میر تقی میرؔ کی کہانی، فاروقی کی زبانی
ان صحبتوں میں….
از قلم
شمس الرحمٰن فاروقی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…..کتاب کا نمونہ پڑھیں
ان صحبتوں میں آخر۔۔۔
شمس الرحمٰن فاروقی
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
(میر، دیوان اول)
گھر سے نکلے آج لبیبہ خانم کو پانچواں ہفتہ تھا۔ اس کے گھرانے کے لیے خانہ بدری کا یہ پہلا موقع نہ تھا۔ اس کے دادا افراہیم جودت بیگووچ نے صدی کے آغاز میں بلقان کو چھوڑ کرارمن کے شہر نخجوان میں سکونت اختیار کر لی تھی اور اس سے بھی کئی صدیاں پہلے جب (۱۴۹۲ء میں، مرتب) فلپ پنجم نے غرناطہ بلکہ سارے اندلس ہی کے مسلمانوں اور یہودیوں کے سامنے شرط رکھی تھی کہ یا مذہب ترک کریں یا ملک چھوڑیں، یا جان سے ہاتھ دھوئیں، تو لبیبہ خانم کے یہودی النسل اور یہودی المذہب جد اعلیٰ، شاعر، فقیہ اور کاہن اعظم ذئب بن صالح نے جلاوطنی کو گلے لگا کر چار سو برس کے بسے بسائے گھر، کتب خانے اور دنیاوی املاک، سب کو اپنے ہاتھوں سے آگ دے کر سربیہ (Serbia) کے مشہور شہر غراد (موجودہ بلغراد، یا Belgrade مرتب) میں پناہ لی تھی۔ وہاں ان دنوں عثمانیوں کی حکومت تھی اور مسلمان، یہودی، عیسائی، زرتشتی، سب کے سروں اور گھروں پر سلطان بایزید ثانی کا سایۂ عاطفت و عطوفت یکساں مستمر اور مستنیر تھا۔
اس زمانے کے اندلس میں متوطن اکثر یہودیوں کی طرح ذئب بن صالح کی بھی زبان عربی تھی۔ اس کے مذہبی عقائد اور تصورات دنیاوی و دینی پر موسیٰ بن میمون (۱۱۳۵ء تا ۱۲۰۴ء۔ مرتب) کے فلسفے کا گہرا اثر تھا۔ موسیٰ بن میمون کی تعلیم یہ تھی کہ جہاں تک حق کا سوال ہے، تمام مذاہب اپنے اپنے طور پر حق کی ہی طرف لے جاتے ہیں لیکن روز مرہ کی بود و باش اور معیشت کے لیے عبرانیت ہی سب سے اچھا مسلک ہے۔
ذئب بن صالح کو بنوامیہ کے دور حکومت کا اندلس اور عثمانیوں کے زمانے کا بلقان یکساں راس آئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ خود تو آخر عمر تک عربی ہی بولتا لکھتا رہا تھا لیکن اس کے اخلاف نے عربی ترک کر دی تھی، کہ گھر سے باہر اس کا رواج نہ تھا۔ ذئب کی موت کے بعد اس کے اخلاف نرینہ میں سے اکثر نے بیو غراد میں مروج سربیائی/بوسنیائی زبان کے علاوہ ترکی، چرکسی اور فارسی میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ مؤخر الذکر دو زبانیں تو در اصل شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہونے کے بعد گویا جہیز میں آئی تھیں۔ فارسی بولنے والے یہودیوں کی خاصی تعداد تجارت اور نوکری سلطانی کی غرض سے تبریز اور یاروان سے بیو غراد تک آمد و رفت رکھتی تھی۔ کوہ قاف کے جنوبی دامن میں بسنے والے چرکسی تقریباً سب کے سب سنی مسلمان تھے لیکن ان میں اکا دکا یہودی خاندان، جن کا پیشہ دبیری تھا، بیو غراد میں عرصۂ دراز سے آباد تھے اور اپنے حسن صورت کے لیے بھی سماج میں اتنے ہی نمایاں و ممتاز تھے جتنی ان کی کارکردگی باب حکومت میں ضرب المثل تھی۔
دو ڈھائی سو برس آرام سے گزرے۔ ذئب بن صالح کی خاندانی شکل و شباہت کے نقوش مقامی یہودی اور بعض ترکی یا عیسائی گھرانوں کے رنگوں سے مل کر دھندلے پڑنے لگے تھے۔ ذئب بن صالح کی براہ راست اولاد میں کوئی نہ بچا تھا، لیکن اس کا نام باقی تھا۔ موسیٰ بن میمون کی تعلیمات کا بھی اثر باقی تھا اور کئی گھرانے ایسے تھے جو اپنا رشتۂ نسب ذئب بن صالح سے باندھتے تھے۔ انہیں میں لبیبہ خانم کے جدا علیٰ بھی تھے۔ یہ انہیں ایرانیوں میں سے تھے جن کی آمد بیوغراد میں ۱۴۰۰ء کے بعد شروع ہوئی تھی، یعنی اس وقت جب عثمانیوں کا تسلط بلقان پر اچھی طرح جم چکا تھا اور یہودیوں کو وہاں عیسائی حکومتوں کے ہاتھوں کسی قسم کا خدشہ نہ رہا تھا۔
یہ لوگ، جو حضرت موسیٰ کے وقت میں مصر سے آ کر بحر روم کے شمالی اور مشرقی سواحل پر آباد ہوئے تھے، زمانے اور خاص کر رومائی شہنشاہوں اور پھر عیسائیت کے ہاتھوں بار بار تباہ و تاراج کیے جانے کے باعث اپنی اصل اور آغاز سے اس قدر دور ہو چکے تھے کہ اب وہ خود کو عرب یا ایرانی سمجھنے لگے تھے۔ یوں تو سرزمین عرب، خاص کر نجد میں ایسے بھی لوگ کم تعداد میں نہ تھے جن کے چہروں کی صباحت اور آنکھوں کی نیلگونی کوہ قاف کی اقوام کو مات کرتی تھی، لیکن بحر روم کے شمال اور مشرقی ساحلوں کے اصل باشندوں میں عراق عرب کے عرب خون کی آمیزش کا لطیف سانولا پن تھا۔ لبیبہ خانم کے اجداد کی شکلوں پر اب ایرانی صباحت کے تیکھے پن کی بھی جلوہ ریزی تھی۔ لیکن گھنے سیاہ بال کچھ یونانی بہار بھی دکھا دیتے تھے۔
لبیبہ خانم کے پردادا اور پردادی کے گھرانے باہم قرابت قریبہ رکھتے تھے اور ان کا زمانہ آتے آتے ذئب بن صالح، خاور بحر روم، ایران اور بلقانی رنگ روپ کی یکجائی اور یک جانی نے ان کے افراد خاندان کی صورتوں پر انسانی حسن کی وہ شفق روشن کر دی تھی کہ لوگ ان کی خوبصورتی کی قسم کھاتے اور کہتے کہ یہ لوگ ازدواج اور مباشرت کے لیے نہیں، پرستش کے لیے بنائے گئے ہیں۔
سترہویں صدی کے اختتام پذیر ہوتے ہوتے عثمانیوں کی طاقت مشرقی یورپ میں کمزور پڑنے لگی۔ حکومت اگرچہ اب بھی ان کے ہاتھ میں تھی، لیکن اب ان کا وہ دبدبہ نہ رہا تھا۔ شمالی یورپ اور برطانیہ تک پھیلے ہوئے مسلمان ترک خاندان ایک ایک کر کے ممالک محروسۂ دولت عثمانیہ کے چتر تلے واپس آنے لگے تھے۔ وی آنا کے ترکی محاصرے (۱۶۸۳ء مرتب) کی ناکامی نے اقوام یورپ کے دل سے ترکوں کا خوف کچھ کم کر دیا تھا۔ محاصرے کی ناکامی کی یادگار کے طور پر ہلالی شکل کا جو کلچہ اہل وی آنا نے ایجاد کیا تھا اور جس کا نام سارے یورپ میں croissant (ہلال، مرتب) ہی مشہور ہو گیا تھا، اہل یورپ کو ہر صبح ناشتے پر عثمانیوں کی ہزیمت پذیری کی یاد تازہ کراتا تھا۔ دور اندیش لوگ، خاص کر یہودی، اس دن کے خیال سے خوف زدہ رہنے لگے جب ان زمینوں پر دوبارہ عیسائیوں کا قبضہ ہو گا اور دنیا ہر غیر عیسائی کے لیے تنگ ہو جائے گی۔
بیت المقدس پر صلیبی جنگ کے سورماؤں کی فتح (۱۰۹۹ء، مرتب) کے موقعے پر مسلمان اور یہودی جس طرح بے دریغ قتل کیے گئے، ان کے زن بچے جس بے دردی سے غلام بنائے گئے، ان کی عمارات و آثار جس غلو کے ساتھ زمیں بوس کی گئیں، وہ سب باتیں اب بھی لوگوں کے دلوں پر اجتماعی کابوس کی طرح مسلط تھیں۔ قوم کے بزرگ دانش مند یہ بھی کہتے تھے کہ اب اگر ہم اہل فرنگ کے غلام ہوئے تو پھر کوئی صلاح الدین ایوبی ہمیں رہائی دلانے کو نہ پیدا ہو گا۔
سترہویں صدی کے آخری برس میں لبیبہ خانم کے دادا افراہیم جودت بیگووچ کو غیر متوقع طور پر خاور بحر روم کی زمین مالوف کو مراجعت کا موقع ہاتھ لگا اور کچھ ایسے حالات میں، کہ اسے بیوغراد کی سکونت ترک ہی کرنی پڑی۔ ہوا یوں کہ ارمن کے شہر نخجوان میں بے سان و گمان ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ شہر کا بڑا حصہ اور خاص کر اس کا بڑا بازار، منہدم ہو کر رہ گیا۔ شہر کی کثیر آبادی میں سے کچھ کو زمین ہی نے کھا لیا اور کچھ کو زلزلے نے عمارتوں کے تلے کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جودت بیگوچ کے ایک ماموں شہرام یا فع بھی مرگ مفاجات کا شکار ہوئے۔ وہ جودت بیگووچ کے سگے ماموں نہ تھے لیکن ان کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ شادی انہوں نے کی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی ساری دولت اور ساری تجارت کا وارث افراہیم جودت بیگووچ کو قرار دے دیا تھا۔ چونکہ ابھی ان کی عمر بہت نہ تھی، بمشکل چالیس کے رہے ہوں گے، اس لیے سب کو توقع تھی کہ انہوں نے دور دراز رہنے والے افراہیم جودت بیگووچ کو محض رسماً اپنا وارث اور جانشین ٹھہرا لیا ہے اور مناسب موقع آنے پر وہ اپنا گھر بھی آباد کریں گے، ان کے وارث اور والی بھی پیدا ہوں گے اور ان کے کام سب ٹھیک چلتے جائیں گے۔
لیکن زلزلے نے وہ تمام باتیں، سارے مفروضے اور عزائم چشم زدن میں خاک کر دیے۔ اب شہرام یا فع کی دولت کا وارث تو کیا، اس کی لاش کو ڈھونڈ کر سپرد خاک کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ افراہیم جودت بیگووچ نے مجبوراً بیو غراد کی جمی جمائی گرہستی، باب سلطانی کی ملازمت، دوست احباب کی محفلیں سب ترک کر کے اپنی بیوی، اکلوتے بیٹے اور بہو کے ساتھ نخجوان کی راہ لی۔ زبان اور طرز معاشرت کا کوئی مسئلہ البتہ نہ تھا، کہ ارمنی زبان پر فارسی کا اتنا گہرا اثر تھا اور ہے، کہ فارسی جاننے والا تھوری سی مشق کے بعد ارمنی پر قدرت حاصل کر سکتا تھا۔ خود فارسی بھی اس زمانے میں ارمنی کے بعد سارے ارمنستان میں مقبول ترین زبان تھی اور افراہیم اس زبان سے بخوبی واقف تھا۔
توقع تھی بلکہ توقع کیا، سب کو تقریباً یقین تھا کہ شہرام یافع کی تجارت اور دولت کا وارث اپنے حسن کارکردگی، وہبی صلاحیت اور تجربے کی بناپر کچھ ہی برس میں زلزلے کے نقصانات کی تلافی کر لے گا اور ماموں کی تجارت مزید ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہو گی۔ لیکن افراہیم کو نخجوان میں آئے پانچ مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ شہر کو دوسرے زلزلے نے آ لیا اور اس بار شہر ہی نہیں، بحر ماژندران کے تمام مغربی ساحل کو بھی بھونچال نے کچھ اس بے طرح لپیٹ میں لے لیا کہ کوئی سو میل تک کے سمندر کا پانی امڈ کر بیس اور پچیس ہاتھ بلند لہروں کی شکل میں، چالیس پچاس میل فی ساعت کی رفتار سے غراتا اور بڑھتا ہوا، ساحل بحر پر دس بارہ پرسنگ تک چڑھ آیا۔ ساحل پر کھڑے تمام جہاز غرق ہو گئے، تاجروں کی کوٹھیاں، دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتوں کی کوٹھریاں اور چھوٹے موٹے بازاری پیشہ وروں کے ٹھکانے، سب ملیا میٹ ہو گئے۔ حکومت کے نمائندوں، شحنۂ سواحل بحر اور کروڑ گیریوں کے دفاتر، مٹی اور پتھر اور کیچڑ کا ڈھیر ہو گئے۔
جب ساحل کی چڑھائیاں چڑھتے چڑھتے پانی کی غضب ناکی کچھ تھکی اور تھمی، تو جہاں جہاں زمین نے شق ہو کر اسے قبول کر لیا تھا، وہاں کئی کئی ہاتھی ڈباؤ جھیلیں وجود میں آ گئیں اور وہ پانی جو کہ ان جھیلوں میں نہ سما سکا تھا، واپسی کی راہ ڈھونڈنے لگا۔ بحر ماژندران میں اترانے والے ننھے منے دریاؤں میں اتنا ظرف کہاں تھا کہ کروڑوں مکعب گزپانی کو سہار سکتے۔ تھوڑی ہی دیر میں جل تھل ایک ہو گئے تو پانی نے واپسی کی ٹھانی۔
ساحل پر چڑھائی کے ساتھ ساتھ سمندر کے ہزاروں مردہ، نیم مردہ جانور، مرغابیاں، کچھوے، گھونگھے، سانپ، خونخوار شارک اور بام، سمندر کی گہرائیوں میں دیر سے گلتی سڑتی لاشیں، ہڈیوں کے ڈھانچے، پرانے غرقاب جہازوں کے تختے، پانی ہی کی رفتار کے ساتھ ساحل اور عمارتوں اور عمارتوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے درمیان آ کر سروں کو قلم کرتے، ران اور کمر کی ہڈیوں کو توڑتے، چہروں کو مسخ کرتے، انسانوں اور جانوروں کے حلق اور پیٹ کے اندر دور تک سرایت کرتے ہوئے، زمین کی اونچ نیچ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
اس شکست و تاخت نے جگہ جگہ ملبے کے اونچے نیچے ڈھیر بنا کر انسانوں کی آمد و رفت اور بھی مشکل کر دی تھی۔ تھکے ماندے، خوف اور بھوک سے ادھ مرے لوگ بہزار خرابی اس اونچی نیچی اوبڑ کھابڑ زمین اور ملبے کے تلے دبی اشیا کو یوں کریدتے اور اپنے زندوں یا مردوں کو یوں تلاش کرتے تھے جس طرح چیونٹیاں دھیرے دھیرے محنت کر کے ایک لمبی مدت میں زمین میں ننھے منے سوراخ بناتی ہیں اور یوں بھی، اس ملک گیر تباہی کے پس منظر میں انسان کی ہستی چیونٹی سے بڑھ کر حقیر محسوس ہوتی تھی۔
اب جو پانی واپس ہوا تو بہت سارے ملبے، کوڑے کچرے کے ساتھ کئی زندہ اور مردہ انسانوں کو بھی بہا کر لیتا گیا اور بہت ساری سمندری چیزیں اپنی یادگار کے طور پر چھوڑتا گیا اور ان میں سب سے بڑھ کر خوف انگیز اور کراہیت افزا وہ سیاہ، چکنی، چپچپاہٹ سے بھری کیچڑ تھی جو کیچڑ سے زیادہ کسی شیطانی اژدہے کا لعاب دہن معلوم ہوتی تھی۔ اس لعاب نما کیچڑ کی موٹی تہہ کہیں بالشت بھر، کہیں پر انگشت بھر، ہر جگہ تھی۔
سارے ملک میں بھی اتنے کوے اور چیلیں اور گدھ نہ تھے جو ایک دو ہفتے کی مدت میں مل جل کر زمین کی صفائی کر سکتے۔ قسطنطنیہ کے باب عالی کی طرف سے ابتدائی راحت رسانی، مجروحین کے ضروری علاج اور اموات کے کفن و دفن کا انتظام تو تھا لیکن شہروں اور گھروں کی صفائی، تعمیر نو اور مالی و جانی نقصان کی تلافی کو کوئی سبیل نہ تھی۔ سڑتی ہوئی لاشوں اور غلاظتوں کے ملبے میں پلتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کے باعث جگہ جگہ وبائیں پھوٹ پڑیں۔ وہ تو خیریت گزری کہ حاجیوں کے قافلے اپنے وقت پر رمضان کے اواخر اور شوال کے آغاز میں بغداد و دمشق سے روانہ ہونے کے لیے ارمن چھوڑ چکے تھے، نہیں تو نہ جانے کیا قیامت ٹوٹتی اور باب عالی کی طرف سے جو خطیر رقم ہر سال قافلۂ حج پر صرف ہونے کے لیے منظور ہوتی تھی، وہ ساری کی ساری نہیں تو اس کا بڑا حصہ بھونچال سے متاثر علاقوں کی راحت رسانی میں لگ جاتا۔
زلزلے اور اس کے بعد کی آفات و بلیات نے افراہیم کی ساری تجارت، ساری املاک غیر منقولہ اور زیادہ تر عمارات کو پامال کر کے برابر خاک کر دیا۔ جہاز ڈوب گئے، گوداموں میں رکھا ہوا مال زمیں دوز ہو گیا، یا غرق آب ہوا، یا سڑ گیا۔ خزائن، دفائن میں بدل گئے۔ صرف چند کان اور ان میں تھوڑا بہت سامان محفوظ رہ گیا جس نے جسم و جان میں ایک کمزور سا رشتہ بنائے رکھا۔ آہستہ آہستہ جب حالات رو بہ اعتدال ہوئے تو افراہیم جودت بیگووچ کے سارے بال سفید تھے اور کمر خمیدہ ہو چکی تھی۔ نود میدہ بال طیر چمن زاد کواڑ نے کی فرصت ہی نہ ملی۔ سال کا چراغ بجھتے بجھتے اس کی بھی شمع حیات گل ہو گئی۔ وہ اردی بہشت ۱۰۸۰ (مطابق اپریل ۱۷۰۱ء، مرتب) کے وسطی ایام تھے اور سال بھر میں دو قیامتوں کو اپنی کمر پر لاد لینے اور پھر کشاں کشاں اتار لینے والی بستی پر ازسرنو بہار آ رہی تھی لیکن شہرام یافع اور افراہیم جودت بیگووچ کی نوبت آخری بار بج چکی تھی۔ اب وہاں کسی نئی ابتدا کا امکان نہ تھا۔
اس وقت سارے گھرانے میں صرف لبیبہ کا باپ عمانوئیل بن افراہیم، اس کی ایک دور کی بہن نعومیہ اور لبیبہ کے سواکوئی نہ رہ گیا تھا۔ لبیبہ کوئی چار برس کی تھی اور نعومیہ کی عمر کا کسی کو پتا نہ تھا۔ وہ مدت دراز سے ایک سی لگتی تھی، گویا اس کی صورت اور اس کا بدن زمانۂ گزشتہ کے کسی لمحے میں کسی طرح محجر ہو گئے ہوں۔ پیدائشی بہری ہونے کے باعث اس کی زبان بھی رہ گئی تھی۔ وہ گھر کا معمولی کام کاج کر دیتی اور جو روکھا سوکھا مل جاتا اسے کھا کر کسی کوٹھری میں پڑ رہتی اور اب تو روکھے سوکھے کا بھی ٹوٹا پڑ گیا تھا۔
پے درپے جھٹکوں نے عمانوئیل کو ذہنی طور پر شکست خوردہ اور عملی طور پر ناکارہ بنا دیا تھا۔ وہ اپنے باپ سے چھپا کر افیون کا نشہ کرتا تھا۔ اب کوئی روک ٹوک نہ تھی لیکن وسائل بھی نہ تھے۔ عمانوئیل نے بے تکلف لبیبہ کے چھوٹے موٹے زیوروں اور پھر نعومیہ کے چھپ چھپا کر رکھے ہوئے ان گھڑ چاندی کے پازیب اور طوق، چھلے، رہن رکھ کر قرض لینا شروع کیا۔ جب وہ سب بھی تھڑ گیا تو مکان کا ایک ایک کمرہ رہن رکھ رکھ کر عمانوئیل اپنی لت اور بیٹی کی جان کی پرورش کرتا رہا۔ نعومیہ اکثر بے کھائے ہی رہ جاتی۔ دبلی پتلی بلکہ سوکھی اور زندگی کے رس جس سے بالکل عاری، اس کے بدن میں گھلنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ ارمن کی سخت سردی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ہڈیوں کے بخار نے اسے ایندھن کی طرح جلا ڈالا۔ اسفندیار ۱۰۸۰ کے آغاز میں اس کی مدت عمر پوری ہوئی۔ اس کے کچھ ہی دن بعد عمانوئیل بھی سردی سے اکڑ کر مر گیا۔ جن لوگوں کے پاس املاک رہن تھی، انہوں نے تو اتنی مروت برتی کہ املاک مرہونہ پر قبضہ لے لیا اور سود کی رقم پر اصرار نہ کیا۔ لیکن ایک شخص ایسا تھا جس کا زر نقد نکلتا تھا۔ اس نے پانچ برس کی لبیبہ کو ایک رقاصہ زہرۂ مصری کے ہاتھ فروخت کر کے حساب برابر کیا۔
وہ زمانہ ایسا نہ تھا جب ننھے لا وارث بچوں اور خاص کر لا وارث نادار بچیوں کے ساتھ مروت یا رعایت کا سلوک کیا جاتا۔ خریدے ہوئے انسانی بچے اور خریدے ہوئے جانور میں صرف یہ فرق تھا کہ جانور کو کبھی کبھی اگلے پاؤں میں رسی ڈال کر چراگاہ یا اوسر زمین میں کھلا چھوڑ دیتے تھے کہ جس طرح چاہے اپنا پیٹ بھر لے۔ لیکن انسانی بچوں کو گھر کی دیوار کے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہ ہوتی تھی۔
لبیبہ خانم پر بچپن میں کیا کیا ظلم ٹوٹے، اس کی تفصیل بے فائدہ ہے۔ گھر کے اندر جھاڑو برتن کا کام کرنے اور راتوں کو زہرۂ مصری کے پاؤں دبانے کے ساتھ ساتھ وہ صبح شام ناچ اور گانے کی تعلیم بھی حاصل کرتی۔ ضرورت پڑنے پر اسے نیچے کی دکانوں سے سودا سلف لانے اور بازار کے لفنگوں کی گندی باتیں سہنے کے لیے بھی بھیج دیا جاتا۔ لیکن حسن ایسی دولت ہے جو اپنے وقت پر بہار لاتی ہی ہے۔ بنفشہ ہو کہ گل مشکی یا لالۂ صحرا، جب انہیں کھلنا ہوتا ہے تو خزاں کے قدم شل ہو جاتے ہیں۔ بارہ تیرہ برس کی ہوتے ہوتے لبیبہ خانم نخجوان کے لیے شہر آشوب بن چکی تھی۔ کہنے والے کبھی اس کا دل موہنے کو لاڈ اور چھیڑ کے لہجے میں، کبھی ہاتھ جوڑ کر رحم طلب لہجے میں کہتے،
فرماں دہی کشور دل کار بزرگ است
نو دولت حسنے ز تو ایں کار نیاید
لیکن لبیبہ خانم نے بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہ اٹھا رکھا۔ ایسی دھوم دھام کی معشوقی کسی نے کا ہے کو کی ہو گی۔ حسن پرستوں، عاشق مزاجوں میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس سے توقع نہ باندھی ہو اور جس کی توقع پوری ہوئی ہو۔ لبیبہ خانم نے وہ سارے انداز دلربائی، وہ سارے طرز ستم آرائی از خود حاصل کر لیے تھے جن کے لیے دوسرے حسینوں کو مشق کرنی پڑتی ہے،
یکیست معنی اگر لفظ بے شمار بود
یکیست یوسف اگر صد ہزار پیرہن است
کیا پہناوا، کیا لب و لہجہ، کیا آواز، کیا نگاہ غلط انداز کی خفیف سی چشمک، کیا چال ڈھال، کیا طرز نشست و برخواست، لبیبہ خانم کی بوٹی بوٹی روئیں روئیں سے تمنا اور لگاوٹ تراوش کرتی تھی۔ اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لینے والے کو گمان گزرتا اور بہت جلد ہی یہ گمان عقیدے اور یقین محکم میں بدل جاتا کہ بس ذرا سی کوشش کی دیر ہے، یہ مرغ بہشتی میرے ہی دام میں آئے گا۔ واللہ اس کی آنکھیں کہے دیتی ہیں کہ ہم تمہارے منتظر ہیں۔ ایک بوئے گل ہے جس کی سلسلہ جنبانی کوئی نسیم دلی کرتی ہے۔ یہ ایسا چمن ہے جس میں ہر ایک کی آمد و شد نہیں، لیکن میرے لیے اس کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اسی امید میں اس کے دروازے پر قبل از وقت پہنچتا کہ ہجوم کے باعث مجھ پر اس کی نگاہ ابھی تک ٹھیک سے پڑی نہیں، آج بس دیکھ لینے بھر کی دیر ہے پھر تو ہم ہی ہم ہیں۔ لیکن وہاں تخلیہ تو کبھی ہوتا ہی نہ تھا اور پھر بھی ہر شخص سمجھتا تھا کہ لبیبہ خانم مجھے اور صرف مجھےد یکھنا چاہتی ہے۔
اپنی مالکہ نائکہ زہرۂ مصری سے بھی اس نے خوب گن گن کر بدلے لیے۔ وہ ہزار گڑ گ ڑاتی کہ فلاں رئیس یا فلاں ملک التجار کے ساتھ ذرا لگاوٹ کی بات ہی کر لے لیکن لبیبہ خانم نے وہ گن سیکھے ہی نہ تھے۔ ایک دن ایک آذری رئیس زادے نے اس کے دروازے پر کھڑے کھڑے یہ کہہ کر اپنے گلے پر چھری پھیرلی،
رفتم از کوے تو اے خوبہ جفا کردہ بگو
صرف اوقات بہ آزار کہ خواہی کردن
اور لبیبہ خانم نے جھروکے سے جھانکا تک نہیں۔ زہرۂ مصری چپ چاپ دیکھا کی۔ کرتی بھی کیا، لبیبہ کے شائقین اور تماش بین تانتا لگائے رہتے تھے۔ ان کی بدولت گھر میں ہن برس رہا تھا۔ عثمانی دینار اور ایرانی تومان سے لے کر ہندوستانی روپے تک کون سا سکہ تھا جس کی بدریاں روز لبیبہ خانم پر پر چڑھاوے میں نہ چڑھتی ہوں۔ وہ صرف وقت مقررہ پر دن میں دو بار اپنے حجرے سے نکل کر دیوان خانے میں رونق افروز ہوتی، ایک بار سہ پہر ڈھلنے کے بعد گانے کے لیے اور دوسری بار رات گئے رقص کے لیے۔ سردی ہو یا گرمی، اس معمول میں فرق نہ آتا۔ گھر سے باہر وہ کبھی نکلتی نہ تھی۔ بعض دفعہ کسی بگڑے دل حاکم یا رئیس نے دھمکی دی کہ لبیبہ خانم فلاں وقت محل سرا میں حاضر نہ ہوئی تو اٹھوا منگوا لوں گا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وقت مقررہ کے بہت پہلے بار برداری کے اونٹوں اور سواری کے ناقے زہرۂ مصری کے بلند و بالا پھاٹک کے اندر اور باہر ہجوم کیے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ سارا گھرانہ اٹھ کر یاروان، یا کہیں اور جا رہا ہے۔ اب جابر سے بھی جابر حاکم کی یہ مجال نہ تھی کہ قافلے کو روک لیتا، یا پوچھ دیتا کہ تمہارا پرچۂ راہداری کہاں ہے۔
ایک بار ایک امیر نے ارادہ کیا بھی تو کوتوال شہر نے اس سے صاف کہہ دیا کہ میں زہرۂ مصری کو روک کر لبیبہ خانم کو اٹھوا تو لاؤں گا، لیکن انجام کے ذمہ دار جناب ہوں گے۔ شہر بھر میں کسی کو ان کی مفارقت گوارا نہیں اور نہ یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں پر کوئی جور یا زور زبردستی ہو اور اہل شہر چپ دیکھتے رہیں۔ مجبوراً زہرۂ مصری کو شہر والوں کی طرف سے درخواست گزرتی کہ آپ کہیں نہ جائیں، مرضی آپ کی، شہر آپ کا، شہر والے آپ کے۔ پھر سارا سامان، فرش فروش، پالتو جانور، شیشہ آلات، واپس گھر میں لائے جاتے اور روز کا نقشہ پھر قائم ہو جاتا۔
زہرۂ مصری خود تو قبطی عیسائی تھی لیکن اس نے لبیبہ خانم کے مذہب سے کچھ تعرض نہ کیا تھا اور نہ اسے دین موسوی کی کوئی تعلیم ہی دلوائی تھی۔ اپنے بعض یہودی چاہنے والوں کی بدولت لبیبہ خانم کو اپنے مذہب کی کچھ شدبد ہو گئی تھی۔ اپنی شریعت کے اعتبار سے آغاز سال میں وہ یوم کفارہ کا روزہ ضرور رکھتی لیکن اس سے زیادہ اس نے اپنے اور اپنے دین، یا مذہب، یا لائحۂ حیات کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ اس کے حسابوں اس کا مذہب اپنے چاہنے والوں کے ساتھ کج دار و مریز کا کھیل کھیلنا تھا، یعنی یہ کہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ ہو کہ ہر ایک کو یقین رہے کہ کامگار وہی ہو گا، لیکن کوئی اس پر قابض بھی نہ ہو سکے۔
اس نے کبھی ٹھہر کر سوچا نہ تھا کہ کیا اس کا یہ رویہ کسی فطری ذہانت یا چالاکی پر مبنی تھا، کہ اس کے لیے سب سے اچھی راہ یہی تھی کہ اپنے بہترین اثاثے، یعنی اپنے حسن اور اپنے بدن کی اس طرح حفاظت کرے کہ لوگ مایوس بھی نہ ہوں اور گوہر مراد کسی کے ہاتھ بھی نہ لگے اور اس طرح یہ نقد گرانمایہ کسی کے پاس عاریتاً بھی نہ جائے، اس کی قدر گھر بیٹھے بڑھتی رہے اور اس کا کیسہ کبھی ایک لمحے کو بھی خالی نہ ہو؟ نہ اس نے کبھی رک کر یہ سوچا کہ کیا اس کے دل کی گہرائی میں کہیں دنیا اور ارباب قضا و قدر سے انتقام لینے کا جذبہ موجزن تھا اور وہ اس طرح حساب برابر کر رہی تھی کہ جس طرح دنیا نے اسے محفوظ گھر، محبت کے گوشے اور عام انسانی توقیر سے محروم رکھا تھا، اسی طرح وہ زہرۂ مصری سے لے کر اپنے گاہکوں، چاہنے والوں (جن میں عورتیں بھی شامل تھیں)، صاحب ثروت، با حیثیت لوگوں، یعنی کل کے سب اقتدار دار لوگوں کو آج اپنے اقتدار تلے رکھنا چاہتی تھی؟
سچ تو یہ ہے کہ اپنے بدن کی حفاظت، اس کی ظاہر اور پنہاں لطافتوں اور نزاکتوں کو اپنی ہی آنکھ تلے کھلتے پھلتے معطر اور مطلی ہوتے دیکھنا، یہ اس کی زندگی کا مرکزی سروکار خودبخود ہی بن گیا تھا۔ بچپن اور جوانی کے درمیان کی فصل اس پر گزری تھی، لیکن وہ گھر کے کاموں کو مرمر کر پورا کرنے، اپنی مالکہ نائکہ کے حکم بجا لانے اور تعلیم لینے میں اس طرح خود کو کھپا چکی تھی کہ اسے اپنے بدن کی تبدیلیوں کا پتا ہی نہ چل سکا تھا اور نہ وہ یہی سمجھ پائی تھی کہ وہ اچھی ہیں یا بری ہیں۔ اسے صرف یہ محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں کی آنکھیں اب اس پر کسی اجنبی زاویے سے پڑتی ہیں اور وہ آنکھیں جو پہلے اس کے منھ پر آ کر رک جاتی تھیں، اب گردن اور اس کے نیچے اور پھر کمر اور اس کے بھی نیچے کچھ ڈھونڈتی ہوئی سی لگتی ہیں اور اس احساس کے بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار، اس کی چتون، اس کی آواز کی موسیقی، کمر جھکا کر کوئی چیز اٹھانے اور سر اونچا کر کے کوئی چیز پھینکنے کے طور، اس کا شرما کر منھ پھیر لینا، ان سب باتوں میں از خود کوئی ایسی تبدیلی بھی آ گئی تھی جس سے اسے ڈر بھی لگتا تھا اور جو اسے اچھی بھی لگتی تھی، کیوں کہ وہ اتنا تو دیکھ ہی سکتی تھی کہ گھر میں یا گھر کے باہر، کسی بھی لڑکی میں وہ بات نہیں جو اس میں ہے۔
پھر اسے جلد ہی اور خود بخود یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ وہ، جو اپنی چھوٹی سی زندگی میں دوسروں کی تابع رہ کر اتنے دکھ بھوگ چکی تھی جو کئی عمروں کے لیے کافی ہوتے، اب اس کے پاس بھی ایک ایسی چیز تھی جس کے ذریعے وہ بہت کچھ اقتدار حاصل کر سکتی تھی۔ پھر اسے تنہائی میں اپنے جسم کو بغور دیکھنے اور اس میں شگفتگی کے آثار کی دھندلی نمود کو، اپنی چشم تصور اور قوت تخیل کے ذریعے نمایاں کرنے میں ایک لطف آنے لگا۔ اب اسے زہرۂ مصری کی زد و کوب بھی نہ اٹھانی پڑتی۔
اس کی مالکہ اس بات کا خاص خیال رکھتی کہ لبیبہ خانم کے بدن پر، خاص کر منھ یا سینے یا کولھے پر چوٹ کا کوئی نشان یا داغ نہ پڑ جائے۔ اب اسے منھ دھونے اور نہانے کے لیے خوشبودار صابن اور نہا کر بدن پونچھنے کے لیے تولیہ بھی ملنے لگا۔ ورنہ پہلے اول تو نہانے کی ہی فرصت اور اجازت نہ تھی اور اگر وہ کبھی نہا لیتی تو سخت سردی ہوتی یا بارشوں کے دن ہوتے، اسے بدن خشک کیے بغیر وہی اتارے ہوئے کپڑے پہننے پڑتے تھے۔ بالوں میں ڈالنے کے لیے روغن یا سمن کی ایک چھوٹی سی کپی اور بال کاڑھنے کے لیے لکڑی کی ایک پرانی سی کنگھی جس دن اسے ملی، اس دن اس نے پہلی بار خود کو انسان محسوس کیا۔
زہرۂ مصری کو اس وقت کا بڑا انتظار تھا جب لبیبہ خانم کو چھوٹے کپڑوں اور عمر کے دیگر لوازم کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن لبیبہ نے اسے اس فتح مندی کا بھی موقع نہ دیا۔ احساس حسن کے ساتھ اس میں کچھ ایسی فطری نخوت آ گئی تھی کہ نائکہ زہرہ کو اب اس سے کچھ ڈر لگنے لگا تھا، وہ اسے بلوغت کے گر بتانے یا ان معاملات کے بارے میں پوچھنے سے گریز کرتی تھی۔ ایام گل سے پہلی بار سابقہ پڑنے پر لبیبہ خانم گھبرائی نہ روئی، نہ اس نے زہرۂ مصری سے کچھ پوچھا۔ جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی صعوبتوں کی خوگر تیرہ برس کی جان نے کسی نہ کسی طور پر سمجھ لیا تھا کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے اور اسے کسی نہ کسی طرح یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ اس بات نے اس کی دولت مندی میں کچھ محسوس، کچھ نا محسوس اضافہ بھی کیا ہے۔
لبیبہ خانم نے اپنی انہیں نو یافتہ رعنائیوں اور نخوتوں کے ساتھ نو سال گزار دیے۔ ’نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا‘ کے مصداق دونوں جانب روز اول کی سی چہل پہل رہی۔ کہتے ہیں اکیس بائیس برس کی عمر میں کسی کے حسن پر شباب آتا ہے۔ یہ بات کوئی ان تماش بینوں کے دل سے پوچھتا جو بارہ تیرہ سال کی لبیبہ خانم کے طلبگار تھے اور جنہیں یہ محسوس ہی نہ ہوا تھا کہ گردش ماہ و سال بھی اس پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کے سارے چاہنے والے روز اول سے وہی تھے۔ ’ایک اگر جی لے بھی گیا تو آتے ہیں مر جانے دو‘ کا قصہ یہاں بھی تھا اور لبیبہ کے بھی طور طریقے وہی تھے۔ بعض بعض نئے آنے والے ایسے بھی تھے جن کو دیکھ کر تصور بھی نہ ہوتا تھا کہ وہ اس یوسف کشور خوبی اور گل گلزار محبوبی کی خواہانی کا دماغ بھی رکھتے ہوں گے۔ انہیں میں ایک نیم ایرانی، نیم چرکسی نوجوان شاعر اور مطرب تھا جسے لوگ بایزید شوقی کے نام سے جانتے تھے۔ وہ ایک سمرقندی طائفے کے ساتھ شہر شہر گھومتا اور حافظ یا مولوی کی غزلیں گایا کرتا تھا۔
کشیدہ قامت، چھریرے بدن، نیلی آنکھوں، گھونگھر والے بالوں، قیامت کی رسیلی آواز والا بایزید شوقی ناک نقشے کے اعتبار سے اس قدر نازک تھا کہ اگر زنانہ لباس پہن لیتا، جیسا کہ اس کے طائفے والے اسے کبھی کبھی پہنا بھی دیا کرتے تھے، تو اچھی خوبصورت عورت معلوم ہوتا۔ اس کی عمر اور اس کے دیگر حالات کا کسی کو پتا نہ تھا۔ بس ایک دن اس کا طائفہ نخجوان میں وارد ہوا اور بایزید شوقی کی آواز کی دھوم مچ گئی۔ یہاں آنے کے دوسرے ہی تیسرے دن صبح بہت سویرے خدا جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ زہرۂ مصری کے سامنے والے بازار کے چوک پر جا بیٹھا۔ اسے شاید اس وقت معلوم بھی نہ تھا کہ وہ کس کے دروازے پر ہے اور یہاں کس قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ ابھی اتنی روشنی نہ ہوئی تھی کہ سگان کوچہ کے بھی خال و خد نمایاں نظر آ سکتے۔ ایک دو گھروں کے آگے چراغ ٹمٹما رہے تھے لیکن زہرۂ مصری کے جھروکے میں شمعی رنگوں کی قندیلوں سے منور بارہ فانوسوں کے شمعدان سے اب بھی لویں پھوٹ رہی تھیں۔ ادھر اکا دکا مزدور، کچھ انسان کے اور کچھ اللہ کے اور اکا دکا سپاہی، کچھ انسان کے اور کچھ اللہ کے، اپنے کاروبار کو جا رہے تھے یا جانے کو تیار ہو رہے تھے اور ادھر بایزید شوقی نے سہ تار پر خواجۂ شیراز کی غزل شروع کی،
اے شاہد قدسی کہ کشد بند نقابت
وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و آبت
ساری فضا پر سناٹا سا چھا گیا۔ ایسا لگا کہ لبیبہ خانم کے گلزار کے طائر بھی جو کسی دور افتادہ گل خود رنگ کی یاد میں زمزمہ کناں تھے، کان دھر کر سن رہے ہیں کہ یہ کون ہے جس کی لے شہر تا باغ ایک آواز ہے کہ دلوں میں اتری چلی آتی ہے۔ فجر کی نماز کو جانے والے بھی ٹھٹک کر رک گئے۔ اکثروں نے گمان کیا کہ یہ اجنبی مغنی اپنی میٹھی آواز سنا کر اور موہنی صورت دکھا کر لبیبہ خانم کو متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ بعض نے دل میں افسوس کیا کہ اس خوش رو جوان کی بھی یہیں مٹی خراب ہونی تھی، اس بچارے کو کیا خبر کہ یہاں تماش بینوں کی آرزوؤں کے مزاروں کے سوا چار طرف کچھ نہیں۔ لیکن بایزید ایک بے چین، آسماں بوس، متلاطم وجد میں گم، اپنے آپ میں تنہا، گرد و پیش سے بے خبر تھا۔ بعض اوقات وہ ایک ایک مصرع ایک ایک گھڑی تک طرح طرح سے دہراتا اور نئی سے نئی ادائیگیاں دکھاتا،
رفتی بہ کنار من دل خستہ و ناکام
خوابم بشد ازدیدہ دریں فکر جگر سوز
تاجائے کہ شد منزل وماوائے کہ خوابت
راہ دل عشاق زد آں چشم خماری
یارب نہ کناد آفت ایام خرابت
یہاں تک کہ جب وہ مقطع پر پہنچا تو سننے والوں کو لگا کہ اب ان کے ساتھ ساتھ بایزید کی بھی جان چلی جائے گی،
حافظ نہ غلامے ست کہ از خواجہ گریزد
لطفے کن و باز آ کہ خرابم بہ عتابت
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ زہرۂ مصری کی حویلی کے پٹ کھلے، ایک بوڑھا دربان باہر آ یا اور بایزید شوقی کو اندر بلا لے گیا۔ وہاں بایزید نے کیا دیکھا، کیا سنا، یہ کسی کو نہیں معلوم، لیکن جب اس کا طائفہ شہر نخجوان سے کوچ کرنے لگا تو بایزید اس میں نہ تھا۔ وہ رہتا کہاں تھا، یہ بھی کسی کو نہ معلوم ہوا۔ اتنا ضرور تھا کہ ہر صبح زہرۂ مصری کی حویلی کا پھاٹک کھلنے کے پہلے ہی وہ سامنے کے چوک پر پہنچ کر کبھی مولوی اور کبھی حافظ کی غزل گاتا، تا آنکہ اس کی طلبی اندر سے نہ آ جاتی۔ دو تین برس یوں ہی گزر گئے۔ بایزید نے کسی اور طائفے کی سنگت بھی نہ اختیار کی تھی اور نہ وہ کہیں کسی کے گھر میں یا کسی تقریب کے موقعے پر گانے ہی کے لیے جاتا تھا۔ شروع شروع میں اس کی طلبیاں بہت تھیں، لیکن پھر سب ہی نے سمجھ لیا کہ اب وہ صرف اپنے لیے اور لبیبہ خانم کے لیے گاتا ہے۔
پھر ایک دن یہ خبر بچے بچے کی زبان پر تھی کہ لبیبہ خانم نے بایزید شوقی سے نکاح کر لیا، زہرۂ مصری کی حویلی راتوں رات چپکے سے چھوڑ دی اور صبح ہوتے ہوتے شہر بھی چھوڑ دیا۔ زہرۂ مصری نے کیا کیا فیل نہ مچائے، کیا کیا کوششیں نہ کیں کہ کچھ پتا ہی چل جائے کہ دونوں گئے تو کہاں گئے۔ یقیناً کسی ساربان یا قافلے سے ساز باز بہت پہلے سے کر رکھی ہو گی۔ مگر ان دنوں شہر میں کوئی قافلہ آیا گیا نہ تھا۔ زہرۂ مصری نے حکام کو متوجہ کرنے کے لیے یہ بہانہ بھی تراشا کہ لبیبہ نے بایزید کے اغوا سے یہ قدم اٹھایا ہے، ورنہ وہ خود تو اس سے چڑتی اور دور بھاگتی تھی۔ مگر یہ بات کسی کے بھی حلق سے نہ اتری۔ زہرہ کو لبیبہ سے محبت تو خاک نہ تھی، لیکن سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے دے کر کسے افسوس نہیں ہوتا۔
زہرہ اور لبیبہ کے درمیان اقتدار کی مساوات تو مدت العمر ہوئی بدل چکی تھی۔ اب پلڑا لبیبہ کے حق میں بھاری تھا۔ زہرۂ مصری ابھی لبیبہ کی محکوم نہ تھی تو اس پر کسی قسم کا اختیار بھی نہ رکھتی تھی۔ قانون کی رو سے لبیبہ خانم اس کی زر خرید ضرور تھی، لیکن عثمانیوں بلکہ عام مسلمان حکومتوں میں بھی، مفرور لونڈی غلام کی تلاش اور بازیافت کا کوئی نظام نہ تھا۔ یہ معاملہ مالک اور غلام کے درمیان تھا اور لبیبہ خانم کے معاملے میں کسی کو بھی زہرۂ مصری سے ہمدردی نہ تھی۔ نہ ہی کوئی شخص لبیبہ خانم کو صحیح معنی میں زہرۂ مصری کی مملوک سمجھتا تھا۔
زہرۂ مصری کے گھر میں لبیبہ خانم کے قید ہونے، مشقتیں اٹھانے اور پھر وہیں ایک طرح سے حکومت کرنے کا زمانہ پچیس برس سے کچھ اوپر کو محیط تھا۔ اس طرح وہ اب عمر کی تیس منزلیں طے کر چکی تھی، کوئی بھولی بھالی بچی نہ تھی۔ لہٰذا زہرۂ مصری کی فریادیں، کہ بایزید شوقی میری بچی کو بھگا کر لے گیا ہے، کسی کے لیے وثوق انگیز نہ تھیں۔
بایزید شوقی کی عمر کیا تھی، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ نہ یہ بات کسی کو معلوم تھی کہ اس کے چہرے کا ہلکا سنہرا چمپئی رنگ جسے حسن پرستوں کی اصطلاح میں ’’رنگ مہتابی‘‘ کہا جاتا تھا، در اصل رنج باریک (عرف عام میں تپ دق، مرتب) کی زردی تھی۔ اسے کھانسی بالکل نہ آتی تھی، اس لیے لبیبہ خانم کو بھی شک نہ گزرا کہ اسے ہڈی کا بخار ہے۔ وہ اکثر طوطی ہند امیر یمین الدین خسرو کا شعر پڑھتا اور لوگ گمان کرتے کہ وہ یوں ہی رسمی سی بات کر رہا ہے،
درونم آتش اندیشہ بند از بند می سوزد
عفاء اللہ گر کس را تپ اندر استخواں باشد
نخجوان چھوڑتے وقت بھی اسے بخار تھا، لیکن اس نے کسی کو کچھ شک نہ ہونے دیا۔ بیماری اور اس پر طرہ یہ کہ اس نے راہ دشوار اختیار کی جو سیدھی ان کی منزل کو نہ جاتی تھی۔ اس میں لبیبہ خانم کی مرضی اور اجازت شامل تھی، کیوں کہ دونوں کا ہی مدعا یہ تھا کہ منزل کو فی الوقت خفیہ رکھا جائے۔
یہ مہر کا مہینہ اور ۱۱۰۶ کا سال تھا (مطابق ستمبر ۱۷۲۷ء، سنہ ہجری کے اعتبار سے صفر ۱۱۴۰، مرتب) مشرق میں بحر ماژندران (جسے بعض لوگ بحر خزر بھی کہتے تھے) اور مغرب میں بحر اسود، دونوں طرف سے سرد اور بارش بھری ہواؤں کا جوش تھا۔ مرطوب ہوا، بارش کی وجہ سے سڑک پر کیچڑ اور گڈھے، جگہ جگہ سفر کو اور بھی مشکل بنا رہے تھے۔ لبیبہ خانم اور بایزید شوقی کی اصل منزل تو تبریز تھی، لیکن ممکن متعاقبوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے انہوں نے شمال مغرب کی سمت اختیار کی۔ اصفہان سے شروع ہو کر ہمدان اور کرمان شاہ سے گزرتی ہوئی عظیم الشان عباسی شاہراہ جو ارومیہ جھیل کے کنارے پہنچتی تھی، یاروان ہو کر دور شمال میں طبلیسی کو نکل جاتی تھی۔ لبیبہ اور بایزید نے شروع میں اپنی سمت ایسی رکھی گویا وہ کسی مقام پر اس شاہراہ کو جا لیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کی راہ اس طرح بہت لمبی ہو گئی اور انہیں کئی جگہ غیر اہم بستیوں اور کم چلتی ہوئی سڑکوں سے گزرنا پڑا، جہاں پڑاؤ کے لیے مناسب سرائیں بھی نہ تھیں۔ ورنہ تبریز تو نخجوان سے بمشکل تیس کوس کے فاصلے پر تقریباً سیدھی جنوب کی سمت تھا۔
دوسری بات یہ تھی کہ نخجوان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں سارا ملک اقالیم عثمانیہ میں پڑتا تھا، جب کہ جنوب میں کوئی بیس ہی پچیس کوس چل کر ایران کی سرحد شروع ہو جاتی تھی اور اس سمت میں ایران کا پہلا بڑا شہر تبریز ہی تھا۔ زبان ان دونوں کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھی، سیاسی پناہ ضرور ان کے لیے اہم تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں خطبہ اور سکہ تو شاہ طہماسپ صفوی کا چلتا تھا، لیکن زمام کار نادر قلی خان کے ہاتھ میں تھی۔ نادر قلی خان نے غالباً شاہ طہماسپ صفوی سے اپنی وفا داری اور تعلق خاطر کے ثبوت کی غرض سے اپنا نام طہماسپ قلی خان رکھ لیا تھا اور شاہ عباس صفوی سوئم کی موت (۱۷۳۶ء، مرتب) کے بعد اس نے نادر شاہ کا لقب اختیار کر کے ایران کا تاج و تخت بھی سنبھال لیا تھا۔ اس بات کو ابھی کوئی دس برس باقی تھے لیکن اپنے حسن انتظام، تدبر ملکی اور لیاقت عسکری کی بدولت طہماسپ قلی خان نے سارے ایران میں اپنے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
عثمانیوں اور ایرانیوں میں گاڑھی کبھی نہ چھنی تھی اور ان دنوں تو کٹا چھنی تھی۔ عثمانیوں کو نادر قلی خان کی قوت اور ہر دل عزیزی ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ وہ اسے ایک معمولی خراسانی چروا ہے کی اولاد سمجھتے تھے اور اس سے کسی قسم کی سیاسی گفت و شنید کرنا یا اس کے ساتھ کسی صلح نامے پر دستخط کرنا دون مرتبہ جانتے تھے۔ لیکن دونوں حکومتوں کے درمیان اس کشیدگی کے باعث ممالک عثمانیہ سے بھاگ کر مملکت ایران میں پناہ لینے والوں کو توقع ہوتی تھی کہ انہیں واپس عثمانی حکام کے سپرد نہ کر دیا جائے گا۔
پیچ دار راہیں اختیار کرنے اور ٹھہر ٹھہر کر سفر کرنے کی وجہ سے لبیبہ خانم اور بایزید شوقی نے تین دن کا سفر تین ہفتے میں طے کیا۔ تبریز میں انہیں کوئی جانتا نہ تھا، عافیت ہی عافیت تھی۔ لبیبہ خانم اپنے ساتھ اتنا زر نقد اور زیور لائی تھی کہ کئی سال تک انہیں فکر معاش نہ ہوتی۔ پھر بھی، بایزید نے فوراً چند تبریزی امیر زادوں کی اتالیقی حاصل کر لی۔ لبیبہ خانم دوبارہ گھر میں بند ہو گئی لیکن یہ محرومی آشیاں بندی کی تھی اور ہزاروں نام نہاد آزادیوں سے بڑھ کر تھی۔
یکم رجب ۱۱۴۳ ہجری (یعنی ۱۰جنوری ۱۷۳۱ء، مرتب) کو لبیبہ خانم ایک بچی کی ماں بنی۔ بچی کا نام نور السعادۃ رکھا گیا۔ بچی کی پیدائش کے تیسرے دن بایزید کو سردی لگ کر کھانسی شروع ہوئی۔ وہ بمشکل ایک ہفتہ بستر پر رہا اور اس عرصے میں بھی اس نے طبیب کا منھ نہ دیکھا۔
’’میں اب موت ہی کا منھ دیکھوں گا لبیبہ خانم۔‘‘ اس نے رک رک کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’میں تمہارا قصور وار ہوں، جب تم نے مجھے پہلی بار بلایا تھا تو مجھے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ نہیں تو مجھے چاہیے تھا کہ کسی موقعے پر تمہیں بتا ہی دیتا کہ میرے چہرے کی گلابی سرخی در اصل عارضی ہے۔ موت ایک عرصے سے میری تلاش میں ہے اور یہ تلاش بہت جلد ختم ہو جائے گی۔‘‘
’’تم کیوں قصوروار ٹھہرو؟‘‘ لبیبہ نے چیں بر جبیں ہو کر کہا، ’’یہ کون سی منصفی ہے کہ جان بھی تمہاری جائے اور قصوروار بھی تم ہی ٹھہرائے جاؤ۔ مجرم اگر کوئی ہے تو وہ ہے جسے کوئی تقدیر کہتا ہے، کوئی۔۔۔‘‘
’’چپ، ایسی بات منھ سے نہ نکالو جس پر بعد میں پشیمانی ہو۔ ہم لوگ اس لیے بنائے گئے تھے کہ اپنی حد کمال کو پہنچیں۔ میری اور سچ کہو تو کسی کی بھی حد کمال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ تم تک پہنچ جائے۔ میں تمہارے لائق تھا بھی نہیں۔ کہاں میرا کثیف سینہ، کہاں تمہارے جمال بے مثال کا عکس۔ اس کے بعد مجھے جینے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اتنے دن تو تمہاری محبت مجھ مردہ کو یمن زندگی کی بدولت اٹھائے رہی۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ اچانک پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ نہ جانے کہاں سے اس کے بدن میں نئی جان آ گئی تھی کہ اس نے پورے لحن کے ساتھ شعر پڑھا،
چورسی بہ کوئے دلبر بہ سپار جان مضطر
کہ مباد بار دیگر نہ رسی بدیں تمنا
پلنگ کے سرہانے کا سہارا لے کر بایزید نے ایک بار پھر سرگوشی کے لہجے میں یہی شعر دہرایا اور آنکھیں بند کر لیں۔
وہ پہلی سردی نور السعادۃ کے لیے بڑی سخت تھی بلکہ سب ہی کے لیے سخت تھی، کہ بوڑھے لوگ بتاتے تھے ایسی بے مہر سردی تبریز میں نصف صدی سے نہ پڑی تھی۔ نور السعادۃ کو ہر پانچ سات دن پر کھانسی یا نزلہ ہو جاتا، پھر اس کا سینہ جکڑ جاتا اور سانس اس قدر تیز چلنے لگتی کہ اس کا پھول سا چہرہ نیلا پڑنے لگتا۔ اطبا کی رائے تھی کہ اسے پیدائشی دمہ ہے، یا پھر باپ کے اثر سے اس کے بھی پھیپھڑے کمزور ہیں۔ آج کے ڈاکٹر ہوتے تو شاید الرجی تشخیص کرتے۔ ان دنوں یہ تصور ہی نہ تھا۔ لیکن ایک دو حکیموں نے یہ ضرور کہا کہ تبریز کی سرد، مرطوب ہوا بچی کے لیے مناسب نہیں، چند مہینے کسی طرح سہار لے تو اسے کسی نسبتاً معتدل جگہ لے جاؤ۔ مثلاً اصفہان میں ہوا یہاں کی بہ نسبت خشک ہے اور سردی بھی وہاں کم پڑتی ہے۔ اصفہان کا قیام اس بچی کے لیے مفید ہو گا۔
لیکن چھتیس برس کی عمر میں بیوہ ہو جانے والی، دنیا میں تن تنہا، لبیبہ خانم کس کے سہارے نئی جگہ منتقل ہوتی؟ نخجوان واپس جانے کا سوال تھا ہی نہیں اور وہاں کا موسم بھی بہرحال تبریز ہی کی طرح سخت اور سرد تھا۔ اصفہان میں، بلکہ تبریز کے باہر سارے ایران کبیر میں کوئی بھی ان ماں بیٹی کا جاننے والا نہ تھا۔ تبریز میں تو لبیبہ خانم کو بیوگی کے چند ہی ہفتوں کے اندر بعض با اثر اور بعض رنگین مزاج عمر رسیدہ لوگوں کی طرف سے شادی یا پھر داشتہ بن کر رہنے کے لیے کنایے بھی آنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ سلسلہ جنبانیاں لبیبہ خانم پر بے حد شاق تھیں لیکن ان میں امید کی ایک گدلی دھندلی سی کرن بھی تھی کہ تبریز میں رہے گی تو بالکل سبزۂ بے گا نہ بن کر نہ رہے گی۔ خیاباں میں گل بے خار نہ سہی تو سبزۂ لب جو کی طرح روندی اجڑی پجڑی بھی نہ رہے گی۔ اب لبیبہ میں وہ نخوت، وہ تمکنت، وہ خود اعتمادی نہ تھی۔ اب اسے خود پر وہ اطمینان نہ تھا جو اپنے حسن کے عالم میں ایک انتخاب اور سارے جہاں میں اپنی محبوبی کی دھوم کے تیقن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں تنک اب بھی تھی، لیکن اب ان نازوں کے اٹھانے والے اٹھ گئے تھے۔ اس کے باوجود اتنا تو تھا ہی کہ جس اعتماد کے ساتھ اہل محبت نے لبیبہ خانم کے تنہا رہ جانے میں در و بام دوستی کے از سر نو کھلنے کی نشانیاں دیکھی تھیں، اس سے زیادہ اعتماد اور پر رمز تمکنت کے ساتھ لبیبہ خانم نے رواق و منظر آشنائی کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاہ پڑ جانے کے اشارے بھی اپنے طلب گاروں کو بھجوا دیے۔
چھ سات مہینے کی عمر ہوتے ہوتے نور السعادۃ دو تین بار مرتے مرتے بچی۔ سردیاں جاچکی تھیں لیکن تبریز کی ہوا میں رطوبت ابھی باقی تھی۔ نور السعادۃ کے لیے اب بھی عافیت نہ تھی۔ وہ اس قدر دبلی تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں گڑیوں کے جیسے معلوم ہوتے تھے۔ چہرے پر بس دو آنکھیں ہی دکھائی دیتی تھیں، گہری اور سبز آنکھیں جن میں بیماری کی نقاہت کے باوجود آگاہی کی عجب روشنی تھی، گویا وہ دنیا اور اہل دنیا کو پرکھ رہی ہوں۔ سنہرے گھونگر والے بالوں کا ہالہ اس کے چہرے کی زردی کو اگر ایک حد تک زائل کرتا معلوم ہوتا تھا تو اس کی آنکھوں کے سبز نگینوں کی جھمک میں اس کے بالوں کا بھی عکس روشن نظر آتا تھا۔
موسم بدلا تو دنیا نور السعادۃ پر کچھ آسان ہوئی، لیکن عارضی طور پر، ورنہ اس کی بیماری اس دھاگے کی طرح تھی جو مرغ نو گرفتار کے پاؤں میں باندھ دیتے ہیں۔ وہ اڑ تو سکتا ہے لیکن بہت دور نہیں جا سکتا۔ اٹھارہ مہینے کی عمر میں نور السعادۃ ایک بار شدید کھانسی، زکام اور ضیق النفس میں مبتلا ہوئی تو اس کی بیماری طول کھینچ گئی۔ وہ اتنے دن بیمار رہی کہ معالجوں کو خوف پیدا ہوا کہ اگر سردیوں تک مرض کے یہی لیل و نہار رہے تو لڑکی زندہ نہ بچے گی۔ اب لبیبہ خانم مجبور ہوئی کہ بچی کی طبیعت کے تھوڑا سنبھلتے ہی تبریز کو خیرباد کہہ کر اصفہان کو ہجرت کر جائے۔ اس نے دو معتبر ساربانوں کے ذریعے رہنمائی، سواری کے لیے سانڈنیوں اور بار برادری کے لیے اونٹوں کا انتظام کیا، گھر کا غیر ضروری سامان گھر کے ساتھ فروخت کر دیا اور ۱۱۴۵ کے ربیع الثانی (مطابق ستمبر ۱۷۳۲ء، یا آبان ۱۱۱۱، مرتب) میں اصفہان کے لیے روانہ ہو گئی۔ قبرستان شہر سے ذرا باہر لیکن اصفہانی شاہراہ ہی پر تھا۔ اس نے خشک آنکھوں اور ویران دل کے ساتھ بایزید کے مزار پر رک کر اسے الوداع کہی اور وعدہ کیا کہ زندگی رہی تو پھر تیرے مزار پر آؤں گی اور اس کی زیارت کر کے ہی مروں گی،
گر بمانیم زندہ بر دوزیم
دامنے کز فراق چاک شدست
ار بمیریم عذر ما بپذیر
اے بسا آرزو کہ خاک شدست
اصفہان کی شاہراہ ان دنوں میانہ، زنجان، قزوین، قم، طہران اور کاشان ہو کر جاتی تھی۔ یہ راستہ ذرا لمبا تھا لیکن محفوظ ہونے کے ساتھ اس میں ایک اور خوبی یہ تھی کہ کوئی بڑا دریا حائل نہ تھا۔ ورنہ بارشوں کے موسم میں ایسی کسی بڑی ندی کو عبور کرنا جس پر پل نہ ہو، خطرے سے خالی نہ تھا۔ قزوین سے طہران تک کوہ البرز کی چڑھائیاں اور وادیاں اور پھر اصفہان کے بالکل پاس کوہ کر گس کی چڑھائی اور اتار ضرور تھے لیکن وہاں رفتار کے سست تر ہو جانے کے سوا کوئی صعب نہ تھا۔ ان کی سواری کے ناقے عراقی النسل، انتہائی خوبصورت، سبک گام اور ہرنوں کی سی بڑی بڑی آنکھوں والے تھے۔ ان کے سارے جسم پر سرخی مائل سنہرے بال تھے، اس قدر باریک اور نرم کہ معلوم ہوتا تھا یہ بال نہیں ہیں بلکہ ریشمی چادریں ہیں جو انہیں الگ سے اڑھا دی گئی ہیں۔ عام اونٹوں کے برخلاف ان میں بد مزاجی اور ضد بالکل نہ تھی۔
نور السعادۃ اپنی ننھی سی زندگی میں پہلی بار ایسے لطف سے دوچار ہوئی تھی، کہ ہوا تازہ اور رطوبت سے عاری ہو۔ کھلے آسمان پر چڑیوں کی چہچہاہٹ اس کی قلقاریوں سے یک آہنگ ہو جائے اور سواری بھی صبا رفتار ہو، لیکن جھٹکے قطعی نہ ہوں۔ لبیبہ خانم کی پیشانی پر بھی بایزید کی موت کے بعد پہلی بار شگفتگی کی پھیکی سی لہر آئی۔ اسے امید ہونے لگی کہ بیٹی کی صحت اور زندگی، جن کی خاطر اس نے اپنے بایزید کو گورستان میں تنہا چھوڑ دیا تھا، اب ناقابل حصول تمنائیں نہ ٹھہریں گی، پوری ہو سکیں گی۔
وہ دو ہفتے میں اصفہان پہنچے۔ لبیبہ خانم نے ساربانوں کو معاوضہ اور انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا، شاہی سرائے میں ایک کوٹھری اپنے رہنے کے لیے اور ایک اپنا سامان محفوظ کرنے کے لیے کرائے پر لی اور اطمینان کا سانس لیا۔
دوسرے دن وہ رہنے کے لیے مناسب مکان کی تلاش میں نکلی۔ لیکن اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ دوسروں کے لیے اصفہان نصف جہان ہو تو ہو، اس کے لیے وہ ایک تاریک جنگل سے بد تر تھا، کہ اسے اس کی وسعتوں میں کوئی بھی گوشۂ عافیت نہ مل سکتا تھا۔ کسی مرد، یا کم سے کم کسی بوڑھی خاتون سرپرست کے بغیر اسے کسی گھر میں بار نہ تھا۔ کہیں کہیں مکانوں کے مالک اسے دزدیدہ للچائی نظروں سے دیکھتے اور یوں گفتگو کرتے کہ وہ ماں بیٹی کو بے قیمت یا بے کرایہ بھی گھر دے سکتے ہیں بشرطیکہ اس کی طرف سے بھی کچھ مزید انتظام کا وعدہ ہو۔ اگر کوئی عورت صاحب مکان ہوتی تو وہ اشاروں اشاروں میں، یا اپنے طرز گفتگو سے، ظاہر کر دیتی کہ اس کے خیال میں لبیبہ خانم نہ بیوہ ہے اور نہ کبھی اس کی شادی ہوئی تھی۔
اکثر عورتوں کے خیال میں لبیبہ ایک ’’گری ہوئی‘‘ یا بے آبرو عورت تھی، جس کے عاشق نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ رہا یہ قصہ کہ وہ اپنی بیٹی کی صحت کی خاطر تبریز چھوڑ کر اصفہان آئی ہے، تو صاحب توبہ کیجیے، کہیں شہر بدلنے سے صحتیں حاصل ہوتی ہیں اور بھلا کوئی دور دراز کے شہر میں ایسی کسی غرض سے آباد ہوتا ہے؟ مانا کہ لڑکی واقعی مریل سی تھی لیکن اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ ہمیں تو ان بی بی کی چال ڈھال، لب و لہجہ اور طور طریقے کی تمکنت سے صاف لگتا ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ کئی مردوں کی معشوق رہ چکی ہیں، نکاحی تو کہیں سے لگتیں نہیں۔ عورتوں نے تو اسے یوں مسترد کیا اور مردوں نے کچھ امید اور کچھ نا امیدی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لبیبہ خانم کا تعلق قریب کے کسی شہر کے ارباب نشاط سے رہا ہو گا اور جس شخص کی ملازم وہ اب تک تھی، اس سے ان بن ہو جانے کے بعد قسمت آزمائی کے لیے وہ اصفہان آ گئی ہے۔
بالآخر لبیبہ خانم کو جگہ ملی، لیکن محلہ باغات میں، یعنی اس علاقے میں جہاں اصفہان کے ارباب حسن اور اصحاب طرب رہتے تھے۔ لبیبہ خانم نے چھ سال کی ازدواجی زندگی میں پرانے طور طریقے بھلائے نہ تھے۔ اسے یہ بات بھی قبول نہ تھی کہ وہ کسی گھر میں نوکرانی بن کر عورتوں کی گالیاں کھائے اور ہر بوڑھے جوان مرد کی شہوت کا تختۂ مشق بنے اور کسی کی داشتہ بن کر رہنے سے تو بدرجہا بہتر یہی تھا کہ وہ اپنی مالک آپ بن کر رہے، دوسروں کی پابند بننے کی جگہ انہیں اپنا محکوم بنائے۔ عورتیں اور خاص کر خوبصورت اور کمزور طبقوں کی عورتیں اس زمانے میں گاجر مولی کی طرح خریدی اور بیچی جاتی تھیں اور گاجر مولی ہی کی طرح کٹتی اور مزبلے پر پھینک بھی دی جاتی تھیں۔ ان ذلتوں کے اٹھانے سے تو بہتر یہی تھا کہ وہ اہل طائفہ بن کر رہے۔ یہ فیصلہ اس نے ہزار کراہت اور ناپسندیدگی کے ساتھ کیا،
حال آں مرغ چہ باشد کہ پس از گل ناچار
غنچۂ دل بہ خس و خار گلستاں بندد
لیکن تھوڑی بہت توقیر جو ممکن تھی وہ اسی طرز زندگی میں ممکن تھی اور اسے اعتماد تھا کہ تبریز کی طرح یہاں بھی وہ اپنا وقار قائم رکھ سکے گی۔
جہاں تک سوال اس بات کا تھا کہ اس کا حسن کب تک قائم رہے گا اور اب وہ حسن اس کے کیا کام آ سکتا تھا، تو یہ کہنا کافی ہے کہ کئی اعتبار سے لبیبہ خانم پر مکمل شباب تو اب آیا تھا۔ ماں بننے کے بعد اس کے چہرے مہرے، چال ڈھال، نشست و برخاست کے انداز میں اس اعتماد اور تمکنت کا اضافہ ہو گیا تھا جو عورت کو اپنا مقصد حیات حاصل کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔
زندہ خون کی سرخی اب اس کے لب و رخسار، انگلیوں کی پوروں، پاؤں کے ناخنوں تک سے چھلکتی تھی۔ گویا خون اس کے بدن میں صرف رواں نہیں بلکہ مدمقابل سے ہم کلام بھی ہو۔ اس کا بدن جو پہلے ذرا چھریرے پن کی طرف مائل تھا، اب کچھ کچھ بھر گیا تھا۔ کولھے، پیڑو اور چھاتیاں ایک عجب دلفریب انداز میں نمایاں تر ہو گئی تھیں۔ بوٹے سے قد کے باوجود جب لبیبہ خانم سرو قد کھڑی ہو کر سلام کرتی یا کسی کا سلام لیتی تو اچھے اچھے لوگ اس کی شخصیت کی کرشمہ جاتی کشش کی تاب نہ لا سکتے اور اضطراری طور پر اس کے پاؤں کی جوتیوں یا اگر وہ ننگے پیر ہوتی تو اس کے پاؤں کے انگوٹھوں کی طرف دیکھتے، گویا اس کے قدموں میں سر ڈال دینے کا موقع تلاش کر رہے ہوں۔
باغات میں گھر بسنے کی دیر تھی کہ رندان باغاتی کا ہجوم لبیبہ خانم کے دروازے پر صبح تا شام امڈنا شروع ہو گیا۔ لیکن باریابی کی اجازت سب کو نہ ملتی اور کسی کو ملتی بھی تو مقررہ وقت پر، اس کے بعد یا پہلے نہیں۔ ایسے حالات میں کبھی کبھی بدمزگی کا بھی امکان نکل آتا۔ یہ نخجوان تو تھا نہیں، جہاں کا بچہ بچہ سدس مصری کی معجز نما مغنیہ رقاصہ کا غلام تھا۔ یہاں تھوڑی بہت حفاظتی تدابیر ضروری تھیں۔ کردستانیوں کی وفا داری اور جاں فروشی کے قصے اس نے بہت سنے تھے۔ لہٰذا چار تنومند اور جسیم کردستانی دربان ناجنس اور ناخواستہ آئند و روند کی روک ٹوک کے لیے مقرر کر لیے گئے تھے۔ لیکن صدر دروازے کے باہر تو کسی پر قدغن نہ تھی۔ لبیبہ خانم کبھی کبھی سوار ہو کر ہوا خوری کو نکلتی، کبھی نور السعادۃ کو سیر کرانے لے جاتی۔ لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھڑیوں انتظار کرتے،
یاراں ہمہ پر خوں کہ مبادا روی از بزم
جمعے بہ سر رہ کہ کے از انجمن آئی
نخجوان میں اس کی مجلس دو وقت ہوتی تھی مگر یہاں اس نے صرف ایک وقت کی رسم رکھی۔ رقص کرنا اس نے ترک کر دیا تھا۔ اس کی مجلس زیادہ سے زیادہ دو ساعت کی ہوتی۔ بایزید سے اپنی روحانی یگانگت کی ذاتی یاد آوری کے طور پر وہ مولوی اور حافظ کا کلام بیش از بیش گاتی تھی۔ لیکن تبریز کی محبت کے اظہار اور اس شہر کو اپنے دل میں خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے وہ محمد علی صائب کا کلام بھی گاہے ما ہے سنا دیا کرتی۔ کبھی کبھی اہل اصفہان کے لحاظ سے وہ کمال اسمٰعیل یا محسن تاثیر کے بھی شعر پڑھ دیتی۔
ایک بار جب اس نے کمال اسمٰعیل کی رباعی سے محفل کا آغاز کیا اور مقام عشاق میں اس کی لے اٹھائی تو حضار محفل کا کیا مذکور، باہر سے کان لگا کر سننے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں، لیکن وہ خود یوں گاتی رہی گویا سمجھتی ہی نہ ہو کہ یہ رباعی اس سے بھی کچھ کہہ رہی ہے،
بگذشت و مرا اشک رواں بود ہنوز
و اندر تن من باقی جاں بود ہنوز
می گفت و مرا گوش بر آں بود ہنوز
بے چارہ فلانیست جواں بود ہنوز
ماہ و سال یوں ہی گزرتے گئے۔ لبیبہ خانم کی عمر ڈھل رہی تھی لیکن اس کے رکھ رکھاؤ اور ادب آداب میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس کے کمال حسن اور حسن کمال کی شہرت اور چند برس بعد اس کے ساتھ ساتھ نور السعادۃ کی فرشتہ صورتی کے چرچے ملک بھر میں پھیلنے لگے۔ لبیبہ خانم کو علم مجلسی اور علم رقص و موسیقی کے سوا کچھ سکھایا نہ گیا تھا۔ علوم رسمیہ سے وہ بے بہرہ تھی، لیکن اپنی قوت حافظہ اور قوت آخذہ کے بل بوتے پر اس نے اتنا کچھ سیکھ سمجھ لیا تھا کہ پڑھے لکھوں کی محفل میں وہ کسی سے ہیٹی نہ رہتی۔ سخنور ان پیشیں کا کلام نظم و نثر بھی اسے لایحصیٰ یاد تھا۔ محفلوں میں جو کچھ بھی وہ سناتی، حافظے کے بل بوتے پر اور بے ضغطہ زبان سناتی تھی۔
اصفہان کی معتدل آب و ہوا نے نور السعادۃ کی صحت پر واقعی اچھا اثر ڈالا۔ اب اسے تنفس اور کھانسی کے دورے بہت کم پڑتے تھے اور اگر پڑتے بھی تو کم مدت کے لیے۔ اس کی تعلیم اور تربیت اور تدریب کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ نور السعادۃ کو ماں باپ کے حسن کے ساتھ ساتھ ان کی وہبی صلاحیتوں سے بھی حصۂ وافر ملا تھا۔ اس کی اپنی دماغی قابلیت اس پر مستزاد تھی۔ علم موسیقی تو اس نے گویا ماں کے پیٹ ہی میں سیکھ لیا تھا۔ اس کی موزونی طبع بھی بہت بچپن میں نمایاں ہونے لگی تھی اور دس گیارہ سال کی عمر سے اس نے شعر کہنا آغاز کر دیا تھا۔ خلوت و جلوت میں گفتگو، نشست و برخاست کے آداب کے لیے بھی اسے ماں کی گود سے آگے نہ جانا پڑا تھا۔ لبیبہ خانم نے نور السعادۃ کے لیے علوم رسمیہ کی بھی تعلیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے بیٹی کو خطاطی، شہسواری اور تیرا فگنی کی بھی تعلیم دلائی۔
حسن کا اس کے یہ عالم تھا کہ جن لوگوں نے لبیبہ خانم کو نخجوان میں دیکھا تھا، اب نور السعادۃ کو اصفہان میں دیکھتے تو ایک دو لمحے کے لیے فرق نہ کر سکتے اور گمان کرتے کہ لبیبہ خانم نے کسی جادو کے زور سے اپنی عمر کم کر لی ہے۔ ان کے مزاج میں اتنا فرق البتہ تھا کہ نور السعادۃ کی نخوت میں رعونت کا رنگ تھا۔ پھر وہ کچھ ضدی بھی تھی اور کم گفتار بھی۔ اس وجہ سے اس کے دل کی بات یا اس کی ضد کی وجہ بھی، مشکل ہی سے جانی جا سکتی تھی۔
ایک بات یہ بھی تھی کہ ماں نے بیٹی کے لیے کس قسم کے مستقبل کے منصوبے بنائے ہیں اور بیٹی اپنی موجودہ اور آئندہ زندگی کے بارے میں کیا سوچتی یا محسوس کرتی ہے ان معاملات پر ماں بیٹی میں کبھی گفتگو نہ ہوئی تھی۔ دونوں کے دل میں چور تھا اور ایسا چور کہ نہ دبائے دبتا تھا اور نہ روز روشن میں کھلنا چاہتا تھا۔ جیسی تعلیم نور السعادۃ کو ملی تھی، وہ تو امیر زادیوں اور شہزادیوں کو ہی مل سکتی تھی لیکن نور السعادۃ کی ہتھیلی میں امیر زادیوں اور شاہزادیوں تو کیا، اوسط درجے کی گھریلو خانم جیسی لکیر بھی شاید تھی ہی نہیں اور کیا یہ ممکن تھا (مناسب ہونا تو دور کی بات تھی) کہ ماں کے بعد بیٹی اصفہان کے رندان باغاتی کے تفرج اور دل بستگی کا سامان مہیا کر سکے گی اور اسی شان اور تمکنت کے ساتھ جو اس کی ماں کے حصے میں آئی تھی؟
بیٹی کے مزاج میں رعونت اور ضد تھی، ماں کے یہاں تمکین اور وقار۔ لیکن عزت نفس کو ہاتھ سے دیے بغیر وہ حالات سے سمجھوتا بھی کرنا جانتی تھی اور ماں میں جو کرشمہ جاتی صفت تھی، کہ اس کی طرف عورت مرد سب کے دل خود بخود کھینچتے تھے، کیا بیٹی کو بھی اس میں سے حصہ ملا ہو گا؟ یہ بات تو کچھ دن کے بیوہار اور برتاوے کے بعد ہی کھل سکتی تھی۔
پھر یہ بھی تھا کہ ماں نے تو ایک بیٹی کو جنم بھی دیا تھا اور چند سال سہی، لیکن اس نے معشوقی اور عورت پن، دونوں کے مناصب حیات بھی پورے کیے تھے اور بڑی حد تک من مانی کر کے اپنے دن گزارے تھے۔ زندگی کے سارے نشیب و فراز کے باوجود لبیبہ خانم بہت خوش قسمت بھی رہی تھی۔ کیا ایسی قسمت بیٹی کو بھی مل سکے گی؟ ورنہ یہ کیا بات ہوئی کہ سفینۂ حیات میں وہ سوار تو شہزادیوں کے رنگ ڈھنگ سے ہو اور ساحل مراد پر ٹھہرنے کے بجائے اس کی کشتی دور دور قعر مذلت میں غوطے کھاتی پھرے؟
اور نہیں تو کیا کوئی جنوں پر یوں کے دیس کا شہزادہ آ کر نور السعادۃ سے بیاہ رچا کر اسے کوہ قاف پر لے جائے گا؟ علی قلی والہ داغستانی کی معشوقہ خدیجہ سلطان تو اس کی بنت عم تھی۔ دونوں اعلیٰ خاندان سے تھے اور دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ کوئی دن جاتا تھا کہ ان کی شادی ہو جاتی اور ان کی زندگی ایک طویل بہار یہ کی مثال بنتی۔ لیکن تقدیر کے ایک پلٹے نے سب کچھ پلٹ دیا۔ پہلے تو شیطان صفت افغان سردار نے اصفہان پر قبضہ کیا اور شاہ طہماسپ کو تخت سے اتار کر شہر میں لوٹ شروع کی۔ اس دارو گیر میں والہ اور خدیجہ کے گھر والے بھی آ گئے۔ خدیجہ کو افغان سردار نے بزور اپنے محل میں ڈال لیا۔ پھر جب نادر قلی خاں نے افغانیوں کو تہ تیغ کر کے شاہ طہماسپ کو ملک واپس دلایا تو خدیجہ سلطان بھی شاہ طہماسپ کے تصرف میں آ گئی۔ علی قلی والہ بچارا جان کے خوف سے بھاگ کر ہندوستان جا رہا تھا۔
خدیجہ سلطان کبھی کبھی چوری چھپے اسے خط لکھتی لیکن دونوں ہی دعا کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے معذور تھے۔ پھر جب ۱۱۴۸ (۱۷۳۶ء، مرتب) میں نادر قلی خاں نے طہماسپ صفوی کو معز ول کر کے اس کے خورد سال بیٹے عباس کو عباس صفوی سوئم کے نام سے تخت نشین کیا تو بے زبان خدیجہ سلطان نادر قلی خان کے ہتھے چڑھی اور اب بھی اس کے حرم کے کسی کونے میں پڑی وہ زندگی کی گھڑیاں سسک رہی ہے۔ نادر شاہ کے حملہ دہلی اور قتل عام کے دوران علی قلی والہ چھپتا پھرا کہ ایرانی سپاہیوں کا سامنا ہوا تو نادر شاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ فوراً اس کی تکا بوٹی کر دیں گے۔
ایسی دنیا اور ایسے زمانے میں نور السعادۃ جیسی لڑکی کو شوہر یا مربی کے بغیر کون سا کنج عافیت مل سکتا تھا؟ یقین ہے کہ لبیبہ خانم نے بھی ان باتوں پر اسی انداز میں غور کیا ہو گا جس طرح نور السعادۃ راتیں جاگ جاگ کر غور کرتی تھی۔ لیکن اپنی تمام مضبوطی کردار کے باوجود اس میں ہمت نہ تھی کہ اس معاملے پر بیٹی کے ساتھ باب سخن وا کرے۔ نور السعادۃ تیرہواں برس پور کر رہی تھی اور اب اس کے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی بہرحال ضروری تھی، اس کا انجام جو بھی ہوتا۔
ایک دن اچانک دونوں کے دلوں کا پھوڑا ایک ساتھ ہی پھوٹ بہا۔ دوپہر کا وقت تھا، نور السعادۃ اپنے اتالیق سے ’سیاست نامہ‘ کا سبق لے کر دیوان خانے سے آئی تو اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ خلاف عادت وہ اپنی ماں کے کمرے میں جا کر اس سے پہلو ملا کر بیٹھ گئی اور بولی، ’’اماں، آج آخوند آغا کہہ رہے تھے کہ میں نے ’سیاست نامہ‘ اتنی اچھی طرح پڑھ لیا ہے جتنی اچھی طرح ان کے کسی مرد شاگرد نے بھی نہیں پڑھا۔‘‘
’’ماشاءاللہ۔‘‘ اس کی ماں نے مسکرا کر کہا، ’’میری بیٹی ہے ہی ہزاروں میں ایک۔ کسی کے بیٹا بھی ایسا نہ ہو گا جیسی میری یہ پیاری سی بیٹی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے لبیبہ خانم نے نور السعادۃ کی ٹھوڑی اٹھائی کہ اس کی پیشانی کو چوم لے۔
’’مگر یہ کیا؟‘‘ وہ گھبرا کر بولی، ’’تم تو رو رہی ہو۔ کیا ہوا، جی تو نہیں ماندہ ہے؟ بھوک لگی ہے؟ کیا بات ہے؟‘‘
نور السعادۃ نے بمشکل خود کو ضبط کیا اور بولی، ’’آخوند آغا بھی مجھے لڑکوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ اماں بھی یہی کہتی ہیں لیکن کیا واقعی میں لڑکوں سے بڑھ کر ہوں؟‘‘
’’مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہی ہوں کہ تم میری بیٹی ہو۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔ تو پھر۔۔۔‘‘ وہ رکتے رکتے اچانک بکھر گئی۔ ’’پھر میں کس بادشاہ کی وزیر، کس مدرسے کی صدر اعلیٰ بنوں گی؟ اور کچھ نہیں تو وہ کون سا گھر ہے جو میرے قدموں سے روشن ہو گا؟ میں لڑکا نہیں ہوں اور ہوں گی میں آپ کی پیاری بیٹی، لیکن دنیا مجھے کسی اور نام سے جاننا چاہتی ہے۔‘‘
ایک مدت کے بعد، باغات میں آباد ہونے کے بعد شاید پہلی بار، لبیبہ خانم نے خود کو جواب سے قاصر پایا۔ وہ ہمت کر کے کچھ کہنے کے لیے منھ کھول ہی رہی تھی کہ نور السعادۃ نے کتابوں کا بستہ ایک طرف پھینکا، زبرجد کے قلم دان کو اس زور سے دیوار پر پٹکا کہ اس کے ٹکڑے ہو گئے، روشنائی کی چھینٹیں دیوار کے پردے اور قالین پر بکھر گئیں۔
’’میں لڑکا نہیں ہوں۔‘‘ وہ رو بھی رہی تھی اور غصے میں اپنی مٹھیاں بھی بھینچے ہوئے تھی۔ ’’لڑکا ہوتی تو سب عیب چھپ جاتے اور لڑکیوں کا تقابل لڑکوں سے کیا ہی کیوں جائے؟ بولیے، میرے لیے کہاں کہاں سے پیغام آئے ہیں؟ اگر میں لڑکا ہوتی۔۔۔‘‘
’’تو بھی مجھے تمہاری فکر ہوتی، لیکن اس طرح کی نہیں، جیسی اب ہے۔‘‘ بالآخر لبیبہ خانم کو لب کشائی کا یارا ہوا، ’’دستور دنیا کو تم نہیں بدل سکتیں۔ انہیں دستوروں کے درمیان ہم عورتوں کو اپنے جینے کے ڈھنگ حاصل کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’تف ہے دستور زمانہ پر!‘‘ نور السعادۃ اب بھی روئے جا رہی تھی، ’’میں نے اتنا سب پڑھ کر کیا سیکھا، کیا پایا؟ جب مجھے ناچ گانے ہی والی بن کر جینا تھا تو یہ سب ڈھونگ کیوں رچائے گئے؟ جب میری جگہ جہنم میں ہے تو مجھے جنت کی جھلک کیوں دکھائی گئی؟‘‘
لبیبہ خانم نے بڑی مشکل سے ضبط کیا، بولی، ’’تو کیا میں تمہاری دشمن تھی؟‘‘
’’تھیں، تھیں، بالکل تھیں اور اب بھی ہیں۔‘‘ نور السعادۃ نے نرم پروں سے بھرے تکیے کو چیر کر سفید سفید پروں کو ساری خواب گاہ میں برف کے گالوں کی طرح بکھیرتے ہوئے کہا، ’’اگر دشمن نہ ہوتیں تو مجھے اپنی ہی طرح کا کچھ بننے کی تربیت دیتیں۔ مجھے اس دھوکے میں نہ ڈالتیں کہ۔۔۔‘‘
’’تم ایک رقاصہ کی بیٹی نہیں، شریف زادی ہو؟‘‘ لبیبہ نے زندگی میں پہلی بار بیٹی پر اپنی آواز بلند کی، ’’لیکن میں رقاصہ تو نہیں پیدا ہوئی تھی۔ تقدیر۔۔۔‘‘
’’تقدیر، تقدیر، اللہ کی مرضی، دنیا کا دستور، یہ سب بھی ڈھکوسلے ہیں۔ آپ کو رقاصہ کی زندگی منظور نہ تھی تو آپ نے خود کشی کیوں نہ کر لی؟‘‘
یہ کہتے کہتے نور السعادۃ کو خیال ہوا کہ میں حد سے بہت آگے بڑھ گئی ہوں۔ بچے انجانے میں و الدین پر کس طرح ظلم کر سکتے ہیں، اسے آج اس کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے آنسو خشک کیے، پلنگ کے کپڑے، تکیے برابر کرنے کی ناکام کوشش کی اور ماں کی گردن میں باہیں ڈال کر بولی، ’’اماں میں نے بہت برا کیا ہے۔ مجھے یہ سب کچھ نہ کہنا چاہیے تھا۔ لیکن میں کیا کروں، مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی کہ میرا کیا ہو گا۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، ’’اور آپ کے سوا کون ہے جو میری یہ باتیں سن سکے؟‘‘
لبیبہ خانم کی سبزی مائل نیلگوں سحر گوں آنکھوں نے اتنے آنسو کبھی نہ بہائے تھے۔ اس نے کچھ کہا نہیں، نور السعادۃ کا ہاتھ اپنے ٹھنڈے ہاتھوں میں لے لیا اور آنسو اس کے رخساروں سے بہہ کر بیٹی کے تپتے ہوئے ہاتھوں پر ٹپکتے رہے۔ ماں بیٹی میں اس معاملے پر یہ پہلی اور آخری گفتگو تھی (اگر اسے گفتگو کہا جائے۔) لیکن شاید دونوں نے اپنے اپنے دل میں سمجھ لیا تھا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اور دونوں کا فیصلہ ایک ہی تھا، یہ بھی شاید ان دونوں کو معلوم تھا۔ تقدیر بھی شاید اسی کا نام ہے۔
لیکن تقدیر نے چند ہی دن بعد ایک اور پانسہ ان کے سامنے ڈالا۔ اس کے معنی بظاہر کچھ خاص نہ تھے لیکن اس کے ساتھ بعض مضمرات ضرور وابستہ ہو سکتے تھے۔ ہوا یوں کہ ایک شام حاجب نے محافظ خانے کی اردابیگنی کو اطلاع دی کہ اعتماد الدولہ نواب قمر الدین خان بہادر نصرت جنگ، وزیر شہنشاہ ہند کا ایلچی دہلی سے آیا ہے۔ خانم بزرگ کی اجازت ہو تو کل بوقت شام آداب اور نامۂ وزیر ہند پیش کرنے کے لیے حاضر ہونا چاہتا ہے۔ لبیبہ خانم کچھ حیرت اور کچھ الجھن میں پڑی۔ وزیر الممالک ہند کا ایلچی اور میرے نام وزیر کا شقہ، یہ کیا اسرار ہے؟ لیکن ایلچی سے ملاقات کیے بغیر اسرار کا حل بھی ممکن نہ تھا۔
اگلے دن وقت مقررہ پر لبیبہ خانم دیوان خانے میں آ کر بیٹھی۔ سارے کمرے میں، دیوار سے دیوار تک کاشان کے یک رنگ قالین کا فرش تھا۔ اس پر جگہ جگہ نائین، کرمان اور بخارا کے چھوٹے مگر بھاری قالین پڑے ہوئے تھے، گویا بے پروائی میں یوں ہی ڈال دیے گئے ہوں، حالانکہ در اصل ان کی جگہیں بہت سوچ سمجھ کر چنی گئی تھیں۔ چاروں کونوں پر پیتل کے بھاری جگمگاتے ہوئے میر فرش، ان کے سامنے خاصدان میں عطر پھول الائچیاں، بیچ میں ایک بہت بڑے کشتی نما تانبے کے گلدان میں موسم کے پھول، دیواروں پر کہیں کہیں وصلیاں آویزاں۔ اوپر زربفت کی چھت گیری، بیچ میں ایک سرخ پھول دے کر اس طرح چنٹیں دے کر کھینچی ہوئی، کہ لگتا تھا سرخ رنگ کے ستارے سے شعاعیں نکل رہی ہیں۔ چھت گیری سے تعبیہ کیا ہوا چھتیس شمعوں کا جھاڑ، جس کے فانوس مختلف ہلکے رنگوں کے تھے۔ سب میں کافوری شمعیں روشن تھیں۔
لبیبہ خانم کی نشست گاہ دیوان خانے کی مغربی دیوار سے ملا کر بچھائی ہوئی کوئی بالشت بھر اونچی آبنوسی چوکی نما صندلی تھی۔ صندلی پر دبیز ہندوستانی قالین، پھر اس پر طیلساں کے طرز کی چھوٹی یمنی چادر۔ لیکن قالین اور چادر دونوں اس طرح بچھائے گئے تھے کہ آبنوسی چوکی کے حاشیوں اور پایوں کی نیلی روپہلی مینا کاری صاف دکھائی دیتی تھی۔ لبیبہ خانم ترکی انداز کی گہرے سبز سنہرے حریر کی پیشواز پہنے ہوئے تھی۔ یعنی پیشواز ٹخنوں سے بس کچھ اوپر تک اور وہاں نہایت تنگ تھی۔ اس کے بعد وہ کسی طوفان کی سی تیزی سے چاروں طرف اٹھتی اور پھیلتی نظر آتی۔ چنٹوں کے ذریعہ کپڑے کی قاشیں سی بن جانے کی وجہ گھیر غیر ضروری طور پر زیادہ نہ معلوم ہوتا تھا۔ کمر پر پیشواز پھر بہت تنگ ہو جاتی، اس قدر تنگ کہ کمر کی تنگی نمایاں ہو جاتی۔ کمر میں سونے کے باریک تاروں سے بنا ہوا چوڑا پٹکا جس کا کھٹکا سرمئی پکھراج کے ایک بڑے سے ڈلے کا تھا۔
بدن پر بہت لطیف نیلگونی مائل کاشانی مخمل کا پوری آستینوں والی سیاہ مخمل کی مرصع کار صدری۔ صدری میں کوئی بٹن نہ تھے لیکن اس کے گریبان پر ننھے ننھے یاقوت اور سفید نیلم ٹکے ہوئے تھے۔ اس کی بینی و بنا گوش زیور سے معرا تھے، لیکن گلے میں ایک ڈال کے سرمئی ہشت پہلو پکھراجوں کا ہار تھا اور ہر پکھراج کے چاروں طرف سفید ہیرے جڑے ہوئے تھے۔
صندلی کے سامنے لبیبہ خانم کی جوتیاں تھیں، سفید ہرن کے بچے کی کھال کی بنی ہوئی، جن پر نقش و نگار ہاتھ سے بنائے گئے تھے۔ جوتیاں دیکھنے میں اتنی ہلکی تھیں کہ ان پر کاغذ کا گمان ہوتا تھا۔ وہ چوکی پر اس طرح گھٹنے موڑے بیٹھی تھی کہ دونوں ایڑیاں اور پاؤں کا باقی حصہ چھپا ہوا تھا لیکن دونوں پاؤں کی ایک ایک دو دو انگلیاں اور ان کے حنائی ناخن کبھی کبھی جھلک دکھا جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ اسی پہلو بیٹھی تھی اور گانے کے دوران کے علاوہ پوری مدت محفل میں پہلو نہ بدلتی تھی۔ اس کی پشت پر دو خواصیں ہاتھ باندھے کھڑی تھیں اور ان کے ریشمی پٹکوں سے تعبیہ ہوئے جڑاؤ خنجر صاف نظر آتے تھے۔
دیوان خانے تک پہنچنے کے لیے ایک دالان، ایک آنگن اور پھر ایک بارہ دری سے گزرنا پڑتا تھا۔ اردابیگنی باہر سے اندر آئی اور بارہ دری کے وسطی در پر رک کر تسلیمات بجا لانے کے بعد بولی، ’’خانم بزرگ کی خدمت میں عرض ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب قمر الدین خان بہادر اعتماد الدولہ نصرت جنگ، وزیر الممالک شہنشاہ ہندوستان کے ایلچی رائے کشن چند اخلاص باریابی کے متمنی ہیں۔‘‘
لبیبہ خانم نے کوئی خفیف سا اشارہ کیا، یا بہت نیچے لہجے میں ہاں کہی۔ اگر کوئی غیر بیٹھا ہوتا تو نہ اشارہ سمجھ پاتا نہ حکم سن پاتا، لیکن اردابیگنی الٹے پاؤں باہر گئی اور اور ایک ہی دو ثانیے میں واپس آئی، اس طرح کہ وہ آگے آگے تھی اور آنے والا اس کے دو قدم پیچھے تھا۔ اس بار وہ دیوان خانے تک آئی اور ذرا بلند آواز سے بولی، ’’رائے کشن چند اخلاص دہلی سے تشریف لائے ہیں۔‘‘
پینتیس اور چالیس کے درمیان کی عمر، نو وجب (چھ فٹ۔ مرتب) سے کچھ نکلتا ہوا قد، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، گہرا سانولا رنگ، کشن چند اخلاص کا چہرہ ڈاڑھی سے بے نیاز تھا۔ متوسط گھنی مونچھیں البتہ اس کے دہانے کے دونوں جانب تک ڈھلکی ہوئی تھیں۔ ڈھلکی ہوئی مونچھوں نے نمایاں، مضبوط ٹھوڑی کو اور بھی نمایاں کر دیا تھا۔ سرپر کشتی نما دو پلڑی ٹوپی، جس کا منڈوا ذرا گولائی لیے ہوئے اور سرا ذرا نوک لیے ہوئے تھا۔ پوری ٹوپی پر کڑھائی کا کام تھا۔ پٹے دار گھنے سیاہ چمک دار بالوں پر وہ ٹوپی بائیں طرف اس طرح کج رکھی گئی تھی کہ ماتھے کا ایک حصہ تو ڈھک گیا تھا لیکن سر اور بال بڑی حد تک کھلے ہوئے تھے۔ گلے میں پچ لڑا سڈول موتیوں کا ہار، جس میں بڑے زردی مائل سفید موتی کے بعد چھوٹے سیاہی مائل موتی ایک کے بعد ایک پروئے گئے تھے۔
باریک فالسئی ڈوریے کا کرتا، اس پر نیلی مخمل کا انگرکھا، جسے اس وقت نیمہ بھی کہتے تھے۔ انگرکھے کا پردہ دائیں طرف سے کھینچ کر بائیں طرف تکمے سے بندھا ہوا، اس طرح کہ بائیں چھاتی کا حصہ کرتے کے نیچے سے جھلکتا تھا۔ نیمے کی آستینیں کھلی ہونے کی وجہ سے چوڑی کلائیاں صاف نظر آتی تھیں۔ دونوں کلائیوں میں سونے کے کڑے۔ گلبدن کا پاجامہ ایک برکا، اس پر بڑے گھیر کا سیاہ مخملی جامہ جس پر سنجاف ٹکی ہوئی تھی اور آستینیں جدید طرز کے مطابق اوپر سے کاٹ کر نیچے لٹکنے کے لیے چھوڑ دی گئی تھیں۔ کمر میں سنہرا پٹکا، پاؤں میں سلیم شاہی جوتیاں۔ پیچھے دو ملازم سر پوش ڈھکے ہوئے خوانوں پر نذر کا سامان لیے ہوئے کھڑے تھے۔
رائے کشن چند اخلاص نے جوتیاں لب فرش اتاریں، ذرا اندر داخل ہوا تو اس نے تین بار جھک کر سلام کیا اور پھر ہاتھ باندھ کر بولا، ’’دولت و اقبال زیادت باد۔ میں، شہنشاہ ہندوستان مینو نشان کے وزیر کا ایلچی، ان کا نامۂ فیض شمامہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔‘‘ اب تک کشن چند اخلاص نے نگاہ اٹھائی نہ تھی، اردابیگنی کے ہلکے سے اشارے پر اس نے سر اٹھایا اور کمرے میں داخل ہو کر ایک چھوٹے بخارائی قالین پر دو زانو بیٹھ گیا، اس طرح کہ قالین نہ اتنا دور تھا کہ بات سننے میں تکلف ہو اور نہ اس قدر نزدیک کہ دونوں حقیقی معنی میں روبرو ہو سکیں۔ اب اس نے خانم بزرگ سے آنکھیں چار کیں اور ایک ہی نظر میں بسمل ہو گیا۔
لبیبہ خانم کے چہرے پر خفیف سی لیکن گرم جوشی آمیز مسکراہٹ تھی۔ اس وقت اس کی عمر دو کم پچاس تھی، لیکن وہ یوں بھی اپنی عمر سے بہت کم، دو کم چالیس کی سی لگتی تھی اور آج تو اس نے خاص اہتمام کیا تھا۔ کشن چند اخلاص کو اپنے چہرے پر پسینہ پھوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے نگاہ جھکا کر چاہا کہ گریبان میں سے رو مال نکالے کہ اس کی نگاہ خانم کی جوتیوں پر پڑی۔ پہلے تو اس نے سمجھا کہ یہ کاغذ کی بنی ہوئی سجاوٹ کی چیزیں ہیں، لیکن پھر اس نے پہچانا کہ یہ تو اس کے ہی ملک کی مشہور جوتیاں ہیں، اتنی ہلکی اور اس قدر نازک کہ انہیں ننگے فرش پر پہنا جاتا تو دو گھڑی بھی نہ جاتی تھی کہ وہ کٹ گھس کر بے کار ہو جاتی تھیں۔ اس کا جی چاہا وہ جوتیاں اٹھا کر کلیجے میں رکھ لے۔ لیکن اس نے دیکھا کہ ایک خواص نے اس کے سامنے ایک بہت نیچی میز پر ایک رومی طشتری میں میوے، ایک فنجان میں قہوہ اور ایک منقش عطردان رکھ دیا ہے۔ ابھی وہ ادھر متوجہ ہو ہی رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ خانم بزرگ کی آنکھیں اس پر ہیں اور وہ کچھ کہہ رہی ہے۔
’’اہلاً و سہلاً۔ اے آمدنت باعث دل شادی ما۔‘‘ وہ بولی تو لگا کہیں پردے کے پیچھے ہلکے سر میں بلمپت جل ترنگ بج رہا ہو۔ کشن چند اخلاص سو سو جان سے قربان ہو رہا تھا۔ کاش یہ اسی طرح کو کتی رہیں اور میں سنتا رہوں۔ ’’اعتماد الدولہ بہادر نے ہم دور افتادگان کی تبریک کے لیے اپنے سایۂ رافت و راحت کا نمونہ آپ کی شکل میں بھیجا ہے۔ شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را۔ میں سراپا متشکر ہوں۔ ان کی جان پاک پر قربان ہو جاؤں تو یہ میرے نصیب کی بلندی ہو گی۔ فرمائیے، میں کس طرح بندگان حضور کے کام آ سکتی ہوں؟‘‘
کشن چند اخلاص کچھ اس درجہ مسحور ہو رہا تھا کہ ایک لحظہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ سوال کا جواب دینا ہے۔ پھر ذرا ہڑبڑا کر اس نے کمر میں بندھی ہوئی ہمیانی کھولی، وزیر ہندوستان کا زرنگار شقہ نکالا اور نذر کی پانچ اشرفیوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں پر رکھا، پھر سرو قد کھڑے ہو کر تعظیم کے ساتھ ہاتھوں کو لبیبہ خانم کی طرف بڑھایا۔ معاً ایک خواص کشتی لیے ہوئے آگے آئی، نامے اور نذر کو کشتی میں رکھا، پھر کشتی کو سرپر رکھ کر خانم بزرگ کے روبرو آ کر اسے سر سے اتارا اور خانم کے ملاحظے کے لیے پیش کیا۔ لبیبہ خانم نے اپنے ہاتھ سے شقہ کھولا، اس پر ایک غائر نظر ڈالی، پھر کچھ متبسم ہوئی، گویا مضمون اسے پسند آیا ہو۔
فارسی عبارت کا مفہوم تھا، ’’اقبال نشان و سعادت آثار، رنگ و بوئے ہر گل و گلزار، زہرۂ فلک رقص و سوز و ساز، مالک مملکت ناز و انداز، لبیبہ خانم کی خدمت میں اعتماد الدولہ محمد قمر الدین خان نصرت جنگ عرض پرداز ہے کہ میری اکلوتی فرزند کی شادی میرے ہمشیر زادے رعایت خان ابن ظہیر الدولہ نواب عظیم اللہ خان سے ماہ شوال ۱۱۵۶ھ (مطابق نومبر۔ دسمبر ۱۷۴۳ء، مرتب) میں ہونا قرار پائی ہے۔ اس مبارک موقعے پر ایک جلسہ ترتیب دیا چاہتا ہوں جس کی نظیر چشم پیر فلک نے بھی نہ دیکھی ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی محفل، محفل ہی نہ ہو گی اگر آں عزیزہ وہاں رونق افزا نہ ہوں گی۔ تفصیلات سفر و اخراجات میرے ایلچی برخوردار کشن چند اخلاص بیان کر دیں گے۔ امید کہ مایوس نہ کیا جاؤں گا۔‘‘
لبیبہ خانم کے ماتھے پر تفکر کی خفیف سی شکن ایک لحظے کے لیے ابھری لیکن اس نے سر اٹھایا اور متین لہجے میں، ہلکی آواز میں کہا، ’’بندی اعتماد الدولہ بہادر کی قدر افزائی اور یاد فرمائی کے لیے سراپا سپاس ہے، مگر۔۔۔‘‘ وہ چپ ہو گئی۔
کشن چند اخلاص کو اپنا دم سینے میں اٹکتا محسوس ہوا۔ سفارت کی ناکامی کا خوف تو تھا ہی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر یہ میرے ساتھ نہ گئیں تو پھر تا حیات کی جدائی ہو گی۔ اس وقت اس کی پوری ذہنی اور باطنی قوت لبیبہ خانم پر مرتکز تھی، کہ اس کا جواب با صواب ہو اور ’’مگر‘‘ کہہ کر اس کے ٹھہر جانے میں انکار مرموز نہ ہو۔ قطع کلام کی جرأت تھی نہ موقع، لہٰذا ملتجی نگاہوں سے لبیبہ خانم کو دیکھتا رہا۔
دل کی پچیس تیس دھڑکنوں کی مدت تک خاموش رہنے کے بعد خانم بزرگ نے کہا، ’’مگر میں وہاں کی زبان جانوں نہ وہاں کے رسوم رواج اور ادب آداب میں کچھ درک رکھوں اور پھر میں تو سنتی ہوں کہ اعلیٰ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ سے لے کر آج چار پانچ صدیاں ہونے آئیں، ملک ہند میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر فن ہوا ہے اور آج بھی ہے۔ میں تو ان میں بالکل گنگ ہو کر رہ جاؤں گی۔‘‘
اب کی بار کشن چند اخلاص نے کھلے بندوں رو مال نکال کر پسینہ خشک کیا، پھر ٹھہر ٹھہر کر بولا، ’’خانم بزرگ کے ارشاد سے اختلاف کی جرأت میں نہیں کر سکتا۔ لیکن ہر گلے را رنگ و بوئے دیگرست۔ آپ اپنی جگہ ہیں، اہل ہند اپنی جگہ۔ رہا سوال زبان کا تو اردوئے معلائے شاہجہاں آباد میں حضور کو مجھ جیسی ٹوٹی پھوٹی فارسی بولنے والے بہت ملیں گے۔ پھر ارمنی بولنے والوں کی بھی کچھ ایسی قلت نہیں۔ ساز (بمعنی آلات موسیقی، مرتب) آپ اپنے ساتھ لے چلیں، سوز (بمعنی گانا، vocal music مرتب) سارے کا سارا فارسی میں ہو گا اور جہاں تک سوال شاہجہاں آباد کی عام بولی کا ہے، تو اسے ہندی یا ریختہ کہتے ہیں اور وہ فارسی سے اس درجہ قریب ہے کہ اگر مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل رہا تو آپ اسے اثنائے راہ ہی میں سیکھ لیں گی۔‘‘
یہ ساری تقریر کشن چند اخلاص نے خانم بزرگ کے سامنے آنکھیں اٹھا کر کی، اس طرح کہ وہ اس کی شخصیت کے جمال اور حسن صورت کی لطافت، خاص کر آنکھوں کی دمکتی روشنی کے سحر میں خود بخود جکڑتا جا رہا تھا۔ خانم بزرگ کی بڑی بڑی سبزی مائل نیلگوں آنکھیں نہ صرف یہ کہ خانم کے چہرے کے تاثرات بلکہ شاید دل کے حالات کو منعکس کرتی تھیں، بلکہ یہ بھی کہ ان میں ایک حیرت خیز زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ رنگین شمعوں کی لویں کچھ بھڑکتیں، یا لہراتیں تو روشنی کا ہر نیا عکس خانم بزرگ کی نگاہ کو اپنے طور پر جگمگا دیتا، گویا آنکھوں کی لو شمع کے نور کا جواب دے رہی ہو۔ رائے کشن چند اخلاص اس وقت تو فلک زہرہ میں تھا۔ ایسی روشن، زندہ آنکھیں اس نے کبھی دیکھی نہ تھیں، دیکھی کیا، کبھی ان کا خواب بھی نہ دیکھا تھا۔
’’بہت مناسب، بلکہ انسب۔‘‘ لبیبہ خانم نے جواب دیا، ’’لیکن سفر کی صعوبتیں، وہاں نئے ماحول سے خود کو مانوس کرنے کی مشکلیں بھی تو ہیں۔‘‘
’’سفر تو حضور کا انشاء اللہ یوں ہو گا کہ تخت رواں کی بھی کچھ حقیقت نہ رہ جائے گی۔ آپ اجازت دیں گی تو میں سارا راستہ آپ کی حفاظت کروں گا۔‘‘ اس آخری جملے کی ادائیگی میں تمنا اور درخواست کے لہجے لبیبہ خانم سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔ ’’اور اجنبیت کا کیا سوال ہے؟ آپ خود حضرت نواب کی مہمان ہوں گی۔ وہاں آپ کی مرضی پر سارے کام ہوں گے۔ وہاں کے سب لوگ خود کو آپ حضور کے مزاج و منہاج، پسند ناپسند سے مانوس کرنے کو اپنی توقیر جانیں گے۔‘‘
یہ کہتے کہتے کشن چند اخلاص نے پیچھے کھڑے خدام کو اشارہ کیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دونوں خوان لبیبہ خانم کی جوتیوں کے پاس رکھ کر سر پوش ہٹا دیے۔ کشن چند نے کہا، ’’یہ ایک ہزار اشرفیاں اعتماد الدولہ بہادر نے آپ کی نذر کے لیے بھیجی ہیں اور یہ چند جوڑے خادمان بندگان حضور کے لیے ہیں۔ آپ میرے ملک کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے عزت بخشیں یا نہ، ان نذروں کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ لبیبہ خانم نے نیم قد ہو کر سلام کیا، ’’نصرت جنگ بہادر کو رب العزت مزید نصرتیں عطا کرے۔ ان کی دریا دلی نے میرے سیاہ خانے کو گہرہائے شب چراغ سے بھر دیا ہے۔ میں ان کی ممنون ہوں۔‘‘
’’تو پھر رخت سفر بار کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟‘‘ اخلاص کے لب و لہجہ ہی نہیں، سارے بدن سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔
لبیبہ خانم پہلی بار کھل کر مسکرائی، ’’اتنی بھی جلدی نہیں۔ مجھے سوچنے کے لیے موقع درکار ہے۔ میں پرسوں اپنا فیصلہ بتاؤں گی۔‘‘
رائے کشن چند کا چہرہ اتر سا گیا۔ وہ اجازت کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ اس کا رنگ پژمردہ ہوتے دیکھ کر خانم بزرگ نے کہا، ’’آپ نے کچھ قہوہ عطر وغیرہ ملاحظہ نہ کیا۔ تشریف رکھیں، آپ کی قیام گاہ بہت دور تو نہیں۔‘‘
’’بندہ پروری ہے بندگان حضور کی۔‘‘ اخلاص نے کہا، ’’میں آپ کے حکم کا غلام ہوں، جا کہاں سکتا ہوں۔‘‘
اس بات میں بھی شوق اور آرزو کے کتنے نا شگفتہ غنچے پوشیدہ تھے، اس کا اندازہ خانم بزرگ کو بھی تھا لیکن وہ صاف پہلو بچا گئی۔ اس اثنا میں خواص نے قہوے کا نیا فنجان لا کر اخلاص کے سامنے رکھ دیا اور پرانا فنجان، جس کا قہوہ رکھا رکھا ٹھنڈا ہو گیا تھا، سامنے سے ہٹا لے گئی۔ اخلاص ابھی فنجان اٹھا ہی رہا تھا کہ خانم بزرگ نے کہا، ’’رائے کشن چند، یہ لفظ اخلاص آپ کے نام کا جز ہے، یا آپ کو شعر گوئی سے بھی کچھ لگاؤ ہے اور یہ جناب والا کا تخلص ہے؟‘‘
لبیبہ خانم کے منھ سے اپنا نام سن کر کشن چند اخلاص کو عجب فرحت اور لطف کا احساس ہوا، جیسے اس نے نام نہ لیا ہو، اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ فنجان کو منھ تک نہ لے جا سکا۔
’’اس ذرۂ بے علم کا تخلص اخلاص ہے۔ حضرت مرزا غنی بیگ قبول کشمیری مدت فیوضہم کا شاگرد ہوں۔‘‘
’’جی، شاگردی کے کیا معنی؟ علم موسیقی کی تعلیم البتہ استاد سے حاصل کی جاتی ہے۔ شاعر تو تلامیذ الرحمن ہوتے ہیں۔‘‘
’’بجا اور درست۔ لیکن گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے اردوئے معلائے سلطانی میں ریختہ کی شاعری کا چلن ہوا ہے۔ اس اسلوب میں شعر گوئی پہلے متداول نہ تھی۔ لہٰذا حدیقۂ شعر و سخن کے طیور نو پر کو ضرورت پڑی کہ کوئی مرد زیرک و دانا انہیں ریختہ کی شاعری کے آسمان میں اڑنے کے طور سکھائے۔ یہ بات بہت مقبول ہوئی اور دوہی چار برس گئے تھے کہ کئی مرتبہ استادوں نے اچھے اچھے شاگرد بہم کیے۔ ان کی دیکھا دیکھی فارسی گویوں نے بھی خیال کیا کہ ہم بھی کیوں نہ کسی استاد کا دامن تھام لیں جس سے ہمیں فیوض و برکات حاصل ہوں۔‘‘
’’خوب، لیکن استاد سے فیض اٹھاتے کس طرح ہیں؟‘‘
’’بسا اوقات استاد کوئی لفظ بدل کر زیادہ بامعنی یا مناسب تر لفظ رکھ دیتا ہے۔ کبھی کبھی پورا مصرع نیا کہہ دیتا ہے۔ محاورے کے سقم اگر کوئی ہوں، تو انہیں دور کرنے کا مشورہ دیتا ہے یا خود ہی درست کر دیتا ہے۔ بندش اگر سست ہو تو اسے چست کر دیتا ہے۔‘‘
’’تقصیر معاف ہو لیکن یہ آخری بات سمجھی نہیں۔ بندش کی سستی اور چستی سے کیا مراد ہے؟‘‘
رائے کشن چند کچھ سوچ میں پڑ گیا، کہ بندش کی سستی کو پہچاننا آسان ہے، بیان کرنا مشکل۔ سنبھل سنبھل کر بولا، ’’جی، مثال کے طور پر کوئی لفظ مصرعے میں بیکار ہے، یا کم کارگر ہے۔ یا شعر میں کوئی کھلا ہوا عیب نہیں لیکن اس میں کوئی شگفتگی نہیں، نہ ترکیب کی، نہ قافیے کی، نہ محاورے کی۔ یہ سب باتیں بندش کی سستی کی ضمن میں آتی ہیں۔‘‘
’’ان باتوں کے لیے کچھ قاعدے بھی ہیں، یا محض استاد کی فہمیدگی پر انحصار ہے؟‘‘
’’قاعدے ہیں بھی اور نہیں بھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ چیز اہم ہے جسے شاعر کی وہبی حس کہہ سکتے ہیں۔ پھر مشق و مزاولت کو یہاں بڑی اہمیت ہے۔‘‘
’’اور علم شعر؟‘‘
’’جی درست فرمایا گیا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ استاد کو شعر اور علم شعر، دونوں میں شاگرد پر تفوق ہوتا ہے۔‘‘
’’خوب، تو کیا آپ مجھے اپنے کلام بلاغت التیام سے کچھ حظ اندوزی کا موقع عطا فرمائیں گے؟‘‘
رائے کشن چند کے جسم پر ایک لرزش خفی طاری ہو گئی۔ اس فرمائش میں کس قدر اپنائیت تھی۔ کیا آپ، مجھے، اپنے کلام، حظ اندوزی، ہر ہر فقرے کے معنی کی تہہ میں بھی ایک معنی تھے۔ یہ بات اس کے دل میں یوں اتر گئی جیسے صبح کی پہلی کرن کسی غیر متوقع روزن سے خوابگاہ میں آ جائے۔ لیکن اس وقت اسے اپنا ایک بھی شعر یاد نہ آیا اور اگر یاد بھی آتا تو سنانے کی ہمت کہاں تھی۔ شعر اگر پسند خاطر نہ ہوئے تو تھوڑی بہت توقیر جو اس وقت تک حاصل ہے، جاتی رہے گی۔
’’میرے شعر اس لائق نہیں۔ موجب سمع خراشی ہوں گے۔ اجازت ہو تو ملک ہند کے سب سے بڑے شاعر میرزا عبد القادر بیدل کا کلام پیش کروں۔ وہ شاید اس باب عالی تک پہنچنے کے قابل ہو۔‘‘
’’بہت خوب، ارشاد ہو۔‘‘
بیدل کی کون سی غزل اس وقت مناسب ہو گی؟ اخلاص نے گھبرا کر دل میں کہا، یا ابو المعانی، آپ کی روح پر فتوح کے صدقے، اس وقت میری مشکل آسان کر دیجیے۔ شاہجہاں آباد پہنچ کر آپ کے مزار پر انوار پر شیرینی کی نیاز دلواؤں گا اور یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں کے سامنے بیدل کی ایک غزل یوں جھلملا گئی جیسے کسی نے اس کے دماغ میں روشن اور معطر پرچہ رکھ دیا ہو۔ واللہ کیا برمحل غزل تھی۔ اس نے فنجان کو ذرا فاصلے پر رکھ دیا اور پہلو بدل کر دوبارہ دو زانو ہو کر لحن سے پڑھنا شروع کیا،
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ
توز غنچہ کم نہ دمیدہ ای در دل کشا بہ چن در آ
مطلع سنتے ہی لبیبہ خانم لو لگا کسی نے کوئی چیز کلیجے میں چبھا دی۔ اس نے اس سارے عرصے میں اول بار پہلو بدلا اور خود پوری طرح دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ رائے کشن چند کی آنکھیں نیم وا تھیں اور وہ ایک فردوسی محویت کے ساتھ کہے جا رہا تھا،
پئے نافہ ہائے رمیدہ بو مپسند زحمت جستجو
بہ خیال حلقۂ زلف او گر ہے خور و بہ ختن در آ
نفست اگر نہ فسوں دہد بہ تعلق ہوس جسد
زہ دامن تو کہ می کشد کہ درایں رباط کہن در آ
ہوس تو نیک و بد تو شد نفس تو دام و دو تو شد
کہ بہ ایں جنوں بلد تو شد کہ بہ عالم تو و من در آ
غم انتظار تو بردہ ام بہ رہ خیال تو مردہ ام
قدمے بہ پرسش من کشا نفسے چو جاں بہ بدن در آ
چو ہوا ز ہستی مبہمے بہ تاملے زدہ ام خمے
گرہ حقیقت شبنمے بہ شگاف و در دل من در آ
نہ ہوائے اوج و نہ پستیت نہ خروش و ہوش نہ مستیت
چو سحر چہ حاصل ہستیت نفسے شو و بہ سخن در آ
چہ کشیز کوشش عاریت الم شہادت بے دیت
بہ بہشت عالم عافیت در جستجو بشکن در آ
بہ کدام آئنہ مائلی کہز فرصت ایں ہمہ غافلی
تو نگاہ دیدۂ بسملی مژہ وا کن و بہ کفن در آ
ز سروش محفل کبریا ہمہ وقت می رسد ایں صدا
کہ بہ خلوت ادب وفاز در بروں نہ شدن در آ
بہ در ائے بیدل از ایں قفس اگر آں طرف کشدت ہوس
توبہ غربت آں ہمہ خوش نہ ای کہ بگویمت بہ وطن در آ
اس شام کی کیفیت کشن چند اخلاص کو ہمیشہ یاد رہی۔ باہر چنار اور سرو کے درختوں کی پتیاں شفق کے پس منظر میں اب سیاہی مائل لگ رہی تھیں۔ دیوان خانے میں روشنی باہر سے چھن کر آنا بند ہو گئی تھی اور فانوسوں میں روشن شمعیں کچھ اور بھی فروغ پر تھیں۔ کھڑکیوں کے پردوں میں شام کی ہوا سے خفیف سی سرسراہٹ تھی، جیسے کشن چند اخلاص کی گونجتی ہوئی آواز نے انہیں بھی مرتعش کر دیا ہو۔ غزل ختم ہوتے ہی دونوں خواصوں کے منھ سے بے اختیار صدائے ’’مرحبا! سبحان اللہ‘‘ بلند ہوئی اور لبیبہ خانم تو اپنے زانو پر بار بار ہلکے ہلکے ہاتھ مارتی اور کہتی، ’’کیسی انوکھی بحر ہے اور کیسے نامانوس الفاظ ہیں لیکن واللہ کیا زور ہے، کیا مضامین ہیں، کیا روانی ہے اور کیا قوافی ہیں۔‘‘
رائے کشن چند نے جھک کر تسلیم کی اور پھر ایک دوسرے ہی لہجے میں رباعی پڑھی،
مرزا بیدل کہ رہنمائے سخن است
پیغمبر و غوث و پیشوائے سخن است
یکتا ست در آفرین طرز کلام
باللہ کہ پئے سخن خدائے سخن است
اس رباعی پر خانم بزرگ نے سر اٹھایا اور بولیں، ’’درست کہا۔ کس کی ہے؟‘‘
رائے کشن چند اخلاص کو اس التفات فراواں نے تقریباً مد ہوش کر رکھا تھا۔ پھنسی پھنسی آواز میں بولا، ’’بندر ابن المتخلص بہ خوشگو کی۔ میرزا صاحب مبرور کے ارشد تلامذہ میں ہیں۔‘‘
’’تو کیا خود میرزا بیدل اس دنیا میں نہیں؟‘‘
’’انہیں واصل بحق ہوئے کوئی بیس برس ہوتے ہیں۔ میرے والد گرامی بھی، اللہ ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے، حضرت میرزا صاحب کی شاگردی کا شرف رکھتے ہیں۔‘‘
لبیبہ خانم ایک لمحہ چپ رہی، پھر بولی، ’’ناگوار طبع نہ ہو تو کچھ پوچھوں۔‘‘
’’آپ کی بات اور ناگوار ہو!‘‘ اخلاص نے مسکرا کر کہا، ’’شوق سے فرمائیے۔‘‘
’’میرزا بیدل تو غالباً اہل اسلام میں سے تھے اور جناب۔۔۔؟‘‘
’’بحمد للہ ہندو ہوں۔ بند رابن صاحب قبلہ بھی ہندو ہیں۔ ہم اہل ہند اور خاص کر صاحبان تصنیف و تالیف، سب فارسی بولتے لکھتے ہیں اور سب اقوام ہند آپس میں اپنی اپنی حد تک مواخات و مواسات رکھتے ہیں۔‘‘
’’اور یہود و نصاریٰ؟‘‘
’’سب اپنے اپنے مسالک پر ہیں۔ یہود تو مدت مدید سے ہند میں ہیں، نصرانی البتہ بعد میں آئے اور فردوس مکانی صاحب قران ثانی اعلیٰ حضرت شہاب الدین شاہجہاں شہنشاہ ہند کے وقتوں میں انہوں نے کچھ نیچے طبقے کے لوگوں کو بجبر اپنے مذہب میں داخل کر لیا۔ بحمد للہ اس وقت ان کی خوب سرکوبی ہوئی۔ اب ان کا دور دورہ بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن ہم ان سے کچھ بہت میل جول نہیں رکھتے۔ بہرحال،
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را باکسے کارے نہ باشد
کا سا معاملہ ہے۔ میرے ملک کو جنت نشان شاید اسی لیے کہتے ہیں۔‘‘ وہ پہلی بار ذرا بے تکلف ہو کر بولا، ’’اب اجازت مرحمت ہو۔ پرسوں جب آپ طلب فرمائیں گی، حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
’’آپ کے لیے طلبی کی ضرورت نہیں۔ آج ہی کے وقت پر کرم گستر ہو کر قدم رنجہ فرمائیں۔ بندی کو منتظر پائیں گے۔‘‘
اس آخری جملے کے معنی کی تہہ میں بھی شاید کچھ اور تھا۔ لبیبہ خانم رائے کشن چند کو رخصت کرنے کے لیے اٹھیں، پاؤں میں جوتی ڈال ہی رہی تھیں کہ رائے کشن چند نے تقریباً دوڑ کر انہیں جوتیاں پہنا دیں اور اس عمل میں اس کا ہاتھ پلک جھپکتے کی مدت کے لیے گلابی انگلیوں اور ایڑی سے چھو گیا۔ اسے ایک سنسنی سی محسوس ہوئی، جیسے چاقو کی دھار پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اٹھ کر تین سلام کر کے وہ الٹے پاؤں باہر آ تو گیا لیکن اس کے پاؤں زمین پر پڑتے نہ تھے۔
اس رات اور اگلے دن کے دوران ماں بیٹی میں اعتماد الدولہ کے بلاوے کے بارے میں تین بار مشورہ ہوا۔ نور السعادۃ نے کہا، ’’اماں، مجھے دہلی جانے میں تو کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ لیکن اتنا لمبا سفر کرنا، چند ہفتے قیام کرنا اور پھر سفر کے خطرات مول لے کر واپس آنا مصلحت سے بعید معلوم ہوتا ہے۔ زمانہ شورشوں سے پر ہے اور راستے جگہ جگہ مخدوش۔ جاتے وقت اگر خوبی قسمت سے محفوظ رہے تو رہے۔ دوسری بار پھر تقدیر کو آزمانا مصلحت سے دور معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمہاری رائے ہے کہ میں یہ دعوت مسترد کر دوں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ اس نے نہیں کی ’ہیں‘ کو ذرا کھینچ کر کہا، پھر چپ ہو گئی اور ایک لمحہ بعد بولی، ’’سوال یہ بھی ہے کہ مالی اعتبار سے کیا ہمیں اعتماد الدولہ کے فیوض و انعام کی ضرورت ہے؟‘‘
’’ضرورت ابھی تو نہیں۔ لیکن تم خود ہی کہتی ہو کہ زمانہ مساعد نہیں اور ہم جیسوں کا تو مساعد بالکل نہیں۔ پھر گاڑھے وقت کے لیے جتنا رکھ سکیں رکھ لیں تو کیا برائی ہے؟‘‘
’’یہی کہ۔۔۔‘‘ وہ چپ ہو گئی، پھر گویا ہمت کر کے بولی، ’’جنگل میں جس پیڑ پر شہد ہوتا ہے، وہیں ریچھ بھی آ جاتے ہیں۔۔۔‘‘
’’لیکن بے سر و سامانی میں کوئی تحفظ نہیں۔‘‘
’’اماں یہی تو میری مشکل ہے۔‘‘ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی، ’’ہمارے لیے نہ جلوت اچھی نہ خلوت اچھی۔‘‘
’’لیکن ہر چیز پر نظر کر کے دیکھو تو کثرت ساز و سامان بہتر ہے قلت سے۔ اگر زہرۂ مصری نے میری وجہ سے اتنی دولت نہ کمائی ہوتی اور اس کا ایک ذرا سا حصہ میں لے کر نہ نکلتی تو میں اور تمہارے باپ بھیک مانگ کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر شغال و سگ سے بد تر موت مرتے۔‘‘ خانم بزرگ نے ذرا تیز لہجے میں کہا۔
نور السعادۃ سہم گئی، ’’میں آپ کے خلاف کچھ نہیں کہہ رہی۔‘‘
’’نہیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ لا و نعم کی بھول بھلیاں میں پڑنے والے کو راستہ اکثر نہیں ملتا۔ ہمیں حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔‘‘
بات کسی فیصلے کے بغیر ختم ہو گئی۔ اگلی صبح کو نور السعادۃ نے پہل کی۔
’’اماں، ہندوستان کیسا ملک ہے اور دہلی کیسا شہر ہے؟‘‘
’’اگر وہاں نہیں جانا تو یہ سوال غیر ضروری ہے۔‘‘
اس بار نور السعادۃ کی فطری تیز مزاجی بروئے کار آئی، ’’اماں آپ نہ بات سنتی ہیں، نہ کھل کر کچھ کہتی ہیں۔‘‘
’’تو تم ہی کھل کر کہو۔ میری بات تو تم سمجھنا شاید نہیں چاہتیں۔‘‘
’’میں اور آپ کی بات نہ سمجھوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ چند دن یا چند ہفتے ہی کے بعد دہلی سے مراجعت کیا ضرور ہے۔‘‘
لبیبہ خانم سناٹے میں آ گئی۔ دہلی سے مراجعت ضروری نہیں، ادھر اس کا دھیان ہی نہ گیا تھا۔
’’مستقبل جیسا یہاں نظر آ رہا ہے، اس سے بدتر تو شاید وہاں نہ ہو اور دہلی سنتی ہوں بہت بڑا شہر ہے۔ ہمارے ہم زبان اور ہم مشرب بھی دہلی میں اور کوئی شہر دہلی کے مشرق میں کلکتہ ہے، وہاں بہت ہیں۔ وہاں تو ہمارے اسقف اعظم بھی رہتے ہیں۔‘‘
’’یہ سب تم نے کہاں سنا؟‘‘
’’اماں، کتابیں اور سفرنامے اور آئند و روند، ان سے بہت کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔ ہندوستان تو بہت ہی بڑا ملک ہے اور دولت کی تو وہاں اس قدر فراوانی ہے کہ ہمارے شاہ جم جاہ اعلیٰ حضرت نادر شاہ بہادر وہاں سے اتنا لے کے آئے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔‘‘
’’تمہیں دولت سے اتنا لگاؤ کب سے ہو گیا؟‘‘ لبیبہ خانم ذرا چڑ کر بولی۔
’’کل تک تو آپ ہی مجھے یہ سبق سکھا رہی تھیں۔۔۔ لیکن معاملہ دولت کا نہیں اماں۔‘‘ نور السعادۃ کا بھی لہجہ کچھ تیز ہوا، ’’معاملہ امکانات کا ہے۔ آپ میرے لیے اتنی متفکر رہتی ہیں۔ وہاں ملک ملک کے، مختلف قوموں اور طرزوں کے لوگ ہیں۔ اصفہان تو دہلی کا پاسنگ بھی نہیں۔‘‘
’’تو کیا میری بیٹی اصفہان سے اکتا گئی؟‘‘ لبیبہ خانم کا لہجہ کچھ شگفتگی مائل تھا۔
’’اماں جان یہ مذاق کا وقت نہیں۔‘‘ نور السعادۃ جب دل میں ماں سے خفا ہوتی تو اسے ’اماں‘ کی جگہ ’اماں جان‘ کہتی تھی۔
’’کل تک ہمیں ان رائے صاحب کو جواب دینا ہے اور اپنے سارے حالات کو دیکھ سمجھ کر جواب دینا ہے۔ کیا پتا یہ ایک موقع ہمیں اللہ نے فراہم کر دیا ہو اور سچ یہ ہے کہ مجھے اصفہان سے لگاؤ کیوں ہو؟ یا کہیں سے لگاؤ کیوں ہو؟ یہ میرا وطن نہیں۔ تبریز مجھے یاد بھی نہیں۔ ہمارا اصل وطن، جیسا کہ آپ بتاتی ہیں کہیں بہت دور مغرب کے ایک ملک میں ہے جسے آپ نے بھی چار پانچ سال کی عمر کے بعد نہیں دیکھا۔ ایک طرح سے ہم خانہ بدوش ہی تو ہیں۔ شاید دہلی ہمیں گھر دے دے۔‘‘ اس کے لہجے میں آرزو کا عجب سا حزن تھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ لبیبہ خانم نے لمبی سی ہاں کی۔ ’’ہو تو سب کچھ سکتا ہے۔‘‘ اچانک اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ نخجوان کے زلزلے کی تباہیوں کے مناظر اس کے سامنے یوں تھے گویا کل کی بات ہو۔ نور السعادۃ کچھ سمجھی نہیں لیکن ماں کے آنسو دیکھ کر وہ خود بھی روپڑی۔ ’’اماں آپ خفا نہ ہوں۔ آپ چاہیں تو ابھی انکار کہلا دیں۔‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں، میری منی بیٹی۔‘‘ پھر لبیبہ خانم نے کچھ نہ کہا۔ نور السعادۃ کو بھی لب کشائی کا دم نہ تھا۔ لیکن شام ڈھلتے پھر بات شروع ہوئی۔ لبیبہ خانم کا مزاج اس وقت خلاف توقع بہت شگفتہ تھا۔ بات میں پہل بھی اسی نے کی۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم وہاں جا کر کچھ طویل مدت قیام کر کے حالات کا جائزہ لیں۔‘‘
نور السعادۃ نے ماں کو شگفتہ رو دیکھا تو خود بھی کھل اٹھی، ’’جی آپ درست کہتی ہیں اماں۔ کچھ دن رہ کر حالات دیکھ لیں اور شرط یہ رکھیں کہ اگر ہم نے واپسی کی ٹھانی تو ہمیں بحافظت اصفہان پہچانے کا ذمہ اعتماد الدولہ بہادر کا ہو گا۔‘‘
’’ہاں، یہی کچھ میں بھی سوچ رہی تھی۔ لیکن۔۔۔‘‘ وہ متفکر ہو کر چپ ہو گئی۔
’’ارے، آپ پھر محزوں ہوئی جاتی ہیں۔ اب کیا ہوا؟‘‘
اچانک لبیبہ خانم کے چہرے پر خدا جانے کہاں سے اتھاہ غم ٹوٹ پڑا۔ اس بار وہ صرف آنسوؤں سے نہیں روئی۔ ہاتھوں میں منھ چھپا کر اس طرح سسکیاں لینے لگی کہ نور السعادۃ کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ وہ اٹھی کہ کسی خادمہ کو بلائے لیکن گھبراہٹ میں ماں کے پلنگ کی پٹی سے ٹکرا کر اس طرح گری کہ ماتھے سے خون جاری ہو گیا۔ بیٹی کو زخمی دیکھ کر لبیبہ خانم نے خود کو کسی طرح سنبھالا، بیٹی کو اٹھایا، پیار کیا۔ چوٹ پر خوشبودار مرہم رکھ کر ہلکی سی پٹی باندھی پھر بولی، ’’غم نہ کرو بیٹی۔ مجھے اس وقت اپنا ایک عہد یاد آ گیا تھا۔ تبریز چھوڑتے وقت میں نے تمہارے باپ کی قبر پر وعدہ کیا تھا کہ مرنے سے پہلے ایک بار ان کے مزار کی زیارت کو پھر آؤں گی۔ اگر ہم دہلی چلے گئے تو پھر وہ وعدہ کیوں کر پورا ہو گا؟ اور اگر پورا نہ کیا تو تمہارے باپ کو کیسے منھ دکھاؤں گی؟‘‘ وہ پھر بے اختیار روپڑی۔
نور السعادۃ نے ماں کی کمر اور گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے یوں چمکارنا اور پیار کرنا شروع کیا گویا وہ ماں ہو اور خانم بزرگ اس کی بیٹی ہو۔
’’میری اماں جانی۔‘‘ اس نے ماں کو اپنے سب سے زیادہ محبت بھرے طرز سے مخاطب کیا، ’’میں نے تو انہیں گویا دیکھا بھی نہیں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ وہ ہر اس بات کی تائید کرتے جس میں میری اور آپ کی بھلائی کا کچھ بھی امکان ہوتا اور یہ کون کہتا ہے کہ خدانخواستہ آپ کی عمر۔۔۔‘‘ شدت گریہ سے اس کا گلا بھرا گیا۔
۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں