دعوت فکر دینے والی ایک اور کتاب
فقہ کیا ہے؟
از قلم
ابو حیان سعید
(ادارہ کا مصنف کی آراء سے اتفاق کرنا ضروری نہیں)
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فقہ کیا ہے؟
ابو حیان سعید
(ادارہ کا مصنف کی آراء سے اتفاق کرنا ضروری نہیں)
غیر معمولی ذہانت اور اپنے دور کے حالات کے سماجی اور سائنسی احساس کا جامع علم ایک فقیہ کے لیے ضروری ہے۔
میری سمجھ میں عربی لفظ ’فقہ‘ تفہیم کا ایک سمندر ہے۔ ’فقہ‘ کی اصطلاح کا مطلب ہے ’سمجھنا‘، ’سمجھانا‘ وغیرہ۔ یہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیس مرتبہ چھ مختلف تغیرات میں آتا ہے۔
فقہ کے لفظی معنی گہری فہم و فراست کے ہیں- قرآن پاک میں ہے:
قالوا یا شعیب لانفقہ کثیراً مماتقول
(ھود: ۹۱)
’’قوم شعیب نے کہا اے شعیب! آپ کی بیشتر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘
تفقہ، فقہ کی تحصیل کو کہتے ہیں اور تفقہ سے مراد دین کی گہری بصیرت کا حصول ہے۔
سورہ التوبہ آیت نمبر 122
وَمَا کانَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لِینفِرُوا۟ کآفَّةًۭ ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کلِّ فِرْقَةٍۢ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌۭ لِّیتَفَقَّهُوا۟ فِى ٱلدِّینِ وَلِینذِرُوا۟ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓا۟ إِلَیهِمْ لَعَلَّهُمْ یحْذَرُونَ
اور اہل ایمان کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ سب کے سب نکل آئیں تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ نکلتا ان کی ہر جماعت میں سے ایک گروہ تاکہ وہ دین کا فہم حاصل کرتے اور وہ اپنے لوگوں کو خبردار کرتے جب ان کی طرف واپس لوٹتے تاکہ وہ بھی نافرمانی سے بچتے
بیان القرآن … ڈاکٹر اسرار احمد
فقہ کی اصطلاح کا مطلب عام طور پر ’سمجھنا‘ یا ’مطالعہ‘ ہے، لہذا سورہ التوبہ کی آیت نمبر 122 دین کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کی بات کر رہی ہے، یعنی اسلام، جس میں اسلامی قانون شامل ہے لیکن اس تک محدود نہیں ہے۔ فقہ جیسا کہ سورہ التوبہ کی آیت نمبر 122 میں استعمال کیا گیا ہے اس کا مطلب ہے قرآن کے پیش کردہ عقیدے کا مطالعہ کرنا، اس میں موجود تاریخی واقعات، اس میں مختلف فطری واقعات، قانون، سیرت نبوی، اللہ تعالیٰ نے ترقی کی راہنمائی کیسے کی۔ مسلمانوں کی پہلی نسل کے نئے دین کو قائم کرنے اور اس کی ابدیت کو یقینی بنانے کے لیے، اسلامی تعلیمات کا زمان و مکان سے کیا تعلق ہے، اسلام کو مختلف لوگوں اور ثقافتوں کے سامنے کیسے پیش کیا جائے۔
فقہ کے مسلم اسکالرز اسلامی قانون میں ’اگر اور لیکن‘ کی بہت زیادہ وضاحت کے ذمہ دار رہے ہیں، اور یہ بے معنی ’اگر اور لیکن‘ تفصیل اسلامی قانون کے مقصد اور دین میں اس کے کردار کے بارے میں غلط فہمی کی عکاسی کرتی ہے۔ اسلامی قانون بہت اہم ہے، لیکن اسلام اپنے قانونی نظام سے بہت بڑا ہے۔ اسی طرح اسلام کی فقہ کے طالب علم کو دین کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ صرف اس کے قانونی نظام کا۔
ہم نے اسلام کے جوہر سے رابطہ کھو دیا ہے اور صدیوں سے سطحی مسائل میں مصروف ہیں۔ ہم نے دل کو جسم کے لیے، دماغ کو فرقہ پرست اساتذہ کے لیے اور سوچ کو بے جان، بے بنیاد، بے معنی مضحکہ خیز قدیم ہدایات کے لیے اور ہمیشہ رہنے وا لے دین کو ہزار سال سے زیادہ قدیم آباء و اجداد کے فہم پر چھوڑ دیا ہے۔
صدیوں سے اسلامی فقہ کی کتابوں میں بیان کیے گئے 99 فیصد سوالات اور مسائل مفروضے ہیں اور ان کے جوابات صرف ذہنی عیاشی ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ذہنی عیاشی کی یہ مشق اب بہت سست ہو رہی ہے۔
سورۃ الانعام آیت نمبر 65
قُلْ هُوَ ٱلْقَادِرُ عَلَىٰٓ أَن یبْعَثَ عَلَیکمْ عَذَابًۭا مِّن فَوْقِکمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِکمْ أَوْ یلْبِسَکمْ شِیعًاۭ وَیذِیقَ بَعْضَکم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ ٱنظُرْ کیفَ نُصَرِّفُ ٱلْـَٔایـٰتِ لَعَلَّهُمْ یفْقَهُونَ۔
کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں
بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
سورۃ الانعام آیت نمبر 98
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَکم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ فَمُسْتَقَرٌّۭ وَمُسْتَوْدَعٌۭ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْـَٔایـٰتِ لِقَوْمٍۢ یفْقَهُونَ۔
اور وہی ہے جس نے تمہیں اٹھایا ایک جان سے پھر تمہارے لیے ایک تو مستقل ٹھکانہ ہے اور ایک کچھ دیر (امانتاً) رکھے جانے کی جگہ ہم نے تو اپنی آیات کو واضح کر دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ سے کام لیں
بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
آئیے تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ فقہ کی بنیاد کیا ہے؟
تاریخ میں جھانکیں تو حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ کے دور میں فیصلے کیسے ہوئے …۔
سنن ترمذی #1327
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَکیعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِی، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْیمَنِ، فَقَالَ: کیفَ تَقْضِی؟ فَقَالَ: أَقْضِی بِمَا فِی کتَابِ اللَّهِ۔ قَالَ: فَإِنْ لَمْ یکنْ فِی کتَابِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ۔ قَالَ: فَإِنْ لَمْ یکنْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْیی، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ۔
رسول اللہﷺ نے معاذ کو (قاضی بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ نے پوچھا: ’’تم کیسے فیصلہ کرو گے؟‘‘، انہوں نے کہا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ’’اگر (اس کا حکم) اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہ ہو تو؟‘‘ معاذ نے کہا: تو رسول اللہﷺ کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ’’اگر رسول اللہﷺ کی سنت میں بھی (اس کا حکم) موجود نہ ہو تو؟‘‘، معاذ نے کہا: (تب) میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو توفیق بخشی‘‘۔
یہ حدیث معاذؓ تمام فقہاء کی بنیاد ہے۔
تبصرہ
یہ روایت ’حدیث معاذؓ‘ کے نام سے بہت مشہور ہے۔ حنفیوں کو یہ روایت بہت پسند ہے لیکن اہل حدیث سلفی نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہہ کر رد کیا ہے، لیکن کیوں، اس روایت میں لفظ ’أَجْتَهِدُ رَأْیی‘ّ استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’أَجْتَهِدُ رَأْیی‘ (رائے سے اجتہاد) اہلحدیث سلفیوں کے نزدیک قابل نفرت ہے، اسی لیے ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئی اسے ضعیف سمجھتے ہیں۔ لیکن ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئی کے الفاظ حرف آخیر نہیں ہیں۔
میں نے پہلے حدیث معاذؓ کے راویوں پر بحث کی تھی جو کہ بہت مفصل تھی، میرے مضمون میں ملے گی جس کا عربی ترجمہ ڈاکٹر یوسف ابراہیم الازہری نے کیا ہے۔
میں ذیل میں اس تفصیلی مضمون کا لنک فراہم کر رہا ہوں۔
https://archive.org/details/the-base-of-islamic-jurisprudence
سنن ابو داؤد # 3583
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کثِیرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْیانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَینَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّکمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَی، وَلَعَلَّ بَعْضَکمْ أَنْ یکونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِی لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَیتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِیهِ بِشَیءٍ فَلَا یأْخُذْ مِنْهُ شَیئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار۔
ام المؤمنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں۔
سنن ابو داؤد #3585
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِیمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِی، أَخْبَرَنَا عِیسَى، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِی صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِیث، قَالَ: یخْتَصِمَانِ فِی مَوَارِیثَ وَأَشْیاءَ قَدْ دَرَسَتْ، فَقَالَ: إِنِّی إِنَّمَا أَقْضِی بَینَکمْ بِرَأْیی فِیمَا لَمْ ینْزَلْ عَلَی فِیهِ۔
اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہؓ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپﷺ نے فرمایا:
میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے
امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ (متوفی 40 ہجری) کے پاس حدیث کا ایک نسخہ بھی تھا جس کا نام ’صحیفہ علی‘ تھا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 111
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ : أَخْبَرَنَا وَکیعٌ، عَنْ سُفْیانَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِی، عَنْ أَبِی جُحَیفَةَ، قَالَ : قُلْتُ لِعَلِی : هَلْ عِنْدَکمْ کتَابٌ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا کتَابُ اللَّهِ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِیهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ، قَالَ : قُلْتُ، فَمَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفَکاک الْأَسِیرِ، وَلَا یقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکافِرٍ۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابو حجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علیؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
قرآن کریم کے ممتاز سکالر ڈاکٹر محی الدین غازی، ڈین فیکلٹی آف قرآن، اسلامک یونیورسٹی، کیرالہ، انڈیا نے کہا کہ۔
’’اُمت کو عقل سے قریب کرنے اور مانوس کرنے کا قرآن سے زیادہ موثر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ عقل سے قربت قرآن سے قربت کا ایک پیمانہ ہے۔ امت قرآن سے جتنا زیادہ قریب ہو گی وہ عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ قریب ہو گی، اور قرآن سے جتنی زیادہ دور ہو گی، عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ دور ہو گی۔‘‘
نفسیاتی مجہول اور فرقہ پرستوں کا اسلامی نظام کا ڈرامہ:
حکومت پاکستان نے 1948ء میں اسلامی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں اپنی تجاویز دیں۔ ان میں سے دو کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، جس سے اندازہ ہو گا کہ اسلامی نظام کے بارے میں لوگوں میں کس انداز کی فکر پائی جاتی رہی ہے اور وہ نفاذ شریعت کے معاملے کو کس طرح دیکھتے رہے ہیں۔
ایک خاکہ میں تجویز کیا گیا تھا کہ اسلامی حکومت کا نظام نافذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فلاں خاص فقہ سے وابستہ جتنی مساجد ہیں، ان سب کا سروے کر کے ان سب کی ایک فہرست مرتب کرلی جائے۔ اس فہرست کے مرتب کرنے کے بعد ان مساجد کے خطباء اور ائمہ مساجد اور ان مساجد میں قائم مذہبی مدارس کے سربراہان کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے میں سے سب سے زیادہ متقی اور صاحب علم شخصیت کو منتخب کر لیں اور جب وہ شخصیت منتخب ہو جائے تو سب ائمہ اور خطباء حضرات اس شخصیت سے بطور امیر المومنین یا خلیفہ المسلمین بیعت کر لیں۔ بیعت کے بعد پاکستان کا نظام اس شخصیت کے سپرد کر دیا جائے اور پھر سارا کام اسی کے ہاتھوں چلے۔ وہ شخصیت جو بھی نظام حکومت چلائے گی، وہی اسلامی نظام حکومت ہو گا اور اس کی ہدایات اور احکام کے نفاذ کو شریعت کا نفاذ قرار دیا جائے گا۔ ظاہر بات ہے کہ نفاذ شریعت کی یہ شکل نہ 1948ء میں پاکستان میں ممکن تھی، نہ آج ممکن ہے اور نہ آئندہ ممکن ہو گی اور نہ نفاذ شریعت کے یہ معنی ہیں کہ کسی خاص مسلک یا طبقہ کے ائمہ مساجد اور خطباء کو بلا کر معاملات ریاست ان کے سپرد کر دیے جائیں۔
ایک اور خاکہ کی رو سے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فلاں مسلک کے ایک بڑے ممتاز اور جید عالم کو شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کر دیا جائے، وہ شیخ الاسلام مساجد کا نظام چلائے، نکاح اور طلاق کے مقدمات کی سماعت کرے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پاکستان میں شریعت اسلامی کا نفاذ ہو جائے گا۔
اگر اسلامی نظام کے قیام کا مطلب یہی ہے کہ ایک مشہور عالم شیخ الاسلام کہلاتے ہوں، وہ مساجد کا نظام چلاتے ہوں اور نکاح و طلاق کے مقدمات جو ان کے پاس آئیں ان کا فیصلہ کرتے ہوں تو اس اعتبار سے آج کا روس بھی اسلامی مملکت ہے، کیونکہ وہاں شیخ الاسلام کا منصب بھی موجود ہے، وہاں مسجدوں کا نظام بھی شیخ الاسلام کے سپرد ہے اور جو لوگ نکاح و طلاق کے مقدمے شیخ الاسلام کے پاس لے کر آتے ہیں، وہ ان کا فیصلہ بھی کر دیتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے کئی ممالک آج اسلامی ممالک کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بات سے نہ کوئی صاحب علم و بصیرت اتفاق کرے گا اور نہ اسلامی نظام کے یہ معنی ہیں۔
ان دو مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بعض نفسیاتی مجہول حضرات کے ذہنوں میں پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اسلامی نظام کے بارے میں کیا تصورات تھے۔
جامعہ ازہر (مصر) میں آج سے تقریباً 40 سال پہلے مختلف فقہی قوانین کی تدوین نو کا بیڑا اٹھایا گیا تھا اور وہاں کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت نے مختلف مسالک کی بنیاد پر قوانین کے الگ الگ مجموعے مرتب کیے تھے۔ علمی اعتبار سے یہ ایک اچھی کاوش تھی، لیکن اس سے دنیائے اسلام میں زیادہ استفادہ نہ کیا جا سکا اور یہ کام محض کتب خانوں کی زینت بننے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اب مسلکوں کی پابندی کا دور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ اب جدید مسلم ممالک کا پبلک لاء مسلکوں کے محدود دائرہ کار کی پابندی کے ساتھ نہیں بنایا جا سکتا۔
فقہ میں بھی نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے ہیں تحقیق اور غور و فکر کے لیے بہت سے نئے موضوعات سامنے آئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ پچاس سال اصول فقہ کے لیے ایک دور جدید کے منار ثابت ہوں گے اور جو رجحانات گزشتہ پچاس ساٹھ سال میں ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ پایہ تکمیل تک پہنچیں گے اور ان کے بہتر نتائج و ثمرات سامنے آ جائیں گے۔
(اگر فرقہ وارانہ انتہا پسندی پر قابو پا لیا جائے)
جدید مغربی اصول قانون کے اثر سے بہت سے معاصر اہل علم نے اصول فقہ کے مضامین کو نئے انداز سے مرتب کرنا شروع کیا ہے۔
اس ترتیب نو کے دو بڑے بڑے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک رجحان جو دنیائے عرب میں پایا جاتا ہے وہ اصول فقہ کے موضوعات کو فرانسیسی اصول قانون کی ترتیب سے مرتب کرنے کا ہے۔ فرانس میں قوانین کے حوالے سے دوہرا نظام رائج ہے۔ نظام کی ایک شاخ کو droit public، یا عوامی قانون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاخ ریاست اور عوامی اداروں کے آپریشن کے اصولوں کی وضاحت کرتی ہے۔ دوسری شاخ، جسے droit privé یا نجی قانون کہا جاتا ہے، افراد اور نجی اداروں کے ذاتی معاملات پر لاگو ہوتا ہے۔ اس رجحان کے ابتدائی اور پیش رو نمائندوں میں معروف دو الیبی، مصطفی زرقاء، صبحی محمصانی اور سلام مدکور وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ان حضرات میں بیشتر کی اصل اور بنیادی تعلیم اسلامی علوم اور بالخصوص فقہ اسلامی کی تھی جس کو انہوں نے اسلام کے بنیادی مآخذ و مصادر اور فقہ اسلامی کے جید اساتذہ سے پڑھا اور سمجھا تھا۔ بعد میں ان حضرات نے فرانس کی درسگاہوں میں فرانسیسی زبان اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلامی قانون کے مختلف پہلوؤں اور تصورات پر وہاں کی جامعات میں مقالات لکھے اور یوں فقہ اسلامی کے موضوعات کو فرانسیسی اسلوب میں پیش کرنا سیکھا۔
اس سلسلہ کا آغاز تو بیسویں صدی کے اوائل ہی میں ہو گیا تھا لیکن اصل پیش رفت بیسویں صدی کے وسط میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب شام، مصر اور الجزائر و مراکش سے بڑی تعداد میں طلبہ فرانس گئے اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں قانون کی اعلیٰ ڈریاں حاصل کیں۔ اس انداز سے اصول فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں مصطفی احمد زرقاء کی ’’الفقہ الاسلامی فی ثوبہ الجدید‘‘ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ مصطفی احمد الزرقاء نے اس کتاب میں اصول فقہ کے چند اہم مباحث کے ساتھ ساتھ فقہ اسلامی سے بہت سا ایسا مواد اخذ کر کے مرتب کیا ہے جو روایتی طور پر اصول فقہ کے مباحث میں شامل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ بلا شبہ ایک بڑا تاریخ ساز اور اجتہادی نوعیت کا کام تھا جو مصطفی زرقاء اور ان کے معاصر اہل علم نے بڑی کامیابی اور عرق ریزی سے انجام دیا۔ ان حضرات نے فقہ کی بنیادی کتابوں کے عمیق اور تنقیدی مطالعہ سے ایسے اصول اور تصورات دریافت کیے جن کی ضرورت متقدمین نے محسوس نہ کی تھی اور وہ ان اصولوں اور تصورات کو اس نئے انداز کے بجائے اپنے قدیم روایتی انداز سے جزئیات اور فروعی مسائل کے سیاق و سباق میں پیش کرتے تھے۔ مصطفی الزرقاء، شیخ علی الخفیف اور ابو زہرہ جیسے علمائے اصول نے ملکیت، مال، قبضہ، حق اور ایسے بہت سے فقہی اصولوں اور تصورات کو نئے انداز سے مرتب کر کے اصول فقہ کی کتابوں میں شامل کیا، اور یوں بہت سے فقہی مباحث کو نئی ترتیب دے کر اصول فقہ کے دائرہ میں شامل کر لیا۔
اس سلسلہ کا دوسرا بڑا رجحان بر صغیر میں سامنے آیا جہاں انگریزی قانون کی فرمانروائی اور انگریزی اسلوب کی حکمرانی تھی۔ یہاں کے مسلمان اہل علم نے اصول فقہ کے مباحث کو انگریزی اصول قانون کے انداز میں مرتب کرنے کی طرح ڈالی۔ اس رجحان کے اولین نمائندہ جسٹس عبد الرحیم (1867 ~1952) تھے۔ ان کی کتاب Principles of Muhammadan Jurisprudence اس اعتبار سے اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی کہ اس میں اصول فقہ کے مباحث کو انگریزی اصول قانون کے اسلوب میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کتاب نے انگریزی تعلیم یافتہ اور قانون دان طبقہ میں اصول فقہ کے مباحث کو متعارف کرایا۔
گزشتہ ہجری صدی کے اوائل سے عرب دنیا میں جو کام ہونا شروع ہوا ہے اس میں دو بنیادی خصوصیات نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دور جدید کی اصول فقہ کی کتابوں میں کسی متعین اور پہلے سے طے شدہ فقہی یا اصولی مسلک کی پابندی کم کی گئی ہے۔ بہت کم کتابیں ایسی ہیں جن میں کسی خاص فقہی مسلک کی پابندی کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ ورنہ اکثر تحریروں کا رجحان یہی ہے کہ فقہ اور اصول فقہ کے پورے ادب کو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ قرار دے کر بحیثیت مجموعی علمائے اصول کے خیالات کو پیش کیا جائے اور فقہی مسالک اور اصولی نقطہ ہائے نظر کے مابین ایک مثبت اور صحت مندانہ تقابلی مطالعہ کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ مصطفی زرقاء، محمد ابو زہرہ، محمد سلام مدکور اور ڈاکٹر عبد الرزاق سنہوری کی تحریروں میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
دوسری قابل ذکر بات جس کے بارہ میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے، یہ ہے کہ دور جدید کے بہت سے عرب مصنفین نے مختلف مغربی تصورات کا بھی تنقیدی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصول فقہ کے نظریات و تصورات کا تقابل مغربی قانون کے اصولوں سے کیا ہے۔ اس تقابل سے بہت سی ایسی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں جو بعض مغربی مصنفین کی تحریروں سے پیدا ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر بعض مغربی مصنفین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ فقہ بالعموم اور اصول فقہ کے بعض نظریات بالخصوص رومن قانون سے ماخذ ہیں اور چند جزوی مشابہتوں کو ادھر ادھر سے جمع کر کے بعض مغربی مصنفین یہ لکھنے لگے تھے کہ یہ چیزیں رومن لاء کے زیر اثر اسلامی قانون میں داخل ہوئیں۔ تقابلی مطالعہ سے یہ غلط فہمی دور ہونے لگی اور اسلامی قانون کے اصل ماخذ اور اصولوں کے ارتقائی مطالعہ نے اس تاثر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالا۔
اوپر جسٹس عبد الرحیم کی کتاب کا تذکرہ کیا جا چکا ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آنے والی ایک منفرد انداز کی کتاب تھی۔ اس کتاب نے پہلی مرتبہ مغربی تعلیم یافتہ قانون دانوں کے حلقے کو اصول فقہ کے مباحث سے متعارف کرایا۔ اگرچہ جسٹس عبد الرحیم کی کتاب عربی میں لکھی جانے والی بعض درسی کتابوں کے اردو تراجم کی انگریزی تلخیص ہے، تاہم اس کی ترتیب میں ایک جدت پیدا کی گئی تھی اور اسلوب بھی نئے انداز کا تھا۔ اس نئی ترتیب اور اسلوب نے اصول فقہ کو مغربی اصول قانون کی ترتیب اور اسلوب میں پیش کرنے کی طرح ڈالی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ جسٹس عبد الرحیم کی ڈالی ہوئی نیو پر بعد میں مزید تعمیر کی جاتی اور اس اسلوب پر کام کو آگے بڑھایا جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور مغربی تعلیم یافتہ حضرات میں سے کسی اور قانون دان نے اس کام کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہ لی۔
پاکستان بننے کے بعد بھی اصول فقہ کے میدان میں طویل عرصہ تک کوئی خاص قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی اور کوئی ٹھوس اور دیرپا کام نہیں ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ دو ایک عشروں میں جو تھوڑا بہت کام ہوا ہے وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان، بالخصوص اس کے ذیلی شعبہ ادارہ تحقیقات اسلامی سے وابستہ حضرات کا ہے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ اہل علم میں ڈاکٹر کمال فاروقی، ڈاکٹر احمد حسن، ڈاکٹر خالد مسعود اور پروفیسر عمران احسن نیازی کی کاوشیں قابل قدر اور وقیع ہیں۔
موجودہ دور میں اسلامی قوانین کی کچھ بہت اہم تشریحات سامنے آئی ہیں۔ علامہ یوسف سیجا اور پروفیسر عبد الرحمٰن نے قرآن فہمی کے تناظر میں علم الکلام کے سادہ اور جدید رجحانات ظاہر کیے ہیں ان کا انداز ان کا اسلوب ابن حزم ظاهری جیسا سادہ، قابل فہم اور پر کشش ہے۔
یہ تمام تحریریں بہت متاثر کن، دل کو چھو لینے والی، مختصر مگر ایڈیٹوریل انداز میں ہیں کیونکہ اس دور میں لوگ مختصر، سادہ اور وضاحتی بات پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ فلسفیانہ تحریروں کو عام لوگوں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہے۔۔ یہ قابل تعریف انفرادی کوشش ہیں اس کے ساتھ ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ ان قابل احترام افراد کے کام کو مزید وسیع تشہیر کی ضرورت ہے۔
علامہ یوسف سیجا فرماتے ہیں۔
کیا ریاست کا مذہب ہوتا ہے؟
نوع انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کا کوئی نہ کوئی مذہب ہمیشہ رہا ہے جمہوریت کی دریافت نے نوع انسانی کے سامنے شوریٰ کا نظام رکھا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ اسلام اور جمہوریت کے درمیان فاصلہ صرف اتنا ہے کہ قانون بنانے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کے خالق کے پاس یہ اختیار ہونا چاہئے۔ جمہوریت کہتی ہے کہ خالق کے بندوں کے پاس یہ اختیار ہونا چاہئے بات صرف اس فاصلے کو پاٹنے کی ہے نوع انسانی اب یہ طے کر چکی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے۔ ریاست صرف قوانین کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ ریاست ایک نظام کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نظام کو کون بنائے گا؟ یہ ریاستی اداروں کا کام ہے۔ ریاست کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ’ریاست ماں جیسی ہوتی ہے‘۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے جن قوانین سے ریاست کا نظام ترتیب دیتے ہیں ان قوانین کے اخذ کرنے کا ذریعہ ان کے پاس کیا ہے؟ جواب صرف ایک ہے۔ قوانین کو اخذ کرنے کا ذریعہ ’کتاب‘ کے سوائے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے وہ کون سی کتاب کا انتخاب کریں گے؟ جواب صرف ایک ہے کہ ایسی کتاب جس میں قوانین درج ہیں۔ سارے سائنسدان اس پر متفق ہیں کہ وہ کائنات میں موجود فطرت کی کتاب ہے جس میں فطرت کے قوانین درج ہیں۔ فطرت کے قوانین کو ہم پڑھتے ضرور ہیں لیکن اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں انسانی زندگی سے متعلق بھی ایسے قوانین کی ضرورت ہے جسکو ہم پڑھ سکتے ہوں لیکن اسے اپنے ہاتھ سے لکھ نہ سکتے ہوں۔ جدید دنیا میں ایسے قوانین صرف قرآن مجید ہی میں موجود ہیں اور قرآن مجید کا اسپر دعویٰ بھی ہے۔ اس دعویٰ کو قرآن مجید ہی نے سچ کر دکھانا ہے۔‘‘
پروفیسر عبد الرحمن فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ ہدایت کے نام پر صرف ایسی ہدایت ہی بھیجتا رہا ہے کہ جسے ایک عامی کا فہم و ادراک بھی اتنا ہی کیچ کر لے جتنا کہ ایک نبی کا۔ وہ چیستاں نہیں بھیجا کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے شیکسپیئر کا کلام ہدایت کے نام پر نہیں بھیجا بلکہ اپنا کلام —- قرآن مبین، فرقان مبین اور قول فیصل کے نام سے بھیجا ہے جسے دیکھتے اور سنتے ہی ایک عام آ دمی بھی اتنا ہی سمجھ لے جتنا کہ ایک نبی۔ گویا کہ اسے سنتے اور اسے برتتے ہوئے عام و خاص، ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ’گویا کہ یہی میرے دل میں تھا۔‘
دل کی آواز ناقابل فہم نہیں ہوا کرتی، لیکن مولویوں اور فقہاء نے دل کی اس آواز کو، فطرت سلیمہ کی اس پکار کو ہر لحاظ سے چیستاں بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اس قرآن کو مہجور بنایا جا سکے اور لوگوں کو اس سے دور رکھا جا سکے اور وہ سب اپنی اس کوشش میں عوام الناس کی اکثریت کی حد تک صدیوں سے اگرچہ بظاہر کامیاب ہیں لیکن اللہ کی نظر میں :ھذا خسران مبین: کا مصداق ہیں۔
بد قسمتی سے آ ج بھی وہ سب اسی کام میں لگے ہوئے ہیں، نہ خود قرآن کو اپنے دماغ کی بتی روشن کرکے براہِ راست سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ لوگوں کو سمجھنے دینا چاہتے ہیں، بس ایک شوق فضول میں لگے ہوئے ہیں اور blind vision کے شکار راویوں کی عینک کو رسول کی عینک قرار دے رہے ہیں۔‘‘
حوالہ جات اور مطالعات :
1. الفقه الاسلامی فی ثوبه الجدید۔ زرقاء، مصطفى احمد
- Concept of Sunnah by :Dr. Muhammad Yusaf
- عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2۔ ڈاکٹر خالد مسعود
- اصول فقہ اسلامی از ڈاکٹر طہٰ جابر حلوانی
- Principles of Muhammadan Jurisprudence by: Justice Abdul Rahim
- ہماری دستوری تاریخ از اسد سلیم شیخ، پبلشر فکشن ہاؤس
- علم اصول فقہ ایک تعارف۔ تین جلدیں… ڈاکٹر عرفان خالد ڈھلوں (چئیرمین شعبہ علوم اسلامیہ یو ای ٹی، لاہور)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں