ایک ادیب کا کیا ہوا ایک شاعر کا مطالعہ
راہ تعقّل و تجسّس کا شاعر
مقبول احمد مقبولؔ
از قلم
اختر صادق
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں …..
غزل کی غزالیت نے ہر حسِ لطیف رکھنے والے شخص کو متاثر کیا ہے۔ کیا خواندہ اور کیا ناخواندہ! سبھی اس کے سحر کا شکار ہوئے ہیں۔ غزل سلطنت اردو ادب کی ملکہ ہے۔ اس کے حسن اور اداؤں کا ہر کوئی عاشق ہے۔ جب تک یہ کافر حسینہ زندہ رہے گی اس کی سحر طرازی بھی جاری رہے گی۔ ڈاکٹر مقبول احمد مقبولؔ بھی غزل کی سحر طرازی سے نہیں بچ پائے۔ جذبوں کی سچائی اور سعی مسلسل نے ان کے غزل کہنے کے فن کو جلا بخشی۔ مقبولؔ صاحب کے شعری سفر کا آغاز۱۹۸۱ء سے ہوتا ہے۔ ۱۹۸۴ء سے ان کا کلام ملک اور بیرونِ ملک کے اخبارات و رسائل کی زینت بنتا آ رہا ہے۔ ڈسمبر ۲۰۱۱ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بعنوان ’’آدمی لہو لہو‘‘ منظرِ عام پر آیا جس میں ۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۸ء کے دوران کہی گئی منتخب غزلیات شامل ہیں۔ مجموعہ کا نام انھیں کے شعر ؎
احساس زخم خوردہ ہے اور آدمی لہو لہو
اس خوں چکاں زمانے میں ہے زندگی لہو لہو
سے ماخوذ ہے۔ اس شعر کو ٹائٹل کَوَر پر بھی درج کیا گیا ہے۔ پیش لفظ ڈاکٹر قطب سرشار صاحب نے لکھا ہے۔ نیٖز ڈاکٹر زبیر احمد قمرؔ (دیگلور) نے مقبولؔ صاحب کی شخصیت اور شاعری پر ایک بھرپور خاکا نما مضمون لکھ کر دوستی کا حق ادا کیا ہے۔
زیرِ نظر مجموعہ تقریباً سو (۱۰۰) غزلوں اور پینتالیس (۴۵) متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔ ہر غزل کے ساتھ ماہ و سال بھی دیا گیا ہے۔ جس سے شاعر کے فکری و فنّی ارتقا پر روشنی ضرور پڑتی ہے لیکن یہ ماہ و سال ترتیب سے نہیں ہیں۔ یہ شاعر کا اپنا حسن انتخاب ہے۔ مجموعہ ایک نعت شریف سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں حمد کی کمی کھٹکتی ہے۔ لیکن مجموعے کی ابتدا اور انتہا بڑی زوردار ہے۔ مجموعہ کی پہلی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیے کہ کس توانائی کا ہے: ؎
سوز و گداز و فکر و بصیرت مآب ہیں
میرے تمام شعر حقیقت مآب ہیں
(ص ۲۹)
اسی غزل کا مقطع ہے: ؎
گو، ہم رہین حسن روایت ضرور ہیں
لیکن صدف مزاج ہیں جدت مآب ہیں
(ص ۲۹)
اس طرح کا علانیہ اظہار ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ایک ماہر فن ہی اس طرح کہنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ شاعر کو روایات سے انکار نہیں لیکن اس نے صاف کر دیا ہے کہ وہ لکیر کا فقیر بھی نہیں۔ روایات کی پاسداری وہ اتنی ہی ذمہ داری کے ساتھ کرے گا لیکن اس میں بھی جدّت کا عنصر غالب رہے گا۔ جدّت کا عنصر کیسا ہے؟ اس تعلق سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اسی مجموعے کی آخری غزل (صفحہ ۱۳۰) کے ایک دو شعر ملاحظہ فرمائیے: ؎
حوصلے جن کے پست ہوتے ہیں
ان کو ذرّہ بھی ’’حرف‘‘ ہے صاحب!
اس شعر کے مصرعۂ ثانی میں ایک لفظ ’’حرف‘‘ کو اس کے اپنے عام معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے شعر فہمی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ شاعر نے حاشیے میں اس لفظ کے معنوں کی وضاحت کر دی ہے۔ شاعر نے اس کے معنی ’’پہاڑ کی چوٹی‘‘ بتائے ہیں۔ اب مذکورہ شعر کا مفہوم بالکل صاف اور واضح ہے۔ اسی غزل کا دوسرا شعر ہے: ؎
تہہ میں اترو، جو ہو گہر کی طلب
لب ساحل تو ’’سرف‘‘ ہے صاحب!
یہاں سرف (surf) بمعنی جھاگ انگریزی لفظ ہے۔ جدید لب و لہجے کے دو چار شعر اور ملاحظہ فرمائیں: ؎
پہلے اصولِ نقد و نظر سے ہو آشنا
پھر صحنِ ذہن میں اگا تنقید کا شجر
(ص ۱۳۴)
مقبولؔ! بار ور کبھی ہوتے نہیں سبھی
ہر آدمی لگاتا ہے امید کا شجر
(ص ۱۳۴)
قبول کیجیے یہ ارمغانِ عصرِ جدید
نکھر رہا ہے ہر اک لمحہ حادثوں کا جمال
(ص ۶۷)
تخمِ آرزو بو کر خوب کی تھی نگرانی
فصلِ یاس ہاتھ آئی خواہشوں کے موسم میں
(ص ۵۸)
ماحول ہے ریا کا فضائے فریب ہے
کس پر ہو اعتبار، سرابوں کے شہر میں
(ص ۳۰)
راہیِ ریگزارِ فکر ہوں میں
اور سر پر ہے آفتابِ غم
(ص ۴۵)
مقبولؔ صاحب کی غزلوں میں جدت اسلوب و خیال کے با وصف روایت کی پاسداری بھی ہے۔ ساتھ ہی داخلیت کا عنصر بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ داخل خارج سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی اساس ان کے اپنے تجربات و مشاہدات پر رکھی گئی ہے۔ ان کا فکری رویہ مثبت و تعمیری ہے۔ اور اسلوبِ شعر عام فہم اور بیشتر خطابیہ ہے۔ یہ پیچیدہ طرزِ کی بھول بھلیوں میں قاری کو الجھاتے نہیں۔ اپنے کیف و کرب کو بالکل واضح زبان میں بیان کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے غزل کی لفظیات بھی نرالی نہیں سیدھی سادی ہے۔ موصوف کی شعری کائنات کی پسندیدہ لفظیات کچھ اس طرح ہے:
ہمت، حوصلہ، جستجو، لگن، آدمی، گھر، زندگی، امن و اماں، نگر، شہر، دیار، رہ گزر، سفر، منزل، رہبر، رہزن، دوست، دشمن، نفرت، الفت، پیار، محبت، رنج وا لم، رنج و حرماں، درد و غم، اضطراب، کرب، یاس، موسم، چنگاری، سوز و گداز، فکر و نظر بصیرت، بصارت، شعلہ، خواب، زہر، زخم، دل، آنکھ، چشم تر، آنسو، خوں چکاں، روح، سچ، جھوٹ، عدل، انصاف، ظلم، پریشاں، صحرا، شر ر، دیا، تاریکی، صداقت، حقیقت، کاغذ، قلم، بہار، آشنا، تحقیق، گفتگو، تمنا، ویرانہ، چمن وغیرہ۔
کہیں کہیں تعقل، تعشق اور اقتضا جیسے نسبتاً مشکل الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ہندی الفاظ کا استعمال:
مقبولؔ صاحب نے اپنی غزلوں میں ہندی الفاظ کا بھی بہت خوبی سے استعمال کیا ہے۔ صفحہ۷۶ کی غزل سوائے ایک لفظ ’’دل‘‘ کے مکمل طور پر ہندی الفاظ سے مزیّن ہے۔ ’’اے دل‘‘ بر محل ہے۔ اگراس کی جگہ کوئی اور ہندی لفظ لایا جاتا تو شعر کی روانی متاثر ہوتی۔
دکھ سے نہ گھبرانا اے دل!
سانجھ کے بعد سویرا ہے
(ص ۷۶)
اسی غزل کے دوسرے شعر میں ایک لفظ ’سنکھٹ‘ آیا ہے جو در اصل ’سنکٹ‘ ہے۔ ہندی اور مراٹھی زبان کا ایک لفظ ’مکت‘ بمعنی آزادی کس خوبصورتی سے درج ذیل شعر میں برتا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے: ؎
ہر مسئلۂ زیست پہ ڈالوں گا پھر نظر
ہو جاؤں پہلے مکت غم روزگار سے
(ص ۷۷)
تراکیب کا استعمال:
مقبولؔ صاحب کی غزلیں نئی نئی اور حسین تراکیب سے مزیّن ہیں۔ ان میں سہ لفظی اور چہار لفظی تراکیب بھی موجود ہیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو حرف عطف ’و‘ کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔ لیکن اس سے شعر کی سلاست و روانی مجروح نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے استعارات و تشبیہات اور مختلف صنعتوں سے بھی کام لیا ہے۔ کچھ دو لفظی تراکیب اس طرح ہیں:
تخمِ محبت، تخمِ آرزو، کشتۂ آرزو، فصل محبت، نخل تمنّا، گل امید، خار تمنا، فضائے فریب، زلف سخن، انبارِ زندگی، دوشیزۂ فریب، تختیِ دل، تشنۂ مقصود، صفحۂ دہر، کتاب دہر، قافلۂ غم، شیشۂ احساس، نور تدبّر، ساغرِ حباب، نشۂ نفرت، بادۂ الفت، لشکرِ غم، دفترِ غم، نصابِ غم، راہِ تعقل، عکسِ حقیقت، ا شکِ ملال، کاسۂ جاں، برگِ آوارہ، حسرتِ قرار، سکۂ وقار، صبح خنداں، گل خنداں، شامِ خزاں، زبان چشم، صحن ذہن، اسیر قلم، تلخیِ دوراں، آزارِ زندگی، تحفۂ ذلت، اندیشۂ فردا، خونِ عزائم، فرمانِ وقت وغیرہ۔
سہ لفظی و چہار لفظی تراکیب کی مثالیں یہ ہیں:
رہینِ حسنِ روایت، ہم سفر آتش غم، علاج دل محزوں، بزم فصل گل، جستجوئے ذوقِ عرفاں، حسنِ نگار شعر، سوزِ غم نہاں، دوشِ دلِ نازک، دامن دلِ حزیں، وجہ بے تابی جبیں، وجہ گرمی دل، ارمغان عصرِ جدید، زخم طاقِ نسیاں، گردِ جادۂ منزل، رہروان جاد ۂ منزل، مداوائے غمِ اہلِ زمین، وارفتگی ٔ ذوق تجسس، وارفتگی ٔ شوقِ دل، خیالِ صورتِ جاناں، گرفتارِ علّت عظمت، خلوصِ نیتِ یاراں، تماشائے حیا سوز، باعث ہنگامۂ محفل، باعثِ صد افتخار، حادثۂ خوں چکاں، مآلِ لغزشِ آدم، گم گشتگیِ رہ، رنگِ بے مزہ، غمِ نارسائی، غرورِ کارِ نمایاں، بہشت زارِ محبت، رہینِ حسنِ روایت، لذتِ جہد البقا، سر فروشانِ راہِ وفا، بادہ نو شانِ عیش، راہیِ ریگزارِ فکر، بادِ سمومِ وقت، پاسبانِ خیرو شر، مثلِ دیدۂ حیراں وغیرہ۔
عطفی تراکیب کی مثالیں یہ ہیں:
بے رہ روی فکر و تعقل، غریق ظلم و جفا، نظام عدل و حکومت، راہ منزلِ صدق و صفا، کمال حسن و صداقت،، نشانِ فکر و بصیرت، چشمِ بے تاب و اشکبار، ہنگامہ ہائے سبّحہ و زنّار، حلقۂ شام و سحر، گرد و غبارِ خوف، صاحبانِ حل و عقد، لطفِ سکونِ عیش، وجہِ کیف و لذت، دورِ یاس انگیز و محرومی، زخمِ دل و جاں وغیرہ۔
یہ تراکیب مقبولؔ صاحب کی غالبؔ کے اسلوبِ شعر سے اثر پذیری کی واضح مثالیں ہیں۔
استعارات:
مقبولؔ صاحب کی غزل میں مستعملہ درجِ ذیل استعارات ان کی غزل کی رعنائی، تازگی، صفائیِ خیال، جدت اور ندرتِ بیاں کو نمایاں کرتے ہیں۔
یادوں کا شہر، زخموں کا شہر، سرابوں کا شہر، بہروں کا شہر، خوابوں کا شہر، فسانوں کا شہر، حسرت دل کا شعلہ، اوہام کا زخم، رامشوں کا موسم، روزگار کے شعلے، یاد کے کنول، مایوسیوں کی دھوپ، مرادوں کے دیپک، امید کا شجر، تنقید کا شجر، امیدوں کی شمعیں، صدفِ چشم کے موتی، آوازوں کی بھیڑ وغیرہ۔
تشبیہات:
بہ خوفِ طوالت تشبیہات کے ذیل میں صرف دو مثالیں پیش ہیں۔ ایک شعر میں شاعر نے ارمانوں کو ’شتر بے مہار‘ کی طرح قرار دے کر ان کے بے قابو ہونے کو بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے: ؎
اب زندگی وبال و مصیبت سے کم نہیں
ارمان ہو گئے شترِ بے مہار سے
(ص ۷۷)
درجِ ذیل شعر میں خدا کی عطا و مہربانی سے محروم زندگی کو بے کیف موسم سے اور مہربانی و عطا سے معمور زندگی کو بادِ صبا کے خوشگوار جھونکے سے تشبیہ دی گئی ہے: ؎
ایسی دنیا تھی مری تیری عطا سے پہلے
جیسے بے کیف سماں بادِ صبا سے پہلے
(ص ۱۲۱)
علائم:
شاعرانہ علائم وہ کوڈز ہیں جنھیں ڈی کوڈ کر کے شاعر کے عہد کی فکری نہج اور اس کی تہذیب و ثقافت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں۔ شاعر کے تخیل کی اونچائیوں تک پہنچنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ علائم کی معنویت شاعر کی اپنی سوچ، اس کی فکر اس کی اپنی شخصیت اور اس جیسے دیگر عناصر پر منحصر ہوتی ہے۔ غنچہ، گل، بلبل چمن، پرندے، چراغ، شعلہ، تارے، سورج، دھوپ، پتھر وغیرہ۔ یہ وہ علامتیں ہیں جنھیں مقبولؔ صاحب نے بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ لیکن ان کے یہاں ’پتھر‘ کی علامت بہت ہی بلیغ معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ دو شعر ملاحظہ فرمائیے: ؎
یہ کیسا شہر ہے، بکھرے ہیں چار سُو پتھر
ہر ایک شخص لگے، مجھ کو ہو بہو پتھر
(ص ۷۰)
تراش کر رکھیں، چاہے سجا سجا کے رکھیں
بدل نہ پائے گا زنہار اپنی خو پتھر
(ص ۷۰)
صنائع بدائع:
یوں تو مقبولؔ صاحب کی شعری کائنات مختلف صنائع و بدائع سے مملو نظر آتی ہے۔ لیکن آپ جب بھی چھوٹی بحروں میں غزل کہتے ہیں تو اکثر صنعت تکرار کا استعمال کرتے ہیں۔ شاید مقصودِ نظر یہ ہو کہ متقاضی کیف و کم کی شدت کے پیمانہ کا بست و کشاد اور واضح ہو جائے۔ مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
امن کا پرچم ٹکڑے ٹکڑے
وحدتِ انساں پارہ پارہ
(ص ۷۲)
نفس نفس گھٹن گھٹن
نظر نظر دھواں دھواں
جھلس جھلس گئی ہے شام
سحر سحر دھواں دھواں
(ص ۳۷)
برگ و بار خون خون
ہر بہار خون خون
دامن دل حزیں
تار تار خون خون
(ص ۵۵)
درج ذیل شعر میں صنعت جمع کا التزام ہے۔ ارماں، تناؤ اور مسئلوں کو عصر حاضر کی نئی بیماریاں بتا کر انھیں انسانی بیماری میں شمار کیا گیا ہے۔ اس شعر میں معاشرے کی فکری اساس اور نہج حیات پر گہرا طنز بھی ہے: ؎
ارماں نئے، تناؤ نئے، مسائل نئے
ہر شخص آج ہو گیا بیمار کی طرح
(صنعتِ جمع)
(ص ۱۱۰)
میرا ہر سکھ تیرا ہے
تیرا ہر دکھ میرا ہے
(صنعتِ عکس)
(ص ۷۶)
کس قدر مختصر ہے صبح نشاط
کتنی لمبی ہے شامِ غم کہیے
(صنعت تضاد و عکس)
(ص ۵۹)
صنعتِ تلمیح کے حامل دو تین شعر دیکھئے: ؎
میں جانتا ہوں کہ کیا ہے حیات کا مقصد
ہیں واقعات ابھی یاد کربلا کے مجھے
(ص ۱۲۳)
ایک چھوٹی سی لغزشِ آدم
ہم کو اس خاکداں میں لے آئی
(ص ۴۷)
مفکر، فلسفی، سائنس داں، جو بھی سمجھتے ہوں
جہاں کو ہم مآلِ لغزشِ آدم سمجھتے ہیں
(ص ۸۹)
صنعتِ ذو القوافی کی حامل ایک مکمل غزل (غیر مردف) صفحہ ۸۸ پر ہے جس کے دو شعر پیش ہیں: ؎
بے وجہ ہم سے ہے جو کدورت بھلائیے
پھر دل میں اپنے جینے کی رغبت جگائیے
کیا ہے عجب، کہ داغ معاصی نہ دھل سکیں
اخلاصِ دل سے اشکِ ندامت بہائیے
مقبولؔ صاحب کے بعض اشعار میں الفاظ کے استعمال کی مروجہ ترتیب و ترکیب میں رد و بدل بھی نظر آتا ہے۔ جیسے اوپر دیے گئے دوسرے شعر کے مصرعۂ ثانی میں خط کشیدہ ’’اخلاص دل‘‘ یقیناً ضرورت شعری کے تحت ہی آیا ہے لیکن ’’خلوصِ دل‘‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اسی طرح ذیل کے شعر کے مصرعۂ ثانی کے حسن، اس کی سلاست و روانی اور غنائیت پر ضرب پڑ رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ؎
مری پیش و پس عجب ہے، مری کشمکش غضب ہے
کبھی زیست کو صدا دی کبھی موت کو پکارا
(ص ۶۶)
اسی طرح درجِ ذیل اشعار میں عطفی تراکیب قابلِ غور ہیں:
مقبولؔ! غم و فکر ہیں انسان کے ساتھی
دنیا میں کوئی شخص بھی تنہا نہیں ہوتا
(ص ۳۸)
راستہ خود تلاش کر اپنا
نظر و فکر کو گدا نہ بنا
(ص ۷۵)
تم کہتے ہو جس کو سیاست
مکر و دغا کا کھیل ہے سارا
(ص ۷۲)
رومانیت:
مقبولؔ صاحب کی اکثر غزلوں میں پند و نصائح کے با وصف حکیمانہ مضامین باند ہے گئے ہیں۔ موصوف کی شعری کائنات میں طنز برائے اصلاح ہے اور وہ بھی مثبت ذہن سازی کے لیے۔ ان کی شاعری میں مزاح کا عنصر نہیں کے برابر ہے۔ لیکن جس غزل میں پند و نصائح اور حکیمانہ باتیں نہ ہوں اس میں ایک آدھ شعر یا پھر پوری غزل ہی رومانیت کی عکاس بن جاتی ہے۔ یعنی جب شاعر پر غزل کی غزالہ کے حسن کا جادو سر چڑ ھ کر بولنے لگتا ہے تو پھر ایک بھر پور مکمل رومانی غزل وجود میں آ جاتی ہے۔ پھر اس غزل کا ہر شعر غزل کا مزہ دینے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر صفحہ۹۵ پر ایک غزل ہے جس کی ردیف ’’نظر‘‘ نہایت عمدگی سے باندھی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
پیامِ نظر، جام نظر، مقام نظر، دام نظر، اہتمامِ نظر اور پھر احترام نظر۔
اس جیسے نازک موقعے پر بھی شاعر اپنی تہذیب و شرافت پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ماہر اقبالیات بدیع الزماں نے کہا ہے کہ
’’مقبول کے کلام میں ایک شائستہ وارفتگی اور مہذب جذب بھی ہے۔‘‘[آدمی لہو لہو، صفحہ ۱۸]
ڈاکٹر قطب سرشار نے کہا ہے کہ ’’مقبول احمد مقبولؔ کی غزل گوئی صحت مند اور شائستہ زبان میں تحمل و تفکر کا بلا واسطہ شعری اظہار ہے۔‘‘
اس غزل کے دو اشعار پیش خدمت ہیں: ؎
ہے عیاں جن پہ راز نظروں کا
جانتے ہیں وہی مقامِ نظر
راز دارِ نظر ہیں ہم مقبولؔ
ہم پہ لازم ہے احترامِ نظر
اسی طرح صفحہ ۴۳ پر ایک رومانی غزل ہے جس میں ’’تمنا‘‘ کے حوالے سے تمنا کے مدارج سے گفتگو کی گئی ہے:
اظہار تمنا، خار تمنا، گرفتار تمنا، آزار تمنا، نار تمنا، بار تمنا، ایثار تمنا۔
شاعر کی تمنا بے مہار نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنے محبوب کے دیدار کے لیے بے چین بھی ہے: ؎
اے حسن طرح دار اٹھا رخ سے اب نقاب
جلوؤں کا تیرے کیسے نظارا کریں گے ہم
(ص ۳۵)
عاشق اس کی اس عیاں گستاخی سے محبوب بھی حیراں ہے۔ لہٰذا اس کی شرافت اسے اپنی اس فاش غلطی کا احساس دلاتی ہے اور پھر وہ کہتا ہے: ؎
شاید کہ جانتی نہ تھی آدابِ بزمِ حسن
گستاخی نگاہ سے دل شرمسار ہے
(ص ۱۱۱)
پھر شاعر کہتا ہے کہ جب تک اس نے اپنے محبوب کو نہیں دیکھا تھا اس کی غزل برائے نام غزل تھی، پھیکی تھی۔ اس میں کوئی لطف نہیں تھا۔ لیکن جب سے اس نے اپنے محبوب کو دیکھا اس کی غزل’ غزل‘ ہو گئی ہے: ؎
بے لطف میرے شعر تھے، بے رنگ تھی غزل
رنگیں غزل ہوئی ہے، تمھیں دیکھنے کے بعد
(ص ۱۱۴)
شاعر کے عشقیہ اشعار سے ایسا لگتا ہے کے اسے شریک سفر کی تلاش ہے۔ اور جب وہ مقصود نظر کا دیدار کر لیتا ہے تو اس پر یہ راز عیاں ہوتا ہے کہ یہی اس کا مقصود ہے۔ اور جب اسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا محبوب اس کی زندگی میں خوشیاں اور چین و سکون بھر دے گا اور زیست کی رعنائیاں اس کے دم سے قائم ہوں گی تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے: ؎
وجہِ سکوں، تلاشِ نظر، مقصدِ حیات
دل نے کہا، یہی ہے، تمھیں دیکھنے کے بعد
(ص ۱۱۴)
راشد آزرؔ کا احساس ہے: ؎
سارے چہرے دیکھ ڈالے ساری دنیا چھان لی
جستجو اب تک یہی ہے کوئی تم سا دیکھتے
مقبولؔ صاحب کا مذہب شاعری افادیت کا قائل ہے۔ لہٰذا وہ جہاں بھی اس پر عمل پیرا ہوئے بیان کی رعنائی اور اس کی شیرینی پر اثر پڑا۔ اور جہاں عشق کی پُر خلوص فضا نے آ کے چھیڑا وہاں شعروں کی شعریت میں دلکشی، روانی اور بعض دفعہ بے ساختگی پیدا ہو گئی ہے۔ لہٰذا شاعرانہ معاملات مہر و محبت میں مقبولؔ صاحب پیچھے نہیں ہیں۔ لیکن آپ کی عشقیہ شاعری میں گلے شکوے، ہجر کا رونا، محبوب کی بے وفائی، وصل کی خواہش، جھوٹے عہد و پیماں وغیرہ نہیں ہیں۔ بلکہ اس میں ایک طرح کی شائستگی ہے، تہذیب ہے، اخلاص ہے۔ معاملات محض دید و ملاقات تک محدود ہیں۔ اس وجہ سے ان کی رومانی شاعری میں کبھی شوخی و زندہ دلی ہے تو کبھی ایک قسم کے جنوں کی سی کیفیت تو کبھی ایک طرح کی اداسی اور حسرت و یاس پائی جاتی ہے۔ جن اشعار میں شوخی اور جنوں کی سی کیفیت ہے اس میں پیکر تراشی بھی غضب کی ہے۔ زبان و بیاں رواں سادہ سلیس اور بر محل ہے۔ ان کیفیات کے حامل چند اشعار پیش خدمت ہیں: ؎
شوخی و زندہ دلی:
پڑیں چھالے زباں پر غیر کا جو نام بھی لے لیں
کہ ہم تو آپ کے ہیں آپ ہی کی بات کرتے ہیں
(ص ۶۴)
چمن میں آپ گھڑی بھر بھی جو ٹھہرتے ہیں
تو رنگ آتا ہے کلیوں پہ گل نکھرتے ہیں
(ص ۳۴)
سمجھا تھا میں نے، سلسلۂ جور ہوا ختم
وہ ہیں، کہ نیا طرزِ ستم ڈھونڈ رہے ہیں
(ص ۷۹)
جنوں کی کیفیت:
وجہِ بے تابیِ جبیں کیا ہے؟
آ گیا تیرا سنگِ در ہے ضرور
(ص ۶۱)
یہ قسم ہے میرے سر کی نہیں خیر سنگ در کی
کہ میرے جنوں کا قصہ ہوا سب پہ آشکارا
(ص ۶۶)
اک طرف وہ اور بزمِ فصلِ گل
اک طرف ہے چاکِ داماں اور ہم
(ص ۳۳)
حسرت و یاس اور تڑپ:
؎
جب دل میں اس کی یاد کے کھلنے لگے کنول
یک لخت ختم ہو گئیں ویرانیاں تمام
(ص ۷۴)
اُجڑ گیا تو کسی طور پھر یہ بس نہ سکا
ہزار کوششیں کیں شہرِ دل بسانے کی
(ص ۹۷)
کیا ہے سوائے درد کے یادوں کے شہر میں
رکھیں قدم نہ بھول کے زخموں کے شہر میں
(ص ۳۰)
یاد اس کو کبھی کیا ہوتا
بسترِ مرگ پر سمجھ آئی
(ص ۴۷)
احساس شخصیت اور فن:
ہر فنکار کو اپنی قدر و قیمت اور عظمت کا احساس ہر وقت لگا رہتا ہے۔ اور وہ اس بابت خوشی، ناخوشی، غم و غصہ اور شکوہ و شکایات کا اظہار اپنی شاعری میں کرتا رہتا ہے۔ مقبولؔ صاحب کو بھی اپنی شخصیت اور اپنے فن کی فکر ہے۔ اپنے مقام اور مرتبۂ شاعری کا احساس ہے۔ اس حوالے سے موصوف کے چند اشعار بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں: ؎
وہ نغمہ ہوں، ہے جس کو حاجتِ ساز
کوئی سنتا نہیں ہے وہ صدا ہوں
(ص ۱۲۹)
بے بصارت ہے زمانے کی نظر اے مقبولؔ!
نہ ہوئی قدر تری اب تو کسی دم ہی سہی
(ص ۶۳)
کون شاعر تجھے سمجھے گا بھلا اے مقبولؔ!
تجھ میں وہ خو ہے نہ انداز و ادا، کچھ بھی نہیں
(ص ۱۲۰)
شاعر کو یہ احساس ہے کہ وہ ایسا پر کیف نغمہ ہے جسے ایک سریلے ساز کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات وہ شاعرانہ تعلی سے بھی کام لیتا ہے اور کہتا ہے: ؎
کم نگاہیِ جہاں کیا دیکھ پائے گی مجھے
ہوں بظاہر ایک قطرہ، اصل میں دریا ہوں میں
(ص ۴۵)
شاعر کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ اس کا نام تاریخ شاعری میں درج ہو۔ وہ نام و نمود اور شہرت سے بے نیاز رہ کر شعر و سخن کی بے لوث خدمت کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ کہتا ہے: ؎
تاریخِ شاعری میں رقم نام ہو نہ ہو
زلفِ سخن ضرور سنوارا کریں گے ہم
(ص ۳۵)
ساتھ ہی اسے اس بات کا بھی قلق ہے کہ وہ جس ماحول میں سانس لے ر ہا ہے و ہاں نہ کوئی اس کا ہم خیال ہے نہ ہم سخن، نہ کوئی صاحبِ دل ہے نہ اہلِ نظر۔ اس کے احساسات و جذبات، افکار و خیالات کو سمجھنے والا ہی کوئی نہیں۔ ایک طرح سے وہ قیدِ تنہائی کا عذاب جھیل رہا ہے۔ ؎
کوئی تو ہم نفس وہم سخن ملے یارب!
تڑپ رہا ہوں میں مدت سے انجمن کے لیے
(ص ۱۱۲)
مری داستانِ الم کون سمجھے؟
کوئی اہلِ دل ہے نہ اہلِ نظر ہے
(ص ۱۱۶)
پھر وہ سنبھل جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس پر بڑا کرم ہے کہ وہ اتنا گمنام بھی نہیں۔ اس کا نام بھی ’’مقبول‘‘ ہے اور اس کی شعر گوئی بھی۔ لہٰذا اسے متعارف کرانے کے لیے کسی ناقد کی ضرورت نہیں۔ زمانہ خود ناقد ہے، قدر شناس ہے، پارکھ ہے۔ لہٰذا وہ مومنؔ اور دیگر شعرا ء کی طرح اپنے اشعار میں تخلص کا ذو معنی استعمال کر کے اپنے دل کی بات واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ کچھ مثالیں اوپر آ چکی ہیں۔ دو ایک مثالیں اور ملاحظہ فرمائیں: ؎
خدا کا کرم ہے کہ مقبولؔ ہوں میں
یہ ناقد کریں گے مجھے مشتہر کیا!
(ص ۱۲۷)
شعر گوئی میں نام ہے مقبولؔ!
یہ تعارف ہے مختصر اپنا
(ص ۱۰۴)
یہ شعر گوئی کا صدقہ نہیں تو پھر کیا ہے
نظر میں ہو گئے مقبولؔ ہم زمانے کی
(ص ۹۷)
شاعر کی زندگی اور فکر معاش:
دنیا میں لاکھ چہل پہل ہو لیکن جب ہر طرف سے مصیبتیں، پریشانیاں، آفتیں آ کر گھر میں ڈیرا ڈالتی ہیں تو گھر کے مکیں کیا دیوار و دَر سبزہ و شجر ہر طرف سے مایوسی اداسی اترنے لگتی ہے۔ کیا چھوٹا اور کیا بڑا کسی کو کچھ نہیں بھاتا۔ ؎
کیا بات ہے کہ غنچہ و گل سب اداس ہیں؟
مقبولؔ! جب کہ باغ میں رقصاں بہار ہے!
(ص ۱۱۱)
مقبولؔ صاحب نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو معاشی مسائل ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ شدید معاشی بحران کا شکار رہا۔ اعلیٰ تعلیم کا خواب چکنا چور ہو چکا تھا۔ خواہشات کی عدم تکمیل، آرزوؤں کی ناکامی، حصولِ تعلیم کی تمنا اور ایک با وقار روزگار کی حسرت انھیں ہمیشہ بے چین و ملول رکھتی تھی۔ یہ دوران کے شدید ذہنی کرب و ابتلا کا دور تھا۔ ان محرومیوں اور المناکیوں کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔ اس داستان الم کو انھوں نے اشعار کی صورت میں جا بجا پیش کیا ہے۔ اس کرب و ابتلا کی کیفیت کے حامل چند اشعار پیش خدمت ہیں: ؎
تا صبح اپنے گھر میں اندھیرے کا راج تھا
کیا فائدہ جو جلتے رہے شہر بھر چراغ
(ص ۶۰)
نمی ہے آنسوؤں کی خوں چکاں الفاظ ہیں سارے
یہ میری ہی کہانی کا ورق معلوم ہوتا ہے
(ص ۵۱)
کیا ہے دردِ محرومی، پوچھ مجھ سے اے مقبولؔ!
قطرہ قطرہ ترسا ہوں بارشوں کے موسم میں
(ص ۵۸)
کشتۂ آرزو ہوں میں گزری میری حیات یوں
رنج و الم کے آس پاس عیش و طرب سے دور دور
(ص ۱۰۷)
چند سانسوں ہی کی خیرات ملی ہے مجھ کو
کاسۂ جاں میں مرے اور ہے کیا؟ کچھ بھی نہیں
(ص ۱۲۰)
شاعر کا مآرب حیات:
شاعر نے جگہ جگہ اپنے مآرب حیات کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ اشاریہ ہے اس بات کا کہ ایک زمانے میں شاعر بڑی بے سر و سامانی کی حالت میں رہا۔ کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ ساتھ تھا تو بس اس کے زخم جگر، رنج و حرماں، یادوں، تنہائیوں یا پھر شکستہ دل، بے کل روح، خون کے آنسو، اور ہمت مردانہ کاغذ، قلم اور دوات وغیرہ کا۔ اس تعلق سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے: ؎
حسرتوں سے بھرا ہے دل میرا
کتنا آباد یہ ویرانہ ہے
(ص ۱۷)
اور کچھ بھی نہیں ہے پاس مرے
اک فقط ہمتِ مردانہ ہے
(ص ۱۷)
اگر ہو تجسس، تو آؤ دکھا دوں
مرے پاس تو صرف زخمِ جگر ہے
(ص ۱۱۵)
دل پریشاں، آنکھ ویراں اور ہم
ہیں ہزاروں رنج و حرماں اور ہم
(ص ۳۳)
دل شکستہ، روح بے کل، اشکِ خوں
یہ ہمارا ساز و ساماں اور ہم
(ص ۳۳)
کاغذ قلم دوات ہے سرمایۂ حیات
کتنی عظیم ہوتی ہے شاعر کی زندگی
(ص ۱۳۲)
میری پونجی، میری املاک، اثاثہ میرا
دولتِ شعر ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں
(ص ۱۱۹)
کاغذ، قلم، دوات اور اشعار کو شاعر کا سرمایۂ حیات قرار دے کر مقبولؔ صاحب نے شاعر کی عظمت اور اس کے مقام و مرتبے کو انوکھے انداز میں ظاہر کرنے کی سعیِ مسعود کی ہے۔
موضوعات شاعری:
مقبولؔ صاحب نے سماجی ناہمواریوں، قومی و ملی مسائل، سیاستِ حاضرہ، اقدار کی شکست و ریخت، خود غرضی و مفاد پرستی جیسے مذموم افعال و مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ چونکہ انھوں نے اپنے تجربات، جذبات و احسا سات کی بنیاد پر زندگی کی حقیقتوں اور دیگر موضوعات کو کافی غور و خوض کے بعد اپنی شاعری میں جگہ دی ہے اور اس سے نتائج بھی اخذ کیے ہیں اس لیے عصرِ حاضر کے تناظر میں مقبولؔ صاحب کی آواز کچھ زیادہ ہی مانوس معلوم ہوتی ہے۔ ذیل کی سطور میں موصوف کی شعری کائنات کے ان متفرق موضوعات کا قدرے اجمالی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مقبولؔ صاحب نے اپنی غزل میں موضوعات کو مربوط فلسفہ کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے بعض غزلوں میں نظم کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ان پر عنوانات بھی لگائے جا سکتے ہیں مثلاً: صفحہ ۳۰: یادوں کے شہر میں، صفحہ ۵۴: خلوص، صفحہ ۶۸: غم نہ کھا، صفحہ۷۰: پتھر صفحہ۷۱: رہبر؟، صفحہ ۷۲: صبح کا تارا، صفحہ ۷۳: بہت اداس ہوں میں، صفحہ ۸۶: آرزو، صفحہ ۹۹: زندگی وغیرہ۔
زندگی اور موت کے فلسفے پر غزلیں:
مقبولؔ صاحب نے اپنی غزلوں میں زندگی اور موت کا فلسفہ بھی پیش کیا ہے۔ انھوں نے زندگی کو نرالے سلسلے سے تعبیر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ زندگی ایک ایسا راستہ ہے جس میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی بادی النظر میں ایک سہانے خواب کی طرح معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ بے شمار اور بڑے بڑے مصائب و مسائل سے بھری ہوتی ہے۔ کسی کے حق میں یہ زہر ہے تو کسی کے لیے ’چشمۂ آب بقا‘ ہے۔ موصوف نے ان لوگوں کو ناداں کہا ہے جو زندگی کو فقط ایک کھیل اور مشغلہ سمجھتے ہیں۔ محفلِ عیش و نشاط کو وہ موت سے تعبیر کرتے ہیں اور محنت و جستجو کو زندگی کہتے ہیں۔ ؎
جانتے ہو تم کہ کیا ہے زندگی؟
مسئلہ در مسئلہ ہے زندگی
(ص ۹۹)
خار ہوں جس پر زیادہ پھول کم
ایک ایسا راستہ ہے زندگی
(ص ۹۹)
موت کیا ہے؟ محفلِ عیش و نشاط
محنت و جہد البقا ہے زندگی
(ص ۹۹)
دوسرے شعر کے مصرعہ اولیٰ میں ’ہوں‘ سہواً ہی ہو سکتا ہے ورنہ ’ہوں ‘ کی جگہ ’ہیں‘ سے مطلب اور واضح ہو جاتا۔ زندگی سے متعلق ایک اور غزل کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں: ؎
کل تک تھے جس مقام پہ انبارِ زندگی
واں آج دور تک نہیں آثارِ زندگی
(ص ۴۲)
مقبول انجماد و سکوں زیست کو نہیں
ہر دور میں جوان ہے رفتارِ زندگی
(ص ۴۲)
ایک اور غزل میں زندگی کے غم کا تذکرہ ملتا ہے۔ کہا ہے کہ وہ ریگزار فکر کے راہی ہیں اور سر پر آفتابِ غم سوار ہے۔ لہٰذا زندگی کتابِ غم بن گئی ہے۔ پھر دوسری غزل کے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ یہ زندگی ہے یا برف ہے جو لمحہ لمحہ پگھلتی جا رہی ہے۔ شاعر کا طنزیہ لہجہ دیکھئے کہ کس قدر تیکھا ہے: ’’زندگی ہے کہ برف ہے صاحب!‘‘؎
پی رہا ہوں میں تلخ آبِ غم
زندگی بن گئی کتابِ غم
(ص ۴۵)
راہیِ ریگزارِ فکر ہوں میں
اور سر پر ہے آفتابِ غم
(ص ۴۵)
لمحہ لمحہ پگھلتی جاتی ہے
زندگی ہے کہ برف ہے صاحب!
(ص ۱۳۰)
شاعر کا سائنسی ادراک:
مقبولؔ صاحب کا سائنسی منہاج فکر نہ صرف بلند ہے بلکہ یہ ان کی عصری آگہی اور عصری حسّیت کی دلیل بھی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نئی سائنسی تحقیقات پرانے سائنسی نظریات کو غلط ثابت کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ جو نظریہ کل تک صحیح معلوم ہوتا تھا وہ آج غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
واللہ! یہ سائنس کے بدلتے نظریات
مشکوک ہوئی جاتی ہے ہر چیز نظر میں
(ص ۸۴)
سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت بیشک ضروری ہے۔ مریخ و قمر کی تسخیر بے شک سائنس و ٹیکنالوجی کی معراج ہے، لیکن شاعر یہ کہتا ہے کہ اگر یہ اہلِ زمین کی کام کی نہ ہوں، اہلِ زمین کو اس سے فائدہ نہ ہو تو پھر ایسی ترقی کس کام کی؟ ہمارا یہ مطلوب نہیں۔ زمین کے معاملات پر ہی خاک ڈالی جائے تو پھر چاند پر بستیاں قائم کرنے کی باتوں سے عوام کا کیا بھلا ہو گا؟ دنیا کی ایک کثیر آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بے روزگاری کے سلگتے ہوے مسائل کو حل نہ کر کے کہیں ترقی کی جا سکتی ہے؟ مریخ کی تسخیر سے کس کا بھلا ہو گا؟ اس تناظر میں یہ اشعار ملاحظہ کیجیے: ؎
مطلوب مداوائے غمِ اہلِ زمیں ہے
آبادی مقدم نہیں مریخ و قمر میں
(ص ۸۴)
انسان کی ترقی سے انکار تو نہیں
لیکن یہ کیا؟ کہ موت کا ساماں بنا لیا
(ص ۱۳۳)
اس ایٹمی زمانے کی سوغات ہے یہی
ہے ایک اک نفس زدِ قہر و عتاب میں
(ص ۵۷)
زماں مکاں ہے ایٹمی
بشر بشر دھواں دھواں
(ص ۳۷)
قرطاس و قلم سے شدید ذہنی و روحانی وابستگی:
یہ نہیں معلوم کہ مقبولؔ صاحب کو شاعری ورثے میں ملی ہے یا نہیں لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ موصوف فطری شاعر ہیں۔ اور ربّ العالمین سے رات دن دعا اور پیارے نبیؐ سے محبت کا نتیجہ ہے کہ قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ استوار ہوا۔ اس سے اٹوٹ وابستگی کا اظہار اس طرح بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کو سرمایۂ افتخار نیٖز سرمایۂ حیات سمجھا۔ ؎
مقبول روز و شب ہے خدا سے یہی دعا
کاغذ قلم دوات نہ مجھ سے رہیں جدا
(ص ۱۳۳)
کاغذ قلم دوات ہے سرمایۂ حیات
کتنی عظیم ہوتی ہے شاعر کی زندگی
(ص ۱۳۲)
بے خطر مصروف ہو جا کارِ حق میں اے قلم
دیدۂ افلاک ہے تیرا نگہباں غم نہ کھا
(ص ۱۳۶)
ایک جگہ سارترؔ نے کہا تھا:
عرصہ دراز سے میں نے
اپنے قلم کو
تلوار کے بدلے سنبھالا ہے،
اب جا کر مجھے معلوم ہوا
کہ میں کتنا بے بس ہوں،
خیر! کوئی بات نہیں
میں لکھتا تو ہوں!!(ترجمہ: اخترؔ صادق)
سارترؔ کے یہاں شمشیر سے جدائی باعث ننگ و عار ہے۔ لیکن اس نے یہ راز پا لیا ہے کہ قلم میں بھی اتنی ہی طاقت ہے اور اس سے بھی وہی کام لیا جا سکتا ہے۔ مقبولؔ صاحب کہتے ہیں کہ اگر مجاہد کی شان شمشیر ہے تو ہم بھی کسی مجاہد سے کم نہیں کیونکہ ہم بھی قلم سے وہی کام لیتے ہیں جو ایک مرد مجاہد تلوار سے لیتا ہے۔ یعنی مقبولؔ صاحب نے بھی قلم کی عظمت اور اس کی طاقت کا راز جان لیا ہے۔ آپ کا شعر ملاحظہ فرمائیے: ؎
ہم بھی تو کسی طرح مجاہد سے نہیں کم
شمشیر تمھیں اور قلم ہم کو ملا ہے
(ص ۹۳)
اس موقع پر شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کا شعر بے ساختہ یاد آ رہا ہے، کہا ہے: ؎
اہلِ دنیا کی نظر میں محترم ہوتا نہیں
مرد جب تک صاحبِ سیف و قلم ہوتا نہیں
حبیب جالب نے کہا ہے: ؎
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا ڈرا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
فارسی کا ایک مشہور مصرع (غالباً جامیؔ کا) ہے: ع
قلم گوید کہ من شاہِ جہانم
مقبولؔ صاحب بھی قرطاس و قلم سے وابستگی کو اپنے لیے وجہِ افتخار سمجھتے ہیں۔
رہبر و رہنما اور ’’رہبر کامل‘‘:
مقبولؔ صاحب کی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ رہبر و رہنما سے متعلق ہے۔ اس سے ان کا فکری پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ مقبولؔ صاحب کی نظر میں کامل رہبر وہ ہے جو دین و دنیا کی مکمل رہنمائی کرے۔ ؎
مکمل رہنمائی دین و دنیا کی جو کرتا ہے
ہم اے مقبولؔ! اسی کو رہبرِ کامل سمجھتے ہیں
(ص ۸۳)
مقبولؔ صاحب آج کے رہبر نما رہزنوں پر طنز کرتے ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہم اپنی منزل مقصود تک کس طرح پہنچیں گے جب کہ یہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ ؎
وہ رہنما تھا کہ رہزن، میں کچھ سمجھ نہ سکا
کہ جس نے لوٹ لیا راستہ دکھا کے مجھے
(ص ۱۲۳)
راہ اپنی نہ راہبر اپنا
کامراں کیسے ہو سفر اپنا
(ص ۱۰۳)
رہنما کسے کہیں؟
اعتبار خون خون
(ص ۵۵)
رہزن کا خوف چھوڑیے پہلے یہ سوچئے
خود کو بچا کے کیسے رکھیں پاسباں سے ہم
(ص ۱۱۸)
آپ نے اپنی شاعری میں جا بجا رہبران قوم و ملّت کے طرزِ عمل پر اپنے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ معاملات عدل و انصاف پر کڑی تنقید کی ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
تو مقبولؔ صاحب نے کہا: ؎
جی چاہتا ہے، پھونک دوں ایوانِ منصفی
ماحول عدل کا ہے نہ عادل کی بات ہے
(ص ۴۸)
یہاں مقبولؔ صاحب کے شعر کا تقابل علامہ اقبالؔ کے شعر سے ہر گز نہیں، بلکہ جن مختلف حالات میں یہ شعر کہے گئے ہیں اس میں مضمر فکر کی یکسانیت کا تقابل پیشِ نظر ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آپ کی شاعری کا بیشتر حصہ اسی موضوع کے ذیل میں آتا ہے۔ ا چھی قیادت کے فقدان کا انھیں شدید احساس ہے۔ اچھے رہنما اور اچھی قیادت کے لیے انھوں نے ’’نور تدبّر‘‘ جیسا کار گر نسخہ بھی بتایا ہے۔ ؎
مقبولؔ! جس میں نور تدبّر ہی کچھ نہ ہو
ہر گز قبول ایسی قیادت نہیں مجھے
(ص ۷۱)
جو راحتوں کی منازل سے ہمکنار کرے
وہ رہنما وہ قیادت تلاش کرتا ہوں
(ص ۳۶)
شاعر کا یہ احساس بجا ہے کیوں کہ اسے اس کا تجربہ بتاتا ہے کہ: ؎
عزیزو! کھوکھلی دانشوری سے کچھ نہیں ملتا
بجز گمراہی اس کی ’’رہبری‘‘ سے کچھ نہیں ملتا
(ص ۱۲۶)
تدبّر کے تعلق ہی سے مقبولؔ صاحب کا ایک اور شعر دیکھئے: ؎
کام لیتے ہیں جو تدبر سے
اپنی قسمت وہ خود بناتے ہیں
(ص ۱۰۶)
مجہول رہبری پر تکیہ کرنے کی بجائے وہ اپنا راستہ آپ تلاش کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے: ؎
منزل تلاش لوں گا میں خود ہی کسی طرح
مجہول رہبری کی ضرورت نہیں مجھے
(ص ۷۱)
راستہ خود تلاش کر اپنا
نظر و فکر کو گدا نہ بنا
(ص ۷۵)
اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے مقبولؔ صاحب یہ کارگر نسخہ بتاتے ہیں کہ پہلے خود میں وہ ذوق و شوق پیدا کریں جو ہمیں میدان عمل میں آنے کے لیے تیار کرے۔ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا۔ بلکہ جستجو اور وہ بھی پیہم جستجو ضروری ہے۔ کہتے ہیں: ؎
بیدار کریں وہ ذوق عمل شرط ہے پہلی
پھر کام ہو کوئی بھی وہ دشوار نہیں ہے
(ص ۱۰۵)
مری جستجوئے کامل مری رہنما رہی ہے
نہ کرم رہا کسی کا نہ کسی کی مہربانی
(ص ۱۱۳)
فلسفۂ محنت و جستجو، اور جذبۂ کامل:
جس طرح مقبولؔ صاحب کی شاعری کا ایک بڑا حصہ رہبر و رہنما سے متعلق ہے اسی طرح ان کی شاعری کا دوسرا بڑا اور قابلِ لحاظ حصہ فلسفۂ محنت و جستجو اور جذبۂ کامل جیسے مضامین سے لبریز ہے۔ علامہ اقبالؔ کے فلسفۂ خودی کی طرح آپ نے بھی اپنی شاعری میں فلسفۂ محنت و جستجو کو پیش کیا ہے۔ آپ کا دکھ درد ایک سچائی ہے۔ خوشحال ہوں تو کیا دوست و احباب اور کیا ماں باپ، سب ہی بلائیں لیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی حالات بگڑے سب نے آنکھیں پھیر لیں۔ مقبولؔ صاحب کے ساتھ بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوا۔ لیکن یہی بے رخی اور دکھ ان کے لیے بیساکھیاں بن گئیں۔ انھوں نے ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ بلکہ عزم و حوصلہ کے ساتھ زندگی کے مسائل و مصائب کا سامنا کیا۔ اس لیے ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف حزن و ملال کی سی کیفیت پائی جاتی ہے تو وہیں وہ توانائی بھی ہے جوہر کسی کو محنت، جستجو اور پیہم عمل کے لیے تیار کرتی ہے۔ میرے اس خیال کی تائید درج ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔ مثلاً: ؎
ایقان ہے مرا، نہیں دشوار کوئی کام
ہاں! جستجو و جذبۂ کامل کی بات ہے
(ص ۴۸)
گفتگو ہے لا حاصل، گر عمل نہیں کچھ بھی
ہاتھ آئے گا مقصد، کوششوں کے موسم میں
(ص ۵۸)
حیات جہد مسلسل ہی سے عبارت ہے
ہے موت نام، جو ہو جائے جستجو پتھر
(ص ۷۰)
حاصل نہ ہو گا کچھ بھی، اگر جستجو نہ ہو
دل میں بہت جواں سہی منزل کی آرزو
(ص ۸۶)
وہ کوئی مدرسہ ہو یا کسی کی ہم نشینی ہو
نہ ہو جب تک لگن خود میں کسی سے کچھ نہیں ملتا
(ص ۱۲۶)
ہونا ہے کامران تو پھر جستجو ہے شرط
منزل ملے گی نقش قدم کے بغیر بھی
(ص ۱۳۹)
صحرائے زندگی میں بصد شوق و جستجو
ہم نے قدم قدم پہ گلستاں بنا لیا
(ص ۱۰۱)
کوئی ہنر ہو، کسی کو یوں ہی نہیں ملتا
خلوصِ دل سے ہو محنت حصولِ فن کے لیے
(ص ۱۱۲)
شکست و فتح کی تفسیر ہے یارو فقط اتنی
جو ہمت ہار جاتے ہیں انھیں کی مات ہوتی ہے
(ص ۱۲۲)
خاروں کے درمیاں گلِ خنداں تلاش کر
شامِ خزاں میں صبحِ بہاراں تلاش کر
(ص ۱۲۵)
حوصلے جن کے پست ہوتے ہیں
ان کو ذرّہ بھی ’’حرف‘‘ ہے صاحب
(ص ۱۳۰)
ہوتی ہے جن کو منزلِ مقصود کی لگن
پروا کریں گے کیا وہ رہِ خار دار کی
(ص ۵۶)
دنیا کے متعلق نظریہ:
دنیا کے تعلق سے مقبولؔ صاحب کا یہ نظریہ ہے کہ: ؎
ایک چھوٹی سی لغزشِ آدم
ہم کو اس خاکداں میں لے آئی
(ص ۴۷)
مفکر، فلسفی، سائنس داں، جو بھی سمجھتے ہوں
جہاں کو ہم مآلِ لغزشِ آدم سمجھتے ہیں
(ص ۸۹)
آدمؑ کی آمد سے پہلے صرف خدا کی قدرت تھی۔ دنیا بے کیف تھی۔ اس میں کچھ رنگا رنگی نہ تھی۔ جیسا کہ باد صبا کے چلنے سے پہلے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ باد صبا کے بعد ماحول میں سرور و انبساط بھر جا تا ہے۔ ؎
ایسی دنیا تھی مری، تیری عطا سے پہلے
جیسے بے کیف سماں، بادِ صبا سے پہلے
(ص ۱۲۱)
تیری قدرت کے سوا کچھ بھی نہ تھا دنیا میں
’’خاک سے، آب سے، آتش سے، ہوا سے پہلے‘‘
(ص ۱۲۱)
اسی قبیل کا اور ایک شعر ہے: ؎
وجودِ آدمِ خاکی سے آ رہی ہے صدا
کہ اس جہان کو رنگیں کیا بنا کے مجھے
(ص ۱۲۳)
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات حضرتِ انسان کے لیے سجائی۔ اور ہر چیز کو اس کی خدمت پہ مامور فرمایا۔ ربّ کائنات کا انسانوں پر بڑا احسان ہے کہ اس نے انھیں عزّ و شرف سے سرفراز کیا۔ مقبولؔ صاحب نے بلبل کی زبانی یہ کہلوایا کہ ائے گلو، غنچو! اگرچہ تمھاری رعنائی، حسن، رنگ اور خوشبو نے کائنات کے حسن میں اضافہ ضرور کیا ہے لیکن یاد رہے کہ یہ سارا انتظام ہمارے لیے ہے۔ لہٰذا تم اتنا نہ اترانا۔ ؎
گلوں کے کان میں یہ کہہ رہی تھی اک بلبل
چمن ہے میرے لیے میں نہیں چمن کے لیے
(ص ۱۱۲)
ایک اور شعر میں انسان سے مخاطب ہو کر کہا ہے: ؎
تیری خاطر ہی سجائی گئی ہے یہ محفل
دیکھ انسان! تیری کتنی پذیرائی ہے
(ص ۹۶)
جذبۂ حب الوطنی:
وطن سے محبت بلا لحاظِ مذہب و ملّت ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ محبت کے ان نقوش کو صرف موت ہی مٹا سکتی ہے۔ مقبولؔ صاحب کی رگوں بھی انھیں اجداد کا خون گردش کر رہا ہے جنھوں نے وطن پر جان قربان کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ وقت پڑا مال و اسباب لٹا دیا۔ ضرورت پڑی گردن کٹا دی۔ لیکن نہ کبھی خود پر اور نہ وطن پر آنچ آنے دی: ؎
رگوں میں خون ہے سیرابی چمن کے لیے
ہے تن میں جان بھی نذرانۂ وطن کے لیے
(ص ۱۱۲)
کیسے الگ کریں گی زمانے کی گردشیں؟
ہندوستاں ہے ہم سے، تو ہندوستاں سے ہم
(ص ۱۱۸)
عصری حسّیت اور فکری بالیدگی:
شاعر ابھی اکیس بائیس سال کا ہی ہے۔ اس عمر میں اس کے افکار و خیالات، عصری حسّیت اور فکری بالیدگی کا نمونہ دیکھئے: ؎
رکھ چھوڑ چکے طاق میں جب فکر و تعقل
پھر کیوں نہ رہے راہِ ترقی میں تعطل
(ص ۴۹)
باطل نظریات پہ تکبیر پڑھیں چار
حق بات کو اپنائیں بصد شوق و تجمل
(ص ۴۹)
ہو جائیں گے اے دوست کسی روز یقیناً
افکارِ لننؔ، مارکسؔ کے مائل بہ تنزّل
(ص ۴۹)
اسی دور کے کچھ اور شعر ملاحظہ فرمائیں: ؎
اس قوم کی تقدیر میں ہے صرف تباہی
جس قوم کو اندیشۂ فردا نہیں ہوتا
(ص ۳۸)
ادب کہ دین، سیاست کہ فلسفہ سب میں
نشانِ فکر و بصیرت تلاش کرتا ہوں
(ص ۳۶)
اے صاحبانِ حل و عقد! کیا یہ نہیں ہے سانحہ
فکر و نظر ہے داغ داغ اور آگہی لہو لہو
(ص ۴۴)
ہماری شومیِ تقدیر کا ہے راز یہی
پڑا ہے پردۂ غفلت کہ ہم اٹھا نہ سکے
(ص ۴۰)
شاعر دنیا کی ہر چیز پر غور و فکرا ور تدبّر کی دعوت دیتا ہے۔ کہتا ہے جب تک یہ وصف پیدا نہ ہو تب تک کسی چیز کی حقیقت و ماہیت سمجھ میں نہیں آتی۔ اللہ کی صنّاعی ہر ذرّہ میں پوشیدہ ہے۔ ضرورت ہے تو دیدۂ بینا کی: ؎
گہرائیِ نظر ہو تو نظارہ سہل ہے
ورنہ ہر ایک چیز چھپی ہے نقاب میں
(ص ۵۷)
بلا تبصرہ کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں جن سے شاعر کی عصری آگہی اور فکری بالیدگی کا اندازہ ہوتا ہے: ؎
بے جرم و خطا لوگ ہی پاتے ہیں سزائیں
کب سامنے میرے یہ تماشا نہیں ہوتا
(ص ۳۸)
آج باقی ہے سارے شہر میں امن
ایسی باتوں پہ کب یقیں ہو گا
(ص ۸۱)
ایسا نہ ہو کہ وجہِ تباہیِ ملک ہو
ہنگامہ ہائے سبحہ و زنّار دیکھنا
(ص ۵۲)
عصر جدید راہِ تعقل پہ چل پڑا
ہوش و خرد کی راہ سے کترا رہے ہیں ہم
(ص ۹۰)
عیب بن جائیں گے تمام ہنر
ایسا دن بھی ضرور آئے گا
(ص ۹۲)
لباس فاخرہ میں جس کی عمر گزری تھی
اسی کی لاش ترستی رہی کفن کے لیے
(ص ۱۱۲)
بدل ڈالو مزاج اپنا یہ جمہوری زمانہ ہے
کسی کو اب مزاج خسروی سے کچھ نہیں ملتا
(ص ۱۲۶)
آنکھوں کا پانی ڈھل جائے
ہر سُو آج ہے ایسا نظارہ
(ص ۷۲)
طنز کا عنصر:
صدف مزاج شاعر سماج کے منفی رویوں پر شاکی ہے۔ وہ کڑھتا ہے اور اپنی شاعری کے وسیلے سے اس منفی طرز عمل پر طنز کرتا ہے۔ شاعر کو انسان کی ترقی سے انکار نہیں لیکن ترقی کے نام پر وہ خود کو جس طرح ہلاکت میں ڈالے ہوئے ہے اس پر شاعر نے سوال کھڑا کیا ہے کہ یہ ترقی تو بلائے جاں ثابت ہو رہی ہے؟: ؎
انسان کی ترقی سے انکار تو نہیں
لیکن یہ کیا؟ کہ موت کا ساماں بنا لیا!
(ص ۱۰۱)
شاعر اس بات کا بھی شاکی ہے کہ آج انسانوں سے ایثار و قربانی کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ سبھی نفع و نقصان کے سوالوں میں الجھے ہوئے ہیں: ؎
ہر شخص ہے الجھا ہوا اب سود و زیاں میں
تا حدّ نظر جذبۂ ایثار نہیں ہے
(ص ۱۰۵)
صفحہ ۱۲۴پر ردیف ’’کہاں لے کے جاؤ گے‘‘ والی غزل میں شاعر نے معاشرہ کا بگاڑ، اس میں برپا تنزّل اور انسانی مزاجوں میں آئے فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ انتشار کے مقابلے حسرت قرار، وقت کی تنگی کے مقابلے چشم اشک بہار، انانیت کے مقابلے سکۂ وقار، فخر و انا کے مقابلے احساس افتخار، کاغذی پھولوں کے مقابلے گلہائے نو بہار، اس طرح کی چیزیں ایک بگڑے ہوئے معاشرہ میں لے کے جائیں گے تو کچھ کام نہ دیں گی۔ اس کے لیے تو اعلیٰ و ارفع مزاج کی سوسائٹی چاہیے۔ اور اس طرح کی سوسائٹی کی تشکیل کی جانی چاہیے۔
شاعر سماج کے ان منفی رویوں سے بیزار ہے جس میں اب پیار، محبت، خلوص، ایثار قربانی، وفا اور ایفائے عہد جیسی اعلیٰ و ارفع قدروں کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہ گئی ہے۔ لوگ اب صرف خود کے نفع اور نقصان کی بات سمجھنے لگے ہیں۔ وفاداری اور خلوص، پیار و محبت کا انحصار محض روپے پیسوں پر ہے۔ قرابت دار ہوں، غیر ہوں کہ اہلِ سیاست، ہر شخص کا ذہن تاجرانہ ہو گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیں: ؎
اب قصۂ وفا و محبت نہ چھیڑیے
ہر شے جہاں کی ہو گئی بیوپار کی طرح
(ص ۱۱۰)
تمنائے وفا بے جا ہے، دنیائے سیاست میں
یہاں نیلام اس شے کا سرِ بازار ہوتا ہے
(ص ۸۵)
شاعر کہتا ہے کہ ایک اچھا معاشرہ بِنا اخلاص کے تا دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے بِنا کوئی رشتہ رشتہ نہیں رہتا۔ ؎
رشتہ ہو کوئی یا کہ تعلق کہ رابطہ
اخلاص کے بغیر وہ ناپائدار ہے
(ص ۱۱۱)
عزم و حوصلہ:
مقبولؔ صاحب لہو لہو دل انسان ہیں۔ لہٰذا ان کے غزلیہ اشعار میں بھی لہو رنگ، رنگ حنا کی طرح چڑھ آیا ہے۔ یہ رنگ جذبات کو بھڑکانے والا یا انھیں سرد کرنے والا نہیں ہے بلکہ عزم اور حوصلے کو بڑھانے والا ہے۔ حوصلہ ہی انسان کو ہمت عطا کرتا ہے۔ اسی سے بدن اور دل و دماغ میں نئی طاقت اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔ اس ذیل میں شاعر کے لب و لہجہ اور مزاج کا ٹھہراؤ دیکھئے کہ کس غضب کا ہے۔ شاعر نے یہاں حوصلۂ دل کو ایک نئے جنم سے تعبیر کیا ہے: ؎
تو چھوڑ نہ جانا کہیں اے حوصلۂ دل!
تجھ ہی سے تو اک اور جنم ہم کو ملا
(ص ۹۳)
معاشرہ تجربات کی ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں آپ نے تجربہ نہ بھی کیا ہو تو کیے گئے تجربات اور ان کے نتائج سے آگہی ہو ہی جاتی ہے۔ کم ہمت حوصلہ ہار جاتا ہے تو کمزور توانائی پا لیتا ہے۔ یعنی ہر شخص اپنے مزاج اور فکر و نظر کے حساب سے کچھ نہ کچھ ضرور پا لیتا ہے۔ دیکھئے مقبولؔ صاحب کو کیا ملا: ؎
صحرا نورد تشنۂ مقصود رہ گئے
میں تھا معاشرے میں خدا مل گیا مجھے
(ص ۹۴)
وفا کو شاعر نے سنسان راستے سے تشبیہ دی ہے۔ لہٰذا ایثار و قربانی کے جذبات آج کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ؎
وفا کا راستہ ہے آج کس قدر سنسان
اب آرزو ہے کسے نقد جاں لٹانے کی
(ص ۹۷)
شاعر ہمیں وہم و گمان کے اندھیروں سے نکل کر عقل و بصیرت کی روشنی میں آنے کا پیغام دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ وہم کی کالی راتوں میں بھٹکنے والے صبح کا تارہ یعنی حقائق کو ہر گز پا نہیں سکتے: ؎
وہم کی کالی رات کے جویا
کب پائیں گے صبح کا تارا
(ص ۷۲)
شاعر نے مزید کام کی یہ بات بتائی ہے کہ جس کو وہم کی بیماری ہے، گمانوں اندیشوں کے بیچ رہتا ہے، وہ کائنات کی تسخیر تو کیا چھوٹا موٹا کام بھی نہیں کر سکتا: ؎
پیدا ہو کیسے جذبۂ تسخیرِ کائنات
آزاد ہی نہ ہو سکے، وہم و گماں سے ہم
(ص ۱۱۸)
پھر ذیل کے شعر میں ترقی کا راز بھی بتایا گیا ہے: ؎
ترقی ان کو ملتی ہے مقدر ان کا بنتا ہے
ستاروں کو جو گرد جادۂ منزل سمجھتے ہیں
(ص ۸۳)
دوسری طرف شاعر حکیمانہ مشورہ دیتا ہے کہ اچھی زندگی جینا ہو تو معاشرے سے کٹ کر نہ رہیں۔ اپنی طرز و خو بدلیں۔ سماج سے رشتہ استوار کریں اور اپنی فکر و نظر کو درست کریں۔ اپنی شناخت مستحکم کریں۔ شاعر نے ’’اپنی فکر و نظر کو گدا نہ بنا‘‘ کہہ کر ایک بہترین نصیحت کی ہے۔ ایسا شخص کس کام کا جو نہ خود کا ہوا اور نہ دوسروں کے کام آتا ہے۔ غیر اللہ کے آگے سر جھکاتا ہے۔ لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ ایسی زندگی کچھ کام کی نہیں۔ ؎
زندگی جی، معاشرے میں آ!
طرز اپنی نہ راہبانہ بنا
(ص ۷۵)
ہو گئے اور خوار دنیا میں
سجدہ گہ جب سے ’’آستانہ‘‘ بنا
(ص ۷۵)
راستہ خود تلاش کر اپنا
نظر و فکر کو گدا نہ بنا
(ص ۷۵)
کسی کے کام ہی آئے نہ اپنے کام کے قابل
بھلا کس کام کی جس زندگی سے کچھ نہیں ملتا
(ص ۱۲۶)
کردار سازی:
ہر مذہب اچھے کردار کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے سامنے امیر غریب، ذات پات کی کوئی قید ہے نہ تقسیم نہیں۔ اچھے کردار کے حامل افراد ہی سے مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اعلیٰ کردار کی بنیاد پر ہی انسان حقیقی معنوں میں انسان کہلائے جانے کا مستحق ہوتا ہے۔ آپ نے بھی اپنی شاعری کے ذریعہ اعلیٰ و ارفع کردار اپنانے کا درس دیا ہے۔ ؎
یہ مانا، دولت و شوکت کی کچھ وقعت سہی، لیکن
اگر ہوتا ہے کچھ مقبولؔ! تو کردار ہوتا ہے
(ص ۸۵)
ہوا کیا ہے نہ جانے غیرتِ انسان کو یا رب!
تماشائے حیا سوز اب سر بازار ہوتا ہے
(ص ۸۵)
بلند و پست ہوتا ہے فقط کردار سے انساں
نہ باعث دھرم ہوتا ہے، نہ کوئی ذات ہوتی ہے
(ص ۱۲۲)
وعظ و ارشاد بعد میں مقبولؔ!
پہلے کردار مومنانہ بنا
(ص ۷۵)
سوز و گداز:
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی زندگی میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جس میں آسودگی نام کو نہ تھی۔ حالات کی ابتری نے شاعر کو نڈھال کر دیا تھا۔ اس لیے اس کی حزنیہ شاعری میں سوز و گداز کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود شاعر کی شاعری ہمت و حوصلہ اور اعتماد بڑھانے والی ہے۔ یہ فقط آہ و فغاں نہیں ہے۔ ’’غم نہ کھا‘‘ ردیف والی ایسی ہی ایک غزل صفحہ ۶۸ پر ہے۔ جس میں شاعر خود سے مخاطب ہے۔ اس غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیے: ؎
قلب مضطر غم نہ کھا، اے چشمِ گریاں غم نہ کھا
ہو گا تیرے درد کا اک روز درماں، غم نہ کھا
(ص ۶۸)
آسودگی ملے نہ ملے جستجو تو ہو
امید بھی لگی تو ہے پروردگار سے
(ص ۷۷)
صفحہ ۷۳ پر ’’بہت اداس ہوں میں‘‘ ردیف والی غزل ہے۔ محسوس ہوتا ہے حالات کی سنگینی نے شاعر کو بہت دلبرداشتہ کر دیا ہے۔ وہ بے حد پریشان ہے۔ اسے کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ اس حال میں بھی شاعر اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے ہے۔ امید کے دامن کو تھامے ہوئے ہے۔ کہتا ہے: دور نہیں قریب بیٹھو، نظریں مت پھیرو، محبت کی نظر سے دیکھو، اچھی باتیں کرو، دکھوں کا تذکرہ نہ کرو، خوشی کے گیت گاؤ، رلاؤ نہیں بلکہ ہنساؤ، جشن مناؤ تاکہ اداسیاں اپنے قدم نہ جما سکیں۔ لیکن اسی غزل میں ایک شعر ایسا بھی ہے جس کی وجہ سے غزل کی ساری رجائیت ہی معکوس ہو گئی ہے۔ وہ شعر یہ ہے: ؎
اداسیوں میں اندھیرا ہے، ہم نشیں میرا
بجھاؤ شمع بجھاؤ! بہت اداس ہوں میں
(ص ۷۳)
شاعر کہتا ہے کہ اے ہم نشیں میں اداس تو ہوں لیکن میری اداسیوں میں بھی سوائے ’اندھیرے ‘کے کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا تم شمع جلا کر کیا کرو گے؟ اب اس کا کچھ فائدہ نہیں۔ لہٰذا تم شمع روشن نہ کرو۔ جب دھند چھا جاتی ہے تو نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سجھائی دیتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ شاعر کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ جب شاعر کے دل و دماغ پر اداسی کی دھند چھائی تو وہ بے اختیار بجائے ’’جلاؤ شمع جلاؤ‘ پکارنے کے ’’بجھاؤ شمع بجھاؤ‘‘ پکارنے لگا۔ اور ذہنی دباؤ کے تحت ایسا ہونا فطری بات ہے۔
اس غزل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر شعر انتہائی یاسیت سے بے حد خوش کن رجائیت کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ مصرعۂ ثانی مصرعہ اولیٰ کا تتمہ ہے۔ لہٰذا اس شعر کے مصرعۂ اولیٰ سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اگر بجائے ’’ بجھاؤ شمع بجھاؤ‘‘ کے ’’جلاؤ شمع جلاؤ‘‘ ہوتا تو متذکرہ تناظر میں یہ خلاف واقعہ بھی نہ ہوتا اور یہ ساری غزل عالم یاس سے نکل کر آس کی دنیا میں آ جاتی۔
شاعر کہتا ہے کہ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جسے فکر و غم لاحق نہ ہو۔ وہی اس کی تنہائی کے ساتھی بھی ہیں۔ شاعر نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب تک زندگی میں غم نہ ہوں تب تک خوشی کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ؎
مقبولؔ! غم و فکر ہیں انسان کے ساتھی
دنیا میں کوئی شخص بھی تنہا نہیں ہوتا
(ص ۳۸)
عیش و نشاط کی کوئی توقیر ہی نہیں
جب زندگی میں غم کا شرارہ نہیں رہا
(ص ۶۹)
غمِ دوست میری دولت یہی وجہ کیف و لذت
کوئی اور کیف و عشرت نہیں اب مجھے گوارا
(ص ۶۶)
کمال شے ہیں، غمِ روز گار کے شعلے
کہ جن سے اور نکھرتا ہے حوصلوں کا جمال
(ص ۶۷)
ہر ایک خوشی زیست کی قربان ہو جس پر
ہے ناز کہ وہ تحفۂ غم ہم کو ملا
(ص ۹۳)
کشتۂ آرزو ہوں میں، گزری میری حیات یوں
رنج و الم کے آس پاس، عیش و طرب سے دور دور
(ص ۱۰۷)
شاعر کو اب یہ فکر لاحق ہے کہ اس کے ساتھی غموں اور دکھوں نے بھی اس سے کنارہ کر لیا ہے۔ فکریں بھی آس کے دھوئیں پر سوار ہوا ہو گئیں ہیں۔ اب دل کی بستی مکمل طور پر ویران ہو چکی ہے۔ ؎
شہرِ دل تھا کبھی آباد، مگر اس میں اب
صرف سنّاٹا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں
(ص ۱۱۹)
یعنی شاعر کے یہاں غم اور عرفانِ غم دونوں اور طرز بیان استدلالی و فلسفیانہ ہے۔
طرحی غزلیں:
راقم الحروف کی نظر میں مقبولؔ صاحب کی طرحی غزلوں کا حسن، روانی اور اس کا فکری آہنگ اور رنگ پیرہن ان کی دیگر غزلوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ آپ کی غزل گوئی کے جوہر طرحی غزلوں میں خوب کھلتے ہیں۔ اس قسم کی غزل کا فکری آہنگ تو تقریباً وہی رہتا ہے لیکن اس کے حسن، سلاست اور روانی میں کمال اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور خامۂ مقبولؔ غزل کی بساط پر طرح کو مات دینے کے لیے اس کے گلیاروں میں کبھی تیز گام تو کبھی سبک خرام چلنے لگتا ہے۔ اس ’’آدمی‘‘ کا اردو زبان سے محبت کا وہ جگر دیکھئے جو ابھی بے رنگ ہوا ہے اور نہ رفو کے کام کے لیے ’’لہو لہو‘‘ ہوا ہے (مجموعۂ کلام ’’آدمی لہو لہو‘‘ کی مناسبت سے)۔ موصوف کی طرحی غزلوں سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں: ؎
اجڑے گا چمن کیسے بھلا اردو زباں کا
’’باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں‘‘
(ص ۸۴)
لوگ خوشیاں بھی سہہ نہیں سکتے
’’ہم تو ہنس ہنس کے غم اٹھاتے ہیں‘‘
(ص ۱۰۶)
زیرِ نظر مجموعہ کے صفحہ۳۴، ۸۴ اور ۱۱۱کی طرحی غزلوں کا ہر شعر اپنے آپ میں فکر و نظر کی تازگی سے معمور ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے: ؎
شکست و ریخت کا ماتم کبھی نہیں کرتے
خودی ہو جن کی توانا وہ پھر ابھرتے ہیں
(ص ۳۴)
نورِ ازل کی ضو سے جہاں تابدار ہے
ہستی کا حسن بھی اسی سے مستعار ہے
(ص ۱۱۱)
پیدا ہو کیسے جذبۂ تسخیرِ کائنات؟
آزاد ہی نہ ہو سکے وہم و گماں سے ہم
(ص ۱۱۸)
مانگنے کے بھی یقیناً ہیں کچھ آداب و حدود
مانگنا کیا ہے ذرا سوچ، دعا سے پہلے
(ص ۱۲۱)
چند پسندیدہ اشعار:
مقبولؔ صاحب کے زیرِ نظر مجموعہ میں دل کو چھو لینے والے اشعار بہت ہیں۔ احقر کے چند پسندیدہ اشعار پیشِ خدمت ہیں:
شاید کہ لوٹ آئیں کسی دن سماعتیں
ٹھہرا ہوں اس امید پہ بہروں کے شہر میں
(ص ۳۰)
حقیقت میں لہو ہے وہ شہیدان محبت کا
کنارِ چرخ جو رنگِ شفق معلوم ہوتا ہے
(ص ۵۱)
دوشیزۂ فریب نے پھر زلف کھول دی
ہوتے ہیں کون کون گرفتار دیکھنا
(ص ۵۲)
مقبولؔ! کیا مقام شہیدِ وفا ہے، دیکھ
آبِ حیات پا لیا ہے زہرِ ناب میں
(ص ۵۷)
سوزش کو میری چھو نہ سکا عمر بھر چراغ
یوں ہی جلا کرے گا مجھے دیکھ کر چراغ
(ص ۶۰)
دن میں بھی ہم کو آتشِ غم سے نہیں نجات
کیا ذکر؟ گرچہ جلتا رہا رات بھر چراغ
(ص ۶۰)
تا صبح اپنے گھر میں اندھیرے کا راج تھا
کیا فائدہ؟ جو جلتے رہے شہر بھر چراغ
(ص ۶۰)
اب تو صحرا میں ڈھونڈنی ہے پناہ
شہر میں گرچہ اپنا گھر ہے ضرور
(ص ۶۱)
گل بدست آئی ہے میری قبر پر اب زندگی
جبکہ لمحہ لمحہ اس کے قرب کو ترسا ہوں میں
(ص ۶۵)
تجھ میں سورج خریدنے کی لگن
تجھ سا ناداں کوئی نہیں ہو گا
(ص ۸۱)
طوفان کو سفینہ ڈبونے کا اشتیاق
آ کر لگے کنارے، یہ ساحل کی آرزو
(ص ۸۶)
حاصلِ کلام:
مقبولؔ صاحب کی غزلیہ شاعری کو مختلف حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ جیسے حکیمانہ اور ناصحانہ باتوں پر مشتمل حصہ، فکر اور فلسفۂ حیات پر مشتمل حصہ، رومانیت پر مشتمل حصہ، فلسفۂ محنت و جستجو پر مشتمل حصہ، غم ہائے روزگار سے متعلق حصہ۔
آپ کے مجموعۂ کلام ’’ آدمی لہو لہو‘‘ میں شامل غزلیہ شاعری کے اس جائزہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے غالبؔ کے تتبع میں زبان و بیان اور فلسفیانہ باتیں پیشِ نظر رکھیں تو حالیؔ سے اصلاح معاشرہ کا سبق سیکھا۔ میرؔ، فانیؔ اور ناصر کاظمی نے انھیں اظہارِ کرب و غم کے اسلوب سے آشنا کیا۔ اقبالؔ کے فکر و فلسفے نے آپ کو اپنی ذات کی شکستگی کے باوجود پیہم محنت و جستجو اور ہمت و حوصلے کا درس دیا۔ علامہ اقبالؔ کے فلسفۂ خودی کی طرح آپ نے اپنی شاعری میں محنت و جستجو کا فلسفہ پیش کیا۔ اور اس کے استحکام کے لیے پیہم جہد و عمل کو ضروری قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر غزل ایک مخصوص مزاج کی حامل اور عصرِ حاضر کی عکاس ہے۔ مقبولؔ صاحب کے شعلۂ احساس کی چنگاری نے ان کی غزلوں میں فکر انگیزی اور دل گدازی کی کیفیت پید اکر دی ہے۔ جذبہ اور فکر کی آمیزش سے ان کی غزل میں ایک طرح کا بانکپن در آیا ہے۔ مقبولؔ صاحب کی غزلوں کا لہجہ معتدل اور اشعار کا مفہوم صاف اور واضح ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پیچیدہ طرزِ اظہار کے بجائے عام فہم اسلوب کو شعوری طور پر اختیار کیا ہے۔ آپ کے شعری اسلوب میں خطاب کا پہلو نمایاں ہے۔ ان کی غزلوں میں ان کی مضطرب جان اور تڑپتی روح کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ غرض کہ ان کے ٹوٹنے، بکھرنے اور پھر بکھر کر سنورنے کا عمل ہر جگہ دیدنی ہے۔
اصلاحِ معاشرے کی دلی آرزو نے مقبولؔ صاحب کی شاعری کو مقصدی اور افادی بنایا ہے۔ یعنی ان کا مسلکِ شاعری مقصدیت اور افادیت کا قائل ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز اور اس کی رفتار پر ان کی گہری نظر ہے۔ لہٰذا انسان کو درپیش مسائل اور چیلنجوں پر نہ صرف یہ سنجیدگی سے غور و فکر کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقائقِ زندگی سے آگہی اور تجرباتِ زندگی کے بغیر اس طرح کی روشنی پیدا بھی نہیں ہو سکتی۔ یعنی مقبولؔ صاحب نے اپنے فکرو فن، موضوعات اور اسلوب کے ذریعے اردو غزل کو ایک نیا وقار عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔
آخر میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کی کتابِ زندگی کے بکھرے اوراق کو یکجا کرنے کے لیے یا اس کی جلد سازی کے لیے کسی جلد ساز کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ شاعر نے خود (بقول اس کے) اپنا احوالِ دل شعر کی مالا میں لفظ بہ لفظ پرو دیا ہے۔ لہٰذا اس نیک دل شاعر کے فکر و فن، اس کی زندگی اور شخصیت کو سمجھنا ہے تو اس لہو لہو دل شاعر کے مجموعۂ کلام ’’آدمی لہو لہو‘‘ کا مطالعہ بے حد کار آمد ثابت ہو گا کیونکہ وہ کہتا ہے: ؎
لفظ لفظ اشعار میں بکھری ہے میری زندگی
شعر کے پردے ہی میں احوالِ دل کہتا ہوں میں
(ص ۶۵)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں