مشہور انگریزی بچوں کی کہانی کا اردو روپ
حسینہ اور دیو
Beauty and the Beast
Tessa Krailling
ٹیسا کریلنگ / اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
حسینہ اور دیو
Beauty and the Beast
Tessa Krailling
ٹیسا کریلنگ
ترجمہ: اعجاز عبید
ایک رئیس تاجر تھا۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں۔ وہ سبھی دیکھنے میں حسین تھیں لیکن سب سے چھوٹی بہت حسین بلکہ لاجواب تھی۔ اس کے بال سنہرے اور لمبے تھے اور اس کی آنکھوں کا رنگ آسمان کی طرح بدلتا تھا۔ جب وہ خوش ہوتی تب اس کی آنکھیں نیلی ہوتیں اور جب وہ اداس ہوتی تو اس کی آنکھیں نم اور سلیٹی ہو جاتی تھیں۔ اس کے والد اسے ‘ میری ننھی حسینہ‘ کہہ کر بلاتے۔ جب وہ بڑی ہوئی تو والد کا دیا ہوا یہ نام ہی اس کے ساتھ لگ گیا اور لوگ اسے ’حسینہ‘ پکارنے لگے۔
’’یہ درست نہیں ہے‘‘ اس کی بڑی بہنوں نے کہا۔ ’’ ہم دونوں بھی اس کے جتنی ہی خوبصورت ہیں۔ آپ ہمیں بھی حسینہ کہہ کر کیوں نہیں بلاتے؟‘‘
’’اس سے کچھ الجھن ہو سکتی ہے‘‘ والد نے کہا۔
’’دیکھو، میں اسے ’حسینہ‘ صرف اس کی جسمانی خوبصورتی کے لیے نہیں، بلکہ اس کے خوبصورت مزاج کی وجہ سے پکارتا ہوں ۔ وہ ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی ہے نوکروں کے ساتھ بھی۔‘‘
’’یہ بکواس ہے!‘‘ بہنوں نے کہا۔
دونوں بہنیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی تھیں، خاص کر نوکروں کے ساتھ۔
اس کے بعد سے دونوں بہنیں حسینہ سے اور بھی حسد رکھنے لگیں۔ وہ حسینہ کے سنہرے اور لمبے بالوں اور اس کی نیلی سلیٹی آکھوں سے جلنے لگیں۔ وہ اس سے اس لئے بھی جلتیں، کیونکہ حسینہ کے بہت سے دوست اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔
ایک دن تاجر ایک بری خبر لے کر گھر لوٹا۔
’’سمندر میں ایک خطرناک طوفان آیا ہے‘‘ اس نے اپنی لڑکیوں کو بتایا ’’اس طوفان میں میرے سارے جہاز ڈوب گئے ہیں۔ میرا سب کچھ لٹ گیا ہے۔‘‘
’’سب کچھ؟‘‘ سب سے بڑی لڑکی کو یقین نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، ’’آپ کا مطلب ہے کہ اب ہم غریب ہو گئے ہیں!‘‘
’’ہم پوری طرح برباد ہو چکے ہیں‘‘ والد نے کہا ’’ہماری اوقات اب شہر میں رہنے کی نہیں ہے۔ ہمیں اس بڑے مکان کو بیچ کر کسی گاؤں میں جھوپڑی بنا کر رہنا ہو گا۔‘‘
’’مگر ہم آخر گاؤں میں کریں گے کیا؟‘‘ دوسری لڑکی نے جھلاتے ہوئے کہا۔ ’’وہاں نہ تو دکانیں ہوں گی نہ ہی پارٹیاں اور نہ ہی مزہ۔ ہم وہاں بور ہو کر مر جائیں گے‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہو گا‘‘ حسینہ نے کہا اور اس نے تسلی دیتے ہوئے اپنے والد کی پیٹھ سہلائی۔ ’’ہم وہاں کھانا پکانے، صفائی کرنے اور باغوں میں کام کرنے میں اتنا مصروف ہوں گے کہ ہمیں بور ہونے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ ‘‘
’’تم اپنی بات کرو حسینہ!‘‘ دونوں بہنوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ہاتھ گندے ہوں اور ناک منہ برباد ہوں۔ تمہارے مشورے کے لیے بہت بہت شکریہ!‘‘
دونوں بہنوں نے کچھ کام نہیں کیا۔ نئے گھر تک سامان ڈھونے کے کام میں انہوں نے حسینہ کی کوئی مدد نہیں کی۔ دونوں بہنیں دوپہر تک پلنگ پر لیٹ کر جماہیاں لیتیں اور گاؤں کی بے مزہ زندگی کا رونا روتی رہتیں۔
مگر حسینہ کو اپنی نئی زندگی میں بڑا مزہ آ رہا تھا۔ وہ فرنیچر کو صاف کرتی، اسے پالش لگا کر چمکاتی۔ وہ پورے خاندان کے لیے مزے دار کھانے بناتی۔ مگر اسے سب سے زیادہ مزہ باغ میں کام کرنے میں آتا تھا۔ وہ باغ میں نئے پودے لگاتی ، خود رو بیکار کے پودے نکالتی اور گلاب کے پھولوں کی دیکھ بھال کرتی۔ ان کاموں میں اسے بیحد خوشی ملتی۔ اس مسرت کی وجہ سے اس کی آنکھیں نیلی اور گہری نیلی ہو گئیں۔ آخر آخر اس کے خوب صورت چہرے پر آنکھیں بالکل نیلم جیسی چمکنے لگیں۔
ٹھیک ایک سال بعد تاجر ایک اچھی خبر لے کر گھر واپس آیا۔
’’ایک جہاز جسے میں سمجھ رہا تھا کہ ڈوب گیا ہے اب محفوظ واپس لوٹ آیا ہے‘‘ اس نے اپنی لڑکیوں سے کہا ’’کل میں بندرگاہ پر جا کر مال بیچنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
دونوں بڑی بہنوں نے والد کے گلے میں بانہیں ڈال کر انہیں چوما۔ ’’ابا جی، پیارے ابا جی! اس کے بعد آپ ہمارے لیے کچھ تحفہ ضرور لائیں!‘‘ انہوں نے التجا کی۔
’’زیور اور نئے کپڑے اور پشمینے کا ایک قیمتی دوشالا۔‘‘
’’میں اپنی پوری کوشش کروں گا ‘‘ تاجر نے وعدہ کیا۔ ’’اچھا حسینہ۔ تمہارے لیے کیا لاؤں؟‘‘
حسینہ نے بہت سوچا۔ آخر اس نے کہا ’’مجھے دنیا میں ایک چیز بہت پسند ہیں۔ اگر آپ میرے لیے ایک خوش نما سفید بھینی خوشبو والا گلاب لا سکیں تو بہت اچھا ہو گا۔‘‘
دونوں بڑی بہنیں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائیں۔ ’’ایک گلاب تو خاص مہنگا نہیں ہو گا!‘‘ شاید اسی وجہ سے حسینہ نے گلاب کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں ابا جی اپنے مال کو من چاہے دام پر نہیں بیچ پائے اور انہیں امید سے کہیں کم پیسے ملیں تو! اور اس کا یہ ڈر صحیح نکلا۔ مال بہت کم قیمت پر بکا اور سب پیسے قرض چکانے میں چلے گئے۔ تاجر جب بندرگاہ سے واپس گھر کو چلا تو اس کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ خبر وہ اپنی لڑکیوں کو کس طرح بتائے گا۔
وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ برف گرنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں ساری زمین پر برف کی سفید چادر بچھ گئی اور سڑک دکھائی دینا بند ہو گئی۔ پھر زور کی ہوا چلی اور وہ ایک بھیانک طوفان میں پھنس کر ادھر ادھر بھٹکنے لگا۔
کچھ گھنٹوں بعد تاجر نے آپ کو ایک جنگل میں پایا۔ وہ کھو گیا تھا۔ وہ ادھر ادھر کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنے لگا مگر وہاں دور دور تک کوئی عمارت نہیں تھی۔ اسے لگا کہ کچھ ہی دیر میں اس کا بدن ٹھنڈ سے جکڑ جائے گا۔ یا پھر اسے بھیڑیے کھا جائیں گے۔
’’کوئی ہے؟ مہربانی کر کے مجھے بچاؤ‘‘ وہ مدد کے لیے چلایا۔ ویسے اس ویران علاقے میں اسے مدد کی کوئی امید ہی نہیں تھی۔
اس کی پکار کے بعد پر اسرار ڈھنگ سے جنگل کی جگہ گھنے پیڑوں کی دو قطاریں کھڑی ہو گئیں۔ نزدیک ہی ایک عالی شان خوب صورت محل کھڑا تھا۔ محل کی کھڑکیوں سے تیز روشنی چمک رہی تھی۔
یہ دیکھ کر تاجر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا۔ وہ جلدی سے محل کے اندر گھسا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ محل میں گھسنے سے پہلے ہی کہیں وہ غائب نہ ہو جائے۔ اس نے اپنے گھوڑے کو اصطبل میں باندھا اور پھر وہ سیڑھیاں چڑھ کر محل کے مضبوط دروازے کے پاس پہنچا۔ وہ دروازہ کھٹکھٹانے والا ہی تھا کہ اچانک جادو سے دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔
تاجر نے اندر جھانک کر دیکھا۔ ’’اندر کوئی ہے؟‘‘
کسی کی آواز نہیں آئی۔ وہ بڑی احتیاط سے ایک بڑے ہال میں گھسا اور پھر وہاں جلتی آگ کے سامنے اپنے ٹھنڈے بدن کو گرمانے لگا۔ پاس ہی میں ایک میز پر مزے دار کھانا لگا تھا جس کی مہک چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ میز پر صرف ایک انسان کے لیے کھانا سجا تھا۔
وہ گھبراتے ہوئے میز کے پاس تک گیا۔ ’’کیا یہ میرے لیے ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اب تک تاجر کی بھوک اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ کھانے کے لالچ کو نہیں روک سکا۔ اس نے بھر پیٹ کھانا کھایا اور پانی پیا۔ کھانے کے بعد اسے بہت تھکان محسوس ہونے لگی اور وہ سونے کے لیے جگہ ڈھونڈنے لگا۔
گھبراتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے اس نے سیڑھیاں چڑھیں۔۔۔ پہلا دروازہ کھولتے ہی وہ ایک بڑے عالیشان کمرے میں داخل ہوا۔ اسے اندر ایک پلنگ دکھائی دیا جس پر بہت ہی نرم تکیہ اور ایک رضائی رکھی تھی۔ کیا یہ میرے لیے ہے اس نے پوچھا۔
اگلی صبح جب وہ اٹھا تب تک تیز دھوپ پھیل چکی تھی۔ اچانک اس کے پلنگ کے پاس رکھی میز پر ایک کپ میں گرم چاکلیٹ کہیں سے آ گئی۔ اس نے گرم چاکلیٹ پی اور پھر سیڑھیوں سے نیچے آیا۔ بڈے ہال میں آنے کے بعد وہ رقعہ اور اس نے چاروں اور دیکھا۔ ’’ہلو اس نے کہا ’’کوئی ہے؟”
کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پھر تاجر نے محل کا بھاری دروازہ کھولا۔ ’’میں آپ کی مہمان نوازی کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس نے اپنے نامعلوم میزبان سے کہا ’’لیکن اب مجھے گھر اپنی بیٹیوں کے پاس لوٹ جانا چاہیئے۔‘‘
محل کا دروازہ اپنے آپ دھیرے سے اس کے پیچھے بند ہو گیا۔ کل پڑی برف عجیب و غریب طریقے سے پگھل گئی اور اس کی جگہ پر ایک خوبصورت گلاب کا باغ آ گیا۔ چلو میں اب حسینہ کے لیے اس کی مانگی چیز تو لے جا سکتا ہوں، اس نے سوچا۔
جو کوئی یہاں رہتا ہے اسے اتنے سارے گلاب کے پھولوں میں سے ایک گلاب کم ہونا نہیں کھلے گا۔
لیکن جیسے ہی اس نے ایک بڑا اور خوب صورت سفید پھول توڑا، اچانک ایک دل دہلانے والی زور دار آواز اٹھی۔ اگلے ہی لمحے اس کے سامنے کے راستے پر ایک دیو آ کر کھڑا ہو گیا۔ دیو کا چہرہ اتنا بھیانک تھا کہ اسے دیکھتے ہی تاجر غش کھا کر تقریباً بیہوش ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
’’نمک حرام بے شرم!” دیو غرایا۔ ’’میری مہربانی کا حساب تم نے اس طرح چکایا میرے پھول کی چوری کر کے؟ تمہیں اس کے لیے تڑپ تڑپ کر مرنا ہو گا۔‘‘
” میں ۔۔۔ میں معافی چاہتا ہوں” تاجر نے ہکلاتے ہوئے کہا ’’میرا نقصان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی، میری پیاری حسینہ کو دنیا میں گلاب کے پھولوں سے سب سے زیادہ پیار ہے۔ اسی لئے میں نے اس کے لیے ایک گلاب کا پھول لے جانے کی سوچی۔ مہربانی کر کے مجھے معاف کر دیں۔‘‘ یہ سن کر دیو چپ ہو گیا۔ وہ بہت دیر تک کچھ سوچتا رہا۔
کچھ دیر بعد ڈرتے ڈرتے تاجر نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ ہمت کر کے جب اس نے سنبھل کر دیو کو دیکھا تو پایا کہ بدصورت ہونے کے باوجود وہ آدمی جیسا سیدھا کھڑا تھا۔ اور اس کی بولی بھی کسی آدمی کی بھاری آواز جیسی تھی۔
’’دیکھو تاجر میں تمہارے ساتھ ایک سودا کر سکتا ہوں‘‘ اس نے کہا ’’تم چاہو تو اس گلاب کو اپنی چھوٹی بیٹی کے لیے لے جاؤ۔ اس سے کہنا کہ اگر وہ میرے ساتھ خود اپنی مرضی سے رہنے آئے گی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا نہیں تو تمہیں مرنا پڑے گا۔‘‘
تاجر تھوڑا ہچکچایا۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی سب سے پیاری بیٹی کسی بدصورت دیو کا شکار بنے۔ مگر اس سودے کو قبول کرنے کا بہانا بنا کر وہ کم سے کم ایک بار گھر جا کر اپنی بیٹیوں سے تو مل سکے گا۔
’’اچھا‘‘ دیو نے پوچھا ’’بتاؤ کیا تمہیں یہ شرط منظور ہے؟‘‘
’’میرے پاس اسے ماننے کے علاوہ اور چارہ ہی کیا ہے؟” تاجر نے ہلکی سی آواز میں کہا ’’اچھا تو تم اب جاؤ دیو نے کہا۔ ’’مگر کل اسی وقت تک تم اپنی چھوٹی بیٹی کو لے کر لوٹنا، نہیں تو سزا ملے گی۔‘‘
پریشان اور دکھی حالت میں تاجر دیو سے رخصت ہوا اور وہ گھر کی طرف چلا۔
تینوں لڑکیاں اپنے ابا کو دیکھ کر بیحد خوش ہوئیں۔ مگر جب دونوں بڑی لڑکیوں کو یہ پتہ چلا کہ ان کے والد خالی ہاتھ ہی لوٹے ہیں تو دونوں غصے میں خوب چلائیں۔ اور جب تاجر نے حسینہ کو وہ گلاب دیا اور اسے پھول کی قیمت کے بارے میں بتایا تو دونوں بڑی لڑکیاں اور زور سے چلائیں۔
’’اس میں پوری طرح حسینہ کی غلطی ہے‘‘ انہوں نے گرجتے ہوئے کہا ’’اگر اس نے اس فالتو گلاب کی مانگ نہ کی ہوتی تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔‘‘
حسینہ کی نیلی آنکھیں مرجھا کر ایک دم گہری اور سلیٹی ہو گئیں۔
’’اس میں میری ہی غلطی ہے، اور مجھے اس غلطی کی سزا ملنی ہی چاہیئے۔‘‘
’’میری پیاری بچی! تمہیں نہیں پتہ کہ تم کیا کہہ رہی ہو‘‘ تاجر نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ’’وہ دیو شاید دنیا کا سب سے بدصورت اور بھیانک جاندار ہو گا۔ میں کبھی بھی تمہیں اس کے پاس جا کر نہیں رہنے دوں گا۔‘‘
’’اگر اسے گلاب کے پھولوں سے پیار ہے تو وہ اتنا خراب ہو ہی نہیں سکتا‘‘ حسینہ نے اپنی ہمت بٹورتے ہوئے کہا ’’ابا جی مجھے اب روکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کل آپ مجھے اس دیو کے محل میں لے چلیں۔‘‘
آخرکار ہار کر تاجر اس بات کے لیے تیار ہو گیا۔ اسے لگا کہ دیو کو دیکھتے ہی حسینہ کا ارادہ بدل جائے گا۔
اگلے دن اس نے اپنی دونوں بڑی بیٹیوں سے رخصت لی۔ لیکن وہ دونوں تحفے نہ ملنے سے اتنی دکھی تھیں کہ انہوں نے جاتے وقت اپنے ابا جی کو چوما تک نہیں۔
جب حسینہ اور اس کے ابا جی محل میں پہنچے تو سب پہلے کی ہی طرح ہی پہلے دروازہ کھلا پھر الاؤ میں گرم آگ جلی اور بعد میں میز پر مزے دار کھانا لگ گیا۔ مگر اس بار میز پر ایک کی بجائے دو لوگوں کے لیے کھانا سجا تھا۔
’’لگتا ہے یہ دیو نرم دل ہے‘‘ حسینہ نے کہا ’’نہیں تو اتنی سب تکلیف کرنے کی اسے کیا ضرورت تھی؟‘‘
تاجر نے بس اپنا سر ہلایا۔ ’’مجھ سے مت پوچھو۔ یہاں سب کچھ بھید بھرا ہے۔‘‘
جیسے ہی ان دونوں نے کھانا ختم کیا، ایک زور کی آواز آئی اور سامنے دیو ظاہر ہوا۔ حسینہ کا کلیجہ تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس نے بڑی ہمت سے اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر ایک جھلک دیکھتے ہی اس نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ دیکھنے میں اتنا بدصورت اور ڈراؤنا ہو گا۔
دیو نے اسے بہت سنبھل کر دیکھا۔ آخر اس نے پوچھا ’’تم یہاں پر خود اپنی مرضی سے آئی ہو؟‘‘
’’ہاں جناب!‘‘ حسینہ نے نیچے رکھی تھالی کو تاکتے ہوئے کہا۔
تب دیو نے ایک لمبی آہ بھری۔ ’’آپ کا بہت بہت شکریہ تاجر مہودیہ اب آپکی جان بخش دی جاتی ہے۔ آپ صبح یہاں سے چلے جائیں اور پھر کبھی بھی واپس نہیں آئیں۔‘‘
اور یہ کہہ کر جس تیزی سے وہ آیا تھا اتنی ہی جلدی وہاں سے غائب ہو گیا۔
’’دیکھو‘‘ تاجر نے اپنی بیٹی سے کہا۔ ’’اب تم سمجھو گی کہ میں تمہیں اس ڈراؤنی مخلوق کے ساتھ اکیلے چھوڑ کر کیوں نہیں جا سکتا۔‘‘
حسینہ کا دل ڈر سے کانپ رہا تھا۔ خوفناک دیو کے ساتھ رہنے کے خیال سے ہی اس کا دل دہل رہا تھا۔ مگر اگر وہ اپنا ارادہ بدلتی تو شاید اس کے ابا جی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے۔
’’یہ سچ ہے کہ دیو دیکھنے میں نہایت ہی بھدا ہے‘‘ اس نے قبول کیا ’’مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرا کچھ برا چاہتا ہے۔ اور اس طرح میں اور آپ دونوں زندہ تو بچ سکتے ہیں۔ مہربانی کر کے آپ صبح ہوتے ہی چلے جائیں۔‘‘
پوری رات حسینہ اپنے ابا کو سمجھاتی رہی کہ وہ اسے وہیں محل میں چھوڑ کر اگلے دن گھر لوٹ جائیں۔ آخر صبح ہونے سے پہلے تاجر نے اپنی بیٹی کی بات مان لی۔ روتے ہوئے باپ نے اپنی پیاری حسینہ کو چوما اور پھر اس سے الوداع کہہ کر وہ گھوڑے پر سوار ہو کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔
اگلی صبح حسینہ نے اپنی ہمت بٹوری اور وہ محل کے آس پاس گھومنے نکلی۔ اسے بہت تعجب ہوا جب اس نے ایک کمرے کے سامنے ’’حسینہ کا کمرا‘‘ لکھا پایا۔ کمرے کے اندر ایک کتب خانہ، موسیقی کا سامان اور ایک الماری میں بالکل اس کے ناپ کے بیحد خوبصورت کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ اس نے سوچا کہ دیو چاہے دیکھنے میں خوفناک کیوں نہ ہو مگر دل کا اچھا ہے۔ بڑا رحم دل۔ وہ آئینہ کے سامنے اپنے بال سنوارنے کے لیے بیٹھ گئی۔ کاش! وہ اپنے ابا جی کو دیکھ پاتی اور اسے یہ پتہ چل پاتا کہ وہ ایک دم محفوظ ہے۔
ویسے اس نے یہ بات زور سے نہیں کہی۔ پر اچانک آئینہ میں اس کا عکس غائب ہو گیا اور اس میں حسینہ کو اپنی دونوں بہنیں دکھائی دیں۔ وہ اس کے والد کے گھر لوٹنے پر اس کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ حسینہ کے بارے میں بری خبر سن کر انہیں دھکا لگا ہو، ایسا نہیں لگتا تھا۔ دونوں بہنیں یہ خبر سن کر خوش تھیں اور چپکے چپکے ہنس رہی تھیں۔ اگلے ہی پل یہ منظر غائب ہو گیا اور حسینہ کو آئینہ میں اپنا چہرہ دکھائی دینے لگا۔
یہ کوئی جادو ہی ہو گا۔ اس نے تھوڑا کانپتے ہوئے سوچا۔ محل کی ہر ایک چیز عجیب و غریب تھی جیسے وہاں کسی نے کوئی جادوئی منتر پھونک دیا ہو۔ دن بھر ایسی باتیں ہوتیں جنہیں سمجھ پانا آسان نہیں تھا۔ لیکن وہ اب اپنے والد کی زندگی کے بارے میں مطمئن تھی۔ اسے یہ بھی لگ رہا تھا کہ دیو اس کی زندگی کو خوشحال بنانا چاہتا تھا۔
حسینہ نے پوری صبح اپنے کمرے میں بتائی۔ اس نے اپنی پسند کی کتابیں پڑھیں اور تھوڑا ساز بجایا۔ دوپہر کو وہ باغ میں گئی۔ اسے باغ میں دیو سے دوبارہ ملنے کا ڈر تھا۔ مگر وہاں دیو کا کوئی نشان نہیں تھا۔ اسے برامدے میں ایک ٹوکری دکھائی دی جس میں دستانے اور پودوں کی چھٹائی کرنے والی ایک قینچی رکھی تھی۔ حسینہ نے دستانے پہن کر گلاب کے پودوں کی چھٹائی کی۔
رات کے کھانے تک حسینہ اس خوشگوار کام میں لگی رہی۔ تھکنے کے بعد اسے بھوک لگی اور وہ اندر کے بڑے ہال میں چلی گئی۔ وہاں میز پر کھانا سجا تھا۔ جیسے ہی حسینہ نے کھانا شروع کیا ایک زور کی آواز کے ساتھ دیو اندر آیا۔
’’کیا میں یہاں بیٹھ کر تم سے کچھ باتیں کر سکتا ہوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں۔، حسینہ نے جواب دیا۔ وہ لگاتار اپنی پلیٹ کی طرف ہی دیکھتی رہی۔
’’کیا تمہیں سوپ اچھا لگا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ے ے
’’ہاں سوپ بہت ہی مزے دار تھا‘‘ حسینہ نے کہا۔
دیو نے لمبی آہ بھری۔ ’’تم میری طرف کیوں نہیں دیکھتیں؟ کیا اس لئے کہ میں بہت بدصورت ہوں؟‘‘ساز
حسینہ نے بڑی ہمت کر کے دیو کے چہرے کی طرف دیکھا۔ ’’یہ سچ ہے کہ آپ کا چہرہ دیکھنے میں بے حد بھدا ہے‘‘ اس نے سچائی بیان کرتے ہوئے کہا، ‘‘مگر آپ کی بھوری آنکھیں بہت پیاری ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کا دل بھی بہت بھلا ہے۔‘‘
دیو نے اپنا خوفناک سر ہلایا۔ ’’کاش! میں ایک خوبصورت راج کمار ہوتا تو شاید تم مجھ سے پیار کرنے لگتیں۔‘‘
حسینہ کو اس پر ترس آنے لگا اور اس نے جلدی سے کہا ’’میری رائے میں دل اچھا ہونا خوب صورت چہرے سے کہیں اچھا ہے۔‘‘
’’کیا تم سچ میں ایسا سوچتی ہو؟” دیو کو کچھ امید بندھی۔ ’’تو پھر کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘
’’نہیں!‘‘ حسینہ ایک دم سہم گئی۔ ’’نہیں میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔‘‘
’’تو پھر میں رات کے لیے تم سے رخصت لوں گا‘‘ دیو نے دکھ بھرے لہجے میں کہا اور وہ وہاں سے غائب ہو گیا۔
پہلے کچھ دن تو دھیرے دھیرے بیتے مگر کچھ عرصے بعد حسینہ کو محل میں رہنے میں مزا آنے لگا۔ اسے کتابیں پڑھنے، ساز بجانے اور گلاب کے پودوں کی دیکھ بھال کرنا اچھا لگنے لگا۔ لیکن سب سے زیادہ مزہ اسے شام کے وقت دیو کے ساتھ بات چیت کرنے میں آتا تھا۔
دونوں الگ الگ موضوعات پر باتیں کرتے، ادب، موسیقی اور باغبانی وغیرہ کے بارے میں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دیو کو چاہنے لگی اس سے پیار کرنے لگی۔ مگر جب ہر شام وہ حسینہ کے سامنے شادی کی تجویز رکھتا، تو وہ اسے ٹھکرا دیتی۔ وہ اسے ایک دوست کے روپ میں چاہتی تھی شوہر کے روپ میں نہیں۔
ایک شام دیو نے کہا ’’میں نے دیکھا ہے کہ تمہاری آنکھیں آسمان کی طرح اپنا رنگ بدلتی ہیں۔ ویسے تو وہ خوشی سے نیلی ہوتی ہیں لیکن آج تمہاری آنکھیں کسی دکھ سے سلیٹی ہیں۔ مجھے بتاؤ حسینہ، تمہیں کیا دکھ ہے؟‘‘
’’آج میں نے جادوئی آئینہ میں اپنے والد کو دیکھا‘‘ اس نے دیو کو بتایا ’’وہ میرے بارے میں اتنے فکر مند ہیں کہ ان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے اور وہ بیمار ہیں۔‘‘
دیو نے منہ بنایا اور اپنا سر ہلایا۔ ’’اگر تم مجھے چھوڑ کر جاؤ گی تو کبھی واپس نہیں آؤ گی۔‘‘
’’مہربانی کر کے مجھے ایک بار گھر جانے دیں‘‘ حسینہ نے گزارش کی۔ ’’میں ضرور واپس آؤں گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں‘‘
دیو ابھی بھی دکھی لگ رہا تھا۔ آخر اس نے کہا ’’ٹھیک ہے تم کل چلی تو جانا مگر جانا صرف سات دنوں کے لیے۔ لو یہ سونے کی انگوٹھی اپنے ساتھ لیتی جاؤ۔ جب سات دن پورے ہوں تو اس انگوٹھی کو اپنے پلنگ کے پاس والی میز کے اوپر رکھ دینا۔ اس سے تم اپنے آپ یہاں اگلی صبح واپس آ جاؤ گی۔ لیکن اگر تم نے اپنا وعدہ توڑا تو میں تمہارے غم میں مر جاؤں گا!‘‘
حسینہ نے انگوٹھی لی اور دیو کو چوم کر اس سے رات کے لیے اجازت لی۔
اگلی صبح جب وہ اٹھی تو اس نے اپنے آپ کو اپنے گھر میں خود کے پلنگ پر لیٹا پایا۔ وہ اپنے والد کا نام پکارتی دوڑتی ہوئی ان کے کمرے میں گئی۔
جیسے ہی ابا جی نے حسینہ کو دیکھا وہ بیماری کے باوجود پلنگ سے کود کر اٹھ کھڑے ہوئے اور خوشی سے چلّانے لگے۔ اس کی دونوں بہنیں بھی دوڑ کر آئیں۔ بہنیں حسینہ کو دیکھ کر خوش نہیں ہوئیں۔ ’’تم یہاں کتنے دن ٹھہرنے کے لیے آئی ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا ’’اور ہاں تم یہ رات کی پوشاک کیوں پہنے ہو؟‘‘
حسینہ نے انہیں بتایا کہ وہ کسی جادو کی وجہ سے گھر اتنی جلدی پہنچ گئی۔ حسینہ نے انہیں دیو سے کیا اپنا وعدے کے بارے میں بھی بتایا۔ ’’اس نے مجھے سات دن کے لیے گھر آنے کی اجازت دی ہے‘‘ اس نے کہا ’’اگر آپ مجھے اپنے کچھ کپڑے پہننے کے لیے دیں گی تو آپ کا بہت احسان ہو گا؟‘‘
دونوں بہنوں نے جلن کے مارے کپڑے دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑا۔ جیسے ہی حسینہ اپنے کمرے میں گئی وہاں پر اسرار طریقے سے ایک صندوق آ گیا جس میں اس کے من پسند کپڑے تھے۔ واقعی دیو بہت رحم دل ہے، دل کا بڑا اچھا ہے‘‘ اس نے سوچا۔
چھ دنوں میں اس کے والد کی طبیعت ایک دم ٹھیک ہو گئی۔ مگر اس کی دونوں بہنیں حسینہ کی اچھی قسمت اور بیش قیمتی کپڑوں سے بہت جلنے لگی تھیں اور وہ اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایک چال چلنے لگیں۔
’’اگر اسے محل میں پہنچنے میں دیر ہوئی تو دیو حسینہ پر بیحد غصہ ہو گا‘‘ انہوں نے سوچا ’’اگر ہمارا مقدر اچھا ہوا تو شاید وہ حسینہ کو مار ہی ڈالے۔ ہم حسینہ کو یہاں پر زیادہ سے زیادہ دنوں تک روکنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
اور پھر دونوں بہنوں نے حسینہ کے ساتھ بہت پیارا سلوک کرنا شروع کر دیا جس پر حسینہ کو پہلے تو یقین ہی نہیں ہوا۔ ’’ہماری پیاری دلاری چھوٹی بہن! تم ہمارے ساتھ کچھ دن تو اور رہو‘‘ انہوں نے حسینہ سے التجا کی ’’تمہارے بغیر ہماری زندگی ایک دم سونی ہو گئی ہے۔‘‘
حسینہ اس سے مشکل میں پھنس گئی۔ ایک طرف وہ اپنے والد کے گھر میں رہنا چاہتی تھی پر دوسری طرف وہ محل میں لوٹنا بھی چاہتی تھی۔ اسے تعجب ہوا جب اسے دیو کے ساتھ بتائے خوش گوار لمحے یاد آنے لگے۔ رات کے کھانے کے بعد کی گپ شپ اور اس کا پیارا برتاؤ۔۔
’’مجھے کل واپس جانا ہے‘‘ اس نے کہا ’’میں نے دیو سے اس کا وعدہ کیا ہے‘‘
یہ سنتے ہی دونوں بہنوں نے زور سے رونے کا ڈھونگ کیا۔ ’’ابا جی کو تمہاری بہت یاد آتی ہے۔ اور ہم دونوں کو بھی! مہربانی کر کے ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔‘‘
حسینہ نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ’’کچھ دن اور رہ لینے سے لگتا ہے کوئی خاص نقصان نہیں ہو گا۔‘‘
’’سچ مچ میں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‘‘ اس کی دونوں بہنوں نے یہ کہہ کر اپنی مسرت اور ہنسی کو ہاتھ کے پنکھے کے پیچھے چھپا لیا۔
دسویں رات حسینہ نے ایک خواب دیکھا جیسے وہ محل میں گلاب کے باغ میں واپس پہنچ گئی ہو۔ وہاں اس کے پیروں کے پاس دیو پڑا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہو۔ خواب نے حسینہ کو جیسے ہلا دیا۔ وہ جھٹ سے پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
’’غنیمت ہے کہ یہ صرف ایک خواب ہی تھا!‘‘ وہ خوشی سے چلائی۔ ’’میں کل ضرور واپس لوٹ جاؤں گی۔‘‘
اس نے اپنی انگوٹھی اتار کر پلنگ کے پاس کی میز پر رکھ دی اور پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ہی منٹوں میں وہ گہری نیند میں سو گئی۔
اگلی صبح جب اس کی آنکھیں کھلیں تو اس نے اپنے آپ کو محل کے، اپنے کمرے میں واپس پایا۔
اس کے پاس ہی اس کے کپڑوں کا صندوق رکھا تھا۔ وہ پلنگ پر سے کودی اور اپنے کپڑے پہن کر بے چینی سے شام ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ جلدی سے جلدی دیو سے ملنا چاہتی تھی اور اس کی طبیعت کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔
مگر جب شام کو وہ کھانا کھانے بیٹھی تو بھی دیو نہیں آیا۔ حسینہ کو اس میں کچھ خطرے کا اشارہ لگا اور وہ پورے محل میں دیو کو پکارتے ہوئے دوڑی۔ اس کے بعد بھی دیو کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ آخر حسینہ ایک جلتی مشعل لے کر گلاب کے باغ میں گئی۔ وہاں پر جیسا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا، دیو بیمار پڑا تھا اور ایک دم مرنے کی حالت میں تھا۔
حسینہ اس کے پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ ’’میرے پیارے دیو، مہربانی کریں اور اپنی جان نہ دے دیں۔ میں اپنا وعدہ توڑنے کے لیے معافی چاہتی ہوں۔ اگر مجھے یہ پتہ ہوتا کہ میرے نہ ہونے سے اتنا برا ہو گا تو میں فوراً واپس آ جاتی۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘
کمزوری کی حالت میں دیو نے اپنی بوجھل آنکھوں کو کھولا اور حسینہ کی طرف دیکھا۔ ’’مجھے لگا کہ اب تم کبھی واپس نہیں آؤ گی۔۔۔ اور مجھے پھر سے اکیلے رہنا پڑے گا جیسے کہ تمہارے آنے کے پہلے میں رہتا تھا۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ مجھے تمہاری بہت یاد ستائی۔‘‘
’’اور مجھے بھی تمہاری بہت یاد آئی!” حسینہ نے روتے روتے کہا ’’مجھے معاف کر دو میں نے اپنی نادانی میں کافی بڑی غلطی کی ہے۔ اب مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم دیکھنے میں لگتے کیسے ہو۔ مجھے تمہاری بھوری آنکھوں اور نرم دل سے پیار ہے اور میں تم سے شادی کر کے ساری زندگی تمہارے ساتھ بتانا چاہتی ہوں‘‘
حسینہ کے یہ کہتے ہی چاروں اور شہنائیوں کی آواز گونجنے لگی اور آسمان آتش بازیوں کے ستاروں سے چمک اٹھا۔ تعجب سے حسینہ آسمان کو تاکنے لگی۔ جب اس نے اپنی آنکھیں دوبارہ زمین پر ڈالیں تو اس نے وہاں سے دیو کو غائب پایا۔ اس کی جگہ ایک خوبصورت نوجوان کھڑا تھا۔ وہ اپنے بیش قیمتی کپڑوں میں ایک دم شہزادہ لگ رہا تھا۔
’’کون آپ کون ہیں؟‘‘ حسینہ نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ’’اور میرا پیارا دیو کہاں ہے؟‘‘
شہزادہ اب اٹھ کر کھڑا ہوا۔ ’’میں ہی تمہارا دیو ہوں‘‘ اس نے کہا ’’مگر اب تم مجھے میرے اصلی روپ میں دیکھ رہی ہو۔ کیا تم اب بھی مجھ سے پیار کرتی ہو؟‘‘
حسینہ ایک دم ہکی بکی رہ گئی۔ اس نے سرگوشی کے لہجے میں کہا ’’مجھے۔۔ ۔ مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘
’’ایک خراب جادوگرنی نے مجھ پر ایک جادو کیا تھا۔ وہ تبھی ختم ہوتا جب کوئی حسین لڑکی میرے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کرنے کو تیار ہوتی۔‘‘ شہزادے نے حسینہ کی اٹھنے میں مدد کی۔ ’’تم نے ابھی بھی میرے سوال کا جواب نہیں دیا حسینہ! کیا تم مجھے بھی پیار کرتی ہو؟‘‘
حسینہ نے شہزادے کے چہرے کو ایک نظر دیکھا۔ ویسے وہ بہت خوبصورت تھا
مگر اس کی آنکھیں بالکل دیو کی طرح بھوری تھیں اور ان میں رحم کا جذبہ ظاہر تھا۔
’’بالکل حسینہ نے شرماتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں‘‘
’’آپ چاہیں دیکھنے میں الگ ہوں مگر میں مانتی ہوں، کہ آپ وہی انسان ہیں جس کے ساتھ میں نے پیار کیا تھا۔‘‘
شہزادے نے حسینہ کا ہاتھ چوما۔ ’’چلو پھر ہم دونوں چل کر شادی کریں۔‘‘
اور اس دن سے حسینہ کی آنکھوں کا رنگ ہمیشہ کے لیے نیلا بنا رہا۔
شہزادہ اس بات کے لیے راضی ہو گیا کہ حسینہ کے ابا جی اور اس کی دونوں بہنیں بھی محل میں آ کر رہیں۔ لیکن ایک دن دونوں بہنوں کو وہی جادوگرنی ملی جس نے شہزادے پر جادو ٹونا کیا تھا۔ دونوں بے وقوف بہنوں نے اس کے ساتھ بیہودہ سلوک کیا۔ ’’کمینی لڑکیو!‘‘ جادوگرنی چلائی، ’’تمہارے دل تو پتھر کے ہیں ہی، تمہارا باقی جسم بھی پتھر کا بن جائے۔‘‘
اور اپنی جادوئی چھڑی کو گھما کر اس نے دونوں بہنوں کو دو بڑی پتھر کی مورتیوں میں بدل دیا۔ یہ مورتیاں ابھی بھی محل کے دروازے کے دونوں جانب کھڑی ہیں اور ان چاہے مہمانوں کو محل میں آنے سے روکتی ہیں۔
لیکن حسینہ اور شہزادہ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے خوشی خوشی جئے، کیونکہ ان دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے سچا پیار تھا۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں