمانے میں اُسے اپنے ملک سے کوئی رومانی اور لجلجے قسم کا لگاؤ نہیں پیدا ہوتا۔ وہ خود کو یورپین محسوس کرنے لگتا ہے۔ کلائمکس یہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان چیک میں اپنے ناولوں اور مضامین کے ترجمے بھی رکوا دیتا ہے۔
یہ سب انسانی زندگی کے ساتھ پیش آنے والا ایک ڈرامہ نہیں ہے تو کیا ہے۔ کنڈیرا اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی سراغ دے یا نہیں مگر راقم الحروف کے خیال میں میلان کنڈیرا کے نام سے صرف اسی صورت حال کے حوالے سے ایک ڈرامہ تو اسٹیج کیا ہی جا سکتا ہے۔ میلان کنڈیرا کے ساتھ ایک اور ستم ظریفی بھی ہوئی ہے جس کا یہاں ذکر کرنا نا مناسب نہ ہو گا۔
تیرہ اکتوبر 2008 کو ریسپیکٹ نام کے چیک ہفتہ وار اخبار نے چیک کے انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف ٹولیٹرین ریجیمز کے ذریعے جاری کی گئی ایک تفتیشی رپورٹ اہتمام کے ساتھ شائع کی، جس میں میلان کنڈیرا پر پولیس کی مخبری کا الزام لگایا گیا تھا۔ بات 1950 کی تھی۔ ایک چیک پائلٹ چیکوسلوواکیہ سے فرار ہو گیا تھا اور کچھ عرصے بعد مغربی دنیا کا جاسوس بن کر واپس ’خفیہ طور پر‘ چیک آگیا تھا۔
وہ اپنے ایک دوست کی سابقہ محبوبہ (جو طالب علموں کی ایک ڈورمیٹری کی مالک تھی) کے ہاسٹل میں آکر ٹھہرا تھا۔ اس زمانے میں اس کا اپنے ایک ہم جماعت سے معاشقہ چل رہا تھا۔ ( بعد میں دونوں نے شادی بھی کر لی تھی)۔ اس نے اپنے ہم جماعت کو اس چیک پائلٹ کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی میلان کنڈیرا سے دوستی تھی اور اُس نے یہ بات کنڈیرا کو بتا دی تھی۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق میلان کنڈیرا (اُس وقت ایک طالب علم) نے چیک پائلٹ کے بارے میں تمام معلومات پولیس کو بہم پہنچائیں اور بالآخر اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ کمیونسٹ آمری عدالت نے اُسے موت کی سزا سنائی مگر بعد میں اُسے بائیس سال کی عمر قید میں بدل دیا گیا تھا۔ جس میں سے چودہ سال اسے کمیونسٹ لیبر کیمپ میں گزارنا پڑے۔
اخبار میں اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ 14 اکتوبر 2008 کو میلان کنڈیرا نے ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئے اس الزام کی تردید کی۔ اس نے کہا کہ وہ نہ تو اس کو جانتا تھا اور نہ اُس کے حافظے میں کسی ایسی لڑکی کا نام موجود ہے۔ کنڈیرا نے اس رپورٹ کی تحقیق کرنے والے ایڈم ہراڈیلیک (جس نے اسے ہفتہ وار ریسپیکٹ میں شائع کرایا تھا) کی مذمت کرتے ہوئے اُس کے اس اقدام کو میلان کنڈیرا کی کردار کشی بتایا۔ کیوں کہ یہ رپورٹ ٹھیک اُس وقت شائع ہوئی جب جرمنی میں مشہور ادبی میلے یعنی فرینک فرٹ کا پہلا دن تھا اور دنیا کے تمام ادیب ہمیشہ کی طرح وہاں اکٹھا ہو رہے تھے۔ واضح ہو کہ ساری دُنیا میں فرینک فرٹ سے بڑا کوئی ادبی میلہ نہیں ہوتا۔
بہر حال یہ تنازعہ چلتا رہا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا بعد میں معلوم ہوا کہ اصل مخبر کوئی اور تھا۔
بہر حال پولیس ریکارڈ میں میلان کنڈیرا کا نام بطور ایک انفارمر موجود ہے۔
غور کرنے کی بات واقعی یہ ہے کہ چیک ہفتہ وار میں یہ رپورٹ اُس وقت کیوں شائع ہوئی جب فرینک فرٹ ادبی میلے کا انعقاد ہونے جا رہا تھا۔
کیا اس کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ میلان کنڈیرا کو ایک ادیب کی حیثیت سے منافق ثابت کیا جائے اور اُس کی امیج کو بگاڑ کر رکھ دیا جائے کیوں کہ اپنے ناولوں اور مضامین میں وہ ہمیشہ آمریت کے خلاف لکھتا آیا ہے اور بطور ایک ناول نگار اُس کی سب سے بڑی پہچان اس موضوع پر تواتر سے لکھتے رہنے کے باعث ہی قائم ہوئی ہے۔ لہذا اگر یہ مشہور کیا جا سکے کہ کنڈیرا نے کبھی آمری حکومت میں پولیس مخبری کا کام بھی انجام دیا تھا تو تمام دنیا میں اُس کے خلاف ایک منفی رائے عامہ قائم کی جا سکتی ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ سالوں میں سے اُسے نوبیل انعام کا سب سے بڑا حقدار تسلیم کیا جا رہا تھا۔ دُنیا کے کونے کونے میں پھیلی اُسے پڑھنے والوں کی ایک بڑی جماعت اور اُس کے ناولوں کے مداحوں کی ایک فوج یہی توقع رکھتی تھی۔ آج کے جمہوریت پرست دور میں (چاہے وہ ایک جھوٹی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو) کسی ادیب کے اس قسم کے تنازعے میں پھنس جانا انعام و اعزاز دینے والوں کی رائے کو متاثر تو کر ہی سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ادیبوں نے اسی پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ جرمنی کے اخبار نے کنڈیرا کا گنٹر گراس سے موازنہ کیا جس کے بارے میں کچھ سال پہلے یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ اُس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران وافن ایس ایس میں کام کیا تھا۔ چیک ادیب ایوان کلیما نے کنڈیرا کے تئیں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔
تین نومبر 2008 کو گیارہ بین الاقوامی شہرت کے مالک ادیب کنڈیرا کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے اور انھوں نے پوری طرح کنڈیرا کا دفاع کیا۔ ان ادیبوں میں گابرئیل گارشیا مارکیز، کارلوس فیونتیس، فلپ راتھ، اور حان پامک، جے ایم کنٹرے، اور نادین گار دیمر کے نام بھی شامل تھے۔
دوسری طرف میلان کنڈیرا نے نیوز ایجنسی کو بیان دیتے ہوئے یہ تو کہا کہ وہ اس پورے واقعے کو اس روشنی میں دیکھتا ہے کہ یہ پوری طرح اس کی کردار کشی کی ایک کوشش تھی اور یہ بھی کہ اس صدمے کے باوجود اس کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ وہ اسے برداشت کر سکتا ہے مگر اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ وہ چیک ہفتہ وار پر ہتک عزت کا کوئی مقدمہ دائر کرنے کا بھی کوئی ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔
اس نے یہ شکایت ضرور کی ’’فرینک فرٹ بک فیئر کے موقع پر اخبارات کے پاس میری آواز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ انہیں ایسے موقع پر مجھے صرف ایک سینٹی میٹر نہیں بلکہ ایک بڑی جگہ دینی چاہیے تھی تاکہ میں اپنی آواز وہاں رجسٹر کر سکوں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ میرے او پر لگائے گئے یہ الزامات بے حد سنگین ہیں۔ اور میں ان سے کتنا دل شکستہ ہوا ہوں، اخبارات نے مجھے اپنی پوری بات کہنے کے لیے موقع ہی نہیں دیا۔‘‘
آج اس واقعے کو گزرے کئی سال ہو چکے ہیں۔ میلان کنڈیرا کی شہرت جوں کی توں قائم ہے۔ اس کے قاری اس کی ایک ایک سطر پر جان دیتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے اسلوب کی تمام دنیا میں نقل کی جانے لگی ہے۔ یہاں تک کہ اس سے حسد رکھنے والوں یا ممکن ہے اس سے بے حد متاثر ہونے والے لوگوں نے اس کے اسٹائل کی پیروڈی بھی لکھی ہے۔ ’اے بک آف ناتھنگ‘ کے نام سے لکھی گئی پیروڈی بہت مشہور ہوئی ہے۔
٭٭
ماخذ:
http://thewireurdu.com/author/khalid-jawed/
https://sangatmag.com/latest/37160/
٭٭٭
میلان کنڈیرا: چیکوسلواکیہ کے فکشن نگار ۔۔۔ احمد سہیل
مجھے میلان کنڈیرا کے یہ دو اقوال بہت اچھے لگتے ہیں:
1۔ خاموشی محبت کی جان نکال دیتی ہے
2۔ ہماری زندگی کی سب سے بڑی مہم جوئی، ہماری زندگی کی مہم جوئی سے تہی ہونا ہے
ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پر اسرار ہے اور نیچے نطشے نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثر الجھا دیا ہے، یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اس طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے اور یہی باز گری خود کو لا متناہی طریقے پر اپنے کو دوہراتی ہے۔ یہ باولی اسطور کس بات پر دلالت کرتی ہے؟
’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘۔ تخلیق: میلان کنڈیرا : ترجمہ : محمد عمر میمن۔’ سمبل، راولپنڈی ،سال نامہ جولائی تا دسمبر 2007 ص 75)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میلان کنڈیرا یکم اپریل 1929 میں، پروکیوا، برنو، چیکوسلواکیہ { اب چیک ری پبلک} میں پیدا ہوئے ان کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا۔ ان کے والد لڈوک کوندرا (1891۔1971) موسیقار تھے ۔وہ موسیقی اور پیانو اکادمی کے ناظم تھے انھیں پیانو بجانے میں مہارت حاصل تھی۔ میلان کنڈیرا نے اپنے والد سے ہی پیانو بجانا سیکھا تھا۔ نوجوانی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو جنگ دویم میں جرمن نازی استعماریت کا نظریاتی رد عمل تھا۔ میلان کونڈیرا کے پچھلے چند عشروں کے دوران سب سے زیادہ مقبول لکھنے والوں میں سے ایک ہے۔ وہ ایک انتہائی درجے کے حساس ادیب ہیں ۔ اچانک انھوں نے عالم جوانی میں شاعری اور ناول لکھنا ترک کر دیا۔ 1950 میں ان کے نظریاتی اور سیاسی خیالات میں تبدیلی آئی۔ اور ان کے دوست جان ٹریفیکا کو ’جماعت شکن سرگرمیوں‘ کے الزام میں کمیونسٹ پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ میلان کنڈیرا نے پراگ یونیورسٹی میں ادب اور جمالیات کا مطالعہ کیا بھر 1952 میں کلیہ فلم سے متعلق رہے۔ بھر پراگ آرٹ اینڈ پرفارمنگ میں انھوں نے ہدایت کاری اور مکالمہ نگاری بھی کی۔ 1962 میں اپنی ناول Happiness Rained On Them لکھی ۔ جو ان کی 1957 میں لکھی ہوئی ناول ’لطیفہ‘(The Joke ) کے مرکزی خیال/ تھیم کو بنیاد بناتے ہوئے لکھی تھی۔ اس ناول میں چیلوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی کلیت کی فطرت کے جبر کو بیاں کیا تھا۔ 1975 میں انھوں نے جلاوطنی اختیار کی اور فرانس کی شہریت اختیار کی۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ ان کی کتابیں بطور فرانسیسی ادیب کے فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی کتاب ’بٹوہ انقلاب‘ (Velvet Revolution ۔1989) کمیونسٹ پارٹی کے زوال کا سبب بنی۔ کنڈیرا کی تحریروں اور فکریات پر رابرٹ مارسل، نطشے، جیوانی بیکاسو، روبیلیں، لورن اسٹیم، ہنری فیلڈنگ، ڈینس ڈرینڈ، ویسٹ اولڈ کومروویج، ہرمن براوئچ، فرانز کافکا، مارٹن ہیڈیگر، جارج سیرن، سال بیلو، کامیو، فلپ روتھ، سلمان رشدی اور کارلوس فینٹن کے واضح اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ کنڈیرا پر موسیقی کے اثرات میں بہت واضح اور بہت سی کتابوں پر تبادلہ خیال اور موسیقی اور پیانو بجانے کے ہنر کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے تجزیہ میں ہے ۔میلان کنڈیرا کے ناولز میں نطشے کی داخلی، مراجعت، بحران اور کشمکش نمایاں ہے۔ مگر وہ اس مراجعت کے اصل ’وجود‘ اور اس کو مابعد الطبیعیات تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ ان کے خیال میں معروضیت سے عدم معروضیت بنے کے بعد ہی نفی دانش بنتی ہے جب وہ باطن میں سرایت کر جائے۔ اور میلان کنڈیرا نطشے کی رجائیت کو مسترد کرتا ہے۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں سوویت یونین پر تنقید کرتے ہوئے چیکو سلواکیہ میں اپنے تخلیقی اور فکری کاموں پر پابندی کی وجہ سے کمیونسٹ استبدادی نظام کی نوعیتوں کو بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدائی نظمیں واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کمیونسٹ نظام کی وکالت نہ کرتے ہوئے کمیونسٹ نظریاتی/ سکہ بندی سے اغماض برتا ۔ میلان کنڈیرا نے لکھا ہے ’’1968ء میں جو لوگ فوری ترکِ وطن کرنا چاہتے تھے، میں ان میں سے نہیں تھا۔ میں نے فرانس جانے سے پہلے دو ناول لکھے تھے۔ اب میں لکھتا تھا اور کتاب مترجم کے حوالے کر دیتا تھا۔ میں نے اپنے کرداروں کو ہمیشہ باپ کی سی شفقت سے برتا۔ چونکہ میں خود بیوروکریسی کا ہدف رہ چکا تھا، اس لیے مظلومیت کی اتھاہ کو پہچانتا تھا۔ روس کے قبضے کے بعد سات سال تک میں وطن میں رہا۔ چونکہ میری نوکری ختم ہو گئی تھی۔ میری بیوی خفیہ طریقے پر انگریزی پڑھاتی رہی اور کچھ میری بچائی ہوئی رقم کام آئی۔ یوں میں لکھتا رہا۔ پھر میرے پاس نقل مکانی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔‘‘
’’مجھے اس سارے تجربے سے گزرنے سے ایک اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم جیسی چھوٹی قومیں اکثر یہی سوچتی رہتی ہیں۔ ہمارا ملک نہیں رہا تو کیا ہو گا۔ کوئی انگریز کوئی جرمن یا کوئی فرانسیسی ایسا فقرہ نہیں لکھے گا۔ جیسا کہ آپ کو میری تحریروں سے اندازہ ہو گا۔ مجھے جنونی لوگ پسند ہیں۔ میں ایسے ہی کردار تخلیق کرتا ہوں۔ جنونیت انسان میں ہوتی ہے۔ فاشزم انسانی ہے۔ کمیونزم انسانی ہے۔ قتل انسانی ہے۔ مگر جنت میں تو کسی نے کسی کو کچھ نہیں کہنا۔ وہ انسانی نہیں ہے۔ یہیں میں نے راوی کی تکنیک سیکھی تھی۔ میں اپنے کرداروں کے بارے میں سب کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ناول کی تاریخ، دراصل انسانی تاریخ کا آئینہ ہے۔ مجھے اپنے طور پر جوائس، پروست اور کافکا کا اندازِ تحریر بہت پسند ہے۔‘‘ {تعارف و ترجمہ: کشور ناہید}
امجد طفیل نے اپنے مضمون ’’میلان کنڈیرا کا ناول ’آہستہ روی (SLOWNESS)‘ میں لکھا ہے، ’’کنڈیرا کے ہاں رفتہ رفتہ فلسفیانہ تفکر گہرا ہوتا گیا ہے۔ اس نے اخلاقی، جنسی اور وجودیاتی مسائل کو ملا کر ایک نیا نظام وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسے بعض نقاد کنڈیرا کی مابعد الطبیعات سے موسوم کرتے ہیں۔ کنڈیرا نے اپنے ناولوں میں طاقت کے غلط استعمال، ماضی کو سیاسی حوالے سے دیکھنا، تصوراتی دنیا کے لیے کشش، تاریخ کی نوعیت، انسانی تعلقات اور ان سب کا انسانی وجود پر اثر جیسے فکری مباحث کو سمویا ہے۔ ان ثقیل مباحث کے ساتھ وہ اپنے ناول میں جمالیاتی لطافت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ وہ نجی زندگی اور اجتماعی زندگی کے ڈانڈے ایک دوسرے سے ملا کر ایک پیچیدہ تصویر بناتا ہے۔ انسان کی عدم تکمیل میں زندگی کے ادھورے پن کو تلاش کرتا ہے۔ IMMORTALITY میں اس نے تخلیقی طور پر اس سطح کو چھو لیا جو کم ناول نگاروں کے حصے میں آئی‘‘۔
کچھ سال پہلے اخبار میں، جان بن وِل نے اس کی اشاعت کے دو دہائیوں کے بعد ناقابل برداشت ہلکے پن کے بارے میں ایک دلچسپ ٹکڑا لکھا تھا۔ اس کے لہجے میں مدح تھی لیکن ہلکا سا شک بھی ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’مجھے حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ مجھے کتنا ہی کم یاد آیا۔ اس کے عنوان کے مطابق، کتاب میرے ذہن سے ایسی نکلی ہے جیسے گرم ہوا کا غبارہ اس کے درجہ حرارت سے بڑھتا ہے۔ ان کرداروں میں سے میں نے کچھ بھی برقرار نہیں رکھا، حتی کہ ان کے نام بھی نہیں۔‘‘ اس بات پر یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ اس ناول نے ابھی بھی اپنی سیاسی مطابقت برقرار رکھی ہے، انہوں نے مزید کہا: ’’بہرحال، احساس زندگی کے احساس سے موازنہ کچھ نہیں ہے جس میں واقعی عظیم ناول نگار بات چیت کرتے ہیں۔‘‘
میلان کنڈیرا عام طور پر فرضی کرداروں اور تیسرے شخص کی زبان سے کہانی سناتے اور بیان کرتے ہیں۔ گفتگو اور عقیدہ ظہور اور شخصیت کی خصوصیات کے جوہر کو واضح کرنے کے لئے بنیادی عنصر تصور کیا گیا ہے لیکن اس سے کہانی کے کردار کو سمجھا نہیں جاتا ہے اور اس کا مصنف یہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ قاری خودکار طور پر یقین کر لیتا ہے۔ مصنف کے تخیل کو سمجھ رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔کنڈیرا کے فلسفیانہ کام کی پیچیدہ ساخت کے اکثر کئی زبانوں کے ساتھ یہ ترجمے کے کام کے ساتھ تکلیف زدہ ہے، بہر حال، وہ اپنی تحروں کا ترجمہ وہ خود کرتے ہیں۔
یاسر چھٹہ نے اپنے مضمون ’’میلان کنڈیرا یہ کیا کیا‘‘ میں لکھا ہے: ’’جب کوئی لکھاری، کہانی کار، فکشن نویس، ڈیجیٹل مواد تخلیق کار، اپنے قاری، ناظر، سامع کو دکھاتا نہیں، بَل کہ، بتانے کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ یا تو:
- قاری، ناظر، سامِع کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کے تخلیق پارے کی تفہیم، تخلیق کار کے تخیل کی صناعی اور پیدا وار کو internalise کر سکے،
- یا، پھر وہ خود ابھی لکھنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن اعتماد کے کسی بلند تر dopamine نے انہیں تخلیقِ مواد، content creation، کے گہرے پانیوں کے اوپر اوپر تیرتے رہنے کو پھینک دیا۔
ایسا کرنا کم از کم دو نتائج پیدا کرنے کے تُخم اپنے اندر رکھتا سمجھا جا سکتا ہے:
- سطحیت، superficiality، کا خود کو نمونہ بنانا
- سطحیت بیانی کو عام کرنے، normalising، کی سستی سیاست میں غیر شعوری طور پر ساجھی دار بنتے جانا‘‘ (میلان کنڈیرا یہ کیا کیا: تخلیقیت اور showing بَہ مقابلہ telling پر شعوری ٹمٹماہٹ کی تصویر کشی ، ایک روزن ،21 دسمبر 2019 (https://www.aikrozan.com/milan-kundera-telling-showing-novel-prose/)
میلان کنڈیرا کا یہ کہنا کہ ’’ایک ناول کا واحد مقصدِ تخلیق انسانی وجود کے کسی نامعلوم گوشے کو منکشف کرنا ہے۔‘‘ انھوں نے ناول نگاری کی ساخت اسلوب اور فکر تخلیقیت اور اس کے قلب میں پوشیدہ بشری وجود کی بہترین تعریف پیش کی ہے۔ 1992 میں ناول کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر عالمی ادبی جریدے wasafiri نے بین الاقوامی ادیبوں کا ایک سروے شائع کیا جس میں سب نے اس حقیقت کو قبول کیا ہے کہ پچھلے پچیس سالوں میں گابرئیل گارسیا مارکیز کے اس عظیم ناول نے ساری دنیا کے ادب کو متاثر کیا اور نئی راہیں دکھائی ہیں۔۔
اردو میں بھی ان پر کچھ کتابیں، ان پر مضامین، ان کی کچھ کہانیاں، ناول کے کچھ حصے، شاعری کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ میلان کنڈیرا کی کتاب ’ناول کا فن‘ کا ترجمہ ارشد وحید نے کیا ہے۔ یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی ہے۔ میلان کنڈیرا کی تحریریں ’کائنات، قہقہے اور پریشانیاں‘ تفریح کی کتاب بھی لگتی ہے جن کی شناخت، آہستہ آہستہ سے محبت، ناول، زندگی کا فن اور کچھ جگہوں پر بقا اور جہالت کا نام بھی ہے جو معاشرے کو مصنوعی خول کو توڑنا چاہتی ہے۔
میلان کنڈیرا ان چند مصنفین کی صف میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے جو غیر موجودگی، یادداشت، فراموشی، اور مراجعت جیسے تصورات کو لے کر انھیں مہارت کے ساتھ ایک کثیر الکلامی اور متاثر کن کہانی میں تبدیل کرتا ہے۔
ان کی تحریروں کی مختصر تفصیل یہ ہے :
Novels
The Joke (Žert) (1967)
The Farewell Waltz (Valčík na rozloučenou) (Original translation title: The Farewell Party) (1972)
Life Is Elsewhere (Život je jinde) (1973)
The Book of Laughter and Forgetting (Kniha smíchu a zapomnění) (1978)
The Unbearable Lightness of Being (Nesnesitelná lehkost bytí) (1984)
Immortality (Nesmrtelnost) (1990)
Slowness (La Lenteur) (1995)
Identity (L’Identité) (1998)
Ignorance (L’Ignorance) (2000)
The Festival of Insignificance (La fête de l’insignifiance) (2014)
Short fiction[
Collection
Laughable Loves (Směšné lásky) (1969)
٭٭٭
میلان کنڈیرا کا ناول ’’دی جوک‘‘ (ایک مطالعہ) ۔۔۔ فیصل عظیم
ناول کی رفیقِ مطالعہ کتاب ۔ مصنّف: عبداللہ جاوید
Reader’s Companion، یعنی ’’رفیقِ مطالعہ کتاب‘‘ ایک ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں کسی ناول کا تجزیہ کیا جاتا ہے (ممکن ہے اس کے احاطے میں ناول کے علاوہ بھی اور تصانیف آتی ہوں)۔ ناول کے واقعات اور کرداروں کا یہ تجزیہ اس ترتیب میں نہیں ہوتا جس میں ناول لکھا ہوتا ہے۔ رفیقِ مطالعہ کتاب میں کہانی کے مختلف حصّوں کو مختلف زاویوں سے مختلف موقعوں پر دہرایا بھی جاتا ہے جس سے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے لہٰذا کچھ باتیں بار بار گھوم پھر کر آتی رہتی ہیں۔ واقعات، تاثر اور خیالات کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے مختلف کرداروں یا حوالوں کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح ایک بات کو مختلف فکری جہات سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس سے ایک قطعی تاثر کی جگہ مجموعی فضا بنتی ہے اور پڑھنے والا اس سے اپنے نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ کہانی کی وہ پیچیدگیاں جو ناول پڑھتے وقت نظر سے اوجھل ہوں، ان کی طرف اشارے ملتے ہیں اور بعض اوقات ان کے تانے بانے بھی جوڑے جاتے ہیں۔ اس عمل میں کبھی آپ ناول کے پچھلے حصّوں کی طرف جاتے ہیں، کبھی آگے، غرض کہانی یا کردار کا تجزیہ آپ کو ناول کے مختلف کمروں سے بار بار گزارتا رہتا ہے اور ساتھ میں ناول پڑھنے کا لطف بھی آتا رہتا ہے اگرچہ صبر ضروری ہے کہ یہ دہرانے کا عمل کچھ لوگوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔
اردو میں اس نوع کا کام کتنا ہوا ہے، ہوا ہے یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا۔ میرے لیے عبد اللہ جاوید صاحب کی یہ تصنیف جس کا عنوان ہے ’’دی جوک ۔ ایک مطالعہ ۔۔۔ ناول کی رفیقِ مطالعہ کتاب‘‘ اس کو پڑھنا ایک نیا تجربہ تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں میلان کنڈیرا (جنھیں وہ ملن کنڈیرا کہنا پسند کرتے تھے) کے ناول ’’دی جوک‘‘ کا مطالعاتی تجزیہ کیا ہے اور اس میں وہ ناول کے مختلف ادوار اور کرداروں سے آپ کو ملواتے ہیں اور ساتھ ہی مختلف سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے سوال بھی جو شاید آپ نے ناول پڑھتے وقت نہ سوچے ہوں۔ ناول خود ایک زبردست تحریر ہے اور کمیونزم، اس کے اسباب، اس کے نتائج، مسائل اور اس کا پیرو کاروں کا خود اپنے اصولوں کے متضاد نظام وغیرہ کی تصویر کشی ہے۔ جبر اور اس کے نتائج اور اس سے بیزاری کا احساس ملتا ہے۔ ان معاملات کو میلان کنڈیرا نے خوبصورتی سے دکھایا ہے اور عبداللہ جاوید نے اس کا بڑا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ ناول کے تجزیے کے بعد اس کتاب میں میلان کنڈیرا اور ناول سے متعلّق کچھ شخصیات کا ذکر ہے، فلسفے کے مختلف نظریات اور ان کے پیش کرنے والوں کا ذکر ہے، میلان کنڈیرا کے طرزِ تحریر پر مختلف ادبا اور نقّادوں کی رائے کے علاوہ خود عبد اللہ جاوید صاحب کا رائے موجود ہے اور آخر میں میلان کنڈیرا کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے۔
عبد اللہ جاوید صاحب شاعر، افسانہ نگار اور نقّاد تو تھے ہی مگر ان کا یہ تنقیدی کام روایت سے ذرا ہٹ کر ہے اور بہت قابلِ توجّہ ہے۔ اس پر بات کرنے اور شاید اس طرح کے مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوچیے کہ ’آگ کا دریا‘ کی رفیقِ مطالعہ کتاب ہمارے ذہنوں میں اس سے متعلّق جو سوالات ہیں، ان کے جواب ڈھونڈنے میں کتنی مدد کر سکتی ہے۔ کتنے ہی اسرار ہیں جن کے بارے میں ہم جاننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے اسے کس حد تک صحیح سمجھا ہے۔ ایسی کتاب ہمیں اس جہاں کی کیسی اچھی سیر کرا سکتی ہے جسے ہم مزید دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا کام اردو کے ان تمام ناولوں کے لیے ضروری ہے جو تہ در تہ پیچیدگی رکھتے ہیں۔
شہناز خانم عابدی صاحبہ جو خود بہت اچھی افسانہ نگار ہیں، ان کا کس قدر شکریہ ادا کروں جن کی عنایت سے مجھے ان کے شوہر جناب عبداللہ جاوید کی یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا اور اس تجربے سے میری آنکھوں پر ایک نئی دنیا کے منظر کھلنا شروع ہوئے۔ میرے خیال میں یہ کتاب اردو نثر سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو پڑھنا چاہیے۔
٭٭٭
کوئی نہیں ہنسے گا ۔۔۔ میلان کنڈیرا/ اجمل کمال
۱
’’مجھے تھوڑی اور وائن دینا،‘‘ کلارا نے کہا، اور میں بھی اس خیال سے غیر متفق نہ تھا۔ ہم دونوں کے لیے سلیوووِتس وائن کی نئی بوتل کھولنا یوں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ تھی، اور اِس بار تو اس کا معقول جواز بھی موجود تھا۔اس روز مجھے اپنے ایک تحقیقی مقالے کے آخری حصے کی اشاعت پر معاوضے کی خاصی بڑی رقم موصول ہوئی تھی جسے بصری فنون کا ایک پیشہ ورانہ رسالہ قسط وار شائع کر رہا تھا۔
اس مقالے کو شائع کرانا آسان کام ثابت نہیں ہوا تھا — میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ خاصا مناظراتی اور متنازعہ تھا۔ میرے پچھلے مقالے اسی باعث ’’جریدۂ بصری فنون‘‘ نے، جس کے مدیران عمررسیدہ اور محتاط لوگ تھے، رد کر کے لوٹا دیے تھے، اور پھر وہ اس کے مدمقابل ایک کم اہم رسالے میں ہی شائع ہو سکے تھے، جس کے مدیر نسبتاً جوان لوگ تھے اور زیادہ قدامت پرست نہ تھے۔
ڈاکیے نے یونیورسٹی میں رقم کے لفافے کے ساتھ ایک اور خط بھی پہنچایا تھا؛ ایک غیر اہم خط؛ صبح کے اس مبارک لمحے میں میں نے اس پر سرسری سی نظر ہی ڈالی ہو گی۔ مگر اب گھر پر، جب آدھی رات ہونے کو تھی اور وائن قریب قریب ختم ہو چکی تھی، میں نے اسے،ہم دونوں کی تفریحِ طبع کی خاطر، میز سے اٹھایا۔
’’معزز کام ریڈ، اور اگر آپ کی طرف سے اجازت ہو تو، میرے رفیق — میرے رفیق!‘‘ میں نے بلند آواز میں کلارا کو پڑھ کر سنایا۔ ’’یہ خط لکھنے پر مجھے، ایک شخص کو جس سے آپ کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی، معاف کیجیے گا۔ میں یہ خط آپ سے یہ درخواست کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ منسلکہ مضمون کو پڑھ لیجیے۔ یہ سچ ہے کہ میں آپ سے واقفیت نہیں رکھتا، لیکن ایک ایسے شخص کے طور پر آپ کا احترام کرتا ہوں جس کی آرا، مشاہدات اور اخذ کردہ نتائج حیران کن حد تک میری اپنی تحقیق کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں ؛ میں اس امر پر مکمل طور پر متعجب ہوں ۔ چنانچہ، مثال کے طور پر، اگرچہ میں آپ کے اخذ کردہ نتائج اور آپ کے نہایت اعلیٰ تقابلی تجزیے کے سامنے ادب سے سر جھکاتا ہوں، لیکن اس خیال کی جانب پُر زور انداز میں توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ چیک آرٹ ہر دور میں عوام سے قریب رہا ہے۔ میں نے یہ رائے آپ کا مقالہ پڑھنے سے پیشتر ظاہر کی تھی۔ میں اسے نہایت آسانی سے ثابت کر سکتا ہوں، کیونکہ، دیگر چیزوں کے علاوہ، میرے پاس گواہ بھی موجود ہیں ۔تاہم، یہ ایک غیر اہم بات ہے، کیونکہ آپ کا مقالہ…‘‘ اس کے بعد میرے علم و فضل کی مزید ستائش کی گئی تھی، اور پھر ایک درخواست: کیا میں اس کے لکھے ہوے مضمون پر تبصرہ لکھ سکتا ہوں، یعنی اس مضمون کے معیار کے بارے میں ’’جریدۂ بصری فنون‘‘ کے مدیروں کے نام ایک نوٹ، کیونکہ وہ لوگ چھ مہینے سے اس مضمون کو رد کرتے آ رہے ہیں ۔انھوں نے اسے بتایا تھا کہ میری رائے اس بارے میں فیصلہ کن ہو گی، چنانچہ میں اس مضمون کے مصنف کی آخری امید بن گیا تھا، مکمل تاریکی میں روشنی کی واحد کرن۔
ہم دونوں نے مسٹر زیتورتسکی کا خوب مذاق اڑایا، جس کے اشرافیہ جیسے نام نے ہمیں مسحور کر لیا تھا۔ لیکن یہ سب محض مذاق تھا؛ مذاق جس سے کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ تھا، کیونکہ اس نے مجھ پر مدح و ستائش کے جو ڈونگرے برسائے تھے انھوں نے نہایت عمدہ وائن کے ساتھ مل کر میری طبیعت میں ایک گداز پیدا کر دیا تھا۔ مجھ میں اس قدر گداز پیدا ہو گیا تھا کہ مجھے تمام دنیا سے الفت محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن تمام دنیا سے زیادہ، خاص طور پر کلارا سے، کیونکہ وہ اس وقت میرے سامنے بیٹھی تھی، جبکہ باقی پوری دنیا میری نظروں سے اوجھل، ورشووِتس محلے میں واقع میرے تنگ فلیٹ کی دیواروں کے دوسری طرف تھی۔ اور چونکہ اس وقت میرے پاس دنیا کو نوازنے کے لیے کچھ نہ تھا، اس لیے میں نے کلارا کو نوازا، کم از کم وعدوں سے۔
کلارا ایک اچھے خاندان کی بیس سالہ لڑکی تھی۔ اوہ، میں کیا کہہ گیا؟ اچھے خاندان کی؟ اعلیٰ ترین خاندان کی! اس کا باپ بینک منیجر رہ چکا تھا، اور سن پچاس کی دہائی میں اسے بالائی بورژوا طبقے کا نمائندہ قرار دے کر پراگ سے خاصی دور چیلاکووِتس کے گاؤں میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس کی بیٹی کا پارٹی ریکارڈ خراب تھا اور وہ پراگ کے ایک بڑے ملبوسات کے کارخانے میں درزن کے طور پر کام کرتی تھی۔ تعصب میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ میں نہیں مانتا کہ باپ کے صاحبِ جائیداد ہونے سے اس کی اولاد کے جینز پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، آج کون نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور کون امرا کے طبقے سے؟ سب کچھ اس قدر گڈمڈ ہو چکا ہے اور چیزیں ایک دوسرے سے اپنی جگہیں اس حد تک مکمل طور بدل چکی ہیں کہ بعض اوقات تو سماجیاتی اصطلاحات میں کسی بھی چیز کو سمجھنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ اس وقت اپنے سامنے ایک طبقاتی دشمن کو بیٹھا دیکھ کر اسے ذرا بھی طبقاتی دشمن محسوس نہیں کر رہا تھا؛ اس کے برعکس میں تو اپنے سامنے ایک حسین درزن کو بیٹھا دیکھ رہا تھا اور اس کے دل میں اپنے لیے زیادہ پسندیدگی پیدا کرنے کی کوشش میں خوش دلی کے ساتھ اسے اُس ملازمت کے فوائد سے آگاہ کر رہا تھا جو اپنے تعلقات استعمال کر کے دلوانے کا میں نے اس سے وعدہ کیا تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اس جیسی حسین لڑکی کے لیے سلائی مشین کے سامنے بیٹھے رہ کر اپنا حسن گنوا دینا انتہائی مہمل بات ہو گی، اور میں نے فیصلہ کیا کہ اسے ماڈل بننا چاہیے۔
کلارا نے ذرا بھی مزاحمت نہ کی اور ہم نے وہ رات نہایت مسرور افہام و تفہیم میں گزاری۔
۲
آدمی زمانۂ حال سے اس طرح گزرتا ہے کہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ جس تجربے سے وہ دراصل گزر رہا ہوتا ہے اس کے بارے میں اسے صرف اندازہ لگانے اور قیاس آرائی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ بعد میں، جب اس کی آنکھوں سے پٹی کھولی جاتی ہے، تب کہیں وہ مڑ کر ماضی پر نظر ڈالتا ہے اور تب اسے پتا چلتا ہے کہ وہ کس تجربے سے گزرا تھا اور اس کا مفہوم کیا تھا۔
اُس رات میں سمجھ رہا تھا کہ اپنی کامیابی کا جام نوش کر رہا ہوں، اور مجھے گمان تک نہ تھا کہ یہ دراصل میری بربادی کا آغاز ہے۔
اور چونکہ مجھے گمان تک نہ تھا، اس لیے اگلی صبح میں بہت اچھے موڈ میں بیدار ہوا، اور اگرچہ کلارا ابھی میرے پہلو میں لیٹی گہرے سانس لے رہی تھی، میں نے اُس خط کے ساتھ منسلک مضمون نکالا اور خوش طبع بے نیازی سے اس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالنے لگا۔
اس کا عنوان تھا: ’’میکولش آلیش: چیک ڈرائنگ کا ماہرِ فن استاد‘‘، اور یہ سچ مچ اس آدھے گھنٹے کی توجہ کا بھی مستحق نہ تھا جو میں نے اس پر صرف کی۔ یہ محض پیش پا افتادہ باتوں کا ایک بے ہنگم ڈھیر تھا جس میں کسی تسلسل کا پتا نہ تھا اور اس کے ذریعے کسی اوریجنل خیال کو پیش کرنے کی نیت کا نام و نشان تک دکھائی نہ دیتا تھا۔
یہ بات واضح تھی کہ یہ مضمون خالص لغویت پر مبنی تھا۔ اسی دن ’’جریدۂ بصری فنون‘‘ کے مدیر ڈاکٹر کلوسک نے (جو ویسے ایک غیر معمولی طور پر کینہ جو شخص تھا) فون پر میری رائے کی مزید تصدیق کر دی؛ اس نے مجھے یونیورسٹی میں فون کیا: ’’تمھیں میاں زیتورتسکی کا مقالہ مل گیا؟…تو ٹھیک ہے، اسے نمٹا دو۔ پانچ لیکچرر پہلے ہی اس کی خاصی حجامت کر چکے ہیں، پھر بھی وہ جھاڑ کے کانٹے کی طرح پیچھے پڑا ہوا ہے اس کے دماغ میں کہیں سے یہ بات گھس گئی ہے کہ تمھاری رائے ہی اس بارے میں مستند ہو گی۔ اسے دو جملوں میں بتا دو کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے وہ بکواس ہے، تم جانتے ہو یہ کس طرح کیا جاتا ہے، تمھیں زہر آلود باتیں کرنا خوب آتا ہے۔ بس، اس کے بعد ہم سب سکون سے رہ سکیں گے۔‘‘
لیکن میرے اندر کسی چیز نے احتجاج کیا: بھلا میں مسٹر زیتورتسکی کے جلاد کے فرائض کیوں انجام دوں؟ کیا اس کام کے لیے ایڈیٹر کی تنخواہ مجھے ملتی ہے؟ اس کے علاوہ، مجھے یہ بھی یاد تھا کہ ’’جریدۂ بصری فنون‘‘ نے میرا مقالہ ضرورت سے زیادہ احتیاط پسندی کے باعث رد کر دیا تھا؛ مزید یہ کہ مسٹر زیتورتسکی کا نام میرے ذہن میں کلارا، سلیوووِتس کی بوتل اور اس حسین شام سے مضبوطی سے وابستہ ہو چکا تھا۔ اور آخری بات یہ، میں اس سے انکار نہیں کروں گا، یہ ایک انسانی کمزوری ہے — میں ایسے لوگوں کو جو میری رائے کو استناد کا درجہ دیتے تھے، اپنے ہاتھ کی ایک انگلی پر گن سکتا تھا: میں بھلا اپنے اس واحد مداح کو کیونکر ہاتھ سے جانے دوں؟
میں نے گفتگو کو چالاکی کے ساتھ مبہم انداز میں ختم کیا، جو کلوسک کے خیال میں وعدہ اور میرے خیال میں معذرت تھی۔ میں نے رسیور اس مصمم ارادے کے ساتھ رکھا کہ مسٹر زیتورتسکی کے مضمون پر تبصرہ کبھی تحریر نہیں کروں گا۔
اس کے بجائے میں نے دراز میں سے لکھنے کا کاغذ نکالا اور مسٹر زیتورتسکی کے نام ایک خط لکھا، جس میں اس کے کام کے بارے میں کوئی رائے دینے سے احتراز کیا، اور یہ کہہ کر معذرت کی کہ انیسویں صدی کے آرٹ کی بابت میری آرا کو عموماً گمراہ اور سنکی پن پر مبنی خیال کیا جاتا ہے، چنانچہ میری مداخلت — خصوصاً ’’جریدۂ بصری فنون‘‘ کے مدیروں کے سلسلے میں — اس کے لیے کارآمد سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے مسٹر زیتورتسکی کو دوستانہ بسیار گوئی سے لاد دیا، لیکن اس میں میری طرف سے اس کے کام کی کسی طرح کی ستائش تلاش کرنا ناممکن تھا۔
خط کو لیٹر باکس میں ڈالتے ہی میں مسٹر زیتورتسکی کو بھول گیا۔ لیکن مسٹر زیتورتسکی مجھے بالکل نہیں بھولا۔
۳
ایک دن جب میں اپنا لیکچر ختم کرنے کو تھا — میں کالج میں آرٹ کی تاریخ کا مضمون پڑھاتا ہوں — کہ دروازے پر دستک ہوئی؛ یہ ہمارے شعبے کی سیکرٹری، میری تھی، ایک مہربان پختہ عمر کی خاتون، جو کبھی کبھی میرے لیے کافی بنا دیتی ہے، اور جب فون پر ناپسندیدہ نسوانی آوازیں سنائی دیں تو کہہ دیتی ہے کہ میں باہر گیا ہوا ہوں ۔ اس نے دروازے میں سر ڈال کر بتایا کہ کوئی صاحب مجھے تلاش کر رہے ہیں ۔
میں صاحبوں سے قطعی خوفزدہ نہیں ہوتا، چنانچہ میں نے طالب علموں سے معذرت کی اور خوش طبعی کے ساتھ باہر راہداری میں نکل آیا۔ پھٹیچر سا کالا سوٹ اور سفید قمیص پہنے ایک پستہ قد آدمی نے جھک کر مجھے سلام کیا۔ اس نے نہایت احترام کے ساتھ مجھے اطلاع دی کہ وہ زیتورتسکی ہے۔
میں اپنے مہمان کو ایک خالی کمرے میں لے گیا، اسے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی، اور خوشگوار انداز میں اس سے ہر ممکن موضوع پر باتیں کرنے لگا، مثلاً یہ اس سال گرمی کتنی پڑ رہی ہے اور پراگ میں کون کون سی نمائشیں چل رہی ہیں ۔ مسٹر زیتورتسکی شائستہ انداز میں میری باتوں سے اتفاق طاہر کرتا رہا، لیکن جلد ہی میرے کہے ہوے ہر فقرے کو اپنے مضمون پر منطبق کرنے لگا جو ہم دونوں کے درمیان غیر مرئی طور پر ایک ناقابلِ مزاحمت مقناطیس کی طرح پڑا تھا۔
’’آپ کے مضمون پر تبصرہ لکھنے سے زیادہ مجھے کسی اور بات سے خوشی نہیں ہو سکتی،‘‘ آخرکار میں نے کہا، ’’لیکن جیسا کہ میں خط میں وضاحت کر چکا ہوں، انیسویں صدی کے چیک آرٹ پر میری رائے مستند نہیں سمجھی جاتی، او راس کے علاوہ جریدے کے مدیر حضرات سے میرے تعلقات خراب ہیں، جو مجھے ایک سخت گیر جدیدیت پسند خیال کرتے ہیں، چنانچہ میرے لکھے ہوے مثبت تبصرے سے آپ کو صرف نقصان ہی پہنچ سکتا ہے۔‘‘
’’اوہ! آپ کس قدر منکسر مزاج ہیں ،‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے کہا، ’’آپ جیسا ماہرِ فن خود اپنے مقام کے متعلق اس قدر غلط فہمی میں کیونکر مبتلا ہو سکتا ہے! جریدے کے ادارتی دفتر والوں نے مجھے خود بتایا ہے کہ سب کچھ آپ کے تبصرے پر منحصر ہے۔ اگر آپ میرے مضمون پر اچھی رائے دے دیں تو وہ اسے شائع کر دیں گے۔ آپ میری واحد امید ہیں ۔ یہ مضمون میرے تین سال کے مطالعے اور تین سال کی محنت کا حاصل ہے۔ سب کچھ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
آدمی اپنے بہانے کتنی بے احتیاطی اور غیر ہنر مندی سے بناتا ہے! میری سمجھ میں نہ آیا کہ مسٹر زیتورتسکی کو کیا جواب دوں ۔ میں نے یونہی اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں مجھے نہ صرف چھوٹے شیشوں والی قدیم اور معصوم عینک دکھائی دی بلکہ اس کی پیشانی پر پڑا ہوا ایک طاقتور، گہرا عمودی بل بھی نظر آیا۔ مستقبل بینی کے ایک مختصر سے لمحے میں میری ریڑھ کی ہڈی میں کپکپی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ یہ بل، انتہائی مرکوز اور ہٹ دھرم، نہ صرف اس عقلی کرب کی غمازی کرتا تھا جس سے اس کا مالک میکولاش آلیش کی ڈرائنگوں کے سلسلے میں گزرا تھا، بلکہ ایک مضبوط قوتِ ارادی کی بھی۔ میں اپنی حاضر دماغی کھو بیٹھا اور کوئی ہوشیاری کا بہانہ تلاش نہ کر سکا۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ میں تبصرہ لکھنے والا نہیں، لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ مجھ میں یہ بات اس قابلِ رحم پستہ قد آدمی کے منھ پر کہنے کی ہمت نہیں ۔
تب میں مسکرانے لگا اور میں نے کسی مبہم چیز کا وعدہ کر لیا۔ مسٹر زیتورتسکی نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ جلد ہی دوبارہ آئے گا۔ ہم مسکراتے ہوے ایک دوسرے سے رخصت ہوے۔
چند دن بعد وہ واقعی آ گیا۔ اس روز تو میں نے ہوشیاری سے اس سے ملاقات کو ٹال دیا لیکن اس کے اگلے روز مجھے بتایا گیا کہ وہ مجھے یونیورسٹی میں ایک بار پھر ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ برا وقت میری طرف بڑھ رہا ہے؛ میں جلدی سے میری کے پاس گیا تاکہ مناسب قدم اٹھائے جا سکیں ۔
’’میری ڈیئر، میری تم سے التجا ہے، اگر یہ آدمی دوبارہ میری تلاش میں آئے تو اس سے کہہ دینا کہ میں کسی تحقیق کے سلسلے میں جرمنی گیا ہوا ہوں اور ایک مہینے میں لوٹوں گا۔ اور ایک بات اور جان لو: میری کلاسیں، جیسا کہ تمھیں معلوم ہے، منگل اور بدھ کو ہوتی ہیں ۔ میں انھیں خفیہ طور پر بدل کر جمعرات اور جمعے کو کر لیتا ہوں ۔ صرف طلبا کو اس کے بارے میں معلوم ہو گا، اور کسی کو مت بتانا، اور ٹائم ٹیبل کو بھی جوں کا توں رہنے دینا۔ مجھے قاعدوں کی خلاف ورزی کرنی ہی ہو گی۔‘‘
۴
بےشک مسٹر زیتورتسکی جلد ہی ایک بار پھر میری تلاش میں آیا اور جب سیکرٹری نے اسے اطلاع دی کہ میں اچانک جرمنی چلا گیا ہوں تو اس کی حالت قابلِ رحم ہو گئی۔ ’’لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ مسٹر کلیما کو میرے بارے میں تبصرہ لکھنا ہے۔ وہ اس طرح کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ ’’میں نہیں جانتی،‘‘ میری نے کہا۔ ’’لیکن وہ مہینے بھر میں لوٹ آئیں گے۔‘‘ ’’ایک مہینہ اور…‘‘ مسٹر زیتورتسکی کراہا: ’’اور آپ کو جرمنی میں ان کا پتا معلوم نہیں؟‘‘ ’’نہیں ،‘‘ میری بولی۔
چنانچہ میرا ایک مہینہ سکون سے گزرا، لیکن وہ مہینہ میری توقع سے جلد گزر گیا اور مسٹر زیتورتسکی ایک بار پھر دفتر کے باہر آ کھڑا ہوا۔ ’’نہیں، وہ اب تک واپس نہیں آئے،‘‘ میری نے کہا، اور بعد میں جب وہ کسی سلسلے میں مجھ سے ملی تو استدعا کے لہجے میں پوچھنے لگی، ’’تمھارا وہ چھوٹا ملاقاتی پھر آیا تھا، اب میں آخر اس سے کیا کہوں؟‘‘ ’’میری، اس سے کہہ دو کہ مجھے یرقان ہو گیا ہے اور میں جینا کے ایک ہسپتال میں داخل ہوں ۔‘‘ ’’ہسپتال میں!‘‘ جب میری نے چند روز بعد مسٹر زیتورتسکی کو اطلاع دی تو وہ چلّایا۔ ’’یہ نہیں ہو سکتا! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انھیں میرے بارے میں تبصرہ لکھنا ہے!‘‘ ’’مسٹر زیتورتسکی!‘‘ سیکرٹری نے ملامت آمیز لہجے میں کہا، ’’مسٹر کلیما کہیں غیرملک میں سخت بیمار پڑے ہوے ہیں اور آپ کو سوائے اپنے تبصرے کے کسی چیز کا خیال نہیں!‘‘ مسٹر زیتورتسکی یہ سن کر دبک گیا اور رخصت ہوا، لیکن دو ہفتے بعد پھر دفتر میں موجود تھا۔ ’’میں نے مسٹر کلیما کے نام ایک رجسٹرڈ خط جینا بھیجا تھا۔ وہ چھوٹی سی جگہ ہے، وہاں ایک ہی ہسپتال ہو گا، لیکن خط میرے پاس واپس آ گیا!‘‘ ’’تمھارا چھوٹا ملاقاتی مجھے پاگل کیے دے رہا ہے،‘‘ اگلے روز میری نے مجھ سے کہا۔ ’’مجھ پر بگڑنا مت، میں اس سے اور کیا کہتی؟ میں نے کہہ دیا کہ تم واپس آ گئے ہو۔ اب تم اس سے خود ہی نمٹنا۔‘‘
میں میری پر بگڑا نہیں ۔ وہ جو کچھ کر سکتی تھی وہی اس نے کیا۔ علاوہ ازیں، میں خود کو کسی بھی طرح ہارا ہوا محسوس نہیں کر رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ پکڑا نہیں جاؤں گا۔ میں تمام وقت روپوشی کی حالت میں رہتا۔ جمعرات اور جمعے کو خفیہ طور پر لیکچر دیتا؛ اور ہر منگل اور بدھ کو اسکول کے سامنے والے ایک مکان کے دروازے سے مسٹر زیتورتسکی کا نظارہ کر کے خوش ہوتا، جو اسکول کے باہر میرے نکلنے کا منتظر کھڑا رہا کرتا۔ مجھے باؤلر ہیٹ پہننے اور داڑھی لگانے کی خواہش محسوس ہوتی۔ میں خود کو شرلاک ہومز یا ان دیکھا آدمی محسوس کرتا جو نظر آئے بغیر چل پھر رہا ہو۔ میں خود کو چھوٹا سا لڑکا محسوس کرتا۔
لیکن ایک دن مسٹر زیتورتسکی اس پہرے داری سے تھک گیا اور میری پر ٹوٹ پڑا۔ ’’آخر مسٹر کلیما کہاں لیکچر دیتے ہیں؟‘‘ ’’ٹائم ٹیبل وہاں لگا ہوا ہے،‘‘ میری نے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا، جہاں ایک بڑے سے تختے پر سارے لیکچروں کی تفصیل مثالی انداز میں درج تھی۔
’’وہ تو میں دیکھ رہا ہوں ،‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے ٹس سے مس ہوے بغیر کہا۔ ’’لیکن مسٹر کلیما یہاں نہ منگل کو لیکچر دیتے ہیں نہ بدھ کو۔ کیا وہ بیمار ہیں؟‘‘
’’نہیں ،‘‘ میری ہچکچاتے ہوے بولی۔ اور تب وہ شخص میری پر برس پڑا۔ اس نے ٹائم ٹیبل کے کنفیوژن پر اسے ملامت کی۔ اس نے طنزیہ لہجے میں دریافت کیا کہ وہ کس طرح اس بات سے بے خبر ہو سکتی ہے کہ کس وقت کون سا استاد کہاں ہو گا۔ وہ میری پر چلّایا۔ اس نے کہا کہ وہ کامریڈ اسسٹنٹ کلیما کی شکایت کرے گا جو لیکچر نہیں دے رہے ہیں، جو انھیں دینے چاہییں ۔ اس نے پوچھا کہ آیا ڈین اپنے دفتر میں ہے۔
بدقسمتی سے ڈین اپنے دفتر میں موجود تھا۔ مسٹر زیتورتسکی دروازہ کھٹکھٹا کر اندر چلا گیا۔ دس منٹ بعد وہ میری کے دفتر میں واپس آیا اور میرے فلیٹ کا پتا دریافت کیا۔
’’نمبر ۲۰، اسکالنک اسٹریٹ، لیتومیشل،‘‘ میری نے کہا۔ ’’پراگ میں مسٹر کلیما کا عارضی پتا ہے جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے…‘‘ ’’میں آپ سے کامریڈ کلیما کے پراگ کے فلیٹ کا پتا پوچھ رہا ہوں ،‘‘ پستہ قد آدمی لرزتی ہوئی آواز میں چیخا۔
نہ جانے کس طرح میری اپنی حاضر دماغی کھو بیٹھی۔ اس نے اسے میرے فلیٹ، میری چھوٹی سی پناہ گاہ، میرے پیارے سے بھٹ کا پتا دے دیا، جہاں مجھے پکڑا جانا تھا۔
۵
ہاں، میرا مستقل پتا میتومیشل کا ہے؛ میری ماں، میرے دوست، اور میرے باپ کی یادیں وہیں مقیم ہیں ؛ جب بھی موقع ملتا ہے، میں پراگ سے بھاگ نکلتا ہوں اور گھر، اپنی ماں کے چھوٹے سے فلیٹ، میں بیٹھ کر لکھا کرتا ہوں ۔ تو اس طرح ہوا کہ میں نے اپنی ماں کے فلیٹ کو اپنا مستقل پتا لکھوا دیا اور پراگ میں کوئی مناسب بیچلر فلیٹ حاصل نہ کر سکا، جیسا کہ قاعدے سے میرے لیے کرنا ضروری تھا، بلکہ ورشووِتس کے علاقے میں واقع ایک مکمل طور پر پرائیویٹ اقامت خانے میں ایک کمرے پر مشتمل فلیٹ میں رہنے لگا، جس کے وجود کو میں اپنے امکان بھر چھپا کر رکھتا تھا۔ میں نے اپنے پتے کو کہیں رجسٹر نہیں کرایا تھا تاکہ میرے ناپسندیدہ مہمانوں کی میری متعدد عارضی نسوانی ہم نشینوں سے (جن کی آمدورفت، میں اقرار کرتا ہوں، نہایت بے قاعدہ تھی) غیر ضروری ملاقاتیں نہ ہوں ۔ اور ٹھیک اسی وجہ سے اس اقامت خانے میں میری شہرت زیادہ اچھی نہ تھی۔ مزید یہ کہ جب کبھی میں لیتومیشل گیا ہوا ہوتا تو کئی بار اپنا چھوٹا سا کمرہ دوستوں کو مستعار دے دیا کرتا، جو وہاں بےحد پُر لطف وقت گزارتے، اور اقامت خانے میں رہنے والے کسی شخص کو ایک پل بھی سونے نہ دیتے۔ ان تمام باتوں نے وہاں کے کئی مکینوں کو سخت چراغ پا کر دیا تھا اور انھوں نے میرے خلاف ایک خاموش جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ بعض موقعوں پر انھوں نے مقامی کمیٹی کو میرے خلاف منفی رائے ظاہر کرنے پر اکسایا تھا اور یہاں تک کہ اقامت خانے کے دفتر میں میرے خلاف شکایت بھی داخل کر رکھی تھی۔
ان دنوں کلارا کو چیلاکووِتس کے دور دست محلے سے اپنے کام پر جانے میں دقت ہوتی تھی، چنانچہ وہ رات کو میرے ہی پاس ٹھہرنے لگی تھی۔ پہلے پہل وہ متذبذب انداز میں کبھی کبھار وہاں رات گزارتی، پھر اس نے اپنا ایک جوڑا وہاں لا رکھا، پھر کئی جوڑے، اور بہت جلد میرے دو سوٹ الماری کے ایک کونے میں سمٹ گئے اور میرا چھوٹا سا کمرہ ایک زنانہ خواب گاہ میں بدل گیا۔
میں کلارا کو سچ مچ پسند کرتا تھا؛ وہ خوبصورت تھی؛ مجھے خوشی محسوس ہوتی جب ہم اکٹھے باہر نکلتے اور لوگ ہمیں مڑ مڑ کر دیکھا کرتے؛ وہ مجھ سے کم از کم تیرہ سال چھوٹی تھی، جس سے طالب علموں میں میری عزت بڑھ گئی تھی؛ میرے پاس اس کا اچھی طرح خیال رکھنے کی ہزار وجوہ تھیں ۔ لیکن میں یہ بات ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہ رہی ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ اقامت خانے میں ہمارے بارے میں چہ میگوئیاں اور افواہیں پھیل جائیں گی؛ مجھے ڈر تھا کہ کوئی میرے نیک دل مالک مکان پر ہلہ بول دے گا، جو سال کا بیشتر حصہ پراگ سے باہر گزارتا، اپنے کام سے کام رکھتا اور میرے معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھتا تھا؛ مجھے ڈر تھا کہ ایک روز وہ ناخوشی کے عالم میں اور بجھے ہوے دل کے ساتھ میرے پاس آئے گا اور مجھ سے، اپنی نیک نامی کی خاطر، اس نوجوان خاتون کو وہاں سے رخصت کر دینے کو کہے گا۔
کلارا کو خفیہ ہدایت تھی کہ کسی کے لیے دروازہ نہ کھولے۔
ایک روز وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ وہ ایک دھوپ بھرا دن تھا اور کمرے میں حبس سا تھا۔ وہ میرے دیوان پر، قریب قریب ننگی لیٹی، چھت کا جائزہ لینے میں محو تھی جب اچانک دروازے پر زور کی دستک سنائی دی۔
اس میں کوئی چونکنے والی بات نہ تھی۔ میرے پاس گھنٹی نہ تھی، اس لیے جو بھی آتا اسے دروازہ کھٹکھٹانا ہی پڑتا۔ چنانچہ کلارا نے اس شور و غل سے متاثر نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور چھت کا معائنہ کرتی رہی۔ لیکن دروازہ پیٹنے کا عمل ختم نہ ہوا؛ بلکہ اس کے برعکس نہایت مستقل مزاجی سے جاری رہا۔ اب کلارا کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ ایک ایسے شخص کو دروازے کے باہر ایستادہ تصور کرنے لگی جو آہستگی سے اور معنی خیز انداز میں اپنی جیکٹ کا کالر اونچا کر رہا ہے، اور جو کچھ دیر بعد اس پر جھپٹ کر سوال کرے گا کہ اس نے دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کیوں لگائی، وہ کیا چیز چھپا رہی ہے، اور آیا وہ رجسٹرڈ ہے۔ ایک احساس جرم نے اسے آ لیا؛ اس نے اپنی نظریں چھت سے ہٹائیں اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کپڑے کہاں اتارے تھے۔ لیکن دروازہ اتنی تن دہی سے متواتر پیٹا جا رہا تھا کہ اپنے اضطراب میں اسے کھونٹی پر لٹکی میری برساتی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آ سکا۔ اس نے خود کو برساتی میں لپیٹ لیا اور دروازہ کھول دیا۔
اسے کسی سوالیہ چہرے والے خطرناک شخص کے بجائے ایک پستہ قد آدمی دکھائی دیا جو تعظیماً جھک کر بولا، ’’کیا مسٹر کلیما گھر پر ہیں؟‘‘ ’’نہیں ہیں ۔‘‘ ’’اوہ، یہ تو برا ہوا،‘‘ چھوٹے آدمی نے کہا اور اسے پریشان کرنے پر اس سے معذرت کی۔ ’’بات یہ ہے کہ مسٹر کلیما کو میرے بارے میں ایک تبصرہ لکھنا ہے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اور اس کام کو جلد کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں کم از کم ان کے نام ایک پیغام چھوڑ سکتا ہوں ۔‘‘
کلارا نے اسے کاغذ پنسل دے دی، اور اُس شام میں نے پڑھا کہ میکولاش الیش کے بارے میں لکھے گئے مضمون کی تقدیر صرف میرے ہاتھوں میں ہے اور یہ کہ مسٹر زیتورتسکی نہایت احترام کے ساتھ میرے تبصرے کا منتظر ہے اور وہ مجھ سے یونیورسٹی میں ملنے کی دوبارہ کوشش کرے گا۔
۶
اگلے دن میری نے مجھے بتایا کہ کس طرح مسٹر زیتورتسکی نے اسے دھمکایا تھا، پھر جا کر اس شکایت کی تھی؛ اس کی آواز کپکپا رہی تھی اور وہ رو پڑنے کو تھی۔ میں طیش میں آ گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ بیچاری سیکرٹری، جو اب تک میرے آنکھ مچولی کے کھیل پر ہنستی رہی تھی (اگرچہ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ اس نے جو کچھ کیا وہ لطف اندوزی کی خاطر نہیں بلکہ میری مروت میں کیا تھا)، اب تکلیف محسوس کر رہی تھی اور قابل فہم طور پر اپنی تکلیف کا منبع مجھے سمجھ رہی تھی۔ جب میں نے ان تمام چیزوں میں اپنے پتے کے انکشاف، دس منٹ تک فلیٹ کا دروازہ پیٹے جانے اور کلارا کے خوفزدہ ہونے کو بھی شامل کر کے دیکھا تو میرا غصہ جلال کی حد تک جا پہنچا۔
جس وقت میں میری کے دفتر میں، بےچینی سے ہونٹ کاٹتا، اپنا خون کھولاتا، انتقام کے متعلق سوچتا، اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا، ٹھیک اس وقت دروازہ کھلا اور مسٹر زیتورتسکی نمودار ہوا۔
مجھے دیکھ کر خوشی کی جھلملاہٹ سی اس کے چہرے پر دوڑ گئی۔ اس نے جھک کر مجھے سلام کیا۔ وہ ذرا جلدی آ گیا تھا، یعنی اس سے پہلے کہ میں اپنے انتقام کے منصوبے پر اچھی طرح غور کر سکتا۔
اس نے پوچھا کہ آیا مجھے پچھلے روز اس کا چھوڑا ہوا پیغام مل گیا تھا۔
میں خاموش رہا۔ اس نے اپنا سوال دُہرایا۔ ’’مل گیا تھا،‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تو کیا آپ مہربانی کر کے تبصرہ لکھ دیں گے؟‘‘
میں نے اسے اپنے سامنے کھڑے دیکھا: نڈھال، ضدی، ملتجی۔ میں نے اس کے ماتھے کے عمودی بل کو دیکھا — دھات پر کندہ کی ہوئی لکیر، یکسو جنون کی علامت — میں نے اس عمودی لکیر کو غور سے دیکھا اور جان گیا کہ یہ دو نقطوں کو ملانے والی ایک سیدھی لکیر ہے، اور وہ دو نقطے ہیں اس کا مضمون اور میرا تبصرہ؛ اس جنونی سیدھی لکیر کی گرفت کے باہر اس کی زندگی میں سوائے ولیوں کی سی رہبانیت کے کچھ نہ تھا؛ اور ٹھیک اس وقت ایک معاندانہ ترکیب میرے ذہن میں آئی۔
’’اتنا تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ کل کے واقعے کے بعد میں آپ سے بات نہیں کر سکتا،‘‘ میں نے کہا۔
’’میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘
’’بننے کی ضرورت نہیں ۔ اُس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اب آپ کا اس سے انکار کرنا غیر ضروری ہو گا۔‘‘
’’میں آپ کی بات نہیں سمجھا،‘‘ چھوٹے آدمی نے اپنی بات پھر دہرائی؛ لیکن اس بار زیادہ فیصلہ کن لہجے میں ۔
میں نے خوش طبعی کا، تقریباً دوستانہ انداز اختیار کیا۔ ’’دیکھیے مسٹر زیتورتسکی، میں آپ کو قصوروار نہیں ٹھہراتا۔ میں بھی عورتوں کے تعاقب میں رہتا ہوں اور آپ کی کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں ۔اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو خود کو ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ تنہا پا کر، خاص طور پر جب اس نے ایک مردانہ برساتی کے نیچے کچھ نہ پہن رکھا ہو، اسے راہ پر لانے کی کوشش کرتا۔‘‘
’’یہ بڑی زیادتی ہے!‘‘ پستہ قد آدمی پیلا پڑ گیا۔
’’نہیں، یہ سچ ہے، مسٹر زیتورتسکی۔‘‘
’’کیا خاتون نے آپ کو یہ بات بتائی ہے؟‘‘
’’اس کے اور میرے درمیان کوئی راز نہیں ۔‘‘
’’کامریڈ اسسٹنٹ، یہ بہت بڑی زیادتی ہے! میں ایک شادی شدہ آدمی ہوں ۔ میری بیوی ہے! میرے بچے ہیں!‘‘ پستہ قد آدمی نے ایک قدم آگے بڑھایا، اور مجھے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔
’’یہ تو آپ کے لیے اور بھی بُرا ہے، مسٹر زیتورتسکی۔‘‘
’’اور بھی بُرا ہے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے شادی شدہ ہونا عورتوں کا تعاقب کرنے کے معاملے میں ایک خامی ہے۔‘‘
’’اپنی بات کو واپس لیجیے!‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے دھمکانے کے انداز میں کہا۔
’’اچھا، ٹھیک ہے،‘‘ میں نے اس سے اتفاق کیا، ’’شادی شدہ ہونا اس معاملے میں ہمیشہ رکاوٹ نہیں بنتا۔ اس کے برعکس کبھی کبھی یہ ہر چیز کا پردہ بھی بن بھی جاتا ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں آپ سے بالکل ناراض نہیں اور آپ کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔ صرف ایک بات ہے جو میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آپ ایک ایسے شخص سے اب بھی تبصرہ لکھوانا چاہتے ہیں جس کی عورت کو آپ نے پٹانے کی کوشش کی، یہ کیونکر؟‘‘
’’کامریڈ اسسٹنٹ! اکیڈمی آف سائنسز کے ’جریدۂ بصری فنون‘ کے مدیر ڈاکٹر کلوسک میرے مضمون پر آپ کا تبصرہ چاہتے ہیں ۔ اور آپ کو یہ تبصرہ لکھنا ہو گا۔‘‘
’’تبصرہ یا عورت۔ آپ دونوں کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔‘‘
’’یہ کس طرح کا طرزِ عمل ہے، کامریڈ؟‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے سخت طیش کے عالم میں چلّا کر کہا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مسٹر زیتورتسکی نے سچ مچ کلارا کو پٹانے کی کوشش کی ہو۔ غصے سے سلگتے ہوے میں نے چیخ کر کہا، ’’تمھاری یہ جرأت کہ مجھ پر چلّاؤ! تمھیں تو میری سیکرٹری کے سامنے مجھ سے معافی مانگنی چاہیے۔‘‘
میں نے مسٹر زیتورتسکی کی طرف پیٹھ موڑ لی اور وہ ہکا بکا سا لڑکھڑاتے قدموں سے باہر نکل گیا۔
’’افوہ!‘‘میں نے ایک ایسے جنرل کے انداز میں آہ بھری جس نے سخت مقابلے کے بعد کوئی لڑائی جیت لی ہو، اور میری سے کہا، ’’شاید اب وہ مجھ سے تبصرہ لکھوانے کا خیال چھوڑ دے گا۔‘‘
میری مسکرائی، پھر لمحہ بھر بعد ہچکچاتے ہوے بولی، ’’آپ آخر تبصرہ کیوں نہیں لکھنا چاہتے؟‘‘
’’کیونکہ، میری ڈیئر، اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ پرلے درجے کی بکواس ہے۔‘‘
’’تو آپ اپنے تبصرے میں یہی کیوں نہیں لکھ دیتے کہ یہ بکواس ہے؟‘‘
’’میں کیوں لکھوں؟ میں لوگوں کی عداوت کیوں مول لیتا پھروں …‘‘ لیکن اتنا کہتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ مسٹر زیتورتسکی اس کے باوجود میرا دشمن ہو چکا ہے، اور تبصرہ نہ لکھنے کی میری کوشش ایک بے مقصد اور لغو جدوجہد تھی — بدقسمتی سے میں نہ اب اسے روک سکتا تھا نہ پیچھے ہٹ سکتا تھا۔
میری ایک مہربان مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی، جیسے عورتیں بچوں کی حماقت کو دیکھا کرتی ہیں ؛ تب دروازہ کھلا اور مسٹر زیتورتسکی ایک بازو اوپر اٹھائے وہاں کھڑا دکھائی دیا۔ ’’مجھے نہیں، معافی آپ کو مانگنی ہو گی!‘‘وہ لرزتی ہوئی آواز میں چلّایا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
۷
مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ کب، اُسی دن یا اس کے چند دن بعد، اقامت خانے کے پوسٹ باکس میں ہمیں ایک لفافہ ملا جس پر کوئی پتا نہیں لکھا ہوا تھا۔
اندر ٹیڑھی میڑھی، تقریباً قدیم انداز کی لکھائی میں ایک خط تھا:
محترم خاتون،
میرے شوہر کی ہتک کے سلسلے میں براہ کرم اتوار کو میرے گھر آئیے۔ میں پورا دن گھر پر ہوں گی۔ اگر آپ نہ آئیں تو مجھے مجبوراً اقدامات کرنے ہوں گے۔
آنا زیتورتسکی، ۱۴ دالمیلووا اسٹریٹ، پراگ ۳۔
کلارا خوفزدہ ہو گئی اور میرے قصور کے بارے میں کچھ کہنے لگی۔ میں نے ہاتھ لہرا کر اعلان کیا کہ زندگی کا کام تفریح بہم پہنچانا ہے، اور اگر زندگی اس سلسلے میں کاہلی کا مظاہرہ کرتی ہے تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کام میں اس کی تھوڑی بہت مدد کریں ۔ آدمی کو مسلسل واقعات کے تیز رفتار گھوڑوں پر سواری کرنی چاہیے، کیونکہ ان کے بغیر وہ ریت میں قدم گھسیٹنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ مسٹر یا مسز زیتورتسکی سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہو گی، اور جس واقعے کے رہوار کی پیٹھ پر میں چھلانگ لگا کر جم گیا ہوں اسے اپنا ایک ہاتھ پیچھے باندھ کر بھی قابو میں لا سکتا ہوں ۔
صبح جس وقت ہم اقامت خانے سے باہر نکل رہے تھے، چوکیدار نے ہمیں روکا۔ یہ چوکیدار ہمارا دشمن نہیں تھا۔ میں نے احتیاط سے کام لیتے ہوے اسے ایک بار پچاس کراؤن کا نوٹ رشوت میں دیا تھا اور اب تک اس خوشگوار اطمینان میں زندگی بسر کر رہا تھا کہ اس نے میرے بارے کچھ نہ جاننا سیکھ لیا ہے، اور اس آگ میں تیل چھڑکنے سے احتراز کرتا ہے جو میرے دشمنوں نے وہاں جلا رکھی تھی۔
’’کل ایک میاں بیوی آپ کو تلاش کر رہے تھے،‘‘ اس نے بتایا۔
’’کس قسم کے لوگ تھے؟‘‘
’’ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا اور اس کی عورت ساتھ تھی۔‘‘
’’عورت کس حلیے کی تھی؟‘‘
’’اس سے دو سر اونچی۔ انتہائی پھرتیلی۔ تناور عورت۔ ہر قسم کی باتیں پوچھ رہی تھی۔‘‘ وہ کلارا کی طرف مڑا۔ ’’زیادہ تر آپ کے بارے میں ۔ کہ آپ کون ہیں اور نام کیا ہے۔‘‘
’’اوہ خدایا! تو تم نے اسے کیا بتایا؟‘‘ کلارا چلائی۔
’’میں کیا بتاتا؟ مجھے کیا خبر مسٹر کلیما سے ملنے والے کون کون ہیں؟ میں نے اس سے کہہ دیا کہ ہر رات کوئی اور آتا ہے۔‘‘
’’شاباش!‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور جیب سے دس کراؤن کا نوٹ نکالا۔ ’’بس اسی طرح کے جواب دیتے رہنا۔‘‘
’’ڈرو مت،‘‘ بعد میں میں نے کلارا سے کہا۔ ’’نہ تم اتوار کو کہیں جاؤ گی اور نہ کوئی تمھیں پا سکے گا۔‘‘
اتوار آیا اور گزر گیا؛ اتوار کے بعد پیر اور منگل اور بدھ؛ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ’’دیکھا،‘‘ میں نے کلارا سے کہا۔ لیکن پھر جمعرات کا دن آیا۔ میں اپنے خفیہ لیکچر میں اپنے طالب علموں کو بتا رہا تھا کہ کس طرح اور کیسے بے غرضانہ رفاقت کے ماحول میں فاؤوسٹوں (FAUVISTS) نے رنگوں کو ان کے سابق امپریشنسٹ کردار کی قیود سے رہائی دلائی، کہ اسی وقت میری نے دروازہ کھولا اور سرگوشی میں مجھ سے کہا، ’’اُس مسٹر زیتورتسکی کی بیوی آئی ہے۔‘‘ ’’لیکن میں تو یہاں نہیں ہوں ،‘‘ میں نے کہا، ’’اسے ٹائم ٹیبل دکھا دو۔‘‘ ’’دکھایا تھا، لیکن اس نے آپ کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو اسے آپ کی برساتی اسٹینڈ پر لٹکی دکھائی دے گئی۔ اسی وقت اسسٹنٹ پروفیسر زیلینی وہاں آ گئے اور انھوں نے اسے بتا دیا کہ یہ آپ کی ہی برساتی ہے۔ اب وہ راہداری میں آپ کے انتظار میں بیٹھی ہے۔‘‘
اگر قسمت زیادہ منظم انداز سے میرا تعاقب کر سکتی تو ممکن ہے میں ایک کامیاب شخص ہوتا۔ بند گلی ایک ایسی شے ہے جہاں میرے تخیل کو مہمیز ملتی ہے اور بہترین ترکیبیں سوجھتی ہیں ۔ میں نے اپنے ایک پسندیدہ طالب علم سے کہا:
’’مہربانی کر کے میرا ایک کام کر دو۔ میرے دفتر میں جاؤ، اسٹینڈ پر لٹکی ہوئی میری برساتی پہنو اور اسکول سے باہر نکل جاؤ۔ راہداری میں بیٹھی ایک عورت تمھیں روک کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ تم کلیما ہو۔ تمھارا کام یہ ہے کہ اس کا کسی قیمت پر اقرار نہ کرنا۔‘‘
طالب علم گیا اور کوئی چوتھائی گھنٹے میں لوٹ آیا۔ اس نے بتایا کہ مشن کامیابی سے پورا ہوا، مطلع اب صاف ہے اور عورت اسکول کی عمارت سے جا چکی ہے۔
چنانچہ اس بار میں جیت گیا۔ لیکن پھر جمعے کا دن آیا، اور سہ پہر کے وقت کلارا پتّے کی طرح کانپتی ہوئی اپنے کام سے واپس آئی۔
ملبوسات کے کارخانے کے صاف ستھرے دفتر میں جو شائستہ آدمی گاہکوں سے ملاقات کیا کرتا تھا، اس نے کارگاہ کی طرف کھلنے والا دروازہ کھولا جہاں کلارا اور پندرہ دوسری درزنیں سلائی مشینوں پر جھکی ہوئی کام میں مصروف تھیں، اور اونچی آواز میں کہا:
’’کیا تم میں سے کوئی نمبر ۵، پشکن اسٹریٹ پر رہتی ہے؟‘‘
کلارا جان گئی کہ اسی کو تلاش کیا جا رہا ہے، کیونکہ ۵، پشکن اسٹریٹ میرے ہی اقامت خانے کا پتا تھا۔ لیکن احتیاط نے اسے بولنے سے باز رکھا، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا میرے ساتھ رہنا ایک راز ہے اور اس سے کوئی واقف نہیں ۔
’’دیکھا، میں ان خاتون سے کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ جب کسی لڑکی نے جواب میں کچھ نہ کہا تو شائستہ شخص بولا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ کلارا کو بعد میں معلوم ہوا کہ ٹیلیفون پر ایک زنانہ آواز نے اسے پہلے کارخانے کے ملازمین کی فہرست کی چھان بین کرنے پر مجبور کیا اور پھر چوتھائی گھنٹے تک اس بات پر اصرار کرتی رہی کہ اس کارخانے میں کام کرنے والی لڑکیوں میں سے ایک نمبر ۵، پشکن اسٹریٹ پر رہتی ہے۔
مسز زیتورتسکی کا سایہ ہمارے پُر سکون کمرے پر پھیل گیا۔
’’لیکن اسے یہ کہاں سے پتا چلا کہ تم وہاں کام کرتی ہو؟ یہاں تو کوئی تمھیں جانتا نہیں!‘‘ میں نے زور سے کہا۔
ہاں، مجھے یقین تھا کہ ہمیں کوئی نہیں جانتا۔ میں کسی ایسے سنکی شخص کی طرح رہتا تھا جس کا خیال ہو کہ وہ اونچی دیوار کے پیچھے ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھ رہا، لیکن تمام وقت ایک تفصیل اس کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے: یہ اونچی دیوار شفاف کانچ کی بنی ہوئی ہے۔
میں نے چوکیدار کو رشوت دے کر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ اس کے یہاں میرے ساتھ رہنے کی بات کسی پر ظاہر نہ کرے، میں نے کلارا کو خود کو چھپائے رکھنے کے نہایت تکلیف دہ اور جھنجھلا دینے والے طریقے اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جبکہ اس مکان میں رہنے والے تمام لوگ اس کے بارے میں جانتے تھے۔ صرف اتنا ہوا تھا کہ ایک بار وہ دوسری منزل پر رہنے والی ایک عورت سے بے احتیاطی سے بات کر بیٹھی تھی، اور سب لوگ جان گئے تھے کہ وہ کہاں کام کرتی ہے۔ ہمیں شبہ تک نہ ہوا تھا کہ اتنے دنوں سے ہم سب کی نظروں کے عین سامنے وہاں رہ رہے تھے۔ ہمارے دشمنوں سے اگر کوئی چیز چھپی ہوئی تھی تو بس کلارا کا نام، اور یہ چھوٹی سی تفصیل کہ وہ وہاں میرے ساتھ اپنا نام رجسٹر کرائے بغیر رہ رہی تھی۔ یہی دو آخری راز تھے جن کی اوٹ میں چھپ کر ہم، فی الحال، مسٹر زیتورتسکی کو جُل دینے میں کامیاب ہو گئے تھے جس نے اپنا حملہ اس قدر مصمم اور منظم انداز میں کیا تھا کہ میں دہشت زدہ رہ گیا تھا۔
میں سمجھ گیا کہ معاملہ بہت دشوار ہو گا۔ میری کہانی کے گھوڑے کی زین اچھی طرح کسی جا چکی تھی۔
۸
یہ جمعے کا ذکر ہے۔ اور سنیچر کو جب کلارا کام پر سے واپس آئی تو اس پر پھر کپکپی طاری تھی۔
مسز زیتورتسکی اپنے شوہر کو ساتھ لے کر کارخانے پہنچی تھی۔ اس نے اپنی آمد کی پہلے سے اطلاع کر دی تھی اور منیجر سے اجازت حاصل کر لی کہ وہ دونوں کار گاہ کے اندر جا کر درزنوں کے چہروں کا معائنہ کر سکتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ اس درخواست نے کامریڈ منیجر کو حیرت میں ڈال دیا تھا، لیکن مسز زیتورتسکی کا انداز ایسا تھا کہ اس سے انکار ممکن نہیں تھا۔ اس نے مبہم سے انداز میں کسی توہین کا، اور زندگی کے تباہ ہو جانے کا، اور عدالتی چارہ جوئی کا ذکر کیا۔ برابر میں مسٹر زیتورتسکی تیوری چڑھائے خاموش کھڑا رہا۔
انھیں دروازہ کھول کر کار گاہ میں لایا گیا۔ درزنوں نے بے پروائی سے سر اٹھا کر دیکھا، اور کلارا نے اس پستہ قد آدمی کو پہچان لیا؛ اس کی رنگت زرد پڑ گئی اور وہ خود کو چھپانے کی عیاں کوشش میں جلدی سے سلائی کے کام میں لگ گئی۔
’’یہ لیجیے،‘‘ منیجر نے خفیف طنز آمیز شائستگی کے ساتھ اس اکڑے ہوے جوڑے سے کہا۔ مسز زیتورتسکی نے بھانپ لیا کہ اسی کو آگے بڑھنا ہو گا، اور اپنے شوہر سے بولی، ’’اب دیکھو!‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے تیوری چڑھا کر چاروں طرف دیکھا۔ ’’ان میں سے کوئی ہے؟‘‘ مسز زیتورتسکی نے سرگوشی میں پوچھا۔
چشمہ لگا کر بھی مسٹر زیتورتسکی اس بڑے سے کمرے کو ٹھیک سے دیکھ نہیں پا رہا تھا، جس کا جائزہ لینا یوں بھی آسان نہ تھا کیونکہ اس میں ہر طرف کپڑے کی کترنوں کے ڈھیر پڑے تھے اور افقی سلاخوں سے سلے ہوے کپڑے لٹک رہے تھے، اور ہمہ وقت پہلو بدلتی ہوئی درزنیں اپنے چہرے دروازے کی طرف کیے قطار میں نہیں بلکہ بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر رخ کیے بیٹھی تھیں ؛ وہ آگے پیچھے، اوپر نیچے ہر طرف متواتر حرکت کر رہی تھیں ۔ چنانچہ مسٹر زیتورتسکی کو ایک ایک قدم بڑھاتے ہوے گردن موڑ موڑ کر ایک ایک چہرے کو دیکھنا پڑ رہا تھا کہ کوئی رہ نہ جائے۔
جب عورتوں کو اندازہ ہوا کہ انھیں دیکھا جا رہا ہے، اور دیکھنے والا بھی اس قدر بھدا اور غیر دلکش آدمی ہے، تو انھیں ہلکی سی ہتک محسوس ہوئی، اور ان کے طنزیہ فقرے اور بڑبڑاہٹیں سنائی دینے لگیں ۔ ان میں سے ایک، جو تنو مند نو عمر لڑکی تھی، گستاخی سے بول اٹھی:
’’یہ پورے پراگ میں اُس چوہے کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے جس نے اسے حاملہ کر دیا!‘‘
عورتوں کی پُر شور اور پھکڑ فقرے بازی نے میاں بیوی کو گھیر لیا؛ وہ پہلے تو دل شکستہ سے کھڑے رہے، پھر ایک عجیب قسم کے وقار سے تن گئے۔
’’میڈم!‘‘گستاخ لڑکی مسز زیتورتسکی سے مخاطب ہو کر ایک بار پھر بولی، ’’آپ اپنے بیٹے کا اچھی طرح خیال نہیں رکھتیں! میں تو ایسے پیارے سے ننھے کو کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھنے دوں ۔‘‘
’’اور ٹھیک سے دیکھو!‘‘ اس نے اپنے شوہر سے سرگوشی کی، اور وہ افسردہ اور جھینپے ہوے انداز میں ایک ایک قدم یوں آگے بڑھتا رہا جیسے اسے دونوں طرف سے مار پڑ رہی ہو، لیکن اس کے باوجود اس کے انداز میں ایک مضبوطی تھی اور اس نے ایک بھی چہرے کو دیکھے بغیر نہ چھوڑا۔
اس تمام عرصے میں منیجر مبہم سے انداز میں مسکراتا رہا؛ وہ اپنی ملازم عورتوں کو جانتا تھا، اور یہ بھی جانتا تھا کہ ان منھ پھٹ درزنوں کا کچھ نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اس نے ان کے شور و غل کو نہ سننے کا ناٹک کرتے ہوئے مسٹر زیتورتسکی سے سوال کیا، ’’آپ مہربانی کر کے مجھے یہ بتائیے کہ آپ جس عورت کی تلاش میں ہیں وہ کس حلیے کی ہے؟‘‘
مسٹر زیتورتسکی منیجر کی طرف مڑا اور آہستہ آہستہ، نہایت سنجیدہ لہجے میں بولا، ’’وہ خوبصورت تھی… بہت خوبصورت تھی…‘‘
اس دوران کلارا ایک کونے میں بیٹھی تھی، اور اس کی برہمی، جھکا ہوا سر اور کام میں اس کی ہٹیلی محویت اسے منھ پھٹ لڑکیوں سے الگ ظاہر کر رہی تھی۔ اُف! اس نے خود کو چھپانے اور غیر اہم ظاہر کرنے کا کتنا غلط طریقہ اختیار کیا تھا! اور اب مسٹر زیتورتسکی اس سے ذرا ہی دور تھا؛ منٹ بھر بعد اس کی نظر اس کے چہرے پر پڑنے والی تھی۔
’’یہ تو کافی نہیں ہے، اگر آپ کو صرف اتنا ہی یاد ہے کہ وہ خوبصورت تھی،‘‘ شائستہ کامریڈ منیجر نے مسٹر زیتورتسکی سے کہا۔ ’’خوبصورت عورتیں تو بہت سی ہیں ۔ وہ لمبی تھی یا چھوٹی؟‘‘
’’لمبی‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے کہا۔
’’اس کے بال کالے تھے یا سنہری؟‘‘ مسٹر زیتورتسکی نے لمحہ بھر سوچا اور پھر کہا، ’’سنہری۔‘‘
کہانی کا یہ حصہ حسن کی قوت کے بارے میں ایک حکایت کے طور پر کام آ سکتا ہے۔ جب مسٹر زیتورتسکی نے کلارا کو پہلی بار میرے گھر پر دیکھا تھا تو اس قدر چکا چوند ہو گیا تھا کہ اس نے دراصل اسے دیکھا ہی نہ تھا۔ حسن نے اس کی نظروں کے سامنے ایک پردہ تان دیا تھا جس کے پار دیکھا نہ جا سکتا تھا۔ روشنی کا پردہ، جس کے پیچھے وہ یوں چھپی ہوئی تھی جیسے کسی نقاب میں ۔
حقیقت یہ ہے کہ کلارا نہ لمبی ہے اور نہ سنہری بالوں والی۔ صرف حسن کی داخلی عظمت نے اسے مسٹر زیتورتسکی کی نگاہوں میں لمبا قد عطا کر دیا تھا۔ اور وہ دمک جو حسن سے پھوٹتی ہے، اس کی بدولت اس کے بال سنہری ہو گئے تھے۔
اس طرح جب پستہ قد آدمی آخرکار اس کونے پر پہنچا جہاں کلارا ایک بھورے رنگ کا سوتی لبادہ پہنے، ایک قمیص کی سلائی میں مشغول بیٹھی تھی، تو وہ اسے پہچان نہ سکا، کیونکہ دراصل اس نے کلارا کو کبھی دیکھا ہی نہ تھا۔
۹
جب کلارا اس واقعے کا بے ربط اور مشکل سے سمجھ میں آنے والا بیان مکمل کر چکی تو میں نے کہا، ’’دیکھا، ہماری قسمت اچھی ہے۔‘‘
لیکن کلارا سسکیوں کے درمیان مجھ سے بولی، ’’کیسی قسمت؟ اگر وہ مجھے آج نہیں ڈھونڈ سکے تو کل ڈھونڈ نکالیں گے۔‘‘
’’ذرا بتاؤ تو، کس طرح؟‘‘
’’وہ مجھے یہاں، تمھارے گھر آ کر پکڑ لیں گے۔‘‘
’’میں کسی کو اندر آنے ہی نہیں دوں گا۔‘‘
’’اور اگر انھوں نے پولیس کو بھیج دیا تو؟‘‘
’’ارے چھوڑو بھی، میں کہہ دوں گا کہ یہ مذاق تھا۔ اور آخر ہنسی مذاق ہی تو تھا یہ۔‘‘
’’آج کل مذاق کا زمانہ نہیں ہے، آج کل ہر چیز سنجیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ وہ کہیں گے کہ میں نے اس کی شہرت داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اسے دیکھ کر کون کہے گا کہ وہ کسی عورت کو پٹانے کی کوشش کر سکتا ہے؟‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو، کلارا،‘‘ میں نے کہا، ’’وہ غالباً تمھیں قید میں ڈال دیں گے۔ لیکن دیکھو کاریل ہاولیچیک بورووسکی بھی جیل گیا تھا اور کہاں تک پہنچا؛ تم نے اس کے بارے میں اسکول میں پڑھا ہو گا۔‘‘
’’بک بک بند کرو!‘‘ کلارا نے کہا۔ ’’تم جانتے ہو میرے ساتھ بہت برا ہونے والا ہے۔ مجھے نظم و ضبط کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا اور یہ بات میرے ریکارڈ پر آ جائے گی، اور میں کبھی اس کارخانے سے نکل نہیں سکوں گی۔ ویسے بھی، میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اُس ملازمت کا کیا بنا جو مجھے دلوانے کا تم نے وعدہ کیا تھا۔ اب میں رات کو تمھارے گھر پر نہیں سو سکتی۔ مجھے ہمیشہ دھڑکا لگا رہے گا کہ وہ مجھے پکڑنے آ رہے ہیں ۔ آج میں چیلاکووِوتس واپس جا رہی ہوں ۔‘‘ یہ تو ایک گفتگو تھی۔
سہ پہر کو شعبے میں ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد میری ایک اور گفتگو ہوئی۔ شعبے کے چیئرمین نے، جو سفید بالوں والا آرٹ کا مورخ اور دانشمند آدمی تھا، مجھے اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی۔
’’امید ہے تم جانتے ہو گے کہ تم نے اپنا تازہ ترین مقالہ چھپوا کر اپنا کچھ بھلا نہیں کیا ہے،‘‘ وہ مجھ سے بولا۔
’’ہاں، مجھے معلوم ہے،‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ہمارے کئی پروفیسروں کا خیال ہے کہ اس میں کہی ہوئی باتوں کا ان پر اطلاق ہوتا ہے، اور ڈین سمجھتا ہے کہ اس میں اس کے خیالات پر حملہ کیا گیا ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں ،‘‘ پروفیسر نے جواب دیا، ’’لیکن بطور لیکچرر تمھاری تین سال کی مدت پوری ہو رہی ہے اور اس جگہ کو پُر کرنے کے لیے امیدواروں میں مقابلہ ہو گا۔ کمیٹی کی روایت رہی ہے کہ خالی ہونے والی جگہ کسی ایسے شخص کو دی جائے جو اسکول میں پہلے بھی پڑھا چکا ہو، لیکن کیا تمھیں یقین ہے کہ تمھارے معاملے میں یہ روایت برقرار رہے گی؟ مگر خیر، میں نے اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے تمھیں نہیں بلایا ہے۔ اب تک میں تمھارے حق میں بولتا آیا ہوں کہ تم باقاعدگی سے لیکچر دیتے ہو، طالب علموں میں مقبول ہو، اور انھیں کچھ نہ کچھ پڑھاتے ہو۔ لیکن اب اس کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ڈین نے مجھے مطلع کیا ہے کہ پچھلے تین مہینوں سے تم نے کوئی لیکچر نہیں دیا ہے۔ اور کسی وجہ کے بغیر۔ صرف یہی بات تمھیں ملازمت سے برطرف کروانے کے لیے کافی ہے۔‘‘
میں نے پروفیسر کو سمجھایا کہ میں نے ایک لیکچر کا بھی ناغہ نہیں کیا، یہ سب محض ایک مذاق تھا، اور میں نے اسے زیتورتسکی اور کلارا کا پورا قصہ سنا دیا۔
’’بہت خوب، میں تمھاری بات مان لیتا ہوں ،‘‘ پروفیسر بولا۔ ’’لیکن میرے ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آج پورا اسکول کہہ رہا ہے کہ تم کوئی لیکچر نہیں دیتے اور کچھ نہیں کرتے۔ اس پر یونین میٹنگ میں بھی بات ہو چکی ہے اور کل وہ لوگ یہ معاملہ بورڈ آف ریجنٹس کے پاس لے گئے ہیں ۔‘‘
’’لیکن انھوں نے پہلے مجھ سے بات کیوں نہیں کی؟‘‘
’’وہ تم سے کیوں بات کرتے؟ ہر چیز ان کے سامنے واضح ہے۔ اب وہ تمھاری پوری سابقہ کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں، اور تمھارے ماضی اور حال کے درمیان ربط تلاش کر رہے ہیں ۔‘‘
’’میرے ماضی میں انھیں کیا غلط چیز مل سکتی ہے؟ آپ تو خود جانتے ہیں کہ مجھے اپنا کام کس قدر پسند ہے۔ میں نے کبھی کام سے جی نہیں چرایا۔ میرا ضمیر صاف ہے۔‘‘
’’ہر انسانی وجود کے کئی پہلو ہوتے ہیں ،‘‘ پروفیسر نے کہا۔ ’’ہم میں ہر ایک کے ماضی کو ایک جتنی آسانی کے ساتھ کسی محبوب رہنما یا کسی بدنام مجرم کی سوانح حیات کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ ذرا اپنے آپ پر غور سے نظر ڈالو۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ تم اپنے کام کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ صرف تمھارے فرار کے لیے ایک بہانہ ہو۔ تم اکثر میٹنگوں میں نہیں آتے، اور جب آتے ہو تو زیادہ تر خاموش رہتے ہو۔ کوئی نہیں جانتا کہ تمھارے خیالات کیا ہیں ۔ مجھے خود یاد ہے کہ کئی بار جب کوئی سنجیدہ موضوع زیر بحث تھا، تم نے اچانک کوئی مذاق کر ڈالا جس سے سب کو خفت ہوئی۔ بےشک یہ خفت فوراً ہی فراموش کر دی گئی، لیکن آج جب اسے ماضی میں سے برآمد کیا جائے گا تو اس میں ایک خاص اہمیت پیدا ہو جائے گی۔ یا پھر یاد کرو کہ کتنی بار مختلف عورتیں تمھیں ڈھونڈتی ہوئی یونیورسٹی پہنچیں اور تم نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اور اب تمھارا تازہ ترین مقالہ جس کے بارے میں کوئی بھی شخص اگر چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ یہ مشکوک قضیوں پر مبنی ہے۔ یہ سب میں مانتا ہوں الگ الگ حقائق ہیں ؛ لیکن ذرا آج کے قصور کی روشنی میں ان پر نظر ڈالو، یہ سب اکٹھے ہو کر تمھارے کردار اور رویے کے بارے میں ایک اہم شہادت کی مجموعی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔‘‘
’’لیکن کون سا قصور؟ ہر چیز کی اتنی سیدھی سادی وضاحت موجود ہے! تمام حقائق بالکل سادہ اور صاف ہیں!‘‘
’’رویوں کے مقابلے میں حقائق بہت کم اہمیت رکھتے ہیں ۔ کسی افواہ یا احساس کی تردید کرنا اتنا ہی بےسود ہے جتنا بی بی مریم کی پاکبازی پر کسی کے عقیدے کے بارے میں دلیل بازی کرنا۔ تم محض ایک عقیدے کا شکار ہوے ہو، کامریڈ اسسٹنٹ!‘‘
’’آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بڑی حد تک صحیح ہے،‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن اگر میرے خلاف احساسات کسی عقیدے کی طرح بیدار ہو گئے ہیں تو میں عقیدے کا مقابلہ عقل سے کروں گا۔ میں ہر ایک کے سامنے ان تمام چیزوں کی وضاحت کروں گا جو پیش آئی ہیں ۔ اگر لوگ سچ مچ انسان ہیں تو وہ ان پر ہنسیں گے۔‘‘
’’جیسی تمھاری خوشی۔ لیکن بعد میں یا تو تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ لوگ انسان نہیں ہیں، یا پھر اس پر کہ تم نہیں جانتے انسان کیسے ہوتے ہیں ۔ وہ بالکل نہیں ہنسیں گے۔ اگر تم ہر چیز جس طرح پیش آئی ہے ان کے سامنے رکھ دو، تو یہ ظاہر ہو گا کہ ایک طرف تم نے ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنی ذمے داری پوری نہیں کی — یعنی وہ کام نہیں کیا جو تمھیں کرنا چاہیے تھا — اور دوسری طرف تم خفیہ طور پر لیکچر دیتے رہے — یعنی وہ کیا جو تمھیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اور یہ ظاہر ہو گا کہ تم نے ایک ایسے آدمی کی ہتک کی جو تمھاری مدد کا طلبگار تھا۔ اور یہ ظاہر ہو گا کہ تمھارے نجی معاملات گڑبڑ ہیں، کہ تم نے کسی لڑکی کو بغیر رجسٹریشن کے اپنے ساتھ رکھ رکھا ہے، جس کا اثر یونین کی خاتون چیئرمین پر بہت ناموافق ہو گا۔ پورا معاملہ الجھ جائے گا اور خدا جانے اور کیا کیا افواہیں جنم لیں گی۔ وہ جو بھی افواہیں ہوں، ان لوگوں کے یقیناً بہت کام آئیں گی جو تمھارے خیالات کے باعث پہلے سے اشتعال میں ہیں لیکن صرف اس بنا پر تمھاری مخالفت کرنے سے شرما رہے ہیں ۔‘‘
میں جانتا تھا کہ پروفیسر مجھے ڈرانے یا دھوکا دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ لیکن اس معاملے پر اس کی باتوں کو میں نے خبطی کی بڑ خیال کیا اور اس کی تشکیک کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ مسٹر زیتورتسکی والے ہنگامے نے مجھ پر سردی کی ایک لہر طاری کر دی تھی، لیکن مجھے پوری طرح تھکایا نہیں تھا۔ اس گھوڑے پر سواری کا فیصلہ میرا اپنا تھا، اس لیے میں اسے اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ وہ میرے ہاتھ سے لگام چھین کر مجھے جہاں اس کا جی چاہے لے جائے۔ میں اس سے زور آزمائی کرنے کو تیار تھا۔ اور گھوڑے نے بھی اس سے گریز نہیں کیا۔ جب میں گھر پہنچا تو مجھے اپنے پوسٹ باکس میں ایک سمن ملا جس میں مجھے مقامی کمیٹی کی میٹنگ میں حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی تھی، اور مجھے ذرا بھی شبہ نہ تھا کہ یہ کس سلسلے میں ہے۔
۱۰
میں غلط نہیں سمجھا تھا۔ مقامی کمیٹی، جس کی میٹنگ ایک ایسی جگہ ہو رہی تھی جہاں پہلے ایک اسٹور رہ چکا تھا، ایک لمبی میز کے گرد بیٹھی تھی۔ جب میں داخل ہوا تو کمیٹی کے ارکان کے چہروں پر افسردگی سی چھا گئی۔ کھچڑی بالوں، اندر کو دبی ہوئی ٹھوڑی اور چشمے والے ایک شخص نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں شکریہ ادا کر کے بیٹھ گیا اور اس شخص نے کارروائی شروع کی۔ اس نے مجھے مطلع کیا کہ مقامی کمیٹی کچھ دنوں سے مجھ پر نظر رکھے ہوے ہے اور اسے بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ میری نجی زندگی خاصی بےقاعدہ ہے؛ اور یہ کہ اس باعث محلے میں میرا اچھا تاثر قائم نہیں ہو رہا ہے؛ یہ کہ میرے اقامت خانے کے کرایہ دار میرے بارے میں اس سے پہلے بھی ایک بار شکایت کر چکے ہیں جب وہ میرے کمرے میں ہونے والے شور و غل کے باعث رات بھر سو نہ سکے تھے؛ اور یہ کہ یہ سب کچھ اس بات کے لیے کافی تھا کہ مقامی کمیٹی میرے بارے میں ایک خاص طرح کا تاثر قائم کر لے۔ اور اب اس سے بڑھ کر کامریڈ مادام زیتورتسکی نے، جو ایک سائنسی کارکن کی بیوی ہے، کمیٹی سے مدد طلب کی ہے۔ چھ مہینے پہلے مجھے اس کے شوہر کے علمی مضمون کے بارے میں ایک تبصرہ تحریر کرنا تھا اور میں نے ایسا نہیں کیا، جبکہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس مضمون کی تقدیر میرے تبصرے پر منحصر ہے۔
’’آپ اسے علمی مضمون کہہ رہے ہیں!‘‘ میں نے دبی ہوئی ٹھوڑی والے آدمی کی بات کاٹتے ہوے کہا، ’’یہ صرف چربہ سازی اور پیوند کاری کا مجموعہ ہے۔‘‘
’’بہت دلچسپ، کامریڈ،‘‘ سنہری بالوں والی ایک تیس سالہ عورت گفتگو میں شامل ہو گئی؛ اس کے چہرے پر ایک چمکدار مسکراہٹ گویا مستقل طور پر چسپاں تھی۔ ’’مجھے ایک سوال پوچھنے کی اجازت دیجیے: آپ کا شعبہ کیا ہے؟‘‘
’’آرٹ کے نظریات کی تنقید۔‘‘
’’اور کامریڈ زیتورتسکی؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں ۔ شاید وہ بھی اسی قسم کا کام کرنے کی کوشش میں ہے۔‘‘
’’دیکھا!‘‘ سنہری بالوں والی عورت فتح مندانہ انداز میں دوسرے ارکان کی طرف مڑی۔ ’’کامریڈ کلیما اپنے شعبے میں کام کرنے والے ساتھی کارکن کو اپنا کامریڈ نہیں بلکہ حریف سمجھتے ہیں ۔ آج کل تمام انٹلکچوئل لوگ اسی طرح سوچتے ہیں ۔‘‘
’’میں اپنی بات جاری رکھوں گا،‘‘ دبی ہوئی ٹھوڑی والے شخص نے کہا۔ ’’کامریڈ مادام زیتورتسکی نے ہمیں بتایا ہے کہ اس کا شوہر آپ سے ملنے آپ کے فلیٹ پر آیا جہاں اس کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی۔ بتایا گیا ہے کہ اس خاتون نے بعد میں مسٹر زیتورتسکی پر الزام لگایا کہ وہ اسے جنسی طور پر پریشان کرنے کا خواہاں تھا۔ کامریڈ مادام زیتورتسکی کے پاس چند دستاویزات تھیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس کا شوہر اس طرح کے کام کی اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ اس خاتون کا نام جاننا چاہتی ہے جس نے اس کے شوہر پر یہ الزام لگایا، اور معاملے کو کارروائی کے لیے عوامی کمیٹی کے شعبۂ نظم و ضبط کے پاس بھجوانا چاہتی ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اس الزام سے اس کے شوہر کی شہرت متاثر ہوئی ہے۔‘‘
میں نے ایک بار پھر اس مضحکہ خیز معاملے کو مختصر کرنے کی کوشش کی۔ ’’بات سنیے، کامریڈز،‘‘ میں نے کہا، ’’یہ معاملہ ایسا نہیں کہ اس پر اتنی توجہ صرف کی جائے۔ یہ کسی کی شہرت کے داغدار ہونے کا معاملہ نہیں ۔ اس کا مضمون اتنا گیا گزرا تھا کہ کوئی اور شخص بھی اس کے حق میں سفارش نہ کرتا۔ اور اگر اس خاتون اور مسٹر زیتورتسکی کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی بھی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقاعدہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے۔‘‘
’’خوش قسمتی سے، کمیٹی کی میٹنگ کے انعقاد کی بابت فیصلہ آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے، کامریڈ،‘‘ دبی ہوئی ٹھوڑی والے شخص نے کہا۔ ’’اور اب جب آپ اتنے اصرار سے کہہ رہے ہیں کہ مسٹر زیتورتسکی کا مضمون بہت کمزور ہے، تو ہمیں اس پورے معاملے کو ایک انتقامی کارروائی کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ کامریڈ مادام زیتورتسکی نے ہمیں ایک خط پڑھوایا جو آپ نے اس کے شوہر کا مضمون پڑھنے کے بعد لکھا تھا۔‘‘
’’ہاں ۔ مگر میں نے اس خط میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا کہ وہ مضمون کیسا ہے۔‘‘
’’یہ درست ہے۔ لیکن آپ نے یہ ضرور لکھا تھا کہ آپ کو اس کی مدد کر کے خوشی ہو گی؛ اس خط سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ آپ کامریڈ زیتورتسکی کے مضمون کو احترام کے قابل سمجھتے ہیں ۔ اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ محض پیوند کاری پر مشتمل ہے۔ آپ نے یہ بات اس کے منھ پر کیوں نہیں کہی؟‘‘
’’کامریڈ کلیما منافق ہیں ،‘‘ سنہری بالوں والی عورت بولی۔
اس موقعے پر ایک عمر رسیدہ عورت، جس پر مستقل رعشہ طاری تھا، گفتگو میں شامل ہوئی (اس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے وہ بے غرضانہ خیرسگالی کے ساتھ دوسروں کی زندگیوں کا جائزہ لینے کی عادی ہو)؛ اس نے فوراً معاملے کے اصل مرکز کی نشان دہی کی۔ ’’ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ عورت کون تھی جس سے آپ کے گھر پر مسٹر زیتورتسکی کی ملاقات ہوئی۔‘‘
اب میں کسی غلط فہمی کے بغیر صاف صاف سمجھ گیا کہ معاملے کی مضحکہ خیز سنگینی کو ختم کرنا میرے بس سے باہر ہے، اور اس سے نمٹنے کا میرے پاس ایک ہی طریقہ ہے: سراغوں کو مبہم بنانا، ان لوگوں کو کلارا سے دور لے جانا، انھیں اس طرح بھٹکا کر غلط راستے پر ڈال دینا جیسے چکور بھیڑیے کو بھٹکا کر اپنے گھونسلے سے دور لے جاتا ہے، اور اپنے بچوں کو بچانے کے لیے اس کے سامنے اپنا جسم پیش کر دیتا ہے۔
’’بڑا عجیب قصہ ہے، مجھے اس کا نام یاد نہیں ،‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ جس عورت کے ساتھ رہتے ہوں اس کا نام ہی نہ جانتے ہوں؟‘‘ مستقل رعشہ زدہ عورت نے اعتراض کیا۔
’’ایک وقت تھا جب میں یہ سب تفصیلات لکھ لیا کرتا تھا، لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ یہ حماقت ہے، اس لیے لکھنا چھوڑ دیا۔ اور آدمی کا اپنی یادداشت پر بھروسا کرنا بہت دشوار ہے۔‘‘
’’کامریڈ کلیما، شاید عورتوں سے آپ کے تعلقات بہت مثالی قسم کے ہیں ،‘‘ سنہری بالوں والی عورت نے کہا۔
’’دیکھیے شاید مجھے یاد آ جائے، لیکن اس کے لیے مجھے اپنے دماغ پر زور ڈالنا ہو گا۔ کیا آپ لوگ مجھے بتا سکتے ہیں کہ مسٹر زیتورتسکی میرے گھر کب آئے تھے؟‘‘
’’وہ تاریخ تھی…ایک منٹ ٹھہریے،‘‘ دبی ہوئی ٹھوڑی والے آدمی نے اپنے کاغذوں پر نگاہ ڈالی۔ ’’چودہ تاریخ، بدھ کے دن۔‘‘
’’بدھ…چودہ تاریخ…ٹھہریے…‘‘ میں نے اپنا سر تھام لیا اور کچھ دیر سوچا۔ ’’ہاں، یاد آ گیا! وہ ہیلینا تھی۔‘‘ میں نے دیکھا کہ وہ سب میرے الفاظ کو بڑے اشتیاق سے سن رہے ہیں ۔
’’ہیلینا کون؟‘‘
’’کیا؟ معاف کیجیے گا، مجھے اس کا خاندانی نام معلوم نہیں ۔ میں اس سے پوچھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ دراصل، صاف بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی یقین نہیں کہ اس کا نام واقعی ہیلینا تھا۔ میں اسے ہیلینا اس لیے کہتا تھا کہ اس کا شوہر مجھے سرخ بالوں والے مینے لاؤس سے مشابہ معلوم ہوتا تھا۔ مگر بہرحال، اسے اس نام سے پکارا جانا کافی پسند تھا۔ منگل کی شام کو ایک وائن کی دکان میں میری اس سے ملاقات ہوئی، اور جب اس کا مینے لاؤس کونیاک لینے بار تک گیا تو مجھے اس سے کچھ دیر بات کرنے کا موقع مل گیا۔ اگلے دن وہ میرے کمرے پر آئی اور پوری سہ پہر وہیں رہی۔ صرف شام کو میں چند گھنٹوں کے لیے اسے چھوڑ کر گیا کیونکہ یونیورسٹی میں ایک میٹنگ تھی۔ جب میں واپس آیا تو وہ بےحد برہم تھی کیونکہ کسی پستہ قد آدمی نے اس پر دست درازی کی تھی اور اسے گمان تھا کہ اسے میں نے ایسا کرنے پر اکسایا تھا؛ اس نے سخت برا مانا تھا اور اب وہ مجھ سے مزید واقفیت پیدا کرنے پر تیار نہ تھی۔ اور اس طرح، دیکھا آپ نے، میں اس کا اصل نام تک معلوم نہ کر سکا۔‘‘
’’کامریڈ کلیما، خواہ آپ سچ کہہ رہے ہوں یا جھوٹ،‘‘ سنہری بالوں والی عورت نے کہا، ’’ایک بات میرے لیے مکمل طور پر ناقابلِ فہم ہے، وہ یہ کہ آپ جیسا شخص ہماری آئندہ نسل کو تعلیم کس طرح دے سکتا ہے۔ کیا ہماری زندگی آپ کو اس کے سوا کسی چیز پر نہیں اکساتی کہ آپ عورتوں کو پٹانے اور استعمال کرنے کے کام میں لگے رہیں؟ آپ یقین رکھیے کہ ہم اپنی یہ رائے متعلقہ حلقوں تک ضرور پہنچائیں گے۔‘‘
’’چوکیدار نے کسی ہیلینا کا ذکر نہیں کیا،‘‘ مستقل رعشے والی عمر رسیدہ عورت بول اٹھی، ’’لیکن یہ ضرور بتایا کہ ملبوسات کے کارخانے میں کام کرنے والی ایک لڑکی، بغیر رجسٹریشن کرائے، ایک مہینے سے آپ کے ساتھ رہ رہی ہے۔ یہ بات مت بھولیے کامریڈ، کہ آپ ایک اقامت خانے میں رہ رہے ہیں ۔ آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ آپ کسی کو یوں اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں؟ کیا آپ نے اس جگہ کو قحبہ خانہ سمجھ رکھا ہے؟‘‘
اچانک میری نگاہوں کے سامنے وہ دس کراؤن چمکے جو میں نے چند دن پہلے چوکیدار کو رشوت کے طور پر دیے تھے، اور جان لیا کہ محاصرہ مکمل ہو چکا ہے۔ مقامی کمیٹی کی رکن عورت نے اپنی بات جاری رکھی، ’’اگر آپ اس کا نام نہیں بتانا چاہتے تو پولیس خود معلوم کر لے گی۔‘‘
۱۱
زمین میرے پیروں تلے سے کھسکتی جا رہی تھی۔ یونیورسٹی میں مجھے وہ معاندانہ ماحول رفتہ رفتہ محسوس ہونے لگا جس کا تذکرہ پروفیسر نے کیا تھا۔ فی الحال مجھے کسی انٹرویو کے لیے نہیں بلایا گیا، لیکن کہیں کہیں مجھے بات چیت میں کوئی اشارہ محسوس ہو جاتا، اور کبھی کبھی میری کوئی بات کہہ بیٹھتی کیونکہ شعبے کے استاد اس کے دفتر میں آ کر کافی پیتے تھے اور بات چیت کرنے میں زیادہ احتیاط سے کام نہ لیتے تھے۔ چند روز بعد شعبے کی کمیٹی کا، جو ہر طرف سے شہادتیں جمع کر رہی تھی، اجلاس ہونے والا تھا۔ میں نے تصور کیا کہ اس کے ارکان مقامی کمیٹی کی رپورٹ پڑھ چکے ہیں، یعنی وہ رپورٹ جس کے بارے میں میں صرف اتنا جانتا تھا کہ یہ خفیہ ہے اور میں اس سے رجوع نہیں کر سکتا۔
زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں جب انسان مدافعانہ انداز میں پسپا ہونے لگتا ہے، جب اسے میدان چھوڑنا پڑتا ہے، جب اسے کم اہم مورچوں کو زیادہ اہم مورچوں کی خاطر تج دینا پڑتا ہے۔ لیکن جب معاملہ بالکل آخری مورچے پر پہنچ جائے، تب آدمی کو رک کر اپنے قدم مضبوطی سے گاڑ لینے پڑتے ہیں، اگر وہ اپنی زندگی کو ساکن ہاتھوں اور جہاز کی غرقابی کے احساس کے ساتھ نئے سرے سے شروع نہ کرنا چاہتا ہو۔
مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرا وہ واحد، اہم ترین مورچہ میری محبت ہے۔ ہاں، ان پریشان کن دنوں میں مجھے یکلخت احساس ہونے لگا تھا کہ میں اپنی نازک اور بدقسمت درزن سے محبت کرتا ہوں، جسے زندگی نے زد و کوب بھی کیا تھا اور جس کے ناز بھی اٹھائے تھے، اور یہ کہ میں اس کے ساتھ پوری طرح پیوست ہوں ۔
اس روز کلارا مجھے میوزیم پر ملی۔ نہیں، گھر پر نہیں ۔ کیا آپ اب بھی گھر کو گھر سمجھتے ہیں؟ کیا شیشے کی دیواروں والے کمرے کو گھر کہتے ہیں؟ ایسا کمرہ جس کا دوربینوں سے جائزہ لیا جا رہا ہو؟ ایسا کمرہ جہاں آپ اپنی محبوبہ کو ممنوعہ اشیا سے زیادہ چھپا کر رکھنے پر مجبور ہوں؟
گھر گھر نہیں رہا تھا۔ وہاں ہم خود کو بلا اجازت گھسے ہوے محسوس کرتے جنھیں کسی بھی لمحے پکڑا جا سکتا ہو۔ راہداری میں قدموں کی چاپ ہمیں خوفزدہ کر دیتی؛ ہم ہر وقت کسی کے آ کر زور زور سے دروازہ پیٹنے کی توقع کرتے رہتے۔ کلارا اب چیلاکووِتس کے محلے سے کام پر آیا جایا کرتی اور ہمیں تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے غیر لگنے والے گھر میں ملنے کی خواہش نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک آرٹسٹ دوست سے رات کو اس کا اسٹوڈیو استعمال کرنے کی اجازت لے لی تھی۔ اُس روز وہاں کی چابی مجھے پہلی بار ملی تھی۔
اس طرح ہم دونوں نے خود کو وینوہرادی کے علاقے میں ایک اونچی چھت کے نیچے، ایک بہت وسیع و عریض کمرے میں پایا جہاں صرف ایک چھوٹا سا دیوان تھا اور ایک بہت بڑی ترچھی کھڑکی جس میں سے پورے پراگ کی روشنیاں دکھائی دیتی تھیں ۔ دیواروں سے ٹکا کر رکھی ہوئی بہت سی پینٹنگز، کمرے کی بے ترتیبی اور ایک بے پروا آرٹسٹ کی مفلسی کے درمیان میرا آزادی کا مبارک احساس پھر سے لوٹ آیا۔ میں دیوان پر پھیل کر لیٹ گیا، اور کاگ کھولنے والا پیچ کش پھنسا کر وائن کی بوتل کھولی۔ میں خوش دلی اور آزادی سے خوب باتیں کر رہا تھا اور ایک حسین شام اور رات کی امید میں تھا۔
لیکن وہ دباؤ، جو مجھے اب محسوس نہیں ہو رہا تھا، کلارا پر اپنے پورے بوجھ کے ساتھ آ پڑا تھا۔
میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ کلارا کس طرح بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور انتہائی فطری انداز میں میرے کمرے میں رہا کرتی تھی۔ لیکن اب، جب ہم نے خود کو تھوڑی دیر کے لیے کسی اور کے اسٹوڈیو میں پایا، تو وہ بجھ سی گئی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ: ’’یہ بہت توہین آمیز ہے،‘‘ اس نے کہا۔
’’کیا توہین آمیز ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کہ ہمیں کسی اور کا فلیٹ مانگنا پڑ رہا ہے۔‘‘
’’اس میں کیا توہین آمیز بات ہے کہ ہم نے کسی اور کا فلیٹ مانگ لیا ہے؟‘‘
’’کیونکہ اس میں کوئی توہین آمیز بات ہے،‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’لیکن ہم اور کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔‘‘
’’ہاں ،‘‘ اس نے جواب دیا، ’’لیکن مانگے ہوے فلیٹ میں میں خود کو ایک طوائف جیسا محسوس کرتی ہوں ۔‘‘
’’اوہ خدایا! تم خود کو مانگے ہوے فلیٹ میں طوائف جیسا کیوں محسوس کرتی ہو؟ طوائفیں تو زیادہ تر اپنے فلیٹوں میں کاروبار کرتی ہیں، نہ کہ مانگے ہوے فلیٹوں میں …‘‘
لیکن عقل کی مدد سے اس غیر عقلی احساس کی موٹی دیوار پر حملہ کرنا بے سود تھا جس پر نسوانی ذہن، جیسا کہ سب کو معلوم ہے، مشتمل ہوتا ہے۔ ہماری گفتگو ابتدا ہی سے غیر خوش آئند تھی۔
میں نے کلارا کو وہ سب کچھ بتایا جو پروفیسر نے مجھ سے کہا تھا، وہ سب کچھ بتایا جو مقامی کمیٹی میں پیش آیا تھا، اور اسے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ اگر ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے تو آخر میں جیت ہماری ہی ہو گی۔
کلارا کچھ دیر چپ رہی اور پھر اس نے مجھے قصوروار قرار دیا۔
’’کیا تم مجھے ان درزنوں کے گھیرے سے باہر نکال سکتے ہو؟‘‘
میں نے اسے بتایا کہ کم از کم عارضی طور پر ہمیں برداشت سے کام لینا ہو گا۔
’’دیکھا،‘‘ کلارا بولی، ’’تم وعدہ کر لیتے ہو اور پھر اسے پورا کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ اب میں کسی اور کی مدد سے بھی وہاں سے نکل نہیں پاؤں گی، کیونکہ تمھاری وجہ سے میری شہرت خراب ہو گئی ہے۔‘‘
میں نے کلارا کو پورا یقین دلایا کہ مسٹر زیتورتسکی والا معاملہ اسے ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
’’میری یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا،‘‘ کلارا نے کہا، ’’کہ تم تبصرہ لکھ کیوں نہیں دیتے۔ اگر تم تبصرہ لکھ دو تو ایک دم سکون ہو جائے گا۔‘‘
’’اب بہت دیر ہو چکی ہے،‘‘ میں نے کہا، ’’اگر اب میں نے تبصرہ لکھا تو وہ لوگ کہیں گے کہ میں انتقاماً اس مضمون کو رگید رہا ہوں، اور مزید طیش میں آ جائیں گے۔‘‘
’’تو رگیدنے کی کیا ضرورت ہے؟ تم اس کے حق میں تبصرہ لکھ دو!‘‘
’’یہ میں نہیں کر سکتا، کلارا، وہ مضمون لغویت کا پلندا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ تم اچانک اتنے سچے کیسے بن گئے؟ جب تم نے اس چھوٹے آدمی کو یہ بتایا تھا کہ جریدے والے تمھاری رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تو کیا یہ جھوٹ نہیں تھا؟ اور جب تم نے کہا کہ اس نے مجھے پٹانے کی کوشش کی تھی تو کیا یہ جھوٹ نہیں تھا؟ اور جب تم نے ہیلینا کو ایجاد کیا تو کیا یہ جھوٹ نہیں تھا؟ جب تم اتنے سارے جھوٹ بول سکتے ہو تو ایک اور جھوٹ بولنے سے، تعریفی تبصرہ لکھ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی ایک راستہ ہے جس سے معاملات سیدھے ہو سکتے ہیں ۔‘‘
’’دیکھو کلارا،‘‘ میں نے کہا، ’’تم سمجھتی ہو کہ جھوٹ بس جھوٹ ہوتا ہے، اور بظاہر تمھاری بات درست معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ میں کچھ بھی ایجاد کر سکتا ہوں، کسی کو بےوقوف بنا سکتا ہوں، عملی مذاق کر سکتا ہوں، اور میں خود کو جھوٹا محسوس نہیں کرتا اور نہ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے۔ یہ سارے جھوٹ، اگر تم انھیں یہی نام دینے پر مصر ہو، مجھے اسی طرح پیش کرتے ہیں جیسا دراصل میں ہوں ۔ یہ جھوٹ بول کر میں کسی بناوٹ سے کام نہیں لے رہا ہوتا، ان کے ذریعے دراصل میں سچ بول رہا ہوتا ہوں ۔ لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میں جھوٹ نہیں بول سکتا، وہ چیزیں جن میں میں اندر تک اترا ہوا ہوں، جن کے معنی کو میں اپنی گرفت میں لایا ہوں، جن سے میں محبت کرتا ہوں اور جن کے بارے میں سنجیدہ ہوں ۔ یہ ناممکن ہے، مجھ سے ایسا کرنے کو مت کہو، میں ایسا کر ہی نہیں سکتا۔‘‘
ہم ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکے۔
لیکن مجھے کلارا سے سچ مچ محبت تھی اور میں نے اپنے بس بھر سب کچھ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کے پاس مجھے ملامت کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اگلے دن میں نے مسز زیتورتسکی کے نام ایک خط لکھا اور اس میں کہا کہ تیسرے دن دو بجے دوپہر کو اپنے دفتر میں اس کا انتظار کروں گا۔
۱۲
اپنی دہشت ناک باقاعدگی کے ساتھ مسز زیتورتسکی نے ٹھیک معینہ وقت پر دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کو کہا۔
تب میں نے آخرکار اسے دیکھا۔ وہ لمبے قد کی عورت تھی، بہت لمبے قد کی، پتلے دہقانی چہرے اور زردی مائل نیلی آنکھوں والی۔ ’’اپنا کوٹ وغیرہ اتار دیجیے،‘‘ میں نے کہا، اور اس نے بازوؤں کی عجیب حرکات سے اپنا لمبا، گہرے رنگ کا کوٹ اتارا جو کمر پر سے تنگ تھا اور عجیب نمونے کا سلا ہوا تھا، ایک ایسا کوٹ جسے دیکھ کر خدا جانے کیوں قدیم گریٹ کوٹ کا خیال آتا تھا۔
میں فوری حملہ نہیں کرنا چاہتا تھا؛ پہلے میں اپنی حریف کے پتے دیکھنا چاہتا تھا۔ جب مسز زیتورتسکی بیٹھ گئی تو میں نے اِدھر اُدھر کی ایک آدھ بات کر کے اسے بولنے پر اکسایا۔
’’مسٹر کلیما،‘‘ اس نے سنجیدہ آواز میں، لیکن کسی جارحیت کے بغیر، کہا، ’’آپ جانتے ہیں میں آپ سے کیوں ملنا چاہتی تھی۔ میرے شوہر نے ہمیشہ آپ کا اپنے شعبے کے ماہر اور ایک با کردار شخص کے طور پر احترام کیا ہے۔ ہر چیز آپ کے تبصرے پر منحصر تھی اور آپ یہ تبصرہ نہیں لکھنا چاہتے تھے۔ میرے شوہر کو یہ مقالہ لکھنے میں تین سال لگے ہیں ۔ اس نے آپ سے زیادہ دشوار زندگی گزاری ہے۔ وہ ٹیچر تھا، ہر روز پراگ سے بیس میل دور آیا جایا کرتا تھا۔ پچھلے سال میں نے اسے یہ ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا تاکہ وہ اپنی پوری توجہ تحقیق پر لگا سکے۔‘‘
’’مسٹر زیتورتسکی با روزگار نہیں ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں …‘‘
’’پھر ان کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟‘‘
’’فی الحال مجھے زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ تحقیق، مسٹر کلیما، میرے شوہر کے دل کی لگن ہے۔ کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اس نے کس طرح ایک ایک چیز کا مطالعہ کیا۔ کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اس نے کتنے صفحے بار بار لکھے۔ وہ ہمیشہ کہتا ہے کہ سچا محقق وہ ہے جو تین سو صفحے لکھے اور تیس صفحوں کے سوا باقی سب کو ضائع کر دے۔ اور پھر ہر چیز سے بڑھ کر یہ عورت۔ یقین کیجیے، مسٹر کلیما، میں اپنے شوہر کو جانتی ہوں، مجھے یقین ہے اس نے یہ حرکت نہیں کی، پھر اس عورت نے اس پر الزام کیوں لگایا؟ میں اسے نہیں مان سکتی۔ میں چاہتی ہوں وہ میرے اور میرے شوہر کے منھ پر یہ بات کہہ دے۔ میں عورتوں کو جانتی ہوں، شاید وہ آپ سے بہت محبت کرتی ہے اور آپ اس کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ شاید وہ آپ میں حسد کا جذبہ ابھارنا چاہتی ہو۔ لیکن مجھ پر یقین کیجیے، مسٹر کلیما، میرے شوہر کی ہرگز یہ مجال نہیں ہو سکتی۔‘‘
میں مسز زیتورتسکی کی بات سن رہا تھا اور اچانک میرے ساتھ ایک عجیب سی بات ہوئی: میں اس احساس سے بیگانہ ہو گیا کہ یہ وہ عورت ہے جس کے باعث مجھے یونیورسٹی چھوڑنی پڑ رہی ہے، اور جس کی وجہ سے میرے اور کلارا کے درمیان رنجش پیدا ہو گئی ہے، اور جس کے سبب میرے اتنے دن غصے اور کوفت کے عالم میں گزرے ہیں ۔ اس واقعے سے اس کا تعلق جس میں ہم دونوں نے اپنا اپنا غم انگیز کردار ادا کیا، اچانک مبہم، اتفاقی، حادثاتی معلوم ہونے لگا، جیسے اس میں ہم دونوں کا کوئی قصور نہ ہو۔ ایک دم میری سمجھ میں آ گیا کہ یہ محض ہمارا فریبِ نظر ہے کہ ہم واقعات کے گھوڑوں پر سواری کرتے اور انھیں اپنی راہ پر چلاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے ہماری کہانیاں ہی نہیں ہوتیں بلکہ کہیں اور سے، باہر سے، ہم پر لاد دی جاتی ہیں ؛ یہ کسی بھی طرح ہماری نمائندگی نہیں کرتیں ؛ یہ جو راہ اختیار کرتی ہیں ان کے سلسلے میں ہمیں قصوروار ٹھہرایا ہی نہیں جا سکتا۔ وہ ہمیں لے اڑتی ہیں، کیونکہ انھیں دوسری قوتیں کنٹرول کرتی ہیں ؛ نہیں، میری مراد ماورائے فطرت قوتوں سے نہیں، بلکہ انسانی قوتوں سے ہے، ان افراد کی قوتیں جو ایک جگہ جمع ہو کر بھی ایک دوسرے سے اجنبی رہتے ہیں ۔
جب میں نے مسز زیتورتسکی کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ آنکھیں میری حرکات کے نتائج کو نہیں دیکھ سکتیں، جیسے یہ آنکھیں کچھ دیکھ ہی نہیں رہیں، جیسے یہ محض اس کے چہرے پر تیر رہی ہیں ؛ اس چہرے پر محض چپکی ہوئی ہیں ۔
’’شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں مسز زیتورتسکی،‘‘ میں نے صلح جوئی کے لہجے میں کہا، ’’شاید میری دوست نے سچ نہیں بولا تھا، لیکن آپ جانتی ہیں کہ جب کسی مرد میں حسد کا جذبہ جاگ اٹھے تو پھر کیا ہوتا ہے… میں نے اس کی بات پر یقین کر لیا اور اس ریلے میں بہہ گیا۔ ایسا کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ہاں یقیناً،‘‘ مسز زیتورتسکی نے کہا، اور یہ ظاہر تھا کہ اس کے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے۔ ’’یہ اچھا ہے کہ آپ خود ہی اس بات کو محسوس کر رہے ہیں ۔ ہمیں خوف تھا کہ کہیں آپ اس عورت کی بات پر یقین نہ کرتے ہوں ۔ یہ عورت تو میرے شوہر کی ساری زندگی کی نیک نامی کو برباد کر سکتی تھی۔ میں اس کے اخلاقی اثرات کی بات نہیں کر رہی۔ لیکن میرا شوہر آپ کے خیالات کی قسم کھاتا ہے۔ مدیروں نے اسے یقین دلایا تھا کہ سب کچھ آپ کی رائے پر منحصر ہے۔ میرے شوہر کو یقین ہے کہ اگر اس کا یہ مقالہ چھپ جائے تو اسے آخرکار ایک سائنسی کارکن تسلیم کر لیا جائے گا۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں، اب جبکہ سارا معاملہ صاف ہو گیا ہے، کیا آپ اس کے لیے تبصرہ لکھ دیں گے؟ اور کیا آپ اسے جلدی لکھ سکتے ہیں؟‘‘
اب وہ لمحہ آیا جب میں اپنا انتقام لے سکتا اور اپنے غصے کی آگ کو بجھا سکتا تھا، اگرچہ اس موقعے پر مجھے غصہ محسوس نہیں ہو رہا تھا، اور جب میں نے مسز زیتورتسکی کو جواب دیا تو اس لیے کہ اس سے فرار کی کوئی راہ نہ تھی۔ ’’مسز زیتورتسکی، تبصرے کے سلسلے میں ایک مسئلہ ہے۔ میں آپ سے اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ کس طرح پیش آیا۔ میں لوگوں کے منھ پر ناخوشگوار باتیں کہنا پسند نہیں کرتا۔ یہ میری کمزوری ہے۔ میں مسٹر زیتورتسکی سے ملنے سے گریز کرتا رہا، اور میرا خیال تھا وہ بھانپ جائیں گے کہ میں کیوں ایسا کر رہا ہوں ۔ ان کا مضمون بہت کمزور ہے۔ اس کی کوئی سائنسی قدر و قیمت نہیں ۔ کیا آپ کو میری بات کا یقین آ رہا ہے؟‘‘
’’میرے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ نہیں، میں آپ کی بات پر یقین نہیں کر سکتی،‘‘ مسز زیتورتسکی نے کہا۔
’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریر اوریجنل نہیں ہے۔ ذرا سمجھنے کی کوشش کیجیے، محقق کا کام یہ ہے کہ کسی نئے نتیجے پر پہنچے؛ محقق ان باتوں کو نقل نہیں کر سکتا جو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں، جو دوسرے لوگوں نے پہلے ہی سے لکھ رکھی ہیں ۔‘‘
’’میرے شوہر نے کسی کی نقل نہیں کی۔‘‘
’’مسز زیتورتسکی، آپ نے یقیناً اپنے شوہر کا مضمون پڑھ رکھا ہو گا…‘‘میں آگے بولنا چاہتا تھا لیکن مسز زیتورتسکی نے میری بات کاٹ دی۔ ’’نہیں، میں نے نہیں پڑھا۔‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔ ’’تو آپ پڑھ کر خود دیکھ لیجیے۔‘‘
’’میں دیکھ نہیں سکتی،‘‘ مسز زیتورتسکی نے کہا۔ ’’مجھے صرف روشنی اور سائے دکھائی دیتے ہیں، میری آنکھیں خراب ہیں ۔ میں نے پانچ سال سے ایک سطر بھی نہیں پڑھی، لیکن مجھے یہ جاننے کے لیے کہ میرا شوہر ایماندار آدمی ہے یا نہیں، کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ بات دوسرے طریقوں سے بھی پہچانی جا سکتی ہے۔ میں اپنے شوہر کو جانتی ہوں، جیسے ماں اپنے بچوں کو جانتی ہے، میں اس کے بارے میں ہر بات جانتی ہوں ۔ اور مجھے معلوم ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے ایمانداری سے کرتا ہے۔‘‘
مجھے اس سے بدتر حالات سے گزرنا پڑا۔ میں نے مسز زیتورتسکی کو میتےچک، پیچیرکا اور میچک کے وہ پیراگراف پڑھ کر سنائے جن کے خیالات اور نظریات مسٹر زیتورتسکی نے اپنے مضمون میں پیش کر دیے تھے۔ یہ دانستہ چربہ سازی کا سوال نہیں تھا بلکہ ان ماہرینِ فن کے سامنے ایک غیر شعوری نیاز مندی کا اظہار تھا جن کے خیالات نے مسٹر زیتورتسکی کے اندر مخلصانہ اور شدید احترام کا جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ لیکن کوئی بھی شخص ان پیراگرافوں کا تقابل کر کے آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ کوئی سنجیدہ علمی جریدہ مسٹر زیتورتسکی کے مضمون کو شائع نہیں کر سکتا۔
میں نہیں جانتا کہ مسز زیتورتسکی نے میری توضیحات کو کتنے غور سے سنا، اور کس حد تک سمجھا؛ وہ انکسار کے ساتھ کرسی پر بیٹھی رہی، کسی سپاہی کے سے انکسار اور تابعداری کے ساتھ، جس اس بات کا علم ہو کہ اسے کسی حالت میں اپنا مورچہ نہیں چھوڑنا ہے۔ اس کام میں ہمیں کوئی آدھ گھنٹہ لگا۔ مسز زیتورتسکی کرسی سے اٹھی، اپنی شفاف آنکھیں مجھ پر جما دیں اور دبی ہوئی آواز میں مجھ سے معذرت چاہی؛ لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس کا اپنے شوہر پر بھروسا اب بھی قائم ہے، اور وہ میرے دلائل کی، جو اس کے لیے مبہم اور ناقابلِ فہم تھے، مزاحمت نہ کر پانے کے لیے اپنے سوا کسی کو قصوروار نہیں سمجھتی۔ اس نے اپنی فوجی وضع کی برساتی پہن لی اور میں جان گیا کہ یہ عورت جسمانی اور روحانی طور پر سپاہی ہے، ایک افسردہ اور وفادار سپاہی، لانگ مارچوں سے تھکا ہوا سپاہی، ایسا سپاہی جسے کسی حکم کا مدعا سمجھ میں نہیں آتا پھر بھی وہ کسی اعتراض کے بغیر اسے بجا لاتا ہے، ایسا سپاہی جو شکست کھا کر بھی اپنا وقار کھوئے بغیر واپس لوٹتا ہے۔
اس کے جانے کے بعد اس کی تھکن، اس کی وفاداری اور افسردگی کا کچھ حصہ میرے دفتر میں باقی رہ گیا۔ میں اچانک اپنے آپ کو اور اپنے دکھوں کو بھول گیا۔ اس لمحے میں جس دکھ کے نرغے میں تھا وہ کہیں زیادہ پاکیزہ تھا، کیونکہ اس کا منبع میری اپنی ذات میں نہیں بلکہ باہر کہیں، بہت دور واقع تھا۔
۱۳
’’تو اب تمھیں کسی بات سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ،‘‘ میں نے ڈالماشین کی وائن کی دکان میں کلارا کو مسز زیتورتسکی کے ساتھ ہونے والی پوری گفتگو سنانے کے بعد کہا۔
’’مجھے تو ویسے بھی کسی بات کا ڈر نہیں ،‘‘ کلارا نے ایسے اعتماد کے ساتھ کہا جس نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔
’’کیا مطلب، کسی بات کا ڈر نہیں؟ تمھاری ہی وجہ سے تو مجھے مسز زیتورتسکی سے ملنا پڑا۔‘‘
’’تم نے اچھا کیا کہ اس سے مل لیے کیونکہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بہت ظالمانہ تھا۔ ڈاکٹر کلوسک کا کہنا ہے کہ کسی بھی ذہین آدمی کے لیے تمھارے اس رویے کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔‘‘
’’تم کلوسک سے کب ملیں؟‘‘
’’میں مل چکی ہوں ،‘‘ کلارا نے کہا۔
’’اور تم نے اسے سب کچھ بتا دیا؟‘‘
’’کیوں؟ تو کیا یہ کوئی راز ہے؟ اب مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تم اصل میں کیا ہو۔‘‘
’’ہوں ۔‘‘
’’تمھیں بتاؤں تم کیا ہو؟‘‘
’’ضرور۔‘‘
’’ایک عام قسم کے کلبی۔‘‘
’’یہ تم نے کلوسک سے سنا ہو گا۔‘‘
’’کلوسک سے کیوں؟ کیا تمھارا خیال ہے میں خود یہ بات نہیں سمجھ سکتی؟ اصل میں تمھارا خیال یہ ہے کہ مجھ میں اتنی اہلیت نہیں کہ تمھارے بارے میں خود اپنی رائے قائم کر سکوں ۔ تم لوگوں کو نکیل ڈال کر چلانا چاہتے ہو۔ تم نے مسٹر زیتورتسکی سے تبصرہ لکھنے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’میں نے اس سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔‘‘
’’یہ تو ایک بات ہوئی۔ پھر تم نے مجھ سے ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ تم نے مجھے مسٹر زیتورتسکی کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا اور مسٹر زیتورتسکی کو میرے لیے بہانے کے طور پر۔ لیکن اتنا یقین رکھو کہ ملازمت مجھے مل جائے گی۔‘‘
’’کلوسک کے ذریعے سے؟‘‘ میں نے طنزیہ انداز اختیار کرنے کی کوشش کی۔
’’تمھارے ذریعے سے نہیں ۔ تم نے اپنا اتنا کچھ داؤ پر لگا دیا ہے اور تم جانتے تک نہیں کہ تم کیا کچھ ہار چکے ہو۔‘‘
’’اور تم جانتی ہو؟‘‘
’’ہاں ۔ یونیورسٹی تمھارے معاہدے کی تجدید نہیں کرے گی، اور اگر تمھیں کسی گیلری میں کلرک کی نوکری بھی مل جائے تو تم خوش قسمت ہو گے۔ لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب تمھاری اپنی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں تمھیں ایک مشورہ دوں : آئندہ ہمیشہ ایمانداری سے کام لینا اور کبھی جھوٹ مت بولنا کیونکہ عورت جھوٹ بولنے والے مرد کی عزت نہیں کرتی۔‘‘
وہ اٹھ کھڑی ہوئی، مجھ سے (یہ ظاہر تھا کہ آخری بار) ہاتھ ملایا، مڑی اور چلی گئی۔
کچھ دیر بعد ہی مجھے خیال آیا (اگرچہ میرے چاروں طرف سرد خاموشی کا گھیرا تھا) کہ میری کہانی دراصل المیہ نہیں بلکہ طربیہ کہانیوں کے زمرے سے تعلق رکھتی ہے۔
اور اس خیال نے مجھے کسی قدر تسکین پہنچائی۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com/2015/08/koi-nahi-hanse-ga.html
گم شدہ خطوط ۔۔۔ ترجإمہ: محمد عمر میمن
ذیل میں میلان کنڈیرا کے ناول ’’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘‘ (The Book of Laughter and Forgetting) کے چوتھے حصے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں تمینہ نامی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے ؛ تمینہ جو بیوہ ہے، بے وطنی میں اپنے دن گزار رہی ہے، جسے اپنے شوہر سے بے پناہ محبت ہے، اور جو کسی قیمت پر اس کی یاد کو زمانے کے ہاتھوں محو ہوتا ہوا دیکھنے کی روادار نہیں۔ انفرادی زندگی میں المیے کا احساس اور اس احساس کی المیہ شدت جن عوامل سے آتی ہے، وہ ہمیں تمینہ کی سرگزشت میں ملتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دو باتیں بہرحال واضح ہو جاتی ہیں : المیے کی اثر انگیزی نہ کرشن چندرانہ فصاحت کی رہینِ منت ہے اور نہ جدید ترین اردو افسانہ نگاروں کی بلند بانگ لفاظی کی۔ وہ تو اس قسم کے بے سنگار، تقریباً برہنہ جملے سے خود بخود پیدا ہو جاتی ہے : ’’میں دنیا کو تمینہ کے گرد ایک مدوّر چہار دیواری کی طرح اٹھتا ہوا تصور کرتا ہوں، اور خود تمینہ کو بہت نیچے سبزے کی ایک ننھے سے قطعے کی طرح۔ اس قطعے پر پھلنے پھولنے والا واحد گلاب اس کے شوہر کی یاد ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ زندگی کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کے لیے منطقی توازن سے مرصّع ذات کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ تناقضات سے مبرّا ذات کی۔ تمینہ کو خوب معلوم ہے کہ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اپنی مجبوریاں۔ ایک دن، چار و نا چار، اپنے جسم کی ضرورت سے مغلوب ہو کر، اسے کسی غیر مرد کے ساتھ ہم جسم ہونا ہی پڑے گا۔ اور اسے یہ بھی خوب معلوم ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ اس کے شوہر کے ساتھ بے وفائی نہ ہو گی۔ یہ سب تو خیر ہے ہی، لیکن غیر مرد کے ساتھ جب ہم بستری کا وقت آتا ہے تو — یہ آپ خود معلوم کیجیے۔ ترجمہ حاضر ہے۔ اور ہو سکے تو پوری کتاب ہی پڑھ جائیے، اور ہم سب عبقریوں کو بے نقط سنائیے، یا بلکہ کنڈیرا کے ہم زبان ہو کر، پورے خلوص اور پورے المیہ احساس کے ساتھ نعرہ لگائیے : ’’تمینہ اور گیئٹے (Goethe) میں وہی فرق ہے جو انسان اور ادیب میں ہوتا ہے۔‘‘
میلان کنڈیرا کا شمار صفِ اول کے ہمعصر مغربی ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ سن ۱۹۲۹ء میں برنو، چیکوسلوواکیہ، میں پیدا ہوا۔ ۱۹۶۸ء میں جب سوویت یونین نے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کیا تو اس کے نتیجے میں ملک کے دانشوروں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ خود کنڈیرا کو بھی: اسے پراگ کے فلمی مدرسے میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، کام کاج کے دروازے اس پر بند کر دیے گئے، اور اس کی لکھی ہوئی کتابیں کتب خانوں سے اٹھا لی گئیں۔ سن ۱۹۷۵ ء میں کنڈیرا نے فرانس میں جلاوطنی اختیار کر لی۔ کنڈیرا کی تصانیف میں ایک افسانوں کا مجموعہ، ایک ڈراما، اور سات ناول شامل ہیں۔ پہلا ناول ’’مذاق‘‘ (The Joke) اور تازہ ترین ’’لافانیت‘‘ (Immortality) ہیں۔
— مترجم
1
میرے حساب کتاب کے مطابق روئے زمین پر ہر سیکنڈ دو یا تین افسانوی کرداروں کا بپتسمہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ان بپتسمہ دینے والے یوحناؤں کے جم غفیر میں داخل ہونے کی نوبت آتی ہے، میرا سارا اعتماد لڑکھڑا جاتا ہے۔ لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟ مجھے اپنے کرداروں کو کوئی نہ کوئی نام تو بہرحال دینا ہی ہے — ٹھیک ہے نا؟ لیکن اس بار یہ واضح کر دینے کے لیے کہ میری ہیروئن کا واسطہ مجھ سے، اور صرف مجھ ہی سے، ہے (اور مجھے اس سے جو انس ہے وہ کبھی کسی اور سے نہیں رہا)، میں اسے جو نام دے رہا ہوں، اس نام کی عورت اس سے پہلے کوئی نہیں ہوئی: تمینہ۔ میں اسے دراز قامت، حسین، پینتیس سالہ، اور اصلاً پراگ کی باشندہ تصور کرتا ہوں۔
اس وقت میں اسے یورپ کے مغرب میں ایک صوبائی شہر کی ایک سڑک پر جاتا ہوا دیکھ سکتا ہوں۔ جی ہاں، آپ کا خیال بالکل درست ہے۔ میں پراگ کو تو، جو یہاں سے کوسوں دور ہے، اس کے نام سے پکار رہا ہوں، لیکن اِس شہر کو میں نے گمنام رہنے دیا ہے جو میری کہانی کا محلِ وقوع ہے۔ یہ بات تناظر کے تمام اصولوں کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن صاحب، یہ تو اب آپ کو برداشت کرنا ہی ہو گا۔
تمینہ ایک چھوٹے سے کیفے میں ویٹرس کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ یہ کیفے ایک شادی شدہ جوڑے کی ملکیت ہے۔ کیفے سے اتنی کم آمدنی ہوتی تھی کہ شوہر صاحب نے کہیں اور ملازمت کر لی اور ان کی جگہ تمینہ کو رکھ لیا گیا۔ اپنی نئی جگہ پر جو حقیر تنخواہ شوہر کو ملتی تھی، اور اس سے زیادہ حقیر تنخواہ جو وہ تمینہ کو دیتے تھے، تو ان کا فرق ہی بس ان کی واحد نفع بخش آمدنی تھی۔ تمینہ گاہکوں کو کافی اور کیل واڈوس1 لا لا کر پیش کرتی ہے (گاہکوں کی تعداد کبھی بھی زیادہ نہیں ہوتی، کیفے ہمیشہ ہی آدھا خالی ہوتا ہے )، اور پھر بار کے کاؤنٹر کے پیچھے واپس چلی جاتی ہے۔ کاؤنٹر کے دوسری طرف اسٹول پر ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کا منتظر بیٹھا ہوتا ہے۔ سارے گاہک اسے پسند کرتے ہیں : وہ بڑی اچھی سامع جو ہے!
لیکن کیا وہ سچ مچ ان کی لن ترانی سنتی بھی ہے؟ یا صرف خاموشی سے، اپنے خیالات میں محو، ان کی طرف دیکھے جاتی ہے؟ یہ میں وثوق سے نہیں بتا سکتا۔ پھر اس کے جان لینے سے کوئی لمبا چوڑا فرق بھی نہیں پڑتا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کی بات نہیں کاٹتی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب دو آدمیوں میں سلسلۂ کلام چل نکلتا ہے تو کس طرح پہلے ایک آدمی مسلسل بات کیے جاتا ہے اور کس طرح دوسرا یہ کہہ کر قطع کلام کرتا ہے، ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ اور پھر اپنے بارے میں رواں ہو جاتا ہے، تا آنکہ اس کے رفیق کو بھی بیچ میں کہیں ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یہ دونوں ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ بظاہر ایک قسم کا اتفاق ہی معلوم ہوتے ہیں، یعنی طرفین میں سے دوسرے کی بات کو ایک قدم آگے بڑھانے کا ذریعہ، لیکن ایسا سوچنا محض خام خیالی ہے۔ اصل میں یہ ایک سفاک قوت کے خلاف اتنی ہی سفاک بیزاری کا اظہار ہوتے ہیں۔ اپنے کان کو غلامی کی بندش سے چھڑانے کی کوشش؛ ایک طرح کا سامنے کا وار جس کا واحد مقصد دوسرے کی قوتِ سامعہ پر حاوی ہو جانا ہوتا ہے۔ خلق و بشر کے درمیان آدمی کی تمام تر زندگی کا مقصد ان کی سماعت پر قابض ہو جانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ تمینہ کی ہر دلعزیزی کا راز صرف اتنا ہے کہ اسے اپنے بارے میں بات چیت کرنے کی ذرا خواہش نہیں۔ اپنی سماعت پر قابض ہونے والی قوتوں کی وہ ادنیٰ سی مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتی: ’’ یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘
2
بی بی عمر میں تمینہ سے دس سال چھوٹی ہے۔ اِدھر کوئی سال بھر سے وہ تمینہ کو اپنے حالات روز کے روز آ کر بتاتی رہی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا (اور سارا کھٹ راگ اس وقت شروع ہوا) جب ایک روز بی بی نے تمینہ کو بتایا کہ وہ اور اس کا شوہر آتی گرمیوں میں پراگ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اچانک ایسا لگا گویا تمینہ برسوں کی نیند سے چونک پڑی ہو۔ بی بی نے اپنی بات جاری رکھی لیکن (خلافِ عادت) تمینہ نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا، ’’ بی بی، اگر واقعی ـپراگ جانا ہو تو کیا تم میرے والد کے گھر جا کر میرے لیے ایک چیز لا سکتی ہو؟ کوئی بہت بڑی چیز نہیں، بس ایک چھوٹا سا پیکٹ ہے۔ اتنا چھوٹا کہ بہ آسانی تمھارے سوٹ کیس کے ایک گوشے میں آ جائے گا۔‘‘
’’ہاں ہاں، ضرور، کوئی بھی چیز‘‘ بی بی نے کہا — بالکل راضی اور تیار۔
’’ تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ میں کتنی ممنون ہوں گی‘‘ تمینہ نے کہا۔
’’مجھ پر بھروسا رکھو، میں یہ کام ضرور کر دوں گی‘‘ بی بی نے کہا۔ دونوں کچھ دیر تک پراگ کے بارے میں گفتگو کرتی رہیں۔ تمینہ کے رخسار جلنے گے۔
پھر بی بی نے موضوع بدل دیا: ’’ میں — ایک کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
تمینہ نے چیکوسلوواکیہ میں پڑے ہوئے اپنے پیکٹ کے بارے میں سوچا، اور اس خیال سے کہ اس موقعے پر بی بی سے اس کی دوستی کتنی ناگزیر تھی، اس نے اپنی سماعت ایک بار پھر بی بی کے لیے وقف کر دی۔ ’’کتاب؟ کاہے کے بارے میں؟‘‘
بی بی کی یک سالہ بچی ماں کے بار اسٹول کی ٹانگوں کے آس پاس شور مچاتی ہوئی لڑکھڑا رہی تھی۔
’’شش!‘‘ بی بی نے گویا فرش کی تہدید کی اور کسی گہرے خیال میں غرق، سگریٹ کا کش لگایا۔ ’’دنیا کے بارے میں … جس طرح کہ یہ مجھے نظر آتی ہے۔‘‘
بچی اب باقاعدہ چیخنے لگی تھی۔
’’سچ مچ کتاب لکھو گی — ہمت ہے؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں؟‘‘ بی بی نے جواب دیا۔ ایک بار پھر وہ محوِ خیال ہو گئی، پھر بولی، ’’ظاہر ہے یہ جاننے کے لیے کہ کتاب کیسے لکھی جاتی ہے، مجھے دوچار اشاروں کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔ تم بناکا (Banaka) کو تو نہیں جانتیں؟ یا جانتی ہو؟‘‘
’’ نہیں۔ مگر یہ ذاتِ شریف ہیں کون؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔
’’ ایک ادیب ہے‘‘ بی بی نے جواب دیا۔ ’’ یہیں آس پاس کہیں رہتا ہے۔ میرے لیے اس سے ملنا اشد ضروری ہے۔‘‘
’’ کیا لکھا ہے اس نے؟‘‘
’’ مجھے نہیں معلوم‘‘ بی بی نے کہا، پھر کچھ سوچتے ہوئے یہ اضافہ کر دیا، ’’اچھا ہو گا کہ میں پہلے اس کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھ ڈالوں۔‘‘
3
ٹیلیفون کے رسیور سے جو کچھ برآمد ہوا، وہ احساسِ مسرت سے لبریز کوئی فجائی فقرہ یا تحیّر کہ جس کی وہ توقع کر سکتی ہو، نہ تھا، بلکہ ایک سرد مہر ’’اوہ تم، اچھا۔ اتنے سالوں بعد یاد کیا۔‘‘
’’تمھیں پتا ہے کہ میری مالی حالت اچھی نہیں‘‘ تمینہ نے اعتذاراً کہا، ’’فون کرنے میں بہت پیسے لگ جاتے ہیں۔‘‘
’’ تو خط لکھ دیا ہوتا۔ ٹکٹ پر تو اتنے پیسے خرچ نہیں ہوتے — یا ہوتے ہیں؟ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ تمھارا آخری خط کب آیا تھا۔‘‘
اس خیال سے کہ شروعات ہی غلط طرح سے ہو گئی ہے، تمینہ کچھ دب سی گئی اور اپنی ساس کی مزاج پرسی کرنے لگی۔ جب یہ تمام تکلّفات پورے ہو گئے، تب کہیں جا کر حرفِ مدعا زبان پر لائی: ’’ایک کام آن پڑا ہے۔ کر دو تو بے حد شکر گذار ہوں گی۔ جب ہم وہاں سے نکل رہے تھے تو پیچھے ایک چھوٹا سا پیکٹ چھوڑ آئے تھے۔‘‘
’’پیکٹ؟‘‘
’’ہاں۔ تم نے اور مریک (Mirek)نے مل کر اسے والد صاحب کے ڈیسک میں مقفل کر دیا تھا۔ اس کی ایک دراز مریک کے لیے وقف تھی — یاد ہے؟ اور مریک نے چابی تمھارے حوالے کر دی تھی۔‘‘
’’چابی؟ مجھے کوئی چابی وابی یاد نہیں۔‘‘
’’مگر اماں، چابی تمھارے پاس ضرور ہونی چاہیے! مریک نے تمھیں دی تھی، میرے سامنے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔‘‘
’’تم لوگوں نے مجھے کچھ نہیں دیا تھا۔‘‘
’’بہت زمانہ ہو گیا ہے۔ ممکن ہے تم بھول بھال گئی ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ ذرا ڈھونڈ ڈھانڈ کر چابی دیکھ لو۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھونڈو گی تو ضرور مل جائے گی۔‘‘
’’اور مل گئی تو پھر کیا؟‘‘
’’ذرا دراز کھول کر اطمینان کر لینا کہ وہ پیکٹ وہاں اب بھی موجود ہے۔‘‘
تو کیا تمھارے خیال میں اس کے پر لگ گئے ہوں گے؟ تم نے خود اسے وہاں رکھا تھا — نہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تو پھر مجھے دراز کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟ تمھارا کیا خیال ہے، میں تمھاری نوٹ بکس الٹ پلٹ کرتی رہی ہوں؟‘‘
تمینہ دنگ رہ گئی۔ اس کی ساس کو کیسے پتا چلا کہ دراز میں نوٹ بکس تھیں؟ اس نے انھیں حفاظت سے کاغذ میں لپیٹ کر اوپر سے گوند والی ٹیپ لگا دی تھی۔ الغرض اس نے ساس پر اپنی حیرت ذرا ظاہر نہ ہونے دی۔ ’’نہیں نہیں، میرا یہ مطلب نہیں۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم ذرا دیکھ کر اطمینان کر لو کہ یہ وہاں موجود ہیں۔ اگلی دفعہ جب فون کر لوں گی تو پھر کچھ اور بتاؤں گی۔‘‘
’’اس وقت بتانے میں کیا بگڑ جائے گا؟‘‘
’’میں زیادہ دیر فون پر بات نہیں کر سکتی امّاں، بہت پیسے لگ جائیں گے۔‘‘
’’تو پھر فون کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ بڑی بی نے دھڑ دھڑ ٹسوے بہانے شروع کر دیے۔
’’اماں، روؤ مت‘‘ تمینہ نے التجا کی۔ اپنی ساس کا رونا اسے خوب یاد تھا۔ جب کبھی بڑی بی ان دونوں سے کچھ اینٹھنا چاہتیں، ساون بھادوں کی جھڑی لگا دیتیں۔ یہ ان دونوں پر الزام تراشی کا بے حد جارحانہ حربہ تھا۔
رسیور اس کی ہچکیوں سے تھرتھرانے لگا۔ ’’خدا حافظ، امّاں‘‘ تمینہ نے کہا، ’’جلد ہی دوبارہ فون کروں گی۔‘‘
تاہم تمینہ کی ہمت نہ ہوئی کہ بڑی بی کے رونا بند کرنے اور خدا حافظ کہنے سے پہلے فون منقطع کر دے۔ لیکن آنسو مسلسل بہہ رہے تھے، اور ہر آنسو فون کی قیمت میں بھاری اضافہ کیے جا رہا تھا۔
چنانچہ تمینہ نے کھٹ سے سلسلہ منقطع کر دیا۔
’’یہ تو شیطان کی آنت جتنی لمبی کال کر ڈالی تم نے‘‘ تمینہ کے آقا کی بیوی نے وقت کا میزان رکھنے والے آلے کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی سوگوار آواز میں کہا، پھر چیکوسلوواکیہ کے ریٹ سے اس نے کال کی مدتِ وقت کو ضرب دیا، اور تمینہ کال کی قیمت دیکھ کر خاصی وحشت زدہ ہو گئی، تاہم اس نے بغیر آناکانی کیے پوری رقم چٹ پٹ ادا کر دی۔
4
تمینہ اور اس کا شوہر چیکوسلوواکیہ سے غیر قانونی طور پر نکلے تھے۔ ترکیب یہ کی کہ حکومتی ٹریول ایجنسی میں اپنا نام اس گروہ میں لکھوایا جو یوگوسلاویہ کے ساحلی علاقے کی سیر و سیاحت کو جانا چاہتا تھا۔ اور جب وہاں پہنچ گئے تو گروہ سے کٹ کر آسٹریا ہوتے ہوئے مغرب چلے آئے۔
لوگوں کو مشتبہ نظر آنے سے بچنے کے لیے دونوں نے صرف ایک بڑا سوٹ کیس ہی ساتھ لیا تھا۔ لیکن ٹھیک آخری لمحے میں ان کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے وہ پیکٹ وہیں چھوڑ دیا جس میں ان کے ایک دوسرے کے نام خطوط اور تمینہ کی نوٹ بکس تھیں۔ کسٹم کے معائنے کے دوران ان کے مقبوضہ ملک کے کسی افسر نے اگر ان کا سوٹ کیس کھول کر تلاشی لینی شروع کر دی ہوتی تو اس بنڈل کو دیکھ کراس کا ماتھا ضرور ٹھنکتا: ساحلِ سمندر پر صرف دو ہفتے کی چھٹی منانے کے لیے کون ہوش مند اپنی نجی زندگی کا سارا دفتر ساتھ اٹھائے پھرتا ہے؟ چونکہ وہ اس بنڈل کو اپنے اپارٹمنٹ میں نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، کہ انھیں خوب معلوم تھا کہ فرار ہوتے ہی حکومت ان کا اپارٹمنٹ اپنی تحویل میں لے لے گی، انھوں نے پراگ سے باہر تمینہ کی ساس کے اپارٹمنٹ میں، تمینہ کے مرحوم خسر کی قدیم اور غیر مستعمل ڈیسک میں اسے سینت کر رکھ دیا۔
بیرون ملک تمینہ کا شوہر سخت بیمار پڑ گیا۔ تمینہ صرف اتنا ہی کر سکی کہ بیٹھی موت کے ہاتھوں اسے آہستہ آہستہ فنا ہوتا دیکھتی رہے۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ لاش کو دفنایا جائے یا جلایا؟ اس نے جلانے کو کہہ دیا۔ پھر پوچھا گیا کہ وہ اس کی خاک کو خاکدان میں محفوظ رکھنے کے حق میں ہے یا منتشر کر دینے کے؟ اس خیال سے کہ اس کا ذاتی گھر تو ہے نہیں، اور وہ دستی سامان کی طرح اپنے شوہر کو ہر جگہ اٹھائے پھرنے پر مجبور ہو جائے گی، تمینہ نے اس کی خاک منتشر کرا دی۔
میں دنیا کو تمینہ کے گرد ایک مدوّر چہار دیواری کی طرح اٹھتا ہوا تصور کرتا ہوں، اور خود تمینہ کو بہت نیچے سبزے کے ایک ننھے سے قطعے کی طرح۔ اس قطعے پر پھلنے پھولنے والا واحد گلاب اس کے شوہر کی یاد ہے۔
یا پھر میں تمینہ کے حال کا (جو لوگوں کو قہوے کے پیالے پیش کرنے اور ان کی لن ترانیوں کو بہ کمال خاموشی سننے سے عبارت ہے ) اس طرح تصور کرتا ہوں جیسے لٹّھوں کا کوئی ٹھاٹھہ سطح آب پر بہا جا رہا ہو، جس پر بیٹھی وہ پیچھے کی طرف دیکھے جا رہی ہو، صرف پیچھے کی طرف۔
ان دنوں وہ بڑی حسرت سے یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ ماضی آہستہ آہستہ دھندلا کر اس کی پہنچ سے نکلا جا رہا ہے۔ اپنے شوہر کی باقیات میں اس کے پاس صرف ایک پاسپورٹ سائز کی تصویر رہ گئی ہے۔ بقیہ تمام تصاویر وہیں پراگ والے اپارٹمنٹ میں رہ گئی ہیں، جس پر اب حکومت نے قبضہ کر لیا ہو گا۔ ہر روز وہ اس میلی کچیلی تصویر کو دیکھتی ہے جس کے کونے دستبردِ زمانہ سے تڑ مڑ گئے ہیں۔ اس میں اس کے شوہر کا پورا چہرہ دکھایا گیا ہے (جس طرح کسی مجرم کی تصویر میں ہوتا ہے )۔ شباہت بھی کچھ اتنی واضح نہیں۔ وہ ہر روز تھوڑا سا وقت ایک قسم کی روحانی ریاضت میں گزارتی ہے۔ یہ یاد کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ یک رخی خاکے (profile) میں کیسا لگتا، پھر نصف، اور پھر ایک چوتھائی یک رخی خاکے میں۔ اس کی ناک اور ٹھوڑی کے خط کا معائنہ کرتی ہے۔ روز ہی نئے نئے مبہم اور غیر واضح دھبوں کو دیکھ کر، جن تک پہنچ کر اس کا حافظہ ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور طے نہیں کر پاتا کہ آگے کس سمت میں جائے، مارے دہشت کے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اس قسم کی مشقوں کے درمیان وہ اس کی جلد کو مع اس کی رنگت، اس کے معمولی نقائص، مثلاً مہین مہین مسّے، گومڑیاں، رگیں، جھائیاں، تصور میں ابھارنے کی کوشش کرتی، لیکن یہ مشکل، بلکہ تقریباً ناممکن ثابت ہوتا۔ اس کا حافظہ جن رنگوں کا استعمال کرتا، تمام غیر حقیقی ہوتے اور انسانی جلد کے صحیح رنگ کے ساتھ انصاف نہ کر پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنے شوہر کی تخئیلی بازیافت کا ایک بہت ذاتی اور منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جب بھی وہ کسی مرد کے آمنے سامنے بیٹھتی تو اس کے سر کو سنگتراش کے armature کے طور پر استعمال کرتی۔ اپنی تمام تر قوتِ ارتکاز کو کام میں لا کے اس آدمی کے چہرے کو اپنے ذہن میں نئے سرے سے ڈھالتی، جلد کے رنگ کو قدرے گہرا کر دیتی، اس پر مسوں اور جھائیوں کا اضافہ کر دیتی، کانوں کی آہستہ آہستہ تراش خراش کرتی اور آنکھوں کو نیلا رنگ دیتی۔
لیکن ان تمام کوششوں سے اگر کچھ ثابت ہوتا تھا تو بس یہ کہ اس کے خاوند کا عکس ہمیشہ کے لیے محو ہو چکا ہے۔ جن دنوں انھوں نے ابھی ابھی ڈیٹنگ شروع کی تھی، اس نے تمینہ سے کہا تھا کہ وہ باقاعدہ ڈائری لکھا کرے اور اس میں دونوں کی زندگی کا حساب کتاب رکھا کرے۔ (وہ عمر میں تمینہ سے دس سال بڑا تھا اور انسانی حافظے کی کمزوری کا اسے بہرحال کچھ اندازہ ضرور تھا۔ ) اول اول تمینہ نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا، یہ تو ان کی محبت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوا۔ اسے اپنے شوہر سے اتنی شدید محبت تھی کہ وہ یہ اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ چیز جسے وہ ناقابلِ فراموش سمجھتی ہے، کبھی فراموش بھی ہو سکتی ہے۔ آخر میں، بہرحال، اس نے وہی کیا جو اس کا شوہر چاہتا تھا۔ یوں اس نے ڈائری لکھنا شروع تو کر دی، لیکن تحریر میں جوش اور ولولہ پیدا نہ کر سکی — اور یہ بات ان نوٹ بکس سے صاف ظاہر ہو جاتی تھی۔ ان میں جگہ جگہ کئی کئی صفحے خالی تھے، پھر اندراجات بھی خاصے شکستہ اور نامکمل۔
5
اس نے بوہیمیا (Bohemia) میں پورے گیارہ سال اپنے شوہر کے ساتھ گزارے تھے، اور پیچھے پوری گیارہ نوٹ بکس اس کی ساس کے قبضے میں پڑی تھیں۔ شوہر کے انتقال کے فوراً بعد اس نے ایک نوٹ بک خریدی اور اسے گیارہ حصوں میں تقسیم کیا۔ گو وہ کئی نیم فراموش کردہ واقعات اور صورت حالات کو از سر نو شکل دینے میں کامیاب ہو گئی تھی، لیکن یہ بالکل معلوم نہ ہو سکا کہ انھیں درج کرے تو کس حصے میں۔ واقعات کی زمانی ترتیب کا سارا احساس زائل ہو چکا تھا۔
چنانچہ اس نے سب سے پہلے جس کام کا بیڑا اٹھایا وہ یادوں کی بازیافت کا تھا، تاکہ وقت کے بہاؤ میں ان سے ایک ریفرنس پوائنٹ کا کام لیا جا سکے اور یوں وہ ماضی کو دوبارہ تخلیق کرنے میں ایک بنیادی ڈھانچے کی طرح ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر، وہ چھٹیاں جو انھوں نے منائی تھیں، انھیں تعداد میں گیارہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ان میں سے صرف نو ہی یاد کر سکی۔ بقیہ دو حافظے سے اس طرح گم ہو چکی تھیں کہ بازیافت ناممکن تھی۔
ان نو، از سر نو تخلیق کردہ، تعطیلات میں سے ہر ایک کو اس نے اپنی نوٹ بک کے گیارہ حصوں میں جدا جدا درج کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اسے اس پر مکمل اعتماد اسی وقت حاصل ہو سکتا تھا جب اس سال کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہو۔ 1964 میں تمینہ کی ماں کا انتقال ہوا تھا اور معمول سے ایک ماہ بعد ان دونوں نے چند سوگوار تعطیلی ہفتے تترس (Tatras) میں گزارے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے اگلے سال وہ ساحلِ آب کی تفریح کے لیے بلغاریہ گئے تھے۔ اسے 1968 اور 1969 والی تعطیلات بھی یاد تھیں کیونکہ یہ چیکوسلوواکیہ میں ان کی آخری چھٹیاں تھیں۔
(زمانی ترتیب برطرف) اگر بیشتر چھٹیوں کو از سر نو تخلیق کرنے میں اسے بہتر کامیابی ہو بھی گئی تو کرسمس اور نئے سال کے موقعے بالکل قابو میں نہ آ سکے۔ گیارہ میں سے صرف دو کرسمس اور بارہ نئے سالوں میں سے صرف پانچ ہی اسے یاد آ سکے۔
اس نے ان پیار کے ناموں کو یاد کرنے کی کوشش بھی کی جن سے اُس نے اِسے مختلف اوقات میں پکارا تھا۔ تمینہ کے اصلی نام کو اس نے صرف شادی کے بعد کے دو ایک ہفتوں ہی تک استعمال کیا تھا۔ اس کی شفقت اور نرمی اس مشین کی طرح تھی جس سے پیار کے نت نئے نام ڈھلے ڈھلائے نکلے چلے آتے تھے اور اس سے پہلے کہ ان میں کا کوئی نام پیش پا افتادہ ہو جائے، وہ بڑی پھرتی سے ایک اور نیا نام وضع کر لیا کرتا تھا۔ ان بارہ برسوں میں جو دونوں نے ساتھ گزارے تھے، اس نے بیس تیس نام تو کم از کم اسے ضرور دے ڈالے ہوں گے۔ ان سے ہر ایک کا تعلق ان کی زندگی کے ایک خاص اور معینہ دور سے تھا۔
لیکن وہ اس گمشدہ کڑی کو کیسے بحال کر سکتی تھی جو پیار کے کسی مخصوص نام اور وقت کے بہاؤ کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہو؟ یہ کامیابی تو بہت نایاب موقعوں ہی پر ہو سکی۔ مثلاً وہ اپنی ماں کی وفات کے بعد والے دن یاد کر سکتی تھی جب اس کے شوہر نے بالکل قریب آ کر، جیسے اسے کسی خواب سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہو، بڑے تعمیل طلب انداز میں اس کا نام سرگوشیوں میں لیا تھا (اس کا وہ نام جو اس نے اسے اُن دنوں دے رکھا تھا)؛ ہاں، تو یہ نام اسے خوب یاد تھا۔ وہ اسے نہایت اعتماد کے ساتھ 1964 کے تحت درج بھی کر سکتی تھی۔ لیکن بقیہ دوسرے نام چڑیا گھر سے مفرور پرندوں کی طرح، بہ کمال آزادی و جنوں، وقت کے باہر اڑتے پھر رہے تھے۔
یہی وجہ ہے جو وہ اس شدید وارفتگی سے نوٹ بکس اور خطوں کے اس بنڈل کی بازیافت کی خواہاں ہے۔
ظاہر ہے وہ خوب جانتی ہے کہ ان نوٹ بکس میں بہت سی ناخوشگوار باتیں بھی درج ہیں — نا آسودگی کے دن، ازدواجی چپقلشیں، حتیٰ کہ اکتاہٹ اور بیزاری بھی — تاہم یہ چیزیں بے حیثیت ہیں۔ اس نے کب یہ چاہا ہے کہ ماضی شعر میں بدل جائے ؛ وہ تو اس بات کی کوشاں ہے کہ ماضی کو اس کا گمشدہ جسم لوٹا دے۔ اس جذبے کا محرک خواہشِ حسن نہیں، بلکہ آرزوئے حیات ہے۔
سو دیکھیے، وہ وہاں لٹھوں کے ٹھاٹھے پر بیٹھی ہوئی پیچھے کی طرف دیکھے جا رہی ہے، صرف پیچھے کی طرف۔ اس کی زندگی کی ساری پونجی اس سے زیادہ نہیں جو اسے فاصلے میں نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں اس کا ماضی سمٹتا، غائب ہوتا اور پارہ پارہ ہوتا جاتا ہے، خود تمینہ بھی اسی تناسب سے سمٹنا اور دھندلانا شروع کر دیتی ہے۔
وہ ان نوٹ بکس کو دیکھنے کو اس لیے تڑپ رہی ہے کہ ان کی مدد سے اس نئی نوٹ بک میں واقعات کے خستہ حال ڈھانچے کو مکمل کر سکے، اس کو در و دیوار سے آراستہ کر سکے، اور یوں اس کا ایک گھر بنا دے جس میں رہ سکے۔ کیونکہ ایک بری طرح نصب کیے ہوئے خیمے کی طرح اگر اس کی یادوں کا مرتعش ڈھانچا نیچے آ رہا تو پھر تمینہ کے پاس حال کے سوا کچھ باقی نہ بچے گا— وہ حال جو ایک غیر مرئی نقطے کی طرح ہے، اور موت کی طرف آہستہ خرام کوئی لاشے۔
6
تو پھر کیوں اس نے اپنی ساس سے پیکٹ بھیج دینے کی درخواست کرنے میں اتنی دیر لگا دی؟
چیکوسلوواکیہ سے باہر جانے والی ساری ڈاک خفیہ پولیس کے ہاتھوں سے ہو کر ہی جاتی تھی۔ تمینہ اس بات پر کبھی راضی نہ ہو سکی کہ پولیس والے اس کے بے حد نجی معاملات میں دخیل ہوں۔ پھر یہ بھی کہ اس کے شوہر کا نام (جو ہنوز اس کا اپنا نام بھی تھا) اب بھی بلیک لسٹ پر چڑھا ہوا ہو گا، اور پولیس والے ہمیشہ ایسے شواہد اور دستاویزات کے متلاشی رہتے ہیں جن کا تعلق ان کے مخالفین کی زندگیوں سے ہو، حتیٰ کہ ایسے مخالفین سے بھی جو کب کے مر کھپ چکے ہوں۔ (تمینہ اس معاملے میں غلطی پر نہ تھی: پولیس کی مِسلوں پر ہی ہم اپنے جاوداں ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ )
بہ الفاظِ دیگر، اس کی رہی سہی امید بس اب بی بی ہی سے وابستہ ہے۔ اور بی بی سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ بی بی بناکا سے ملنا چاہتی ہے۔ چنانچہ اسے بناکا کی کتابوں میں سے کم از کم ایک کتاب کے پلاٹ سے تو ضرور واقف ہونا چاہیے، یہ تمینہ کا خیال ہے۔ کبھی دورانِ گفتگو اسے اس قسم کے خیال کا اظہار کرنا چاہیے : ’’بالکل ٹھیک۔ اس سے ملتی جلتی بات تم نے فلاں کتاب میں کہی ہے!‘‘ یا: ’’جانتے ہو، تم عین مین اپنے کرداروں کی طرح ہو!‘‘ تمینہ کو خوب معلوم ہے کہ بی بی کے اپارٹمنٹ میں کہیں ایک کتاب کا وجود نہیں۔ یہی نہیں، پڑھنا پڑ جائے تو مارے بوریت کے بی بی کے آنسو نکل آتے ہیں۔ چنانچہ تمینہ کو لازم آتا ہے کہ خود معلوم کرے کہ بناکا کن موضوعات پر لکھتا ہے، اور بی بی کو اس سے گفتگو کے واسطے باقاعدہ تیار کرے۔
ممکن ہے ہیوگو کو، جو کیفے کے باقاعدہ گاہکوں میں سے ہے، کچھ سن گن ہو۔ ’’تم بناکا کو جانتے ہو؟‘‘ تمینہ نے کافی کا پیالہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے دریافت کیا۔
ہیوگو کے منھ سے ہمیشہ بدبو آیا کرتی تھی۔ ورنہ بقیہ اعتبارات سے تمینہ اسے کافی گوارا عادت پاتی تھی: خاموش طبع، شرمیلا، عمر میں تمینہ سے پانچ سات سال چھوٹا۔ وہ ہفتے میں ایک بار کیفے آتا۔ یہاں اس کا مشغلہ باری باری ندیدی نظروں سے ان کتابوں کو جو وہ اپنے ساتھ لاتا تھا اور اتنی ہی ندیدی نظروں سے کاؤنٹر کے پیچھے ایستادہ تمینہ کو دیکھنا ہوتا تھا۔
’’ہاں، میں اسے جانتا ہوں‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اس کی کسی کتاب کا موضوع بتا سکتے ہو؟‘‘
’’دیکھو تمینہ‘‘ ہیوگو نے کہا، ’’آج تک کسی نے — اور میں تاکیداً کہتا ہوں، کسی نے — اس کی لکھی ہوئی کوئی چیز نہیں پڑھی ہے، یا کم از کم یہ اعتراف نہیں کیا کہ پڑھی ہے۔ وہ دوسرے، تیسرے، بلکہ یوں کہو کہ دسویں درجے کا ادیب ہے۔ سب جانتے ہیں۔ اس کی شہرت صفر کے برابر ہے۔ چنانچہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے اس کے پاس سوائے حقارت کے اور کوئی چیز نہیں۔‘‘
تمینہ نے بناکا کی لکھی ہوئی کتابوں کو حاصل کرنے کی جستجو چھوڑ دی، تاہم بی بی کو اس سے ملوانے کو وہ اب بھی اپنی ذمے داری سمجھتی تھی۔ وہ گاہے بگاہے اپنے اپارٹمنٹ کو، جو سارا دن خالی پڑا رہتا تھا، یویو (Joujou) نامی ایک نوجوان، شادی شدہ، جاپانی لڑکی کو فلسفے کے ایک پروفیسر کے ساتھ، جو خیر سے خود بھی شادی شدہ تھا، اپنی خفیہ عاشقانہ ملاقات کے لیے استعمال کرنے دیتی تھی۔ یہ پروفیسر بناکا سے واقف تھا، اور تمینہ نے عاشقوں کی اس جوڑی سے وعدہ کرا کے چھوڑا کہ ایک ایسے دن جب بی بی یہاں موجود ہو، وہ بناکا کو گھیر گھار کے یہاں لے آئیں گے۔
جب بی بی کو اس بات کا پتا چلا تو اس کا ردِ عمل یہ تھا: ’’ہو سکتا ہے کہ یہ بناکا خاصا حسین آدمی نکلے، اور تمھاری جنسی خشک سالی کے دن پورے ہوں۔‘‘
7
بالکل درست۔ شوہر کی وفات کے بعد سے آج تک تمینہ کسی مرد کے ساتھ نہیں سوئی تھی۔ یہ کسی اصول کی پابندی کی بنا پر نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے اپنی یہ جنسی وفاداری، جو قبر کے ماورا بھی قائم تھی، خاصی مہمل نظر آتی، اور واقعہ یہ ہے کہ اس نے اس بارے میں کبھی ڈینگ بھی نہیں ماری تھی۔ تاہم وہ جب بھی کسی مرد کے سامنے اپنے برہنہ ہونے کا تصور کرتی (اور یہ تصور وہ اکثر کیا کرتی) تو اس کے شوہر کا پیکر یکلخت اس کی نظروں کے سامنے تیر جاتا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ ہم جسمی کے دوران وہ اسے مستقل دکھائی دیتا رہے گا۔ اسے پتا تھا کہ اسے اُس کا چہرہ نظر آتا رہے گا، اور اُس کی اپنے پر ثبت آنکھیں بھی۔
ظاہر ہے یہ بڑی بے ڈھب بات تھی، بالکل احمقانہ، اور اس سے مخفی بھی نہیں۔ اس کے شوہر کی روح مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گی، اس بات پر اس کا عقیدہ نہ تھا۔ پھر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اس نے ایک آدھ عاشق ڈھونڈ نکالا تو اس بات سے اس کے شوہر کی یاد کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ اس کے باوجود وہ اس معاملے میں بالکل بے بس تھی۔
یہ ذرا عجیب تو بے شک لگے گا، تاہم اسے یہ خیال بھی آتا کہ اگر وہ اپنے شوہر کی زندگی ہی میں کسی اور مرد کے ساتھ سو لی ہوتی تو آج کسی کے ساتھ ہم بستری کہیں آسان ثابت ہوتی۔ ا س کا شوہر ایک مطمئن، کامیاب، اور گرم جوش آدمی تھا، اور تمینہ نے مقابلتاً خود کو ہمیشہ ہی کمزور محسوس کیا تھا۔ اسے ہمیشہ یہی لگتا کہ اگر وہ چاہے تو بھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی جس سے اس کے شوہر کی دل آزاری ہو۔
لیکن اب صورتِ حال مختلف تھی۔ اب اگر کوئی ایسا قدم اٹھائے تو وہ اس سے ایک ایسے شخص کو ایذا پہنچائے گی جو پلٹ کر اس کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے، جو اَب اس کا اتنا ہی دست نگر ہے جتنا ایک بچہ ہوتا ہے۔ پوری کائنات میں اب صرف وہی اپنے مرحوم شوہر کی رہ گئی تھی — صرف وہی!
یہی وجہ تھی کہ جس لمحے کسی غیر مرد کے ساتھ جسمانی محبت کے امکان کا خیال اسے بھولے سے بھی آتا، اس کے شوہر کا پیکر اس کے سامنے آ دھمکتا، اور ساتھ ہی اس کے لیے بے پناہ خواہش، اور خواہش کے ساتھ رو دینے کی پُر زور تڑپ۔
8
بناکا بد شکل آدمی تھا — اس قسم کا آدمی نہیں جو عورت کی خوابیدہ شہوانیت کو جگا سکے۔ تمینہ نے اسے چائے پیش کی اور اس نے بڑے احترام سے شکریہ ادا کیا۔ گفتگو کا کوئی خاص مرکز نہ تھا، اور سبھی اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک بناکا مڑا اور مسکرا کر بی بی سے بولا، ’’سننے میں آ رہا ہے کہ تم کوئی کتاب وِتاب لکھنے والی ہو۔ کاہے کے بارے میں ہو گی؟‘‘
’’بس‘‘ بی بی نے کہا، ’’ایک ناول لکھنا چاہتی ہوں۔ جس طرح مجھے دنیا نظر آتی ہے، اُس کے بارے میں۔‘‘
’’ناول؟‘‘ بناکا کے استفسار میں ناپسندیدگی کا شائبہ تھا۔
’’کوئی ضروری نہیں ناول ہی ہو‘‘ بی بی نے جواباً کہا، یوں جیسے اچانک اپنے بارے میں شک میں پڑ گئی ہو۔
’’کبھی سوچا بھی ہے کہ ناول میں کیا کچھ کاٹھ کباڑ ڈالنا پڑتا ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’مثلاً اب وہ بھانت بھانت کے کردار ہی لے لو۔ تو کیا ان کرداروں کے بارے میں تم سب کچھ جانتی ہو؟ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ کیسے سوچتے ہیں؟ کس قسم کے کپڑے پہنتے ہیں؟ کس ماحول سے آئے ہیں؟ تمھیں ان باتوں سے بھلا کیا لینا دینا، کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’بالکل‘‘ بی بی نے فوراً مان لیا۔ ’’مجھے ان باتوں کی مطلق پروا نہیں۔‘‘
جانتی ہو‘‘ وہ اپنی ہانکے گیا، ’’ناول اس انسانی فریبِ نظر کا ثمر ہوتے ہیں جس کی رو سے ہم اپنے بھائی بندوں کو سمجھنے کے مدعی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں!‘‘
’’کچھ بھی نہیں‘‘ بی بی نے کہا۔
’’بالکل سچ ہے‘‘ یویو نے ٹکڑا لگایا۔
فلسفے کے پروفیسر صاحب نے سر ہلا کر تائید کی۔
’’ہم صرف یہ کر سکتے ہیں‘‘ بناکا نے کہا، ’’کہ خود اپنی ذات کا کچا چٹھا پیش کر دیں۔ اس کے علاوہ ہر شے طاقت کا غلط استعمال ہی ٹھہرے گی۔ اس کے علاوہ ہر چیز جھوٹ ہے۔‘‘
’’سچ، بالکل سچ!‘‘ بی بی نے پر جوش اعتراف کیا، ’’میں ناول نہیں لکھنا چاہتی۔ لکھنے سے میرا مطلب یہ تھا بھی نہیں۔ میرا مطلب تو من و عن وہی تھا جو آپ نے ابھی ابھی بیا ن کیا ہے۔ یعنی انکشافِ ذات — اپنی زندگی کا حساب دینا۔ اور میں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کروں گی کہ میری زندگی بڑی معمولی ہے، مجھے کبھی کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔‘‘
بناکا مسکرایا۔ ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ باہر سے دیکھو تو خود مجھ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا!‘‘ بی بی نے نعرہ لگایا، ’’بالکل ٹھیک! مجھے باہر سے دیکھو، مجھ میں سرخاب کے کوئی پر نہیں لگے ہیں۔ باہر سے! کیونکہ میرے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، اندرونی طور پر، لکھنے لکھانے کے قابل تو اصل میں وہی ہے۔ اور لوگ بھی اسی کو پڑھنا چاہیں گے۔‘‘
دریں اثنا، تمینہ ان کی خالی ہوتی ہوئی پیالیوں میں مسلسل چائے ڈالتی رہی۔ وہ خوش تھی کہ یہ دونوں مرد، جو ذہن کے کوہِ اولمپس سے اس کے اپارٹمنٹ میں قدم رنجہ ہوئے تھے، اس کی سہیلی کے ساتھ اچھا سلوک کر رہے تھے۔
فلسفے کے پروفیسر نے اپنے پائپ کا لمبا سا کش لیا اور دھوئیں کے پیچھے چھپ گیا، یوں جیسے اپنے پر نادم ہو۔
’’جوائس کے آنے کے بعد سے ہم آگاہ ہوئے ہیں‘‘ اس نے کہا، ’’کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر، ہماری زندگی کا ایڈونچر سے تہی ہونا ہے۔ اوڈیسس ٹرائے میں لڑائی لڑا۔ خو د کشتی کھینچتا ہوا گھر واپس لوٹا، اور ہر جزیرے میں پیچھے ایک داشتہ چھوڑتا آیا— نہیں صاحب، یہ ہماری زندگی کا نقشہ ہرگز نہیں۔ ہومر کا ہفت خواں (Odyssey) اب انسان کے باطن میں واقع ہوتا ہے۔ آدمی نے اسے اپنے اندر اتار لیا ہے۔ جزیرے، سمندر، سائرن2 جو ہمیں پھانسنے کو تلی بیٹھی رہتی ہیں اور اِتھاکا (Ithaca) جو ہمیں اپنی طرف آنے کی ترغیب دیتا ہے —یہ سب گھٹ گھٹا کر بس اب ہمارے اندر اٹھنے والی آوازیں ہی رہ گئے ہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک! میں بھی بالکل یہی محسوس کرتی ہوں!‘‘ بی بی نے ہانک لگائی۔ ’’اسی لیے، مسٹر بناکا، میں آپ سے مل کر معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آدمی ان باتوں کو کس طرح لکھے۔ اکثر مجھے لگتا ہے جیسے میرا پورا جسم اظہار کی شدید خواہش سے پھٹا جا رہا ہے۔ یہ بات کرنا چاہتا ہے، کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ میرا دماغی توازن جاتا رہے گا۔ میں اپنی اندرونی گھٹن سے پھٹ پڑوں گی۔ مسٹر بناکا، آپ تو اِس کیفیت سے خوب واقف ہوں گے۔ میں اپنی رام کہانی سنانا چاہتی ہوں۔ اپنے جذبات کی کہانی۔ سچ مچ یہ بالکل منفرد ہیں — یقین جانیے — لیکن میرے ہاتھ میں کاغذ پکڑا دیجیے اور مجال ہے جو یہ خیالات باقی رہیں۔ فوراً رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں سارا مسئلہ تکنیک کا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے جو آپ جانتے ہیں اور جو میں نہیں جانتی۔ آپ کی کتابیں — یہ کس قیامت کی ہوتی ہیں …‘‘
9
یہاں ان دونوں سقراطوں نے لکھنے لکھانے کے فن پر جو لیکچر اس عورت کو دیے، میں ان کو سنا کر آپ کی سمع خراشی نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی بجائے میں ایک بالکل مختلف چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ حال ہی میں پیرس میں میں نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی۔ میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے کو جا رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور خاصا باتونی آدمی نکلا۔ وہ رات کو نیند نہ آنے کی شکایت کرنے لگا۔ غالباً بے خوابی کے مرض میں بری طرح مبتلا تھا۔ یہ سب اس کے ساتھ جنگ کے دوران شروع ہوا تھا۔ وہ ایک ملاح تھا۔ اس کی کشتی ڈوب گئی تھی۔ وہ تین دن اور تین راتیں مسلسل تیرتا رہا، تاآنکہ اس کی جان بچا لی گئی۔ اگلے چند ماہ وہ مستقل زندگی اور موت کے درمیان معلق رہا، اور گو آخر میں اس کی صحت بحال ہو گئی، تاہم سونے کی صلاحیت جاتی رہی۔
’’میں آپ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ زندگی گزارتا ہوں‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’اس زائد تہائی کا بھلا کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’لکھتا لکھاتا ہوں، اور کیا‘‘ اُس نے جواب دیا۔
میں نے پوچھا، ’’کیا لکھتے لکھاتے ہو؟‘‘
’’اپنی زندگی کی کہانی — اس آدمی کی کہانی جو مسلسل تین دن تک سمندر میں تیرتا رہا، موت کے سامنے ڈٹا رہا، سونے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھا، لیکن زندہ رہنے کی قوت کا برابر تحفظ کیے گیا۔‘‘
’’تو کیا یہ سب تم اپنے بچوں وچوں کے واسطے لکھ رہے ہو؟ خاندانی کوائف قسم کی چیز؟‘‘
’’میرے بچوں کو اس کی ذرا پروا نہیں۔‘‘ وہ تلخی سے ہنسا۔ ’’نہیں، میں ان واقعات کو جوڑ توڑ کر کتاب بنا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے اس کو پڑھ کر بہت سوں کا بہت بھلا ہو گا۔‘‘
ایک ادیب کے سروکار کی نوعیت کیا ہوتی ہے، اس کے بارے میں مجھے ایک اتفاقیہ بصیرت ٹیکسی والے سے گفتگو کرتے ہوئے ہاتھ آئی — ہم کتابیں اس لیے لکھتے ہیں کہ ہماری اولاد کو ذرا پروا نہیں ہوتی۔ ہم اس لیے ایک انجانی کائنات کی طرف رخ کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی بیوی سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتی ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ڈرائیور کو کہیں لکھنے لکھانے کا جنون (graphomania) تو نہیں تھا۔ چلیے پہلے اس اصطلاح کی تعریف کر لیں۔ ایک عورت جو اپنے عاشق کو یومیہ چار خط لکھتی ہے، ہرگز اِس مرض میں مبتلا نہیں ؛ وہ تو صرف ایک محبت میں غرق عورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ میرا دوست جو اپنے عشقیہ خطوط کے فوٹواسٹاٹ نکالتا ہے، صرف اس لیے کہ کسی دن ان کو شائع کر سکے، تو یقیناً میرا دوست اس مرض کا شکار ہے۔ گرافومینیا خط، ڈائری یا خاندانی روزنامچہ (جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے لکھا جائے ) لکھنے کی خواہش کا نام نہیں، بلکہ کتاب لکھنے کی خواہش کا نام ہے (تاکہ گمنام پڑھنے والوں کا ایک پورے کا پورا غول آدمی کے ہاتھ آ لگے )۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ٹیکسی ڈرائیور اور گوئٹے (Goethe) دونوں میں لکھنے کا جنون مشترک نظر آئے گا۔ تاہم جو بات گوئٹے کو ٹیکسی ڈرائیور سے ممتاز کرتی ہے وہ اس جنون سے پیدا ہونے والا نتیجہ ہے، بذاتِ خود جنون نہیں۔
گرافومینیا (یعنی کتابیں لکھنے کا سودا) معاشرے میں اس وقت عام وبا کی شکل اختیار کر لیتا ہے جب معاشرہ اتنی ترقی کر چکا ہو کہ یہ تین بنیادی صورتیں بہم پہنچا سکے :
(1) عام فلاح و بہبود کا وہ درجہ جہاں لوگ اپنی قوتوں کو فضولیات کے لیے وقف کرنے کے قابل ہو جائیں۔
(2) معاشرتی ترذید (atomisation) کا خاصا بڑھا ہوا درجہ اور نتیجے میں پیدا ہونے والا فرد کا احساسِ تنہائی۔
(3) قوم کے ارتقائے باطنی میں کسی اہم سماجی تبدیلی کا بھیانک فقدان۔ (اس ضمن میں مجھے یہ بات کسی مرض کی علامت معلوم ہوتی ہے کہ فرانس، یعنی اس ملک میں جہاں ہوتا ہوا تا کچھ نہیں، ادبا کی تعداد اسرائیل میں پائے جانے والے ادیبوں سے اکیس فیصد زیادہ ہے۔ بی بی نے بالکل ٹھیک دعویٰ کیا تھا کہ اُس نے باہر سے کسی چیز کا سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں کیا ہے۔ نفسِ مضمون (content) کا یہی نہ ہونا، یہی خالی پن ہے جو موٹر چلانے کے لیے توانائی بہم پہنچاتا ہے، اور اسے لکھنے پر اکساتا ہے۔ )
لیکن معلول کو دیکھ کر علل کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو بہرحال ہو ہی جاتا ہے۔ اگر تنہائی کا عام احساس گرافومینیا کو راہ دیتا ہے، تو خود جم غفیر کا اجتماعی گرافومینیا عام احساس تنہائی کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے سنگین کر دیتا ہے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے اصلاً تو باہمی تفہیم کو فروغ دیا تھا۔ لیکن گرافومینیا کے حوالے سے لکھنے لکھانے کا اثر بالکل الٹ ہوتا ہے : یعنی ہر کس و نا کس اپنے نوشتے کے انبار میں چاروں طرف سے گھرا بیٹھا رہتا ہے، گویا یہ آئینوں سے مرصع دیوار ہو جو باہر سے آنے والی ہر آواز کا قلع قمع کر رہی ہو۔
10
ایک روز جب کیفے میں کوئی گاہک موجود نہ تھا اور وہ بیٹھی اس سے گپ لگا رہی تھی، ہیوگو نے کہا، ’’تمینہ، مجھے خوب معلوم ہے کہ اس معاملے میں کامیابی کا ذرہ برابر امکان نہیں، چنانچہ میں بات گھما پھرا کر نہیں کہوں گا۔ یہ بتاؤ، کیا تم اتوار کو رات کے کھانے پر میرے ساتھ چل سکتی ہو؟‘‘
پیکٹ اس کی ساس کے پاس صوبائی گھر میں ہے۔ تمینہ چاہتی ہے کہ پیکٹ کسی طرح اس کے باپ کے پاس پہنچ جائے جو پراگ میں رہتا ہے، تاکہ بی بی جا کر وہاں سے لے آئے۔ یوں دیکھیے تو اب یہ کوئی ایسا بھاری کام نہیں — اِس سے زیادہ آسان بھلا اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ تاہم تمینہ کو اپنا مدعا ان دونوں بلا کے ضدی بڈھے بڑھیا کو سمجھانے کے لیے کافی وقت اور پیسہ درکار ہو گا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک فون کرنا کافی مہنگا پڑتا ہے، اور تمینہ کو جو تنخواہ ملتی ہے اس سے کرائے اور کھانے پینے کا بندوبست بھی بمشکل ہو پاتا ہے۔
’’ٹھیک ہے‘‘ تمینہ، یہ یاد کر کے کہ ہیوگو کے گھر ٹیلی فون لگا ہے، راضی ہو گئی۔ وہ اسے کار میں لینے آیا، پھر ایک مضافاتی ریستوراں میں لے گیا۔
وہ چاہتا تو تمینہ کے ساتھ فاتح کی سی زبردستی کر سکتا تھا، وہ اس کا کیا بگاڑ لیتی۔ اس ملک میں اس کی حیثیت ہی کیا تھی۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ ایک کم تنخواہ ویٹرس کے عقب میں وہ اُسے ایک پر اسرار غیر ملکی عورت اور ایک بیوہ ہی نظر آتی تھی۔ اُس کے قدم لڑکھڑانے لگتے اور شک آ گھیرتا۔ تمینہ کا لطف و کرم، زرہ بکتر کی طرح، اس کا سب سے بڑا محافظ تھا، ایک بلٹ پروف ویسٹ (bullet- proof vest)۔ وہ تو یہ چاہتا تھا کہ تمینہ کی توجہ اپنی طرف کرائے، اس کا دل موہ لے، اس کے خیالات میں جاگزیں ہو جائے۔
بہت سر مارا کہ تمینہ کی دلچسپی کی کوئی شے ہتھے چڑھ جائے اور اس طرح وہ اس کے دل تک راہ پائے۔ چنانچہ منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے وہ اسے ایک چڑیا گھر لے گیا جو ایک بے حد دلکش کنٹری شاتو (country chateau) کی اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔ گوتھک طرز کے لحیم شحیم بُرجوں کے پس منظر میں وہ بندروں اور طوطوں کے درمیان سیر کرتے رہے۔ سوائے ایک دہقان صورت، اَن گھڑ مالی کے، جو کشادہ روشوں پر منتشر پتوں کو جھاڑو دے کر صاف کر رہا تھا، وہ بالکل تنہا تھے۔ ایک بندر، ایک شیر، اور ایک بھیڑیے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایسے قطعے پر نکل آئے جس کے گرد احاطہ تھا اور اس میں شترمرغ گھومتے پھر رہے تھے۔
کل چھ شترمرغ تھے۔ جب انھوں نے تمینہ اور ہیوگو کو دیکھا تو دوڑ لگا کر فوراً ان کے پاس چلے آئے اور تار کے احاطے کے اس طرف پاس پاس ایک گروہ کی شکل میں کھڑ ے ہو گئے۔ اپنی لمبی لمبی گردنیں دراز کیں اور دونوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی چوڑی اور چپٹی چونچوں کو پھٹ پھٹ کھولنے اور بند کرنے لگے، ایک بے قراری، ایک ناقابلِ یقین تیز رفتاری کے ساتھ، جیسے کسی مباحثے میں شریک ہوں اور تیز تیز باتیں کر کے حریف پر سبقت لے جانے کے درپے ہوں۔ لیکن ان کی چونچیں بالکل گونگی تھیں۔ ان سے ذرہ برابر آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔
شترمرغ وہ پیغامبر تھے جنھوں نے اپنے نہایت اہم پیغام کو دل پر نقش کر لیا تھا، لیکن جن کی صوتی نالیوں کو دشمن نے چاک کر کے انھیں قوتِ گویائی سے محروم کر دیا تھا؛ چنانچہ اب، منزلِ مقصود کو پہنچ کر وہ اتنا ہی کر سکتے تھے کہ محض اپنے منھ ہلائے جائیں۔
تمینہ، سحرزدہ سی، انھیں تیز سے تیز تر، نہایت تعمیل طلب انداز میں اپنا منھ ہلاتے دیکھتی رہی۔ جب وہ اور ہیوگو وہاں سے ٹلے تو شترمرغ بھی ان کے پیچھے پیچھے احاطے کی دیوار سے لگے لگے چلنے لگے۔ وہ اب بھی اپنی چونچیں چلائے جا رہے تھے، گویا تمینہ کو کسی چیز سے خبردار کر رہے ہوں — لیکن کس چیز سے، وہ یہ نہ جان سکی۔
11
’’ایسا لگتا ہے گویا یہ کسی خوفزدہ کر دینے والی پریوں کی کہانی کا واقعہ ہو‘‘ تمینہ نے چھری سے اپنے پاتے 3 کو کاٹتے ہوئے کہا، ’’لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت اہم بات مجھے بتانا چاہتے ہوں لیکن کیا بات؟ وہ کیا کہنا چاہتے تھے؟‘‘
ہیوگو نے سمجھایا کہ وہ بہت نوجوان قسم کے شترمرغ تھے اور ان کا طور طریق بالکل ایسا ہی تھا جیسا تمام نوجوان شترمرغوں کا ہوتا ہے۔ جب وہ پچھلی مرتبہ چڑیا گھر آیا تھا، تو اس بار بھی یہی چھ شترمرغ دوڑ کر احاطے کی دیوار کے پاس آئے تھے اور چونچیں ہلانے لگے تھے۔
پھر بھی تمینہ کی تسلی نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح مضطرب رہی۔ ’’تمھیں پتا ہے، میں پیچھے چیکوسلوواکیہ میں ایک پیکٹ چھوڑ آئی تھی۔ اس میں کچھ ضروری کاغذات تھے۔ اگر میں اسے منگوانے کے لیے لکھتی تو پولیس والے ضرور ضبط کر لیتے۔ بی بی آتی گرمیوں میں پراگ جانے والی ہے۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ میرے لیے وہ پیکٹ وہاں سے لیتی آئے گی۔ اور اب مجھے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ وہ شترمرغ مجھے کسی بات سے خبردار کر رہے تھے، جیسے بتا رہے ہوں کہ اس پیکٹ کے ساتھ کوئی واقعہ ہو گیا ہے۔‘‘
ہیوگو کو معلوم تھا کہ تمینہ بیوہ ہے، اور یہ بھی کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر اِس کا شوہر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس نے پوچھا، ’’کاغذات سیاسی نوعیت کے تو نہیں تھے؟‘‘
اب یہ بات تمینہ کو بہت پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی کہ اگر وہ اس ملک والوں کو اپنی زندگی سے آگاہ کرنا چاہتی ہے تو اسے اس زندگی کو بہت سہل اور سادہ بنا کر پیش کرنا ہو گا۔ ذاتی خطوط اور ڈائریاں کیوں ضبط کر لی جاتی ہیں اور وہ ان کے پیچھے کیوں اس قدر دیوانی ہوئی جا رہی تھی — یہ ایسی باتیں تھیں جن کی وضاحت غیر معمولی طور پر پیچیدہ تھی۔ چنانچہ اس نے صرف اتنا ہی کہا، ’’بالکل، سیاسی نوعیت کے ہی۔‘‘
کہنے کو تو یہ کہہ دیا، مگر اب یہ خوف دامن گیر ہوا کہ ہیوگو کہیں ان کاغذات کے بارے میں مزید کچھ اور نہ پوچھ بیٹھے۔ خیر ہوئی کہ اس نے کچھ اور نہیں پوچھا۔ کب، کس نے، کس چیز کے بارے میں اس سے استفسار کیا تھا؟ بہت ہوا تو کبھی کبھار لوگ اس کے ملک کے بارے میں اپنے محسوسات کا اظہار کر دیتے۔ رہے خود اس کے ذاتی تجربات، تو کسی شخصِ واحد کو بھی ان سے دلچسپی نہیں تھی۔
’’بی بی کو نہیں معلوم کہ یہ کاغذات سیاسی نوعیت کے ہیں؟‘‘ ہیوگو نے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ تمینہ نے جواب دیا۔
’’یہ بہت اچھا ہوا‘‘ ہیوگو نے کہا، ’’اس سے بھول کر بھی ذکر نہ کرنا کہ ان کا سیاست سے دور کا بھی تعلق ہے۔ عین وقت پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے اور وہ انھیں وہیں چھوڑ چھاڑ آئے گی۔ تمینہ، لوگوں کا کیا ہے، وہ کسی چیز سے بھی خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔ خوب اطمینان کر لینا کہ بی بی انھیں بالکل غیر اہم، معمولی سے روکھے پھیکے کاغذات ہی سمجھتی رہے، جیسے مثلاً تمھارے عشقیہ خطوط! بالکل! یہ بات اس کی پہنچ کی ہے۔ ایسی بات ہے جو اس کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔‘‘
تو گویا ہیوگو کے خیال میں عشقیہ خطوط بالکل بے حیثیت اور بے کیف چیز کا نام ہیں، تمینہ نے سوچا۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے کبھی کسی سے محبت کی تھی، کہ وہ محبت اس کے لیے بڑی پُر معنی تھی۔
’’خدا نخواستہ اگر بی بی وہاں نہ جا سکے‘‘ ہیوگو نے اپنی بات پر اضافہ کیا، ’’تو اس معاملے میں تم مجھ پر پورا اعتماد کر سکتی ہو — میں خود جا کر لے آؤں گا۔‘‘
’’شکریہ‘‘ تمینہ نے گہرے اخلاص سے جواباً کہا۔
’’وہ مجھے جیل ہی میں کیوں نہ ڈال دیں، پھر بھی میں جا کر وہ پیکٹ تمھارے لیے لے آؤں گا۔‘‘
’’بے وقوفی کی بات نہ کرو‘‘ تمینہ نے احتجاج کیا۔ ’’تمھارے جیل جانے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ پھر اس نے ہیوگو کو سمجھایا کہ غیرملکی سیاحوں کو چیکوسلوواکیہ میں کوئی خطرہ نہیں، خطرہ تو صرف چیک باشندوں کو ہے۔ اور اب تو وہ لوگ اُسے بھول بھال بھی چکے ہوں گے۔ اچانک وہ بڑی طول طویل اور نہایت جوشیلی تقریر کرنے لگ گئی تھی۔ اسے اپنے وطن کے چپے چپے کا کماحقہ‘ علم تھا، اور میں آپ سے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ہر بات بالکل سچ تھی۔
گھنٹے بھر بعد وہ ہیوگو کے فون کا رسیور اپنے کان سے لگائے بیٹھی تھی لیکن اس بار بھی اسے اپنی ساس کو رام کرنے میں اتنی ہی کامیابی ہوئی جتنی پہلی بار، یعنی صفر۔ ’’تم نے مجھے کوئی چابی وابی نہیں دی تھی! تم ہمیشہ ہر چیز مجھ سے چھپا کر رکھا کرتی تھیں! اتنی تکلیف دہ یادوں کی باز خوانی کا فائدہ؟‘‘
12
اگر تمینہ کو اپنی یادیں اتنی ہی عزیز ہیں تو خود کیوں چیکوسلوواکیہ نہیں چلی جاتی؟ ان چیک شہریوں کو جنھوں نے 1968 کے بعد غیر قانونی طور پر ملک چھوڑا تھا، عام معافی دی جا چکی ہے، اور ان سے واپس ملک لوٹنے کی درخواست بھی کی جا چکی ہے۔ تمینہ کو اب کس بات کا خوف ہے؟ ظاہر ہے وہ اتنی بے حیثیت ہے کہ اسے کسی بات کا خطرہ نہیں ہو سکتا!
صحیح، بالکل صحیح۔ وہ بلا خوف و خطر واپس جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہیں جا سکتی۔
وہاں، گھر میں، ہر فرد و بشر نے اس کے شوہر کے ساتھ دغا4 کی تھی۔ اب اگر وہ واپس جاتی ہے تو اسے بھی اپنے شوہر کے ساتھ دغا کرنے کا خطرہ لاحق رہے گا۔
جب انھوں نے رفتہ رفتہ اس کا عہدہ گھٹا کر بالآخر اسے ملازمت ہی سے برطرف کر دیا تو کوئی مائی کا لال اس کی حمایت کے لیے نہیں کھڑا ہوا تھا، حتیٰ کہ اس کے عزیز ترین دوست تک نہیں۔ اب یہ بھی نہیں کہ تمینہ حقیقت سے بالکل ہی نابلد تھی۔ اسے خوب معلوم تھا کہ اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سارے احباب اس کے حامی تھے، اور محض خوف کے مارے اس کے اظہار سے کترا رہے تھے۔ اور بعینہٖ یہ بات کہ وہ اس کے حامی تھے، انھیں اپنے یوں خوفزدہ ہونے پر خجل کر رہی تھی۔ سڑک پر کہیں نظر آتے تو یوں انجان بن جاتے جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ محل شناسی کے سبب دونوں میاں بیوی خود ہی ان سے کنّی کاٹنے لگے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دوست اپنے سے اور زیادہ نادم ہوں۔ دیکھتے دیکھتے دونوں کی یہ حالت ہو گئی گویا کوڑھیوں کی جوڑی ہوں۔ جب وہ چیکوسلوواکیہ سے نکل آئے تو پیچھے اس کے شوہر کے سابقہ ہم منصبوں نے ایک ایسے عوامی اعلان نامے پر جس میں اس کے شوہر پر کیچڑ اچھالا گیا تھا، دستخط کر دیے۔ ظاہر ہے یہ قدم انھوں نے ملازمت سے برطرف کر دیے جانے کے خوف سے اٹھایا تھا۔ کچھ بھی سہی، اٹھایا تو تھا، اور یوں انھوں نے اپنے اور ان دو بے یار و مدد گار مہاجرین کے درمیان ایک اچھا خاصا گڑھا کھود دیا تھا۔ یہ وہ گڑھا تھا جسے تمینہ کبھی عبور نہ کرنے کی آرزومند تھی۔
فرار ہونے کے بعد پہلی صبح جب وہ آلپس (Alps) پہاڑوں میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیدار ہوئے اور خیال آیا کہ اب وہ بالکل تنہا ہیں، اس پوری کائنات سے منقطع جو کل تک ان کی تمام تر زندگی رہی تھی، تو تمینہ نے خود کو بے حد آزاد محسوس کیا، اور بے حد مطمئن بھی۔ وہ پہاڑوں میں تھے، اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ تنہا بھی۔ ایک ناقابلِ یقین، بے پناہ خاموشی نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ تمینہ کو یہ ایک قطعی غیر متوقع تحفہ معلوم ہوئی۔ اچانک اس پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اگر اس کے شوہر کو جور و ستم سے بچنے کے لیے چیکوسلوواکیہ کو الوداع کہنا پڑا تھا تو خود تمینہ کو اس بے کراں سکوت کے حصول کے لیے ؛ وہ سکوت جو محض اس کے اور اس کے شوہر کے لیے تھا، محبت کے لیے۔
جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا تو تمینہ پر اچانک گھر کی یاد کا دورہ پڑا۔ اسے ایک ایسے ملک کے لیے بے پناہ ناستلجیا محسوس ہوا جہاں ان کی ازدواجی زندگی کی اولین دہائی نے جہاں تہاں اپنے بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہوئے تھے۔ جذباتیت کی ایک ناقابلِ برداشت لہر اٹھی جس کے زیر اثر اس نے اپنے شوہر کے کوئی دس رفقا کو اس کی موت کا اطلاع نامہ بھیج دیا۔ پلٹ کر ایک نے بھی رسید نہ بھیجی۔
ایک ماہ بعد اس نے کوڑی کوڑی جوڑی ہوئی ساری رقم نکالی اور ساحل سمندر کی سیر کو چل پڑی۔ اس نے اپنا پیراکی کا لباس پہنا، اعصابی ہیجان کو سکون پہنچانے والی گولیوں کی پوری شیشی نگلی، اور تیرتی ہوئی دور، بہت دور، سمندری پانیوں میں چلی گئی۔ اس کا خیال تھا کہ گولیوں کی طاقت سے نڈھال ہو جائے گی اور بکمال خاموشی غرقاب، لیکن پانی کی غیر معمولی ٹھنڈک اور اس کے پیراکی کے استادانہ، طاقتور ہاتھوں نے اسے اونگھ جانے سے باز رکھا۔ (وہ درجۂ اول کی پیراک رہی تھی — ہمیشہ ہی۔ ) گولیوں کی تاثیر غیر متوقع طور پر کمزور ثابت ہوئی۔
وہ مڑی اور تیرتی ہوئی واپس ساحل پر لوٹ آئی۔ اپنے کمرے میں گئی اور پورے بیس گھنٹے تک دنیا و مافیہا سے بے خبر مسلسل سوتی رہی۔ جب وہ بیدار ہوئی تو خود کو بے حد پرسکون اور خاموش محسوس کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خاموشی میں اور خاموشی ہی کے لیے زندہ رہے گی۔
13
بی بی کے ٹیلی وژن کی نیلگوں، چاندی ایسی روشنی تمینہ، یویو، بی بی، اور اس کے شوہر ڈے ڈے (Dede) پر (جو ایک ٹریولنگ سیلزمین تھا اور ابھی کل ہی چار روز باہر رہنے کے بعد لوٹا تھا) پڑ رہی تھی۔ کمرے میں پیشاب کی خفیف سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ ٹیلی وژن کے پردے پر ایک غیر مرئی ماسٹر آف سیرے منیز (Master of Ceremonies) ایک بڑے گول مٹول گنجے سر والے سے ایک بڑا ہی اشتعال انگیز سوال کر رہا تھا: ’’آپ کی سرگزشت (memoirs) میں بعض بڑے حیرت انگیز جنسی اعترافات ملتے ہیں۔‘‘
یہ ایک باقاعدہ ہفتہ وار پروگرام تھا جس میں ایک مشہور و معروف ماسٹر آف سیرے منیز ان ادیبوں سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا تھا جن کی کتابیں ہفتۂ گزشتہ چھپ کر منظرِ عام پر آئی ہوں۔
بڑے سے گنجے سر والا خوش دلی سے مسکرایا۔ ’’حیرت انگیز؟ اجی جانے دیجیے، ایسی بات کہاں ہے۔ اسے باقاعدہ علمِ شماریات کہیے، بس۔ خود دیکھ لیجیے : پہلی بار جب میں نے ہم بستری کی تو اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی…‘‘ گول مٹول سر والے بڑے میاں نے بڑے فخر سے پینل کے ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف باری باری دیکھا۔ ’’جی ہاں، پندرہ سال۔ اب میں پینسٹھ برس کا ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کوئی پچاس سالہ فعال جنسی زندگی کی بات کر رہے ہیں۔ فرض کیجیے کہ میں نے ہفتے میں اوسطاً دو بار مجامعت کی — بہت واجبی سا تخمینہ ہے — تو سالانہ کوئی سو بار، یعنی کلیتاً کوئی پانچ ہزار بار۔ آگے چلیے۔ اگر جماع کی مستی (orgasm) پانچ سیکنڈ قائم رہتی ہے، تو پچّیس ہزار سیکنڈوں کی جماعی مستی میرے کھاتے میں آتی ہے۔ ان کو جمع کیجیے تو چھ گھنٹے اور چھپن منٹ بنتے ہیں۔ ایسا کوئی بڑا ریکارڈ نہیں، کیوں کیا خیال ہے؟‘‘
کمرے میں موجود سبھی نے بے حد سنجیدگی سے اپنا اپنا سر ہلا دیا، سوائے تمینہ کے، جو تصور میں اس گنجے کھوسٹ کو مسلسل آرگازم کی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ پیچ کھاتا ہوا، شدید تشنج کے عالم میں، کبھی اپنا دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ پندرہ منٹ میں ہی نقلی دانتوں کا چوکھٹا پٹ سے نیچے گر پڑتا ہے، اور پانچ منٹ میں ہی موصوف خود گر کر داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ تمینہ کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
’’یہ ہنسنے کی ایسی کون سی بات ہے؟‘‘ بی بی جھلا کر پوچھتی ہے۔ ’’یہ اعداد و شمار خاصے مرعوب کن ہیں — آرگازم کے چھ گھنٹے اور چھپن منٹ!‘‘
’’اب مجھ ہی کو لے لو۔ سالوں مجھے یہی پتا نہ چلا کہ آرگازم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ یویو نے کہا، ’’لیکن پچھلے سال سے یہ مجھے بھی باقاعدہ ہونے لگے ہیں۔‘‘
اب ہر کوئی یویو کے آرگازم کے بارے میں بات کرنے لگا۔ جلد ہی ایک اور چہرہ، برہمی اور خفگی سے لبالب بھرا، پردے پر آ دھمکا۔
’’یہ حضرت کس چیز پر اس قدر خفا نظر آ رہے ہیں؟‘‘ ڈے ڈے سوچ میں پڑ گیا۔
’’اور یہ بات بے حد اہم ہے‘‘ پردے پر ادیب صاحب فرما رہے تھے، ’’بے حد اہم — اور یہ سب بلا کم و کاست میری کتاب میں موجود ہے۔‘‘
’’کیا بے حد اہم ہے؟‘‘ بی بی نے پوچھا۔
’’کہ انھوں نے اپنا پورا بچپن رورو(Rourou) نامی گاؤں میں گزارا۔‘‘
وہ آدمی جس نے اپنا سارا بچپن رورو کے گاؤں میں گزارا تھا، اس کی ناک ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لمبی تھی اور اتنی وزنی کہ اس کے باعث اس کا پورا جسم لنگر کی طرح بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کا سر بتدریج دھنسا جا رہا تھا اور دو ایک بار ایسا لگا کہ وہ اسکرین سے لڑکھڑا کر ابھی دھڑام سے نیچے کمرے کے فرش پر آ رہے گا۔ اس کی حالت سخت تشنجی تھی۔ ’’یہ سب بلا کم و کاست میری کتاب میں موجود ہے۔ میری پوری تخلیقی ذات اس سیدھے سادے سے گاؤں میں لپٹی پڑی ہے۔ جب تک آپ یہ بات نہیں سمجھ لیتے، میرے لکھے سے غلط مطلب ہی نکالیں گے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں، بہرحال، میں نے اپنی چند اولین نظمیں کہی تھیں۔ جی ہاں، بالکل، میں اسے شدید اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔‘‘
’’بعض مردوں سے مجھے آرگازم بالکل نہیں ہوتا‘‘ بی بی نے انکشاف کیا۔
’’اور یہ مت بھولیے‘‘ ادیب صاحب کچھ اور زیادہ ہیجان میں آ کر بولے، ’’کہ یہیں میں پہلی بار سائیکل پر سوار ہوا تھا۔ جی جی، بالکل۔ اور یہ سارے کا سارا میری کتاب میں موجود ہے۔ بس اسے ایک علامت سمجھیے۔ میرے خیال میں سائیکل اس قدم کی علامت ہے جو آدمی قبیلے کی دنیا سے اٹھا کر تہذیب کی دنیا میں رکھتا ہے۔ تہذیب سے پہلی پہلی تفریح بازی (فلرٹ)۔ ایک کنواری جو پہلے بوسے سے قبل فلرٹ کر رہی ہو۔ ہنوز کنواری، تاہم شریکِ گناہ۔‘‘
’’یہ اس نے بالکل ٹھیک کہا‘‘ یویو نے پھٹ سے رائے دے ڈالی۔ ’’تناکا (Tanaka)، ایک لڑکی جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، تو اس کو اپنا پہلا آرگازم اس وقت ہوا جب وہ بائیسکل کی سواری کر رہی تھی؛ وہ اس وقت تک بالکل کنواری تھی۔‘‘
سو اب وہ تناکا کے آرگازم کی بات کرنے لگے، اور تمینہ نے بی بی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا ٹیلی فون استعمال کر سکتی ہے۔
14
برابر والے کمرے میں پیشاب کی بو مقابلتاً زیادہ تھی۔ بی بی کی بچی وہاں سو رہی تھی۔
’’مجھے پتا ہے کہ آپ کی اس سے بات چیت بند ہے‘‘ تمینہ نے سرگوشی میں کہا۔ ’’لیکن میرے پاس اسے حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ بھی تو نہیں۔ آپ کو وہاں جا کر اُس سے ملنا ہی پڑے گا۔ چابی نہ ملے تو اس سے کہیں کہ تالا توڑ کر دراز کھول لے۔ اس کے پاس میری کچھ چیزیں ہیں۔ خطوط — مجھے انھیں حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘
’’تمینہ، خدا کے واسطے مجھے اس عورت سے بات کرنے پر مجبور نہ کرو۔‘‘
’’ہمت کر کے یہ کام کر ہی دیجیے، میری خاطر۔ ڈیڈی، کر دیں گے نا؟ وہ آپ سے بہت ڈرتی ہے۔ آپ جائیں گے تو اسے منع کرتے نہ بنے گی۔‘‘
’’ایک بات سنو۔ میرے پاس ایک بہت اعلیٰ فر کوٹ ہے۔ جب تمھارے دوست مجھ سے پراگ آ کر ملیں گے تو میں یہ تمھارے لیے دے دوں گا۔ واپسی پر تمھیں پہنچا دیں گے۔ یہ پرانے خطوط کے بنڈل سے بہرحال بہتر چیز ہے۔‘‘
’’لیکن مجھے فر کوٹ نہیں چاہیے۔ مجھے تو صرف وہی پیکٹ چاہیے!‘‘
’’ذرا اونچا بولو، تمھاری آواز سنائی نہیں دے رہی‘‘ تمینہ کے باپ نے کہا۔ لیکن تمینہ دانستہ سرگوشیوں میں بات کر رہی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بی بی اسے چیک زبان میں بات کرتا ہوا سن لے۔ ورنہ تاڑ جائے گی کہ لانگ ڈسٹینس کال ہو رہی ہے، اور یوں بیٹھے بٹھائے اس کی قیمت اُسے بی بی کو دینی پڑ جائے گی۔
’’مجھے صرف وہ پیکٹ ہی چاہیے۔ آپ کا فر کوٹ نہیں۔‘‘
’’تم آج تک نہیں سیکھ سکیں کہ تمھاری زندگی میں اصلاً کن چیزوں کو سبقت حاصل ہونی چاہیے۔‘‘
’’دیکھیے ڈیڈی، یہ کال مجھے بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ خدارا اس سے جا کر ملیے۔‘‘
مکالمہ جاری رکھنا محال تھا۔ تمینہ کا باپ بار بار مختلف باتوں کو اونچی آواز میں دہرانے کے لیے کہتا رہا اور نہایت ہٹ دھرمی سے بڑی بی سے جا کر ملنے سے انکار کر دیا۔
’’تم اپنے بھائی کو فون کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ اس نے آخرکار تجویز پیش کی۔ ’’اس سے کہو کہ تمھاری ساس سے جا کر ملے، وہاں سے پیکٹ لے آئے اور میرے حوالے کر دے۔‘‘
’’مگر وہ میری ساس کو جانتا تک نہیں۔‘‘
’’ساری بات تو یہی ہے‘‘ تمینہ کا باپ ہنس پڑا۔ ’’اگر جانتا ہوتا تو بھول کر بھی اس سے ملنے کا خیال نہ آتا۔‘‘
تمینہ نے جلدی جلدی غور کیا۔ اب یہ کوئی ایسی بری تجویز بھی نہیں تھی۔ اس کا بھائی بڑا مستعد اور جیالا آدمی تھا۔ اسے لوگوں سے اپنی بات منوانے کا گر بھی خوب آتا تھا۔ لیکن تمینہ خود اسے فون نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جب سے وہ ملک سے نکلی تھی، آج تک دونوں نے ایک دوسرے کو ایک بھی خط نہیں لکھا تھا۔ وہ بڑی اچھی تنخواہ پر ملازم تھا، اور اس پر ابھی تک محض اس لیے قائم تھا کہ اس نے اپنی مہاجر بہن کے سارے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
’’میں اسے فون نہیں کر سکتی، ڈیڈی۔ آپ خود بات کر کے اسے سمجھا دیں۔ سمجھا دیں گے نا؟ پلیز ڈیڈی!‘‘
15
ڈیڈی چھوٹا سا مدقوق آدمی تھا۔ جب وہ تمینہ کو لیے سڑک کے کنارے کنارے چلتا تو اتنا فخر مند نظر آتا گویا دنیا کو اُس رزمیہ رات کی یادگار پیش کر رہا ہو جس میں اس نے تمینہ کا بیج بویا تھا۔ اسے اپنا داماد کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے خلاف بر سر پیکار رہتا۔ جب اس نے تمینہ کو فر کوٹ بھیجنے کی پیشکش کی (جو اسے اپنی کسی رشتے دار سے ترکے میں ملا ہو گا)، تو اس کا محرک داماد خسر کی کہنہ رقابت تھی، نہ کہ اپنی بیٹی کی تندرستی کے بارے میں تشویش۔ وہ چاہتا تھا کہ تمینہ اپنے شوہر (خطوط کے بنڈل) پر اپنے باپ (فر کوٹ) کو ترجیح دے۔
اس خیال ہی سے تمینہ پر باقاعدہ ہیبت طاری ہو گئی کہ اس کے پیکٹ کی قسمت اس کی ساس اور اس کے باپ کے معاندانہ ہاتھوں میں تھی۔ وہ اس بارے میں جتنا سوچتی، اتنا ہی اسے محسوس ہوتا کہ اس کی نجی نوٹ بکس اغیار پڑھ رہے ہیں، اور اغیار کی آنکھیں اس برسات کی مانند ہیں جو پتھر کی دیوار پر کندہ تحریر کو مٹائے دے رہی ہو۔ یا پھر وہ روشنی ہو جو ڈویلپر (developer) میں جانے سے پہلے تصویر سازی کے کاغذ پر پڑے اور اس میں پنہاں عکس کو برباد کر دے۔
اسے خیال آیا کہ جو بات اس کی نوشتہ یادداشتوں کو قدر و قیمت اور معنی بخشتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ یادداشتیں صرف اسی کے لیے تھیں۔ جس لمحے ان کا یہ وصف جاتا رہے گا، تعلق کا وہ گہرا رشتہ بھی بکھر جائے گا جو ان یادوں سے اس کو وابستہ کرتا ہے۔ ایسا ہوا تو وہ ان نوشتوں کو اپنی آنکھوں کی بجائے ناظرین کے اس مخصوص نقطۂ نظر سے پڑھنے پر مجبور ہو جائے گی جو لاتعلقی سے کسی غیر شخصی دستاویز کی چھان پھٹک کر رہے ہوں۔ ایسا ہوا تو وہ عورت جس نے انھیں لکھا ہے، اپنی شناخت کھو بیٹھے گی۔ اور وہ نمایاں مماثلت جو اس کے باوجود اس کے اور ان یادداشتوں کو رقم کرنے والی کے درمیان رہ جائے گی، اُس کی حیثیت محض ایک مضحکہ خیز، بھونڈی نقل سے زیادہ نہ ہو گی۔ نہیں، یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ان یادداشتوں کو کسی غیر کی نظر سے گزر چکنے کے بعد خود بھی کبھی پڑھنے کے قابل رہ سکے۔
یہی بات تھی جو وہ اتنی بے صبری ہو رہی تھی اور اس آرزو میں فنا ہوئی جا رہی تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے ان نوٹ بکس، ان خطوط کو اپنی تحویل میں لے آئے، قبل اس کے کہ ان میں پنہاں ماضی کی شبیہ زائل ہو جائے۔
16
ایک روز بی بی کیفے میں آ کر بار والے حصے میں بیٹھ گئی۔ ’’ہیلو، تمینہ‘‘ اس نے کہا، ’’ذرا ایک وِسکی تو دو۔‘‘
عام طور پر بی بی کافی کا آرڈر دیا کرتی تھی۔ یا بہت ہوا تو کبھی کبھار پورٹ 5 کا۔ وِسکی کا آرڈر دے کر گویا وہ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ کوئی بات ضرور ہے۔
’’تمھارے لکھنے لکھانے کا کیا حال ہے؟ کہاں تک پہنچیں؟‘‘ تمینہ نے مشروب گلاس میں انڈیلتے ہوئے پوچھا۔
’’اگر میرا موڈ ٹھیک ہوتا تو کام بھی ٹھیک ٹھاک چلتا رہتا‘‘ بی بی نے جواب دیا، مشروب ایک ہی سانس میں حلق میں انڈیل لیا، اور دوسرے کا آرڈر دے ڈالا۔
کچھ اور گاہک کیفے میں داخل ہوئے۔ تمینہ نے ان سے پوچھا کہ کیا کھائیں پئیں گے۔ پھر وہ بار میں واپس آئی، اپنی دوست کو وِسکی کا دوسرا گلاس دیا، اور نو واردوں کی خبرگیری میں لگ گئی۔ جب دوبارہ واپس آئی تو بی بی نے بتایا: ’’میں ڈے ڈے سے عاجز آ گئی ہوں۔ جب بھی دورے سے لوٹتا ہے، مسلسل دو دن بستر میں اینڈا پڑا رہتا ہے، اور شب خوابی کا لباس تک نہیں تبدیل کرتا۔ پاگل کر دینے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، ہے نا؟ اس کے باوجود، ستم دیکھو، ساتھ سونے کے لیے بالکل چاق و چوبند۔ یہ بات سمجھ کر نہیں دیتا کہ میرے لیے ہم بستری کی کچھ اہمیت نہیں، کچھ بھی نہیں۔ اب مجھے اُس سے علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمہ وقت اپنی احمقانہ تعطیلات کے خیال میں مگن رہتا ہے۔ بستر میں پڑے پڑے سامنے ایٹلس (atlas) پھیلائے مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ پہلے پراگ جانا چاہتا تھا۔ اب یہ خیال خواب ہو گیا ہے۔ آئرلینڈ پر کوئی کتاب ہتھے چڑھ گئی ہے۔ سو وہاں جانے کے شوق میں مرا جا رہا ہے۔‘‘
’’تو کیا اب چھٹیاں گزارنے تم لوگ آئرلینڈ جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔ اسے اپنے حلق میں کوئی چیز پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’ہم آئرلینڈ جا رہے ہیں؟ ہم کہیں نہیں جا رہے۔ میں یہاں سے ہلنے والی نہیں۔ بس یہیں رہوں گی اور کتاب لکھوں گی۔ مجھے اُس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسے کب میری پروا ہے۔ یہاں میں لکھنے لکھانے میں مشغول ہوں، اور تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ مجھ سے اتنا بھی پوچھتا ہے کہ لکھ کس چیز کے بارے میں رہی ہو؟ جھک مار کر اب معلوم ہو رہا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ ہمارے پاس ایک دوسرے سے کہنے کے واسطے اب کچھ نہیں رہ گیا۔‘‘
تمینہ پوچھنا چاہتی تھی، ’’تو اب پراگ جانے کا ارادہ نہیں رہا؟‘‘ لیکن حلق میں پھنسی چیز کا حجم یکبارگی بڑھ گیا اور وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ ٹھیک اسی لمحے یویو کیفے میں داخل ہوئی، بار اسٹول پر اچک کر جا سوار ہوئی، اور سوال داغا، ’’کیا تم سب کے سامنے کر سکتی ہو؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مثلاً یہاں کیفے میں، ٹھیک فرش پر، سب کے سامنے، یا پھر سنیما میں فلم کے دوران؟‘‘
’’چپ!‘‘ بی بی نے سر نیچا کر کے اسٹول کے پائے کے پاس کھڑی شور و غل مچاتی ہوئی اپنی بچی سے کہا، پھر سر اٹھایا اور کہا، ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں؟ کوئی غیر فطری بات تو ہے نہیں — یا ہو تو بتاؤ؟ جو چیز فطری ہے اسے کرنے میں مجھے کیا شرم!‘‘
تمینہ پھر تذبذب میں پڑ گئی کہ بی بی سے اس کے پراگ کے دورے کے بارے میں پھر سے پوچھے یا نہ پوچھے۔ لیکن اب یہ سوال ہی سرے سے غیر ضروری ہو گیا تھا۔ اسے خوب پتا تھا، بالکل واضح تھا کہ بی بی پراگ جانے والی نہیں تھی۔
اتنے میں باورچی خانے سے کیفے کے مالک کی بیوی نکل کر اس طرف چلی آئی اور بی بی کو دیکھ کر مسکرائی۔ ’’کیا حال ہے؟‘‘ اس نے بی بی سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہمیں اگر ضرورت ہے تو بس انقلاب کی‘‘ بی بی نے اعلان کیا۔ ’’کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ یہاں ضرور ہونا چاہیے۔‘‘
اس شب تمینہ نے شترمرغوں کو خواب میں دیکھا۔ وہ اب بھی احاطے کے اندر دیوار سے لگ کر کھڑے ہوئے تھے اور مسلسل بک بک کیے جا رہے تھے۔ وہ خوفزدہ ہو گئی اور ہل جل تک نہ سکی۔ محض سحرزدہ سی انھیں اپنی چونچیں چلاتے تکتی رہی۔ پھر اس نے اپنے لب مضبوطی سے بھینچ لیے۔ اس کے منھ میں ایک طلائی انگشتری تھی اور وہ اس کی حفاظت کے بارے میں سخت خائف تھی۔
17
میں اسے منھ میں طلائی انگشتری چھپائے کیوں تصور کرتا ہوں؟
اس معاملے میں آپ مجھے قطعی معذور سمجھیے۔ کیا کروں، وہ مجھے اسی طرح نظر آتی ہے۔ ایک تحریر جسے پڑھے ہوئے زمانہ ہو گیا، اچانک ذہن میں در آتی ہے : ’’ایک ملائم، شفاف، دھاتی آواز، جیسے کوئی طلائی انگشتری نقرئی تسلے میں گر رہی ہو۔‘‘6
طامس مان (Thomas Mann) نے اپنی جوانی میں موت کے بارے میں ایک سادہ لوح اور بڑی ساحرانہ کہانی لکھی تھی۔ اس میں موت کو بے حد حسین دکھایا گیا ہے، کیونکہ ایسے تمام لوگوں کو جو کم عمری میں اس کا خواب دیکھتے ہیں، موت ہمیشہ ہی بڑی دل آویز نظر آتی ہے، کیونکہ اس زمانے میں، دورافتادہ جگہوں میں گونجنے والی نیلگوں آوازوں کی طرح، یہ ہنوز بڑی غیر حقیقی اور طلسماتی ہوتی ہے۔
ایک نوجوان جسے مرضِ موت لاحق ہے، ایک نامعلوم اسٹیشن پر ریل گاڑی سے اترتا ہے۔ شہر میں داخل ہوتا ہے — شہر کا نام اسے معلوم نہیں — اور ایک بوڑھی عورت کے گھر میں، جس کی پیشانی خارش کے دھبوں سے بھری ہے، چند کمرے کرائے پر لیتا ہے۔ جی نہیں، مجھے اس واقعے کو بیان کرنے کی کوئی خواہش نہیں جو ان کرائے پر لیے گئے کمروں میں پیش آیا۔ میں تو صرف ایک بے حد معمولی سے واقعے کی باز خوانی کرنا چاہتا ہوں : سامنے کے کمرے کے گرد چلتے ہوئے اس بیمار نوجوان کو معاً یہ احساس ہوا کہ ’’اپنے قدموں کی آواز کے درمیان اُس نے ایک اور آواز بھی سنی جو اس کے دو رویہ کمروں سے آ رہی تھی— ایک ملائم، شفاف دھاتی آواز — لیکن ممکن ہے یہ محض فریب ہی ہو۔ جیسے کوئی طلائی انگشتری نقرئی تسلے میں گر رہی ہو، اس نے سوچا…‘‘
اس ادنیٰ سے صوتی واقعے کو کہانی میں کہیں بھی سلیقے سے ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی واضح۔ محض عمل کے اعتبار ہی سے دیکھیں تو اسے بغیر کسی بڑے خسارے کے حذف کیا جا سکتا تھا۔ وہ آواز تو بس خودبخود وجود میں آ گئی۔
لیکن میرا خیال ہے کہ طامس مان نے صرف اس لیے یہ ’’ملائم، شفاف، دھاتی آواز‘‘ سنوائی ہے کہ مکمل خاموشی کا تاثر قائم ہو سکے، وہ خاموشی جس کے حسن کو سماعی بنانے کی اسے ضرورت تھی، اور وہ اِس لیے کہ جس موت کا وہ ذکر کر رہا تھا وہ موتِ حسن (beauty-death) تھی، اور حسن کو لائقِ ادراک بننے کے لیے خاموشی کی ایک مخصوص کم سے کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے (جس کا مناسب ترین پیمانہ، اتفاق سے، طلائی انگشتری کی نقرئی تسلے میں گرنے کی آواز ہے )۔
(جی ہاں، میں جانتا ہوں۔ آپ کو ذرا پتا نہیں کہ میرا مدعا کیا ہے۔ حسن کو سدھارے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ خوبصورتی کھسک کر سطح کے شور و شغب کے نیچے چلی گئی ہے — شور: لفظوں کا شور، کاروں کا شور، موسیقی کا شور، علامتوں کا شور جس میں ہم مسلسل زندگی کرتے ہیں۔ یہ اتنی ہی غرقِ آب ہو چکی ہے جتنا جزیرۂ اطلانتس (Atlantis)، اور اس کی باقیات میں صرف لفظ ہی بچ رہا ہے، جس کے معنی سال بہ سال اپنی صراحت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ )
پہلی بار جب تمینہ نے اس خاموشی کو سنا (جو اتنی ہی بیش قیمت تھی جتنا غرق شدہ اطلانتس پر پائے جانے والے مرمریں مجسّموں میں سے کسی مجسّمے کا ٹکڑا) تو یہ اس وقت تھا جب وہ چیکوسلوواکیہ سے فرار ہونے کے بعد، جنگل کے بیچوں بیچ، اس الپائن ہوٹل میں سو کر اٹھی تھی: اور دوسری بار اس وقت جب وہ سمندر میں تیرتی چلی جا رہی تھی، اس حال میں کہ پیٹ اعصابی تشنج کو کم کرنے والی گولیوں سے بھرا ہوا تھا، وہ گولیاں جو اس کے لیے موت کی بجائے غیر متوقع سکون لائیں۔ اس نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اس خاموشی کو کبھی اپنے سے علیحدہ نہیں ہونے دے گی، کہ اسے اپنے اندر اتار کر وہیں تھامے رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے اپنے خواب کی ایک دیوار کے مقابل کھڑی ہوئی نظر آتی ہے، اس حال میں کہ ایک طلائی انگشتری اس کے مضبوطی سے بند منھ میں ہے۔
وہ چھ طویل گردنوں کے سامنے کھڑی ہے، جن کے سر چھوٹے چھوٹے ہیں اور جن کی چپٹی چپٹی چونچیں بنا خفیف سی آواز پیدا کیے، دیوانہ وار کھل بند ہو رہی ہیں۔ وہ ان کی بات سمجھنے سے معذور ہے۔ وہ اسے ڈرا دھمکا رہی ہیں یا خبردار کر رہی ہیں، استدعا کر رہی ہیں یا التجا — اسے کچھ پتا نہیں، اور چونکہ وہ ان کا مدعا سمجھنے سے قاصر ہے، اس لیے بے حد فکرمند اور مضطرب ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اس طلائی انگوٹھی (خاموشی کے سُر ٹھیک کرنے کا کانٹا) کے ساتھ کوئی دردناک واقعہ پیش آنے والا ہے، اور وہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے مضبوطی سے بند منھ میں دھرے ہوئے ہے۔
یہ تمینہ کبھی نہ جان سکے گی کہ وہ اس سے کیا کہنے آئے تھے۔ لیکن مجھے پتا ہے۔ وہ اسے متنبہ کرنے، ڈرانے دھمکانے، یا اس کی تہدید کرنے ہرگز نہیں آئے تھے۔ انھیں تمینہ سے بھلا کیا لینا دینا۔ وہ، ان میں سے ایکو ایک، صرف اسے اپنے بارے میں ہی بتانے آیا تھا۔ یہ بتانے کہ وہ کس طرح دانہ چگتے تھے، کس طرح سوتے تھے، کس دوڑ کر چاردیواری تک آتے تھے، اور دیوار پار انھیں کیا کچھ نظر آتا تھا؛ کہ کس طرح انھوں نے اپنا بے حد اہم بچپن، اتنے ہی اہم رورو کے گاؤں میں گزارا تھا، اور کس طرح ان کا نہایت اہم آرگازم پورے چھ گھنٹے تک جاری ر ہا تھا؛ کہ وہ عورت جس نے اپنا سر ایک بُنی ہوئی شال سے ڈھکا ہوا تھا، انھیں کس طرح نظر آ رہی تھی؛ کہ وہ کس طرح تیرے، بیمار پڑے، پھر رو بصحت ہوئے ؛ کہ کس طرح وہ کبھی جوان رہے تھے، بائیسکلوں کی سواری کی تھی، اور اس دن گھاس کے ایک پورے تھیلے کی جگالی کی تھی۔ لو، وہ دیکھو، وہاں کھڑے ہوئے ہیں، تمینہ کے عین مقابل، اسے اپنی کہانی سنا رہے ہیں ؛ سب کے سب ایک ساتھ، بڑے تاکیدی، محاربانہ، جارحانہ انداز میں۔ کیونکہ جو بات وہ اس سے کہنا چاہتے ہیں، اس سے زیادہ اہم کوئی اور چیز نہیں۔
18
چند دن بعد بناکا نشے میں دھت کیفے میں داخل ہوا اور ایک بار اسٹول پر براجمان ہونے کی تگ و دو میں دو بار گر پڑا، لیکن دونوں بار لڑکھڑا کر اٹھا اور کود کر اس پر چڑ ھ گیا۔ ایک عدد کیلواڈوس کا آرڈر دیا اور کاؤنٹر پر سر ڈال دیا۔ تمینہ نے دیکھا کہ وہ رو رہا ہے۔
’’کیا بات ہے مسٹر بناکا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
بناکا نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اوپر اٹھا کر اپنے سینے کی طرح اشارہ کیا، ’’میں کچھ بھی نہیں، سمجھیں؟ کچھ بھی نہیں۔ میرا سرے سے وجود ہی نہیں!‘‘
وہ اٹھا اور غسل خانے چل دیا، اور وہاں سے نکلا تو بغیر پیسے ادا کیے سیدھا باہر چلا گیا۔
جب تمینہ نے اس واقعے کا ذکر ہیوگو سے کیا تو اس نے کسی اخبار کا ایک صفحہ نکال کر دکھایا جس میں کتابوں پر تبصرے چھپے تھے۔ ان میں ایک بقدرِ اشکِ بلبل سا نوٹ بناکا کی نگارشات پر بھی تھا — کُل چار استہزائی سطریں، اور بس۔
بناکا کا اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے روتے ہوئے اپنے وجودی کرب کا اظہار کرنا مجھے بے اختیارانہ گوئٹے کے West-East Divan کے ایک مصرعے کی یاد دلاتا ہے : ’’جب ساری خلقت زندہ ہو، کیا اس وقت فردِ واحد بھی زندہ ہوتا ہے؟‘‘7 گوئٹے کے استفسار کے پیچھے ادیب کے پورے کے پورے عقیدے کا راز ملتا ہے۔ کتابیں لکھ کر فرد ایک پوری کائنات بن جاتا ہے (ہم بالزاک کی کائنات کی بات کرتے ہیں، چیخوف کی کائنات کی بات کرتے ہیں، کافکا کی کائنات کی بات کرتے ہیں — کرتے ہیں نا؟)، اور چونکہ کسی بھی کائنات کا امتیازی وصف اس کی انفرادیت ہوتی ہے، کسی دوسری کائنات کا آس پاس وجود اس کے جوہرِ ذاتی کے لیے باقاعدہ خطرہ بن جاتا ہے۔
دو موچی آپس میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں (بشرطیکہ ان کی دکانیں ایک ہی محلے میں نہ ہوں )۔ لیکن ٹھیک جس لمحے وہ موچیوں کی قسمت پر کتابیں لکھنا شروع کر دیں، ایک دوسرے کے آڑے آنے لگیں گے، انھیں فوراً یہ فکر لاحق ہو جائے گی: کیا ایک موچی کا وجود اس وقت بھی قائم رہ سکتا ہے جب بقیہ تمام موچیوں کا وجود قائم ہو؟
تمینہ محسوس کرتی ہے کہ محض ایک اجنبی آنکھ اس کی ذاتی ڈائریوں کا سارا وقار غارت کر دینے کے لیے کافی ہے، جبکہ گوئٹے کے خیال میں اگر اس کے شعر کسی شخص کی نظر میں آنے سے رہ جائیں تو اس کا — گوئٹے کا — پورا وجود کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ تمینہ اور گوئٹے کا فرق، انسان اور ادیب کا فرق ہے۔
کتاب لکھنے والا یا تو سب کچھ ہے (اپنے اور دوسروں کے لیے ایک پوری کائنات) یا کچھ بھی نہیں۔ اور چونکہ سب کچھ تو ایک آدمی کو ملنے سے رہا، ہم میں سے ہر کتاب لکھنے والا نتیجتاً کچھ بھی نہیں۔ نظرانداز کردہ، رقابت کی آگ میں سوزاں، شدید طور پر مجروح — ہم ابنِ آدم اپنے ہی بھائی کی موت کی آرزو کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں، اب خواہ یہ بناکا ہو، بی بی، گوئٹے یا میں۔
سیاست دانوں، ٹیکسی ڈرائیوروں، اسپتال میں پڑی بچے جنتی عورتوں، داشتاؤں، خونیوں، مجرموں، طوائفوں، کوتوالوں، ڈاکٹروں اور مریضوں میں گرافومینیا کی ریل پیل میرے لیے اس بات کا بڑے سے بڑا ثبوت ہے کہ بلا اِستثنیٰ ہر شخص اپنے میں ایک ادیب ہونے کا امکان مخفی رکھتا ہے۔ اور ہر کس و ناکس کو اس کا پورا حق حاصل ہے کہ بھاگتا ہوا سڑک پر نکل آئے اور ببانگِ دہل اعلان کرے : ’’ہم سب ادیب ہیں!‘‘
اس کا سبب یہ ہے کہ ہر کسی کو اس حقیقت سے نظریں چار کرنے میں خاصی دقت ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ اس سرد مہر کائنات میں، بنا دوسروں کی توجہ میں آئے، بنا کچھ کہے سنے، معدوم ہو جائے گا۔ چنانچہ ہر شخص کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وقت نکل جانے سے پہلے ہی الفاظ کی ایک پوری کائنات میں اپنی تقلیب کر لے۔
جب ہر آدمی میں مستور ادیب انگڑائی لے کر معرض وجود میں آ جائے گا (اور وہ وقت دور نہیں ) تو ہم کائناتی بہرے پن اور قلتِ تفہیم کے عہد میں پہنچ چکے ہوں گے۔
19
اب لے دے کر ہیوگو ہی اس کی واحد امید رہ گیا تھا۔ چنانچہ اس نے جب دوسری بار تمینہ کو شام کے کھانے پر چلنے کی دعوت دی تو وہ اس نے خوشی خوشی قبول کر لی۔
میز کے پار، اس کے عین مقابل بیٹھے ہوئے، ہیوگو صرف ایک ہی چیز کی بابت سوچ سکتا ہے : تمینہ کسی طرح گرفت میں آ کر نہیں دیتی۔ سامنے ہوتی ہے تو وہ شک میں پڑ جاتا ہے اور سامنے کا وار کرنے سے ہچکچانے لگتا ہے۔ وہ جتنا کسی واجب اور معیّن چیز کے حصول کی کوشش کے خوف سے اذیت اٹھاتا ہے، اتنا ہی دنیا کو — غیر معیّن اور غیر محدود کی بے کرانی کو، اور بے کرانی کے غیر معیّن کو — فتح کرنے کی خواہش اس میں کچھ اور منھ زور ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جیب سے ایک رسالہ نکالتا ہے، اسے کھولتا ہے اور تمینہ کو دیتا ہے۔ جو صفحہ اس نے کھولا ہے اس پر اس کا لکھا ہوا ایک طویل مضمون ہے۔
وہ رسالے کے بارے میں پر جوش لن ترانی شروع کر دیتا ہے اور مسلسل بولے جاتا ہے : ٹھیک ہے کہ یہ رسالہ ان کے محلے کے باہر کم ہی پڑھا جاتا ہے، لیکن نظریاتی اعتبار سے اس کا شمار با حیثیت رسالوں میں ہوتا ہے۔ اس کو شائع کرنے والوں میں اپنے اعتقادات کی مدافعت کرنے کی دلیری بھی پائی جاتی ہے، اور اس لحاظ سے یہ لوگ ضرور بہت کچھ حاصل کر کے رہیں گے۔ ہیوگو مسلسل تقریر کیے جاتا ہے، اس کے الفاظ شہوانی جارحیت کا استعارہ بننے، طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جان لیوا کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں مجرد کا وہ رجھا لینے والا جوش و خروش پایا جاتا ہے جب وہ جست بھر کے مادیت کی لا طائلی میں خود کو بدل دینے کے درپے ہو۔
تمینہ جوں جوں ہیوگو کے چہرے کو دیکھے جاتی ہے، اس کے خط و خال کو از سر نو ترتیب دینے لگتی ہے۔ پہلے جو صرف ایک روحانی ریاضت ہوا کرتی تھی، اب عادت سے زیادہ کوئی چیز بن گئی ہے۔ وہ کسی مرد کو کسی اور طرح دیکھنے سے عاجز ہے۔ اس کے لیے بڑی کاوش کی، اپنی جملہ تخلیقی صلاحیتوں کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی، بڑے اچانک طور پر، ہیوگو کی بھوری آنکھیں واقعی نیلی ہو جاتی ہیں۔ تمینہ اپنی نظریں اس کے چہرے پر جمائے رکھتی ہے۔ نیلاہٹ کو زائل ہونے سے روکنے کے لیے اسے اپنی آنکھوں کی تمام تر شدت کے ساتھ اس کے چہرے پر ارتکاز کرنا ہوتا ہے۔
تمینہ کی ٹکٹکی کو محسوس کر کے ہیوگو کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی تقریر بازی کی رفتار اور زیادہ تیز کر دیتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی نیلاہٹ بڑی دل پذیر ہے۔ اس کے بالوں کا خط کنپٹیوں کے پاس سے آہستہ آہستہ پیچھے کی سمت سمٹنے لگتا ہے تاآنکہ سامنے کے بال گھٹ کر صرف ایک تنگ سی تکون کی شکل رہ جاتے ہیں جو اس کے سر کے پیچھے، نیچے کی طرف جھکی چلی آ رہی ہو۔
’’میں نے، ہماری مغربی دنیا کو ہمیشہ اپنی تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ لیکن یہاں ہمارے درمیان جو ناانصافی ہو رہی ہے، اس سے مجبور ہو کر ہم دوسرے ممالک سے غلط طور پر مروت برتنے پر مائل ہو جاتے ہیں۔ تمھارا شکر، ہاں تمھارا شکر، تمینہ، کہ تمھاری وجہ سے میں بالآخر یہ سمجھنے کے قابل ہو گیا ہوں کہ طاقت کا مسئلہ ہر جگہ یکساں ہے۔ تمھارے ملک اور ہمارے ملک میں، مشرق میں اور مغرب میں۔ ہماری یہی کوشش ہونی چاہیے کہ کبھی ایک طاقت کو دوسری طاقت سے نہ بدلیں ؛ ہمیں چاہیے کہ طاقت کے اصول کو بنفسہٖ مسترد کر دیں اور اس کی ہر جگہ اور ہر شکل میں پر زور نفی کریں۔‘‘
’’مطلب؟‘‘ تمینہ نے بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے اور میں نے اس بارے میں سرے سے کبھی کوئی گفتگو ہی نہیں کی۔‘‘
اس وقت گھٹ کر ہیوگو کی صرف ایک نیلی آنکھ رہ گئی تھی، اور وہ بھی بتدریج بھوری ہوتی جا رہی تھی۔
’’تمھیں اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے لیے تمھارا تصور کرنا ہی کافی تھا۔‘‘
ویٹر نے جھک کر ان کے آگے ڈنر کا پہلا کورس لگا دیا۔
’’میں گھر پر اسے پڑھوں گی‘‘ تمینہ نے رسالے کو تھیلے میں ٹھونستے ہوئے کہا، پھر یہ اضافہ کیا، ’’بی بی پراگ نہیں جا رہی۔‘‘
’’مجھے پہلے سے معلوم تھا‘‘ ہیوگو نے کہا۔ ’’لیکن پریشان نہ ہو، تمینہ۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ تمھیں یاد ہے نا؟ میں تمھاری خاطر وہاں جاؤں گا۔‘‘
20
’’ایک خوش خبری سنو: میں نے تمھارے بھائی سے بات کر لی ہے اور وہ اس سنیچر تمھاری ساس سے ملنے جا رہا ہے۔‘‘
’’سچ؟ آپ نے اسے ٹھیک سے سمجھا دیا ہے نا؟ بتا دیا ہے نا کہ چابی نہ ملے تو تالا توڑ دے؟‘‘
رسیور رکھتے رکھتے تمینہ مارے خوشی کے مست ہو گئی۔
’’اچھی خبر تھی؟‘‘ ہیوگو نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘ اس نے سر ہلا کر جواب دیا۔
وہ اس وقت بھی اپنے باپ کی بشاش اور پر جوش آواز کانوں میں سن سکتی تھی۔ وہ ناحق ہی اس سے بدگمان تھی، اس نے اپنے آپ سے کہا۔
ہیوگو اٹھ کر بار تک آیا۔ دو گلاس اٹھائے اور ان میں وِسکی ڈالی۔ ’’تمینہ، تم جب چاہو میرے گھر سے بے تکلف پراگ فون کر سکتی ہو۔ میں ایک بار پھر وہی کہتا ہوں جو پہلے کہتا آیا ہوں : تمھارے ساتھ ہوتا ہوں تو جی کو بہت بھلا لگتا ہے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ تم کبھی میرے ساتھ نہیں سوؤ گی۔‘‘
’’مجھے خوب معلوم ہے کہ تم کبھی میرے ساتھ نہیں سوؤ گی‘‘ کہنے کے لیے اسے خود کو باقاعدہ مجبور کرنا پڑا تھا۔ صرف اس لیے کہ اپنے کو باور کرا سکے کہ وہ اس پراسرار اور ناقابل حصول عورت کے مدمقابل کھڑا ہو سکتا ہے، اور اس سے بعض باتیں کہہ سکتا ہے (ہرچند کہ اسے ان باتوں کو بکمال ہوشیاری پیرایۂ نفی میں کہنا پڑا تھا)، اور خود کو تقریباً بے دھڑک محسوس کرتا ہے۔
تمینہ کھڑی ہوئی، چل کر ہیوگو کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے وِسکی کا گلاس لے لیا۔ وہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ آپس میں بات چیت بند ہونے کے باوجود وہ اب بھی ایک دوسرے کے دوست تھے، اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار۔
ہیوگو نے جام ٹوسٹ کیا: ’’سب بخوبی انجام کو پہنچے!‘‘ اور گلاس ایک گھونٹ میں چڑھا گیا۔
تمینہ نے بھی اپنی وسکی غٹا غٹ پی ڈالی اور خالی گلاس میز پر رکھ دیا۔ وہ بس لوٹ کر اپنی کرسی کی طرف جانے والی تھی کہ ہیوگو نے تیزی سے اپنا بازو اس کے گرد حمائل کر دیا۔
اس نے ہیوگو کی پیش قدمی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ صرف اپنا رخ پھیر لیا۔ اس کا منھ بگڑ گیا تھا اور اس کی پیشانی شکن آلود ہو گئی تھی۔
اس نے تمینہ کو اپنی آغوش میں بھر تو لیا تھا لیکن ہنوز حیران کھڑا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ اولین چند ثانیوں تک وہ اپنی دیدہ دلیری پر سخت خائف رہا۔ اگر تمینہ نے دھکا دے کر اسے اپنے سے جدا کر دیا ہوتا تو وہ نہایت بزدلی سے پیچھے ہٹ کر اس سے باقاعدہ معافی مانگنے لگ جاتا۔ لیکن تمینہ نے اُسے دھکا وکّا نہیں دیا۔ تمینہ کے مڑے تڑے چہرے اور اپنے سے گریزاں سر کو دیکھ کر ہیوگو کی شہوت اور بھڑک اٹھی۔ اب تک جن دوچار عورتوں سے اُس کے جنسی تعلقات رہے تھے ان میں سے کسی نے بھی آج تک اس کی ملاعبت کے خلاف کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر وہ پہلے سے ہی طے کر آئی ہوتی تھیں کہ اس کے ساتھ ہم بستری کریں گی، تو خود ہی کپڑے اُتار کر اطمینان سے اس کا انتظار کرنے لگتیں، تقریباً لاتعلقی کے ساتھ، کہ دیکھیں اب وہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ چہرے کو بل دے کر تمینہ نے اس ہم آغوشی کو وہ معنی پہنا دیے تھے جن کا وہ آج سے قبل خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ وہ دیوانہ وار اسے بھینچنے لگا اور بڑی بے تاب عجلت سے اسے برہنہ کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔
لیکن تمینہ نے اپنی مدافعت سے کیوں انکار کر دیا؟
مسلسل تین سال سے اسے خدشہ تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونے ہی والا ہے۔ مسلسل تین سال سے وہ اس واقعے کی ساحر، نگراں آنکھ کے نیچے رہتی آئی تھی۔ اور اب یہ آ پہنچا تھا، بعینہٖ اسی طرح جس طرح اس نے اس کا تصور کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی مدافعت سے انکار کر دیا اور اسے یوں قبول کر لیا جیسے کوئی ناگزیر کو قبول کرتا ہے۔
اگر وہ کچھ کر سکتی تھی تو اتنا ہی کہ اپنا سر ہیوگو کی طرف سے موڑ لے۔ لیکن اس روگردانی سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ رخ پھیرتے ہی اس کے شوہر کا پیکر تمام کمرے میں اس کا پیچھا کرتا رہا۔ یہ ایک بڑے ڈیل ڈول والے شوہر کا اتنا ہی گرانڈیل اور بے ڈھنگا پیکر تھا — وہ شوہر جو زندگی سے کہیں زیادہ بڑا تھا، لیکن عین مین اسی طرح جس طرح وہ تین سال سے تصور کرتی چلی آئی تھی۔
بالآخر جب اس کا تن کپڑوں سے جدا ہوا تو ہیوگو، جو اسے جنسی طور پر مشتعل سمجھ کر شہوت کے مارے پاگل ہوا جا رہا تھا، یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ تمینہ کے مخصوص نسوانی اعضا رطوبت سے عاری تھے۔
21
ایک بار اسے معمولی سے آپریشن سے گزرنا پڑا تھا جس میں اعضا کو سن کرنے والی دوا استعمال نہیں کی گئی تھی۔ چنانچہ درد کی شدت اور کاٹ سے توجہ بٹانے کے لیے وہ آپریشن کی پوری مدت مجبوراً انگریزی کے بے قاعدہ افعال (irregular verbs) کی گردان کرتی رہی تھی۔ اس بار بھی اس نے یہی نسخہ آزمانے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی ساری توجہ ان نوٹ بکس پر مرکوز کر دی، اس بات پر کہ عنقریب وہ بحفاظت اس کے باپ کی تحویل میں چلی آئیں گی، اور یہ کریم آدمی ہیوگو وہاں جا کر انھیں اس کے لیے لے آئے گا۔
کریم آدمی ہیوگو نہایت تیزی اور دیوانگی سے کچھ دیر تک اپنے کام میں لگا رہا، تاآنکہ تمینہ کو محسوس ہوا کہ اب وہ اپنے بازوؤں کے بل اٹھ کر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر اپنے کولھے ہر سمت میں جھاڑ پٹک رہا ہے۔ تمینہ نے اندازہ کر لیا کہ وہ اس کے جنسی ردِ عمل سے غیر مطمئن ہے، اور اس کی شہوت کو اپنے حسبِ ضرورت برانگیختہ نہ پا کر ہر ممکن زاویے سے اس میں دخول کی کوشش کر رہا ہے، کہ کسی طرح اثر پذیری کے اس مقام کو جا لے جو وہ کہیں دور اپنے جسم کی گہرائیوں میں اس سے روکے ہوئے ہے۔
تمینہ کو اس کی قیامت کی دشوار گذار کوششوں کو دیکھنے کی چنداں خواہش نہ تھی۔ چنانچہ اس نے ایک بار پھر اپنا سر ہیوگو کی طرف سے پھیر لیا۔ اپنے خیالات کو مجتمع کر کے ایک بار پھر نوٹ بکس پر مرتکز ہونے کی کوشش کی۔ خود کو مجبور کیا کہ شوہر کے ساتھ گزاری ہوئی چھٹیوں کی اس ترتیب کا جائزہ لے جو اس کی یادداشت نے، ہرچند نامکمل سہی، از سر نو منظم کی تھی: پہلی جو بوہیمیا میں ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے گزاری گئی تھیں، پھر یوگوسلاویہ والی، پھر بوہیمیا کی ایک اور جھیل والی، اس کے بعد وہ جو کسی معدنی چشمے پر گزاری گئی تھیں — لیکن ترتیب ہنوز غیر واضح تھی۔ 1964 میں دونوں تترس گئے تھے، اور اس سے اگلے سال بلغاریہ، لیکن اس کے بعد ہر چیز خلط ملط ہو جاتی تھی۔ 1968 میں انھوں نے اپنی ساری چھٹیاں پراگ ہی میں بتائی تھیں، اس سے اگلے سال وہ معدنی چشمے پر گئے تھے، اور اس کے بعد ہجرت کر کے یہاں چلے آئے تھے اور اپنی آخری تعطیلات اٹلی میں منائی تھیں۔
ہیوگو نے اپنا جسم اس سے علیحدہ کر لیا اور اس کے جسم کو پلٹانے کی کوشش کی۔ تمینہ نے اندازہ کر لیا کہ وہ چاہتا ہے تمینہ جانوروں کی طرح گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ہو جائے۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ہیوگو عمر میں اس سے چھوٹا ہے، اور وہ شرمندہ ہو گئی۔ اس کے باوجود اس نے اپنے جذبات مار کر پوری لاتعلقی سے خود کو ہیوگو کے سپرد کر دیا۔ اُس نے ہیوگو کے جسم کے ناہموار دھکوں اور رگڑوں کو اپنی پشت پر محسوس کیا۔ اسے لگا جیسے وہ اسے اپنی بے پناہ قوتِ باہ اور قوتِ برداشت سے خیرہ کرنے کے درپے ہو، گویا ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہو، اپنا امتحان لے رہا ہو، یہ ثابت کرنا چاہتا ہو کہ وہ انجام کار اسے مغلوب کرنے پر قادر ہے اور اس کے لائق ہے۔
اسے پتا نہیں تھا کہ ہیوگو اسے دیکھنے سے قاصر ہے۔ تمینہ کی پشت پر نظر ڈالتے ہی (اس کے حسین، بالغ کولھوں کی اس کھلی ہوئی آنکھ پر جو اسے ترحم سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی) اس کی شہوت اتنی بھڑک اٹھی کہ اس نے آنکھیں بند کر لیں، اپنے دھکوں کی مجنونانہ رفتار کو لگام دی، اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اب وہ بھی اپنے ذہن کو کسی اور چیز (وہی ایک چیز جو دونوں میں مشترک تھی) پر مرتکز کرنے اور جنسی فعل کو کچھ دیر اور جاری رکھنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔
اسی اثنا میں تمینہ کو ہیوگو کے کمرے کی سفید دیوار پر اپنے شوہر کا بڑا سا چہرہ نظر آیا، اور اس نے مضبوطی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک بار پھر وہ بے قاعدہ افعال کی گردان کی طرح ان چھٹیوں کو دہرانے لگی: جھیل کے کنارے گزاری گئیں پہلی چھٹیاں، پھر یوگوسلاویہ، اور جھیل؟ — پھر تترس والی، پھر بلغاریہ والی، اس کے بعد ہر چیز مبہم ہو گئی تھی، پھر پراگ، معدنی چشمہ اور آخراً اٹلی۔
ہیوگو کی گہری گہری سانسوں کی آواز اسے اپنی یادوں سے کھینچ لائی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور دیوار پر اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا۔
ٹھیک اسی لمحے ہیوگو نے بھی اپنی آنکھیں کھول دیں، اور تمینہ کی پشت میں جڑی ہوئی اس بے پناہ آنکھ کو دیکھتے ہی جنسی وجد کی ایک زبردست لہر ایک کوندے کی طرح اس کے سارے جسم میں لپک گئی۔
22
جب تمینہ کا بھائی اس کی ساس سے ملنے گیا تو اسے دراز کا تالا توڑنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ دراز پہلے سے کھلی ہوئی تھی، اور اس میں گیارہ کی گیارہ نوٹ بکس موجود تھیں۔ لیکن وہ بنڈل میں بندھی ہوئی نہ تھیں بلکہ منتشر تھیں۔ خطوط بھی اسی طرح بے ترتیب اور بکھرے ہوئے تھے — کاغذات کا ایک بے شکل انبار۔ تمینہ کے بھائی نے اس ملبے کو سوٹ کیس میں بھرا اور باپ کو دے آیا۔
تمینہ نے فون پر اپنے باپ سے کہا کہ ساری چیزوں کو قرینے سے کاغذ میں لپیٹ کر اسے احتیاط سے چاروں طرف سے باندھ دے، اور — اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ — اس نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ نہ وہ اور نہ اس کا بھائی ان کا ایک لفظ پڑھیں۔
اس نے تمینہ کو اطمینان دلایا، حالانکہ اس بات کا وہ تقریباً برا مان گیا کہ وہ کبھی اپنے خواب میں بھی تمینہ کی ساس کے نقش قدم پر چل کر ان چیزوں کو پڑھے گا جن سے اس کا کوئی سروکار نہ ہو۔ لیکن مجھے معلوم ہے (اور تمینہ کو بھی معلوم ہے ) کہ بعض چیزیں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ آدمی انھیں دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا — مثلاً جیسے کار کا حادثہ یا دوسروں کے عشقیہ خطوط۔
چنانچہ، انتہائے کار، تمینہ کی بہت ہی بے تکلفانہ اور نجی تحریریں اب اس کے باپ کی حفاظت میں تھیں۔ لیکن کیا اس کے لیے ان کی اب بھی وہی قدر و قیمت تھی؟ کیا وہ پہلے ہی سینکڑوں بار یہ نہ کہہ چکی تھی کہ اغیار کی نگاہ اس بارش کی طرح ہوتی ہے جو لکھے کو دھو ڈالتی ہے؟
بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ غلطی پر تھی۔ وہ تو انھیں دیکھنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تڑپ رہی تھی۔ ان کی اہمیت اس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہ پامال اور بے حرمت کی جا چکی تھیں۔ وہ اور اس کی یادیں ایک مشترکہ قسمت میں ایک دوسرے کی بہنیں تھیں۔ ان سے اس کی محبت اور بھی بڑھ گئی۔
لیکن اس کے باوجود وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی کہ اسے باقاعدہ ذلیل، باقاعدہ سبک سر کیا گیا ہے۔
ایک بار بہت پہلے — جب اس کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی — اس کا چچا اس کے کمرے میں ٹھیک اس وقت در آیا تھا جب وہ برہنہ تھی۔ اسے بے حد شرم آئی۔ پھر یہی ندامت سرکشی میں تبدیل ہو گئی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے خود سے طفلانہ لیکن باضابطہ عہد کر ڈالا کہ اپنی مدت العمر کبھی اس چچا کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گی۔ وہ جب بھی ان کے یہاں آتا، وہ اسے دیکھنے سے انکار کر دیتی، اور اس کے لیے اسے ہر جور و ستم منظور تھا: گھر والوں کی تہدید، ڈانٹ پھٹکار، چیخنا چلانا، طنز، استہزائی ہنسی — سب کچھ۔
اور اب یہاں ایک ملتی جلتی صورت حال سے سامنا تھا۔ وہ اپنے والد اور بھائی کی شکر گذار تھی لیکن وہ اب دوبارہ کبھی ان کا منھ تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ آج یہ بات اس پر پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی تھی: وہ کبھی لوٹ کر ان کے پاس نہیں جائے گی۔
23
ہیوگو کی غیر متوقع کامیابی اپنے ساتھ اتنی ہی پسپائی بھی لیتی آئی تھی۔ ہرچند وہ اب جب چاہتا اس کے ساتھ ہم بستری کر سکتا تھا (پہلی دفعہ سپرد کر دینے کے بعد اب وہ شاید ہی انکار کر سکتی تھی)، لیکن اسے خوب احساس تھا کہ وہ اسے اپنا بنانے، اسے خیرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ ایک برہنہ جسم اس کے جسم کے نیچے اس قدر لاتعلق، اتنا سرد مہر، اتنا نارسا، اتنا اجنبی کیسے ہو سکتا ہے؟ اور وہ بھی اس وقت جب وہ اسے اپنی اندرونی زندگی کا حصہ بنانے کا شیدائی تھا! اس پر شکوہ کائنات کا حصہ جس کی تجسیم اس کے گرم لہو اور خیالات سے ہوئی تھی!
’’تمینہ، میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں‘‘ ریستوراں میں اس کے مقابل بیٹھے ہوئے اس نے کہا۔ ’’محبت کے بارے میں کتاب۔ ہاں، ہاں، تمھارے بارے میں، اپنے بارے میں، ہمارے بارے میں، ہمارے نجی ترین جذبوں کے بارے میں۔ ڈائری کی صورت، ہمارے دو جسموں کی ڈائری۔ ہاں، ہاں، میں تمام پابندیوں کو جھاڑ کر بالکل بے لاگ طور پر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور کیا چاہتا ہوں۔ یہ کتاب سیاسی بھی ہو گی۔ محبت کے بارے میں ایک سیاسی کہانی اور سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی…‘‘
تمینہ وہیں بیٹھی اسے دیکھے جاتی ہے۔ اچانک اس کے چہرے کی کیفیت ہیوگو سے اور برداشت نہیں کی جاتی اور وہ اپنی گفتگو کا سلسلہ کھو بیٹھتا ہے۔ وہ تو اسے اپنے لہو اور خیالات کی کائنات میں اٹھا کر لے جانا چاہتا تھا، اور وہ یہاں اپنی ہی دنیا میں سراسر اور یوں مکملاً محو بیٹھی تھی۔ اس کے الفاظ بہرے کانوں میں پڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی روانی کھو کر بوجھل ہوتے جا رہے تھے : ’’…سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی۔ بالکل — کیونکہ ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانی پیمانے پر ایک دنیا تخلیق کر سکیں، اپنے پیمانے پر، اپنے جسموں کے پیمانے پر۔ تمھارا جسم، تمینہ، اور میرا جسم، بالکل۔ تاکہ آدمی بوس و کنار کا ایک نیا طریقہ دریافت کر سکے، محبت کرنے کا ایک نیا ڈھنگ…‘‘
الفاظ اور زیادہ بوجھل اور بے ڈھب ہوتے جا رہے ہیں، وہ کٹّر گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہیں۔ ہیوگو کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ تمینہ حسین ہے، اور وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اپنے بے وطن بیوہ کے ماضی کو استعمال کر رہی ہے، اور اپنی جھوٹی انا کی فلک بوس عمارت کی بلندی سے نیچے ہر ایک کو حقارت سے دیکھ رہی ہے۔ ہیوگو رشک کے ساتھ خود اپنی لاٹ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ لاٹ جو وہ تمینہ کی فلک بوس عمارت کے درمیانی فاصلے کو پاٹنے کے لیے کھڑی کرنا چاہتا ہے، وہ لاٹ جس پر تمینہ ذرا سی توجہ دینے کے لیے بھی آمادہ نہیں — وہ لاٹ جو محض ایک مطبوعہ مضمون اور اپنی اور اس کی محبت کے بارے میں ایک مجوزہ کتاب سے مل کر بنی ہے۔
’’تم پراگ کب جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ پوچھتی ہے۔ ژ میں چلی آ رہی تھیں۔ وہ ٹائلٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور قے کر دی۔ اس کا پورا جسم یوں تڑپ اور لرز رہا تھا گویا سسکیاں بھر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے اس لونڈے کے خصیوں، عضوِ تناسل اور زیرِ ناف کے بالوں کی تصویر تھی۔ وہ اس کے منھ سے نکلتی ہوئی سانسوں کی کھٹی بساند سونگھ سکتی تھی، اور اپنے کولھوں پر اس کی رانوں کے دباؤ کو محسوس کر سکتی تھی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اب اسے مطلق یاد نہیں رہا کہ اس کے شوہر کے اعضائے تولید کی کیا شکل و صورت تھی — دوسرے لفظوں میں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ثابت ہو رہی تھی (خدایا، ہاں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ہے ) — اور وہ دن دور نہیں جب اس کے حافظے میں صرف یہ لڑکا اور اس کے منھ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکے ہی رہ جائیں گے۔ اور اس نے پھر قے کر دی۔ شاخِ بید کی طرح لرزی، تڑپی، اور ایک اور قے کر دی۔
جب وہ غسل خانے سے برآمد ہوئی تو اس کے منھ پر (جو ہنوز اس کھٹی بو سے لبریز تھا) ہمیشہ کے لیے خاموشی کی مہر ثبت ہو چکی تھی۔ ہیوگو مضطرب و خجل تھا۔ چاہتا تھا کہ ساتھ چل کر اسے گھر تک چھوڑ آئے، لیکن وہ ایک لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے ہونٹ سل چکے تھے (جس طرح خواب میں ہوا تھا، جب اس کے منھ میں طلائی انگشتری تھی)۔
جب وہ اس سے بولا تو اس کا تنہا ردِ عمل یہ تھا کہ وہ اور زیادہ تیز چلنے لگی۔ جلد ہی اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ رہ گیا، اور کچھ دیر تک وہ اس کے ساتھ ساتھ خاموش چلتا گیا۔ بالآخر وہ ایک جگہ رک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ سیدھی آگے چلتی گئی، بغیر اِدھر یا اُدھر دیکھے ہوئے۔
وہ اپنی مدتِ عمر گاہکوں کو کافی پیش کرتی رہی اور بھول کر بھی دوبارہ چیکوسلوواکیہ فون نہ کیا۔
٭٭
حواشی:
1 Calvados: بھوری رنگت کی خشک برانڈی جو سیب کے عرق سے کشید کی جاتی ہے۔
2 siren: یونانی دیومالا کی وہ مخلوق جو آدھی عورت اور آدھی پرند ہوتی ہے، سمندر کے بیچ کسی چٹان پر رہتی ہے، اور ساحرانہ موسیقی سے غفلت میں آئے مسافروں کو پھانس لیتی ہے۔
3 pate: یہ وہی شے ہے جسے پاکستان کے بہائی ریستورانوں میں خلقت ’’پے ٹِس‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
4 اصل لفظ جو انگریزی میں استعمال ہوا ہے وہ betray ہے۔ کوئی مناسب اور مترادف لفظ نہیں مل رہا، اور ’’دغا‘‘ سے بھی کام نہیں چل رہا۔ سو دونوں حاضر ہیں۔
5 port: گہرے سرخ رنگ کی ایک تیز، میٹھی شراب۔
6 A soft clear metallic tone, like a golden ring falling into a silver basin.
7 "Is one man alive when others are alive”
٭٭٭
خندہ اور فراموشی کی کتاب ۔۔۔ انگریزی سے ترجمہ: آصف فرخی
1
فروری 1948 میں کمیونسٹ رہنما کلیمنٹ گوٹ والڈ، پراگ کے باروک طرز تعمیر کے ایک محل کی بالکنی پر نمودار ہوا تاکہ ان ہزاروں لاکھوں شہریوں سے خطاب کرے جو پرانے شہر کے چوک میں بھیڑ لگائے کھڑے تھے۔ یہ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ تھا—ان تقدیر ساز لمحوں میں سے ایک جو ہزاروں برس میں ایک آدھ بار ہی آتے ہیں۔
گوٹ والڈ کے دونوں جانب اس کے رفیق تھے، اور کلیمنٹس اس کے پہلو میں کھڑا ہوا تھا۔ برفیلی ہوا چل رہی تھی۔ موسم خنک تھا اور گوٹ والڈ برہنہ سر تھا۔ مستعد کلیمنٹس نے اپنی سمور دار ٹوپی اتاری اور گوٹ والڈ کے سر پر رکھ دی۔
پارٹی کے پروپیگنڈا والے شعبے نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایک تصویر شائع کی جس میں گوٹ والڈ، سر پر سمور دار ٹوپی پہنے اور اپنے رفیقوں کو ساتھ لیے، ہجوم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس بالکنی پر کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ نے جنم لیا۔ ملک کا بچہ بچہ اس تصویر کو پوسٹروں، درسی کتابوں اور عجائب گھروں میں دیکھ چکا ہے۔
چار سال بعد کلیمنٹس پر غداری کا الزام عائد ہوا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ پروپیگنڈا کے شعبے نے فوراً اسے تاریخ سے یکسر صاف کر دیا، اور ظاہر ہے کہ ان تمام تصویروں سے بھی۔ اس کے بعد سے گوٹ والڈ بالکنی پر اکیلا کھڑا ہے۔ جہاں کبھی کلیمنٹس تھا، وہاں محل کی خالی دیوار ہے۔ کلیمنٹس کا اب کچھ باقی رہا ہے تو وہ ہے گوٹ والڈ کے سر پر اس کی ٹوپی۔
2
یہ 1971 ہے اور مریک (Mirek) کہتا ہے کہ اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے۔
اس کی یہ کوشش اس چیز کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے ہے جسے اس کے دوست بے احتیاطی کہتے ہیں : اپنے روز و شب کی تفصیل ڈائری میں لکھنا، تمام خط و کتابت محفوظ رکھنا، ان جلسوں کی گفتگو لکھ لینا جہاں حالاتِ حاضرہ پر اور اس سوال پر بحث ہوتی ہے کہ اب اس کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، وہ انھیں بتاتا ہے۔ چھپانے کی کوشش کرنا، احساسِ جرم کو جگہ دینا — یہ انجام کی ابتدا بن جاتے ہیں۔
ایک ہفتہ پہلے، ایک نئی عمارت کی چھت پر اپنے عملے کے ساتھ کام کرتے ہوئے، اس نے نیچے جھانک کر دیکھا اور اچانک اسے چکر آنے لگے۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور اس نے ایک شہتیر کی طرف ہاتھ بڑھایا جو پوری طرح جکڑا ہوا نہیں تھا؛ وہ شہتیر اُکھڑ گیا اور بعد میں اسے شہتیر کے نیچے سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔ پہلے پہل چوٹ خطرناک معلوم ہو رہی تھی لیکن بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ یہ وہی روزمرہ کا عام سا ٹوٹا ہوا بازو ہے، تو اس نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کہ اب ہفتے ڈیڑھ کی چھٹی مل جائے گی جس میں وہ چند ایسے معاملات نبٹا سکتا ہے جن کو پورا کرنے کا ارادہ وہ بہت دنوں سے کر رہا تھا۔
آخرکار وہ اپنے محتاط دوستوں کی روش پر آ ہی گیا۔ یہ سچ ہے کہ آئین نے آزادیِ تقریر دے رکھی تھی، مگر قانون کے مطابق ہر وہ عمل قابلِ سزا تھا جسے ملک دشمن قرار دیا جا سکے۔ اب بھلا یہ کون بتا سکتا ہے کہ ملک کب یہ چیخنا، شور مچانا شروع کر دے کہ فلاں فلاں لفظ میرے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان موردِ الزام ٹھہرانے والے کاغذات کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دے تو بہتر ہے۔
لیکن سب سے پہلے وہ زدینا والا مسئلہ طے کر لینا چاہتا تھا۔ اس نے زدینا کو طویل مسافت سے ٹیلیفون کرنا چاہا، مگر بات نہ ہو سکی۔ چار دن اس سے بات کرنے کی کوشش میں ضائع ہو گئے۔ کل جا کر وہ اس سے بات کرنے میں کامیاب ہوا۔ زدینا نے وعدہ کیا کہ وہ آج کی دوپہر اس کا انتظار کرے گی۔
اس کے سترہ سالہ بیٹے نے احتجاج کیا کہ بازو پر پلاسٹر چڑھائے ہوئے وہ ہرگز گاڑی نہیں چلا سکتا۔ یہ واقعی مشکل کام تھا۔ اس کا زخمی بازو، پٹی میں بندھا ہوا، اس کے سینے پر بیکار جھول رہا تھا۔ جب بھی وہ گیئر بدلتا، چند سیکنڈ کے لیے اسے اسٹیئرنگ ویل چھوڑ دینا پڑتا۔
3
پچیس سال بیت گئے جب زدینا کے ساتھ اس کا معاملہ چلا تھا، اور اب اس کی نشانی کے طور پر محض چند یادیں رہ گئی تھیں۔
ایک دفعہ وہ آئی تو رومال سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اور ناک پونچھتی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہو گیا۔ ایک دن پہلے روس کا کوئی بڑا سیاست دان مر گیا، زدینا نے اسے بتایا — کوئی زدانوف آربوزوف یا مشت زنوف۔ اگر آنسوؤں کے قطروں کی تعداد سے حساب لگایا جائے تو وہ مشت زنوف کی موت پر زیادہ دل گرفتہ ہوئی تھی اور اپنے باپ کی موت پر کم۔
کیا یہ سب کچھ واقعی ہوا تھا؟ یا مشت زنوف کے لیے زدینا کی نوحہ گری محض اس کی موجودہ نفرت کا شاخسانہ تھی؟ نہیں، یہ سب واقعی پیش آیا تھا، گو کہ یہ ظاہر ہے کہ اس لمحے کے فوری حالات جو اس واقعے کو قابلِ اعتبار اور حقیقی بنا رہے تھے، اب غائب ہو چکے تھے اور اس کی یاد غیر معقول اور مضحکہ خیز بن گئی تھی۔
اس کی ساری یادیں ایسی ہی تھیں۔ وہ دونوں ٹرام میں بیٹھ کر اس فلیٹ سے واپس آ رہے تھے جہاں پہلی بار انھوں نے مباشرت کی تھی۔ (مریک کو اس امر سے خاصی تسکین ہوئی کہ وہ ان تمام مباشرتوں کو بالکل فراموش کر چکا تھا، ان میں سے کسی ایک مباشرت کا لمحہ بھر بھی یاد نہیں کر سکتا تھا۔ ) کنارے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اور دھچکوں کے ساتھ اچھلتے ہوئے وہ بہت افسردہ، پریشان اور حیرت انگیز حد تک عمر رسیدہ نظر آ رہی تھی۔ جب مریک نے پوچھا کہ تم اتنی چپ چاپ کیوں ہو، تو اس نے جواب دیا کہ وہ اس جسمانی تعلق سے مطمئن نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ تم دانشوروں کی طرح مباشرت کرتے ہو۔
اُس زمانے کے سیاسی محاورے میں ’دانشور‘ کا لفظ گالی سے کم نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا وہ شخص جو زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور عام لوگوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس زمانے میں جن کمیونسٹوں کو ان کے ساتھی کمیونسٹوں نے تختۂ دار پر چڑھایا، وہ یہی گالی اپنے سر لے کر مرے۔ ان لوگوں کے برخلاف جن کے پاؤں مضبوطی کے ساتھ زمین پر جمے ہوئے تھے، یہ لوگ، قیاس کے مطابق، ہواؤں میں اڑتے رہے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جائز تھی کہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین آخری اور قطعی بار کھینچ لی جائے اور انھیں زمین سے چند گز اوپر لٹکنے دیا جائے۔
لیکن زدینا کا کیا مطلب تھا جب اس نے یہ الزام لگایا کہ وہ دانشوروں کی طرح مباشرت کرتا ہے؟
کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی تھی، اور جس طرح وہ کسی تجریدی یا تخئیلی رشتے کو (جیسے مشت زنوف نام کے ایک اجنبی سے اپنے تعلق کو) جذبے اور احساس کی ٹھوس جسمانی شکل (یعنی آنسوؤں ) سے ظاہر کر سکتی تھی، اسی طرح وہ سب سے زیادہ جسمانی عمل کو ایک تجریدی معنی اور اپنے عدم اطمینان کو ایک سیاسی نام دے سکتی تھی۔
4
گاڑی کے پچھلے شیشے میں جھانکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ایک اور گاڑی شروع سے اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اسے کبھی بھی اس بات پر شک نہیں تھا کہ اس کا پیچھا کیا جاتا رہا ہے، مگر اب تک انھوں نے استادانہ احتیاط کے ساتھ کام کیا تھا۔ تاہم آج ایک انقلابی تبدیلی آ گئی تھی — وہ چاہتے تھے کہ اسے ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔
پراگ سے کوئی پندرہ میل دور کھیتوں کے درمیان ایک اونچی سی باڑھ تھی، جس کے پیچھے گاڑیوں کی مرمت کی دکان تھی۔ وہاں اس کا ایک دوست ہوا کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہونے میں جو گڑبڑ کرتی ہے، اس کا پرزہ بدلوا لے۔ اس نے دکان کے دروازے پر گاڑی روک دی۔ وہاں سرخ و سفید دھاریوں والا پھاٹک تھا۔ ایک بھاری بھرکم عورت وہاں کھڑی اسے گھورتی رہی۔ اس نے گاڑی کا ہارن بجایا، لیکن اُدھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا۔
’’ابھی تک سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچے؟‘‘ عورت نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، ابھی تک نہیں‘‘ مریک نے جواب دیا۔ ’’پھاٹک کھولنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
وہ سپاٹ چہرہ لیے، چند ثانیوں تک اسے تکتی رہی، پھر جماہی لی اور پھاٹک کے قریب بنی ہوئی کوٹھری میں جا کر کرسی پر دھر کے بیٹھ گئی اور اس کی جانب پیٹھ کر لی۔
چنانچہ وہ گاڑی سے اترا، پھاٹک کے گرد چکر کاٹتا ہوا اپنے مستری دوست کی تلاش میں اندر چلا گیا۔ مستری کو ساتھ لے کر وہ باہر نکلا۔ اس نے خود پھاٹک کھولا (عورت ابھی تک کوٹھری میں بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی)، اور مریک گاڑی چلاتا ہوا اندر لے گیا۔
’’یہ انعام ملتا ہے تمھیں ٹیلی وژن پر آ کر ڈینگیں مارنے کا‘‘ مستری نے کہا۔ ’’اس ملک کا ہر احمق تمھاری شکل پہچانتا ہے۔‘‘
’’یہ عورت کون ہے؟‘‘ مریک نے پوچھا۔
اسے پتا چلا کہ جب روسی فوجوں نے چیکوسلوواکیہ پر یلغار کی، جس کے نتائج ہر مقام پر واضح تھے، تو اس عورت کی زندگی بھی بدل کر رہ گئی۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جو لوگ اس سے اونچے عہدوں پر ہیں (اور ہر شخص اس سے زیادہ اونچے عہدے پر تھا) ان کے عہدے، اختیارات، مرتبہ، ملازمت اور یہاں تک کہ دو وقت کی روٹی بھی ذرا سے الزام سے چھن جاتی ہے، تو وہ جوش میں آ گئی اور لوگوں کی مخبری کرنے لگی۔
’’تو اب تک یہ پھاٹک پر کیوں کام کر رہی ہے؟ انھوں نے اب تک اس کو ترقی بھی نہیں دی؟‘‘
مستری مسکرانے لگا۔ ’’دے بھی نہیں سکتے۔ اسے پانچ تک گنتی نہیں آتی۔ وہ یہی کر سکتے ہیں کہ اسے مخبری کا کام کرتے رہنے دیں۔ اس کا بس یہی انعام ہے۔‘‘ اس نے انجن کا ڈھکنا کھولا اور اس کے اندر جھانکنے لگا۔
مریک کو اچانک احساس ہوا کہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کوئی شخص کھڑا ہوا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک آدمی سرمئی جیکٹ، سفید قمیص اور ٹائی، اور بھوری پتلون پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کی موٹی گردن اور پھولے ہوئے چہرے کے اوپر مصنوعی طریقے سے سفید کیے ہوئے بالوں کا گچھا پڑا ہوا تھا۔ وہ وہاں کھڑا ہوا مستری کو گاڑی کے کھلے ہوئے انجن میں منھ ڈالے ہوئے دیکھتا رہا۔
ذرا دیر بعد مستری نے بھی اسے دیکھ لیا۔ ’’کسی کی تلاش میں ہو؟‘‘ اس نے سیدھے ہو کر اس آدمی سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ فربہ گردن اور گچھے دار بالوں والے آدمی نے جواب دیا۔ ’’میں کسی کی تلاش میں نہیں ہوں۔‘‘
مستری نے دوبارہ اپنا منھ انجن میں ڈال دیا اور بولا، ’’پراگ کے بیچوں بیچ وینسسلوس چوک میں ایک آدمی کھڑے کھڑے قے کر رہا تھا۔ ایک اور آدمی آیا، اس کی طرف دیکھا، سر ہلایا اور بولا: مجھے تمھارے جذبات کا پوری طرح احساس ہے۔‘‘
5
بنگلہ دیس کے خونیں واقعات نے بہت تیزی کے ساتھ چیکوسلوواکیہ پر روسی حملے کی یاد کو دبا دیا، آیندے کے قتل نے بنگلہ دیس کی سسکیوں کا گلا دبا دیا، صحرائے سینائی کی جنگ نے لوگوں کے ذہن سے آیندے کو فراموش کروا دیا، کمبوڈیا کے قتل عام نے صحرائے سینائی کو لوگوں کے ذہن سے بھلا دیا، اسی طرح اور آگے … یہاں تک کہ آخرکار ہر شخص ہر چیز کو فراموش ہو جانے دیتا ہے۔
اس زمانے میں جب تاریخ دھیرے دھیرے حرکت کرتی تھی، واقعات بھی کم تھے اور ان کی درمیانی مدت بھی زیادہ تھی اور وہ آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتے تھے۔ یہ عام طور پر تسلیم کیا ہوا ایک پس منظر تھے جس کے سامنے ذاتی زندگیوں کے دلچسپ واقعے اور کارنامے پیش آتے تھے۔ اب تاریخ سرعت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے اسے جلد ہی بھلا دیا جانا ہو، اگلی ہی صبح جدت کی شبنم سے دھلا ہوا اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس منظر کے بجائے وہ خود اب واقعہ ہے، ایسا واقعہ جو زندگی کی مسلمہ پیش پا افتادگی کے سامنے کھیلا جاتا ہے۔
چونکہ ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، معلومات عامہ کا حصہ ہو گا، لہٰذا مجھے ان واقعات کو جو چند سال پہلے پیش آئے تھے، اس طرح بیان کرنا پڑ رہا ہے جیسے وہ ہزاروں سال پرانے ہوں۔ 1939 میں جرمن فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور چیک ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ 1945 میں روسی فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور ملک کو ایک بار پھر ایک آزاد جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ لوگوں نے روس کے لیے بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، کہ اس نے ان کے ملک سے جرمنوں کو نکال باہر کیا تھا، اور چونکہ وہ چیک کمیونسٹ پارٹی کو اس کا وفادار نمائندہ سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی ہمدردیاں اس کی جانب منتقل کر دیں۔ سو یہ ہوا کہ فروری 1948 میں کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا، خون خرابے اور تشدد سے نہیں بلکہ نصف سے زیادہ آبادی کے پُر جوش نعروں کے درمیان۔ اور مہربانی فرما کر یاد رکھیے کہ یہ نصف زیادہ متحرک، زیادہ ذہین تھا، بہتر نصف تھا۔
جی ہاں، جو جی چاہے کہیے، کمیونسٹ زیادہ ذہین تھے۔ ان کے پاس پُر شکوہ منصوبہ تھا — ایک نئی دنیا کا نقشہ جس میں ہر شخص کو اس کا مقام مل جائے گا۔ کمیونسٹوں کے مخالفین کے پاس ایسا کوئی خواب نہیں تھا۔ ان کے پاس چند ایک اخلاقی اصول تھے، باسی اور بے جان، کہ جن سے موجودہ نظام کی پھٹی پرانی پتلون میں پیوند لگا سکیں۔ سو ظاہر ہے کہ شان و شکوہ کے پر جوش حامی محتاط مفاہمت پسندوں سے جیت گئے اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں جٹ گئے کہ سب لوگوں کے لیے انصاف کا خواب ناک گیت تخلیق کیا جائے۔
میں اپنی بات پھر دُہرا دوں — خواب ناک گیت، سب کے لیے۔ لوگوں نے ہمیشہ اس کی تمنا کی ہے، ایسا باغ جہاں بلبلیں گاتی رہیں، اتفاق و ہم آہنگی کا مسکن، جہاں دنیا اجنبی بن کر آدمی کو دہلاتی نہیں، نہ ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے خلاف اٹھتا ہے، جہاں ہر شخص موسیقار باخ کے عالیشان کثیر الصوت نغمے کا سُر ہے ؛ اور جو کوئی اپنا سُر اس راگ میں شامل کرنے سے انکار کرتا ہے محض ایک سیاہ دھبا ہے، بے مصرف اور معنی سے عاری، جسے آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اور کچلا جا سکتا ہے، جیسے دو انگلیوں کے درمیان کیڑا۔
ابتدا ہی سے ایسے لوگ تھے جنھیں احساس تھا کہ وہ اس خواب ناک گیت کا مزاج نہیں رکھتے، اور وہ اس ملک کو چھوڑ جانا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ خواب ناک گیت، اپنی تعریف کے مطابق، تمام لوگوں کے لیے ایک نئی دنیا ہے، لہٰذا جو لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے تھے وہ اشارتاً اس کی مکمل با ضابطگی سے منکر ہو رہے تھے۔ اس لیے پردیس جانے کے بجائے وہ قید خانوں میں چلے گئے۔ جلد ہی ان کی تعداد میں سیکڑوں، ہزاروں لوگ اور شامل ہو گئے، جن میں کچھ کمیونسٹ بھی تھے، جیسے وزیر خارجہ کلیمنٹس، جس نے گوٹ والڈ کو اپنی ٹوپی پہنائی تھی۔ شرمائے ہوئے عشاق پردۂ سیمیں پر ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے رہے، ازدواجی بے وفائی پر شہریوں کی عدالت سے سخت سزائیں سنائی جاتی رہیں، بلبلیں گیت گاتی رہیں اور کلیمنٹس کا جسم آگے پیچھے ڈولتا رہا، جیسے بنی نوع انسان کے لیے ایک نئے سویرے کی آمد کی اطلاع دینے والی گھنٹی۔
اور اچانک ان نوجوان، ذہین بنیاد پرستوں کو ایک عجیب سا احساس ہوا کہ انھوں نے دنیا میں ایک نئی چیز بھیج دی ہے، ایک عمل جس کے سرانجام دینے والے وہ ہیں اور جس نے اب اپنی ایک زندگی حاصل کر لی ہے، جو اپنے ابتدائی تصور سے تمام مشابہت گم کر چکا ہے اور اس خیال کے موعدین کو یکسر نظرانداز کر چکا ہے۔ لہٰذا ان نوجوان، ذہین بنیاد پرستوں نے اس عمل کو پکارنا شروع کیا، اسے واپس بلانے لگے، اس کو ڈانٹا، اس کا پیچھا کیا۔ اگر میں ان باصلاحیت بنیاد پرستوں کی اس نسل کے بارے میں کبھی کوئی ناول لکھوں گا تو اس کا نام رکھوں گا ’’گم شدہ عمل کے تعاقب میں‘‘۔
6
اور اب یہاں ایک ملتی جلتی صورت حال سے سامنا تھا۔ وہ اپنے والد اور بھائی کی شکر گذار تھی لیکن وہ اب دوبارہ کبھی ان کا منھ تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ آج یہ بات اس پر پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی تھی: وہ کبھی لوٹ کر ان کے پاس نہیں جائے گی۔
23
ہیوگو کی غیر متوقع کامیابی اپنے ساتھ اتنی ہی پسپائی بھی لیتی آئی تھی۔ ہرچند وہ اب جب چاہتا اس کے ساتھ ہم بستری کر سکتا تھا (پہلی دفعہ سپرد کر دینے کے بعد اب وہ شاید ہی انکار کر سکتی تھی)، لیکن اسے خوب احساس تھا کہ وہ اسے اپنا بنانے، اسے خیرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ ایک برہنہ جسم اس کے جسم کے نیچے اس قدر لاتعلق، اتنا سرد مہر، اتنا نارسا، اتنا اجنبی کیسے ہو سکتا ہے؟ اور وہ بھی اس وقت جب وہ اسے اپنی اندرونی زندگی کا حصہ بنانے کا شیدائی تھا! اس پر شکوہ کائنات کا حصہ جس کی تجسیم اس کے گرم لہو اور خیالات سے ہوئی تھی!
’’تمینہ، میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں‘‘ ریستوراں میں اس کے مقابل بیٹھے ہوئے اس نے کہا۔ ’’محبت کے بارے میں کتاب۔ ہاں، ہاں، تمھارے بارے میں، اپنے بارے میں، ہمارے بارے میں، ہمارے نجی ترین جذبوں کے بارے میں۔ ڈائری کی صورت، ہمارے دو جسموں کی ڈائری۔ ہاں، ہاں، میں تمام پابندیوں کو جھاڑ کر بالکل بے لاگ طور پر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور کیا چاہتا ہوں۔ یہ کتاب سیاسی بھی ہو گی۔ محبت کے بارے میں ایک سیاسی کہانی اور سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی…‘‘
تمینہ وہیں بیٹھی اسے دیکھے جاتی ہے۔ اچانک اس کے چہرے کی کیفیت ہیوگو سے اور برداشت نہیں کی جاتی اور وہ اپنی گفتگو کا سلسلہ کھو بیٹھتا ہے۔ وہ تو اسے اپنے لہو اور خیالات کی کائنات میں اٹھا کر لے جانا چاہتا تھا، اور وہ یہاں اپنی ہی دنیا میں سراسر اور یوں مکملاً محو بیٹھی تھی۔ اس کے الفاظ بہرے کانوں میں پڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی روانی کھو کر بوجھل ہوتے جا رہے تھے : ’’…سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی۔ بالکل — کیونکہ ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانی پیمانے پر ایک دنیا تخلیق کر سکیں، اپنے پیمانے پر، اپنے جسموں کے پیمانے پر۔ تمھارا جسم، تمینہ، اور میرا جسم، بالکل۔ تاکہ آدمی بوس و کنار کا ایک نیا طریقہ دریافت کر سکے، محبت کرنے کا ایک نیا ڈھنگ…‘‘
الفاظ اور زیادہ بوجھل اور بے ڈھب ہوتے جا رہے ہیں، وہ کٹّر گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہیں۔ ہیوگو کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ تمینہ حسین ہے، اور وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اپنے بے وطن بیوہ کے ماضی کو استعمال کر رہی ہے، اور اپنی جھوٹی انا کی فلک بوس عمارت کی بلندی سے نیچے ہر ایک کو حقارت سے دیکھ رہی ہے۔ ہیوگو رشک کے ساتھ خود اپنی لاٹ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ لاٹ جو وہ تمینہ کی فلک بوس عمارت کے درمیانی فاصلے کو پاٹنے کے لیے کھڑی کرنا چاہتا ہے، وہ لاٹ جس پر تمینہ ذرا سی توجہ دینے کے لیے بھی آمادہ نہیں — وہ لاٹ جو محض ایک مطبوعہ مضمون اور اپنی اور اس کی محبت کے بارے میں ایک مجوزہ کتاب سے مل کر بنی ہے۔
’’تم پراگ کب جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ پوچھتی ہے۔ ژ میں چلی آ رہی تھیں۔ وہ ٹائلٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور قے کر دی۔ اس کا پورا جسم یوں تڑپ اور لرز رہا تھا گویا سسکیاں بھر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے اس لونڈے کے خصیوں، عضوِ تناسل اور زیرِ ناف کے بالوں کی تصویر تھی۔ وہ اس کے منھ سے نکلتی ہوئی سانسوں کی کھٹی بساند سونگھ سکتی تھی، اور اپنے کولھوں پر اس کی رانوں کے دباؤ کو محسوس کر سکتی تھی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اب اسے مطلق یاد نہیں رہا کہ اس کے شوہر کے اعضائے تولید کی کیا شکل و صورت تھی — دوسرے لفظوں میں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ثابت ہو رہی تھی (خدایا، ہاں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ہے ) — اور وہ دن دور نہیں جب اس کے حافظے میں صرف یہ لڑکا اور اس کے منھ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکے ہی رہ جائیں گے۔ اور اس نے پھر قے کر دی۔ شاخِ بید کی طرح لرزی، تڑپی، اور ایک اور قے کر دی۔
جب وہ غسل خانے سے برآمد ہوئی تو اس کے منھ پر (جو ہنوز اس کھٹی بو سے لبریز تھا) ہمیشہ کے لیے خاموشی کی مہر ثبت ہو چکی تھی۔ ہیوگو مضطرب و خجل تھا۔ چاہتا تھا کہ ساتھ چل کر اسے گھر تک چھوڑ آئے، لیکن وہ ایک لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے ہونٹ سل چکے تھے (جس طرح خواب میں ہوا تھا، جب اس کے منھ میں طلائی انگشتری تھی)۔
جب وہ اس سے بولا تو اس کا تنہا ردِ عمل یہ تھا کہ وہ اور زیادہ تیز چلنے لگی۔ جلد ہی اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ رہ گیا، اور کچھ دیر تک وہ اس کے ساتھ ساتھ خاموش چلتا گیا۔ بالآخر وہ ایک جگہ رک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ سیدھی آگے چلتی گئی، بغیر اِدھر یا اُدھر دیکھے ہوئے۔
وہ اپنی مدتِ عمر گاہکوں کو کافی پیش کرتی رہی اور بھول کر بھی دوبارہ چیکوسلوواکیہ فون نہ کیا۔
٭٭
حواشی:
1 Calvados: بھوری رنگت کی خشک برانڈی جو سیب کے عرق سے کشید کی جاتی ہے۔
2 siren: یونانی دیومالا کی وہ مخلوق جو آدھی عورت اور آدھی پرند ہوتی ہے، سمندر کے بیچ کسی چٹان پر رہتی ہے، اور ساحرانہ موسیقی سے غفلت میں آئے مسافروں کو پھانس لیتی ہے۔
3 pate: یہ وہی شے ہے جسے پاکستان کے بہائی ریستورانوں میں خلقت ’’پے ٹِس‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
4 اصل لفظ جو انگریزی میں استعمال ہوا ہے وہ betray ہے۔ کوئی مناسب اور مترادف لفظ نہیں مل رہا، اور ’’دغا‘‘ سے بھی کام نہیں چل رہا۔ سو دونوں حاضر ہیں۔
5 port: گہرے سرخ رنگ کی ایک تیز، میٹھی شراب۔
6 A soft clear metallic tone, like a golden ring falling into a silver basin.
7 "Is one man alive when others are alive”
٭٭٭
خندہ اور فراموشی کی کتاب ۔۔۔ انگریزی سے ترجمہ: آصف فرخی
1
فروری 1948 میں کمیونسٹ رہنما کلیمنٹ گوٹ والڈ، پراگ کے باروک طرز تعمیر کے ایک محل کی بالکنی پر نمودار ہوا تاکہ ان ہزاروں لاکھوں شہریوں سے خطاب کرے جو پرانے شہر کے چوک میں بھیڑ لگائے کھڑے تھے۔ یہ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ تھا—ان تقدیر ساز لمحوں میں سے ایک جو ہزاروں برس میں ایک آدھ بار ہی آتے ہیں۔
گوٹ والڈ کے دونوں جانب اس کے رفیق تھے، اور کلیمنٹس اس کے پہلو میں کھڑا ہوا تھا۔ برفیلی ہوا چل رہی تھی۔ موسم خنک تھا اور گوٹ والڈ برہنہ سر تھا۔ مستعد کلیمنٹس نے اپنی سمور دار ٹوپی اتاری اور گوٹ والڈ کے سر پر رکھ دی۔
پارٹی کے پروپیگنڈا والے شعبے نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایک تصویر شائع کی جس میں گوٹ والڈ، سر پر سمور دار ٹوپی پہنے اور اپنے رفیقوں کو ساتھ لیے، ہجوم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس بالکنی پر کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ نے جنم لیا۔ ملک کا بچہ بچہ اس تصویر کو پوسٹروں، درسی کتابوں اور عجائب گھروں میں دیکھ چکا ہے۔
چار سال بعد کلیمنٹس پر غداری کا الزام عائد ہوا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ پروپیگنڈا کے شعبے نے فوراً اسے تاریخ سے یکسر صاف کر دیا، اور ظاہر ہے کہ ان تمام تصویروں سے بھی۔ اس کے بعد سے گوٹ والڈ بالکنی پر اکیلا کھڑا ہے۔ جہاں کبھی کلیمنٹس تھا، وہاں محل کی خالی دیوار ہے۔ کلیمنٹس کا اب کچھ باقی رہا ہے تو وہ ہے گوٹ والڈ کے سر پر اس کی ٹوپی۔
2
یہ 1971 ہے اور مریک (Mirek) کہتا ہے کہ اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے۔
اس کی یہ کوشش اس چیز کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے ہے جسے اس کے دوست بے احتیاطی کہتے ہیں : اپنے روز و شب کی تفصیل ڈائری میں لکھنا، تمام خط و کتابت محفوظ رکھنا، ان جلسوں کی گفتگو لکھ لینا جہاں حالاتِ حاضرہ پر اور اس سوال پر بحث ہوتی ہے کہ اب اس کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، وہ انھیں بتاتا ہے۔ چھپانے کی کوشش کرنا، احساسِ جرم کو جگہ دینا — یہ انجام کی ابتدا بن جاتے ہیں۔
ایک ہفتہ پہلے، ایک نئی عمارت کی چھت پر اپنے عملے کے ساتھ کام کرتے ہوئے، اس نے نیچے جھانک کر دیکھا اور اچانک اسے چکر آنے لگے۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور اس نے ایک شہتیر کی طرف ہاتھ بڑھایا جو پوری طرح جکڑا ہوا نہیں تھا؛ وہ شہتیر اُکھڑ گیا اور بعد میں اسے شہتیر کے نیچے سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔ پہلے پہل چوٹ خطرناک معلوم ہو رہی تھی لیکن بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ یہ وہی روزمرہ کا عام سا ٹوٹا ہوا بازو ہے، تو اس نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کہ اب ہفتے ڈیڑھ کی چھٹی مل جائے گی جس میں وہ چند ایسے معاملات نبٹا سکتا ہے جن کو پورا کرنے کا ارادہ وہ بہت دنوں سے کر رہا تھا۔
آخرکار وہ اپنے محتاط دوستوں کی روش پر آ ہی گیا۔ یہ سچ ہے کہ آئین نے آزادیِ تقریر دے رکھی تھی، مگر قانون کے مطابق ہر وہ عمل قابلِ سزا تھا جسے ملک دشمن قرار دیا جا سکے۔ اب بھلا یہ کون بتا سکتا ہے کہ ملک کب یہ چیخنا، شور مچانا شروع کر دے کہ فلاں فلاں لفظ میرے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان موردِ الزام ٹھہرانے والے کاغذات کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دے تو بہتر ہے۔
لیکن سب سے پہلے وہ زدینا والا مسئلہ طے کر لینا چاہتا تھا۔ اس نے زدینا کو طویل مسافت سے ٹیلیفون کرنا چاہا، مگر بات نہ ہو سکی۔ چار دن اس سے بات کرنے کی کوشش میں ضائع ہو گئے۔ کل جا کر وہ اس سے بات کرنے میں کامیاب ہوا۔ زدینا نے وعدہ کیا کہ وہ آج کی دوپہر اس کا انتظار کرے گی۔
اس کے سترہ سالہ بیٹے نے احتجاج کیا کہ بازو پر پلاسٹر چڑھائے ہوئے وہ ہرگز گاڑی نہیں چلا سکتا۔ یہ واقعی مشکل کام تھا۔ اس کا زخمی بازو، پٹی میں بندھا ہوا، اس کے سینے پر بیکار جھول رہا تھا۔ جب بھی وہ گیئر بدلتا، چند سیکنڈ کے لیے اسے اسٹیئرنگ ویل چھوڑ دینا پڑتا۔
3
پچیس سال بیت گئے جب زدینا کے ساتھ اس کا معاملہ چلا تھا، اور اب اس کی نشانی کے طور پر محض چند یادیں رہ گئی تھیں۔
ایک دفعہ وہ آئی تو رومال سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اور ناک پونچھتی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہو گیا۔ ایک دن پہلے روس کا کوئی بڑا سیاست دان مر گیا، زدینا نے اسے بتایا — کوئی زدانوف آربوزوف یا مشت زنوف۔ اگر آنسوؤں کے قطروں کی تعداد سے حساب لگایا جائے تو وہ مشت زنوف کی موت پر زیادہ دل گرفتہ ہوئی تھی اور اپنے باپ کی موت پر کم۔
کیا یہ سب کچھ واقعی ہوا تھا؟ یا مشت زنوف کے لیے زدینا کی نوحہ گری محض اس کی موجودہ نفرت کا شاخسانہ تھی؟ نہیں، یہ سب واقعی پیش آیا تھا، گو کہ یہ ظاہر ہے کہ اس لمحے کے فوری حالات جو اس واقعے کو قابلِ اعتبار اور حقیقی بنا رہے تھے، اب غائب ہو چکے تھے اور اس کی یاد غیر معقول اور مضحکہ خیز بن گئی تھی۔
اس کی ساری یادیں ایسی ہی تھیں۔ وہ دونوں ٹرام میں بیٹھ کر اس فلیٹ سے واپس آ رہے تھے جہاں پہلی بار انھوں نے مباشرت کی تھی۔ (مریک کو اس امر سے خاصی تسکین ہوئی کہ وہ ان تمام مباشرتوں کو بالکل فراموش کر چکا تھا، ان میں سے کسی ایک مباشرت کا لمحہ بھر بھی یاد نہیں کر سکتا تھا۔ ) کنارے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اور دھچکوں کے ساتھ اچھلتے ہوئے وہ بہت افسردہ، پریشان اور حیرت انگیز حد تک عمر رسیدہ نظر آ رہی تھی۔ جب مریک نے پوچھا کہ تم اتنی چپ چاپ کیوں ہو، تو اس نے جواب دیا کہ وہ اس جسمانی تعلق سے مطمئن نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ تم دانشوروں کی طرح مباشرت کرتے ہو۔
اُس زمانے کے سیاسی محاورے میں ’دانشور‘ کا لفظ گالی سے کم نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا وہ شخص جو زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور عام لوگوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس زمانے میں جن کمیونسٹوں کو ان کے ساتھی کمیونسٹوں نے تختۂ دار پر چڑھایا، وہ یہی گالی اپنے سر لے کر مرے۔ ان لوگوں کے برخلاف جن کے پاؤں مضبوطی کے ساتھ زمین پر جمے ہوئے تھے، یہ لوگ، قیاس کے مطابق، ہواؤں میں اڑتے رہے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جائز تھی کہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین آخری اور قطعی بار کھینچ لی جائے اور انھیں زمین سے چند گز اوپر لٹکنے دیا جائے۔
لیکن زدینا کا کیا مطلب تھا جب اس نے یہ الزام لگایا کہ وہ دانشوروں کی طرح مباشرت کرتا ہے؟
کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی تھی، اور جس طرح وہ کسی تجریدی یا تخئیلی رشتے کو (جیسے مشت زنوف نام کے ایک اجنبی سے اپنے تعلق کو) جذبے اور احساس کی ٹھوس جسمانی شکل (یعنی آنسوؤں ) سے ظاہر کر سکتی تھی، اسی طرح وہ سب سے زیادہ جسمانی عمل کو ایک تجریدی معنی اور اپنے عدم اطمینان کو ایک سیاسی نام دے سکتی تھی۔
4
گاڑی کے پچھلے شیشے میں جھانکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ایک اور گاڑی شروع سے اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اسے کبھی بھی اس بات پر شک نہیں تھا کہ اس کا پیچھا کیا جاتا رہا ہے، مگر اب تک انھوں نے استادانہ احتیاط کے ساتھ کام کیا تھا۔ تاہم آج ایک انقلابی تبدیلی آ گئی تھی — وہ چاہتے تھے کہ اسے ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔
پراگ سے کوئی پندرہ میل دور کھیتوں کے درمیان ایک اونچی سی باڑھ تھی، جس کے پیچھے گاڑیوں کی مرمت کی دکان تھی۔ وہاں اس کا ایک دوست ہوا کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہونے میں جو گڑبڑ کرتی ہے، اس کا پرزہ بدلوا لے۔ اس نے دکان کے دروازے پر گاڑی روک دی۔ وہاں سرخ و سفید دھاریوں والا پھاٹک تھا۔ ایک بھاری بھرکم عورت وہاں کھڑی اسے گھورتی رہی۔ اس نے گاڑی کا ہارن بجایا، لیکن اُدھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا۔
’’ابھی تک سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچے؟‘‘ عورت نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، ابھی تک نہیں‘‘ مریک نے جواب دیا۔ ’’پھاٹک کھولنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
وہ سپاٹ چہرہ لیے، چند ثانیوں تک اسے تکتی رہی، پھر جماہی لی اور پھاٹک کے قریب بنی ہوئی کوٹھری میں جا کر کرسی پر دھر کے بیٹھ گئی اور اس کی جانب پیٹھ کر لی۔
چنانچہ وہ گاڑی سے اترا، پھاٹک کے گرد چکر کاٹتا ہوا اپنے مستری دوست کی تلاش میں اندر چلا گیا۔ مستری کو ساتھ لے کر وہ باہر نکلا۔ اس نے خود پھاٹک کھولا (عورت ابھی تک کوٹھری میں بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی)، اور مریک گاڑی چلاتا ہوا اندر لے گیا۔
’’یہ انعام ملتا ہے تمھیں ٹیلی وژن پر آ کر ڈینگیں مارنے کا‘‘ مستری نے کہا۔ ’’اس ملک کا ہر احمق تمھاری شکل پہچانتا ہے۔‘‘
’’یہ عورت کون ہے؟‘‘ مریک نے پوچھا۔
اسے پتا چلا کہ جب روسی فوجوں نے چیکوسلوواکیہ پر یلغار کی، جس کے نتائج ہر مقام پر واضح تھے، تو اس عورت کی زندگی بھی بدل کر رہ گئی۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جو لوگ اس سے اونچے عہدوں پر ہیں (اور ہر شخص اس سے زیادہ اونچے عہدے پر تھا) ان کے عہدے، اختیارات، مرتبہ، ملازمت اور یہاں تک کہ دو وقت کی روٹی بھی ذرا سے الزام سے چھن جاتی ہے، تو وہ جوش میں آ گئی اور لوگوں کی مخبری کرنے لگی۔
’’تو اب تک یہ پھاٹک پر کیوں کام کر رہی ہے؟ انھوں نے اب تک اس کو ترقی بھی نہیں دی؟‘‘
مستری مسکرانے لگا۔ ’’دے بھی نہیں سکتے۔ اسے پانچ تک گنتی نہیں آتی۔ وہ یہی کر سکتے ہیں کہ اسے مخبری کا کام کرتے رہنے دیں۔ اس کا بس یہی انعام ہے۔‘‘ اس نے انجن کا ڈھکنا کھولا اور اس کے اندر جھانکنے لگا۔
مریک کو اچانک احساس ہوا کہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کوئی شخص کھڑا ہوا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک آدمی سرمئی جیکٹ، سفید قمیص اور ٹائی، اور بھوری پتلون پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کی موٹی گردن اور پھولے ہوئے چہرے کے اوپر مصنوعی طریقے سے سفید کیے ہوئے بالوں کا گچھا پڑا ہوا تھا۔ وہ وہاں کھڑا ہوا مستری کو گاڑی کے کھلے ہوئے انجن میں منھ ڈالے ہوئے دیکھتا رہا۔
ذرا دیر بعد مستری نے بھی اسے دیکھ لیا۔ ’’کسی کی تلاش میں ہو؟‘‘ اس نے سیدھے ہو کر اس آدمی سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ فربہ گردن اور گچھے دار بالوں والے آدمی نے جواب دیا۔ ’’میں کسی کی تلاش میں نہیں ہوں۔‘‘
مستری نے دوبارہ اپنا منھ انجن میں ڈال دیا اور بولا، ’’پراگ کے بیچوں بیچ وینسسلوس چوک میں ایک آدمی کھڑے کھڑے قے کر رہا تھا۔ ایک اور آدمی آیا، اس کی طرف دیکھا، سر ہلایا اور بولا: مجھے تمھارے جذبات کا پوری طرح احساس ہے۔‘‘
5
بنگلہ دیس کے خونیں واقعات نے بہت تیزی کے ساتھ چیکوسلوواکیہ پر روسی حملے کی یاد کو دبا دیا، آیندے کے قتل نے بنگلہ دیس کی سسکیوں کا گلا دبا دیا، صحرائے سینائی کی جنگ نے لوگوں کے ذہن سے آیندے کو فراموش کروا دیا، کمبوڈیا کے قتل عام نے صحرائے سینائی کو لوگوں کے ذہن سے بھلا دیا، اسی طرح اور آگے … یہاں تک کہ آخرکار ہر شخص ہر چیز کو فراموش ہو جانے دیتا ہے۔
اس زمانے میں جب تاریخ دھیرے دھیرے حرکت کرتی تھی، واقعات بھی کم تھے اور ان کی درمیانی مدت بھی زیادہ تھی اور وہ آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتے تھے۔ یہ عام طور پر تسلیم کیا ہوا ایک پس منظر تھے جس کے سامنے ذاتی زندگیوں کے دلچسپ واقعے اور کارنامے پیش آتے تھے۔ اب تاریخ سرعت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے اسے جلد ہی بھلا دیا جانا ہو، اگلی ہی صبح جدت کی شبنم سے دھلا ہوا اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس منظر کے بجائے وہ خود اب واقعہ ہے، ایسا واقعہ جو زندگی کی مسلمہ پیش پا افتادگی کے سامنے کھیلا جاتا ہے۔
چونکہ ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، معلومات عامہ کا حصہ ہو گا، لہٰذا مجھے ان واقعات کو جو چند سال پہلے پیش آئے تھے، اس طرح بیان کرنا پڑ رہا ہے جیسے وہ ہزاروں سال پرانے ہوں۔ 1939 میں جرمن فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور چیک ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ 1945 میں روسی فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور ملک کو ایک بار پھر ایک آزاد جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ لوگوں نے روس کے لیے بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، کہ اس نے ان کے ملک سے جرمنوں کو نکال باہر کیا تھا، اور چونکہ وہ چیک کمیونسٹ پارٹی کو اس کا وفادار نمائندہ سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی ہمدردیاں اس کی جانب منتقل کر دیں۔ سو یہ ہوا کہ فروری 1948 میں کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا، خون خرابے اور تشدد سے نہیں بلکہ نصف سے زیادہ آبادی کے پُر جوش نعروں کے درمیان۔ اور مہربانی فرما کر یاد رکھیے کہ یہ نصف زیادہ متحرک، زیادہ ذہین تھا، بہتر نصف تھا۔
جی ہاں، جو جی چاہے کہیے، کمیونسٹ زیادہ ذہین تھے۔ ان کے پاس پُر شکوہ منصوبہ تھا — ایک نئی دنیا کا نقشہ جس میں ہر شخص کو اس کا مقام مل جائے گا۔ کمیونسٹوں کے مخالفین کے پاس ایسا کوئی خواب نہیں تھا۔ ان کے پاس چند ایک اخلاقی اصول تھے، باسی اور بے جان، کہ جن سے موجودہ نظام کی پھٹی پرانی پتلون میں پیوند لگا سکیں۔ سو ظاہر ہے کہ شان و شکوہ کے پر جوش حامی محتاط مفاہمت پسندوں سے جیت گئے اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں جٹ گئے کہ سب لوگوں کے لیے انصاف کا خواب ناک گیت تخلیق کیا جائے۔
میں اپنی بات پھر دُہرا دوں — خواب ناک گیت، سب کے لیے۔ لوگوں نے ہمیشہ اس کی تمنا کی ہے، ایسا باغ جہاں بلبلیں گاتی رہیں، اتفاق و ہم آہنگی کا مسکن، جہاں دنیا اجنبی بن کر آدمی کو دہلاتی نہیں، نہ ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے خلاف اٹھتا ہے، جہاں ہر شخص موسیقار باخ کے عالیشان کثیر الصوت نغمے کا سُر ہے ؛ اور جو کوئی اپنا سُر اس راگ میں شامل کرنے سے انکار کرتا ہے محض ایک سیاہ دھبا ہے، بے مصرف اور معنی سے عاری، جسے آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اور کچلا جا سکتا ہے، جیسے دو انگلیوں کے درمیان کیڑا۔
ابتدا ہی سے ایسے لوگ تھے جنھیں احساس تھا کہ وہ اس خواب ناک گیت کا مزاج نہیں رکھتے، اور وہ اس ملک کو چھوڑ جانا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ خواب ناک گیت، اپنی تعریف کے مطابق، تمام لوگوں کے لیے ایک نئی دنیا ہے، لہٰذا جو لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے تھے وہ اشارتاً اس کی مکمل با ضابطگی سے منکر ہو رہے تھے۔ اس لیے پردیس جانے کے بجائے وہ قید خانوں میں چلے گئے۔ جلد ہی ان کی تعداد میں سیکڑوں، ہزاروں لوگ اور شامل ہو گئے، جن میں کچھ کمیونسٹ بھی تھے، جیسے وزیر خارجہ کلیمنٹس، جس نے گوٹ والڈ کو اپنی ٹوپی پہنائی تھی۔ شرمائے ہوئے عشاق پردۂ سیمیں پر ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے رہے، ازدواجی بے وفائی پر شہریوں کی عدالت سے سخت سزائیں سنائی جاتی رہیں، بلبلیں گیت گاتی رہیں اور کلیمنٹس کا جسم آگے پیچھے ڈولتا رہا، جیسے بنی نوع انسان کے لیے ایک نئے سویرے کی آمد کی اطلاع دینے والی گھنٹی۔
اور اچانک ان نوجوان، ذہین بنیاد پرستوں کو ایک عجیب سا احساس ہوا کہ انھوں نے دنیا میں ایک نئی چیز بھیج دی ہے، ایک عمل جس کے سرانجام دینے والے وہ ہیں اور جس نے اب اپنی ایک زندگی حاصل کر لی ہے، جو اپنے ابتدائی تصور سے تمام مشابہت گم کر چکا ہے اور اس خیال کے موعدین کو یکسر نظرانداز کر چکا ہے۔ لہٰذا ان نوجوان، ذہین بنیاد پرستوں نے اس عمل کو پکارنا شروع کیا، اسے واپس بلانے لگے، اس کو ڈانٹا، اس کا پیچھا کیا۔ اگر میں ان باصلاحیت بنیاد پرستوں کی اس نسل کے بارے میں کبھی کوئی ناول لکھوں گا تو اس کا نام رکھوں گا ’’گم شدہ عمل کے تعاقب میں‘‘۔
6
تاریخی واقعات عموماً ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں، اور وہ بھی بھونڈے پن کے ساتھ؛ مگر چیکوسلوواکیہ میں، جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، تاریخ نے ایک ایسا تجربہ کیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس عام طریقۂ کار کے برخلاف کہ لوگوں کا ایک گروہ (ایک طبقہ، ایک قوم) دوسرے گروہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تمام لوگ (ایک پوری نسل) اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کر بیٹھے۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ اس عمل کو دوبارہ پکڑ لیں اور سدھا لیں جس کی تخلیق انھوں نے کی تھی، اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ 1960 کی پوری دہائی میں ان کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1968 میں یہ تقریباً ہر چیز پر حاوی تھا۔ یہ وہ دور ہے جسے عرف عام میں ’پراگ کا موسمِ بہار‘ کہا جاتا ہے : خواب ناک گیت کی نگرانی کرنے والے لوگ ذاتی مکانوں میں چھپے ہوئے مائیکروفون ہٹانے لگے، سرحدیں کھول دی گئیں اور مختلف سُر باخ کے عالیشان کثیر الصوت نغمے کا متعین نقشہ چھوڑ کر اپنے اپنے گیت گانے لگے۔ یہ جوش و جذبہ ناقابلِ یقین تھا! میلے کا سماں تھا!
روس، جو سارے عالم کے لیے اس کثیر الصوت نغمے کا موسیقار ہے، اس خیال کو برداشت نہ کر سکا کہ سُر اپنی اپنی راگنیاں الاپنے لگیں۔ 21 اگست 1968 کو اس نے پانچ لاکھ پر مشتمل فوج بوہیمیا کے علاقے میں اتار دی۔ اس کے فوراً ہی بعد، تقریباً بارہ لاکھ لوگ اپنے ملک کو چھوڑ گئے، اور جو باقی رہ گئے ان میں سے پچاس لاکھ کو اپنی نوکریاں چھوڑ کر مشقت کرنے کے لیے جانا پڑا، دیہاتوں میں، دور دراز کارخانوں کی کنویئر بیلٹ پر، یا ٹرک کے اسٹیئرنگ ویل پر— دوسرے الفاظ میں ایسی جگہوں اور ایسی نوکریوں پر جہاں کوئی ان کی آواز نہ سن سکے۔
اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کسی تلخ یاد کا سایہ بھی اس تجدید شدہ نغمۂ خواب ناک پر نہ پڑے، ’پراگ کے موسم بہار‘ اور روسی ٹینکوں کی آمد کو مٹا دینا ضروری تھا۔ لہٰذا چیکوسلوواکیہ میں کوئی شخص بھی 21 اگست کی یاد نہیں مناتا، اور جو لوگ اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کرنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، ان کے نام قوم کی یادداشت سے اس طرح مٹا دیے گئے ہیں جیسے بچہ اسکول کے کام میں ہو جانے والی غلطی کو مٹا دیتا ہے۔
مریک ان ناموں میں سے ایک تھا جنھیں مٹا دیا گیا۔ وہ مریک جو اس وقت زدینا کے دروازے تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہا ہے، اس وقت محض ایک سفید دھبا ہے، بمشکل نظر آنے والے خلا کا ایک حصہ جو گول زینے پر چڑھتا ہوا آ رہا ہے۔
٭٭٭
مانگے کا اجالا
دوسری لڑکی ۔۔۔ سیسیلیا اونگ (ملائیشیا) / حمزہ حسن شیخ
پچاسیویں دہائی کے لگ بھگ کی بات ہے، لیونگ چن اُس وقت پانچ برس کی تھی۔ اُس کا ایک بڑا بھائی تھا جس کی عمر آٹھ برس اور بڑی بہن کی عمر چھ سال تھی۔ اسی ترتیب میں، اُس کا تیسرا نمبر تھا اور دادی کی نظر میں، وہ صرف ایک دوسری ناپسندیدہ لڑکی تھی۔
اُن دنوں، چین کی بہت سی دادیاں، پو تیوں کے بجائے پوتوں کی پیدائش کو زیادہ پسند کرتی تھیں۔ اور اس وجہ سے، لیونگ چن کو خاندان میں ایک اضافی بوجھ سمجھا جاتا کیونکہ خاندان میں پہلے ہی ایک لڑکی، اُس کی بڑی بہن کی شکل میں موجود تھی۔ اگرچہ اُس کی ماں اس سے بے حد محبت کرتی تھی لیکن اُس کی دادی کے دماغ میں اسی خیال نے جڑ پکڑ لی تھی کہ گھر میں ایک اور پوتی کا ہونا پریشانی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ اس لیے، پسندیدگی اور غیر پسندیدگی کی اس غیر منصفانہ جنگ میں، وہ تینوں بچوں میں سے سب سے برا سلوک اس کے ساتھ کرتی۔ وہ دوسرے دونوں بچوں پر مٹھائیوں، ٹافیوں اور نئے کپڑوں کی خوب برسات کرتی لیکن لیونگ چن کے مقدر میں وہی آتا جو باقی دونوں بچوں سے بچ جاتا۔ پانچ سال کی چھوٹی سی عمر میں، لیونگ چن پر رتی برابر بھی اثر نہ پڑا۔ لیکن کبھی کبھار وہ حیران ہوتی کہ دادی اُس کے باقی بہن بھائیوں کو ہمیشہ اُس سے اچھا کیوں کھانے پینے کو دیتی ہے اور پھر وہ اپنی ماں سے اس کے متعلق سوال کرتی، جب اُس کی ماں ربڑ کے درختوں کا شیرہ جمع کرنے کے بعد واپس آتی۔
اُس کی ماں کو واضح طور پر ساری صورت حال سے آگاہی تھی کہ اُس کی ساس اس چھوٹی بچی کے ساتھ واقعی بہت ہی ناروا سلوک رکھتی ہے اور اس کی معصومیت کا خوب فائدہ اُٹھاتی ہے لیکن اُس کو کبھی احساس نہ ہوا کہ لیونگ چن بہت ذہین بچی تھی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ زندگی جاری رہی۔ دادی کے غصہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے، لیونگ چن صبح سویرے ہی جاگنا پسند کرتی اور کبھی کبھار تو رات کے دو بجے بھی، تاکہ وہ ماں کے ساتھ ربڑ کے کھیتوں کی جانب جا سکے اور وہاں اپنی ماں کی خالی بالٹیاں اور ربڑ کاٹنے کے چاقو اُٹھانے میں مدد کرے۔ ماں اُس کو گرم گرم لباس پہناتی جب بھی وہ اُس کے ساتھ جاتی۔ جیسے ہی ربڑ کا شیرہ جمع کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا، لیونگ چن، شیرہ جمع کرنے والا چاقو لے کر کبھی کبھار اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتی اور اکثر اوقات، جب تک شیرہ جمع کرنے کا مرحلہ اختتام پذیر ہوتا، اُس کے سارے بال شیرے سے الجھ چکے ہوتے۔
صبح کے دس بجے، وہ ناشتا کرنے کے لیے واپس گھر آتے اور اُس کی ماں کچھ چاول اور نمکین مچھلی ناشتے کے لیے پکاتی۔ ناشتے کے بعد، اُس کی ماں بیٹھ کر اُس کے بالوں سے شیرہ صاف کر کے کنگھی کر دیتی۔ اس کے بعد، وہ واپس کھیتوں کی جانب شیرہ جمع کرنے کے لیے چلی جاتی اور پیالوں میں جمع کیا ہوا شیرہ بالٹیوں میں اُنڈیل دیتی تاکہ اُسے بعد میں، ربڑ کے گودام میں لایا جا سکے۔ جہاں پر اکٹھے کیے گئے شیرے کو تیزاب کے ساتھ ملایا جاتا اور اس کو مناسب شکل میں ڈھلنے کے لیے مختلف سانچوں میں اُنڈیلا جاتا۔ سانچوں سے مخصوص وقت کے بعد، اس دھنے ہوئے شیرے کو باہر نکالا جاتا اور اس کو مطلوبہ چوڑائی میں ڈھالنے کے لیے ایک دباؤ سے گزارا جاتا۔ اس کے بعد، ربڑ کی ان ساری تہوں کو سوکھنے کے لیے دخانیہ میں لٹکا دیا جاتا تاکہ اُن کے ڈھیر بنا کر بازار میں بھیجا جا سکے۔
ایک صبح، لیونگ چن بہت تاخیر سے جاگی۔ اُس کی ماں پہلے ہی کام پر جا چکی تھی اور آہستہ آہستہ بوندا باندی ہو رہی تھی۔ اُس نے ماں کے پیچھے جانے کے لیے سوچا لیکن اُس کی سمجھ بوجھ میں، اُس کی لیے ربڑ کے ان وسیع و عریض کھیتوں میں اپنی ماں کا راستہ تلاش کرنا آسان اور محفوظ عمل نہ تھا۔ وہ اپنا راستہ کھو بھی سکتی تھی۔ اس لیے اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر، ماں کے گھر واپس آنے کا انتظار کرے گی۔ اسی اثناء، اُس کے بہن بھائی، باورچی خانے کی بڑی کھانے کی میز پر براجمان ہو چکے تھے اور دادی اُن کے لیے گرم گرم چاول دلیہ پلیٹوں میں نکال رہی تھی۔ گرم چاولوں کی خوشبو اتنی اشتہا انگیز تھی کہ لیونگ چن کا پیٹ بھوک سے بلبلانے لگا۔ اس لیے وہ بھی، اُن سے کچھ دور لمبی میز کے آخری کونے پر جا کر بیٹھ گئی، اس اُمید کے ساتھ کہ دادی شاید اس کے لیے بھی کچھ تھوڑا سا چاول دلیہ نکال دے گی۔ تاہم یہ سب ہونے کے بجائے، بُری دادی نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار شروع کر دیا اور پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے اور وہ کھانے کی میز پر کیوں آئی ہے۔۔۔؟ لیونگ چن نے کمزور ڈری ہوئی آواز میں جواب دیا،
دل۔۔دل۔۔ میں بھی بھوکی ہوں۔۔۔مجھے بھی تھوڑا دلیہ چاہیے۔۔۔
دادی نے گھور کر اُسے دیکھا، چاولوں کا ایک پیالہ نکالا اور بھاپ اُڑاتا ہوا دلیہ پیالے میں بھرنے لگی۔ لیکن پیالہ لیونگ چن کے سامنے رکھنے کی بجائے، اُس نے گرم گرم دلیہ کا پیالہ میز پر اُس کی جانب دھکیل دیا۔ پیالہ میز پر لڑھک گیا اور سیدھا لیونگ چن پر جا گرا۔ لیونگ چن خوف اور درد کی شدت سے چلانے لگی کیونکہ پیالہ میز سے اُچھل کر سیدھا اُس کی گود میں جا کر خالی ہوا۔ اُس کے بہن بھائی، اُس کی مدد کر نے اور تسلی دینے کے دوڑے چلے آئے۔ لیکن دادی نے ایک بار پھر اُس کو بُری طرح ڈانٹ دیا کہ وہ اتنی بیوقوف ہے کہ گرم گرم دلیے سے اتنی بے پروائی برتتی ہے۔ وہ چیختی چلاتی معصوم لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گئی اور اپنے اس شیطانی عمل کی دوا دارو کے طور پر اُس کے جلدی سے اُبھرتے ہوئے چھالوں پر مرہم پٹی کرنے لگی۔ بعد میں، لیونگ چن، خاموشی سے سسکیاں لیتے ہوئے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر، ماں کا گھر جلدی واپس آنے کا انتظار کرنے لگی۔ جب اُس کے آنسو اُس کی گالوں پر پھسل رہے تھے تو وہ حیرت سے سوچ رہی تھی کہ دادی اُس سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہے۔۔۔؟ اُس نے ایسا کیا غلط کیا ہے۔۔۔؟ دادی صرف اُس کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کرتی ہے۔۔۔ جبکہ اُس کے بہن بھائیوں کے ساتھ نہیں۔۔۔؟
جونہی اُس کی ماں واپس آئی تو اُس کو ساری صورت حال کا اندازہ ہوا اور وہ اپنے غصے پہ قابو نہ پا سکی۔ اب تو ہر حد پار ہو گئی تھی۔ اس معصوم بچی نے ایسا کیا کیا تھا کہ اُس کے ساتھ اتنا ظالمانہ سلوک کیا گیا تھا۔۔۔؟ اُس کا ساس کے ساتھ خوب جھگڑا ہوا اور اُس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ یہ ظالم گھر چھوڑ دے گی اور اپنے خاوند کے پاس جائے گی جو دوسرے شہر میں اپنا کاروبار کرتا تھا۔ اُس نے اس ظالم عورت کا اپنے بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کو کافی برداشت کر لیا تھا اور خاص طور پر چھوٹی لیونگ چن کے ساتھ۔ اُسی دن شام کو، وہ اپنی اور تینوں بچوں کی ریل کی ٹکٹیں نیچے گاؤں سے لے آئی۔ اس سلسلے کو ایک ہی بار ہمیشہ کے لیے ختم ہونا تھا اور اُس کے پاس گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ کیوں نہیں رہتی تھی، اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ اُسے اس بوڑھی عورت کی تنہائی کا احساس تھا۔ اب، اُسے یہاں رُکنے کے لیے دُنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی، شاید کوئی بہت ہی خاص وجہ بھی۔۔۔
بیس سال بیت گئے۔ لیونگ چن اب پچیس برس کی ہو گئی تھی۔ اُس کے ماں باپ جوانی میں فوت ہو گئے تھے۔ اب وہ ایک کامیاب تاجر تھی جس نے معاشیات اور کاروباری امور میں اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ اُس کے بہن بھائی نے شادی کر لی تھی اور ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔ انہی دنوں، اُس کو دادی کی بیماری کی خبر موصول ہوئی۔ بوڑھی بزرگ کو دل کا عارضہ لاحق تھا اور اُس کی صحت بگڑتی جا رہی تھی۔ لیونگ چن کو گرم گرم دلیہ والا واقعہ ابھی تک نہیں بھولا تھا۔ اگرچہ اس واقعے کو بیس برس بیت چکے تھے۔ اُس کے لیے یہ واقعہ ایسے ہی تھا جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ جب کبھی بھی وہ اپنی ران پر جلنے کے بڑے بڑے بھدے نشان دیکھتی تو کبھی کبھار، وہ ابھی بھی وہی جلا دینے والا درد محسوس کرتی جب گرم گرم دلیہ اُس کی گود میں گرا تھا اگرچہ اُس نے اپنی دادی کو اُس واقعہ پر معاف کر دیا تھا۔ اُس نے ایک بار اپنی ماں سے پوچھا تھا کہ دادی اُس کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیوں کرتی تھی۔۔۔؟
ایک صبح، جب وہ کام پر جانے کے لیے تیار تھی تو لیونگ چن کو خالہ کی جانب سے ایک ٹیلی گرام موصول ہوا کہ اُس کی دادی وفات پا گئی تھی۔ اُس کے جنازے میں اُس کی شرکت لازمی تھی۔ لیونگ چن کو اُمید تھی کہ دادی کے دونوں پسندیدہ بچے، اُس کا بڑا بھائی اور بہن، جنازے کے لیے ضرور آئیں گے۔ لیکن افسوس کہ اُن کے پاس اچھا بہانہ تھا کہ وہ اس وقت بہت دور تھے اور گھر آنے کے لیے، یہ بہت ہی مختصر وقت میں تاخیر ی اطلاع تھی۔
جب وہ اُس پُرانے بے ترتیب ماں باپ کے گھر پہنچی تو دردناک یادوں کے ایک سیلاب نے اُس کو گھیر لیا۔ جیسے ہی وہ دادی کے جنازے کے ساتھ بیٹھی، اُس نے خاموشی سے بوڑھے جھریوں سے بھرے ہوئے چہرے کو دیکھا۔ اُس کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی دادی سو رہی ہے، اُس کے چہرے پر بہت ہی سُکون تھا۔ دل کی گہرائیوں میں، اُس نے دُعا کی کہ خدا اُس کی دادی کی رُوح کو بخشے، اس کے باوجود کہ اُس نے جو کچھ بھی برداشت کیا تھا۔ غم کے آنسو اُس کی گالوں پر پھسلتے چلے گئے، جب اُس نے خاموشی سے اپنی دادی کے لیے دُعا کی جس سے وہ بھرپور محبت کرتی اگر اُس کو ایسا کوئی موقعہ میسر آتا۔ اُس نے یاد کیا کہ اُس کی مرحومہ ماں نے اُس کو بتایا تھا، جب اُس نے پوچھا تھا کہ دادی اُس کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیوں کرتی ہے۔۔۔ اُس کا کیا قصور ہے۔۔۔؟
بوڑھی عورت بھی پچپن میں ایسے ہی حالات سے گزری تھی اور دادی کی محبت سے محروم رہی تھی۔۔۔صرف و صرف اس لیے کہ وہ بھی پیدا ہونے والی۔۔۔ دوسری لڑکی تھی۔
انگریزی میں عنوان: One another girl
مصنفہ: Cecilia ong
٭٭٭
وجود ڈاٹ کام
ماں کے لئے دو نظمیں ۔۔۔ عامر حمزہ
اردو روپ: اعجاز عبید
ایک الم نصیب بیٹے کی نظم
(اپنی مرحوم ماں کے نام جس کی مٹی میں شریک نہ ہو سکنے کا ملال ہمیشہ مجھے ستاتا ہے)
ایک شاعر جس نے دھرتی پر ہل نما قلم سے نظم لکھی
روشنی نما قلم سے چاند کو گٹار میں بدلا
سمندر کو شیر کی طرح کوڑے نما قلم سے آکاش کے پنجرے میں لا کھڑا کیا اور
سورج پر کبھی بھی کسی بھی وقت بھروسے نما قلم سے لکھ سکتا تھا وہ کوتا
اپنی رگوں میں قطرۂ خون کے دوڑنے تک کہتا تھا
ماں پر نہیں لکھ سکتا نظم!
مٹی سے راکھ میں تبدیل ہو کر دریا میں بہائے جا چکے
اپنے اس اجدادی شاعر سے کہنا چاہتا ہوں،
کہ گستاخی معاف ہو میری
زمین پر کوئی نظم نہیں لکھی میں نے چاند کو بھی گٹار میں نہیں بدلا
سمندر کو بھی شیر کی طرح آکاش کے پنجرے میں کبھی کھڑا نہیں کیا
اور سورج پر کبھی بھی نہیں لکھ سکتا میں نظم
باوجود اس کے رگوں میں اپنی قطرۂ خون کے دوڑنے تک میں بار بار
ماں پر لکھ سکتا ہوں، نظم!
تا زندگی غریب رہنے والی میری ماں
ایک مڈل کلاس کسان خاندان میں پیدا ہوئی اور
اپنے والد کی ضد کے باعث اپنی بڑی بہنوں کی طرح
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایک مزدور کم کبوتر باز زیادہ مرد سے بیاہ دی گئی
ماضی کی یادوں کے دریچے کی یہ گواہی ہے کہ
یہ وراثتوں کو نیست نابود کرنے کی نیو رکھے جانے کا وقت تھا
یہ فضا میں نعروں کے گونجنے کا وقت تھا
یہ نیم بھرے آنگن اور کھونٹی پر ٹنگے چھینکوں سے بچھڑنے کا وقت تھا
یہ اپنے اپنے گھروں کو نم آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے کا وقت تھا
یہ ہجرت کا زمانہ تھا
یہ ایک ملک کے ہزاروں ہزار لوگوں کے چہروں پر ڈر کو پڑھے جانے کا زمانہ تھا
یہ ایک ملک کے لاکھوں لاکھ لوگوں کے چہروں پر ہنسی کو پڑھے جانے کا زمانہ تھا
یہ آنکھیں موند کر جدیدیت سے ما بعد جدیدیت کی طرف بڑھتے چلے جانے کا زمانہ تھا
اس سب کے باوجود
گڑ مونگ پھلی دال سرکا گیہوں چاول کے ساتھ ماں جب مائکے سے اپنی سسرال آئی
تو باندھ لائی چپکے سے
اپنے پلو میں گاؤں کی بڑی بوڑھی عورتوں کے حلق سے پھوٹتا ایک وداعی گیت
جسے اپنی تنہائی میں وہ جب تب گنگناتی رہتی
گھر خالی ہو جائے گا ری لاڈو تیرے بن
تیرے بابا نے رو رو انکھیاں لال کری
ری تیری دادی کا من ہے اداس ری لاڈو تیرے بن
انگنا خالی ہو جائے گا ری لاڈو تیرے بن
تیرے باپو نے رو رو انکھیاں لال کری
ری تیرے ماں کا من ہے اداس ری لاڈو تیرے بن…۔
اور پھر ایک روز اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں
دن رات مسلسل کرۂ ارض کے اپنے محور پر مغرب سے مشرق کی سمت گھومتے رہنے کے معمول کے مطابق
مریخ پر پانی کی تلاش کے دعوے کے ساتھ ساتھ بہت سے دنیاوی سائنس دان زمین سے دور کہیں بہت دور جب ایک نئی دنیا کی تلاش میں مشغول تھے
بیٹی کی آس میں چار بیٹے پیدا کرنے والی میری ماں
اپنی عمر کے پینتالیس سال پورے کرنے کی دہلیز پر کھڑی ایک ایک سانس کے لیے جد و جہد کرتی شہر چنڈی گڑھ کے ایک اسپتال میں تین دن وینٹی لیٹر پر رہنے کے باوجود گزرے ہوئے سال کے ماہ مئی کی ایک صبح مر گئی
یہ اطلاع مجھے فون پر میرے بھائی کے آنسوؤں سے ملی
یہ زمین پر
سیلاب اشک کا جشن تھا
اجاڑ کا موت کا جشن تھا
جہاں اب انسان کو نہیں صرف جذبات کی اہمیت تھی
اپنی یادوں کی دبیز چادر پر ذرا سا زور ڈالوں تو
ایمبولینس محض پچپن ہزار!
آکسی میٹر محض تین ہزار!
آکسیجن سلینڈر محض پندرہ ہزار!
آکسیجن بیڈ محض پانچ لاکھ!
اور انسانیت! اور انسانیت!
کہتے کہتے میری زبان لڑکھڑانے لگتی ہے
موجود نہیں!
موجود نہیں!
موجود نہیں!
ماں!
اپنے جیتے جی جس نے نہ کبھی کوئی پہاڑ دیکھا
نہ کوئی ندی اور نہ ہی کوئی سمندر
جب کہ
کتنے کتنے پہاڑ
کتنی کتنی ندیاں
کتنے کتنے سمندر سے سجی دھجی ہے یہ دنیا
ماں!
جس کی زندگی کھیت سے گھر اور گھر سے کوڑی تک
ڈھوروں کے لیے صبح و شام سر پر چارہ اور گوبر ڈھونے سے شروع ہوئی
اور بیاہ کے بعد ایک مزدور کم، کبوتر باز زیادہ مرد کے ساتھ وقت کاٹتے گزری
اس کے حصے میں اس دنیا میں صرف
سر پر بوجھ اٹھانا آیا
ماتھے پر پسینہ
ہاتھ میں چمٹا آیا
آنکھوں میں دھواں اور
مقدر میں چولھا آیا
در اصل کچھ اور تھا ہی نہیں ماں کے لیے اس دنیا کے پاس
علاوہ اس کے کہ وہ جہاں پیدا ہوئی
جس مٹی میں کھیلی کودی پلی بڑھی
مر جانے کے بعد اسی مٹی میں دفنا دی گئی
اور اگ آئی ایک روز زمین سے آسمان کی اور گھاس کی شکل میں
خون سے بھری اس نفرتی بد رنگ بے ایمان جنگی دنیا کو
کچھ ہرا کرنے کا ارادہ لیے۔
٭٭
گھر میں نہیں ہے ماں کی کوئی تصویر
(جگجیت سنگھ کی غم سے تر اس آواز کے لیے جس کے سہارے قلم اور کاغذ کی مسلسل گفتگو ہوتی رہی)
چارپائی بنُتی ماں سے اپنے بچپن میں اکثر میں ایک سوال پوچھتا
ماں! مر جانے کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں لوگ؟
ماں بے دلی سے کہتی
مر جانے کے بعد چڑیاں بن جاتے ہیں لوگ
اور پھر انگلی سے اپنی
چبوترے پر کھڑے درخت شہتوت پر اچھل کود کرتی کانا باتی کرتی
کئی کئی سفید دھاری دار گردن والی چڑیوں کی اور اشارہ کرتے ہوئے
کچھ نام بدبداتی فہمیدہ انیسہ سکینہ اصغری رخسانہ وغیرہ وغیرہ
اور پھر کہتی انہیں دیکھ رہا ہے
یہ سب چڑیاں بھی تیری ماں ہیں!
جو روز صبح صبح مجھ سے ملنے آتی ہیں اور
کہتے کہتے ماں کی آنکھیں بھر آتیں
اکثر ماں یہ بھی کہتی مجھ سے
پتہ ہے تجھے اچھے لوگ دنیا سے کیوں رخصت ہو جاتے ہیں جلدی!
میں کہتا میں نہیں جانتا؟
ماں کہتی
اللہ نہیں چاہتا کہ اچھے لوگ شریک گناہ ہو بیٹھیں
اب جبکہ ماں نہیں ہے
ہے دفن دو گز زمیں کے نیچے جس پر کچھ رنگ برنگے پھول اور کچھ گھاس اگ آئی ہے
بچی ہے محض میری یادوں کے آنگن میں
مجھے یاد آتا ہے
یاد آتا ہے کہ خود کے مرنے سے چند مہینوں پہلے ہمیشہ کی طرح ایک روز ماں بازار گئی اور
وہاں سے چوڑیوں، کپڑوں، اور اپنی ضرورت کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ
خرید لائی بے جان چڑیوں کا ایک جوڑا اور
ٹانگ دیا اسے دروازے کے داہنے کونے پر
ماں کو نہ بچا پانے کی شرم سے بھرا میں ایک بدنصیب بیٹا
اب وقت تنہائی میں
جب جب ماں کے لائے بے جان چڑیوں کے اس جوڑے کو دیکھتا ہوں،
تو در اصل
ماں کو دیکھتا ہوں،
کیونکہ
میں جس مذہب میں پیدا ہوا جس گھر میں پالا بڑھا
وہاں دیواروں پر
زندہ یا مردہ انسانوں کی تصویر لگانا سخت منع ہے
میں نے پوچھی ہے اس کے پیچھے کی وجہ کئی دفعہ اپنے کبوتر باز ابو سے
کہ آخر ایسا کیوں؟
عبادت خدا کے نام پر صرف نماز جمعہ پڑھنے والے میرے کبوتر باز ابو جن کی زندگی کا ایک اہم حصہ چینی گجرا ،ہرا مکھی، دباج، کلدما ،کلسرا، چھپاوا، دیوبندی نسل کے کبوتروں کی بازی لگاتے گزرا…
اپنی لڑکھڑاتی زبان سے کہتے ہیں—
’گھر میں زندہ یا مردہ انسانوں کی تصویر لگانے سے نیکی کے فرشتے نہیں آتے‘
شاید کہتے رہے ہوں گے کچھ ایسا ہی
ابو کے ابو، اور ان کے بھی ابو، نسل در نسل ایک دوسرے سے
پوچھا ہے میں نے اپنے مذہب کے اور بھی کئی لوگوں سے کئی کئی مرتبہ
کہ آخر کیوں گھر میں زندہ یا مردہ انسانوں کی تصویر لگانا منع ہے؟
جواب میں مجھے سب فرشتوں کی ہی موافقت میں کھڑے نظر آئے
اور ماں کٹہرے میں!
ماں! جسے ہمیشہ سے تصویر کھنچوانے کا بڑا شوق تھا
سپرد خاک ہو جانے کے بعد
گھر میں اس کے حصہ گھر کی کوئی دیوار نہیں بلکہ مذہبی بیڑیاں ہی آئیں
جبکہ لگائی جا سکتی تھی کوئی ایک تصویر اس کی
گھر کی کسی ایک دیوار پر کہیں
میرے گھر کی کسی دیوار پر کہیں ماں کی کوئی تصویر نہیں ہے
میرا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔
٭٭٭
نظمیں
نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند
وِش کنیا
وِش کنیاـ بمعنی زہریلی لڑکی (وش یا ـ بِس ـ بمعنی زہر ۔۔۔کنیا بمعنی لڑکی)۔۔قدیم ہندو لوک کہانیوں اور کلاسیکی ہندو ادب میں اس روایت کا ذکر ملتا ہے کہ راجا کے حکم سے زہریلی خوراک سے پرورش کی ہوئی خوبصورت لڑکیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے یعنی حریف راجاؤں، سپہ سالاروں کو موت کی نیند سلا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کا ایک بوسہ بھی سم قاتل تھا۔
کس جٹا دھاری سادھو سے سیکھا
اور کب؟ ۔۔اب یہ بات یاد نہیں
’’ناگ ودیا‘‘ کا گیان، سانپوں کو
بس میں کرنے کا فن ۔۔ہمارا تھا
ـناگ سوامیـ تھے۔۔زہر کو تریاق
میں بدلنے کا علم رکھتے تھے
ڈر سے نیوڑھائے اپنی ناگ پھنی
سانپ ہم سے پناہ مانگتے تھے
’’ناگ ودیا‘‘ کا سارا گیان لیے
ہم کمال ہنر کے مالک تھے
لیکن اک دن عجیب بات ہوئی
ایک وِش کنیا پیار سے آ کر
یوں گلے لگ گئی کہ سارا گیان
وِش کو امرت میں، زہر کو تریاق
میں بدلنے کا علم، سب منتر
بھول بیٹھے کہ اس کے ہونٹوں کا
زہر آب ِ حیات تھا، اور ہم
لاکھ جنموں کی پیاس رکھتے تھے
٭٭٭
اندھا گونگا اور بہرا مر رہا ہوں
نطق بے آواز تھا
پگھلا ہوا سیسہ مرے کانوں کو بہرا کر چکا تھا
صرف میری کور آنکھیں ہی تھیں
جو گونگی زباں میں بولتی تھیں
جب بھی میں بے نور آنکھوں کو اٹھا کر بات کرتا
مورتی سنتی، مگر خاموش رہتی
مورتی مندر میں استھاپت نہیں تھی ۔۔۔۔
اس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑا تھا
اور پھر اِکلویّہ٭ کی مانند اپنے سامنے رکھ کر
میں اس سے بات کرتا تھا، جھگڑتا، یا کبھی روتا، کبھی ہنستا
کبھی درویش سا میں
اس کے چاروں سمت اک پاؤں گھماؤ میں پھنسا کر ناچتا تھا!
خود کُشی کی شام میں نے مورتی سے
صاف لفظوں میں کہا، ’’ معبود میرے!
میرا یہ حرکی تصوّر ہے کہ میں خود فہم بھی ہوں
اور رکھتا ہوں میں اپنی ذات کے اندر چھُپا کر
اپنی افزائش کا سامان
اپنے ہونے یا نہ ہونے کا جوازِ مستقل بھی
مرد ِ خود آگاہ ہوں
میری یہی تکمیل ہے، میں جانتا ہوں
اندھا، گونگا اور بہرا مر رہا ہوں
خود کشی سے پہلے یہ خواہش ہے میری
اب مرے اگلے جنم، جتنے بھی باقی رہ گئے ہوں
نیچ جاتی میں ہوں تو آوا گون سے چھوٹ جاؤں!
٭٭
٭پرانے وقتوں میں شودر (اچھوت) کے کان میں اگر بھولے سے بھی وید منتر کی آواز پڑ جائے تو اس کی سزا یہ تھی کہ اس کے کانوں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے اور اگر وہ وید منتر کا جاپ کرے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے۔ یہ کہانی شودر جاتی کے بھگت سمتاننؔ کی ہے جو تیسری صدی (ق۔م) میں اجّین کا باسی تھا۔ وہ جنم سے نا بینا تھا لیکن مندر کے پیچھے چھپ کر وید منتروں کا پاٹھ سنتا تھا اور دہراتا تھا۔
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ غضنفر
سنگ ساری
یہ سچ ہے ہاتھ کوئی اب نہیں اٹھتا
کوئی پتھر نہیں چلتا
مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ ہم پر سنگ ساری ہے
ہماری زیست بھاری ہے
مسلسل ضرب سے سر پھٹتا جاتا ہے
لہو کا دم رگوں میں گھٹتا جاتا ہے
رگ؍ جاں کٹتی جاتی ہے
بدن سے زندگانی چھٹتی جاتی ہے
یہ کیسی سنگ ساری ہے
کہ شکوہ بھی نہیں ممکن
کہ جس کی ضرب آنکھوں کو نہیں دکھتی
کہ جس کا زخم بھی خاموش رہتا ہے
لہو بہتا ہے لیکن جسم کے اندر ہی جم جاتا
کسی صورت کسی بھی آنکھ کے آگے نہیں آتا
عجب کاری گری سے
سنگ ساری ہم پہ ہوتی ہے
کہ پتھر جلتے رہتے ہیں
نظر آتے نہیں لیکن
ہماری زیست کا خوں ہوتا رہتا ہے
مگر دکھتا نہیں کچھ بھی
٭٭٭
چاند کے نام ایک پیغام
سنو چاند میرے زمینی!
مرا ایک پیغام بھی لے کے جاؤ
ذرا چاند ماموں سے کہنا کہ ماموں!
کبھی میں نے تجھ سے
کوئی چیز مانگی نہیں ہے
مگر آج جی چاہتا ہے
کہ کچھ تجھ سے مانگوں
کہ کل جو زمیں پر آگے صبح سورج
لیے روشنی کی نئی کچھ شعاعیں
دعا اس کے حق میں ذرا رب سے کرنا
کہ جب وہ زمیں پر شعاعیں لٹائے
تو چاروں طرف روشنی پھیل جائے
اندھیرا کسی سمت بھی رہ نہ پائے
دعا یہ بھی کرنا
کہ بادل کوئی سر پہ چھانے نہ پائے
دھواں کوئی رستے میں آنے نہ پائے
کہیں سے کوئی دھند گولا نہ آئے
مسافر کہیں کوئی ٹھوکر نہ کھائے
جو دکھتا تھا منظر کبھی اس زمیں پر
وہی منظر, خوش نما
چپے چپے میں جلوہ دکھائے
بصارت میں رنگوں کی دنیا بسائے
سماعت کو سر لہریوں سے سجائے
مرے چاند ماموں!
دعا یہ بھی کرنا
کہ رستے کا پتھر بھی ہو جائے پانی
بدل جائے پھر زندگی کی کہانی
٭٭٭
جھانپڑ ۔۔۔ نجمہ ثاقب
رات ہوئی اور نیل گگن سے
اندھیاروں کے بادل اترے
کھن سے ’چاند پلنگڑی‘ ٹوٹی
بادل کی ’جل گگری‘ پھوٹی
آنگن پار کھلے چھجوں سے
سن، سن، سن، سن پچھوا گزری
جھر جھر جھر جھر بارش برسی
زینے نے بھی ٹانگ بھگوئی
کمرے کی چھت پھوٹ کے روئی
دیواروں سے اترا گارا
آناً فاناً بھیگ چلا تھا
بستر، برساتی، گلیارا
کھاٹ کی ادوائن پہ گچھم گچھا
لیٹ کے رات بتائی
صبح سویرے صحن میں آئی
صحن میں نیم کی پرلی جانب
آم کے چنچل پیڑ کے نیچے
ریتلی مٹی اور کیچل میں
مردہ کوئل ڈھیر پڑی تھی
اور آندھی کا جھانپڑ کھا کے
ٹپکے کا اک آم گرا تھا
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ اسنیٰ بدر
نئی نظم
________
جب میں نظم لکھ رہی تھی
آواز آئی..
واشنگ پاؤڈر کتنا پڑے گا؟
نظم نے مجھے جھنجھلا کر دیکھا
میں نے دھیرے سے کہا،
ایک کپ۔
جب میں نظم لکھ رہی تھی
آواز آئی…
دس کپڑے یا بارہ؟
نظم نے مجھے غصے سے دیکھا
میں نے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگی
جلدی سے بتایا،
دس۔
جب میں نظم لکھ رہی تھی
آواز آئی…
ہائی یا میڈیم؟
نظم نے مجھے نفرت سے گھورا
میں نے اس کے پاؤں پکڑ لئے
فون پہ میسج کیا،
ہائی۔
جب میں نظم لکھ رہی تھی
آواز آئی
تم ابھی تک بیٹھی ہو؟؟
ایک بج رہا ہے
نظم نے جاتے ہوئے زور سے دروازہ بند کیا
چٹخنی سے کیل نکل کے گر گئی
میں نے کیل اٹھا کر الماری میں رکھ دی
باورچی خانے میں آ گئی
مشین چل پڑی تھی
نظم کے تھپڑ سے ابھی بھی گال سرخ ہے
٭٭٭
فاصلہ
__________
اگر میں نے مخاطب کو
جواب اس وقت بڑھ کر دے دیا ہوتا
تو یہ الجھن نہیں ہوتی
جو گھر تک ساتھ آئی ہے
مگر کیا کیجیے
سارے جواب آتے ہیں
لیکن تین گھنٹے بعد
یا پھر شام کو
یا رات ہونے تک
مخاطب کے سوالوں کے
تعاقب میں
مری رفتار مدھم ہے
بلند آواز کی زد میں
مری گفتار مدھم ہے
سخن کے ٹھیک موقع پر
مری تکرار مدھم ہے
ہمیشہ سے
یہی اک فاصلہ حائل رہا ہے
مخاطب مجھ سے آگے
کافی آگے چل رہا ہے
٭٭٭
مضامین
گیان چند جین کی مکتوب نگاری ۔۔۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ
مکتوباتی ادب غیر افسانوی ادب میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان میں فارسی کے زوال کے بعد اردو میں خطوط لکھنے کا رواج عام ہوا، اور مشاہیرِ ادب کے خطوط کے مجموعے بھی شائع ہونا شروع ہوئے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو میں مکتوباتی ادب کی تاریخ تقریباً دو سو سال پرانی ہے۔ اب تک اردو کے تمام معروف ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، عالموں اور صحافیوں کے خطوط کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن سے اردو کے مکتوباتی ادبی سرمایے میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ راقم السطور کے نام گیان چند جین (1923-2007ء) کے خطوط کی تدوین و اشاعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
گیان چند جین خطوط نویسی کے معاملے میں نہایت زود نویس واقع ہوئے تھے۔ ان کے پاس ڈاک سے کثیر تعداد میں خطوط اور رسائل آتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان خطوط کے جوابات لکھ کر جلد از جلد گلو خلاصی کر لی جائے۔ انھوں نے تا حینِ حیات اپنے دوستوں، ہم عصروں اور شناساؤں کو ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے۔ ان میں سے 63 خطوط راقم کے حصے میں آئے جو دستاویزی اہمیت کے حامل ہیں۔ آئندہ سطور میں انہی خطوط کے حوالے سے گیان چند جین کی مکتوبات نگاری سے بحث کی جائے گی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مکتوب نگاری ایک نوع کا ذاتی ذریعۂ اظہار ہے جس میں مکتوب نگار کی شخصیت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسے شخصی بیانیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مکتوب نگاری کے عمل میں مکتوب نگار کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے۔ اس کا مخاطَب مکتوب الیہ ہوتا ہے، لیکن وہ غیر فعال (Passive) ہوتا ہے۔ مکتوب نگار اپنے خطوط کے حوالے سے مکتوب الیہ کو بہت کچھ بتانا اور Communicate کرنا چاہتا ہے۔
جہاں تک کہ بہ حیثیتِ مکتوب نگار گیان چند جین کا تعلق ہے تو وہ چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا بھی ذکر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے خطوں میں سیاسی باتیں نہیں ملتیں، کیونکہ وہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ ان کا خاص علمی میدان تحقیق اور کلاسیکی اردو ادب تھا۔ ان کے خطوط بالعموم تفصیلی ہوتے ہیں جن میں تکرار بھی پائی جاتی ہے۔ وہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہی بات وہ اپنے پچھلے خط میں بھی لکھ چکے ہیں۔ وہ اگر کہیں سفر میں بھی جاتے ہیں تو روانگی کی تاریخ اور پھر وہاں سے واپس آنے کی تاریخ درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اکثر یہ بھی لکھتے ہیں وہ کس مقصد سے سفر پر نکلے تھے اور کہاں گئے تھے۔ سفر سے واپسی پر ان کے گھر میں خطوط کا ڈھیر لگ جاتا تھا اور ان کے جوابات لکھنے میں کئی دن گذر جاتے تھے۔ وہ جلسے جلوس اور نام و نمود سے دور رہتے تھے۔ اگر کوئی ان کے لیے ’ارمغان‘ نکالنا چاہتا تھا یا کسی رسالے کا مدیر ان کا ’گوشہ‘ یا خاص نمبر چھاپنا چاہتا تھا تو اسے منع کر دیتے تھے۔ وہ خاصے کفایت شعار، بلکہ بخیل واقع ہوئے تھے۔ ڈاک کا محصول اگر زیادہ لگ جاتا تھا تو ان پر گراں گذرتا تھا۔ ایک خط میں انھوں نے خود کو ’’قوم کا بنیا‘‘ تک لکھ ڈالا ہے۔ اپنے خطوں میں وہ اپنی کتابوں کی طباعت و اشاعت کا اکثر ذکر کرتے ہیں اور ناشر کی عدم توجہی اور بے التفاتی کا بھی شکوہ کرتے ہیں۔ علمی اختلافات کو وہ برا نہیں سمجھتے تھے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی ذی علم اور با اثر کیوں نہ ہو اس سے علمی معاملات میں اختلاف کرنے میں انھیں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا تھا۔ علمی اختلاف کی وجہ سے وہ ذاتی تعلقات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ ایک مخلص انسان تھے۔ ان کے خطوط میں خلوص کی آمیزش اور انکساری بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔
سطورِ زیریں میں راقم السطور کے نام گیان چند جین کے مکاتیب سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے ان کی شخصیت، مزاج، افتادِ طبع، نقطۂ نظر، طرزِ فکر اور علمی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے:
ہندی کے اسکالرز جن میں شری رام شرما پیش پیش رہے ہیں، دکنی اردو کو ’دکھنی ہندی‘ کہتے ہیں۔ اس ضمن میں گیان چند جین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’دکن کی زبان کو دکنی ہندی کہنا جائز نہیں۔ یہ دکنی اردو ہے۔‘‘ (مکتوب [آئندہ م] 2، ص 10)
گیان چند جین بنیادی طور پر ادبی محقق تھے، اور تحقیق کا فن اور کلاسیکی اردو ادب ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے، لیکن انھوں نے لسانیات کی تربیت بھی حاصل کی تھی اور لسانیات کے کئی سَمر اسکولوں میں شرکت کی تھی، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے ۶۱ء میں ساگر [یونیورسٹی] میں سَمر اسکول میں شرکت کی۔ ۶۲ء میں دھارواڑ میں Advanced course کیا، لیکن میں اپنی تحریروں میں کئی جگہ لکھ چکا ہوں کہ میرا لسانیات کا علم نہایت محدود ہے۔‘‘ (م 4، ص 14)
گیان چند جین پر اردو والوں کی جانب سے اکثر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ہندی کے معروف ادیب اور اسکالر، اور منشی پریم چند کے بیٹے امرت رائے (1921-1996ء) نے اردو کے خلاف جو کتاب A House Divided: The Origin and Development of Hindi/Hindavi (1984) کے نام سے لکھی ہے اس کا سارا مواد گیان چند جین نے انھیں فراہم کیا تھا۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح ہے، کیونکہ گیان چند جین نے راقم السطور کے نام اپنے خط مرقومہ 25 جون 1987ء میں خود ہی اس امر کا اعتراف کر لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’امرت رائے کی کتاب کی یہ کیفیت ہے کہ جب مَیں الٰہ آباد میں تھا (۷۶ء تا مارچ ۷۹ء)، وہ میرے پاس آ کر اس سلسلے کا مواد حاصل کرتے تھے۔ ایک Teacher ہونے کے ناتے سے مَیں انھیں جملہ مواد دیتا تھا۔ اپنی کتابیں اور مضامین بھی، نیز دوسروں کے بھی …انھوں نے اردو فارسی کے تعلق سے جو کچھ مواد حاصل کیا ہے شاید اس کا ایک تہائی میرا دیا ہوا ہے۔‘‘ (م 12، ص 25)
گیان چند جین اپنے اِسی خط میں امرت رائے کا پوری طرح دفاع کرتے ہوئے مجھے یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
’’آپ ان کی کتاب کو اردو دشمن کہتے ہیں، ضرور ہو گی۔ وہ آپ کی اور ابو محمد کی تحریروں کو ہندی دشمن کہتے ہوں گے۔ میری رائے میں ہر شخص کو اپنے دِلی عقیدے کے اظہار کا حق ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ چند برسوں سے اردو والوں میں Intolerance بہت بڑھ رہی ہے۔‘‘ (م 12، ص 26)
ایک اور خط میں وہ امرت رائے کی متذکرہ کتاب کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں جو Erodite scholarship ہے وہ اہلِ اردو کے یہاں کم ملتی ہے۔ ایک ہندی والے کے نقطۂ نظر سے اس میں کافی وسیع النظری بھی ہے۔‘‘ (م 13، ص 29)
گیان چند جین کا 25 جون 1987ء کا خط کافی طویل ہے جس میں انھوں نے اردو کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبد الحق (1870-1961ء) کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ عجیب بات ہے کہ مولوی عبدالحق ۴۷ء سے پہلے ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ اردو، ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔ پاکستان جا کر وہ اور ان کے حوارین کہتے ہیں کہ اردو محض مسلمانوں کی زبان ہے۔ اِس میں ہندوؤں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ وہ اصرار کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو تحریک کا مقصد پاکستان کا قیام تھا۔‘‘ (م 12، ص 27)
گیان چند جین شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری اور شعری مجموعے کا ذکر اپنے خطوں میں اکثر کیا ہے۔ ایک خط مرقومہ 7 فروری 1992ء میں انھوں نے راقم السطور کو یہ اطلاع دی:
’’میرا مجموعۂ کلام سراپا خام ’کچے بول‘ کے نام سے شائع ہو گیا۔‘‘ (م 37، ص 66)
گیان چند جین کو پاکستان دیکھنے کی بہت خواہش تھی، چنانچہ اس کا انتظام بھی ہو گیا تھا۔ انجمن ترقیِ اردو (پاکستان) نے انھیں بابائے اردو لکچر دینے کے لیے کراچی مدعو کیا تھا، لیکن ویزا کی دشواری کی وجہ سے معاملہ ٹلتا رہا تھا۔ وہ اپنے خط مرقومہ 17 نومبر 1992ء میں لکھتے ہیں:
’’اب میں جلسے جلوس کی گوں کا نہیں رہا۔ ہاں، ایک بار پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔ انجمن ترقیِ اردو (پاکستان) نے بابائے اردو لکچر کے لیے مدعو کیا ہے۔ مَیں نے اپنا ضخیم لکچر انھیں بھیج دیا ہے۔ تاریخ ۲۲؍ نومبر ۹۲ء تھی، لیکن وہ ملتوی کرنی ہو گی۔ ویزا ملنے میں دِقت اور دیری ہو رہی ہے۔‘‘ (م 41، ص 71)
گیان چند جین ایک ایسے عالم تھے جو ہمہ وقت اپنے علمی و تحقیقی کاموں میں منہمک رہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں دوسری سرگرمیوں سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اربابِ حل و عقد نے جب انھیں ملک کی اردو یونیورسٹی کی کمیٹی کا ایک رکن بنانا چاہا تو انھوں نے اپنی رکنیت کی رضا مندی نہیں دی، لیکن اس خواہش کا اظہار ضرور کیا کہ ’’اردو یونیورسٹی بنائی جائے تو اس کے لیے محض حیدرآباد موزوں مقام ہے اور کوئی نہیں۔‘‘ (م 41، ص 71)
گیان چند جین غیر مسلم ہونے کے باوجود مردم شماری میں اپنی مادری زبان ہمیشہ ’اردو‘ لکھواتے تھے۔ وہ اپنے خط مرقومہ 20 دسمبر 1992ء میں اس سے متعلق ایک واقعے کا یوں ذکر کرتے ہیں:
’’۱۹۹۱ء میں لکھنؤ میں مردم شماری کرنے کے لیے ایک لڑکا میرے گھر آیا۔ انٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا اور جز وقتی عارضی طور پر مردم شماری کا کارکن تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھ کر میرے کوائف بھر لیے، لیکن زبان کے بارے میں نہ پوچھا۔ میں نے کہا کہ فارم میں زبان کا کالم بھی ہوتا تھا، کیا اب کی بار نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ’’ہے، مَیں نے آپ کی زبان ہندی لکھ لی ہے۔‘‘ مَیں نے کہا: ’’ایسا کیوں، اسے کاٹ کر اردو لکھو۔‘‘ اور میں نے بچشمِ خود اسے کٹوا کر اردو لکھایا۔‘‘(م 42، ص 72)
گیان چند جین اپنے سفر کے احوال اور جانے آنے کی تاریخوں سے بھی راقم السطور کو مطلع کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے امریکہ کے کئی اسفار کیے۔ وہاں کے احوال خود انہی کی زبانی سنیے:
’’میں ابھی تک چار مرتبہ [امریکہ] گیا ہوں اور تقریباً دو دو مہینے ٹھہرا ہوں۔ ۸۳ء میں پہلی بار گیا، امریکہ بہت اچھا لگا۔ کیلی فورنیا کے علاوہ نیویارک، شکاگو وغیرہ اور کناڈا میں ٹورنٹو گیا۔ دوسری بار امریکہ کی دلکشی میں قدرے کمی محسوس ہوئی۔ تیسری بار اور کم دلکش لگا اور چوتھی بار ۹۳ء میں جی چاہا کہ یہاں سے جلد بھاگو، وطن چلو۔ حالانکہ میری ایک لڑکی اور لڑکا لاس اینجلز اور اس کے قرب کے ایک شہر میں ہیں۔‘‘ (م 48، ص 81)
گیان چند جین ہر چند کہ ایک محقق تھے، لیکن بعض دوسرے محققوں کی طرح وہ خشک مزاج نہ تھے اور نہ ہی ان کے چہرے پر روکھا پن تھا۔ ان کی حسِ مزاح بہت تیز تھی۔ وہ اپنے خطوں میں اکثر شگفتگی اور خوش کلامی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میری آنکھیں دُکھنے آ گئی تھیں۔ یہ بات میں نے جین صاحب کو اپنے ایک خط میں لکھ دی۔ انھوں نے فوراً جواب میں لکھا:
’’اگر آنکھ اب بھی دکھتی ہو تو اچھی صورتوں کو دیکھا کیجیے، فرحت ملے گی۔‘‘ (م 53، ص 90)
گیان چند جین کا یہ جملہ پڑھ کر مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آ گیا:
چشم را بینائی افزاید سہ چیز
سبزہ و آبِ روان و روئے خوش
گیان چند جین اپنے خطوں میں اکثر اپنی بیماری کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اپنے خط مرقومہ 7 فروری 1988ء میں وہ لکھتے ہیں:
’’اِدھر ۲۳ جنوری سے مَیں گاہ گاہ بخار میں مبتلا رہا۔ دو دن سے بخار صاف ہے، لیکن کھانسی کو کوئی افاقہ نہیں ہو رہا …وزن کم ہوتا جا رہا ہے۔ بدن کاہیدہ ہو رہا ہے۔ بھوک پہلے سے کم ہے۔ ہو سکتا ہے کہیں اندر کینسر چھپا بیٹھا ہو۔‘‘ (م 15، ص 33)
وہ اپنی بیماری کا حال قدرے تفصیل سے اپنے خط مرقومہ 27 ستمبر 2004ء میں یوں بیان کرتے ہیں:
’’کتنا جی چاہتا ہے آپ کی مزید صحبت کو، لیکن وہ میرا مقسوم نہیں۔ میں اس بیماری کا مریض ہوں جس کا نام ہے Multiple System Atrophy اس بیماری کے بارے میں سائنس کچھ نہیں جانتی۔ اس کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں۔ … میں جسم کا توازن کھو چکا ہوں۔ گھر میں واکر سے چلتا ہوں، باہر Wheel Chair سے جسے کوئی اور دھکیلتا ہے۔ اس کے باوجود بار بار گرتا ہوں۔ دماغ پر اندرونی چوٹیں لگتی رہتی ہیں۔ 50% مفلوج ہوں۔ سفر نہیں کر سکتا۔‘‘ (م 62، ص 100-101)
گیان چند جین اپنی علمی سرگرمیوں کے بارے میں مجھے برابر مطلع کرتے رہتے تھے، چنانچہ اپنے خط مرقومہ 27 ستمبر 2004ء میں انھوں نے اپنی متنازع فیہ کتاب ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کی اشاعت کے بارے میں یہ اطلاع بہم پہنچائی:
’’میری ایک لسانی کتاب ’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ ساہتیہ اکادمی شائع کر رہی ہے۔ امید ہے اکتوبر میں آ جائے۔ ڈاکٹر نارنگ سے پوچھیے۔‘‘ (م 62، ص 101)
اسی خط میں انھوں نے مجھے ایک اور اطلاع بھی دی، وہ یہ کہ انھوں نے اپنے لسانی مضامین کے مجموعے ’لسانی رشتے‘ کا انتساب مجھ ناچیز کے نام کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کئی سال پہلے میں نے طے کیا کہ اگر ممکن ہو تو میں اپنے متفرق مضامین کی موضوعی ترتیب دوں اور انھیں کئی جلدوں میں پاکستان میں چھپوا دوں۔ مشفق خواجہ نے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ اب تک اس سلسلے کی محض چند ہی کتابیں چھپ سکی ہیں۔ لسانیاتی مضامین کو دو جلدیں دی گئیں۔ ایک جلد کا نام ’لسانی رشتے‘ رکھا ہے …اس کا انتساب یوں ہے:
’’ماہرِ علم زبان، شیریں کلام، کرم فرما
ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ کے نام‘‘
گیان چند جین نے اپنے خط مرقومہ 27 ستمبر 2004ء میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ان کی کتاب ’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ ساہتیہ اکادمی شائع کر رہی ہے، لیکن یہ کتاب بوجوہ ساہتیہ اکادمی کے بجائے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے 2005ء میں شائع ہوئی۔ یہ اردو زبان و ادب اور اردو بولنے والوں کے حوالے سے ایک نہایت متنازع فیہ کتاب تھی جس سے جین صاحب کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی طرزِ فکر کا پتا چلتا تھا۔ اردو والوں میں اس کا شدید ردِ عمل ہوا اور اس کتاب پر ایک لا متناہی بحث چھڑ گئی۔ میں نے متوازن لہجے اور غیر جذباتی اسلوب میں ایک مدلل و مفصل مضمون لکھ کر متذکرہ کتاب کا رَد پیش کیا۔ یہ مضمون روزنامہ ’قومی آواز‘ (نئی دہلی) میں ’’اردو زبان فرقہ پرستی کے تناظر میں‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار آٹھ قسطوں میں (26 ستمبر تا 5 اکتوبر 2006ء) میں شائع ہوا۔ یہی مضمون میں نے برائے ملاحظہ گیان چند جین کو امریکہ بھیجا جس کے جواب میں انھوں نے 31 جنوری 2007ء کو مجھے خط لکھا جو میرے نام ان کا آخری خط تھا۔ اس کی عبارت یہ تھی:
’’آپ کا مضمون مجھے مل گیا ہے، لیکن اس پر کچھ نہیں لکھ سکتا…اردو ہندی وغیرہ سب کو بھول گیا ہوں۔‘‘ (م 63، ص 102)
اِسی مضمون کو بنیاد بنا کر مَیں نے ایک مختصر کتاب ’ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی‘ تصنیف کی جو ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے 2007ء میں شائع ہوئی۔
’ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی‘ کی تقریبِ رونمائی 22 جولائی 2007ء کو ابنِ سینا اکیڈمی، علی گڑھ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی جس کے آخر میں مَیں نے اپنے خطاب میں کہا کہ گیان چند جین نے یہ کتاب یک طرفہ اور یک رخے انداز سے لکھی ہے اور اس میں حد درجہ جانب داری سے کام لیا گیا ہے، نیز فرقہ وارانہ خیالات اور منفی طرزِ فکر کو بھی اس میں جگہ دی گئی ہے، مزید یہ کہ یہ کتاب صریحاً اردو زبان اور مسلمانوں (بالخصوص اردو گو مسلمانوں) کے خلاف لکھی گئی ہے۔ میں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ تحقیقی نقطۂ نظر سے بھی یہ ایک کمزور کتاب ہے، اور تضادات سے بھی پُر ہے۔ اگر میں یہ کتاب نہ لکھتا تو اپنے فرض سے کوتاہی کرتا۔
٭٭٭
غلام محمد قاصر اور ظفر اقبال کا متوازی مطالعہ ۔۔۔ فرحت عباس شاہ
اردو زبان میں جتنا اعلیٰ و ارفع ادب گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں میں تخلیق کیا گیا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے شاید ہی کسی عہد میں کیا گیا ہو لیکن المیہ یہ ہے کہ اچھے ادب کو بے توقیر کر کے رکھنے والے لوگ اور فورسز بھی پہلے سے کہیں زیادہ سفاکی پر تُل چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے یا اس کے تدارک کے لیے کیا کیا جائے۔ مجھے اب تو جو بنیادی بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ عہد حاضر میں اہم ترین کام حقیقی اور مصنوعی ادب میں فرق واضح کرنا ہے اور حقیقی اور مصنوعی ادیب اور شاعر کی نشاندہی کرنا ہے۔ میں نے ظفر اقبال اور غلام محمد قاصر کے متوازی مطالعے کی ضرورت کو اسی مقصد کے تحت محسوس کیا ہے۔ مزید برآں ادراکی تنقیدی دبستان کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی شامل ہے کہ تنقید کو بے مصرف نصابیت یا محض کتابی نوعیت کے مباحث سے نکال کے معاشرے میں سانس لینے والے حقیقی مکالمے کا حصہ بنایا جائے تاکہ تنقید کا دھڑکتے ہوئے ادب کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو نہ کہ بے جان اور لاتعلق کتابی آئیں بائیں شائیں سے بات شروع ہو کر کائیں کائیں پر ختم ہو جائے۔ اس متوازی مطالعے سے ایک اہم ادبی فریب کاری کو بے نقاب کرنا بھی مقصود ہے جس سے ہماری تین نسلوں کو گمراہ کیا گیا اور وہ ہے نئی شاعری، جدید شاعری یا منفرد شاعری کے نام پر غیر شعری بازیگری یا کرتب بازی جس کا ڈھول بجا بجا کے لوگوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اسے شاعری بلکہ نئی اور منفرد شاعری سمجھیں۔ نئی شاعری کی تحریک نے ستر اور اسی کی دہائی میں بہت زور پکڑا۔ اس تحریک کے پر جوش نمائندوں میں افتخار جالب اور ڈاکٹر انیس ناگی ہراول دستے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کا بنیادی موقف یہ تھا کہ غزل میں کہنے کو نیا کچھ نہیں رہ گیا۔ ہر طرف سے ایک جیسی آوازیں آ رہی ہیں اور ہماری شاعری خصوصاً غزل کا حال ٹھہرے ہوئے پانی جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک جیسے خیالات، قافیہ ردیف کے امکانات کے مارے ہوئے تلازمے اور موضوعات کی تنگی نے غزل کو مفلوج صنف بنا کے رکھ دیا ہے لہٰذا کچھ نیا ہونا چاہئیے جو مختلف بھی ہو اور تازہ بھی ہو تاکہ ہمارا شعری ادب جمود سے باہر نکلے۔ اب اس بات کی وضاحت تو ظفر اقبال صاحب ہی کر سکتے ہیں کہ ان کی ملاقات افتخار جالب، ڈاکٹر انیس ناگی یا ان کی تحریک کے باقی دوستوں سے کب اور کیسے ہوئی۔ وہ نئی شاعری اور لسانی تشکیلات کے نام پر راستے سے کیسے بھٹکے اور اس نام نہاد غیر تخلیقی تجربے کا شکار کیونکر ہوئے۔ کیونکہ تجربے کے نام پر اور کچھ نیا کر دکھانے کے جوش میں اتنا ہوش کھو بیٹھنا کہ شاعری کا بنیادی عنصر اور بنیادی روح کو ہی نظر انداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ امرود، کچھے، بریزئیر، بنیانیں، پستان، زیر ناف بالوں کے گچھے، سڑے ہوے آلو اور کتے کے پیشاب کو نئی جدید شاعری، لسانی تشکیلات اور غزل میں تجربہ بنا کر پیش کر دیا جائے ادب کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے اور پھر شاعری جیسے نفیس ترین آرٹ کی تذلیل اور تضحیک کو اعلیٰ شاعری بھی قرار دے دیا جائے ستم بالائے ستم نہیں تو کیا ہے۔ آج کے اس مطالعے میں اس ظلم اور فریب کا تجزیہ کرنا اور اس کے مقابلے میں ایک خالص اور حقیقی شاعر کو تقابل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہے تاکہ سالہا سال سے جاری اس ادبی بے حرمتی کو ان لوگوں کے منہ پر دے مارا جائے جو اسے بڑی شاعری تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ ظفر اقبال کے یہ اشعار دیکھئیے جنہیں وہ اردو غزل میں نئی تشکیلات کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔۔ ۔۔
شعر ہے وہ سڑا ہوا آلو
جس پہ کتے پشاب کرتے ہیں
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ابھی سو کوس پڑا ہے ملتان
ملتان سے آگے ہے تلمبہ
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
آنی مانی کرے گا
اور من مانی کرے گا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
گوگو گاگے گا
اتنا بھاگے گا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
چمک چمکارنے شب شیرنے کے
مزے محکم، الف انجیرنے کے
لہو لہلوٹ سیاہی پھیلویں پھب
کُڈھب کاغذ طلب تحریرنے کے
۔۔ ۔۔ ۔۔
اس مکاں کو اُس مکیں سے ہے شرف
یعنی اک افواہ سی ہے ہر طرف
معترض کے منہ پہ ہے کتا بندھا
اس لیے سننا پڑے گی عف عف
نظر ثانی بھی کریں گے غزل پر
اے ظفر فی الحال تو لکھی ہے، رف
۔۔ ۔۔ ۔۔
افتخار جالب اور ڈاکٹر انیس ناگی کے علاوہ بھی مزید کئی اطراف سے ظفر اقبال کے شاعری کو بے تکریم کرنے والے اس معرکے کے حوالے سے اتنی زیادہ بانسری بجائی گئی کہ ارد گرد بندر ہی بندر اکٹھے ہونے لگ گئے مزید رہی سہی کسر ظفر اقبال نے اپنے اخباری کالم کے ذریعے بڑی مشاقی اور مہارت سے پوری کر لی۔ ایک نفسیاتی مسئلہ جو ہمارے ادیبوں میں بہت دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں بی، سی کیٹیگری کے کمزور شاعر ادیب اپنے فطری خوف کی وجہ سے جینوئن اور قد آور تخلیق کار کو نظر انداز کر کے اپنے جیسے کسی مصنوعی شاعر کو بڑا شاعر بناتے ہیں اور اس کا اتنا زیادہ راگ الاپتے ہیں کہ وہ کئی دوسرے کچے ذہنوں کو واقعی حقیقی بڑا شاعر لگنے لگتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پچھلے پچاس سالوں سے ظفر اقبال کی جدید شاعری، غزل میں تجربہ اور لسانی تشکیلات کا شور ہے لیکن حوالے کے طور پر جو شعر کوٹ کیے جاتے ہیں وہ در حقیقت شکیب جلالی کی جدید غزل کی دین ہیں۔ یعنی جس شاعر کا کوئی شعر اس کے موقف کا حوالہ ہی نہ بن سکے اس کی ناکامی پر تو سوائے ماتم کے کچھ بنتا ہی نہیں چہ جائیکہ اسے اہم شاعر قرار دے دیا جائے۔ ظفر اقبال اپنی شاعری کو با رہا لوہارا ترکھانا اور منجی پیڑھی ٹھوکنا قرار دے چکے ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ناقدین ادب بھی ہوش کے ناخن لیں اور خوب ٹھوکی گئی اس منجی پیڑھی کو منجی پیڑھی ہی رہنے دیں اور نئی نسل کو دھوکہ نہ دیں۔ مصنوعی شاعری کو شاعری قرار دینا ہی جرم ہے چہ جائیکہ اسے اہم قرار دیا جائے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں۔
ڈاکٹر انیس ناگی صاحب میرے قابل احترام اساتذہ میں سے ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ میری نظموں کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ انہیں بہت اعلیٰ بھی قرار دیتے تھے۔ تنقید کی طرف بھی میری حوصلہ افزائی انہوں نے فرمائی۔ غزل پر میری ان سے بحث ہمیشہ رہتی تھی اور نظم میں بھی میرا موقف ہمیشہ رہا کہ ضروری نہیں شاعری کی روح کو داغدار کر کے ہی اسے نیا کیا جا سکتا ہے۔ نئی حسیات اور محسوسات کی نئی فضا کا حامل شاعر جب نئے لہجے کے ساتھ شاعری کرے گا تو وہ خود بخود نئی ہوتی جائے گی۔
ایک دفعہ ناگی صاحب نے مجھے اپنے گنگا رام مینشن والے آفس میں بلا بھیجا کہ افتخار جالب آیا ہوا ہے اور ہم سب بشمول ڈاکٹر انور سجاد، عبد الرشید اور سمیع اہوجا سب دوست اکٹھے ہیں اور تم سے نئی نسل کے نمائندہ شاعر کے طور پر مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں اور شفیق احمد خان جا پہنچے۔ سلام دعا کے بعد جالب صاحب بولے کہ ناگی تمہاری بہت تعریف کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اردو کو نظم کا ایک اچھا شاعر مل گیا ہے۔ اب اردو نظم کا مستقبل محفوظ ہے لیکن غزل ابھی بھی فضا کو بوجھل کیے ہوئے ہے۔ وہ تھوڑی دیر رکنے کے بعد پھر بولے۔
جیسا کہ تمہیں معلوم ہے ہم نئی شاعری کی تحریک والے کوشش کر رہے ہیں کہ اب تک بہت اچھی، بہت بُری، درمیانی مگر ایک جیسی شاعری اتنی ہو چکی ہے کہ اب اردو ادب کو شعر کی نہیں لا شعر کی ضرورت ہے۔ اب ایسی شاعری ہونی چاہئیے جو شاعری نہ ہو۔ کوئی بہت مختلف شئے سامنے آنی چاہئیے۔ تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟
میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر بولا کہ سر ناگی صاحب نے آپ کو بتایا ہو گا کہ میں اور میرے دوست شفیق احمد خان اور اعجاز رضوی ہم لوگ پہلے سے موجود شاعری سے مختلف شاعری کر رہے ہیں اور یہ فطری ہونے کے باوجود نئی بھی ہے۔ ہم نے اپنے سے پہلے ہونے والی شاعری کے اثرات بہت کم قبول کیے ہیں۔ لیکن یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ لا شعر بنایا جائے تو یہ سوائے بگاڑ پیدا کرنے اور پہلے سے موجود بد صورتی میں اضافہ کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہمارے ارد گرد ظلم، نا انصافی، گالی گلوچ، جبر، جھوٹ اور منافقت کے لا شعر سے پوری دنیا بھری پڑی ہے۔ ہم اس بدبو دار لا شعر کی بھرمار میں سے پہلے ہی اتنی مشکل سے شعر کشید کر کے لا رہے ہیں اور آپ ہمیں پھر اسی گند کی طرف واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ باقی رہی جدید شاعری کی تو اگر ہم جدید عہد کے جدید لوگ ہیں تو ہمارے باطن سے نکلنے والی شاعری بھی جدید ہو گی اور اگر پچھلے کسی عہد میں رہ رہے ہیں تو پچھلے شاعروں کے ملبے تلے آ کے کچلے جائیں گے۔
میرے استدلال پر تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر افتخار جالب بولے۔۔ ناگی نئی شاعری کی تحریک آج سے بند، فائیل پہ سرخ فیتا لگا کے اسے کلوز کر دے۔ نوجوان ٹھیک کہتا ہے ہم سب لا شعر میں ہی سانس لے رہے ہیں ہمیں یہیں سے خود تازہ ہوا پیدا بھی کرنی ہے اور بانٹنی بھی ہے۔ فرحت مجھے خوشی ہوئی تم سے مل کے۔ بریوو۔۔۔ اتنے میں چائے آ گئی اور موضوع بدل گیا۔
یہ واقعہ سنانا اس لیے ضروری تھا کہ ظفر اقبال کی تمام نہیں تو بیشتر شاعری یا تو وہ گند ہے جسے افتخار جالب لا شعر کہتے تھے یا پھر قافیہ ردیف کی پِٹی ہوئی وہ مصنوعی شاعری ہے جو احساسات، جذبات اور نظرئیے سے عاری ہے۔ مجھے کبھی کبھی بہت حیرت ہوتی ہے جب میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے اردو ادب میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ہوتی ہے۔ یہ مدرس ٹائپ کے لوگ بظاہر شاعر اور محقق بھی ہوتے ہیں لیکن ان کو یہ تک شعور نہیں ہوتا کہ شعر انسان کے باطن سے پھوٹنے والی کرن کی طرح ہوتا ہے۔ جب تک دل کا حال بیان کرتا ہوا نہ ہو اس میں تاثیر ہی نہیں ہوتی جبکہ عروضی مشق اور پریکٹس سے کی گئی شاعری بے برکت اور بے تاثیر ہوتی ہے۔ یعنی اگر شاعری کا بھی تعلق دل سے یا جذبات سے نہ ہو تو ویلڈنگ اور شاعری میں کیا فرق رہ جائے گا۔ در اصل ایسے لوگ زیادہ تر روز گار کی خاطر غلطی سے ادب کے شعبے میں آن پڑے ہیں ورنہ ان کو میلان طبع کی بنیاد پر سیاست، پولیس یا کسی کاروبار میں ہونا چاہئیے۔ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال سے ظفر اقبال نامی ایک شاعر ادبی منظر پر پورے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ رسائل، اخبارات، مشاعرے ٹی وی پروگرامز ہر جگہ پر اس کی شاعری سنی پڑھی جاتی ہے لیکن سوائے ایک اوسط درجے کے شعر کے اس کے کسی دوسرے شعر نے سفر نہیں کیا۔ شاعروں اور ادبی حلقوں میں سنے سنائے جانے والے اشعار پروموشنل ہوتے ہیں اصل شعر وہی ہوتا ہے جو خوشبو کی طرح شعر شناس اور با ذوق عوام الناس میں پھیلتا چلا جائے۔ جیسا کہ یہ شعر۔۔ ۔۔
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
اور میں یہاں یہ بھی یاد دلاتا جاؤں یہ شعر ظفر اقبال کی فخریہ پیشکش المعروف لسانی تشکیلات کا شعر نہیں یہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ میں احمد فراز کے اسلوب کا شعر ہوں۔
بس اس کے علاوہ ظفر اقبال کے پاس جو ہے اس کا تعلق آمد سے نہیں بلکہ شعر گھڑنے کے تکنیکی عمل سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظفر اقبال اور غلام محمد قاصر کے درمیان پہلا فرق وہی ہے جو مستری اور شاعر میں ہوتا ہے۔
میں جیسے جیسے غلام محمد قاصر کو پڑھتا جاتا ہوں بار بار آنکھیں بھیگتی جاتی ہیں اور دل تڑپ اُٹھتا ہے کہ ایسے تخلیقی معصومیت سے بھرے ہوئے شاعروں کے سامنے کیسے کیسے لکڑی کے شاعر کھڑے کیے گئے۔ دل و دماغ میں مصرعہ ساز شاعروں اور فن شعر سازی کی حمایت کرنے والے مدرسین، ناقدین اور محققین کی علمی و ادبی بلکہ ذہنی صحت کے بارے شکوک و شبہات سر اُٹھانے لگتے ہیں۔
از راہ کرم مجھے یہ شکوہ بار بار کرنے دیجئیے کہ کمزور، ناقدین و محققین نے یا تو بڑوں کے کہنے میں آ کے، کسی شعبۂ اردو کے لوکل فیشن کی وجہ سے یا خود اپنی کسی خاص کمزوری کے باعث ظفر اقبال، احمد مشتاق، خورشید رضوی جیسے قابل احترام بزرگوں کو قابل ذکر و لائق تحسین شاعر سمجھا بھی اور اس کا دب کے پراپیگنڈا بھی کیا جبکہ غلام محمد قاصر جیسے شاعری سے لبالب بھرے ہوئے عظیم شاعروں کو نظر انداز کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے منظم کوششیں کی گئیں اور کی جا رہی ہیں۔ میں نے ایک بات اور بھی خاص طور پر نوٹ کی ہے کہ پہلے پہلے سینئر شعراء نے ظفر اقبال کو مختلف لہجے کا شاعر کہا شاید وہ اس ترغیب سے ظفر اقبال کے اندر مختلف شعر کہنے کے سپنے کو تعبیر میں بدلنا چاہتے تھے کہ یہ شخص کوئی تر و تازہ لب و لہجہ اختیار کر لے گا لیکن فوراً بعد ہی وہ خاموش ہو گئے حتیٰ کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی وفات سے پہلے ان کے بارے پھیلائے گئے جھوٹ کی تردید کر دی ( کہ ظفر اقبال غالب سے بڑے شاعر ہیں)۔ خاص بات یہ ہے کہ ظفر اقبال کے قصیدے گانے والوں میں اکثریت ایسے شعراء کی ہے جو غیر تخلیقی، شعریت سے محروم اور بناوٹی شاعر اور نقاد ہیں جبکہ شاعری کا حقیقی قاری شاعری کو پہلے دل سے محسوس کرتا ہے اور بعد میں دماغ سے اس پر سوچ بچار کرنے والا ہوتا ہے۔ اور یہی قاری شاعری کے حسن اور اس کی سماجی، نفسیاتی اور انسانی حیثیت کا قدر دان بھی ہوتا ہے۔ ورنہ آج کل ادب کے بیشتر اساتذہ اور شاگردوں سمیت زیادہ تر ناقدین و محققین جعلی قسم کے زعم کے ساتھ رٹی رٹائی باتوں کے علاوہ اگر کچھ کر رہے ہیں تو ایک طرف اس حقیقی قاری کو ادب سے نکالنے کے در پئے ہیں اور دوسری طرف ہر اس شاعر اور تخلیق کار کو بھی مارنے پر تُلے ہوئے ہیں جسے قاری دل و جان سے پسند کرتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ کالجوں یونیورسٹیوں میں صرف چند حقیقی، عالم، شریف النفس اور مظلوم اساتذہ ہوتے ہیں ورنہ زیادہ تر نالائق، چوکس، اوور ایکٹو، چرب زبان، جھوٹے اور احساس کمتری کے مارے ہوئے ہوتے جن کے پیش نظر سوائے ذاتی مفاد کے کچھ نہیں ہوتا کسی علمی، ادبی، سماجی سچائی یا ذمے داری کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ان کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ خاص طور پر مقبول شعراء سے خائف، متنفر، حسد میں مبتلاء اور ان کے دشمن ہوتے ہیں اور ان کے سامنے کمتر درجے کے اور مصنوعی تخلیق کاروں کے بڑے بڑے بت بنا کر شاگردوں کے ذہنوں میں زہر ڈالتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ادب میں تطہیر کے عمل کی اشد ضرورت ہے۔ ادب ہو یا معاشرہ جب تک فاسد مادوں کو نکال باہر نہ کیا جائے خون پرا گندہ رہتا ہے اور اگر مسلسل پراگندہ رہے تو ایک دن دل کو ہی لے ڈوبتا ہے۔ میں ادب کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں کہ جس قدر ممکن ہو سکے مصنوعی ادیبوں کے پروان چڑھائے گئے مغالطوں کو دور کیا جاتا رہنا چاہئیے۔
غلام محمد قاصر اور ظفر اقبال کے موازنے کو اس سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جائے تو مکالمہ گزشتہ سے پیوستہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ٹو بی کنٹینیوڈ بھی۔
ظفر اقبال کے بارے میں مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ حضرت یقیناً اپنے سے چھوٹی عمر والے شاعروں سے عمر میں بڑے شاعر ہیں ورنہ شاعری میں جہاں شکیب جلالی، احمد فراز، سلیم کوثر، صابر ظفر، رام ریاض، عدیم ہاشمی اور غلام محمد قاصر جیسے تخلیقی جنات کھڑے ہوں وہاں چھوٹے موٹے کرتب کار چھلاووں کا ذکر کرنا بھی ادبی بد دیانتی یا نالائقی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعری کا بنیادی وصف ہی کیفیات دل اور لطیف احساسات کا جمالیاتی اظہار ہے اور الحمد للہ ظفر اقبال بطور شاعر اس بنیادی وصف سے ہی محروم ہیں۔ ایک بات ذہن نشین رہنی ضروری ہے کہ زندگی ہو یا ادب اس میں مستقل اور مسلسل عمل کردار کہلاتا ہے نہ کہ کبھی کبھار حادثاتی طور پر سر زد ہونے والا کوئی عمل۔ لہٰذا ظفر اقبال کے ہاں کہیں کوئی کسی کیفیت کا حامل شعر مل بھی جائے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو گا کہ موصوف کیفیات کے شاعر ہیں۔ اسی طرح غلام محمد قاصر کے ہاں کہیں کو بیانیہ یا سپاٹ شعر نظر آ جائے تو اس کا بھی ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان کی ساری شاعری ہی سٹیٹمینٹل ہے۔ غلام محمد قاصر کے ہاں صرف اداسی ہی ایسا ایسا بھیس بدل کر آئی ہے اور ایسی ایسی شدت کے ساتھ آئی کہ لگتا ہے قاری کے سینے سے دل نکال کے لے جائے گی۔ جس طرح ظفر اقبال نے ایسا ایسا ماہرانہ کالم لکھا ہے کہ لگتا ہے پڑھنے والے کی جیب سے پیسے نکال کے لے جائے گا اور ہر طرف سے واہ واہ کی جگہ بھاگ لگے رہن بھاگ لگے رہن کا شور سنائی دینے لگے گا۔ چلیے بات ان کے سب سے مقبول شعر سے شروع کرتے ہیں۔۔
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا
یا پھر زیادہ سے زیادہ اسی مزاج سے ملتا جلتا یہ شعر
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
ظفر اقبال کے ہاں یہ اشعار اپنی نوعیت، فضا اور مزاج کے حوالے سے اِکا دُکا اور تنہا اشعار ہیں۔ ظفر اقبال کے پاس اس مزاج کا تسلسل موجود ہی نہیں اور اگر ظفر اقبال کا کوئی اسلوب ہے تو یہ اشعار ان کے اسلوب کے ہرگز نہیں بلکہ ان اشعار پر احمد فراز اور عدیم ہاشمی کی پرچھائیں اتنی گہری ہے کہ اگر کسی لاعلم کو یہ شعر عدیم ہاشمی یا احمد فراز کا کہہ کر سنا دیا جائے تو وہ فوراً ایمان لے آئے گا جبکہ غلام محمد قاصر کا سب سے مقبول شعر کسی کے سامنے رکھا جائے تو ہر خاص و عام کہہ اٹھے گا کہ روایت کے تاج میں ایک جدید شاعر کے حصے کا نیا پر سجانا اسے کہتے ہیں۔
تم ناحق ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
اور پھر یہی نہیں کہ شعر ظفر اقبال کی طرح تخلیقی و جمالیاتی غربت کے باعث پوری شاعری میں اکیلا رہ جائے گا بلکہ غلام محمد قاصر کے تخلیقی ساگر کا تموج اپنے کیفیاتی وفور کا ثبوت دیتا کناروں سے اچھل اچھل کر ساحل پر خوبصورت شعروں کی جھالریں اگاتا چلا جائے گا۔
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھِستے گھِستے گھِس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
خار چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے
سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں کے ٹیلے تھے
تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے
سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
کون غلام محمد قاصرؔ بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
اسی طرح دونوں کا ایک ایک اور مقبول شعر لے کر تجزیے کی کوشش کرتے ہیں۔
ظفر اقبال کا شعر ہے۔۔ ۔۔ ۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئیے
اور ساتھ ہی مطلع تو اتنا کلیشے ہے کہ پڑھتے ہی درجنوں اشعار یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے
شاعر نے تو اسے تماشا کہہ کر انکار کی عظمت، ہیبت اور کر و فر کو ہی ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے اور دوسرا سر بازار سے بہتر تھا سر دربار باندھ دیتے۔ بازاروں میں تو آئے دن تماشے لگتے رہتے ہیں سچ تو وہی عظیم کہلایا ہے جو سر دربار یا سر دار بولا گیا ہے۔ شاعر کا نظریہ دیکھئیے کہ جھوٹ پر مصر رہنے کو کردار بنا کر پیش کر رہا ہے حالانکہ جھوٹ پر معذرت کے ساتھ سچ کی طرح پلٹ آنا کردار ہوتا ہے۔ اس شعر سے تو سیدھا سیدھا شاعر کے بے نظریہ اور سماجی اقدار سے عاری ہونے کا تاثر ملتا ہے ورنہ اس شعر کو یوں بھی کہا جا سکتا تھا۔۔ ۔
جھوٹ بولا تھا تو اب اس کا ازالہ کیجئیے
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئیے
ان کا ایک اور مقبول لیکن انتہائی کچا اور پھیکا شعر دیکھئیے۔ میں حیران ہوں کہ لوگ ایسے شعروں کو کس طرح اعتماد کے ساتھ بڑا شعر کہہ کر پیش کرتے ہیں۔
تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے
اور پھر ظفر اقبال کا ایک اور شعر جسے نا ہنجار شاعروں اور ناقدین نے پتہ نہیں کیا بنا کے رکھ دیا لیکن دیکھا جائے تو انتہائی مبہم اور بے کار سی بات کو منظوم کیا گیا ہے جو شعر بن ہی نہیں سکی۔
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا
یہ کونسی حیات ہے اور کونسے کاغذی پھول ہیں اور بیرون شہر کیا ہوتا ہے مضافات، یا جنگل یا دیہی علاقہ اور بارش شہر سے باہر نکلنے پر ہی کیوں آئی شہر کے اندر کیوں نہیں آئی۔ کیا یہ کوئی البیرونی قسم کی بارش ہے؟۔۔
اب ایک اور شعر دیکھئیے فوری تاثر میں امیجری بناتا ہوا شعر ہے لیکن چونکہ اس کے پس منظر میں نہ کوئی خیال کار فرما ہے نہ احساس اس لیے صرف ایک مختلف شعر ہونے کا دھوکہ سا تو پیدا ہوتا ہے لیکن تاثر دیر تک قائم رہنے کی بجائے مبہم ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آسماں پر تصویر بنانے سے وہ ایک ہی طرف رہتی ہے اور ایک ہی طرف لگتی ہے چاروں طرف ردیف نبھانے کے لیے جڑ دیا گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
یہی شعر اگر میں نے کہا ہوتا تو صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر میں احساس، خیال اور تخلیقی استدلال کی شدتیں بھر دیتا۔۔
اپنے دل پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
اگر ہم ان کے فضول شعروں کو نکال کے مشاقی سے بنائے گئے مصنوعی لیکن بظاہر جدید اشعار کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے بات کریں تو غزل کو نیا کرنے کے دعوے کے ساتھ ان کا اپنا رنگ اور اسلوب بھی جاتا نظر آتا ہے اور فکری سطح پر ان کی شاعری میں ویسے ہی کچھ نہیں ہے کہ کہیں کوئی بڑا خیال یا بڑا سوال نظر آئے۔ ہر شعر میں منفرد شعر کا ایک شک کرئیٹ کیا گیا ہے۔ پہلی قرأت میں لگتا کہ کچھ مختلف بات ہے لیکن اگر آپ اس پر غور کریں گے تو پیاز کے چھلکوں کی طرح چھلکے کے نیچے سے بھی چھلکا ہی نکلے گا۔ بڑی شاعری ویسے بھی مربوط فکر اور شدت احساس کے بغیر ممکن ہی نہیں جبکہ ظفر اقبال کی شاعری ان دونوں بنیادی عناصر سے محروم ہے۔
اب ذرا غلام محمد قاصر کا دوسرا مقبول شعر سامنے رکھتے ہیں
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ظفر اقبال اور غلام محمد قاصر کے ان اشعار میں شعریت اور شعری جمالیات کا تو خیر موازنہ ہی نہیں بنتا موضوع اور مضمون کی سطح پر بھی فرق نہایت واضح ہے۔ ظفر اقبال کے شاعری میں شاعر ایک نہایت چابکدست پراعتماد اور گھاگ قسم کا گُرگ باراں دیدہ نظر آتا ہے جب کہ غلام محمد قاصر کی شاعری میں نظر آنے والا انسان ایک معصوم پاکیزہ، سہما ہوا، اداس اور ہمدرد شاعر نظر آتا ہے جس کا نظریۂ حیات سچائی، محبت اور امن کی بنیاد پر استوار ہے۔
ظفر اقبال کی شاعری میں نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی ان کی شاعری میں خیال اور الفاظ کے درمیان کہیں ربط بن ہی نہیں سکا۔ یعنی ظفر اقبال کے وہ معدودے چند اشعار جو کوٹ کیے جاتے ہیں ان کے لسانی تشکیلات کے موقف کے بالکل برعکس ہیں اور صاف صاف شکیب جلالی، احمد فراز اور عدیم ہاشمی کا لہجہ لیے ہوئے ہیں جبکہ ان کی لسانی تشکیلات کا چرچا صرف انہیں شعراء تک محدود ہے جن کو ظفر اقبال کے اخباری کالم میں اپنی تعریف مقصود ہوتی ہے۔
جبکہ غلام محمد قاصر کے مقبول اشعار کی قرأت کا لطف اور بڑھ جاتا ہے جب انہیں پوری غزلوں کے اندر پڑھا جائے۔
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رخ جو لب بام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر
جدھر حباب تہی جام بھی نہیں آتا
چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے
اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ظفر اقبال کی لسانی تشکیلات والے اشعار میں شاید ایسی لسانی تشکیل تو مل جائے جو غزل، نظم، نثر یا کسی بھی صنف میں زبان کی ماں بہن ایک کر کے کی گئی ہو جو کہ ایک نہایت معمولی نوعیت کا کام ہے لیکن اسے غزل میں تبدیلی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ یہی الفاظ کسی بھی صنف میں ڈال کے اسے خراب کیا جا سکتا ہے یہ غزل کا تجربہ کیسے ہو گیا اور یہ نہ تو کوئی مشکل کام ہے نہ سنجیدہ۔ کچھ سال پہلے فیصل آباد کے دو تین شعراء نے ڈفر اقبال کے نام سے مذاق مذاق میں پورا شعری مجموعہ دے مارا تھا۔
دوسری طرف غلام محمد قاصر کے ہاں غزل کا مزاج ان کے ہمعصر شعراء سے مختلف ہے بلکہ اسے غلام محمد قاصر کا منفرد اسلوب کہنا زیادہ صائب ہو گا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ غلام محمد قاصر فطرت کی طرف سے ان تمام بنیادی صفات کا حامل ہے جو کسی شاعر کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہیں۔ عشق محبت، خواہشیں، خواب، خوف، اندیشے، حسرتیں، ہجر و وصال، اداسی، محرومی، مایوسی، مجبوری، بے بسی، بے چینی اور یتیمی یہ تمام ایسی ذہنی حالتیں ہیں جو کسی بھی تخلیق کار کے اندر وہ تموج وہ جوار بھاٹا اور وہ طوفان پیدا کرتی ہیں جو شعر کی تخلیق کے بیج کا کام کرتی ہے اور پھر قلبی واردات کی حالت اس بیج کی پرورش کر کے اسے بڑا کرتی ہے جسے زبان، مشاہدہ، مطالعہ اور شعری ریاضت شعر کے روپ میں صفحۂ قرطاس پر لے آتی ہے۔ غلام محمد قاصر کے ہاں بہت کم ایسا ہے کہ انہیں قافیے اور ردیف کے امکانات مصرعے کا سجھاوا دیتے ہوں بلکہ قافیہ ردیف خود کیفیت اور خیال کی تائید میں ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں۔ غلام محمد قاصر قافیے اور ردیف اکٹھے کر کے غزل نہیں بناتا بلکہ اس کا تخلیقی اضطراب اسے قافیے اور ردیف سے اتنا بے نیاز رکھتا ہے کہ اسے تلازمہ گھڑنے یا بنانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اس کے شعروں میں پائی جانے والی بے ساختگی دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سب کچھ بنا بنایا اس کے دل پر اترتا ہے اور صفحے پر متمکن ہو جاتا ہے۔
اشعار دیکھئیے۔۔ ۔۔
وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں
تو ہم بھی سیر سماوات چھوڑ دیتے ہیں
۔۔ ۔۔ ۔۔
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
حسن نے خود کہا مصور سے
پاوں پر میرے کوئی ہاتھ بنا
۔۔ ۔۔ ۔۔
لطیف احساسات کو شعروں میں ڈھالنے کی عطاء سے سرشار اور ہنر سے آشنا غلام محمد قاصر اپنے عصر سے بھی اتنی ہی درد مندی کے ساتھ جڑا ہوا ہے جتنا کہ وہ اپنے باطنی اندوہ سے۔۔ ۔۔ ۔
یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے
حسین خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگ میل سے
مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی
قاتل کو آج صاحب دستار مان کر
دیوار عدل اپنی جگہ سے سرک گئی
۔۔ ۔۔ ۔۔
بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے
زندگی سے یہ مرا دوسرا سمجھوتا ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
ہو سکتا ہے کسی وقت ظفر اقبال کو یہ خیال آ جائے کہ اپنے فطری میلان کو تعظیم دینے کی بجائے افتخار جالب کی لا شعر والی لائن پر چل کر انہوں نے اپنا نقصان تو کیا ہی ساتھ ساتھ جدید شاعری کے نام پر بے رس بے کیف اور بے روح شعر گھڑ گھڑ کے ادب کے طالب علموں کو گمراہ بھی کیا۔ رب تعالیٰ آپ کو خضر عمر عطاء کرے آج نتیجہ کیا نکلا ہے کہ آپ زندہ ہیں لیکن شاعری میں زندہ رہنے کے لیے آپ کو کترینہ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور غلام محمد قاصر کو ہم سے بچھڑے برسوں بیت گئے ہیں لیکن ان کی زندہ و تابندہ شاعری خود غلام محمد قاصر کی تخلیقی آفاقیت کے ساتھ ساتھ اپنے قاری میں بھی زندگی کی لہر پھونکتی جا رہی ہے۔ یہی فرق ہوتا ہے مصنوعی اور حقیقی شاعری میں۔
آخر میں اس شعر کو بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے مضمون کو ختم کرتا ہوں جس میں شعر کو مقصد حیات بنا لینے والے شاعر نے اپنے نظریہ شعر اور نظریہ حیات دونوں کا وا شگاف اعلان کیا ہے۔۔ ۔۔
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
٭٭٭
دکن کی مایہ ناز محقق ڈاکٹر ثمینہ شوکت ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر
تاریخ شاہد ہے کہ کئی شخصیتیں پسِ پردہ رہ کر کارنامے انجام دیتی رہی ہیں۔ نظام سادس میر محبوب علی خان نہایت کم سنی میں تخت پر بٹھائے گئے تھے اور امور سلطنت سالار جنگ اول بہ حیثیت مختار الملک انجام دیا کرتے تھے۔ نظام سادس کے ہوش سنبھالنے کے باوجود ان کی رہنمائی سالار جنگ ہی فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک تجربہ کار سیاسی مدبر تھے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں۔
چندو لعل بھی ایسی ہی ایک سیّاس شخصیت کا نام ہے۔ ان کے بارے میں جاننے کے لیے انہی کی خود نوشت سوانح ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ فارسی سے جس کا اردو ترجمہ ’’فرحت کدۂ آفاق‘‘ کے نام سے راجا راجیشور راؤ نے کیا۔ یہ دونوں کتابیں حیدرآباد ہی میں شائع ہوئیں۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ کا سنہ اشاعت 1234ھ متعین کیا ہے۔ اس کے علاوہ چندو لعل کی زندگی پر روشنی ڈالنے والی کچھ اہم تاریخیں بھی ہیں جن کو کھنگال کر ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے حقائق برآمد کیے ہیں جیسے:
1۔ منشی فیض اللہ کی نایاب تاریخ ’’خزانہ گوہر شاہوار‘‘ مخطوطہ۔ مخزونہ کتب خانۂ آصفیہ 1246ھ 1830 حیدرآباد۔
2۔ غلام حسین خان جوہر کی ’’گلزارِ آصفیہ‘‘ (1260ھ)
3۔ منشی قادر خان بیدری کی تاریخ آصف جاہی۔ 1268ھ (جو 1266ھ میں مکمل ہو چکی تھی)
4۔ غلام امام خان ترین کی تاریخ رشید الدین خائی۔ 1270ھ مطابق 1854
5۔ مانک راؤ وٹھل راؤ کی ’’بستان آصفیہ‘‘
6۔ عبدالجبار خاں ملکا پوری کی ’’محبوب الزمن‘‘
7۔ تذکرۂ شعرائے دکن از سید مراد علی طالع
8۔ میر منشی التفات حسین کی مرتبہ تاریخ نگار ستان آصفی سنہ تصنیف 1231ھ مطابق 1815
9۔ راجا مکھن لعل کی ’’تاریخ یاد گار مکھن لعل‘‘ 1242ھ جو چندو لعل کی زندگی میں لکھی گئی تھی۔
آئیے ’’چند و لعل شاداں‘‘ پر دادِ تحقیق دینے والی معتبر و مستند و ثقہ ہستی ڈاکٹر ثمینہ شوکت کے بارے میں پہلے جاننے کی کوشش کریں۔
پروفیسر ثمینہ شوکت 19 جون 1936 کو گلبرگہ میں پیدا ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی میٹرک کی سند میں ان کا سالِ پیدائش 1934 درج ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم میٹرک تک گلبرگہ ہی میں ہوئی۔ انٹر میڈیٹ انھوں نے خانگی طور پر کامیاب کیا۔ 1952 میں بی۔ اے اور 1954 میں ایم۔ اے (اردو) عثمانیہ یونیورسٹی سے کامیاب کیا۔ 1960 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے ’’مہاراجا چندو لعل حیات اور کارنامے‘‘ کے موضوع پر پروفیسر عبد القادر سروری کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مذکورہ مقالے کے ممتحن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ اس کے زبانی امتحان (viva) کے لیے پروفیسر گیان چند جین حیدرآباد تشریف لائے تھے۔
ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا پی ایچ ڈی کا مذکورہ مقالہ دو حصوں میں شائع ہوا۔ پہلا حصہ ’’مہاراجا چندو لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ 1979 میں منظر عام پر آیا۔ اس مقالے کا دوسرا حصہ ’’مہاراجا چند و لعل شاداں۔ حیات اور کارنامے‘‘ 1983 میں منظر عام پر آیا۔ جس وقت ڈاکٹر ثمینہ شوکت حیدرآباد یونیورسٹی میں ریڈر ہو کر شعبہ اردو میں خدمات انجام دے رہی تھیں، اتفاق سے اسی زمانے میں پروفیسر گیان چند جین کا بھی حیدرآباد یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا تھا۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کے اس مقالے کے پیش لفظ مورخہ 11 اپریل 1979 میں گیان چند جین نے بڑا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ انکشاف فرمایا:
’’انھوں نے (ثمینہ شوکت) نے ’’مثنوی لطف‘‘ ترتیب دے کر شائع کی۔ میں اپنے ڈی لٹ کے مقالے ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘ کو (کذا) اشاعت کے لیے انجمنِ ترقی اردو کو دے چکا تھا۔ مسودہ واپس لے کر میں نے اس میں ’’مثنوی لطف‘‘ کے تعارف کا اضافہ کیا۔ 1965 میں جب میں جموں اردو یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر مقرر ہوا وہاں ایم۔ اے کے نصاب میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا مرتبہ ’’شکار نامۂ گیسو دراز‘‘ شامل تھا۔ برسوں اُسے پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ حسن اتفاق ایسا ہوا کہ مارچ 1979 میں، میں نئی مرکزی حیدرآباد یونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر ہو کر آ گیا۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا پہلے ہی یہاں تقرر ہو چکا تھا۔ اس طرح مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کی مسرت حاصل ہوئی۔‘‘ (پیش لفظ)
پی ایچ ڈی کی تکمیل سے پہلے ہی عثمانیہ یونیورسٹی کے ویمنس کالج (کوٹھی) میں ثمینہ شوکت صاحبہ کا تقرر بہ حیثیت اردو لکچرر 1958 میں ہو چکا تھا۔ 1969 میں وہ ریڈر بن کر عثمانیہ یونیورسٹی منتقل ہو گئیں اور پھر 1979 میں چھے زائد تدریجی اضافوں Increments کے ساتھ بطور ریڈر اردو حیدرآباد یونیورسٹی میں تقرر عمل میں آیا جہاں 1984ء میں انھیں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور وہ صدرِ شعبہ بن گئیں۔ 1994 میں وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر سبک دوش ہوئیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے وہ ٹورنٹو کینیڈا منتقل ہو گئیں۔
18؍ فروری 1965 کو ثمینہ شوکت کی شادی جناب سکندر توفیق سے ہوئی جو گورنمنٹ پالی ٹکنک کالج میں انگریزی کے لکچرر تھے اور اردو کے شاعر تھے۔ سکندر توفیق ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’کیا گھر نگر کیا خانقاہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
سکندر توفیق نے دکن کالج پونے سے صوتیات Phonetics میں ڈپلوما بھی کیا تھا۔ ’’اردو کی ترسیلی لسانیات‘‘ میں وہ اپنی شریکِ حیات ثمینہ شوکت کے شریک مصنف (co-writer)بھی رہے۔
سکندر توفیق خلاقانہ تجربے بھی کیا کرتے تھے چنانچہ انھوں نے سات مصرعوں کی نظم کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام ’’سباعی‘‘ رکھا تھا۔ اس کے موجد و خاتم وہی ثابت ہوئے۔ یہ اختراعی ’’سباعی‘‘ ناکام تجربہ ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے اپنے تحقیقی مقالے ’’مہاراجا چندو لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے۔
’’سکندر توفیق کے نام جو میرے رفیق زندگی ہی نہیں رفیقِ قلب و ذہن بھی ہیں‘‘۔ ثمینہ شوکت جون 1979
ڈاکٹر حبیب نثار کی اطلاع کے مطابق پروفیسر ثمینہ شوکت کا انتقال ٹورنٹو کینیڈا میں 2016 میں ہوا۔
ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی تحقیق کا ایک شاہ کار ’’شکار نامہ‘‘ ہے جو گلبرگہ کے حضرت خواجہ گیسو دراز کے اہم اردو رسالوں میں شامل ہے اور جو کئی مخطوطات کے متن کو سامنے رکھ کر 1962 میں مرتب کیا گیا تھا جس کے بارے میں گیان چند جین نے کہا کہ یہ جموں یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ اسے اپنے طلبہ کو پڑھاتے رہے ہیں جب وہ جموں میں اردو کے استاد تھے۔
1959 ہی میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ممکنہ مآخذ کے حوالوں سے مہ لقا بائی چندا کو اردو کی اولین صاحبِ دیوان شاعرہ ثابت کیا تھا۔ مہ لقا بائی ایک حسین طوائف تھیں اور چندو لعل کی بھی منظور نظر تھیں۔ چندو لعل ان پر کافی مہربان تھے۔ دونوں کے مابین کافی بے تکلفی بھی تھی۔ درگا پرشاد نادِر نے ’’تذکرۃ النساء‘‘ میں ایک واقعہ درج کیا ہے جس سے ان دونوں کے ’’تعلقات‘‘ پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
ایک روز راجہ (چندو لعل شاداں) صاحب نے صبح کے وقت اس (مہ لقا) کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
ہے چین کہاں جب سے مری آنکھ لڑی ہے
ملنے کی نجومی تو بتا کون گھڑی ہے
اس شوخ دیدہ و دہن دریدہ حاضر جواب نے فوراً یہ شعر فی البدیہہ موزوں کر کے سنایا:
پہلے ہی سے چِلّا کے مرے دل کو ستا مت
اے مرغِ سحر چپ رہ ابھی رات بڑی ہے
اس سخن گسترانہ انداز سے اس طوائف کی بے باکی اور بے تکلفی ظاہر ہوتی ہے۔
1959 تک مہ لقا بائی چندا ہی کے سر اولین صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا سہرا باندھا جاتا رہا ہے۔ بعد کی تحقیق میں اسد علی خان تمنّا کی بیگم لطف النسا پہلی صاحب دیوان شاعرہ قرار پائیں۔ لطف النساء امتیاز نے اپنے دیوان کے آخر میں اس کے ترتیب پانے کی تاریخ بھی خود موزوں کی ہے۔
چوں از کنیز حضرتِ خاتون دریں زماں
اشعار تازہ جمع تہہ دل شگفتہ شد
از روئے ’’یمن‘‘ سال ہمایون ایں کتاب
’’دیوانِ امتیاز بخوانید‘‘ گفتہ شد
’’دیوانِ امتیاز بخوانید‘‘ کے اعداد 1203 ہوتے ہیں ان میں روے یمن یعنی (ی) کے دس عدد جمع کر لیں تو 1213ھ تاریخ بر آمد ہوتی ہے۔ اس طرح امتیاز کا دیوان 1213ھ میں اور مہ لقا بائی چندا کا دیوان اس کے ایک سال بعد 1214ھ میں منظر عام پر آیا تھا۔
(ملاحظہ ہو عہد ارسطو جاہ۔ علمی ادبی خدمات از ڈاکٹر لئیق صلاح سنہ اشاعت جنوری 1986 نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدر آباد)
1962 ہی میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ’’مثنوی لطف‘‘ اور ’’حیات لطف‘‘ دو کارنامے انجام دیے جن کی اہمیت کا اندازہ پروفیسر گیان چند جین کے اس اعلیٰ ظرفی کے مظاہرے سے ہوتا ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی تحقیق ’’مثنوی لطف‘‘ کو اپنے چھپنے والے ڈی لٹ کے مقالے ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘ کا حصہ بنا لیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی تحقیقی کتاب ’’حیات لطف‘‘ بھی آئی جس میں مرزا علی لطف کے کوائف اور ان کے فکر و فن کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے بڑی عرق ریزی سے تلاش کر کے لطف کی مثنوی اور مخطوطہ دیوان کے ساتھ ساتھ ممکنہ مآخذ سے لطف کا کلام اخذ کر کے لطف کے حیات اور کارناموں پر سیر حاصل مقدمے کے ساتھ کلیاتِ لطف بھی 1962 میں مرتب کیا۔ 1962 میں ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ’’دیوان لطف‘‘ بھی مدون کیا جس میں مرزا علی لطف کی غزلیات، قصائد اور دیگر اصنافِ کلامِ لطف جمع کر کے کارنامہ انجام دیا۔
مرزا علی لطف کے فکر و فن پر ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی داد تحقیق میں ان کے استاد پروفیسر عبد القادر سروری کے بے پایاں لطف کا یقیناً دخل ہے جس نے سدّ سکندری بھی پار کر لی تھی۔ چندوؔ سے چندا ؔتک یہ بے پایاں لطف بر قرار رہا ہے۔
مرزا علی لطف پر اتنا کچھ مواد حاصل ہونے کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ عثمانیہ یونیورسٹی سے مرزا اکبر علی بیگ نے ’’مرزا علی لطف حیات اور کارنامے‘‘ پر پی ایچ ڈی کر لی۔
مشاہیر نے ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی مرزا علی لطف پر دادِ تحقیق کی کھل کر داد دی اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنے خط مورخہ 20؍ ستمبر 1962 میں فرمایا:
’’آپ کی بھیجی ہوئی کتاب ’’مثنوی لطف‘‘ بہت پسند آئی اور آپ کی محنت کا اندازہ کر کے خوشی ہوئی۔ امید ہے کہ ہر ایک پڑھنے والے کو یہ کتاب پسند آئے گی۔ خدا آپ کو مبارک کرے۔ مخلص ذاکر حسین پروفیسر سعید احمد اکبرآبادی، ڈین شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ایڈیٹر ’’برہان‘‘ دہلی نے یوں تبصرہ فرمایا: ’’مرزا علی لطف کا دیوان اور ان کی مثنویاں گوشۂ گم نامی میں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے حالات کا بھی کچھ ایسا علم نہیں تھا۔ محترمہ ثمینہ شوکت جنھوں نے لطف کے کلیات کو جس میں دیوان بھی ہے اور مثنوی بھی، بڑی محنت سے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مسعود حسین خان صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد فرماتے ہیں:
’’مثنوی لطف کے لیے ادارۂ تحقیقات کا بہت ممنون ہوں۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے ذاتی طور پر ’’لطف‘‘ کیا ہے۔ ‘ انھیں تحقیقی کام کرنے کا بہت سلیقہ ہے (بلکہ سگھڑ پن) معلوم ہوتا ہے۔ حالات اور متن کی تدوین بڑے اچھے انداز میں کی گئی ہے۔‘‘
پروفیسر ہارون خان شروانی سابق صدر شعبۂ تاریخ و سیاست (و صدر دہلی کالج دہلی) کی رائے بھی سند کا درجہ رکھتی ہے۔
’’لطف ؔ کے نام اور اس کی مثنوی سے بہت کم لوگ آشنا تھے۔ فاضل مو لفہ نے حیدر آباد کے دو اور علی گڑھ اور رام پور کے ایک ایک نسخے کا تن دہی سے مطالعہ کیا ہے اور ساتھ ہی کم و بیش ایک سو صفحے کی تمہید کے ذریعے اردو پریمیوں کو لطفؔ اور ان کے زمانے کے ماحول سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
پروفیسر اے سی شرما، صدر شعبہ اردو و فارسی جبل پور یونیورسٹی فرماتے ہیں:
’’مثنوی لطف‘‘ موسوم بہ ’’نیرنگ عشق‘‘ اردو ادب اور تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ جدید اضافے نے دیرینہ ادبی و تاریخی کمی کو پورا کیا ہے یہ ادبی قوتِ تخلیق اور ناقدانہ نگاہ پر شاہد ہے۔ میری رائے میں اس مثنوی کا درس گاہوں کے نصاب میں شامل کرنا حق بجانب ہو گا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس مستند نسخے کو اربابِ ذوق و شوق ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔‘‘
محترمہ ڈاکٹر ثمینہ شوکت صاحبہ نے ’’مہاراجا چندو لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ کے عنوان سے جو دادِ تحقیق دی ہے وہ بھی اپنی جگہ دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ چھ سو صفحات پر پھیلی ہوئی ان کی یہ معرکہ آرا کتاب 1979 میں اردو اکاڈمی آندھرا پردیس (موجودہ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی) اور ایچ ای ایچ دی نظامس ٹرسٹ حیدرآباد کے رقمی تعاون سے منظر عام پر آئی۔ سید منظور محی الدین کی کتابت کی مرہون منّت یہ کتاب نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدرآباد کے زیر اہتمام لیتھو پر شائع ہوئی ہے۔ کاغذ بہت معمولی ہے اور اس تحقیقی کتاب کے شایانِ شان نہیں ہے۔ چھ سو صفحے پر مشتمل اس اہم کتاب کی قیمت صرف پینسٹھ روپے پچاس پیسے ہے۔
چندو لعل شاداں کے تعلق سے اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر گیان چند جین نے بڑی بے باکی سے فرمایا:
’’مصنفہ سے خائف ہوئے بغیر میں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ چندو لعل کوئی بڑے شاعر نہ تھے۔ ان کی بنیادی اہمیت ریاستی مدار المہام کی ہے۔ ادب میں ہم انھیں شاعر سے زیادہ شاعروں کے مربی کی حیثیت سے پہچانتے ہیں۔‘‘
اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہم پر روشن ہوا کہ چندو لعل ’’راجا‘‘ تو نہیں تھے مگر بڑے سیاس اور بادشاہ گر تھے۔ چندو لعل شاداں آصف جاہی سلطنت میں اس قدر دخیل تھے کہ جسے چاہے سرفراز کرنے کے جتن کر سکتے تھے اور جسے چاہے معتوب و بے دخل کر دیا کرتے تھے۔ انگریز ذمہ داروں تک بھی ان کی رسائی تھی۔ انگریز بھی ان کے ذریعے اپنا کام نکال لیا کرتے تھے۔ انھیں آلۂ کار بناتے تھے۔ چندو لعل اور انگریز امدادِ باہمی پر عمل پیرا تھے۔ چندو لعل دولتِ آصفیہ میں بظاہر پیش کار تھے مگر در اصل de facto مدار المہام کے فرائض بھی وہ انجام دیا کرتے تھے۔ ناصر الدولہ کو بھی سریر آرائے سلطنت بنانے میں چندو لعل نے اہم حصہ (کردار) ادا کیا نتیجتاً ناصر الدولہ ان کے احسان مند تھے اور ان کی ہر اعتبار سے قدر کیا کرتے تھے۔
چندو لعل شاداں پر لکھتے ہوئے انہی کی خود نوشت ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ کو ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے اصل مآخذ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ اس دور کی دیگر تاریخوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ’’عشرت کدۂ آفاق‘‘ چند و لعل نے فارسی میں لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ راجا راجیشور راؤ نے کیا تھا۔ عشرت کدۂ آفاق کی تصنیف 1234ھ میں ہوئی۔ چندو لعل نے خود اپنے تعارف میں کہا:
’’ان کا وطنِ مالوف معروف آباد ہے۔ وہ قوم سے کھتری کے فرقہ مہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا سلسلہ اکبر بادشاہ کے نورتن راجا ٹوڈر مل سے ملتا ہے جو خود بھی کھتری قوم کے مہرہ شاخ سے وابستہ تھے۔۔ ۔۔‘‘
اس دور کی دیگر تاریخوں نے بھی اس پر صاد کیا۔ ظاہر ہے چندو لعل کے اثر و رسوخ کے سبب بے چون و چرن تاریخی نسب مان لینے میں ہی عافیت تھی۔
۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ مہاراجا چند و لعل شاداں اور حیدرآباد کا سیاسی و سماجی پس منظر۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کا پی ایچ ڈی کا مقالہ، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس۔ چار کمان حیدرآباد۔ مطبوعہ 1979
2۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت حیات و خدمات۔ ڈاکٹر شفیق احمد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ۔ جو کالج آف لنگویجس میں ڈاکٹر فاطمہ آصف کی زیر نگرانی لکھا گیا جس پر عثمانیہ یونیورسٹی نے شفیق احمد کو 2006 میں Ph.D کی ڈگری سے نوازا۔
3۔ عہد ارسطو جاہ۔ علمی و ادبی خدمات۔ ڈاکٹر لئیق صلاح کا پی ایچ ڈی کا مقالہ، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدرآباد۔ مطبوعہ 1986
٭٭٭
خلیل الرحمن اعظمی کی نادر شاعری ۔۔۔ اسلم عمادی
کھلے گا تم پہ بھی رازِ حیات صد آہنگ
سنو سنو مری بکھری ہوئی صداؤں کو
۱۹۶۶ کے اطراف جب ہم شاعری کے بحر میں نئے نئے شاعری کے جزیروں سے شناسا ہو رہے تھے، یکایک ہماری کھوج کا سفینہ خلیل الرحمن اعظمی مرحوم کی شاعری کے ساحل پر آ رکا تھا۔ یہ ان دنوں ان شاعروں میں اہم ترین تھے جن کو دیکھ کر ہم اردو میں شاعری کرتے تھے۔ جن کا کلام ہم میں شعریت کو ابھارتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی صاحب کی معتبر آواز اپنی نرم آہنگی کے ساتھ اشعار میں ہمارے ذوق کے معیار کو بلند کرتی ہے۔ کتنے ہی رسائل تو میں نے صرف ان کی کسی غزل کو دیکھ کر اپنے ذاتی کتب خانے میں جمع کیے تھے اور اگر ان کی کوئی غزل اب بھی شائع ہو تو ایسا کروں گا لیکن وہ منبع جہاں سے اشعار کے سکے رائج ہوتے تھے، وہ نور جس سے یہ نور ریزے ہم تک پہنچے تھے وہ دریا جس سے ہمارے سامعہ اور باصرہ کو تراوٹ پہنچتی تھی۔ فردوس مکاں ہو گیا۔ کاش حقیقت اتنی دل آزار نہ ہوتی۔
اعظمی صاحب کے اشعار کسی نہ کسی طرح میرے لا شعور سے مناسبت رکھتے ہیں اور ان کی بازگشت میرے ذہن میں ہوتی ہی رہتی ہے۔ جب بھی ان کی غزل پڑھتا ہوں وہ میرے ذہن میں جا بستی ہے اور رہ رہ کر سر ابھارتی ہے۔
اعظمی صاحب کی شاعری واحد متکلم کی شاعری ہے۔ وہ شاعری کی ذات پر مرکوز اپنی انفرادیت کا احساس، زندگی کی تہی دستی کا گلہ، حال و مستقبل کی یکسانیت ایک سنجیدہ سی مایوسی، تلاشِ راہِ نجات اور وہ بھی اس مفروضہ پر مبنی کہ کچھ حاصل نہ ہو گا اور ایسے ہی موضوعات ان کی شاعری کے تانے بانے ہیں۔
اعظمی صاحب کی شاعری نہ جانے کیوں ’’بجھے بجھے تبسم‘‘ کی طرح لگتی ہے اور یہ ’’ بجھا بجھا تبسم‘‘ سارے منظر پر محیط ہے۔ ہماری اور ہمارے احساسات سے اتنا قریب تر ہے کہ ہمیں ان کا شعر اپنے جذبات کی تفسیر لگتا ہے۔ ان کے کلام کا لب و لہجہ سنجیدہ اور متوازن ہے۔ جو یہ صاف صاف اعلان کرتا ہے کہ شاعر تجربے کرنے کے لیے مشقِ سخن نہیں کرتا بلکہ اس کے پاس جو کچھ کہنے کو ہے وہ اپنی ذات کے احساسات سے سراسر طور پر مطابق ہے۔ یہ سنجیدگی قاری کو الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے ان جذبات تک پہنچنے پر متوجہ کرتی ہے۔ جو شعر کا مقصود ہیں۔ وہ ان تشنہ تشنہ باتوں کا کرب محسوس کر سکتا ہے۔
اعظمی صاحب کا کلام لگاتار چبھنے والی شاعری سے مختلف تھا، ان کی ہر غزل دوسری غزل سے ممتاز طور پر جداگانہ ہے۔ ہر غزل کا ہر شعر کچھ نہ کچھ ذکر کرنا چاہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی نوکیلی بات غیر جذباتی لب و لہجے میں کہنا چاہتا ہے۔ اعظمی صاحب کی غزلیں عموماً ۶ تا ۸ اشعار پر مشتمل ہوتیں۔ نہ ان میں طوالت کہ ردیف و قافیہ سے کھیلنے کا گماں ہوتا، نہ اتنی مختصر کہ نامکملیت کا احساس ہوتا۔ ’’بجھے بجھے تبسم‘‘ کی علامت ان غزلوں کے ہلکے ہلکے سلگنے کو واضح کرتی ہے۔
اعظمی صاحب غزلوں میں جس زندگی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ایک طویل سفر ہے اور اس کی مدت لمحہ لمحہ کٹتی جا رہی ہے۔ جس میں کوئی مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہوتا۔ کئی الجھنیں ہیں جو سلجھتی ہی نہیں، صرف تسکینِ ذات کے لیے منطق استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی غزلوں میں جو فکری آہنگ ہے، وہی ان کی نظموں میں بھی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں جو واحد متکلم ہے وہ ایک ایسا خواب دیکھنے والا ہے جو خواب کی تعبیر سے گریزاں ہے۔ شاید اس لیے کہ اسے سفر میں خوابوں کی فصلوں کو کچلنا ہی پڑتا اور وہ بھی کس برتے پر۔
کئی برسوں قبل ان کی ایک غزل ’’شاعر‘‘ بمبئی میں شائع ہوئی تھی۔ خاص غزل تھی۔ اس کے چند اشعار سنیے۔
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سونا ہوں کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردشِ وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
اس غزل میں جو آواز صاف ابھرتی ہے وہ شاعر کی آواز ہے۔ ہر شعر میں شاعر کا کرب ہی واضح ہے۔ وہ زندگی کی سنسان اور بے اماں رہ گزر پر تنہا کھڑا ہے۔ کھڑا اس لیے کہ منزل کا کوئی تعین نہیں، سمت کی کوئی شناخت نہیں اور ہر طرف دھوپ ہی دھوپ ہے۔ کسی جانب جانے میں کوئی نجات نہیں۔ اس لمحے میں سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ سائے کو آواز دے، سایہ امان ہے اور سایہ ہے غالباً اس کی منزل۔ اس طرح شاعر بد ذوق اور نا شناس لوگوں سے بلکہ دنیا سے ایک پھیکے سے لہجے میں کہتا ہے کہ حقیقت اور اصلیت میں ایک قسم کا سونا ہوں قیمتی اور گراں ہوں لیکن آہ یہ نا قدر دنیا کہ میں اجنبیت اور بے حسی کی مٹی میں دبا ہوا پڑا رہ گیا اور میری ہستی گردشِ وقت کی طرح کج رو ہے اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ٹوٹے ہوئے آئینے کی طرح ہے اور غالباً اسی وجہ سے ازل تا ابد اس خواب دیکھنے والے سے سب ناراض ہیں۔
میں نے اس غزل کو مطالعے کے لیے اس وجہ سے منتخب کیا کہ اس میں چند باتیں نوٹ کرنے کی ہیں۔
( ۱ ) موضوعات، جو ان کی شاعری میں پائے جاتے ہیں مثلاً بے سمت اور بے سہارا سفر اپنی انفرادیت کا احساس اور زمانے کی ناقدری کا گلہ، وقت کی کج روی کا شکوہ اور سخن ور کی نمائندگی۔
( ۲ ) پوری غزل میں لب و لہجے کی وحدت اور اظہار میں تسلسل، غزل کا غزلِ مسلسل جیسا ماحول۔
( ۳ ) الفاظ جو نہ چونکانے والے، نہ کسی طرح انوکھے۔
ان نکات پر اگر آپ غور کریں تو ایک خاص شعری رویے کی وضاحت ہوتی ہے اور یہ شعری رویہ خلیل صاحب کی نظموں اور غزلوں دونوں ہی میں یوں ہی موجود ہے۔
ہمارا عہد خوابوں کا عہد ہے۔ نئی شاعری میں خوابوں کا ذکر بار بار آیا ہے، خواب جو راہ فرار ہیں، ایک لمحے کے لیے راہِ نجات بھی ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی صاحب کی شاعری میں خواب ایک غیر حقیقی تصویر کے مطابق ہے۔ اس تصویر کی طرح جس کی نہ کوئی اصل ہے نہ کوئی تعبیری حیثیت، یہ خواب یوں ہی رسماً دیکھے جاتے ہیں اور زندگی کی مصروف اور مجبور دوڑ میں روند دیے جاتے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟
ہمارے عہد سے منسوب کیوں ہوئے آخر
کچھ ایسے خواب کہ جن کا نہیں ہے کوئی وطن
اور خوابوں کی تعبیر مانگنا ایک سعیِ لا حاصل ہے خوابوں سے امید لگانا ایک لا یعنی فعل۔ اس لیے شاعر کہتا ہے۔
پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اُداسی کا سبب
خواب جو دیکھے، وہ خوابوں کی حقیقت مانگے
اور مصلحت یہی ہے کہ صورتِ حال کی اس خار زار دوڑ میں اس ہجوم میں جو مسائل اور کلفتوں سے بھرا ہوا بلکہ لدا ہوا ہے۔ اپنے ذاتی جذبات، آرزوؤں اور خوابوں کو پامال کر دیا جائے۔ ضرور اس مصلحت کا کوئی گھناؤنا راز ہو گا:
کوئی تو بات ہو گی جو کرنے پڑے ہمیں
اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال
اور ان مسائل اور کشاکش میں جب شاعر اپنے سفر کو شروع کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ کبھی نہ کبھی گیان اسے ضرور ملے گا۔ کبھی نہ کبھی اس الجھاوے، اس کرب اور اس بے اصل زندگی کا کوئی نہ کوئی حل، کوئی نہ کوئی راستہ، کوئی نہ کوئی سمت ضرور منکشف ہوں گے۔ وہ بھی گوتم بدھ کی طرح حیات کو سمجھنے کے لیے بے چین ہے اسے معلوم ہے کہ اس کی تلاش و جہد میں گوتم بدھ کی تلاش جیسی جویائی اور الوہیت کا پرتو نہیں لیکن۔
میں گوتم نہیں ہوں
مگر میں بھی جب گھر سے نکلا تھا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے ہی آپ کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں
کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اس دن مجھے گیان ہو گا
(میں گوتم نہیں ہوں)
اور اس تلاش میں جو شاید خود کہیں نہ کہیں ختم ہو گئی، ایک ایسی منزل بھی آئی کہ زندگی کی رسوم و قیوم نے ظرفِ وجود کو خالی کر دیا۔ وجود کی حیثیت اس کے علاوہ کچھ نہ رہی کہ وہ ایک بدن اور اس پر لگے چہرے کا نام ہو کر رہ گیا۔ وجود کے اندر جلی ہوئی وہ شمع جو روغن طلب سے روشن تھی، بجھ سی گئی۔ پیکر کی اہمیت ہستی سے بڑھ گئی بلکہ پیکر نے ہستی کو اس طرح اسیر کر لیا کہ اصل شاعر اصل روح کہیں گم ہو گئی۔ شاعر خود اپنے وجود کے بارے میں مشتبہ ہو گیا۔ کیا اس کی کوئی پہچان ہے؟ کیا اس کی کوئی حقیقت ہے؟ اس کے علاوہ کہ اپنے عہد، اپنے فن اور متعلقات سے پہچانا جائے۔ کیا اس کی بھی کوئی ہستی ہے؟ گویا اس کی تلاش و جستجو کی سمت بیرونِ ہستی سے خود ہی اپنی ہستی کی طرف آ جاتی ہے اور جستجو اب وہ خلش نہیں رکھتی، اب اس میں ایک قسم کی خود سپردگی ہے۔ عجیب سی گم گشتگی ہے وہ بار بار کہتے ہیں۔
یہ تمنا نہیں اب دادِ ہنر دے کوئی
آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
راستہ پُر پیچ ہے اور ہم سفر کوئی نہیں
سب مرے ہم شکل ہیں، مجھ سا مگر کوئی نہیں
اس جہاں میں میرے ہونے کی گواہی کون دے
اک ہجوم اور اس میں چشمِ معتبر کوئی نہیں
ہر گھڑی عمرِ فرومایہ کی قیمت مانگے
مجھ سے آئینہ مرا میری ہی صورت مانگے
اور کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ شاعر اب محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ایک روندی ہوئی رہ گذر پر ایک دہرائی ہوئی ہستی کی طرح گزر رہا ہے۔ وہ علامتیں جو اس رہ گذر کے اطراف اسے نظر آتی ہیں، وہ شباہتیں وہ مناظر، وہ اشخاص اور وہ مسائل جو اسے ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسے یہ غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ جیسے روز و شب، ماہ و سال کی اس مسافت میں وہ ایک ’’دہرائی ہوئی‘‘ شخصیت ہے۔ یہ اس کا کوئی نیا جنم ہے اور ہر لمحۂ تبدیلی میں اس کا جنم بدلتا جاتا ہے۔ وہی علامتیں نئی شناخت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، انھیں کی پہچان جو ہستی کی حیثیت کو بدلتی ہے۔ گویا جامد اشیا بدلتی ہیں یا بدلی بدلی دکھائی دیتی ہیں تو مسافر کو خود اپنے میں تبدیلی لگتی ہے، ہر لحظہ، ایک نیا جنم لیتا ہے اور:
میں پھر سوچتا ہوں
۔۔ ۔ کہ میں کون ہو گا؟
کیوں کہ میں پچھلے لمحے میں جو کچھ تھا اور وہ نہیں ہوں
تو کیا میں ہر اک لمحہ ایسی کتھائیں سناتا ہوں
جو پچھلے جنموں سے منسوب ہیں
(پچھلے جنم کی کتھائیں)
ایسے ہی سوالات ابھرتے ہی رہتے ہیں۔ جو اس کے ذہن میں خلش کرتے ہیں۔ لیکن گویا یہ سوالات جامد ہیں، لاینحل ہیں، پتھر کے مجسموں کی طرح صدیوں سے انسان کو خوف زدہ بلکہ وہم زدہ کرتے آ رہے ہیں، وقت گزرتا ہی جا رہا ہے:
آتے ہیں اور گذرتے ہیں کتنے ہی ماہ و سال
صدیوں سے راستے میں کھڑے ہیں کئی سوال
تو کیا ہوا؟ یہ ناقدری کیسی ہے؟ جو مٹی میں دبے ہوئے سونے کی تلاش نہیں کرتی! یہ فلسفے کیسے ہیں؟ جو انسان کو اس کے اصلی مقام سے دور کرتے ہیں، یہ فلسفے کیسے ہیں جنھوں نے زمینِ چمن کو انسانی جذبات کے لہو سے لالہ زار کر دیا ہے، یہ دانش کیسی ہے۔ جو جذبات بھڑکاتی ہے اور شاعر میں احساسِ نامرادی کو اکساتی ہے تہی دستی کو عیاں کرتی ہے۔ یہ دل کا درد کیسا ہے کہ انبساط کا ایک مختصر سا لمحہ بھی وجہِ اطمینان لگتا ہے۔ یہ لٹنے کا احساس کیسا ہے، یہ دل کی بستی کے اجڑنے کا سماں کیا ہے۔ شاعر خود یہ سوالات نہ اٹھاتا ہے، نہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تو صرف اپنے محسوسات کو سادہ لب و لہجے میں درد انگیز طور پر بیان کرتا ہے۔ اس کے محسوسات میں اس کی اپنی خشک لبی پا شکستگی، دل گرفتگی اور گرسنہ مزاجی نمایاں ہیں۔ شاعر کا اندازِ بیاں اس کے جذبات کی ترسیل کا بیشتر عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ اندازِ بیاں ہی اعظمی صاحب کو اپنے عہد کے غزل گویوں میں ایک جداگانہ مقام دلاتا ہے اور جدید شاعر دعوے کے ساتھ ان کو نیا شاعر قرار دیتے ہیں کہ ان کی شاعری مرکوز بر ذات اور اظہارِ خالص کی عمدہ مثال ہے۔ کیوں نہ پھر اعظمی صاحب کے کچھ اشعار سنا دوں:
یہ اور بات ہمارے لہو کی پیاسی ہے
مگر زمینِ چمن پھر بھی ہے زمینِ چمن
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
ہوا کے جھونکے جو آئیں تو ان سے کچھ نہ کہو
جو آگ خود ہی لگائی ہے اس میں جلتے رہو
یہ دل کا درد تو ساتھی تمام عمر کا ہے
خوشی کا ایک بھی لمحہ ملے تو اس سے ملو!
آہ! ان اشعار کو پڑھتے پڑھتے نہ جانے ایسا کیوں لگتا ہے کہ اعظمی صاحب یہیں کہیں موجود ہیں اور ان کے اشعار کا دفتر کھلا ہے، جس میں سے اشعار کی تتلیاں اڑ اڑ کر ہر طرف رنگ بکھر رہی ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی کے انتقال سے اردو ادب میں ایک قد آور شاعر کا خلا پیدا ہوا ہے، وہ ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے نثری، تنقیدی اور شعری تخلیقات کا ایک گراں بہا سرمایہ چھوڑا ہے۔ ماہ نامہ ’’کتاب نما‘‘ کا خاص نمبر، نئی نظم کا سفر، ان کی تنقیدی نظر اور انتخابِ سخن کی صلاحیت کی دلیل ہے۔ جس کا پیش لفظ اردو کی نئی شاعری کی سمت مقرر کرنے میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا اسلوب تحریر محققانہ اور مہذب تھا۔ اس خوش روی اور فنّی بصیرت نے انھیں نئے ادب کا ایک فردِ فرید بنا دیا۔
ہم سا کوئی ملے تو کہیں اس سے حالِ دل
ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال
اربابِ ادب کو اعظمی صاحب کے اشعار ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
٭٭٭
غزلیں
غزل مسلسل ۔۔۔ سعود عثمانی
مبالغہ نہیں یہ، واقعی زیادہ تھی
شروعِ عشق میں دیوانگی زیادہ تھی
میں اس کو پہلے پہل اپنا وہم سمجھا تھا
وہ لڑکی چھپ کے مجھے دیکھتی زیادہ تھی
نظر بچا کے وہ تکتی تھی مجھ کو، میں اس کو
یہ دل لگی تھی تو اس وقت بھی زیادہ تھی
نہ مجھ سے بات وہ کرتی نہ اس سے میں کرتا
تو پھر وہ کیا تھی کہ جو گونجتی زیادہ تھی
اسی زمانے میں ہم کو کچھ ایسا لگنے لگا
کہ زندگی میں کوئی آنچ سی زیادہ تھی
اس آگ کے تو سبھی رنگ خوب صورت تھے
وہ آگ جس کی لپک آتشی زیادہ تھی
عجب جھجک تھی جو کم بخت مجھ میں تھی ہی بہت
جو نارمل سے بھی اچھی بھلی زیادہ تھی
بڑا کمال تھا اس کا دو رنگ خاص لباس
نڈر بھی تھی وہ، اسے شرم بھی زیادہ تھی
تبھی ہوا کسی اک آدھ بات کا آغاز
یہ تب کی بات ہے جب خامشی زیادہ تھی
ہر اک سڑک پہ وہ شعلہ مجھے لیے پھرتا
وہ چلنا تھوڑا تھا، وہ شاعری زیادہ تھی
انہی دنوں کسی محفل میں وہ ملی لیکن
بہت سے لوگ تھے اور روشنی زیادہ تھی
پھر اس نے مجھ سے جھجکتے ہوئے وہ بات کہی
جو بات تھوڑی تھی اور ان کہی زیادہ تھی
محبتیں بھی مقدّر کا کھیل ہوتی ہیں
سو کی نہیں تھی محبت، ہوئی زیادہ تھی
پھر ایک دن مجھے بانہوں میں بھر لیا اس نے
وہی جو پہلے پہل اجنبی زیادہ تھی
جڑا ہوا تھا یہ ملنا بدن کی حدّت سے
جدائی میں یہ تپش اور بھی زیادہ تھی
کنارِ آب کوئی شام جھلملاتی ہے
جو اس قبا کی طرح کاسنی زیادہ تھی
عجب طلسم تھا وہ نیلا پیرہن اس کا
سیہ گھٹا میں وہ کھلتی ہوئی زیادہ تھی
وہ پھول اس کی مہک سے بہت گلابی تھے
وہ گھاس اس کی لَپٹ سے ہری زیادہ تھی
نہ جانے کب اسی مسند پہ وہ بھی آ بیٹھی
وگرنہ خود سے مری دوستی زیادہ تھی
بہت سناتی تھی وہ میری شاعری مجھ کو
جو میری کیا اسی دل دار کی زیادہ تھی
اسے گلہ تھا میں اظہار کم ہی کرتا ہوں
وہ خوش طلب تھی مجھے مانگتی زیادہ تھی
میں اپنے جسم کی بولی میں گنگ رہتا تھا
مگر کبھی کبھی یہ بولتی زیادہ تھی
کچھ اس لیے بھی میں اظہار کر نہ پاتا تھا
محبت اس سے مجھے واقعی زیادہ تھی
ہنسی ہنسی میں بہت اشک آ ٹپکتے تھے
ہماری خاک میں شاید نمی زیادہ تھی
کوئی جدائی تھی ٹھہری ہوئ، ملاپ کے بیچ
جو چاہیے ہی نہیں تھی وہی زیادہ تھی
ہم اک گھروندہ بناتے تھے اور وہ بنتا نہ تھا
نہ جانے کون سی ہم میں کمی زیادہ تھی
تم اس کی یاد کو معدوم جانتے تھے سعود
پتہ چلا کہ وہ کم بھی نہ تھی، زیادہ تھی؟
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی
چھپا کر آنسوؤں میں پیش کر دیتے تبسم کیا
ہمیں تو ایک لگتے ہیں خموشی کیا تکلم کیا
بہت دن ہو گئے وہ آئینہ صورت نہیں آیا
بکھر کر عکس اس کا آئینے میں ہو گیا گم کیا!
کسی نظارا سازی کی تمنا مٹ گئی دل سے
نگاہوں سے ہوئے اوجھل فلک، خورشید و انجم کیا
چلو مانا کہ یک جائی سرِ محفل نہیں اچھی
بدن کی بھی صدا سنتے نہیں ہو آخرش تم کیا
حریفِ عشق کوئی سامنے درکار ہے یا پھر
خود اپنے آپ سے ہونے لگا ہے پھر تصادم کیا
٭٭٭
ایک قتّالہ نظر بر سرِ دیوان پڑی
جیسے اِک تازہ غزل بر سرِ دیوان پڑی
اپنے لہجے میں ملِا لہجۂ تازہ اپنا
خلقتِ دہر لگی بے سر و سامان پڑی
زخم دکھلائے وہی جن کا دکھاوا ممکن
راہ اپنائی وہی جو مجھے آسان پڑی
کُوئے جاناں کی طرف جرأتِ رندانہ بڑھی
رہ گزر سے جو الگ رہ تھی، وہ سنسان پڑی
جائے حسرت نہ رہی ملکہ سباؔ کی اُس دم
جب نظر اُس کی سُوئے تختِ سلیمان پڑی
مجھ سے تجدیدِ غزل ہاشمی کرتے نہ بنی
کیسی مشکل یہ گھڑی سر پہ میرے آن پڑی
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ فیصل عجمی
یہ واقعہ ہے میری غذا کھا گئی مجھے
میں کھا گیا ہوا کو، ہوا کھا گئی مجھے
کیسی بلائیں تھیں مرے پیچھے لگی ہوئی
خاموشی پی گئی ہے، صدا کھا گئی مجھے
رُو پوش تھا میں کب سے خدا کی تلاش میں
آیا نظر تو خلقِ خدا کھا گئی مجھے
دیکھا قریب سے جو بلا کے حسین کو
تصویر سے نکل کے بلا کھا گئی مجھے
دنیا قریب آئے تو سینے سے مت لگا
میں نے پرے ہٹائی تو کیا کھا گئی مجھے؟
شہرت نے کیسا دھوکہ دیا ناگہاں نہ، پوچھ
مجھ کو دکھا کے آبِ بقا کھا گئی مجھے
٭٭٭
بارش میں نامراد نیا قہر بن گئی
یہ اُس گلی کی بات ہے جو نہر بن گئی
دنیا ہے ایک سانپ سپیرے کے روپ میں
تریاق بن گئی ہے کبھی زہر بن گئی
جائیں کہاں، فرار کا رستہ کوئی نہیں
یہ زندگی تو جلتا ہوا شہر بن گئی
کچھ لوگ غرق ہو گئے، دریا کا کیا گیا؟
کشتی کے ڈوبنے سے نئی لہر بن گئی
تاریک و تنگ گھر میں تمازت ہے کس قدر
آئی سحر تو آتے ہی دوپہر بن گئی
اِس شاعری کا حسن سے رشتہ عجیب ہے
دیکھا اسے تو ایک نئی بحر بن گئی
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ فریاد آزر
ضرورتاً خواص سے بھی کام لے لیا کرو
مگر سدا حمایتِ عوام لے لیا کرو
خطا تمہیں معاف کر سکے تو ٹھیک ہے مگر
خودا پنے آپ سے ہی انتقام لے لیا کرو
یہ کائناتِ دل بہت حسین ہی سہی مگر
کبھی کبھی دماغ سے بھی کام لے لیا کرو
خدا سے مانگتے رہو، اگر نہ مل سکے تو پھر
کسی غریب سے دعا انعام لے لیا کرو
خموشیوں کے شور سے جو کان پک گئے ہوں تو
کبھی کبھی سکونِ ازدحام لے لیا کرو
٭٭٭
سیاست بھی ہمیں کیا خوب مجبوری بتاتی ہے
جو ہم پر ظلم ہوتا ہے تو جمہوری بتاتی ہے
نوائے عصر کو جھانسی کے قصے یاد ہیں لیکن
کہاں وہ داستاں کوئی بھی میسوری بتاتی ہے
یہاں تاریخ بھی مرہونِ منت ہے سیاست کی
وفا کی داستاں میری وہ کب پوری بتاتی ہے
میں ایک اک سانس لینے اس کے در تک کیوں نہیں جاتا
اب اس میں بھی ہوا میری ہی معذوری بتاتی ہے
میں اپنوں کے مظالم کی حدوں سے کیا نکل آیا
مجھے تاریخ چنگیزی و تیموری بتاتی ہے
جہنم سے بچے رہنے کی میں جب بھی دعا مانگوں
تو یہ دنیا اسے بس خواہش حوری بتاتی ہے
مرے قدموں سے منزل واقعی نزدیک ہے آزرؔ
مری رفتار صدیوں کی مگر دوری بتاتی ہے
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ قمر صدیقی
وہ اک مکان جو خستہ دکھائی دیتا ہے
وہیں سے شہر کا چہرہ دکھائی دیتا ہے
کھلی ہیں آنکھیں تو بے رنگ ہیں سبھی منظر
ہوں بند آنکھیں تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے
یہ موج موج بکھرنا ہے چند لمحوں کا
وہ دیکھو دور کنارہ دکھائی دیتا ہے
دیارِ شب میں چراغاں تھا صبح ہونے تک
پھر اس کے بعد اندھیرا دکھائی دیتا ہے
تمام دن کی مشقت کے بعد بھی سورج
بوقتِ شام سنہرا دکھائی دیتا ہے
ہے اس کی ذات کسی انجمن سے کم تو نہیں
جو شمعِ بزم سا تنہا دکھائی دیتا ہے
تمھیں تو چہرے پہ بس اشک ہی نظر آئے
ہمیں تو چاند پہ دھبا دکھائی دیتا ہے
٭٭٭
سیدھی سچی بات ہے یہ
دن نہیں یارو رات ہے یہ
چھوڑ کے اک دن چل دیں گے
دنیا کی اوقات ہے یہ
آنکھ میں غصہ لب خاموش
نفی نہیں اثبات ہے یہ
مفت ملے گر دنیا تو
بھیک ہے یہ خیرات ہے یہ
ہاتھ ملے پر دل نہ ملے
جیت نہیں ہے، مات ہے یہ
یہ ہے طاقت کا نشّہ
بچ کے رہنا گھات ہے یہ
غم کو رکھا ہے سینت کے یوں
عشق تری سوغات ہے یہ
پھول سے خوشبو کب ہے جدا
تیرا میرا ساتھ ہے یہ
اس پر تو کچھ دھیرے چل
یار قمر فٹ پاتھ ہے یہ
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ سید صبا واسطی
باتیں بناتا ہے وہ مرے دل کو توڑ کے
لفظوں کے مونہہ چھپاتا ہے کاغذ مروڑ کے
اک ملتفت نگاہ کے دھوکے میں لٹ گئی
رکھّی تھی ہم نے دل میں خوشی جوڑ جوڑ کے
اک بے زباں خلش کوئی چونکی ہے اس طرح
جیسے اٹھا دے نیند سے کوئی جھنجھوڑ کے
اے مشتِ خاک دیکھ یہ راہِ درِ نجات
لے آئی پھر وہیں پہ ڈگر موڑ موڑ کے
بعد از شکستِ ضبطِ نظر، بامِ دل تجھے
دربان جا رہے ہیں لٹیروں پہ چھوڑ کے
لوٹے تو اتنی دیر میں نقشہ بدل گیا
آئے تھے کس یقین سے ہم نقش چھوڑ کے
مسند پہ تم بلا سے رہو ہم زمین پہ
ہم کوڑیوں کے دام سہی تم کروڑ کے
خیرہ نظر صبا سے تب و تابِ انجمن
داد ہنر نہ مانگ، دو آنکھیں نچوڑ کے
٭٭٭
دل جہاں ہے اگر وہاں نہ رہے
پھر نہ جانے کہاں کہاں نہ رہے
گھر رہے اور سائباں نہ رہے
ایسا ہوتا تو ہے جو ماں نہ رہے
لوٹ جانے کو جی نہیں چاہے
دنیا ایسی تو میزباں نہ رہے
ہم بھی جب مہرباں کسی پہ نہیں
کوئی بھی ہم پہ مہرباں نہ رہے
فاصلہ ہی بڑھا لیا اتنا
کیسے اب کوئی درمیاں نہ رہے
کون پرسانِ حال ہے اپنا
دل کو امیدِ رائیگاں نہ رہے
غیر کے سائباں میں جائے گا
اپنے گھر میں اگر اماں نہ رہے
بات جب ہے صبا ہو اوجِ کمال
چوٹ دیں یوں ذرا نشاں نہ رہے
٭٭٭
غزل ۔۔۔ جواد شیخ
ہجر کی راہ کسی کے لیے آسان نہیں
منع کرتا ہوں تو ہو جایا کرو، جان نہیں
اب میں چپ چاپ یہی دیکھ رہا ہوتا ہوں
کون اِس بزم میں کس بات پہ حیران نہیں
اُس کو چھوڑا ہے بہت سوچ سمجھ کر میں نے
سو پریشان تو رہتا ہوں، پشیمان نہیں
شاید اچھا ہی کِیا اَن سُی کر کے اُس نے
بات سادہ تو بہت تھی مگر آسان نہیں
کام تو اور بھی کرنے کو بہت ہیں لیکن
شعر گوئی کے علاوہ مرے شایان نہیں
آخری دن ہیں مہینے کے، تجھے کیا معلوم
تُو سمجھتا ہے کہ اِک تیری طرف دھیان نہیں
ہم یہاں اور ہی کچھ سوچ کے آئے تھے مگر
اس خرابے میں ضرورت کا بھی سامان نہیں
احتیاط اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن جواد
اُس میں کیا نفع ہے جس میں کوئی نقصان نہیں
٭٭٭
غزل ۔۔۔ یاسر شاہ راشدی
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آ جاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آ کر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آ کر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
شاہؔ سنو! راحت سی راحت ہے چپ شاہ کے روزے میں
گرہ زباں کی کھلے تو پھر یہ دل آزاری کرتی ہے
٭٭٭
غزلیں۔۔ صابرہ امین
دوستی جب بھی دل دکھاتی ہے
دشمنی ہم کو راس آتی ہے
پیار آتا ہے پھر عدو پر بھی
دوستی وہ ستم بھی ڈھاتی ہے
سر پہ پڑتی ہے جب مرے افتاد
مجھے قسمت بھی آزماتی ہے
زندگی کچھ نہیں بجز اس کے
سانس آتی ہے سانس جاتی ہے
کیا شفا دے گا وہ طبیب مجھے
جس کے آنے سے جان جاتی ہے
گردشِ بخت ہے، کہ اس کی یاد
یاد کرنے پہ یاد آتی ہے
روز دکھتے ہیں مجھ کو خواب نئے
پھر قیامت بھی روز آتی ہے
چاند روٹھا ہے میرے آنگن سے
تیرگی شب کی بڑھتی جاتی ہے
وہ خفا مجھ سے کب نہیں ہوتا
یہ گھڑی روز روز آتی ہے
جب اجڑتا ہے میرا دل، تو امید
اس میں بستی نئی بساتی ہے
٭٭٭
غالبؔ کی زمین میں
دل کا دروازہ وا کرے کوئی
مجھ میں آ کر رہا کرے کوئی
دل شکستہ ہوں، بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی
چاہتا ہے جو، سب اسے چاہیں
اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
داستاں ہو گی داستانوں میں
کاش ہم سے وفا کرے کوئی
اور سہنے کی ہم کو تاب نہ ہو
درد اتنا دیا کرے کوئی
جب زمیں ہو نہ آسماں اپنا
خواہشِ زیست کیا کرے کوئی
ہم فنا ہو چکے محبت میں
اب تو محشر بپا کرے کوئی
دل تو گویا مرا سمندر ہے
اس میں دریا گرا کرے کوئی
جانے کیوں تم ہی یاد آئے ہو
جب بھی ہم سے ریا کرے کوئی
قہر بنتی ہے خامشی، جب بھی
ظلم حد سے سوا کرے کوئی
کر کے برباد اپنی ہستی کو
کیسے خود پر ہنسا کرے کوئی
جس طرح زیست ہم نے کاٹی ہے
اس طرح حوصلہ کرے کوئی
دل میں گہری جڑیں ہیں یادوں کی
ان کو کیونکر جدا کرے کوئی
داستاں عشق کی رقم ہو گی
کاش ہم سے وفا کرے کوئی
میری حالت نہ پوچھنا اس سے
جب بھی تم سے ملا کرے کوئی
رنجشیں پاس بھی نہ پھٹکیں گی
دل ذرا سا بڑا کرے کوئی
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ فرحان محمد خان
ناصر کاظمی کے لیے
یہ ضروری نہیں تب ہو کوئی
جب یہ خواہش ہو کہ اب ہو کوئی
زندگی یوں بھی گزر جاتی ہے
کیوں تقاضا ہے کہ ڈھب ہو کوئی
ایک ترتیب ضروری ہے بہت
کب میسر نہ ہو، کب ہو کوئی
خوب ہے حضرتِ شاعر کا نسب
شعر کا بھی تو نسب ہو کوئی
آنکھ بیکار بھی بھر آتی ہے
کیا ضروری ہے سبب ہو کوئی
بات کہنے کا سلیقہ بھی بجا
بات سننے کا بھی ڈھب ہو کوئی
کوئی ساقی ہو مرے ساقی سا
اور پیاسا بھی غضب ہو کوئی
باتوں باتوں میں اسی کی باتیں
یار تم لوگ عجب ہو کوئی
زندگی اس کی ہے فرحان میاں
جس کے سینے میں طلب ہو کوئی
٭٭٭
خاموش ہیں ششدر ہیں پریشان بہت ہیں
کیوں کر نہ ہوں دل ایک ہے ارمان بہت ہیں
ایسا یہاں کوئی نہیں اپنا جسے کہتے
یوں شہر میں کہنے کو تو انسان بہت ہیں
افسوس کہ ایمان کی بو تک نہیں آتی
یہ بات الگ صاحبِ ایمان بہت ہیں
کچھ علم کی دولت بھی عطا کر انھیں مولا
کہنے کو یہاں صاحبِ عرفان بہت ہیں
اخلاق و محبت سے یہ محروم ہے کیسے؟
اس شہر میں سنتے ہیں مسلمان بہت ہیں
لیتے نہیں ہم لوگ سبق اس سے کوئی بھی
قرآن میں حکمت کے تو فرمان بہت ہیں
بس میرؔ کا دیوان ہے گنجینۂ معنی
یوں شہر کی دوکانوں پہ دیوان بہت ہیں
٭٭٭
افسانے
پکا مکان ۔۔۔ طارق محمود مرزا
زینب نے آٹا گوندھ کر رکھا۔ صحن کے ایک کونے میں چار فٹ کی کچی دیواروں کے مختصر احاطے میں بنے مٹی کے چولہے میں اُپلے توڑ کر رکھے۔ ان کے بیچ میں چند سوکھے تنکے رکھ کر آگ لگائی تو اُپلوں میں سے دھُواں اٹھ کر پہلے زینب کی سانسوں میں سمایا اور پھر چولہے کے سامنے بچھی چارپائی پر بیٹھے چار بھوکے بچوں کے لیے امید اور مسرت بن کر پورے گھر میں پھیل گیا۔ زینب نے چولہے پر مٹی کی ہانڈی چڑھائی اور اس میں دال گلنے کے لیے ڈال دی۔ پیڑھی پر بیٹھی زینب نے اپنے گھنے سیاہ بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں گول کتابی چہرہ سونے جیسی رنگت اور کسا ہوا جسم کسی راہ گیر کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے کافی تھا۔ لگتا تھا کہ ایک چوہدرائن سارا دن آرام کرنے کے بعد شام کو کسل مندی دُور کر رہی ہے۔
جبکہ زینب نے پچھلے دو دنوں سے بستر کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ تو اوپر والے کی دین تھی جو جھونپڑے میں بھی لعل پیدا کر سکتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ایسے کئی لعل گدڑیوں میں گل سڑ جاتے ہیں۔ گرمی اور حبس سے زینب کا لباس اس کے جسم سے چپکا جا رہا تھا۔ اس لباس میں شامل میل اور کیچڑ زینب کو چبھ رہا تھا۔ ساون بھادوں کے اس گرم اور حبس زدہ موسم میں پسینہ سوکھنے میں نہیں آتا تھا۔ حالانکہ کئی دن سے مسلسل مینہ برس رہا تھا۔ ہر طرف جل تھل کا سماں تھا۔ نہروں اور نالوں سے پانی اُبل اُبل کر کھیتوں اور کھلیانوں میں بھر گیا تھا۔ جن کھیتوں میں فصل نہیں تھی وہ تالاب کی طرح نظر آ رہے تھے۔ مکئی اور باجرے کی فصلیں بھی گھٹنے گھٹنے تک پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
زینب کا گھر بھی انہی کھیتوں میں تھا۔ اس کے تنہا اور کچے گھر کے اردگرد بھی پانی ہی پانی تھا۔ ابھی تک تو زینب نے پانی گھر میں گھسنے نہیں دیا تھا۔ اگر سیلاب یوں ہی بڑھتا رہا یا زینب کی ہمت ختم ہو گئی تو یہ پانی کسی بھی لمحے اس اکیلے گھر کی کچی دیواروں میں راستہ بنا سکتا تھا۔ اسی خدشے کے پیش نظر زینب نے گذشتہ دو راتیں جاگ کر گزاری تھیں۔ دن میں بھی وہ گھر کے اردگرد زیادہ سے زیادہ مٹی جمع کر کے پشتہ بنانے کی کوشش کر تی رہی۔ اس کا بڑا بیٹا دس سالہ نور علی بھی اس کا ہاتھ بٹاتا رہا۔ انہوں نے کسی حد تک پانی کو گھر کی دیواروں سے دور کر دیا تھا۔ لیکن کھیتوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح زینب کو ہولائے دے رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کسی بھی وقت پانی کا یہ زور اس کے کچے گھروندے کو گرا کر بہا لے جا سکتا ہے۔
پچھلے دو دن اور دو راتوں سے تقریباً مسلسل بارش لگی ہو رہی تھی۔ یہ بارش دور دور تک ہو رہی تھی۔ اس لیے نالوں میں طغیانی آئی ہوئی تھی۔ دو دن اور دو راتوں سے زینب اس آفت کا تن تنہا مقابلہ کر رہی تھی۔ گھر میں زینب کے علاوہ اس کے چار بچے، ایک گائے اور ایک بکری بھی تھی۔ وہ بھی بے بسی سے زینب کو دیکھتے رہتے تھے۔ سب سے چھوٹا بیٹا شوکت علی صرف ڈیڑھ سال کا تھا۔ آٹھ سالہ نسرین اپنی بھوک کو بھول کر بھائی کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہتی۔
دال بن گئی تو زینب روٹیاں پکانے لگی روٹی پکاتے ہوئے زینب کا دھیان آنے والی رات میں بڑھتے ہوئے سیلاب سے گھر کو بچانے کی ممکنہ تدبیروں پر مرکوز تھا۔ سیلاب کے علاوہ دوسرے کئی گھمبیر مسائل بھی اُسے درپیش تھے۔ گھر میں آٹا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ اُدھر گاؤں جانے کے راستے زیرِ آب آ چکے تھے۔ راستے ہوتے بھی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا جسے دے کر آٹا خرید سکے۔ برسات کی وجہ سے کافی دنوں سے بھٹے کی مزدوری بھی نہیں ہو پائی تھی۔ خریف کی فصل تیار ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ یہ تھوڑی سی فصل بھی زینب کو گاؤں کے رحمدل چوہدری کی وجہ سے اُگانے کا موقع مل گیا۔ چوہدری نے ترس کھا کر زینب کو دو ایکڑ زمین بوائی کے لیے دے رکھی تھی۔ زمین کا یہ ٹکڑا اگرچہ کلر زدہ تھا لیکن زینب نے اپنی جفا کشی سے اسے قابل کاشت بنا دیا تھا۔ اس سے بمشکل ہی سہی، بچوں کے پیٹ پالنے کا کچھ سامان میسر آ گیا تھا۔ زمین کے اسی دور افتادہ ٹکڑے پر زینب کا گھر بھی تھا۔ یہ کچا کوٹھا پہلے زمیندار کے کسی مزارعے کا ڈیرہ تھا جس میں وہ جاڑوں کی ٹھنڈ میں بھینسیں باندھا کرتا تھا۔ زینب نے لیپ پوت کر اسے اپنا اور بچوں کا سر چھپانے کا ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ یہ کچا کوٹھا اس طرح کے سیلاب اور سردی کی شدید لہر کو روکنے کے لیے کافی نہ تھا۔ جاڑوں میں تو پھر بھی ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے رات گزر ہی جاتی تھی لیکن سیلاب کی اس ناگہانی آفت کے آگے بند باندھنا بہت مشکل تھا۔ اور یہ مشکل کام زینب پچھلے تین دنوں اور دو راتوں سے مسلسل تن تنہا سرانجام دے رہی تھیں۔ نزدیکی گاؤں اگرچہ صرف دو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ لیکن زینب کو امید نہیں تھی کہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ ایک تو سیلابی پانی نے راستے تقریباً بند کر دیے تھے دوسرا یہ کہ زینب اور اس کے بچوں کی فکر کرنے والا وہاں کوئی تھا بھی نہیں۔
حالانکہ اسی گاؤں میں زینب کے بچوں کے دو چچا اپنے پکے مکان میں خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی پکے مکان میں زینب بیاہ کر آئی تھی۔ اسی مکان میں سلطان علی نے زینب کو ملکہ بنا کر رکھا۔ اسی میں زینب کے یہ چار بچے پیدا ہوئے اور آج اسی گھر سے زینب کا تعلق ختم کر دیا گیا تھا۔ زینب کی پیدائش ضلع سرگودھا کے اس دورافتادہ گاؤں سے سینکڑوں میل دور بہاولپور کے علاقے میں ہوئی تھی۔ بچپن میں ہی ماں داغ مفارقت دے گئی۔ باپ نے اسے اور اس کی بہن کو غربت کے باوجود نازوں سے پالا۔ لیکن دس سال قبل وہ بھی ٹی بی کا شکار ہو کر چل بسا۔ یہ تو شکر ہے کہ جانے سے قبل اس نے زینب اور اس کی بہن کی شادیاں کر دی تھیں۔ زینب بیاہ کر سرگودھا چلی آئی اور اس کی بہن وہیں ایک غریب کاشت کار کی بیوی بن کر زندگی کے شب و روز بسر کرنے لگی۔ دونوں بہنوں کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ اسی وجہ سے ان کی برسوں تک ملاقات نہ ہو پاتی۔
بچوں نے کھانا کھایا ہی تھا کہ بارش پھر شروع ہو گئی۔ اس وقت تک اندھیرا بھی پھیل گیا تھا۔ زینب بچوں کو کمرے کے اندر لے گئی۔ لالٹین جلانے لگی تو یاد آیا کہ تیل تو کل کا ختم ہو چکا ہے۔ ناچار وہ مٹی کا چولہا ہی اندر لے آئی تاکہ اُپلوں کی جلتی آنکھ سے اندر کا اندھیرا کچھ کم ہو سکے۔ گھر کی کچی چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی۔ زینب نے دونوں چارپائیاں اس کونے میں ڈال لیں جہاں چھت کم ٹپکتی تھی۔ بچوں کو لٹا کر اس نے گائے اور بکری کو کچھ سوکھا چارہ ڈالا۔ یہ گائے اور بکری بھی اسی کمرے میں ایک طرف بندھے ہوئے تھے۔
ادھر سے فارغ ہونے کے بعد زینب سے کدال اور بیلچہ اٹھایا۔ باہر نکلنے لگی تو نور علی نے کہا ’’ماں تم دو دنوں سے نہیں سوئی! تم سو جاؤ میں جاگ کر دیکھتا رہوں گا کہ پانی ہمارے گھر میں تو داخل نہیں ہو رہا۔‘‘
اُپلوں کی ہلکی سی مدھم روشنی میں زینب نے اپنے بیٹے کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا لیکن وہ بولی تو اس کا لہجہ درشت تھا ’’ تم بہن بھائیوں کا خیال رکھو اور انہیں سلانے کی کوشش کرو۔‘‘
’’لیکن ماں …..‘‘ نور علی نے کچھ کہنا چاہا۔
زینب نے اسے ٹوک دیا ’’تم نے سنا نہیں! میں نے کیا کہا ہے! چپ کر کے سو جاؤ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی۔ اگر نیند آئی تو میں تھوڑی دیر آرام کر لوں گی۔‘‘ نور علی چپ ہو گیا۔
باقی بچے بھی خاموش تھے۔ اس عمر میں بھی وہ جانتے تھے کہ ماں ان سب کی زندگیاں بچانے کی جنگ میں مصروف ہے۔ زینب نے باہر کا چکر لگا کر دیکھا کہ پانی گھر کی دیواروں سے تو نہیں ٹکرا رہا۔ اس کے بعد وہ مغربی جانب والے کھیت میں داخل ہو گئی۔ اس طرف سے پانی کے بڑھنے کا اندیشہ زیادہ تھا۔ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں جا کر وہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ پانی کی سطح میں اضافہ تو نہیں ہو رہا ہے۔ سطح تقریباً اتنی ہی تھی جتنی آج سارا دن رہی۔ وہ اندر آئی تو چھوٹا بیٹا شوکت علی رو رہا تھا۔ ننھی نسرین اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اسے ماں کی مصیبتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ زینب جب بچے کو دودھ پلا کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ سارے بچے جاگ رہے ہیں لیکن خاموش ہیں۔ آج تقریباً سارا دن ہی بچے بھوکے رہے تھے۔ لیکن کسی کی زبان پر حرفِ احتجاج نہیں آیا۔ زینب کا دل بھر آیا لیکن وہ خاموش رہی۔
شوکت کو سلا کر زینب وہیں بچوں کی پائنتی بیٹھی رہی۔ بجھتے ہوئے چولہے میں اس نے چند اور اپلے ڈال دیئے کیونکہ اب خُنکی بڑھ گئی تھی۔ کمرہ دھوئیں سے بھر گیا۔ گائے اور بکری کے پیشاب کی بُو، دیواروں اور چھت سے آنے والی سیلا بی پانی کی بُو، اُپلوں کے جلنے کی بو اور گیلے بستر کی بُو سے کمرہ عجیب و غریب بوؤں کا مرکز بن گیا تھا۔ لیکن ان بوؤں کی فکر کسے تھی۔ یہاں تو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ زینب کو بچوں کی زندگی کی فکر تھی اور بچوں کو ماں کی مصیبتوں کا بخوبی اندازہ تھا۔
زینب نے اپنی زندگی میں خوش حالی کم ہی دیکھی تھی۔ پھر بھی وہ مطمئن زندگی گزار رہی تھی۔ اس زندگی میں بھونچال اس وقت آیا جب اس کا خاوند سلطان علی ٹریکٹر کے ایک حادثے میں اچانک جاں بحق ہو گیا۔ سلطان علی اور اس کے دو بھائیوں کی دس ایکڑ زمین تھی۔ کچھ اس کی آمدنی تھی اور کچھ انہوں نے چوہدری کی زمین پٹے پر لی ہوئی تھی۔ تینوں بھائی مل کر محنت کرتے تھے۔ ان کے بیوی بچے بھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔ اس طرح ان کا با آسانی گزارہ ہو جاتا تھا۔ سلطان علی اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ محنتی تھا۔ وہ فالتو وقت میں چوہدری کے بھٹے پر مزدوری کر کے اضافی آمدنی بھی حاصل کر لیتا تھا۔ وہ اپنے بیوی بچوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر اچھے اور خوشحال شہری بنیں۔ اسی وجہ سے اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کو گاؤں کے سکول میں داخل کروا دیا تھا۔ سلطان علی اور زینب کے خواب کچھ اور تھے مگر تقدیر کی منصوبہ بندی کچھ اور تھی۔
سلطان علی کی وفات کے بعد وقت کچھ اتنی تیزی سے بدلا کہ زینب کو سنبھلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ زینب کے دیوروں کی آنکھیں بدل گئیں۔ ان کی بیویوں کی زبانیں کھل گئیں اور ان کے بچوں کے ہاتھ زینب کے بچوں پر ستم آزمائی کے لئے آزاد ہو گئے۔ ابھی سلطان علی کو مرے تین ماہ بھی نہیں ہوئے کہ زینب کا ایک دیور رات کے اندھیرے میں زینب کے بستر میں گھس آیا۔ زینب نے اسے دو تھپڑ لگائے اور شور مچا دیا۔ دیور نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے الٹا زینب پر الزام لگا دیا۔ بڑے بھائی نے مرے ہوئے بھائی کی بیوہ کی بجائے زندہ بھائی کی حمایت کر دی۔ زینب کی بپتا سننے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ اس واقعے کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ سلطان علی کے دوسرے بھائی نے زینب سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ زینب کے سخت جواب پر اس نے بھی اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زینب پر بد چلنی کا الزام لگا دیا۔
دیوروں نے گھر سے نکالا تو زینب کے پاس اپنے اور بچوں کے سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ تو بھلا ہو گاؤں کے چوہدری کا، جس نے ترس کھا کر اپنی زمینوں پر ایک متروکہ ڈیرے پر اُسے رہنے کی اجازت دے دی۔ یہ کچا کوٹھا اگرچہ مویشیوں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن زینب کے لیے یہ بھی غنیمت تھا۔ اس نے بلا تردّد چوہدری کی یہ پیش کش قبول کر لی اور بچوں کا ہاتھ پکڑ کر اس ویرانے میں چلی آئی۔
ڈیڑھ سال اس طرح گزرا جیسے ایک عمر گزرتی ہے۔ زینب بچوں کے سر پر سائباں بن گئی۔ لیکن اس کا اپنا سر زمانے کی کڑی دھوپ میں ننگا تھا کہ اس معاشرے میں یہ سائبان صرف مرد ہی مہیا کر سکتا ہے۔ ایک تنہا اور بے آسرا عورت کے لیے گاؤں کے کئی مرد سہارا بن کر آگے بڑھے۔ وہ یہ کام سائبان بننے کے لیے نہیں بلکہ وہ زینب کی اکلوتی پونجی، اس کی عزت کی چادر اتارنے کے درپے تھے۔ ان سب کی سوچ بھی وہی تھی جو زینب کے دیوروں کی تھی۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ تنہا اور غریب عورت کیونکر اور کتنی مزاحمت کرے گی۔ لیکن ایک ایک کو منہ کی کھانی پڑی۔ ان میں مزارعے بھی تھے اور گاؤں کے کئی زمیندار اور ان کے حواری بھی شامل تھے۔ کئی کی گالیوں سے تواضع ہوئی اور کئی تھپڑوں سے نوازے گئے۔ اس دوڑ میں خود اس چوہدری کا بیٹا بھی شامل ہو گیا جس کی زمینوں میں زینب رہ رہی تھی۔
چوہدری منیر علی جب زینب کے ڈیرے پر گیا تو اس کی مونچھیں پھڑک رہی تھیں۔ چہرہ جوانی کی سرخی میں رنگین تھا۔ زینب نے چوہدری کا بیٹا دیکھ کر اس کی حسب توفیق آؤ بھگت کی۔ چوہدری منیر سمجھ رہا تھا کہ اس کی جوانی، دولت اور زینب کی بے بسی اور محتاجی گوہر مقصود کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیں گے۔ زینب نے جب اسے لسی کا گلاس پکڑایا تو اس نے زینب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ زینب نے گھبرائے بغیر کہا ’’چوہدری میرا ہاتھ چھوڑ دے۔‘‘
’’میرا نام چوہدری منیر علی ہے زینبے! میں جس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں چھوڑتا نہیں ہوں‘‘
زینب نے پھر کہا ’’چوہدری میں کہہ رہی ہوں میرا ہاتھ چھوڑ دے اور یہاں سے چلا جا‘‘
چوہدری منیر نے زینب کا ہاتھ چھوڑنے کی بجائے اور مضبوطی سے پکڑ لیا اور اٹھ کر اسے کمرے کی طرف کھینچنے کی کوشش کرنے لگا۔ یکایک زینب کا الٹا ہاتھ چوہدری منیر کے گال پر نقشہ بنا گیا۔ چوہدری منیر نے صدمے اور تکلیف سے گھبرا کر ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ غصے میں زینب کی طرف بڑھا۔ اس وقت تک زینب کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا آ چکا تھا۔ دوسرے ہی لمحے یہ ڈنڈا چوہدری منیر کے کاندھوں پر ایسے برسا جیسے بم برستا ہے۔ چوہدری منیر گھبرا کر پیچھے ہٹا تو دوسرا ڈنڈا اس کی ٹانگوں پر نشان بنا گیا۔ اب تو چوہدری منیر جان بچانے کے لئے اُلٹا بھاگا لیکن زینب نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ اسے مارتی اور بھگاتی گاؤں تک لے گئی۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مرد اور عورتیں کام چھوڑ کر یہ انوکھا تماشا دیکھ رہے تھے۔ زمینداروں کے ہاتھوں مزارعوں کی پٹائی کا منظر تو وہ اکثر دیکھتے رہتے تھے لیکن آج الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ آج ایک مزارع عورت اپنے زمیندار کے نوجوان بیٹے کی ڈنڈوں سے تواضع کر رہی تھی اور وہ بھی دن دیہاڑے سب کے سامنے!
یہ منظر اتنا انوکھا تھا کہ وہ انگشت بدنداں ہو کر محوِ تماشا رہے اور کسی نے آگے بڑھ کر زینب کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ چوہدری منیر مار کھاتا ہوا آگے آگے تھا۔ زینب اس کی پٹائی کرتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اور گاؤں کے لوگ ان کے پیچھے پیچھے تماشا دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ نہ جانے کسی نے بڑے چوہدری کو خبر کر دی تھی یا وہ خود ہی گاؤں سے باہر آ رہا تھا۔ چوہدری نے اپنی آنکھوں سے یہ انوکھا تماشا دیکھا۔ اس کا جوان بیٹا جسے دیکھ کر مزارعے تھر تھر کانپنے لگتے تھے، آج ایک مزارع عورت کے ہاتھوں بے دردی سے پیٹا جا رہا تھا۔ باپ کو دیکھ کر چوہدری منیر دوڑ کر اس کے قدموں میں جا گرا۔ اس کا لباس جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا اس کا بدن بھی کئی جگہوں سے لہولہان تھا۔ اس کا خون اس کے اُجلے براق لباس پر چمکتا نظر آ رہا تھا۔ چوہدری کو دیکھ کر پہلی دفعہ زینب کا ہاتھ رکا، لیکن اس کی آنکھوں سے شعلے رواں تھے۔ اس نے پھنکار کر کہا ’’چوہدری صاحب سنبھالیے اپنے بیٹے کو! اس نے آج میری عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اگر یہی کام کرنا ہوتا تو اپنا گھر کیوں چھوڑتی۔ اگر تم نے مجھے اسی لیے یہاں رہنے کی جگہ دی تھی تو مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں۔ میں آج ہی تمہارا یہ ڈیرہ چھوڑ دوں گی۔‘‘
چوہدری بیٹے کی دگرگوں حالت کو نظر انداز کر کے آگے بڑھا، اپنے کاندھے پر رکھی چادر زینب کے ننگے سر پر ڈالی اور بولا ’’تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا ہے، بالکل درست ہے۔ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آج کے بعد چوہدری منیر سمیت گاؤں کے کسی بھی مرد نے تمہاری طرف میلی نظر سے دیکھا تو اس کی آنکھیں میں نکالوں گا‘‘
بڑا چوہدری اگرچہ خدا ترس اور رحمدل انسان تھا لیکن پورے گاؤں کو یہ توقع نہیں تھی کہ ایک معمولی مزارع عورت کے لیے وہ اپنے بیٹے کی اتنی بے عزتی برداشت کر لے گا۔ مگر ان سب کی توقع کے برعکس چوہدری نے بیٹے کی طرف داری کرنے کے بجائے اسے قصور وار قرار دیا اور زینب کو شاباش دے کر واپس بھیج دیا۔
اس دن کے بعد گاؤں کے مردوں نے زینب کا پیچھا چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے زینب کے ساتھ ہر طرح کا تعلق بھی ختم کر دیا۔ در اصل لوگ زینب کے دیوروں اور چوہدری منیر سے ڈرتے تھے۔ ان میں سے بہت سوں کو زینب نے سبق بھی سکھایا تھا۔ زینب بالکل اکیلی ہو گئی۔ لیکن ڈرنے اور گھبرانے کی بجائے وہ بچوں کے لیے محنت مزدوری میں مصروف ہو گئی۔ گاؤں کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں ہر کام کرتی تھیں لیکن ہل چلانا صرف مردوں کا کام تھا۔ کبھی کوئی عورت ہل نہیں چلاتی تھی۔ یہ گاؤں کے رسم و رواج کے خلاف تھا۔ لیکن زینب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ دن کے اجالے کی بجائے رات کے اندھیرے میں ہل چلاتی تھی۔
دو ایکڑ زمین سے جو کچھ حاصل ہوتا آدھا زمیندار کو دیتی اور آدھے سے گزارا کرنے کی کوشش کرتی۔ یہ ان کے لیے کافی نہیں تھا۔ زینب نے بھٹے پر مزدوری شروع کر دی۔ اس طرح اس کا گزارہ نسبتاً آسانی سے ہونے لگا۔
لیکن جتنی دیر تک وہ مزدوری پر ہوتی اس کے بچے بھوکے اس کا انتظار کرتے رہتے۔ زینب کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ وقت جیسے تیسے گزر ہی رہا تھا کہ سیلاب کی یہ
مصیبت زینب کے لیے ایک بہت بڑا امتحان بن کر سامنے آ گئی۔
ایک ہفتے سے مسلسل بارشیں جاری تھیں۔ ہر جانب پانی ہی پانی تھا۔ کھیت تالاب بن گئے تھے اور راستے ندی نالے کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ پہلے چند دن تو زینب ٹپکتی چھت کی وجہ سے پریشان تھی لیکن پچھلے تین دن سے سیلابی پانی اس کے کچے گھروندے کو ڈھانے کے درپے تھا۔ اگر یہ گر جاتا تو زینب اور اس کے بچوں کا بچنا محال تھا۔ اگر بچ بھی جاتے تو بغیر چھت کے کہاں رہتے۔
اسی لیے زینب مسلسل تین دن سے اس سیلاب سے لڑ رہی تھی۔ کبھی گھر کے ایک طرف پشتہ بنانے کی کوشش کرتی اور کبھی دوسری طرف پانی کو کسی اور جانب دھکیلنے کے لیے نالیاں بنانے لگتی۔ کبھی چھت پر مٹی ڈال کر ٹپکنا کم کرنے کی سعی کرتی اور کبھی اپنے مختصر اثاثے کو خشک جگہ پر منتقل کرنے میں مصروف ہو جاتی۔ آج دن میں بارش کم ہوئی تھی۔ زینب کو اُمید لگ گئی کہ شاید سیلاب کم ہونا شروع ہو جائے۔ لیکن رات ہوتے ہی بارش پھر اسی زور و شور سے شروع ہو گئی تھی۔
زینب سوئے ہوئے بچوں کی پائنتی بیٹھی انہیں سوچوں میں غرق تھی۔ نیند، تھکاوٹ اور حبس سے اس کا جسم بے حال ہوا جا رہا تھا لیکن ابھی یہ جنگ ختم نہیں ہوئی تھی۔ آدھی رات کے گھپ اندھیرے اور تیز بارش میں وہ پھر کمر ہمت باندھ کر باہر نکل آ ئی۔ مغربی دیوار کے ساتھ پانی زینب کے بنائے ہوئے پشتے کو توڑ چکا تھا اور کچی دیوار کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔ زینب نے بیلچے سے وہاں مٹی ڈالنی شروع کر دی۔ گھر میں چند پتھر تھے۔ زینب نے وہ بھی شگاف میں ڈالے۔ اس طرح عارضی طور پر یہ خطرہ ٹل گیا۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا۔ سیلابی پانی کبھی گھر کی ایک دیوار میں راستے بنانے کی کوشش کرنے لگتا جب یہ راستہ بند ہوتا تو دوسری طرف یہ عمل جاری ہو جاتا۔
پو پھٹنے سے پہلے بارش رک گئی اس وقت تک زینب اتنی تھک چکی تھی کہ کسی بھی وقت گر کر بے ہوش ہو سکتی تھی۔ لیکن وہ اگلے دو گھنٹے گھر کے اردگرد گھوم کر اس کی رکھوالی کرتی رہی۔ اس دوران پانی کا زور کافی کم ہو گیا۔ دس بجے کے لگ بھگ چوہدری کا نوکر گھوڑا لے کر ادھر آ نکلا۔ گھوڑا گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبا بمشکل لیکن وہاں پہنچ ہی گیا۔ چوہدری کے نوکر نے جو منظر دیکھا وہ اس کی اور گاؤں والوں کی توقع کے برعکس تھا۔ گاؤں کے لوگ سمجھ رہے تھے کہ زینب اور اس کے بچے اب تک سیلاب کی نذر ہو چکے ہوں گے۔ گاؤں میں قیاس آرائیاں ہوتی رہیں لیکن کسی نے اتنی ہمت نہیں کی کہ جا کر ان کی خبر لیتا۔ آخر چوہدری کے ایک دلیر نوکر نورے نے یہ بیڑا اٹھایا اور بخیریت وہاں پہنچ بھی گیا۔
نورے نے کہا ’’زینب! گھبرانا نہیں اب خطرہ ٹل چکا ہے۔ کیونکہ پانی کا یہ ریلا نزدیکی نہر ٹوٹنے کی وجہ سے آیا تھا۔ اُس پر اب بند باندھ دیا گیا ہے۔ چوہدری صاحب کو تمہاری بہت فکر تھی۔ لیکن پانی نے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔ میں بہت مشکل سے یہاں تک پہنچ پایا ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ تم لوگ اب تک زندہ ہو گے۔ لیکن تم تو بڑی بہادر عورت نکلیں‘‘
زینب جس کا جسم کیچڑ سے لتھڑا اور تھکن اور نیند سے آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’بس اللہ نے ہماری حفاظت کی ہے‘‘
نُورا اپنے ساتھ روٹیاں اور سالن لے کر آیا تھا۔ اس نے یہ کھانا زینب اور اس کے بچوں کے سامنے رکھا۔ لیکن کسی نے کھانے کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا۔ نور علی ماں کا ہاتھ پکڑ کر بولا ’’ماں تم فکر نہ کرو میں جب بڑا ہوں گا تو تمہارے لیے پکا مکان بنواؤں گا‘‘
زینب کے ہونٹوں پر چار دن میں پہلی دفعہ مسکراہٹ آئی۔ اس نے کیچڑ بھرا ہاتھ نور علی کے سرپر رکھا اور اس کا ماتھا چوم لیا۔ اس کے سا تھ ہی زینب کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ دیوار سے ٹیک لگا کر سو گئی۔
٭٭٭
چُونے والی بھٹیاں ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا
شہر سدا رنگ جھنگ بھی عجیب ہو رہا ہے جو سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ کُوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ اس شہر کی کچھ عمارات تو ایسی ہیں جنھیں طوفان نوح ؑ کی باقیات قرار یا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں جھنگ سے ملتان جانے والی سڑک شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک کی یاد دلاتی ہے۔ اس قدیم سڑک کے مشرق میں نظام سقہ کے زمانے سے شہر بھر سے از خود بہہ کر آنے والا عفونت زدہ غلیظ پانی ایک جوہڑ میں اکٹھا ہو جاتا تھا جو ’’گندا ٹوڑا‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اِبن کھوتا نے اپنے سفر خامے ’’جو سوتا ہے وہی کھوتا ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ گندا ٹوڑا سے مشرق کی جانب ایک چوک ہے جہاں سکندر اعظم کے زمانے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گوجرہ جانے والی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ گندا ٹوڑا کے اطراف میں کُوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے رہتے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ہر ڈھیر کے نیچے سے کوئی بھڑوا، مسخرا، چربہ ساز، سارق، کفن دُزد، جعل ساز، پینترے باز یا حیلہ ساز نکلے گا۔ اسی چوک کے قریب عمارتوں اور دیواروں پر سفیدی کرنے والے بوسیدہ لباس پہنے خستہ حال محنت کش زمین پر بیٹھے اپنے اُن متوقع آجروں کے منتظر رہتے تھے جو اُنھیں یومیہ مزدوری پر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے وہاں پہنچتے تھے۔ سڑک پر چند دُکانیں تھیں جہاں کُوزہ گر اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے مٹی کے برتن، کتبے، دیواروں پر سفیدی کرنے والے رنگ اور چُونا فروخت کرتے تھے۔ اِن دکانوں سے کچھ دُور چُونا بجھانے اور چُونا لگانے والے سرِ شام ایک کھنڈر نما عمارت کے سامنے اکٹھے ہوتے۔ اسی مناسبت سے یہ چوک چُونا بھٹیاں چوک کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہیں پر شہر بھر کے طوطا چشم شعبدہ باز، چرب زبان سفہا، کینہ پرور اجلاف و ارذال اور بازی گر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور سادہ لوح لوگوں کو چُونا لگا کر اپنی تجوری بھرتے تھے۔ پس نو آبادیاتی دور میں سیلِ زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا لے گئے اَب یہاں نہ تو چُونے کی کوئی دکان ہے، نہ چُونے کی قدیم بھٹیوں کا کہیں سراغ مِلتا ہے مگر یہ جگہ آج بھی چُونے والی بھٹیاں کے نام سے مشہور ہے اور اس جگہ پر چُونا لگانے والے مختلف سوانگ رچا کر اور بھیس بنا کر آج بھی ہنہناتے پھرتے ہیں۔
پس نو آبادیاتی دور میں جب چُونے والی بھٹیاں کے نواح میں ایسے لُچے اور ٹُچے اکٹھے ہوتے جن کی منافقت کی کثافت کے باعث یہاں ہر طرف کراہت، ذلت، تخریب، نحوست، بے برکتی، بے توفیقی، بے حیائی، بے غیرتی اور بے ضمیری کے کتبے آویزاں ہو جاتے۔ بہرام ٹھگ کی سر پرستی میں کام کرنے والے ٹچگانِ حرص و ہوس کے اِس گڑھ سے جرائم کی متعدد دل دہلا دینے والی کہانیاں وابستہ ہیں۔ داستان گو بتاتے ہیں کہ سال 1958ء میں دسمبر کا مہینا تھا تُلا جاروب کش کو گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے ایک نو مولود بچی ملی جس کے منھ میں دانت تھے اور زبان کالی تھی۔ گمان ہے کہ توہم پرست والدین نے اس بچی کو منحوس سمجھ کر اِسے بر وقت ٹھکانے لگانے ہی میں عافیت سمجھی۔ منشیات سے کالا دھن کمانے والے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ٹھگوں کے کھُسے چاٹنے والے خسیس تشفی مَل کُنجڑے نے اِس عجیب الخلقت بچی کو گود لیا اور مشکوک نسب کی اِس نو مولود بچی کی منحوس بقا پر کمر بستہ ہو گیا۔ دُنیا جہان کی لعنت و ملامت سہنے والی اس بچی کا نام تف سہہ رکھا گیا۔ مہم جوئی، ابن الوقتی اور طالع آزمائی کو منافقانہ مہارت سے برتنے میں لحیم و شحیم تشفی مَل کُنجڑے کا کوئی شریک و سہیم نہ تھا۔ تشفی مَل کُنجڑے کی شخصیت کی خِست و خجالت اور عفونت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ جس طرف سے گزرتا نفرتوں کا سیلِ رواں اُس کی طرف اُمڈ آتا۔ اِس عادی دروغ گو کے سیاہ دِل کا کینہ سادیت پسندانہ حسد کا دفینہ اور معاندانہ ہوس کا سفینہ بن چکا تھا۔ اِس پیشہ ور ٹھگ، اُجرتی بد معاش، رہزن اور کرائے کے تسمہ کش نے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں، عیارانہ قلا بازیوں اور منافقانہ سفلگی کی مظہر سادیت پسندی کی قبیح شعبدہ بازیوں سے شرافت، انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے تصور کو اپنے خبط کی بھینٹ چڑھا دیا۔
پر زمانہ کی برق رفتاریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی رفتار تو پروازِ نور سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ جب تف سہہ نے جوانی کی حدود میں اپنا سبز قدم رکھا تو تشفی مل کنجڑے نے اِس کی شادی بہرام ٹھگ کے بیٹے رمزی ٹھگ سے کر دی۔ رمزی کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم تھی کہ اِس نے جھنگ کی نواحی بستی ’’قلی فقیر‘‘ میں کچھ عرصہ تپسیا کی اور سیال کوٹ میں پورن بھگت کے کنویں سے بھی سیراب ہوا۔ اپنی ریا کاری اور منافقت کی وجہ سے رمزی پورے علاقے میں بدنام تھا۔ اُس کا بیٹا پنوار شکھنڈی اور اُس کا شریک جرم ساتھ پتوار پکھنڈی دونوں علاقے کے بدنام ڈاکو تھے۔ ایثار و وفا اور خلوص و مروّت کے ریاکار، جعل ساز اور عیار نقیب کی حیثیت سے رمزی اور تف سہہ نے ٹھگی کی انتہا کر دی۔ پنوار شکھنڈی کی بہن مصبہو بنو بھی اپنے بھائی جیسی ہی تھی اور در پردہ وہ پتوار پکھنڈی کے دام اُلفت کی اسیر تھی۔ واقف حال لوگوں کا کہنا تھا کہ اِس خاندان کے سب درندوں کی آنکھ میں خنزیر کا بال تھا۔ بھڑوا پنوار شکھنڈی اپنے گھر کے بھیدی پتوار پکھنڈی کے ساتھ مِل کر اپنے بہنو ئیوں کی کمائی پر گُل چھرے اُڑاتا پھرتا تھا۔ پریم بھگتی کے قلزم میں غرق ہونے والی عیار دوشیزہ مصبہو بنو اپنے گھناونے قبیح دھندے کے باعث دغا و دُزدی، پیمان شکنی، کینہ پروری، بغض و حسد اور محسن کشی کا ایسا منحوس استعارہ تھی جسے شہر کے سب لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ پتوار پکھنڈی کے ساتھ مِل کر شہر کے باغات میں گھومتی اور نئے پنچھی اپنے جال میں پھانس لیتی تھی۔ تشفی کنجڑے، رمزی تلنگے اور بہرام ٹھگ کی اولاد مصبہو بنو اور پنوار شکھنڈی کو ذہنی افلاس کے مظہر جنسی جنون اور اخلاقی پستی کی ایک کریہہ علامت، کردار کی عفونت و سڑاند کی قبیح مثال اور جور و ستم کی لرزہ خیز داستان قرار دیا جاتا تھا۔
مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے زمانے میں بد نام طوائف لال کنور اور اس کی ہم پیشہ وہم مشرب و ہم راز سہیلی زہرہ کنجڑن نے غربت کی ایذا رسانی سے بو کھلا کر جس طرح لُوٹ مار کی اسی طرح مصبہو بنوا ور اس کی رذیل جرائم پیشہ سہیلیوں نے اپنے قحبہ خانے اور پورے علاقے میں منشیات اور جنس و جنوں کے تباہ کن دھندے میں ایسے خطرناک پھندے لگائے کہ اکثر نوجوان اِن رسوائے زمانہ طوائفوں کے عشوہ و غمزہ و ادا کے اسیر ہو گئے۔ مشکوک نسب کے ان سفاک سفہا کے بارے میں واقف حال لوگوں کا کہنا تھا کہ عیاش حسینہ مصبہو بنو نے جن رسوائے زمانہ آدم خور یورپی ڈائنوں اور چڑیلوں کی نامرادانہ اور بد بختانہ زیست کی تقلید کی اُن میں بیلے سٹار ( Belle Starr )، مول کٹ پرس ( Moll Cutpurse)، اینے بونی (Anne Bonny)، شارلٹ کورڈے (Charlotte Corday)، میری صورت( Mary Surratt)، ما بارکر (Ma Barker)، بونی واکر(Bonnie Parker) شامل تھیں۔ مصبہو بنو نے کئی سادہ لوح نو جوانوں کو منگنی کے سبز باغ دکھا کر انھیں مفلس و قلاش کر دیا۔ رمزی کے باپ بہرام ٹھگ کی بھی بے شمار پیاریاں تھیں جو اکثر اس کے ساتھ شریک جرم رہتی تھیں۔ اپنے باپ رمزی کا حوالہ دے کر مصبہو بنو یہ بات بر ملا کہتی کہ قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں جن میں ننھی، سانولی، پیاری، لالن، موہن،، گوری، چھبیلی، لالہ، مشتری، محبوب، مرغوب اور حیدر محل شامل ہیں وہ سب کی سب ہمارے خاندان کے آبائی قحبہ خانوں میں پروان چڑھیں۔ مصبہو بنو جیسی جعل ساز کا دیا سلائی کی ڈبیہ پر تن کر کھڑے ہونا اور ہمالہ کو ہیچ سمجھنا اُس کے احساسِ کم تری کی قابلِ رحم کیفیت سامنے لاتا ہے۔ اس کی شہرت تو محض ایسے بادل کا سایہ ہے جو کسی بھی وقت وسعت افلاک میں کھو جائے گا اور اس کے بعد اِسے معلوم ہو گا کہ کڑی دھُوپ کا سفر کیسے کٹے گا؟
سال 2020 کا آغاز ہوا تو کورونا کی عالمی وبا نے اپنے مسموم اثرات سے نظام کائنات اور معمولات زندگی کو درہم برہم کر دیا۔ سال 2020ء کے اختتام تک دنیا بھر میں اس مہلک وائرس نے لاکھوں گھر بے چراغ کر دئیے اور پندرہ لاکھ پینتیس ہزار ایک سو ( 1535100) افراد کی زندگی کی شمع گُل کر دی۔ اس خطرناک وائرس کے مسموم اثرات سے عالمی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور معمولات زندگی درہم بر ہم ہو گئے۔ عشرت کدوں، قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں میں ہر طرف اُلّو بولنے لگے۔ سیاہی وال میں واقع تف سہہ اور مصبہو بنو کا قحبہ خانہ جہاں ہر وقت عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے عیاش مے خواروں کا تانتا بندھا رہتا تھا، ویرانی کی حسرت ناک تصویر پیش کرنے لگا۔ اپنی تنہائیوں کو دیکھ کر تف سہہ اور مصبہو بنو تڑپ اُٹھتیں اور پرانے آشنا چہروں کو یاد کر کے کہتیں کہ وہ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے کہ بھری دنیا ان کا جی ہی نہیں لگتا اور تنہائیوں کو زہر رگ و پے میں سرایت کرنے لگا ہے۔ مصبہو بنو نے آہ بھر کر کہا:
’’ہم جیسی پیشہ ور جنسی کارکنوں کی زندگی کی تمام رُتیں کورونا وائرس کے باعث بے ثمر ہو گئی ہیں۔ اس جان لیوا وائرس کے خوف سے عشرت کدے سنسان ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں ہم قحبہ خانوں کی کارکنوں کو مفلسی نے دبوچ لیا ہے۔ تانیثیت کی رمز آشناڈیانا پئیرس (Diana Pearce) نے سال 1978ء اپنی کتاب میں غربت کی نسواں کاری ( The Feminization of poverty) کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ ڈیانا پئیرس نے اپنی کتاب جو کچھ کہا اُس میں قحبہ خانوں کی زندگی کے شب و روز کے بارے میں کم کم لکھا گیا ہے۔ حسین و جمیل عورت عالمِ شباب میں غربت کا عذاب کبھی نہیں سہہ سکتی۔ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے خرچی کے ذریعے میں اپنے بھائی پنوار شکھنڈی سے زیادہ کما لیتی تھی مگر اب میرا بھائی ٹھگی کی وارداتوں میں مجھ سے آ گے نکل گیا ہے۔ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گی کہ ڈیانا پئیرس نے عورتوں کی غربت کے بارے میں جو مفروضے پیش کیے ہیں وہ درست نہیں۔‘‘
’’اونہہ! یہ منھ اور مسُور کی دال۔‘‘ نائکہ تفسہ نے اپنی کالی زبان نکالی اور غرانے لگی ’’میں نے سنا ہے کہ وسکانسن یونیورسٹی امریکہ کی پروفیسر ڈیانا پئیرس نے امریکی عورتوں کی غربت کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے لیکن اُسے کیا معلوم کہ پس نو آبادیاتی دور میں ایشیائی عورتوں پر کیا صدمے گزرتے ہیں۔ اس خطے کے کلاسیکی ادب کی داستانوں کو کھنگال کر دیکھ لے لیں اس میں طوائفوں کی زندگی کے کرب کے سوا کیا رکھا ہے؟ گزشتہ نصف صدی سے میں دیکھ رہی ہوں کہ بھیڑئیے، خنزیر اور سگانِ آوارہ نے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی مجھ جیسی جنسی کارکن عورتوں کا جینا دشوار کر رکھا ہے۔ ہم ان درندوں کو اپنے حُسن و جمال کے جال میں پھانس کر انھیں اس طرح درماندہ کریں گے کہ یہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جائیں گے اور سسک سسک کر ہلاک ہوں گے۔‘‘
’’یہ تمھاری غلط فہمی ہے کہ تم اپنے حسن و جمال کے جال میں سرمایہ داروں کو پھانس سکتی ہو۔‘‘ پنوار شکھنڈی نے اپنی بہن کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا ’’کالا دھن کمانے والوں کی تجوری خالی کرنے کے لیے صرف جنس و جنون کے ہتھکنڈوں سے منھ کالا کرنا ہی کافی نہیں بل کہ اس کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ میں نے سٹے بازی، ٹھگی، چوری، ڈاکے اور فریب سے زر و مال سمیٹنے کے سیکڑوں طریقے اپنائے تب مجھے اس قدر مال و دولت حاصل ہوئی۔ جب سے کورونا کی عالمی وبا کے باعث قحبہ خانے بند ہوئے ہیں تب سے تم جیسی بیسیوں حسینائیں خوار و زبوں ہیں کوئی بھول کر بھی تمھارے قحبہ خانے کا رُخ نہیں کرتا۔‘‘
بُوڑھی نائکہ تف سہہ نے اپنے بیٹے پنوار شکھنڈی اور بیٹی مصبہو بنو کی باتیں سُن کر ٹسوے بہاتے ہوئے کہا:
’’میں ایک کہنہ مشق اور آزمودہ کار نائکہ ہوں اور زمانے کے کئی نشیب و فراز میرے سامنے ہوئے مگر اپنی زندگی میں حسین و جمیل عورتوں کی اتنی غربت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ آہ! کورونا کی عالمی وبا نے تو قحبہ خانوں سے وابستہ ہم جنسی کارکنوں کے لیے ایک جان لیوا عذاب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ عشرت کدوں، چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں سے ہمارے پرستار کیا گئے کہ فصلِ گُل بھی رخصت ہو گئی۔ اب تو خزاں کے سیکڑوں لرزہ خیز مناظر دیکھنے کے سوا باقی کچھ باقی نہیں رہا۔ عالمی وبا کورونا کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب صرف جسم فروشی ہی کافی نہیں اب مُحسن کُشی، پیمان شکنی، ضمیر فروشی اور ٹھگی کا دور آ گیا ہے۔‘‘
نیم عریاں لباس پہن کر سر عام دعوت گناہ دینے والی پینترے باز طوائف مصبہو بنونے سدا لال کنور، ادھم بائی، نور بائی، جاوید خواجہ سرا، اور ماہ لقا بائی چندا کی تقلید کو اپنا وتیرہ بنایا۔ اس چالاک اور سفاک طوائف نے اپنی نیم عریاں کلائیوں کو پھیلاتے ہوئے اور آسیبی آنکھوں کو مٹکاتے ہوئے کہا:
’’میری نانی کی دادی اُدھم بائی جو اپنے عہد کی بد نام طوائف تھی، اس نے اپنے جسم و جاں کے وسیلے سے بے پناہ کالا دھن کمایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ چمگادڑ جب محمد شاہ رنگیلے کے دور میں ملکۂ ہند بن کر قصر شاہی میں پہنچی تو سلطنت کے سب خزانے اس کے قبضے میں تھے۔ اس کی جوہڑ دِلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 1754ء میں اپنی سال گرہ کی تقریب پر اُس نے دو کروڑ روپے خرچ کیے۔ مجھے معلوم ہے کہ شہد کی مکھی کس طرح پھولوں سے مٹھاس کشید کر لیتی ہے اور اپنے چھتے کو شہد سے بھر لیتی ہے۔ میں عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے عیاشوں کو فریب دینے کے نئے انداز تلاش کرنے کی کوشش کروں گی۔ میں اپنی زندگی کی بتیس خزائیں دیکھ چُکی ہوں اَب میں اُن بُوڑھوں کو اپنے جال میں پھانسوں گی جو چراغ سحری ہیں۔ موجودہ دور کے نوجوان لڑکے رومان کے ہیجان میں مبتلا ہو کر جی کا زیان کرنے میں لگے ہیں۔ اُن کی جیب تو خالی ہے مگر دِل میں وصل کی ہزاروں خواہشیں لیے ہیں۔ ان کے دردِ فرقت کا علاج یہی ہے کہ اِن کے ضعیف والدین کی میراث اور زندگی بھر کی جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کیا جائے۔ میں ہاتھ کی صفائی دِکھا کر نوجوان لڑکوں کے ضعیف والدین کے گھروں کا صفایا کرتی رہتی ہوں۔‘‘
’’اَب حیلے بہانے چھوڑو اور محمد شاہ رنگیلے کی داستان محبت کو بھُول جاؤ۔ جہاں تک لُوٹ مار کا تعلق ہے تُو اُدھم بائی کی گرد کو بھی نہیں سکتی۔ ہوا میں گرہ لگانے اور خیالی پلاؤ پکانے کی بات بھی اچھی رہی! وہ ضعیف لوگ جو کمر باندھے ہوئے عدم کے کُوچ کی فکر میں ہیں وہ تمھاری فکر کیسے کریں گے؟‘‘ پنوار شکھنڈی نے اپنی طوائف بہن کو غصے سے دیکھا اور نفرت سے کہا ’’بوڑھے لوگ زندگی کے دُکھ بھوگ کر تھک جاتے ہیں اور وہ کسی مہم جوئی کے قابل نہیں رہتے۔ تم ٹھگی کے بارے میں مت سوچنا تمھارے پاس اب کچھ باقی نہیں تمھارے حسن و شباب کا چمن اب وقف خزاں ہو چُکا ہے۔‘‘
شہر کا بدنام تسمہ کش اور مے کش گنوار گھمنڈی جو نائکہ تفسہ کے قحبہ خانے میں جاروب کش کی حیثیت سے بلا معاوضہ خدمات انجام دیتا تھا پیہم ستم کشِ سفر رہنے کے باعث سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ہو گیا تھا۔ بائکہ تفسہ کے بیٹے پنوار شکھنڈی کے ساتھ اُس کی گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ یہ سب باتیں سُن کر تلملانے لگا اور بولا:
ابتدائے قحط ہے روتا ہے کیا
کورنا کے بعد دیکھو ہوتا ہے کیا
سال 2020ء کے آخری مہینا اپنی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ سہ پہر کا وقت تھا نائکہ تف سہہ نے اپنے قحبہ خانے میں سسلین مافیا سے تعلق رکھنے والے اُس گروہ کو جو اُس کے اشاروں پر کام کرتا تھا اپنے قحبہ خانے میں طلب کیا۔ زد خورو لُدھڑ، ناصف بقال، کرموں بھٹیارا، پنوار شکھنڈی، گنوار گھمنڈی اور پتوار پکھنڈی سب کچے دھاگے سے کھنچے چلے آئے۔ نائکہ تف سہہ نے آہ بھر کر کہا:
’’کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں زمانے کے سب انداز بدل گئے ہیں۔ ہمارے قحبہ خانے میں جہاں کبھی شِپر، کرگس، چُغد اور اُلّو کے پٹھوں کا جمگھٹا ہوتا تھا اَب وہاں اُلّو بولتے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں زر و مال بٹورنے کے نئے طریقے تلاش کرنے پڑیں گے۔ وہ لوگ جو میری جوانی کے دنوں میں مجھے سر آنکھوں پر جگہ دیتے تھے اب وہی لوگ مجھے ضعفِ پیری سے نڈھال بازاری شفتل سمجھ کر منھ پھیر لیتے ہیں۔ میں نے آزمودہ کار چِڑی ماروں سے سُنا ہے آزمائش اور اِبتلا کی گھڑی میں پرانے شکاری نئے جال لاتے ہیں، ضعیف گلوکار نئے ساز آزماتے ہیں اور نئے گیت سنا کر لوگوں کو مسحور کرتے ہیں۔ آؤ کورونا کی عالمی وبا کے بعد ہمارے دھندے میں بڑھتے ہوئے مَندے کا کوئی حل تلاش کریں۔‘‘
’’ہم کوہِ دغا و دُزدی اور مکر و فریب کی موری میں لگی سب اینٹوں کے راز جانتے ہیں۔ سال 2020ء میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے ٹھگوں کے ٹولے نے عام ڈگر سے ہٹ کر اور پامال راہوں سے بچ کر لُوٹ مار کی ہے۔‘‘ مصبہو بنو نے اپنی کالی زبان اپنے کریہہ ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کہا ’’میں نے بہو کی اداکاری کر کے ایک سو ریٹائرڈ بوڑھے سرکاری ملازموں کو لُوٹا ہے۔ اُن بُوڑھوں کو مِلنے والی جی پی فنڈ اور بیمہ کی رقم میں نے جھٹ منگنی کی صورت میں اُن کی بہو کا بھیس بنا کر اُن سے بٹور لی۔‘‘
یہ سنتے ہی سب ٹھگوں کی باچھیں کھِل گئیں اور اُنھوں نے اس بتیس سالہ طوائف کی ٹھگی کی بہت تعریف کی۔ سفاک ٹھگ پتوار پکھنڈی نے کہا:
ہم سے کیا ہو سکا ہے ٹھگی میں
تم نے تو خوب بے حیائی کی
اپنی بہن مصبہو بنو کی خود ستائی کو سُن کر گنوار انتھک پیچ و تاب کھانے لگا اور یوں ہرزہ سرا ہوا:
’’مصبہو بنو کی ٹھگی کے اس کھیل کا پُورا منصوبہ تو میں بناتا ہوں۔ مصبہو بنو کی فریب کاری کے ڈرامے کے سب مکالمے میں نے لکھے۔ بندریا کے رقص کو دیکھ کر تماشائی ہمیشہ مداری کی تعریف کرتے ہیں جس نے بندریا کو رقص مے اور ساز کی لے کے سب انداز سکھائے ہوتے ہیں۔ نائکہ تف سہہ جو نو سو چوہے ڈکارنے کے بعد اب گنگا کی یاترا کرنے کی فکر میں ہے اُس نے ہماری کبھی تعریف ہی نہیں کی۔ ہم جان جوکھوں میں ڈال کر زر و مال لُوٹتے ہیں مگر یہاں نائکہ تفسہہ کے قحبہ خانے میں جھابو جھبیل، ایاز و کڑما، نازو مسخرا، زد خورو لُدھڑ، ناصف بقال، کرموں بھٹیارا، پنوار شکھنڈی، گنوار گھمنڈی اور پتوار پکھنڈی جیسے نکھٹو بھڑوے گُل چھرے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ نو مفت خور لیموں نچوڑ اَب اپنا کہیں اور ٹھکانہ کر لیں ورنہ اِنھیں عدم کی بے کراں وادیوں میں پہنچا دیا جائے گا۔‘‘
‘‘گنوار انتھک تم تو میری تجوری کے وارث ہو، مجھے سب معلوم ہے کہ تم نے اور مصبہو بنو نے مِل کر درد مندوں اور ضعیفوں کو مکمل طور پر منہدم کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔‘‘ نائکہ تفسہہ نے کھسیانی بِلّی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’لیکن یاد رکھو جن نو ٹھگوں کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے یہ پچاس سال تک چُونے والی بھٹیوں کے پورے علاقے میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اپنی جوانی کے زمانے میں ان سفاک ٹھگوں نے قتل و غارت گری کی لرزہ خیز مثالیں پیش کیں۔ ان کی نو جوان بیویوں شباہت، ظلی، پونم، روبی، شعاع، سمن، شگن، ساحری اور شمی نے عشوہ و غمزہ و ادا کے تیر چلا کر ہزاروں نوجوانوں کو گھائل کیا اور لُوٹ مار سے سیکڑوں گھر ویران کر دئیے۔ آج یہ نو بوڑھے نا ہنجار بھڑوے بلا شبہ ناکارہ اور خستہ حال ہیں اور پریشاں حالی و درماندگی کے عالم میں ان کی بیویاں اور بیٹیاں بھی انھیں چھوڑ کر اپنے قحبہ خانے چلا رہی ہیں۔ میں نے کئی بار اِن کو چلتا کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ چکنے گھڑے اس قدر ڈھیٹ ہیں کہ دائم یہاں ہمارے قحبہ خانے میں پڑے ہیں۔ اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عالمی وبا کورونا کے بعد بڑھتی ہوئی گرانی کے اس دور میں یہ مفت کی روٹیاں توڑنے کے بجائے اپنے آبائی پیشے گداگری میں لگ جائیں۔ صرف اسی صورت میں یہ بوڑھے بھڑوے فاقہ کشی سے بچ سکتے ہیں۔ اِن میں سے ہر بھڑوا کل کاسۂ گدائی تھام کر شہر کے ہر چوک، مصروف گزر گاہوں اور بازاروں میں گھومے گا اور اِس طرح نہ صرف وہ اپنے لیے رزقِ حرام کا بندوبست کر سکیں گے بل کہ ہمارے لیے بھی مفت خوری کی ایک صورت نکل آئے گی۔ یہ اگر کچھ خست و خجالت کریں تو جیب تراشی اور نوسر بازی کا شغل بھی کر سکتے ہیں۔ کورونا کے بعد چُونے والی بھٹیاں کا ماحول جو سُونا سُونا سا ہے اب ان کے سبز قدم پڑنے سے وہاں ہر طرف پھر چُونا لگنا شروع ہو جائے گا۔‘‘
رسوائے زمانہ ٹھگ اور پیشہ ور نائکہ تف سہہ کی حقارت آمیز باتیں سُن کر سب بھڑوے اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر زار قطار رونے لگے اور آپس میں مشورے کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد پتوار پکھنڈی نے سب بھڑووں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
’’آج نو دولتیے نو جوانوں کی بے وفائی اور کج ادائی دیکھ کر گردہ مع کلیجہ اور پھیپھڑا ہمارے منھ کو آتا ہے۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ہماری جوانی میں تم نے ہمیں چُلّو میں اُلّو بنائے رکھا۔ اب تو ہم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چُکے ہیں اور کوئی کام کرنے کی سکت ہم میں موجود نہیں۔ اس حال میں تم نے ہماری پریشاں حالی، درماندگی، بے بسی اور لاچارگی کا صحیح حل نکالا ہے۔ جب مرگ نا گہانی پر ہی ہماری ہر توقع رہ گئی ہو تو ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہمارے بارے میں سچ تو یہی ہے کہ:
بھڑووں کے ساتھ لوگ کہاں تک نباہ کریں
لیکن نہ موت آئے تو بھڑوے بھی کیا کریں
نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے سے بے نیلِ مرام نکالے جانے کے بعد نو ضعیف بھڑووں کے ناکام و نامراد ٹولے نے بھکاری کا بھیس بنا کر چُونے والی بھٹیوں کے چوک اور اس سے ملحقہ سڑکوں کے کناروں پر ڈیرے ڈال دئیے۔ شام تک ہر بھڑوے کے کشکول میں ایک ہزار روپیہ اکٹھا ہو گیا تھا۔ اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز بھڑووں کو ساتھ لے کر پتوار پکھنڈی سرِ شام نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے میں جا پہنچا۔ جب اِس رذیل نائکہ نے دیکھا کہ بھکاریوں نے محض ایک دِن میں دس ہزار روپے کما لیے ہیں تو اُس کی عفونت زدہ باچھیں کھِل گئیں۔ اس نے غراتے ہوئے کہا:
’’تم سب کوہِ دغا کے صیاد ہو اپنے پیشے میں گریہ و زاری کرو اور مسلسل یہی کام جاری رکھو۔ کھانا مانگ کر کھاؤ اور ہمارے لیے بھی لے کر آؤ جو کماؤ وہ مجھ تک پہنچاؤ۔ رات کو یہاں سو جاؤ اورا ختر شماری کرو اگر کبھی غداری کی تو تریموں ہیڈ ورکس پر دریائے چناب کی طوفانی موجوں کے نہنگ تمھارے منتظر ہیں۔‘‘
چُونے والی بھٹیوں کے پاس ہی بشیر نامی ایک ضعیف معلم کے بارے میں نائکہ تف سہہ نے ساری معلومات اکٹھی کر لیں۔ اس نے اپنے لے پالک بیٹی مصبہو بنو اور بیٹے پنوار شکھنڈی اور گنوار انتھک کو اپنے پاس بُلایا اور ان کو ضعیف معلم بشیر کی ساری جمع پُونجی اور جائیداد بٹورنے کی مہم کے بارے میں ہدایت دیں۔
’’ریٹائرمنٹ کے وقت اس ضعیف معلم کو تیس لاکھ روپے ملے ہیں۔ یہ اپنے دس مرلے کے رہائشی مکان میں رہتا ہے اور اِس کے پاس پانچ تولے سونا بھی ہے۔ اس کے گھر میں گرم بستر، کمبل اور قیمتی برتن بھی ہیں۔ اس کے گھر کا سامان اور زیورات تو گنوار انتھک نقب لگا کر لُوٹ لے گا۔ اب رہ گیا مکان اور تیس لاکھ روپے تو وہ مصبہو بنو اس ضعیف معلم کی بہو کی ادا کاری کر کے اینٹھ لے گی۔ ہم کل ہی اس کے بیٹے کے ساتھ مصبہو بنو کی منگنی کریں گے۔ چونے والی بھٹیاں کے مکینوں اور اُن کے ہم پیشہ کمینوں کے لیے گانٹھ کے پُورے لوگوں کو چُونا لگانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘
عادی دروغ گو، سفاک قاتل اور پیشہ ور ٹھگ گنوار انتھک آج اپنی ساٹھویں ڈکیتی کی واردات پر نکلا تھا۔ اُس نے نقب زنی کے لیے درکار سامان نکالا اور اسلحہ بھی ساتھ لے لیا۔ وہ اپنے مسلح ساتھیوں کو کہہ رہا تھا کہ چُونے والی بھٹیاں کے مکین بے خبر سو رہے ہیں۔ دُور کسی اُجڑے کھنڈر اور سنسان ویرانے میں غول در غول شِپر اور چُغد شہر نا پرساں اور چُونا بھٹیاں کے بارے میں چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ ان طیورِ بد نوا کی آواز سُن کر اُس نے کہا اے طیورِ آوارہ، ناکارہ اور منحوس میرا یہ پیغام اِن غافل لوگوں تک پہنچا دو جو خچر اور استر بیچ کر اور مُردوں سے شرط باندھ کر سو رہے ہیں:
آج کی رات نہ رونا لوگو
آج ہم ساٹھواں گھر لُوٹیں گے
رات کا پچھلا پہر تھا گنوار انتھک اپنے دو جرائم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ ضعیف معلم بشیر کے کمرے میں نقب لگا کر داخل ہوا۔ نقب زنی کی واردات کو مکمل کرنے کے بعد مسلح ڈاکو سر پر گٹھڑیاں اُٹھائے باہر نکلے اور سیدھے نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے میں داخل ہو گئے۔ ضعیف معلم بشیر چند روز تو پریشان رہا مگر جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ چُونا لگانے والے احتساب سے بالاتر ہیں اور بھیڑوں کی حفاظت کی خاطر پالی جانے والی گلے کی باڑ کے گرد لیٹی کتیا نے بھیڑیوں سے ساز باز کر لی ہے۔
اِس بار مصبہو بنو نے اِس بار بھی ایک ریٹائرڈ معلم بشیر کو نشانہ بنایا۔ ضعیف معلم بشیر کا نوجوان بیٹا ساجد کمپیوٹر کا ماہر تھا، ساجد نے اپنے باپ کی تحقیقی تحریریں جن میں ضعیف معلم بشیر کا لکھا ہوا ’’دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ‘‘ کا پورا مقالہ شامل تھا اپنے قیمتی لیپ ٹاپ کمپیوٹر، یو ایس بی میں محفوظ کر لی تھیں۔ مصبہو بنو کو اپنی سندی تحقیق کے لیے ساجد کی کمپوز کی ہوئی تحریریں درکار تھیں مگر ان تک رسائی ممکن نہ تھی۔ ریٹائرڈ معلم بشیر کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا کہ اسے دنیا کے میلے راس ہی نہ آئے۔ چھ جولائی دو ہزار سترہ کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں ساجد کا نام بھی رقم تھا۔ گُل چین اجل نے ضعیف معلم بشیر کے دِل کے گلشن کا یہ حسین اور نو شگفتہ پھول توڑا تو اِس کا دِل ہی ٹُوٹ گیا۔ الم نصیب، جگر فگار اور تقدیر کا مارا ضعیف معلم بشیر، اُس کی اہلیہ، بیٹی اور چھوٹا بیٹا احسن جو لاہور میں ویٹرنری ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کر رہا تھا سب غرقابِ غم اور نڈھال تھے۔ ایسے میں مصبہو بنو اپنی ماں اور باپ کے ساتھ مرہم بہ دست پہنچی اور ساجد کے جسد خاکی کے سرہانے بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگی۔ اس اثنا میں ساجد کے کمرے سے اُس کا جو سامان پر اسرار طور پر غائب ہوا اُس میں دو قیمتی لیپ ٹاپ، پانچ یو ایس بی، دو ڈیجیٹل کیمرے، موبائل فون، گھڑی اور رقم والا پرس شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں ساجد نے ٹیوشن پڑھا کر خریدی تھیں۔
نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے صدمے کے بعد ضعیف معلم بشیر اور اُس کی اہلیہ کی حالت بگڑنے لگی۔ ماہرین امراض قلب نے مشورہ دیا کہ سمے کے سم کے مسموم ثمر سے بچنے کے لیے ان کی توجہ کسی خوشی کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے۔ مصبہو بنو اور اُس ماں نے چارہ گری کی آڑ میں اس کی منگنی ضعیف معلم کے بیٹے احسن سے کر دی۔ بہو کی اداکاری کرنے میں مصبہو بنو اپنی مثال آپ تھی وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ضعیف معلم کو مائل بہ کرم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ضعیف معلم کے گھر کے آنگن سے قزاق اجل نے سب کچھ لُوٹ کر اُسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا تھا۔ ضعیف معلم کے گھر سے اپنا مطلوبہ مقالہ لُوٹنے کے بعد مصبہو بنو نے ایک جامعہ میں جمع کرا دیا۔ سرقہ شدہ مقالہ کی بنا پر ایم فل کی ڈگری ہتھیانے کے بعد وہ کسی جامعہ میں تدریس اُردو پر مامور ہو گئی۔ وقت کے اس المیے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کے اس بے حس معاشرے میں جاہل اپنی جہالت کا انعام ہتھیا کر ہنہناتے پھرتے ہیں اور بونے اپنے تئیں باون گزے بن کر اہلِ کمال کی توہین، تذلیل اور تضحیک کر کے آسمان پر تھُوکتے رہتے ہیں۔ عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن اور بُوم و شِپر گھُس گئے ہیں اور کوئی اِنھیں تیر احتساب سے چھلنی کرنے والا موجود نہیں۔ ضعیف معلم بشیر کے بیٹے احسن کے ساتھ جعلی منگنی کے بعد مصبہو بنو نے اپنی بڑی بہن کی دوسری شادی، بہنوں کی اولاد کی پیدائش کے وقت سرجری کے اخراجات، اپنے والد کے علاج اور اپنی شادی کی تیاری کے اخراجات کے لیے ضعیف معلم سے جی پی فنڈ سے ملنے والی ساری رقم بٹور لی اور ساتھ ہی، انعامی بانڈ اور مکان بھی ہتھیا لیا۔ بتیس سال کی عمر میں پہنچتے پہنچتے مصبہو بنو وہ متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو چُونا لگا چُکی تھی۔ پر اسرار انداز میں منگنیاں کرنے کے بعد اُن رشتوں میں مینگنیاں ڈالنے اور ہر قسم کے عہد و پیمان کی دھجیاں اُڑانے میں مشکوک نسب کے اِن درندوں کا کوئی ہم سر نہ تھا۔ سفاک ٹھگوں نے ایک اور بے بس انسان کا گھر لُوٹ لیا اور اُسے در بہ در اور خاک بہ سر کر دیا۔ سب حقائق خیال و خواب ہونے کے بعد اب ضعیف معلم بشیر اپنی حسرتوں پر آ نسو بہانے کے لیے زندگی کے دِن گِنتا رہتا۔
چُونے والی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے پرانے شکاری نیا جال لے کر شکار کی تلاش میں نکل پڑے۔ اس بار چُونا بھٹیاں سے کچھ دُور سیاہی وال کا ایک کھرب پتی بزاز اُن کے نشانے پر تھا۔ بہو کی اداکاری کرنے والی مصبہو بنو نے سال دو ہزار اکیس کے آغاز میں اپنی جعلی منگنیوں کی ڈبل سنچری پوری کر لی۔ تف سہہ اور اس کی اولاد نے برج الضعیفہ میں اپنا وسیع فلیٹ خرید لیا۔ ہر بڑے شہر کے نواح میں ان کے فارم ہاؤس موجود تھے۔ سال دو ہزار بیس بیت گیا اس کے بعد نیا سال اپنے ساتھ کورونا کی دوسری لہر کی صورت میں ہلاکت خیزیوں کی منحوس خبریں لایا۔ چُونا بھٹیاں کے مکین شدت سے اُس روز کے منتظر تھے جب کورونا وائرس سے کہیں بڑھ کر خطرناک تف سہہ اور مصبہو بنو کے زینۂ ہستی سے اُترنے اور زمین کے بوجھ کے نہ ہونے کی ہونی کی اطلاع سُنیں۔
چُونا بھٹیاں کے اطراف و جوانب میں بھیک مانگنے والے نوبھڑوے بھکاریوں کا ٹولہ اپنی دُکھ بھری داستان کس سے کہتا؟ ایک شام پتوار پکھنڈی نے آٹھ آ ٹھ آنسو روتے ہوئے اپنے آٹھ ساتھی بھکاریوں سے کہا:
’’ان تین پانچ کرنے والی طوائفوں اور اُن کے پروردہ سازشی درندوں نے ہمیں بر باد کر دیا، اب ہماری حسرتوں کا شمار کون کرے گا؟ آج چُونے والی بھٹیوں کی سڑکوں پر ہم ناشاد و ناکارہ پھرتے ہیں اور کوئی ہمیں منھ نہیں لگاتا۔ اگر چُونا بھٹیاں کے گردو نواح میں بیٹھ کر بھیک مانگ کر ہی گزر اوقات کرنا ٹھہرا ہے تو اِس شہر کے فٹ پاتھ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ چُونے والی بھٹیاں بہت مہمان نواز ہیں ہم سب رات کو کسی دکان یا سرائے کے تھڑے کے نیچے سگانِ راہ کے مانند لیٹ جائیں گے۔ آج سے ہم تف سہہ کے عقوبت خانے، قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا رُخ نہیں کریں گے۔‘‘
چُونا بھٹیاں چوک میں بھیک مانگنے والے سب بھکاریوں نے اس بوڑھے رہزن، سفاک ڈاکو اور جلاد منش تسمہ کش کے خیالات سے اتفاق کیا اور نائکہ تف سہہ سے ترک تعلق کی ٹھان لی۔ نائکہ تف سہہ کی فرمائش پر پتوار پکھنڈی نے قحبہ خانے میں خدمت کے لیے شام کے وقت کچھ دیر وہیں رکنے پر رضا مندی ظاہر کر دی مگر رات گئے وہ اپنے ساتھی بھکاریوں کے پاس چلا جاتا تھا اور سب بھڑووں کی سری کھُرا واڑہ سرائے کے تھڑے کے نیچے رات بسر ہوتی۔ چُونا بھٹیاں کے جرائم پیشہ گروہ کے مقبول ڈیرے ’’پوٹلی پٹھورا ہوٹل‘‘سے نائکہ تف سہہ اور اس کے قحبہ خانے کی طوائفوں اور نوجوان بھڑووں کے لیے رات کا کھانا اور مے عنابی لانا پتوار پکھنڈی کے ذمے تھا۔
ایک شام تف سہہ نے اپنے جرائم پیشہ بیٹوں پنوار شکھنڈی اور گنوار انتھک کو سمجھاتے ہوئے کہا:
’’پتوار پکھنڈی جو میرے خاندان کا شریک جُرم ساتھی رہا ہے، بدلتے ہوئے حالات میں وہ اور اس کے ساتھی بھڑوے ہم سے الگ ہو گئے ہیں۔ یہ بھڑوے جب سے ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں انھوں نے سری کھُراواڑہ سرائے کے تھڑے کے نیچے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ عورتوں کی فروخت، سمگلنگ اور منشیات فروشی کے سلسلے میں ہمارے دھندے سے متعلق اِن کے پاس ہمارے بہت سے راز ہیں۔ اِن کو ٹھکانے لگانا بہت ضروری ہے۔ یہ بھڑوے جانتے ہیں کہ ہم نے اپنا سونا، چاندی اور ہیرے جواہرات کہاں چھُپا رکھے ہیں۔ اس لیے جلد از جلد اِن کی نیست و نابود کر دینا چاہیے۔‘‘
’’میں کل آدھی رات کے بعد سری کھرا واڑہ سرائے کے تھڑے کے نیچے جہاں یہ سب بھڑوے سوتے ہیں پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں گا۔‘‘ پنوار شکھنڈی نے غراتے ہوئے کہا ’’ہماری بِلّی اور ہمیں میاؤں۔ یہ بات اب برداشت نہیں ہو سکتی۔ میں نے دنیا دیکھی ہے، کل جو رات آئے گی یہ سب بھڑوے اُس کی صبح کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔‘‘
’’یہ ضروری کام راز داری سے کرنا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ورنہ بھڑوے بچ نکلیں گے۔ اِن کو ملیا میٹ کر دو اور انھیں عبرت کا نشان بنا دو۔‘‘ تف سہہ نے اپنے بیٹوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ’’پتوار پکھنڈی اور اُس کے ساتھی بُڈھے کھوسٹ بھڑوے طویل عرصہ تک جنسی جنوں میں مبتلا رہے اور عزتوں کے لٹیروں کے آلۂ کار بنے رہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں بھی جوانی کے زمانے میں ان کی دہشت، جنسی جنون اور ہوس کے شر سے محفوظ نہ رہ سکی اَب پتوار پکھنڈی اور اُس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بھڑووں کی بیٹیاں حیلے بہانے سے یہاں لاؤ اور اِس قحبہ خانے کی رونق بڑھاؤ۔‘‘
یہ سب باتیں پتوار پکھنڈی سُن چُکا تھا مگر اُس نے یہ تاثر دیا کہ وہ اِن کے قتل کی سازش سے لاعلم ہے۔ اگلی شام رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی اسی دوران میں پتوار پکھنڈی تف سہہ کے قحبہ خانے میں داخل ہوا۔ پتوار پکھنڈی حسب معمول پوٹلی پٹھورا ہوٹل سے کھانا لے کر تف سہہ کے قحبہ خانے میں داخل ہوا۔ اُس نے معمول کے مطابق ایک کلو مرغ اور دو کلو بکرے کے گوشت سے تیار کیے گئے کڑاہی گوشت سے بھرا پلاسٹک کا ڈبہ اور گرما گرم روٹیوں کا لفافہ نائکہ تف سہہ کے سامنے میز پر رکھا اور خاموشی سے قحبہ خانے سے باہر نکل آیا۔ قحبہ خانے سے بلند ہونے والے طوائفوں اور عیاش نوجوانوں کے قہقہوں کی گونج دُور تک پتوار پکھنڈی کا تعاقب کرتی رہی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ رات نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے میں خوشیوں کا پیغام لائی ہے۔ قحبہ خانے میں موجود سب لوگ کھانے پر ٹُوٹ پڑے اور جی بھر کر شراب پی۔ کھانا کھاتے ہی تف سہہ کے قحبہ خانے میں موجود سب ٹھگوں اور طوائفوں کی طبیعت خراب ہونے لگی اور وہ منھ کے بَل زمیں پر جا گرے اور زمین پر ایڑیاں رگڑنے لگے۔ سب کے منھ سے جھاگ بہنے لگا اور آنکھیں باہر نکل آئیں۔ جب رات ڈھلی تو قحبہ خانے کے سب مکین اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ صبح ہوئی سُورج کی پہلی کِرن سری کھرا واڑہ سرائے پر پڑی تو سب بھڑوے مسکراتے ہوئے تھڑے سے مطمئن و مسرور باہر نکلے اور نئی صبح کے ماحول کا جائزہ لینے لگے۔ فضا میں طائران خوش نوا چہچہانے لگے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ جرائم پیشہ ٹھگوں کی مرگ انبوہ پر اظہار اطمینان کر رہے ہیں۔ چُونے والی بھٹیاں کے چوک سے ایک برات گزری سازندے نے ڈھول کی تھاپ پر یہ گیت الاپا:
جگ والا میلا یارو تھوڑی دیر دا
ہنسدیاں رات لنگھے پتا نہیں سویر دا
٭٭٭
جنرل کی پوتی ۔۔۔ داؤد کاکڑ
جنرل صاحب کی پوتی اغوا ہو چکی تھی اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ملک کی نہایت طاقتور آرمی کے ریٹائرڈ جنرل جو گزشتہ پانچ سالوں سے مغرب میں آسودہ حال تھے واپس اپنے ملک پہنچ چکے تھے۔ ان کی پندرہ سالہ پوتی کو اغوا ہوئے ابھی اڑتالیس گھنٹے ہی گزرے تھے لیکن ان کے بیٹے اور بہو کی حالت غیر تھی۔ جنرل صاحب نے واپس پہنچتے ہی اغوا کاروں کے نام اعلان کروا دیا کہ ان کی پوتی کو فوراً سے پیشتر واپس گھر پہنچا دیا جائے اور بغیر کوئی تکلیف دیئے ورنہ وہ اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے اغوا کاروں کو ان کے بلوں سے نکال لیں گے اور انھیں عبرت کا نشان بنا دیں گے۔
جنرل صاحب کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور اعلان کے چند گھنٹوں کے بعد ہی موصول ہونے والے ایک لفافے نے سنسنی پھیلا دی۔ لفافہ کھولتے ہی جنرل صاحب جیسے ہوش میں آ گئے۔ لفافے میں ایک خون آلود انگلی کی تصویر تھی جس کی پشت پر لکھا تھا، ” آپ کی پوتی کی پنکی "۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر شہر بھر کی پولیس فورس حرکت میں آ گئی۔
اگلے دن جنرل صاحب کو دوسرا لفافہ موصول ہوا جس میں ایک اور انگلی کی تصویر تھی جس کی پشت پر درج تھا، "آپ کی پوتی کی دوسری پنکی”
اب جنرل صاحب کی حالت با قاعدہ غیر ہونے لگی۔ انھیں احساس ہوا کہ ان کا پالا کسی عام آدمی یا گروہ سے نہیں تھا اور یہ کوئی اغوا برائے تاوان جیسا کیس بھی نہیں تھا بلکہ کسی قسم کی انتقامی کاروائی تھی۔ لفافوں پر بھی سوائے جنرل صاحب کے نام کے کچھ بھی نہیں لکھا ہوتا تھا۔ بس سادہ سا بڑا لفافہ اور اس پر جنرل صاحب کا نام۔ کون کہاں سے آتا اور کیسے خاموشی کے ساتھ لفافہ چھوڑ کر غائب ہو جاتا، کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ انھیں احساس ہوا کہ وہ اب جنرل نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت ایک عام شہری کی تھی۔
اس احساس نے انھیں ایک عام شہری کی طرح سوچنے پر مجبور کر دیا اور انھوں نے اغوا کاروں کے نام اعلان کر دیا کہ اپنی پوتی کے حصول کے لئے وہ ان کی ہر شرط ماننے کے لئے تیار تھے۔
تیسرے دن پھر لفافہ آیا جس میں ان کی پوتی کی ایک اور انگلی کی تصویر تھی۔ تصویروں کی جدید تکنیکی بنیادوں پر جانچ پڑتال کی گئی تو تصاویر اصلی انگلیوں کی ثابت ہوئیں۔ جنرل صاحب کی بہو نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ تصاویر میں دکھائی گئی انگلیاں ان کی بیٹی ہی کی تھیں۔
جنرل صاحب کی پوتی ان کے اکلوتے بیٹے کی اکلوتی اولاد تھی اور ان کی بہو مزید بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ دونوں میاں بیوی اسی پر راضی خوشی زندگی سے سمجھوتہ کر چکے تھے۔
بچی کے اغوا کے بعد ماں پر بے ہوشی کے کئی دورے پڑ چکے تھے۔ باپ کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی لیکن بیوی کی ڈھارس بندھا نے کے لئے وہ اپنے آپ پر قابو رکھے ہوئے تھا البتہ گزشتہ چند دنوں میں وہ اپنے باپ کے ساتھ کئی جھڑپیں کر چکا تھا۔ وہ اپنی بچی کی گم شد گی کا ذمہ دار جنرل صاحب کو ٹھہرا رہا تھا۔ یہ پہلی بار تھی کہ وہ باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ گویا اب جنرل صاحب بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما تھے۔
اب تک پورے ملک کی پولیس فورس حرکت میں آ چکی تھی لیکن اغوا کاروں سے متعلق کسی طرح کی کوئی معمولی سی ٹپ بھی نہیں مل رہی تھی۔
اغوا اور لفافوں کی خبریں ملک کے کونے کونے میں تو زبان زد عام ہو ہی چکی تھیں اب ملک سے باہر بھی پھیل رہی تھیں۔
چوتھے دن کوئی لفافہ نہیں ملا لیکن پانچویں دن لفافہ ایک نئے انداز سے ملا۔ لفافہ کسی نامعلوم طریقے سے اس علاقے کی ایک فروٹ ریڑھی میں رکھا مل گیا۔ پولیس کو خبر پہنچی تو وہ لفافہ کے ساتھ ریڑھی بان کو بھی اٹھا کر لے گئی لیکن پھر اگلے دن ریڑھی بان کو چھوڑ دیا کہ اس بیچارے کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ لفافہ اس کی ریڑھی میں کون رکھ گیا تھا۔
لفافوں کا سلسلہ بند نہ ہوا اور روزانہ ایک نیا لفافہ لوگوں کو کہیں نہ کہیں رکھا مل گیا اور ہر لفافہ میں جنرل صاحب کی پوتی کی ایک خون آلود انگلی کی تصویر ہوتی یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی دس انگلیوں کی تصاویر موصول ہو چکی تھیں۔
اب تک پولیس فورس کے ساتھ نہ صرف ملک بھر کے سکیورٹی کے سارے ادارے شامل ہو چکے تھے بلکہ ملک کا سب سے حساس ادارہ بھی میدان میں آ چکا تھا کہ آخر جنرل انہی کی فیملی کا بندہ تھا۔ ملک کے کونے کونے میں چھاپے مارے جا رہے تھے۔ سیکڑوں لوگ گرفتار کئے جا چکے تھے جن میں عادی مجرم بھی تھے اور عام سفید پوش لوگ بھی جو محض شک و شبہ کی وجہ سے زیر عتاب آ گئے تھے۔
جنرل صاحب کے گھر میں ایک الگ سے جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جنرل صاحب کا بیٹا اور بہو دونوں ان کے منہ پر انہیں مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ پانچ برس پہلے ریٹائر ہونے سے قبل ملک میں سیاسی تبدیلیاں لانے والے جنرلز میں وہ بھی شامل تھے اور یوں سیاسی مخالفین اور سوال پوچھنے والے صحافیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والوں میں بھی ان کا نام آتا تھا۔ اپنی بیٹی کا اغوا وہ انہی ابتر حالات کا شاخسانہ سمجھتے تھے۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ باپ بیٹا اور بہو میں لڑائی شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ جنرل صاحب کی اپنی حالت بھی اتنی اچھی نہیں تھی لیکن سابق فوجی ہونے کے ناطے وہ خاصے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ البتہ اب ان کی جارحانہ اور فوجی جنرل والی رعونت سے بھر پور خُو میں خاصا فرق آ چکا تھا اور ان کی حالت ایک ہتھیار ڈالے ہوئے سپاہی کی سی تھی۔
جنرل صاحب اور ان کی فیملی کے ساتھ ساتھ اغوا شدہ لڑکی کی تلاش میں سرگرم تمام اداروں کے لئے ایک بات بڑی تکلیف دہ تھی اور وہ یہ کہ اغوا کاروں کی طرف سے اب تک کسی قسم کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی گئی تھی بلکہ ان کی طرف سے کس قسم کا کوئی پیغام بھی نہیں آیا تھا۔ ان اداروں نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے تمام تر طریقے بروئے کار لاتے ہوئے اغوا کاروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اب تک ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔ جنرل صاحب نے اپنی شناسائی اور تعلقات استعمال کرتے ہوئے ایک فہرست بھی تیار کر کے اداروں کے حوالے کر دی تھی۔ یہ فہرست ان افراد کی تھی جو ان کے دور بربریت میں ان کے حکم پر بہیمانہ ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن پولیس اور اداروں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا کہ ان میں سے بے شمار لوگ تو ملک سے باہر جا چکے تھے۔ کئی مر چکے تھے اور جو باقی بچے تھے ان میں بھی اکثریت معذوری کی زندگی گزار رہے تھے۔ مختصر یہ کہ تلاش بسیار کے باوجود اداروں کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔
پھر یوں ہوا کہ اچانک خاموشی چھا گئی۔ لفافے آنا بند ہو گئے۔ جوں جوں دن گزرتے گئے جنرل صاحب کی اذیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک- دو -تین- چار- پانچ دن گزر گئے اور نہ ان کی پوتی کی کوئی خبر ملی اور نہ ہی کوئی لفافہ ملا۔ جنرل صاحب کے اعصاب اب جواب دے گئے تھے۔ وہ ٹوٹ گئے تھے۔ پھر دوستوں خیر خواہوں اور حساس ادارے کے مشورے پر جنرل صاحب ٹی وی پر آئے اور رو روکر اپنی پوتی کی زندگی کی بھیک مانگی۔ اغوا کاروں کے لئے عام معافی کا وعدہ کیا اور ان کو منہ مانگا تاوان ادا کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ کیمرے کے سامنے بولتے ہوئے جنرل صاحب رو پڑے بلکہ سارا پیغام بھی رو رو کر ریکارڈ کروایا۔
اذیت سے بھر پور ایک اور ہفتہ بغیر کسی قسم کی پیش رفت کے گزر گیا۔ اس عرصے میں جنرل صاحب کے اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ تعلقات اس حد تک پہنچ گئے کہ بیٹے نے باپ کو گھر سے نکال کیا۔ جنرل صاحب تو ویسے بھی ٹوٹ چکے تھے، اس حادثے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور وہ ہسپتال پہنچ گئے۔ چند دن تو مار فین کے زیر اثر ذہنی دباؤ کی کمی سے حالت قدرے بہتر ہوئی لیکن پھر ہوش میں آتے ہی اپنی پوتی کا پوچھا جس کا خاطر خواہ جواب نہ ملا تو جنرل صاحب مرجھا سے گئے۔ اسی رات ان کو دل کا دورہ پڑا اور ان کی جان کے لالے پڑھ گئے۔
اس خبر نے بیٹے کے دل میں باپ کے لئے کوئی نرم گوشہ پیدا نہ کیا کہ وہ بیٹی کی گمشدگی کا ذمہ دار صرف اور صرف اپنے باپ کو سمجھتا تھا۔
ایک ہفتہ حالت نزع میں رہنے کے بعد جنرل صاحب کی حالت اچانک سنبھلنے لگی۔ ڈاکٹرز ان کی حالت میں اس غیر متوقع تغیر پر خوش تو تھے لیکن حیران بھی تھے۔ دو تین دنوں میں جب ان کی حالت پہلے سے کئی بہتر ہو گئی اور انھوں نے آنکھیں کھولیں تو ان کا بیٹا ان کے سامنے کھڑا تھا اپنی بیٹی کے ساتھ۔
جنرل صاحب کی نظریں اپنی پوتی کے چہرے پر سے پھسلتے ہوئے اس کے صحیح و سالم ہاتھوں پر آ کر پتھرا گئیں۔
٭٭٭
انشائیے
ریٹائرمنٹ ۔ محمد اسد اللہ
یہ وہ دلخراش واقعہ ہے جس کا مزہ ہر اس شخص کو چکھنا ہے جس نے کبھی ملازمت کے شعبے میں قدم رکھا ہو۔ ریٹائرمنٹ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ عورت دیکھتا ہے نہ مرد، بے جھجھک انسانی عمر کی پول کھول کر رکھ دیتا ہے۔ دور حاضر میں بے شمار عورتوں نے پر دہ کرنا بھلے ہی چھوڑ دیا ہو، اظہارِ عشق اور اظہارِ عمر کے معاملے میں خواتین کی اخفائے حال کی روایت بہر حال بر قرار ہے۔ ترقی کے اس زمانے میں خواتین نے مردوں کو کئی میدانوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان میں بھی مردانگی کے آ ثار نمایاں ہونے لگے ہیں، البتہ عمر چھپانے کے معاملے میں اکثر مرد بھی عورتوں کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ اپنی عمر گھٹا کر بتانے میں مرد بھی اب اسی مہارت کا ثبوت پیش کرتے ہیں جو عورتوں کا خاصہ ہے۔ اس کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ اکثر مردوں میں بھی عورتانگی (نسوانیت) پائی جاتی ہے۔
ملازمت حاصل کرنے کے لئے ان دنوں خواتین اس قدر بے چین نظر آتی ہیں کہ اس راہ پر آگے بڑھنے میں ریٹائر منٹ کا یہ خطرہ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، حالانکہ انھیں پختہ یقین ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ وہ گھر کا بھیدی ہے جو ان کی عمر کا پردہ فاش کر کے رہے گا۔ اکثر مرد و زن آخری کوشش کے طور پر اپنے ریٹائر منٹ پر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسکول میں ان کی عمر دو تین سال بڑھا کر بتائی گئی تھی۔ ان کے اس بیان کا آسان اور سلیس ترجمہ کسی شاعر نے پہلے ہی ان الفاظ میں کر رکھا ہے: ابھی تو میں جوان ہوں
بچوں کو پولیو کے ڈوز پلانا اور بوڑھوں کو ریٹائرمنٹ کی کڑوی گولی کھلانا، در اصل دونوں کی عمر کا تقاضا ہے۔ ملازمت میں لاکھ جھمیلے ہوں، اپنے اعضا و جوارح جواب دینے لگے ہوں تب بھی کوئی ملازم ریٹائر منٹ کو بخوشی قبول نہیں کرتا۔ اس میں ہتکِ عزت کا خدشہ ہے، ایک ایسا خسارہ جس کے لئے آپ عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتے۔ اپنے گھر لوٹنے کو سوا چارۂ کار نہیں۔ ہماری نظر میں ریٹائرمنٹ سے بہتر لفظ وظیفہ یاب ہونا ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اب یہ آدمی سوائے عبادات اور اوراد و وظائف کے کسی کام کا نہیں رہا۔ ریٹائرمنٹ ایک قسم کا اعلانِ شکست ہے۔ اس کا شکار ہونے والا اکثر یہ کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے:
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ستم ظریفی دیکھئے کہ تمام عمر، دنیا بھرکا علم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد جب آ دمی کسی قابل ہوتا ہے تو اسے سبک دوش کر دیا جاتا ہے۔ ریٹائر منٹ کے دکھ میں یقیناً یہ صدمہ بھی شامل ہوتا ہے کہ آنجناب کو تجربے کی کنگھی اس وقت دستیاب ہوئی جب سر سے سر گرمیوں کے سارے بال رفو چکر ہو گئے۔
ریٹائر منٹ ایک ایسا طلسمی آئینہ ہے جس میں ملازم کو عمرِ رفتہ کا سراغ ملے نہ ملے، حالاتِ حاضرہ کا بیان ضرور ملتا ہے، جو اکثر ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ اس آئینے میں وہ اہلِ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھتا ہے اور حیران رہ جاتا ہے، یہ سوچ کر کہ آپ تو ایسے نہ تھے۔ دورانِ ملازمت بھلا آدمی اپنے فرائض منصبی میں میں غرق رہا، یہ سفینۂ روزگار جب کنارے پر آ لگا تو اس پر انکشاف ہوا کہ اب وہ اس کشتی کا ناخدا نہیں رہا؛ بندۂ بے دام ہو کر رہ گیا ہے۔ سبک دوشی کا یہ آئینہ اسے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسے اپنے آس پاس موجود لوگوں کی محبت یا محبت کا سوانگ اس شیشے میں صاف نظر آ تا ہے۔
مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بیماری یا حادثے کے نتیجے میں ناکارہ ہو جانے کا یا ریٹائر منٹ کا مزہ نہیں چکھا اس نے صحیح معنوں میں دنیا کو دیکھا ہی نہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ سے بھی کبھی نہیں ملا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی میگزین میں یا ٹی وی پر شیر کی تصویر یا ویڈیو دیکھ کر کوئی خوش ہولے کہ میں نے شیر دیکھ لیا۔ ذرا اسے دو بدو دیکھو تو پتہ چلے۔
آدمی کے اندر کیا کیا چلنے لگتا ہے۔ زندگی کے اتنے قریب جانا کہ جذبات میں تلاطم برپا ہو جائے اور سانس اوپر تلے ہونے لگے، ایک الگ تجربہ ہے۔ اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے اندر چھپے ایک مختلف آدمی سے شرفِ ملاقات حاصل کر رہے ہیں بلکہ ہمارے باہر گھومتے پھرتے لوگوں کے اندر تک اتر کر دیکھنے لگے ہیں۔ دنیا میں حادثات اور غیر متوقع حالات اسی لیے پیش آتے ہیں تاکہ حسینۂ زیست کے چہرے سے چند لمحوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، نقاب اترے تو سہی۔ کوئی شخص اس جہاں فانی کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے تو اسے زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور ریٹائر ہونا چاہئے۔ کوئی کہے کہ میں کوئی ملازم ہو جو اس سے سبک دوش ہو جاؤں تو ہماری مشورہ ہے اس کارِ خیر کے لیے چند ٹکوں کی چاکری کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس صورت میں آپ نہ صرف اس دنیا کا حقیقی چہرہ دیکھ سکیں گے، بلکہ اہلِ دنیا کا وہ روپ بھی آپ کو نظر آ جائے گا جسے عام حالت میں ’’ارنی‘‘ کہہ کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ تازہ تازہ ریٹائر ہونے والے لوگ اپنے سبک دوش ہونے کی خبر کے ساتھ یہ اطلاع ضرور دیتے ہیں کہ وہ جلد ہی کسی اچھی سی مصروفیت میں مبتلا ہونے والے ہیں، یعنی جلد یا بدیر کوئی ملازمت یا کام اختیار کر کے تلافیِ مافات کرنے والے ہیں۔ کوئی دکان لگا لیتا ہے، کوئی کسی اسکول، مدرسہ یا ٹیوشن کلاس میں تدریسی خدمات انجام دینے لگتا ہے۔ کچھ لوگ قران فہمی کی کلاس جوائن کر تے ہیں یا کسی فلاحی ادارے میں اپنے خدمات پیش کر دیتے ہیں، بعض کسی کمپنی میں کوئی ملازمت جوائین کر لیتے ہیں اور چند ایک تو سبک دوش ہونے سے پہلے ہی ان میں سے کوئی مشغلہ اپنے کاندھے اور اعصاب پر سوار کر لیتے ہیں۔ یہ در اصل سماج کے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ ملازمت سے ان کی علاحدگی، مشین کے کسی ناکارہ پرزے کو نکال پھینکنے کا واقعہ نہیں ہے، وہ اب بھی اتنے ہی فِٹ ہیں۔ ملازمت کے دوران وہ کسی مورچے پر زندگی کی ایک جنگ میں شریک تھے اور ایک جانباز سپاہی کی طرح لڑتے رہے۔ اب جنگ بندی کے بعد ناکارہ سپاہی بن کر نہیں رہیں گے بلکہ ان کے لئے ایک نیا مورچہ تیار ہے۔ ان معاملات میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو چند ماہ یا چند برسوں تک مشغول رکھتے ہیں، اس کے بعد خود فریبی کا یہ طلسم خود بخود ٹوٹنے لگتا ہے۔ وہ شخص اپنے آپ کو دھیرے دھیرے یہ سمجھا لیتا ہے یا حالات اسے باور کروا دیتے ہیں کہ اب وہ اس علاقے میں داخل ہو چکا ہے جسے جغرافیہ کی اصطلاح میں ’ ڈیلٹا ‘کہا جاتا ہے، سبک دوشی کے بعد کئے جانے والے اس سارے اہتمام کو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں: زور کا جھٹکا دھیرے سے لگے۔
ملازمت سے سبک دوش ہونے والا اس تلخ حقیقت کو قبول کرنے پر آ مادہ نہیں ہوتا کہ ایک دن وہ اچانک ایک فضول سی چیز بن گیا ہے۔ وہ اپنے فرائضِ منصبی بڑی تندہی سے انجام دیتا رہا، اب اسے وہاں سے صرف اس لیے ہٹا دیا گیا کہ کارِ جہاں نے اس کے تن بدن میں دوڑتی بجلیاں چرا لی ہیں، ماہ و سال کی گردش نے اس کے بالوں میں چاندی بھر دی ہے اور زندگی کے کٹھن سفر نے اس کے چہرے پر تھکن کا غازہ مل دیا ہے، حالانکہ اس کا دل تو اب بھی اسی طرح جوان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریٹائر منٹ ملازمت نامی ایک سہانے سفر کی منزلِ نامراد ہے، یہ چلتی ٹرین کا پٹری سے اتر جانا ہے، آنکھ کھل جانے پر کسی اچھے خواب کا ٹوٹ جانا ہے، محبوب کا بے وفائی کر جانا ہے۔ ملازمت سے جڑی ہوئی سبک دوشی کہہ مکرنی نہیں تو اور کیا ہے۔
ریٹائر منٹ کو اردو میں سبک دوشی شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی سبک دوشی کی اطلاع دینے والا ہر شخص اسے اعترافِ شکست مان کر سبکی محسوس کرتا ہے۔ اس موقع پر پروین شاکر کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
ریٹائر منٹ سے کچھ پہلے میری ایک طالبہ نے جو اسی ادارے میں بر سر روزگار تھی، مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے اس سال اردو کے بعد اب عربی میں بھی ایم اے کا امتحان پاس کر لیا ہے تو میں نے فخر محسوس کیا لیکن اس کے اگلے جملے نے میری وہ ساری خوشی چھین لی: ’سر اگلے سال آپ ریٹائر ہو رہے ہیں نا؟‘
گویا ریٹائر منٹ اس کرسی کو خالی کرنا ہے جس پر کئی لوگ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں ملازمت کے آخری ایام میں کرسی کاٹنے لگتی ہے ریٹائر ہو کر خوش ہوتے ہیں کہ چلو بلا ٹلی اور جنھیں اس کرسی کی محبت نے اپنے دونوں ہتھے پھیلا کر جکڑ لیا ہو وہ سبک دوش ہو کر بھی اپنے دل میں گرانی محسوس کر تے ہیں۔ ریٹائر منٹ دنیا کی بے ثباتی کو انڈر لائن کرنے کے لئے بنایا گیا قدرت کا ایک قانون ہے، یہ سمجھانے کے لیے کہ دنیا کی نعمتیں اور اقتدار اس فنا پذیری کے ساتھ مشروط ہیں جن کا اطلاق ہر ذی روح پر کسی نہ کسی دن ضرور ہو گا۔
٭٭٭
نکاح خواں ۔ مومنہ ادریس
نکاح خواں اور خیر خواہ میرے نزدیک کبھی مترادف نہیں ہو سکتے۔ اس کے پیچھے کوئی ذاتی دشمنی نہیں بلکہ میرے مشاہدات ہیں اور میں مشاہدات کے بغیر کوئی بات کرنے کی قائل نہیں ہوں۔ یہ بات لکھتے لکھتے ایک اور بات ذہن میں آئی کہ جس طرح یہ یقینی بات ہے قیامت آنی ہی آنی ہے، اسی طرح یہ بات بھی اتنی ہی سچی ہے کہ نکاح کروانے والے مولوی کو کبھی بھوکا نہیں مرنا ہے۔ کیونکہ لفظ ہی اس قدر پرکشش اور مقناطیسی طاقت رکھتا ہے کہ ہر عمر کا انسان کھنچا چلا آتا ہے بعض تو تین مرتبہ بھی گریز نہیں کرتے۔
کبھی کبھی غور کرتی ہوں کہ اگر کوئی نکاح خواں اپنے پیشے کا اشتہار دے تو کیسا ہو۔ کیا وہ یہ لکھے کہ ’’کنواری لڑکیاں /لڑکے شادی شدہ کروا لو‘‘ یا ’’رنڈوا پن دور کروا لو‘‘ یا بیوہ عورتوں کے بارے میں کہیں گے ’’بیوائیں کلی کروا لیں‘‘ اس کے لیے تو کسی نکاح خواہ کا ذہن ہی پڑھنا ہو گا۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
نکاح خواں کے لہجے کی اپنائیت اور حرکت دیکھ کر میرے ذہن میں ایک ہی محاورہ آتا ہے کہ اپنا مار کر چھاؤں میں پھینکتا ہے، مگر نکاح خواں انسان کو ایسی موت مارتا ہے جو کافی حد تک خود کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ بعض کمزور دل لوگ خود کشی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اس لیے وہ اپنی موت کے لیے ایک بندہ ہائیر کرتے ہیں جسے نکاح خواں کہتے ہیں۔
بعض نکاح خواہ خاصے بے شرم بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے ایک نکاح میں شریک ہو کر ہوا۔ دولہا نے نکاح پڑھنے کے بعد نکاح خواں کی جیب میں کچھ رکھا۔ یقیناً وہ رقم ہی تھی۔ نکاح خواں نے فوراً جیب کو ہاتھ لگایا۔ دولہا کو لگا کہ شاید وہ رقم واپس کرنے لگا ہے، وہ کہنے لگا ’’رکھ لیں، رکھ لیں۔‘‘ دو تین بار یہ سلسلہ جاری رہا، آخر میں نکاح خواں چیخ کر بولا ’’میں گننے لگا ہوں پورے ہیں یا نہیں۔‘‘
نکاح خواں کا حلیہ بھی نکاح والے دن عجیب ہو جاتا ہے۔ سفید سوٹ، آنکھوں میں رگڑ کر لگایا گیا سرمہ، ہاتھ میں اپنے تمغوں کا پلندہ، یعنی رجسٹر اور اس میں مظلوموں کے ناموں کا اندراج کرنے کے لیے قلم۔ وہ پلندہ دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کراماً کاتبین انسانی شکل میں نمودار ہو گئے ہوں۔ کنوارے حضرات بھی پرٹوکول ایسے دیتے ہیں جیسی ان کی سانسوں کا دار و مدار نکاح خواں پر ہو۔
اکثر نکاح خواں ندیدے بھی ہوتے ہیں۔ ایک بار ایک شادی میں ایک نکاح خواں مجھے اس طرح گھورنے لگے کہ مجھے کوفت ہونے لگی۔ کچھ دیر گھورنے کے بعد قریب آ کر بولے ’’تمہارا نکاح بھی ہم ہی پڑھیں گے۔‘‘ میں نے بھی حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے فوراً جواب دیا کہ نکاح خواں بھی کنوارا بندہ بعد میں دیکھتے ہیں اور منہ میں پانی پہلے لاتے ہیں۔ پھر بعد میں میں نے شکر ادا کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم سے تو ہم ہی نکاح پڑھوائیں گے۔
ایک بار تو مجھے ایک نکاح خواں کی شادی میں شرکت کا موقع بھی ملا۔ جس ترسے ہوئے کو بالآخر دلہن مل ہی گئی تھی اس کا نکاح اس کے دوست نکاح خواں نے پڑھایا ۔ اور جب نکاح کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے تو سب شادی شدہ لوگوں نے بس اتنا ہی کہا کہ ’’اگر آج اونٹ پہاڑ کے نیچے آ ہی گیا ہے تو پھنسے بغیر نہ نکلے‘‘ اور ایک آواز میں آمین کی صدا میں نے پہلی بار سنی۔
اکثر نکاح خواں حضرات موقع دیکھ کر خطبہ دیتے ہیں۔ متوسط درجے کے گھرانے میں جائیں گے تو نکاح کی برکات بیان کریں گے۔ مگر جونہی معلوم ہوا کہ پارٹی اونچی ہے اور لڑکے کے پہلے بھی گل کھل چکے ہیں تو پھر بیان بھی اسی طرح کے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر نہ بن سکے تو اللہ نے طلاق کا راستہ بتایا ہے اور ساتھ ہی طلاق کی نیکیاں گنانے لگتے ہیں۔
قصہ مختصر، آپ سوچ رہے ہوں گے میں نکاح خواں کے پیچھے ہاتھ پاؤں دھو کر بلکہ نہا کر پڑ گئی ہوں۔ یہ کام تو رشتے والے بھی تو کرتے ہیں۔ مگر میں کہنا چاہوں گی وہ آغاز کرتے ہیں اور نکاح خواں پختہ مہر لگاتا ہے جس سے دو خوشحال لوگ ماضی کی یاد میں محو ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭
کتابوں کی باتیں
’تیلی بھر آگ‘ کی نظمیں۔۔ گلناز کوثر
زندگی سے چند دنوں کی فُرصت زبردستی چھین کر لینی پڑی ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں کتنی دنیائیں میری اس چھوٹی سی دنیا میں جمع ہوتی رہی تھیں ان کی دریافت دوستوں کا حق ہے اور میرا فرض اور شاید انہی بھول بھلیوں میں کہیں میں خود کو بھی کھوجنے کے قابل ہو سکوں۔
"تیلی بھر آگ”؟ نسیم نے انکساری سے کام لیا ورنہ اس کتاب میں اتنی آگ ہے کہ کئی زمینیں اور زمانے جلا کر راکھ کر دے اور پھر اپنے حساب سے از سرِ نو انہیں تعمیر کرے محبت کا وہ جادو بھی اس کتاب میں بند ہے۔
"تیلی بھر آگ” سے پہلے ادھر ادھر کی چند نظمیں یونہی چلتے پھرتے دیکھیں۔ ایک احساس ہوا کہ بہت سے نظم نگار یا شاعر کسی ایک زمانے کی نذر ہو جاتے ہیں اور انہیں اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ میں پہلے بھی کہیں لکھ چکی ہوں زمانے کے ساتھ شاعری کا رنگ بدلتا ہے (کلاسیک البتہ اس اصول سے مستثنی ہیں) لیکن اکثر شعراء اپنے اولین زمانوں میں ایک خاص سطح پر پہنچ کر وہاں سے ایک انچ سرکنے کو تیار نہیں ہوتے وہ لکھتے تو ہیں لیکن زمانہ حال سے آنکھیں بند کیے۔ نسیم سید کی نظمیں زمانہ حال کیا اس سے بھی آگے نکلتی نظر آتی ہیں۔ اُن کی نظر کی پہنچ دور تک ہے اور احساس جیسے مقناطیس کی طرح ادھر ادھر کے درد دبوچ کر اندر موجود گداز پر تازہ تہیں چڑھاتا رہتا ہے۔ نسیم شدید جذبوں کی شاعرہ ہیں۔ ذرا سی ناانصافی بھی ان کے دل میں تیر کی طرح ترازو ہو جاتی ہے اور جہاں وحشت و بربریت کی حد ہی نہ رہی ہو۔ ان کے روز و شب کیسے گزرتے ہوں گے؟۔ نسیم سید کو ہم محض تانیثیت کے دائرے میں بند نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ اول اول کی نظم "جہیز میں کتاب تھی” اور "تیلی بھر آگ” میں شامل نظم "میں سو بار اس کا وظیفہ کروں” صرف یہ دو نظمیں ہی انہیں تانیثی ادب کی قطار میں سب سے آگے کھڑا کرنے کے لیے کافی ہیں:
"جہیز میں کتاب تھی
کتاب میں فرائض و حقوق_ زوجیت کے سب اصول تھے
نکتہ نکتہ بات تھی
بات تھی کہ اوٹنی کی پشت پر بھی حکم ہو
تو بس رضا و رغبت ہی میں
بیبیوں کی بخشش و نجات ہے
نہ میرا کوئی ذکر تھا
نہ میری کوئی بات تھی”
(نظم: جہیز میں کتاب تھی)
۔۔۔۔
"اور گھر اس کو دے
اس کے موجودہ گھر سے بڑا
جو گھر والے تھے ان سے بہتر عطا ہوں اسے اپنے گھر والے
اور اس سے بہتر عطا کر
اسے ایسی زوجہ جو بہتر ہو زوجہ سے اس کی
جو بہتر ہو زوجہ سے اس کی؟؟
میں سو بار اس کا وظیفہ کروں؟
خدایا!! تجھے تو خبر ہے
کہ چہرے کی ان جھریوں میں سبیکا کے
کن بیس سالوں کا ملبہ ہے
اور کیسے کیسے
عذابوں کے دکھ دفن ہیں
اس کے ملبہ میں”
(نظم: میں سو بار اس کا وظیفہ کروں)
سو میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ تانیثی ادب میں نسیم سید کا کام بہت اہم ہے لیکن میں انہیں ہر انسان ہر طبقے کی شاعرہ کہوں گی میں انہیں ہیومنسٹ کہنا زیادہ پسند کروں گی۔ بلکہ شاید اس سے بھی آگے اُن کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ نظمیں ختم ہوتے ہوتے مجھے لگا جیسے وہ ایک اونچی چوٹی پر کھڑی ہیں اور اپنے چار جانب پھیلی پوری دنیا پر سہولت سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دکھ دھرتی کے جس بھی کونے سے پھوٹے جھولی پھیلائے شکایت لگانے ان کے در پر خود آ جاتا ہے۔ جیسے جب یہ سو کر اٹھتی ہوں گی تو فریادیوں کی ایک لمبی قطار کا سامنا رہتا ہو گا۔۔ شاعر کے پاس دینے کو حرفوں کی تسلی سے زیادہ کیا ہو گا لیکن کہتے ہیں لفظ میں بڑی طاقت ہے یہ مرہم بھی ہے اور تلوار بھی تو ایک طرح ان کے لفظ پسے ہوؤں، کچلے ہوؤں کے لیے تسلی کا کام کرتے ہیں تو دوجی طرف اونچی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کی روح تک جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ اگر نسیم سید چار چھ اور ہوتیں اور ہمارا معاشرہ بطور خاص بےحسی کے اعلی درجے پر فائز نہ ہوتا تو یہ نظمیں بہت سوں کو انصاف دلا جاتیں۔ اب وہ "تو پھر نجس دراوڑی” کے اچھوت لوگوں کے آنسو پونچھنے کی بات ہو یا "واشنگٹن کی کالی دیوار” کے نیچے بنیادوں میں مزدوروں کو گارے کیچڑ کے جیسے گاڑنے کی تکلیف، وہ "شربتی اور گلابی۔ گلابو” کو مونا لیزا کے مقابل کھڑا کر کے دولت مند طبقہ پر طنز ہو یا کمسن جنت کے لیے اُن کے کٹے ہوئے دل نکلی ہوئی ہُوک ہو نسیم سید کہیں نہ جھکتی ہیں نہ رکتی ہیں وہ سانس لیے بغیر، تھکے بغیر اپنی آواز بلند کرتی ہیں:
"اب بھی مجھ کو یاد ہے
وہ بوریا نشیں
مری کلاس کے
جو خود بھی
اک پھٹے ہوئے ٹاٹ ہی
کی حیثیت کے تھے
انہیں یہ حکم تھا
کہ یہ نجس سماعتیں ،گناہگار جسم
دینیات کی کلاس سے
نکل کے فاصلے سے اس طرح
کھڑے رہیں
کہ روح میں گھل رہا تلاوتوں کا لحن
ان کے کان میں نہ جا سکے”
(نظم: تو پھر نجس دراوڑی؟)
۔۔۔۔۔
"اپنی فیروز بختی پہ نازاں
سیہ پوش دیوار پر
آبِ زر سے لکھے نام
پڑھتے ہوئے
میری آنکھیں پھسلتی ہوئی
نیہہ پر جا گریں
الغِیاث! الاَماں!۔
ایک بستی کے جسموں کا گارا
سیہ ماتمی مرمروں کے تلے
اس کی بنیاد کا رزق تھے
(نظم: واشنگٹن کی کالی دیوار)
۔۔۔
"تو پھر ۔ مونا لیزا؟
۔۔۔
۔۔
اگر ایک دن اپنی تصویر سے زندہ ہو کے نکل آئے
اور چھوٹی بی بی کا اُترن پہن لے
یہ جھاڑن مرا اور گلابی کا ہاتھوں میں تھامے
تو کیا پھر کسی کو نظر آئے گی؟
(نظم: شربتی اور گلابی۔ گلابو)
نسیم سید ایک طرف ان سب زندہ کرداروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ ہوتے ظلم و ستم کو دیکھتے ہیں مگر اپنی آواز کہیں نہیں پہنچا پاتے۔ دوسری طرف وہ ان آوازوں کو اپنی آواز بنانے کے اپنے اس مشن کی راہ میں حامل صاحب اختیار لوگوں کو چیلنج کرتی ہیں:
"سب تمہارے بس میں ہے
ہم جانتے ہیں ،مانتے ہیں
سب تمہارے بس میں ہے
لیکن۔۔۔
ہماری سوچ پر تالا لگاتے اور
اپنی چابیوں کے بھاری گچھے میں
یہ چابی ڈال کے
مٹھی دبا لیتے
کہیں تہہ میں سمندر کی اچھال آ تے
تمہارے بس میں یہ کب ہے؟؟”
(نظم: تمہارے بس میں یہ کب ہے)
اور صاحب اختیار و اقتدار ایک طرف، خدا کو مخاطب کرنے سے بھی کہاں چُوکتی ہیں:
"خدا گر وہ ہے
جو تم کہہ رہے ہو
ہے
تو پھر اس کو
دعاؤں کے قبول و رد کی فرصت ہی کہا ں ہو گی؟
وہ۔۔۔۔۔۔
انسانوں کے مقتل میں
دو زانو ہچکیوں سے رو رہا ہو گا
وہ۔۔۔۔۔
ملبے میں دبی معصوم چیخیں
انگلیوں سے کھودتا ہو گا
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
لاشیں ڈھو رہا ہو گا
(نظم: خدا گر وہ ہے)
نسیم سید کے ہاں موضوعات کی کمی ہے نہ خیال کی رَو کہیں ٹوٹتی ہے۔ "سرمدی آگ تھی” میں وہ تخلیق کے عمل کو ایسی باریکی سے بیان کرتی ہیں کہ نظم کے اختتام پر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے اچانک نیند سے جگا دیا ہو۔
نسیم کے ہاں محبت کا جذبہ بھی بےحد بھرپور ہے۔ البتہ اس کی سطح بہت بلند ہے یہ جسم اور روح کو ملا کر جنم لینے والی محبت ہے جس تک کسی کسی کی رسائی ہی ممکن ہو پاتی ہے:
"لیکن۔۔۔
ایسا ہوتا پے
سارے جنتر منتر
ریت رواجوں کے
سب تاکیدیں
بس منہ تکتے رہ جاتے ہیں
اور
روحوں کے
تانے بانے
دھڑکن دھڑکن
ایسی بنت بناتے ہیں
دو سانسوں کو جوڑ کے
کوئی ایسی گرہ
لگاتے ہیں
وہ رشتہ بن جاتے ہیں”
(نظم: لیکن ایسا ہوتا ہے)
کتاب کیا ہے ونڈر لینڈ ہے جذبات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ ہمارے ارد گرد بکھری زندگی کے دھڑکتے ٹکڑے ہیں۔ یہ نسیم ہی کی نہیں ہم سب کی کتاب بھی ہے اور اُن کی بھی جو ورق ورق آنسوؤں کے ساتھ رقم ہیں۔ ایسے جذبے رکھنے والا دل سلامت رہے اور ایسی نظمیں لکھنے والی شاعرہ کو مجھ ایسے کتنوں کی عمر لگ جائے۔۔
٭٭٭
قسط وار
خاک دل ۔۔۔ اصغر وجاہت / اعجاز عبید
1
پتے کی بات سیدھی سچی ہوتی ہے۔ اسے بتانے کے لیے نہ تو زیادہ ہوشیاری کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ سو طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سیدھی سچی بات دل کو لگتی ہے اور اپنا اثر کرتی ہے۔ میں یہاں ان اوراق میں آپ کے سامنے کچھ سچی باتیں رکھنے جا رہا ہوں۔ یہ باتیں گڑھی ہوئی نہیں ہیں، آپ کی اور ہماری دنیا میں ایسا ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہیے گا۔ کچھ آپ بیتی ہے اور کچھ جگ بیتی ہے۔
ایک وقت کی بات ہے۔ کلکتہ کے پارک سٹریٹ علاقے میں ایک پادری سفید لمبا کوٹ پہنے، ٹوپی لگائے، ہاتھ میں پاک کتاب لئے جوشیلی آواز میں کچھ کہہ رہا تھا۔ لوگ اسے گھیرے کھڑے تھے۔ سن رہے تھے۔
اکرم کو کلکتہ آئے تین چار دن ہی ہوئے تھے۔ اس کے بڑے بھائی مسٹر جیکسن کے اردلی تھے۔ اکرم کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔ وہ اپنے پشتینی گاؤں ارولی سے آیا تھا اور آنے کا مقصد یہ تھا کہ بڑے بھائی نے اس کی نوکری لگوا دینے کا پکا بھروسہ دلایا تھا۔
’’دو دن سے پڑا سو رہا ہے، اٹھاؤ اسے۔ اکرم جب سے آیا ہے سو رہا ہے۔ کھانا وانا کھاتا ہے، پھر سو جاتا ہے۔‘‘
’’اٹھ اکرم۔۔ ۔۔‘‘ اکرم کی بھابھی نے اسے جھنجھوڑ دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے بڑے بھائی اسلم کی سخت اور کھرکھراتی آواز آئی، ’’کیوں؟ سونے آیا ہے یہاں۔۔۔ اٹھ جا کے بازار سے دہی لے آ، تو تیری بھابھی کھانا پکا لے۔‘‘
اکرم ہاتھ میں پتیلی لے کر باہر آیا، گلی سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ یہاں سے اسے الٹے ہاتھ کی طرف جانا تھا لیکن سامنے بھیڑ لگی تھی۔
پادری کا چہرہ دھوپ میں لال ہو رہا تھا۔ اکرم نے اس سے پہلے کبھی کوئی گورا نہیں دیکھا تھا۔ وہ ڈر گیا، لیکن پھر بھیڑ میں پیچھے چھپ کر تماشہ دیکھنے لگا۔ گورے پادری کا چغہ پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ اس کی گھنیری داڑھی ہوا میں لہرا رہی تھی۔ سینہ پر پڑا ہار ادھر ادھر جھول رہا تھا۔ اکرم اسے ایک ٹک دیکھنے لگا۔ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔ وہ جہنم میں دی جانے والی تکلیفوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اور خوفناک ہو گئی تھیں۔ وہ تیزی سے گھوم گھوم کر چاروں طرف جمع لوگوں سے کہہ رہا تھا، ’’سچا اور پکا مذہب اور ایک کراری میم کون لے گا؟‘‘ پادری کی آواز میں کڑک تھی، گرج تھی، ایمانداری تھی، لالچ تھا۔ وہ سب کو گھور کر دیکھ رہا تھا۔
اچانک پادری کی آنکھیں اکرم کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ پادری نے گرج کر پھر اپنا سوال دہرایا، ’’سچا اور پکا مذہب اور ایک کراری میم کون لے گا؟‘‘
اکرم کو لگا کلیجہ اس کے منھ سے آ کر لگ گیا ہے۔ اس کا گلا سوکھنے لگا۔ زبان پر لگا کانٹے اگ گئے ہیں۔ وہ ٹکٹکی لگائے پادری کو دیکھ رہا تھا۔ پادری بار بار اپنا سوال دہرا رہا تھا۔ ہر بار سوال کے بعد اکرم کی حالت خراب ہو جاتی تھی۔ اوپر آسمان میں سورج چلچلا رہا تھا۔ بھیڑ میں کچھ عجیب آواز اٹھ رہی تھی۔ اکرم کو لگا اسے اپنے اوپر قابو ہی نہیں ہے۔
وہ بول اٹھا، ’’میں۔‘‘
اکرم کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا جذبہ تھا۔ وہ گرمی سے جھلس رہا تھا۔ آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں۔ پورے مجمع نے اکرم کی طرف دیکھا۔ پادری کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ وہ آگے بڑھا اور اکرم کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا، پھر دھیرے دھیرے اکرم کا ہاتھ پادری کے ہاتھ میں چلا گیا۔
اکرم کے بھائی نے اسے کلکتہ کی ہر گلی میں تلاش کیا، آس پاس کے گاؤوں میں گیا۔ پولس داروغہ سے پوچھا۔ اسپتال، مردہ گھر، قبرستان ہر جگہ جا کر پتہ لگایا، لیکن اکرم کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ تھک ہار کر گھر چٹھی لکھ دی۔ گھر یعنی یو۔ پی۔ کے میرٹھ ضلعے کی سردھنا تحصیل کے ارولی گاؤں۔ اکرم کے بوڑھے باپ اور ماں کو یہ خبر ملی تو ماں نے رو رو کے جان دے دی۔ چھوٹے بھائی حیرت میں پڑے رہے۔ باپ نے توبہ کر لی کہ اب کسی اولاد کو کلکتہ نہیں بھیجیں گے۔
ارولی گاؤں میں سب کچھ ویسے ہی ہوتا رہا جیسا ہوتا آیا تھا۔ اکرم کے لاپتہ ہو جانے کی بات سب بھولتے چلے گئے۔
قارئین، وقت بیتتا گیا اور بیتتا گیا۔ دس لاکھ نو ہزار پانچ سو بار سورج نکلا اور ڈوبا۔ کھیتوں میں گیہوں لہلہایا اور کندن کی طرح لال ہوا۔ ندی میں نیلا پانی بہتا رہا، ہوا چلتی رہی، پتے ہلتے رہے۔ موسم پر موسم بدلتے رہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ چہرے بھی بدلتے رہے۔ اکرم کے والد گزر گئے۔ کلکتہ میں اسلم کا انتقال ہو گیا۔ اکرم کے چھوٹے بھائی وحید ہیضے سے مرے۔ ان کے دونوں بیٹوں، تکو اور عابد نے ہل بیل سنبھال لیا۔
٭٭٭
2
چیت کا مہینہ ہے، گیہوں کٹ چکا ہے، لگتا ہے زمین کا عقیقہ کر دیا گیا ہے۔ ادھر ادھر آم کے باغوں میں کوئلیں کوکتی پھر رہی ہیں۔ آوارہ لونڈوں کے گروہ ڈل پک آم بٹورنے کی تاک میں ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ گھنے پیڑوں کے نیچے بزرگ چار پائیوں پر آرام کر رہے ہیں۔ کھلیانوں میں مڑھائی چل رہی ہے۔
دور سے بیل گاڑی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس گاؤں کی بیل گاڑی نہیں ہے۔ کسی اور گاؤں کی ہے۔ دھیرے دھیرے بیل گاڑی ارولی گاؤں کے گلیارے میں آ جاتی ہے۔ گرد کا ایک مرغولہ اٹھتا ہے اور بیل گاڑی رک جاتی ہے۔ دوچار لوگ بیل گاڑی کے پاس جاتے ہیں۔ بیل گاڑی سے ایک عجیب طرح کا آدمی اترتا ہے۔ اس نے گوروں جیسے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ سر پر ہیٹ بھی لگائے ہے۔ ہاتھ میں چھڑی، کوٹ کی جیب میں گھڑی کی چین پڑی ہے۔ سب اس آدمی کو دیکھ رہے ہیں اور یہ آدمی گلیارے کو اور ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ پھر اس آدمی نے جو کیا اس سے تو اچنبھے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ یہ آدمی عجیب سی آواز میں زور سے چلایا اور گلیارے میں لوٹنے لگا، رونے لگا۔ اس کا ہیٹ گر گیا، کپڑے دھول میں اٹ گئے۔ گھڑی جیب سے باہر نکل آئی مگر وہ گلی میں، گرد میں لوٹتا اور روتا رہا۔ سب کو لگا کہ کوئی پاگل ہے، لیکن اگر پاگل ہے تو اتنے اچھے کپڑے کیسے پہنے ہے؟ بیل گاڑی والے نے بتایا کہ صاحب چھولیا اسٹیشن پر پسنجر گاڑی سے اترے تھے۔ اسٹیشن ماسٹر نے اس کی بیل گاڑی کا انتظام کرا دیا تھا۔ کہا تھا صاحب کو ارولی گاؤں جانا ہے۔
’’ارولی میں کس کے گھر آنا تھا؟‘‘
’’یہ تو بات نہیں ہوئی۔‘‘
’’نام پتہ کچھ ہے؟‘‘
’’نہیں ہمارے پاس نہیں ہے۔‘‘
بیس پچیس منٹ کے بعد یہ آدمی دھیرے دھیرے اٹھا اپنی ٹوپی اٹھائی۔ کپڑے ٹھیک کیے اور رامچندر کے چاچا کے پاس گیا۔ وہی بھیڑ میں سب سے بزرگ تھے۔
’’میرا نام اکرم ہے۔۔ ۔‘‘
’’اکرم؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرے بڑے بھائی کلکتہ میں کام کرتے تھے۔۔۔ چھوٹا بھائی وحید ہے۔‘‘
رامچندر کے چاچا کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے منھ سے بول نہیں نکل رہا تھا۔
’’آپ وسیع الدین کے لڑکے اکرم الدین ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں وہی بدنصیب ہوں۔‘‘ صاحب پھر رونے لگا۔
سب انہیں لے کر تکو کے گھر کی طرف چلے۔ گاؤں کے گلیارے سے وہ بیل گاڑی میں نہیں بیٹھے۔ پیدل چلتے رہے۔ کہیں کہیں رک جاتے اور کسی مکان یا پیڑ کو دھیان سے دیکھتے اور پھر آگے چلتے۔ سب حیران تھے کہ گاؤں میں ایسا کیا عجیب ہے جسے یہ آدمی، جو بالکل انگریز لگ رہا ہے، اس طرح دیکھتا، ہنستا، روتا یا آہیں بھرنے لگتا ہے۔
ان کے پیچھے قریب قریب پورا گاؤں چل رہا ہے۔ سب سے پیچھے بیل گاڑی ہے جس میں ان کا سامان دھرا ہے ۔پہاڑ جیسے چار بکسے ہیں، ایک گول بکسا ہے۔ اس طرح کے بکسے گاؤں میں پہلی بار دیکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کے لونڈے انہیں چھوکر دیکھ رہے ہیں اور بیل گاڑی والا یا دوسرے بڑے لوگ انہیں منع کر رہے ہیں۔
گھر کے سامنے پہنچ کر یہ صاحب رک گئے۔ تکو اور عابد بھی گھر سے نکل آئے تھے۔ صاحب نے سر پر سے ہیٹ اتار لیا۔ گھر کو اس طرح دیکھا جیسے کوئی اپنے جوان بیٹے کو دیکھتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں اور وہ گھر کو دیکھے جا رہے ہیں۔ گاؤں میں جسے خبر نہیں تھی اسے بھی خبر لگ گئی ہے اور سب ابو کے گھر کی طرف دوڑے آ رہے ہیں۔ کچھ دیر کھڑے کھڑے مکان کو دیکھنے کے بعد صاحب دروازے کی طرف لپکے اور زور زور سے زنجیر بجانے لگے۔ سب پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ زنجیر کیوں بجائی جا رہی ہے؟ گھر کے مالک گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ پورا گاؤں گھر کے باہر کھڑا ہے اور یہ صاحب زنجیر بجا رہے ہیں۔ کس کو بلا رہے ہیں؟ کس تک آواز پہچانا چاہتے ہیں؟ کچھ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اتنے میں حاجی ولی اللہ اور منشی کرامت علی آ گئے۔ سب لوگ مکان کے سامنے نیم کے پیڑ کے نیچے چار پائیوں پر بیٹھ گئے۔ چارپائیاں کم پڑ رہی تھیں، تو پاس پڑوس کے گھروں سے آ گئیں۔
منشی کرامت علی نے صاحب سے پوچھا، ’’شاید آپ مرحوم وسیع الدین صاحب کے بیٹے ہیں اور وحید میاں کے بھائی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’ہاں، میں ہی وہ بد نصیب ہوں۔‘‘ سناٹا چھا گیا۔ کچھ دیر کے لیے سب خاموش ہو گئے لیکن کوؤں کی کائیں کائیں جاری رہی۔ ’’آپ اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے ہیں؟‘‘ حاجی ولی اللہ نے پوچھا۔
’’ہاں، میں اپنے گاؤں اور گھر میں رہنے آیا ہوں۔۔۔ میں اب یہیں رہوں گا۔‘‘
چاروں طرف کھسر پھسر ہونے لگی۔
کچھ سوچ کر منشی کرامت علی نے کہا، ’’ہاں آپ کو پورا حق ہے۔ آپ کا مرحوم کی جائداد میں حصہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’مجھے زمین، جائداد میں کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔ ایک تنکا نہیں چاہیئے۔۔۔ بس اس گھر اور اس گاؤں میں رہنا چاہتا ہوں۔۔۔ مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ لندن میں میرا رتبہ ہے۔ وہاں میری شادی ہو گئی تھی۔ میرا ایک لڑکا ہے جو فوج میں ہے۔ ایک لڑکی ہے جس کی شادی ہو گئی ہے۔‘‘
’’صاحب، یہ آپ کے بھتیجے ہیں۔ آپ کے بھائی تو دس سال ہوئے گزر گئے تھے۔‘‘ تقی الدین عرف تکو میاں اور عابد الدین عرف ابو میاں کا منشی کرامت علی نے تعارف کرایا۔ صاحب دونوں سے لپٹ کر رونے لگے۔
بیل گاڑی گھر کے سامنے پہنچ چکی تھی۔ تکو اور ابو صاحب کے پہاڑ جیسے بکسے اتار اتار کر نیچے رکھنے لگے۔ صاحب نے اپنے بوٹ کھولے اور نیم کے پیڑ کے نیچے بچھی چارپائی پر لیٹ کر ایسے سوئے جیسے زندگی میں پہلی بار نیند آئی ہو۔
صاحب نے بتایا کہ انہوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا ہے اور اب پھر سے مسلمان نہیں ہونا چاہتے۔ جو کچھ ہوا، ہو گیا ہے۔ صاحب مہینے میں ایک بار بیل گاڑی کر کے ڈگلی پور گرجا گھر جایا کرتے تھے اور اپنے حساب سے عبادت کیا کرتے تھے۔ انہیں بیٹھک کا ایک حصہ رہنے کے لیے دے دیا گیا تھا۔ صاحب نے اپنے بھائیوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ زمین جائداد میں کوئی حصہ نہیں چاہتے۔ لندن میں ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے اور ارولی وہ پیسے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اس طرح بھائیوں کے دل سے یہ خوف نکل گیا تھا کہ کہیں صاحب کو جائداد میں حصہ نہ دینا پڑ جائے اور انگریزوں کا زمانا ہے، صاحب عیسائی ہیں، فراٹے دار انگریزی بولتے ہیں، کلکٹر کمشنر سے مل سکتے ہیں۔ ایک کاغذ بھی چلا دیں گے تو بھاری پڑ جائے گا، لیکن صاحب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہاں، ان کے گاؤں میں رہنے سے چھوٹے موٹے اہلکار جیسے پٹواری اور سپاہی گاؤں سے کچھ دبنے لگے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ صاحب کی پہنچ لندن تک ہے اور وہ وہاں سے زور ڈلوا سکتے ہیں۔
صاحب صبح کھانا کھا کر گھر سے نکل جاتے تھے۔ جی میں آتا تو پورے گاؤں کا چکر لگاتے۔ ایک ایک گلی میں گھومتے۔ سلام رام رام کرتے۔ لوگوں کی خیر خبر پوچھتے۔ گھومتے رہتے۔ کہیں کسی پیڑ کے نیچے دو چار لوگ بیٹھے ہوتے اور صاحب سے بیٹھنے کے لیے کہتے تو بیٹھ جاتے۔ صاحب حقہ نہیں پیتے تھے، بتاتے تھے کہ لندن میں چرٹ پیا کرتے تھے۔ چرٹ یہاں نہیں ملتا اس لئے اور کچھ نہیں پیتے۔ صاحب لندن کی اور باتیں بھی بتایا کرتے جسے گاؤں کے لوگ بڑے چاؤ سے سنا کرتے، لیکن صاحب کو بات چیت کرنا اتنا پسند نہیں تھا، جتنا گھومنا۔ وہ گاؤں کے دو تین چکر لگا کر کھیتوں کی طرف نکل جاتے اور پانچ سات کوس کا چکر لگا لیتے۔
صاحب کے پاس لندن سے پیسہ آتا ہے۔ سال میں دو تین بار ڈاکیا صاحب کا منی آرڈر لاتا تھا۔ صاحب پیسہ وصول کر کے اکنی ڈاکیے کو دیتے تھے۔ صاحب اپنے پاس ایک ناڑے میں موتیوں جیسا پرو کر چھید والے ایک پیسے کے سکے رکھتے۔ جہاں جی چاہتا، پیسہ نکال لیتے تھے۔
ایک دن صاحب کو کیتھے (کبیٹھ) کے پیڑ پر ایک پکا ہوا کیتھا لگا دکھائی دیا۔ انہوں نے بشیر سے کہا کہ میرے لیے کیتھا توڑ لاؤ تو تمہیں ایک پیسہ دوں گا۔ بشیر پھٹ سے پیڑ پر چڑھ گیا اور کیتھا توڑ لایہ۔ اسی طرح صاحب کو کبھی جنگل جلیبی کھانے کا شوق ہوتا تو پیسہ دے کر تڑواتے تھے۔ بوٹ کھانے کا صاحب کو شوق تھا۔ ہولے بھوننے کے لیے صاحب پیسہ دیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب جب نکلتے تو لونڈوں کا گروہ ان کے آگے پیچھے رہتا۔
گرمیوں کے دنوں میں صاحب خوب تڑکے، سورج نکلنے سے پہلے اٹھ جاتے اور کھیتوں کی طرف نکل جاتے۔ قبرستان میں مہوے کے پیڑوں کے نیچے گاؤں کی عورتیں مہوے بینتیں تو صاحب بھی ایک آدھ مہوا صاف کر کے کھا لیا کرتے۔ پھر باغ آ جاتے اچھا کوئی پکا شاخ پر پکا آم مل جاتا تو دھو کر کھاتے۔ ایک دو فالسے چکھتے، چٹنی کے لیے دو چار کچے آم اٹھا لیتے۔ پراہی چل رہی ہوتی تو خوب مزے میں نہاتے اور گاؤں لوٹ جاتے۔
رات میں جہاں گڑ بن رہا ہوتا، صاحب وہاں پہنچ جاتے۔ کڑھاؤ کی کھرچن کھاتے۔ ایک آدھ لوٹا رس پیتے۔ ادھر ادھر کی گپ سنتے اور دیر تک بیٹھے آگ کو دیکھتے رہتے۔ کڑھاؤ کے اوپر آتے جھاگ کو تکتے رہتے۔ نہیں تو اوپر دیکھ لیتے۔ تاروں بھرا آسمان دکھائی دیتا۔
چاندنی رات میں گاؤں کے باہر لڑکے کبڈی کھیلتے تو صاحب جا کر ضرور دیکھتے۔ کبھی خوش ہوتے تو جیتنے والی ٹیم کے لیے اکنی کا انعام بھی رکھ دیتے۔ اکنی میں پانچ سیر حلوہ بنتا جسے کھلاڑی مزے لے کر کھاتے۔ صاحب کو تالاب میں تیرنا اور سنگھاڑے توڑ کر لانا بہت پسند ہے۔ دو مٹی کے گھڑوں کی ڈونگی بنا کر صاحب گھنٹوں تالاب میں سنگھاڑے توڑتے رہتے، کبھی کبھی گھر بھی لے آتے۔
پورے گاؤں میں ہی نہیں دس بیس گاؤوں میں صاحب کے پاس ہی گھڑی ہے۔ صاحب کے علاوہ اترولا کے نواب صاحب کے پاس گھڑی ہے۔ صاحب صبح گھڑی میں کوک دیا کرتے تھے تو لوگ جا کر دیکھتے تھے کہ گھڑی میں کوک کیسے دیتے ہیں! ٹائم دیکھنا تو صاحب کے علاوہ اور کسی کو آتا نہ تھا۔ ایرا غیرا آدمی صاحب سے ٹائم پوچھنے کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔ گاؤں میں دو ہی تین آدمی ہیں جو ٹائم پوچھنے صاحب کے پاس آتے ہیں۔ صاحب ڈبہ کھول کر گھڑی نکالتے ہیں، ڈھکن اٹھاتے ہیں، گھڑی صاف کرتے ہیں، ایک آنکھ والا چشمہ لگاتے ہیں اور گھڑی میں ٹائم دیکھ کر بتاتے ہیں۔ گاؤں میں کسی کو گھنٹہ اور منٹ کی جانکاری بھی نہیں تھی، اس لئے ٹائم کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔
حاجی کریم ٹائم پوچھنے کے لیے اپنے نوکر جمن کو بھیجتے تھے۔ اسے صاحب جو ٹائم بتاتے تھے اسے وہ رٹتا ہوا حاجی جی کے گھر کی طرف دوڑتا۔ جمن پھر راستے میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا، کیونکہ اگر وہ بات کر لیتا تھا تو ٹائم بھول جاتا تھا اور پھر صاحب کے پاس جانا پڑتا تھا۔ صاحب دوبارہ ٹائم دیکھنے کی بات سے چڑھ جاتے تھے اور کبھی کبھی منع بھی کر دیتے تھے، تب جمن کہتا کہ وہی ٹائم بتا دیجیے جو پہلے بتایا تھا۔ اس پر بھی صاحب کو غصہ آ جاتا تھا۔ کہتے تھے کہ ٹائم کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ کیا ٹائم ہمیشہ ایک رہتا ہے؟ ارے ٹائم تو بدلتا رہتا ہے۔ یہ سن کر لوگ تعجب میں پڑ جاتے تھے کہ ٹائم لگا تار کیسے بدلتا رہ سکتا ہے؟ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو لگا تار بدلتی رہی، پھر ٹائم کیوں لگاتار بدلتا رہتا ہے؟ بہرحال ترس کھا کر صاحب پھر ٹائم بتا دیتے تھے اور جمن رٹتا ہوا حاجی جی کے گھر کی طرف بھاگ جاتا تھا۔
علاقے میں اگر کبھی کسی زمین دار یا نواب کے یہاں انگریزی کا کوئی خط آ جاتا تھا تو صاحب کو بلایا جاتا تھا۔ صاحب کو لینے بیل گاڑی آتی تھی۔ صاحب اس دن اپنا کالا کوٹ پہنتے تھے، ہیٹ لگاتے تھے، گلے میں سفید رو مال باندھتے تھے۔ بوٹ پہنتے تھے۔ چشمہ اور گھڑی رکھتے تھے۔ قلمدان لیتے تھے اور بیل گاڑی پر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک دو بار انہوں نے بیل گاڑی پر کرسی رکھا دی تھی اور کرسی پر بیٹھتے تھے، لیکن ہچکولوں سے کرسی ایک دو بار گر گئی تھی۔ اس لئے صاحب اب بیل گاڑی کے ڈنڈے پر بیٹھتے ہیں۔ صاحب جب انگریزی خط پڑھنے جاتے ہوتے ہیں تو ان کے گھر کے سامنے لونڈوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ صاحب کے بھتیجے تکو میاں اور ابو میاں پھول جاتے ہیں۔ کسی کو اپنے آگے کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ ہے کوئی علاقے میں ایسا جو صاحب کی طرح انگریزی پڑھ لکھ اور بول سکتا ہو؟
ایک بار نواب اترولا کے یہاں کلکٹر آ رہا تھا۔ نواب صاحب بڑے پریشان تھے، انہوں نے صاحب کے لیے فٹن بھیجی تھی۔ اس پر صاحبوں کی طرح بیٹھ کر وہ اترولا گئے تھے اور کہتے ہیں صاحب کی انگریزی سن کر کلکٹر دنگ رہ گیا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں تھا کہ اس علاقے میں کوئی ایسی انگریزی بولتا ہو گا۔
تکو کہتا ہے، ’’اب تم لوگ کیا سمجھتے ہو؟ صاحب کو سرکاری نوکری نہیں مل سکتی؟ ارے وہ چاہیں تو نائب تحصیلدار تو ہو ہی سکتے ہیں۔ دو تین بار نواب میر امجد علی نے انہیں منیجر بنانے کی بات کی ہے، لیکن صاحب تو من موجی ہیں۔ انہیں گاؤں میں مزہ آتا ہے۔ ارے، یہ تو ہمارے نصیب ہیں کہ گاؤں میں صاحب جیسا آدمی رہ رہا ہے۔ کہاں ملے گا ایسا آدمی جو لاٹ صاحب سے بات کر سکتا ہو؟‘‘
گاؤں کے پرانے لوگوں کو یہ اب تک یاد ہے کہ صاحب چمچے سے دال کھایا کرتے تھے۔ یہ بات آس پاس کے گاؤوں میں لوگوں کو بھی پتہ چل گئی تھی اور سب کے لیے یہ ایک ان بوجھ پہیلی بن گئی تھی کہ صاحب دال چمچے سے کیوں کھاتے ہیں؟ صاحب جب آئے تھے تو انہوں نے اپنے ایک بکسے میں سے چھری، کانٹا اور چمچہ نکالا تھا۔ کانٹا اور چھری گھر والوں کے لیے ہی نہیں پورے گاؤں کے لیے نئی چیزیں تھیں اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے؟
تکو نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا، ’’چچا جان یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کھانا کھانے کے لیے ہے۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
تکو کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تھا۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ برتن کھائے نہیں جاتے۔ کیا صاحب برتن کھاتے ہیں؟ ایسا ہے تو گھر کے سب برتن صاحب کھا جائیں گے۔
’’یہ کھاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، اس سے کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
…اور صاحب نے چھری، کانٹے اور چمچے سے جو کھانا شروع کیا تو گھر کے باقی لوگ صرف انہیں دیکھ رہے تھے۔ سب کھانا، کھانا بھول گئے تھے۔ دھیرے دھیرے صاحب نے چھری اور کانٹے کو الگ رکھ دیا، لیکن چمچے کا استعمال کرتے رہے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے چمچے کو خود دھوتے، پونچھتے اور سہی جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ گاؤں میں یہ بات دھیرے دھیرے پھیلی تھی اور پھر آس پاس تک چلی گئی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ انگریز ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتے، کیونکہ ہاتھ کو گندا مانتے ہیں۔ مانا جاتا تھا کہ انگریز حاجت کے بعد پانی کا استعمال نہیں کرتے ہیں، کاغذ سے پونچھ لیتے ہیں، لیکن صاحب ایسا نہیں کرتے۔
صاحب کے چمچے سے زیادہ ان کے کانٹے کو دیکھ کر لوگ حیران تھے۔ کسی نے کبھی ایسی چیز نہ دیکھی تھی اور یہ تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس سے کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے صاحب کا کانٹا نہ دیکھا تھا اور ایسے لوگوں کی بڑی تعداد تھی، انہیں بتایا جاتا تھا کہ سمجھ لو چمچ میں ببول کے بڑے بڑے کانٹے لگے ہوتے ہیں چمچے کی جگہ پر، جس سے صاحب کھانا کھاتے ہیں۔ کانٹے کیا ان کے منھ میں چبھ نہ جاتے ہوں گے؟ یا کانٹے میں کھانا کیسے آتا ہو گا؟ مان لو صاحب سالن روٹی کھا رہے ہیں تو کیا کرتے ہوں گے؟ روٹی تو پوری کی پوری کانٹے میں پھنس جاتی ہو گی۔ کیا صاحب روٹی دانت سے کاٹ کاٹ کر کھاتے ہیں؟ اور صاحب کانٹے سے سالن کیسے کھاتے ہوں گے؟ دوچار لوگ جو صاحب کے نزدیک آ گئے، ان سے کانٹا دکھانے کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ صاحب انہیں چاندی کا بڑا سا کانٹا دکھاتے تھے، لیکن کانٹا کسی کے ہاتھ میں نہیں دیتے تھے۔
کچھ سال کے بعد صاحب کے پاس ایک خط آیا جسے پڑھ کر وہ بہت روئے۔ بتایا کہ لندن میں ان کی گھر والی کے گزر جانے کا حال خط میں لکھا ہے۔ پھر صاحب کو دھیان آیا۔ انہوں نے سب سے پوچھے کہ دیکھو جب میں مر جاؤں گا تو کیا تم لوگ لندن میرے بچوں کو خط لکھ سکو گے؟ خط انگریزی میں ہونا چاہیئے، کیونکہ میرے بچوں کو اردو نہیں آتی۔ اب تو بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ گاؤں کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی منشی جی کو بھی انگریزی میں چٹھی لکھنا نہ آتا تھا۔ وہ فارسی اردو جانتے تھے۔ آس پاس کے گاؤوں میں بھی کوئی ایسا نہ تھا۔ حد یہ ہے کہ ڈگلی پور گرجا گھر کے پادری کو بھی انگریزی میں چٹھی لکھنا نہ آتا تھا۔ شہر یہاں سے چالیس کوس پڑتا ہے۔ جہاں کا ایک آدھ وکیل انگریزی میں چٹھی لکھ سکتا ہے۔
کوئی بات نہیں۔ ایک دن بات صاحب کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ املی کے پیڑ کے نیچے لیٹے تھے اور اوپر سے سوکھی املیاں گر رہی تھیں۔ تکو رسی بٹ رہا تھا۔ انہوں نے تکو سے کہا، ’’سنو تکو، چٹھی والی بات سمجھ میں آ گئی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہم تمہیں چٹھی لکھ کر دے دیں گے۔ ہمارے مرنے پر ڈال دینا۔‘‘
’’ہم نے آج تک چٹھی نہیں ڈالی ہے چچا جان۔۔۔ چھٹی تو جائے گی نا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ جو ڈاکیہ آتا ہے۔۔۔ دے دینا۔۔۔ چار آنے لے گا۔۔۔ چار آنے بھی میں دیتا جاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
صاحب کھیتوں، کھلیانوں، تالابوں، ندیوں، جھیلوں اور گھاس کے میدانوں میں گھومتے رہے۔ نہ انہیں گرمی لگتی تھی اور نہ سردی۔ کوئی میلہ ٹھیلا ایسا نہ ہوتا جسے صاحب چھوڑ دیتے۔ دس دس کوس پیدل چلے جاتے اور برسات کے دنوں کی ندی تیر کر پار کر لیتے۔ ایک رات کھانا کھانے کے بعد صاحب نے تکو سے کہا، ’’پر تکو ایک بات ہے۔ خط میں میں یہ کیسے لکھ پاؤں گا کہ میں کیسے مرا؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘ تکو نے سوچنے کا سارا کام صاحب پر چھوڑ رکھا ہے۔
’’مان لو میں چٹھی میں لکھتا ہوں کہ ہیضے سے مر گیا اور مرتا ہوں بخار آنے سے، تو؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘
’’تو میں چٹھی جلدی نہ لکھوں؟ یعنی جب بیمار پڑوں تو لکھوں؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’مگر مان لو میں سانپ کاٹنے سے مر گیا۔‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘
’’سانپ کاٹنے کے بعد میں چٹھی کیسے لکھوں گا؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘
’’تو میں تمہیں کئی چٹھیاں لکھ کر دے دوں گا۔۔ جس طرح مروں ویسی چٹھی ڈال دینا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مگر یہ تمہیں یاد رہے گا کہ کون سی چٹھی کس بیماری سے مرنے پر ڈالی جائے گی؟‘‘
’’یہ تو ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ہاں، کیا کیا جائے؟‘‘
’’چلو ہر چٹھی الگ الگ آدمیوں کو دے دیں گے۔ ایک آدمی کو ایک بیماری تو یاد رہے گی۔‘‘
’’ہاں، یہ ٹھیک ہے۔‘‘
اسی سے اوپر کے ہو کر صاحب مرے، لیکن۔۔ ۔۔ گھٹنوں کے درد کی وجہ سے صاحب بستر پر پڑے تو پڑے ہی رہ گئے۔ مہینہ ہو گیا، دو مہینے ہو گئے، صاحب پڑے ہی رہے، پھر صاحب نے دوائیں بھی کھانی چھوڑ دیں۔۔۔ صاحب کو نیند نہ آنے کی شکایت ہو گئی۔ وہ نہ تو دن میں سوتے تھے، نہ رات میں۔۔۔ پھر اچانک ایک دن ابو نے سنا کہ صاحب نیند میں بڑبڑا رہے ہیں۔ وہ اٹھ کر ان کی چارپائی کے پاس گیا۔ وہ جو کچھ بڑبڑا رہے تھے وہ ابو کی سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید صاحب انگریزی میں کچھ کہہ رہے تھے، پر صاحب سو بھی نہ رہے تھے۔ ابو نے ان سے کچھ پوچھا تو دیکھا صاحب جاگ رہے ہیں، پر انہوں نے یہ نہیں مانا کہ وہ انگریزی میں کچھ بول رہے تھے۔
دھیرے دھیرے یہ ہونے لگا کہ صاحب رات رات بھر انگریزی بولا کرتے تھے۔ کبھی لگتا تھا کہ وہ کسی پر ناراض ہیں، لڑ رہے ہیں، غصہ کر رہے ہیں۔ کبھی لگتا تھا کچھ دعا کر رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے رونی سی آواز میں کچھ گزارش کر رہے ہیں۔ کبھی لگتا کہ صاحب بڑے پیار بھرے لہجے میں ایسے بول رہے ہیں جیسے بچوں سے بولا جاتا ہے۔ ابو اور بکو ہی نہیں گھر کے سب لوگ یہی سمجھتے تھے کہ صاحب کا دماغ پلٹ گیا ہے، لیکن دن میں صاحب کی حالت ٹھیک ہو جاتی تھی۔ ٹھیک ٹھاک بات چیت کرنے لگتے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ گٹھیا کا روگ موسم بدلتے ہی ٹھیک ہو جائے گا اور وہ آرام سے چل پھر سکیں گے، لیکن گرمیاں آئیں، پھر برسات آئی اور پھر جاڑا آیا پر صاحب چل پھر نہ سکے۔ ان کا وزن بھی تیزی سے گھٹتا چلا گیا اور اسی تیزی سے رات میں ان کا انگریزی میں بڑبڑانا بھی بڑھتا چلا گیا۔
ایک رات صاحب کچھ نام لے لے کر آواز دیتے رہے، لیکن وہ لوگ کون ہیں، کہاں ہیں، یہ کسی کو معلوم نہ تھا، گاؤں کے بڑے بزرگوں نے صرف اندازہ لگایا کہ صاحب اپنے بیٹے بیٹی اور گھر والی کو ہی آوازیں دے رہے ہیں۔ ان کے پکارنے کے جواب میں اگر تکو یا ابو بول دیتے تو صاحب چپ ہو جاتے تھے، پھر اچانک صاحب ایک رات چیخنے چلّانے اور رونے لگے۔ ان کی سانس بھی اکھڑنے لگی۔ منھ سے آواز نکلنی بند ہو گئی اور صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
صاحب کے مرنے کی چٹھی لندن نہیں بھیجی جا سکی، کیونکہ صاحب نے جتنی چٹھیاں لکھوائی تھیں اور ان چٹھیوں میں مرنے کی وجہیں لکھوائی تھی، ان سے صاحب نہ مرے تھے۔ نہ تو صاحب کو جاڑا لگ کر تیز بخار آیا تھا، نہ ہیضہ ہوا تھا، نہ چیچک ہوئی تھی، نہ سانپ کے کاٹے سے مرے تھے اور نہ کسی تالاب میں ڈوب کر مرے تھے، نہ گھر میں آگ لگنے سے، نہ ڈاکوؤں نے انہیں قتل کیا تھا۔
صاحب کے نام ولایت سے جو خط آیا کرتے تھے۔ لگاتار اپنے حساب سے یعنی تین چار مہینے میں ایک خط آتا رہا۔ اس کو پڑھتا کون اور جواب کون دیتا؟ اس لئے تکو خطوں کو صاحب کے کالے بکسے میں ڈال دیتا تھا۔ ہوتے ہوتے دو سال ہو گئے۔ صاحب کے پانچ خط آئے تھے۔
ایک دن گاؤں میں سننے کو ملا کہ کلٹر صاحب علاقے کے دورے پر آ رہے ہیں اور وہ گاؤں بھی آئیں گے۔ گاؤں میں آ کر وہ صاحب کے بارے میں تحقیقات کریں گے۔ یہ سنتے ہی تکو اور ابو کو دست لگ گیا تھا۔ دونوں کے چہرے پیلے پڑ گئے تھے۔ گاؤں میں طرح طرح کی باتیں پھیل گئی تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ صاحب اپنی موت نہیں مرے ہیں۔ تکو اور ابو نے ان کے سامان پر قبضہ جمانے کے لیے ان کا گلا دبایا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ تکو اور ابو نے صاحب کی آخری وصیت، کہ ان کی لاش گاؤں میں ہی دفن کی جائے، پوری نہیں کی ہے اور اس بات کا پتہ کلٹر صاحب کو چل گیا ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ صاحب کلٹر صاحب کے خواب میں آئے تھے اور انہوں نے تکو اور ابو کے بارے میں انگریزی میں شکایت کی تھی۔ کچھ لوگ بتاتے تھے کہ صاحب کی انگریزن نے انگریزی میں لکھ کر ایک شکایت شہنشاہِ انگلستان کو دی تھی۔ یہ شکایت لندن دربار سے سات سمندر پار ہندوستان آ گئی ہے۔ اسی پر کار روائی کرنے کلٹر صاحب آ رہے ہیں۔
بہرحال، جتنے منھ تھے، اتنی ہی باتیں تھیں۔ تکو اور ابو پر محرم آ گیا تھا۔ چولھا تک نہ جلتا تھا اور عورتیں سوگ منایے بیٹھی تھیں۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ تکو اور ابو کی زمینیں قرق ہو جائیں گی اور دونوں کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا۔ کوئی کہتا تھا کہ کم سے کم کالا پانی تو بھیج ہی دیا جائے گا۔ تکو ابو نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ دن بھر نیم کے پیڑ کے نیچے پڑے آپس میں پتہ نہیں کیا کیا باتیں کیا کرتے تھے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے انہیں سمجھاتے تھے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے اور جارج پنچم کے دربار میں ایسی نا انصافی نہیں ہو سکتی۔ پورا گاؤں گواہی دے گا کہ صاحب اپنے آپ مرے ہیں۔
کلٹر صاحب کی موٹر کے لیے کچا راستہ بننے لگا تھا اور پٹواری نے گاؤں کے کھاتے میں بیس بیگاری لکھ دئیے تھے۔ تو بیس بیگاری جایا کرتے تھے۔ ایک مہینے میں راستہ تیار ہوا تھا۔ نواب حیدر خاں کے آم کے باغ میں بڑا سا شامیانہ لگا تھا جہاں کلٹر صاب کو دربار کرنا تھا۔ شامیانے کے پیچھے کلٹر صاب کے رہنے کے لیے پھوس کا بنگلہ بھی تیار ہو گیا تھا۔ اس کے پیچھے ڈپٹی کلٹروں، تحصیل داروں، نائبوں اور دوسرے عملے کے لیے چھوٹے بڑے حسبِ حیثیت بنگلے تیار کیے گئے تھے۔ پیچھے اردلیوں، گماشتوں، نوکروں کے لیے جھونپڑیاں ڈالی گئی تھیں۔ پولس کے لیے الگ انتظام تھا۔ میرٹھ سے گیس بتیاں، چور بتیاں، میز کرسیاں منگوائی گئی تھیں۔ کلٹر صاحب کے آنے سے پہلے ہی پورا عملہ آ گیا تھا۔ دھوبی، بھشتی، نائی، باورچی، خانساماں سب جمع ہو گئے تھے۔ پورے علاقے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ زور سے سانس بھی لے سکے۔
کلٹر صاحب نے دربار کیا۔ آخری دن تکو اور ابو کی پیشی ہوئی۔ یہ دونوں صاحب کا ایک ایک سامان لیے حاضر تھے۔ یہاں تک کہ صاحب کا تکیہ، دری اور چادر تک لے گئے تھے۔ صاحب کے کاغذ پتر بھی ان کے ساتھ تھے۔ کلکٹر صاحب نے ان خطوں کو کھولا جو صاحب کے مرنے کے بعد آئے تھے۔ انہیں پڑھا، تکو ابو نے صاحب سے پہلے کوئی انگریز نہ دیکھا تھا۔ وہ دونوں صاحب کا لال چہرہ اور بھورے بال دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے تھے۔ دونوں پتے کی طرح کانپ رہے تھے اور ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ ان کے حلق اور زبانیں سوکھ گئی تھیں اور کچھ پوچھا جاتا تو بول نہ سکتے تھے۔
کلٹر صاحب کو وہ خط بھی دئیے گئے جو صاحب نے اس بابت لکھ کر دئیے تھے کہ اگر ان کی موت اس طرح سے ہو تو ‘یہ’ خط ڈالا جائے اور اس طرح سے ہو تو ‘وہ’ خط ڈالا جائے۔ کلٹر صاحب نے ان خطوں کو بھی پڑھا۔ ڈپٹی صاحب سے انگریزی میں بات چیت کی اور حکم دیا کہ تکو ابو جا سکتے ہیں۔ دونوں کس طرح گھر آئے تھے، یہ انہیں معلوم نہیں، پر دونوں کو تیز بخار آ گیا تھا اور عورتیں رات دن ان کے جسم پر پیپل کے پتے پھیرا کرتی تھیں۔ حکیم شفیع اللہ کی دو خوراکیں روز دی جاتی تھیں۔ اللہ اللہ کر کے پندرہ دن میں بخار اترا تھا۔ صاحب کا سامان انہیں لوگوں کو دے دیا گیا تھا، پر یہ دونوں اسے نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرتے تھے۔ قسمت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ صاحب کا بھتیجا تکو کا لڑکا جاوید پڑھائی لکھائی میں تیز نکلا اور گاؤں، قصبے اور شہر کی پڑھائی پوری کرنے کے بعد دلی کے سینٹ سٹیفنس کالج میں داخل ہو گیا۔ تکو اور ابو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو یہ یقین تھا کہ جاوید بیرسٹر بنے گا اور پھر قسمت نے زور مارا۔ جاوید کالج میں اول آیا اور اسے ولایت جا کر پڑھائی کرنے کا وظیفہ مل گیا۔ ولایت جانے سے پہلے وہ گاؤں آیا۔ اس نے صاحب کا وہ بڑا سا بکسا کھولا جس میں وہ اپنے خط رکھتے تھے۔ صاحب کو مرے بیس سال ہو چکے تھے، لیکن بکسے میں ان کی ایک ایک چیز قرینے سے رکھی تھی۔ جاوید نے صاحب کے پاس لندن سے آئے خطوں کو پڑھا اور کئی پتے نوٹ کیے۔
جاوید کو پانی کے جہاز پر بٹھانے بمبئی تک کئی لوگ گئے تھے۔ وہ قحط کا سال تھا اور ستمبر کا مہینہ تھا۔ جاوید کو لندن بھیجنے کے لیے اس کی ماں تیار نہیں تھی اور کہتی تھی کہ جاوید کو لندن بھیجا تو میں سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال دوں گی یا سنکھیا کھا کے سو جاؤں گی، لیکن جاوید جانتا تھا کہ اس کا لندن جانا کتنا ضروری ہے۔ اس نے ماں کو سمجھا لیا تھا پر ماں کو یہ معلوم تھا کہ لندن میں گوری عورتیں مردوں کو پھنسا لیتی ہیں، اس لئے ماں کے زور ڈالنے پر لندن جانے سے پہلے جاوید کا نکاح بھی کر دیا گیا تھا۔
جاوید کے لندن جانے کے کوئی دو مہینے بعد اس کا ایک خط آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ وہ صاحب کے گھر گیا تھا۔ صاحب کے لڑکے رابرٹ سے ملا تھا اور صاحب کی لڑکی وکٹوریہ نے بھی اس کی اچھی خاطر مدارات کی تھی۔ وہ دونوں اپنے باپ یعنی صاحب کو یاد کر کے بہت دکھی ہو گئے تھے کہ پتہ نہیں ہندوستان کے گاؤں میں صاحب کی زندگی کیسے کٹی ہو گی؟ لیکن جاوید نے جب سب کچھ انہیں تفصیل سے بتایا تو ان کو کچھ چین آیا تھا۔ جاوید نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ لوگ صاحب کا سامان، ان کے کاغذ پتر مانگ رہے ہیں اور چاہتے تھے کہ پارسل کے ذریعے صاحب کا پورا بکسا لندن بھیج دیا جائے۔ تکو میاں نے صاحب کا بکسا سہارنپور کے مختارِ عام بابو جانکی پرساد مصرا کے ذریعے لندن بھجوا دیا تھا، جس پر اکیس روپے تیرہ آنے خرچ آیا تھا۔ یہ بھی بڑی بات تھی کہ تکو میاں نے بکسا بھجوانے پر اتنا زیادہ پیسہ خرچ کر دیا تھا۔
٭٭٭
3
یہ تو ہوئی جگ بیتی۔ اب میں آپ کو آپ بیتی سناتا ہوں۔ اوپر والے واقعے میں، اگر کوئی لاگ لپیٹ ہے تو اس کی ذمے داری سنانے والے پر ہے۔ اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ میرے اپنے ساتھ ہوا ہے اور جو ہوا ہے وہ سب سچ سچ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو میری عمر چودہ سال تھی۔ میرا خاندان بلند شہر ضلعے کے ڈبائی قصبے میں رہتا تھا۔ اس قصبے کی ایک گلی کو سید واڑا کہا جاتا ہے۔ وہیں ہم لوگ رہتے تھے۔ چاروں طرف مار کاٹ مچی تھی۔ ہمارے قصبے اور شہر میں کچھ نہ تھا، لیکن لوگوں کے دماغوں کے اندر اتھل پتھل چل رہی تھی۔ اچانک ایک دن میرٹھ سے میرے ماموں آئے اور بتایا کہ پورا خاندان پاکستان جا رہا ہے۔ دلی سے سپیشل ٹرین چل رہی ہے جسے ملٹری والوں کی حفاظت میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے گئی ٹرینوں میں بڑی مار کاٹ ہوئی تھی، لیکن اس ٹرین کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔ ماموں نے کہا کہ بڑی مشکل سے میں نے اس ٹرین کے دس ٹکٹ حاصل کر لئے ہیں، اگر تم لوگ چلنا چاہو تو چلو۔ ہمارے ابا اور امّاں نے سوچا کہ پورا خاندان ہی جا رہا ہے تو ہم لوگ یہاں رہ کر کیا کریں گے؟ ہم نے بھی بستر باندھ لیا۔ ڈبائی میں ہم لوگوں کے ساتھ ہی رشتہ کے ایک چچا رہتے تھے۔ ان کے حوالے گھر کیا اور ہم لوگ ضروری سمان لے کر صبح تڑکے دو اکوں پر سوار ہو کر اس طرح نکلے کہ ہمارے جانے کی کسی کو خبر نہ ہو۔
اکوں سے ہم علیگڑھ آئے۔ وہاں سے دلی پہنچے۔ دلی کے پاس فرید آباد ریلوے اسٹیشن سے سپیشل چھوٹنی تھی۔ ہم وہاں گئے۔ میری ماں نے میری بنیان میں پانچ ہزار روپے سی دئیے تھے۔ چھوٹے بھائی کے کپڑوں کے ساتھ بھی پیسے سیے تھے۔ ابا کی شیروانی کے استر میں پیسے سیے گئے تھے۔
اسٹیشن پر ٹرین آئی تو عجیب سی لگی۔ ہر چار پانچ ڈبوں کے بیچ ایک کھلی ہوئی بو گی لگی تھی جس میں آرمی والے ریت کے بورے لگائے، چھوٹی چھوٹی بیرکوں میں تعینات تھے۔ گارڈ کے ڈبے کے پیچھے بھی ایک آرمی کا مورچہ جیسا ڈبہ تھا اور انجن کے آگے بھی ایک اسی طرح کا ڈبہ لگایا گیا تھا۔ سواری ڈبوں کی کھڑکیوں پر لکڑی کے تختے جڑے ہوئے تھے۔
ڈبے میں چھپن لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی لیکن اس میں ایک سو چھپن لوگ بیٹھے تھے۔ یہ بتا دیا گیا تھا کہ گاڑی پاکستان آنے سے پہلے نہیں رکے گی، اس لئے جتنا جو انتظام کر سکتا ہے، کر کے بیٹھے۔ بے حساب سامان لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جو لوگ فالتو سامان لے جانا چاہتے تھے، انہیں چھوڑ دئیے جانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
ٹرین روانہ ہوئی۔ کب رات ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ جو لوگ کھڑکیوں کے پاس بیٹھے تھے، وہ جھریوں سے آنکھیں لگائے کچھ دیکھ کر بتا دیتے تھے۔ اکثر اسٹیشنوں کے نام سننے میں آ جاتے تھے لیکن گاڑی وہاں رکتی نہیں تھی۔ کچھ دیر بعد، آدھی رات کے آس پاس گاڑی رک گئی۔ ملیٹری والوں نے ٹرین کے دونوں طرف مورچے لگا لئے۔ آس پاس میں اچانک تیز روشنی دکھائی پڑی اور گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگوں نے بتایا کہ آرمی والے فسادیوں کو بھگا رہے ہیں۔ پانچ چھ گھنٹے گاڑی وہیں کھڑی رہی۔ اجالا ہو گیا تو پتہ چلا کہ انجن یہ دیکھنے کے لیے آگے چلا گیا ہے کہ ریل کی پٹریاں تو اکھڑی ہوئی نہیں ہیں؟ انجن واپس آیا۔ ٹرین میں پھر لگا اور ٹرین چلی، لیکن رفتار بہت ہی دھیمی تھی۔ جیسے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہو۔
ڈبے کے اندر اٹھنے کی تو چھوڑیئے، پہلو بدلنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ شروع شروع میں تو کافی چیخ پکار تھی لیکن پھر اس طرح سناٹا چھا گیا جیسے کوئی زندہ ہی نہ ہو۔ دلی سے لاہور تک کا سفر اڑتالیس گھنٹے میں طے ہوا تھا۔
اب جو کچھ میری زندگی میں ہو رہا تھا، سپنا تھا۔ رات میں مجھے ڈبائی کے سپنے آتے تھے۔ میں لاکھ چاہتا تھا کہ رات میں ڈبائی کے سپنے نہ آئیں، لیکن یہ نا ممکن تھا۔ سالوں گزر چکے تھے لاہور آئے۔ شادی ہو گئی تھی۔ بچہ ہو گئے تھے لیکن ڈبائی کے سپنے آنا بند نہیں ہوئے۔ میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے بیوی کو سمجھا دیا تھا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، مجھے ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بچاری میری بات کو سچ سمجھی تھی اور مجھ سے ہمدردی رکھنے لگی تھی۔
سال پر سال گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ میں بوڑھا ہونے لگا۔ مطلب ساٹھ کے اوپر کا ہو گیا، لیکن مجھے یہی لگتا تھا کہ میں ڈبائی میں رہ رہا ہوں۔ یہ وہی گلی ہے۔ اسی گلی میں شیعوں کی مسجد ہے۔ آگے چل کر پنڈت رام آسرے کا گھر ہے۔ لاہور کی کسی گلی سے گزرتے ہوئے مجھے پنڈت رام آسرے کی آواز سنائی پڑ جاتی۔
میں کانپنے لگتا ہوں۔ یار، یہ کیا ہے؟ مجھے چامنڈا کے مندر کے اوپر پیپل کے اونچے اونچے پیڑوں کے پتوں کے کھڑکھڑانے کی آواز سنائی دیتی ہے اور پھر کسی شاخ سے کوئی بندر دھم سے مندر کی چھت پر کودتا ہے اور میرا کلیجہ دہل جاتا ہے۔ یا اللہ، میں کیا کروں؟
دن میں تو میں پھر بھی کسی طرح اپنے کو قابو میں رکھتا، لیکن رات ہوتے ہی، اور سوتے ہی، میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ایک پرانی فلم چلنے لگتی ہے، جس میں روز نیا ہوتا ہے۔ آج سئیا کے پل پر ہم لوگ آم کھا رہے ہیں۔ مہیش گٹھلیاں پانی میں پھینک رہا ہے۔ پتہ نہیں کیسے وہ نالے میں گر پڑا۔ ہم سب نے اسے نالے سے نکالا۔ چامنڈا سے باہر نکلے تو تیز لو چل رہی ہے اور ایسی گرمی تھی جس میں چیل تک انڈا چھوڑ دیتی ہے۔ ہم چار دوست کربلا تک آئے اور گیٹ کے نیچے بیٹھ کر گوٹیاں کھیلنے لگے۔ آج مہیش بہت ہارا۔ وہ رونے لگا تو میں نے اسے گڑ دے دیا، جو میں اماں سے چھپا کر اپنی جیب میں رکھ کر لایا تھا۔
روز رات کو ایک پرانا خواب نئی طرح سے دکھائی دیتا ہے۔
ستر سال پار کر جانے کے بعد بھی سب کچھ ایسا ہی رہا تو مجھے خیال آیا یہ پورا جنم تو ‘اس’ سنسار میں بتا لیا۔ اب دوسرا جنم جانے کہاں ہو گا تو کیوں نہ وہ جگہ دیکھی جائے جہاں جیون بھر رہا ہوں۔ لاہور میں تو میں رہا ہی نہیں۔
حساب کتاب دیکھا، پیسہ ویسا تو ٹھیک ہی ہے۔ دونوں بچہ پڑھ لکھ گئے ہیں۔ شادیاں ہو گئی ہیں، بچہ ہو گئے ہیں۔ پوری طرح سیٹل ہیں، لیکن میں ‘سیٹل’ نہیں ہوں۔ تو میں اپنے کو ‘سیٹل’ کرنے کا کام شروع کر سکتا ہوں۔
بھارت کے ویزا کے لیے اپلائی کیا۔ وجہ بتانے والے کالم میں لکھا ‘اپنے کو سیٹیل’ کرنا۔ اس پر ویزا آفیسر بہت ہنسا۔ بولا، ’’جناب۔۔۔ سمجھ میں آنے والی وجہ لکھیے۔ بزنس کرنا، شادی میں جانا ہے، کوئی غمی ہو گئی ہے۔ وغیرہ۔۔۔ وغیرہ۔۔۔؟‘‘
میں نے لکھا، ‘کیا غمی ہو سکتی ہے؟’ وہ پھر چڑھ گیا اور مجھ سے پوچھے بغیر لکھ دیا ‘غمی ہو گئی ہے۔’
رات اپنے بیڈ روم میں لیٹ کر میں دیر تک بھارت کے ویزے کو دیکھتا رہا اور ڈرتا رہا۔ ایک عجیب طرح کا ڈر جسے بتایا نہیں جا سکتا۔ بھارت کے ساتھ لڑائیاں، بھارت کے خلاف نفرت بھرا ‘پروپیگینڈا’۔ بھارت میں ہندو مسلم فسادات۔۔۔ سب کچھ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا، لیکن پھر خیال آیا میں بھارت کہاں جا رہا ہوں، میں تو ڈبائی جا رہا ہوں جسے میں سوتے میں اب بھی دیکھتا رہتا ہوں، جہاں کی آوازیں مجھے چاہے انچاہے سنائی دیتی رہتی ہیں۔ چامنڈا کے مندر کے برابر پیپل کے پیڑ پر بندروں کی کیں۔کیں۔ میرے کانوں میں کہیں بھی گونج جاتی ہے، لیکن ڈبائی جانے کے لیے بھارت جانا پڑے گا۔ بھارت میں مجھے کوئی پکڑ نہ لے؟ مجھ پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام تو لگایا ہی جا سکتا ہے۔ مجھے مسلمان سمجھ کر بھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہندو مسلم فساد ہو گیا تو میں بھاگ بھی نہ پاؤں گا۔ جس جس ہندو کو پتہ چلے گا کہ میں پاکستانی ہوں وہ نفرت سے میری طرف دیکھے گا۔ میں بڑھاپے میں یہ سب برداشت کر پاؤں گا؟ اگر نہیں تو پھر میں کیوں جا رہا ہوں؟ تو کیا نہ جاؤں؟۔۔۔ کسی نے سر پر ایک بھاری پتھر مار دیا ہو۔ چامنڈا کے مندر کی چھت پر بندر کودنے لگے۔ آم کے باغ میں کنجڑوں کا کٹہرا چیخنے لگا۔۔۔ میں جاؤں گا۔۔ ضرور جاؤں گا۔۔۔ کیوں کوئی مجھے مارے گا؟ کیا میرے چہرے پر لکھا ہے کہ میں مسلمان ہوں؟ میں داڑھی نہیں رکھتا، میرے ماتھے پر سجدے کا گٹا نہیں ہے۔ میں کٹر مسلمانوں والے کپڑے نہیں پہنتا۔۔۔ کوئی مجھے کیوں پہچانے گا کہ میں مسلمان ہوں؟
اتنے سالوں کے اتار چڑھاؤ کے بعد اب بھارت میں میں صرف ساجد رحمٰن کو ہی جانتا ہوں۔ وہ میری رشتہ کی ایک بہن کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اور علیگڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔ میں نے اسے اپنے بھارت آنے کا پروگرام لکھا اور اس کا جواب آیا کہ وہ مجھے لینے ایئرپورٹ آئے گا اور میں جہاں جہاں جانا چاہتا ہوں، وہاں وہاں لے جائے گا۔ میں نے اسے جواب دیا تھا کہ میں صرف ڈبائی جانا چاہتا ہوں، اور کہیں نہیں جانا چاہتا۔ صرف ایک دن ڈبائی میں گزار کر واپس چلا آؤں گا۔ ڈبائی میں اس لئے نہیں رکنا چاہتا کہ وہاں رہوں گا کہاں؟
دلی ہوائی اڈے پر اترتے ہی مجھے اچانک لگنے لگا تھا کہ میں ہوشیار ہو گیا ہوں۔ میں ہر کام اپنے پورے ہوش و حواس میں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ نہیں کہ کوئی میرے اوپر نگاہ رکھ رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ میں کسی بھی غلطی پر پکڑا جا سکتا ہوں پر یہ ضرور ہے کہ مجھے ہوشیار رہنا چاہیئے۔ میں امیگریشن کی لائن میں بڑے ادب سے کھڑا ہوا۔ ایک دو لوگ میرے آگے آ کر کھڑے ہو گئے تھے، لیکن میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ جب میرا نمبر آیا تو میرا دل دھڑک رہا تھا، لیکن میں چہرے پر پوری سنجیدگی اور یقین کے جذبات لئے ہوئے تھا، پھر مجھے لگا کہ یہ جذبہ کہیں میرے اندر کے ڈر کو نہ ظاہر کر دیں۔ اس لئے میں مسکرانے لگا، پر اندر سے کانپ رہا تھا۔ مجھے لگتا ضرور کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو جائے گی اور مجھے واپس لوٹایا جا سکتا ہے، لیکن جب میری باری آئی اور سکھ پولس افسر نے میرا پاسپورٹ اور کاغذ ہاتھ سے لیے تو میری جان ہی نکل گئی۔ سکھ، سنا تھا، مسلمانوں سے بہت نفرت کرتے ہیں۔ انہیں دنگوں وغیرہ میں بہت مارا گیا تھا۔ قتلِ عام کیا گیا تھا۔ میں بالکل خاموش کھڑا رہا، سکھ افسر نے میرے کاغذ دیکھ کر ٹھپے لگائے۔ قاعدے سے مجھے آگے بڑھ جانا چاہیئے تھا، لیکن میں کچھ سیکنڈ کے لیے وہاں کھڑا کا کھڑا رہ گیا، پھر خیال آیا کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ یہ تو پہلے اپنے آپ کو ‘گلٹی’ ثابت کرنے جیسا کام ہے۔ میں تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
دلی ہوائی اڈے کے باہر مجھے ساجد مل گیا۔ اس کے ساتھ ایک صاحب اور ملے جن کا تعارف یہ کہہ کر کرایا گیا کہ یہ ڈاکٹر شرما ہیں اور ہندی کے لیکچرر ہیں۔ میں کچھ پس و پیش میں پڑ گیا لیکن جلدی ہی یہ بات میری سمجھ میں آ گئی کہ ساجد نے بڑی عقلمندی کا کام کیا ہے۔
ہوٹل میں سامان وامان رکھنے کے بعد ساجد نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور ایک بہت بڑی غلطی کا پتہ چلا۔ میں نے دلی اور علی گڑھ کا ویزا لیا تھا۔ ساجد نے بتایا کہ ڈبائی تو بلند شہر ضلعے میں ہے اور مجھے بلند شہر کا ویزا لینا چاہیئے تھا۔ میرے ہاتھوں کے تو طوطے ہی اڑ گئے۔ یا اللہ یہ میں نے کیا کر ڈالا! میں یہ کیوں سمجھے بیٹھا تھا کہ ڈبائی علی گڑھ ضلعے میں ہے؟ وجہ یہ رہی ہو گی کہ ہم لوگ علی گڑھ ہوتے ہوئے ہی ڈبائی سے لکھنؤ آیا جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں ڈبائی کو علی گڑھ ضلعے میں سمجھ بیٹھا تھا۔
’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے ساجد سے پوچھا۔
صورت حال پتہ چلی کہ اب دلی میں نیا ویزا لگنا تو قریب قریب نا ممکن ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بلند شہر کا ویزا لگوانے اسلام آباد جاؤں؟ راستہ یہ ہے کہ میں۔۔۔ کانپ گیا اور بے ساختہ نہیں نہیں کہنے لگا۔ ستر سال کی عمر میں، ایک اچھی خاصی حیثیت کا آدمی ہونے کے بعد اپنے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا دیکھ کر گھبرا گیا۔
’’یہ میں نہیں کروں گا۔‘‘
’’انکل جی۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے؟‘‘ ڈاکٹر شرما بولے اور میں حیرت سے ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے پر بھروسہ اور دوستی تھی۔ یہ دونوں مجھے سمجھاتے رہے کہ کچھ نہ ہو گا، لیکن میری پریشانی کم نہیں ہوئی۔ میں نہ تو نہیں کہہ سکتا تھا اور نہ ہاں۔
’’انکل آپ کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر شرما نے کہا۔
’’میں تو کہہ ہی رہا ہوں کہ چلئے۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’میں سب سنبھال لوں گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ پچاس سال بعد اپنا گاؤں دیکھنے آئے ہیں اور بنا دیکھے چلے جائیں؟‘‘
میں ٹکر ٹکر شرما کی طرف دیکھنے لگا۔ جیسے طوطا جال میں پھنسنے کے بعد چڑی مار کو دیکھتا ہے۔
’’آپ کو کچھ نہ ہو گا۔‘‘
’’دیکھو بیٹا، میرے دل کے دو آپریشن ہو چکے ہیں۔‘‘
’’سر میں آپ سے کیسے کہوں کہ کچھ نہ ہو گا۔۔۔ میرے ماما لکھنؤ میں ڈی۔آئی۔ جی ہیں۔ میرے پتا جی رٹائرڈ چیف انجینئر ہیں۔۔۔ میرا بھائی آئی۔ آر۔ ایس میں ہے۔ آپ بھی انکل۔۔ ۔۔‘‘ شرما نے پورے یقین سے کہا۔
طے یہ پایا کہ میں آرام کروں، پھر تھانے جا کر رپورٹ کروں۔ اپنے کو ‘کمپوز’ کروں۔ لاہور فون کر کے بیگم صاحبہ سے بات کر لوں اور پھر سو جاؤں۔
سب کچھ میرے لیے نیا ہے۔ پچاس سال پہلے کی یادیں ختم ہو چکی ہیں۔ راستے، عمارتیں، پیڑ پودے، پل اور ندی نالے، سب نئے لگتے ہیں۔
میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ساجد اور شرما کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر ایک با وردی سپاہی بیٹھا ہے۔ یہ شرما جی کا کمال ہے۔ انہوں نے میرا بھروسہ بڑھانے کے لیے اس سپاہی کا انتظام کیا ہے۔ اب ہم پولس کی حفاظت میں ہیں۔ ہمیں کون روک سکتا ہے؟ اگر پولس نے روکا بھی تو پولس کا سپاہی ڈی۔ آئی۔ جی۔ آر۔ کے۔ شرما کا نام لے گا اور ہم آگے بڑھ جائیں گے۔
گاڑی ہچکولے کھاتی گزر رہی تھی۔ میں سب کچھ اس طرح دیکھ رہا تھا کہ زندگی میں دوبارہ یہ سب نہ دیکھ پاؤں گا۔
’’اب ہم ڈبائی آ گئے ہیں۔‘‘ شرما نے کہا۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ یہ تو نہیں ہے۔ ایک کچی سڑک بڑے نیلے تالاب کے پاس سے مڑتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف دیسی آم کے بڑے بڑے پیڑ تھے۔ آگے تھانہ تھا۔ کھپریل کی عمارت کے سامنے پیپل کا پیڑ تھا۔ اس کے تنے کے پاس ایک چھوٹی سی مورتی رکھی رہتی تھی۔ بائیں طرف داروغہ جی کی گھوڑی بندھی رہتی تھی، جسے کبھی کسی نے کہیں اور نہ دیکھا تھا۔ داروغہ جی جب نکلتے تھے تو بڑی شان سے لکھنؤ کا کرتا چوڑی دار پاجامہ پہنتے اور ٹوپی لگاتے تھے۔ ان کے پیچھے پوری وردی میں دو سپاہی ہاتھ باندھے چلا کرتے تھے۔ داروغہ جی کو وردی میں شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ داروغہ جی ٹھاکر رام سنگھ کی حویلی تک آتے تھے اور کچھ دیر بیٹھ کر لوٹ جاتے تھے۔ تھانے کے بعد اسی سڑک پر سرکاری اسپتال تھا۔ وہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔
’’یہ ڈبائی ہے؟‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں انکل، یہ ڈبائی ہے۔‘‘
’’وہ پکا تالاب کہاں ہے؟‘‘
’’سامنے آپ دکانیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ان کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ ویسے بھی اب تالاب میں کم ہی پانی ہے۔ پچھلے سال یہاں بارش نہیں ہوئی ہے۔۔ سوکھا پڑا ہے۔‘‘
ایک جگہ گاڑی روک دی گئی۔ سپاہی اور ڈرائیور کو گاڑی کے پاس چھوڑ دیا گیا اور ہم لوگ آگے بڑھے۔ اب ہم پرانے قصبے کی طرف جانے لگے۔
’’انکل، یہاں کس محلے میں آپ کا گھر تھا؟‘‘ شرما نے پوچھا۔
’’سید باڑا۔‘‘
ہم پوچھتے پوچھتے سید باڑا آ گئے۔
’’یہی ہے وہ محلہ؟‘‘ ساجد نے پوچھا۔
میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کچھ پتہ نہیں چلا کیونکہ پرانی نشانیاں غائب ہو چکی تھیں۔
’’پتہ نہیں۔‘‘ میں دھیرے سے بولا اور اپنے آپ پر شرم آنے لگی۔ ساجد نے آگے بڑھ کر دو ایک لوگوں سے پوچھا اور سب نے یہی بتایا کہ یہی سید باڑا ہے۔ ایک پتلی سی گلی کے دونوں طرف مکان بنے تھے۔ اب یہ طے ہو گیا کہ سید باڑا یہی ہے۔ میں اس گلی میں ان دو لوگوں کے ساتھ اپنا مکان تلاش کرنے لگا۔ میرے دل میں ایک ایسی ہلچل، ایسا طوفان اور ایسی بے چینی تھی جسے بتایا نہیں جا سکتا۔ لگتا تھا کہ مجھے اپنے اوپر قابو ہی نہیں ہے۔ پوری گلی دیکھ ڈالی پر مجھے اپنا مکان نہیں ملا۔ جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ جہاں بچپن اور لڑکپن بیتا تھا۔
’’انکل اور کوئی نشانی یاد ہے؟‘‘ شرما نے پوچھا جب ہم تینوں مایوس ایک جگہ کھڑے تھے۔
’’گلی میں شیعوں کی مسجد تھی۔۔۔ گھر مسجد سے آٹھواں مکان تھا۔‘‘ میں نے کہا۔ شیعوں کی مسجد جلدی ہی مل گئی۔
’’یہ وہی مسجد ہے۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’ہاں، وہی ہے۔‘‘ میں نے خود اپنی آواز کو کانپتے محسوس کیا۔ مسجد کا لوہے کی سلاخوں والا دروازہ بند تھا۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ سامنے والے گھر میں چابی ہے۔ ساجد چابی لے آئے۔ تالا کھولا گیا۔ ہم مسجد میں آ گئے۔ مجھے پہلی بار لگا کہ میں ڈبائی میں ہوں۔ یہ لوگ مجھ سے کچھ کہہ یا پوچھ رہے تھے لیکن مجھے سنائی نہیں دے رہا تھا۔
جاڑے کی سرد رات تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ آدھی رات اولے پڑے ہیں لیکن دادی فجر کی نماز کے لیے چار بجے اٹھ گئی ہیں۔
’’شجو۔۔۔ اے شجو۔۔۔ اٹھو۔۔۔ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘ میں بستر پر بے خبر سو رہا ہوں۔
’’شاکر۔۔۔ نے تو کہا تھا کہ۔۔۔ مسجد میں اذان دینی ہے۔ اٹھو۔۔ ۔۔‘‘
میں بستر پر کسمسا رہا ہوں۔
گلی میں سرد ہوا کے تیز جھونکے۔۔۔ لحاف اوڑھے ہوں۔۔مسجد کے ٹھنڈے پانی سے وضو کر رہا ہوں۔
’’اللہ اکبر۔۔ ۔۔‘‘ ٹھٹھری ہوئی آواز کہاں تک پہنچ رہی ہو گی مجھے بھی نہیں معلوم۔
’’یہ مسجد وہی ہے۔‘‘ شرما نے پوچھا۔
’’وہی ہے۔‘‘ میں نے کئی بار پوچھنے پر جواب دیا۔
’’لیکن۔۔۔ وہ حوض کہاں ہے جہاں پانی ہوتا تھا؟‘‘ آس پاس کے لوگ آ گئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں جب سے نل لگا ہے، حوض بند کرا دیا گیا ہے۔
’’…اور یہ لوہے کا دروازہ؟‘‘
’’ہاں پہلے لکڑی کا تھا۔۔۔ ہر دو چار سال بعد بدلنا پڑتا تھا۔‘‘
مسجد کے صحن سے آسمان کا اتنا ہی ٹکڑا دکھائی دیتا ہے۔ اب بھی مسجد اسی طرح سفید چونے سے پوتی جاتی ہے جیسے اس زمانے میں۔ یہ در، یہ دیواریں، اوپر کی چھت، میناریں اور منبر۔ میں خاموشی سے یہ سب نہیں دیکھ رہا تھا۔ میرے اندر آوازوں کا مجمع تھا۔ آوازیں دادی کے درد شریف پڑھنے کی آواز، ابا کی مرثیہ پڑھنے کی آواز، اماں کی کھانا کھا لینے کی پکار، آپا کی گڑیا کی شادی کے گانے کی آواز۔
ساجد اور شرما کچھ الگ کھڑے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں دل بھر کر وہ سب سوچ لوں، جو سوچنا چاہتا ہوں۔ ہم نے مسجد سے نکل کر گھر گننا شروع کیے۔ آٹھواں گھر میرا ہونا چاہیئے۔
’’یہی ہے آٹھواں گھر۔‘‘ شرما نے کہا۔
’’پہچان رہے ہیں آپ؟‘‘
’’نہیں یہ نہیں ہے۔‘‘ میں گھر کو اوپر سے نیچے دیکھتا ہوا بولا۔
’’انکل اور کوئی پہچان یاد ہے گلی کی؟‘‘ شرما نے پوچھا
’’گلی کے نکڑ پر چھجّو حلوائی کی دکان ہوا کرتی تھی۔‘‘
چھجّو حلوائی کی دکان تلاش کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ میں حیران ہو گیا۔ پتہ نہیں کیوں اب تک ویسی ہی ہے یہ دکان جیسی ہوا کرتی تھی۔ دھوئیں سے کالی دیواریں سامنے بڑی سی کڑھائی، تخت پر مٹھائیوں کے تھال۔۔۔ پر ایک آدمی بیٹھا جلیبیاں بنا رہا تھا۔
’’کیوں بھائی آپ چھجّو حلوائی کے کون ہیں۔‘‘ شرما نے پوچھا
’’میرے دادا جی تھے۔‘‘ وہ بولا
’’یہاں اس گلی میں وقار حسین صاحب کا گھر ہے؟‘‘
’’وہی جو پاکستان چلے گئے تھے؟‘‘
’’ہاں ہاں، وہی۔‘‘
’’ادھر پانچواں گھر ہے۔‘‘
’’وہاں اب کون رہتا ہے؟‘‘
’’صراف بابو رہتے ہیں۔‘‘
ہم گھر گنتے آگے بڑھنے لگے۔
’’یہی ہے رام لال صراف۔‘‘ دروازے پر لگی نیم پلیٹ پڑھ کر ساجد نے بتایا۔
’’یہی گھر ہے انکل؟‘‘
تین در گلی میں کھل رہے ہیں۔ ان کے برابر صدر دروازہ۔۔۔ سیڑھیاں۔۔۔ ہاں ہاں یہی ہے۔۔ یہی ہے۔۔ میں گھبرا کر گلی میں آگے بڑھ گیا۔ شرما اور ساجد دروازے پر کھڑے رہے۔
’’آئیے، اندر سے تو دیکھ لیجئے۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’بس دیکھ لیا۔۔۔ دیکھ لیا۔‘‘ میں رکا نہیں آگے بڑھتا چلا گیا۔ لگا کہ ایورسٹ فتح کر کے واپس لوٹ رہا ہوں۔ میں پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
میں آگے بڑھتا چلا گیا، میرا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ مجھے نہ کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نہ سنائی دے رہا تھا۔ میں بس آگے نکل جانا چاہتا تھا۔ اب میرے اندر ہمت نام کی کوئی چیز نہ بچی تھی۔ میں یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا کہ ہر رات سپنے میں آنے والا مکان میرے سامنے موجود ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تصور جی اٹھا ہو۔ میرے اندر ڈر اور خوشی کے جذبے ایک ساتھ مل گئے تھے۔ مجھے لگتا تھا بس اب ہو چکا۔۔۔ اب دیکھ لیا۔ یہ بھی لگا کہ وہ سب اب کہاں ملے گا جس کی تلاش میں میں آیا ہوں۔ وہ اب کہیں ہے تو میرے اندر ہے۔ مجھے وہ سب اپنے اندر ہی دیکھنا چاہیئے۔ میرے پیر رک ہی نہیں رہے تھے۔
میرے پیچھے سے ساجد کی آواز آئی۔
’’چلئے، وہ لوگ آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’صراف صاحب۔۔ شرما نے ان سے بات کر لی ہے۔‘‘
میں رک گیا۔ میں نے چہرے سے ڈھیر سارا پسینہ پونچھا۔
’’نہیں، اب واپس چلو۔‘‘
’’اتنی دور آ گئے ہیں۔۔۔ مل گیا ہے تو اندر سے بھی دیکھ لیجئے۔‘‘
’’دیکھ لیا۔۔ ۔۔‘‘
’’وہ لوگ برا مانیں گے‘‘
’’کون؟‘‘
’’صراف صاحب۔۔۔ انہیں شرما نے آپ کے بارے میں بتا دیا ہے۔‘‘
صدر دروازے پر ایک ادھیڑ عمر آدمی کرتا پاجامہ پہنے کھڑے تھے۔ ان کے گلے میں سونے کی ایک موٹی سی زنجیر تھی۔ ان سے مجھے ملوایا گیا۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور صدر دروازے سے ہم اندر داخل ہوئے۔ بائیں طرف والی بیٹھک میں آ گئے۔ بیٹھک سجی ہوئی تھی۔ انہوں نے تینوں باہری دروازے کھول دئیے۔ میں چھت کی طرف دیکھنے لگا۔
ساجد اور شرما کے لاکھ چھپانے کے بعد بھی صراف صاحب کو یہ پتہ لگ گیا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ ظاہر ہے وقار حسین کا بیٹا اور صابر حسین کا بھتیجا پاکستان سے ہی آیا ہو گا۔ یہ مکان میرے چچا صابر حسین ہی بیچ کر گئے تھے، کیونکہ پورے خاندان میں انہوں نے ہی سب سے بعد ہجرت کی تھی۔
’’آپ نے چھت بدلوائی ہے؟‘‘
’’ہاں، پہلے لکڑی کی پٹیاں تھیں۔۔۔ دس سال پہلے سلیب لگوا دیا تھا۔‘‘ صراف بولے۔ پانی آیا، چائے آئی، ناشتہ آیا، گھر کے بچے سب کچھ لا رہے تھے۔ صراف صاحب کی میزبانی سے میں متاثر ہو گیا۔
’’بھائی جی، آج بھی یہ آپ کا ہی گھر ہے۔ جب تک چاہیں، جتنے دن چاہیں آرام سے رہیے۔ ہمیں آپ کی سیوا کر کے اچھا ہی لگے گا۔‘‘ صراف بولے۔ میں کمزور ہو گیا تھا کہ خاموش تھا۔ ڈر تھا کہیں رونے نہ لگوں۔ صراف جی نے اپنی بہو کو بلایا۔ اس نے میرے پیر چھوئے تو میں اپنے آنسو روک نہیں پایا۔
’’جی، بھگوان کی کرپا سے بھرا پورا گھر ہے۔ میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑے کی شادی ہو گئی ہے۔ دو بچے ہیں۔ دوسرا بیٹا دلی میں ہے۔ موٹر پارٹس کا کام ہے اس کا۔ میری یہاں ہارڈویئر کی دکان ہے۔ بڑا بیٹا سنبھالتا ہے۔ میں تو اب کم ہی بیٹھتا ہوں۔ گھٹنوں نے مجبور کر دیا ہے۔‘‘ صراف نے تفصیل سے اپنے پورے خاندان کے بارے میں بتایا۔
’’اندر سے گھر دیکھیں گے؟‘‘ شرما نے مجھ سے پوچھا۔ وہ شاید سمجھ گیا تھا کہ میں جو چاہتا ہوں، وہ کہہ نہیں پا رہا ہوں۔ رنگا چنا صاف ستھرا آنگن، تین طرف برامدے۔۔۔ بالکل وہی۔۔ آنکھیں بند کیے بغیر خواب دیکھ رہا ہوں اور خواب میں بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ایک دن یہاں آ سکوں گا۔
’’ادھر سے۔۔۔ کمرے سے باہر آنے کا ایک چھوٹا دروازہ ہوا کرتا تھا؟‘‘ میں نے صراف صاحب سے پوچھا۔
’’ہاں، ہاں ہے۔۔ ۔۔‘‘ ہم کمرے میں آ گئے۔
’’اسی کمرے میں میں پیدا ہوا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’واہ جی، واہ۔۔۔ تو ہمارے لیے بڑی بات ہے۔‘‘ صراف بولے۔ مکان اندر سے دیکھ کر پھر بیٹھک میں آ گئے۔ اب میرا گلا کچھ کھل گیا تھا۔ میں نے کہا، ’’ادھر لکڑی کی ایک چوکی ہوتی تھی جس پر ابا نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہاں، ادھر کپڑے والی دو کرسیاں اور سرپت والی تین کرسیاں ہوتی تھیں۔‘‘
میں یہ سب ان لوگوں کو نہیں بتا رہا تھا، اپنے کو پھر سے یاد دلا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد میں نے صراف صاحب سے پوچھا، ’’یہاں چامنڈا کا مندر ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں جی ہے۔‘‘ وہ بولے۔
’’میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے گڑگڑا کر کہا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں؟”
’’گاڑی ہے ہمارے پاس۔۔ پکے تالاب پر کھڑی ہے۔‘‘
’’تب تو اور بھی اچھا ہے۔۔‘‘
’’اور چھُئیا کا پل بھی دیکھنا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور صراف صاحب ہنسنے لگے، ’’ہاں ہاں جی، ضرور۔‘‘ ایک برساتی نالے پر بنے پل کو دیکھنے کی دلی خواہش پر ہنسی آنا عجیب لگا ہو گا۔
’’اور کربلا۔۔۔ ٹھاکر صاحب کی حویلی۔’’
’’ہاں ہاں آپ کو سب دکھائیں گے۔‘‘ وہ بولے۔
ہمارے لیے چھئیا کی پلیا گاؤں کی آخری حد ہوا کرتی تھی۔ ہم پر وہاں جانے کی پابندی تھی، کیونکہ وہ سنسان اور ویران جگہ تھی۔ نیچے سے نالہ بہتا تھا جو برسات میں اتنا بڑھ جاتا تھا کہ باڑھ آ جاتی تھی اور گاؤں کے لڑکے مچھلی پکڑنے نکل پڑتے تھے۔ ہم بڑی حسرت سے ان لڑکوں کو مچھلی پکڑنے کے لیے جاتے دیکھا کرتے تھے۔
میں، سریش، امین، پربھاکر اور مہیش دوپہر میں سب کی نظروں سے بچ کر چھئیا آتے تھے۔ سریش کمل کے پھول توڑنے کی کوشش میں ایک بار نالے میں گر پڑا تھا اور ہم نے بڑی مشکل سے اسے نکالا تھا۔ پربھاکر اپنے گھر سے گڑ اور چنے لے آتا تھا۔۔۔ میں نے سوچا صراف صاحب سے سریش، پربھاکر اور مہیش کے بارے میں پوچھوں، لیکن پھر ڈر اور گھبرا گیا۔۔۔ لگا پتہ نہیں کیا باتیں پتہ چلیں اور پتہ نہیں، ان میں سے کتنی اچھی ہوں اور کتنی اچھی نہ ہوں، اس لئے ان دوستوں کی یادیں اپنے دل میں ہی محفوظ رکھوں۔
میں نے جھک کر چھئیا کو دیکھا۔ مجھے اپنا عکس گیارہ سال کے اس لڑکے کا لگا جو اس پلیا پر بیٹھ کر دیسی آم چوسا کرتا تھا اور گٹھلیاں چھئیا میں پھینکا کرتا تھا، شاید برسوں سے چھئیا آم کی ان گٹھلیوں کے لیے ترس رہی ہے۔ چھئیا کے اس پار سڑک کے دونوں طرف آم کے بڑے بڑے باغ ہیں۔
’’آم کے یہ باغ بہت پرانے ہیں۔‘‘ میں نے صراف صاحب سے کہا۔
’’ہاں، بہت پرانے ہیں ۔۔۔۔۔ باغ دیکھیں گے؟”
مجھے لے کر یہ لوگ باغ آ گئے۔ ڈاکٹر شرما نے دوچار ڈل پَک آم لے لیے۔ مجھے آفر کیے، میں نے منع کر دیا اور وہ بڑے مزے میں کھانے لگے۔
چامنڈا کے مندر کے سامنے گاڑی رکی۔
’’یہ مندر۔۔۔ اتنا بڑا۔۔ ۔۔‘‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن صراف بات پوری کرنے سے پہلے بولے، ’’مندر تو اب بھی چھوٹا ہی ہے۔۔پجاری کے لیے دو کمرے بنائے گئے ہیں۔‘‘
ہم مندر کے احاطے میں آ گئے۔ پیپل کے وہی پرانے اور لحیم شحیم پیڑ۔ میں ان کے پتوں کو ہوا میں ہلتا دیکھتا رہا۔ ہر پتے پر میرا نام لکھا ہے۔ ان پتوں پر بھی جو ابھی آج کل میں ہی نکلے ہیں، جن کا رنگ پیلا ہے اور جو کمسن لڑکی کے ہونٹوں جیسے ملائم ہیں۔
مندر کی چھت اور پیپل کے پیڑوں پر بندروں کی پوری فوج موجود ہے۔ ہم تپتی دوپہروں میں گھر والوں کو چکمہ دے کر یہاں آ جاتے، تب یہ مندر سنسان ہوا کرتا تھا۔ دیوی بہت سکون سے یہاں آرام کرتی تھی۔ ہم یہاں چبوترے پر بیٹھ جاتے تھے اور تالاب سے توڑے سنگھاڑے کھاتے تھے۔ بندر للچائی نظروں سے ہمیں دیکھتے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں ‘یار سب کھائے جا رہے ہو۔۔ ایک آدھ تو ہمیں بھی دے دو۔۔۔ ‘۔ اسی مندر کے چبوترے پر غلیل بنایا کرتے تھے۔ نشانہ سادھنے کی پریکٹس کیا کرتے تھے، پر ہمارے نشانے شاید غلط لگ گئے ہیں، تب ہی تو میں بے وطن ہو گیا ہوں۔۔۔ مہیش اور پربھاکر کے ساتھ دیوی کے درشن کرتا تھا، اب مجھے یاد نہیں، لیکن اس زمانے میں پوجا کی لائنیں یاد ہو گئیں تھیں جو موہن پڑھا کرتا تھا۔
ہمیں دیکھ کر پجاری باہر آ گئے۔ انہوں نے درشن کرایے اور کہنے لگا کہ کمروں کی چھتوں پر سلیب تو ڈل گیا ہے لیکن گِٹی نہیں پڑی ہے۔ کوئی عقیدت مند اگر بیس ہزار روپے دے دے تو گٹی پڑ سکتی ہے۔ صراف صاحب نے کہا، ’’یہ مہمان ہیں۔۔ آپ بعد میں مجھ سے بات کرنا۔‘‘ کربلا کے آس پاس کچھ نئے گھر بن گئے ہیں، لیکن کربلا کا پھاٹک وہی ہے۔ پھاٹک کے کنگورے، چو حدی وہی ہے۔ میناروں پر کالی کائی بھی ویسی ہے۔ اندر کی طرف دیوار میں بنی طاق بھی اسی طرح کالی ہے جیسی میں نے دیکھی تھی۔
مجھے لاہور میں جو خواب آتے تھے، وہ کتنے سچ ہوتے تھے۔ خواب میں ایک ایک ’ڈیٹیل‘ ہوا کرتی تھی۔ چامنڈا کے مندر میں آرتی، محرم کا جلوس، چھریوں کا ماتم، محرم کی صبح تعزیوں کا ٹھنڈا کیا جانا۔ چار بجے شام کو فاقہ شکنی۔۔۔ میں اپنے خوابوں کو ہی متشکل دیکھ رہا تھا۔ ایک ٹک، ایک نظر میں سب کچھ بھر لینا چاہتا تھا۔
’’میں کربلا کا چکر لگانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
”ہاں، ہاں چلیے‘‘، شرما میرے ساتھ ہو لیے۔ ہم گندی نالیوں اور کوڑے کے ڈھیر سے بچتے بچتے کربلا کا چکر لگانے لگے۔
”وہاں تو محرم بڑے زور شور سے منایا جاتا ہو گا؟” شرما نے پاکستان کے محرم کے بارے میں پوچھا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ کوئی صحیح جواب میرے دماغ میں نہیں آ رہا تھا، پھر خیال آیا کہ کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی چاہیئے۔ میں نے دھیرے سے ’ہاں‘ کہا اور کربلا کے دوسرے پھاٹک پر وہ جگہ دیکھنے لگا جہاں میں علم کھڑے کراتا تھا۔ جہاں ابا جان تابوت رکھتے تھے اور جہاں تعزئے رکھے جاتے تھے۔ میں وہاں گیا اور میں نے اس جگہ کو چھوا تو لگا ابا جان، بڑے خالو، بنے چچا اور اماں کو چھو لیا ہو۔
سب کچھ دیکھ کر واپس آئے تو صراف صاحب کے گھر کھانا تیار تھا۔ میں نے دل میں سوچا، اس احسان کا بدلا تو میں چکا بھی نہ پاؤں گا، کیونکہ صراف صاحب پاکستان کیوں آئیں گے؟ میں نے سوچا، کاش میں اپنے ساتھ کوئی اچھا تحفہ رکھ لیتا اور صراف صاحب کی بہو کو دے دیتا، پھر خیال آیا کہ بہو کو تو پیسے بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ میں نے بہو کو بلا کر اسے پانچ سو روپے دئیے۔۔ صراف صاحب بہت روکتے رہے، لیکن میں نہیں مانا۔ واپس جانے کے لیے ہم لوگ صراف صاحب کے گھر سے نکل کر گلی میں آ گئے۔ ایک چھوٹی سی دکان پر شرما نے سگریٹ خریدی۔ دوکاندار کو پیسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ پوچھنے پر کہ پیسے کیوں نہیں لے رہا ہے، اس نے گلی کے دوسری طرف کھڑے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ وہ منع کر رہے ہیں۔
میں ان کے پاس گیا۔ کوئی پینسٹھ ستر سال عمر رہی ہو گی۔ چہرے پر لمبی داڑھی، ماتھے پر سجدہ کرنے کا نشان۔ دبلا پتلا جسم۔ کرتا اور تہمد پہنے ان بزرگ سے پوچھا تو بولے ’’میں تجھ سے پیسہ لوں گا، پتہ نہیں کتنے سال بعد تو تو آیا ہے۔ تو مجھے نہ جانتا ہو گا لیکن میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں۔ تیرے باپ کو بھی جانتا تھا، تیرا چچا میرے ساتھ گھومتا تھا۔‘‘ میں حیران کھڑا رہ گیا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی آپ بیتی ختم کروں آپ لوگوں کو صرف ایک چھوٹی سی بات اور بتانا چاہوں گا۔ لاہور میں میرے دوست ہیں اکرم احمد۔ وہ لکھنؤ سے لاہور آئے تھے۔ پہلی بار جب مجھ سے ملے اور پتہ چلا کہ ہم دونوں مہاجر ہیں، تو بولے ’’چلئے صاحب، اپنے دیس کی کچھ باتیں ہو جائیں۔‘‘
’’اپنے دیس کی؟‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔ ہندوستان کی باتیں۔‘‘ وہ راز داری سے بولے۔ میں حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’آپ نے سنا نہیں؟ کہتے ہیں۔۔ ۔‘‘ وہ شعر جیسا کچھ سنانے لگے ’’آنکھیں ہے اس دیس میں میری، دل میرا اس دیس میں ہے۔ دن میں پاکستانی ہوں میں، رات میں ہندستانی۔‘‘
مجھے اپنے سپنے یاد آنے لگے۔
جیسا کہ میں نے آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ اس داستان میں کچھ جگ بیتی ہے اور کچھ آپ بیتی ہے اور میں دونوں کو سنانے سے پہلے بتا دوں گا کہ جگ بیتی کیا ہے اور آپ بیتی کیا ہے۔ …تو اب میں آپ کو کچھ جگ بیتی سنانے جا رہا ہوں۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں