ایک اور شعری مجموعہ
چلو اُداسی کے پار جائیں
از قلم
زینؔ شکیل
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
چلو اُداسی کے پار جائیں
زینؔ شکیل
انتساب!
امّی جی کے نام
جن کی بدولت میں یہاں تک پہنچ پایا
٭
سرد ہوائیں بول رہی ہیں بالکل اس کے لہجے میں
میں بھی یاد کی چادر اوڑھے اس کو سننے بیٹھا ہوں
بِسمِ اللہ الَّرحمٰنِ الرَّحِیم
جتنی بھی زینؔ شکیل کی شاعری دیکھی پڑھی بہت لطف آیا۔
میں کسی کو فکر سخن کی صلاح نہیں دیتا لیکن اگر شعر نہیں کہو گے تو اپنے اوپر ظلم کرو گے۔ اللہ نے زینؔ شکیل کو بھی یہ صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اللہ نے اِسے کامل ولی کے فیض نظر سے نوازا ہے۔
’’خوشبو آپ کے اندر موجود ہے۔ چاہت کے گھپ اندھیروں میں روشنی کا چراغ بن جاؤ جلد ہی تمہیں مان لیا جائے گا۔‘‘
بابا جی صاحب مبارکؒ کی دعائیں زینؔ شکیل کے ساتھ ہیں۔
محمد نظر (سمن آباد، لاہور)
بنام محمد نظر صاحب
آؤ نظر! نظر کہ دکھاؤں بساط شوق
دنیا سجی ہوئی ہے تمہارے خیال سے
ایک توانا شاعر کی آمد
میرا ہمیشہ سے نظریۂ شعر یہی رہا ہے کہ یہ جذبے کی شدت سے پھوٹنے والی خوشبو ہے جو لفظوں کا پیرہن اوڑھ کے اپنے خد و خال بناتی ہے۔ یہ محنت اور مشقت والا کام نہیں بلکہ الہامی عمل ہے۔ جو انسان شاعر پیدا ہوتا ہے وہ بغیر سیکھے ہی اعلیٰ تخلیقی مرتبے پر فائز ہونے کی قدرت رکھتا ہے، البتہ دنیاوی علوم اور تربیتِ فن اُس کی تخلیق میں وسعت اور گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ پھر نظریاتی اساس اور فکری بنیادیں اُسے شاعر سے اعلیٰ شاعر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ایک ایسا ہی فطری شاعر ہے جو وصفِ شعر اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوا ہے۔ اس کے اندر شاعری کا ایک ایسا دریا ہے جو اپنا راستہ بنانے کے لیے بے تاب اور زمینِ ادب کو سیراب کرنے کے لیے بے قرار ہے۔
اُس کے ہاں شعر ابھی مختلف رنگوں اور آہنگوں کو آزما کر اپنے خاص رنگ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ وہ درد کی دولت سے مالا مال ہے اور احساس کی قوت سے بھرا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پہلی کتاب ہی میں میرے جیسے لا پرواہ قاری کی توجہ اور پسندیدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس پر طرّہ یہ ہے کہ زین نے آزاد غزل لکھ کر تخلیقیت پسند تحریک سے منسلک ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ آزاد غزل لکھنا بہت مشکل کام ہے جو کم از کم مستری شاعر تو ہر گز نہیں کر سکتے۔ زین نے نہایت عمدہ آزاد غزلیں لکھ کر آزاد غزل کے روشن مستقبل کا اعلان کر دیا ہے۔
میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے آنے والے ہر تخلیقی دورانیے میں اپنے آپ کو منواتا چلا جائے گا۔
فرحتؔ عباس شاہ
شاعرِ دل فگار
لفظ ہمارے ارد گرد بکھرے ہوتے ہیں، ہر کوئی انھیں اپنے حساب سے حسب ضرورت استعمال کرتا ہے۔ شاعری الفاظ کی ایسی ترتیب ہے جو لکھنے والے کے محسوسات کو ایسے پیرائے میں تصویر کرتی ہے کہ پڑھنے والا اُس میں اپنے منظر دیکھنے لگتا ہے۔ محبت، ایسا جذبہ جس پر نجانے کب سے لکھا جا رہا ہے اور نجانے کب تک لکھا جاتا رہے گا۔ اس کے تمام شیڈز کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا رہا ہے اور آگے بھی بیان کیا جاتا رہے گا۔ ہجر و وصال کی اس الف لیلوی داستان میں قصہ گو ہر دور میں جڑتے رہے ہیں۔ زینؔ شکیل اسی ہجوم میں ایک توانا آواز ہے جو اپنا لہجہ بھی رکھتی ہے اور اپنا اسلوب بھی۔ جو روایات کے ساتھ جُڑا بھی محسوس ہوتا ہے اور نئے دور کے نئے تقاضوں کے ساتھ چلتا ہوا بھی۔ وہ محبت سے بھرا ہے اور اس محبت کا انعکاس اس کے لکھے ہر لفظ سے ہو رہا ہے۔ وہ اپنے احساسات کو مصرعوں میں پروتا ہے اور ہر مصرعہ دھڑکنے لگتا ہے۔ وہ محبت کے سب موسموں کو محسوس کرتا ہے۔ زینؔ غمِ جاناں کو غمِ دوراں سے لِنک (Link)کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ کہیں کہیں ہجر کے عذابوں سے مضطرب بھی نظر آتا ہے اور کہیں آنے والے اچھے وقتوں کی امید بھی اس کے الفاظ میں پوری شدت سے جگمگاتی نظر آتی ہے۔
زینؔ شکیل، چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بڑی باتیں کہہ جاتا ہے۔ اس کی غزل توانا، تراکیب تازگی بھری اور الفاظ سادہ ہیں۔ اس کا شعر دل کو چھو تا ہے اور خود بخود یاد ہو جاتا ہے۔ روایات سے جڑے رہتے ہوئے، راویات سے انحراف کے لیے حوصلہ چاہیے ہوتا ہے اور کی بہادری اس کی شاعری کو اس کے ہم عصر لکھنے والوں پر ایک برتری دیتی ہے۔ زین ؔ اپنی دل کی بات بتانے میں کسی پابندی سے خوفزدہ نہیں۔ اُس نے آزاد غزل بھی کہی ہے اور ہائیکوز بھی۔ اس کی نظم میں الفاظ کیفیت کو ایسے باندھتے ہیں کہ منظر آنکھ کے پردے پر کھچ جاتا ہے اور پڑھنے والا اس نظم کی روانی کے ساتھ بہنے لگتا ہے۔ ’’اداسی‘‘، ’’جوکر‘‘، ’’تجھے خود سے نکالا ہے‘‘ اور ’’میرے سارے موسم تم ہو‘‘ جیسی نظمیں اس کی سوچ کی زرخیزی اور اسلوب کی تازگی کا پتا دیتی ہیں۔
موضوعات کے حوالے سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زین ؔ کی شاعری کے کینوس میں مزید وسعت آئے گی ابھی تو وہ غمِ جاناں کے مختلف شیڈز کو الفاظ کے پیرائے میں لا رہا ہے مگر غم دوراں سے الجھتے اس کے اشعار اس کی تخیلاتی پرواز کی طاقت کا پتا دیتے ہیں۔ مری دعا ہے کہ اللہ زینؔ شکیل کے قلم کو مزید طاقت اور سوچ کو مزید وسعت عطا کرے۔ آخر میں اس کی مالا سے کچھ موتی شیئر کرتا چلوں۔
٭
لفظ میرے ہی مری ہستی ہیں
میں ہی اتروں گا جہاں لکھو گے
٭
زینؔ یوں اس کو یاد کرتا ہوں
جیسے وہ امتحاں میں آئے گا
٭
مجھے بکھرے بکھرے سے بال یوں بھی پسند ہیں
مجھے ماتمی سے لباس میں نہ ملا کرو
اسے شاعری کا ادب یہ کس نے سکھا دیا
مری بات بات پہ داد دیتا ہے طنز سے
٭
اک طرف تیرے جیتنے کی خوشی
ایک جانب ہے تیری چال کا دکھ
ایک دل وہ بھی مضطرب قیدی
ہے مجھے ایسے یرغمال کا دُکھ
٭
کہاں ہے آئینے کی راست گوئی
یہ چہرہ تو ہمارا ہی نہیں ہے
اسے کیوں وقت میں شامل کروں میں
اسے میں نے گزار ہی نہیں ہے
٭
تم بھی میرے فسوں میں مت آنا
آج کل سخت دل نشیں ہوں میں
٭
میں نے کہا کہ حسن کا جادو سا چل گیا
اس نے کہا کہ سورۂ یوسف کا دَم کرو
میرے چہرے پہ لگے زخم یہ بتلاتے ہیں
میرے چہرے سے رعایت نہیں کی جا سکتی
٭
گردشِ ایام میں بکھرا ہوا
میں کسی سے بے خبر ہوتا گیا
٭
بے بسی کے شہر میں ہم زندگی سے تنگ ہیں
دور رہ بس دور رہ اے بردباری شکریہ
٭
بھول بھال جانے کا
یاد کرنے والوں کو
حوصلہ نہیں ہوتا
عاطف سعید
اسلام آباد
لفظوں کا کھلاڑی
اردو غزل کے نامور شاعر جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا تھا،
’’دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر‘‘
اردو ادب بالخصوص اردو شاعری کی دو معروف اصناف غزل اور نظم کو آج کل جو عروج حاصل ہے، نوجوان شعراء کا بھی اس گلستان میں لہو شامل ہے۔ زینؔ شکیل بھی اُن میں سے ایک ہے۔ تیکھے نقوش، اداس لہجہ، توانا رنگ چاہے نظم ہو یا غزل جگر مراد آبادی، منیر نیازی، محسن نقوی اور نصیر الدین نصیر جیسے الفاظ کے بادشاہ گروں کی صف میں زینؔ شکیل شاعری کے آسمان پر ابھرتا ہوا لفظوں کا کھلاڑی ہے جو لفظ کی حرمت اور پیش کاری سے بخوبی واقف ہے۔
حسین دل رکھنے والے زینؔ شکیل کا مجموعہ ’’چلو اُداسی کے پار جائیں ‘‘ اردو شاعری میں حسین محبت کا افسانہ ہے۔ امید ہے ایک سچے جذبوں کے ترجمان کو خوش آمدید کہا جائے گا کیونکہ
’’تکلف سے، تصنع سے، بَری ہے شاعری اپنی‘‘
والسلام
صفدر اعوان (شاہ دلؔ)
اسلام آباد
اپنی بات
معزز قارئین!
میں اپنے اولین شعری مجموعے کی اشاعت پر جو کہ مالکِ کائنات کے بے پایاں فضل و کرم سے آپ کے ہاتھوں تک پہنچا۔ تہہ دل سے ممنون ہوں چند عظیم ہستیوں کا جن کے ذکر کے بغیر میری ہستی اور میرا ’’یہاں تک ہونا‘‘ بالکل نا ممکن ہے۔
سب سے پہلے میری والدہ محترمہ جن کی گودِ عاطفت سے تربیت پا کر اپنے مرشد سید سلطان عالم قریشی اور میرے بزرگ، میرے بیسٹ فرینڈ اور نہایت ہی قابلِ احترام نظر محمد صاحب کے حضور پہنچا جنہوں نے مجھے کمالِ شفقت سے نوازا اور اُن کی دعائیں میرے لیے ایک ڈھال ثابت ہوئیں۔ اور ممنون ہوں اپنے ان محسنین کا جن کا میرے والد محترم شکیل اختر (مرحوم) کی وفات کے بعد میری پرورش و تربیت میں نمایاں کردار ہے میرے دادا جان محمد حسین بٹ (مرحوم) میرے تایا جان پرویز اختر (مرحوم)، جمیل اختر اور جاوید اختر اور میرے بھائی جنھوں نے مجھے ہر کامیابی پر سراہا اور جن کی محبتیں میں نے اپنے دامن میں سمیٹیں اُن میں حسنین شکیل، دانش پرویز، حسن پرویز، حمزہ پرویز، ندیم جاوید، نوید رضوی، وحید جاوید اور نعیم جاوید ہیں جن کی محبتیں سدا میرے ساتھ رہیں گی۔
میری زندگی کے سفر میں میرے کچھ خوبصورت دوست جن کا ساتھ ہمیشہ مشکلات میں رہا ان کا ذکر اپنی اس کتاب میں کرنا بھی میں ایک اہم اور ضروری حصہ سمجھوں گا جن میں زین نظر، رحمان الدین، سلطان نظر، صفدر اعوان (شاہ دلؔ)، امجد میر، شیخ توکل علی، شیخ سمین، شیخ مبین، وحید مہر، عدیل ڈار، اکبر ڈار، حسن نسیم کنٹھ، اسد انصر، ندیم مکڑ، شرجیل بٹ، اسامہ کنٹھ، عصمت خان، سمیر بٹ، احسن بٹ، ملک محمد آصف، ملک طارق، رانا محمد سکندر، فیصل فیاض، شاہنواز علی بٹ، بلال دلاور، شاہنواز خان، حیدر شیخ، حسن شاہد، عثمان رشید، ناصر علی، عمر امتیاز، حافظ غلمان اور وہ تمام محبت کرنے والے دوست جن کا میں نام نہ لے سکا مگر وہ میری زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جن کے ساتھ اور محبتوں کا احسان میں کبھی اتار نہیں پاؤں گا۔
اپنی شاعری کے متعلق چند باتیں کرنا چاہوں گا کہ میرے تمام لفظ جن میں پڑھنے والوں کو احساسِ محبت، دکھ اور درد کی کڑیاں نظر آئیں گی۔ امید کرتا ہوں کہ تمام لوگ میری شاعری محض ایک احساس سمجھ کر پڑھیں گے اور جس احساس میں ڈوب کر یہ لکھی گئی ہے اس تک پہنچیں گے تو یقیناً یہ اُن کے لیے لطیف ثابت ہو گی۔
اور تمام پڑھنے والوں سے دعا کی التماس کرتا ہوں کہ مجھے اپنی دعاؤں میں خصوصی طور پر یاد رکھیں اور میرے استادِ محترم سید فرحت عباس شاہ صاحب کو جن کی توجہ، شفقت و محبت اور دعاؤں کی بدولت آج میں اس قابل ہوا۔ سانس نے مہلت دی تو یونہی اپنے الفاظ انشاء اللہ آپ کی نذر کرتا رہوں گا۔
زینؔ شکیل
Cell: 0342-5956300
Email: zainshakeel300@gmail.com
Website: http://www.zainshakeel.blogspot.com/
نعت رسول مقبولﷺ
دل آپؐ کی خوشبو سے ہے آباد نبی جیؐ
کرتے ہیں ہر اک درد سے آزاد نبی جیؐ
یہ جن و بشر، ماہ و مہر، دور کی باتیں
ذرّوں کی بھی سن لیتے ہیں فریاد نبی جیؐ
اک نظرِ کرم ہو تو کہیں داد بھی پاؤں
اب تک ہوں فقط مصرعۂ بے داد، نبی جیؐ
تم حال صبا، در پہ مرا، رو کے سنانا
کہنا کہ یہ بے بس کی ہے رُوداد، نبی جیؐ
جب آپؐ سنواریں گے تو حالات ہمارے
گردش بھی نہ کر پائے گی برباد، نبی جیؐ
تا عمر رہے زینؔ گدائے شہِ بطحاؐ
فرمائیے منگتے کا جہاں شاد، نبی جیؐ
٭٭٭
چلو اداسی کے پار جائیں
بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی، ملال کوئی
کہاں کسی کی؟ مجال کوئی!
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میں سسک سسک کر
اکھڑ چکی ہے طناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے!
یہ سلسلہ ہائے روز و شب
اور اداس رستہ!
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پر نم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اداسیوں کی!
کسی کو روکیں، کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملو نا کہ مسکرائیں!
جو آ گئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اداسی کے پار جائیں!
٭٭٭
درد کی اپنی ریت وچھوڑا
آج گیا پھر جیت وچھوڑا
ساز پِیا کے سنگ گئے سب
رہ گیا لب پر گیت وچھوڑا
دے گئی مجھ کو ایک محبت
ایک مرا من میت وچھوڑا
قائم رہتی ہے سرشاری
غم کا ہے سنگیت وچھوڑا
بکھرا میں غم کے صحرا میں
کھا گیا میری پریت وچھوڑا
زینؔ ہوا میں مہکی خوشبو
اب جائے گا بِیت وچھوڑا
٭٭٭
وہ کہیں بدگماں نہ ہو جائے
زینؔ ہر بات سرسری کرنا
٭٭٭
درد سوغات تھی اداسی کی
چاندنی رات تھی اداسی کی
آج چہرہ نہیں تھا پہلے سا
کوئی تو بات تھی اداسی کی
آئینہ دیکھ کر کھلا یارو
یہ ملاقات تھی اداسی کی
خواہ مخواہ اشکبار ہو بیٹھے
سرسری بات تھی اداسی کی
زینؔ! مصروف ہو گئے اب تو
یار کیا بات تھی اداسی کی!
٭٭٭
جانے کیوں؟
اب تو تم یاد بھی نہیں آتیں
اب کوئی بات بھی نہیں ہوتی
اب تو دل ٹوٹنے کا ڈر بھی نہیں
اب تو خدشہ نہیں جدائی کا
اب تو کھونے کو کچھ نہیں باقی
چاند ہمدردیاں نہیں کرتا
اب ستاروں سے بات چیت نہیں
اب کہاں انتظار راتوں کا
اب تو دن بھی اداس رہتے ہیں
اب تو خط بھی مجھے نہیں آتے
کوئی پیغام بھی نہیں لاتا
اب تو معمول ہی کچھ ایسا ہے
پھر بھی مجھ کو سمجھ نہیں آتا
آنکھ میں کیوں نمی سی رہتی ہے؟
٭٭٭
آزاد غزل
اُس نے اتنا تو کر لیا ہوتا
بات بڑھنے سے روک لی ہوتی
تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ
میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا
تجھ سے بچھڑے تو ہو گئی فرصت
وقت نے کتنی جلد بازی کی
میں، مرے زخم، میری تنہائی
تجھ سے کس نے کہا ادھورا ہوں
آئینے سے تمہارے بارے میں
بات کرنا عجیب لگتا ہے
بات بے بات چپ سا ہو جانا
روٹھنا ہے تو روٹھ جاؤ ناں
ہنس کے راتیں گزار دیتا ہوں
میرا رو کر بھی جی نہیں بھرتا
زینؔ میں اس کا نام لینے میں
آج بھی احتیاط کرتا ہوں
٭٭٭
میرے دل سے جدا نہیں ہے ناں
تو مجھے بھولتا نہیں ہے ناں
پھیر لوں کس طرح نگاہوں کو
یار دل کا بُرا نہیں ہے ناں
وہ نہیں ہے تو کوئی اور سہی
دل مگر مانتا نہیں ہے ناں
میں کہیں رکھ کے بھول بیٹھا ہوں
دل جہاں تھا وہاں نہیں ہے ناں
زینؔ پھر سے پکار لو اس کو
اس نے شاید سنا نہیں ہے ناں
٭٭٭
کیا مرے دکھ کی دوا لکھو گے
چارہ گر ضبط کو کیا لکھو گے
سامنا بھی تو نہیں ہو سکتا
تم مجھے خط بھی کہاں لکھو گے
لفظ میرے ہی مری ہستی ہیں
میں ہی اتروں گا جہاں لکھو گے
دیکھ سکتا ہوں نہ سُن سکتا ہوں
دوستو اب مجھے کیا لکھو گے
سانس لے کر بھی نہیں جی سکتے
کب ہمیں وقتِ قضا لکھو گے
٭٭٭
قدم قدم تے پِیڑ وے عشقا
اکھیاں دے وچ نِیر وے عشقا
ہولی ہولی مار وے سانوں!
ہن نیناں دے تیر وے عشقا
جھنگ بیلے وچ رانجھن رُلیا
روندی پھردی ہیر وے عشقا
اُس دیاں اکھیاں وسدیاں ہر دم
تُوں جس جس دا پِیر وے عشقا
زینؔ دہائیاں دیوے رو رو
ہو گئے درد اَخیر وے عشقا
٭٭٭
تم کیا جانو!
رونے والو!
درد کہاں، کب کس لمحے
کس پور میں آ کر
اپنا آپ دکھا دیتا ہے
تم کیا جانو!
تم کو تو بس خستہ حال پہ
رونا دھونا آتا ہے!
تم کیا جانو
لا وارث سی خواہش کوئی
چھپ چھپ کر جب
ایک یتیمی کو روتی ہے
تم کیا جانو
درد سوتیلا بن کر کیسے
برتاؤ کرتا ہے اُس سے
تم کیا جانو
سرد ہوا میں
کن کن بھولے بسرے،
بچھڑے لوگوں کے غم یاد آتے ہیں
تم کیا جانو!
غم کی درد بھری آغوش میں
پل بھر آنکھیں بند کر لینا
اور کبھی پھر کھول نہ پانا
تم کیا جانو یہ سب کیسا ہوتا ہے!
صحرا میں اک تنہا پیڑ کے سائے میں
پل بھر کو بیٹھو
تو معلوم پڑے نا تم کو!
کھوکھلے خالی پیڑ سے
صحراؤں میں جھلستی دھوپ اور
مردہ لُو کا قصیدہ آ کے سنو
تو تم کو بھی معلوم پڑے ناں
تم کو تو بس ہجر زدوں کا ماتم کرنا آتا ہے
تم کیا جانو درد پرستی کیا ہوتی ہے
تم کو تو بس اشک بہانے آتے ہیں!
تم کیا جانو بے حالی اور
بے چینی کیا ہوتی ہے!
٭٭٭
زخم ایسا نشاں میں آئے گا
کوئی پھر سے گماں میں آئے گا
آج رستے بھی انتظار میں ہیں
وہ کوئے دلبراں میں آئے گا
خواب بھی کر گئے کہیں ہجرت
کون خالی مکاں میں آئے گا
وہ زمیں پر تو آ نہیں سکتا
وہ کہاں آسماں میں آئے گا
زینؔ یوں اس کو یاد کرتا ہوں
جیسے وہ امتحاں میں آئے گا
٭٭٭
سوچتا ہوں جانے کیوں؟
بے قرار موسم میں
کچھ اداس لمحوں میں
زندگی کے ہاتھوں میں
بے خودی کے گھیرے میں
ہر گلی کی نکّڑ پر
ہر ندی کنارے پر
میری آنکھ سے بہتے
آنسوؤں کے دھارے پر
تیرے ساتھ رہنے کا!
شہر بھر کے چہروں کی
سب حسین آنکھوں میں
جھانک کر تری خاطر
تجھ کو تکتے رہنے کا!
خوشبوؤں کے دامن میں
ہر کلی کی آہٹ پر
تجھ سے بات کرنے کا!
ان اداس سڑکوں پر
رات کے اندھیروں میں
صرف تیرے بارے میں
سوچتے ہی رہنے کا!
سوچتا ہوں جانے کیوں!
٭٭٭
ہوا، صحرا، سمندر اور پانی، زندگانی
کسی بچھڑے ہوئے کی ہے نشانی، زندگانی
کوئی موسم، کوئی لمحہ، کسی کا سُرخ آنچل
مجھے اچھی لگی تیری کہانی، زندگانی
تمہارے چھوڑ جانے پر ہوئے ہیں طنز ایسے
سنو آ کر کبھی میری زبانی، زندگانی
اُسے کیسے بتاؤں کس طرح میں نے بسر کی
پڑی تنہا مجھے خود ہی نبھانی، زندگانی
نئے ہیں زینؔ رستے پر کہاں وہ جاذبیت
ہمیں تو راس تھی برسوں پرانی، زندگانی
٭٭٭
وہ اک غم کا گیت سنائے بیٹھا تھا
میں بھی سارے درد بھلائے بیٹھا تھا
رستہ کیسے ملتا میرے خوابوں کو
میں نیندوں سے شرط لگائے بیٹھا تھا
نیند فقط اس بات پہ مجھ سے روٹھی ہے
میں پہلے سے خواب سجائے بیٹھا تھا
میں آمین کہے جاتا تھا اُس لمحے
جب وہ اپنے ہاتھ اُٹھائے بیٹھا تھا
زینؔ اُسی کے دامن سے وابستہ ہوں
جو ہاتھوں سے ہاتھ چھڑائے بیٹھا تھا
٭٭٭
آزاد غزل
تری دید چھین کے لے گئی ہے بصارتیں
تجھے ڈھونڈنا تھا، چراغ ہاتھ سے گر گیا
ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا
ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر
تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب
تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا
مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا
مری سانس سانس گواہ ہے کہ میں مر گیا
تجھے اب تلک مری بے بسی پہ گلہ ہے کیوں
مجھے یاد ہے تری کج ادائی کا وقت بھی
تجھے سوچ سوچ کے دن اداسی میں ڈھل گیا
ترے انتظار میں شام حد سے گزر گئی
تو بلند رہتا ہے شوق سے تومیں کیا کروں
مجھے خاک رہنے کا شوق ہے مرا ذوق ہے ٭٭٭
تین اشعار
اُس کا گھر آسماں کے جیسا ہے
اُس کے گھر ماہتاب اُترا ہے
پھر اُسے دسترس میں لانے کا
میری آنکھوں میں خواب اُترا ہے
ایسے نازل ہوا خیال اُس کا
جیسے دل پر عذاب اترا ہے
٭٭٭
مجھے موت دے، نہ حیات دے مرے حوصلے کو ثبات دے
مجھے نقدِ جاں کی طلب نہیں مجھے خواہشوں سے نجات دے
ترے پاس آیا ہوں دور سے مجھے دیکھنے دے قریب سے
مجھے اپنے رخ سے جدا نہ کر مری چشمِ نم کو زکوٰۃ دے
مرے دل میں یار بسا ہوا نہ جدا ہوا، نہ خفا ہوا
نہ مٹے نگاہ کی تشنگی اسے ایک موجِ فرات دے
کبھی دامِ غم سے نکل سکوں کہ دوامِ عشق میں ڈھل سکوں
کبھی لڑکھڑا کے سنبھل سکوں ذرا میرے ہاتھ میں ہات دے
کوئی شام، شامِ فراق سی کوئی صبح، صبحِ وصال سی
مرے گمشدہ، مرے پاس آ مجھے روز و شب سے نجات دے
کہیں آنسوؤں سے جلا ہوا کہیں سسکیوں سے بجھا ہوا
ہوں چراغِ شام بنا ہوا مجھے ایک چاندنی رات دے
ترے سامنے تجھے مل سکوں کبھی خود کو خود سے ملا سکوں
کوئی ایسا لمحہ نصیب کر کوئی ایسی وصل کی رات دے
مری آرزوؤں کا پاس رکھ مجھے اپنے غم میں اداس رکھ
مجھے زینؔ تیری طلب نہیں مجھے میرا حصۂ ذات دے
٭٭٭
آزاد غزل
مجھے بکھرے بکھرے سے بال یوں بھی پسند ہیں
مجھے ماتمی سے لباس میں نہ ملا کرو
مجھے بے وقوف سمجھ رہا ہے مری طرح
مری بے دھیانی سے فائدہ جو اُٹھا لیا
کسی اُس جہان میں مل کے تجھ سے میں کیا کروں
مرے منتشر سے جہان میں مجھے مل کبھی
مرے خوش گماں تری چاہتوں کے نثار پر
مجھے برملا سی محبتوں پہ یقیں نہیں
مرے زخم ہیں انہیں اپنی ذات سے جوڑ مت
مرے چارہ گر مری حسرتوں سے گریز کر
تری حیرتیں مری چلتی سانس کو دیکھ کر
مرے حوصلے کا طلسم ہے جو اٹوٹ ہے
میں قیام گاہ بنا رہا ترے واسطے
تو یہ کیا ہوا مجھے کیوں بکھیر کے رکھ دیا؟
اسے شاعری کا ادب یہ کس نے سکھا دیا
مری بات بات پہ داد دیتا ہے طنز سے
٭٭٭
رُک ہی جاتی کہیں ہَوا، لیکن!
وہ کہیں بھی نہیں رُکا، لیکن!
جب کوئی درد سانس لیتا ہے
مسکراتا ہوں بارہا، لیکن!
میری آنکھیں نہ دشت ہو جائیں
تُو مجھے شوق سے رُلا، لیکن!
کب تلک یوں فریب کھائیں گے؟
اُس کا چہرہ ہے دلربا، لیکن!
زینؔ اُس کو، وفا شناسی پر
شوق سے آئینہ دکھا، لیکن!
٭٭٭
سمندرِ غم کے پار ہو کر، اُداس ہو کر
ملا بھی کیا ہے قرار کھو کر، اُداس ہو کر
ابھی میں کیسے غمِ زمانہ کے پاس جاؤں
ابھی تو آنکھیں ہیں، سُرخ رو کر، اُداس ہو کر
کچھ اسطرح سے، کبھی کبھی وہ، مجھے ملا ہے
حسین آنکھوں میں غم پِرو کر، اُداس ہو کر
اُسے کہو نا ہنسی تو لب پر سجائے رکھے
چلا ہے سینے میں درد بو کر، اُداس ہو کر
جسے ہنسی کا ہنر سکھایا تھا میں نے یارو
بچھڑ گیا ہے وہ شخص رو کر، اُداس ہو کر
٭٭٭
چاہت کی اک خاص نشانی کھو جائے
مجھ سے گر اک شام سہانی کھو جائے
طیش کا عالم اور نگاہوں میں آنسو
جیسے اِک راجہ کی رانی کھو جائے
تم چہرا ڈھلنے سے پہلے لوٹ آنا
شاید مجھ سے مِری جوانی کھو جائے
حیرت جھانک رہی ہے گم سم آنکھوں سے
جیسے اُس کی آنکھ کا پانی کھو جائے
پاگل بن کر سر کھجلاتا رہتا ہوں
جب تیری تصویر پرانی کھو جائے
زینؔ کسے پروا ہے شوقِ دید لیے
شہر کی بھیڑ میں اک دیوانی کھو جائے
٭٭٭
مجھے پائمال تو کر کبھی
مجھے تُو نڈھال تو کر کبھی
مجھے روز و شب کی سزا نہ دے
مرا کچھ خیال تو کر کبھی
مرا نام لے کے زبان سے
مجھے بے مثال تو کر کبھی
تجھے زینؔ شوقِ ہجوم ہے؟
ذرا انتقال تو کر کبھی!
٭٭٭
اُسے خبر تھی!
اسے خبر تھی مجھے ہجر راس آتا ہے
اسے پتا تھا اداسی سے دوستی ہے مری
اسے خبر تھی سبھی درد یار ہیں میرے
وہ جانتا تھا مری غم سے ہے سلام دعا
اسے خبر تھی سبھی زخم مجھ پہ سجتے ہیں
سو ان سبھی کے لیے اس نے مجھ کو چھوڑ دیا
کہیں وہ مجھ کو کسی درد سے جدا نہ کرے
مرے اداس شب و روز میں خلل نہ پڑے
کوئی بھی زخم نگاہیں نہ پھیر لے مجھ سے
کوئی بھی غم نہ کہیں جان چھوڑ دے میری
کہیں فراق کی لذت نہ مجھ سے کھو جائے
بس اس لیے ہی مرا اُس نے ہاتھ چھوڑ دیا
اسی لیے تو مرا اُس نے ساتھ چھوڑ دیا
یقین مانیے دل کا برا نہیں تھا وہ!
٭٭٭
اک اثر جو مری زبان میں ہے
اب تلک وہ مرے گمان میں ہے
اپنے اندر ہی پھڑپھڑاتا ہوں
اک رکاوٹ مری اُڑان میں ہے
کر چکا اب تجھے سپردِ خدا
اب مری جان، میری جان میں ہے
ایک رُودادِ حادثہ موجود
میرے ہر زخم کے نشان میں ہے
منزلیں بھی دکھائی دیتی ہیں
اُس کا چہرہ مرے دھیان میں ہے
زینؔ یوں اُسکے روبرو مت جا
وہ ابھی سخت امتحان میں ہے
٭٭٭
اک بہانہ تھا شام سے پہلے
لوٹ آنا تھا شام سے پہلے
شام کے بعد جیت جاتے ناں!
ہار جانا تھا شام سے پہلے
رات جو رونے دھونے بیٹھو گے
غم سنانا تھا شام سے پہلے
اب بھلا رات کیسے گزرے گی
دل دُکھانا تھا شام سے پہلے
چاہے تم بعد میں مُکر جاتے
مان جانا تھا شام سے پہلے
یہ نہیں وقت روٹھ جانے کا
روٹھ جانا تھا شام سے پہلے
شام میں وہ غزل نہیں سُنتا!
زینؔ جانا تھا شام سے پہلے
٭٭٭
آزاد غزل
جسے مانگتا ہوں میں ہر دعا کی اخیر تک
مرے زائچے کی وہ ابتدا نہیں ہو رہا
تجھے بھولنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں
تجھے یاد کرنے کا سلسلہ تو کمال تھا
میں اُسی کے ہاتھ میں دے چکا ہوں وجود بھی
مجھے لے اُڑا ہے مگر ہوا نہیں ہو رہا
مری بے بسی، مری بے کسی، مرے حوصلے
مری آرزو، مری آبرو، مری جستجو
کوئی عہد اُس نے کیا نہیں سو برا نہیں
مرا بد گماں ابھی بے وفا نہیں ہو رہا
مرے خواب بکھرے پڑے ہوئے تھے اندھیر میں
سو مری نگاہ کی روشنی کو چرا لیا
تجھے سوچ سوچ کے سوچ، سوچ میں پڑ گئی
نہ خبر ہوئی میں یہاں، وہاں سے کدھر گیا
ابھی کس طرح سے پلک جھپکنے کا سوچ لوں
کہ وہ شخص مجھ سے ابھی جدا نہیں ہو رہا
٭٭٭
ضبط میں جان جا نہیں سکتی
اب جدائی ستا نہیں سکتی
میرا ایمان ہے کہ وہ لڑکی
ساری باتیں بھلا نہیں سکتی
آج کل آپ میرے منہ نہ لگیں
زندگی مسکرا نہیں سکتی
وہ مری رات کا چراغ جو ہے
چاندنی جی جلا نہیں سکتی
میں ترے وقت میں شمار نہیں
تُو مجھے یوں گنوا نہیں سکتی
میری آنکھوں کو دیکھنے والی
زینؔ آنکھیں ملا نہیں سکتی
٭٭٭
آزاد غزل
کسی رہگزر کا غبار تھا جو اُڑا دیا
یا سجا دیا کسی بے حسی کی دکان پر
ترا درد مجھ سے خفا نہ ہو کے گزر پڑے
ترا نام لینے کا حوصلہ نہیں ہو رہا
جو شکار کرنے کو آ گئے وہ اُجڑ گئے
کہ کسی نے تیر چلا دیا ہے کمان پر
وہ جو کر رہا ہے مری حیات کے فیصلے
وہی شخص، شخص رہا، خدا نہیں ہو رہا
کوئی حرف ٹھیک سے پھر ادا نہیں ہو سکا
ترا نام ایسے اٹک گیا ہے زبان پر
ابھی گم ہوں اپنی اداسیوں کے حصار میں
ترا سلسلہ ابھی جا بجا نہیں ہو رہا
مرے خواب بھی کسی اور راہ پہ چل پڑے
مجھے اک خیال پہ سوچنے بھی نہیں دیا
ترا درد بھی مری ذات سے نہ نکل سکا
مرا ضبط مجھ سے ابھی خفا نہیں ہو رہا
٭٭٭
لفظ کتنے ہی روانی میں رہے
ہم فقط اپنی جوانی میں رہے
دل کہیں اور کہیں ہے دھڑکن
کون بے ربط کہانی میں رہے
اُس نے تحریر کیا ہی کب تھا
ہم فقط اُس کی زبانی میں رہے
ٹھوکریں آنکھ میں کھاتے کھاتے
دکھ مری آنکھ کے پانی میں رہے
میں اکیلا تو نہیں لڑ سکتا
اُس سے کہہ دو کہ کہانی میں رہے
زینؔ دیکھو وہ کہاں جا نکلا
تم اُسی شام سہانی میں رہے
٭٭٭
اور اک غم کا اعتراف ہوا
آج تک اُس کا جی نہ صاف ہوا
دل نے مانی نہیں ہے لوگوں کی
سب دلیلوں سے انحراف ہوا
ہم نے کارِ ثواب جانا تھا
تیری راہوں میں اعتکاف ہوا
صرف میری زبان مجرم تھی
دل مرا کب ترے خلاف ہوا
اب تو کر لے ذرا سا خوفِ خدا
کب مرا خون تجھے معاف ہوا
یوں مقدس اسے سمجھتا ہے
جیسے دل درد کا غلاف ہوا
زینؔ رسوا ہوئے تھے کچھ ایسے
اُس گلی کا نہ پھر طواف ہوا
٭٭٭
لفظوں میں مت کھویا کر
ہاتھ میں ہاتھ پرویا کر
چاہے میرے آنسو ہوں
چھپ چھپ کے مت رویا کر
جس میں عین جدائی ہو
ایسی نیند نہ سویا کر
میرے چند خیالوں میں
کبھی کبھی تو کھویا کر
زینؔ کبھی خاموشی سے
شور مچا کے رویا کر
٭٭٭
ہجر کا سوز کیا وصال کا دُکھ
دل پہ چھایا بڑے کمال کا دُکھ
ایک تجھ کو محبتوں کا ملال
ایک مجھ کو اِسی ملال کا دُکھ
اک طرف تیرے جیتنے کی خوشی
ایک جانب ہے تیری چال کا دُکھ
دل میں اترے جواب کے نشتر
ہم نے پایا کسی سوال کا دُکھ
زخم تازہ ہے اس بلندی پر
اب تلک ہے کسی زوال کا دُکھ
میرے ماضی پہ رحم کر دیتے
یوں بکھرتا نہ میرے حال کا دُکھ
ایک دل، وہ بھی مضطرب قیدی
ہے مجھے ایسے یرغمال کا دُکھ
سانس کب پہلے اختیار میں تھی
جل پری کو ہے ایک جال کا دُکھ
تم تو ڈوبے تھے جھیل آنکھوں میں
کیا ملا تھا؟ مِرے خیال کا دُکھ!
کیوں اُسے شاعری سے نفرت ہے؟
زینؔ مجھ کو اِسی سوال کا دُکھ!
٭٭٭
رہائش
بستیاں بستیوں میں رہتی ہیں
پستیاں پستیوں میں رہتی ہیں
حسرتیں حسرتوں میں رہتی ہیں
ہستیاں ہستیوں میں رہتی ہیں
کون ڈوبا ہے کب کسے پرواہ
مستیاں مستیوں میں رہتی ہیں
٭٭٭
آج دل کو بے قراری اور ہے
غم گساری، گریہ زاری اور ہے
پاؤں زخمی ہو گئے تو یہ کھُلا
راستوں کی بردباری اور ہے
آج شب تیری خوشی کے نام تھی
جو ترے غم میں گزاری اور ہے
برملا ہنسنا نجاتِ غم نہیں
شہرِ غم سے رستگاری اور ہے
درد کی مہماں نوازی اور تھی
ضبط کی تیمار داری اور ہے
اب یہاں بکھرا ہوا ہے اور کچھ
چار سُو پھیلی خماری اور ہے
آپ نے قصّہ سُنا ہے اور ہی
داستاں جو تھی ہماری اور ہے
اُس کا یوں دامن چھُڑا لینا نہیں!
زینؔ وجہ دل فگاری اور ہے
٭٭٭
آزاد غزل
ضبط کرنے والے بھی
کیا کمال ہوتے ہیں
خواہشوں کے چنگل سے
کون بچ کے نکلا ہے
دل کو شاد رکھتی ہے
بے سبب اداسی بھی
بہہ گیا ہے جانے کیوں
ضبط میری آنکھوں سے
میں جہاں بھی رہتا ہوں
بے شمار رہتا ہوں
تم اداس رہنے میں
کیوں بلا کے ماہر ہو؟
دیکھ تیرا چہرہ بھی
خواب میں سلامت ہے
لوگ ہی تو کہتے ہیں
تُو گلے بھی ملتا ہے
٭٭٭
تجھے خود سے نکالا ہے
تجھے محسوس کرنے کے لیے
میں نے ہزاروں کام چھوڑے ہیں
نہ جانے پھر بھی کیوں
مجھ کو لگا یہ سب خسارہ ہے
مجھے تیری محبت ڈھونگ لگتی ہے
ترے وعدے بھی لگتا ہے
کہ اک صدیوں پرانا خط
کسی شوکیس میں رکھا اُٹھاؤں
دھول مٹی صاف کر کے کھولنے بیٹھوں
لفافے سے نکالوں اور میرے ہاتھ لگنے سے
وہ کاغذ پھٹتا جاتا ہے
مکمل طور پر تو پھٹ کے چور و چور ہو جائے
سو اس سے قبل میں نے سب پرانے خط جلائے ہیں
ترے وعدے بھلائے ہیں
تجھے خود سے نکالا ہے!
٭٭٭
آزاد غزل
میں تھک گیا ہوں اجالوں میں ڈھونڈ کر اُس کو
اُسے کہو کہ مقدر میں کوئی شام لکھے
تمہارے بعد محبت نے حوصلہ تو دیا
یہ آسرا ہے مگر آسرا ہے تھوڑا سا
اُسے خبر ہی نہیں ہے عقیدتوں کے چراغ
کہاں جلائے کہاں پر بجھائے جاتے ہیں
کبھی جلائے مری شاعری بھرے اوراق
کبھی وہ وصل کے پیغام میرے نام لکھے
کسی کسی سے مری بات کی ہواؤں نے
کسی کسی نے مرا اعتبار بھی نہ کیا
یہ تیری آنکھ میں کس واسطے نمی پھیلی
مجھے خبر تھی جدائی بھی راس آئے گی
فلک کی سرخیاں مجھ کو بتا رہی ہیں کہ وہ
کچھ ایسے رو کے نگاہوں کو لال کرتا ہے
اُسے یہ کس نے سکھائے فنون حیرت کے
وہ اپنے بارے میں مجھ سے سوال کرتا ہے
٭٭٭
قطعات
کون باتیں کرے تصویروں سے
کون تنہائیاں آباد کرے
زینؔ ہر بار میں ہی یاد آؤں
وہ کبھی خود بھی مجھے یاد کرے!
٭٭٭
دکھ تماشا لگائے رکھتا ہے
زندگی تالیاں بجاتی ہے
آنکھ رہتی ہے بے وجہ پُر نم
بے بسی روز مُسکراتی ہے
٭٭٭
کسے معلوم کیسا ہے کسی کھوئے ہوئے کا غم
مجھے بھولے نہیں بھولا کسی روئے ہوئے کا غم
نہ جانے کب، کہاں، کیسے، مجھے ملنے چلا آیا
کسی جاگے ہوئے کا غم، کسی سوئے ہوئے کا غم
٭٭٭
غمِ فرقت کا چارہ ہی نہیں ہے
مرا تجھ بن گزارا ہی نہیں ہے
کہاں ہے آئینے کی راست گوئی
یہ چہرہ تو ہمارا ہی نہیں ہے
پریشاں زلف تھی غم میں تمہارے
اسے ہم نے سنوارا ہی نہیں ہے
تماشا دیکھنے کو آئے ہیں وہ
جنھیں ذوقِ نظارا ہی نہیں ہے
اُسے کیوں وقت میں شامل کروں میں
اُسے میں نے گزارا ہی نہیں ہے
اُسے بھی زینؔ میں سُننے چلا ہوں
مجھے جس نے پکارا ہی نہیں ہے
٭٭٭
آزاد غزل
تیرے ساتھ رہنے کا
سوچتا ہوں جانے کیوں
کچھ غریب لوگوں کو
درد بھی نہیں ملتے
آپ آئیں نہ آئیں
رات کٹ ہی جائے گی
درد بولنے والے
بات کیوں نہیں کرتے
لذتِ محبت کو
ہجر بھانپ لیتا ہے
٭٭٭
جسم سے روح کا جدا ہونا
کتنا آساں ہے بے وفا ہونا
گُر نہ آیا مجھے منانے کا
اُس نے سیکھا فقط خفا ہونا
کوئی ذرّہ کہیں نہ رہ جائے
تم ذرا ٹھیک سے جدا ہونا
اچھے اچھوں کا فیض پایا ہے
ہم کو اچھا لگا بُرا ہونا
آفتِ دل بھی روح پرور ہے
تم کبھی صبر آزما ہونا
حوصلے کا پہاڑ ہوتا ہے
چند لمحوں کا آسرا ہونا
آج شاید تری سُنی جائے
آج تم محوِ التجا ہونا
بس خلاصی ہے ایک ہونے میں
مار دیتا ہے دوسرا ہونا
لوگ نظریں جمائے رکھتے ہیں
کیا مصیبت ہے دلربا ہونا
زینؔ، ہے گیت گنگنانا بھی
اُس کا ہونٹوں سے بس ادا ہونا
٭٭٭
تو اداس کر یا اداس رہ، مرے پاس رہ
مری آرزو، مری جستجو، مجھے راس رہ
مجھے توڑ تاڑ کے پھینک دے کسی شاخ سے
تو بکھیر شوق سے کو بکو، مجھے راس رہ
مری آگہی کا قصور ہے، کوئی دور ہے
مری بے خبر! مری آبرو! مجھے راس رہ
مرا حرف حرف طلسم ہے یہ بجا مگر
مری نا شنیدہ سی گفتگو، مجھے راس رہ
مجھے زینؔ، خواب سا لگ رہی ہے وصال رت
غم بے خودی یونہی ہو بہو مجھے راس رہ
٭٭٭
بول پیا
ذات کا گنجل کھول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
اس رات کی کالی چادر کو
یہ چاند ستارے اوڑھ چکے
کچھ جان سے پیارے یار سجن
دل توڑ چکے، مکھ موڑ چکے
خود آپ بھٹکتی راہوں میں
یہ تن تنہا مت رول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
وہ عشوہ و غمزہ دیکھ لیا
اب رات کٹے گی خوابوں میں
میں نام ترے جیون جیون
تم اب تک دور سرابوں میں
جو راکھ ہوئی ان خوابوں میں
یہ ہستی ہے انمول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
تو جب تک اپنے پاس رہا
گرداب کا گھیرا راس رہا
پر تول چکا، سب بول چکا
اب من پنچھی بے آس رہا
جذبات نہیں معصیت کے
یوں زہر نہ ان میں گھول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
دربار لگا ہے زخموں کا
دردوں کی نمائش جاری ہے
رِستا ہے لہو ان پھولوں سے
خاروں کی ستائش جاری ہے
ہر زخم مہکنے لگ جائے
اک بول تو ایسا بول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
٭٭٭
وہ کہتی ہے
پھر تری یاد سے لڑی ہوں میں
ہجر کی آگ میں کھڑی ہوں میں
تُو کبھی جھانک اپنی کھڑکی سے
تیری چوکھٹ پہ آ پڑی ہوں میں
اَب کسی روز مجھ پہ افشا کر
ضبط کی کون سی کڑی ہوں میں؟
چشمِ نم سبز مجھ سے رہتی ہے
ایک برسات کی جھڑی ہوں میں
زینؔ دیکھا سمے نہیں رُکتا
دیکھ ٹھہری ہوئی گھڑی ہوں میں
٭٭٭
ایک اجڑی ہوئی زمیں ہوں میں
اجنبی شہر کا مکیں ہوں میں
گو کہ مدت سے دورِ ہجراں ہے
کیا تمہیں یاد بھی نہیں ہوں میں؟
اب مری بندگی سے راضی ہو!
تیرے در پر جھکی جبیں ہوں میں
تُو ملا ہے تو میں نے جانا ہے
جھوٹ تھا آئینہ! حسیں ہوں میں
تم بھی میرے فسوں میں مت آنا
آج کل سخت دل نشیں ہوں میں
زینؔ الجھا ہوا ہوں مدت سے
میں کہیں اور تھا، کہیں ہوں میں
٭٭٭
Message
بچھڑے ہوئے لمحوں کو
آواز نہیں دیتے
اُجڑے ہوئے نغموں کو
پھر ساز نہیں دیتے
جو غم سے بکھر جائیں
چُن لیتے ہیں وہ موتی
ہر جان سے پیارے کو
ہر راز نہیں دیتے
تم سے جو محبت ہے
پھر تم سے گلہ کیسا
بس اتنی شکایت ہے
جب دور نکل جاؤ
آواز نہیں دیتے!
٭٭٭
ماں کے نام
مائیں سُکھ کی چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
دُکھ میں سرد ہواؤں جیسی ہوتی ہیں
دے کر اپنی خوشیاں دُکھ سہہ لیتی ہیں
یہ مقبول دعاؤں جیسی ہوتی ہیں
سارے رشتے عین وفا سے خالی ہیں
یہ بھر پور وفاؤں جیسی ہوتی ہیں
جب سنّاٹا روحیں گھائل کرتا ہے
تب با سوز صداؤں جیسی ہوتی ہیں
زینؔ دکھوں کی دھوپ میں اتنا سمجھا ہوں
مائیں سُکھ کی چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
٭٭٭
کاجل
وقت نے جتنی مہلت دی تھی
اُس سے سوا محسوس کیا ہے
اپنی آنکھوں سے گالوں تک
اُس کا لمس سجا رکھا ہے
ایک گھڑی ایسی بھی گزری
جس نے درد اُجال دیا ہے
ہر اِک غم کو ٹال دیا ہے
میرے سوہنے ڈھول سائیں نے
کیسا اُسے کمال دیا ہے
اُس نے اپنے ہاتھ سے میری
آنکھ میں کاجل ڈال دیا ہے
٭٭٭
میرے سارے موسم تم ہو
آج کسی کی زلفیں بھی تو
سلجھی سلجھی سی لگتی ہیں
آج مزاجِ یار میں دیکھو
پہلے سی تلخی بھی نہیں ہے
آج کسی کے ساتھ کی چاہت
لفظ دعائیں مانگ رہے ہیں
مجھ سے فون پہ جب کہتی ہے
آج کے جیسا موسم ہو نا!
آپ بہت ہی یاد آتے ہیں!
رِم جھم رِم جھم موسم ہے نا!
کتنا اچھا موسم ہے نا!
آج کہ دن پر بھی کچھ لکھیئے!
ویسے تو ہر چھوٹی چھوٹی
بات پہ شاعر بن جاتے ہیں!
موسم پر ہی کچھ لکھ دیجے!
یعنی وہ کہنا چاہتی تھی
موسم کو میں ڈھال بنا کر
اُس کے بارے میں کچھ لکھوں!
تو یہ لکھا۔۔!
بارش ہو یا کالے بادل
دھوپ، ہوا، سردی یا دھند ہو
چاہے موسم ہریالی کا
یا پھر پت جھڑ خون رُلائے
میرے بادل، میری بارش
مِری بہاریں، میرے پت جھڑ
دھوپ، ہَوا، سردی یا دھند بھی
میری صبحیں، میری شامیں
میرے سارے موسم تم سے،
میرے سارے موسم تم ہو!
٭٭٭
آزاد غزل
کہیں آباد ہو جانے سے اچھا
تمہاری راہ میں برباد رہنا
ہماری آنکھ پہ لکھا ہوا ہے
یہاں خوابوں کی گنجائش نہیں ہے
گزر جاتے ہیں اپنا منہ چھپائے
مرے خوابوں نے پردہ کر لیا ہے
وہاں جانا ضروری ہو گیا تھا
کسی کی بات کرنی تھی کسی سے
ہماری چاند سے بننے لگی ہے
ستارے خوامخواہ لڑنے لگے ہیں
مجھے افسوس ہے میری ہنسی پر
تجھے حیران ہونا پڑ رہا ہے
سبھی رنج و الم سہرا سجا کر
مری ڈولی اُٹھانے آ رہے ہیں
سہارے، ضبط، آنسو، رنج، کلیاں
جنازے میں کمی کوئی نہیں ہے ٭٭٭
قطعات
میں نے کہا کہ دل سے اُتر سی گئی ہو تم
اُس نے کہا کہ مجھ سے ملاقات کم کرو
میں نے کہا کہ حُسن کا جادو سا چل گیا
اُس نے کہا کہ سورۂ یوسف کا دَم کرو
٭٭٭
لوکاں دا کیہ دوش وے بیبا
کھولا اپنے اندر سی!
ہور کسےنوں کیہ کہنا اے
رولا اپنے اندر سی!
٭٭٭
آؤ ماتم کریں اُداسی کا
شہر، گلیاں، نگر، تمام اُداس
چاند، تارے اُداس، شام اُداس
صبح سے شام کا نظام اُداس
تیرا وہ آخری سلام اُداس
کیا تغیّر ہے تیرے جانے سے
شہر بھر کاٹنے کو دوڑتا ہے
ہر گلی اُنگلیاں اُٹھاتی ہے
میں نے سوچا کبھی نہ تھا لیکن
اَب تِری یاد بھی ستاتی ہے
پھر تِری یاد گھیر کر مجھ کو
میری غزلیں مجھے سُناتی ہے
کوئی چارہ ہو غم شناسی کا
حل نکالو نا روح پیاسی کا
یہ بھی ہاڑا ہے دیو داسی کا
’’آؤ ماتم کریں اُداسی کا‘‘
٭٭٭
آزاد غزل
مری بربادیاں یہ کہہ رہی ہیں
ہمیں غم کا سفر اچھا لگا ہے
تمہاری یاد اتنے کام کی ہے
مجھے مشکل میں اندازہ ہوا ہے
ترے غم کا گھڑا کھودا ہوا تھا
اداسی اب دھکیلے جا رہی ہے
تری یادوں بھرا اجڑا قصیدہ
مجھے سننا پڑا ہے موسموں سے
تجھے پھر یاد کرنے لگ گیا میں
تری یادوں سے فرصت جب ملی ہے
بتاؤ تم منانا جانتے ہو؟
سنو میں روٹھ جانا چاہتا ہوں!
٭٭٭
جوکر
ایک سہانی شام تھی شاید
پائل کی جھنکار کو لے کر
وہ میرے کمرے میں آئی
میز پہ رکھی تاش کی ڈبیا
کھول کے اُس نے سارے پتے
شوخ سے اِک انداز میں آ کر
میری جانب پھینک دیئے تھے
میں آنکھوں میں دھر حیرانی
اپنی گود اور چاروں جانب
بکھرے پتے دیکھ رہا تھا
اینٹ کی اٹھّی، چڑیا کی ستّی
پان کی دسّی، حُکم کا چوکا،
سب کے سب حیرت میں ڈوبے
اُس کا چہرہ دیکھ رہے تھے
آدھی رات کے سناٹے میں
اُس کی ہنسی سے میں جب چونکا
اُس کے ہاتھ میں دو پتے تھے
ہنستے ہنستے، اُکھڑی اُکھڑی سی آواز میں
مجھ سے بولی!
’’چاہے رنگ ہو، یا بھابی ہو
منگ پتا، یا کھیل ہو دل کا
مِرے حساب میں زینؔ پیا جی
بالکل ایسے جوکر ہو تم
جیسے میرے ہاتھ میں دونوں
سارے پتوں کے سنگ رہ کر
ہر اِک کھیل شروع ہوتے ہی
تم محروم ہی رہ جاتے ہو‘‘
پھر اُس نے وہ دونوں جوکر
باری باری پھینک دیئے تھے
اور کمرے سے رُخصت ہو کر
جانے کون سے دیس بسی وہ
اور اب مدت بیت چکی ہے
آج اُسی کمرے میں آ کر
وہی کہانی سوچ رہا ہوں
پلنگ پہ بکھرے تاش کے پتے
ہاتھ میں دونوں جوکر لے کر
گھنٹوں بیٹھا دیکھ رہا ہوں
شاید وہ بھی کسی گھڑی میں
میرے بارے سوچ رہی ہو
جیسے کوئی حُکم کی بیگم
پان کا راجہ کھوج رہی ہو!
٭٭٭
چند لمحوں کا ہے زوال مرا
اُس کو آتا نہیں خیال مرا
آپ کا بھی کوئی جواب نہیں
آپ سنتے نہیں سوال مرا
رنگ بھرتا ہوں میں چراغوں میں
تو نے دیکھا نہیں جمال مرا
حوصلہ ہے ترے فقیروں کا
دیکھ مجھ کو نہیں ملال مرا
زینؔ ہنس کر گلے لگاؤں اُسے
لوٹ آئے جو خوش خیال مرا
٭٭٭
آنکھ میں ہی ٹھہر گیا دریا
جونہی سر سے اتر گیا دریا
آنکھ کب تک سمیٹ کر رکھتی
ایک پل میں بکھر گیا دریا
کون اترا ہے تشنگی لے کر؟
ہائے لوگو! کدھر گیا دریا؟
شہر والوں میں شور برپا تھا
چپکے چپکے گزر گیا دریا
باعثِ بے گھری بنا یارو
جانے کس کس کے گھر گیا دریا
رات آنکھوں میں تھا قیام پذیر
اور وقتِ سحر گیا دریا
کتنا خاموش ہو گیا دیکھو
جانے کیسے سدھر گیا دریا!
پیاس جس کی تلاش میں گم تھی
زینؔ اُس کے نگر گیا دریا
٭٭٭
آزاد غزل
تیرے نام کا ورد پِیا
ہونٹوں کی مجبوری ہے
میرے وقت کی دلہن نے
چپ کا زیور پہنا ہے
ہجر زدہ دیوانوں کو
موسم راس نہیں آتے
میں اپنی تنہائی سے
سب کچھ ٹھیک نہیں کہتا
آپ کبھی خاموشی سے
باتیں کر کے دیکھو نا!
میری آنکھ میں ساون کے
بادل چھائے رہتے ہیں
خواب خفا ہو جاتے ہیں
محرومی رہ جاتی ہے
بے ہوشی کے عالم میں
ہوش محبت کیا کرتے ٭٭٭
یوں تو ہر طور سے جینے کا کمال آتا ہے
پر ترے ساتھ نہ رہنے کا ملال آتا ہے
کام آنکھوں سے چلا سکتا ہوں لیکن مجھ کو
تیرے بکھرے ہوئے بالوں کا خیال آتا ہے
میں بھی چھپ چھپ کے کہیں اشک بہا دیتا ہوں
روز یوں ہی مری آنکھوں پہ زوال آتا ہے
میرے اشعار سناتی ہیں ہوائیں مجھ کو
شعر میرے وہ ہواؤں میں اچھال آتا ہے
ایک بے چین گھٹا آنکھ میں چھا جاتی ہے
جب اچانک ترے بارے میں سوال آتا ہے
رات دن بس یہی ترتیب لگی رہتی ہے
دوسرا غم مجھے پہلے سے، نکال آتا ہے
دور ہو کر اسے کچھ اور بھی محسوس کروں
زینؔ اُس شخص کو اک یہ بھی کمال آتا ہے
٭٭٭
دردِ الفت کی جاودانی تھی
حوصلے کی عجب کہانی تھی
میں کہیں سے نیا نہیں لگتا
میری تصویر بھی پرانی تھی
اب اُسی کی تلاش میں گم ہوں
ایک لڑکی مری دیوانی تھی
یہ جو مسکان کھو گئی مجھ سے
ضبط کی آخری نشانی تھی
لوٹ آیا تو اس سے کیا کہتے
جس کے چہرے پہ بدگمانی تھی
اب تو جذبوں پہ ضعف طاری ہے
پہلے کب زور میں جوانی تھی
وہ کبھی مجھ سے مل نہیں پایا
یہ مرے بخت کی گرانی تھی
اُس کا چرچہ ہے شہر والوں میں
میں نے اک بات جو چھپانی تھی
ہجر میں اور کچھ نہ تھا یارو
میری آنکھوں کی رائے گانی تھی
ایک مدت کے بعد یاد آئی
زینؔ یاری بہت پرانی تھی
٭٭٭
مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!
مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں!
کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے
غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں اداس ہوں!
میں منڈیرِ درد پہ جل رہا ہوں چراغ سا
مری لو بڑھا مجھے مت بجھا، میں اداس ہوں!
مرے حافظے کا یہ حال وجہ ملال ہے
مرے چارہ گر مجھے یاد آ، میں اداس ہوں!
ترا مسکرانا زوال ہے مرے درد کا
یونہی بات بات پہ مسکرا، میں اداس ہوں!
مرے لب تھے زینؔ کسی دعا سے سجے ہوئے
مجھے لگ گئی کوئی بددعا، میں اداس ہوں!
٭٭٭
پیار کرو ناں
پریم کی ندیا جھوم رہی ہے
پریم کے جل میں پیر دھرو۔ نا!
پیار کرو۔ نا!
سنّاٹوں کی بھیڑ سے نکلو!
خاموشی کے ساز کو توڑو
چاہت کا اک ساز بجاؤ!
راگ پہاڑی، ماروا، ایمن،
کیسری، میگھا، میاں کی تُوڑی،
دیش کے سُر بھی اچھے ہیں ناں
یا ملہاری کے بھیگے سُر
یا دیپک میں آگ لگاتے کومل، تیِور
سُر تو سارے اچھے ہیں ناں
درباری کے انگ میں کوئی گیت سناؤ!
پیار بھرے جذبوں میں ڈوبے
امرت جیسے
میٹھے میٹھے بول کہو ناں!
پیار کرو۔ ناں!
٭٭٭
آزاد غزل
بے خبری کا موسم ہے
باتیں یاد نہیں رہتیں
تو میری خاموشی کو
کتنا سندر لگتا ہے
تنہائی یہ کہتی ہے
بات کرو دیواروں سے
دروازے کی دستک سے
امیدیں وابستہ ہیں
وہ بولی یہ بارش کیوں؟
میں بولا بے چینی ہے!
ہجر کے مارے لوگوں کی
رنگت بھی اُڑ جاتی ہے
میری خاموشی اُس کو
کیوں آوازیں دیتی ہے
میں اب کیا بیزاری میں
رونے دھونے لگ جاؤں؟
٭٭٭
آبرو دار دربدر، سائیں!
ہے کٹھن زیست کا سفر، سائیں!
مر نہ جاؤں میں بے قضا پل میں
تجھ سے ٹھہروں جو بے خبر سائیں!
اشہبِ وقت کب ٹھہرتا ہے
عمر بھی اتنی مختصر، سائیں!
ہم ادھر سے تو ہو لیے عاجز
اب بلاؤ کبھی اُدھر، سائیں!
زینؔ باقی گزارتا کیسے
راس آیا نہیں شہر، سائیں!
٭٭٭
آزاد غزل
عشق مسافر کہتے ہیں
ہجر آوازیں کستا ہے
چپ چپ بیٹھا رہتا ہوں
میں اتنا باتونی ہوں
ہنس کر میری حالت پر
غم سینے لگ جاتے ہیں
تھک کر اپنے سائے کی
بانہوں میں گِر جاتا ہوں
روز نئی بے چینی کو
مجھ سے ملنا پڑتا ہے
کچھ آوارہ لمحوں پر
میرا زور نہیں چلتا
دیکھو میں نہ کہتا تھا
رات سزا ہو جاتی ہے
آنکھیں کھولے رکھنے سے
یاد قضا ہو جاتی ہے
٭٭٭
میں نے دیکھا ہرا بھرا چہرہ
مجھ کو اچھا لگا ترا چہرہ
بات آنکھوں سے بڑھ گئی آگے
اور دل میں اتر گیا چہرہ
اور آنکھوں میں کچھ جچا ہی نہیں
بس گیا ہے فقط ترا چہرہ
اب یہ تیری ہی سمت رہتا ہے
دیکھ آ کر کبھی مرا چہرہ
دیکھنا اور دیکھتے رہنا
تو مرا اور میں ترا چہرہ
تُو تو اک بار ہی ملا مجھ سے
بھولتا ہی نہیں ترا چہرہ
٭٭٭
آزاد غزل
مرا ضبط مجھ سے جدا ہوا تو خبر ہوئی
مری زندگی مرے غم سمیٹ کے لے گئے
مرے سامنے سے نظر بچا کے گزر گیا
مجھے روز ملتا تھا کس لئے مرے خواب میں
ترے انتظار کی بھینٹ چڑھنے کا شوق تھا
مجھے اعتماد نے توڑ تاڑ کے رکھ دیا
مری نیند! کون سے شہر میں ترا گشت ہے؟
کبھی شام ڈھلتے ہی آیا کر مجھے دیکھنے
اسی عین وقت بگڑ گیا مرا حال بھی
کہیں شب ہوئی تو بکھر گئے ترے بال بھی
میں کسی سفر سے کسی سفر میں الجھ گیا
مجھے ورغلا کے یہ وحشتیں کہیں لے گئیں
٭٭٭
غم کی زنجیر ہلانے والو
آؤ اب زہر پلانے والو
اب مرے حال پہ ہنستے کیوں ہو؟
مجھ کو رو رو کے بلانے والو!
بھولنے میں ہو بلا کے ماہر
اے مجھے یاد دلانے والو
اب تو میں شہر میں رہتا ہی نہیں
اب تو خوش ہو ناں زمانے والو
اپنی آنکھوں کو بچا کر رکھنا
اے مری خاک اُڑانے والو
٭٭٭
آزاد غزل
ہے گری پڑی کسی بارگاہ میں بندگی
ہے پھٹا ہوا کئی خواہشوں کا لباس بھی
کسی روز درد سے پوچھنا کہیں درد ہے؟
کسی اور روز یہ پوچھنا تجھے کیا ہوا؟
کسی روز ضبط سے پوچھنا کہ یہ ضبط کیوں؟
کسی اور روز یہ پوچھنا تجھے کیا ملا؟
کسی روز جسم سے پوچھنا کسی روح کا!
کسی اور روز یہ پوچھنا کہ نکل گئی؟
کسی روز خود سے یہ پوچھنا، مجھے کیا کِیا؟
کسی اور روز یہ پوچھنا، میں کہاں گیا؟
کسی روز آنکھ سے پوچھنا کہ یہ ابر کیا؟
کسی اور روز یہ پوچھنا کہ برس گیا؟
٭٭٭
آزاد غزل
تری بے دھیانی کے سلسلے
وہی کُو بکو، وہی جا بجا
کسی لامکاں کے مکان میں
کسی اور درد کا درد ہے
مری زندگی کے سوال کا
کبھی مسکرا کے جواب دے
کبھی کرچیوں پہ قدم پڑا
تو لہو نے ساتھ نہیں دیا
میں گلے لگاتا ہوں شوق سے
مجھے درد ملتا ہے روز ہی
مجھے تیرا غم تو نہیں ملا
مجھے تیرے غم کی شبیہ ملی
٭٭٭
ہائیکوز
ہاتھ مت چھڑاؤ تم
راستے پرکھنے سے
رابطہ تو ٹوٹے گا
٭
بھول بھال جانے کا
یاد کرنے والوں کو
حوصلہ نہیں ہوتا
٭
زندگی اضافی تھی
ہم نے کاٹ دی جاناں
اک تمہارے ہجراں میں
٭
وصل کی امیدوں پر
شب گزار لینے سے
ہجر ٹل نہیں سکتا
٭
مرحلہ قیامت ہے
مشغلہ محبت ہے
حوصلہ نہیں لیکن ٭٭٭
آزاد غزل
کوئی درد مجھ سے لپٹ گیا تری چاہ میں
میں تجھے کہیں سے لٹا پُٹا تو نہیں لگا؟
مرے پاس جتنا تھا حوصلہ اُسے باندھ کر
میں نے بیچ ڈالا ہے حسرتوں کی دکان پر
میں تمہاری یاد میں دن گزارنے لگ گیا
کوئی شام میرے قریب آ کے گزر گئی
مری رات رہتی ہے محو تیرے خیال میں
مجھے خواب آتے ہیں تیرے بارے میں پوچھنے
مرا ذکر کرتی ہیں وحشتیں کہیں بیٹھ کر
میں خموش بیٹھ کے سنتا رہتا ہوں دیر تک
کہیں ذکر ہے، کہیں فکر ہے، کہیں درد ہے
کہیں تو ہے اور کہیں صرف تیرا خیال ہے
میں ترے خیال کی وسعتوں میں تھا مبتلا
کسی وہم نے مجھے اختیار میں لے لیا
تری بے رُخی مرا ساتھ دینے کو آ گئی
مرے حوصلے مرا حال دیکھ کے رو پڑے
٭٭٭
چار سو ہے فشار سانسوں کا
کب رہا اعتبار سانسوں کا
کٹ گئی ہجر کی اذیت بھی
رہ گیا انتظار سانسوں کا
منتظر ہے رفو گری کے لیے
دامنِ تار تار سانسوں کا
کون روتا ہے دھت اندھیروں میں
کون ہے بے قرار سانسوں کا
عمر گزری ترے خیالوں میں
کب کیا ہے شمار سانسوں کا
٭٭٭
آزاد غزل
یہاں ابتدا سے بھی پیشتر
کسی انتہا کا مقام ہے
میں بکھر گیا کہیں ٹوٹ کر
مری کرچیوں کو سمیٹ لے
مری سانس سانس گواہ ہے
ترا نام لیتا ہوں ہر گھڑی
ترا نام میں نے لیا نہیں
ترا درد روٹھا ہے شام سے
مرے ماہ و سال تمام کر
مری آبرو کا حساب دے
ترا وصل ایک مزاج تھا
کہیں لڑ جھگڑ کے چلا گیا
ترا ہجر رہتا ہے روبرو
مرا حوصلہ بھی عجیب ہے
٭٭٭
تجھے دل سے بھلانا چاہیے تھا
ہمیں بھی مسکرانا چاہیے تھا
ہمیں پیچھے ہی رکھا ہے کسی نے
ہمیں اگلا زمانہ چاہیے تھا
ستم یہ ہے مرے دل کے مکیں کو
کوئی بہتر ٹھکانا چاہیے تھا
ہمیں اچھا لگا اُس کو منانا
اسے پھر روٹھ جانا چاہیے تھا
کہیں پر کھو گیا چہرے کا نقشہ
مجھے اب لوٹ جانا چاہیے تھا
زمانے بھر سے فرصت ہو گئی ہے
اُسے اب یاد آنا چاہیے تھا
کہاں ہم زینؔ اس کے کام کے تھے
اسے یہ جان جانا چاہیے تھا
٭٭٭
پنجابی غزل
اساں لا لئی ہوکیاں، ہاواں سنگ
سانوں پل پل ڈنگھے ساہ
اسی پریم نگر دے واسی آں
سانوں دکھڑے دینڑ پناہ
اسی وڑ گئے ویڑھے عشقے دے
اساں پا لیا گل وچ پھاہ
سانوں رَل مل اپنیاں ساریاں نیں
دتّا پل وچ مغروں لاہ
اساں آپ بھُلایا توں توں کر
ساڈا خاکے رُل گیا جاہ
اُٹھ زینؔ جزانوں کی کرنا
چل چلیے مقتل گاہ
٭٭٭
آزاد غزل
مری زندگی کے حسین پل
تری آرزو میں بکھر گئے
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
مجھے درد سہنے کا شوق تھا
مرے آر پار کا وقت ہے
مرے آس پاس رہا کرو
تجھے بھول جانے کا حوصلہ
کسی غم کے دشت میں کھو گیا
کہیں چپ رہا، کہیں ہنس دیا
میں ذرا ذرا کہیں رو گیا!
٭٭٭
غم سے ہوں رنجور سہیلی
کب سے ہوں مجبور سہیلی
کون طبیب ہمارے دل کا
زخم ہوئے ناسور سہیلی
ہوتے ہوتے ہو جائیں گے
اک دن تم سے دور سہیلی
دریا جیسا عالم دل کا
دردوں سے بھرپور سہیلی
دھیما دھیما ان کا لہجہ
خوشبو سے معمور سہیلی
تیری راہیں تکتے تکتے
آنکھ ہوئی بے نور سہیلی
زینؔ ہماری سانس کے اندر
اور آنکھوں سے دور سہیلی
٭٭٭
دل میں کوئی ملال بھی آیا نہیں مرا
غم کو مگر خیال بھی آیا نہیں مرا
کرتا رہا ہے تُو بھی زمانے کی آرزو
لب پر ترے سوال بھی آیا نہیں مرا
تنہائیاں، ملال، محبت، اداسیاں
تجھ کو کوئی کمال بھی آیا نہیں مرا
تیری طرف دھیان لگایا ہے اس طرح
مجھ کو کبھی خیال بھی آیا نہیں مرا
چہرہ سجا ہوا ہے کسی کے نقوش سے
مجھ پر کبھی جمال بھی آیا نہیں مرا
کب سے کھڑا ہوں زینؔ بلندی پہ منتظر
مڑ کر کوئی زوال بھی آیا نہیں مرا
٭٭٭
کوئی خیال بڑی دیر تک نہیں رہتا
مجھے ملال بڑی دیر تک نہیں رہتا
ترے جواب مرے ارد گرد رہتے ہیں
کوئی سوال بڑی دیر تک نہیں رہتا
میں تیرے بعد کبھی بھی سنبھل نہیں پایا
مرا کمال بڑی دیر تک نہیں رہتا
وہ آئے گا تو کہاں دور مجھ سے جائے گا
یہ احتمال بڑی دیر تک نہیں رہتا
کوئی برس ہو فقط مار ہے دسمبر کی
کوئی بھی سال بڑی دیر تک نہیں رہتا
وہ ایک حد میں ہی رکھتا ہے سلسلے مجھ سے
سو میں نڈھال بڑی دیر تک نہیں رہتا
وہ پوچھتا ہے تو کہتا ہوں ٹھیک ہوں لیکن
یہ حال چال بڑی دیر تک نہیں رہتا
٭٭٭
’’وے سانول‘‘
پھٹ جگر وچ ڈونگھے لگ گئے،
کوئی نہ لگّے جوڑ!
روح دے اندر پھیلی جاوے،
درد، ہنیرا گھور!
سانول مکھڑا موڑ!
مرے وَل
سانول مکھڑا موڑ!
٭٭٭
فریبِ زیست سے ہستی نکال لایا ہوں
میں اک فرات سے کشتی نکال لایا ہوں
ہر ایک شخص وہاں مسکرا کے ملتا تھا
میں اس فساد سے بستی نکال لایا ہوں
یہ میرے گرد و نواح میں نمی کا ہے موسم
کسی کی آنکھ برستی نکال لایا ہوں
مرے نصیب میں ٹھہری نہیں وصال کی رُت
کہیں سے عمر ترستی نکال لایا ہوں
نجانے کس لئے زخموں سے یوں لگاؤ ہے
کہاں سے درد پرستی نکال لایا ہوں
سنپولیے مرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اب
میں ایک ناگ کی مستی نکال لایا ہوں
٭٭٭
بے قراری کا سلسلہ ہو گا
درد سے دل بہل گیا ہو گا
رقص جاری ہے کیوں ہواؤں کا
اک دیا سا کہیں بجھا ہو گا
دور رہ ہجر کے فقیروں سے
موج میں آ گئے تو کیا ہو گا
لوٹ آیا اسی خیال سے پھر
وہ مری راہ دیکھتا ہو گا
بٹ گئی کرچیوں میں بیداری
خواب آنکھوں میں چبھ گیا ہو گا
سانس لینے میں پیش ہے دقت
درد خاموش ہو گیا ہو گا
زینؔ ہوں، یاد کیجیئے مجھ کو
آپ نے نام تو سُنا ہو گا
٭٭٭
ہجر کے سارے دکھ دہرانے لگ جاؤں
یا پھر تجھ سے بات چھپانے لگ جاؤں
تنہائی سے باتیں کرنا سیکھا ہے
کنکر سے دریا بہلانے لگ جاؤں
آوازوں پر میرا زور نہیں چلتا
خاموشی کے گیت سنانے لگ جاؤں
اوجھل کر کے خود کو اپنی آنکھوں سے
پھر خود کو آواز لگانے لگ جاؤں
یعنی میں پہنا لوں چہرے پر چہرا
میں بھی تیرے ساتھ زمانے لگ جاؤں؟
پچھلی رات کو رات بھٹکتے دیکھی ہے
سورج کو یہ خواب سنانے لگ جاؤں
جب اندر کے شور کو چُپ سی لگ جائے
میں خاموشی سے چلّانے لگ جاؤں
رات ڈھلے اور چاند کے اوجھل ہونے پر
سورج کو میں آنکھ دکھانے لگ جاؤں
زینؔ کوئی تدبیر تو ہو اُس کی خاطر
اس کے شہر میں آنے جانے لگ جاؤں
٭٭٭
وہ کہتی ہے
وہ کہتی ہے کہ دیکھو
شاعری تو عاشقوں کا کام ہوتا ہے
مجھے بالکل نہیں کرنی
مجھے ہر گز نہیں کرنی
مجھے عاشق نہیں بننا
مجھے شاعر نہیں بننا
مجھے حیرت سی ہوتی ہے
یہ سب باتیں مجھے وہ
شاعرانہ سے
بڑے ہی دلنشیں لہجے میں کہتی ہے!
٭٭٭
تم کو سب کچھ یاد ہی ہو گا
یاد ہے اکثر تم کہتی تھیں
جب میں اپنی سانسوں کی
اور دھڑکن کی ترتیب لگاؤں
کتنا سادہ کتنا پیارا
نام تمہارا بن جاتا ہے
میں گھنٹوں سنتی رہتی ہوں
یاد ہے جب تم
میرے سینے پر سر رکھ کے
میری سانس سنا کرتیں
یا اپنا نام سنا کرتی تھیں
یاد ہے اک دن
’’سانوں اک پل چین نہ آوے ‘‘
میری فرمائش پر تم نے
نصرت کا یہ گیت سنا تھا
اور گھنٹوں محسوس کیا تھا
(شاید مجھ کو)
یاد ہے تم کو جب تم کالے رنگ کے
کپڑے پہنا کرتیں، تو یہ کہتیں
دیکھو میں کچھ خاص نہیں ہوں
جانے کیوں تیری آنکھوں کو
میں اتنی سندر لگتی ہوں!
یہ تو تم کو یاد ہی ہو گا
جب تم مجھ سے یہ کہتیں تھیں
آپ کے جیسا کوئی نہیں ہے
آپ بہت ہی اچھے ہیں نا
ایسے منہ مت پھیرا کیجئے!
دیکھیں میں دل سے کہتی ہوں
مجھ سے چاہے اپنے سر کی
ایک نہیں، دو چار نہیں تو
جتنی چاہے قسمیں لیجے
میں یہ بالکل سچ کہتی ہوں
اب دوری نہ سہہ پاؤں گی
آپ سے دور نہ رہ پاؤں گی
مجھ کو چھوڑ کے مت جائیے گا
میری خاطر رُک جائیے گا
مجھ کو چاہے جیسے رکھیئے
آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے بس
اور کسی کا سایا بھی نہ
آنکھ کے پاس کبھی لاؤں گی
آپ سے دور نہ رہ پاؤں گی
یاد ہے مجھ سے جب کہتی تھیں
آپ بھی کتنے سادہ ہیں نا
اپنی عمر کے لڑکے دیکھیں
تھوڑا سا تو فیشن کیجئے
بالوں کا وہ ’کٹ‘ بنوائیں
کالر والی پرپل شرٹ میں
آپ کمال لگیں گے سچ میں
کتنی ساری باتیں تھیں ناں
تم کو تو سب یاد ہی ہو گا
پھر بھی مجھ کو یوں لگتا ہے
مجھ کو ٹھیک سے یاد نہیں ہے!
اک مدت جو بیت گئی ہے
میرے ہاں تو یہ عالم ہے
پہروں سوچوں
گھنٹوں تجھ کو یاد کروں تو
تب جا کر ہی
دھندلا دھندلا سا اک چہرہ
یاد آتا ہے ہلکا ہلکا
وہ بھی اتنی مشکل سے کہ
بیچ میں اتنے زخمی لمحے
درد جگانے آ جاتے ہیں
ڈر جاتا ہوں
اور وہ دھندلا عکس بھی مجھ سے
کھو جاتا ہے!
جب سے قسمیں، وعدے سارے
بھول گئی ہو، تب سے جاناں
یوں لگتا ہے
سارے ہوش ہوئے لا وارث
ہر احساس کا خون ہوا ہے
میری سانسیں جن میں اکثر
اپنا نام سنا کرتیں تھیں
بے ترتیبی کے عالم میں
ساری سانسیں بکھر گئی ہیں
نصرت کا وہ گیت تو اب بھی
چین نہیں آنے دیتا ہے
کالے کپڑے جب دیکھوں تو
یوں لگتا ہے
جیسے اک بے نام محبت
یا شاید گمنام محبت
ہجر کا ماتم کرتے کرتے
گہرے سوگ میں ڈوب گئی ہے
میرے سر کی قسمیں ٹوٹیں
اور کسی کے سائے سے ڈرتے
میرا سایہ بھول گئی ہو
مجھ کو ایسے تیز ہوا میں
جلتے بجھتے اک بے چارے
دیپ کی مانند چھوڑ گئی ہو
دیکھو میں کتنا اچھا تھا
میرے جیسا کوئی نہیں تھا
تم کہتیں تھیں!
یاد ہی ہو گا!
پھر بھی رشتہ توڑ گئی ہو!
دیکھو عرصہ بیت گیا ہے
سارے فیشن بدل گئے ہیں
اب یہ بھی معلوم نہیں ہے
میں اب کیسے بال بناؤں؟
کیسے کیسے کپڑے پہنوں؟
بال بھی اب تو بکھر گئے ہیں
سارے کپڑے اُدھڑ گئے ہیں
تم کو تو سب بیتی باتیں
یاد ہی ہوں گی
مجھ کو ٹھیک سے یاد نہیں ہیں
مجھ کو تو اب ہجر زدہ دیوانوں جیسی
ٹھنڈی ٹھنڈی، پُر اسرار سی
آہیں بھرنا آتی ہیں بس
کچھ لکھوں تو
درد قلم سے باہر آ کر
خود کاغذ پر گر جاتا ہے
تیری باتیں بھول گیا ہوں
غم مجھ سے باتیں کرتے ہیں
اب کوئی بھی قسم اُٹھائے
یوں لگتا ہے یہ جھوٹا ہے
جانے کیسے حال میں ہوں میں
خود بھی تو معلوم نہیں ہے
لیکن یہ سب تم کو جا کر کون بتائے
ہو سکتا ہے تم بھی سب کچھ بھول چکیں ہوں
یہ تو اک مفروضہ ہے نا
’’کہ سب تک کو یاد ہی ہو گا‘‘
لیکن جاناں میری جانب
بے خبری کا یہ عالم ہے
یادیں ساتھ نہیں دیتیں اب
باتیں یاد نہیں رہتیں!
٭٭٭
آج پھر یاد آ گئی دستک
ایک منظر بنا گئی دستک
وہ کسی اور دَر گیا لیکن
میرے گھر کو ہلا گئی دستک
ایک میں ہی نہیں جو بکھرا ہوں
ریت کا گھر گرا گئی دستک
ہجر پیغام بھیجنے والے
دیکھ مجھ کو رُلا گئی دستک
میں کھڑا دیکھتا رہا اس کو
رات کو دن بنا گئی دستک
ایک غم کو ابھی کیا رخصت
پھر اچانک سے آ گئی دستک
زینؔ وہ لوٹ ہی نہ آیا ہو
ایک دھڑکا لگا گئی دستک
٭٭٭
اشعار
ابھی سے آپ تو اُکتا گئے عزیزِ من
ہمارا ذکر فسانے کے اختتام میں ہے
تُو پھر سے لوٹ آئی مری شامِ غم تو سُن
کچھ دیر ٹھہر جا ابھی رویا ہوا ہوں میں
درد بھی اِس اَدا سے ہوتا ہے
جیسے پھر درد ہی نہیں ہونا
بے بسی کے شہر میں ہم زندگی سے تنگ ہیں
دور رہ، بس دور رہ اے بردباری، شکریہ
مر گئے تو ہو گئے ہیں زینؔ ہم اہلِ ہنر
کر رہا ہے اب جہاں باتیں ہماری شکریہ
٭٭٭
مشت برابر جیون اندر، جنم جنم کے روگ
جانے کیسے جیتے ہوں گے، سُکھ کے اندر لوگ
میری حسرت پہ طنز ہے کہ نہیں؟
میرے احساس سے خفا رہنا
ہم نہ کہتے تھے کہ پت جھڑ میں ملو
کون اب طنز بہاروں کے سُنے؟
آپ نے ہاتھ کیا چھڑایا ہے
جسم پتھر سا ہو گیا میرا
دیکھ رہا تھا ہنستی کھیلتی آنکھوں کو
جانے کیسے آنکھ اچانک بھر آئی
گردشِ ایام میں بکھرا ہوا
میں کسی سے بے خبر ہوتا گیا
زینؔ تاروں کا راز داں ہوں میں
مہ وشو! میرا اعتبار کرو
آپ کی آنکھیں سمندر کیا ہوئیں
عارضوں کا شہر جل تھل ہو گیا
میرے چہرے پہ لگے زخم یہ بتلاتے ہیں
میرے چہرے سے رعایت نہیں کی جا سکتی
میرا احساس کانپ اُٹھا ہے
یہ کوئی لمس ہے اداسی کا
تُو اگر وقت بن کے مل جاتا
ہم تجھے بھی گزار ہی دیتے
اگر سزا ہے مقدر تو کیا جزا کی طلب!
گزر گیا ہے ہماری نجات کا موسم
کون کہتا ہے اس کو پورا خط
تو نے لکھا ہے اک ادھورا خط
یہ مرے قیمتی اثاثے ہیں
ایک تُو اور اک ادھورا خط
٭٭٭
جاگنے پر سبھی منظر ہوئے ریزہ ریزہ
کتنا نقصان ہوا خواب سے بیداری کا
اب کہاں لوگ زلیخا سی طبیعت والے
اب کسے شوق ہے یوسف کی خریداری کا
سرد ہوائیں بول رہی ہیں، بالکل اُس کے لہجے میں
میں بھی یاد کی چادر اوڑھے اُس کو سننے بیٹھا ہوں
وہ جو تم گماں و خیال تھے یہاں رہ گئے
میں جو آپ اپنی مثال تھا، کہیں کھو گیا
احتراماً تمہاری راہ میں ہم
ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں رُک جاؤ
گلے سے زینؔ لگا، مسکرا کے رخصت کر
بچھڑ چلا ہے تو اُس سے سوال کیا کرنا
مرا ضبط ایسا مکان ہے
جہاں درد رہتا ہے شوق سے
بات کی ہی نہیں محبت نے
رات گزری اسی خسارے میں
شام ہوتے کسی تعبیر کے پیچھے پیچھے
میری آنکھیں بھی کہیں خواب ہوئی جاتی ہیں
کوئی تو ہے نا کہ جس کی خاطر
اداس رہنے کا شوق سا ہے!
دیکھیے ہاتھ میں احساس مرا مت لیجے
آپ تھک جائیں گے ٹکڑے مرے چنتے چنتے
عقل سے خیر مانگنے والو
عشق سے معذرت کرو فوراً
خواب زادوں پہ اب گزرتا ہے
رتجگوں کے عذاب کا موسم
بادشاہی کو تو خاطر میں نہ لایا کوئی
صرف الزام رہا مصر کے بازاروں پر
زینؔ شاید شبِ تنہائی کو احساس نہیں
کیا گزرتی ہے محبت کے عزا داروں پر
جب لفظوں کے گھاؤ بھرتے تھک جاؤ
تب خاموشی کے کچھ دیپ جلا لینا
میں کہ خود کو بھی کب میسر ہوں
بے سبب ہے ترا خفا ہونا
کتنے الجھے لفظ کہے
اُس نے سادہ لہجے میں!
٭٭٭
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/chalo-udasi-k-paar-jayen.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں