خواتین پر ظلم و ستم کیس سٹڈیز
تشدد بسیار
از قلم
رفیعہ نوشین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
تشدد بسیار
رفیعہ نوشین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
وار
’’میرا نام زہرا ہے۔‘‘
اس کا سر جھکا ہوا تھا اور نظریں فرش پر ٹکی تھیں۔
’’میرا نام رفیعہ ہے۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جی جانتی ہوں۔ بہت کچھ سنا ہے آپ کے بارے میں۔ اسی لیے چلی آئی۔‘‘ اس نے کنکھیوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن آج تو ….. میں تمہیں سننا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پتہ نہیں آپ میرے بارے میں کیا سوچیں؟‘‘
اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔
’’زہرا…..تم مجھے اپنا دوست سمجھو۔ بلا جھجک وہ سب کچھ سنا دو، جو تم سنانا چاہتی ہو۔ تم مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو۔‘‘
میں نے اس کو بھروسہ دلایا۔
’’میری شادی کو 12 سال ہو گئے۔ میرے شوہر شرابی ہیں اور نشہ کی حالت میں مجھ پر ہر قسم کا ظلم کرتے ہیں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔
’’ہر قسم کے ظلم سے مراد…..؟‘‘ میں تفصیل جاننا چاہتی تھی۔
’’گالی گلوچ، مارنا پیٹنا، ڈھکیلنا، ہاتھ موڑنا، گلا دبانا، بال نوچنا، بے عزت کرنا ….. اور…..‘‘
اس کے آگے وہ بول نہیں پائی۔ کیوں کہ اس کی آواز بھرا گئی تھی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ جب آنسو نکلتے ہیں تو اِن میں صرف نمک اور پانی نہیں ہوتا، اِن میں ماضی کی تکلیفیں، حال کا دکھ درد، اپنوں کے ستم، چاہنے والوں کی بے اعتباری، حقوق کی پامالی اور نہ جانے کیا کیا احساسات اور جذبات چھپے ہوتے ہیں۔
’’کب سے یہ سب سہہ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’11 سال سے …..!شادی کے بعد ایک سال ہی ہم سکون سے رہے ہوں گے۔ جب میری بیٹی دلشاد پیدا ہوئی تو میں شاد تھی، لیکن میرے شوہر ناشاد۔ کیوں کہ انہیں بیٹا چاہیے تھا، بیٹی نہیں۔‘‘
اس کی آنکھوں میں درد نمایاں تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ ایک مسلمان مرد کس طرح بیٹی کی پیدائش پر ناراض ہو سکتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: لا تَکْرَہوا البَناتِ۔ فإنَّہُنَّ المُؤْنِساتُ الغَالِیاتُ۔ ’’اپنی بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو، کیوں کہ وہ تو پیار کرنے والی اور قابلِ قدر (یعنی اہمیت کی حامل) ہوتی ہیں۔‘‘
’’دلشاد کے بعد اللہ نے مجھے دو لڑکوں سے بھی نوازا۔ تب حیدر (میرے شوہر) کچھ دن خوش رہے، لیکن پھر ظلم کا وہی سلسلہ جاری رہا اور میں روز ان کا ظلم یہی سوچ کر سہتی رہی کہ آج نہیں تو کل وہ سدھر جائیں گے۔ لیکن برسوں گزرنے کے بعد بھی ان میں سدھار نہیں آیا، بلکہ بگاڑ ہی آتا گیا۔‘‘
اس کے لہجہ میں مایوسی تھی۔
’’حیدر کے مسلسل ظلم سے میں تنگ آ چکی تھی۔ مر مر کر جی رہی تھی۔ میرے جسم کے کئی حصوں پر نیلے نشان موجود تھے۔ جو مجھے یاد دلاتے رہتے کہ میں کتنی کربناک زندگی گزار رہی ہوں۔ مجھے حیدر کی شکل سے بھی نفرت ہونے لگی اور میں ان سے دور رہنے لگی۔ میری دوری ان سے برداشت نہیں ہوتی تو وہ بپھر اٹھتے اور جارحانہ رویہ اختیار کرتے۔ بچوں کے سامنے مجھے ذلیل کرتے۔ نتیجتاً یہ سارا ظلم لا شعوری طور پر معصوم بچوں کے ذہن کو متأثر کر رہا تھا۔ بچے ڈر کے مارے سہم جاتے۔ وہ جب بھی مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتے، میرا جی چاہتا کہ میں بھی اپنا ہاتھ اٹھا لوں، ان کا منھ نوچ لوں یا پھر انہیں کاٹ کھاؤں۔‘‘
مرد، عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ جسمانی طور پر عورت کم زور ہو سکتی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ وہ اگر پلٹ وار نہیں کرتی تو محض اس کی مجبوریوں کی وجہ سے، جو اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ اور مرد اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ جس پر وہ ظلم کر رہا ہے اس میں بھی جان ہے۔
’’شوہر کے سدھار کی امید میں تم اتنے طویل عرصہ سے خود پر ہونے والے ظلم کو برداشت کر رہی تھیں۔ پھر اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ تم نے اس کے خلاف آواز بلند کی؟‘‘
میں اس پہلو کی تلاش میں تھی جس نے زہرا کی قوت برداشت کو للکارا تھا۔
’’پانچ سال پہلے میرے شوہر نے دوسری شادی کر لی۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
میں نے اس سے وجہ نہیں پوچھی۔ کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ ہمارے سماج میں ایسے مردوں کی کمی نہیں، جو بغیر کسی خاص وجہ کے عقد ثانی کرتے ہیں اور دونوں بیویوں میں سے کسی کے ساتھ بھی عدل نہیں کر پاتے۔
’’مجھے حیدر کے عقدِ ثانی سے بہت تکلیف پہنچی، جو کہ غیر متوقع اور غیر ضروری تھا۔ جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ میں تناؤ کا شکار ہو گئی۔ اس تکلیف میں مزید اضافہ اس وقت ہوا، جب انہوں نے اپنی دوسری بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والی بیٹی کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کی اور ایک ڈبہ ہمارے پاس بھی لے آئے اور بہت ہی خوشی سے کہنے لگے کہ: ’ماجدہ کو بیٹی ہوئی ہے۔ یہ مٹھائی اسی خوشی میں تقسیم کی جا رہی ہے۔‘ یہ سن کر میرا پارہ چڑھ گیا۔‘‘
’’جب ہماری پہلی بیٹی احمدی پیدا ہوئی تھی تو حیدر ناراض ہو گئے تھے اور میں نے حسبِ روایت بتاشے بانٹنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہا تھا کہ انہیں بتاشے بانٹنے میں شرم محسوس ہوتی ہے، لڈو ہوتے تو فخر سے بانٹتے۔‘‘
اس نا انصافی اور امتیازی سلوک سے میرا خون کھولنے لگا۔
’’ابّا! میں نے اکثر امی کو یہ کہتے سنا ہے کہ میری پیدائش پر آپ بالکل بھی خوش نہیں تھے۔ لیکن آج آپ کی دوسری بیوی کے ہاں لڑکی پیدا ہونے پر اتنی زیادہ خوشی اور مٹھائی کی تقسیم ایسا کیوں ابّا؟ کیا وہ بہت خاص ہے؟ کیا وہ مجھ سے الگ ہے؟‘‘
میری 11 سالہ بیٹی احمدی، جو بچپن سے اپنے والد کے ظالمانہ سلوک کو دیکھ رہی تھی، اچانک سوال کر بیٹھی۔
احمدی کے اس سوال نے جہاں مجھے چونکا دیا، وہیں میرے شوہر کو اچنبھے میں ڈال دیا۔ اس عمر کی لڑکی سے اس قسم کا سوال غیر متوقع تھا۔ ان کی حیرت شرمندگی میں تبدیل ہوئی۔ شرمندگی غصہ میں بدل گئی اور پھر وہ پھٹ پڑے۔
’’تم ابھی بچی ہو۔ تمہیں ہمت کیسے ہوئی اپنے والد سے اس قسم کا سوال کرتے ہوئے؟ اپنا منھ بند رکھنا، ورنہ طمانچے لگانے پڑیں گے۔‘‘
’’تم اپنی من مانی کرتے رہو اور دوسرے سوال بھی نہ کریں۔ ہم نے خاموش رہ کر خود پر بہت زیادتی کی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب ہم چپ نہیں رہیں گے اور حق تلفی پر آواز ضرور اٹھائیں گے۔‘‘ میں نے بھی ڈٹ کر جواب دیا۔
اس کے بعد ہم دونوں میں خوب جھگڑا ہوا۔ اسی دوران حیدر نے کہا کہ ’’تم بہت بد زبان ہو گئی ہو۔ زبان کھینچ لوں گا تمہاری یا پھر گلا ہی دبا دینا بہتر ہو گا۔‘‘
’’اتنا سننا تھا کہ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میری سانسیں دھونکنی کی طرح چلنے لگیں اور میں بھاگتی ہوئی کچن میں گئی۔ واپس پلٹی تو میرے ہاتھ میں چاقو تھا، جس کی مدد سے میں نے فوراً شوہر کے پیٹ میں وار کر دیا۔‘‘
یہ سن کر میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ میں ناقابلِ یقین نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’میں نہیں جانتی کہاں سے مجھ میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ میں نے اپنے بچاؤ کے لیے حیدر پر وار کر دیا تھا۔ چاقو اس کے پیٹ میں دھنس گیا تھا اور خون کے چھینٹے میرے منھ پر ہولی کے سرخ رنگ کی طرح بکھر گئے۔ حیدر کے پیٹ سے بہنے والی خون کی دھار کو دیکھ کر میرے حواس کھونے لگے اور میں بے ہوش ہو گئی۔ ہوش آیا تو میں پولیس اسٹیشن کے لاک اپ میں تھی۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا، جن میں ہتھکڑی ہونے کی امید تھی، لیکن وہ آزاد تھے۔‘‘ میں دم بخود اپنے سامنے بیٹھی ایک خاتون مجرم کی داستان سن رہی تھی۔
’’میڈم! میں مجرم ہوں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ لیکن حیدر نے کئی مرتبہ مجھ پر جان لیوا حملہ کیا تھا۔ پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہوں کہ ہر بار بچ گئی۔ اس بار مجھے لگا کہ وہ میرا کام تمام کر دے گا۔ اس لیے میں نے اس پر وار کیا۔ مجھے اپنا بچاؤ کرنا ضروری تھا، ورنہ وہ شرابی میری گردن بھی کاٹ سکتا تھا۔‘‘
اس کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔ اسے جہاں اپنے گناہ کا احساس تھا وہیں کہیں یہ اعتماد بھی تھا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ حفظ ماتقدم کے طور پر کیا تھا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میرا تجسس بڑھ رہا تھا۔
’’پھر مجھے بتایا گیا کہ حیدر زندہ ہیں۔ ان کے پیٹ کی سرجری ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے مجھے معاف کر دیا ہے اور مجھے کسی بھی قسم کی سزا دینے سے منع کیا ہے۔‘‘
اس نے بتایا تو مجھے تعجب ہوا کہ اس قسم کا شخص جو بغیر کسی وجہ کے بیوی پر ظلم کرتا ہے اور اب جب کہ اس کے پاس معقول وجہ بھی تھی، اس کے باوجود اس نے اپنی بیوی کو معاف کیسے کر دیا؟
’’زہرہ تمہارے شوہر کا یہ جذبہ تو قابل تعریف ہے کہ تمہارے جان لیوا حملے کے باوجود اس نے تمہیں معاف کر دیا۔ شاید وہ تمہیں معاف کر کے اپنی غلطیوں کا کفّارہ ادا کرنا چاہتا ہو۔‘‘
میں نے اندازہ لگایا۔
’’وہ….. اور کفّارہ….. نہیں میڈم! اس کا مجھے معاف کرنا بھی ایک سازش تھی۔‘‘
اس کے لہجے میں طنز تھا۔
’’کیسی سازش…..؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’حیدر نے مجھے معاف کر دیا اور پولیس کو کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کرنے سے منع کر کے سب کی نظروں میں مہان بن گیا۔‘‘
’’اور میں ….. میں ….. اپنے بچاؤ کے لیے وار کر کے سب کی نظروں میں گناہ گار ہو گئی۔ مجھے کسی کو کچھ بھی سنانے کا موقع دیے بغیر میرے بھائی کے پاس بھیج دیا گیا۔ جہاں میرے تینوں بچے پہلے سے موجود تھے۔ سماج کے کسی بھی فرد نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ میں نے وار کیا تو اس کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ سب مجھ سے نفرت کرنے لگے اور دور بھاگنے لگے، بلکہ خوفزدہ بھی تھے۔ انہیں لگتا کہ میں کسی بھی وقت کسی پر بھی وار کر سکتی ہوں۔‘‘
اس کی آواز ڈوب رہی تھی۔
’’زہرہ! لوگ کسی بھی انسان کو دیکھ کر یا مل کر اس کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ کسی بھی انسان کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ خود کو اس کی جگہ پر رکھیں۔ اس کے سارے دکھ جی کر دیکھیں۔ اس کی اذیتیں سہہ کر دیکھیں۔ ان راستوں پر سفر کر کی دیکھیں، جن پر اس نے سفر کیا ہے۔ وہ سب لڑائیاں لڑ کر دیکھیں جو بظاہر اس نے اپنے لیے لڑی ہوں، مگر پس منظر کچھ اور ہو۔ لڑائیاں سب کی الگ ہوتی ہیں۔ راستے الگ ہوتے ہیں اور آزمائشیں الگ ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم نے زندگی گزاری ہو مگر اسے زندگی نے گزارا ہو۔‘‘
’’آپ نے سچ کہا۔ کوئی میری زندگی جیے تو جانے کہ میں نے کیا کیا سہا ہے اور کیسے سہا ہے؟‘‘
میں اس کے لفظوں میں چیخوں کو محسوس کر رہی تھی۔
’’سرجری کے بعد حیدر بالکل ٹھیک ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور مجھے فون کر کے سسرال واپس آنے کے لیے کہا ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں سسرال واپس جانے کے نام سے ہی مجھ پر خوف طاری ہو رہا تھا۔ میں اس ماحول میں دوبارہ واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ سسرال کے نام سے ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ جاتا، جس نے مجھے مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔‘‘
اسی دوران میرے ماموں زاد بھائی ہمارے گھر آئے تھے۔ ان سے جب میں نے ذکر کیا کہ میں واپس اپنے سسرال جا رہی ہوں تو وہ ایک دم اچھل پڑے اور کہنے لگے:
’’نا….. نا….. تم واپس ہر گز مت جانا۔ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔‘‘
میں نے غیر یقینی انداز میں انہیں دیکھا تو انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ایک دوست حیدر کا بھی جگری یار ہے۔ اس کے ذریعے پتہ چلا کہ حیدر نے مجھے اس لیے معاف کیا کہ وہ مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ خود اپنے ہاتھوں سے مجھے سزا دینا چاہتا ہے اور بالکل اسی طرح مجھ پر وار کرنا چاہتا ہے جیسا میں نے اس پر کیا تھا۔ تبھی اس کو سکون ملے گا اور اس کے بدلے کی آگ بجھے گی۔
اگر پولیس مجھے سزا دیتی تو اسے اس بات کا موقع کہاں ملتا؟ اس لیے وہ یہ گھناؤنی چال چل رہا تھا اور یہی اس کا اصلی روپ بھی تھا۔
میں سوچنے لگی پتہ نہیں لوگ رشتوں کو دکھ دینا کب چھوڑیں گے؟
کب چہرے بدلنا چھوڑیں گے؟
اپنے رشتوں کے سامنے کچھ اور، پیچھے کچھ اور ہونا کب چھوڑ یں گے؟
کیا انہیں اس وقت سے ڈر نہیں لگتا جب لوگوں کی چیخیں رب کے عرش تک پہنچ جائیں گی؟
زہرا نے سڑ سڑ کرتی ناک کو رو مال سے صاف کیا اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی:
’’جب مجھے ان کی اصلیت کا پتہ چلا تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اب اس گھر میں کبھی واپس نہیں جاؤں گی نہ ہی اس انسان کے ساتھ زندگی گزاروں گی، جس کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے تحفظ کے بجائے جان کا خطرہ محسوس ہو۔ لہٰذا میں نے حیدر سے کہہ دیا کہ مجھے اس سے خلع چاہیے۔
’’اور اس نے صاف انکار کر دیا ہو گا؟‘‘
میں درمیان میں بول پڑی۔
’’جی بالکل…….!‘‘
’’کیا آپ مجھے اس سے خلع لینے میں مدد کر سکتی ہیں؟ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی نا ہی اپنے بچوں کو اس کی ڈگر پر چلنے دے سکتی ہوں۔‘‘
ہاں! جہاں تم پر روز ظلم ہوتا ہو، جہاں تمہاری جان خطرہ میں ہو، جہاں تمہارے بچے نفسیاتی دباؤ میں جی رہے ہوں، جہاں ایک عورت 12 سال تک ظلم برداشت کرنے کے بعد علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہو، تو ہم اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ہم تمہاری مدد ضرور کریں گے تاکہ تم ایک پر سکون زندگی گزارتے ہوئے اپنے بچوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کر سکو جہاں وہ کھل کر جئیں اور دین و دنیا میں سرخرو ہوں۔
1۔ الحمد اللہ ہمارے معاشرہ میں دینی مدارس اور مساجد کافی تعداد میں موجود ہیں۔ کیا یہ دونوں مقامات شراب کی لت سے نجات کا مرکز نہیں بن سکتے؟
2۔ ایسے مرد حضرات کی اصلاح کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے جو لڑکی کی پیدائش پر نا خوش ہوتے ہیں؟
3۔ خواتین بھلے ہی جسمانی طور پر کم زور ہوں، کیا ان کی قوت ارادی اور خود اعتمادی کو کم سمجھ کر ان پر ظلم و ستم کرنا جائز ہے؟
4۔ گھروں میں بچوں پر ہونے والے نفسیاتی اثرات کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ انہیں اس میں مبتلا ہونے سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
5۔ کیا گیارہ سالہ لڑکی کا اپنے والد سے نا انصافی پر سوال کرنا مناسب ہے؟ یہ موقع اسے کس نے فراہم کیا؟ ہمارے معاشرہ میں ایسی کتنی لڑکیاں ہیں جو سوال کرنے کی ہمّت رکھتی ہیں؟
سوالات
مرد، عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ جسمانی طور پر عورت کم زور ہو سکتی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ وہ اگر پلٹ وار نہیں کرتی تو محض اس کی مجبوریوں کی وجہ سے، جو اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ اور مرد اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ جس پر وہ ظلم کر رہا ہے اس میں بھی جان ہے۔
٭٭٭
مسترد
سرو قد، میدہ جیسی رنگت، ستواں ناک، بادامی آنکھیں جن میں جھیل جیسی گہرائی، سڈول، جسم ہونٹ غالب کے شعر کے ترجمان کہ:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
اس کے حسن نے میری آنکھوں کی پلکوں کو جھپکنے کا درس بھلا دیا تھا۔ اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہی کیبن معطر ہو گیا تھا۔ اس کی وضع قطع اور مہک بتا رہی تھی کہ اس کا تعلق دبئی یا سعودی عرب سے ہو گا۔
’’تشریف رکھیں!‘‘
میں نے صوفہ کی جانب اشارہ کیا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں، جنہیں وہ ٹشو پیپر میں جذب کرنے لگی۔ میں نے اس کا رجسٹریشن فارم دیکھا۔
نام گل بدن …
عمر 32 سال…
اس کے بعد اہم جانکاری فراہم کرنے والے سارے خانے بالکل خالی تھے۔ جیسے شوہر کا نام، شوہر کا رابطہ نمبر، بچوں کے نام اور ان کی عمریں، متبادل رابطہ نمبر وغیرہ وغیرہ۔
’’آپ نے اہم کالم ادھورے چھوڑ دیئے؟‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کلائنٹ اپنا دکھ درد تو ہم سے شیئر کرتی ہیں، ساتھ ہی وہ اس بات کی خواہاں ہوتی ہیں کہ ہم اس کے خاندان کے کسی بھی فرد سے فوری طور پر رابطہ نہ کریں۔ اور ہمیں ان کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ سیشنز کے بعد وہ خود متاثر ہو کر ہمیں اجازت دیتی ہیں کہ ہم ان کے افرادِ خاندان کے ساتھ بھی سیشن کریں۔
’’کیا سارے کالمس پر کرنا ضروری ہے؟‘‘ اس کا لہجہ کسی قدر ترش ہو گیا تھا۔
’’فیملی کونسلنگ کے لئے ضروری تو ہوتی ہیں۔ لیکن آپ اگر یہ معلومات فراہم نہیں کرنا چاہتیں تو نہ کریں، جبر نہیں کروں گی۔ ویسے اپنے کلائنٹس کی راز داری ہمارا بنیادی اصول ہے۔‘‘ میں نے اسے یقین دلانے کی ناکام کوشش کی۔
اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی داستان کا آغاز کیا
’’میری شادی ہوئے دس سال کا عرصہ گزر گیا – یہ میرے بچے ہیں۔‘‘ اس نے فون میری طرف بڑھا دیا۔ جس میں آٹھ اور نو سالہ دو لڑکیوں اور ایک سات سالہ لڑکے کی تصویر تھی۔ جو اپنی ماں سے زیادہ خوبصورت اور پر کشش لگ رہے تھے۔
’’لیکن اب میرے شوہر کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔
پری پیکر مونا لیزا کا جیتا جاگتا مجسمہ میرے سامنے موجود تھا۔ جس کے حسن کا جادو کسی کے بھی سر چڑھ کر بول سکتا تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ اس کے شوہر کو اس میں کوئی رغبت نہیں۔ میرا دل اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔‘‘
’’وجہ؟‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا، جو سرخ ہو رہی تھیں۔
’’ہم جنس پرستی۔‘‘ اس نے اپنی نظریں نیچے جھکا لی تھیں۔ جیسے وہ بذات خود اس عمل کی مرتکب ہوئی ہو۔
مشرقی عورت کی یہی تو خاص بات ہوتی ہے کہ وہ حتی الامکان اپنے شوہر کی برائیوں اور عیبوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ وہ یہ سوچتی ہے کہ اگر وہ ان باتوں کو طشت از بام کرے گی تو اس کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اور اگر کبھی بتائے گی بھی تو بڑی راز داری سے، احتیاط سے، سر اور نظروں کو نیچے جھکائے جیسے وہ خود کسی جرم کا اعتراف کر رہی ہو۔ ایسا انداز تو وہ شوہر بھی اختیار نہیں کرتا جو حقیقتاً ظلم کرتا ہے۔ وہ پہلے تو اپنی زیادتیوں کو قبول ہی نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اس زیادتی کو اپنا حق سمجھتا ہے، اور اگر کبھی قبول کر بھی لے تو اسے Justify کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا پھر بہت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے چیلنج بھی کرتا ہے کہ جہاں جانا ہے جاؤ، جو کرنا ہے کر لو۔ کوئی میرا کیا بگاڑ لے گا؟ ایسے شوہروں کو نہ خدا کا ڈر ہوتا ہے نہ ہی آخرت کی فکر!
’’بیان کی صداقت کا پیمانہ دلیل ہوتی ہے آپ کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے؟‘‘
’’دلیل اور ثبوت دونوں ہیں میرے پاس۔‘‘ اس کا لہجہ پر اعتماد تھا۔
’’دلیل یہ ہے کہ میری طرف ان کی کشش کم ہو گئی ہے۔ ان کا جذباتی تعلق صرف ان کے مرد ساتھیوں کے ساتھ ہے۔ اور ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ’گرینڈر‘ اور ’پلاٹینیئم رومیو‘ نامی ایپس جوائن کر رکھا ہے، جہاں ہم جنس پرستوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیے جاتے ہیں۔ اس ایپ میں بہت سارے نوجوان شامل ہیں۔ جو ایک دوسرے سے رابطے میں رہ کر اس بد فعلی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
’’کیا اس کی وجہ دین سے دوری ہے؟‘‘ میں نے وجہ جاننا چاہی۔
’’نہیں …مجھے تو ایسا بالکل بھی نہیں لگتا، کیونکہ میرے شوہر دین دار ہیں۔ ڈاڑھی رکھتے ہیں، نماز روزہ کے پابند ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں، اتنی خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں کہ روح مسرور ہو جائے۔ در اصل وہ مذہبی احکامات کی موجودہ تشریحات کو درست نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی ان کا اور ان کے خدا کا معاملہ ہے۔ ان کی جنسی پسند ان کی اپنی ہے۔ اور وہ اسے سراسر ان کا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے شوہر کا نظریہ پیش کیا۔
’’اسلام دین فطرت ہے۔ جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا گیا ہے یقیناً وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہے۔ جن میں سے کچھ کا احساس ہمیں ہو پاتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ ہم جنسی بھی فحش عمل اور بدکاری ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے، اور جس کے برے نتائج آ رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس سے بچنا خدا کا حکم ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا فرض ہے۔ اگر یہی عمل آپ کرتیں تو…؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
’’وہ تو خود ہی مجھ سے کہتے ہیں کہ میں گے ہوں، تو تم لیسبیَن بن جاؤ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ اس کے پاس میرے سوال کا جواب پہلے سے موجود تھا۔
’’لاحول ولاقوة!‘‘ میں نے دل ہی دل میں لاحول پڑھا۔
کسی بھی قسم کی برائی میں ملوث انسان کو جب اس برائی سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے تو وہ سب سے پہلے تلقین کرنے والے کو ہی اسی برائی میں شامل کر کے برائی کا چسکہ لگانا چاہتا ہے، تاکہ اس کے کام میں رخنہ ڈالنے والا کوئی نہ ہو۔ اور وہ اطمینان سے برائی کا کام انجام دیتا رہے، اسی لئے وہ گلبدن کو بھی برائی کی ترغیب دے رہا تھا۔
’’میں شدید نوعیت کے حالات سے دوچار ہوں۔ میری امیدیں اور خواب دن بدن ٹوٹ رہے ہیں۔ پہلے تو اس موضوع کے بارے میں کسی سے کھل کر بات چیت نہیں کر سکتی۔ والدین اور ساس کو بتایا تو وہ یہ کہتے ہیں کہ شیطان نے انہیں بہکا دیا ہے، کچھ دنوں میں سنبھل جائیں گے۔ ان میں سے کوئی بھی میرے شوہر سے اس موضوع پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
’’حال ہی میں کچھ دنوں کے لئے جب وہ انڈیا آئے تھے تو مجھ سے بات بھی نہیں کر رہے تھے۔ ہمیشہ مجھے نظر انداز کرتے رہے۔ چھونا پکڑنا تو دور کی بات، وہ تو مجھ سے بھی دور بھاگتے رہے۔ جس انسان کے لئے میں نے اپنا گھر بار چھوڑا، سات سمندر پار جا کر اس کی دنیا آباد کی، پھول جیسے بچوں سے اس کے آنگن کو گلزار کیا، ہمیشہ اس کی پسند اور خواہشات کو اوّلین ترجیح دی۔ آج… آج …وہی شخص میرے پورے وجود کو ہی مسترد کر رہا ہے۔ ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا تو پل پل مرنا ہے۔ اس نے شوہر اور بیوی کے پاکیزہ رشتہ کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ مجھے ٹھیس پہنچائی ہے۔ ایسے رشتے کا کیا فائدہ جس میں نہ عزت ہے، محبت ہے نہ ایمان داری نہ وفاداری۔ اب مجھے بھی اسے مسترد کرنا ہی ہو گا۔‘‘ اس نے فیصلہ لے لیا تھا۔ وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جیسے کوئی بچہ اپنا پسندیدہ کھلونے کے ٹوٹنے پر روتا ہے۔
معمولی معمولی وجوہات پر خواتین کو مسترد کرنا مرد کا شیوہ بنتا جا رہا ہے۔ کبھی وہ اسے ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے مسترد کرتا ہے تو کبھی جہیز کے لئے، کبھی شک کی بنیاد پر تو کبھی خاندانی پس منظر کے باعث۔ وجہ چاہے کوئی بھی ہو، خواتین کو مسترد کرنے کے بعد انہیں اپنی مردانگی میں مزید اضافہ محسوس ہوتا ہے۔ مردوں کو جنم دینے والی خواتین بغیر کسی ٹھوس وجہ کے، آخر کب تک مسترد کی جاتی رہیں گی؟
’’لیموں پانی!‘‘
جب گلبدن کے آنسوؤں کی باڑھ تھمی تو میں نے لیموں پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ جو اس دوران ملازمہ لے آئی تھی۔
’’میں نے ایم بی اے کیا ہے۔ کسی بھی فرم میں آسانی سے ملازمت مل جائے گی۔ اس کے علاوہ میرا تعلق امیر گھرانے سے ہے۔ دولت و جائداد کی کمی نہیں۔ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ذمہ داری بخوبی نبھا سکتی ہوں۔ اس کے باوجود کیا مجھے ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیے جو غیر شرعی طریقے سے اپنی خواہش کی تکمیل کرتا ہے؟ یہی نہیں بلکہ مجھے بھی گناہ کے دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا۔
’’انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں!‘‘ میں نے صلاح دی۔
’’اصلاح کی کوئی صورت بھی تو ہو، وہ جدہ میں رہتے ہیں، مجھ سے بات کرنا گوارہ نہیں، گھر کے بزرگوں کے لئے تو یہ مسئلہ موضوع ممنوعہ ہے۔ ان حالات میں کیسے اصلاح ہو سکتی ہے؟‘‘ وہ پریشان ہو رہی تھی۔
’’آپ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ آپ کے شوہر کے نیک یا بد اعمال، آپ کی اور آپ کی اولاد کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، اس کا تجربہ بھی کر رہی ہیں۔ لہٰذا فیصلہ بھی آپ ہی کو کرنا ہے، تاکہ کل کو آپ مجھے مورد الزام نہ ٹھہرائیں کہ میری وجہ سے آپ نے غلط فیصلہ لیا تھا۔ اطمینان سے گھر جائیں، استخارہ کریں اور فیصلہ لیں۔ ہم دعا کریں گے کہ اللہ آپ کے حق میں خیر کا معاملہ کرے۔‘‘ میں نے تسلّی دی۔
’’آمین‘‘ کہتی ہوئی وہ اچانک اٹھی اور دروازہ کھول کر تیزی سے باہر نکل گئی۔
ایک ہفتہ بعد میں نے گلبدن کو فون کیا تاکہ اس کے فیصلہ کے بارے میں جان سکوں۔
’’میں جس حال میں آپ کے پاس آئی تھی، اسی حال میں ہوں، میرے والدین نہیں چاہتے کہ میں اپنے شوہر سے خلع لوں۔ انہیں صرف سماج کا ڈر ہے، وہ انگشت نمائی سے خوف زدہ ہیں، لیکن انہیں اپنی بیٹی کے کرب اور تکلیف کا احساس نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے شوہر کا ٹیگ لگائے بقیہ زندگی اسی کے نام پر کاٹ دوں۔ بھلے ہی وہ حق زوجیت ادا کرے یا نہ کرے، مجھ سے محبت کرے یا نہ کرے، وہ من مانی کرتا رہے اور میں سب کچھ سہتی رہوں۔‘‘ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
’’آپ اپنے والدین کو ہمارے کونسلنگ سنٹر لے آئیں۔ ایک مرتبہ ان لوگوں سے بھی ملاقات کر لیں گے۔ ہو سکتا ہے اس کے بعد ان کا نظریہ بدل جائے۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
’’میں نے کہا تو تھا، وہ آنا ہی نہیں چاہتے، اس موضوع پر بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ آپ لوگ ویمن اسٹیٹس پر رپورٹس تو لکھتی ہی ہوں گی یا کسی سمینار میں شرکت ہو تو اس بات کا ذکر ضرور کیجیے گا کہ آج بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون کو اپنی زندگی سے متعلق فیصلہ لینے میں کتنی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ کس طرح خواتین کی فیصلہ سازی کی طاقت کو کچلا جاتا ہے۔ کوئی بھی میرے برے وقت میں میرا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سب میرے خلاف ہیں، اور اس شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جس نے مجھے مسترد کر دیا ہے۔ کچھ لوگ رشتوں کو بدن پر پہنے ہوئے کپڑوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ جنہیں کسی وقت بھی اتارا جا سکتا ہے، لیکن میرے خیال میں رشتے تو شریانوں میں بہنے والے لہو کی طرح ہوتے ہیں، جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور زندگی سے وابستہ یہ تعلق کبھی دل سے جڑا ہوتا ہے اور کبھی روح سے۔ کتنے کم ظرف ہوتے ہیں وہ لوگ جو دلوں اور روحوں سے جڑے رشتوں کو تار تار کرنے کے بعد نمازوں اور سجدوں میں جنت مانگتے ہیں۔‘‘
’’گلبدن! میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں بہت کچھ بدلتا ہے اور بدلتا بھی رہے گا۔ اکثر بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہماری مرضی کے خلاف ہوتا ہے، ہو سکتا ہے تمہیں بہت کچھ چھوڑنا بھی پڑے، بہت کچھ جھیلنا بھی پڑے، مشکلیں آتی ہیں، آئیں گی اور آتی رہیں گی۔ دکھوں کے بگولے بھی آ سکتے ہیں، آئیں گے بھی، لیکن ان سب سے لڑنے کے لیے کوئی بھی تمہارے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا۔ بھلے ہی تمہارے اپنے کیوں نہ ہوں۔ سو، اللہ کے سوا کسی سے امید مت لگانا کہ وہ تمہیں حوصلہ دیں گے، تمہارے برے وقت میں، تمہاری مشکل میں تمہارا ساتھ دیں گے، یہ کام تمہیں خود ہی کرنا ہے اور کرنا پڑے گا۔ یہ دنیا ہے یہاں اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے۔ وقت کیسا بھی آئے، کوئی تمہارے ساتھ ہو نہ ہو، لیکن تم خود اپنے پاس ضرور موجود رہنا، کیونکہ آخر میں تمہیں ضرورت اپنی ہی پڑے گی۔‘‘ میں نے حوصلہ دیا اور یہی تو میں کرتی ہوں۔
’’شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ آج کے بعد میں ہمیشہ خود کے لئے اپنے پاس موجود رہوں گی، اور اپنی لڑائی خود لڑوں گی اور مشکلوں سے کہوں گی کہ میرا خدا بڑا ہے۔‘‘ اس کی آواز گلو گیر تھی، لیکن لہجہ پر عزم تھا۔
سوالات
(1) ہم جنس پرستی ایک فکری موضوع ہے۔ کیا اس موضوع کو ’’موضوع ممنوعہ‘‘ مان کر یکسر نظر انداز کر دینا چاہیے، یا اس پر کھل کر گفتگو کرنا چاہیے؟
(2) گلبدن کے شوہر کی بد اعمالی کو شیطان کا بہکاوا مان کر بہت ہی آسانی سے سنبھلنے کا موقع دیا گیا۔ کیا خواتین سے ہونے والی غلطیوں کو بھی اتنی ہی آسانی سے شیطان کا بہکاوا مان کر قبول کیا جاتا ہے؟ کیا انہیں بھی خود سے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ امتیاز کیوں؟
(3) ہم جنس پرستی جرم ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اس جرم سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمارے مساجد اور مذہبی رہنماؤں، اداروں کے پاس کیا کوئی حکمت عملی ہے؟
***
عالمہ
آفس پہنچتے ہی میری اسسٹنٹ جوہی ڈائری کے ساتھ میرے سامنے موجود تھی۔
’’میڈم! ۱۱ بجے آپ کو امّارہ کے شوہر اور ساس سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’اوکے، تھینکس! میں کر لوں گی۔‘‘
جوہی کے جاتے ہی میں نے سسٹم پر امّارہ کی فائل کھولی۔
امّارہ ۱۸ سالہ عالمہ تھی، جس کی شادی ۸ ماہ پہلے نظام آباد کے ٹرک ڈرائیور سے ہوئی تھی، اور پھر دوسرے ہی ماہ وہ حاملہ بھی ہو گئی تھی۔ ساس اور شوہر کے ظلم سے تنگ آ کر اس نے شوہر کا گھر چھوڑ دیا تھا اور پچھلے ۳ ماہ سے میکے میں قیام پذیر تھی۔ شوہر یا سسرال والوں سے رابطہ منقطع تھا۔
ٹھیک ۱۱ بجے میں نے امّارہ کے شوہر کا نمبر ڈائل کیا۔ اور سلام سے کلام کی ابتداء کی۔
’’السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ!‘‘
’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!‘‘
دوسری جانب سے کسی خاتون نے سلام کا جواب دیا تھا
’’کیا میں امّارہ کے شوہر فیض سے بات کر سکتی ہوں؟‘‘
میں نے فون ریسیو کرنے والی خاتون سے پوچھا۔
’’فیض باہر گیا ہوا ہے، آپ کون؟ فیض سے کس سلسلے میں بات کرنی ہے؟‘‘ ان کی زبان اور لہجہ بالکل دیہاتی تھا۔
’’میں فیملی کونسلر رفیعہ نوشین بول رہی ہوں، حیدر آباد سے۔ آپ کے گھر میں امّارہ سے متعلق جو بھی نا اتفاقی ہوئی ہے اس سلسلہ میں بات کرنی تھی، آپ غالباً امّارہ کی ساس ہیں۔‘‘ میں نے اندازہ لگایا۔
’’ہاں میں ہی اس کی ساس ہوں، کیا آپ عالمہ کی استانی ہو؟‘‘ وہ شاید کونسلر کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھیں، انہوں نے سمجھا میں امّارہ کی معلّمہ بول رہی ہوں۔
’’عالمہ؟ شاید آپ امّارہ کی بات کر رہی ہیں، لیکن میں ان کی استانی نہیں ہوں۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’اچھا پوچھیے، کیا پوچھنا ہے آپ کو؟‘‘ وہ بولیں۔
’’امّارہ سے آپ لوگوں کی مخالفت کی وجہ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’وہ …عالمہ نے نہیں بتایا آپ کو؟‘‘ سوال کے جواب میں انہوں نے بھی سوال کر ڈالا تھا۔
’’انہیں جو بتانا تھا انہوں نے بتا دیا، لیکن مجھے آپ سے بھی جاننا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟‘‘
میں نے پوچھا۔
’’آپ نے نہ جانے کتنی عالماؤں کو دیکھا ہو گا، مگر ایسی عالمہ آپ کو کہیں بھی دکھائی نہ دی ہو گی۔‘‘
’’ہم روزانہ فجر کے لیے ۵ بجے جاگ جاتے ہیں۔ میرا بیٹا جاگنے کے بعد خود پانی گرم کر کے نہاتا دھوتا ہے، پھر اپنی بیوی کے لئے بھی پانی گرم کر کے اسے جگاتا ہے کہ اٹھو! امّارہ نماز کا وقت ہوا جاتا ہے۔‘‘
’’آپ نماز کے لئے جائیں، میں اٹھ جاؤں گی۔‘‘ یہ جواب دے کر وہ دوبارہ سو جاتی تھی۔
اس کے جاگنے کی راہ دیکھتے دیکھتے میں ہی سارے گھر کو جھاڑو لگاتی، ناشتہ بناتی اور ۱۰ بجے کے قریب اسے دوبارہ نیند سے جگاتی ’’ابھی صرف۱۰ ہی تو بجے ہیں، آپ جائیں، میں آتی ہوں۔‘‘ یہ جواب دے کر وہ پھر سے سو جاتی، فجر کی نماز بھی نہیں پڑھتی تھی۔ ۱۲، ۱ بجے نیند سے جاگنے کے بعد ناشتہ ہوتا تھا عالمہ کا۔ عالمہ ایسی ہوتی ہے بھلا؟ آپ جواب دیں۔‘‘ اس نے شکایت کا دفتر کھول دیا تھا۔
’’نماز تو فرض ہے اور ہر صورت میں ادا کرنا ہی ہے، اس سے مفر نہیں۔ صبح دیر تک سونا اس کی کوئی مجبوری رہی ہو گی۔‘‘
میں نے اپنا نظریہ پیش کیا۔
’’مجبوری؟ کا ہے کی مجبوری؟ مزاج خراب ہو تو دو چار دن، مگر عالمہ کا تو روزانہ جاگنے کا وقت ہی۱۲ بجے تھا۔‘‘
اس بات کو سن کر امّارہ کا جملہ میری سماعت سے ٹکرانے لگا۔
’’میری ساس مجھے چین سے سونے بھی نہیں دیتی۔‘‘
’’میں ہمیشہ اس سے کہتی کہ تم نئی نویلی دلہن ہو، کنگھی چوٹی کر کے اچّھے سے تیار ہونا اور سر پر سے پَلّو لینا۔ گھر میں دیور بھی ہے، مجال ہے جو اس نے کبھی ایسا کیا ہو، چاہے مغرب ہو یا عشاء اس کے بال ہمیشہ کھلے رہتے، اور شانوں پر لہراتے رہتے، سر ڈھکنا تو اسے معلوم ہی نہ تھا، خدا نخواستہ اگر اسے اثرات ہو جاتے تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہوتا؟ آپ بولو۔‘‘ وہ اپنے ہر سوال کا جواب مجھ سے پوچھ رہی تھیں، گویا کہ اپنی بات کی تصدیق چاہتی ہوں۔
اور مجھے ان کے ہر سوال کے بعد امّارہ کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ اس نے کہا تھا۔
’’میری ساس مجھے سجنے سنورنے نہیں دیتی، وہ چاہتی ہے کہ میں گھر میں بھی ہمیشہ بڈھوں کی طرح اوڑھ لپیٹ کر رہوں۔‘‘
اس دوران فیض گھر آ چکا تھا۔ میرے بارے میں جاننے کے بعد اس نے کال کانفرنس پر ڈال دی تھی۔ اب گفتگو ہم تینوں کے درمیان ہو رہی تھی۔
’’السلام علیکم‘‘
اس نے سلام کیا تو میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اسے فون کرنے کا مقصد بتایا۔
’’میں نے بہت خوشی سے شادی رچائی کہ میری بیوی عالمہ ہے۔ میں نے سوچا کہ یقیناً میں نے کچھ اچھے کام کیے ہوں گے، جس کی وجہ سے مجھے ایسی بیوی ملی جو عالمہ ہے، مگر مجھے بہت بڑا دھوکہ ہوا، وہ عالمہ نہیں تھی، کیونکہ وہ عالم والے کورس میں پڑھائے جانے والی کسی بات پر بھی عمل نہیں کرتی تھی، بلکہ وہ تو مجھے ہی اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتی تھی، کیا کوئی اپنے شوہر کو غلام بناتا ہے؟ بتائیں تو!‘‘
فیض کا لہجہ اور انداز ہو بہو اپنی ماں جیسا تھا، دیہاتی اور جارحانہ۔
’’ہو سکتا ہے یہ آپ کی غلط فہمی ہو؟‘‘ میں نے آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’غلط فہمی؟‘‘
’’میں سمجھ گیا میڈم۔‘‘
’’آپ لوگ خواتین کی غلطیوں کو مانتے کہاں ہیں؟ ہمیشہ مرد ہی کو دوشی قرار دیتے ہیں، آخر ہماری کون سنے گا؟‘‘
اس نے قدرے ناراضگی کا اظہار کیا۔
یہ مسئلہ کونسلرز کو ہمیشہ درپیش رہتا ہے کہ غیر جانب داری سے گفتگو کرو تب بھی شوہر کو لگتا ہے کہ بیوی کی طرف داری کی جا رہی ہے، اور بیوی کو لگتا ہے کہ شوہر کی طرف داری کی جا رہی ہے۔
’’میں تو آپ کو بھی سننا چاہتی تھی، اسی لئے تو میں نے خود آپ کو فون کیا، ورنہ آپ کو فون کرتی ہی کیوں؟‘‘ میں نے صفائی پیش کی۔
’’اگر ایسا ہے تو سنیے! میں آپ کو اس کے ظلم کی داستان سناتا ہوں۔‘‘
میری بات سے اسے تقویت مل گئی تھی۔
’’کسی بھی دن اگر اس نے کام پر جانے سے منع کر دیا تو پھر میں کام پر جا ہی نہیں سکتا۔ دن میں کسی بھی وقت اگر اس نے کہا کہ کام چھوڑ کر گھر آؤ تو آنا پڑتا تھا۔ اگر میں نے کہا کہ اس وقت تو میں نہیں آ سکتا، کام ہے، تو جواب ملتا ہے تمہارا کام جائے بھاڑ میں۔‘‘ کام کو بھاڑ میں ڈال کر دن بھر اگر میں بیوی کے ساتھ وقت گزاروں تو گھر کیسے چلے گا؟ بتاؤ آپ!‘‘
اس کے پاس سنانے کو بہت کچھ تھا۔ اور میں اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ فیض نے وقفہ لیا ہی تھا کہ اس کی ماں پھر سے شروع ہو گئی۔
’’عالمہ کو گھر کا ایک کام بھی کرنا نہیں آتا تھا۔ نہ پکانا آتا نہ ڈھنگ سے دھونا آتا۔ رمضان کی عید کے دن سیویاں پکانے کے لئے کہا گیا تو صاف کہہ دیا کہ نہیں آتا، مجھے تو شوگر کی بیماری ہے، میں تو میٹھا کھاتی بھی نہیں مگر بچّوں کے لئے میں نے سیویاں پکائیں۔ میں تو اسے ہمیشہ بیٹا بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھی لیکن وہ اکثر مجھے بُڈّھی بُڈّھی بُڈّھی ہی کہا کرتی۔ وہ عالمہ ہے ناں، اس لئے ہمیشہ جوان رہے گی کبھی بوڑھی نہیں ہو گی غالباً۔‘‘
اس کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ وہ سانس لینے کے لئے رکی ہی تھی کہ فیض شروع ہو گیا۔
’’میں کبھی دوستوں سے ملاقات کے لئے نکلا تو جانے کے کچھ ہی دیر بعد اس کا فون آتا اور وہ مجھے فوراً واپس آنے کے لئے کہتی ساتھ ہی دھمکی بھی دیتی کہ اگر تم پانچ منٹ میں گھر نہیں پہنچے تو میں اپنی رگیں کاٹ لوں گی۔‘‘
’’ہر چھوٹی چھوٹی بات کے لئے چاقو لے کر ہاتھ کاٹنے کی کوشش کرنا اس کا معمول بن گیا تھا، عالمہ ایسی ہوتی ہے؟‘‘
’’کیا اسے مدرسہ میں یہی سب سکھایا گیا تھا؟‘‘
وہ طنز کے تیر چلائے جا رہا تھا۔
فیض کی اس بات پر مجھے پھر سے امّارہ کی بات یاد آئی اس نے کہا تھا۔
’’میرے شوہر تو اپنے دوستوں میں جاتے، ہوٹل جاتے، تفریح کرتے مگر میں گھر میں رہ رہ کے تنگ آ چکی تھی، گھر کے باہر قدم نہیں رکھ سکتی تھی، نہ کہیں جانا نہ آنا۔ گھر میں ٹی وی بھی نہیں کہ دل بہلا لوں، میرا دم گھٹ رہا تھا، اس لئے میں ماں کے پاس آ گئی، ماں کے گھر میں تو باہر کے چبوترے پر ہی گھنٹوں گزر جاتے، اور وقت کا احساس بھی نہ ہوتا۔‘‘ اس کی اس بات سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکی چبوترہ کلچر کی پروردہ ہے۔ سلم علاقوں میں جیسے ہی شوہر کام پر جاتے ہیں۔ ۴ تا ۵ خواتین اور لڑکیاں گروپ بنا کر کسی چبوترے پر بیٹھ جاتی ہیں، اور پھر گھر گھر کی کہانیاں غیبت کا روپ لے کر خواتین کو گناہ کے دلدل میں دھکیلنے کا کام کرتی ہیں۔ خواتین اپنے اس برے عمل سے بے پرواہ اس کو مفت تفریح کا سامان مان کر روزانہ اس عمل کو دوہراتی رہتی ہیں۔ یہ موقع امّارہ کو اپنے سسرال میں نہیں مل رہا تھا۔ وہ اپنے دل کا غبار نکال نہیں پا رہی تھی۔ جس سے اس کا تناؤ بڑھ رہا تھا۔
’’رمضان کی عید کے دن فیض اپنے دوستوں سے ملنے گئے تھے۔ دوست اسے جبراً فلم دیکھنے لے گئے، آنے تک دیر ہو گئی۔ جیسے ہی فیض واپس آئے، امّارہ نے ان سے خوب جھگڑا کیا، اور چاقو سے خود کو نقصان پہچانے کی کوشش کر رہی تھی۔‘‘
’’امّارہ ایسا مت کرو تمہارے پیٹ میں بچہ ہے۔ ’’کم از کم اس کا تو خیال کرو!‘‘ کہتی ہوئی میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تو چاقو میرے انگوٹھے میں دھنس گیا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا۔ مجھے دوا خانے لے جایا گیا، جہاں میرے زخم کو سینے کے لئے چار ٹانکے لگے۔ امّارہ نے خود ہی فون کر کے اپنی ماں اور بہن کو بلایا۔‘‘
ساس، اس کے ساتھ ہوئے حادثے کے بارے میں بتا رہی تھی۔
’’اس کی ماں کو میں نے انگوٹھے کا زخم بتایا تو وہ کہتی ہے کہ تم نے اسے روکا ہی کیوں؟ مداخلت کرنے کی وجہ سے ہی تو انگوٹھا کٹا۔ بہتر تھا اپنی جگہ خاموش رہتیں۔‘‘
’’اس کا مطلب تو صاف یہ ہوا کہ امّارہ اگر چاقو سے خود کو نقصان بھی پہنچا لے تب بھی میں خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہوں۔‘‘
’’پہلے زمانے کے لوگ کہا کرتے تھے کہ نماز بخشوانے گئے تو روزے گلے پڑے، وہی حال میرا ہو گیا۔ میں ہمدردی میں جان بچانے گئی تو میری ہی جان آفت میں پڑ گئی، اب کیا کریں؟ بتائیں آپ!‘‘
اس کا کہنا سچ ہی تو تھا۔ ساس کا میاں بیوی کے نجی معاملے میں دخل اندازی سے احتراز ضروری ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال سنگین تھی، وہ اگر مداخلت نہ کرتی تو ممکن ہے امّارہ خود کو نقصان پہنچا لیتی۔
’’ایک کام کرتے ہیں، آپ دونوں وقت نکال کر حیدر آباد آ جائیں۔ میں امّارہ کو بھی بلا لیتی ہوں، اور ہم سب بالمشافہ اس بارے میں گفتگو کر کے مناسب حل تلاش کریں گے۔‘‘ میں نے تجویز رکھی۔
’’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ہم کہیں بھی نہیں جائیں گے۔ جس نے گھر چھوڑا ہے وہی لوٹ آئے، ورنہ اس کی مرضی۔‘‘ ساس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اس کے بعد میں نے ماں اور بیٹے کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اگر آ جائیں تو معاملہ سدھر سکتا ہے، لیکن وہ اپنی انا کے تابع تھے، سو آنے سے صاف انکار کر دیا۔
سوالات
۱) دور جدید کے دینی مدارس لڑکیوں کو Practising Alima بنانے میں کس حد تک کامیاب ہیں؟
۲) کیا شادی سے پہلے Pre-Marriage کونسلنگ ضروری ہے؟
۳) کیا لڑکیوں کو صرف پروفیشنل تعلیم دینا کافی ہے؟ یا گھر گرہستی کی تربیت بھی ضروری ہے؟
۴) کیا چبوترہ کلچر کا رُخ تعمیری کام کی جانب موڑا جا سکتا ہے؟
٭٭٭
کیمرہ
السلام علیکم!‘‘ میں نے مسلسل بجتے ہوئے فون کال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’آپ رفیعہ میڈم ہیں ناں؟‘‘ دوسری جانب کوئی خاتون تھی۔
’’ہاں! میں بول رہی ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’میڈم! میں بہت پریشان ہوں، عذاب کی زندگی گزار رہی ہوں۔ کسی نے مجھے آپ کا نمبر دیا اور کہا کہ آپ مصیبت زدہ خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ میں نے بہت امید کے ساتھ آپ کو کال کیا ہے۔ آپ میری مدد کریں گی ناں؟‘‘ اس کی آواز میں اُمید اور نا امیدی کا ملا جلا عنصر موجود تھا۔
’’مصیبت زدہ لوگوں کی مدد تو اللہ کرتا ہے۔ ہم حقیر بندے صرف ذریعہ بنتے ہیں۔ تم اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ تمہاری مصیبت ضرور دور کرے گا۔‘‘ میں نے اسے تسلّی دی۔
’’اللہ نے ہی تو آپ کا نمبر مجھ تک پہنچایا ہے۔ شاید وہ چاہتا ہے کہ میرا آپ سے رابطہ ہو اور مجھے آپ سے مدد ملے۔‘‘
’’ماشاء اللہ! تم تو کافی سمجھ دار لگتی ہو، نام کیا ہے تمہارا؟‘‘
’’شکیبہ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی فون منقطع ہو گیا۔
میں سمجھ گئی کہ اچانک اس کا شوہر آ دھمکا ہو گا یا پھر کچھ تو ایسا ہوا ہو گا جس کی وجہ سے اس نے فون منقطع کر دیا تھا۔ ان حالات میں ہم متاثرہ خواتین کو احتیاطاً دوبارہ فون نہیں کرتے۔ یہ سوچ کر کہ کہیں ہمارا کال ان کے لئے مزید پریشانیوں کا سبب نہ بن جائے۔ مناسب موقع ملنے پر وہ خود ہم سے دوبارہ رابطہ کرتی ہیں۔ حسب توقع دوسرے دن شکیبہ کا فون آ ہی گیا۔
’’میڈم! کل آپ سے بات نہ ہو سکی۔ میرے شوہر آ گئے تھے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں آپ کو سب کچھ جلدی جلدی بتا دوں گی۔‘‘ اس کی آواز میں خوف تھا۔ میں نے اپنے کانوں میں ایئر فون ٹھونسا اور اپنی انگلیوں کو کی بورڈ پر رکھ دیا، تاکہ شکیبہ کی تفصیلات ٹائپ کر سکوں۔
’’میڈم! آپ کو پتہ ہے میں 24 گھنٹے سرویلنس میں ہوں۔ میرے شوہر نے دو کمرے کے گھر میں چار سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہیں۔ مرکزی دروازہ، راہداری، باورچی خانہ اور ہمارا بیڈروم۔ میں ایک عورت ہوں اور سی سی ٹی وی کیمرہ ہر چیز کی ریکارڈنگ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ پرائیویٹ جگہ میں بھی۔ یہ میرے لئے بہت ذلّت آمیز ہے۔‘‘ اس کے لہجے سے اس کی تکلیف کا اندازہ ہو رہا تھا۔
’’یہ تو ذاتی جگہ کی سنگین خلاف ورزی ہے، لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ میرے لہجہ میں غصہ در آیا تھا۔ ’’وجہ؟ ایسی تو کوئی وجہ نہیں جس کے لئے کیمرے لگانے کی ضرورت ہو۔ اس کیمرے کی وجہ سے میری زندگی جہنم بن کر رہ گئی ہے۔ میرا کھانا، پکانا، کسی سے فون پر بات کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اس وقت میں بیت الخلاء میں آ کر آپ سے بات کر رہی ہوں، جہاں کیمرہ نہیں ہے۔ وہ تو میری سانسوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہوا کا رنگ ہوتا تو شاید گن بھی لیتے کہ ایک منٹ میں کتنی بار سانس لے رہی ہوں۔ نہ گھر میں کسی کو آنے کی اجازت ہے، نہ میں کہیں باہر جا سکتی ہوں۔ ہر دم مجھ پر کیمرے کا پہرہ رہتا ہے۔ بیڈ روم تو خلوت کی جگہ ہوتی ہے، جہاں ہم اطمینان سے فرصت کے کچھ پل اپنے آپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں، لیکن اس شخص نے اس کو بھی نہیں بخشا۔‘‘ وہ بلا رکے بولی جا رہی تھی، جیسے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ دینا چاہتی ہو۔
’’تم نے منع نہیں کیا؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔
’’بہت بار منع کیا، ہر طریقے سے سمجھایا، لیکن آزاد، میرے شوہر مانتے ہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بحیثیت شوہر انہیں میری حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کا پورا حق ہے۔ اسی بات کو لے کر ہمارے درمیان ہر روز جھگڑا ہوتا ہے، اور زبردست تنازعہ چل رہا ہے۔‘‘ اس نے آگاہ کیا۔
’’کرتے کیا ہیں؟‘‘ مجھے تشویش ہوئی۔
’’اولا کیب کے ڈرائیور ہیں۔‘‘
شکیبہ کے اس انکشاف نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس کا تعلق اگر امیر گھرانے سے نہیں تو مڈل کلاس گھرانے سے تو ہو گا ہی۔ شوہر کسی بیرونی ملک میں ملازمت کرتا ہو گا، کیوں کہ عصر حاضر میں بیرونی ممالک میں رہنے والے شوہروں نے درون خانہ کیمرے نصب کروانے کا ٹرینڈ بنا لیا ہے، تاکہ گھروں سے کوسوں دور رہتے ہوئے بھی وہ گھروں کے اندرونی حالات سے باخبر رہیں، لیکن بیڈ روم میں کیمرہ لگانے کے بارے میں یہ پہلا کیس تھا جو میرے پاس آیا تھا۔ ایک ڈرائیور کی محدود آمدنی جس میں گھر کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے ہوں، ایسے میں گھر کے اندر چار چار کیمرے نصب کرنا معمولی بات تو نہ تھی۔ اس نے اپنے اس عمل سے ثابت کر دیا تھا کہ وہ پدرانہ نظام کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کیمرہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اول شوہر کو اپنی بیوی پر ذرہ برابر اعتبار نہیں۔ دوسرے اسے اپنی بیوی کی پل پل کی جاسوسی کرنی ہے۔ تیسرے پل پل کے کاموں کا حساب بھی لینا ہے۔
’’تمہارے والدین؟‘‘ میں سپورٹ سسٹم کے بارے میں جاننا چاہ رہی تھی۔
’’والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، بابا کسی کمپنی میں سیکورٹی گارڈ ہیں، صبح 10 بجے جاتے ہیں تو رات دس بجے لوٹتے ہیں، گھر میں دو جوان بہنیں رہتی ہیں، جن کی شادی ہونی ہے۔‘‘ اس نے تفصیل بتائی۔
’’اس سے پہلے کہ تمہارا فون منقطع ہو جائے، اپنے بابا کا نمبر مجھے دے دو۔ غنیمت ہے کہ تمہارے شوہر نے فون کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی۔‘‘ میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا۔
’’اس میں بھی ان کا اپنا مفاد پوشیدہ ہے، اپنے رابطہ کے لئے رکھا ہے۔ باہر سے گھر واپس لوٹتے ہی فون کی تلاشی لینا ان کا معمول ہے۔ اس لئے میں ہر تھوڑی دیر بعد سب کچھ ڈیلیٹ کرتی رہتی ہوں۔‘‘ شکیبہ نے وضاحت کی، اور فون منقطع ہو گیا۔
میرا اگلا قدم شکیبہ کے والد سے ملاقات کرنا تھا، اور وہ میرے سامنے موجود تھے۔ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا نحیف جھکا جھکا سا بدن، بنجر زمین پر اگے پودوں کی طرح پچکے ہوئے گالوں پر موجود ڈاڑھی کے بال، کھوئی کھوئی سی آنکھیں جن میں درد تھا، پچھتاوا تھا، مایوسی تھی، تجربہ تھا اور تلاش بھی تھی؛ شاید سکون کی یا اس پریشانی کے حل کی جو انہیں مل نہیں پا رہا تھا۔
’’شکیبہ کو آزاد نے جس طرح کیمرہ کی قید میں رکھا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‘‘ مجھے معلوم تھا کہ ان سے مجھے کچھ حقائق کا پتہ ضرور چلے گا۔
’’وجوہات تو ہیں، اہمیت دیں گے تو اہم لگیں گے، ورنہ غیر اہم۔ خیر، میں بتائے دیتا ہوں، آپ سن کر فیصلہ کیجیے گا۔‘‘ ان کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔
’’لاک ڈاؤن کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کا فقدان تھا۔ کسی فلاحی تنظیم کی جانب سے ضرورت مندوں میں راشن کے تھیلے تقسیم ہو رہے تھے۔ ایک نوجوان لڑکا شکیبہ کے گھر بھی راشن پہچانے آیا۔ تھیلا اتنا وزنی تھا کہ شکیبہ اٹھا نہیں پا رہی تھی، اور آزاد نہا رہے تھے، مجبوری میں شکیبہ نے اس لڑکے کو تھیلا اندر رکھنے کا کہہ کر خود اپنے کمرے میں چلی گئی تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ آزاد کو غصہ اس لیے آیا کہ اس لڑکے کو اندر آنے ہی کیوں دیا۔ دوسری مرتبہ باتوں باتوں میں شکیبہ کی پڑوسن سے لڑائی ہو گئی۔ شام کو آزاد گھر آئے تو پڑوسن نے شکیبہ کی لڑائی کو مرچ مصالحہ کے ساتھ پیش کیا، جس پر آزاد چراغ پا ہو گئے اور پڑوسن سے بات کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے آٹھ اور نو سالہ بیٹوں کی تربیت کا بہت خیال ہے، بیوی پر بھروسہ نہیں، اس لئے 24 گھنٹے وہ اپنے بچوں کی نگرانی خود کرنا چاہتے ہیں ؛یہی وہ وجوہات ہیں جس کے لئے گھر میں کیمرے لگوائے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے سارے حقائق پیش کر دئیے، جو بالکل ہی غیر اہم تھے۔
’’آپ نے اس سلسلہ میں کسی سے مدد لینے کی کوشش کی؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’لی تو نہیں! شکیبہ سے کہا ضرور تھا کہ پولیس میں شکایت درج کرواؤں گا۔ وہ خوف زدہ ہو گئی۔ اسے ڈر تھا کہ اس بات پر آزاد کہیں اسے طلاق نہ دے دے۔ بچے باپ کی تحویل میں نہ چلے جائیں، اور وہ بچوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اسے اپنی چھوٹی بہنوں کی بھی فکر ہے۔ کہتی ہے پولیس کی مدد لینے سے بد نامی ہو گی تو بہنوں سے شادی کون کرے گا؟ میڈم کچھ بھی کیجیے مگر میری بیٹی کو اس قید و بند کی زندگی سے نکالیے، ورنہ وہ گھٹ گھٹ کر مر جائے گی۔‘‘ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ میں نے ان سے شکیبہ کے شوہر آزاد کا رابطہ نمبر لے لیا، اور دلاسہ دیا کہ ان شاء اللہ ہم شکیبہ کے مسئلے کا کچھ نہ کچھ حل نکالنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ چار دن بعد آزاد اپنی بیوی اور دونوں بیٹوں کے ساتھ میرے سامنے موجود تھا۔ گورا چٹا، پستہ قد، چہرے پر چھوٹی سی ڈاڑھی، کرتا پائجامہ میں ملبوس، سر پر ٹوپی۔ اس کے حلیہ سے کسی مولوی کا گمان ہو رہا تھا۔ شکیبہ برقع اور نقاب پہنے ہوئے تھی۔ بچے بھی صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’’آج کل گھروں کے اندر کیمرہ لگانے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ ایسے لوگ جو گھروں کے اندر کیمرہ لگاتے ہیں انہیں اس سے متعلق قانونی معلومات بھی ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ قانونی گرفت سے محفوظ رہ سکیں۔ ہمیں تمہارے خسر کے ذریعہ پتہ چلا کہ تم نے بھی گھر کے اندر کیمرے لگا رکھے ہیں، تو سوچا تم کو بھی اس ضمن میں جانکاری فراہم کر دیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ تم نے ہماری دعوت قبول کی۔‘‘
’’کیمرہ میں نے کسی اور کے لئے نہیں، صرف اپنے بیوی بچوں کی نگرانی کے لئے لگایا ہے، اور اتنا حق تو شوہر کو ہے ناں؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
’’تم کو پتہ ہے یہ ایک ’’نایاب اور سنگین‘‘ جرم ہے۔ ایک عورت اپنے سب سے زیادہ نجی کمرہ یعنی کہ بیڈ روم میں مسلسل نگرانی میں کیسے رہ سکتی ہے؟‘‘
’’اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ جیسے رہنا ہے ویسے رہے۔ شوہر سے کس بات کا پردہ؟‘‘ اس کا لہجہ تلخ تھا۔
’’بے شک، ہندوستان میں نجی جگہ پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنا قانونی ہے اور اس کے لیے کسی خاص لائسنس کی ضرورت نہیں ہے، تاہم، تعزیرات ہند کی دفعہ 354 کے مطابق یہ ایک مجرمانہ حرکت اور قابل تعزیر جرم ہے۔ اس طرح کا جرم کسی کو بھی پہلے جرم کے جرمانے کے ساتھ 1-3 سال تک جیل میں ڈال سکتا ہے، اور بعد میں ہونے والے جرائم کے لیے سات سال تک کی قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ نجی جگہوں جیسے بیت الخلاء، باتھ روم، سونے کے کمرے وغیرہ میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے کی صورت میں قانون میں ممنوعہ دفعات ہیں۔‘‘
’’اچ…چھا۔‘‘ اس نے رکتے رکتے کہا۔ اس کی آنکھیں تعجب سے پھیل گئی تھیں۔
’’تمہارا نام آزاد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنی من مانی کر کے دوسروں کی آزادی چھین لو۔‘‘
’’شکیبہ کا مطلب جانتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر کو ہلایا۔
’’شکیبہ کا مطلب ’صبر کرنے والی‘، وہ تمہاری زیادتی کو برداشت کر رہی ہے۔ صبر سے سہہ رہی ہے، لیکن وہ اگر چاہے تو تم کو اپنی پرائیویسی پر حملے کے لیے مقدمہ دائر کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔ اس نے جیب سے رو مال نکالا اور پیشانی پر آئے پسینے کی بوندوں کو رو مال میں جذب کرنے لگا۔
’’شکیبہ! تم میری بات توجہ سے سنو! تم کو کسی بھی رشتے میں راز داری کا حق حاصل ہے، بشمول تمہارے شریک حیات، ساتھی، اور خاندان کے، کسی بھی رشتے میں تم کو اپنی زندگی کے کسی بھی حصے کو خفیہ رکھنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ کتنا ہی معمولی ہو یا کتنا ہی اہم۔‘‘
’’سمجھ گئ میڈم!‘‘ شکیبہ کے چہرے پر اطمینان جھلک رہا تھا۔
’’کوئی سوال؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس جانکاری کے بعد آزاد کی تو زبان ہی گنگ ہو گئی تھی۔ اس نے دوبارہ نفی میں سر کو ہلایا۔
’’ٹھیک ہے! اب تم لوگ جا سکتے ہو۔ خدا حافظ!‘‘ جواب میں خدا حافظ کہتے ہوئے وہ لوگ تیزی سے باہر نکل گئے۔
تین دن بعد شکیبہ کا فون آیا ’’میڈم! آپ کی زبان میں جادو ہے، آزاد نے مرکزی دروازہ کو چھوڑ کر باقی سارے کیمرے نکال دیئے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے سرشار تھی۔
’’بہت مبارک شکیبہ! یہ میری زبان کا جادو نہیں، قانون کا جادو ہے، جس نے تمہارے شوہر کو گھر کے اندر لگائے گئے کیمرے نکالنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے ہم تمام خواتین کو یہ جادو سیکھنا چاہئے۔ ہے ناں؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی کھل کھلا کر ہنسنے لگی۔
’’ہاں میڈم! آپ سچ کہہ رہی ہیں، بالکل سیکھنا چاہیے۔‘‘
’’چلو اب سکون سے رہو اور شکرانے کی نماز ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مسئلے کو حل کر دیا ہے۔‘‘
’’جی میڈم، خدا حافظ!‘‘
فون رکھنے کے بعد میں سوچنے لگی، ایسی خواتین جو غربت، جہالت اور مردانہ تسلط کے تحت زندگی گزار رہی ہیں، ان کے لئے راز داری اب بھی ایک خواب ہے جس کی تعبیر نہیں ہوئی۔
سوالات
(1) کیا حفاظتی اقدامات کے طور پر خواتین کی پرائیویسی کو نظر انداز کر کے درون خانہ کیمرے نصب کرنا ضروری ہے؟
(2) پدر شاہی نظام کو ختم کرنے میں مؤثر کردار کون ادا کر سکتا ہے؟ اور کیسے؟
(3) شدید صورت حال میں ضرورت پڑنے کے باوجود بد نامی کے ڈر سے پولیس کی مدد نہ لینا کس حد تک درست ہے؟
(4) کیا خواتین کو ان کے حقوق سے متعلق مختلف قوانین کی جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو کون انہیں یہ جانکاری فراہم کرے گا؟ کیسے؟ کب؟ کہاں؟
٭٭٭
نسبتی بہن (سالی)
ایک نوجوان اپنے سے دوگنی عمر کی خاتون کے ساتھ میرے کیبن میں داخل ہوا۔ عمر اٹھائیس، تیس کے آس پاس ہو گی۔ درمیانہ قد، گندمی رنگ، گٹھیلا بدن، اور زردی مائل دانت، جو اس بات کے گواہی دے رہے تھے کہ ان کا یہ حال گٹکے نے کیا ہے۔ گٹکے کی بدبو کو چھپانے کے لیے اس نے کوئی تیز پرفیوم کا استعمال کیا تھا۔ گٹکا اور پرفیوم کی ملی جلی بو جیسے ہی میرے نتھنوں میں داخل ہوئی، مجھے ابکائی سی آنے لگی۔ میں نے جلدی سے ٹیبل پر رکھا ماسک لگایا اور سکون کی سانس لی۔ ساتھ والی خاتون نے برقعہ تو پہنا ہی تھا، ساتھ میں نقاب بھی لگا رکھا تھا، اور جذبات سے عاری دو آنکھیں مجھے تک رہی تھیں۔
’’بیٹھیے! میرا نام رفیعہ نوشین ہے۔ بتائیے میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ میں نے تعارف کے ساتھ اپنی خدمات کی پیش کشی کیں۔
’’میرا نام زبیدہ ہے، اور یہ میرا بیٹا ہے دستگیر۔‘‘ برقعہ پوش خاتون نے اپنا اور اپنے بیٹے کا تعارف پیش کیا۔
’’آپ مردوں کی بات بھی سنتے ہیں ناں؟ یا صرف عورتوں کی؟‘‘ دستگیر نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
’’دونوں کی، جو کوئی ہمیں بتانا چاہے یا پھر جس کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’ویسے بھی مسئلہ میرا نہیں، میری بیوی کا ہے۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا۔
یہ مرد بھی بڑے خود غرض ہوتے ہیں۔ جب اپنے مطلب کی بات ہو تو ایک جان دو قالب کا ڈائیلاگ یاد آتا ہے، اور جب مسائل کی بات آتی ہے یا مشکلات کا سامنا ہو تو فوراً اس مسئلہ کی ذمہ دار بیوی کو قرار دے کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ جیسے اس مسئلہ سے انہیں کوئی سروکار ہی نہیں۔
’’میری دو بیویاں ہیں۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’ماشاء اللہ! بہت مبارک!‘‘
’’دونوں میں کافی جھگڑا چل رہا ہے۔‘‘ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’دو بیویاں ہوں گی تو جھگڑا ہونا لازمی ہے۔ ہمارے سماج کی خواتین اتنی وسیع القلب نہیں کہ اپنے شوہر کی زندگی میں دوسری عورت کو برداشت کر سکیں۔‘‘ میں نے عام نظریہ پیش کیا۔
’’لیکن دوسری شادی کی اجازت تو خود میری پہلی بیوی نے ہی دی تھی۔‘‘ اس کے لہجے میں اکڑ تھی۔ ’’اچھا، یقین نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے غیر یقینی انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یہ پڑھیے!‘‘ اس نے ایک بانڈ پیپر شاپر سے نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
اس میں لکھا تھا ’’میں تسلیم بیگم اپنی مرضی سے میرے شوہر کو اس بات کی اجازت دیتی ہوں کہ وہ میری چھوٹی بہن فہیم سے دوسرا نکاح کر لے۔ مجھے اس کے دوسرے نکاح سے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس تحریر کو بار بار پڑھ رہی تھی۔ میرے ہوش اڑ گئے تھے۔ جذبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا، لیکن ایسے ہی واقعات ایک کونسلر کے لئے امتحان کی گھڑی ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے اندرونی حالات سے لڑتے ہوئے خود کو پر سکون ظاہر کروانا اور مسلسل ذہنی تھکن کا شکار رہ کر بھی خوش اخلاق رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
’’اچھا تو تمہاری دوسری بیوی تمہاری نسبتی بہن یعنی کہ سالی ہے؟‘‘ میں نے اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لئے پوچھا۔
’’جی! وہ میری بیوی کی چھوٹی بہن ہے۔‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’کیا میں تمہاری دوسری شادی کی وجہ جان سکتی ہوں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہماری شادی کے ایک سال بعد ہی مجھے ایک بیٹا تولد ہوا، لیکن وہ Mentally Retarded ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ خیر، اللہ کی مرضی تھی۔ ہم نے دوسری اولاد کے لیے بہت کوشش کی لیکن اولاد نہیں ہوئی۔ میری بہت خواہش تھی کہ مجھے ایک صحت مند اولاد پیدا ہو، تب میری بیوی نے خود مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دی۔‘‘ اس نے تفصیلات سے واقف کروایا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن سالی سے ہی کیوں؟ کسی اور لڑکی سے بھی تو نکاح کیا جا سکتا تھا؟‘‘ میں نے جرح کی۔
’’یہ بھی اسی کی مرضی تھی، آپ نے کاغذ پڑھا ناں؟ اس پر تسلیم کے دستخط بھی تو ہیں۔‘‘ اس کا لہجہ پر اعتماد تھا۔
کون جانے دستخط اصلی ہیں کہ نقلی؟ کون جانے کہ دستخط رضا مندی سے لئے گئے تھے یا جبراً؟ کون جانے کہ تسلیم ان کاغذات پر لکھے گئے متن کا مطلب بھی سمجھ پائی تھی یا نہیں؟ اکثر کلائنٹس اپنی گفتگو کے دوران جھوٹ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں سچ فقط بچے ہی بولتے ہیں۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے موقع اور حالات کے مطابق لوگ سچ کو بھی کانٹ چھانٹ کر اس کی حاشیہ آرائی کر دیتے ہیں۔
’’تعجب ہے تمہاری سالی فہیم کنواری ہونے کے باوجود تم جیسے شادی شدہ مرد سے نکاح کے لیے راضی ہو گئی، جب کہ اس سے تو کوئی بھی کنوارہ لڑکا شادی کے لئے تیار ہو جاتا؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’در اصل وہ مجھے بہت پسند کرتی تھی۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے بتایا۔
اس کے اس ایک جملے نے اس کے نا جائز نکاح کی ساری پول کھول کر رکھ دی تھی۔
’’اور تم؟ کیا تم بھی اس کو چاہتے تھے؟‘‘ میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہمم‘‘ اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔
’’کیا آپ کو اس شادی کا علم تھا؟‘‘ میں نے دستگیر کی ماں سے سوال کیا، جو چپ چاپ بیٹھی ہم دونوں کی گفتگو سن رہی تھی، اور کبھی سر کو اثبات میں ہلاتی تو کبھی میں۔
’’ہاں! اس نے مجھے بتایا تھا، اور میں نے منع بھی کیا تھا، لیکن اس نے میری بات نہیں مانی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’آپ نے کیا سوچ کر منع کیا؟‘‘ وجہ جاننا میرے لئے اہم تھا۔
’’بزرگوں سے سنا تھا کہ ایک گھر کی دو بیٹیوں کی شادی ایک ہی مرد سے نہیں کرتے۔‘‘
’’اوہ اچھا! لیکن کیوں؟ کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی؟‘‘ میں نے مزید کریدا۔
’’پہلے زمانے میں بزرگوں سے سوال کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، اس لیے سوال نہیں کیے جاتے تھے۔ صرف ان کا حکم مانا جاتا تھا۔‘‘ انہوں نے اپنے زمانے کے حالات پر روشنی ڈالی۔
’’دستگیر! کیا تم جانتے ہو کہ بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے یعنی سالی سے نکاح شرعاً جائز نہیں، قرآن نے دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا تو وہ ہکا بکا سا مجھے ایک ٹک دیکھنے لگا۔ اور پھر بولا ’’نہیں میڈم، مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔‘‘ اس کا لہجہ اور چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے واقعی اس بات کا علم نہیں تھا۔
’’آپ سچ کہہ رہی ہیں میڈم؟‘‘ اس نے غیر یقینی انداز میں مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں دستگیر! یہ میں نہیں کہہ رہی ہوں، یہ تو قرآن پاک میں لکھا ہے:
وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ، یعنی دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں۔‘‘ میں نے قرآن کا حوالہ دیا۔
’’کیا آپ بھی اس بات سے لا علم تھیں؟‘‘ میں نے زبیدہ سے دوبارہ پوچھا۔
’’جی ہاں، مجھے بھی اس بات کا علم نہیں تھا۔ ابھی آپ ہی کی زبانی سن رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے اعتراف کیا۔ دستگیر نے اپنا چہرہ نیچے جھکا لیا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور افسوس کے آثار نمایاں تھے۔
’’اب کیا کریں میڈم؟ جو ہوا وہ تو لاعلمی میں ہوا۔‘‘ اس نے اپنے ماتھے سے پسینہ خشک کرتے ہوئے پوچھا۔
’’غلطی کا ازالہ۔ سالی سے جو نکاح کیا وہ صحیح نہ ہوا۔ سالی سے علیحدگی اختیار کرو۔ اس سے ازدواجی تعلق قائم رکھنا غلط ہے۔ اس کا شمار حرام کاری اور زنا کاری میں ہو گا۔ اس سے بچنا لازمی ہے۔‘‘ میں نے اسے مشورہ دیا۔ وہ بالکل خاموش ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی کہنے کو بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا، سوائے ایک گہری چپ کے۔ اسے بہت بڑا صدمہ لگا تھا، اور وہ اسی میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’دستگیر ایک بات بتاؤ! خوشبو اس پرفیوم کی بوتل سے آتی ہے یا اس کے اندر رکھے مواد سے؟‘‘ میں نے ٹیبل پر رکھی پرفیوم کی بوتل کو اپنے ہاتھ میں لے کر دستگیر کو دکھاتے ہوئے اس سے سوال کیا۔ ’’شیشی کے اندر کے مواد سے۔‘‘ اس نے شیشی کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’بالکل سچ کہا تم نے۔ اسی طرح ہمارے لیے صرف مسلمان ہونا کافی نہیں بلکہ ہمارا طریقۂ زندگی، چال چلن، گفتگو، اعمال اور کردار بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے پتہ چلے کہ ہم مسلمان ہیں۔ امت محمدیہ میں سے ہیں۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔ وہ خاموشی سے میری بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی دوران ملازمہ نے آ کر اطلاع دی کہ لنچ ٹائم ہو گیا ہے، اور کھانا بھی لگ چکا ہے۔
’’ہمارا لنچ ٹائم ہو گیا ہے۔ اب آپ لوگ بھی گھر جائیں۔ اطمینان سے اس بارے میں سوچیں۔ صدر قاضی سے رجوع کریں، اور اپنی زندگی کو حرام کاری سے بچانے کے لئے شریعت کی روشنی میں صحیح فیصلہ کریں۔‘‘ میں نے آج کی بات کو یہیں پر ختم کرنا مناسب سمجھا۔
’’ٹھیک ہے میڈم، خدا حافظ!‘‘ کہتے ہوئے ماں بیٹے نے اپنے گھر کی راہ لی۔
سوالات
(1) ہمارے معاشرے کی اس بے راہ روی کا کون ذمہ دار ہے؟
(2) بچوں کو کس عمر سے محرم اور نامحرم رشتوں کے فرق سے واقف کروانا چاہیے اور کون اس سے واقف کروائے؟
(3) اس قسم کے ناجائز نکاح کو روکنے کے لیے کس قسم کی تدابیر اختیار کرنا چاہیے؟
(4) کیا قاضی صاحبان اس سلسلہ میں کوئی مثبت رول ادا کر سکتے ہیں؟
(5) کیا نکاح نامہ میں اس سے متعلق سوال کو شامل کیا جانا چاہیے؟
٭٭٭
پہلا نوالہ
میں 10 بجے اپنے فیملی کونسلنگ سنٹر پہنچی تو دیکھا کہ ویٹنگ ہال میں ایک 30-32 سالہ دراز قد، گوری رنگت والی، دبلی پتلی سی خاتون ملگجا سا برقعہ پہنے بیٹھی تھی۔ اس کے پیروں کے پاس چاول کا خالی تھیلا رکھا تھا، جس میں اس نے غالباً کچھ کپڑے ٹھونس رکھے تھے۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ اس پر اس کے شوہر نے اس قدر ظلم ڈھایا ہو گا کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئے ہوں گے اور وہ خود کو بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل گئی ہو گی۔
مجھے دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اشارے سے سلام کیا۔ میں بھی جواب میں سر کو خفیف سی جنبش دیتے ہوئے اپنے کیبن میں داخل ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی اسسٹنٹ جوہی کو آواز دیتی وہ خود ہی اس خاتون کے رجسٹریشن فارم کے ساتھ کیبن میں داخل ہو گئی۔
’’تہنیت …. یہ رہا اس کا رجسٹریشن فارم۔ وہ بھوکی تھی، میں نے اسے ناشتہ کروا دیا ہے۔ آپ اس کے ساتھ سیشن شروع کر سکتی ہیں۔‘‘ جوہی نے فارم کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’جوہی! آج کل تم بہت اسمارٹ ہو گئی ہو۔‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی تو وہ ’’تھینک یو میڈم!‘‘ کہتی ہوئی باہر چلی گئی۔
میں فارم پر نظریں دوڑا ہی رہی تھی کہ وہ اپنا تھیلا سنبھالے ڈرتے جھجکتے میرے کیبن میں داخل ہو گئی۔ اس کے چہرے پر دہشت اور خوف کے آثار نمایاں تھے۔
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں نے کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ وہ اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو مسلسل دبا رہی تھی، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ شدید اضطرابی کیفیت سے دو چار ہے۔
’’میرا نام رفیعہ نوشین ہے۔ تم مجھ سے اپنا درد بانٹ سکتی ہو۔ میں نے اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے۔
’’میڈم! میرے بچوں کی جان خطرے میں ہے۔ انہیں بچا لو میڈم! وہ درندہ ان کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’’میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں، کیونکہ میں خود ایک ماں ہوں۔ حوصلہ رکھو! خدا ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم تمہارے بچوں کو خطرے سے باہر نکالنے کی پوری کوشش کریں گے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب تم ہمیں ساری تفصیل بتاؤ۔‘‘ میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا تھا، اور اسے دلاسہ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
بعض خواتین اتنی مجبور و بے بس ہوتی ہیں کہ انہیں آنسو بہانے کے لیے کسی کا کاندھا تک نصیب نہیں ہوتا، اور جب انہیں کاندھا ملتا ہے تو پھر وہ اس کاندھے کے سہارے اپنے درد کا دریا بہا دیتی ہیں۔ کافی دیر تک رونے سسکنے کے بعد اس نے خود کو کچھ ہلکا محسوس کیا تو ٹشو پیپر سے چہرہ صاف کرتی ہوئی اپنی داستان کرب سنانے لگی۔
’’میری شادی کو 16 سال ہو گئے۔ میرے 4 بچے ہیں۔ بڑی بیٹی انیسہ 14 سال کی ہے، ایک 12 سالہ بیٹا ہے جو دماغی طور پر کمزور ہے، ٹھیک سے بول نہیں پاتا، ایک 7 سالہ بیٹی ہے جو تھیلیسیمیا سے متاثر ہے، اسے ہر مہینے میں دو مرتبہ خون چڑھانا پڑتا ہے، اور ایک چھوٹی بیٹی ہے جس کی عمر 5 سال ہے۔‘‘
’’کچھ ابارشنس بھی ہوئے تھے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جو خواتین کی جسمانی و ذہنی صحت کا پتہ دیتا ہے، ساتھ ہی اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور تناؤ کا مظہر بھی۔
’’ہاں تین حمل ساقط ہو گئے، ورنہ تو میرے 7 بچے ہوتے۔ اس نے جواب دیا۔‘‘
’’شوہر کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’بیوی بچوں پر ظلم کرنا ہی عبدل کا پیشہ ہے۔‘‘ اس نے میرے سوال کا جواب جس کڑواہٹ سے دیا تھا، میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے فارم میں شوہر کے پیشہ کے خانے سے لفظ ’’ڈرائیور‘‘ ہٹا کر ’’ظالم‘‘ لکھ دوں۔
’’ہے تو ڈرائیور، لیکن دن رات نشے میں دھت رہتا ہے۔‘‘
’’کون سا نشہ کرتے ہیں؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’گٹکا، سگریٹ اور شراب کا عادی تو ہے ہی، ساتھ ہی عورت کے نشہ کی لت بھی ہے۔ اسے ہر روز ایک نئی عورت اور نیا جسم چاہیے۔‘‘ اس کے لہجہ میں کراہیت تھی۔
’’کیا تم اسے جسمانی طور پر مطمئن نہیں کر پاتی ہو؟‘‘ میں وجہ جاننا چاہ رہی تھی۔ ’’میڈم! میں نے اس کی جنسی تسکین کا ہمیشہ خیال رکھا۔ رات میں، دن میں، یہاں تک کے جن دنوں میں قربت سے منع کیا گیا ہے، ان دنوں میں بھی اس نے مجھے استعمال کیا۔ روزوں میں، ایام حیض میں، زچگی کے دنوں میں، اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی خود کو اس کے حوالے کرتی رہی، کہ وہ بھٹک نہ جائے، اس کے باوجود عبدل کے ہوس کی بھوک نہیں مٹی، اور وہ زانی بن گیا۔‘‘ وہ پھر سے رونے لگی تو میں نے اسے رونے دیا۔ میں چاہتی تھی کہ اس کے سینے میں دہکتا ہوا سارا لاوا بہہ نکلے۔
’’جب بھی میں اس بات پر اعتراض کرتی تو اس کا جواب ہوتا، ہمیشہ گھر کے کھانے سے انسان اوب جاتا ہے۔ ذائقہ بدلنے کے لئے باہر کا رخ کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس میں کیا حرج ہے؟ اس کی یہ بد فعلی میرے لئے نا قابل برداشت تھی، اس کے باوجود اپنے بچوں کی خاطر خون کے گھونٹ پی کر میں یہ سب کچھ سہتی رہی۔ اس لیے کہ میں لا وارث ہوں۔ میرا کوئی نہیں ہے، جس سے میں کچھ کہہ سکوں، یا عبدل کے خلاف آواز اٹھا سکوں۔ انتہا تو تب ہوئی جب وہ غیر عورتوں کو گھر لانے لگا، یہ دیکھ کر میرا خون کھولنے لگا۔ بچّے مجھ سے سوال کرنے لگے کہ بابا دوسری عورتوں کو گھر کیوں لاتے ہیں؟ اور بند کمرے میں ان کے ساتھ کیا کرتے رہتے ہیں؟ بچوں کے سوالوں سے میں شرمندہ ہو جاتی اور ان سے نظریں ملا کر بات کرنا بھی میرے لئے دشوار ہو جاتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ بحالت مجبوری مجھے یہ کہنا پڑا کہ وہ بند کمرے میں عورتوں کا شیطان اتارتے ہیں، تبھی تو چیختی رہتی ہیں۔ اس شخص کی ان ذلیل حرکتوں سے میں دن رات کڑھتی رہتی۔ میرا دل، جگر سب چھلنی ہو گیا تھا۔ مجھے اس سے نفرت ہونے لگی۔ میں اس کا چہرہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ گھر میں ہر طرف بدکاری کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ عجیب سی گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ ایک دن اسی جھلاہٹ کی وجہ سے میں اس پر برس پڑی اور کہہ دیا کہ میں اب اس گھر میں کسی بھی غیر عورت کو داخل نہیں ہونے دوں گی۔ دونوں میں اس بات کو لے کر کافی ہنگامہ ہوا۔‘‘
’’یہ تم نے صحیح کیا۔ برائی کے خاتمے کے لئے آواز اٹھانا ضروری ہے۔‘‘ میں نے اسے سراہا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ کہانی دلچسپ موڑ لے چکی تھی، اور میں سب کچھ جاننا چاہتی تھی۔
’’کچھ دنوں تک تو عبدل خاموش رہا، لیکن پتہ نہیں کیوں اس کی خاموشی مجھے کسی طوفان کا اشارہ دے رہی تھی۔ میری بڑی بیٹی انیسہ اقامتی اسکول کی نویں جماعت کی طالبہ ہے۔ تعطیلات میں کبھی کبھار دو چار دنوں کے لئے گھر آ جاتی ہے۔ اس دن بھی وہ ایک ہفتہ کے لیے گھر آئی تھی۔ شام کے وقت دالان میں بیٹھی اپنی چھوٹی بہنوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ عبدل نشہ میں دھت دالان کے کونے میں بیٹھا بڑی عجیب سی نظروں سے انیسہ کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی نظروں میں بسی شیطانیت کو بھانپ لیا۔ ایک خیال بجلی کی مانند میرے ذہن میں کوند گیا۔ میں کانپ اٹھی اور فوراً لڑکیوں کو کمرے کے اندر جانے کے لئے کہا۔ یہ دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہو گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ تم نے لڑکیوں کو اندر کیوں بھیج دیا؟
ایک باپ کی آنکھوں میں اپنی اولاد کے لئے ہمیشہ شفقت ہوتی ہے، لیکن تمہاری آنکھوں میں تو مجھے ان کے لئے بھی ہوس ہی دکھائی دے رہی ہے۔ اس لیے میں نے انہیں اندر بھیج دیا۔‘‘ میں نے اسے صاف صاف بتا دیا۔
’’دیکھو تہنیت! گھر میں جب کچھ خاص چیز پکتی ہے تو سارا گھر اس کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے، اور بھوک کی اشتہا میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ میں اس گھر کا سرپرست ہوں، اس لحاظ سے گھر میں پکی ہوئی چیز کے پہلے نوالے کا حقدار تو میں ہی ہوا ناں؟‘‘
’’کیا کہا؟ … پہلا نوالہ…‘‘ اسی کے ساتھ تہنیت نے ایک زناٹے دار تھپڑ عبدل کے گال پر جڑ دیا۔
’’ذلیل… کتّے … کمینے بے شرم! تیرے ذہن میں یہ خیال آیا کیسے؟ اپنی بیٹی کے بارے میں ایسا کہتے ہوئے تو زمین میں دفن کیوں نہیں ہو گیا؟‘‘ میں دیوانہ وار چیخنے لگی۔ غصہ کے مارے میرا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا تھا۔
’’تو نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ اپنے شوہر کو مارنے کی ہمت کیسے کی تو نے؟ اب تو اس گھر میں رہنے کے لائق نہیں۔‘‘ عبدل طیش میں آ گیا۔ اس نے تہنیت کو چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے، مارتے ہوئے گھر کے باہر دھکیل دیا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
’’کھولو… دروازہ کھولو…‘‘ میں زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی، لیکن جواب ندارد! میں نے بچوں کو آواز دی لیکن ان کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ شاید عبدل نے بچوں کو بھی ان کے کمرے میں بند کر دیا ہو۔ میں روتی ہوئی دروازہ کے پاس بیٹھی رہی کہ شاید کوئی پڑوسی میری اس حالت کو دیکھ کر مدد کے لیے آ جائے، لیکن کوئی نہیں آیا۔ سب عبدل کی شیطانی فطرت سے واقف تھے اور اس کے گھریلو معاملات میں دخل اندازی سے ڈرتے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھولا اور یہ تھیلا میری جانب پھینک دیا جس میں کچھ کپڑے اور فون رکھا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ والے تھیلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے تھیلا اٹھایا اور انجانی ڈگر پر چل پڑی۔ کہاں جاتی؟ ایسا کوئی نہیں تھا جو مجھے سہارا دیتا۔ اس لئے میں درگاہ شریف چلی گئی، اور رات وہیں قیام کیا۔ دوسری صبح جب عبدل کا نشہ اترا تو اس نے مجھے فون کیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ میں نے رات کہاں گزاری؟ لیکن میں اسے بتانا نہیں چاہتی تھی کہ میں کہاں ہوں۔ اگر بتا دیتی تو وہ آتا اور پھر مجھے جبراً اس جہنم میں لے جاتا جہاں جانے سے تو کنویں میں ڈوب مرنا بہتر تھا۔ دو دن بعد دوبارہ اس کا فون آیا، کہنے لگا ’’جو بھی ہوا بھول جاؤ اور گھر لوٹ آؤ، بچے تمہیں بہت یاد کر رہے ہیں۔‘‘
میں نے صاف انکار کر دیا، اور بتا دیا کہ اب میں دوبارہ کبھی اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی جہاں دن رات بد کاری ہوتی ہو۔ اس بات پر وہ چراغ پا ہو کر کہنے لگا ’’لگتا ہے تم نے اپنا ٹھکانہ کسی عاشق کے پاس بنا لیا ہے۔ اپنے بچوں کو بھی لے جانا اسی کے پاس۔‘‘ اور پھر اس نے غصہ سے فون کاٹ دیا۔
میں جانتی تھی کہ بچوں کو پالنا اس کے بس کی بات نہ تھی، نہ ہی بچے وہاں محفوظ تھے، لیکن میں مجبور تھی، خود میرا کوئی ٹھکانہ نہ تھا تو بچوں کو کہاں رکھ سکتی تھی؟ دل مسوس کر رہ گئ اور دعا کرنے لگی کہ اللہ پاک کوئی سبیل نکالے۔ دو دن بعد عبدل نے یہ ویڈیو مجھے بھیجا۔ اس نے فون میرے آگے رکھ کر ویڈیو چلا دیا۔ جس میں ایک 5 سال کی معصوم سی لڑکی کو ایک درندہ صفت انسان بے تحاشہ مار رہا تھا۔
’’یہ میرا شوہر عبدل ہے۔‘‘ اس نے مارنے والے انسان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔
’’اور یہ میری چھوٹی بیٹی رئیسہ۔‘‘ تہنیت نے اس معصوم سے چہرے والی لڑکی کی جانب اشارہ کیا، جو زار و قطار روئے جا رہی تھی۔ اس کے گالوں پر مار کے نشان بھی نمایاں تھے۔
’’خود تو گھر چھوڑ کر چلی گئی سالی! اور ان پِلّوں کو میرے حوالے کر گئی۔ دیکھ! میں تیرے بچوں کی کیا درگت بنا رہا ہوں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں، اگر تو واپس نہیں آئی تو ان کی چمڑی ادھیڑ دوں گا۔‘‘ عبدل سرخ آنکھوں اور زہریلے لہجے سے دھمکی دے رہا تھا۔
’’اُف اتنا ظلم! اور وہ بھی اس معصوم سی لڑکی پر جو کہ خود اس کی اولاد ہے؟‘‘ مجھے بہت تعجب ہو رہا تھا۔
’’اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد میں نے بھی اسے فون کر کے یہی کہا تھا کہ تم کیسے باپ ہو جو اپنی اولاد پر ایسا ظلم ڈھاتے ہو، کچھ تو شرم کرو۔‘‘ اس پر اس نے کہا تھا ’’میں تو ہوں ہی بد معاش، اگر تم کو اپنی اولاد کی پرواہ ہے تو تم آ کر انہیں لے جاؤ، یا پھر اپنا پتہ بتاؤ، میں انہیں تمہارے پاس لا کر چھوڑتا ہوں۔‘‘ ’’تم نے بچوں کو اپنے پاس کیوں نہیں بلایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میڈم! ابھی تو خود میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میں بچوں کو اپنے ساتھ کیسے رکھ سکتی ہوں؟ اس نے اپنی مجبوری ظاہر کی۔‘‘
’’تم نے کسی سے مدد کیوں نہیں مانگی؟‘‘
’’میں دن بھر درگاہ کے احاطہ میں حیران پریشان ماری ماری ادھر سے ادھر گھومتی رہتی، اور وہاں آنے والی خواتین سے اپنے مسائل بتاتی۔‘‘ یہ سوچ کر کہ شاید کہیں سے کوئی حل نکل آئے، لیکن مایوسی ہی ہاتھ آئی۔ دو دن بعد عبدل نے ایک اور ویڈیو بھیجا تھا۔ اس نے وہ ویڈیو بھی چلا کر میرے سامنے رکھ دیا تھا، جس میں عبدل تمام بچوں کو پیروں سے بری طرح مار مار کر گھر سے باہر نکال رہا تھا، اور بچے خوفزدہ حالت میں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے روئے جا رہے تھے۔ عبدل اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا ’’تو گھر نہیں آئی نا اس لئے تیرے بچوں کو بھی گھر سے نکال رہا ہوں۔ وہ کہاں جائیں گے یا کہاں رہیں گے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں، لیکن میں انہیں اور برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا تھا۔ اور پھر ویڈیو میں بچے ماں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’امّی! بابا نے ہمیں گھر سے نکال دیا ہے۔ وہ ہم پر بہت ظلم کر رہے ہیں۔ کل تو ہم نے انہیں چاقو بھی تیز کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہماری جان بہت خطرے میں ہے۔ کسی بھی طرح ہمیں یہاں سے لے جاؤ۔‘‘ وہ بلک بلک کر رو رہے تھے یہ دیکھ کر تو گویا میرے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
تہنیت نے دوبارہ کہنا شروع کیا۔ ’’ویڈیو دیکھ کر میں بہت رونے لگی۔ تبھی ایک خاتون میرے پاس آئی، مجھے دلاسہ دیا اور اس سنٹر کا پتہ دیا تو میں یہاں چلی آئی۔‘‘ اس کی درد بھری داستان یہاں تک پہنچ چکی تھی۔
’’اتنا سب کچھ ہو گیا اور تم نے پولیس کی مدد بھی نہ لی، آخر کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ عبدل نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی تو وہ ہم سب کا قتل کر دے گا، اور پولیس بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کیوں کہ بقول اس کے عبدل نے پولیس والوں کو بھی پہلا نوالہ کھلا کے پال رکھا ہے۔‘‘
’’تہنیت! ان گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے کی تمہیں بالکل بھی ضرورت نہیں۔ اب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اطمینان رکھو! تم اور تمہارے بچوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘ اس کے دماغ میں ڈھیر سارے سوال تھے، اور خوف کہ کہیں اسے یا اس کے بچوں کو کچھ ہو نہ جائے۔ ہم نے 1098 چائلڈ ہیلپ لائن کی مدد سے بچوں کو ان کے گھر سے رہا کروا کر محفوظ ہاسٹل میں پہنچا دیا گیا، اور تہنیت کو سرکاری ویمن ہوم میں داخل کروا دیا۔ عبدل پر کیس فائل ہو گیا۔ اب عدالتی کاروائی مکمل ہونے تک ماں اور بچے وہیں محفوظ رہیں گے، جہاں انہیں رکھا گیا ہے۔
سوالات
(1) کتنے بچے اور ان کے والدین چائلڈ ہیلپ لائن 1098 اور اس کی خدمات سے واقف ہیں؟
(2) سلم علاقوں میں سماجی مسائل پر شعور بیدار کرنا، اور ان مسائل کے حل میں ان کی مدد کرنا؛ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اور کیوں؟
(3) اس کیس اسٹڈی میں تہنیت کی مدد کے حوالے سے پڑوسی کس قسم کا کردار نبھا سکتے تھے؟
٭٭٭
بنت پندار
ایک معطر جھونکے کے ساتھ وہ میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ ہلکے سرمئی رنگ کے برقعے میں ملبوس، دراز قد، بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں، جن سے ذہانت ٹپک رہی تھی۔
’’حمساء التمش۔‘‘ اس نے رجسٹریشن فارم ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
میں نے فارم پر سرسری نظر ڈالی تو جانا کہ اس کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ اور اس کا شوہر دونوں ہی یونانی ڈاکٹر تھے۔ شوہر کسی کالج میں طب کے طلبہ کو پڑھاتا تھا، اور حمساء کسی ہسپتال میں پریکٹیس کر رہی تھی۔
’’میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ چونکہ وہ تعلیم یافتہ خاتون تھی اس لیے میں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کر ڈالا۔
’’جب سے میری شادی ہوئی، تب سے میں مسلسل تذبذب کا شکار ہوں۔ ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہوں۔ صحیح اور غلط کی چکی میں پس رہی ہوں۔ خود سے لڑ رہی ہوں۔ عجیب سی کشمکش میں مبتلاء ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں؟ اس کا اضطراب اس کے لہجے سے جھلک رہا تھا۔‘‘
’’اولاد کا مسئلہ ہے۔؟‘‘
میں نے اندیشہ ظاہر کیا، تو وہ ایک دم چونک گئی۔
’’آپ نجومی ہو؟‘‘ اس نے بے ساختگی سے پوچھا۔
’’نہیں تو، بچوں والا خانہ خالی تھا تو سوچا ہو سکتا ہے وہی تمہاری پریشانی کا سبب ہو۔‘‘ میں نے انکشاف کیا۔
’’آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’دباؤ سسرال والوں کا ہے یا شوہر کا؟‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’میڈم آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ دباؤ بچہ پیدا کرنے کے لئے نہیں، بلکہ بچہ پیدا نہ کرنے کے لیے ہے۔ التمش کو بچے نہیں چاہئیں۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’اس کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’وجہ ضرور ہے۔ میرے لئے بے تکی سی لیکن التمش کے لیے خاص۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بچوں سے سخت نفرت ہے، کیوں کہ بچے سارا گھر سر پر اٹھا لیتے ہیں، چیزوں کو بکھیر دیتے ہیں، گھر گندا کر دیتے ہیں۔ ان کی شرارتیں، شور شرابے سے انہیں الرجی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اولاد کے بغیر ہم زندگی زیادہ بہتر، پر لطف اور آزادی سے گزار سکتے ہیں، جو اولاد کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں، کیوں کہ وہ بھر پور توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔‘‘ حمساء نے وجہ بتائی۔
’’اگر التمش کے والد بھی اسی طرز فکر کے حامل ہوتے تو کیا آج التمش کا وجود اس دنیا میں ہوتا؟ اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے۔ نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔ اس تناظر میں ایک مسلمان کا اس حدیث سے انحراف کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے حمساء کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ان کا غرور، تکبر، بے دینی اور من مانی؛ میں نے کئی مرتبہ اس حدیث کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔‘‘ حمساء کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
’’معاشی حالات کیسے ہیں؟ کیوں کہ عصر حاضر میں معاشی بدحالی اور پس ماندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی لوگ بچے پیدا کرنے سے گھبرا رہے ہیں، اور خاندانی منصوبہ بندی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کم سے کم اولاد اور چھوٹا خاندان ہو تو ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل آسانی سے ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے نسل نو کا نظریہ پیش کیا۔
’’الحمد للہ! ہم لوگ معاشی طور پر بہت خوش حال ہیں۔ دولت کی کمی نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں ہے، بلکہ آرام و آسائش کا ہے۔ التمش کا رجحان بڑا خطر ناک ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بچے ہمارے عیش و آرام میں رکاوٹ بنیں گے۔‘‘ حمساء کا انداز مایوسانہ تھا۔
’’حمساء! آج کل Luxury Life کا جو کلچر پیدا ہوا ہے، یہ اسی کی دین ہے۔ جو جتنا مال دار اور خوش حال ہے، اتنی ہی اس کی اولاد کم ہے۔ یہ بیماری خوش حال گھرانوں کے علاوہ کسی حد تک متوسط طبقے میں بھی پائی جا رہی ہے۔ جب کہ آج بھی غریب طبقے میں اولاد کی کثرت ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک گہری سازش ہے۔ یہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے اور مسلم نوجوانوں کو عیش و عشرت میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘ میں نے موجود حالات کا نقشہ کھینچا۔
’’عام طور پر خاندانی منصوبہ بندی میں ایک یا دو بچوں کی پیدائش کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، لیکن میرے شوہر کی خاندانی منصوبہ بندی میں بچوں کا شمار ہی نہیں ہے، جب کہ میں ماں بننے کے لئے تڑپ رہی ہوں۔ ماں بننے کا احساس ہی کتنا پر تقدس ہوتا ہے۔‘‘ وہ تصور کی وادیوں میں ڈوب گئی تھی۔
’’میڈم! مجھے ماں بننا ہے۔ ماں بنے بغیر مجھے اپنا وجود ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ میں تخلیق کے عمل سے گزرنا چاہتی ہوں۔ ایک نئے وجود کو اس دنیا میں لانا چاہتی ہوں جو میرا پرتو ہو گا۔ میں اپنے قدموں تلے جنت کی متمنی ہوں، لیکن میرا شوہر مجھے اس سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو التمش کی دین تھے، جسے وہ بڑے درد کے ساتھ بہا رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس کا کندھا تھپتھپاتی رہی جب تک کہ طوفان کا زور تھم نہ گیا۔
’’اگر تم چاہو تو میں التمش سے بات کر سکتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔
’’جی بالکل کیجیے!‘‘ اس نے اجازت دے دی۔ میں نے التمش کا نمبر ڈائل کیا۔ سلام کے بعد جب میں نے التمش سے اولاد کے بارے میں ذکر کیا تو وہ ایک دم بھڑک اٹھا، اور کہنے لگا ’’منگنی کے بعد میں اور حمساء فون پر اکثر چیٹنگ کیا کرتے تھے۔ اس وقت میں نے حمساء کو کھلے لفظوں میں بتا دیا تھا کہ مجھے بچے پسند نہیں ہیں۔ زندگی بچوں کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اور حمساء نے اس بات کو قبول کرتے ہوئے مجھ سے نکاح کیا تھا۔ اب وہ اسی بات کو لے کر بضد ہے، جس کا ذکر میں شادی سے پہلے کر چکا تھا۔ اب آپ بتائیں کہ اس میں کس کا قصور ہے؟‘‘ اتنی اہم بات کا ذکر حمساء نے مجھ سے نہیں کیا تھا۔
’’شادی سے پہلے ہی اس بات کا فیصلہ؟ کوئی خاص وجہ؟ جب کہ نکاح کا مقصد جہاں جنسی تسکین ہے وہیں اولاد کا حصول بھی ہے۔ امت محمدیہ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی حضورﷺ نے تمنا فرمائی ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔ اس کے باوجود اس سلسلہ میں آپ کا انکار؟‘‘ میں نے توقف کیا ہی تھا کہ وہ بول پڑا:
’’میں اس حدیث سے واقف ہوں۔ اس کے باوجود اپنے فیصلہ پر اٹل ہوں۔ کوئی بھی مجھے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ حمساء کو اگر خوشی خوشی یہ بات منظور ہے تو میرے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے ورنہ اس کی مرضی۔‘‘ اسی کے ساتھ التمش نے فون منقطع کر دیا۔ میں نے دوبارہ ڈائل کیا تو اس نے میرا فون ریسیو نہیں کیا۔ افسوس! جس شخص نے ماں کی کوکھ سے جنم لیا تھا وہی شخص اپنی بیوی کو ماں بننے سے محروم کر رہا تھا۔
’’حمساء! التمش نے شادی سے پہلے ہی اولاد کے متعلق اپنے خیالات کا جو اظہار کیا تھا۔ کیا وہ سچ ہے؟‘‘ میں حمساء کی توثیق چاہتی تھی۔
’’ہاں، التمش نے شادی سے پہلے ایسا ضرور کہا تھا، جس کو میں نے مذاق سمجھا اور سنجیدگی سے اس بات پر غور ہی نہیں کیا۔‘‘ حمساء نے قبول کیا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، اور چہرے پر ندامت کے آثار ابھر آئے تھے۔
’’جس کو تم نے مذاق سمجھا تھا، آج وہی بات تمہاری شادی شدہ زندگی کے لئے خطرہ بن گئی۔ کاش! نکاح سے قبل تم نے مذاق والی بات اپنے والدین کو بتائی ہوتی تو ہو سکتا ہے وہ اس بات کی گہرائی کو جاننے کی کوشش کرتے، اور صحیح فیصلہ لینے میں تمہاری مدد کر پاتے۔ خیر، جو ہو چکا اس کا خمیازہ تو تم بھگت رہی ہو۔ اب یہ سوچو کہ آگے کیا کرنا ہے؟‘‘
’’میڈم! یوں تو میں عورت کہلاتی ہوں، لیکن در حقیقت میں تو اپنی ذات کے آئینے میں نظر آتا مرد ہوں، اور شاید یہ مرد ہر عورت کے وجود میں دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہر عورت جانے انجانے یا مجبوری کے تحت اسی مرد کے نظریات، اس کے خیالات، اس کی سوچ، اس کے فیصلے، اس کی مرضی کے ساتھ ہی تو جیتی ہے۔ عورت کے وجود میں اس کا خود کا کیا ہوتا ہے؟ بتائیں آپ!‘‘ وہ جھنجھلا اٹھی، اور میں سوچ رہی تھی کہ واقعی عورت تو مرد کے رویہ کی آئینہ دار ہے۔ وہ کتاب ہے جو خود اس نے اپنے قلم سے تحریر کی ہے، جس کے باب محبت، نفرت، ذلت، الفت، قربت، دیانت، شراکت، سوچ، گھٹن، شک و شبہات، بد اعتمادی، بد سلوکی وغیرہ سے بھرے پڑے ہیں۔ حمساء کی سونی سونی گود، اس کے چہرے پر بکھری بے سکونی، فکر اور پریشانی، شرمندگی سے جھکا سر، التمش کے ظلم کی نشاندہی کر رہا تھا۔
’’اگر میں التمش کے ساتھ زندگی گزاروں تو مجھے ماں بنے بغیر زندگی گزارنی ہو گی۔ سب سے زیادہ تکلیف مجھے اسی بات کی ہے کہ میں اپنی مرضی سے بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ مجھے اس کا بھی حق نہیں۔ مجھے تو خود پر اختیار بھی نہیں کہ میں اس ضمن میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔‘‘ حمساء اس وقت خود کو بہت بے بس و مجبور محسوس کر رہی تھی۔ شوہر تو اپنی بیوی کے لیے پیار و محبت کا پیکر ہوتا ہے، جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اسے کبھی بھی بکھرنے نہیں دیتا، بلکہ اس کے نکھرنے کا سبب بنتا ہے، جس کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے تو عورت کی زندگی کو جنت بنادے یا جہنم؛ اس نے حمساء کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔
’’حمساء! التمش نے تو اولاد کے لئے صاف منع کر دیا ہے، اور جواز یہ دیتا ہے کہ شادی سے پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ اب یا تو تمہیں اسی کے ساتھ، ادھورے پن کے احساس کے ساتھ جینا ہو گا یا پھر اس دلدل سے باہر نکلنا ہو گا۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘ میری بات سننے کے بعد وہ کچھ دیر تک سر جھکائے خاموش بیٹھی سوچتی رہی، پھر اچانک اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ میں اپنے آپ کو اس بت پندار کی بھینٹ نہیں چڑھاؤں گی۔‘‘ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ضرور تھیں، لیکن لہجے میں عزم جھلک رہا تھا۔ اس کے لہجے سے ایک نئی سمت کا تعین ہو رہا تھا۔
سوالات
(1) لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت شوہر سے ان کی ذہنی ہم آہنگی کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے؟
(2) پر تعیش زندگی کی چاہ میں اولاد جیسی خدا کی نعمت سے محرومی کے اس رجحان کو ختم کرنے کی کیا تدابیر ہو سکتی ہیں؟
(3) کیا نکاح سے پہلے نکاح کے مقاصد سے زوجین کو واقف کروایا جاتا ہے؟
٭٭٭
شادی مبارک
چمکیلے برقع میں ملبوس، دبلی پتلی، سانولی سی 19 سالہ کاظمہ میرے روبرو موجود تھی۔ اس کے ساتھ ایک ساٹھ سالہ خاتون بھی موجود تھی، جس نے بوسیدہ کاٹن کی ساڑی پہن رکھی تھی۔ سر پر سیاہ چادر، پاؤں میں آدھے سے زیادہ گھسی ہوئی ہوائی چپل، اور آنکھوں پر موٹے عدسہ کا چشمہ لگا رکھا تھا، حالات اور خیالات نے اس کی کمر خم کر دی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ان دونوں سے کوئی سوال کرتی کاظمہ کی والدہ نے خود ہی کہنا شروع کر دیا: ’’میں ایک بیوہ ہوں، کارخانہ میں کام کر کے گھر چلاتی ہوں، ایک بیٹا ہے جو شادی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ علیحدہ رہنے لگا ہے، میں اپنی بیٹی کی شادی کو لے کر بہت پریشان تھی، اور اللہ تعالیٰ سے ہروقت دعا گو رہتی کہ اس کی شادی کی کوئی صورت نکل آئے۔ اللہ نے میری دعا سن لی۔ اسی دوران لائنس کلب کی ایک ممبر سے میرا رابطہ ہوا، انہوں نے کچھ مالی تعاون کیا، کچھ رقم میں نے بطور قرض لیا اور بیٹی کی شادی کر دی۔ سوچا ایک اہم فریضہ انجام دے کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئی ہوں، لیکن یہ میرا بھرم تھا۔ کاظمہ کی شادی کو چار ماہ کا عرصہ بھی پورا نہیں ہوا اور یہ دوبارہ میرے گھر واپس آ گئی۔‘‘ اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔ …….
’’شادی مبارک!‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’میرے شوہر شادی مبارک اسکیم کی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں جیسے ہی اس بات کا علم ہوا کہ امّی کو شادی مبارک اسکیم کے تحت ایک لاکھ سولہ ہزار روپے منظور ہوئے ہیں، تب سے وہ مجھ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ میں امّی کے پاس سے وہ رقم انہیں لا کر دوں۔‘‘ کاظمہ نے بتایا۔
’’وہ ایسا کیسے کہہ سکتا ہے؟ یہ پیسے تو لڑکی کے والدین کے لیے ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے استفسار کیا۔
’’اس کا کہنا ہے کہ اس نے مجھ سے شادی کی، جس کی وجہ سے یہ رقم منظور ہوئی۔ اگر وہ مجھ سے شادی نہیں کرتا تو ہمیں یہ رقم ملتی ہی نہیں۔ لہٰذا اس رقم پر اس کا حق ہے۔‘‘ کاظمہ نے اپنے شوہر کا نظریہ پیش کیا۔
’’اس نے تم سے شادی کی ہے، کوئی احسان نہیں کیا۔ اس کو بھی تو بیوی کی ضرورت تھی۔‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ آپ کہہ رہی ہیں میڈم جی! وہ اور ان کے افراد خاندان تو ہمیشہ مجھے یہی طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے مجھ جیسی یتیم اور غریب لڑکی سے شادی کر کے ہمارے خاندان پر احسان کیا ہے۔ وہ اگر شادی نہ کرتے تو گویا میں زندگی بھر کنواری ہی رہ جاتی۔‘‘ اس کی آواز میں اداسی جھلک رہی تھی۔
یہ مرد بھی عجیب ہوتے ہیں۔ بات بات پر احسان جتلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ شادی کر کے احسان، بچے پیدا کر کے احسان، اچھا کھلایا تو احسان، کچھ دلا دیا تو احسان، کہیں گھمانے لے گیا تو احسان، وہ جو بھی کرے گا اس کے ہر کار خیر کا شمار احسان میں ہو گا۔ اور عورت؟ وہ بے چاری اپنے والدین، اپنا گھر بار چھوڑ کر شوہر کے گھر اس کے طور طریقوں کو اپنا کر جو کچھ کرے اس کا کوئی احسان نہیں، بلکہ اس کے ہر کام کو ذمہ داری کے پائیدان تلے روند دیا جاتا ہے، اور اس کے حقوق کا دم وہیں گھٹ کر رہ جاتا ہے۔
’’اس نے تم سے شادی کر کے کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ ڈھیر سارا ثواب کمایا ہے۔ تم اس کے لیے ثواب کمانے کا ذریعہ بنی ہو، اس بات کا احساس اسے ہونا چاہیے۔‘‘ میں چاہتی تھی کہ وہ اپنی اہمیت کو سمجھے۔
’’احساس؟ کہاں کا احساس!؟ اس نے تو مجھے اپنی ماں کے گھر بھیج دیا کہ جب تک میں ایک لاکھ روپے اپنے ساتھ نہیں لاتی، وہ مجھے گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دے گا۔‘‘ وہ مایوس تھی۔
’’تم مایوس مت ہونا، کیوں کہ مایوسی سے بڑھ کر کوئی شے ہمارے لیے قاتل اور مہلک نہیں۔ آزمائشیں اور مصیبتیں ایک مومن کو مایوس نہیں بلکہ ہوشیار اور مضبوط کرتی ہیں۔ اس رقم پر صرف اور صرف تمہاری ماں کا حق ہے، اور کسی کا نہیں۔ میں تمہارے شوہر سے اس بارے میں بات کروں گی۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’آپ اس کو کاؤنسلنگ سینٹر بلا کر بات کریں گی تو بات بگڑ سکتی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ گھر کی بات کو باہر والوں کے سامنے نہیں لانا چاہیے تھا، اور پھر اس بات پر بھی جھگڑا شروع ہو گیا تو میں کیا کروں گی؟ کہیں وہ کاظمہ کو چھوڑ دینے کی دھمکی تو نہ دے گا؟‘‘ کاظمہ کی والدہ اس بات سے بہت خوف زدہ ہو گئی تھیں۔ اس بات کا خوف نہ جانے کتنی خواتین کو ظلم سہنے پر مجبور کرتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر شوہر انہیں طلاق دے گا یا پھر ان سے قطع تعلق کر لے گا، اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے، کیونکہ ظالم صرف ظلم کرنا جانتا ہے، وہ مظلوم کی کیفیت، اس کے جذبات و احساسات سے بالکل غافل ہوتا ہے۔
’’آپ سب سے پہلے یہ خوف دل سے نکال دیں، کیونکہ حق کے لیے لڑنا جائز ہے، اور لڑنے کے لیے حوصلہ درکار ہے۔ بزدلی سے کوئی بھی جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔‘‘ میں نے ماں اور بیٹی دونوں کو حوصلہ دیا۔ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے لیے اگر کچھ بھی نہ کر سکے، لیکن حوصلہ ہی بڑھا دے تو وہ اپنی جنگ خود لڑ سکتا ہے۔ میں نے جتنی خواتین کو ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے، اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ کسی نے ان کو یہ نہیں کہا تھا کہ حوصلہ رکھیں اللہ بڑا کریم ہے، وہ کرم کرے گا۔ اس چھوٹے سے جملے میں بہت طاقت ہوتی ہے۔
چار دن بعد کاظمہ کا شوہر باسط میرے سامنے موجود تھا۔ دراز قد، دبلا پتلا جسم، چھوٹی سی داڑھی۔
’’کیسی چل رہی ہے تمہاری شادی شدہ زندگی؟‘‘ میں نے اسے بلانے کا مقصد بیان کرنے کے بعد پوچھا۔
’’ویسے تو ٹھیک ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ شادی کے بعد بیوی کو اپنے شوہر کا ہر حکم ماننا چاہیے ناں؟‘‘ اس نے استفہامیہ انداز میں کہا۔
’’جی بالکل ماننا چاہیے، بشرطیکہ حکم شریعت کے مطابق ہو، اور جس سے کسی اور کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن کاظمہ میری کوئی بات مانتی ہی نہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں شکایت تھی۔ ’’مثال کے طور پر؟‘‘ میں نے دلیل مانگی۔
’’کاظمہ یتیم ہے، اس لیے شادی کا سارا خرچ ہم نے ہی اٹھایا۔ ہم نے ان سے پھوٹی کوڑی بھی نہ مانگی۔ اب جب کہ ’’شادی مبارک‘‘ نامی اسکیم کی رقم منظور ہو گئی تو میری ساس مجھے رقم دینے سے انکار کر رہی ہیں۔ کاظمہ سے اس بارے میں بات کی تو وہ کہتی ہے کہ شادی کے وقت اس کی امّی نے کسی سے قرض لیا تھا، وہ ادا کرنا ہے۔ اب آپ بتائیں! بیٹی کے پیسوں سے ماں اپنا قرض ادا کرے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ جس کا پیسہ ہے اسے دینا چاہیے ناں؟‘‘ اس کا انداز جارحانہ تھا۔
’’تم شادی مبارک اسکیم کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘ میں نے اس سے جاننا چاہا۔
’’یہی کہ تلنگانہ میں کے سی آر (وزیر اعلیٰ) نے غریب گھروں کی لڑکیوں کی شادی کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کی خاطر اس اسکیم کا آغاز کیا ہے، اور اس کے تحت شادی کے لیے لڑکی کو ایک لاکھ سولہ ہزار روپے ملتے ہیں۔‘‘ اس نے تفصیلی جانکاری دیتے ہوئے کہا
’’تم نے بالکل ٹھیک کہا، لیکن منظور شدہ رقم لڑکی کو نہیں بلکہ راست لڑکی کی ماں کے اکاؤنٹ میں جمع کر دی جاتی ہے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’رقم چاہے کسی کے بھی اکاؤنٹ میں جمع ہو، ہے تو کاظمہ کی ہی ناں؟‘‘ اس نے فوراً جواز پیش کیا۔
’’باسط! شادی مبارک، یہ ملک کی ایک با وقار اسکیم ہے، کیونکہ دور حاضر میں غریب ماں باپ کے لیے لڑکیوں کی شادی بہت بڑا بوجھ بن گئی ہے۔ شادیوں کو آسانی سے انجام دینے اور والدین کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہی اس اسکیم کو متعارف کروایا گیا ہے، اور اس رقم پر لڑکی کا نہیں بلکہ لڑکی کے والدین کا حق ہوتا ہے۔‘‘
میں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔ یہ جان کر اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔
’’حال ہی میں میرے ایک دوست کی شادی ہوئی۔ اس نے تو بتایا تھا کہ اس کی بیوی نے اس اسکیم سے ملنے والی رقم سے اس کے لیے بائک خریدی۔‘‘ وہ گردن اکڑا کر کہہ رہا تھا۔
’’باسط! اس رقم کے اصلی حقدار لڑکی کے والدین ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کی شادی پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی مرضی سے یہ رقم بیٹی کے حوالے کر سکتے ہیں، جس کے بعد بیٹی اپنی ضرورت کے مطابق خود خرچ کرے یا اپنے شوہر کو دے، یہ اس کا اختیار ہے، لیکن خود بیٹی بھی اس رقم کے حصول کے لیے اپنی ماں کو مجبور نہیں کر سکتی۔‘‘ میں نے مزید وضاحت کی۔
’’لیکن میں نے کافی لوگوں سے سنا ہے کہ اس رقم پر لڑکی کا حق ہوتا ہے۔‘‘ وہ بحث کرنے لگا۔ اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی ذمہ داری تو ہم لے سکتے ہیں، لیکن سامنے والے کی سوچ کی نہیں۔ کالا چشمہ لگا کر دنیا کو کالا کہنا کچھ لوگوں کی تربیت میں شامل ہوتا ہے۔
’’اگر تمہاری بات مان بھی لی جائے تو اس رقم پر کاظمہ کا حق ہے۔ تمہارا تو نہیں؟ پھر وہ اس رقم کو جیسے چاہے خرچ کرے۔ تم اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کہ وہ تمہیں اپنی رقم سونپ دے۔ تم اس بات پر غور کرو کہ جو اسکیم لڑکیوں کی شادی کے مالی اخراجات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے، جس سے والدین کا قرض ادا ہو سکتا ہے، لیکن تمہاری زیادتی کی وجہ سے ایک تو کاظمہ کی والدہ کا قرض ادا نہیں ہو گا، دوسرے رشتوں میں دراڑ بھی پڑ جائے گی، سکون برباد ہو گا، محض اس لیے کہ تم حق تلفی کر رہے ہو۔ کیا تم یہی سب کرنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے قدرے سخت لہجے میں اس سے سوال کیا۔
’’نہیں میڈم! مجھے یہ معلومات نہیں تھیں۔ میں نے سوچا رقم میری بیوی کی ہے، اور میاں بیوی کا معاملہ ایک ہی تو ہوتا ہے۔ میرا سب کچھ اس کا، اور اس کا سب کچھ میرا۔ اسی گمان پر کاظمہ کو اس کے امّی کے گھر بھیجا تھا کہ وہ رقم لائے گی تو میرا بھی قرضہ ادا ہو جائے گا۔‘‘ اس کا مقصد عیاں ہو گیا تھا۔ تمہارے ذریعہ لیے گئے قرض کی ادائیگی تمہاری ذمہ داری ہے۔ تمہاری بیوی کی نہیں!‘‘ میں نے تنبیہ کی۔
’’جی سمجھ گیا میڈم! اجازت دیجیے! وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔‘‘
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’اپنی بیگم کو لینے۔‘‘ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
سوالات
(1) ہمارے سماج میں ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو سماجی و فلاحی کام انجام دیتی ہیں، عوام کا ایسے اداروں سے واقف ہونا کیوں ضروری ہے؟
(2) کیا ’’شادی مبارک‘‘ اسکیم کے بارے میں صحیح معلومات عوام الناس تک پہچانا ضروری ہے؟
(3) شادی سے پہلے لڑکوں کو بیوی کے حقوق اور بحیثیت شوہر ان کی ذمہ داریوں سے واقف کروانا کیوں ضروری ہے؟
٭٭٭
معذوری کا ٹرمپ کارڈ
فون مسلسل بج رہا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ میں نے اپنا اسکوٹر پارک کیا اور ہینڈ بیگ سے فون نکال کر کان سے لگا لیا تھا۔
’’میڈم! میں کب سے آپ کو فون لگا رہی ہوں۔‘‘ فیلڈ ورکر ذاکرہ کے لہجے میں پریشانی تھی۔
’’میں راستہ میں تھی بھلا فون کیسے ریسیو کرتی؟ تم جانتی ہو ناں گاڑی چلاتے وقت فون پر بات کرنا منع ہے؟‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’اوہ! ابھی دس بھی نہیں بجے! در اصل ایک خاتون رابعہ پر اس کا شوہر ساری رات ظلم ڈھاتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ وہ بہت پریشان ہے اور آپ سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ ذاکرہ نے مسلسل فون کرنے کی وجہ بیان کی۔
’’یا اللہ! ایک بے بس خاتون پر رات بھر ظلم ہوتا رہا اور تم نے اسے پولیس اسٹیشن بھی نہیں بھیجا؟ جب کہ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ اس قسم کی ایمرجنسی میں صبح تک انتظار کرنا بھی مظلوم کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ خدا نخواستہ اسے کچھ ہو جاتا یا وہ کچھ کر لیتی تو ہم اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاتے۔‘‘ میں نے قدرے برہمی سے کہا۔
’’میڈم! میں نے رات 12 بجے اسے پولیس اسٹیشن بھیجا تھا، لیکن اسے وہاں سے کوئی خاطر خواہ رد عمل نہ ملا تو وہ مایوس گھر لوٹ آئی۔‘‘ ذاکرہ نے صفائی پیش کی۔
’’اس وقت وہ کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ دوا خانہ جانے کا بہانہ بنا کر اپنے گھر سے نکل چکی ہے، اور یو ایچ پی (Urban Health Post) میں بیٹھی ہے۔ آپ کہیں تو اسے کونسلنگ سینٹر پر بھیج دوں؟‘‘ ذاکرہ نے تفصیل بتائی۔
’’ہاں، فوری بھیج دو۔‘‘ کہتے ہوئے میں نے فون رکھ دیا۔
ایک عورت جو برسوں اپنے شوہر کا ظلم سہتی رہتی ہے، لیکن جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو اسے مکان اور مکین دونوں سے نفرت ہونے لگتی ہے، اور وہ گھر جس میں اس نے بڑے ارمانوں سے قدم رکھا تھا، اسی گھر سے قدم باہر نکالنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔‘‘
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رابعہ میرے سامنے موجود تھی۔ دبلی پتلی، دراز قد، سانولی رنگت، چہرہ مرجھایا ہوا۔ آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی۔
’’ناشتہ کیا؟‘‘ سلام کے بعد میرا پہلا سوال تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا اور آنکھیں بھر آئیں۔ اس کے ساتھ اس کی 4 سالہ چھوٹی بیٹی شبانہ بھی موجود تھی۔ خوف زدہ، سہمی سہمی سی، ماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ جیسے خطرہ لاحق ہو کہ وہ اسے چھوڑ کر چلی نہ جائے۔
’’شبانہ! ادھر آؤ میرے پاس۔‘‘ میں نے اسے پچکارا، لیکن وہ میری آواز سن کر اپنی ماں سے یوں چمٹ گئی جیسے میں اسے اپنی ماں سے چھین لوں گی۔
’’سارے بچے رات بھر ہمارے جھگڑے سے خوف زدہ رہے، روتے رہے، اور ڈر کے مارے کانپ رہے تھے۔ اب تک بھی اس حالت سے باہر نکل نہیں پا رہے ہیں۔‘‘ رابعہ نے شبانہ کی پیٹھ کو سہلاتے ہوئے کہا، جو اپنی ماں کے زانو پر سر رکھے، آنکھیں میچے خود کو ماں کے برقعہ میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ بچوں پر نفسیاتی اثر کی کھلی علامت تھی۔
’’ناشتہ آ چکا ہے، پہلے تم دونوں ناشتہ کر لو پھر ہم بات کریں گے۔‘‘ میں نے رابعہ سے کہا، لیکن رابعہ کو ناشتہ کرنے سے زیادہ مجھ سے بہت کچھ بانٹنے کی جلدی تھی، تاکہ اس کے دل و دماغ کا سارا غبار نکل جائے اور وہ خود کو ہلکا محسوس کرے۔
’’تمہارے ہاتھ اور آواز دونوں ہی کمزوری سے تھر تھرا رہے ہیں، ہونٹ پر پپڑیاں جم گئی ہیں، اس حالت میں بات کرنے سے تمہیں مزید تکلیف ہو گی۔ پہلے ناشتہ کر لو، خیر النساء بہت اچھی کافی بناتی ہے، جسے پینے کے بعد تم خود کو تازہ دم محسوس کرو گی۔‘‘ میری بات سن کر وہ ڈائننگ روم میں چلی گئی اور میں اپنے ای میلس کے جوابات دینے میں مصروف ہو گئی۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر وہ دوبارہ میرے کیبن میں آ چکی تھی۔
’’کیسا محسوس کر رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ بس خاموشی سے دیوار کو تکنے لگی، جیسے جواب ڈھونڈ رہی ہو۔
’’رابعہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرو یہ ضروری ہے، کیوں کہ اگر تم اپنے جذبات کو دباتی ہو تو در اصل تم اپنے آپ کو اظہار کرنے سے روک رہی ہو۔ یہ شعوری طور پر (دبانے) یا غیر شعوری طور پر (جبر) ہو سکتا ہے۔ جس سے تمہاری بے چینی، پٹھوں کی کشیدگی اور درد، نیز ذہنی دباؤ میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا اور سوچا کہ جذبات کے اظہار میں مجھے اس کی مدد کرنی ہو گی۔ میں نے کہا: ’’رابعہ اپنی آنکھیں بند کرو۔ اپنے جسم کو سکین کرو اور بتاؤ کہ مختلف جذبات تمہیں کیسے اور کہاں محسوس ہو رہے ہیں؟‘‘ حسب ہدایت رابعہ نے اپنی آنکھیں موند لیں اور کہا: ’’مجھے سینے میں تنگی محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ تب میں نے اسے اپنے ساتھ گہری ڈایا فرامیٹک سانس لینے کی مشق کروائی، اور بتایا کہ ایسا کرنے سے اس کے پھیپھڑے آکسیجن سے بھر جائیں گے اور وہ پر سکون ہو جائے گی۔ مشق کے بعد وہ کافی ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔
’’اب تم اطمینان سے اپنے مسائل مجھے بتا سکتی ہو۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی تو اس نے کہنا شروع کیا: ’’میرا تعلق نظام آباد سے ہے۔ میری شادی دس سال پہلے حیدر آباد کے نوجوان سے ہوئی۔ شادی کے کچھ دن بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ شرابی ہے۔ اس کا رویہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا۔ میں نے زندگی میں کبھی شراب کی بو تک نہ سونگھی تھی، لیکن اب وہ حالت نشہ میں میرے قریب آتا تو مجھے کراہیت ہوتی۔ جی چاہتا گھر سے بھاگ جاؤں۔‘‘ والدین کو بتایا، پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں ہوا، کیونکہ اس لت کے بارے میں انہیں شادی سے پہلے کسی نے نہیں بتا یا تھا۔ رابعہ ان لوگوں سے متنفر تھی، جنہوں نے اس سچائی کو مخفی رکھا تھا۔
’’عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے فریقین کے بارے میں معلومات حاصل کرو تو لوگ سچائی پر یہ سوچ کر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ نیک کام میں رخنہ ڈالنا مناسب نہیں۔ کاش وہ سمجھ پاتے کہ جس کام کو وہ نیک کام سمجھ کر انجام دے رہے ہیں، وہ زندگی کی بربادی کی وجہ بن سکتا ہے، جس کے لیے وہ خدا کے آگے یقیناً جواب دہ ہوں گے۔‘‘ میں نے اس کی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! آپ سچ کہتی ہیں۔ والدین کا کہنا تھا کہ چوں کہ اب شادی ہو چکی ہے اور شادی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس لیے کسی بھی صورت میں مجھے اپنے شوہر سے نباہ کرنا ہی ہو گا۔ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا، سوائے اپنے والدین کی بات ماننے کے۔ میں نے اپنی زندگی کو پر سکون بنانے کے لیے شوہر کی شراب چھڑانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ شادی کے چھ ماہ بعد والدین سے ملاقات کے لیے ہم دونوں حیدر آباد سے نظام آباد گئے تھے۔ ریل کا سفر تھا۔ کسی اسٹیشن پر پانی لینے کے لیے میرے شوہر جنید ریل سے نیچے اترے ہی تھے کہ ریل چلنے لگی۔ یہ دیکھ کر جنید دوڑتے ہوئے آئے اور چلتی ریل میں چڑھنے کی کوشش کی تو پیر پھسلا اور گر گئے اور ان کے دونوں پیر کٹ گئے۔‘‘
’’اللہ اکبر! بہت افسوس ہوا۔‘‘ میں نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔
’’علاج کے دوران دو ماہ تک میں جنید کے ساتھ ہسپتال میں رہی۔ دن رات اس کی خدمت کرتی رہی۔ جنید کی اس حالت کو دیکھ کر میرے والدین اور بھائیوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تمہارا شوہر معذور ہو چکا ہے۔ وہ اب نہ تو کوئی کام کر سکے گا نہ ہی ملازمت۔ ابھی تک تمہیں کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی ہے۔ بہتر ہے کہ تم اس سے خلع لے لو۔ ہم کسی بھلے مانس سے تمہارا نکاح کر دیں گے اور تم اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنا۔‘‘ یہ سن کر میں نے اپنے والدین سے کہا: ’’آپ لوگ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ ایک حادثہ کی وجہ سے میں اپنے شوہر کو چھوڑ دوں؟ اللہ تعالیٰ کو کتنا برا لگے گا؟ اگر یہی حادثہ میرے ساتھ ہوا ہوتا اور میرا شوہر مجھے چھوڑ دیتا تب آپ کیسا محسوس کرتے؟ مان لیں میں نے جنید سے خلع لے کر عقد ثانی کر بھی لیا۔ اس بات کا تیقن کون دے سکتا ہے کہ اس کے بعد بھی ہمارے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہو گا؟‘‘ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ساتویں جماعت کامیاب 30 سالہ رابعہ کی فکر، اعلیٰ ظرفی، ہمدردی اور حوصلہ مندی نے مجھے ششدر تو کر ہی دیا تھا، ساتھ ہی بہت متاثر بھی کیا۔ اپنی زندگی کا ایک اہم اور مشکل فیصلہ اس نے بہت آسانی سے لے لیا تھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے دوبارہ اپنی بات کا سلسلہ شروع کیا: ’’زندگی یوں ہی گزر رہی تھی، جس میں بے بسی، بے کسی، بے اعتنائی، بے اعتمادی اپنے عروج پر تھی۔ ہر دن اس امید سے شروع ہوتا کہ شاید میرا شوہر آج مجھے محبت بھری نظر سے دیکھے گا۔ دو میٹھے بول بولے گا، میری قدر کرے گا، لیکن ہر روز میں نے اس کی آنکھوں میں وحشت ہی دیکھی۔ اس کے منہ سے ہمیشہ گندی باتیں ہی سنیں اور نفرت کا ہی سامنا کیا۔ اکثر سوچا کرتی کہ کیا لڑکیوں کی شادی اسی لیے کی جاتی ہے کہ وہ کسی بے جان شے کی طرح خود کو ظالم شوہروں کے حوالے کر دیں کہ کر لو جو کرنا ہے۔‘‘ رابعہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
’’رابعہ! واقعی تم نے بہت کچھ جھیلا ہے۔ تمہاری قوت برداشت کمال کی ہے۔‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔
’’وہ تو اللہ نے مجھے چار بچوں سے نوازا، جن کی وجہ سے مجھے سب کچھ سہنے کا حوصلہ ملا۔ میرے شوہر نے دیور کے نام پر فائنانس سے آٹو خریدا، یوں آمدنی کے ذرائع بھی میسر ہو گئے تھے۔‘‘
’’جنید کے پیر تو حادثہ میں کٹ گئے تھے ناں؟ وہ آٹو کیسے چلا سکتے تھے؟‘‘ مجھے تجسس تھا۔
’’ہاں، انہوں نے آٹو میں ہینڈ بریک لگوا لیا، جس کی وجہ سے انہیں آٹو چلانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔‘‘ رابعہ نے بتایا۔
’’معذوری کی وجہ سے جنید میں احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی بری عادتوں جیسے نشہ کرنا، گالیاں بکنا، بغیر کسی وجہ کے مجھ پر شک کرنا، ان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا رہا۔ گھر والے، پڑوسی، سب میرے شوہر سے ہی ہمدردی جتاتے، کیونکہ وہ معذور تھے، لیکن چار دیواری کے اندر جس وحشیانہ طریقے سے وہ مجھ پر جنسی اور جسمانی زیادتی کرتے اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔‘‘
’’تم نے اس بارے میں کسی کو بتایا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بتایا میڈم! بہت بار بتایا۔ والدین اور بھائی نے یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیا کہ ہم نے تو بہت پہلے تم سے کہا تھا کہ خلع لو اور پیچھا چھڑا لو، لیکن نہیں! تمہیں تو جنید سے ہمدردی جتا کر مہان بیوی کا میڈل جو جیتنا تھا۔ اب بھگتو اپنی مہانتا کا پھل۔ جب بھی کمرے میں کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوتا تو میں خود کو بچانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل جاتی تو ساس کہتیں کہ کمرے کے مسائل کمرے میں سلجھا لو۔ ہم سب کے سامنے واویلا مچانے کی ضرورت نہیں۔ صحن میں جاتی تو کہتیں کہ پڑوسی دیکھ لیں گے، سب کے سامنے تماشہ کرنا ضروری ہے کیا؟ اب بتائیں تو کس کو بتائیں؟ کون تھا جو مجھے سنتا؟ میرے کرب کو سمجھتا؟ کل رات بھی وہی ہوا۔ میری ماں میرے لیے بازار سے کان کی بالیاں خرید کر لے آئی تھی، اور مجھے دے کر چلی گئی۔ میں ان بالیوں کو پہن کر آئینہ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ بالیاں مجھے سوٹ بھی کریں گے یا نہیں؟ اسی وقت جنید باہر سے آئے اور مجھے بالیاں پہنے دیکھا تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ خود کی احساس کمتری کی وجہ سے وہ مجھے نہ تو اچھا کپڑا پہننے دیتے نہ ہی میک اپ کرنے دیتے، اور کبھی اتفاقاً پہن لیا تو پھر گالی گلوچ، مارنا پیٹنا، چیزوں کو اٹھا کر پھینکنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا سب کچھ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اکثر مرد خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ ان کی کمزوری کی وجہ سے کہیں ان کی بیوی انہیں چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ جب مجھ سے ان کی زیادتی برداشت نہیں ہوئی تو میں نے کسی طرح سے رات کے 12 بجے ذاکرہ باجی (فیلڈ ورکر) کو فون کیا اور گھر سے بھاگ کر پولیس اسٹیشن پہنچی اور شوہر کے خلاف شکایت درج کروائی، لیکن مجھے خود پتہ نہیں کہ کون سی طاقت مجھے وہاں لے گئی تھی۔‘‘
’’ذاکرہ کا ایک جملہ کہ تمہیں پولیس کی مدد لینی چاہیے۔‘‘ میں نے اس کے سوال کا جواب دیا تو وہ بولی: ’’شاید‘‘
’’پولیس نے جنید کو بلایا تو وہاں آ کر اس نے اپنی معذوری کا ٹرمپ کارڈ نکال کر پولیس کے سامنے پھینک دیا، کہنے لگا کہ میری حالت دیکھیے اور بتائیے کیا میں اپنی بیوی کو مار سکتا ہوں؟ یا اس پر ظلم کر سکتا ہوں؟ یہ ایک نمبر کی جھوٹی عورت ہے۔ در اصل وہ مجھ پر الزام لگا کر مجھ پر کیس کرنا چاہتی ہے، مجھے پھنسانا چاہتی ہے۔ آپ لوگ اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران تھی کہ وہ کس طرح غلط بیانی سے پولیس کو گمراہ کر رہا تھا۔ پولیس آفیسر نے بھی بغیر کسی تحقیق کے اس کی باتوں کو سچ مان لیا اور ایک نفرت بھری نگاہ مجھ پر ڈال کر کہنے لگا۔ کیوں بے چارے کو تنگ کرتی ہو؟ چھوٹی موٹی باتیں تو ہر گھر میں ہوتی رہتی ہیں اس کی معذوری کا بھی احساس نہیں تمہیں؟ اور ایک بات دھیان سے سن لو! معذوروں پر کوئی کیس نہیں بنتا۔ سمجھیں؟ اب چپ چاپ گھر جاؤ۔ خود بھی آرام سے سو جاؤ اور ہمیں بھی سونے دو۔ نیندیں حرام کر رکھی ہے ان مسلمانوں نے۔ ذرا کچھ ہوا نہیں کہ منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔ لڑنے کے سوا کچھ اور آ تا بھی ہے ان لوگوں کو؟ اس کا سلوک اور برتاؤ دونوں سے مسلمانوں کے لیے تعصب صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ لیکن… آپ سنو تو… میں آپ کو سمجھاتی ہوں بات…میں نے آفیسر کو سمجھانا چاہا۔
اب سمجھنے سمجھانے کی کوئی بات ہی نہیں ہے، خاموشی سے گھر جاؤ۔ کہتا ہوا وہ اٹھ کر چلا گیا۔ پولیس پر سے میرا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ میں مایوسی سے اسی دلدل میں چلی آئی، جس سے باہر نکلنے کے لیے میں نے جتنے قدم اٹھائے تھے، اتنا ہی اندر دھنس چکی تھی۔
گھر آتے ہی جنید چھاتی چوڑی کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگا کہ خود کو بڑا سورما سمجھتی ہے؟ بڑی شان سے پولیس اسٹیشن گئی تھی ناں؟ کیا ہوا؟ منہ کی کھانی پڑی۔ اب تو پتہ چل گیا ناں کہ پولیس بھی میرے ساتھ ہے۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مانو میرا مذاق اڑا رہا ہو۔ میں اسے کیا جواب دیتی؟ جب کہ پولیس نے مجھے صاف بتا دیا تھا کہ معذوروں کے بارے میں کیس ہی فائل نہیں کیا جا سکتا۔
میں تو بس صبح کے انتظار میں تھی۔ جیسے ہی صبح ہوئی، دوا خانہ کا بہانہ بنا کر نکل آئی۔ اب مجھے اس کے ساتھ ہر گز ہر گز نہیں رہنا ہے۔ آپ بس مجھے اس شخص سے چھٹکارہ دلا دیں۔‘‘ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
پولیس کے غیر منصفانہ رویہ سے وہ ٹوٹ چکی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچی، اسے اپنے سینے سے لگایا اور تسلی دی کہ ’’کوئی تمہارے احساسات کو درد کو سمجھے یا نہ سمجھے، میں سمجھ سکتی ہوں، کیونکہ میں بھی ایک عورت ہوں۔ کل تم مقامی پولیس اسٹیشن گئی تھیں، آج تمہیں ویمن پولیس اسٹیشن جانا ہو گا، اور وہاں دوبارہ اپنی درخواست داخل کرنی ہو گی۔‘‘ میں نے اس کی ہمت بندھائی۔
’’جب معذوروں پر کوئی کیس ہی نہیں بنتا تو درخواست کا فائدہ کیا؟ اس نے تو میری زندگی کو ہی معذور کر دیا ہے۔‘‘ اس کی بات میں حد درجہ مایوسی تھی۔
’’رابعہ! معذوروں کے لیے سرکار نے کافی مراعات رکھی ہیں اور کچھ تحفظات بھی، لیکن کسی بھی معذور کو دوسروں کو تکلیف دینے، بیوی بچوں پر ظلم و تشدد کرنے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنی معذوری کو ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ بھی اسی سزا کا مستحق ہو گا، جو ایک عام انسان کو دی جاتی ہے۔‘‘ میں نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی۔
’’کیا یہ بات قانون کے رکھوالوں کو معلوم نہیں؟‘‘ اس کے لہجہ میں طنز تھا۔
’’انہیں تو یہی سب کچھ ان کے اسباق میں پڑھایا جاتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ تم جس افسر سے ملی تھیں وہ ایک مرد تھا، اس لیے اس نے خاتون کی شکایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہم جنس کی باتوں پر اعتماد کا ٹھپہ لگایا۔ زندگی میں اکثر خواتین کے ساتھ اس قسم کا صنفی امتیاز و استحصال قدم قدم پر ہوتا رہتا ہے، لیکن ہم خواتین کو اسے اپنی قسمت مان کر یا تھک ہار کر چپ نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ہر اس حق کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے، جس حق کو تلف کرنے میں مرد یاسماج کا کوئی بھی فرد اپنا مؤثر رول ادا کرتا ہے۔‘‘ میں بھی جذباتی ہو رہی تھی۔
’’لیکن میڈم اس بار میں تنہا نہیں جاؤں گی، آپ میں سے کوئی میرے ساتھ چلے، تاکہ میری ہمت بندھی رہے۔‘‘ پولیس کے تکلیف دہ رویے نے رابعہ کے حوصلوں کے پر کاٹ دئیے تھے۔ میں نے فیلڈ ورکر کے ساتھ رابعہ کو ومن پولیس اسٹیشن بھیجا، جہاں اس کی شکایت درج کی گئی، اور آگے کی کار روائی کا تیقن دیا گیا۔
سوالات
(1) معذور شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو فیصلہ رابعہ نے لیا تھا، آپ اس کی حمایت کریں گے یا مخالفت؟
(2) کیا ایک عام انسان کو بھی معذوروں سے متعلق قوانین اور تحفظات کے بارے میں جانکاری رکھنا ضروری ہے؟
(3) کیا آپ عام پولیس اسٹیشن اور ومن پولیس اسٹیشن میں پائے جانے والے نمایاں فرق سے باخبر ہیں؟
٭٭٭
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
میں اپنے کیبن میں بیٹھی ایک کیس کا تجزیہ کر رہی تھی کہ صدیقہ سہمی سہمی سی ہاتھ میں رجسٹریشن فارم تھامے میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ اس کے پیچھے اس کی ماں بھی موجود تھی۔
’’آپ کچھ دیر باہر انتظار کریں۔ میں تنہائی میں صدیقہ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ بعد ازاں ضرورت پڑنے پر آپ کو بھی اظہار خیال کا موقع دیا جائے گا۔‘‘ اس سے پہلے کہ صدیقہ کی والدہ کیبن کے اندر داخل ہوتیں، میں نے انہیں روک دیا تھا۔
میری بات سن کر وہ چلی تو گئیں، لیکن چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آ رہے تھے۔ میرے لیے یہ ضروری تھا، کیونکہ زیادہ تر لڑکیاں اپنی ماؤں کے سامنے اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور حقائق بتانا پسند نہیں کرتیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ وہ اپنی ماؤں کے ساتھ جو کچھ بھی شیئر کریں گی وہ انہیں منفی انداز میں لیں گی۔ ان کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر اس کے بارے میں ناگوار تاثرات قائم کریں گی۔
صدیقہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’میری شادی کو یوں تو چار سال ہو گئے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ میری شادی صرف چار ماہ کی ہے، کیونکہ شادی کے صرف چار ماہ بعد میرے شوہر دبئی واپس چلے گئے، جہاں وہ کسی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔‘‘ میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اس نے بولنا شروع کر دیا تھا۔ شاید اس کے دل و دماغ میں اتنا درد پنہاں تھا جس کا اظہار ناگزیر تھا۔
’’شوہر کے جانے کے بعد تم کہاں رہتی تھیں؟ سسرال میں یا میکہ میں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’میں چاہتی تو تھی کہ میرے شوہر کرار کے جانے کے بعد میں میکہ میں رہوں، لیکن سسرال والوں نے بھیجنے سے صاف منع کر دیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد لڑکی کا اصل گھر تو اس کا سسرال ہوتا ہے، اور میکہ میں انہیں بطور مہمان 2-4 دن کے لیے ہی جانا چاہیے۔‘‘ ہمم ’’ممممم…!‘‘ میں نے سر کو خفیف سی جنبش دی۔
’’میرے شوہر اور میری ماں نے بھی اس بات کی تائید کی، اور مجھے سسرال میں رہنے پر مجبور کیا۔ اس دوران میں حاملہ بھی ہو گئی تھی، میری طبیعت بوجھل رہنے لگی۔ الٹیاں بھی ہو رہی تھیں۔ مجھے بار بار ہسپتال جانے اور مختلف ٹیسٹ کروانے کی ضرورت تھی۔ ساس نے خود کو اس ذمہ داری سے بچانے کے لیے مجھے ڈیلیوری تک کے لیے میکہ بھیج دیا۔ اس وقت میں جو اپنے میکہ آئی تو پھر گڑیا کی پیدائش کے تین ماہ بعد ہی سسرال گئی۔ میرے سسرال میں ایک کنوارہ دیور بھی ہے۔ وہ جب بھی اپنے کام سے لوٹتا اس کے لیے کھانا چائے وغیرہ دینے کی ذمہ داری ساس نے مجھے سونپ دی تھی، کیونکہ گھر میں ساس کے علاوہ کوئی دوسری خاتون موجود نہیں تھی، اور ساس کا ماننا تھا کہ گھر سنبھالنا، سب کا خیال رکھنا بہو کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے بہو گھر میں قدم رکھتے ہی ساس گدی نشین ہو جاتی ہے۔ جب بھی میں دیور کو کھانا وغیرہ دیتی تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتا، جیسے اپنی آنکھوں سے میرے جسم کی اسکیننگ کر رہا ہو۔ میں اپنے آپ کو سمیٹتی، جلد سے جلد اس کی نظروں سے دور ہو جاتی، لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے سے مجھے بلاتا، مجھ سے مذاق کرتا۔ اس کی یہ حر کت مجھے بری لگتی لیکن میری ساس کو بالکل بھی برا نہیں لگتا۔ جب بھی میں ان سے شکایت کرتی کہ امّی! دیکھیے تو، صارم (دیور) کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ وہ ہنس کر کہتیں کہ تمہارا بھائی نہیں کرتا کیا؟ وہ بھی تو تمہارے بھائی جیسا ہے۔ ان کی اس بات سے اس کی نازیبا حرکات کو مزید تقویت ملتی۔ گڑیا جب میری گود میں ہوتی تو اسے گود سے لینے کے بہانے وہ میرے جسم کو چھونے کی کوشش کرتا۔‘‘
’’اس بات کا ذکر تم نے اپنے شوہر سے نہیں کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کئی بار سوچا کہ اس بارے میں انہیں بتاؤں گی، پھر یہ خیال آتا کہ کرار نے میری بات کا یقین نہیں کیا تو کیا ہو گا؟ کرار اگر ساس اور دیور سے اس بابت پوچھیں گے تو وہ تو صاف انکار کر دیں گے اور اس بات کو جھوٹ قرار دیں گے، تب میں کیا کروں گی؟ انہی خدشات کی وجہ سے میں نے کرار سے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ ایک رات جب گرمی اپنے شباب پر تھی۔ بجلی چلی گئی۔ گڑیا بھی بے چین ہو رہی تھی۔ کمرے میں بہت زیادہ گھٹن ہونے لگی تو میں نے اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولا، تاکہ کچھ تو حبس دور ہو، اور ہاتھ کا پنکھا جھیلتے ہوئے گڑیا کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک ایک آہٹ ہوئی اور میرے منہ پر کسی نے ہاتھ رکھا میں بری طرح چونک گئی۔ سخت آواز میں کہا ’’خاموش! کوئی آواز مت نکالنا ورنہ تمہارا اور تمہاری بیٹی دونوں کا گلا گھونٹ دوں گا۔‘‘
میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ کوئی اور نہیں صارم تھا۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اس رات کا خوف آج بھی دکھائی دے رہا تھا۔
’’اس نے حیوانیت کی حد پار کر دی میڈم!‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’کسی سے آپ نے ذکر نہیں کیا۔۔؟‘‘
’’کیسے کرتی، اس نے کمرے سے جاتے جاتے اس نے مجھے دھمکی دی کہ ’’اگر اس بات کا ذکر میں نے کسی سے کیا تو وہ میری زندگی کا آخری دن ہو گا۔‘‘ میں خوف کے مارے تھر تھر کانپنے لگی، میری زبان گنگ ہو گئی، میرا ذہن ماؤف ہو گیا، میں کیا کرتی؟ تکیہ منہ پر رکھے صبح تک روتی رہی۔‘‘
’’کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہوئی؟‘‘
’’بالکل بھی نہیں ہوئی۔ اس حادثہ کے بعد میرا وہاں رہنا محال ہو گیا تھا۔ میں ماں کے پاس جانا چاہتی تھی، لیکن ساس مختلف بہانوں کے ذریعہ مجھے جانے سے روک رہی تھی۔ بہت تگ و دو کے بعد بیماری کا بہانہ بنا کر میں ماں کے گھر جانے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’جب میں نے اپنی ماں کو پوری روداد سنائی تو ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ گھر کا فرد ہی گھر کی عزت پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔‘‘
’’یہ ایک حقیقت ہے صدیقہ کہ زنا بالجبر کے واقعات میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے تحقیق کا نکتہ پیش کیا۔
’’بھائی نے کہا کہ یہ بات مجھے فوراً اپنے شوہر کو بتانی چاہیے، اور میں نے انہیں فون پر سب کچھ بتا دیا۔ پہلے تو کرار کو میری بات پر یقین ہی نہیں آیا۔ جب میں نے کلام پاک کی قسم کھائی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ صارم اسی قسم کا اوباش نوجوان ہے، جس کے پہلے بھی دو تین لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، اور وہ لڑکیاں بھی جب حاملہ ہو گئیں تو ان کا حمل بھی ساقط کروایا تھا۔ مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ ان ساری باتوں کا ذکر کرار اتنی آسانی سے کر رہا تھا جیسے کوئی عام سی بات ہو۔ اس نے مجھے دلاسہ دیا کہ اس سلسلے میں وہ اپنے گھر والوں سے بات کرے گا۔ دوسرے دن کرار کا فون آیا تو اس کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے جو کچھ بھی اس سے کہا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے۔ زانی صارم نہیں بلکہ میں ہوں، کیونکہ میں نے ہی اسے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اس بات پر مہینوں ہم دونوں میں بحث و تکرار ہوتی رہی۔ وہ مجھ سے اس گناہ کا ثبوت مانگتا، جس کا گواہ کالی رات اور خدا کے سوا کوئی نہ تھا، اور پھر اسی بحث و تکرار کے دوران ایک دن وہی ہوا، جس کے خوف کی تلوار میرے سر پر لٹک رہی تھی۔ اس نے فون پر مجھ سے تین الفاظ کہہ کر ہمارے رشتہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ میں ایک حادثہ کے اثر سے باہر بھی نہیں نکل پائی تھی کہ مجھ پر دوسرا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں باڑھ دوباہ آ گئی تھی۔
’’اللہ محفوظ رکھے ایسے رشتوں سے جو رشتوں کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
’’صدیقہ! تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس پر انسانیت بھی شرمسار ہو جائے۔ میں تمہارا دکھ سمجھ سکتی ہوں۔ حوصلہ رکھو خدا مظلوموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ ان شاء اللہ۔ بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میڈم! مجھے انصاف چاہیے۔ اس زانی کو اس کے جرم کی سزا ضرور ملنی چاہیے، تاکہ مستقبل میں کوئی دیور اپنی بھابھی کے ساتھ ایسا حیوانی سلوک نہ کرے۔ کسی عورت کی عزت اس کے گھر میں نہ لٹے جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔‘‘
’’صدیقہ! تم پریشان نہ ہو ہم اس ملزم کو اس کی کوئی کی سزا ضرور دلائیں گے۔ اس پر زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کریں گے۔‘‘ میں نے اسے دلاسہ دیا۔
’’میڈم! صرف اسے ہی نہیں کرار کو بھی اس کے کوئی کی سزا ملنا چاہیے۔ ایک تو اس نے سچ کو قبول نہیں کیا۔ دوسرے بغیر کسی معقول وجہ کے فون پر طلاق دے دی۔ اس پر بھی مقدمہ ضرور کیجے گا۔‘‘ اس کا لہجہ بہت ہی سخت تھا۔
’’ہاں، سزا تو دونوں کو ملنی چاہیے۔ میں نے اسے تسلی دی تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔‘‘
سوالات
(1) شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی کا ایسے سسرال میں رہنا کیا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو اس کی حفاظت کا ذمہ دار کون ہو گا؟
( 2) خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے آپ انفرادی طور پر کیا کر سکتے ہیں؟
(3) کیا ہمیں اسکولی نصاب میں ’’اخلاقیات‘‘ کے موضوع پر خصوصی مضمون متعارف کرنے کی ضرورت ہے؟
4) دیور اور دیگر نامحرم رشتوں سے بے تکلفی کی قباحتوں کا شعور پیدا کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہے۔؟
٭٭٭
اب پچھتاوے کیا ہوت۔۔۔
میں اپنے کاؤنسلنگ آفس میں بیٹھی اخبار کا مطالعہ کر رہی تھی کہ ایک 19 سالہ لڑکی میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ ’’رملہ…‘‘ اس نے رجسٹریشن فارم میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں نے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ بیٹھ گئی۔ وہ بہت پریشان اور الجھی الجھی سی لگ رہی تھی۔ میں اس کی نجی تفصیلات جاننے کے لیے رجسٹریشن فارم کا مطالعہ کرنے لگی۔
’’میڈم! جب خدا اپنے بندوں کو معاف کر سکتا ہے تو بندے ایک دوسرے کو معاف کیوں نہیں کر تے؟‘‘ اس نے بغیر کسی تمہید کے سوال کر دیا تھا۔
’’ہمارے مذہب میں غلطیوں کی معافی مانگنا اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دینا بہت اچھا عمل سمجھا جاتا ہے، اسی لیے قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’اللّٰہﷻ معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
لیکن ہمارے معاشرے میں عوام نے معافی مانگنا اور معاف کرنا دونوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے، اس لیے معاف نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ میں نے توقف کیا ہی تھا کہ وہ بول پڑی: ’’میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میری شادی کو صرف چار ماہ ہوئے۔ شادی کے دوسرے دن سے ہی میری ساس نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ میں ان کا پورا گھر سنبھال لوں گی۔ تین وقت گرما گرم کھانا پکا کر دسترخوان پر چن دوں گی۔ گول گول چاند جیسی روٹیاں پکاؤں گی۔ مہمانوں کا استقبال اور میزبانی کروں گی۔ ساس سسر کی خدمت کروں گی، ان کے پیر دباؤں گی، انھیں تین وقت کی دوائیں دوں گی وغیرہ وغیرہ، جب کہ میں تو ابھی اپنا گھر چھوٹنے کا غم بھی بھلا نہیں پائی تھی۔ میں تو سسرالی رشتہ دار اور ان کے مزاجوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی، خود کو ان کے ماحول میں ڈھالنے کی سعی کر رہی تھی، لیکن میرے سسرال والے مجھے اس کا موقع ہی دینا نہیں چاہتے تھے۔ وہ پہلے تو میرے ہر کام میں نقص نکالتے پھر اس بات کے لیے میرے والدین کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کی تربیت پر سوال کھڑے کرتے۔ ان کا یہ سلوک اور رویہ میرے لیے بہت ہی تکلیف دہ تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے آنسو بہنے لگے۔
’’تمھارے شوہر کا رویہ کیسا تھا؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’وہ اپنے والدین کے فرمانبردار بیٹے ہیں، اس لیے میرے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر چپ رہنا ان کا شیوہ تھا، اور ہمیشہ مجھ سے یہی کہتے کہ میں اپنے والدین کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ کبھی کبھی انسان کسی ایک رشتے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ دوسرے رشتے ریت کی طرح مٹھی سے پھسلنے لگتے ہیں۔‘‘
’’کیا تم نے اس بارے میں اپنے والدین کو بتایا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں، شادی کے فوراً بعد میں اپنے مسائل انھیں بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے اپنی خاص سہیلی روبینہ سے اس معاملہ میں مشورہ کیا۔‘‘
’’کیا مشورہ دیا اس نے؟‘‘ میرا تجسس جاگا۔
’’اس نے مجھے مشورہ دیا کہ تمھاری ساس کو بہو سے زیادہ ایک ایسی ملازمہ کی ضرورت تھی جو مفت میں سارے گھر کا کام کرے اور ان کی خدمت بھی، جو کہ تم کر رہی ہو۔ اس کے باوجود ان کا روکنا ٹوکنا، طعنہ دینا، تمہاری بے عزتی کرنا؛ یہ سراسر ظلم ہے، اور تمہارا شوہر خاموش تماشائی بن کر اس ظلم کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ کیا فائدہ ایسے رشتے کا جہاں نہ تمہاری اہمیت ہے نہ عزت، بہتر ہے کہ خلع لے کر قصہ ختم کرو۔‘‘
’’کیا؟ خلع کا مشورہ دیا اس نے تمھیں؟ وہ بھی شادی کے چوتھے ہی مہینے میں؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں وہ جان گئی تھی کہ سسرال میں مجھے زندگی کا خوشیوں بھرا ماحول نہیں مل رہا ہے۔ ایسے دم گھٹتے حالات میں رہنے سے تو بہتر تھا کہ میں علیٰحدہ ہو جاتی۔‘‘ اس لیے اس نے یہ مشورہ دیا۔
’’روبینہ کی عمر کیا ہے؟ اور وہ کیا کرتی ہے؟‘‘ رملہ کے لیے دی گئی تجویز سے مجھے لگا تھا کہ روبینہ ایک نا تجربہ کار لڑکی ہے، اس لیے اس نے رملہ کو ایسی تجویز دی تھی، جس سے زندگی سنورنے کے بجائے بگڑ جائے۔
’’وہ میری ہم عمر ہے۔ ہم کلاس میٹ تھے۔ دسویں جماعت کے بعد میری شادی ہو گئی، اور روبینہ بے کار میں اپنا وقت گزاری رہی ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔
’’میں نے روبینہ کی تجویز پر عمل کرنے کا ٹھان لیا اور شوہر سے خلع کا مطالبہ کرنے لگی۔‘‘
’’تم نے والدین سے اس بارے میں بات کی تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’روبینہ کی بات میرے دماغ میں اس طرح گھر کر گئی تھی کہ میں اپنے فیصلے پر اٹل تھی۔ لہٰذا، میں نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ میں مزید اس گھر میں نہیں رہ سکتی، اور مجھے خلع لینا ہے۔ یوں میرا خلع ہو گیا۔ اس کے بعد جب میں گھر آئی اور عدت کی مدت کی تکمیل کر رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت ہی جلد بازی سے کام لیا۔‘‘
’’مجھے اپنے کیے پر بہت پچھتاوا ہونے لگا۔ میں دوبارہ اس رشتہ کو استوار کرنا چاہتی تھی، جسے میں ختم کر کے آئی تھی۔ تب میں اپنے والدین کے ساتھ سسرال پہنچی، اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا، اور گڑ گڑا کر ان سے معافی بھی مانگی، لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ یہی کہتے رہے کہ جس زعم سے تم نے خلع لیا تھا اسی زعم سے زندگی گزارو۔ اب ہمارے نہ دل میں تمھارے لیے کوئی جگہ ہے نہ ہی گھر میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’لیکن مجھے اپنے شوہر سے محبت ہے، مجھے واپس اسی کے پاس جانا ہے۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آپ پلیز ان سے بات کر کے مجھ سے دوبارہ نکاح کرنے پر انھیں راضی کروا دیں۔ میں تا حیات آپ کے لیے دعا گو رہوں گی۔ اس نے میرے پیر پکڑ لیے تھے۔‘‘ میں نے منع کرتے ہوئے اسے اٹھایا۔ تسلی دی اور دو دن بعد آنے کو کہا تاکہ اس دوران میں اس کے شوہر اور سسرال والوں سے ثالثی کر سکوں۔ ٹھیک دو دن بعد وہ دوبارہ میرے سامنے موجود تھی۔ آنکھوں میں امید کے دیے جگمگا رہے تھے۔
’’کیا کہا ان لوگوں نے؟‘‘ اس نے بے صبری سے پوچھا۔ ’’تمہیں بتاتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بہت کوشش کے باوجود نہ تو تمہارے شوہر اس ضمن میں بات کرنے کے لئے تیار ہیں نہ ہی سسرال والے۔ ان کا یہی کہنا ہے کہ ’’جب لڑکی نے خلع لے کر رشتہ ہی ختم کر دیا تو بات کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟‘‘
’’آپ نے انہیں بتایا نہیں کہ میں اپنے غلط فیصلہ پر شرمندہ ہوں اور بہت پچھتا رہی ہوں‘‘
’’کہا تو تھا ان کا جواب تھا کہ ’اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘!
اس دوران رملہ کے والدین بھی کیبن میں داخل ہو گئے تھے۔ ان کے چہرے پر بھی حزن و ملال نمایاں تھا۔
’’میڈم! اپنی بیٹی کی زندگی کو بچانے کے لئے ہم ان کے پیر چھو کر معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں۔ بس آپ انہیں ایک موقعہ دینے کے لئے تیار کر دیجئے‘‘
’’آپ آج ان معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں۔ جب کہ وہ لوگ کچھ سننے یا سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں!‘‘
’’کاش! رملہ کے اس اقدام سے پہلے آپ اسے سمجھاتے، یا اسے جلد بازی میں کسی اور کی تجویز پر فوری عمل کرنے سے روکتے یا ان کے سسرال والوں سے مصالحت کی بات کرتے تو صورت تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی‘‘
’’اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ہم جبراً کسی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ رشتے آپسی رضا مندی اور محبت کی بنیاد پر ٹکے رہتے ہیں‘‘۔
بہر کیف میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود رملہ اسی بات پر بضد تھی کہ اسے اسی شوہر کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ کسی اور سے دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ اگر تم یہی چاہتی ہو تو ایسا ہی کرو۔ خلع لینے کے بعد تم اسی شوہر سے کبھی کبھی دوبارہ نکاح کر سکتی ہو۔ لہٰذا تم اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرو۔ انٹر میں داخلہ لو۔ اور جب کبھی تمہارا شوہر تم سے تجدید نکاح کرنا چاہے تم اس سے نکاح کر لینا یا پھر کسی اور سے بھی عقد ثانی کر سکتی ہو۔ جیسا بھی تم مناسب سمجھو۔ اس دوران تمہاری تعلیم بھی جاری رہے گی۔ اور اپنی زندگی کے بارے میں اطمینان سے فیصلہ لینے کا وقت بھی ملے گا۔ ہو سکتا ہے اس دوران تمہارا فیصلہ بدل جائے‘‘
’’وہ مجھ سے تجدید نکاح کے لئے مان تو جائے گا نا؟ رملہ نے سوال کیا
’’اپنے فیصلوں کو ہمیشہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہئے۔ کیوں کہ اس نے ہمارے لئے جو پلاننگ کر رکھی ہے۔ اس میں یقیناً ہماری بھلائی ہوتی ہے۔ تم اپنا کام کرو باقی اللہ کے حوالے کر دو‘‘۔
’’شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ میں آج ہی جا کر کالج میں داخلہ لے لیتی ہوں۔‘‘
رملہ اور اس کے والدین جا چکے تھے۔ میں سوچنے لگی کہ اسلام نے رشتوں کو جوڑنے کی تعلیم دی ہے، ترک تعلق اور دوریاں اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے۔ نکاح کا رشتہ ایسا پاکیزہ رشتہ ہے جس کے ذریعہ دو افراد میں اور دو خاندانوں میں ایک تعلق پیدا ہوتا ہے، اس کے ذریعہ گھر آباد ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات قائم ہوتے ہیں، اور یہ خداوند عالم کا ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اس کیس میں والدین کا لڑکی کے سسرال والوں سے مکالمہ کا فقدان اور شوہر کی بے جا خاموشی ترک تعلق کا سبب بنی!
سوالات
1) خلع کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لئے عمائدین کو کس قسم کے اقدامات کرنا چاہئے؟
2) کیا جماعتوں میں ایسی کمیٹیوں کا قیام ضروری ہے جو شادی سے پہلے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کرے۔
3) کیا لڑکیوں کو خلع اور طلاق ثلاثہ کے احکامات سے واقف کروانا ضروری ہے؟
٭٭٭
پاکیزگی کی آڑ میں
میں اپنے کیبن میں بیٹھی گھریلو تشدد کے کیسز کی اسٹڈی کر رہی تھی کہ پڑوسی محلہ کی نرس کا فون آیا، جو ٹی بی کے ہسپتال میں کام کرتی ہے۔
’’نوشین میڈم! ایک پریشان حال شوہر کو آپ کے پاس بھیج رہی ہوں، جس کی بیوی بچوں کے ساتھ غائب ہو گئی ہے۔‘‘
’’بھیج دو۔‘‘ کوئی اور سوال کیے بغیر میں نے اسے جواب دیا۔
’’شکریہ! میں جانتی ہوں کہ آپ کی تنظیم خواتین کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد پر کام کرتی ہے، لیکن اس کیس میں شکایت مرد لے کر آیا ہے تو مجھے آپ سے کہنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔‘‘ نرس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
’’شکایت بھلے ہی مرد لایا ہو، مسئلہ تو خاتون کا ہی ہے ناں؟ بلا تردد انھیں بھیج دیں، کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ میں نے بتایا تو اس نے خوش ہو کر فون رکھ دیا۔
کچھ ہی دیر بعد ایک گورا چٹا، دبلا پتلا طویل قد والا بندہ میلے کچیلے کپڑے اور بکھرے بالوں کے ساتھ مجھ سے ملنے چلا آیا۔ اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہی عجیب سی بو سارے کیبن میں پھیل گئی۔ میں نے اپنی ناک سکوڑی، اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کاؤنسلنگ واقعی بہت صبر والا کام ہے۔ اس کام میں تعریف اور عزت کے ساتھ مختلف قسم کے لوگ، مختلف لہجے، طنز، غصہ، مختلف رویے، شراب گٹکے کی بو، زہریلے الفاظ، دھمکیاں، سب کچھ سہنا پڑتا ہے۔
’’بیٹھو اغلب!‘‘ میں نے رجسٹریشن فارم پر اس کا نام پڑھتے ہوئے کہا۔
’’میڈم! میں بہت پریشان ہوں، میری آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی، تین بچوں کو لے کر کسی غیر مسلم کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔‘‘ اس کی آواز میں لرزہ تھا۔
’’کیا کہا؟ حاملہ خاتون تین بچوں کے ساتھ فرار ہو گئی؟ لیکن کیوں؟ تم نے کیا کیا تھا اس کے ساتھ؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں نے کچھ نہیں کیا میڈم! میں تو گھر پر تھا بھی نہیں، میری غیر موجودگی میں اس نے ایسا غلط قدم اٹھایا۔ آپ کچھ بھی کر کے مجھے میری بیوی بچے واپس دلا دیں، ورنہ میری زندگی برباد ہو جائے گی، میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔‘‘ وہ کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
میں نے اسے ٹشو پیپر دیا اور پانی کا گلاس جسے اس نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ ’’پی لو بہتر محسوس کرو گے۔‘‘ میں نے گلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میڈم جی! بیوی نے ایسی حرکت کی ہے کہ اب تو زہر پینے کا من کر رہا ہے۔‘‘ اس نے گلاس ٹیبل پر پٹخ دیا۔
میں نے اسے ایموشنل منیجمنٹ کے دو مشق کروائے۔ اس کے بعد تفصیلی گفتگو کے ذریعہ حقائق کا جائزہ لیا۔ اغلب ایک مزدور پیشہ انسان ہے۔ جو سات سال پہلے روزی روٹی کی تلاش میں یوپی سے نقل مقام کر کے اپنی بیوی کے ساتھ حیدر آباد میں آ کربس گیا۔ یہاں وہ ٹھیلے پر ترکاری بیچتا ہے، اور اپنے بیوی بچوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اغلب کے والدین یوپی کے کسی قصبے میں رہتے ہیں۔ عرصۂ دراز سے وہ اپنے والدین سے نہیں ملا تھا۔ لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ جنوری کے مہینے میں وہ اپنے والدین سے ملنے ضرور جائے گا۔ اس بات کا اظہار بیوی بچوں سے کیا تو وہ بھی ساتھ چلنے کی ضد کرنے لگے، لیکن اغلب کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ سب کو ساتھ لے جاتا، لہٰذا وہ تنہا چلا گیا۔ وہ گیا تو تھا ایک ہفتہ کے لیے، لیکن جانے کے بعد ناگزیر حالات کی وجہ سے اسے وہاں دو مہینے کے لیے رکنا پڑا، اور اس دوران اسے اپنی بیوی کے فرار ہونے کی روح فرسا خبر ملی، جسے سنتے ہی وہ دوڑا چلا آیا، اور پولیس میں رپورٹ لکھوا دی، کیونکہ اس کی بیوی کا فون بھی بند آ رہا تھا۔ مرد یہ قدم بہت جلد اٹھاتا ہے، جب کہ خواتین پولیس کی مدد لینے کے بارے میں ہزار بار ہزار زاویوں سے سوچتی ہیں، اس کے بعد بھی ہچکچاتی ہیں، ڈرتی ہیں، گھبراتی ہیں تب کہیں پولیس اسٹیشن جاتی ہیں۔
’’یہ کام تم نے اچھا کیا کہ پولیس کی مدد لی۔ وہ لوگ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ جس وقت وہ پولیس تھانے آئے، آپ کے پاس سے کوئی میرے ساتھ ہو، کیونکہ میرا دماغ ماؤف ہو گیا ہے، مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہاں کیا ہو گا؟ میں کیسے ان حالات کا سامنا کر پاؤں گا؟‘‘ وہ بہت بے چین تھا، اور حواس باختہ بھی، جیسے جرم اس کی بیوی نے نہیں بلکہ اس نے کیا ہو۔
’’ٹھیک ہے، ہماری ٹیم سے رخشندہ میڈم پہنچ جائیں گی، تم اطلاع کر دینا۔‘‘ میں نے اسے ڈھارس بندھائی تو وہ چلا گیا۔
دو دن بعد رخشندہ نے مجھے رپورٹ کیا کہ وہ اغلب کی اطلاع پر پولیس اسٹیشن گئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ الماس (اغلب کی بیوی) اور اس کے بچے سنجو کی بائک پر سوار ہو کر پولیس اسٹیشن پہنچے، سنجو دیکھنے میں گبرو جوان لگ رہا تھا، پولیس اسٹیشن میں الماس نے بیان دیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، فی الحال جہاں کہیں بھی وہ رہ رہی ہے وہ جگہ اس کے اور بچوں کے لیے محفوظ ہے اور بچے بھی وہاں خوش ہیں۔ بچوں سے بیان لیا گیا تو بچوں نے بھی اپنے باپ کے گھر جانے سے صاف انکار کر دیا۔ الماس اور بچوں کو سنجو نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ بیانوں کو سننے کے بعد پولیس نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ الماس اگر اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو کوئی بھی اسے رہنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا، اور چونکہ بچے بھی اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں، لہٰذا وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ ہی رہیں گے۔ یہ سن کر اغلب دیوانہ وار دیوار سے اپنا سر ٹکرانے لگا، چیخنے چلانے لگا کہ پولیس کا فیصلہ غلط ہے، جب کہ خود اس کی بیوی اس کے خلاف تھی۔ حسب توقع پولیس نے رخشندہ کو الماس سے ملنے کی اجازت نہیں دی، لیکن اس کے پاس پلان بی تیار تھا، جس وقت الماس واپس جانے کے لیے پولیس کی جیپ کی طرف بڑھ رہی تھی تو رخشندہ نے پولیس کی نظریں بچا کر میرا وزیٹنگ کارڈ اسے تھما دیا اور کہا: ’’کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ نوشین میڈم سے بات کر لینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا یہ فیصلہ زندگی بھر کے لیے پچھتاوا بن جائے۔‘‘ اس نے کارڈ کو پرس میں ڈالا اور آگے بڑھ گئی۔
دو دن بعد اس کا فون تو آیا لیکن وہ آفس آنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسے قائل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی، دین کا واسطہ دینا پڑا، تب کہیں جا کر وہ ہماری آفس آنے کے لیے راضی ہوئی۔
ایک ہفتہ بعد الماس میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے داخل ہوتے ہی بھینی بھینی سی خوشبو کیبن میں مہکنے لگی۔ تیکھے نقوش، کھلتا ہوا رنگ، سرمئی رنگ کا برقعہ پہنے ہاتھ میں چھوٹا سا پرس تھامے حاملہ ہونے کے باوجود وہ بڑی جاذب نظر لگ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ماڈرن طرز کے خوش رنگ لباس میں ملبوس اس کے بچے بھی موجود تھے، جو بہت ہی خوبصورت تھے۔ الماس اور بچوں کو دیکھ کر بالکل بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی ٹھیلے والے کے بیوی بچے ہوں گے، بلکہ وہ کسی مڈل کلاس خاندان کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ میں نے کچھ دیر بچوں سے باتیں کیں، پھر انہیں چاکلیٹس اور ڈرائینگ شیٹس دے کر باہر بھیج دیا، تاکہ دوران گفتگو وہ ہمارے درمیان نہ رہیں۔ ایسی باتیں بچوں کے ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں۔ الماس کے ساتھ میرا سیشن تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔ اس کو اعتماد میں لے کر مسئلہ کی جڑ تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ دو گھنٹے کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ:
الماس کا تعلق بھی یوپی سے ہی ہے۔ اس نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی جب کہ اغلب ناخواندہ تھا، چونکہ اس کا شوہر بھی اسی کی برادری سے تعلق رکھتا تھا اور جہیز کی مانگ نہ تھی، اس لیے اس کے شادی اغلب سے کر دی گئی۔ شوہر کا بیوی کو وقت نہ دینا، عدم توجہی، عدم التفات، غصہ کی زیادتی، گالی گلوچ کرنا، شک کرنا، کبھی کبھار ہاتھ اٹھا دینا، رشتہ داروں سے ملنے پر پابندی وغیرہ ایسی حرکتیں تھیں جس کا مقابلہ وہ سات سالوں سے کرتی آ رہی تھی، لیکن جو سب سے اہم وجہ تھی، جس کی بنیاد پر الماس گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئی، وہ تھی ’’پاکی صفائی۔‘‘
’’میڈم! جب سے ہماری شادی ہوئی میں ایک ہی بات اسے سمجھاتی رہتی ہوں کہ صاف ستھرے رہا کرو، لیکن یہ بندہ تو کئی کئی دن تک نہیں نہاتا، حاجت غسل ہو تب بھی نہیں نہاتا، جب کہ میں اس کے لیے غسل خانے میں گرم پانی، صابن، تولیہ سب کچھ رکھ دیتی ہوں۔ پھر بھی نہیں نہاتا۔‘‘ اس کے لہجے میں کراہیت کا عنصر نمایاں تھا۔
’’وجہ کیا ہے؟ کیا پانی سے اس کوڈر لگتا ہے؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’ایسا کچھ بھی نہیں ہے، کاہلی سمجھ لیجیے، صفائی کی عادت نہیں، میں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئی کہ صاف ستھرے انسان کو ہر کوئی پسند کرتا ہے، جب کہ گندے شخص سے ہر کوئی دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے باوجود نہ وہ طہارت کا خیال رکھتا ہے نہ ہی صفائی کا، اس لیے جب وہ میرے قریب آتا ہے تو مجھے اس سے گھن آنے لگتی ہے۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ میرے پاس آنا ہو تو صاف ستھرے آنا ورنہ مت آنا۔ اس بات پر اسے بہت غصہ آتا ہے، اور پھر ہمارے درمیان لڑائی جھگڑا شروع ہو جاتا ہے اور وہ مجھ پر ہاتھ بھی اٹھاتا ہے۔‘‘ وہ بغیر رکے بولے جا رہی تھی۔
’’میری خواہش ہے کہ میرا شوہر پاک صاف رہے، بال بنائے، خوشبو کا استعمال کرے، اور سستا ہی سہی لیکن ڈھنگ سے سلے کپڑے پہنے۔
اکثر شوہر اپنی بیویوں کو اپنی مرضی کے کپڑے پہناتے ہیں، اور انھیں سجے سنورے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، لیکن اغلب کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ میں اپنے شوہر کے لیے کپڑے خرید کر لاتی ہوں، چار ماہ پہلے سلوانے کے لیے درزی کو دیا تھا، ابھی تک وہیں پڑے ہیں، پہننا تو دور کی بات ہے لایا تک نہیں۔ جب کہ سنجو اس کے بر عکس ہے، وہ کوڑا چننے کا کام کرتا ہے، لیکن کام کے بعد نہا کر ایسا تیار ہوتا ہے کہ ہیرو لگتا ہے، اس کے پاس سے کوڑے کی نہیں بلکہ عطر کی خوشبو آتی ہے۔‘‘ وہ اپنے شوہر کا موازنہ ایک غیر مسلم کنوارے شخص سے کر رہی تھی، جس کے جال میں وہ پھنس چکی تھی۔
’’تمہاری سنجو سے ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟‘‘ میں اصل مقصد کی طرف آ گئی تھی۔
’’اغلب آٹھ دن کا کہہ کر مجھے میرے والدین کے پاس چھوڑ کر چلا گیا، اور واپسی کی کوئی خبر نہیں، روزمرہ کے خرچہ کے لیے پیسے بھی نہیں دیئے، میرے والدین کا انحصار بھی بھائی پر ہے اور بھائی بھی مزدوری کرتا ہے۔ اس کی آمدنی اس کے خاندان کے لیے ہی ناکافی ہے، وہ بھلا میرا خرچ کب تک اٹھائے گا؟ لہٰذا، مجھے اس حالت میں بھی کام کے لیے نکلنا پڑا۔‘‘ اس کی آنکھیں بھرنے لگیں تھیں۔
’’سنجو سے میری ملاقات ویسٹ مینجمنٹ کے کارخانے میں ہوئی، جہاں مجھے جمع کیے ہوئے کوڑے کو اس کی قسم کے حساب سے الگ کرنے کا کام دیا گیا تھا۔ وہ بہت ہمدرد اور مخلص ہے۔ مجھے اس حالت میں کام کرتا دیکھ کر اسے مجھ پر بہت ترس آتا۔ کہنے لگا اسے اگر موقع ملے تو وہ مجھے اس حالت میں کام ہی نہ کرنے دے اور ہر قسم کا آرام بہم پہنچائے۔ وہ میرے بچوں کی ذمہ داری لینے کے لیے بھی راضی ہو گیا۔ اس نے اسلام قبول کر کے مجھے اپنانے کی پیشکش کی تو میں انکار نہ کر سکی۔ تپتی دھوپ میں ریگستان پر برہنہ پا چلنے والوں کے لیے کھجور کے درخت کا سایہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اغلب کا رویہ میرے لیے نا قابل برداشت ہو رہا تھا، اس لیے اس موقع کو غنیمت جان کر میں نے اٹیچی میں کپڑے بھرے بچوں کو لیا اور سنجو کے گھر چلی گئی۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی نظروں کو جھکا لیا۔
اُف! یہ بات کتنی تکلیف دہ تھی کہ ایک عورت شوہر کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے تب بھی ظلم سہے۔ الماس نے اپنی بپتا سنا دی تھی۔ اب مجھے اپنا کام شروع کرنا تھا۔ میں نے اسے پہلے تو بریتھنگ ایکسرسائز کروائی، تاکہ وہ تھوڑا ریلیکس ہو جائے۔ اس کے بعد اس کے ذریعہ لیے جانے والے فیصلے اور اس کے دور رس نتائج کا نقشہ اس کے سامنے پیش کیا، جس کا اسے اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد الماس کو بتایا گیا کہ غیر مسلم جو کہ پاکیزگی کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی عمل کرتے ہیں جب کہ دین اسلام صفائی اور پاکیزگی کی بنیاد پر ہی حلال اور حرام میں تفریق کرتا ہے، شریعت کے مطابق وہ جو کر رہی ہے وہ حرام ہے۔ اگر اسے شوہر سے اختلاف ہے اس کے ساتھ گزارہ ممکن نہیں تو اسلام اسے خلع کی اجازت دیتا ہے۔ پھر عدت کے بعد کسی نیک مسلمان بندے سے وہ عقد ثانی کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے بھی اسے وضع حمل تک رکنا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ الماس کو موجودہ سیاسی حالات، مسلمانوں کے تحت غیر مسلم سنگھی جماعتوں کی سازشیں اور اس سے محفوظ رہنے کی ترغیب بھی دی گئی۔ سیشن کے بعد الماس کے چہرے پر تذبذب، پریشانی اور مایوسی کے سارے آثار دکھائی دے رہے تھے۔
’’میں اپنے شوہر کے گھر واپس جا رہی ہوں۔‘‘ وہ صحیح فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اغلب نے سنا تو وفور جذبات سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ہم نے اغلب کی ذہن سازی کے لیے ’’صحت و صفائی‘‘ کے موضوع پر ہفتہ وار سیشن پلان کیے، اور الماس چونکہ حاملہ تھی تو اس کے لیے آن لائن سیشن پلان کیے گئے۔ دونوں میاں بیوی نے پابندی سے سیشن میں حاضر رہنے کا وعدہ کیا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ یہ سیشنز ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا باعث بنیں گے، ان شاء اللہ۔
سوالات
(1) دینی مدارس اور جماعتوں کو سماج کے نچلے طبقہ کے ہر فرد تک رسائی حاصل کرنے اور ان کی تربیت کرنے کے لیے موجودہ لائحۂ عمل میں کس قسم کی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے؟
(2) پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ اس پر عمل آوری کو یقینی بنانے کے لیے کس قسم کے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
(3) بیوی بچوں کی کفالت شوہر کے ذمہ ہوتی ہے۔ کسی بھی حالات میں اپنی ذمہ داری کسی اور کے سپرد کرنا کہاں تک درست ہے؟
٭٭٭
رواجوں کے غلام
اس نے بائیں ہاتھ سے اپنے پیٹ کو پکڑ رکھا تھا، دھیرے دھیرے چلتے ہوئے وہ میرے کیبن میں داخل ہوئی۔
’’السلام علیکم!‘‘ اس نے سیدھا ہاتھ اٹھا کر مجھے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں نے کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ فوراً بیٹھ گئی اور اپنی سانسیں درست کرنے لگی۔ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی۔ اس نے بھی سلام کیا اور وہ بھی کرسی پر بیٹھ گئی، اور میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اس نے کہنا شروع کر دیا۔
’’میڈم! میری بیٹی حاملہ ہے۔ اس کا چھٹا مہینہ چل رہا ہے، اور اس کی ساس ہسپتال کی فائل ہمیں دینے سے انکار کر رہی ہے۔‘‘
’’بڑی عجیب بات ہے۔ بہو کے علاج کی فائل سے ساس کو بھلا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ جو وہ فائل نہیں دے رہی ہے۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’فائدہ کی کوئی بات نہیں، انھیں تو میری ماں سے بدلہ لینا ہے۔‘‘ زینت غصہ سے بول پڑی۔
’’بدلہ؟ کس بات کا بدلہ؟‘‘
’’در اصل شروع سے ہی میری ساس کی ضد تھی کہ میرا علاج اور ڈیلیوری کسی بڑے نامی گرامی پرائیویٹ ہسپتال میں ہو۔ سرکاری ہسپتال میں نہیں۔‘‘ زینت نے وجہ بتائی۔
’’ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ ابھی تک ہم شادی کا قرض ہی ادا نہیں کر پائے تھے کہ زچگی کا خرچ آن پڑا، کیسے اور کہاں سے ہو گا یہ سب؟ یہی سوچ کر حسب استطاعت میں زینت کا علاج سرکاری ہسپتال میں کرواتی رہی۔ اس کی ساس کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ فی الحال تو علاج یہاں ہونے دیں۔ زچگی کے وقت دیکھا جائے گا۔‘‘ زینت کی والدہ کی آواز میں مجبوری جھلک رہی تھی۔
’’جب تم اپنی میکے جا رہی تھیں اس وقت فائل نہیں لے گئیں تھیں؟‘‘ میں نے زینت سے پوچھا۔
’’گود بھرائی کی رسم کے بعد جب میں زینت کو اپنے گھر لا رہی تھی، تب زینت اپنی فائل ڈھونڈنے لگی تو فائل مل ہی نہیں رہی تھی۔ رات زیادہ ہو رہی تھی تو زینت کی ساس نے کہا کہ تم اب جاؤ میں کل ڈھونڈ کر بھیج دوں گی، اور ہماری غلطی بس اتنی تھی کہ ہم نے ان کی بات پر بھروسہ کر لیا۔‘‘ زینت کی والدہ کو اس بات کا بہت افسوس تھا۔
’’دوسرے دن فون کیا تو وہ مجھ سے جھگڑنے لگیں کہ ان کے منع کرنے کے باوجود ہم نے زینت کا علاج اب تک سرکاری ہسپتال میں کروایا اور ڈیلیوری کا کارڈ بھی وہیں کا بنوایا۔‘‘
’’میں نے انھیں اپنے حالات بتانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ نہ کچھ سننا چاہتی تھیں نہ ہی سمجھنا۔ انھوں نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔‘‘
’’زینت! اس بارے میں تم نے اپنے شوہر سے بات کی تھی؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’ہاں! کئی مرتبہ میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی، وہ ہر وقت یہی کہتے کہ ہمارا پہلا بچہ ہے، اس لیے میرا علاج بڑے پرائیوٹ ہسپتال میں ہی ہونا چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو بہت لاپرواہی ہوتی ہے۔ ان ہسپتالوں سے بچوں کے چوری ہونے اور بچوں کی تبدیلی کے بھی کئی واقعات سننے میں آتے ہیں۔‘‘
’’حادثے کبھی کبھار ہوتے ہیں۔ ہمیشہ اور ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتے۔‘‘
’’ہاں! وہ یہ بات مانے تب ناں!‘‘
’’بتاؤ ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
’’میڈم! کسی بھی طرح سے ہمیں وہ ہسپتال کی فائل دلوا دو، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘ زینت کی ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔
میں نے زینت کے شوہر رفیق کو فون ملایا۔
’’کون ہے؟‘‘ لہجہ بڑا تلخ تھا۔
میں نے اپنا تعارف پیش کر کے اس سے گزارش کی کہ اسے اپنی بیوی کی فائل دے دینی چاہیے، تاکہ اس کا علاج ہو سکے۔
’’آپ نہ تو ہماری رشتہ دار، نہ جان نہ پہچان، نہ ہی ہماری شادی میں شریک تھیں، تو پھر آپ ہمارے نجی معاملہ میں دخل دینے والی ہوتی کون ہیں؟‘‘ وہ جہالت پر اتر آیا تھا۔
’’کسی خاتون کے اپنے ہی اگر اس کا حق تلف کرتے ہیں تو پھر اس کے حقوق کے حصول یابی کے لیے غیروں کو میدان میں اترنا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے بھی تلخی سے جواب دیا۔
’’ہاں ہاں سمجھ گیا۔ آپ لوگ این جی او والی ہو ناں، اس لیے ہمیشہ حق کی بات کرتی رہتی ہو، وہ بھی صرف عورتوں کے حقوق کی۔ مرد تو بے چارہ لگتا ہے کہ نا حق ہی پیدا ہوا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، آپ حق کی بات کر رہی ہو ناں تو یوں ہی سہی، چلیے یہ تو بتائیے کہ کون ساحق کھا لیا میں نے زینت کا؟ ویسے بھی میں اس کا شوہر ہوں اور وہ میری بیوی۔ یہ ہم دونوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ آپ کو ہمارے بیچ میں دخل اندازی کا حق کس نے دیا؟‘‘ وہ بے جا بحث کرنے لگا۔
’’کتنی بار بتانا پڑے گا کہ میں کون ہوں؟ اور حدیث بھی تو ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ اس طرح تو میں زینت کی بہن ہوئی، اور اسی ناتے سے میں تم سے بات کر رہی ہوں۔ یہ اس کی صحت اور تم دونوں کی اولاد کا معاملہ ہے، سمجھے؟ زینت کی فائل اس کے گھر پہنچا دینا۔ اسے کل ہسپتال جانا ہے۔ اس کا چیک اپ ہے، اور ٹیکہ بھی لگوانا ہے۔‘‘ میں نے زور دے کر کہا۔
’’ٹھیک ہے، ان شاء اللہ۔‘‘ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
’’زینت! اب اطمینان سے گھر جاؤ، شام یا پھر کل صبح تک رفیق تمہارے گھر پر فائل پہنچا دے گا۔‘‘ میں نے زینت کو دلاسہ دیا۔
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ لا کر دے گا؟ اور اگر نہیں لایا تو؟‘‘ اس کا انداز غیر یقینی تھا۔
’’یقین تو نہیں، امید ضرور ہے، اور اگر نہیں لایا تو ہمارے پاس پلان بی ہے۔‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’پلان بی؟‘‘ اس نے استفہامیہ نظروں سے میری جانب دیکھا۔
’’وہ تو کل ہی پتہ چلے گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ماں اور بیٹی دونوں واپس چلی گئیں۔
دوسرے دن صبح 11 بجے زینت کا فون آیا کہ فائل اس تک نہیں پہنچی۔ اس کا ڈر سچ ثابت ہوا۔ میں نے رفیق کو فون لگایا تو پتہ چلا کہ اس نے مجھے بلاک کر دیا ہے۔ مختلف فونس کے ذریعہ کالز کی گئیں۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ شاید اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ انجانے نمبر کی کوئی بھی کال ریسیو نہیں کرے گا۔ ہمارا خدشہ جو لگا ہوا تھا۔ اب ہمیں پلان بی پر عمل کرنا تھا۔
پلان کے مطابق ایک گھنٹہ بعد انجم (اس علاقے کی آشا ورکر) زینت کے سسرال پہنچ گئی۔ اس نے اپنا تعارف پیش کر کے کہا کہ زینت کا علاج ان کے ہیلتھ سنٹر پر ہو رہا ہے۔ آج اس کو چیک اپ کے بعد ٹیکہ لگانا تھا، لیکن اس کے پاس میڈیکل فائل ہی نہیں تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ آپ کے پاس ہے۔ ڈاکٹر نے وہ فائل منگوائی ہے۔ آپ براہ مہر بانی وہ فائل میرے حوالے کر دیں۔
زینت کی ساس نے فائل انجم کو دینے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگیں: ’’اپنی ڈاکٹر سے کہنا کہ زینت کی ڈیلیوری پرائیویٹ ہسپتال میں کروانا ہے۔ ان کے پاس نہیں۔ اس لیے اب انھیں اس فائل کی کوئی ضرورت نہیں پڑنے والی۔‘‘ اس نے نہایت بے رخی سے کہا۔
’’کیا آپ اپنی بہو کے والدین کی مالی حالت سے واقف نہیں؟ وہ لوگ غریب ہیں، پرائیویٹ ہسپتال میں ڈیلیوری نہیں کروا سکتے۔ آپ ان کے بارے میں بھی تو کچھ خیال کریں۔‘‘ انجم نے انھیں احساس دلانا چاہا۔
’’ان سے زیادہ تو مجھے تم پریشان لگ رہی ہو۔ یہ سب چھوڑو اور اپنا کام سنبھالو۔ ان لوگوں کو ہم سنبھال لیں گے۔‘‘ ساس نے گردن اکڑا کر جواب دیا اور انجم کو وہاں سے خالی ہاتھ لوٹا دیا۔
’’میڈم! انجم رپورٹنگ، پلان بی ناکام ہو گیا۔‘‘ انجم نے فون پر بتایا۔ میں نے انجم سے بات کر کے فون رکھا ہی تھا کہ زینت کا فون آ گیا۔
’’میڈم! کیا میری فائل نہیں ملے گی؟ فائل نہیں ہونے کی وجہ سے مجھے ٹیکہ بھی نہیں دیا گیا۔‘‘ زینت مایوس ہو گئی تھی۔
’’مایوس مت ہو زینت! میں کچھ اور سوچتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے دلاسہ دیا۔
’’میڈم! ہم بہت امید لے کر آپ کے پاس آئے تھے۔ میری پھوپھی زاد کا مسئلہ بھی آپ ہی نے سلجھایا تھا۔ اسی نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا تھا۔‘‘ اپنے مقصد میں کامیابی ملتی نظر نہیں آتی تو پھر لوگ حوالے دینا شروع کر دیتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ حوالہ سے کام ضرور بن جائے گا۔
’’دعا کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، تم حق پر ہو تو جیت یقیناً تمہاری ہی ہو گی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میں نے فون رکھ دیا، اور اپنے میز کی دراز سے کرین بیریز کا ڈبہ نکالا اور انہیں کھاتے ہوئے پلان سی کے بارے میں سوچنے لگی۔
اس بار میں نے زینت کی ساس کو فون لگایا۔ اس نے فون اٹھایا تو تمہیدی گفتگو کے بعد میں نے کہا: ’’آپ نے ڈیلیوری کے لیے زینت کو اس کی والدہ کے پاس کیوں بھیجا؟ آپ اسے اپنے گھر میں رکھ کر اپنی پسند کے ہسپتال میں علاج کروا لیتیں تو بہتر تھا۔‘‘ میری بات سن کر وہ چراغ پا ہو گئیں اور کہنے لگیں: ’’لڑکی کی پہلی ڈیلیوری کی ذمہ داری اس کے والدین کی ہے تو میں بھلا اسے اپنے پاس کیونکر رکھتی؟‘‘
’’آپ سے یہ کس نے کہا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کسی کے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو صدیوں سے چلتا ہوا رواج ہے۔ میری ماں نے میری ڈیلیوری کی تھی، میں نے اپنے بیٹیوں کی ڈیلیوری کی، خاندان، رشتہ دار سب کے پاس ایسا ہی تو ہوتا ہے۔‘‘ اس نے عمومی نظریہ پیش کیا۔
’’میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میری بہو بھی ڈیلیوری کے لیے اپنے والدین کے گھر چلی گئی تھی، اس لیے کہ ڈیلیوری کے دوران بہو کی خدمت کرنا ساس پر فرض نہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی طرف سے مجھے کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچے، لیکن حاملہ ہونے کے بعد پہلے مہینے سے ڈیلیوری تک میرا بیٹا ہی اپنی بیوی کو چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جاتا تھا، اور ڈیلیوری کا سارا خرچ بھی اسی نے اٹھایا، کیونکہ شریعت کے مطابق لڑکی کی ڈیلیوری و دیگر اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے، نا کہ اس کے والدین پر۔‘‘
’’اچھا! آپ کی بات چھوڑیے، آپ کے بیٹے واحد ہیں جنھوں نے ایسا کیا، ہر کوئی تو نہیں کرتا ناں، اور پھر والدین تو بیٹی پر خرچ کرتے ہی ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے؟‘‘ اسے میری بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی۔
’’پہلی ڈیلیوری کو لڑکی کے والدین کی ذمہ داری سمجھنا اور ان پر مالی بوجھ ڈالنا یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔‘‘ میں نے اسے قائل کرنے کی ایک اور کوشش کی۔
’’ٹھیک ہے، ابھی تو میرا بیٹا گھر پر نہیں ہے۔ وہ آئے گا تو میں اس سے بات کرتی ہوں۔ خدا حافظ!‘‘
’’ایک بات دھیان سے سن لیں! اور اپنے بیٹے کو بھی بتا دیں۔ کل تک اگر زینت کی میڈیکل فائل اس تک نہیں پہنچی تو پھر مجھے قانونی کار روائی کرنی پڑے گی۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ فون رکھتی، میں نے اسے آگاہ کیا۔
’’آپ قانون کو بیچ میں کیوں لا رہی ہیں؟‘‘ پولیس کا نام سن کر وہ گھبرا گئی تھی۔
’’اب کیا کریں؟ میں تو ایسا بالکل بھی نہیں چاہتی۔ آپ لوگ ہی فائل نہیں دے کر مجھے پولیس کی مدد لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘
’’آپ ایسا کچھ مت کریں۔ رفیق کے گھر آتے ہی میں فائل بھیج دیتی ہوں۔‘‘ اس نے دبے دبے لہجہ میں کہا، اور فون رکھ دیا۔
رات کے گیارہ بجے زینت کا میسیج آیا۔
’’میڈم! آپ کا بہت بہت شکریہ، میری فائل مجھے مل گئی۔‘‘ اس کی آواز سے اس کی خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔‘‘
’’الحمد للہ! اطمینان رکھو! ہمارے پاس پورے دو ماہ کا وقت ہے۔ دو ماہ کے عرصہ میں ہم لوگ تمہارے شوہر کی ذہن سازی کریں گے۔ اسے دین سے جوڑ کر شوہر کے حقوق و فرائض کے بارے میں تربیت دیں گے، تاکہ تمھاری ڈیلیوری کا خرچ بھی تمہارا شوہر ہی ادا کرے۔ ان شاء اللہ!‘‘
’’سچ میڈم! کیا ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہی ہونا بھی چاہیے۔ تم دعا کرو، میں کوشش کرتی ہوں۔ کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے۔‘‘
’’ضرور میڈم! میں دعا کروں گی، اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ کو مٹھائی بھی کھلاؤں گی۔‘‘ وہ خوشی سے باؤلی ہو رہی تھی۔
’’ان شاء اللہ! اپنا خیال رکھنا! اللہ حافظ!‘‘
سوالات
(1) کیا قدیم رسم و رواج کو اپنانا ضروری ہے؟
(2) ظلم و تشدد اور نا انصافی کو فروغ دینے والی ایسی روایتوں کو ختم کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر کردار کون ادا کر سکتا ہے؟ اور کیسے؟
(3) کالجز اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ قدیم روایات اور ان سے ہونے والے فائدے / نقصانات پر مذاکرے کرنا کہاں تک ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
٭٭٭
ٹشو پیپر
کیا ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کے لیے عارضی رہائش گاہوں کی ضرورت نہیں، جہاں وہ کچھ دن سکون سے رہ کر تناؤ سے آزاد ہوں اور اپنے مستقبل کے بارے میں بہتر فیصلہ لے سکیں!
انیلا میرے سامنے والی کرسی پر براجمان تھی۔ گود میں 8 ماہ کا گول مٹول صحت مند بچہ تھا، جس کے گال پر کاجل کا بڑا سا ٹیکہ لگا ہوا تھا۔ میں نے جب اسے پچکارا تو وہ کھکھلا کر ہنسنے لگا۔ میں نے ٹیبل پر رکھے ٹافی باکس میں سے ایک ٹافی نکال کر اسے دی تو وہ ٹافی کے ریپر کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی ایک خاتون کیبن میں داخل ہوئی اور اس بچے کو اٹھا کر باہر لے جانے لگی۔
’’یہ……….؟‘‘
’’میری ماں ہے ……..‘‘ اس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے کہا۔
انیلا کی عمر 20۔ 22 سال ہو گی۔ پر کشش صورت اور گوری چٹی رنگت، لیکن اداس چہرہ۔
’’میڈم! کیا عورت ٹشو پیپر ہوتی ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتی، اس نے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
’’نہیں تو! عورت تو رحمت ہے۔ اللہ کے طرف سے نعمت ہے۔ دیکھو تمہارے قدموں تلے تو جنت ہے۔ تم ماں جو ہو۔‘‘
میں نے اسے دلاسہ دینا چاہا۔
’’اگر میں رحمت ہوتی تو وہ میری قدر کرتا۔ نعمت ہوتی تو شکر ادا کرتا۔ جنت تو خیر آخرت کی بات ہے، لیکن فی الحال اس نے میری زندگی جہنم بنا کر رکھ دی۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے بھی روکا نہیں اور لاوا بہتا رہا۔
’’پانی……۔‘‘جب اس کے دل کا سارا غبار نکل گیا تو میں نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
وہ دھیرے دھیرے پانی کے گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے لگی اور پھر اس نے کہنا شروع کیا:
’’میری ماں نے 20 سال میں میری شادی ایک ایسے شخص سے کر دی جو شادی کے لائق ہی نہیں تھا۔ نتیجہ 6 ماہ کے بعد ہی اس نے مجھے طلاق دے دی۔ یہ میری شادی شدہ زندگی کا پہلا المیہ تھا۔ میں نے فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیا تھا۔ طلاق کے بعد اپنے اخراجات کی بھر پائی کے لیے میں ایک بوٹیک میں ماہانہ دس ہزار تنخواہ پر ملازم ہو گئی۔ اسی بوٹیک میں وقاص نامی ٹیلر کام کرتا تھا۔ وہ مجھے پسند کرنے لگا نے۔ اس نے مجھ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں تو ابھی پہلی شادی کے دھوکے سے نکل بھی نہیں پائی تھی اور نہ ہی ذہنی طور پر عقد ثانی کے لیے تیار تھی، اس کے باوجود اس نے میرے گھر پہنچ کر میری ماں کو منا لیا تھا۔
’’تم وقاص سے نکاح کیوں نہیں کر لیتیں؟‘‘ ایک دن شام کو بوٹیک سے گھر واپس لوٹتے ہی ماں نے سوال کیا۔
’’وہ تمہارے حالات سے واقف ہے۔ کنوارا ہوتے ہوئے طلاق شدہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ اس سے اچھا رشتہ تمہیں کہاں ملے گا؟‘‘
ماں وقاص سے میرے نکاح کروانے کے لیے بضد تھیں۔ والد اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ میرے دو بھائی یومیہ مزدوری پر کام کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں، اس میں ان کا گزارہ ہی مشکل سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی گھر گرہستی میں مصروف ہیں۔ ماں کو یہی فکر لاحق تھی کہ ان کے بعد میرا کیا ہو گا؟
میں انہیں مختلف وجوہات کا واسطہ دے کر انکار کرتی رہی۔ لیکن وہ اپنی تدابیر اور حکمت عملی سے مجھے وقاص سے نکاح کرنے کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو ہی گئیں۔
میرا اور وقاص کا نکاح ہو گیا اور ہم دونوں پر مسرت زندگی گزار رہے تھے۔ شادی کے کچھ دنوں بعد میں حاملہ ہو گئی، جس سے ہماری خوشیوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ میری طبیعت میں کسل مندی رہنے لگی۔ الٹیاں بھی بہت ہو رہی تھیں تو وقاص نے مجھ سے ملازمت ترک کروا دی اور بھر پور آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے بھی ان کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ملازمت ترک کر دی تھی اور اپنی صحت پر توجہ مرکوز کرے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی آ گیا جب میں نے اپنے بیٹے ابرار کو جنم دیا۔ مجھے لگا جیسے مجھے دنیا جہاں کی ساری خوشیاں مل گئی ہوں۔
لیکن یہ خوشیاں اس دن عارضی ثابت ہوئیں۔ جس دن وقاص نے یہ انکشاف کیا کہ اس نے دوسرا نکاح کر لیا ہے۔ مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وقاص ایسا بھی کر سکتا ہے۔ کیوں کہ میں نے وقاص کو وہ سب دیا تھا، جس کا وہ متمنی تھا۔ بے لوث محبت، خدمت، عزت، اور اولاد نرینہ۔ اس کے باوجود دوسرا نکاح کرنے کی وجہ، میری سمجھ سے بالا تر تھی۔
’’آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ میں نے اپنے سینے میں پرندے کی طرح پھڑپھڑاتے ہوئے اور دل پر قابو رکھتے ہوئے وقاص سے کہا۔
’’جھوٹ……؟ کیا ضرورت ہے، جھوٹ کہنے کی!‘‘
’’چلو میں تمہیں اس سے ملواتا ہوں۔‘‘ وقاص کا لہجہ پراعتماد تھا۔
میں نے ابرار کو ماں کے پاس چھوڑا اور ہم وقاص کی دوسری بیوی بدیلہ سے ملنے کے لیے نکل پڑے۔
وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گیا، جو ہمارے گھر سے بہت اچھا تھا، بالکل امیروں کے گھر کی طرح۔
بدیلہ سانولی سلونی، دبلی پتلی میری ہم عمر خاتون تھی۔ جب وقاص نے اس سے میرا تعارف کروایا تو وہ آگ بگولہ ہو گئی۔
’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے میرے گھر میں لانے کی؟‘‘
اس ڈائن نے تو تمہیں مجھ سے چھین لیا تھا۔ اب کیا ہڑپنے آئی ہے؟‘‘
وہ چیخنے لگی اور میں حیرانی سے اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم دونوں میں خوب بحث و تکرار ہوئی۔ گالی گلوچ ہوئی۔ بد دعاؤں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد جو حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ ’’وقاص کا مجھ سے عقد ثانی تھا۔ اس نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا کہ وہ کنوارہ ہے۔ بدیلہ اس کی پہلی بیوی ہے۔ اس نے کہہ دیا کہ میں وقاص سے خلع لے کر اسے آزاد کر دوں۔‘‘
’’اور وقاص؟ وہ کیا چاہتا تھا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ ’’وہ کیا چاہے گا میڈم! ٹشو پیپر تو میں تھی نا۔ جس طرح ٹشو میں کوڑا لپیٹ کر پھینکا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح میرے بچے کو میرے آنچل میں لپیٹ کر وہ مجھے سر راہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ ہم سے دست برداری حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ دوبارہ جذباتی ہو گئی تھی اور آنکھیں پھر سے اشک بار ہو گئیں!
اس نے ٹشو پیپر کا لفظ اس طرح استعمال کیا تھا کہ مجھے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ٹشو پیپر دیتے ہوئے بھی جھرجھری سے محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اپنا پرس کھول کر رو مال نکالا اور اسی سے اپنے آنسو خشک کرنے لگی۔
’’چائے پیو گی؟‘‘ میں نے رخ بدلنا چاہا۔
’’نہیں ! اب تو بس زہر پینے کا من کرتا ہے۔‘‘ اس کا لہجہ بڑا تلخ تھا۔
’’میں نے وقاص سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی تھی کہ دھوکہ دینے کے باوجود میں نے اسے معاف کر دیا۔ تاکہ وہ دونوں بیویوں کو اپنے ساتھ رکھے اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔ بدیلہ تو لا ولد ہے۔ لیکن میرے پاس تو پیارا سا بیٹا ہے، جس کی کفالت اس کی ذمہ داری ہے۔ اسے اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ لیکن اس کا فیصلہ اٹل تھا کہ اسے مجھ سے خلع ہی لینا ہے۔
لاک ڈاؤن کے جس دور میں مردوں کے لیے کفن میسر نہیں ہو رہا تھا۔ لوگ نئے کپڑے کیا خریدتے، لہٰذا وقاص کا کام بند ہو چکا تھا۔ بدیلہ چونکہ مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، کپڑوں کی تجارت بھی کرتی ہے، لہٰذا وقاص اس کے پیسوں پر راج کر رہا ہے۔
’’اب آگے کے لیے کچھ سوچا تم نے؟‘‘
میں جاننا چاہتی تھی کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟
میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود شادی کے لیے اس نے مجھے مجبور کیا تھا۔ اس کے باوجود اسے اگر میرا ساتھ منظور نہیں تو وہ مجھے طلاق دے اوربچہ کا نان نفقہ بھی۔ میں اسے خلع نہیں دوں گی۔ مجھے اپنا اور اپنے بچے کا حق چاہیے۔ اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ میں نے اس کی ہمت بندھائی کہ اس کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے میں اس کی مدد کر سکیں۔
اسی دوران اس کی ماں ابرار کے ساتھ واپس آ گئی تھی۔
’’میڈم سن لی نا آپ نے اس کی کہانی۔‘‘ ماں کے لہجے میں درد تھا۔
’’میں تو بیوہ ہوں۔ خدا نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔ لیکن کم از کم میری بیٹی کو تو اس خوشی سے محروم نہ کرتا۔ شاید اس کی قسمت میں شوہر کا سکھ ہی نہیں لکھا۔ اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
ایسا نہ کہیں، مایوسی کفر ہے۔ اللہ کی مصلحت وہی جانے۔ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے خدا کے پاس آپ کی بیٹی کے لیے کوئی بہترین متبادل ہو گا جس سے ہم ابھی بے خبر ہیں۔‘‘
میں نے انہیں تسلی دے کر گھر بھیج دیا۔
دو دن بعد وقاص کو فون کر کے جب میں نے اسے کونسلنگ سینٹر آنے کی دعوت دی تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ ہماری تنظیم سے خوفزدہ تھا۔ اس نے کہا کہ وہ اس بات کا فیصلہ شرعی نظام کے مطابق کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے وہ مذہبی ادارہ (نام مخفی) کو جائے گا اور وہیں اس سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے گا۔
میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری تنظیم بھی شرعی قوانین کے مطابق ہی مصالحت کرواتی ہے۔ وہ ایک مرتبہ آ کر ہم سے مل تولے۔ لیکن وہ اس بات کے لیے ہر گز راضی نہیں تھا۔
انیلا مذہبی ادارہ جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہ بار بار مجھ سے یہی کہہ رہی تھی کہ ’’وہاں خواتین کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ انہیں ٹھیک سے سنا نہیں جاتا اور فیصلے مرد وں کے حق میں ہوتے ہیں۔‘‘
مجھے اس کی باتوں پر بڑا تعجب ہوا۔
’’تم یہ بات کس بنیاد یہ بات پر کہہ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھ ہی لیا۔
’’میرے پڑوس میں ایک لڑکی ہے۔ اس کا شوہر بھی اسے جبراً خلع کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ جب کہ وہ اپنے شوہر کو خلع نہیں دینا چاہتی تھی۔ اسے بھی اسی ادارہ میں بلایا گیا تھا۔ جب وہ واپس آئی تو خلع ہو چکا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہاں اسے ڈرا دھمکا کر خلع کے کاغذات پر جبراً دستخط کروائے گئے۔ جب اس کے ساتھ ایسا ہوا تو اس بات کا کیا یقین ہے کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہو گا؟
مذہبی ادارہ کے متعلق اس کے نظریہ کا پس منظر میں جان گئی تھی۔ میں نے کہا: ’’تم وہاں جاؤ اور اپنے موقف پر قائم رہو۔ تمہیں اپنی مرضی سے فیصلہ لینے کا حق ہے۔ کوئی تمہیں زبردستی خلع لینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘
دو چار دن بعد وہ دوبارہ میرے سامنے موجود تھی۔
’’میڈم! اس ادارے میں ویسا ہی ہوا، جیسا میں نے سنا تھا۔ انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھ سے ہی خلع لینے کو کہتے رہے اور میں انکار کر کے لوٹ آئی۔‘‘
میں نے دوبارہ وقاص سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ ’’اگر انیلا کو مذہبی ادارہ کا فیصلہ منظور نہیں تو، اس کی مرضی۔ وہ چاہے تو عدالت میں مقدمہ دائر کرے۔ جو کرنا ہے کرے لیکن مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔ آئندہ سے مجھے فون نہ کریں !‘‘
میں نے انیلا سے کہا کہ ’’اب ایک ہی صورت ہے کہ تمہارے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیں۔ ہمارے پاس مفت وکیل کی خدمات فراہم ہیں۔ پیسوں کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں اپنا اور اپنے بچے کے نان نفقہ کے لیے لڑنا چاہیے۔ ‘‘
’’فیصلہ ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کم از کم دو سال یا پھر اس سے زیادہ!‘‘
’’دو سال! تب تک میرا گزارہ کیسے ہو گا؟‘‘
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’اللہ پر بھروسہ رکھو۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔
’’انیلا تمہاری کیس شیٹ تیار ہو گئی ہے۔ تمہارے دستخط ہو جائیں تو ہم کیس فائل کر دیں گے۔‘‘ میں نے انیلا کو فون پر اطلاع دی۔
’’نہیں میڈم! مجھے کوئی کیس نہیں لڑنا ہے۔ مانا کہ آپ مفت وکیل کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن عدالت کے چکر کاٹنے کے لیے بھی تو سواری خرچ چاہیے۔ میں تنہا معصوم بچے کو لے کر بھی نہیں جا سکتی۔ ماں کو بار بار ساتھ لے جاؤں تو کام کا ناغہ ہو گا، جس سے ان کی ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان کی تنخواہ پر تو ہمارا گزارہ ہے۔ میں نے خود کو حالات کے حوالے کر دیا ہے۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘‘
انیلا نے ہار مان لی تھی!
سوالات
1۔ وقاص نے نکاح نامے میں عقد ثانی کی جگہ عقد اولیٰ لکھا۔ انیلا کو دھوکہ دیا اس کے لیے کون ذمہ دار؟
2۔ اسلام ایک سے زائد نکاح کی اجازت دیتا ہے، عدل کی شرط کے ساتھ، جس کے لیے بھی انیلا تیار تھی، جب وقاص نے اپنی پسند سے دونوں شادیاں کیں تو پھر دوسری بیوی کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کیوں؟
3۔ جب اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے تو وقاص انیلا کو طلاق دے سکتا تھا۔ انیلا سے جبراً خلع کی مانگ کرنا کیا درست ہے؟
4۔ انیلا ایک فیشن ڈیزائنر ہے۔ جو اپنے ہنر کے ذریعہ اپنی کفالت کر سکتی ہے۔ لیکن اب اس کے کاندھوں پر اپنے 8 ماہ کے بیٹے کی ذمہ داری بھی ہے۔ انیلا کی ماں بھی گھروں میں جھاڑو لگانے اور برتن دھونے کا کام کرتی ہے۔ وہ بھی اپنے نواسے کو نہیں سنبھال سکتی۔ اس لیے بچہ دو ڈھائی سال کا ہونے تک انیلا کہیں بھی ملازمت نہیں کر سکتی۔ ان حالات میں اس کا گزارہ کیسے ہو گا؟
4۔ مذہبی ادارے نے جس بات کے لیے انیلا کو مجبور کیا، کیا وہ صحیح ہے؟
5۔ حکومت کی جانب سے ایسی مصیبت زدہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز ہیں، جہاں خواتین کو رکھا جاتا ہے۔ لیکن وہاں گدھے گھوڑے سب کو ایک ہی چابک سے ہانکا جاتا ہے۔ یعنی وہاں رہنے والی خواتین کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، انہیں سوریہ نمسکار کرنا ہی ہے۔ کھانے سے پہلے وہی منتر پڑھنا ہے، جو انہیں پڑھایا جاتا ہے۔ حرام حلال کی تمیز کے بغیر جو غذا فراہم کی جا تی ہے، وہ کھائیں ہا پھر بھوکے رہیں۔
اسی طرح کے دیگر غیر اسلامی امور کو Uniformity کے نام پر انجام دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ کیا ایسے ماحول میں مسلم خواتین کا رہنا مناسب ہے؟
٭٭٭
ماخذ:
https://haadiya.in/category/%DA%A9%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DA%88%DB%8C
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں