ایک طویل نظم مکمل ای بک کی صورت میں
نہیں اور ہاں سے آگے
آفتاب اقبال شمیم
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
(کتاب ’زید سے مکالمہ‘ سے علیحدہ کردہ)
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
نہیں اور ہاں سے آگے
آفتاب اقبال شمیم
کسی سرسبز لمحے نے
کبھی شاید کسی روپوش منظر کا سنہرا لمس
آنکھوں میں جگایا ہو
تری سانوں کے سبزے پر
اتر کر آسماں طاؤس کی مانند ناچا ہو
الاؤ کے شراروں نے
کوئی گلشن تکلم کا کھلایا ہو کسی دوری کے پربت پر
کبھی تو نے سمندر کی اٹھانوں میں
کسی سوئی ہوئی قوسِ قزح کی دلبری کا خواب
دیکھا ہو
کوئی ساعت معلق ہو گئی ہو اور پھر اس نے
شعاع دور کے رستے میں جلوے کو
منور کر دیا ہو تیری آنکھوں میں
کہیں معنی کی خلوت میں
پناہ یک نفس مانگی ہو تو نے روز کے لفظوں کی
شورش سے
کسی ذرے کے اندر رقص کے
خاموش سازینے کے محشر میں
اسے دیکھا ہو۔۔ جو اول ہے اس بے نام پیکر کا
جو تیری ذات
میرے اسم، لمحے اور لمحے کے خلا سے مل کے بنتا ہے
افق ساحل نہیں جس کے سنہرے آمسانوں کا
زمانوں کے زمانے ندیاں جس کے فرازوں کی
اسی کی سمت بہتی ہیں
وہ کیا ہے؟
جستجو، نا دید کو منظر میں لانے کی
حواس افروز ہیں بینائیاں چشمِ تصور کی
جو اس کو دیکھتی ہیں سچ کے امکاں میں
وہ ‘ہے’ اپنے سکڑنے کی ‘نہیں’ سے
پھیلنے کی ‘ہاں’ کے مظہر میں
پس اسباب، پیش چشم برپا ہے تماشا
اس کے ہونے کا
اکائی۔۔ جو کہ سارے مرکزوں کا ایک مرکز ہے
اکائی۔۔ جو کہ بہتے وقت کو نا وقت میں
معدوم کرتی ہے
اسی نابود کی ظلمت سے نخل نور کی صورت ابھرتی ہے
تڑپ اس غیب کے مہرِ منور کی
مزے اس کی محبت کے
بجا ہے مضطرب رکھتے ہیں باطن کے مسافر کو
مگر اس کے ازل میں، لوح غائب پر
لکھا کس نے کہ ہم ان مٹیوں میں
خوار ہو ہو کر
سوال اس سے نہ پوچھیں، اے تماشا گر!
بتا اپنی بقا کی جنگ لڑتی خلقتیں
برفوں میں اگتی گھاس کی مانند
گاہے سبز، گاہے زرد، بہتے وقت میں
بہتی رہیں گی
انت کیا ہے اس تماشے کا؟
ہو کیوں دھوپ سے مل کر کسی تعمیر کی خاطر
زمیں پر بارشوں کی دھوم میں
جنگل اگاتی ہے
ہوا کیوں آندھیاں لاتی ہے
اپنے دشت پروردہ کو خود تخریب کا
ایندھن بناتی ہے
اگر ہم اس بڑی، پھیلی ہوئی فطرت کا کوئی انگ
خود کو مان لیتے ہیں
تو کیا اس نا رسا، نا منکشف اندر کی دنیا میں
یہی ہوتا ہے۔۔ وہ جذبے جو تہذیبیں بناتے ہیں
ہمیں خود کو سزا دینے پہ اکساتے ہیں
ہنگامے اٹھاتے ہیں
وہ زور آور ہوس کی کھیتوں میں گندگی بو کر
ہری فصلیں اگاتے ہیں غلاموں کی
دھوئیں اور دھول کے زندانیوں کو کل کے وعدے پر
فضائے معتدل میں صبر سے جینا سکھاتے ہیں
یہی تاریک صدیوں سے زمیں زادوں کا مسلک ہے
خبر کی خشک سالی میں، نظر کے حبس میں
اولاد کو اولاد جنتی ہے
دھوئیں اور دھول میں کھوئی ہوئی نسلوں نے
جتنے زخم کھائے ہیں
تری دانست میں ہیں، کیا عجب تعداد میں
تیرے ستاروں سے زیادہ ہوں
بتا! راتوں کی تاریکی میں لڑتے لشکروں کی بے بسی
کس نے لکھی ہے جیتنے یا ہارنے والے کی
قسمت میں
زیاں احساس میں گھل کر ہمیں مایوس کرتا ہے
کہ ایسا کیوں!
زمیں تیری ہے، تیرے انتظاموں میں
برائی کی ضرورت کیا
بتا! اے ابتدا و انتہا کے جاننے والے
ہمیں رکھا ہوا ہے کس نے محصوری کی حالت میں
ہمارے ذہن اپنے عہد کی سچائیوں کو آخری سچائیاں
کیوں مان لیتے ہیں
بتاج! سومیر کا اوتار اپنے آسماں کے مندروں سے
بستیوں کے نام کیا ارسال کرتا تھا
وہ کان نینوا کے ہفت ہیکل کا
انانا کے گل زرخیز کی خوشبو کے جادو سے
شکوہ تاجور
جان رعایا کے مساموں میں بسایا تھا
سمی رامیس غسل آسماں سے جب نکلتی تھی
تو راہوں میں
شرف مٹی کو دیتی تھیں جبینیں سرفرازی کا
قد شمشاد کے سائے میں سبزہ لہلہاتا تھا
طلسم چشم ایسا تھا
کہ دشت آرزو میں صید ہونے کے لیے آہو
تڑپتے تھے
یہ موہن جودڑو کی لڑکیوں کے
سبز شانوں سے
پھسلتی عمر نے کیسا کھنڈر چھوڑا ہے صحرا میں
اجل نے کیوں مقدس پانیوں کی سبز زرخیزی
فنا کر دی
علم سورج کالے کر آنے والے
ہڈیوں کی ریزہ ریزہ، ذرہ ذرہ ریت کے
اڑتے بگولوں میں
کہاں گم ہو گئے۔۔۔۔ منہ زور شبدیزوں کی ٹاپیں
بے حرس سایوں کے لمبے قافلے کی چاپ میں
تحلیل کیسے ہو گئیں۔۔ ان بھکشوؤں کے دیس کے
وہ جنگجو، گرتے سروں کو
اپنے نیزوں میں پروتے تھے۔۔۔۔ کہاں کھوئے گئے
یہ کھیل کیا تھا؟
میں تو اپنی نسل کی آنکھوں سے تکتا ہوں
زیاں کے اس اندھیرے میں اسے تکتا ہوں جو تھا شاہ کار اپنی ہزیمت کا
(کہ میں ہم رشتہ وہیں سنگ و شجر کا
اور ان سے مختلف بھی ہوں)
میں تا مقدور دل کی روشنی میں
زندگی کے المیے کی وسعتوں کو دیکھ سکتا ہوں
بڑی مدت سے
اپنی فکر، اپنے شوق کی ڈوری سے
آنکھیں باندھ کر
ڈالی ہوئی ہیں بحر و دریا میں
کروں کیا
صید ہوتے ہیں نہیں ہیں موج و ماہی کے
ہیولے سے
زیاں کے اس اندھیرے میں
اسے تکتا ہوں جو تھا شاہ کار اپنی ہزیمت کا
انائے شہر کے تنہا محافظ کو ہوا اعلان
کھینچا جائے گا بے ڈول سے پہیوں کی رتھ سے باندھ کر
اونچی پنہ گاہوں میں دبکے شہریوں کے سامنے
یہ فیصلہ ہے دیوتاؤں کا
بتا سچائیں کا جانا کیوں جرم ٹھہرا تیری دنیا میں
فرشتے روم سے بھیجے گئے مصلوب کرنے کے لیے
مشرق کے سورج کو
مگر اس کی کمک لے کر ابابیلیں نہیں آئیں
بجا ہے ذہن کا یہ شعبہ گر
لفظ کی جادوگری سے رات کو دن، دھوپ کو چھاؤں
بناتا ہے
شکستیں جیت کا مفہوم دیتی ہیں۔۔ مگر پھر بھی
وہ پیاسے دن کے صحرا میں، تری موجودگی میں
مر گئے
ان کا قبیلہ آج بھی اتنے کا اتنا ہے
صنوبر کا بلندی سے
زمیں کی گھاس پر سایہ نہیں پڑتا
بجا ہے، تو کہے گا
ہم ذرا سی روشنی کے وہم کو سچ سمجھتے ہیں
یہ سو اطراف کے خیمے ہمارے فہم سے باہر
گڑے ہیں وسعتوں میں
اور ان کی سمت، ان سے دور اڑتے
عکس اندر عکس
آنکھوں کی گرفت رنگ یکساں میں نہیں آتے
انہیں میں سے ادھوری روشنی کا ایک چھینٹا
ہم پہ پڑتا ہے
بجا کہتا ہے تو شاید۔۔ مگر
تخلیق، خالق سے جدا ہو کر، وجود مختلف
اس کے مدار فکر سے باہر بناتی ہے
وہ اپنی لوح پر پہچان کے اپنے حوالوں
سے ابھرتی ہے
یہ فکر و جذبہ و احساس بے معنی نہیں ہے
ہم دیے کی لو کو جب انگلی سے چھوتے ہیں
تو کیسا کرب اپنی چھاپ سی
قرطاس جاں پر چھوڑ جاتا ہے
ذرا تو بھی چراغ ہست کو چھو کر
لگا اندازہ کیسے روشنی کی بوند دل میں
درد کی لہریں اٹھاتیں ہے
بہرصورت تری تخلیق ہیں ہم
اور تیری ہی طرح اس آرزوئے دل سے وابستہ ہیں
جس کی حسن منزل ہے
اسے تکتا ہوں جو شاہکار ہے اپنی ہزیمت کا
محبت دھونڈنے نکلا تو رستے میں
کھنڈر آیا۔۔ جہاں پر سوختہ کھپریل کے نیچے
پڑی تھیں چوڑیاں ٹوٹی ہوئی، لوری کی وہ
کھوئی ہوئی آواز جو چاہت کی ٹہنی پر
مہکتی تھی، مجھے ں صدیاں پرے کی ایک بستی سے
سنائی دی
ملے ٹوٹے ہوئے حلقے، سلاسل پؤں کے
جو ان زمیں زادوں کے زیور تھے
جنہیں اجداد نے میراث میں بخشی
وہ ناداری
جو ان کو کات کر چرخے پہ زر داروں کی پوشاکیں
بناتی تھیں
بتا! اے اس زمیں کے اول او آخر کے آقا
یہ رموز ملکیت کیا ہیں
تجھے کیسے پسند آئیں لہو کی چوریاں
جانوں پہ ڈاکے
مفلسی کے زہر آہستہ اثر سے مرنے والوں کی کراہیں
اور کشت دل میں آنسو بو کے
آنسو کاٹنے والوں کی مجبوری
تجھے کیسے پسند آیا کہ پھولوں سے تراشی مورتیں
زینت بنیں اہلِ ہوس کی خواب گاہوں کی
جلیں فانوس عشرت کے
جواں، نوخیز، نورستہ بدن کی مومیائی سے
رموز ملکیت کیا ہیں
زمیں تیری ہے یا تیری نہیں ہے؟
حکمتوں کے چور دروازے سے جب قزاق آتے ہیں
تو کانگو کے کنارے پر کھڑے جنگل
انہیں اپنے خزانے پیش کرتے ہیں
کہیں ایراوتی ان کو اشاروں سے بلاتا ہے
زمیں قالین کی مانند ان کی ٹھوکروں میں
کھلتی جاتی ہے
یہیں حرص جہاں گیری کے پس ماندوں کی دنیا میں
حمیت کے نگوں پرچم کی مایوسی ملی جاتی ہے
چہروں پر
زمیں۔۔ ان بسنے والوں کی نہیں
زور آوروں کی ہے۔۔۔۔ جو آپس میں
ہری دوشیزگی اس کی ہمیشہ بانٹتے رہتے ہیں
کیا آیا ہے حصے میں تری ان کثرتوں کے۔۔
بانجھ مٹی قحط کی، مدقوق پیلاہٹ، دھنسی آنکھیں۔۔
جلا ہے کون صدیوں کی سزا کے اس جہنم میں
بتا! فردوس خوابوں کی
ہمارے کون سے فردا کی خواہش کے لپکتے بازوؤں کی
دسترس میں ہے
ہمیشہ کی اذیت اور کیا ہوتی ہے۔۔۔۔
لیکن ہم امیں خوش فہمیوں کے
سادہ دل ایسے
کہ جب بھی آس کو آدھی کھلی کھڑکی سے
اپنی سمت تکتے دیکھتے ہیں
دل کی دھڑکن تیز کر لیتے ہیں
کیا معلوم، ہو انداز یہ بھی تیری بخشش کا
ہمارے واسطے اس طے شدہ لمبے سفر کی ظلمتوں میں
اک ذرا سی روشنی بھی تو ہمارے ساتھ
رکھتا ہے
کہ دل کا توڑنا خارج ہے تیرے انتظاموں میں
یہی سمجھیں یہ عرصہ آزمائش کا ہے
دکھ کے تجربے شاید ہمیں چھینی ہوئی تاریخ لوٹا دیں
ہم اس تحقیر کی پستی سے اٹھ کر
اپنے ہونے کا افق چھو لیں سوار اشہب فردا محبت کی ہری دستار پہنے آئے
ان آبادیوں میں جبر کے آئین کو
منسوخ کر ڈالے
(دھوپ کا پھٹا ہوا بادبان)
مگر اس خواب کی تعبیر سے پہلے
اسے دیکھیں جو آئندہ ہے رفتہ کا
ڈبو کر روز کے منظر کی کالی روشنائی میں
ورق پر خود بخود خامے کو چلنے دیں
نہیں، کوہاں، بنا لینا ہنر کا معجزہ ٹھہرا
یہ مضمون خوبصورت ہے
جسے موجود کے سارے متن سے منتخب کر کے
لکھا ہے چشم خوش بیں نے
فریب وہم بس اپنی صفائی پیش کرتا ہے
دلیلیں استغاثے کی نہیں سنتا
اسے ڈر ہے
کہیں ایسا نہ ہو سچائیوں کے پیش منظر میں
وہ اپنے آپ کو اپنے لباس و جسم میں
عریاں نظر آئے
مسافر کیسے جھٹلائے
کہ ہر امروز ریہرسل ہے فردا کا
مسافر کا مقدر ہے
سفر میں بے سفر رہنا
بھنور ٹھہرا ہوا ہو جس طرح تصویر دریا میں
اسے دیکھو جسے ملاح کی آنکھوں نے دیکھا ہے
بڑا ہے بادباں پر قدِ آدم کے برابر
چاک سائے کا
اسے دیکھو جو آئندہ ہے رفتہ کا
اگرچہ دور تک ہریالیاں پھیلی ہیں
امکاں کے سرابوں کی
مگر پیچھے سے آگے تک یہی لگتا ہے
جیسے راستے بھی راہرو کے ساتھ چلتے ہیں
نئے جادے کے راہی سے
وہ مرد پیر شاید سچ ہی کہتا ہے
پرانے تجربے کے سیپ سے تاثیر کا گوہر نہیں ملتا
کسی بھی لہر کا جادو نہیں ایسا
کہ ساحل کو صفت دے دے سمندر کی
رتیں آتی ہیں جاتیں ہیں مگر کہنہ گناہوں کے،
ہمارے عقب میں چلتے ہوئے سائے نہیں ہٹتے
دورنا! تو تو واقف ہے ہماری خفیہ خواہش سے
برائی کی جڑوں میں کھاد مٹی کی
جسے خوراک دیتی ہے
فنا کی گود میں سوئے ہوئے مایا قبیلوں،
نوح سے بچھڑے ہوئے سیلاب بردہ
شہر داروں سے،
فلسطیں کی نئی تعمیر کردہ قتل گاہوں تک
لکھی ہوں گی لہو میں
سب کی سب شہ سرخیاں تیرے جریدے پر
کہ تو باطن ہے ہر لمحے کے باطن کا
ہمارے بادشاہوں نے
مقرر کر رکھے ہیں اپنے چرواہے
ہمارے دھوپ چھاؤں کے گیاہستاں میں
ریوڑ کے چرانے پر
وہ آقا جن کی سولے ڈار سے یوروشلم تک
کوٹھیاں آباد ہیں عیش فراواں کی
ہمارے خیرخواہوں کے تحفظ میں
ہمیں محکوم رکھنے کے لیے وہ آتش بارود سے
نا مطئمن
ذرے کے زنداں میں مقید آگ کی آندھی
بپا کرنے پہ قادر ہیں
جہنم کی گھٹن میں لڑنے والے
اپنی آزادی کی بے سیلاب تحریکوں میں
کیسے منقسم ہو کر
ہدف بنتے ہیں ترکیب سیاست کے
یہ جتھے حریت کے نام پر تفریق کے خالی محاذوں پر
نہتے لڑ چکے ہیں اور ماتیں کھا چکے ہیں
پیش رفتہ چال بازی سے
وہی جو معتبر رکھتی تھی اپنی آبرو کو
دو جہانوں سے
وہ سہتی، وہ انا اب تیسری دنیا کے بازاروں میں
بکتی ہے
سنا ہے باپ کو بیٹے نے خصی کر دیا ہے
دیو مالا کی نئی تجدید کا ہاتف بتاتا ہے
قوائے ذہن کے مندر میں ہندسوں کے نوے منتر کے
جادو سے،
نئی تہذیب کے کوہ مقدس سے
اتر کو دیوتا مصروف ہیں انساں کو نا انساں بنانے میں
یہاں اخبار، ٹی وی، ریڈیو، فلمیں، عقوبت گھر،
حشیش و ہیروئن، رسم و روایت کے کلیشے
دست و بازو ہیں ہمارے دیوتاؤں کے
نئی دنیا کا پیغمبر۔۔۔۔
مہندس اپنے مقبوضہ تصور کی توانائی کی کلیے سے
مکان و وقت کی تسخیر کرتا ہے۔۔۔۔
مگر کیسی دہائی ہے
کہ اس شہر عدد سر میں
تعلق ہو گیا موقوف دروازے کا دستے سے
نیا آقا
نئے رشتے کی بنیادوں پہ کیسی اجنبیت،
کیسی تنہائی کی دیواریں اٹھاتا ہے
بتا! تیرے پرانے بسنے والے کیا کریں
تو نے تو سب زر خیزیاں تقسیم کر ڈالی ہیں
تو آباد کاروں میں
زمینِ بے زمیں جلتے ہوئے حبشہ کے جنگل میں
اگر ہے بھی تو تیری اور تیرے بے نیازوں کی نظر
اس پر نہیں پڑتی
چمکتے شہر کے تاجر نے
جنس جنس کو نشے کی چیزوں میں سر فہرست رکھا ہے
زمین بے فلک پر آسمانی طربیہ تخلیق کرنے
کون آئے گا
کہ کچے جامنی ہونٹوں کی، مقناطیس آنکھوں کی
وہ محبوبہ
ملازم ہو چکی ہے نیلی فلموں کے ادارے میں
کسی کا انتظار اب نوک خواہش پر برہنہ پا کھڑے ہو کر
وہ کرتا ہے
وہی جو ہیر سے بچھڑا تھا فردا کی ملاقاتوں کے
وعدے پر
چٹانیں زاد گاہیں ہیں محبت کی
یلہ تشنہ و گرسنہ چاہتوں کا دور ہے جس میں
ہرا پھل ایک لمحے کی تپش میں پک کے گر جاتا ہے مٹی پر
محبت کون کرتا ہے
کلہ سب عشاق شامل ہو گئے ہیں
زار کے ایک چشم ساحر کے مریدوں میں
(وہ کہتا ہے
غزل نے بے ردیف و قافیہ ہو کر
پرانی دلبری کھو دی)
مگر اس کی رسائی سے پرے رہتی ہے
نا محسوس سی جنبش تماشا گر کے ہاتھوں کی
کہ اک زنجیر جب توڑی گئی تو کس نفاست سے
رہائی یافتہ کو دوسری زنجیر پہنا دی
زمیں دہقاں کی محبوبہ ہے لیکن داشتہ ہے
اس کے آقا کی
وہ اٹھی تو ہے آزادی کی خواہش میں
مگر کیا جانیے کب
مرمریں شانوں سے مہر ملکیت کا داغ چھٹتا ہے
ہمیشہ سے یہی انداز لا ہے کار سیاست کا
سگان پیشہ ور۔۔ حلقہ بگوش ہر آنے والے کے
دمیں اک دوسرے کی اپنے دانتوں میں دبائے
دائرے میں چلتے رہتے ہیں
پیادے مافیا کے
فیل ترچھی مار رپ۔۔ زیر زمیں، زیر زمانہ
تارجوں کی خفیہ تنظیمیں
بدلتی حکمتوں کے فرس
فرزیں خام قوت کا
بتا! ایسی بساط روز و شب پر اور کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ ہم
شہ مات پر شہ مات کھائیں گے
یہاں کیا ہے
اندھیری رات میں زرموش کی پپلی وبا
گلیوں میں لچتی ہے دبے پاؤں
یہ بے میعاد ابکائی کی کیفیت
تعفن پلپلے جسموں کا شہر زر گزیدہ کے تنفس میں
خدایا! تو نے کیوں پیدا کیا درویش کو
عقل و عقیدہ کی کشاکش کے زمانے میں
وگرنہ ناک پر رومال رکھ کر عمر کی لمبی گلی سے
خیر و برکت کی صدا دیتے گزر جاتا
مسافت کر کے گاؤں کی سرائے میں کئی برسوں سے ٹھہرا ہے
وہاں ہر روز جاتا ہے
جہاں قلعہ نما، پر پیچ رستوں کی حویلی کے
کسی تاریک کمرے میں
سیاہ عینک لگائے معتمد بیٹھا ہوا ہے
اور باہر۔۔ ایک ہی تختی سدا آویزاں رہتی ہے
‘جسے ملنا ہے کل آئے’
فرار اس منظر امروز سے کیسے کیا جائے
لہو سے سینچنے پر بھی غزل خوشبو نہیں دیتی
حیا کی سرہ سا آنکھیں قیامت ہیں
مگر ان کا کسی نغمے، کسی تصویر کی تحریک بننا۔۔
ایسے لگتا ہے جذبے کی نہیں۔۔
شاید ثقافت کی ضرورت ہے
ہماری شاعری کیا ہے
قصیدہ رقم کرنا جنگجوؤں اور طالع آزماؤں کا
جہاں دیدہ نظر سے فلسفے کی موم کو
اپنی خطابت کی تپش دے کر
شبیہیں سی بنا لینا
قبول عام ہو کر داد پانا، عارضی شہرت کے جلسے میں
بتا! تیرے یہ خدمتگار کیسے ہیں
برائے شعبدہ، جو آستینوں میں
چھپا کر خوشنما لفظوں کے گلدستے، سر منظر
نگاہوں کو لبھاتے ہیں
بتا! سچ بولنا کیوں جرم ٹھہرا ہے
ہمارے تجربے کی آنچ پر پکتا ہوا جذبہ
سرِ شاخ قلم آ کر نظر افروز ہو جائے
مگر ایسا نہیں ہوتا
ہم اپنے ذہن، اپنے قلب کو پابند کرتے ہیں
بنائے قاعدوں کی قافیہ پیما روایت کا
یہی آہنگ کی دس بیس تالوں پر
خیالوں کو نچاتے ہیں
ہمارے شستہ و شائستہ لہجے سے
سریں آنند پاتی ہیں
بتا! ہم کون ہیں
کس کے زمستاں میں گماں کی سبز ٹہنی پر
پرندہ چہچہاتا ہے
یہ کس کی نیم بینائی کے مظہر میں
تماشا بھی حقیقت ہے، حقیقت بھی تماشا ہے
یہ منظر دیکھنا ممکن نہیں جس کا
اسے ہم دیکھتے ہیں اور حیرت ہے۔۔
ہماری پتلیاں پھر بھی نہیں پھٹتیں
(جنم ندی میں پرچھائیں کے بھنور)
میں ایسا گوشہ گیر ذات ہوں
جو روز کی دلچسپیوں سے کٹ گیا، ماحول سے
نا مطمئن ہو کر
مگر ایسا نہیں تھا جب
ہوا کا بادلہ اوڑھے سبک لہریں
مجھے لائی تھیں چڑھتی دھوپ میں
مٹی کے ساحل پر
وہ کیسے دلنشیں دن تھے
ہرے موسم نے اپنا رقعۂ خوشبو
ہوا کے نامہ بر کے ہاتھ بھیجا تھا
کسی بے نام بستی کے کسی بے نام گھر میں آنے والے کو
عجب دن تھے
وہ کچے اور معمولی سے آنگن میں
سویرے کے سنہرے پن میں تکتا تھا منڈیروں پر
اچکتے پھول چڑیوں کے
اسے محسوس ہوتی تھی
اجالے کی خنک چھینٹوں سے بھیگی سانس کی ٹہنی پہ
ہریالی میں ہلکی کپکپی تتلی کے رنگوں کی
وہ بے حد اشتیاق اس کا
کہ اڑ کر آسماں کی دودھیا نیلی فضا میں
تیرنے جائے
بدن میں سوندھ مٹی کی اسے اکسائے رکھتی تھی
کہ وہ کرنوں سے مل کر
سامنے دالان سے تکتی ہوئی ان مہربان آنکھوں میں
گھل جائے
اماں جن کی
معطر روشنی کے مورچھل جیسی۔۔
محبت کے جھکے سائے میں وہ آسودہ رہتا تھا
عجب دن تھے
اسے مکتب کے پچھواڑے میں سرکنڈوں سے
اپنے نام کی آواز آتی تھی
شرارت سے اسے باہر بلاتی تھی
ہوا ان نرسلوں میں چھپ کے سکاے ہوئے
ہونٹوں سے جب سیٹی بجاتی تھی
تو کیسے بے ارادہ وہ کھینچا آتا تھا اس کنج منور میں
جہاں چنبیلیاں اپنی مہک، سورج مکھی کے پھول
اپنے بیج اس کو پیش کرتے تھے
پھٹے ٹاٹوں سے اڑتی گرد میں گردان گنتی کی
کسی یک لہجہ، بھاری، کھردری آواز کی دہشت سے
بے ہموار سانسوں میں
اسے نیلی فضاؤں میں اڑانیں سارسوں کی
یاد آتی تھیں
جنہیں دیکھا کیا کرتا تھا وہ بھاگے ہوئے ہم مکتبوں کے ساتھ
دریا کے کنارے پر
جنہیں بہتا ہوا پانی ابد سے جا ملاتا تھا
جہاں وہ کاسنی موسم کی سہ پہروں میں
سوکھی ریت کی لہروں پہ اڑتا تھا، ہوا کو
تیز رفتاری میں پیچھے چھوڑ جاتا تھا
پتنگوں کے تعاقب میں
محافظ نے مکاں کی چار دیواری پہ اپنے حکم کی کانچیں
جڑا دی تھیں
گزرتا بند دروازے سے وہ کیسے؟
ہمیشہ دیکھتی آنکھوں کے پہرے میں
کڑی نگرانیوں کی ابر آلودہ فضا میں
گونجتی آواز کے کڑکے رعشے سا بدن میں
خوف ایذا کا
(کہ ان پابندیوں سے فائدہ مقصود تھا اس کا)
گلی میں نصب تھیں، آنکھیں ہی آنکھیں
جن کی دو رویہ حفاظت میں وہ اپنے روزمرہ کے
سفر میں آتا جاتا تھا
رہا کرتی تھی اس کے خوف کے جز دان میں
تحریر خطرے کی
وہ اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا۔۔۔۔ اور کیا کرتا
کبھی بے اختیارِ شوق اپنی انگلیاں مجروح کر لیتا
کبھی چھت پر کھڑے ہو کر
اشارہ بھیجتا
شام شفق افروز کو ملنے کے وعدے کا
اندھیرے میں
کبھی وہ چاندنی میں اپنے سپنوں کا سنہرا پن
ملا دیتا
کہ اس کی دسترس میں تھی یہی تدبیر
دنیا کی نگاہ استفادہ بیں سے بچنے کی
سفارت کی سند آوارگی کو خواب کی کشور سے
ملتی ہے
گلی کی تنگیوں سے مضمحل ہو کر
محلے کے کھلے میدان میں سستاتے ہوئے
وہ آسماں کی ٹیک سے کندھا لگا دیتا
وہ مجھ پر منکشف ہوتا ہوا
آوارہ سا لڑکا
مرے ہمراہ رہتا تھا
مجھے اس نے دیا احساس
دو دنیاؤں میں بستی ہوئی دو چہرے ہستی کا
گلی میں، شہر میں جو واقعے ہوتے انہیں
باتوں کے چرواہے
غلیلوں میں گھڑے الفاظ کے کنکر بنا کر
بے ارادہ یا ارادے سے
ہمیشہ مستعد رہتے تھے ممنوعہ علاقے کی حدوں پر
سنگ باری میں
مرے رہبر۔۔۔۔ روایت، تجربے کی روشنی،
دانائیں کا نور، بہتر سوچ اونچے مرتبے کی
اور پختہ عمر والوں کی
معین ہو گئی میرے سفر کی سمت۔۔ یعنی اب ہمیشہ
دوسروں کے طے شدہ رستے پہ چلنا تھا
مجھے وہ کوزہ بھر پانی میں
مشتِ خاک کا گوندھا ہوا پیکر سمجھتے تھے
مگر میں موجۂ پر پیچ فطرت کے رواں دریا کا،
اپنی تشنگی سے مضطرب،
ان کے بنائے ظرف میں کیسے سماتا
ہوا یوں
آئینے کی آب میں پرچھائیاں گھل کر
بھنور بننے لگیں شفاف پانی میں
تمنا زاد تصویریں خیالوں کی
بگڑتیں اور بنتیں آنکھ پر پڑتے ہوئے
باہر کے عکسوں سے
ادھر پائیں گلی کے جھونپڑے میں شام بستی تھی
لٹکتی دھجیاں، میلے بدن کی کھڑکیوں پر
اور اندر سے مسلسل کھانستی آواز کمرے کی
دھوئیں کی دودھیا سانسوں سے ہلتے پھیپھڑوں میں
ہچکیاں لیتی شفق کا آخری منظر
ہرا کیا تھا اگر مزدور آرا کش
کسی جنگل میں قد آور صنوبر کا جنم لے کر
نمو پاتا
ادھر ہر روز گورے اور کالے فوجیوں کی گاڑیاں
گاڑھا دھواں انڈیلتیں، کوکیں لگاتیں
اور بن ٹھہرے گزر جاتیں
سویرے کے سٹیشن سے
اندھیرے کے محاذوں کی طرف بارود کی بو،
ریت پر چھڑکے ہوئے، ضائع شدہ
تازہ لہو کی باس کے اندھے تعاقب میں
یہی دن تھے
مری بستی میں جب خنجر بکف بلوائیوں کا شور
اٹھا تھا
سر راہے، کسی لمحے کے مقتل میں
مری آنکھوں نے دیکھا، ایک آدم زاد نے گر نے سے پہلے
اپنے شانوں پر
لرزتے ہاتھ سے آدھے کٹے سر کو سنبھالا تھا
مری آنکھوں نے دیکھا
ایک آدم زاد کو خود ساحتہ گھر کے کھنڈر میں
بے نشاں ہوتے
بگولا قہقہے کا چند تنکوں میں اڑا کر لے گیا اس کو
مری آنکھوں نے دیکھا
اس مکاں کے بام پر سیلاب خوں
جو منتقم نعروں میں پرنالے سے امڈا تھا
عجب منظر تھے وحشت کے
بڑوں نے پیش بیں انداز میں مجھ کو تسلی دی
عدو آخر عدو ہے
اس کے ہاتھوں ممکنہ نقصان سے پہلے
یہ لازم ہے کہ بدلہ لے لیا جائے
جہاں انسان بستے ہیں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے
روایت ہے
کہ ان قربانیوں سے شہر پر آئی ہوئی آفات ٹلتی ہیں
تماشا دیکھنے کا تھا
وہ دامن پر پڑے ان سرخ دھبوں پہ
تصور کے ہنر سے، نظریے کے سبز پتے کاڑھ کر
اپنے لیے توقیر کی خلعت بناتے تھے
وہاں دوری پہ دھندلایا ہوا چہرے کسی آدرش کی
نوخیز دلہن کا
یہاں منظر کے ٹوٹے آئینے میں ابتری سی
مسخ شکلوں کی
عجب بے چارگی میں آستیں سے
اپنی آنکھیں ڈھانپ کر آوارہ لڑکے نے
یہی چاہا
کہ ادھ کھائے ہوئے مردار ساحل کی سٹراندوں سے
نکل جائے
حدوں کی بے بسی سے دور
ان دیکھے سمندر میں
مگر وہ دھوپ اس دلدار موسم کی
بدن میں لہریے سے ڈالتا کچے ثمر کا شوق
ٹہنی سے اترنے کا
رفاقت دوستوں کی
چاہتیں در پر، دریچے میں اچانک
رو نما ہوتے ہوئے محبوب چہروں کی
اسے مہلت نہ دی
اس رنگ و خوشبو سے لدی شاخوں کے گلشن نے
وہاں سے دور جانے کی
اسی اثنا میں
ان دیکھی خلیجوں کے کنارے پر
کسی غائب افق کی روشنی کے جھٹپٹے میں
ایک چھوٹا سا سفینہ سیپ کا اترا
ہرے پتے پہ شبنم تھرتھرائی اور
نس نس میں مہکتے رنگ، نیلی خوشبوئیں انڈیل دیں
کرنوں نے چپکے سے
دفیں بجنے لگیں خواہش کے جنگل میں
میں اپنی ذات کے قصر عناصر میں
جلاتا ہوں کنول لمحہ جوانی کا
کنول لمحہ
گزرتی موج کے بے نام جادے کا مسافر ہے
جہاں میں ہوں
وہاں کیفیتوں کے میکدے آباد ہیں جن میں
کسی کا نام لیتے ہی بدن میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے
ہرے ساون کی راتوں میں
لہو کی ہلکی ہلکی گرم آہٹ پر اچانک جاتے
سپنے کی جھلمل میں
وہ شرمیلی سی لڑکی خود کو سمٹائے ہوئے
جب پاس سے گزرے
تو آویزہ لرز کر
کہکشاں کا نور سا رستے میں بکھرا دے
وہ جادوں گرنیوں جیسی بڑی آنکھیں
فسوں آواز کا۔۔
جو آشنا وہ دل کے بھیدوں سے
بدن کی چاندنی ہی چاندنی پھیلی ہوئی
سپنے کی گلیوں میں
اسے میں دیکھتا ہوں، دیکھتا رہتا ہوں۔۔
کیا بے نام چاہت یا پرستش ہے
کہ وا رفتہ۔۔ نکل کر اپنے پیکر سے
اسے پا لوں۔۔۔۔ اڑوں اس کو اڑا کر ساتھ لے جاؤں
اجالے کے بسیرے میں
میں اس کے درشنوں کے شیش لشکارے میں
ہر سو منتشر ہو کر
بنفشی روشنی میں
آب جو کے پاس اٹھلاتی ہوا سے،
رنگ کے، احساس کے ہر عکس سے
اس کے بدن کی جستجو کرتا ہوں، جو ملتا نہیں
افسوس یہ۔۔۔۔
دیوار کی، پردے کی دوری
کتنی صدیوں کے سفر نے طے نہیں کی ہے
یہ لڑکی جو کئی عمروں سے میرے جسم و جاں کی جھیل میں
اک عکس دل افروز کی مانند رہتی ہے
وہی۔۔۔۔ بالکل وہی ہے نا ۔۔۔۔
جسے میں نے کسی جنگل سے باہر
نیم عریاں گوریوں کے ساتھ دیکھا تھا
مہکتے گیسو و رخسار کے دلدار موسم میں
وہی لڑکی جو پاس آ کر
ادائے دلبری سے قرب میں کم قرب کا
غم دے گئی شوق زیادہ کو
قدیم۔۔۔۔ اتنا قدیم اس سے تعلق
اور اتنا فاصلہ بدلے ہوئے رشتوں کی دنیا میں
کہ طے ہونے نہ پائے عمر کی لمبی مسافت میں
جسے ہو شوق جینے کا
جو بے اندازہ جذبے کی گرفت بے بہا سے چھوٹنا چاہے
اسے بس چاہیے اک شامیانہ نصب کروا کر
نہنگ رسم کے اعزاز میں جاں کی ضیافت دے
دہکتے شوق کے موسم میں جب بھیگی ہوائیں
غیب سے آتی ہیں اپنی جھولیاں بھر کر گلابوں سے
تو کیسی آرزو اس رستے پر
جھومتی رت میں
لیے چلتی ہے آنکھیں موند کر بے اختیار میں
بتا! اے ساحرہ
اس جان کے رستے پہ کتنی دور میرے ساتھ جائے گی
یہ بندھن ٹوٹ کر بھی ٹوٹتے کب ہیں
ہماری جیت شاید ہارنے میں ہے
پلٹ جائیں!
چلو یونہی سہی۔۔۔۔ یہ شوق جینے کا ہمیں مرنے نہیں دیتا
چلو کم خوں بدن میں تازہ خواہش کی
بسنتی دھوپ انڈیلیں
چلو آوارہ ہو جائیں
بہت سی لڑکیوں کے خواب دیکھیں
جن کی زیبائی
قریں ہو حسن کے معیار اول سے
کریں منسوب ان کے نام ہم آوارگی اپنی
چلیں، چلتے رہیں وحشی غزالوں کے تعاقب میں
بجا ہے صرف خواہش سے کہاں تسخیر ہوتی ہیں
سیاہ آنکھیں
جنہیں بے نام جادوگرنیوں کے اسم و افسوں نے
کیا مامور دل کی بستیاں تاراج کرنے پر
ہم ایسے تھے کہ پا بستہ رہے منہ زور جذبے کی رکابوں سے
ہمیں بس لطف نظارا ہی کافی تھا
ابھی تک یاد ہے وہ سانولی کا چاہنے والا
جسے دیکھا گیا رخشِ تمنا پر
لہو کی دھار سی مہمیز سے پھوٹی
مسافر انت سے بے انت کو طے کر گیا اک جست میں
حیرت پھٹی آنکھوں سے تکتی ہے
غم یک عمر کو کیسے بسر کتا ہے اک ساعت میں
دیوانہ
(پوری روشنی کا سپنا)
یہی دن تھے
محبت کا مسافر دھوپ کے دفتر میں جب چھاؤں کی روزی
ڈھونڈنے نکلا
یہی دن تھے
وہ سورج کی کلائی تھام کر اپنا سویرا فیکٹری میں
بیچنے جاتا تھا مشت رزق کی خاطر
اسے سورج کہا کرتا تھا
دیکھو! میری کرنیں اس زمیں پر روزیوں کے ان گنت خوشے
اگاتی ہیں
مگر میں نے کبھی ان کے عوض انسان سے
آزادیوں کا زر نہیں مانگا
وہ اس کو واپسی کے گیٹ پر رخصت کی سرگوشی میں
کہتا تھا
چلو چلتے ہیں۔۔۔۔ تم اپنے اندھیرے اور میں اپنے اندھیرے میں
یہی نا! ان جہانوں میں جہاں ہم ہیں۔۔۔۔
وہاں کا کاروبار جبر ایسا ہے
چلو چلتے ہیں ہم شام آشنا کڑوے دھوئیں کے
چائے خانے میں
جہاں دو چار اوارہ طبیعت یار
اپنے منتظر ہوں گے
وہ باتیں ۔۔۔۔ اور بے اندازہ باتیں۔۔۔۔
یوں خلا کو ناپ کر اس کے لئے ملبوس ہر خیاط
اندازے کی سوزن، لفظ کے دھاگے سے سیتا ہے
گماں کی خشت اندر خشت چنتا ہے
تصور کی زمیں پر فکر کا معمار مٹی کی سرشت سخت سے
ایجاد کرتا ہے طلسم اسم جس کے زور سے ہوتی ہے
ارض خاک پر فردوس کی آب و ہوا پیدا
چلو یہ رات۔۔۔۔ یہ راتیں
خیال پر فشاں کے ساتھ خواہش کے فرازوں پر گزاریں گے
مگر امروز کا کڑوا کسیلا ذائقہ، چشم بصارت پر
خراشیں ڈالتے منظر اذیت کے
بیاض خواب میں لکھے ہوئے ہر شعر کی تردید کرتے ہیں
نہیں ایسا نہیں
مٹی کی خاصیت میں شامل ہے
تڑپ پستی سے اٹھنے گی
کہ چادر برف کی دست صنوبر سے اٹھا کر
رابطہ سورج سے رکھتی ہے
محبت مرد موسم کی
عجب طغیانیاں سوکھی ہوئی ندی میں لاتی ہے
سدھایا آدمی باہر نکلتا ہے
طواف برد باری سے
یہ تحریکیں زمانے کی شفق جیسی۔۔۔۔ افق سے تا افق
پھیلا سپیدہ دور سے آتے اجالے کا
ہوا امید کا دیدار مشرق کی بلندی سے
لمبا آبنوسوں کے اندھیرے میں، لہو کی پھڑپھڑاتی
سرخ مشعل گاڑتا ہے
ظلم کی مسمار کردہ خلقتوں کی ڈھیر خاکستر پہ،
وہ دیکھو
اُبلتا، کھولتا انبوہ، تختے کی طرح بجتی زمیں،
باہوں کا پرچم رقص، نعرے، طبل پر تھاپیں،
علم گرے ہوئے، اٹھتے ہوئے، موجوں کی چنگھاڑیں
زمیں جو سر بہ زانو تھی، سفید آقاؤں کے
مد مقابل سر اٹھاتی ہے
یہ کیسی موج ہے جو زرد دریا میں
پہاڑوں کے برابر اٹھ کے چلتی ہے
زمیں زادے برہنہ پا، نہتے، موت سے
ہستی کی منزل کی طرف لمبی مسافت پر روانہ ہیں
درانتی کھردرے، نادار ہاتھوں میں
زمیں سے صاف کرتی جا رہی ہے فصل سایوں کی
یہی بے نانِ کل کا آسماں ہے جس کے مشرق سے
صدا ماؤں کی اٹھتی ہے
جوان افتادگان خاک میں تقسیم کرتی ہے
صحیفے خواب تازہ کی شعاعوں کے
کہا آوندہ بیں آنکھوں کو سکڑاتے ہوئے
اس سے معلوم نے
گریباں چاک کر لو موسمِ گل آنے والا ہے
پرندہ ہجر کی بکھری ہوئی پیلاہٹوں کے ڈھیر سے اٹھ کر
ہری امید کی ٹہنی پہ آ بیٹھا
کہا اس نے نظام شاہ داری کو نگلتی ہے بلا اپنے تضادوں کی
اندھیرے میں
فرازِ دار سے گرتے ہوئے قطرے
لہو کے بیج بن بن کر زمیں کی کوکھ کو
زر خیز کرتے ہیں
اسے دادا نے اپنے بام پر جذبے کی نکھری دھوپ میں
کل کی صداقت کی گواہی دی
کسی نادیدہ منظر میں
نظر آئی اسے افشاں تبسم کی جواں بیوہ کے
چہرے پر
وفا کچے مکاں کی چار دیواری میں رہتی تھی
گھڑے پر موتیے کا ہار،
چھتی پر قرینے سے سجے برتن،
رسوئی میں ملائم انگلیوں کا لیپ،
آنکھوں میں کشیدہ کاریاں رنگیں سپنوں کی
یہی اسباب تھے جن سے
وہ روزانہ کا جیون گھر سجائی تھی
نظر آئی
گلابوں کی ہنسی، چمپا کی مسکانیں اڑاتے،
آسمانی پیرہن میں
چاند جھولے کے الاروں میں ستارے توڑ کر لاتے ہوئے
آنگن میں گلدستے شگفتے سرخ بچوں کے
نمو پاتے ہوئے کرنوں کی بارش میں
مگر کیسا۔۔۔۔ یہ کیسا راستہ ہے
جس پہ بے اولاد پاگل ماں بھٹکتی پھر رہی ہے
اپنی لا مرکز نگاہوں کے بیاباں میں
گلی کے موڑ پر تاریک گھر کی بالکونی سے
صدا دیتی ہے لالی سرد ہونٹوں کی
وہ رک جاتا ہے، ننگی نالیوں کی بو سے
سیتا کا ہیولا سا ابھرتا ہے
بہت سستا زمانہ ہے
یہی دو چار سکے چاہئیں مریم کے گاہک کو
مگر کیا کیجئے
واحد دونّی جیب میں ہے اور اگنے پر
اسے جانا ہے کافی دور آگے گھر کی منزل تک
خداوندا یہ کیسی بستیاں ہیں جن کی راتوں میں
سحر نیلام ہوتی ہے
چلو یہ حبس میں جھلسی ہوئی شامیں
صدر کی مال پر چل کر گزاریں
گفتگو کرنے چلیں خود سے۔۔۔۔
درختوں سے پرے آنکھیں اڑانوں میں
کسے ڈھونڈیں
کہ نیلی قوس کے نیچے ہماری ہی طرح کی بستیاں ہوں گی
ہماری ہی طرح کے رنج چہروں سے
دنوں کی نیم آسودہ فضا میں منعکس ہوتے
نظر آئیں گے آنکھوں کو
اداسی ان سنی آواز کی مانند محرومی کے سناٹے میں
خالی آنگنوں میں بولتی ہو گی
خداوند! یہ دنیا کیسی دنیا ہے
جہاں ہم یاس میں بھیگے ہوئے تنکے غبار وقت میں
اڑتے ہوئے
مٹی پہ آ گرتے ہیں آخر میں
کھڑے ہیں
اور پاؤں کے تلے
رنگوں، صداؤں اور خوشبوؤں کی پھسلن ہے
مگر کس نے ہماری قسمتیں
لمحے کے ساحر کی رضا سے باندھ رکھی ہیں
یہی۔۔۔۔ شاید یہی ہے۔۔۔۔
لوگ جنگل سے نکل کر بھی ابھی جنگل میں رہتے ہیں
بقا کی اس لڑائی میں
ہماری بستیاں تقدیر کے خفیہ اشارے پر
وہی مرطوب، مبہم اور متوازن فضا ایجاد کرتی ہیں
کہ جسم و ذات میں اٹھتی ہیں تحریکیں
محبت اور نفرت کی۔۔۔۔
بھیانک آندھیاں باطن کے صحرا میں
ذرا سی یا بہت سی روشنی کی اس رکاوٹ سے
نہیں تھمتیں
جسے اس نے گیا میں اور پھر اس نے حرا میں
جا کے ڈھونڈا تھا
نہ جانے حبس کے اس گھونسلے میں
کون سی شب اور کب طائر ہوا کا آ کے بیٹھے گا
شریں کی پیلی پیلی باس شاخوں سے اترتی ہے
ذرا ٹھہریں کہ چنبیلی کی آہٹ سی
سنائی دے رہے ہیں
قمقمے کی روشنی میں پان کھانے کے لیے رک کر
گزاریں چند گھڑیاں اس کی سنگت میں
یہاں سانوں میں سانسیں ڈال کر چلنے کی مہلت ہی
بہت کم ہے
مگر جو کچھ میسر ہے۔
نہیں۔۔۔۔ وہ بھی کسی کی دسترس میں ہے۔۔۔۔
سنو! تم فعل میں کمزور ہو، یہ طور مرد نا مناسب کا
پسند آتا نہیں دنیا کی دلہن کو
نظر آتے نہیں کیا، برگ نخل واقعہ پر سبز خبروں کے؟
ہوانا میں زمیں کو عاشقوں نے کر لیا اغوا
وڈیرے کی حویلی سے
گویرا اپنے اگلے مورچے پر خون کا پرچم اڑاتے گا
صدی پہلے یہاں آدم مویشی بیچنے والا
کہاں ہے؟ کمپنی کی حکمتوں کی داشتہ،
سب پتلیاں، جنبش میں دست رشتہ گیر ان کا
ہویدا ہو چکا ہو ذہن روشن پر
ہمیں اس حال میں مایوس ہونے کی ضرورت کیا!
چلیں دو گی میں چل کر بیٹھتے ہیں
تم کہ جھیلوں کی زمیں سے
دھوپ کے تازہ گیاہستاں میں آئے ہو
بتاؤ نا!
دمے کی قید کی میعاد کتنی ہے
تمہاری جان کے بنجر علاقے میں
معاش جستجو میں حیرتوں، بس حیرتوں کا رزق ملتا ہے
سوال ایسے کہ آنکھیں جن کی حدت سے
ابلتی ہیں
اسے تسخیر کرنے کون آئے گا
جو اپنی حکمت امروز کے بدلے ہوئے چولے میں آیا ہے
جو زور و زر کی زنبیلوں میں رکھتا ہے
طبق اندر طبق تاریکیاں
جن میں ہماری برق خوں پل بھر تڑپ کر ڈوب جاتی ہے
کہو ایسے لہو کی سرخیاں کیسی
جو بہہ کر سوکھ جاتا ہے۔۔۔۔
کہ دیوانوں کی تعداد مقرر میں کمی بیشی نہیں ہوتی
یہاں کتنے ہیں جو بے وجہ، بے تقصیر گر گر کر
شمار سر فروشاں میں نہیں آتے
کہو ساحر نے کیسے
طبع عالم سیر کو سمٹا دیا اسباب و اشیا کے
گھروندوں میں
خرد کے بلدیے میں قسمتوں کی قیمتیں لگتی ہیں
ثروت کی دلیلوں سے
یہاں پروانہ ملتا ہے اسے خوشحالیوں کی
راہداری کا
ادا جو اپنی قیمت سکۂ رائج میں کرتا ہے
یہاں رہنا پڑے گا
اپنے فہم روزمرہ اور اسلوب معین کی اطاعت میں
ضرورت ہے کہ ہم
اندر سے خود کو مسخرہ تسلیم کر کے
روز کی اسٹیج پر سنجیدہ کرداروں میں ظاہر ہوں
ہمیں اس روشنی کا،
اس ذرا سی روشنی کا عمر بھر تاوان دینا ہے
جسے آنکھیں چرا کر لائی ہیں قصر عناصر سے
رجا کی فتنہ گر آنکھوں نے صحرا میں
لگا رکھا ہے کیسا خیمۂ منظر۔۔۔۔
بتاؤ نا! ہماری اصل کیا ہے؟
ہم غرور خاک ہیں یا عجز ہیں نادار مٹی کا
کہیں یہ تو نہیں، اس نے
ہمیں اپنے اندھیرے کے سفر میں
راہ کی مشعل بنایا ہو
جسے جب چاہے کوئی حادثہ آ کر بجھا ڈالے
ہماری اصل کیا ہے؟
ہم اندھیرے اور تنہائی سے بچنے کے لیے
انبوہ کے قلعے میں رہتے ہیں
مگر پھر بھی اماں ملتی نہیں ڈر کی چڑیلوں کے
بلاوے سے
تعلق سرسری سا دوسروں سے
عمر بھر ہم جن کی نگرانی میں رہتے ہیں
ہمیں دائم سلب ہوتی ہوئی آزادیوں نے
خود اذیت کا چلن ایسا سکھایا ہے
کہ ہم اس دشت سنگ و خشت میں
آدرش کے سورج کی بکھری کرچیاں
آنکھوں سے جمع کر کے
ہر صبح نیا سورج بناتے ہیں
مگر پیشِ نظر سائے کا پھیلاؤ نہیں گھٹتا یہی ہر روز کہتے ہیں
ابھی موسم نہیں خاکستر افسوس میں چنگاریوں کے
پھول کھلنے کا
یہ کیسی خانقاہیں ہیں
جہاں سے اندرون جسم کو خیرات ملتی ہے
یہیں پر بے یقینی اور شک کی وارداتیں
درج کروا کر ہمیں اپنی اندھیرے کی عدالت میں
گواہ وہم کی وعدہ معافی پر
سزا کے ٹالنے کا حکم ملتا ہے
وہی محدود منظر روزمرہ کا
وہی روزن
جہاں سے برکتوں کی مشت بھر نیلاہٹیں
ہم پر اترتی ہیں
انہی کم نوشیوں پر مشغلہ جینے کا چلتا ہے
ہمارا ظرف بھی شاید نہیں اتنا
کہ ہم اپنی اکائی سے نکل کر
ٹوٹتی بنتی ہوئی موجوں کی کثرت میں سما جائیں
مگر اس غیب کے دریا میں وہ زور سبک کیا ہے؟
جو ثقل جسم کو اوپر اٹھاتا ہے
مصور کون ہے جو جسم میں
لا انتہا پیچیدہ، پر اسرار ہستی کی
شعور رنگ، عرفانِ ورائے رنگ سے تخلیق کرتا ہے یہ لڑکی خوبصورت سی
بظاہر لعبت خاک معطر، مضطرب رنگوں کا پیکر ہے
مگر دیکھیں تو اسرار و رموز دو جہاں سے آشنا
ہستی نے
اپنے آپ کو سمٹا لیا ہے ان خطوں، قوسوں کے
جھرمٹ میں
سمندر اپنی ساری وسعتوں، گہرائیوں کے ساتھ
اس قطرے میں رہتا ہے
مگر پھر اس طرح کیوں ہے
کہ آدم زاد۔۔۔۔ اپنے آسمان ہست کا انجم
اندھیرے میں زبوں، نا آفریدہ روشنی میں
اپنی صورت دیکھنے کے شوق میں
نا آشنائی کے سفر میں چلتا رہتا ہے
ہم اپنی نیم آگاہی کے عالم میں
چلو پوچھیں
ہم نا وقت کی اقلیم سے کس نے نکالا ہے
ہمیں اس نیک و بد، اس بیش و کم، اس نور و ظلمت کا
دیا احساس کیوں لمحے کی دانش نے
برائے جستجو؟
لیکن کھلے امکاں کے صد راہے پہ
اتنی حیرتوں کی بھیڑ میں کس سے پتہ پوچھیں
ہمارا کون سا رستہ ہے، منزل کس طرف ہے!
اور کب تک
نیم بینائی۔۔ شعاع نا شگفتہ کے چٹکنے کی توقع میں
چلیں۔۔۔۔ چلتے رہیں مفروضہ مقصد کے
اشارے پر
حواس و ہوش، فہم و وہم۔۔ نا رسا حیلے ہیں
جینے کی ضرورت کے ہمارے حافظے کیا ہیں؟
وسیلے سال و ماہ و یوم کی کڑیوں سے
زنجیریں بنانے کے
جنہیں پہنے ہوئے تاریخ چلتی ہے
حواس انگیختہ منظر کی دنیا میں
بڑائی کم تری، ادنیٰ و اعلیٰ، ضابطے، قانون
پنچایت، ریاست
باپ بیٹے کا تعلق، جنس کے شتے
اکیلے اور مل کر جینے والوں نے کیے ایجاد۔۔۔۔
لیکن منحرف ہو کر محبت اور فطرت سے
کچھ ایسا ہے کہ ہم
خود ساختہ زنداں کی دیواریں
بڑی رکھتے ہیں دروازوں کی نسبت سے
یہ دنیا خوبصورت ہے
اسے ہم فاصلے کے وسط میں دیکھیں تو لگتا ہے
کتاب پاک میں جیسے پرِ طاؤس رکھتا ہو
مگر ہم اس کے باشندے
خوشی کو حالت امکاں میں رکھ کر
نا خوشی اپنے لیے تجویز کرتے ہیں
یہ منظر روشنی کا شام کا، امید کی چنبیلیوں کے
مسکرانے کا
ہمیشہ سے جہاں پر تھا وہیں پر ہے
وہی ہارے ہوئے سپنے
وہی موسم۔۔ ہمیشہ لوٹ کر اتا ہوا موسم شکستوں کا
وہی تصویر
نا معلوم سی افسردگی کی
یاد و نسیاں کا مصور نوک مژگاں سے جسے
احساس کے قرطاس پر
پت جھڑ کے رنگوں سے بناتا ہے
تمنا کے لبوں پر
تشنگی بے انت صحرا کی
یہ کیسا معرکہ ہے جس میں ہم شامل نہیں ہوتے ہیں
لیکن ہار جاتے ہیں
مگر یہ شوق کیا ہے اور کس کا ہے!
کہ ہم اٹھتے ہوئے پاؤں کا پرچم آسماں پر
اور بعد آسماں پر گاڑنے نکلے ہوئے ہیں
ہار کر پسا نہیں ہوتے
وہاں دیکھا گیا بے عقل بوڑھے کو
جو نسلوں کی رضا لے کر ہوا تھا حملہ آور،
جبر کے کالے پہاڑوں کو
ہٹانے کے لیے سورج کے رستے سے
مگر پھر کیا ہوا؟
ہاں دیکھئے ہوتا ہے کیا، ویسے تو اب بھی
نصرتوں کے بام پر اس شہ سوار مرکب امروز کی
تصویر لٹکی ہے
محبت کے مصور کا وطن چالیس برسوں کے اندھیرے سے
نکل کر بھی اندھیرے میں مقید ہے
مگر کیا کیجیے
امید کی منظر کشی مایوس بھی ہونے نہیں دیتی
کسی مشرق سے کرنوں کا خنک جھونکا
کھلا دیتا ہے گلشن سا تصور میں
ابھی آدم ادھیڑ عمری کے سمجھوتوں کی منزل پر نہیں آیا
ابھی ڈبلن کے زندانی
جواں صنعا، مقدس ماریا، گمنامیوں میں مرنے والے
جان کی کرنیں اندھیرے میں لٹاتے ہیں
مگر کیا جانیے کب منقلب ہو گا
دکھوں کی ریت پر یہ کیکڑے کی چال میں چلتا ہوا
انبوہ دنیا کا
نہ جانے دور نو آباد کاراں
ختم ہو گا یا نہیں ہو گا
ابھی وسامر زر کا فسوں چلتا ہے
پس افتادہ شہروں پر
وہاں دیکھو
شتیلہ جل رہا ہے
ابن موسیٰ پھر سے کوئی سلطنت لوٹا رہا ہے
اپنے دشمن کو
ادھر دیکھو
ہمارے گاؤں کے مکھیا نے کیسے وار دی ہے
گل بدن لڑکی حمیت کی
مفاد شہر یاراں پر
یہاں اس رقبۂ صنعت میں تاجر کی اشارت پر
سنہرے بال بکھرائے ہوئے آنکھیں جھپکتی فاحشہ
نی یون سائن کی
کنکھیوں کی کشش سے رات کو فتنے جگاتی ہے
یہاں کے سادہ دل لوگوں کو
سستی خواہشوں کے زیور و ملبوس کا گاہک بناتی ہے
اسی میں عافیت ہے
طے شدہ سائز کے قلبوتوں پہ ہوں تیار
سب پاپوش ذہنوں کے
یہاں تصویر و آواز و خبر کے کارخانے میں
جو مصنوعات بنتی ہیں
انہیں سے پرورش پاتے ہیں فہم و وہم
لوگوں کے۔۔ کہ سارے کینوس، سب موقلم، سب رنگ ان کے ہیں
ہمارے پاس آنکھیں
اور وہ بھی ان کے معیاروں کی پروردہ
یہی ارشاد ہے عقل مکمل کا
تجسس کفر ہے، تحقیق کو الحاد کا درجہ دیا جائے
خداوند رعایا کی ضرورت۔۔۔۔ شہر و قریہ میں
نظام نعرہ و لبیک رائج ہو
رہیں مسحور چشم و گوش اشیاء کی چمک سے،
خوش گلو وعدے کی خوشبو سے
مگر کیا کیجیے
حکم زمانہ ہے کہ ہر اقرار میں انکار بھی شامل کیا جائے
فسوں اہرام کا
اندر ہی اندر آدمی کو منقسم کر دے
یہ رشتے، یہ حوالے
تجزیے کی خرد بیں میں غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں
سارے واقعے سچے بھی ہیں، جھوٹے بھی ہیں
کیا کیجیے
تحلیل کا اعجاز ایسا ہے
ادھورے اور ناممکن سوالوں کا ابو الہول اپنے
ترچھے ناخنوں سے وار کر کے
آدمی کو بانٹتا جاتا ہے اجزا میں
ادھر آدھے بدن کے خطۂ ظلمت سے اٹھتی
ڈار چیتے کی
نہیں رکتی کسی پشتے سے، جو تہذیب نے
آبادیوں کے درمیاں بہتے ہوئے جنگل پہ باندھا ہے
تصادم آج کا۔۔۔۔
اک دوسرے کی سمت سرپٹ بھاگتے بیلوں کے رستے میں
کھڑے ہیں ہم
کہ خود ہم بے خبر ہیں اس اچانک فعل سے
جو ہونے والا ہے
یہی لگتا ہے
بے معنی میں معنی ڈھونڈنے کی جستجو بھی
زندگی کے اس غلط خاکے کا حصہ ہے
جسے اسرار کے قرطاس پر اس نے بنایا ہے
کریں ابلاغ کس سے
فاصلے ہی فاصلے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں
اور ان تنہائیوں کے بے افق میداں میں ہم
اتنے اکیلے۔۔۔۔ اتنے معمولی
نہ جانے کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں
اور پھر اک دوسرے سے بھی جدا ہیں
اپنی اپنی خود کلامی میں
(برف زار میں صنوبروں کے پرچم)
یہ دنیا خوبصورت ہے
سمندر کی ہری لہریں
ہوا کا بادلہ اوڑھے ہوئے آئیں
مری مٹی کے ساحل پر
لہو میں جاگتے لمحے کے برجوں سے
سحر کی اولیں خواہش کے اونچے غلغلے اٹھیں
گلابی ناخنوں میں تلملاہٹ ہو
افق کے باغ میں اگتے ہوئے پھولوں کو چھونے کی
تصور۔۔۔۔ باغباں دل کا
اگائے خواب کی چنبیلیاں رنگیں فضاؤں میں
معطر انگلیاں آہستہ آہستہ
دنوں کی رحل پر کھولے ہوئے روشن صحیفے کے
ورق اٹھیں
لب دریا مہکتی دھوپ کے اس پیش منظر میں
ذرا دیکھوں کہ میں کیا ہوں!
مگر رونق سی رونق ہے کہ کرنیں منتشر ہو کر
کریں یلغار آنکھوں پر
لہو میں ٹوٹتے، بنتے حبابوں کی دبی سرگوشیاں اٹھیں
چلو چلتے ہیں،
دل کی تیز ہوتی دھڑکنیں جس سمت لے جائیں
کسی خوشبو، کسی رنگیں تتلی کے تعاقب میں
کسی منہ زور بے اندازہ خواہش کی عناں تھامے ہوئے
آوارہ ہو جائیں
اسی منظر کی رونق میں
لگے ایسا کہ ساری دھوپ کا میلہ
لپکتے بازوؤں کی دسترس میں ہے
مگر یہ ان سنتی آواز کیسی ہے؟
کہا کس نے مجھے قربت کی دوری سے
دریچے سے ذرا سائے کو سرکار کر
اسے دیکھو!
مکانوں کو دیا ہے ربط جس نے تنگ گلیوں کا
اسے دیکھو!
ذرا سا رزق جو آنگن کی جھولی میں
سحر دم ڈال دیتا ہے
تمہیں معلوم ہی کیا، کون کیا ہے!
کون سے نا آفریدہ شہر کی جانب تمہیں جانا ہے
کس کس حادثے کی زد میں آنا ہے
تمہارے حکم نامے میں لکھا ہے
دیکھتے رہنا
اسے جو ماورا ہے کشف منظر ہے
بجا ہے، بے تمنا کون جیتا ہے
بجا ہے، گوش بر آواز رہنے میں برائی کیا
مگر یہ کیا ضروری ہے
کہ چاہ بے صدا کے بطن ظلمت سے
ازل کے روز سے پھینکی ہوئی آواز اپنی گونج لوٹا دے
تو کیا بہتر نہیں ہم تم
اٹھا کر پائنچے پایاب دریا میں چلیں
کل کے کنارے تک!۔۔۔۔
مجھے کیا! میں تو سمجھوتا بھی کر لوں
بے سماعت، بے بصر رہ کر
مگر مٹی کی فطرت میں انا شعلے کی شامل ہے
میں نا اندیشہ خواہش کے اثر میں ہوں
یہی جی چاہتا ہے ایک دن
ان بستیوں کو آگ کا طائر نظر آؤں
بلندی کی طرف اڑتے ہوئے،
سورج سے جا ملنے کے رستے میں
مرے باطن میں کوئی روح یا بد روح رہتی ہے
ہمیشہ مضطرب رہنا مری مٹی کی فطرت ہے
مجھے یہ آب و باد و خاک کے منظر تغیر میں
بھلے لگتے ہیں۔۔۔۔ کیسے سرسری سے
رنگ و خوشبو کے ورق اڑتے ہیں چاروں سمت
کثرت میں
نشاط انگیز، غم افروز لمحے کے ادھورے پن کی
یہ آئینہ در آئینہ تصویریں!
مگر ان منظروں سے اور آگے اور بھی کچھ ہے
مجھے لگتا ہے میں بن باس میں ہوں
اور میرا تخت ہے قصر ستارہ میں
ابھی تو یہ تغیر کی زمیں بھی
میری مرضی میں نہیں۔۔۔۔ ویسے یہ لگتا ہے
اسے تسخیر کر سکتا ہوں میں زور ارادہ سے
مگر یہ کون ہے!۔۔۔۔۔۔ یہ بار بار آتی ہوئی آواز
کیسی ہے!
کہا کس نے مجھے قربت کی دوری سے
بلاد غم میں رہتے ہو
بتاؤ نا! وفا، کیسی وفا کے بے نشاں رشتوں میں
وابستہ ہو مٹی سے
یہ مٹی جس کے کوزے میں
اسی کو شکل اپنا کر مقید ہو
تمہارا ثقل ہے جس نے
تمہیں باندھا ہوا ہے رنگ و خوشبو کی طنابوں سے
تم اپنے وہم کی شکلوں ہی شکلوں کے صنم خانے میں
کیوں سر پھوڑتے ہو
لفظ کم معنی کے کہنے پر
بتاؤ! دہر کے بیداد گر سے یاریاں کیونکر نبھاتے ہو
جہازوں کو سمندر کی جفا جب توڑ دے
تو ڈوب جاتے ہیں
مگر تم ہو کہ نامعلوم کی طغیانیوں میں
اپنے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے اپنے آپ کو
پھر سے بناتے ہو
کھنڈر سی بستیوں میں
دست جاں سے کرچیاں لمحوں کو چنت ہو
فنا ہو کر فنا ہونے پہ آمادہ نہیں ہوتے
یہی کہتے ہو اپنے آپ سے
چلتا ہوں، بس یہ بے نوشتہ لفظ تو لکھ لوں
نہایت سخت جاں ہو
دھوپ کتنی ہی کڑی ہو واہمے کی آستیں سے
سایہ کر لیتے ہو آنکھوں پر
دمادم دوڑتے آتے ہوئے لمحوں کے رستے میں
کھڑے ہو بے خطر۔۔۔۔ پاگل کہیں کے
خون کی زربفت کا پیوند مٹی پہ لگاتے ہو
بتاؤ نا! یہ قطرہ قطرہ قطرہ، لمحہ لمحہ مرنا۔۔۔۔ وہ بھی
جہد رائیگاں میں۔۔۔۔ کیا ضروری ہے!
رضا کے نجس لاشے کو
انا کے چاہ سے باہر نکالو
خود کشی کر لو
نہیں۔۔۔۔ ممکن نہیں میں توڑ دوں باندھا ہوا
پیمان مٹی سے
مجھے ماں نے سفر پر بھیجنے سے بیشتر
سوگند دی تھی اپنی خوشبو کی
سپر انداز مت ہونا
سفر ہو گا تمہارے سامنے بے انت امکاں کی
مسافت کا
اسے مت بھولنا
صدیوں کی صدیاں صرف کیں جس نے
تمہیں تخلیق کرنے میں
لو! تعویذ تمنا باندھ دیتی ہوں تمہارے معجزہ آثار بازو پر
تمہیں مایوس ہونے سے بچائے گا
سریسہ۔۔۔۔ ساحرہ تخت جزیرہ کی
ہمیشہ سے یہی چاہے کہ بے تقدیر ہو جاؤں
مگر میں تو زمیں کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے
نکلا ہوا ہوں
اور ساتوں آسماں تم دیکھنا، بار دگر
میری گزر گاہوں میں آئیں گے
کرؤں گا انتطار اور انتظار اور انتظار اس کا
مجھے جو ہجر کے بے انت عرصے سے نکالے گا
یہی زادِ سفر لے کر
مجھے چلنے ہے صدیوں اور صدیوں کے تعاقب میں
یہ دنیا خوبصورت ہے
بدن کا پھول جیسے گیسوؤں کی سیج پر رکھا ہو
پہلی رات کی شرمیلی دلہن نے
ہوا کی ڈالیوں پر چہچہاتا لفظ خواہش کا
اترتا ہے تو کیسی لرزشیں سی جاگتی ہیں برگ پر
ٹھہری ہوئی شبنم کے قطرے میں
قیامت روح میں آئینہ در آئینہ اٹھتی ہے
یہ آتش بازیاں سی آب و باد و خاک کے
ہر جشن منظر میں
یہ دہلیزیں، یہ دروازے، یہ دالانوں کے اندر
رونقیں معصوم خوشیوں کی
یہ بچے۔۔۔۔ نقش ہوں جیسے معطر چاندنی کی
چتر کاری کے
وہ سپنے سے زیادہ خوبرو لڑکی
ڈبو کر اپنے شیتل پاؤں دن کی آبجو میں
منتظر بیٹھی ہے
ہر سہ پہر کو گھر لوٹنے والے کی چاہت میں
یہ جگنو سے خیالوں کے
نظر آتے ہوئے، چھپتے ہوئے شب کی خیاباں میں
یہ گیتوں کی اداسی
جیسے پیلی پتیوں کے فرش پر چلتی ہوئی
ویران سہ پہروں کی آہٹ ہو
یہ سوندھی بواس
جلتی گرمیوں میں پہلی بارش کی
عجب عشوہ گری ایام نے سیکھی ہے موسم کے تغیر سے
فضا کے بحر سے لہریں ہوا کے ساتھ لائیں
سیپیوں جیسی سنہری دھوپ
سرما کی زمینوں پر
کوئی کیسے سنبھالے دل کی دھڑکن کو
جنوں کی کامنی رت سات رنگے پیرہن میں
رقص کرتی ہے
سمے کی جوت سے چنگاریاں اڑ کر
لہو کو شوق کی درد آشنائی کا ہرا سندیسہ دیتی ہے
گریباں تابہ داماں چاک کر لیں
اور زنجیریں حدوں کی توڑ کر بے انت ہو جائیں
یہ نظارہ فزا پربت بلندی کے۔۔۔۔ یہ عکسوں سے بھری جھیلیں
یہ پتوں سے ملے پتے، جڑیں باہم بغل گیری کے عالم میں
یہاں زندہ ستونوں کے
کھلے قلعے کے اندر خواہش تخلیق کی شہزادی رہتی ہے
ہیولا سا
گزرتی شام کی محبوبیوں کا
سانولی افسردگی بالوں میں تارے اور
ویرانے میں اگتے موتیے کے پھول گوندھے
دن کے آنگن سے گزرتی ہے
تھکے اعصاب میں جینے کا امرت گھولتی راتیں
شبستاں میں دبی آواز پہلے بھید کا غنچہ چٹکنے کی
تنے لمحے کی نا دیدہ مسہری کے تلے
گھمسان سانسوں کا
یہ صبحیں۔۔۔۔ یہ زیارت گاہیں سورج کی
جہاں ہر روز ہر ذی روح جینے کی قسم کھائے
یہ دنیا خوبصورت ہے
مری مایوسیاں
شاید ثمر ہیں تجربوں کے حاصلوں کی نا بلندی کا
مری مایوسیاں
شاید صلہ ہیں میری ترکیب عناصر کا
جو کم آہنگ ہے اپنے توازن میں
مری مایوسیاں
شاید سزا ہوں میرے فعلوں کی
جو پر تو ہیں مرے اک جزو کا
انجام ہیں باہر کے اسباب و نتائج کا
جو خمیازہ ہیں شاید میرے سارے تجربے کے ایک امکاں کا
جنہیں امکان دیگر میں
رہے نسبت نہ کوئی میرے جوہر، میری نیت سے
یہ ایسا مرحلہ ہے
جب شعور آگے ہے شاید رشتۂ اشیاء انسانوں سے
زمام زور سے، مہمیز زر سے
انتظام شہر چلتا ہے
مگر یہ ابتدائے رہگذر ہے
بھوک، نا انصافیوں، بے علمیوں کے المیے کا سورما
خود اپنا دشمن راہ پسپائی میں
صدیوں سے
شکستوں پر شکستیں کھا چکا ہے
اپنی لڑائی میں
حدیں اپنے نظاموں کی ہوئی ہیں
منکشف اس پر
نئے امکاں کی آنکھوں پر
کھلا ہے دشتِ پر بر اس کے اندر کا
اُسے عقل و عقیدہ کے تصادم میں
ملا تو ہے شعور اپنے اندھیروں کا
مجھے تو زید خلوت سے اشاروں میں بتاتا ہے
کہ میں اب بھی پرانے بے بدل جوہر میں رہتا ہوں
ہمیشہ سے ہری مٹی کے
گدلائے ہوئے دریا میں۔۔۔۔ تنہا اور سب کے ساتھ
بہتا ہوں
اکیلا ہوں مگر ان خلقتوں کے ساتھ
وابستہ ہوں اور ازلوں کی وفا داری کے رشتے میں
یہ نا محسوس سے محسوس
نا دیدہ سے دیدہ تک اشارے کرنے والی زندگی کی
کثرتیں
میری ہی آنکھوں کی تصور گاہ میں
شکلیں بناتی ہیں
مگر کیسا تماشا ہے
یہ قدریں ڈھالنے والے
سدا ماخوذ کو ماخوذ کیوں برتر سمجھتے ہیں
میں اول کی اکائی ہوں۔۔۔۔ نمائندہ
ہمیشہ سے ہمیشہ تک رواں کثرت کی وحدت کا
یہ آمر۔۔۔۔ اپنی بت گاہوں کے پتھر سے
اتر کر شہ نشین خشت مرمر سے
مجھے دیکھیں
مرے پگھلے ہوئے دل میں
بہائے دلبراں رہتی ہے
میری اس خزاں نا آشنا دنیا کی وسعت میں
نہ باڑیں ہیں، نہ جنگلے ہیں
نہ کوئی رہزنی کرتا ہے محنت کے پسینے کی
نہ کوئی جنگجو قوت کے مینارے سے
نقارہ بجاتا ہے
یہ آمر۔۔۔۔ یہ مفاد زور آور کے نگہباں
مری آزارگی کو اپنے خیر و شر کی تجربہ گاہوں میں
اپنے دشمنوں پر آزماتے ہیں
زمانے اپنی قدر کا سکہ چلاتے ہیں
یہ سمجھوتے، اکٹھا مل کے رہنے اور بیچوں بیچ
دیواریں بنانے کے
ہماری اصل کی تردید کرتے ہیں
منافق کون ہے؟ سچ کی گواہی پر
اسے پہچاننا آسان ہے لیکن اسے تاراج کرنا
کار مشکل ہے
ہماری دنیا داری کیا اسے تسلیم کر لے گا
کہ مصنوعی قرابت داریوں رشتوں کو اس صدیاں پرانی قلعہ بندی کو گرا کر
وسعت دل کی زمینوں میں
پرے وسعت بخیلوں کی رسائی سے
نئی بستی بہ اندازِ دگر، بارِ دگر تعمیر کی جائے
یہی کہتے ہو
یہ تقدیر۔۔۔۔ ناممکن ہے امکاں کا
مگر دیکھو۔۔۔۔ نہیں اور ہاں سے آگے کی رسائی میں
یہی تقدیر۔۔۔۔ ممکن ہے کہ نا ممکن کا امکاں ہو
کسے ہے اختلاف اس سے
بہت کم حوصلہ خود غرضیوں نے کر دیا ہے
اہلِ دنیا کو
مگر امکان سے باہر نہیں اس حالت حالات کو
تبدیل کر دینا
ستارہ جو سفینہ ڈھونڈ سکتا ہے
وہ رستہ جو ابھی کھویا ہوا ہے
وقت کو ٹھہرانے والے نظریہ سازوں کے سائے میں
یہ آنکھیں اور وا کی جائیں ورنہ
اس بھنور کی ظلموں میں ڈوب جائیں گی
ارادہ بادباں کھولے الاؤ کا
اندھیرے کے عناصر کو لہو کی روشنی سے سر کیا جائے
یہ ممکن ہے کہ باہر اور اندر کے سفر میں
مستعد ہو کر
کسی دن ڈھونڈ لیں اس کنج ظلمت کو
جہاں پر جرم پلتے ہیں۔۔۔۔
وجود انکار کر دے ظاہر و باطن کی دوئی سے
یہ نا ممکن نہیں (بس فیصلے کی دیر ہے)
معدوم ہو جائے تصور پست و بالا کا
عقوبت گاہ و مقتل صفحۂ عالم سے مٹ جائیں
یہ نا ممکن نہیں ان منتشر رنگوں کو منشور محبت سے
گزاریں اور پھر شفاف کرنوں میں
نظر آئے کہ ساری سرحدیں، سب دوریاں،
تفریق کی سب اختراعیں۔۔۔۔ جھوٹ تھیں
تاریک ماضی کا
جہانِ نو دمیدہ میں
خوشی کی بارشیں اتنی ہوں، اتنی ہوں
کہ آنسو اور لہو کے داغ چھٹ جائیں
زمیں کے کہنہ دامن سے
نظر آئے کہ بستی بے ریاست ہو گئی ہے
اور تازہ عہد نامے سے
نکالا جا چکا ہے لفظ جور و جبر کی بے معنویت کا
نظر آئے کہ تسخیر زمین و آسماں کی بے کرانی میں
اجالے کا سماں ہے
حسن کے مرکز سے آزادی کے محور تک
یہ نا ممکن نہیں۔۔۔۔ (خلد زمیں کے خواب کی عشرت کہیں جس کو)
یہ نا ممکن نہیں
زور ارادہ سے اگر تاریخ کے جابر کا ہم
تختہ الٹ ڈالیں
یہ نا ممکن نہیں
فردا کے آئین مقدس میں لکھا جائے۔۔۔۔
بغاوت اختیار فرد ہے،
دنیا سے لے کر ماورا تک جبر کی تردید کرنا
آدمی کا حق اول ہے
سخاوت۔۔۔۔بے تمنائے صلہ جاں سے گزرنے کی
حدیث جاں فروشاں۔۔۔۔
جو رکھے، دائم کشادہ، دل کو دنیا سے
جو سچائی کے روشن راستے سے سایۂ اشیا کو سرکا دے
زمیں سیار۔۔۔۔ کیسی راگنی کی جھانجھریں
پاؤں میں ڈالے، گھومتی پھرتی ہے نیلی سیر گاہوں میں
تو پھر اس کے زمیں زادے
یہ ممکن ہے، کسی اگلی صدی میں، اس کا ہم جوہر بنا لیں
اپنی دنیا کو
زمام کار اپنے ہاتھ میں لے کر
پرانی دو رخہ تہذیب سے آزاد ہو جائیں
(آدھا سورج اور آدرش کا اکائی)
چلو چلتے ہیں شالیمار یا داتا کے گوشے میں
ذرا بیٹھیں
جنم کا حادثہ یہ ہے
کہ ہم تم نا مکاں نا وقت کے آزادگاں
کر لیں قناعت چائے نوشی پر
فضائے حبس خوردہ سے نکل کر بیٹھتے ہیں
آؤ اس کنج تصور میں
یہیں بیٹھیں ۔۔۔۔غنیمت ہیں یہ سہ پہریں
محبت کے سفر میں دوستی کی ساعتوں کے جھنڈ۔۔۔۔
نخلستان صحرا کے
کسی کے نام پر
جام جہان رفتگاں افروز ہاتھوں میں اٹھائے
ساعت موجود کو لا انتہا کر کے
اسے دیکھیں
وہ دریا جو کہیں پر آسماں سے جا کر ملتا تھا
کہ جس کی راہ میں آتا تھا
یہ میداں زمیں کا اور بازیچے زمانوں کے
ازل سے مضطرب آئینہ گر کی جستجو لے کر
رواں رہتا تھا کھلتے اور مرجھاتے ہوئے
وقتوں کے رسے میں
کسی کے عکس سے رنگین ہونے کی تمنا میں
کوئی گوری
نہ جانے کون سے اسرار کے بے نام گاؤں سے
ادھر آئی
بھری گاگر اٹھاتے اس نے اپنے عکس کی
محبوبیاں دیکھیں
ٹھٹھک کر ایک لمحے کے لیے
رکتے ہوئے شفاف پانی کی روانی میں
چلی تو ساتھ لے کر
جسم کے اک اک روئیں میں تھرتھری سی
نا رسائی کی
وہ نا آسودہ، اپنے صحن کی ویرانیوں میں
لوٹ کر، چھلکی ہوئی گاگر کی بوندوں سے
سنا ہے سرد مٹی پر چمکتی دھوپ میں
اپنی شبیہیں اور تمثالیں بناتی ہے
مگر اک آن میں دیکھی ہوئی محبوبیوں کا عکس
بے تکمیل رہتا ہے
اسی کے خواب کے دھندلائے آئینے کی شکلوں میں
ادھورا نقش ابھرے۔۔۔۔اس طرح ابھرے
کرن کی گرد سی اٹھتی ہے جیسے
دفعتاً
انگشتِ شبنم سے
اسی پیہم بگڑتے اور بنتے نقش کو
اس حسنِ خود بیں نے
تمناؤں کے ترکے سے ہمیشہ مضطرب، نا مطمئن رہنے کی
فطرت وہ ہے
مگر اس قرب میں بھی دور اس سے
ماور اس سے۔۔۔۔اسی کی جستجو میں ہے
وہی وہ ہے
مگر وہ پیاس کے صحرا میں اس سے اور آگے
اپنے تسکیں تمنا کے بیاباں میں
سرابوں سے گزر پھر سرابوں میں اترتا ہے
نہ جانے انت کیا ہے اس تعاقب کے تعاقب کا!
یہی شاید مقدر ہو
مگر تقدیر۔۔۔۔خود تقدیر نا ممکن کا امکاں ہے۔۔۔۔
چلو یونہی سہی
فکر مجرد۔۔۔۔ دور سے بھی دور کے ابہام سے ہٹ کر
ہم اپنے تجربوں، جذبوں، خیالوں اور فعلوں
اور درد مشترک کی بات کرتے ہیں
افق کے آخری جنگلے پہ جھک کر دیکھ لیں گے،
اس سے آگے اور کیا ہے
ہم ابھی تو وسط دنیا میں کھڑے ہیں
اور جو زادِ سفر باندھا ہوا ہے ہم نے
توشے میں
تمنا کے سوا کیا ہے!
مگر تم ہی بتاؤ نا
کوئی اس سے زیادہ اور کیا چاہے
محبت کے لیے تو حسن کافی ہے
ہمارا شوق وافر۔۔۔۔تتلیوں کے رنگ،
قرب یار کی مہکار، سیاروں کی موسیقی کا دلدادہ
حدوں کو، خواہ وہ کیسی ہی حدیں ہوں،
پھاند سکتا ہے
ہماری جستجو۔۔۔۔ لا انتہا کے راستے پہ اس جگہ
یا اس جگہ دلبر سے ملنے کی
اکارت تو نہیں جائے گی، بے معنی نہیں ہے
ہاں کہیں ایسا نہ ہو یہ راستہ ہی
مختصر ہو جائے لا فطرت کے ہاتھوں سے
کہیں ایسا نہ ہو یہ کل کی قبریں کھودنے والے
تلاش جسم زندہ میں
بنا دیں پھر سے زندانی ہمیں اہرا بے در کا
پرندہ لفظ کا
اسرار کی خاموش کشور سے
کسی محبوب کا باندھا ہوا پیغام لے کر
دوش عاشق پر اترتا ہے
چلو آگے چلیں
لا انتہا کے راستے پہ چلنے والوں کی رفاقت میں
ہمیں اپنی شکستوں سے خود آگاہی ملی ہے
اور جذبے نے بڑی آزادیوں کا
خواب دیکھا ہے
زمیں پر رہنے والے ایک ہیں۔۔۔۔
سب ایک ہیں
جن کے لیے شرط، ان مٹ دوستی کے نام پر
آؤ چلیں، آگے چلیں
زینہ بناتے جائیں ہم رستے کو رستے کا
ہم ان سے ہیں
انہی کے نام پر دولت لٹاتا ہے ہمارے درمیاں
قارون جذبوں کا
انہی کے واسطے دروازہ وا رکھا ہوا ہے
وقت نے اپنی سخاوت کا
رواں ہے کارواں۔۔۔۔جیسے بقا کا حرف
دستِ غیب لکھتا جا رہا ہو
کچھ سے کچھ ہوتی ہوئی اس لوح منظر پر
ہم اس انبوہ آہستہ سفر سے منقطع ہو کر
گنوا دیں
یہ سفر کی سمت، یہ پہچان پستی اور بلندی کی
ہم ان سے ہیں
ہمارا رشتۂ خوں، اول و آخر انہی سے ہے
جو آپس میں، ہمارے ساتھ
صدیوں کی ہری تعمیر کے آہنگ میں پیوست ہیں
جن سے جدا ہو کر
کوئی بارش میں کچی، اینٹ کی مانند بہہ جائے
ہری آبادیاں شہر درختاں کی
بقا دیتی ہیں راہ باد میں ہر برگ تنہا کو
ارادے کی عناں تھامے ہوئے
ان دھوپ چھاؤں کی زمینوں میں گروہِ عاشقاں نکلے
انوکھے با بچپن سے
مثبت و منفی سے آگے کی مہموں پر
غرور بے پناہی اور عجز خاکساری کے ہنر سے
کوزہ گر
بکھرے ہوؤں کو مجتمع کر کے
جمال افروز شکلوں میں
بناتا جائے ایسے نقص جو خواب بقا کے دیکھنے والوں نے
دیکھے ہیں
یہ گھر، یہ بستیاں جمع مسلسل سے
عجب کیا
اپنی کیفیت بدل ڈالیں
چلو آگے چلیں
اس رہگذر پر گیسو و ابرو کے سایوں میں
مہکتی دھوپ سی پھیلی ہوئی ہے
لوک گیتوں کی
بسنتی رنگ کی آواز جیسے آسمانوں سے اترتی ہے
جو اپنی کیفیت میں سرمئی ہو کر
اداسی کی مہک کے پنکھ پھیلائے ہوئے
آہستہ آہستہ
ہمیں تحلیل کر دیتی ہے اپنی لے کے امرت میں
امر لمحے کی ساری راحتیں، سارے الم
منسوب ہیں ہم سے
بنفشی نور کا دروازہ کھلتا ہے
ہمارے گرد دی بے انت وسعت کو،
ستاروں سے ستاروں تک
امر لمحہ
ملا دیتا ہے باطن سے
اک آنسو سا سرِ شاخ الم رکھ کر
صدا رو پوش ہوتی ہے، ابھرتی ہے
نشیبوں سے اترتی
سامنے آتی ہوئی، اوڑھنی جیسے ہوا میں
خوشبوؤں کے لہریے سے چھوڑ جاتی ہے
یہ صدیوں سے ہری آواز پیلے راستوں پہ چلنے والوں کی
یہ جیون کی ہری گھمبیرتا
جو انت سے بے انت کی پھلواریوں میں لہلہاتی ہے
ہمیں مایوس ہونے سے بچاتی ہے
ہری گھمبیرتا
جو اپنے ہونے کی وفائیں اپنی مٹی سے نباتی ہے
یہ ریلے ان گنت معلوم و نا معلوم تہذیبوں،
زمانوں کے کھنڈر سے چل کے آئے ہیں
زمین و آسماں کے سارے رستے
ان کے رستے ہیں
یہ برگ و کاہ راہوں کے، خزاؤں کے
یہ پیکر دھوپ چھاؤں کے
بڑے لمبے سفر پہ چل کے آئے ہیں
سفارت وقت کی اقلیم میں نا وقت کی کشور سے
لائے ہیں
چمک ان میں کسی خفتہ ستارے کی
ابھی لمبے سفر کی دھول میں آنکھوں سے اوجھل ہے
مگر ان کے لیے
نا دید کے مخفی اشارے میں
نوید بے پناہی ہے
زمیں کی بادشاہی ہے
کہ یہ پیکر کسی بے نام آور نے
جشن بیکراں کے درمیاں
بے انت شعلوں کی تپش کو منجمد کر کے
بنائے ہیں
ہماری دانشیں، جذبے، تمنائیں
اسی نخل بقا کی سبز ٹہنی پر چٹکتے ہیں
٭٭٭
تشکر: یاور ماجد
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں