صوفیانہ شاعری کا ایک نمونہ
سانسوں کے سلطان پیا
از قلم
زین شکیل
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
سُن سانسوں کے سلطان پیا
(غزلیں، نظمیں، گیت)
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
نظر محمد صاحب کے نام
*****************
غزلیں
*****************
مری آنکھ کو ساون راس پیا
تجھے سن سن دل میں ہوک اٹھے
ترا لہجہ بہت اداس پیا
ترے پیر کی خاک بنا ڈالوں
مرے تن پر جتنا ماس پیا
تُو ظاہر بھی، تُو باطن بھی
ترا ہر جانب احساس پیا
تری نگری کتنی دور سجن
مری جندڑی بہت اداس پیا
مجھے سارے درد قبول سجن
مجھے تیری ہستی راس پیا
میں چا کر تیری ازلوں سے
تُو افضل، خاص الخاص پیا
٭٭٭
مری جندڑی کا سلطان پیا
ترے بعد حرام ہے جگ سارا
مجھے قسم رسول، قرآن پیا
تری رہ تکتے ہیں نین مرے
کبھی دل کا بن مہمان پیا
مرا ہیرا، لؤلؤ، موتی تُو
یاقوت مرا، مرجان پیا
مرا تیور تُو، مرا کومل تُو
مرا بھیرو، شُد کلیان پیا
مرا نحنُ اقرب بس اک تُو
مرا کعبہ، تھل، مکران پیا
مرا زین بھی تُو، مرا مان بھی تُو
مرا ذکر، زہد، وجدان پیا
٭٭٭
گیا خون وچھوڑا چوس پیا
ہم شب بھر آہیں بھر بھر کے
تجھے کرتے ہیں محسوس پیا
وہ کیونکر جانیں دنیا کو
جو تجھ سے ہوں مانوس پیا
اک تیرے پریم کے جنگل میں
ہم ناچیں بن طاؤس پیا
اب دیکھ رہے ہیں چھپ چھپ کر
ہمیں دردوں کے جاسوس پیا
تجھ پھول کی چاہ میں پہن چکے
ہم کانٹوں کا ملبوس پیا
٭٭٭
ہم تجھے کر نہیں سکتے کبھی انکار پیا
تُو پکارے تو چلے آئیں سرِ دار پیا
کون اب تیرے سوا دل کو تسلی دے گا
میرے صاحب اے مرے مونس و غمخوار پیا
بیٹھ جاتا ہوں میں چپ چاپ گھنی چھاؤں میں
دیں صدا جب بھی تری یاد کے اشجار پیا
اب تو روتی ہیں فقط خون کے آنسو آنکھیں
کر دیا ایسا ترے ہجر نے بیمار پیا
اپنی ہر شام لگے شامِ غریباں جیسی
اپنا ہر عکس لگے ہم کو عزا دار پیا
پوچھنا اُن سے کبھی، کیا ہے پلٹنا خالی
تجھ کو مل جائیں اگر تیرے طلبگار پیا
ساری دنیا ہی بھلے ہم سے خفا ہو جائے
تم سدا رہنا ہمارے ہی طرفدار پیا
زین ہر شام، ترا ہجر مناتے دوران
ہو گیا آپ خفا خود سے کئی بار پیا
٭٭٭
سب لوگ یہاں بے درد پیا
ہم آنکھیں بھی نا کھول سکیں
یہاں ہر سُو غم کی گرد پیا
یہ آنگن تجھ بن سُونا ہے
تُو میرے دل کا فرد پیا
میں تیرے بن بے جان بہت
مری تجھ بن سانسیں سرد پیا
٭٭٭
مت ہم سے ہونا دُور پیا
ہم کرچی کرچی دل والے
ہم ہو گئے چکنا چُور پیا
اب کون انالحق ھُو بولے
اب کون بنے منصور پیا
جب نام تمہارا سُن لیویں
ہم ہو جاویں مسرور پیا
اک بار ہمیں اپنا کہہ کر
تم کر دو ناں مغرور، پیا
ہمیں ناگ ڈسیں بے چینی کے
تم جب سے ہو مہجور پیا
ہم آخر تیری چاہت میں
ہو بیٹھے ہیں محصور پیا
اس دل اندر تصویر تری
ترا چاروں جانب نور پیا
اک سچی پریت کے بندھن میں
ہمیں مر جانا منظور پیا ٭٭٭
اس کے اندر تھیں وہ سبحانی باتیں، سبحان اللہ!
سائیں کی کرتی تھی، دیوانی، باتیں، سبحان اللہ!
جب دونوں اک ہیں تو پھر یہ میں اور تُو کا جھگڑا کیا؟
پی وحدت کی مئے کر مستانی باتیں، سبحان اللہ!
جو تیرا، تُو اس کا، پھر وہ جو بولے، وہ تُو بولے
ساری سَچی، سُچی، لا فانی باتیں، سبحان اللہ!
وہ کہتا ہے میں منصوری، میں تبریزی، میں رومی
اس کے لب اور ایسی وجدانی باتیں! سبحان اللہ!
سائیں کی بس ایک نظر سے روح تلک دھل جاتی ہے
آنکھوں سے کرتا ہے روحانی باتیں، سبحان اللہ!
سبحان اللہ، ان کے آگے پتھر بھی بول اٹھتے ہیں!
کر اٹھی حیرت کی حیرانی، باتیں، سبحان اللہ!
ہائے صدقے، سوہنا، مٹھڑا سانول کرتا رہتا ہے
کیسی میٹھی، پیاری، یزدانی باتیں، سبحان اللہ!
٭٭٭
کس کو کس کس لمحے کھونا ہوتا ہے
چاہت میں یہ اکثر ہونا ہوتا ہے
تم نے مجھ سے ملنا کیونکر چھوڑ دیا
مجھ کو تم سے مل کر رونا ہوتا ہے
لوگ بھی کھل کر اس سے کھیلا کرتے ہیں
دل بھی جیسے ایک کھلونا ہوتا ہے
دھیرے دھیرے سب تارے سو جاتے ہیں
پھر آخر میں مجھ کو سونا ہوتا ہے
میرے بستر پر سونا آسان نہیں
اس پر دکھ کا ایک بچھونا ہوتا ہے
پیار پہ آخر بس اپنا کب چلتا ہے
ہو جاتا ہے جب یہ ہونا ہوتا ہے
٭٭٭
ٹھکرا دی تھی بستی ساری یاد کرو
جب تم تھے جذبوں پر طاری یاد کرو
کُل کتنے دکھ سکھ تھے تیرے اور مرے
جتنے بھی تھے باری باری یاد کرو
یاد نہیں کیا؟ اک راجہ کی چاہت میں
پاگل تھی اک راج کماری، یاد کرو
تجھ کو جاتا دیکھ رہے تھے پر چپ تھے
آنکھوں سے تھا دریا جاری یاد کرو
سہرا باندھے دکھ لینے آ جائے گا
کہتے تھے ناں؟ بات ہماری یاد کرو!
مجھ بھولے کو اب یہ آ کر کون کہے
جاں سے تھی میں تجھ کو پیاری، یاد کرو
٭٭٭
جو بھی ہو گا یارا دیکھا جائے گا
پہلے آنکھیں دریا دیکھا کرتی تھیں
اب کی بار کنارہ دیکھا جائے گا
سب سے پہلے میں اس کو جھٹلاؤں گا
جو بھی تجھ سے پیارا دیکھا جائے گا
دو روحوں کا اک ہو جانا لازم ہے
تب ہی منظر سارا دیکھا جائے گا
میری آنکھیں رو رو کر یہ کہتی ہیں
کون اب تجھ سے پیارا دیکھا جائے گا
خوشیاں آدھی آدھی دیکھی جائیں گی
دکھ سارے کا سارا دیکھا جائے گا
پہلے سے اب ان باتوں پر کیا لڑنا
جو جیتا جو ہارا دیکھا جائے گا
میں جب بھی سارا ٹوٹا تو پھر اس دن
میرا پارہ پارہ دیکھا جائے گا
٭٭٭
تیرے بنا تو اب ہم خوش خوش کیا رہتے
تیرے بنا تو ہے خود غرضی، خوش رہنا
چاہو جہاں رہو تم پردیسی ساجن
میری فقط ہے اتنی عرضی، خوش رہنا
تم بھی کرو ہو افسانوں جیسی باتیں
چھوڑو سبھی یہ باتیں فرضی، خوش رہنا
تم نے یہاں سے ہجرت کی بس ٹھانی ہے؟
اچھا چلو تمہاری مرضی، خوش رہنا
٭٭٭
پھٹے ہوئے لباس سے تو شخصیت نہ تولیے
خدا کا خوف کھائیے، نہ بد کسی کو بولیے
کوئی دلیل معتبر نہیں ہے عشق سامنے
محبتوں کی جھیل میں یوں زہر تو نہ گھولیے
اداس ہے نظر تو روح میں بھی اک فشار ہے
اجڑ چکے بہت ہمیں مزید تو نہ رولیے
ہے جسم و جاں کو ڈس رہا یہ سلسلہ سکوت کا
حضور آپ چپ کھڑے ہیں کیوں؟ لبوں کو کھولیے!
یہ کیا کہ رقصِ خامشی رہے ہمارے چار سُو
ذرا سماعتوں میں رَس محبتوں کے گھولیے
جو ڈس گئے، تو اب یہ اپنے آپ پر ملال ہے
کہ پالتے رہے تھے آستیں میں ہم سپولیے
دھیان اس کا اور ہی طرف تھا پھر بھی جانے کیوں
وہ مجھ سے کہہ رہی تھی، جی میں سن رہی ہوں بولیے
٭٭٭
تیرگی میں بھی روشنی ہے ناں
جو بھی ہے درد دائمی ہے ناں
اس قدر بے تکلفی، توبہ
سچ بتاؤ یہ دل لگی ہے ناں؟
میں جسے یاد آتا رہتا ہوں
وہ مرا دوست مطلبی ہے ناں!
اس نے بدلی ہوئی ہیں آنکھیں بھی
اس کے لہجے میں برہمی ہے ناں!
تُو نے بولا ہے، ہاں بچھڑنا ہے
’ہاں‘ کا مطلب، ہنسی خوشی، ہے ناں؟
میری آنکھوں میں جو بھی ہے چھوڑو
میرے سینے میں بے کلی ہے ناں
تجھ سے لے کر تجھی تلک ہے بس
میری اتنی سی زندگی ہے ناں!
تو کہو آج کیا ارادہ ہے؟
آج کی شام سرمئی ہے ناں!
تُو مری تیسری محبت ہے
پہلی تُو، تُو ہی دوسری ہے ناں!
خامشی! کیوں تجھے گنواؤں میں؟
تو مجھے وجد میں ملی ہے ناں!
شاعری، درد، بے بہا چاہت
اب مرے پاس بس یہی ہے ناں!
اب ترے اور مرے بچھڑنے کا
فیصلہ بھی تو باہمی ہے ناں!
اب مجھے یاد تو نہ آؤ گے؟
یعنی یہ ہچکی آخری ہے ناں؟؟؟
٭٭٭
دل اپنا رنجور ہوا ہے، حد ہے ناں
تُو بھی ہم سے دور ہوا ہے، حد ہے ناں
تک تک راہیں ہار گئی ہے اک داسی
اک راجہ مہجور ہوا ہے، حد ہے ناں
اس نے چاہے جھوٹ ہی بولا ہو مجھ سے
دل پھر بھی مغرور ہوا ہے، حد ہے ناں
مدت سے جو درد جگر میں مخفی تھا
مانگ کا اب سیندور ہوا ہے، حد ہے ناں
ہر جانب ہے صرف انا الحق کی آواز
ہر ذرہ منصور ہوا ہے، حد ہے ناں
دل بھٹکا تھا ایک تجلّی کی خاطر
اور اب جل کے طور ہوا ہے، حد ہے ناں
اب تو اپنی نیند بھی زخمی زخمی ہے
ہر سپنا معذور ہوا ہے، حد ہے ناں
٭٭٭
ہر طرف ان کے جلووں کی برسات ہے، واہ کیا بات ہے!
آج چھٹنے کو پھر ابرِ ظلمات ہے، واہ کیا بات ہے!
حالتِ وجد میں پھر مری ذات ہے، واہ کیا بات ہے!
ان کے ہونٹوں پہ بس اک مری بات ہے، واہ کیا بات ہے!
آج پھر خواب میں ان کے ملنے کا مجھ کو اشارہ ملا
برگزیدہ بہت آج کی رات ہے، واہ کیا بات ہے!
گر مزاجِ محبت میں تلخی کا عنصر ذرا بھی نہ ہو
اہلِ دل کے لیے یہ بھی سوغات ہے، واہ کیا بات ہے!
بال شانوں پہ بکھرے ہوئے، آنکھ کجلائی، اُف کیا بنے!
حُسن بیٹھا لگا کر نئی گھات ہے، واہ کیا بات ہے!
دیر تک میری نظمیں پڑھیں اس نے پھر جھوم کر یہ کہا
ہائے کیا بات ہے! یار کیا بات ہے! واہ کیا بات ہے!
٭٭٭
چپ ہو جا مت ہُوک ری کوئل
لوگ کریں ہم معصوموں سے
کتنا سخت سلوک ری کوئل
اس کی خاطر کر چھوڑی ہے
دنیا بھی متروک ری کوئل
زلفیں ٹھنڈی چھاؤں جیسی
اُس کے نین ملوک ری کوئل
تَک تَک اُس کو مٹتی ناہیں
ان نینن کی بھُوک ری کوئل
٭٭٭
منتظر ہیں یہ گھر کی دیواریں
دکھ سے آرام ملنے آیا ہے
ہو گا اب کچھ تو میل کا مقصد
عشق میں جیت ہو نہیں سکتی
ہار جانا ہے کھیل کا مقصد
٭٭٭
ہم نے دل سے نہیں بھُلانی، ہنسی
اب وہ ہر بات پر نہیں ہنستا
اب وہ ہنستا ہے بس گیانی ہنسی
لاکھ چاہا نہ آ سکی لب پر
آج تو بات بھی نہ مانی، ہنسی
وہ بھی کرتا رہا نئی باتیں
ہم بھی ہنستے رہے پرانی ہنسی
لب پہ مسکان اور نم آنکھیں
کیسے عالم میں وہ دِوانی ہنسی
اس نے سختی سے کہہ دیا مجھ کو
اب لبوں سے نہیں اٹھانی ہنسی
تم ہنسی ہو تو یوں لگا مجھ کو
کوئی راجہ کی آج رانی ہنسی
حادثہ ہو گیا تھا آخر میں
روئے کردار تو کہانی ہنسی
میں لڑکپن سے اب تلک رویا
مجھ پہ کیوں آج یہ جوانی، ہنسی؟
زین جب تک نہیں ہنسے گا وہ
تیرے لب پر نہیں ہے آنی ہنسی
٭٭٭
کہ خود کو صدقے میں وار جائیں
سو اب اناؤں کو دفن کر کے
کسی کے آگے تو ہار جائیں
جو زندگانی کے پل بچے ہیں
وہ ہنس ہنسا کر گزار جائیں
نہ ایسے روٹھو، خیال کر لو
ہمیں یہ لمحے نہ مار جائیں
اُداس ہو کر بھی کیا ملا ہے
’’چلو اُداسی کے پار جائیں‘‘
٭٭٭
پیار بڑا قاتل ہوتا ہے
کوئی تو دُکھ سے بھی پوچھے
دل میں کیوں داخل ہوتا ہے؟
دل کو توڑ کے جانے والے
تم کو کیا حاصل ہوتا ہے؟
عشق نہ صورت، ذاتیں دیکھے
کون اِس کے قابِل ہوتا ہے!
خاموشی کو بول رہا ہوں
چُپ رہنا مشکل ہوتا ہے
اُس کی پریت ہے ایسی جیسے
اک ماہِ کامِل ہوتا ہے
وہ کتنی سُندر ہوتی ہے
جس کے ہونٹ پہ تِل ہوتا ہے
پگلی، کملی، جھلّی کُڑیے
دل تو آخر دل ہوتا ہے
٭٭٭
*****************
نظمیں
*****************
سُن سانسوں کے سلطان پیا
سُن سانسوں کے سلطان پیا
ترے ہاتھ میں میری جان پیا
میں تیرے بن ویران پیا
تو میرا کُل جہان پیا
مری ہستی، مان، سمان بھی تو
مرا زہد، ذکر، وجدان بھی تو
مرا، کعبہ، تھل، مکران بھی تو
میرے سپنوں کا سلطان بھی تو
کبھی تیر ہوئی، تلوار ہوئی
ترے ہجر میں آ بیمار ہوئی
کب میں تیری سردار ہوئی
میں ضبط کی چیخ پکار ہوئی
تجھے لوں لوں یار بلائے وے
مری جان وچھوڑا کھائے وے
ترا ہجر بڑا بے درد سجن
مری جان پہ بن بن آئے وے
مری ساری سکھیاں روٹھ گئیں
مری رو رو اکھیاں پھوٹ گئیں
تجھے ڈھونڈ تھکی نگری نگری
اب ساری آسیں ٹوٹ گئیں
کبھی میری عرضی مان پیا
میں چپ، گم صم، سنسان پیا
میں ازلوں سے نادان پیا
تو میرا کُل جہاں پیا
٭٭٭
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
مرے پیروں میں زنجیر پِیا
اب نین بہاویں نیر پِیا
اے شاہ مرے اک بار تو آ
تو وارث، میں جاگیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
بے نام ہوئی، گم نام ہوئی
کیوں چاہت کا انجام ہوئی
مرا مان رہے، مجھے نام ملے
اک بار کرو تحریر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
کب زلف کے گنجل سلجھیں گے
کب نیناں تم سے الجھیں گے
کب تم ساون میں آؤ گے
کب بدلے گی تقدیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
سب تیر جگر کے پار گئے
مجھے سیدے کھیڑے مار گئے
آ رانجھے آ کر تھام مجھے
تری گھائل ہو گئی ہیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
میں جل جل ہجر میں راکھ ہوئی
میں کندن ہو کر خاک ہوئی
اب درشن دو، آزاد کرو
اب معاف کرو تقصیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پیا
کب زین اداسی بولے گی
کب بھید تمہارا کھولے گی
کب دیپ بجھیں ان آنکھوں کے
تم مت کرنا تاخیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
٭٭٭
یہ کیسی تیری پریت پیا
یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا
ترے رسم رواج عجیب بہت
ہوا در در دیکھ نصیب بہت
ترا ہجر جو مجھ میں آن بسا
ترے ہو گئی یار! قریب بہت
مجھے ایسے لگ گئے روگ بُرے
میں جان گئی سب جوگ بُرے
آ سانول نگری پار چلیں
اس نگری کے سب لوگ بُرے
تجھے دیکھ لیا جب خواب اندر
میں آن پھنسی گرداب اندر
بن پگلی، جھلَی، دیوانی
تجھے ڈھونڈوں یار سراب اندر
ترے جب سے ہو گئے نین جدا
مرے دل سے ہو گیا چین جدا
کیا ایک بدن میں دو روحیں
ہم جسموں کے مابین جدا
یہ ہے ازلوں سے رِیت پیا
کب مل پائے من میت پیا
اب لوٹ آؤ سُونے مَن میں
کہیں وقت نہ جائے بیت پیا
یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا
٭٭٭
تُو ازلوں سے مخدوم پیا
تُو حاکم میں محکوم پیا
تُو ازلوں سے مخدوم پیا
تجھے مان کہوں، ایمان کہوں
ترا اونچا ہے اَستھان، کہوں
تجھے دم دم عالی شان کہوں
تری باتوں کو قرآن کہوں
انصاف کہوں، میزان کہوں
یاقوت کہوں، مرجان کہوں
یٰسین کہوں، رحمٰن کہوں
سبحان کہوں، یزدان کہوں
تجھے وجد کہوں، وجدان کہوں
تجھے سب آکھوں، سلطان کہوں
تجھے سوہنا سانول ڈھول سائیں
تجھے مٹھڑا صاحب جان کہوں
ترا ذکر سجا کر ہونٹوں پر
میں لوں اپنے لب چُوم پیا
تُو ازلوں سے مخدوم پیا
سُکھ چین بھی تُو آرام بھی تُو
دن رات بھی صبح و شام بھی تُو
رحمٰن بھی تُو اور رام بھی تُو
ہر سجدہ، وِرد، قیام بھی تُو
خود میخانہ، خود جام بھی تُو
تُو قائم اور مُدام بھی تُو
جذبات میں اک کہرام بھی تُو
دیوانوں کا ہر کام بھی تُو
ہر ذات بھی تُو، ہر نام بھی تُو
ہر منزل تُو، ہر گام بھی تُو
اک تجھ بن ہر شئے فانی ہے
ہر پہل بھی تُو، انجام بھی تُو
تری ذات اُجالا ڈھول سائیں
تری جگ کے اندر دھوم پیا
تُو ازلوں سے مخدوم پیا
پُر درد بھی میں، بیمار بھی میں
اک دکھڑوں کا انبار بھی میں
بے جان بھی میں، بے کار بھی میں
ہر کھیل کی سائیاں ہار بھی میں
میں پاپی، اوگنہار بھی میں
کروں ایک خطا ہر بار بھی میں
اک جرم بھرا کُہسار بھی میں
اور سولی، تختہ دار بھی میں
ہوں دکھ کی چیخ پُکار بھی میں
اس دنیا سے بیزار بھی میں
کرے تجھ بن کون مسیحائی؟
تجھ بن سائیاں لاچار بھی میں
تری ایک نظر اٹھ جانے سے
مرا جاگ اٹھے مقسوم پیا
تُو ازلوں سے مخدوم پیا
٭٭٭
’تُو میرا سانول ڈھول پیا‘
تری یاد میں کاٹوں رین پیا
گئی نیند، گیا سکھ چین پیا
تری ایک جھلک تک لینے کو
مرے ترس گئے دو نین پیا
میں خواب نگر کے پار گئی
اک بار نہیں ہر بار گئی
میں رو رو جیون ہار گئی
مجھے تیری جدائی مار گئی
ہر سمت خموشی طاری ہے
اور ہجر بھی ہر سو جاری ہے
ہر رات ترے بن بھاری ہے
اب جندڑی تجھ پر واری ہے
مجھے درد ملے انمول پیا
میں ہستی بیٹھی رول پیا
کبھی میرے دکھ سکھ پھول پیا
’تُو میرا سانول ڈھول پیا‘
٭٭٭
تُو میرا سانول ڈھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
ذرا دھیرے سے لب کھول پیا
یوں مول نہ کر مت تول پیا
مِری جندڑی کو مت رول پیا
بس کانوں میں رَس گھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
کبھی آنکھیں ساون بھادوں ہیں
کبھی سانسوں میں ویرانی ہے
’’میں لوٹ کہ پھر نہیں آؤں گا‘‘
تو ایسے تو مت بول پِیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
ہمیں پیار کرو، بیمار کرو
جو جی میں آئے یار کرو
احسان یہ اب کی بار کرو
تبدیل کرو ماحول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
کوئی سچ نہ تمہارا مانے گا
اپنا نہ کوئی پہچانے گا
کوئی تولے گا کوئی چھانے گا
تو جو جی چاہے بول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
کیوں آس لگاتے رہتے ہو
کیوں پیاس جگاتے رہتے ہو
کبھی ہم بھی دیکھیں روپ تِرا
کبھی بند دروازے کھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
زینؔ اُس کی باتیں کرتے ہو
کیوں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
نہ جیتے ہو نہ مرتے ہو
مت بند اشکوں کے کھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
٭٭٭
سائیاں تیرا روگ محبت
سائیاں تیرا روگ محبت
سائیاں تیرا جوگ محبت
سائیاں میرے دریا سوکھے
سائیاں لہجے پھیکے روکھے
سائیاں کر لے من کی باتیں
سائیاں بیت نہ جائیں راتیں
سائیاں دیکھ میں ایک اِکّلی
سائیاں تیری کملی، جھلّی
سائیاں خواب پرو دیتی ہیں
سائیاں آنکھیں رو دیتی ہیں
سائیاں اپنی بستی لے چل
سائیاں میری مستی لے چل
سائیاں اپنی کرپا کر دے
سائیاں نین کٹورے بھر دے
سائیاں اپنی دید کرا دے
سائیاں مجھ کو عید کرا دے
سائیاں تجھ پر واری ہو گئی
میں سارے کی ساری ہو گئی
سائیاں آج تمہاری ہو گئی
میں بھی راج کماری ہو گئی
٭٭٭
اللہ جان
پھرتے ہیں دیوانے لے کر لب پر یہی سوال
اللہ جان! محبت بھیجیں! اس نگری میں کال
اللہ جان! یہ کیسی نگری، ہر سُو درد ہوائیں
رگ رگ اندر شور مچاویں، دل کا درد بڑھائیں
اللہ جان! دریدہ سوچیں لینے دیں نہ چین
بے چینی کی میخیں گڑ گئیں سانسوں کے مابین
اللہ جان! ہمارا پریتم مدت سے مہجور
اکھیاں ترسیں دیکھن کو پر سانول ہم سے دور
اللہ جان! مصیبت بھاری جندڑی ہے کمزور
اک لاوا بے چینی کا، اک کرے اداسی شور
اللہ جان! زمانے گزرے آنکھیں بھی بے نور
اکھیوں میں ہے آبِ نداست ہم جو آپ سے دور
اللہ جان! یہاں ہر جانب جھوٹوں کے ہیں جال
سُچے، صادق لب تھے جن پر چُپ کا پڑ گیا تال
اللہ جان! ہوئے ہم عاجز اکھیاں زار و زار
آپ کے بن ہم بے حالوں کی سنے گا کون پکار
اللہ جان! جہانوں اندر آپ کا اونچا نام
اب اپنے محبوبؐ کے صدقے بھیجیں سکھ پیغام
روح تلک میں پھیلی نفرت، جندڑی ہوئی وبال
اللہ جان! محبت بھیجیں! اس نگری میں کال۔۔ ۔
٭٭٭
کر نینوں سے بات سجن
بیت چلی ہے رات سجن
دے ہاتھوں میں ہاتھ سجن
تو ہی ہار سنگھار مرا
تو ہی میری ذات سجن
کر نینوں سے بات سجن
پریم نگر میں جا بیٹھی
اپنا آپ بھلا بیٹھی
تجھ سے اکھیاں پھیروں میں
کیا میری اوقات سجن
کر نینوں سے بات سجن
خواب نگر میں کھوئی تھی
رات ترے بن روئی تھی
درد بھری ان آنکھوں سے
جاری ہے برسات سجن
کر نینوں سے بات سجن
مار گئی ہے تیری چپ
ایسی گھور اندھیری چپ
کیا تیری اور میری چپ
خاموشی کو مات سجن
کر نینوں سے بات سجن
جیون ایک اداسی ہے
روح ترے بن پیاسی ہے
آنکھیں بنجر بنجر ہیں
سُونی سُونی رات سجن
کر نینوں سے بات سجن
زین محبت بیت گئی
آج اداسی جیت گئی
تیرے بعد بھی رہتی ہے
ہر سو تیری ذات سجن
کر نینوں سے بات سجن
٭٭٭
لال گلابی گال سجن کے
حسن مجسم سبحان اللہ
اور تکلم ماشاء اللہ
کالی آنکھیں جادو ٹونا
لمبی زلفیں، جال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے
پلکیں ہیں پتوار سجن کی
زلفیں بھی خمدار سجن کی
پل میں کیسے ہو جاتے ہیں
تیور بھی بے حال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے
اتری رنگت آگ لگائے
شب بھر جاگیں نیند نہ آئے
آخر ہم کو لے ڈوبیں گے
سائیاں رنج ملال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے
آن پڑی مجبوری ہیرے
آ گئی بیرن دوری ہیرے
تیرے لب پر رانجھن رانجھن
دل میں ہیں بونچال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے
٭٭٭
مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرے آنسو بیچ قطار
مری نیندیں بہہ گئیں آنکھ سے
مرے سپنے زار و زار
مجھے غم کے تھل سب کھا گئے
مجھے چاٹے دکھ کی ریت
مری روح بھی ایسی بانجھ ہوئی
مرے من کے اجڑے کھیت
مرے دن کے سوگ عجیب سے
مری رات کے اپنے بین
میں رو رو برہا کاٹتی
مرے نین نہ پائیں چین
مری پوجا مل گئی خاک میں
مری عرضی نا منظور
پھر کیونکر جل جل راکھ ہوں
نا موسیٰ نا میں طور
مجھے ماریں پھول گلاب کے
مرے نیناں چبھ گئے خار
مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرے آنسو بیچ قطار
اک سچ کی رنگت اڑ گئی
جب بیٹھا بن بن جھوٹ
کیا پڑھنت پڑھا اس ہجر نے
ہر مشکل ہوئی اٹوٹ
اک سینے میں اک سانس تھی
اب سانس میں ہے ہلچل
کوئی آ کر درد کو بو گیا
مرے چل گیا سینے ہَل
اک درد ہوا کی اوٹ میں
مرے آ کر چومے گال
مرا خون وچھوڑا پی گیا
مری پھر بھی آنکھیں لال
مرا پریتم جھولی ڈال وے
ترے آن پڑی دربار
مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرے آنسو بیچ قطار
٭٭٭
سائیں
حق سائیں!
برحق سائیں!
ہم بد رنگے،
عاجز،
جھوٹے،
تم
سچ سائیں!
٭٭٭
سائیاں وے
سائیاں وے
یہ کالی راتیں
کیوں ڈسنے پہ آ جاتی ہیں؟
سائیاں وے
اب پگڈنڈی پر
تنہا چلنا کیوں پڑتا ہے؟
سائیاں وے
کچھ سپنے کیونکر
نیناں زخمی کر دیتے ہیں؟
سائیاں وے
کالے بختوں میں
کیا کچھ اچھا بھی لکھا ہے؟
سائیاں وے
یہ خون جگر میں
پی کر کیوں سیراب نہیں ہوں؟
سائیاں وے
اک بار بتا دے
کیا وہ لوٹ کے آ جائے گا؟
سائیاں وے
دل اجڑی نگری
کیا آباد نہیں ہو سکتی؟
سائیاں وے
تو چپ چپ کیوں ہے؟
کیوں تو مجھ سے روٹھ گیا ہے؟
سائیاں وے
اے بھاگوں والے
کیوں میں اتنا ٹوٹ گیا ہوں؟؟؟؟
سائیاں وے
لب کھول خدارا
کیوں دل اتنا ٹوٹ گیا ہے؟؟؟؟
٭٭٭
سائیں ہمیں ڈال امن کی خیر
وے سائیں ہم لوگ محبت والے،
سائیں ہمیں درد ملے انمول
وے سائیں اب عمریں بیت نہ جاویں،
سائیں کہیں لے کر عشق کا جوگ
وے سائیں ہمیں کالی رات کا صدمہ،
سائیں ہمیں آئے نہ اک پل چین
وے سائیں اب نیناں رو رو ہارے،
سائیں کرے روز اداسی بین
وے سائیں کیوں سُونا دل کا آنگن،
سائیں کسی روز قدم رکھ، آ
وے سائیں ہم اجڑے اجڑے موسم،
سائیں کبھی آ کر ہمیں بسا۔۔
وے کر کبھی سکھ کی بھی برسات،
وے سائیاں کبھی بن کر بادل آ۔۔ ۔
کبھی دل کا شہر بسا،
وے سائیں ہمیں آئے نہ اک پل چین۔۔ ۔
٭٭٭
بول ری کوئل
میٹھی بولی بول ری کوئل
میٹھی بولی بول
کھو گئی پریم کے سب باغوں سے
اک پریتم کی باس
ہجر نہ آوے راس
رگ رگ اندر شور
پیا ملن کی آس
آ ری کوئل چُوری ڈالوں
آج اپنے پَر تول
نام پیا کا بول
سازِ محبت چھیڑ
رَس کانوں میں گھول
آج تو کھل کر بول ری کوئل
آج تو کھل کر بول
میٹھی بولی بول ری کوئل
میٹھی بولی بول
٭٭٭
سن دردا
اے دردا
سن پاگل دردا
نین مرے مت چھیڑ
یہ روئیں زار و زار
سن دردا
مرے گھائل دردا
روح سے گلے نہ مل
مان جنوں کی بات
چل دردا
چل یہاں سے چل
یہاں چہروں پر سو بھیس
بے دردوں کا دیس
چل دردا
چل وہاں چلیں
جہاں گہری رات سی زلف
چندا جیسے مکھ
آ دردا
ترے بال سنواروں
جیون بھی دوں وار
کروں میں اتنا پیار
چل دردا
چل وہاں چلیں
جہاں نیناں پائیں سکھ
بانٹوں تیرا دکھ
اے دردا
مرے اچھے دردا
رکھ لے ہمارا مان
بات ہماری مان
٭٭٭
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
کون لگاوے پار پریتم بولے نہ
من میں یار کی آس کہ جیون روتا ہے
ہجر نہ آوے راس کہ جیون روتا ہے
آ جا میرے پاس کہ جیون روتا ہے
بکھر گیا سنگھار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
ہر لمحہ بے چین جدائی مارے وے
کب اکھیوں کو چین جدائی مارے وے
کیسے بیتے رین جدائی مارے وے
آن ملے آزار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
جان پہ بن بن آئے وچھوڑا عمروں کا
من مندر سلگائے وچھوڑا عمروں کا
روح تلک ڈس جائے وچھوڑا عمروں کا
ٹوٹے دل کے تار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
سوکھے من کے رُکھ پیا بے چین ہوئے
دِکھے نہ پی کا مکھ پیا بے چین ہوئے
کہیں ملے نہ سکھ پیا بے چین ہوئے
زین گئے ہم ہار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
٭٭٭
جس دن کے ساجن بچھڑے ہیں
جس دن کے تم گئے ہو
اپنے ہی آپ کا میں
انکار ہو گیا ہوں
اک ضبط ہی کا چہرہ
یوں دیکھ کر مسلسل
بیزار ہو گیا ہوں
آ جا مرے مسیحا
مدت گزر گئی ہے
بے درد ہے جدائی
بے ربط ہے اداسی
بیمار ہو گیا ہوں
جس دن کے تم گئے ہو
٭٭٭
سن بارش میرا حال کبھی
سن بارش میرا حال کبھی
مرے نیناں ہو گئے ابر
سن بادل کے دربار کبھی
مرے اندر ہے برسات
سن بارش بارش دل والے
مری جل تھل جل تھل ذات
سن بارش کی بے چین نمی
مرے نیناں ہو گئے دشت
سن بارش کی ناراض ہوا
کبھی میرے اندر چل
سن بارش میں مہجور پِیا
اک بار دِکھا دے مکھ
سن بارش کے اوتار، مجھے
اک بار ملا سانول
٭٭٭
مار نہ مجھ کو مائے
مار نہ مجھ کو مائے
میری رانجھن کے سنگ پریت
بول نہ مندے بول
مِرا ہر سکھ رانجھن کے ساتھ
پھیلی میرے نینوں میں
بن رانجھن کالی رات
رانجھن کوسوں دور
یہ نیناں روئیں زار قطار
مار نہ مجھ کو مائے
میری آنکھوں میں برسات
٭٭٭
چندا جی
کچھ تو بولو چندا جی
تم کیوں اتنے چپ چاپ
کالی رات میں تنہا بیٹھے
تاروں سے کیا بیر؟
اتری اتری صورت بھی
اور آنکھیں بہت اُداس
تڑپے تیرے ہجر میں کیونکر
پاگل ایک چکور
تم نے اس سے جانے رکھا
کیسا میل ملاپ
کچھ تو بولو چندا جی
تم کیوں اتنے چپ چاپ
٭٭٭
پریتم ہم سے دور نی مائے
نی مائے ہم روگوں والے
دل ہاتھوں مجبور
یار کی دید کی آس میں جل جل
بن بیٹھے ہیں طور
راہ دِکھے نہ پریم نگر کی
سب آنکھیں بے نور
جتنا پاس ہوا ہے پریتم
ہم سے اتنا دور
ایک نگاہ کرے پریتم کی
درد سبھی کافور
لیکن پریتم دور نی مائے
پریتم ہم سے دور
نی مائے ہم روگوں والے
دل ہاتھوں مجبور
٭٭٭
نینوں پر کیا زور؟
نینوں کی تو بات ہی چھوڑو
نینوں پر کیا زور؟
جس دم نیناں لڑ جاویں
پھر کچھ نا دیکھیں اور
سب کچھ گھائل کر ڈالیں یہ
دل کر دیں کمزور
نینوں پر کیا زور پیا ان
نینوں پر کیا زور؟؟
٭٭٭
خط لکھنے بیچاری بیٹھی
دکھ دردوں کی ماری بیٹھی
جگ سے ہو کر عاری بیٹھی
ایک سکھی جو اپنے پِیا کو
خط لکھنے بیچاری بیٹھی
خط جو پیا کے نام ہے لکھا
اس میں بس اتنا لکھا ہے
میں سارے کی ساری بیٹھی
اپنے آپ سے ہاری بیٹھی
کب سے رستہ دیکھ رہی ہوں
سانس بھی تم پر واری بیٹھی
ہو کر صرف تمہاری بیٹھی
صرف تمہی کو سوچ رہی ہوں
میں نے اپنے خوابوں سے بھی
لے کر اپنی آنکھوں تک کو
بس اِک سمت لگا رکھا ہے
سب کچھ تم پر وار چلی ہوں
اپنا جیون ہار چلی ہوں
اور اک آس میں جیتے جیتے
سارے جذبے مار چلی ہوں
مت آنے میں دیر لگانا
بس جلدی سے گھر لوٹ آنا
اور بھی کتنا کچھ لکھا تھا
تقریباً سب کچھ لکھا تھا
سارے آنسو رو ڈالے تھے
سارے درد پِرو ڈالے تھے
لیکن پگلی جانے کیونکر
اپنے پیا کا، بس اُس خط میں
نام ہی لکھنا بھول گئی تھی!
٭٭٭
دکھ آسان ہوا
دکھ آسان ہوا من موہن
دکھ آسان ہوا۔۔ ۔
سُکھ کی پِیڑ سہی نہ جاوے
ہر ہر سانس وبال
خون رِسے زخمی خوابوں سے
رو رو اکھیاں لال
جیون سُکھ کا راگ الاپے
بے سُر اور بے تال
اک مسکان کے بدلے پاویں
سو سو رنج ملال
اِس پر تیری یادیں ہم سے
سو سو کریں سوال
چاہ، پریم کے ہر سودے میں بھی نقصان ہوا من موہن!
دکھ آسان ہوا ہم کو
اب دکھ آسان ہوا۔۔
٭٭٭
ہم سے روٹھ گیا
سانول بھولا بھالا مٹھڑا
ہم سے روٹھ گیا
پریت اَوَلڑی ظلم نہ چھوڑے
من میں آگ لگائے
ہر لمحہ تڑپائے بیرن سانسوں کو سلگائے
جیون روتا جائے۔۔ ۔۔
بھول گئی معصوم سی کوئل کومل تِیوَر سُر
رو رو بین کرے اور دیکھے
اُجڑا اُجڑا گھر
کون سِتم زاد آیا
گھر کوئل کا لوٹ گیا
سانول بھولا بھالا مٹھڑا
ہم سے روٹھ گیا
٭٭٭
تجھے عید مبارک ڈھول سجن
ڈھول سجن! مت بول سجن،
یہ مندے مندے بول سجن
صدیوں سے روایت ہے یارا
قربان تو کر اب ’میں‘ یارا
بس رنگ بکھیر محبتاں کے
اے سوہنے مٹھڑے یار سجن!
آ لگ سینے اک بار ماہی
سب مِٹ جاویں آزار ماہی
یہ پریم کی گانٹھیں کھول سجن
مت ایسے جندڑی رول سجن
آ چھوڑ کے آج اور کل، بیٹھیں
آ مل کر پل دو پل بیٹھیں
ہم اک دوجے کی دید کریں
ہم عید کریں ہم عید کریں
کر گل باتاں، انمول سجن
تو آج لبوں کو کھول سجن
اب عید مبارک بول سجن
تجھے عید مبارک ڈھول سجن
تجھے عید مبارک ڈھول سجن
٭٭٭
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/blog-page_26.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں