دعوتِ فکر دینے والے کچھ دینی مضامین
کچھ دینی مضامین
از قلم
ابو حیان سعید
(ادارہ کا مصنف کی آراء سے اتفاق کرنا ضروری نہیں)
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…..مکمل کتاب پڑھیں
کچھ دینی مضامین
ابو حیان سعید
(ادارہ کا مصنف کی آراء سے اتفاق کرنا ضروری نہیں)
اسلام پر ملحدین کے اعتراضات
الحاد ایک نفسیاتی مسئلہ ہے نہ کہ علمی و عقلی۔ الحاد اختیار کرنا کوئ علمی و عقلی مسئلہ نہیں بلکہ خواہشات نفس، نفسیاتی مسائل، صدمے وغیرہ اس کی وجہ بنتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم الحاد پر بحث کریں ہمیں اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملحدین خود کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’الحاد خداؤں پر ایمان نہ رکھنا یا خداؤں کا انکار نہیں ہے۔ یہ خداؤں پر یقین کا فقدان ہے۔‘‘ ایسے لوگ جو ملحدین کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ ایمان رکھنے سے انکار کرنے کی بجائے اپنے اعتقاد کی کمی پر زور دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ فکری لحاظ سے وہ الحاد کو خدا پر ایمان لانے سے افضل سمجھتے ہیں۔
آئیے پہلے ملحدین کے چند بنیادی اعتراضات پر بات کرتے ہیں:
1۔ قرآن عربوں کا خود کا بنایا ہوا کلام ہے!
جواب :
قرآن گھڑنے والوں عربوں کے نام بتائیے؟
وہ کتنے لوگ تھے؟
اور ان لوگوں کا قبیلہ اور ذیلی قبیلہ کیا تھا؟
ان کا تعلق عرب کے کس علاقے سے تھا؟
ان ذہین عرب لوگوں کا تفصیلی بائیو ڈیٹا کیا تھا؟
کتنے عربوں نے یہ مقدس کام کیا؟
قرآن مجید بنانے میں انہیں کتنا وقت ملا؟
اس وقت قرآن گھڑنے والوں عربوں کا مذہب کیا تھا؟
انہوں نے اسلام کیسے قبول کیا؟
انہوں نے کن لوگوں سے متاثر ہو کر قرآن کو بنایا؟
ان عرب لوگوں کے پیشے کیا تھے؟
کیا وہ اس اہم کام کے بعد غائب ہو گئے؟
کیا وہ آسمانوں سے آئے تھے یا زمین سے پودوں اور درختوں کی طرح پیدا ہوئے تھے؟
2۔ قرآن میں مختلف آیات میں تقریباً 90 مرتبہ ان باغات اور تقریباً 40 مرتبہ نہروں کا ذکر ہے۔ قران والا اللہ ایک ہی بات بار بار دھراتا رہتا ہے۔۔۔۔ عجیب بات
’جنت کے ایسے باغوں میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘
جواب :
اگر عرب معاشرے میں سوئمنگ پول یا مساج پارلر موجود ہوتے تو قرآن میں جنت کے شاندار سوئمنگ پولز اور مساج پارلر متعارف کرائے جاتے۔
اگر کسی بچے نے کبھی ہاتھی نہ دیکھا ہو اور اس کے باپ نے اسے بتایا ہو کہ اگر اس نے اپنے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تو اسے تحفے میں ہاتھی ملے گا! کیا ہو گا؟ کیونکہ بچے نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا۔ بلکہ اگر اس کے والد نے اسے نئی سائیکل کی پیشکش کی ہوتی تو وہ لازمی ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ نئی سائیکل کا اہل ہے۔
اسی طرح قرآن وہ تصورات پیش کرتا ہے جنہیں لوگ بخوبی جانتے تھے۔
3۔ 14 صدیاں پہلے کا عرب خطہ بنجر، ویران اور سنگلاخ علاقہ تھا جس میں سبزہ اور پانی نایاب تھا۔ اسی لیے عربوں کو لالچ دیا گیا اور جنت میں باغوں اور نہروں کا خواب دکھایا گیا، عربوں کو باغات پسند تھے اسی لیے باغات ہی کا لالچ دیا گیا، عرب لوگ مال مویشی پالتے جیسے بھیڑ بکریاں، اونٹ، ان کا وہ دودھ پیتے۔۔
تو اسی لیے نفسیاتی حربے کے طور پر عربوں کو جنت میں دودھ کی نہروں کا لالچ دیا گیا۔
جواب : عربوں کو قرآن کا پیغام رسول کریمﷺ کے ذریعے دیا گیا تھا، چنانچہ انجیر، کھجور، انگور، شہد، دودھ، انار، زیتون کی مثال قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ عرب ان کھانے پینے کی چیزوں سے واقف تھے اور ان چیزوں کو عرب معاشرے میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس دور کے عربوں کو آم، کیلا، سیب، آنناس، ناریل، اڑو، خوبانی کا علم نہیں تھا اس لیے قرآن نے ان پھلوں کا ذکر نہیں کیا۔ اگر اس دور میں بھینس، ہرن، شترمرغ، بٹیریں عرب میں پائی جاتیں تو قرآن انہیں بھی متعارف کراتا۔ اگر عرب لوگ اس دور میں زنگر برگر، پیزا، ایپل پائی، چائنیز فوڈز کھاتے تو قرآن انہیں بھی جنت کی نعمتوں کے طور پر متعارف کراتا۔
حواس اور عقل سے دور۔ میرے ملحد دوستو، انسانی ماحولیات Human Ecology کس بلا کا نام ہے۔
اس دور کے عرب میں اگر بحیرہ روم اور یوروپین خطے کے پھلوں جیسے Avocado، Nectarines، Pieria Kiwi، Blueberries وغیرہ کے بارے میں بات کی جاتی تو ان پھلوں کے ذائقے، خوشبو اور لذت وغیرہ کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ اس دور کے عربوں کی اکثریت ان پھلوں کو نہیں کھاتی کیونکہ یہ عربوں کے مقامی پھل نہیں تھے۔
4۔ عرب صحرائی لوگ جھاڑیوں سے شہد اتار کر شوق سے کھاتے تو جنت میں انکی پسند کی وجہ سے شہد کی نہریں بھی بنای۔۔۔
جواب : کیا عرب کی جھاڑیوں میں آم اور لیموں کا اچار ملتا تھا؟ جسے عرب اتارتےاور کھاتے؟ یا عرب کی جھاڑیوں میں پیزا Pizza ملتا تھا؟
اگر ایسا ہوتا تو پھر تو جنت میں آم اور لیموں کے اچاراور پیزا Pizza کے پہاڑ ضرور ہو تے۔
مجھے نفسیاتی ملحدین کا غم محسوس ہوتا ہے۔ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ بہت جلد الحاد کی ان غیر سنجیدہ نفسیات سے چھٹکارا پائیں گے ورنہ وہ اپنی آخری زندگی مینٹل اسپتال میں گزاریں گے۔
نیو ورجن اوف بگ بینگ۔
ایک دھماکہ ہوا، گندم کے بیج پہلے سے تیار کھیت میں پھیل گئے۔ پھر پودے نکل آے، پھر گندم کی فصل تیار ہوئی، خود بہ خود کٹ گئی، پھر گندم صاف ہو کر بوریوں میں بھر گئی، پھر گندم کی بوریاں خود ہی ٹرک میں لوڈ ہو گئیں، پھر ٹرک خود بہ خود چل پڑا اور بازار میں گندم کی بوریاں آف لوڈ ہو گیں، پھر لوگوں کے گھر جا پہنچی، وہاں جا کے گندم خود بہ خود پس کر آٹا بن گئی، پھر آٹا سے روٹیاں تیار ہو گئیں اور لوگوں کے منہ میں نوالے بن بن کے جانے لگیں۔ اسی طرح سالن بھی تیار ہوا تھا۔ سبزی کھیت سے اڑ کے ہانڈی میں پہنچی، پھر مسالا جات گھی نمک اس میں شامل ہوا اور سالن تیار ہوا، اس سے پہلے ایک گائے خود بہ خود ذبح ہو کے بوٹیاں بن کے اس ہانڈی میں گھس گئی تھی۔
یہ ہے ملحدین کی نیو ورجن اوف بگ بینگ تھیوری۔
٭٭٭
ختم نبوت کا عقیدہ کیا ہے؟
رسول کریمﷺ
خاتم النبین۔ خاتم المرسلین
جو رسول کریمﷺ کے بعد کسی بھی قسم کے مہدی یا کسی نبی کی آمد کو مانتا ہے، وہ منکر ختم النبوت ہے۔
القرآن کریم وحی الٰہی کا مکمل اختتام ہے، اللہ نے قرآن کریم میں وحی الہی کو مکمل کیا۔
رسول کریمﷺ اپنا کام مکمل کر چکے تھے۔ رہنمائی کے لیے پوری کائنات میں قرآن کریم اور سنت نبوی موجود ہے۔
ہم سب مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضور نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کے بعد کسی بھی قسم کے مہدی یا نبی کی ضرورت کیوں ہے؟
حضورﷺ نے کس قسم کا کام چھوڑا تھا؟ جسے مہدی مکمل کریں گے؟
جو رسول کریمﷺ کے بعد کسی بھی قسم کے مہدی یا کسی نبی کی آمد کو مانتا ہے وہ منکر ختم النبوت ہے۔
رسول کریمﷺ کے بعد نہ کوئی مہدی اور نہ کوئی نبی آئے گا۔
ہمیں مہدی کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس القرآن الکریم کی تعلیم اور رہنمائی ہے اور سنت رسولﷺ ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ آخری نبی ہیں، ان کے بعد نہ کوئی مہدی آئے گا اور نہ ہی کوئی دوسرا نبی آئے گا۔
’’مہدی امامت کے افسانے کا ایک کردار ہے۔ مہدی کی کہانی صرف افسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور مہدی کے بارے میں احادیث جعلی اور من گھڑت ہیں۔ ہمیں نبیﷺ اور ان کی سنت کے بعد مہدی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں کسی نجات دہندہ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
میں دوبارہ کہنا چاہتا ہوں:
اللہ نے دین اسلام کو مکمل کیا اور رسول کریم نے بھی اپنا تمام کام مکمل کیا تو مسلمانوں کو کسی نجات دہندہ مہدی یا کسی اور نبی کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو نہ کسی مہدی کی ضرورت ہے اور نہ ہی رسول کریم کے بعد کسی نبی کی۔ القرآن کریم اور رسول کریم کی سنت (تواتر کے ذریعے سنت رسول کریم محفوظ ہے۔) تمام انسانوں کے لیے کافی ہے اگر وہ اسے اپنی بہتری اور فلاح کے لیے سمجھیں۔
متحدہ ہندوستان ایک ایسی سرزمین تھی جہاں متعدد فتنے پیدا ہوئے، اکبر کا دین الٰہی، امروہہ، لکھنؤ اور رام پور کا شیعہ مذہب، بریلویہ، دیوبندیہ، سلفیہ، قادیانیہ وغیرہ جیسے منکر القرآن فرقے متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ لاکھوں صوفی، عقل سے دور درجنوں مجدد، مہدی قسم کے لوگ مشہور ہوئے اور سادہ لوح لوگوں نے ان کی پیروی کی۔
یو پی کا بریلوی مذہب، یو پی اور دہلی کا دیوبندی مذہب، پنجاب اور دھلی کا اہل حدیث مذہب، گورداسپور و لدھیانہ کا قادیانی مذہب، تفصیلی بحث کے بغیر ہندوستان کی تاریخ ادھوری رہے گی۔
متحدہ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ ’فتنہ انکار قرآن‘ کے بانی تھے۔
متحدہ ہندوستان فرقہ پرستوں کا گھر تھا، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک فسادی تھا۔
اور ان کے چیف گرو گھنٹال شاہ ولی اللہ تھے، انہوں نے "الہام” کا فتنہ ایجاد کیا جس کی پیروی مرزا غلام احمد قادیانی نے کی اور سینکڑوں الہامات کا اعلان کیا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی کی الہامات کی کہانیوں سے ہزاروں صوفیاء اور اہل تصوف متاثر ہوئے۔ یہ تمام الہامات قرآن کریم کے خلاف ہیں۔
تمام دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث سلفی شاہ ولی اللہ دہلوی کی غیر اسلامی الہامیت کے پیروکار ہیں اسی طرح مرزا قادیانی بھی شاہ ولی اللہ کے نظریہ الہام کے پیروکار تھے۔
اعلیٰ حضرت و قدس سرہٗ اور شیخ الحدیث و فضیلۃ الشیخ اور مفتی اعظم قسم کی سینکڑوں مضحکہ خیز مخلوق اس خطہ میں پائی جاتی ہے۔
’انفاس العارفین‘ میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے تمام الہامات قرآن کریم کے خلاف غلیظ سازش اور کفر ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی شاہ ولی اللہ کے نظریہ الہام سے متاثر تھا اس لیے اس نے خود کو مجدد، مہدی اور مسیحا ہونے کا اعلان کیا۔
فتنہ انکار قرآن :
قرآن اونٹ کے چمڑے، بڑی ہڈیوں، پتھروں یا کھجور کے پتوں پر لکھا گیا تھا۔
یہ عقیدہ واضح فتنہ انکار قرآن کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن اونٹ کے چمڑے، بڑی ہڈیوں، پتھروں یا کھجور کے پتوں پر لکھا گیا تھا، اس عقیدہ کے تمام لوگ (صحاح ستہ مرتب کرنے والے – سلفی، اہل حدیث، دیوبند وغیرہ) منکر قرآن ہیں۔۔
تفاسیر کا جہنم۔۔۔
تنویر المقباس (المعروف بہ فیروز آبادی)، طبری، مفاتیح الغیب، جلالین، ابن کثیر، قرطبی، شاطبی، بغوی، زمخشیری، سعدی وغیرہ وغیرہ کی تفاسیر یہودیوں کی کہانیوں اور القرآن کریم اور رسول کریم کے خلاف گھناؤنے پروپیگنڈا اور جرائم سے بھری پڑی ہیں۔
تمام مفسرین جیسے سید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، احمد رضا خان بریلوی وغیرہ نے اپنی تفسیر میں اس قسم کے ہزاروں افسانے لیے ہیں۔
دیوبندی اور سلفیوں کی تفسیر جہالت سے بڑھ کر ہیں۔
حدیث ایک ایسا جنگل ہے جہاں ہزاروں کوفی، بصری، بغدادی، خراسانی، ایرانی زہریلے سانپ چھپے ہوئے ہیں۔
اس جنگل میں ماہر شکاری کامیاب ہو سکتے ہیں۔
أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْکتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ۔
یہ روایت ’فتنہ انکار قرآن‘ کی ابتدا ہے۔
اگر ابو حنیفہ، مالک، شافعی، ابن حنبل، اوزاعی، زید، جعفر صادق اپنے پیرو کاروں کو یہ نصیحت کریں کہ گدھے، خنزیر اور ہاتھی کا پاخانہ کھایا جائے تو کیا تمام دیوبندی، اہل حدیث، سلفی، شیعوں کو کھانا چاہیے؟ حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، سید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، شفیع عثمانی، احمد رضا بریلوی ان غلیظ روایتوں کو کیسے منظور کر سکتے ہیں؟
آخر میں میں اللہ سے دعا کرتا ہوں، اللہ ہمیں فتنہ انکار قرآن سے بچائے۔
مِثْلَہُ مَعَہُ
فرقہ پرست منکرین قرآن کا غلیظ مین ہول
أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْکتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ۔
یہ روایت ’فتنہ انکار قرآن‘ کی ابتدا ہے۔
تمام تفسیروں میں ایک عام بات یہ روایت ہے
أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْکتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ
یہ روایت مفسرین میں بہت مشہور ہے اور ان سب نے اپنی تفسیر کا آغاز اسی روایت سے کیا ہے۔
میں انکار قرآن کی اس روایت کو امام شافعی کی مسند شافعی، امام ابو داؤد السجستانی کی سنن ابو داؤد اور معروف تفسیر نظم القرآن از امام حمید الدین فراہی کے ساتھ ساتھ امین احسن اصلاحی کے افکار پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے میں تفسیر نظم القرآن کے دیباچے کا حوالہ دیتا ہوں۔
تفسیر نظم القرآن کے دیباچے میں امین احسن اصلاحی صاحب نے بیان کیا کہ امام شافعی نے کہا کہ یہ روایت رسول کریم ﷺ سے مربوط ہے
أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْکتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ
مطلب مجھے قرآن کے جیسی ایک اور چیز دی گئی ہے یعنی احادیث بھی وحی کے ذریعے دی گئیں۔
اور تینوں افراد امام شافعی، حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی اس دعوے کے قائل ہیں۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر امام شافعی کے ہوش و حواس گم ہیں تو کیا ان کے نظریات کی تبلیغ اور تقلید کرنا واجب ہے؟
امام شافعی کے بعد اس غلیظ روایت کو ابو داؤد سجستانی نے اپنی کتاب ’سنن ابی داؤد‘ میں بیان کیا ہے جو صحاح ستہ کی ایک اہم کتاب ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر 4604
اگر کوئی اس حدیث کو غور سے پڑھے تو یہ ایک بہت ہی مضحکہ خیز لطیفہ لگے گا۔ یقین نہ آئے تو سنن ابی داؤد میں یہ لطیفہ پڑھ لیں۔
’سنن ابی داؤد‘ حدیث نمبر 4604
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ کثِیرِ بْنِ دِینَارٍ، عَنْ حَرِیزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم أَنَّهُ قَالَ ’’أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلاَ یوشِک رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِیکتِهِ یقُولُ عَلَیکمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِیهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ أَلاَ لاَ یحِلُّ لَکمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الأَهْلِی وَلاَ کلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلاَ لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلاَّ أَنْ یسْتَغْنِی عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَیهِمْ أَنْ یقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ یقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ یعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ‘‘۔
مقدام بن معدیکرب کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” سنو، مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے۔
سب سے پہلے میں پہلے راوی مقدام کو بیان کرتا ہوں، یہ شخص مقدام شام میں پیدا ہوا، اس کی پیدائش کا سال معلوم نہیں ہے لیکن اس کی وفات 87 ہجری میں ہوئی، وہ کبھی شام سے باہر نہیں گیا، بعض کتابوں میں اس کی عمر 91 سال بتائی گئی ہے۔ اس شخص مقدام نے کبھی رسول اللہ کو نہیں دیکھا۔ اور نہ ہی آپﷺ سے کوئی بات سنی۔
دوسرا راوی عبد الرحمٰن بن ابی عوف ہے، سال ولادت، سال وفات معلوم نہیں، لیکن ابن حبان کے صرف ایک اقتباس میں ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کا ایک شخص حمص میں قاضی تھا۔
تیسرا راوی حریز بن عثمان ہے جو 80 ہجری میں پیدا ہوا اور 163 ہجری میں حمص شام میں فوت ہوا۔ اس شخص نے امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ کو ہر نماز کے بعد 70 مرتبہ گالی دی اور ساتھ ہی علیؓ کے بارے میں بہت سے برے الفاظ استعمال کیے، یہ ناصبی ابلیس تھا۔
چوتھا راوی ابو عمرو عثمان بن سعید بن کثیر حمصی ہے، ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کسی کو معلوم نہیں، صرف یہ کہ وہ حمصی شامی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کچھ نہیں ہے۔
پانچویں راوی عبد الوہاب بن نجدہ ہیں، وہ شامی ہیں، ان کی وفات 232 ہجری میں ہوئی، کچھ معلومات رجال کی کتابوں میں ملتی ہے کہ شاید ابو داؤد نے شام کے دورے کے دوران یہ روایت سنی۔
اس بیان میں آخری الفاظ زبردستی بھتہ خوری کے بارے میں ہیں، بہت مزاحیہ الفاظ جن سے میں نے لطف اٹھایا
یقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ یقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ یعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ
اگر ابو حنیفہ، مالک، شافعی، ابن حنبل، اوزاعی، زید بن علی، جعفر صادق اپنے پیروکاروں کو یہ نصیحت کریں کہ گدھے، خنزیر اور ہاتھی کا پاخانہ کھایا جائے تو کیا تمام دیوبندی، اہل حدیث، سلفی، شیعوں، زیدیوں کو کھانا چاہیے؟
حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، سید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، شفیع عثمانی، احمد رضا بریلوی ان روایتوں کو کیسے منظور کر سکتے ہیں؟
سعودی مفتی بن باز کی انتہائی دلچسپ لطیفہ بازی
سوال: بے شک مجھے قرآن اور اس کے ساتھ کچھ اور عطا کیا گیا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ آپ مہربانی فرما کر وضاحت فرمائیں گے کہ اس کے اس فرمان سے کیا مراد ہے: اور مجھے اس کے ساتھ اس کے جیسا عطا کیا گیا ہے۔؟
جواب : یہ حدیث رسول اللہﷺ سے صحیح اور ثابت احادیث میں سے ایک ہے، اور (اور اس کے ساتھ ملتی جلتی حدیث) کا مطلب ہے: اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ایک اور وحی نازل فرمائی، وہ سنت جو قرآن کی وضاحت کرتی ہے اور اس کا مفہوم واضح کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر واضح کر دیں کہ ان پر کیا نازل کیا گیا ہے۔ نحل: 44] اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر قرآن نازل کیا اور اس پر سنت بھی نازل فرمائی، سنت ایک دوسری وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر نازل فرمائی اور آپﷺ نے اس کا اظہار اپنی احادیث سے کیا جو آپﷺ نے بیان کی ہیں۔ آپﷺ کی احادیث قرآن کے نزول کے علاوہ دوسری وحی ہیں۔
https://binbaz.org.sa/fatwas/6429/
شامی کم مقدار میں جعلی حدیثیں گھڑتے تھے لیکن اس غلیظ ماسٹر پیس نے مسلمانوں کے ایمان کو تباہ کر دیا۔
یہ روایت شامی جعلی حدیث کی ایک کلاسیکی مثال ہے۔
٭٭٭
عقل نام کی کوئی چیز ہے؟
لوگوں کو اپنے احمقانہ سوالوں کے جواب قرآن کریم سے چاہیے!
یہ ایک نیا رجحان ہے کہ کچھ سالوں سے جاہل اور ناخواندہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ’فلاں بات کا جواب قرآن سے دو؟ فلاں فلاں بات کا ثبوت قرآن سے دو؟‘
نکاح کا طریقہ قرآن سے ثابت کرو؟
کل سوال ہو گا کہ ’قرآن کریم سے جنسی تعلق کا طریقہ بتاؤ‘
کوئی اس سوال کا جواب کیسے دے سکتا ہے؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ جنسی تعلقات کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کریں۔!!
شادی ہو یا نکاح۔ انسان کی معلوم تاریخ، ہر نسل یا قوم کی اپنی شادی کا طریقہ ہے جو ’تواتر‘ سے منتقل ہوتا ہے۔
القرآن کریم سوال و جواب کی کتاب نہیں ہے بلکہ قرآن اللہ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے پیغام ہے۔
القرآن کریم نے چند سوالات کے جوابات دیے جو صرف رسول کریمﷺ کی زندگی میں پوچھے گئے تھے۔
شادی ہو یا نکاح۔ انسان کی معلوم تاریخ، ہر نسل یا قوم کی شادی کا طریقہ ہے جو ’تواتر‘ سے منتقل ہوتا ہے۔
مسلمانوں میں نکاح کا طریقہ ’تواتر‘ سے منتقل ہوتا ہے۔
غسل کا طریقہ:
کیا اسلام سے پہلی مسلم اقوام کو علم نہیں تھا؟ تورہ یا انجیل میں تو غسل کا کوئی طریقہ نہیں بتایا گیا؟ یا وہ غسل نہیں کرتے تھے؟ جنابت کی حالت ہی گھومتے پھرتے تھے۔؟
عقل نام کی کوئی چیز ہے؟
ہم سعید بن مسیب یا زہری یا عمرو بن میمون یا عبد الرزاق یا ابن جریج یا عطا بن ابی رباح یا نافع یا صالح بن کیسان یا بخاری یا مسلم نیشاپوری جیسے سپر کمپیوٹر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کی طرح روایتیں گھڑنے والے ہیں۔
قرآن نے جو بتایا بس وہ کافی ہے۔
پروفیسر عبد الرحمن نے لکھا ہے۔
’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نکاح کا موجودہ طریقہ سنت نبوی ہے اور خطبہء نکاح کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہو سکتا تو پھر اسے یہ نوٹ کر لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں نکاح کا موجودہ طریقہ تو سنت نبوی ہرگز نہیں ہے کیونکہ نبی کا اپنا نکاح نبوت ملنے سے پہلے ہوا تھا اور اس میں موجودہ خطبہء نکاح نہیں پڑھا گیا تھا۔
نکاح کا جو طریقہ بھی ہر معاشرے میں اور ہر دور میں رائج رہا ہے، وہ ہمیشہ معروف طریقہ ہی رہا ہے، ایسے ہی کہ جیسے قرآن نے مہر کی مقدار خود فکس کرنے کی بجائے اس کے تعین کا معاملہ معروف پر چھوڑ دیا ہے، اسی طرح مطلقہ عورت کے امساک کا معاملہ بھی معروف طریقے پر چھوڑ دیا ہے۔ (الطلاق مرتان، فامساکم بمعروف اور تسریح باحسان)۔
لہذا یہ سوشل معاملات ہیں جن کی ڈیلنگ ہمیشہ سے معاشرے میں رائج معروف طریقوں کے مطابق ہی ہوتی رہی ہے اور یہ معروف طریقے variable اور تغیر پذیر بھی ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں، البتہ اولو الالباب لوگ ہمیشہ بہترین معروف، با وقار اور سنجیدہ طریقہ ہی adopt کرتے ہیں۔ اسی لیے بعثت نبوی کے بعد رسول اللہ نے لڑکے اور لڑکی کے ایجاب و قبول کے ساتھ (جو عقد نکاح کی اصل بنیاد ہے)، خطبہ نکاح کا جو طریقہ مروج کیا، اس کا اصل مقصد اعلان عام ہے اور پبلک کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ اس لڑکے اور لڑکی کے مابین جو رشتہ قائم ہو رہا ہے، وہ valid اور جینوئن ہے اور لڑکے اور لڑکی اور ان کے متعلقین کی رضا مندی سے ہو رہا ہے جس پر معاشرے کے کسی بھی فرد کو انگلی اٹھانے اور شر اور فساد پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔
نکاح کا یہ بہترین معروف طریقہ ہے جو ایک اسلامی معاشرے میں نبی کے اجتہادی عمل سے رائج ہوا اور اس سے بہتر، آسان اور سادہ طریقہ ممکن ہی نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ اس خطبہ نکاح کا نہ آخرت میں ہماری مسؤلیت سے کوئی تعلق ہے اور نہ یہ آخرت میں نجات کے لوازمات میں سے ہے، البتہ اس کا تعلق حسن معاشرت سے ہے۔‘‘
٭٭٭
کہاں ہے اصحاب رسولؓ کی توہین کا قانون؟
ایرانی مجوسیوں اور ان کے شیطانی پیروکاروں کی سازش
کیا ہمارے دلوں میں صحابہ کرام کا کوئی احترام ہے؟
یا ہم مجوسی ایرانیوں کی روایتوں پر یقین رکھتے ہیں؟
شرمناک شیطانی بیانیہ
عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ’أَنَّهُ کانَ إِذَا اشْتَرَى جَارِیةً کشَفَ عَنْ سَاقِهَا وَوَضَعَ یدَهُ بَینَ ثَدْییهَا، وَعَلَى عَجُزِهَا‘ وَکأَنَّهُ کانَ یضَعُهَا عَلَیهَا مِنْ وَرَاءِ الثَّوْبِ
ترجمہ:۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر جب بھی کنیز عورت خریدا کرتے تو وہ کنیز عورت کی ٹانگوں کا معائنہ کرتے، اپنے ہاتھ کنیز عورت کی چھاتی کے درمیان ہاتھ رکھتے اور کولہوں پر ہاتھ رکھتے۔
حوالہ:۔ سنن الکبری البیہقی 10789
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِاللہ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّہُ کَانَ إِذَا اشْتَرَی جَارِیَۃً کَشَفَ عَنْ سَاقِہَا وَوَضَعَ یَدَہُ بَیْنَ ثَدْیَیْہَا وَعَلَی عَجُزِہَا وَکَأَنَّہُ کَانَ یَضَعُہَا عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الثَّوْبِ۔
نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر جب کوئی لونڈی خریدتے تو اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹاتے اور اس کے پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھتے اور اس کے سرینوں پر۔
اس روایت کو ناصر الدین البانی نے ’صحیح‘ قرار دیا ہے (ارواء الغلیل فی التخریج الاحادیث، حدیث نمبر 1792)
نام نہاد فقہ اسلامی یا فقہ شیطانی؟
حنفی فقیہ کے امام جصاص فرماتے ہیں کہ
’’یجُوزُ لِلْأَجْنَبِی النَّظَرُ إلَى شَعْرِ الْأَمَةِ وَذِرَاعِهَا وَسَاقِهَا وَصَدْرِهَا وَثَدْیهَا‘‘
’’اجنبی آدمی کسی کی لونڈی کے بال، بازو، پنڈلی، سینہ اور پستان دیکھ سکتا ہے۔‘‘
أحکام القرآن – الجصاص – ج 3- الصفحة 410
مالکی فقہ کی کتاب الشرح الصغیر میں ہے
فیرى الرجل من المرأة – إذا کانت أمة – أکثر مما ترى منه لأنها ترى منه الوجه والأطراف فقط، وهو یرى منها ما عدا ما بین السرة والرکبة، لأن عورة الأمة مع کل واحد ما بین السرة والرکبة – (الجزء الأول، ص 290۔)
’’لونڈی، اجنبی مرد کا جتنا جسم دیکھ سکتی ہے، مرد اس سے بڑھ کر اس کا جسم دیکھ سکتا ہے۔ وہ صرف اس کا چہرہ اور ہاتھ پاؤں دیکھ سکتی ہے، جبکہ غیر محرم مرد اس کی ناف سے گھٹنوں تک کے حصے کے علاوہ باقی سارا جسم دیکھ سکتا ہے۔‘‘
شوافع کا مختار مذہب بھی یہی ہے۔
المذهب أن عورتها ما بین السرة والرکبة (المهذب فی فقه الإمام الشافعی، أبی اسحق الشیرازی، ص 96)
فتاویٰ عالمگیری عرف فتاوی شیطانی کے مطابق
غیر محرم باندی کے جسم کا جس قدر حصہ دیکھنا حلال ہے، اُس کا چھونا بھی حلال ہے بشرطیکہ اپنی ذات اور اُس کنیز کی ذات پر شہوت طاری ہونے کا ڈر نہ ہو۔
غیر محرم باندی کے ساتھ خلوت یا اس کو سفر پر ساتھ لے جانے میں مشائخ حنفیہ کے دو قول ہیں۔ مختار یہ ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں، جبکہ شمس الائمہ سرخسی فتوی دیتے تھے کہ غیر کی باندی کے ساتھ سفر کرنا یا خلوت کرنا حلال ہے۔
مشائخ نے کہا ہے کہ لونڈی کو خریدنے کا ارادہ نہ ہو تو بھی لونڈی کے بازوؤں، پنڈلی اور سینے کو چھونا اور ان حصوں کو ننگا دیکھنا جائز ہے، بشرطیکہ شہوت کی حالت میں نہ ہو۔
اگر لونڈی کو خریدنا مقصود ہو تو پھر حنفی فقہ کے بعض متون کے مطابق پیٹ اور پیٹھ کے علاوہ اس کے جسم کے حصوں پنڈلی، سینہ، بازو وغیرہ کو دیکھنا بھی جائز ہے اور چھونا بھی، چاہے اس سے شہوت پیدا ہونے کا خوف ہو۔ بعض مشائخ کا کہنا ہے کہ دیکھنا تو درست ہے، لیکن اگر شہوت کا خوف ہو تو پھر چھونا نہیں چاہیے۔
مصنف عبد الرزاق کی کتاب الطلاق میں ’’باب الرجل یکشف الامۃ حین یشتریھا‘‘ کے تحت اس حوالے سے صحابہ وتابعین کے متعدد آثار نقل کیے گئے ہیں۔ چند حسب ذیل ہیں۔
سعید ابن المسیب نے کہا کہ لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو تو شرم گاہ کے علاوہ اس کا سارا جسم دیکھا جا سکتا ہے۔
شعبی نے بھی کہا کہ شرم گاہ کے علاوہ اس کا سارا جسم دیکھا جا سکتا ہے۔
ابن مسعود کے شاگردوں میں سے بعض نے کہا کہ ایسی لونڈی کو چھونا اور کسی دیوار کا ہاتھ لگانا ایک برابر ہے۔
مصنف عبد الرزاق کے مذکورہ باب کی روایات کے مطابق
حضرت علی سے لونڈی کی پنڈلی، پیٹ اور پیٹھ وغیرہ دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ لونڈی کی کوئی حرمت نہیں۔ وہ (بازار میں) اسی لیے تو کھڑی ہے کہ ہم (دیکھ بھال کر) اس کا بھاؤ لگا سکیں۔
عبد اللہ بن عمر کے تلامذہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں جب کوئی لونڈی خریدنا ہوتی تو اس کی پیٹھ، پیٹ اور پنڈلیاں ننگی کر کے دیکھتے تھے۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دیکھتے تھے اور سینے پر پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر دیکھتے تھے۔
مجاہد کا بیان ہے کہ ایک موقع پر ابن عمر بازار میں آئے تو دیکھا کچھ تاجر لوگ ایک لونڈی کو خریدنے کے لیے الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے آ کر اس کی پنڈلیاں ننگی کر کے دیکھیں، پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر اس کو جھنجھوڑا اور پھر خریدنے والوں سے کہا کہ خرید لو۔ یعنی اس میں کوئی نقص نہیں۔
آئیے حوالہ نمبر کے ساتھ اصل کتب سے عربی میں روایات دیکھیں۔
الروایات
الروایة الأولى : عن ابن عمر أنه کان إذا اشترى جاریة کشف عن ساقها ووضع یده بین ثدییها وعلى عجزها وکأنه کان یضعها علیها من وراء الثیاب الراوی: نافع مولى ابن عمر المحدث: الألبانی – المصدر: إرواء الغلیل – الصفحة أو الرقم: 6/201
خلاصة حکم المحدث: إسناده صحیح
الروایة الثانیة : فى مصنف عبد الرازق الجزء السابع صـ286
حدیث رقم 13202 _عن معمر عن عمرو بن دینار عن مجاهد قال مر بن عمر على قوم یبتاعون جاریة فلما رأوه وهم یقلبونها أمسکوا عن ذلک فجاءهم بن عمر فکشف عن ساقها ثم دفع فی صدرها وقال اشتروا قال معمر وأخبرنی بن أبی نجیح عن مجاهد قال وضع بن عمر یده بین ثدییها ثم هزها
الروایة الثالثة : فى مصنف عبد الرازق الجزء السابع صـ286
الحدیث رقم 13203_ عن بن عیینة عن عمرو بن دینار عن مجاهد قال کنت مع بن عمر فی السوق فأبصر بجاریة تباع فکشف عن ساقها وصک فی صدرها وقال اشتروا یریهم أنه لا بأس بذلک
وسیأتی عن عطاء ومجاهد کلاهما عن ابن عمر فی أمر الثدیین
وقد توبع عبد الله بن نمی
أخرجه أبو بکر بن أبی شیبة فی المصنف ت الشثری (ج11/ص310) حدثنا علی بن مسهر عن عبید الله عن نافع عن ابن عمر أنه کان إذا أراد أن یشتری الجاریة وضع یده على ألیتیها وبین فخذیها وربما کشف عن ساقیها۔ وهذا إسناد صحیح
لکن زعم الکاتب أن هذا من غرائب "علی بن مسهر” وبالتالی لا یصح قلت تالله أنه هو الهوى فهو متابع ولم یتفرد بهذا فکان ماذا؟! هل سنمشی على آراء الملحدین إذا لم یعجبهم أثرٌ أو حدیثٌ ما ذهبنا نحن نضعف الأثر بکافة الوسائل فقط لکی نرد علیهم وکأنهم إذا انتقدوا شیئاً کان هو الحق ویجب أن نقول بخلافه حتى یکون الصحیح!
قوله (ألیتیها) مثنى مفرده "ألیة” أی موخرة المرأة أی عجیزتها
وأخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص236-237) عن عبد الله بن عمر، عن نافع، عن عبد الله بن عمر۔ ومعمر، عن أیوب، عن نافع، أن ابن عمر کان إذا أراد أن یشتری جاریة، فواطأهم على ثمن، وضع یده على عجزها، وینظر إلى ساقیها وَقُبُلِهَا یعنی بطنها۔ صحیح
وهنا الأثر یشیر إلى أن هذا کان بعد الشراء بدلیل قوله (ذا أراد أن یشتری جاریة، فواطأهم على ثمن) أی بعد أن یتفقوا على سعر معین یضع ابن عمر یده على عجزها وینظر إلى ساقیها وَقُبُلِهَا یعنی بطنها
قلت لا أدری عبد الله بن عمر تصحیف وصوابه "عبید الله” بالتصغیر أم هو حقاً "عبد الله” لأنهما أخوان وعلى کل حال فهو متابع
ثم قال عبد الرزاق عن معمر، عن الزهری، عن سالم، عن ابن عمر۔۔ مثله۔ وهذا إسناد صحیح
وقوله (مثله) أی مثل المتن السابق "أن ابن عمر کان إذا أراد أن یشتری جاریة، فواطأهم على ثمن، وضع یده على عجزها، وینظر إلى ساقیها وَقُبُلِهَا یعنی بطنها”
وأخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص238) عن ابن جریج، عن نافع، أن ابن عمر کان یکشف عن ظهرها، وبطنها، وساقها، ویضع یده على عجزها۔ صحیح وإن کان ابن جریج مدلساً لأنه متابع وللأثر طرق أخرى وقال یحیى بن سعید القطان ابن جریج أثبت من مالک فی نافع (تاریخ ابن أبی خیثمة السفر الثالث ط الفاروق ج2/ص217)
عطاء بن أبی رباح عن ابن عمر
أخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص236) عن ابن جریج، عن عطاء قال: قلت له: الرجل یشتری الأمة، أینظر إلى ساقها، وقد حاضت، أو إلى بطنها؟ قال نعم، قال عطاء: کان ابن عمر یضع یده بین ثدییها، وینظر إلى بطنها، وینظر إلى ساقها، أو یأمر به۔
قال أحمد بن حنبل عطاء بن أبی رباح قد رأى ابن عمر ولم یسمع منه (انظر المراسیل لابن أبی حاتم الرازی ص154) لکن هنا رؤیة ولیس سماع ولعل عطاء أخذ هذا من مجاهد کما سیأتی ومجاهد سمع من ابن عمر وصحبه
أخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص237) عن معمر، عن عمرو بن دینار، عن مجاهد قال: مر ابن عمر على قوم یبتاعون جاریة، فلما رأوه وهم یقلبونها، أمسکوا عن ذلک، فجاءهم ابن عمر، فکشف عن ساقها، ثم دفع فی صدرها، وقال: اشتروا۔ إسناده صحیح
وقد توبع معمر بن راشد أخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص237) عن ابن عیینة، عن عمرو بن دینار، عن مجاهد قال: کنت مع ابن عمر فی السوق، فأبصر جاریة تباع، فکشف عن ساقها، وصک فی صدرها، وقال: اشتروا، یریهم أنه لا بأس بذلک۔
قوله (دفع فی صدرها) و (وصک فی صدرها) واحد ولعله یقصد بهما وضع یده بین ثدییها
وهذا إسناد صحیح متصل
وأخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص237) بتصرف عن ابن عیینة ومعمر کلاهما عن ابن أبی نجیح، عن مجاهد قال: وضع ابن عمر یده بین ثدییها، ثم هزها۔
إسناد صحیح وأما روایة ابن أبی نجیح للتفسیر عن مجاهد فهو من کتاب الثقة القاسم بن أبی بزة ولکن لیس هذا من التفسیر
وأخرجه ابن أبی شیبة فی المصنف ت الشثری (ج11/ص309) حدثنا جریر عن منصور عن مجاهد قال: کنت مع ابن عمر أمشی فی السوق فإذا نحن بناس من النخاسین قد اجتمعوا على جاریة یقلبونها، فلما رأوا ابن عمر تنحوا وقالوا: ابن عمر قد جاء، فدنا منها ابن عمر فلمس شیئاً من جسدها وقال: أین أصحاب هذه الجاریة، إنما هی سلعة۔ إسناد صحیح متصل
وأخرجه عبد الرزاق فی المصنف ط التأصیل الثانیة (ج7/ص236) أخبرنا ابن جریج، قال: أخبرنی عمرو أو أبو الزبیر، عن ابن عمر، أنه وجد تجاراً مجتمعین على أمة، فکشف عن بعض ساقها، ووضع یده على بطنها۔
٭٭٭
وَمَآ ءَاتَىٰکمُ ٱلرَّسُولُ
فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰکمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ کا مفہوم سمجھنے کے لیے براہِ کرم مکمل آیت کو غور سے پڑھیں،
فرقہ پرست ملاؤں کے فریب سے آگاہ رہیں۔
قرآن کریم کی آیت کے بارے میں سوچی سمجھی سازش
عقل اور ہوش سے دور تمام فرقہ پرست دیوبندی، اہل حدیث سلفی وغیرہ سورۃ الحشر کی اس آیت کا کچھ حصہ ’نام نہاد احادیث‘ کے حق میں نقل کرتے ہیں۔ میں جعلی اور من گھڑت احادیث کے دفاع کے لیے ان کے غلیظ خیالات پر ماتم کرنا چاہتا ہوں۔
سورہ حشر، آیت نمبر 7
مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْیتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰکینِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِیلِ کىْ لَا یکونَ دُولَةًۢ بَینَ ٱلْأَغْنِیآءِ مِنکمْ ۚ وَمَآ ءَاتَىٰکمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰکمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِیدُ ٱلْعِقَابِ
جو مال بھی ہاتھ لگا دے اللہ اپنے رسول ﷺ کے بستیوں والوں سے تو وہ ہے اللہ کے لیے رسول ﷺ کے لیے قرابت داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے تاکہ وہ تم میں سے مال داروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہے۔ اور جو کچھ رسول ﷺ تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔
بیان القرآن … ڈاکٹر اسرار احمد
بہتر ہو گا اگر آپ مکمل سورۃ الحشر پڑھیں اور سمجھیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے متعلق تمام احادیث من گھڑت جعلی اور قرآن کریم کے خلاف ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ’آنے‘ کا عقیدہ عیسائیت کے اصولوں میں سے ایک ہے
اس عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
رسول کریمﷺ کے بعد نہ کوئی مہدی آئے گا اور نہ کوئی نبی آئے گا
یہ ختم نبوت کا بنیادی اصول ہے۔
قرآن کریم نے سورۃ آل عمران آیت نمبر 55، سورۃ المائدہ آیت نمبر 117، سورہ مریم آیت 33 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی سختی سے تردید کی ہے۔
سورہ آل عمران آیت نمبر 55
إِذْ قَالَ ٱللَّهُ یـٰعِیسَىٰٓ إِنِّى مُتَوَفِّیک وَرَافِعُک إِلَىَّ وَمُطَهِّرُک مِنَ ٱلَّذِینَ کفَرُوا۟ وَجَاعِلُ ٱلَّذِینَ ٱتَّبَعُوک فَوْقَ ٱلَّذِینَ کفَرُوٓا۟ إِلَىٰ یوْمِ ٱلْقِیـٰمَةِ ۖ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُکمْ فَأَحْکمُ بَینَکمْ فِیمَا کنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ۔
’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمھیں وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور(تیرے) ان منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک ان منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے۔ سواس وقت میں تمھارے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔،‘ (3: 55)
سورۂ مائدہ میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے جو قیامت کے دن ہو گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ ان سے نصاریٰ کی اصل گمراہی کے بارے پوچھیں گے کہ کیا تم نے یہ تعلیم انھیں دی تھیں کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بناؤ۔ اس کے جواب میں وہ دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ میں نے توا ن سے وہی بات کہی جس کا آپ نے حکم دیا تھا اور جب تک میں ان کے اندر موجود رہا، اس وقت تک دیکھتا رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو میں نہیں جانتا کہ انھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا ہے۔ اس کے بعد تو آپ ہی ان کے نگران رہے ہیں
سورہ مائدہ آیت نمبر 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَآ أَمَرْتَنِى بِهِۦٓ أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّکمْ ۚ وَکنتُ عَلَیهِمْ شَهِیدًۭا مَّا دُمْتُ فِیهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّیتَنِى کنتَ أَنتَ ٱلرَّقِیبَ عَلَیهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ کلِّ شَىْءٍۢ شَهِیدٌ۔
میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی، اور میں ان پر گواہ رہا، جب تک میں ان کے اندر موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو ان پر تو ہی نگران رہا ہے اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔
سورہ مریم آیت 33
وَٱلسَّلَـٰمُ عَلَىَّ یوْمَ وُلِدتُّ وَیوْمَ أَمُوتُ وَیوْمَ أُبْعَثُ حَیۭا
سلام اُس دن پہ کہ جس روز وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔
قرآن کریم کی ان واضح آیات کا حوالہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
اللہ نے دین اسلام کو مکمل کیا اور رسول کریم نے بھی اپنا تمام کام مکمل کیا تو مسلمانوں کو کسی نجات دہندہ مہدی یا کسی اور نبی کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو نہ کسی مہدی کی ضرورت ہے اور نہ ہی رسول کریم کے بعد کسی نبی کی۔ القرآن کریم اور رسول کریم کی سنت تمام انسانوں کے لیے کافی ہے اگر وہ اسے اپنی بہتری اور فلاح کے لیے سمجھیں۔
٭٭٭
الإنفاق فی سبیل الله
انفاق کے معنیٰ ہیں مال خرچ کرنا۔
یہ قرآنی اقتصادی نظام کا بنیادی نقطہ ہے۔
وَیسْــَٔـلُوْنَک مَاذَا ینْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرۃ: 219)
یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر مال و دولت نشو و نما کے لیے کھلا رکھیں۔ ان سے کہو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے۔
نَفَقٌ: اس سرنگ کو کہتے ہیں جس کے داخل ہونے اور نکلنے کے دونوں راستے کھلے ہوں اور جس سرنگ میں نکلنے کا راستہ نہ ہو اسے سَرَبٌ کہتے ہیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ مال اللہ تعالی کا ہے۔ قرآن کریم میں کثرت سے آیات آئی ہیں، جن میں بار بار اہلِ ایمان کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
یٰٓاَیہَا الَّذِینَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکمْ۔ (البقرۃ:254)
(اے لوگو، جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو! اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تم کو دیا ہے۔)
وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکمْ مُّسْتَخْلَفِینَ فِیہِ (الحدید:۷)
(اور اس میں سے خرچ کرو جس پر ہم نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔)
’خلیفہ بنانے‘ کا مطلب یہ ہے کہ مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اسے خرچ کرنے کے لیے اس نے تم کو اپنا جانشین بنایا ہے۔ جانشین اور نائب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اصل مالک جس طرح کہے گا اسی طرح اس کو خرچ کرنا ہے۔ ہم کسی کو خادم رکھیں، پھر اسے کچھ مال دیں اور کہیں کہ جا کر اس کو فلاں فلاں جگہ خرچ کر دو، فلاں سامان لے آؤ، فلاں کو دے آؤ، تو خادم کو یہ حق نہیں ہوتا ہے کہ اپنے طور پر اس میں کچھ تصرف کرے، بلکہ مالک جو ہدایت کرے گا اگر وہ اسی کے مطابق خرچ کرے گا تو اچھا خادم سمجھا جائے گا اور اگر اس کے مطابق خرچ نہیں کرے تو اس کو خیانت کرنے والا سمجھا جائے گا۔
’انفاق‘ کا لفظ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں آیا ہے۔ صرف ایک آیت میں ہے کہ جو تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھا مال خرچ کرو۔ (اَنْفِقُوْا مِنْ طَیبٰتِ مَا کسَبْتُمْ۔ البقرۃ:267) دوسری آیات میں کہا گیا ہے کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام مال کو کیا حیثیت دیتا ہے؟ اور آدمی کو اس پر کس حد تک تصرف کا حق دیتا ہے؟
مال سے ہر شخص کو فطری طور پر محبت ہوتی ہے۔ وہ چوں کہ اسے محنت سے کماتا ہے اس لیے اس پر اپنا تسلّط قائم رکھنا چاہتا ہے۔ مال سے محبت اسلام میں معیوب نہیں ہے۔ غربت کا شکار ہونا اور فقر و فاقہ میں مبتلا رہنا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا ہے اس پر اس کا تصرف باقی رہے اور اس کی مرضی چلے۔ اس بات کو مانتے ہوئے اللہ کی راہ میں انفاق پر ابھارنے کے لیے قرآن مجید میں بڑی لطیف تعبیر اختیار کی گئی ہے:
مَّن ذَا ٱلَّذِى یقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًۭا فَیضَـٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضْعَافًۭا کثِیرَةًۭ ۚ وَٱللَّهُ یقْبِضُ وَیبْصُۜطُ وَإِلَیهِ تُرْجَعُونَ۔ (البقرۃ:245)
(کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے اچھا قرض۔)
قرض کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ آدمی کسی سے قرض مانگتاہے تو یہ سمجھتے ہوئے مانگتا ہے کہ وہ مال اسی شخص کا ہے جس سے وہ قرض مانگ رہا ہے۔ قرآن میں کثرت سے ایسی آیتیں ہیں جن میں ’قرض‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ انسان کو مال و دولت سے اللہ تعالی نے نوازا ہے اور خود وہی انسانوں سے قرض مانگ رہا ہے۔ کتنی لطیف ہے یہ تعبیر!!
میری سمجھ کے حوالے سے قرآن کریم میں اِنْفَاقٌ کے بنیادی معنی اپنی محنت کے ماحصل کو نشو و نما کے لیے کھلا رکھنا ہیں:
وَیسْــَٔـلُوْنَک مَاذَا ینْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (2: 219):
’’یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر مال و دولت نشوونما کے لیے کھلا رکھیں۔ ان سے کہو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے سب کا سب یعنی فاضلہ دولت (Surplus Money) جو سرمایہ داری کی بنیاد ہے، سب کی سب نشو و نما کے لیے وقف ہونی چاہیے۔ یہ کسی کی ذاتی ملکیت میں نہیں رہ سکتی۔
مال و اولاد آزمائش ہے۔
وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَآ أَمْوَٰلُکمْ وَأَوْلَـٰدُکمْ فِتْنَةٌۭ وَأَنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِیمٌۭ (سورۃ الانفال آیت نمبر 28)
اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے۔ اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے۔
إِنَّمَآ أَمْوَٰلُکمْ وَأَوْلَـٰدُکمْ فِتْنَةٌۭ ۚ وَٱللَّهُ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِیمٌۭ
(سورہ تغابن، آیت نمبر 15)
تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو تمہاری آزمائش ہیں۔ اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے۔
کچھ تاریخی واقعات:
حضرت سعد بن ابی وقاص رسولﷺ کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا ہے۔ میری صرف ایک بیٹی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پورا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کو منع کیا۔ انہوں نے کہا: اچھا تو آدھا مال صدقہ کر دوں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے پھر عرض کیا: اچھا، تو میں ایک تہائی صدقہ کر دوں؟ تب اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’الثُلْثُ، وَالثُّلْثُ کَثِیْرٌ۔‘‘ (ہاں، ٹھیک ہے، تم ایک تہائی صدقہ کر دو اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔) اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّکَ أنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ أغْنِیَاءَ خَیرٌ مِّنْ أَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔
(صحیح بخاری، کتاب الجنائز: 1295، و دیگر ابواب، صحیح مسلم: 1628)
(تم اپنے وارثوں کو مال داری کی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم(پورا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دو اور) ان کو اس حال میں چھوڑو کہ وہ تمہارے بعد در بہ در مارے مارے پھریں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔)
انفاق کی عمومی ہدایات
انفاق اور صدقہ و خیرات کی یہ باتیں عہد نبویؐ کے پس منظر میں جب پیش کی جاتی ہیں تو ایک تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ اس وقت اسلامی حکومت حالتِ جنگ میں تھی۔ فوج کو اسلحہ کی ضرورت تھی۔ سامانِ جنگ فراہم کرنے تھے۔ اس لیے انفاق کی یہ ساری تعلیم و تلقین وسائل ِ جنگ فراہم کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اِنفاق، محض جہاد کے لیے درکار ہے۔ صدقہ و خیرات کی تعلیم زندگی کے عام معاملات کے لیے بھی تھی۔ احادیث میں عمومی طور پر صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے۔ احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کن لوگوں پر خرچ کرے؟ ان میں رِشتے داروں کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی ہے۔ سب سے پہلے آدمی یہ دیکھے کہ اس کے قریبی رشتے داروں میں کون لوگ ضرورت مند ہیں؟ ان کے اوپر خرچ کرے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس صرف ایک درہم ہے۔ میں اسے کہاں خرچ کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے اوپر خرچ کرو۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’میرے پاس ایک اور درہم ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اسے اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’میرے پاس ایک اور درہم ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اسے اپنے رشتے داروں پر خرچ کرو۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’میرے پاس ایک اور درہم ہے۔‘‘ آپؐ نے کہا: ’’اسے جہاں چاہو، خرچ کرو۔‘‘ (سنن نسائی: 2546)
باقی آپ خود سمجھیں۔
٭٭٭
ولی الہیات اور قادیانیت
خواب، کشف، الہام، وجدان
بخاری نے سب کو خواب دیکھنے کی اجازت دی۔
مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔
بخاری کے یہ جعلی اور فراڈ بیانات شاہ ولی اللہ اور مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
بخاری اور زہری سے کوئی ڈرامہ رہ تو نہیں گیا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی اور مرزا غلام احمد قادیانی گورداسپوری کے الہامات کے پیچھے کہانیاں۔
بخاری اور ابن شہاب زہری نے اچھے خواب دیکھنے والے نیک لوگوں کو 1/46 کے تناسب سے نبوت سے نوازا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیسے۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر… باب رُؤْیا الصَّالِحِینَ #6983
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِک، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قَالَ ’’الرُّؤْیا الْحَسَنَةُ مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ‘‘۔
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر… باب رُؤْیا الصَّالِحِینَ #6987
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِی صلى الله علیه وسلم قَالَ ’’رُؤْیا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ‘‘۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے حضرت انس بن مالکؓ نے اور ان سے حضرت عبادہ بن صامتؓ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر…
باب الرُّؤْیا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ # 6988
حَدَّثَنَا یحْیى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِیمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِی، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیبِ، عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قَالَ ’’رُؤْیا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ‘‘۔ رَوَاهُ ثَابِتٌ وَحُمَیدٌ وَإِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَشُعَیبٌ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِی صلى الله علیه وسلم۔
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن المسیب نے بیان کیا، اور ان سے حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس کی روایت ثابت، حمید، اسحاق بن عبد اللہ اور شعیب نے حضرت انسؓ سے کی۔ انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر…
باب الرُّؤْیا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ # 6989
حَدَّثَنِی إِبْرَاهِیمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِی حَازِمٍ، وَالدَّرَاوَرْدِی، عَنْ یزِیدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِی، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یقُولُ ’’الرُّؤْیا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ‘‘۔
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن ابی حازم اور عبد العزیز دراوری نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبد اللہ نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن خباب نے، ان سے حضرت ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نیک خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر… باب الْمُبَشِّرَاتِ # 6990
حَدَّثَنَا أَبُو الْیمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَیبٌ، عَنِ الزُّهْرِی، حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیبِ، أَنَّ أَبَا هُرَیرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یقُولُ ’’لَمْ یبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ‘‘۔ قَالُوا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ ’’الرُّؤْیا الصَّالِحَةُ‘‘۔
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، ان سے حضرت ابوہریرہؓ نے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ نبوت میں سے صرف اب مبشرات باقی رہ گئی ہیں۔ صحابہ نے پوچھا کہ مبشرات کیا ہیں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اچھے خواب۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر…
باب مَنْ رَأَى النَّبِی صلى الله علیه وسلم فِی الْمَنَامِ # 6994
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُخْتَارٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِی، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِی صلى الله علیه وسلم ’’مَنْ رَآنِی فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِی، فَإِنَّ الشَّیطَانَ لاَ یتَخَیلُ بِی، وَرُؤْیا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ‘‘۔
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبد العزیز بن مختار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ثابت بنانی نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے واقعی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک جزو ہوتا ہے۔
صحیح بخاری۔ کتاب التعبیر… باب الْقَیدِ فِی الْمَنَامِ # 7017
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، سَمِعْتُ عَوْفًا، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَیرَةَ، یقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم ’’إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَکدْ تَکذِبُ رُؤْیا الْمُؤْمِنِ، وَرُؤْیا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ۔‘‘ قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَقُولُ هَذِهِ قَالَ وَکانَ یقَالُ الرُّؤْیا ثَلاَثٌ حَدِیثُ النَّفْسِ، وَتَخْوِیفُ الشَّیطَانِ، وَبُشْرَى مِنَ اللَّهِ، فَمَنْ رَأَى شَیئًا یکرَهُهُ فَلاَ یقُصُّهُ عَلَى أَحَدٍ، وَلْیقُمْ فَلْیصَلِّ۔ قَالَ وَکانَ یکرَهُ الْغُلُّ فِی النَّوْمِ، وَکانَ یعْجِبُهُمُ الْقَیدُ، وَیقَالُ الْقَیدُ ثَبَاتٌ فِی الدِّینِ۔ وَرَوَى قَتَادَةُ وَیونُسُ وَهِشَامٌ وَأَبُو هِلاَلٍ عَنِ ابْنِ سِیرِینَ عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ عَنِ النَّبِی صلى الله علیه وسلم وَأَدْرَجَهُ بَعْضُهُمْ کلَّهُ فِی الْحَدِیثِ، وَحَدِیثُ عَوْفٍ أَبْینُ۔ وَقَالَ یونُسُ لاَ أَحْسِبُهُ إِلاَّ عَنِ النَّبِی صلى الله علیه وسلم فِی الْقَیدِ۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ لاَ تَکونُ الأَغْلاَلُ إِلاَّ فِی الأَعْنَاقِ۔
ہم سے عبد اللہ بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے عوف سے سنا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب قیامت قریب ہو گی تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا اور مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ (جو کہ علم تعبیر کے بہت بڑے عالم تھے) نے کہا کہ نبوت کا حصہ جھوٹ نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ خواب تین طرح کے ہیں۔ دل کے خیالات، شیطان کا ڈرانا اور اللہ کی طرف سے خوشخبری۔ پس اگر کوئی شخص خواب میں بری چیز دیکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اس کا ذکر کسی سے نہ کرے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگے محمد بن سیرین نے کہا کہ حضرت ابوہریرہؓ خواب میں طوق کو ناپسند کرتے تھے اور قید دیکھنے کو اچھا سمجھتے تھے اور کہا گیا ہے کہ قید سے مراد دین میں ثابت قدمی ہے۔ اور قتادہ، یونس، ہشام اور ابوہلال نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے، انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔ اور بعض نے یہ ساری روایت حدیث میں شمار کی ہے لیکن عوف کی روایت زیادہ واضح ہے اور یونس نے کہا کہ قید کے بارے میں روایت کو میں نبی کریمﷺ کی حدیث ہی سمجھتا ہوں۔ ابو عبد اللہ حضرت امام بخاری نے کہا کہ طوق ہمیشہ گردنوں ہی میں ہوتے ہیں۔
آخری الفاظ :
میں اکثر کہتا ہوں کہ زہری و بخاری یا مسلم نیشا پوری۔ اگر وہ روایت کی سند میں ملیں تو اپنے ایمان کی خیر مناؤ۔ اپنے آپ کو ان بچھوؤں سے بچاؤ۔
٭٭٭
علم لدنی کیا ہے؟
بخاری میں علم لدنی کی کہانیاں، سینہ بہ سینہ علم کی منتقلی کا ڈرامہ
لَّدُنْ۔ یہ لفظ قرآن کریم میں مختلف آیات مبارکہ میں اسم، صفت، ضمیر، فعل، محاورہ وغیرہ میں تقریباً 62 مرتبہ سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔
جاہل فرقہ پرست، ملا اور صوفی یہ لفظ اپنے علم لدنی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سینہ بہ سینہ۔ جہالت کی کوئی حد نہیں ہے۔
اور اس شیطانی مقصد کے لیے انہوں نے بخاری کی جعلی، من گھڑت روایت استعمال کی۔
علم لدنی کی کہانیاں، بخاری میں تصوف کی تبلیغ، سینہ بہ سینہ علم کی منتقلی۔
کتاب العلم۔ باب حِفْظِ الْعِلْمِ۔ بخاری نمبر 120
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، قَالَ حَدَّثَنِی أَخِی، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِی، عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ، قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم وِعَاءَینِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ۔
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی (عبد الحمید) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہؓ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (علم کے) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضورﷺ کے لیے القرآن الکریم نازل ہوا۔
ابوہریرہؓ پر نازل نہیں ہوا۔ ابوہریرہؓ نے صرف رسول کریمﷺ سے قرآن سنا۔ لیکن اس سے کیا مراد ہے۔ ’’وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (علم کے) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔‘‘
قرآن میں ایسی کیا بات ہے جس کو ابوہریرہؓ چھپا رہے ہیں۔ ’’میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔‘‘ ایسی کون سی خوفناک بات ہے جس کے اظہار سے ’’میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے‘‘ کا خوف ہو اور باقی اصحاب رسول کو یہ بات معلوم نہیں ہے۔ فاطمہؓ، ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عائشہؓ، انس بن مالکؓ، معاذ بن جبلؓ، ابن عباسؓ، عبد اللہ بن مسعود وغیرہ سب لا علم ہیں۔
یہ بہت حیران کن ہے۔
پروفیسر عبد الرحمن نے کہا۔
’’اس روایت کو درست مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ نے قرآن میں رسول اللّٰہ کو دئیے گئے حکم الٰہی : یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک : کی واضح خلاف ورزی کی اور وحی کے ابلاغ کا حق ادا نہیں کیا، کچھ وحی چھپا کر رکھی یا اسے صرف ایک دو صحابہ کو ہی بتایا اور انہیں بھی اسے چھپا کر رکھنے کا حکم دیا۔ اس طرح آپ اللہ کی طرف سے متعین کیے گئے فرائض نبوت میں کوتاہی کے مجرم ہوئے۔ رسول اللہ کی رفیع الشان ذات گرامی کو ڈی گریڈ اور ڈس گریس کرنے والی ایسی مجوسیانہ روایاتی ہفوات سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ جنہیں تسلیم کر لینے سے ایمان بالرسالت ہی ہوا ہو جاتا ہے۔
کچھ ملا اور مدارس کے طالب علم ان آیات مبارکہ کو ’علم لدنی‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سورہ ہود آیت نمبر 1
الٓر ۚ کتَٰبٌ أُحْکمَتْ ءَایٰتُهُۥ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَکیمٍ خَبِیرٍ
میں یہ لفظ بطور ’مطلق جاننے والی کامل جینئس شخصیت جو اللہ تعالیٰ ہے‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سورہ نمل کی آیت نمبر 6
وَ اِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ
میں بھی استعمال ہوا ہے۔
لَّدُنْ۔ یہ لفظ قرآن کریم میں مختلف آیات مبارکہ میں اسم، صفت، ضمیر، فعل، محاورہ وغیرہ میں تقریباً 62 مرتبہ سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔
لَّدُن … پاس قریب نزدیک
وَٰلِدَةٌ … ماں
وِلْدَٰنٌ … لڑکے
وَٱلْوَٰلِدَٰت … اور مائیں
وَأَوْلَٰد …۔ اور اولاد
وَٱلْأَوْلَٰد … اور اولاد
وَلِوَٰلِدَیک … اور اپنے ماں باپ کا
وَأَوْلَٰدِکم … اور تمہارے بچوں میں سے
وَأَوْلَٰدُهُم … اور ان کی اولاد
وَأَوْلَٰدُکم … اور اولاد تمہاری
وَٱلْوِلْدَٰن … اور بچے
لِلْوَٰلِدَین … ماں باپ کے لیے
فَلِلْوَٰلِدَین … سو ماں باپ کے لیے
ٱلْوِلْدَٰن … بچوں کو
ٱلْوَٰلِدَین … ماں باپ
ٱلْوَٰلِدَان … ماں باپ
لِوَٰلِدَیه … اپنے ماں باپ کیلئے
بِوَٰلِدَیه … اپنے ماں باپ سے
وَلَدٌ … اولاد
وَالِدٌ … کوئی باپ
مَوْلُودٌ … جس کا بچہ (باپ)
وَوَلَدُهُ … اور اس کی اولاد نے
وَالِدِهِ … باپ
بِوَلَدِهِ … بچہ کے سبب
وُلِدتّ …۔ میں پیدا ہوا
أَلَدّ … سخت
یلِدُوا … وہ جنم دیں گے
لَدَا … پاس
بِوَلَدِهَا … اس کے بچہ کے سبب
یولَد … وہ جنا گیا
یلِد … اس نے جنا
وُلِد … وہ پیدا ہوا
وَوَلَد … اور اولاد
وَوَالِد … اور والد کی
وَلِید … بچپن میں
وَلَد … اور صاحب اولاد
لُّد … جھگڑالو
ٱلْمَوْلُود … جس کا بچہ
ءَأَلِد … کیا میرے بچہ ہو گا
وَٰلِدَةٌ … ماں
وِلْدَٰنٌ … لڑکے
وَٱلْوَٰلِدَٰت … اور مائیں
وَأَوْلَٰد … اور اولاد
وَٱلْأَوْلَٰد … اور اولاد
وَلِوَٰلِدَیک … اور اپنے ماں باپ کا
وَأَوْلَٰدِکم … اور تمہارے بچوں میں سے
وَأَوْلَٰدُهُم … اور ان کی اولاد
وَأَوْلَٰدُکم … اور اولاد تمہاری
وَٱلْوِلْدَٰن … اور بچے
لِلْوَٰلِدَین … ماں باپ کے لیے
فَلِلْوَٰلِدَین … سو ماں باپ کے لیے
ٱلْوِلْدَٰن … بچوں کو
ٱلْوَٰلِدَین … ماں باپ
ٱلْوَٰلِدَان … ماں باپ
لِوَٰلِدَیه … اپنے ماں باپ کیلئے
بِوَٰلِدَیه … اپنے ماں باپ سے
وَلَدَینَا … اور ہمارے پاس
لَّدُنَّا … اپنے پاس
لَّدَینَا۔ ہمارے روبرو
لَدَینَا … ہمارے ہاں
لَدَینَا … ہمارے پاس
لَّدُنک … اپنے پاس
وَلَدْنَهُم … جنہوں نے جنا ہے انہیں
لَّدُنْه … اپنے پاس
٭٭٭
حدیث ثقلین کیا ہے؟
یہ سوال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز قاہرہ، مصر کے طلباء اور ساتھیوں نے مشہور ’حدیث ثقلین‘ کے بارے میں پوچھا ہے۔
انگریزی سے اردو میں ترجمہ
میں اس سوال کا جواب دے رہا ہوں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ تمام لوگ میرے خیالات کو قبول کریں۔ میں ثقلین کی کہانی کو شیعہ مذہب کی بنیاد سمجھتا ہوں۔ میری آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ خود بھی اس حدیث کو غور سے پڑھیں، بالخصوص متن کیونکہ اس حدیث کے متن میں بہت ساری خرابیاں ہیں۔ میری گفتگو سند، متن اور درایت کے حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے۔ میں اپنے تمام ساتھی اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ علوم حدیث کے ان نئے پہلوؤں پر غور کریں جو میں نے اپنی تحریروں میں بیان کیے ہیں۔
مجموعہ حدیث میں سب سے بڑا دھوکہ حدیث ثقلین ہے۔
اس حدیث ثقلین کا تعلق زید بن ارقمؓ سے ہے، وہ ہجرت سے 10 سال پہلے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 67 ہجری میں کوفہ میں وفات پائی، آپ نے رسول کریمﷺ کے ساتھ تقریباً 7 غزوات میں شرکت کی۔ حضورﷺ کی وفات کے وقت زید بن ارقمؓ کی عمر تقریباً 21 سال تھی، آپ کے آباء و اجداد کا گھر وہ مقام تھا جہاں رسول کریمﷺ نے مدینہ میں پہلی نماز ادا کی۔
زید بن ارقم نے تقریباً 68 احادیث روایت کی ہیں۔
زید بن ارقم نے تقریباً 9 سے 11 سال رسول کریمﷺ کے ساتھ گزارے۔
یہ حدیث ثقلین زید بن ارقمؓ سے منسوب سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
امام مسلم بن الحجاج نے اپنی تالیف ’صحیح مسلم‘ میں یہ سب سے بڑی جعلی حدیث لی ہے۔ یہ حدیث ثقلین شیعہ ازم کی بنیاد ہے۔
اس حدیث ثقلین میں اس کے گھڑنے والوں نے ایک تیر سے کئی شکار کیے۔
سیکڑوں سالوں سے صحیح مسلم کی یہ حدیث شیعہ علماء اور مصنفین کی پسندیدہ ہے کیونکہ ان سب نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس گپ شپ کا حوالہ دیا ہے۔
حدیث ثقلین جو شیعوں اور رافضیوں کی بنیاد ہے۔ یہ شیطانی حدیث مجوسی روافض نے بنائی ہے تمام شیعہ مصنفین نے اس شیطانی بیانیہ کو احادیث کی چھ کتابوں صحاح ستہ سے نقل کیا ہے۔
مسلم ابن الحجاج نیشاپوری، 206 ہجری میں پیدا ہوئے اور 261 ہجری میں فوت ہوئے، احادیث کے جمع کرنے والے تھے۔ تاریخ میں لوگوں نے کہا کہ وہ پانچ لاکھ روایتوں کے حافظ تھے۔
وہ بصرہ، کوفہ، بغداد، خراسان، نیشاپور، حجاز، یمن، شام، مصر وغیرہ کے دوروں کے دوران ان لوگوں سے سیکڑوں ہزاروں جھوٹی اور من گھڑت روایات لے رہا تھا جن سے وہ ملا تھا۔
اس نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں سیکڑوں جعلی اور من گھڑت روایات بیان کیں۔
حدیث ثقلین ان میں سے ہے جو شیعہ ازم کی بنیاد ہے۔
شیعہ مصنفین نے فخر سے اس کتاب صحیح مسلم سے ثقلین کی روایتوں کا حوالہ دیا، اور شیعہ مصنفین نے اسے اہل سنت قرار دیا۔ شیعہ صحاح ستہ مرتب کرنے والوں کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ سب خفیہ رافضی تھے۔
شیعہ علماء کی درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین ہیں جو کہ ثقلین کی اس گپ شاپ پر مبنی ہیں جو کہ نام نہاد سنی محدثوں کی صحاح ستہ کتابوں سے لیے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر، میں صحیح مسلم کا حوالہ دیتا ہوں۔
باب مِنْ فَضَائِلِ عَلِی بْنِ أَبِی طَالِبٍ رضى الله عنه # 2408 A
زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا : مجھے ابو حیان نے حدیث بیان کی، کہا : یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم (تینوں) حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا : زید! آپ کو خیر کثیر حاصل ہوئی، آپ نے رسول اللہﷺ کی زیارت کی، ان کی بات سنی، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔ زید! آپ کو خیر کثیر حاصل ہوئی۔ زید! ہمیں رسول اللہﷺ سے سنی ہوئی (کوئی) حدیث سنایئے۔ (حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا : بھتیجے! میری عمر زیادہ ہو گی، زمانہ بیت گیا، رسول اللہﷺ کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں، اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو۔ اور جو (بیان) نہ کر سکوں تو اس کا مجھے مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر کہا : کہ رسول اللہﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ’خم‘ کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ ہاں۔
فضائل صحابہؓ، صحیح مسلم۔ # 6225
زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا : مجھے ابو حیان نے حدیث بیان کی، کہا : یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم (تینوں) حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا : زید! آپ کو خیر کثیر حاصل ہوئی، آپ نے رسول اللہﷺ کی زیارت کی، ان کی بات سنی، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔ زید! آپ کو خیر کثیر حاصل ہوئی۔ زید! ہمیں رسول اللہﷺ سے سنی ہوئی (کوئی) حدیث سنایئے۔ (حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا : بھتیجے! میری عمر زیادہ ہو گی، زمانہ بیت گیا، رسول اللہﷺ کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں، اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو۔ اور جو (بیان) نہ کر سکوں تو اس کا مجھے مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر کہا : کہ رسول اللہﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ’خم‘ کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ ہاں۔
سند کے حوالے سے اس حدیث کے بہت سے تضادات ہیں۔ اس حدیث کے تقریباً تمام راوی کوفی ہیں۔ اس روایت کے متن میں بہت سے نقائص ہیں۔ غیر قرآنی اہل بیت، زکوٰۃ کی حرمت، عبد المطلب کے نسب کی ممانعت صرف صدقہ کے لیے، متن میں متعدد اور متضاد ڈائیلاگ بازی ہیں۔ یہ فرضی روایت دوسری صدی ہجری میں بنو عباس کے دور میں گھڑی گئی تھی۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرامؓ کی خصوصیات کے بیان کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ میرے پاس اس موضوع کے بارے میں بہت سارے الفاظ ہیں لیکن میں اسے ختم کرتا ہوں۔
آخر میں، میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس قسم کی جھوٹی، دھوکہ دہی اور من گھڑت روایات سے نجات دے۔
اللہ ہم سب کو خوش رکھے۔
٭٭٭
دوسری صدی ہجری میں کوفہ، بغداد، بصرہ رافضیت کے اڈے تھے۔
تاریخ کی کتابوں سے میں نے کچھ روایات نقل کی ہیں۔
ہمیں تاریخ کو صرف تاریخ کے طور پر لینا چاہیے۔
علی المدینی (161~234 ھ)
انہیں جرح و تعدیل کا امام سمجھا جاتا ہے۔ بصرہ میں پیدا ہوئے۔
بعض اہل تذکرہ نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال بصرہ ہی میں ہوا مگر خطیب بغدادی اور ابن ندیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انتقال سامراء میں ہوا
یہ علی المدینی بخاری کے استاد تھے، بخاری نے ان سے 287 روایتیں نقل کی ہیں۔
حوالہ : تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، جلد # 11، صفحہ # 272 – 273
جب تک یہ بغداد میں رہتے، سنت کا چرچا بڑھ جاتا اور شیعیت کا زور گھٹ جاتا اور جب کچھ دنوں کے لیے یہ بصرہ چلے جاتے تو یہ رافضی فتنہ پھر زور پکڑ لیتا، یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:
کان علی بن المدینی إذا قدم علینا اظهر السنة وإذاذهب إلى البصرة اظهر التشیع۔
ترجمہ: علی بن مدینی جب بغداد آ جاتے تو سنت کا چرچا ہو جاتا تھا اور جب وہ بصرہ چلے جاتے تو شیعیت زور پکڑ جاتی۔
حوالہ : تهذیب التهذیب: جلد # 7 صفحہ # 309
تبصرہ : (غور کیجئے اس وقت بغداد اور بصرہ رافضیت کا مرکز تھے۔ یعنی سنی ازم اور شیعہ ازم کا یہ کھیل دوسری صدی ہجری میں پنگ پانگ جیسا تھا۔)
ابن مدینی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی ایک لاکھ مرویات جن میں تیس ہزار ایک راوی عباد بن صہیب سے مروی تھیں ترک کر دیں، اس لیے کہ یہ قابل اعتبار نہیں تھیں۔
حوالہ : تهذیب التهذیب: جلد # 7 صفحہ # 354
تبصرہ: المدینی کے پاس جعلی اور من گھڑت روایت جمع کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت تھا۔
ایک لاکھ جعلی احادیث رکھنے والے ایک ایک شخص کے بارے میں سوچیں کہ اس وقت کتنے محدثین تھے؟
بغداد اس وقت علم و فن کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ مگر وہاں جب ابن المدینی پہنچ جاتے تو ایک نیا حلقہ درس قائم ہو جاتا اور تمام ائمہ پروانہ وار ان کے گرد جمع ہو جاتے اور جب ان کے درمیان کوئی مختلف فیہ مسئلہ آ جاتا اور فیصلہ نہ ہو پاتا تو پھر اس میں ابن مدینی اپنی رائے دیتے تھے
حوالہ : تهذیب التهذیب: جلد # 7 صفحہ # 308
تبصرہ: اس وقت لوگوں نے گھی میں چوہا، کوے کا گوشت، ہاتھی کی دم، پیشاب اور پاخانے اور منی کے سینکڑوں جعلی مسائل پیدا کیے تھے۔ یہ تمام محدثین و فقیہ ان فرضی مسائل کو حل کرنے میں دن رات مصروف تھے۔ کتنے مضحکہ خیز دن تھے۔
ابن مدینی کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند کے نام یہ ہیں۔ ان کے والد عبد اللہ بن جعفر مدینی، حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، ابو داؤد طیالسی، ابن علیہ، سعید بن عامر الضبعی وغیرہ۔
بخاریؒ ان کے تلامذہ میں ہیں، ان کا قول ہے کہ میں نے علی بن المدینی کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے کو حقیر نہیں سمجھا۔ ان کے انتقال کے بعد ایک بار کسی نے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؟ بولے ہاں! ایک خواہش ہے، وہ یہ ہے کہ ابن مدینی زندہ ہوتے اور میں عراق جا کر ان کی صحبت میں بیٹھتا۔ ابن ماجہؒ اور نسائیؒ نے ان سے بالواسطہ روایتیں کی ہیں، امام نسائی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم حدیث ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔
حوالہ : تهذیب التهذیب: جلد # 7 صفحہ # 352-351
یحییٰ بن سعید القطان (120~198 ہجری)
فن رجال کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ فن رجال میں اول جس شخص نے لکھا وہ یحی بن سعید القطان ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے ’’میں نے اپنی آنکھوں سے یحیٰ کا مثل نہیں دیکھا۔‘‘
یحییٰ بن سعید سے بخاری نے 354 روایتیں اور مسلم نیشاپوری نے 307 روایتیں لی ہیں۔ وہ بخاری اور نیشاپوری کے دادا استاذ ہیں۔
بصرہ آبائی وطن تھا اور وہیں سنہ 120 ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ یحییٰ بن سعید القطان نے جس زمانہ میں آنکھ کھولی اس وقت مملکتِ اسلام کا ہر قصبہ اور ہر قریہ قال قال الرسول کی آواز سے گونج رہا تھا۔ جن محدثین سے انہوں نے استفادہ کیا تھا ان کی فہرست کافی طویل ہے، چند نام یہ ہیں: امام مالک، امام اوزاعی، امام شعبہ، سفیان ثوری، ابن ابی عروبہ، یحییٰ بن سعید الانصاری تابعی، ہشام بن عروہ، امام اعمش، مسعر بن کدام، سفیان بن عیینہ، اور سلیمان، اعمش وغیرہ امام نووی نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن سعید نے پچاس ایسے شیوخ حدیث سے سماع کیا تھا جو سفیان ثوری رحمہ اللہ جیسے محدث روزگار کے اساتذہ میں تھے۔
حوالہ : (تہذیب الاسماء: جلد # 2 صفحہ # 154)، (تهذیب التهذیب: جلد # 11 صفحہ # 216)
علم حدیث ان کا خاص فن تھا اور اس میں ان کا مرتبہ امام کا تھا، ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ عراق میں علم حدیث کا عام رواج ان ہی کی ذات سے ہوا۔ ائمہ حدیث کے یہاں ان کی مرویات کا جو مرتبہ تھا، ا کا صحیح اندازہ ان راویوں سے ہو سکتا ہے جوان کے بارے میں انہوں نے ظاہر کی ہیں، مشہور محدث علی بن المدینی کہتے تھے کہ ہمارے معاصرین میں تین آدمی ایسے تھے جنہوں نے بدء شعور سے علم حدیث کی طرف توجہ کی اور اس سے زندگی بھر لپٹے رہے۔ یہاں تک کہ وہ خود مسند تحدیث پر فائز ہو گئے، ان تین آدمیوں میں سب سے پہلا نام انہوں نے یحییٰ بن سعید کا لیا۔ عبد الرحمن بن مہدی جوان کے معاصر اور علم و فضل میں ان سے کم تر نہ تھے! انہوں نے اپنے مجموعۂ حدیث میں دو ہزار حدیثیں یحییٰ بن سعید کی سند سے داخل کر لی تھیں جنھیں وہ ان کی زندگی ہی میں روات کرتے تھے۔ ابنِ مہدی جیسے یگانۂ روزگار کا ان کی ز۔ دگی ہی میں ان سے روایت کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے، امام نووی نے لکھا ہے کہ ابن مہدی نے ان کے واسطہ سے تیس ہزار روایتیں لکھیں، یعنی لکھی تو انہوں نے تیس ہزار تھیں۔ مگر روایت صرف دو ہزار کی کرتے تھے۔ اگر کسی حدیث کے تذکرہ میں یہ ذکر ملے کہ ان کو کئی لاکھ حدیثیں یاد تھیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اتنے ارشادات نبوی یاد تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اتنی روایتیں یا سلسلہ بیان یاد تھا، ائمہ ان تمام سلسلہ سنت کو اس لیے یاد کرتے تھے کہ سب کو سامنے رکھ کر کسی حدیث کے بارے میں صحیح فیصلہ کیا جا سکے، مثلاً ایک ہی حدیث کے متعدد راوی ہوتے ہیں ان میں ایک ناقص روایت کرتا ہے، دوسرا کامل، ایک مفصل روایت کرتا ہے اور دوسرا مجمل، اب دونوں کو سامنے رکھنے کے بعد فیصلہ آسان ہوتا ہے کہ کون سی روایت زیادہ صحیح اور قابل قبول ہے، روایتوں کی کثرتِ تعداد دیکھ کر بعض بے سوادوں کو احادیثِ نبویﷺ کے موجودہ ذخیرہ کے بارے میں شبہ ہونے لگتا ہے کہ آخر کار اتنا بڑا ذخیرہ حدیث کہاں سے آ گیا۔ مگر یہ ان کی کم علمی ہے کہ وہ روایت اور حدیث میں فرق نہیں کرتے، روایت اس سلسلہ بیان کو کہتے ہیں جو راوی حدیث کے سند کو رسول اللہﷺ تک پہنچانے کے لیے بیان کرتا ہے، اس لیے بسا اوقات ایک ہی حدیث کے لیے متعدد سلسلۂ بیان ہوتے ہیں، اس لیے روایات کی کثرت کو حدیث کی کثرت پر قیاس کرنا غلطی ہے، یحییٰ بن سعید کو یہ شرف و اعزاز کچھ تو ان کی فطری ذہانت و استعداد کی وجہ سے ملا تھا۔ لیکن اس کا بڑا سبب خود ان کی ذاتی جد و جہد ہے، حدیث نبویﷺ سے ان کو عشق تھا، اس کے حصول کے لیئے انہوں نے جو محنت اور کوشش کی اس کی مثال کم ملے گی، اوپر ذکر آ چکا ہے کہ وہ صرف امام شعبہ کی خدمت میں بیس برس تک حدیث کا سماع کرتے رہے، وہ بھی کس اہتمام کے ساتھ، خود ان کی زبانی اس کی تفصیل سنیئے، فرماتے ہیں: کامل بیس برس تک میں امام شعبہ رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر رہا اور روزانہ زیادہ سے زیادہ تیرہ حدیثیں ان سے سماع کر کے لوٹتا تھا، غور کیجئے کہ ابن سعید جیسے ذہین و ذکی آدمی کا روزانہ صرف تیرہ حدیثوں کا سماع کرنا بلاوجہ نہیں تھا، اس کی
وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی تھی کہ وہ جو کچھ پڑھتے تھے، اس پر پورے طور پر غور و خوض کرتے اور اس سے معافی کا استنباط کرتے تھے، محض حصولِ تبرک کے لیے وہ حدیثیں نہیں سنتے تھے۔ اسی بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تمام ائمہ حدیث روایت حدیث میں ان کو حجت سمجھتے تھے، ائمہ حدیث کا یہ مقولہ ضرب المثل ہے کہ جو شخص یحییٰ بن سعید کی روایات کو چھوڑ دے گا ہم اس کو چھوڑ دیں گے۔
حوالہ: (تہذیب التہذیب: جلد # 11 صفحہ # 200)’ (تاریخ بغداد: جلد # 11 صفحہ # 137) (تہذیب الاسماء: جلد # 2 صفحہ # 55)
تبصرہ: میرا خیال ہے کہ سائنسدانوں کو چاہیے کہ وہ ان محدثین کی قبریں کھولیں اور لاشوں کے باقیات کے کچھ نمونے لے کر ان سپر جینئس لوگوں کے ڈی این اے تجزیہ کرنے کے لیے کریں کہ انھوں نے اپنی غیر معمولی یادداشت کے لیے کون کون سی چیزیں کھائیں۔
اس قسم کے بیکار لوگوں کو فنڈز کون دے رہا تھا!! دن رات سب نے من گھڑت اور جعلی روایت لکھی۔
علم حدیث میں درک پیدا کرنے کے لیے ہزاروں حدیثوں کے الفاظ اور سینکڑوں راویوں کے حالات پر نظر رکھنی پڑتی ہے، اس لیے جب تک کوئی شخص غیر معمولی قوتِ حافظہ کا مالک نہ ہو، فنِ حدیث میں غیر معمولی حیثیت حاصل نہیں کر سکتا، نیز اس کے پاس نہ گھر ہو، نہ بیوی، نہ بچے، نہ کوئی کام، تو وہ محدث بن سکے گا یہ غلیظ کچرا اور فضول علم ہے۔ یوں تو عام ائمہ حدیث کو خدا نے اس نعمت سے نوازا تھا۔ مگر بعض ائمہ اس اعتبار سے ضرب المثل تھے تمام فرائض اور ذمہ داریوں سے آزاد تھے، ان ہی میں یحییٰ بن سعید بھی ہیں، عموماً محدثین کا دستور تھا کہ جن احادیث کو درس میں طلبہ کے سامنے بیان کرنا ہوتا تھا وہ پہلے سے لکھ لیا کرتے تھے۔ تاکہ غلطی نہ ہو۔ مگر یحییٰ بن سعید کو اپنے حافظہ پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ بڑی سے بڑی حدیث زبانی سنا دیا کرتے تھے، ایک بار سلیمان بن اشعث نے امام احمد سے پوچھا کہ کیا یحییٰ آپ کو زبانی روایتیں سناتے تھے، فرمایا کہ ہاں! ہم نے ان کے پاس کبھی کتاب نہیں دیکھی، عام طور پروہ اپنے حافظے سے روایت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ طویل طویل روایتیں جو ہم کتابوں میں لکھ لیا کرتے تھے وہ ان کو بے تکلف سنا دیا کرتے تھے۔ ایک بار ان کے استاذ امام ثوری نے غالباً امتحان کی غرض سے ایک روایت کا سلسلہ سند قصداً ذرا مجمل بیان کیا، یحییٰ نے سنا تو فوراً بولے، اس روایت میں یہ اجمال ہے، امام ثوری یہ سن کر حیران رہ گئے اور کہا کہ میں نے تمہارے جیسا فن رجال کا جاننے والا نہیں دیکھا، تم سے کوئی غلطی پوشیدہ نہیں رہتی اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک راوی محمد بن سالم جو اپنے نام سے معروف تھے، ان کی کنیت ابو سہل اہلِ علم میں زیادہ معروف نہیں تھی، امام ثوری رحمہ اللہ نے روایت کرتے وقت نام کے بجائے ان کی کنیت کا ذکر کیا، خیال یہ تھا کہ یحییٰ کو راوی کی کنیت کا علم نہ ہو گا اور وہ اسے کوئی نئی روایت سمجھیں گے۔ لیکن امام ثوری کی یہ توقع صحیح ثابت نہیں ہوئی، یحییٰ نے سنتے ہی فرمایا کہ ابو سہل تو محمد بن سالم ہیں، اس سلسلہ میں امام احمد بن حنبل کے متعدد اقوال تذکروں میں ملتے ہیں، ایک بار انہوں نے فرمایا کہ یحییٰ بن سعید حد درجہ قوی الحافظہ اور واقعی محدث تھے، ان کا ایک قول ہے کہ میں نے یحییٰ بن سعید جیسا آدمی نہیں دیکھا، ان پرتثبت فی الحدیث ختم ہے۔
حوالہ: (تہذیب الاسماء: جلد # 2 صفحہ # 55)
تبصرہ: ایسا لگتا ہے کہ یحییٰ بن سعید اس دور کا ایک سپر کمپیوٹر تھا جس کے پاس کئی ہزار پینٹا بائٹ میموری تھی، لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ انہوں نے یادداشت کے لیے کشتہ جات اور کون کون سی خوراک لی۔
ائمہ حدیث نے تدوین حدیث میں رواۃ کی جرح و تعدیل میں بیکار محنت سے کام لیا ہے، اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مگر پھر بھی وہ انسان تھے اس لیے ان سے بھی بعض تسامحات ہوئے ہیں اور ان پران کی دوسرے ہم عصر یا بعد کے محدثین نے گرفت کی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے ائمہ کے تذکرہ میں جہاں ان کے محاسن و اوصاف کا تذکرہ ملے گا وہیں ان پر جرح و تنقید بھی ملے گی، یعنی اس بات کی تفصیل ملے گی کہ ان سے روایتِ حدیث میں کیا کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔ یحییٰ بن سعید کے تذکرہ میں ان کے محدثانہ محاسن کی تفصیل تو بہت ملتی ہے۔ مگر ان کی کسی مخصوص غلطی کا ذکر نہیں ملتا، صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک قول ملتا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے متعدد احادیث کے بیان کرنے میں غلطی کی ہے؟ مگر غلطی سے کون بچا ہے؟۔ اس کے ساتھ یہ فرمانا کہ غلطی سے کون بچا ہے؟ بڑی اہمیت رکھتا ہے، مقصد یہ تھا کہ بڑے بڑے ائمہ سے روایت حدیث میں غلطی ہوتی ہے، اس لیے ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ مگر امام احمد نے غلطیوں کی نشاندہی نہیں کی ہے۔
حوالہ: (تاریخ بغداد: جلد # 14 صفحہ # 110)
تبصرہ: حضورﷺ کی سیرت: ام المومنین عائشہؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی سیرت کیا ہے، انہوں نے اس شخص کو جواب دیا کہ تم قرآن نہیں پڑھتے، سیرت رسول قرآن میں ہے۔
عبد الرحمن بن مہدی (125 ~ 198 ھ)
انہیں جرح و تعدیل کا امام سمجھا جاتا ہے۔
عبد الرحمن بن مہدی بصرہ میں پیدا ہوئے۔ عراق میں اس وقت دو مقام کوفہ و بصرہ خاص طور سے جھوٹی حدیثیں گھڑنے کے مراکز بنے ہوئے تھے، کوفہ و بصرہ میں جہاں خود ساختہ روایتوں کے مراکز تھے، وہیں دوسری قوموں کے اختلاط سے غیر دینی رجحانات اور غلط افکار بھی دین کے چشمہ صافی میں مختلفط ہو رہے تھے، اس اختلاط سے جہاں بہت سے برے نتائج پیدا ہوئے۔، ان میں ایک مذہبی قصہ گوئی بھی ہے، اس قصہ گوئی کو رواج دینے میں عام مجالس پند و نصائح کا بھی بڑا ہاتھ تھا، اس وقت بصرہ میں امام حسن بصری کی مجالس پند و نصائح کا بڑا چرچا تھا۔ مگر وہ اس بارے میں انتہائی محتاط تھے، ان کے بعد یہ احتیاط باقی نہیں رہی اور اہل لوگوں کے ساتھ بہت سے نا اہل بھی اس بزم کے مسند نشین بن گئے۔ چونکہ یہی دور دینی علوم اور خاص طور پر حدیث کی تدوین و تربیت کا بھی تھا۔ اس لیے بڑی آسانی سے یہ روایتیں ذخیرۂ تفسیر و حدیث میں داخل ہو گئیں، ابن مہدی نے آنکھ کھولی تو بصرہ میں قصہ گوئی کا عام رواج ہو چکا تھا، چنانچہ ان کے علمی نشو و نما کا آغاز قصہ گویوں کی صحبت ہی سے ہوا، ابو عامر عقدی کہتے ہیں کہ وہ قصاص کے پاس جایا کرتے تھے، ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ ان قصہ گویوں کی صحبت سے تمہارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا، چنانچہ میری یہی نصیحت ان کو علم حدیث کی طرف مائل کرنے کا سبب بن گئی۔ یعنی مدینہ منورہ پہنچے اور امام مالک رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں شریک ہو گئے۔
تبصرہ: ہجرت کی پہلی صدی کے وسط میں کوفہ، بغداد، بصرہ وغیرہ روایتوں کے من گھڑت مراکز بن گئے۔ سنی ازم اور شیعہ مسلک کا پنگ پانگ گیم جاری ہے۔ اس منظر میں تمام محدثین اور جرح و تعدیل کے ماہرین پروان چڑھے۔ لاکھوں جعلی احادیث اِدھر اُدھر چل رہی تھیں، صبح آدمی قدری ہوا، دوپہر کو جہمی، شام کو رافضی، رات کو سنی، آدھی رات کو فلسفی ملحد ہو گیا، اس وقت کیسا آزاد معاشرہ تھا؟ ہر گلی، بازار، پارک میں قال قال کی بلند آوازیں گونج رہی تھیں، کیا منظر تھے …
عبد الرحمن بن مہدی نے قوتِ حافظہ بھی غیر معمولی پایا تھا، تمام ائمہ حدیث نے ان کی قوتِ حافظہ کا اعتراف کیا ہے، اس کا اندازہ عبد اللہ کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار ابن مہدی نے بیس ہزار حدیثیں مجھے اپنے حافظہ سے املا کرائیں تھیں۔
تبصرہ: ابن مہدی نے اس شخص عبد اللہ پر رحم کیا، اس نے صرف 20 ہزار روایتیں لکھی۔ کوفہ، بغداد، بصرہ وغیرہ میں لاکھوں جعلی احادیث پنگ پونگ کی طرح اِدھر اُدھر چل رہی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوفہ، بغداد، بصرہ وغیرہ میں خوش قسمتی سے ہر شخص ایک سپر کمپیوٹر تھا۔ تھا جس کے پاس کئی ہزار پینٹا بائٹ میموری تھی، لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ انہوں نے یادداشت کے لیے کون کون سی خوراک لی۔
ایسا لگتا ہے کہ خوش قسمتی سے ہر شخص ایک سپر کمپیوٹر تھا جس کی جیب میں ہزاروں جعلی روایتیں تھیں۔ کیا کوفہ، بصرہ، بغداد ’میٹرکس‘ فلم جیسی جگہ ہے؟
٭٭٭
طلاق کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سمجھ لیجئے
غصے، مذاق، زور زبردستی اور نشے کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔
طلاق اور حلالہ
خیبر ایجنسی کی ایک با غیرت پٹھان خاتون کا واقعہ
جسے خاوند نے غصے میں طلاق طلاق طلاق کہہ دیا اور پھر غصہ اترنے پر مولوی کے پاس حلالہ کیلئے لے گیا تو اس با غیرت خاتون نے کہا کہ اے کنجر مولوی خبردار مجھے ہاتھ لگایا اور اس نے مولوی کو تیز دھار خنجر دکھایا اور کہا کہ میں تمہارا سارا سامان کاٹ دوں گی۔ غلطی اس کتے نے کیا ہے تم جو بھی کرنا ہے اس کے ساتھ کرو، ہمارا اس میں کوئی قصور یا واسطہ نہیں
اور پھر مولوی نے اس کے شوہر ساتھ حلالہ کیا۔
میرا فتویٰ یہ ہے کہ حلالہ شوہر کے ساتھ ہونا چاہیے۔
بے شرم دلال مولوی کہتے ہیں کہ طلاق تو ہوتی ہی غصے میں ہے، خوشی میں کون طلاق دیتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے۔
دیکھیں نکاح اس زمین پر مرد اور عورت کے درمیان مقدس ترین بندھن اور سماجی اور انسانی معاہدہ ہے جس پر پوری نسل انسانی یا نوع انسانی کی بقا اور تسلسل کا انحصار ہے، غصے کو حرام قرار دیا گیا ہے، اگر آپ ایک معمولی شراکت کے دنیاوی معاہدے کو غصے، مذاق اور نشے کی حالت میں ختم نہیں کر سکتے تو نکاح جیسے مقدس اور عظیم معاہدے کو کیسے آناً فاناً ختم کر کے ہوا میں اڑا سکتے ہیں؟
قرآن کہہ رہا ہے کہ جیسے تم نے اجتماعی سماجی، باہمی خاندانی رضامندی اور خوشی سے نکاح کیا جس میں لوگ گواہ بنے، اب اسی ہی طریقے سے طلاق کی طرف جاؤ، یعنی اکیلا مرد کسی کی بیٹی، بہن اور عزیزہ کو طلاق طلاق طلاق کی غصے میں بکواس کر کے نہ بھگا دے بلکہ سوچ سمجھ کر، بیٹھ کر بڑوں سے مشورہ کر کے باقاعدہ جس عزت و احترام سے اس خاتون کو لایا ہے، اگر وہ بھی ناگزیر ہو تو تب، اسی طرح سے اسے رخصت کرے، قانون کے مطابق عدالت سے طلاق کیلئے نوٹس دے اور پھر فیصلہ لے، اللہ نے دین کو انصاف کہا ہے اس لئے غصے میں انسان انصاف نہیں کر سکتا بلکہ ظلم اور زیادتی ہی کر سکتا ہے، ہمارے دکاندار مولوی چونکہ ایسے حرام کاموں سے مال کماتے، خود ساختہ ’حلالے‘ کے عمل کے نام پر زنا کرتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ جی طلاق تو ہوتی ہی غصے میں ہے، ویسے ٹھنڈے دل سے کون طلاق دیتا ہے، جو بالکل بکواس منطق ہے اور خلاف عقل و انصاف ہے، اس لئے غصے میں طلاق ہو ہی نہیں سکتی، اور نہ ہی اس کیلئے کسی دکاندار چندہ خور مولوی یا نام نہاد مفتی کے پاس جانا چاہئے اور نہ ہی ان سے کسی فتوے کی ضرورت ہے، وہ خاتون بالکل آپ کی بیوی ہے اور غصے میں طلاق ہوتی ہی نہیں۔
٭٭٭
بکواسیات
حدیث کی نئی بہت تازہ اصطلاح ’بکواسیات‘ نزول ہوئی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیرِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ قُلْتُ لِلزُّبَیرِ إِنِّی لاَ أَسْمَعُک تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم کمَا یحَدِّثُ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ۔ قَالَ أَمَا إِنِّی لَمْ أُفَارِقْہُ وَلَکنْ سَمِعْتُہُ یقُولُ ’مَنْ کذَبَ عَلَىَّ فَلْیتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ‘۔
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہﷺ کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
بخاری 107۔ کتاب العلم۔ باب إِثْمِ مَنْ کذَبَ عَلَى النَّبِی صلى اللہ علیہ و سلم
عبد اللہ بن زبیرؓ 2 ہجری میں پیدا ہوئے اور 73 ہجری میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
آپ کے والد زبیر بن عوامؓ کا انتقال 36 ہجری کو ہوا۔
یعنی یہ مکالمہ باپ اور بیٹے کے درمیان 36ھ سے پہلے ہوا تھا۔
میرا خیال ہے کہ یہ مکالمہ 30 ~ 36 ہجری کے درمیان میں ہوا تھا۔ اور عبد اللہ بن زبیر کی عمر 28 سے 34 سال کے درمیان تھی۔
اب یہ جو فلاں فلاں ہیں، وہ کون ہیں؟ اپنے دماغ اور عقل کا استعمال کریں۔ میں ان فلاں فلاں جانتا ہوں۔ لیکن آپ کو بھی اپنی عقل کا استعمال کرنا چاہیے۔
حدیث کی کتابوں میں ایک ہی موضوع کی روایات کے متون میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ بخاری کی روایتیں بھی شامل ہیں۔
جس کا جو دل کرے وہ کہانی سناتا ہے۔
مثال کے طور پر۔
بخاری # 107
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیرِ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ قُلْتُ لِلزُّبَیرِ إِنِّی لاَ أَسْمَعُک تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم کمَا یحَدِّثُ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ۔ قَالَ أَمَا إِنِّی لَمْ أُفَارِقْہُ وَلَکنْ سَمِعْتُہُ یقُولُ ’مَنْ کذَبَ عَلَىَّ فَلْیتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ‘۔
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہﷺ کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
آئیے بخاری کی دوسری روایت کا موازنہ کریں۔
بخاری # 110
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیرَةَ، عَنِ النَّبِی صلى اللہ علیہ و سلم قَالَ ’تَسَمَّوْا بِاسْمِی وَلاَ تَکتَنُوا بِکنْیتِی، وَمَنْ رَآنِی فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِی، فَإِنَّ الشَّیطَانَ لاَ یتَمَثَّلُ فِی صُورَتِی، وَمَنْ کذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ‘۔
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابو عوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابو صالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابو ہریرہؓ سے وہ رسول اللہﷺ سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔
بخاری اور زہری کا کرشمہ۔
ابن عباس کا نام لے کر امیر المومنین عمر بن خطابؓ پر الزامات لگانا۔
حَدَّثَنَا یحْیى بْنُ سُلَیمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِی ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِی یونُسُ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُبَیدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِی صلى اللہ علیہ و سلم وَجَعُہُ قَالَ " ائْتُونِی بِکتَابٍ أَکتُبُ لَکمْ کتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَہُ ”۔ قَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِی صلى اللہ علیہ و سلم غَلَبَہُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا کتَابُ اللَّہِ حَسْبُنَا فَاخْتَلَفُوا وَکثُرَ اللَّغَطُ۔ قَالَ ’قُومُوا عَنِّی، وَلاَ ینْبَغِی عِنْدِی التَّنَازُعُ ”۔ فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ یقُولُ إِنَّ الرَّزِیةَ کلَّ الرَّزِیةِ مَا حَالَ بَینَ رَسُولِ اللَّہِ صلى اللہ علیہ و سلم وَبَینَ کتَابِہِ۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبد اللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریمﷺ کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر حضرت عمرؓ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباسؓ یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول کریمﷺ کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔
یہ روایت ایک تیر سے دو شکار کی بہترین مثال ہے۔
حضورﷺ کی وفات کے وقت ابن عباسؓ کی عمر کیا تھی، بخاری کی یہ روایت ملاحظہ فرمائیں۔ بخاری #6300
وَقَالَ ابْنُ إِدْرِیسَ عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قُبِضَ النَّبِی صلى اللہ علیہ و سلم وَأَنَا خَتِینٌ۔
اور عبد اللہ ابن ادریس بن یزید نے اپنے والد سے بیان کیا، ان سے ابو اسحاق نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت ابن عباسؓ نے کہ جب نبی کریمﷺ کی وفات ہوئی تو میرا ختنہ ہو چکا تھا۔
اب کوئی یہ کہنا شروع نہ کر دے سعید بن جبیر نے کہا کہ عربوں کا ختنہ بلوغت کے قریب کیا جاتا تھا۔
سعید بن جبیر کا مطلب ہے کہ عرب لڑکا اپنے والدین کے پاس گیا اور انہیں اشارہ کیا کہ ’میں بلوغت کا حامل ہوں، برائے مہربانی میری ’چڑیا‘ کو ضرور اڑائیں۔
یا دوسرا منظر …
رکض صبی بابتہاج ویصرخ یا أبی لقد بلغت سن البلوغ، أرجوک أن تطیر یا ’العصفور‘
ایک لڑکا خوشی سے بھاگا اور چیخا ارے ابا مجھے بلوغت ہو گئی ہے، مہربانی فرما کر میری ’چڑیا‘ کو اڑا دو۔
عرب معاشرے میں کیا مناظر تھے؟
بخاری اور زہری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک چھوٹا ختنہ شدہ لڑکا ایک ادھیڑ عمر کے آدمی عمر بن خطابؓ پر اعتراض کر رہا تھا۔ یہ بخاری و زہری کا کرشمہ ہے۔
بخاری 115۔ کتاب العلم۔ باب الْعِلْمِ وَالْعِظَةِ بِاللَّیلِ
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیینَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِی، عَنْ ہِنْدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعَمْرٍو، وَیحْیى بْنِ سَعِیدٍ، عَنِ الزُّہْرِی، عَنْ ہِنْدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتِ اسْتَیقَظَ النَّبِی صلى اللہ علیہ و سلم ذَاتَ لَیلَةٍ فَقَالَ ’سُبْحَانَ اللَّہِ مَاذَا أُنْزِلَ اللَّیلَةَ مِنَ الْفِتَنِ وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ أَیقِظُوا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ، فَرُبَّ کاسِیةٍ فِی الدُّنْیا عَارِیةٍ فِی الآخِرَةِ ”۔
صدقہ نے ہم سے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے معمر کے واسطے سے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں، زہری ہند سے، وہ ام سلمہؓ سے، (دوسری سند میں) عمرو اور یحییٰ بن سعید زہری سے، وہ ایک عورت سے، وہ ام سلمہؓ سے روایت کرتی ہیں کہ ایک رات نبی کریمﷺ نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں (جو) دنیا میں (باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔
بخاری کو یہ قصہ سنانے والا صدقہ بن فضل المروزی ہے جو 150 ہجری میں پیدا ہوا اور 223 ہجری میں فوت ہوا، اپنی زندگی خراسان میں گزاری، بخاری نے ان سے 43 روایتیں لیں، کوئی نہیں جانتا کہ بخاری ان سے کہاں اور کب ملے؟
غیر معروف خواتین باقاعدگی سے زہری کو کہانیاں سناتی تھی۔ زہری کی کتنی گرل فرینڈز تھیں؟ زہری نے شادی کیوں نہیں کی؟ عورت بازی کا شوقین تو نہیں تھا؟؟ الزام نہیں بلکہ ایک سوال ہے۔
أصحاب النبی الکریم و أمہات المؤمنین حتى کہ الرسول الکریم صلى اللہ علیہ و سلم، زہری اور بخاری سے کوئی محفوظ نہیں۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں