بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے سلسلہ، کڑی ۱۳
بچوں کی سلمیٰ جیلانی
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔ ۱۳
بچوں کی سلمیٰ جیلانی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
پیلی تانیہ
گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی تھیں، ہم سب چھٹی کلاس پاس کر چکے تھے اور بہت خوش تھے کہ آخرکار اس چھوٹے سے کمرے سے ہماری جان چھوٹ جائے گی اور ہم ایک بڑی کلاس میں جا کر کھل کر سانس لے سکیں گے، لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنی ہر دل عزیز ٹیچر رومانہ کو الوداع کہنے کا بھی افسوس تھا۔
لائبہ نے تجویز پیش کی ’’کیوں نہ ہم سب پیسے اکھٹا کر کے ان کے لئے کوئی یادگار تحفہ خرید لیں‘‘۔
’’ارے واہ! یہ تو بہت اچھا آئیڈیا ہے‘‘ ہم سب کلاس فیلوز ایک ساتھ چلائیں۔ ابھی لائبہ نے کچھ اور کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ پیلی تانیہ ایک دم سامنے آ گئی اور جلدی سے بولی ’’میرے لئے یہ کچھ مشکل نہیں۔ میرے گھر کے پاس ہی شاپنگ مال ہے اور میں نے وہاں ایک شیشے کی چیزوں کی بڑی اچھی شاپ دیکھی ہے وہاں سے کوئی بھی شیشے کا گلدان خرید کر لا سکتی ہوں۔‘‘
اس کا نام تو تانیہ تھا لیکن اس کے کپڑے ہمیشہ استری کے بغیر ہوتے اور سفید یونی فارم پیلا پیلا رہتا تھا اسی لئے ہم نے اس کا نام پیلی تانیہ رکھ چھوڑا تھا۔
لائبہ نے ناک سکوڑتے ہوئے پیلی تانیہ کی طرف دیکھا اور منہ بنا کر بولی ’’ہنہ۔ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں تم ہمارے کول (cool) گروپ میں شامل کیسے ہو گئیں، تمہارا لایا ہوا تحفہ کول گروپ کی پسند نہیں ہو سکتا‘‘۔
پیلی شرمندگی سے سرخ ہو گئی اور خاموشی سے اپنی سیٹ پر واپس چلی گئی، مجھے اس وقت پیلی پر بہت ترس آیا لیکن خاموش رہی کیونکہ لائبہ جو کول گروپ کی لیڈر تھی مجھے اپنے گروپ سے باہر کر سکتی تھی۔
پیلی ایک غریب علاقے میں رہتی تھی اس کی امی اسکول میں صفائی کا کام کرتی تھیں اس لئے اسکول کی پرنسپل نے ان کی بیٹی یعنی تانیہ کو اس امیر اسکول میں پڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔ پیلی کے بہت سارے بہن بھائی تھے جو اس سے چھوٹے تھے، پیلی کے ابو کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں تھے، مجھے یہ ساری باتیں اس لئے معلوم تھیں کیونکہ اسکول میں کام کرنے سے پہلے اس کی امی ہمارے گھر صفائی کا کام کرتی تھیں اور امی کی سفارش پر ہی انہیں ہمارے اسکول میں نوکری ملی تھی۔
میری امی غریبوں سے بڑی ہمدردی کرتی ہیں مجھے بھی ہمیشہ سمجھاتی تھیں کہ پیلی سے اچھی طرح پیش آیا کرو لیکن مجھے وہ بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ اسکول میں اس کے نمبر ہر سبجیکٹ میں مجھ سے زیادہ جو آتے تھے، اگرچہ میں بہت کوشش کرتی کہ پیلی کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں۔ لیکن اس کا چہرہ دیکھتے ہی میرا دل چاہتا اس کے بال کھینچ کر بھاگ جاؤں جو ہمیشہ ایک بد رنگے سے ربن سے بندھے رہتے تھے۔
لائبہ نے اپنے سلیقے سے بنے بالوں کی پونی کو جھلاتے ہوئے کہا ’’کل تمام کلاس فیلوز گھر سے پیسے لے کر آئیں، میں ان سب لڑکیوں کے نام تجویز کروں گی جو اسکول کی چھٹی کے بعد تحفہ خریدنے جائیں گی۔۔۔ میں نے کلاس ٹیچر مس رومانہ سے پہلے ہی اجازت لے لی ہے‘‘۔
اگلے دن اسکول کی چھٹی کے بعد ہم پانچ گروپ ممبرز اسکول کے قریب واقع شاپنگ مال کے باہر ایک گفٹ شاپ پہنچیں۔ بڑی تلاش کے بعد ایک نازک سا شیشے کا گلدان ہم سب کو بہت پسند آ گیا اس پر شیشے کی پھولوں کی پتیاں الگ سے لگی ہوئی تھیں اور ان پر بہت پیارا ہرا رنگ پینٹ ہوا تھا جو گلابی اور سنہرے رنگوں سے مل کر اور بھی اچھا لگ رہا تھا۔
میرا دل چاہا کہ یہ گلدان میں لے لوں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ لائبہ نے اسے دکاندار کو دیتے ہوئے ہدایت کی ’’اسے ڈبے میں رکھ دیں لیکن ابھی پیک نہ کریں ہم اپنی سب ساتھیوں کو دکھا کر خود پیک کریں گے‘‘۔ دکان دار نے اسے ایک بڑے گتے کے ڈبے میں رکھا اور رنگین ریپر اور ربن کی تھیلی لائبہ کو تھماتے ہوئے کہا ’’یہ سامان اس کی پیکنگ کے لئے ہے‘‘۔ لائبہ نے ڈبہ مجھے دے دیا اور بولی ’’اسے تم اپنے لاکر میں رکھ دینا، ہم کل تمام کلاس کو دکھا کر پیک کر کے مس رومانہ کو تحفے میں دیں گے‘‘۔
میں نے خوشی خوشی سر ہلایا، کول گروپ کی لیڈر نے یہ ذمہ داری مجھے دی تھی، میں بہت فخر محسوس کر رہی تھی، اسکول واپس آ کر تحفے کو لاکر میں رکھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ ایک بار پھر اس خوب صورت گلدان کو دیکھوں میں نے چپکے سے ڈبے سے گلدان نکالا اور اس کی پتیوں کو چھو کر دیکھنے لگی لیکن وہ تو بہت ہی نازک تھیں ایک دم ٹوٹ کر میرے ہاتھ میں آ گئیں، ارے یہ کیسے ہو گیا، اس اچانک نقصان پر دھچکے سے سن سی ہو گئی۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا جب سب کو معلوم ہو گا کہ میں نے گلدان توڑ دیا تو سب سہیلیاں اپنے گروپ سے نکال دیں گی اور اتنا مہنگا تحفہ دوبارہ کیسے خریدوں گی۔
میں نے چپکے سے اسے واپس لاکر میں رکھ دیا اور خاموشی سے اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا سب باتوں میں لگے تھے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔
اگلی صبح جیسے ہی میں اسکول پہنچی لائبہ نے مجھے دیکھ لیا اور دور ہی سے بولی ’’اوہ علینہ! میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی، لاؤ! وہ تحفہ اپنے لاکر سے لے آؤ ہم اسے سب کلاس فیلوز کو دکھاتے ہیں‘‘۔
میں بہت پریشان تھی لیکن اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لائبہ نے کلاس کی سب لڑکیوں کے سامنے گلدان ڈبے سے نکالا۔
’’ارے! یہ کیا ہوا یہ پھول کیسے ٹوٹ گیا؟‘‘ وہ ایکدم غصہ سے چلائی۔
’’علینہ!‘‘ اس نے میری طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’تم بتاؤ یہ کیسے ٹوٹا، اسے تمہاری حفاظت میں رکھنے کو دیا گیا تھا‘‘۔
میں گڑبڑا گئی، سب کی سوالیہ نظریں میری طرف ہی تھیں۔
میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بہانہ بناؤں۔ لائبہ اور ساری لڑکیاں مجھے برا بھلا کہنے لگیں کہ اچانک پیلی تانیہ سامنے آ گئی اور بولی ’’ہم اس گلدان کی جگہ نیا گلدان لے لیں گے تم لوگوں کو علینہ کو نہیں ڈانٹنا چاہیے‘‘۔
لائبہ نے جل کر کہا ’’اور اس کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے اتنا مہنگا گلدان ہم دوبارہ نہیں خرید سکتے، اب علینہ کو اپنے پاس سے سارے پیسے دے کر تحفہ خریدنا ہو گا‘‘۔
میں تانیہ کا منہ دیکھنے لگی، ’’میں تو اپنی امی کو نہیں بتا سکتی وہ مجھے بہت ڈانٹیں گی‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
لائبہ اور میری ساری دوستیں کندھے اچکاتی یہ کہہ کر چلی گئیں ’’ہم کچھ نہیں جانتے تم کو کل نیا گلدان لانا ہو گا ورنہ ٹیچر رومانہ سے تمہاری شکایت کریں گے اور تمہیں کول گروپ سے بھی نکال دیا جائے گا‘‘۔
اب میں اور تانیہ وہاں رہ گئی تھیں، اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’میرے پاس کچھ پیسے ہیں جو میں نے سپورٹس کے جوتے خریدنے کے لئے جمع کیے ہیں مجھے امید ہے ان پیسوں میں اچھا سا گلدان آ جائے گا، کوئی بات نہیں میں پرانے جوتوں میں ہی گزارہ کر لوں گی‘‘۔
میں ہکا بکا تانیہ کی طرف دیکھنے لگی حیرت اور شرمندگی سے مجھ سے اس کا شکریہ تک ادا نہیں کیا گیا، میں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا آج وہ مجھے اجلی تانیہ لگ رہی تھی۔
میری امی ٹھیک کہتی ہیں تانیہ ایک حقیقی دوست کہلانے کے لائق ہے جس نے مشکل وقت میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔
٭٭٭
شرمیلا میمنا
پیارے بچو کیا آپ کو معلوم ہے کہ پہاڑی بکرے جنھیں مار خور کہا جاتا ہے پاکستان کا قومی جانور ہیں۔ آج میں آپ کو ایسے ہی ننھے منے بکری کے بچے کی کہانی سناتی ہوں۔
اماں بکری کے دو بچے ہیں، ایک سوہنی جو بھورے رنگ کی ہے اور دوسرا سفیدا جو اپنے نام کی طرح سفید ہے۔ دونوں کی آنکھیں پیلی ہیں بہت ہی پیارے جیسے آپ سب ہیں۔ اپنی امی کی آنکھوں کے تارے۔
سوہنی تو ہر وقت اچھلتی کودتی گھاس کھاتی پھرتی ہے لیکن سفیدا بڑا ہی شرمیلا ہے۔ ہر وقت امی کی پیٹھ کے پیچھے چھپا رہتا ہے اس کی کسی سے دوستی بھی نہیں۔ جب سارے میمنے اور بکریاں پہاڑی پر چڑھ کر وادی کا نظارہ کرتے ہیں اور اوپر سے نیچے چھلانگیں لگاتے ہیں سفیدا بس دور سے بیٹھ کر ان کو کھیلتے دیکھتا رہتا ہے۔ سارے بچے میں میں اور بھیں بھیں کر کے شور مچاتے ہیں لیکن سفیدا بہت ہی کم بولتا ہے۔
دوسری اماں بکریاں اپنے بچوں کو سفیدے کی مثالیں دیتی ہیں ’’دیکھو ایک تم سب ہو۔ کتنا شور مچاتے اور چیختے چلاتے ہو لیکن سفیدا بالکل چپ چاپ رہتا ہے‘‘۔
لیکن اماں بکری کو یہ بات پسند نہیں کیونکہ ان کے خیال میں سفیدے کے شرمیلے پن کی وجہ سے وہ تمام اچھے کھیلوں میں پیچھے رہ جاتا ہے اور کسی بھی چیز سے دوسرے میمنے اور بکری بکریوں کی طرح لطف اندوز نہیں ہو پاتا اور یوں اس کے اندر ایک نا معلوم سا غصہ اور اداسی پنپنے لگی ہے۔
یہ بات نہیں کہ سفیدے کو بولنا نہیں آتا۔ اس کا بھی دل چاہتا کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ہنسے بولے، کھیلے کودے، سچ بات تو یہ ہے کہ شرم کے مارے بس اپنی جگہ دب کر بیٹھنے میں اسے بالکل بھی مزہ نہیں آتا اب وہ صرف اداس ہی نہیں رہتا بلکہ اپنی بہن سوہنی پر اپنا غصہ نکالنے لگا ہے اور بات بے بات اس سے جھگڑتا ہے۔
آج بھی اماں بکری بہت ضد کر کے اسے اپنے ساتھ چراگاہ لائیں۔ سوہنی کو اپنی سہیلیوں سے ملنے کی جلدی تھی وہ اچھلتی کودتی چھوٹی پہاڑی کے پار گھاس کے میدان میں جا پہنچی جہاں وہ سب پہلے ہی سے موجود تھیں۔ سوہنی نے سفیدے کو بھی اپنے ساتھ کھیل میں شریک کرنا چاہا لیکن وہ حسب معمول انکار کر کے ایک ٹیلے پر جا کے بیٹھ گیا جہاں اماں بکری دوسری بکریوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھیں۔
ابھی وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ قریب کی جھاڑی میں کچھ سرسراہٹ سی ہوئی۔ پہلے تو سفیدا کچھ ڈرا لیکن پھر یہ دیکھ کر اسے ہنسی آ گئی کہ ایک ننھا منا اس کی طرح کا میمنا بالکل اسی کی طرح ڈر کر جھاڑی میں چھپا بیٹھا تھا۔ پہلے تو سفیدے نے اس ڈرپوک میمنے کو نظر انداز کر دیا لیکن پھر اپنے اندر عجیب سا اعتماد محسوس کیا۔ اس نے قریب جا کر ڈرے سہمے ہوئے میمنے کو تسلی دی اور بولا ’’کوئی بات نہیں شرمیلا ہونا کوئی بری بات نہیں۔ دیکھو ہم سب تمہاری طرح ہیں۔ آؤ، میرے ساتھ کھیلو‘‘۔
تھوڑی دیر میں اماں بکری کو باتوں سے کچھ فرصت ملی تو انہوں نے سفیدے کو اپنے پیچھے نہ پا کر فکر مند ہو کر پہاڑی کی طرف دیکھا اور حیرت اور خوشی سے مسکرا دیں۔ سفیدے کو ایک دوست مل گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے چراگاہ کی طرف خراماں خراماں ایک دوسرے کو اپنے گھر والوں کے بارے میں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔
٭٭٭
میلی کتاب کی اجلی کہانی
’’سلام بی بی، امارا نام زرمینہ ہے اور ام ادھر سے آیا اے۔۔۔‘‘ فائزہ کے سامنے کوئی آٹھ نو برس کی شربتی آنکھوں والی بچی کھڑی کالونی کے آخر میں موجود کچی بستی کی طرف اشارہ کر رہی تھی اور رسان سے اپنا تعارف کرانے کے بعد اسے پر شوق نظروں سے تک رہی تھی۔ اس کے کاندھے پر بڑا سا میلے کچیلے کاغذوں سے بھرا ہوا بد رنگ ٹاٹ کا تھیلا تھا اور ہاتھ میں ایک میلی سی کہانیوں کی کتاب جس کے صفحے پھٹے ہوئے تھے۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس نے کسی کچرے کے ڈھیر سے ہی اٹھائی تھی۔
صبح کا اجالا پوری طرح سے پھیل چکا تھا فائزہ گھر کے گیٹ پر اسکول جانے کے لئے بالکل تیار کھڑی تھی اس کی وین کسی وقت بھی آ سکتی تھی، اس کا دھیان آج اسکول میں ہونے والے تقریری مقابلے کی طرف تھا وہ دل ہی دل میں اپنی تقریر کے جملے دہرا رہی تھی کہ ایسے میں اچانک اس اجنبی لڑکی کی بے وقت کی مداخلت گراں گزری۔
وہ جھنجلا کر بولی۔ ’’دیکھو اس وقت میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی اگر تمہیں روٹی چاہئے یا ردی اخبار تو دن میں کسی اور وقت آنا۔۔۔ امی بھی مصروف ہیں تم جاؤ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ادھ کھلے گیٹ کو کنڈے سے بند کرنے لگی مگر بچی کا ایک پاؤں گیٹ کے اندر ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی وہ بچی جو اپنا نام زرمینہ بتا رہی تھی لڑکھڑا سی گئی لیکن جلد ہی سنبھل کر اپنے ہاتھ میں دبی کتاب فائزہ کے آگے کرتے ہوئے بولی۔۔۔ ’’نہ نہ بی بی ام کچھ نئیں مانگتا، تم یہ کہانی سناؤ جو اس کتاب میں لکھی ہے‘‘ اس نے پھٹے کاغذوں والی کتاب فائزہ کے ہاتھ میں تھمانے کی کوشش کی، فائزہ ٹھٹھک کر پیچھے ہو گئی اور ناک سکوڑتے ہوئے بولی ’’ارے ارے یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ اتنی گندی کتاب میں کیوں پڑھوں؟‘‘
زرمینہ نے حیرت سے فائزہ کے چہرے کی طرف دیکھا اور پیار سے کتاب کے صفحات پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
’’یہ گندی کتاب تو نئیں۔۔۔ دیکھو کتنے پیارے کپڑے پہنے کوئی پری ہے، اس کے سر پر تاج بھی ہے‘‘ اس نے کتاب میں بنی ہوئی ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا جو واقعی میں کبھی بہت خوبصورت رہی ہو گی لیکن اب تو اس پر طرح طرح کی غلاظت چپکی ہوئی تھی، زرمینہ نے بے تابی سے صفحہ پلٹا۔۔۔ ’’اور۔۔۔ اور یہ دیکھو، کتنا پیارا باغیچہ ہے۔ پھولوں کی جگہ ستارے اگ رہے ہیں ضرور کوئی مزے کی کہانی ہے۔‘‘
فائزہ نے اس کی بے تابی اور خوشی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر اسے جھڑکا ’’ہو گی۔۔۔ مجھے کیا۔۔۔ پتا نہیں کون ہو تم اور کہاں سے یہ غلیظ کتاب اٹھا لائی ہو۔۔۔ ہٹو سامنے سے مجھے اسکول کو دیر ہو رہی ہے‘‘
یہ کہتے ہوئے امی کو آواز دی۔۔۔ فائزہ کی امی جو اسے کھانے کا ٹفن دینے پہلے ہی وہاں آن کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔ تحمل سے بولیں۔
’’ارے فائزہ تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات ہے‘‘
زرمینہ نے انہیں مہربان دیکھا تو جلدی سے کتاب لے کر ان کے پاس پہنچ گئی اور وہی سب کچھ دوبارہ سے دہرانے لگی۔۔۔ ابھی اس کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ فائزہ کی اسکول وین کے تیز ہارن نے ان سب کو چونکا دیا۔ امی نے اس بچی زرمینہ کو کسی اور وقت آنے کی ہدایت کی اور فائزہ کو وین میں بیٹھنے میں مدد کرنے لگیں۔
سہ پہر کو فائزہ اسکول سے گھر آئی تو اسے برآمدے سے امی کی آواز سنائی دی۔۔۔ ارے یہ تو اس کی پسندیدہ کہانی تھی۔۔۔ جو بچپن میں ہر رات وہ سونے سے پہلے سنا کرتی تھی۔۔۔ وہ بھاگ کر برآمدے میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ زرمینہ برآمدے میں تخت کے ساتھ بچھی بید کی کرسی پر براجمان تھی اس کے ساتھ دو اور چھوٹے بچے بھی تھے اب کے ان کے چہرے میل کے دھبے ہونے کے باوجود خوشی سے جگمگا رہے تھے۔۔۔ تخت پر امی بیٹھی تھیں اور کہانی سنانے میں اتنی منہمک تھیں کہ انہیں فائزہ کے آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔۔۔ فائزہ خاموشی سے اپنا بستہ ایک طرف رکھ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔ ’’ہاں تو بچو! اس باغ میں پھولوں کی جگہ ستارے اگتے تھے اور جھیل میں شربت کی طرح میٹھا پانی۔۔۔ یہ سب بچوں کی ہنسی کی وجہ سے ہوتا۔۔۔ جب بچے خوش ہوتے۔۔۔ لیکن جب کبھی بچے اداس ہو جاتے تو باغ میں اندھیرا چھا جاتا اور جھیل کا پانی کڑوا۔‘‘ فائزہ کی امی نے کہانی سناتے ہوئے بچوں کے چہروں کی طرف دیکھا۔۔۔ انہیں فائزہ، زرمینہ اور اس کے دونوں چھوٹے بھائیوں کے چہرے بھی ستاروں کی طرح دکھائی دیئے۔۔۔ امی نے میلی کچیلی کتاب کا صفحہ پلٹا اور کہانی آگے بڑھ گئی۔
٭٭٭
رنگ بھری کہانی
پیارے بچو آج میں آپ کو ایک رنگ بھری کہانی سناتی ہوں۔
کسی آرٹسٹ نے ایک مرغے کی تصویر بنائی۔ ابھی اس میں رنگ بھرنے باقی تھے کہ مصور کو نیند آ گئی۔ مرغے کو بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہیں کوئی دانہ پڑا ہوا دکھائی نہ دیا۔ کھانے کی تلاش میں وہ ایک ایسے باغ میں جا نکلا جہاں تین رنگ رہتے تھے۔ نیلا، لال اور پیلا رنگ۔ انہوں نے جو ایک بے رنگ مرغے کو گھومتے دیکھا تو اپنے ڈول اور برش لے کر اس کے پاس پہنچ گئے۔
نیلا رنگ بولا۔ ’’ارے میاں مرغے! یہ تمہارے رنگوں کو کیا ہوا؟ کہاں اڑ گئے تمہارے رنگ؟‘‘۔
مرغا بولا۔۔۔ ’’ککڑوں کو۔۔۔ یہ رنگ کیا ہوتے ہیں؟ میں نے تو کبھی دیکھے ہی نہیں‘‘۔
رنگ اسے جھیل کے پاس لے گئے، جہاں شفاف پانی آئینے کی طرح نظر آ رہا تھا۔ مرغے نے اپنا عکس دیکھا تو اسے احساس ہوا واقعی اس میں کچھ کمی ہے۔ وہ اداس ہو گیا۔ لال رنگ نے اسے تسلی دیتے ہوئے اپنی بالٹی سے چمکتا ہوا لال رنگ نکالا اور مرغے کی کلغی اور سر کو لال رنگ دے دیا۔ مرغے نے آس پاس لال نیلے پیلے پھولوں کو دیکھ کر سمجھ لیا تھا کہ رنگ کیا ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی سے فضا کتنی خوبصورت اور خوشگوار ہو جاتی ہے۔ اسے اپنا لال سر اور کلغی بہت پسند آئی۔ لیکن باقی پر ابھی بے رنگ ہی تھے۔ نیلے رنگ نے اس کی دم کے کچھ پروں کو رنگ دیا۔ اب مرغا لال اور نیلے رنگوں سے آراستہ ہو گیا تھا۔ پیلے رنگ نے یہ دیکھا تو جلدی سے اپنی خدمات پیش کر دیں اور مرغے کے پیٹ اور پیٹھ پر پیلے رنگ کی گلکاریاں کر دیں۔
مرغا سوچ رہا تھا باغ میں سارے پتے اور گھاس ہرے رنگ کی ہے۔ یہ ہرا رنگ کہاں سے آیا جبکہ یہاں تو صرف تین ہی رنگ رہتے ہیں۔ اسے ہرا رنگ بہت بھایا جیسے آنکھوں میں تراوٹ کا احساس جاگ گیا ہو۔
نیلے رنگ نے مرغے کی پریشانی بھانپ لی۔ وہ ہنس کر بولا ’’تم فکر نہ کرو ابھی تمہیں ایک تماشا دکھاتے ہیں‘‘۔ اس نے جلدی سے پیلے رنگ کی طرف دوڑ لگائی اور دونوں نے ایک بڑی سی تھالی میں نیلا اور پیلا رنگ گھولا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکتے ہوئے سبز یعنی ہرے رنگ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ اب دونوں رنگوں نے اسے مرغے کے باقی پروں کو ہرے رنگ سے رنگ دیا۔ مرغے کو اپنی ٹانگیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ اسے بھورے رنگ کی تلاش تھی۔ لال رنگ نے تھوڑے سے بچے ہوئے اور ہرے رنگ میں ٹپکا دیا ارے واہ یہ تو اس کی ٹانگوں اور پنجوں کے لئے بالکل مناسب رہے گا۔ اب تینوں رنگوں نے بڑی نفاست سے بھورے رنگ سے اس کی ٹانگیں اور پنجے رنگ دیئے۔ مرغے نے جھیل کے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھا۔ اب وہ رنگ برنگے پروں والا خوبصورت مرغا بن چکا تھا۔ اس نے پر پھیلائے اور ہلکی سی اڑان بھری۔
اب وہ باغ میں بنے ہوئے شیڈ کی چھت پر پہنچ گیا تھا۔ صبح کا سورج آہستہ آہستہ آسمان پر طلوع ہو رہا تھا۔ مرغے نے گردن اونچی کی اور تیز آواز میں بانگ دینے لگا۔ ’’ککڑوں۔۔۔ کوں‘‘۔ باقاعدہ صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک نیا دن بستر میں سوئے لوگوں کا منتظر تھا۔ بچے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے۔ امی نے انہیں اسکول کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اب انتظار تھا تو دودھ کے گلاس کا۔ دودھ والے نے جلدی سے اپنی دودھ سے بھری ہوئی بالٹی کو موٹر سائیکل میں لٹکایا اور محلے کے بچوں والے گھروں کی طرف چل دیا۔ رنگ برنگا مرغا اپنے کام سے بہت خوش تھا اور رنگ بھی۔ (مرکزی خیال ماخوذ)
٭٭٭
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
ایک پرانی سنی سنائی کہانی
پیارے بچو کسی چرواہے کے پاس ایک بکری تھی۔ دیکھنے میں بہت اچھی لیکن ایک خرابی تھی اس میں۔ اور وہ یہ کہ جھوٹ بہت بولتی تھی۔ چرواہے کے بیٹے اسے جنگل میں گھاس چرانے کو لے کر جاتے وہ دن بھر خوب جگالی کرتی لیکن گھر آ کے ہمیشہ ان کی شکایت کرتی۔ ’’میں تو بھوکی ہوں مجھے تو کھانے کو کچھ نہیں ملا‘‘
لڑکے بہت کہتے ’’ابا یہ جھوٹی ہے ہم اسے بہت اچھی چراگاہ میں لے گئے، یہ دیکھیں کتنا پیٹ بھرا ہواہے‘‘ مگر چرواہے نے ان کی بات نہ مانی اور غصے سے بولا ’’معصوم بکری پر الزام لگاتے ہو! آج سے تم میرے گھر سے نکل جاؤ‘‘
بکری بہت خوش ہوئی کہ اس کی بات سنی گئی۔ اس طرح اس کے کہنے میں آ کے ایک ایک کر کے چرواہے نے اپنے تینوں بیٹوں کو گھر سے نکال دیا۔ وہ کسی درزی کے پاس چلے گئے جو بہت رحم دل اور خوش حال شخص تھا۔
درزی کے پاس کام کر کے اپنی روزی کمانے لگے۔
ادھر چرواہا بکری کو خود جنگل لے گیا اور سب سے اچھی چرا گاہ میں چھوڑ دیا۔ بکری سارا دن جنگل میں جگالی کرتی، پھری شام ہوئی تو خوش خوش گھر واپس آئے۔
چرواہے نے بکری سے پوچھا ’’بی بکری اب تو خوش ہو؟ خوب کھایا پیا تم نے‘‘
بکری نے ٹھنڈی آہ بھری اور اداس لہجے میں بولی ’’کہاں کھایا تم تو مجھے ایک ویران صحرا میں لے گئے، میں تو بہت بھوکی ہوں‘‘
چرواہا اس کے جھوٹ پر حیران رہ گیا۔
اسے غصہ تو بہت آیا لیکن جانور سمجھ کے کچھ نہیں کہا اور اسی جنگل میں چھوڑ آیا۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ بکری جھوٹ بولتی ہے اور اس نے ناحق اپنے بیٹوں کو گھر سے نکالا۔
وہ بیٹوں کو جگہ جگہ ڈھونڈتا پھرا۔ ایک دن درزی کی دکان پر پہنچا جہاں تینوں بیٹے کام کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام سے خوش تھے اور بہت ہنر مند ہو چکے تھے۔ تینوں نے باپ کے پاس جانے سے انکار کر دیا، مگر درزی نے سمجھایا اپنے باپ کی عزت کرو۔ کام چاہے یہیں کرو لیکن گھر واپس چلے جاؤ۔
وہ سعادت مند بیٹے درزی کے کہے پر چرواہے کے ساتھ چلے گئے۔
راستے میں بکری ملی جو اب بھی گھاس کھا رہی تھی۔
وہ سمجھ گئے بکری جھوٹ نہیں کہہ رہی تھی۔ در اصل اسے ہر وقت گھاس چرنے کی عادت ہے۔ یوں وہ خوش خوش اسے بھی گھر واپس لے گئے۔
کہانی ختم نہیں ہوئی۔ بکری صبح پھر گھاس چرنے جائے گی اور لڑکے درزی کے پاس کام کرنے۔ چرواہا اور بکریاں چرانے کو جائے گا۔
٭٭٭
مانو نے سبق سیکھا
مانو بہت پیاری بلی ہے۔ سفید گالا نیلی نیلی آنکھوں والی۔ ہر جگہ اچھلتی کودتی پھرتی، سب گھر والوں کی آنکھ کا تارا۔ پھر اس کی ماما دو اور بہن بھائی لے آئیں۔ مانو کو یہ ننھے منے بہت پسند آئے۔ وہ بہت خوش تھی کہ اب وہ ان کے ساتھ خوب کھیلا کرے گی۔ مگر جب وہ اس کے ساتھ بستر میں گھسنے کی کوشش کرتے تو مانو انہیں دھکا دے دیتی۔ تینوں اور مومی روتے ہوئے ماما کے پاس جاتے اور مانو کی شکایت کرتے۔ مانو اپنے کھانے کی چیزیں بھی ان سے چھپاتی اور اون کے گولے سے بھی اکیلی ہی کھیلتی رہتی۔ ماما اسے سمجھاتیں ’’دیکھو بیٹا مل جل کر رہا کرو اور مل بانٹ کر کھایا کرو‘‘ مگر اس پر اثر نہ ہوتا۔
آخر ایک دن کیا ہوا تینو اور مومی نے اس کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا۔ مانو اب اکیلی بیٹھی انہیں کھیلتے ہوئے دیکھتی، وہ بہت بور ہو جاتی۔ تینو اور مومی کو ڈانٹتی مگر وہ اس کی ایک نہ سنتے۔ پڑوس کے سارے بلونگڑے ان کے ساتھ ہی کھیلنا پسند کرتے، وہ تو مانو کو دیکھ کر ہی بھاگ جاتے۔ کیونکہ وہ اپنے کھلونے انہیں کھیلنے کو دیتے اور ٹافیاں اور بسکٹ بھی مل جل کر کھاتے۔ آخر مانو اپنی ماما کے پاس گئی اور کہنے لگی ’’ماما میں اکیلے کھیل کھیل کر بور ہو گئی ہوں۔‘‘
ماما نے تینو اور مومی سے اس کی دوستی کرا دی۔
اب تینوں بہت خوش ہیں وہ خوب کھیلتے ہیں، مانو کے نرم گرم بستر میں اچھلنے کودنے میں انہیں بہت مزہ آتا ہے
اور مانو کے پاس اون کی بال تو بہت دور تک کھلتی چلی جاتی ہے وہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں، مانو انہیں کچھ نہیں کہتی۔
ماما ٹھیک کہتی ہیں مل جل کر رہنے میں ہی مزہ ہے
٭٭٭
کھچڑی
اس نے گھر کی صفائی کر لی تھی، بس باورچی خانے کا فرش دھونا باقی تھا، جہاں خالہ ابھی تک کھچڑی بنا رہی تھیں۔ وہ انگن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر چڑیوں اور کبوتروں کو دانا چگتے ھوئے دیکھ رہی تھی۔ ذہن میں نانی اماں کی سنائی ہوئی کہانی کی بازگشت نے اس کا دھیان بھوک سے ہٹا دیا تھا جو کھچڑی کی خوشبو سے چمک اٹھی تھی۔ چڑا لایا چاول کا دانہ، چڑیا لائی دال کا دانہ۔ دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔۔ اس نے مڑ کر خالہ کی طرف دیکھا، کھانے کی چوکی پر بیٹھی تھیں سامنے رکھی پلیٹ میں کھچڑی اوپر تک بھری ہوئی تھی جیسے چھوٹی سی پہاڑی۔
اس کے پیٹ میں دوڑتے چوہوں کی رفتار تیز ہو گئی تھی، نانی اماں کی آواز آ رہی تھی ’’دونوں کھانے بیٹھے تو چڑیا بولی ’’مجھے تو گھی لا کے دو۔ ایسے تو نہیں کھاؤں گی‘‘۔
’’مگر میں ایسے ہی کھا لوں گی۔‘‘ اس کے منہ سے نکلا ۔
خالہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ انھیں اس کی آواز ایک بڑبڑاہٹ کی طرح سنائی دی۔
وہ اب کھچڑی میں گھی اور دہی ڈال رہی تھیں۔ اس کا دل چاہا کہہ دے ’’ہاں مجھے بھی کھانا ہے۔ کل سے گھر میں کچھ نہیں پکا۔ آپ گھر کی صفائی کے پیسے دیں گی تو شاید ابا کچھ کھانے کو دے دیں۔
جب سے اس کی امی کا انتقال ہوا، محلے میں ایک یہ منہ بولی خالہ ہی تھیں جو گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے بدلے میں اس کی ضروریات کا خیال کر لیتی تھیں۔ ابا بھی مزدوری پر جاتے ہوئے بے فکری سے خالہ کے گھر چھوڑ جاتے۔ یوں تو خالہ خاصی بد مزاج تھیں لیکن اس کے ساتھ کبھی جھڑک کر بات نہ کرتیں البتہ تازہ کھانے میں سے کچھ دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔
اس وقت بھی اچار کی پھانک کے ساتھ بڑے مزے سے کھچڑی کھاتے ہوئے کسی سے موبائل پر باتیں بھی کرتی جا رہی تھیں۔
’’ارے ثمینہ بہن کیا بتاؤں، پیٹ کی حالت اچھی نہیں۔ آج پھر کھچڑی بنائی ہے۔ کہاں میں بریانی اور قورمے کے بغیر نوالہ نہیں توڑتی تھی اب یہ پھیکے کھانے مقدر میں رہ گئے ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے پلیٹ میں بچے ہوئے چاولوں کو ایک بڑے نوالے میں سمیٹ کر منہ میں ڈال لیا۔ ادھر خالہ کا منہ چل رہا تھا، ادھر اس کے دماغ میں نانی کی کہانی کا اخری حصہ ٹیپ کے بند کی طرح گھومے جا رہا تھا۔ ’’دونوں نے مزے سے کھچڑی کھائی۔‘‘
خالہ اب خالی پلیٹ دھو رہی تھیں، سنک میں گرتے پانی کے شور میں انہیں سنائی نہ دیا وہ بڑبڑا رہی تھی خالہ نے تو اکیلے ہی ساری کھچڑی کھا لی۔
٭٭٭
ندی کے پار
’’بھائی صاحب آپ نے پچھلے ہفتے کے اخبارات تو میرے لئے بچا کر رکھ دیے ہوں گے‘‘۔ عبد الحسیب نے بک اسٹال کے مالک زاہد سے استفسار کیا۔
’’ہاں۔۔ وہ دیکھو۔ سامنے کھوکھے میں رکھ دئیے ہیں‘‘
زاہد جو اسٹال پر کھڑے ہوئے گاہکوں سے الجھ رہا تھا ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔
اس نے گاہک کے ہاتھ سے رسالہ تقریباً چھین کر واپس شیلف میں رکھا اور دوبارہ گویا ہوا۔
’’ارے صاحب! آپ لوگوں کو مفت کی اٹ کیوں لگی ہوئی ہے، یہ رسالہ۔۔۔ خرید کر گھر لے جائیے اور آرام سے بیٹھ کر اس کا لطف اٹھائیے‘‘
زاہد کو ان مفت کا اخبار اور رسالے پڑھنے والوں سے سخت چڑ ہوتی تھی،
وہ بڑبڑا رہا تھا ’’یہاں میں نے کوئی لائبریری تھوڑی کھول رکھی ہے، پانچ سو روپے کا برگر کھا لیں گے لیکن پچیس روپے کا رسالہ خریدنے کی ہمت نہیں ہوتی‘‘
شروع کے الفاظ اس نے زور سے جبکہ آخری مدھم آواز میں کہے، پاس کھڑے ہوئے عبد الحسیب نے سب سن لیا تھا لیکن ان سنی کرنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔۔
خود اس نے بھی کئی ماہ پہلے بک اسٹال سے اخبار خرید کر پڑھا تھا جب اس کا ایم اے ریاضی کا نتیجہ اخبار میں چھپا تھا جس میں اس نے فرسٹ کلاس حاصل کی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد سے تقریباً ہر روز ہی پرانے اخباروں سے ملازمت کے اشتہاروں کی کٹنگز نکالنے اسٹال پر آ رہا تھا۔
زاہد نے ادھر ادھر بکھری ہوئی کتابوں کو قرینے سے شیلف میں سجاتے ہوئے اسے مشورہ دیا۔
’’تم دبئی کیوں نہیں چلے جاتے، میرا بھتیجا سمیع کہہ رہا تھا کہ آج کل وہاں بڑی نوکریاں ہیں، تم بھی ایک چکر وہاں کا لگا آؤ۔۔ سچ کہتا ہوں سب دلدر دور ہو جائیں گے‘‘
’’ہمم۔ ۔۔سوچوں گا‘‘۔۔۔۔ عبد الحسیب نے مختصر سا جواب دے کر پھر اخباروں کے ڈھیر میں منہ چھپا لیا۔
ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں کمپیوٹر کے سامنے ساکت بیٹھنا اس کا خواب نہ تھا بلکہ اپنے گاؤں کے بچوں کو حساب پڑھانا اچھا لگتا تھا وہ ریاضی کا استاد بننا چاہتا تھا۔ اس کا گاؤں اپنے علاقے میں کافی مشہور تھا جہاں بڑی تعداد میں لوگ اعلیٰ تعلیم کے بعد سنگا پور، ملائشیا اور دوسرے امیر ملکوں میں نوکریاں حاصل کر رہے تھے۔ پر عبد الحسیب کے سوچنے کا انداز کچھ الگ ہی تھا، یہ بات نہ تھی کہ وہ پیسا کمانا نہیں چاہتا تھا یا جدید دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا تھا، لیکن پھر بھی جب بچوں کے ساتھ مل کر ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرتا جو اکثر سائنس کی گتھیاں اور حساب کے پیچیدہ فارمولے ہی ہوتے تو ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی کامیابی کی خوشی دیکھ کر اس کا دل اطمینان سے بھر جاتا۔ وہ کافی عرصے سے پڑوسیوں کے بچوں کو نہایت قلیل معاوضے پر ٹیوشن پڑھا رہا تھا اس آمدنی میں گھر چلانا تو دور کی بات بمشکل اپنا جیب خرچ ہی نکال پاتا تھا۔
عبد الحسیب کے والد کے ریٹائر ہونے کے بعد بڑا بیٹا ہونے کے ناطے چار چھوٹی بہنوں اور والدین کی ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آن پڑی تھی، ابا کی پینشن واحد ذریعہ آمدنی بن کر رہ گئی تھی غرض یہ کہ گھر کی حالت دگرگوں ہو چلی تھی، وہ دل ہی دل میں ابا کے زیادہ بچے پیدا کرنے والے فیصلے پر کڑھتا لیکن حد درجہ تمیز دار فطرت کوئی بھی سوال کرنے سے روک دیتی۔۔ اسی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں ہر قیمت پر نوکری حاصل کرنا اس کا واحد مشغلہ بن کر رہ گیا تھا۔
ایک اشتہار کی کٹنگ نکالتے ہوئے دفعتاً اخبار کے آخری صفحہ پر چھوٹی سی خبر نے اس کی توجہ کھینچ لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پوری طرح خبر کے مطالعہ میں گم تھا کہ اس کے سر پر کسی نے ٹہوکا دیا۔۔۔
اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ سامنے اس کے بچپن کا دوست لطیف کھڑا تھا۔
عبد الحسیب نے اس خبر کا ذکر کرتے ہوئے لطیف کی طرف دیکھا ’’کیوں نہ میں اس جاب کے لئے درخواست دے دوں‘‘
’’کیا؟ تم پاگل ہو گئے ہو۔۔۔۔‘‘ لطیف نے گویا اچھلتے ہوئے کہا ’’اسکول ٹیچر کی نوکری اور وہ بھی پالی کر گاؤں میں۔۔۔۔۔
میں تو تمہیں اس کام کا مشورہ ہرگز نہ دوں گا‘‘
عبد الحسیب نے اس کے سخت رد عمل پر کندھے اچکاتے ہوئے پوچھا ’’آخر اس میں برائی کیا ہے؟‘‘
’’پہلی بات تو یہ کہ اس تنخواہ میں اتنے بڑے کنبے کو کیسے پالو گے؟۔۔۔ اور دوسرے۔۔۔۔ گاؤں جانے کا راستہ کتنا دشوار گزار ہے۔۔۔ اس کا اندازہ بھی ہے تمہیں! صرف ایک بس جاتی ہے وہاں، اور وہ بھی گاؤں سے کئی کلو میٹر پہلے اتار دیتی ہے، سڑک تو نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔ تمہیں وہاں پہنچنے کے لئے کم سے کم دو گھنٹے درکار ہوں گے اور کافی پیدل بھی چلنا پڑے گا‘‘
عبد الحسیب کو گہری سوچ میں کھویا پا کر دوبارہ گویا ہوا۔۔۔۔
’’ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔
کلدا ندی کو تیر کر پار کر کے یہ وقت بچا سکتے ہو اور اس طرح یہ فاصلہ صرف چند کلو میٹر رہ جائے گا۔ لیکن۔۔۔ ۔ تم ایسا کرو گے ہی کیوں۔۔۔۔جبکہ پچاس ہزار کی نوکری تمہیں گھر بیٹھے ملنے والی ہے‘‘
’’تم کس نوکری کی بات کر رہے ہو۔۔۔ مجھے تو ابھی تک کہیں سے انٹرویو کی کال نہیں آئی۔۔۔ لگتا ہے درخواستیں بھیجنا ہی میرا کل وقتی کام ہے‘‘
’’میں یہی بات تو تمہیں بتانے آیا تھا لیکن تمہاری تو وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہے، بس استاد بننا ہے‘‘۔۔۔ لطیف چڑ کر بولا۔
’’ہاں تو میں تمہیں بتا رہا تھا۔۔۔۔ بڑے بھیا نے اپنے آفس میں تمھارے لئے بات کی ہے۔ نوکری کی نوعیت تمہاری اسی کمپیوٹر ٹریننگ سے متعلق ہے جو تم نے پچھلے سال میرے ساتھ کی تھی۔۔۔ مگر۔۔۔ ان کے منیجر کا کہنا ہے وہ پہلے تین ماہ تمہیں آزمائشی طور پر ملازم رکھیں گے اور اس دوران اگر تم نے اپنی اہلیت ثابت کر دی تو نوکری مستقل ہو جائے گی۔۔۔۔ بس۔۔۔ اب سماج سیوا کے متعلق سوچنا بند کرو۔۔۔۔۔ لاؤ۔۔۔ اپنے کاغذات مجھے دے دو۔۔۔ تاکہ میں ابھی بھیا کو دے آؤں‘‘
عبد الحسیب بدستور خاموش تھا اس کے ذہن میں خبر کے الفاظ گھوم رہے تھے
’’پالی کر اسکول کے ڈیڑھ سو بچوں کا مستقبل خطرے میں‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیڈ ماسٹر نبی بخش ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کو باہر برامدے میں بٹھا کر حساب کے سوال حل کرانے میں لگے تھے۔ اسکول میں اساتذہ کی کمی نے انہیں سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا وہ سوچ رہے تھے۔۔۔۔ آخر میں کب تک مختلف جماعتوں کے بچوں ایک ساتھ بٹھا کر کام چلاتا رہوں گا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ نواز اسکول کا کلرک کمرے کے دروازے پر نمودار ہوا اس کے ہاتھ میں دبی فائل دیکھ کر انہوں نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔ ’’اب کونسے نئے خرچوں کا کھاتا اٹھا لائے ہو؟‘‘
’’نہیں سر۔۔۔ یہ حساب کے نئے استاد کی تقرری کا پروانہ ہے۔۔۔ جس پر آپ کے دستخط چاہئیں۔۔۔ اب تو آپ خوش ہو جائیں‘‘
’’ارے کیا خوش ہو جاؤں۔۔۔‘‘ نبی بخش ہیڈ ماسٹر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’کوئی یہاں کیوں ٹکے گا؟ سوال تو یہ ہے۔۔۔۔ تم تو جانتے ہی ہو۔۔۔ ندی نے تین طرف سے گاؤں کو گھیرا ہوا ہے اور حالیہ بارشوں نے اس پرانے پل کو بھی ختم کر دیا جو ہمیں سدھائی گاؤں سے ملاتا تھا اور بس کے راستے کوئی استاد آنے کو تیار نہیں ہوتا۔۔۔ اگر ابھی تک کے رکارڈ کو دیکھو تو تو تین ماہ سے زیادہ کوئی ٹکتا نہیں۔۔۔۔ میں تو سوچ رہا ہوں۔۔۔۔اگر یہی حال رہا تو کہیں اسکول بند ہی نہ ہو جائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دن گزر گئے۔۔۔ نئے استاد کے آنے کی امید مایوسی میں بدلتی جا رہی تھی۔ نبی بخش اداسی سے اپنے آفس کی کھڑکی سے سامنے والی جماعت کے بچوں کو دیکھ رہے تھے جو خالی پریڈ میں اپنے ڈیسکوں پر سر رکھے اونگھ رہے تھے۔ کچھ سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھے اور ان بچوں کے جماعت میں پہنچ گئے۔
’’ہاں تو لڑکو! تم لوگ آج حساب کی بجائے اس خالی پیریڈ میں باہر میدان میں جا کر فٹ بال کھیل لو۔۔ میری طرف سے اجازت ہے‘‘
لڑکوں کے مضمحل چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ ہیڈ ماسٹر کے الفاظ گویا کرنٹ بن کر ان کے جسموں میں دوڑنے لگے وہ اچھلتے کودتے ایک دوسرے کو دھکیلتے میدان کی طرف بھاگ گئے
موسم گرد آلود تھا۔۔۔ اسکول کے میدان میں بچوں کی بھاگ دوڑ سے دھول اڑ رہی تھی۔
ہیڈ ماسٹر نبی بخش کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کی امیدوں پر بھی ایسی ہی کبھی نہ ختم ہونے والی گرد جم چکی ہو۔
وہ کلرک نواز کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے برامدے میں آن کھڑے ہوئے۔
یہاں سے سامنے بہنے والی ندی صاف نظر آتی تھی، آج ندی میں پانی کی سطح معمول سے کافی اونچی تھی ورنہ اکثر تو یہ ایک پتلے نالے کی طرح معلوم ہوتی تھی۔
اچانک انہیں ندی میں کوئی تیرتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔ نواز اسے دیکھ کر حیرت آمیز لہجے میں بولا۔۔۔ ’’سر آپ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ اتنے خراب موسم میں یہ کون دیوانہ ہے جو ندی تیر کر پار کر رہا ہے‘‘
آدمی قریب آ رہا تھا۔ ۔۔ اس نے سر پر پلاسٹک میں لپٹی ہوئی کچھ بیگ نما چیز کو باندھا ہوا تھا اور ربر کے ٹائر کو گلے میں ڈالے تیرتا چلا آ رہا تھا
نواز اور نبی بخش کو جیسے ایک سنسنی خیز مشغلہ ہاتھ آ گیا تھا۔۔ دونوں خاموشی سے اس کی حرکات پر نگاہ جمائے کھڑے تھے۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے پیلو کے درخت کی آڑ لے لی۔۔۔ کچھ ہی منٹ گزرے ہوں گے وہ دوبارہ نظر آیا۔۔۔ اپنے گیلے کپڑوں کو ایک تھیلے میں لپیٹ کر اسی بیگ میں رکھ رہا تھا جسے تیرتے ہوئے اپنے سر پر رکھے ہوئے تھا۔ اسی دوران وہ گھوما۔۔۔ اب اس کا چہرہ بالکل واضح تھا۔۔۔
’’ارے‘‘۔۔۔ دونوں کے منہ سے سیٹی نما آواز نکلی۔۔۔ ہیڈ ماسٹر نبی بخش ایکدم زور سے چلائے۔۔۔ ’’لڑکو۔ ۔۔ جلدی کرو۔۔۔۔ اپنے جماعت میں جاؤ۔۔۔ تمہارے نئے استاد چند ہی منٹ میں پہنچنے والے ہیں۔۔‘‘
٭٭٭
ناؤ میں ندی ڈوب چلی
وہ سڑک کی طرف کھلنے والے دریچے میں بیٹھی، بچوں کو ایک دوسرے پر پانی اچھالتے پوری محویت سے تک رہی تھی۔ مون سون کی تیز بارش نے سڑکوں پر بنے گڑھوں کو چھوٹے چھوٹے تالابوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی کاغذ کی ناؤ کو اس تالاب میں تیرائے جس میں اس کی سہیلیوں کی کشتیاں ایک دوسرے سے آگے لے جانے کی تگ و دو میں ہلکے ہلکے دائرے بناتی، کبھی ابھرتیں اور کبھی ڈوب جاتیں۔
مگر امی کی تیز آواز نے اسے حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ بچپن سے دل میں بیٹھا ہوا ایک انجانا سا خوف اسے امی کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے ہی کہاں دیتا تھا۔ کھڑکی میں بیٹھ کر دوسرے بچوں کو ان کے من پسند مشغلوں میں مگن دیکھنا بھی امی کے نزدیک وقت کا زیاں تھا۔ اس کی کتابیں اور کاپیاں میز پر رکھی اس کے سلیقے کو داد دیتی رہتیں۔ کیا مجال ہے کوئی صفحہ کہیں سے پھٹ جائے، لیکن کبھی کبھی ان میں سے کوئی کاغذ اچھل کر اس سے مطالبہ کرنے لگتا کہ اسے پھاڑ کر ناؤ بنا لے، پر امی کی فرما نبردار بیٹی دل پہ پتھر رکھے کورس کی کتابوں کو رٹنے میں لگی رہتی۔ اس نے پچھتر فیصد نمبر لے کر انٹر پاس کیا مگر امی کو کوئی خوشی نہ ہوئی۔ ان کے نزدیک اتنے کم نمبر لے کر گویا سارے خاندان میں ان کی ناک ہی کٹوا دی تھی۔ بلکہ اب وہ اس کی شادی کے لئے آنے والے پیغامات پر سنجیدگی سے غور کرنے لگی تھیں۔ جبکہ اس کی سوچ اپنے خوابوں کی انگلی تھامے مگن تھی کہ اسے ابھی پڑھنا ہے، ڈاکٹر نہیں تو نرس تو بننا ہی ہے۔ انٹر کے رزلٹ کا اخبار پلکیں جھپکا کر اسے اکساتا ’کچھ بھی بن جاؤ مگر ابھی دلہن نہ بننا‘۔ اس کی کتاب کے ادھ کھلے صفحہ سے جھانکتا سرمد کا دیا ہوا گلاب سوکھ کر اپنی خوشبو کھو چکا تھا۔ اس میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ امی کے جلال کو سہہ سکے۔
باہر ہال کمرے میں بیٹھے ہوئے خاندان کے بزرگوں کی گفتگو کی سن گن، اسے چھوٹے بھائی دانیال کے جلے کٹے تبصرے کے ساتھ سننے کو مل رہی تھی۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ ہونے کو تھا۔ صرف دادی اماں کی دبی دبی آواز تھی اس کے حق میں ابھر رہی تھی مگر کوئی انہیں بولنے ہی کہاں دے رہا تھا۔ تب ہی وہ ایک جھٹکے سے اٹھی، اخبار کی ناؤ کو ہاتھ میں دبائے ہوئے، برآمدے سے ہوتی ہوئی دروازے سے باہر نکل گئی۔ بارش کا پانی کب کا سوکھ چکا تھا۔ لوگ بھول گئے تھے برسات کیا ہوتی ہے۔ وہ اخبار سے بنی ناؤ لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑک کے گڑھے میں اتر گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ساری گلی ایک ایسا منظر پیش کر رہی تھی جو لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پانی اب آسمان سے نہیں، زمین سے ابل رہا تھا۔ گڑھے میں انہونی برسات کیا ہوئی، ساری سڑک جل تھل ہو گئی۔ خاموش کمروں میں دبکے امتحان کی تیاری کرتے ہوئے بچوں نے کتابوں کے ورق پھاڑے اور ان کی کاغذ کی ناؤ نے سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کی جگہ لے لی، اس انوکھی ندی میں ہر طرف رنگین کاغذی کشتیاں پوری آن بان سے تیر رہی تھیں۔
دادی اماں کی مدھم آواز تیز ہو گئی تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں ’’دانیہ شہر کے سب سے بڑے نرسنگ کالج میں پڑھے گی‘‘۔ امی کا جلال جیسے حیرت کے پانی میں کہیں بہہ گیا۔ ابا جان اور باقی گھر والوں کے منہ کھلے رہ گئے انہوں نے ایک نظر دونوں کے چہروں کی طرف دیکھا جہاں کامیابی اور ناکامی کے سائے آپس میں گلے مل رہے تھے، پھر کچھ سوچتے ہوئے سر جھکا کر فیصلے کی بکھری ہوئی فائلوں کو سمیٹا اور کھانے کے انتظار میں دسترخوان پر جا بیٹھے۔
٭٭٭
محبت کیا کچھ بدل سکتی ہے
یہ وہ واحد کہانی ہے جو میری نانی اماں نے مجھے سنائی اگرچہ جب بھی سنی رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے آج دیکھتی ہوں بچوں کو سناتے ہوئے دانتوں کے نیچے کرکری سی ہوتی ہے کہ نہیں اچھا تو خیر سنیں۔
کسی گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی اس کے کوئی اولاد نہیں تھی بس ایک چھپکلی جو دیوار پر بسیرا کرتی تھی اسے ہی اپنی بیٹی سمجھنے لگی یہاں تک کہ اس کے لئے چاندی کی چھوٹی چھوٹی جھانجنیں بھی بنوا کر پہنا دیں۔
چھپکلی جہاں بھی جاتی یہ چھن چھن کرتیں اور بڑھیا کو بہت اچھا لگتا جیسے اس کی بیٹی سارے گھر میں گھومتی ہو۔
ایک دن کیا ہوا ایک بھولا بھٹکا مسافر راہ سے بھٹک کر ادھر آ نکلا۔ بڑھیا نے اس کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہ رکھی۔
مجھے یہ کہانی سناتے ہوئے الجھن سی ہو رہی ہے حیرت ہے کہ نانی اماں سے کیسے سن لیا کرتی تھی۔
خیر اب شروع کر دی ہے تو پوری تو کرنی ہے۔
مسافر کھانا کھانے لگا تو اسے دوسرے کمرے سے چھن چھن کی آواز سنائی دی وہ ٹھٹھک کر بولا ’’یہ کون ہے۔‘‘
بڑھیا نے جواب دیا ’’میری بیٹی۔‘‘
’’اچھا تو یہ کھانا کیا اسی نے بنایا ہے۔
میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
بڑھیا نے جھوٹ بولا ’’ہاں مگر وہ پردہ کرتی ہے کسی کے سامنے آنا پسند نہیں کرتی۔‘‘
مسافر کی بے تابی بڑھنے لگی۔
وہ ایک نظر اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا تھا جس نے اتنا اچھا کھانا اسے بنا کر کھلا یا اس ویرانے میں۔
بڑھیا اس بات پر گھبرا گئی اور سچ اگل دیا۔
’’ارے یہ تو چھپکلی ہے، میرے تو کوئی اولاد ہی نہیں بس اسی کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتی ہوں۔‘‘
مسافر کو بڑھیا کی بات پر یقین نہ آیا اور وہ چشم تصور سے کسی حسین لڑکی کو ادھر ادھر پائل چھنکاتے دیکھتا رہا۔
جب اس کے اصرار پر بھی لڑکی سامنے نہ آئی تو اسے بڑھیا پر غصہ آنے لگا۔
قریب تھا کہ وہ اسے کوئی نقصان پہنچا دے۔ ایک دم سے دروازہ کھلا اور ایک نازک سی لڑکی چہرے پر گھونگھٹ ڈالے کمرے میں آ گئی۔
بڑھیا اور مسافر دونوں ہی حیران تھے۔
مگر لڑکی نے جواب دیا ’’جب میں نے اپنی منہ بولی ماں کو مشکل میں دیکھا تو اللہ سے دعا کی اللہ مجھے انسان بنا دے۔ میری ماں نے مجھے اتنی محبت دی اس کے صلے میں اس کی کہی بات کی لاج رکھ لے۔ آج سے میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کروں گی اور کوئی مسافر ایسے میری ماں کی بے عزتی نہیں کر سکے گا۔‘‘
آخر روایتی انداز میں کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے، مگر میں نے اسے بدل دیا۔ بد تمیز مسافر کو انہوں نے گھر سے نکال باہر کیا اور یوں بڑھیا اور اس کی بیٹی ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭٭٭
بندر چالباز کیسے بنا
برازیل کی ایک لوک کہانی
بہت پرانی بات ہے، جنوبی امریکہ کے ملک برازیل کے پاس ایک خوبصورت جنگل ہوا کرتا تھا جس میں طرح طرح کے پھلوں سے لدے ہوئے بہت سے درخت تھے۔ جنگل میں بڑے بڑے جنگلی جانور بھی رہتے تھے جن کا جب دل چاہتا یہ ذائقہ دار پھل کھا لیتے اور مزے سے رہتے۔ لیکن اس جنگل میں ایک قانون بھی تھا جس کی پابندی انہیں لازمی کرنی پڑتی تھی اور وہ یہ تھا کہ پھل توڑنے سے پہلے جانوروں کو درخت کے سامنے جھک کر تعظیم دیتے ہوئے نہایت نرم آواز میں یہ التجا کرنی ہوتی تھی ’’پیارے درخت! برائے مہربانی، ہمیں اپنے پھل کا ذائقہ چکھنے کی اجازت دو‘‘
مثلاً، اگر انہیں انجیریں کھانا ہوتیں تو وہ اس طرح کہتے ’’اے انجیر کے درخت! اے انجیر کے درخت!، برائے مہربانی، ہمیں اپنے پھل کا ذائقہ چکھنے دو‘‘ اور لذیذ انجیر ان کے قدموں میں آ گرتے، جنھیں کھا کر وہ اپنی بھوک مٹاتے اور آرام کی زندگی جیتے۔
اس ضمن میں انہیں دو باتوں کی بہت احتیاط کرنی پڑتی، ایک تو یہ کہ وہ درخت کا بالکل درست نام لیں، اور دوسرے، برائے مہربانی یعنی پلیز کہنا ہرگز نہ بھولیں۔
اس کے علاوہ انہیں ندیدوں کی طرح درخت کے سارے پھل کھانے کی بھی بالکل اجازت نہ تھی اور بہت سے پھل درخت پر لگے رہنے دینا تھے تاکہ وہاں سے گزرنے والے دوسرے جانور بھی پھلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ساتھ ہی درخت ان پھلوں سے بیج حاصل کر سکیں جن سے نئے درخت پیدا ہوں اور یوں جنگل پھل دار درختوں سی بھرا رہے۔
اسی جنگل کے کونے میں ایک طویل القامت درخت ایسا بھی تھا جس کی گھنی سایہ دار شاخیں نہایت خوبصورت سرخ رنگ کے پھلوں سے لدی ہوئی تھیں۔
درخت کے پھلوں کو سارے جنگل کے جانور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے لیکن انہیں کھانے میں ناکام رہتے۔
اس کی وجہ کیا ہو سکتی تھی بھلا ذرا بوجھو تو بچو!
ہاں۔ ۔
تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس درخت کا نام کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔۔
جنگل کے سرے پر ننھی سی کٹیا میں ایک کمزور بوڑھی عورت رہتی تھی جو جنگل میں موجود تمام درختوں کے ناموں سے واقف تھی۔ اسی لئے سبھی جانوروں کی پسندیدہ شخصیت تھی، وہ اکثر اس کے پاس آتے اور جو پھل انہیں کھانے ہوتے اس درخت کا نام بوڑھی خاتون سے معلوم کرتے، لیکن چونکہ وہ درخت کٹیا سے بہت دور جنگل کے دوسرے سرے پر اگا ہوا تھا اور اس کا نام اتنا مشکل اور طویل تھا کہ جب تک وہ اس درخت تک پہنچتے، نام ان کے ذہن سے محو ہو چکا ہوتا۔۔
یہی وجہ تھی کہ درخت پھلوں سے اتنا بھر گیا کہ اس کی شاخیں جھک گئیں لیکن درخت اتنا اونچا تھا کہ اس کے پھل اب بھی جانوروں کی پہنچ سے دور تھے۔۔
بندر بھی انہی جانوروں میں سے ایک تھا جسے اس درخت کے پھل بہت لبھاتے تھے وہ ہر روز ان کے نیچے سے گزرتے ہوئے انھیں کھانے کی ترکیبیں سوچا کرتا
پیارے بچو! آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ بندر گٹار بجا سکتے ہیں، جب سارے جانور ایک جگہ جمع ہوتے تو اکثر وہ گٹار بجایا کرتا جس کی مسحور کن دھنوں پر وہ رقص کرتے اور بہت لطف اندوز ہوتے، ایک دن بندر انہی پھلوں کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگا ہوا تھا کہ اسے ایک ترکیب سوجھی۔۔
وہ گٹار کو اپنی بغل میں دبا کر بوڑھی عورت سے ملنے اس کی کٹیا میں چلا گیا اور اس عجیب پھل دار درخت کا نام پوچھا جب خاتون نے وہ طویل نام بتایا تو بندر نے جھٹ پٹ ایک دھن ترتیب دے ڈالی اور اس دھن پر گٹار بجاتا وہ نام دہراتا ہوا درخت کی جانب چل پڑا، راستے میں اسے دوسرے جانور بھی ملے جو بہت حیران ہو کر اس سے پوچھتے کہ وہ کونسی عجیب دھن بجا رہا ہے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنی۔ بندر ان کی بات ان سنی کرتے ہوئے بس وہ دھن بجاتا آگے ہی آگے چلتا رہا۔۔
بالآخر وہ اس پھل دار درخت تک پہنچ گیا سرخ سرخ سیبوں کی طرح کے پھل سورج کی روشنی میں دمک رہے تھے، پھلوں کی خوشبو اسے مسحور کیے دے رہی تھی۔ اتنا خوب صورت نظارہ اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ان پھلوں کے خوب صورت رنگوں اور خوشبو میں ایسا کھویا کہ وہ درخت سے برائے مہر بانی کہنا بھول گیا اس نے جیسے ہی درخت کا پورا نام لیا لذیز پھل اس کی جھولی میں آ گرے۔۔
اس نے بے صبری سے ایک پھل اٹھا کر ایک بڑا سا ٹکڑا اپنے دانتوں سے کاٹ لیا۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔
بندر کا چہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دیکھنے میں اس قدر اشتہا انگیز پھل کا ذائقہ اتنا ترش اور کسیلا بھی ہو سکتا ہے۔
اس کا منہ کڑواہٹ سے بھر گیا جلدی سے پھل کو ایک طرف پھینکا اور وہاں سے کودتا پھاندتا تیزی سے دور بھاگتا چلا گیا۔۔
بندر اس درخت کا نام کبھی نہیں بھول سکا نہ ہی وہ دھن جو اس نے درخت کا نام یاد رکھنے کے لئے ترتیب دی تھی اور ظاہر ہے پھل کا ذائقہ تو وہ کبھی بھول ہی نہ سکتا تھا۔
لیکن اس واقعہ کے بعد اس کا سب سے پسندیدہ مشغلہ یہ تھا کہ وہ دوسرے جانوروں کو وہ پھل کھانے کے لئے للچاتے ہوئے دیکھ کر انہیں وہ دھن بجا کر اس درخت کا نام بتایا کرتا اور جب وہ کڑوے پھل کھا کر طرح طرح کے منہ بناتے تو اسے بہت مزہ آتا تھا۔ اس کی ان شرارتوں کی وجہ سے جنگل کے جانور اسے چال باز بندر کہنے لگے۔
آپ نے دیکھا بچو کہ جب بندر نے درخت کو عزت سے مخاطب نہیں کیا تو اس نے پھل تو دیا لیکن اس کا ذائقہ ہمیشہ کے لئے کڑوا ہو گیا
٭٭٭
جلترنگ شہزادی اور نڈر سپاہی۔
بچوں کے ایک بڑے گروپ نے اسکول کی لائبریری کا دروازہ کھولا اور تیزی سے ادھر ادھر گھوم کر اپنی دلچسپی کی چیزیں ڈھونڈنے لگے سب ہی کا رخ سامنے لگے کمپیوٹرز کی طرف تھا وہ تیزی سے ان کی طرف پر جھپٹے اور کامیاب ہو جانے والے ان پر اپنے من پسند کھیل کھیلنے لگے جو باقی رہ گئے وہ بے دلی سے کتابوں کی الماریوں کی طرف بڑھ گئے اور جلدی جلدی اپنی مرضی کی کتابیں تلاش کرنے لگے۔
انہی الماریوں میں سے ایک شیلف میں دو کتابیں ساتھ ساتھ رکھی تھیں ایک کا نام نڈر سپاہی اور دوسری کا عنوان تھا جلترنگ شہزادی۔
جو کہ لائبریری کی سب سے قدیم کتابیں تصور کی جاتی تھیں آج سے بہت سال پہلے جب انہیں یہاں لایا گیا تھا تو ان کے سرورق شاندار، صفحات چمکیلے اور خوب صورت تصویروں سے سجے تھے جب پہلے پہل سپاہی نے شہزادی کو دیکھا تو اسے یہ ہنستی مسکراتی نیلی آنکھوں والی لڑکی بہت بھائی، دوسری طرف شہزادی کو بھی فوجی اپنے پر وقار انداز میں سرورق پر کھڑا بہت اچھا لگا، رفتہ رفتہ ان کی دوستی بڑھتی گئی اب وہ اکثر کتابوں میں بنی تصویروں کے درمیان رقص کرتے جو دبیز صفحات کے بیچ پھنسی ہوئی تھیں لیکن انہیں اس بات سے کوئی سرو کار نہ تھا وہ تو اپنی دنیا میں مگن بہت خوش تھے سپاہی نے یہ جان لیا تھا کہ حسین شہزادی کے باطن میں ایک چلبلی اور شرارتی لڑکی چھپی ہے جو ہنستے مسکراتے کئی تنہا دلوں کو اپنے پیار اور خوشیوں سے بھر دیتی ہے اور یہی اس کی اصل خوبصورتی تھی
دوسری طرف شہزادی نے بھی یہ سمجھ لیا تھا کہ سپاہی محض سرورق پر چھپا ہوا وجہیہ چہرہ ہی نہیں بلکہ ایک با ہمت اور جری انسان بھی ہے جو مشکلات میں پھنسے مجبور اور لاچار لوگوں کی مدد کرتا ہے اور انہیں ان کا حق دلواتا ہے یہی اس کی اصل سچائی تھی۔
جیسا کہ کتاب اپنے سرورق سے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتی ہے جلد ہی یہ بھی لائبریری کی سب سے مقبول کتابیں بن گئیں جنھیں اکثر بچے انہیں اپنے ساتھ گھر لے جاتے، کبھی اپنی ماؤں سے فرمائش کر کے انہیں سنتے اور کبھی خود پڑھا کرتے یوں ان میں چھپی دلکش اور خوب صورت کہانیوں نے کئی نسلوں کے بچوں کے دلوں کو مسخر کر لیا سپاہی اور شہزادی اکثر اپنی کہانیاں ایک دوسرے سے شیئر کرتے اب تو وہ اس مقام پر آ گئے تھے جہاں بغیر کہے ایک دوسرے کی بات جان لیا کرتے یہاں تک کہ اگر ایک کوئی جملہ شروع کرتا تو دوسرا اسے ختم کرتا اور یوں برسوں گزر گئے۔
لیکن اب وہ بے کار سے انداز میں لائبریری کے ایک کونے میں بچوں کی دھکم پیل کے دوران شیلف سے گر کر فرش پر پڑی تھیں، بچے ایک بار پھر کمپیوٹرز کے حصول کے لئے آپس میں جھگڑ رہے تھے ہر کوئی انہیں پانے کی تگ و دو میں لگا تھا اب مجھے دو، میری باری ہے کی تکرار ہر طرف سنائی دے رہی تھی ’’اگر مجھے کمپیوٹر نہ ملا تو وہی پرانی بورنگ کتابیں پڑھنی پڑیں گی‘‘ ایک نے کہا، ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں کیا ہم پرانے اور قدیم ہو چکے ہیں‘‘ شہزادی نے حیران ہو کر پوچھا، ’’ہاں، میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ کتابیں متروک ہو جائیں گی‘‘ سپاہی نے آہستگی سے جواب دیا۔ وہ بہت اداس دکھائی دیتا تھا۔
’’متروک بلکہ مہا متروک‘‘ کمپیوٹر نے اترا کر لقمہ دیا، ’’وہ لوگ جو پڑھ بھی نہیں سکتے میں ان کی بھی ضرورت بنتا جا رہا ہوں اور مجھے استعمال کرنے کے لئے وہ پڑھنا سیکھ رہے ہیں، یہ سچ ہے کہ لوگوں کو بہرحال کہانیوں کی تلاش ہمیشہ رہتی ہے لیکن اب وہ کتابوں میں انہیں نہیں ڈھونڈیں گے بلکہ مجھ تک رسائی کی کوشش کریں گے، میں پھر سے کہہ رہا ہوں اب تمہاری کوئی ضرورت باقی نہیں رہی‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسا لیکن جلد ہی سامنے سے آتے لائبریرین کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
اسی اثناء میں لائبریرین قریب آ چکا تھا اس نے زمین پر پڑی کتابوں کو اٹھایا اور تاسف سے بولا ارے ان کی تو بری حالت ہے، صفحے پھٹ رہے ہیں اور کور بدنما اور بے رنگ ہو چکے ہیں، میرا خیال ہے اب انھیں ریٹائر کر دینا چاہیے یا پھر پرانی کتابوں کے بازار میں بیچ دینا چاہیے شاید کوئی قدر دان انہیں اپنا لے
’’نہیں نہیں ایسا نہ کرو ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرو، دونوں کتابیں بے حد اداس اور ملول ہو گئیں‘‘
لائبریرین کو ان کی آواز سنائی نہ دی وہ کتابوں کو ایک طرف رکھ کر میز پر رکھے رجسٹر پر کچھ لکھنے میں مصروف ہو گیا۔
اسی دوران بچوں کے گروپ میں سے ایک لڑکا بھاگا ہوا لائبریرین کے پاس آیا اور بولا ’’مجھے کمپیوٹر نہیں ملا اس لئے نڈر سپاہی کی کتاب لینا چاہتا ہوں اس میں کچھ تو سچ ہے قصے کہانیوں کی کتابیں مجھے قطعی پسند نہیں‘‘ ایک اور ننھی لڑکی جس کی عمر کوئی دس یا گیارہ سال ہو گی بھی لائبریرین کے ڈیسک کی طرف آ گئی وہ بھی کمپیوٹر کے نہ ملنے پر بہت خائف تھی جلدی سے شہزادی کی کتاب پر جھپٹی ’’مجھے بھی کمپیوٹر نہیں مل سکا اس لئے یہ شہزادیوں والی کتاب ایشو کر دیں۔ مجھے خوابوں اور پریوں کی کہانیاں بہت اچھی لگتی ہیں‘‘ لڑکا تنک کر بولا ’’یہ سب فرضی ہوتی ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں ان میں کچھ بھی سچ نہیں ہوتا سب دل سے گھڑی ہوئی ہوتی ہیں‘‘ لڑکی بھی کم نہ تھی سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ناک سکوڑ کر بولی ہوں، ’’مجھے بھی مغرور اور ظالم سپاہیوں کے قصے بالکل پسند نہیں۔‘‘
سپاہی نے شہزادی کے کان میں سرگوشی کی ’’اس کی بات پر دھیان نہ دو تم بھی میری طرح سچ ہو اور اتنی ہی خوبصورت‘‘ شہزادی دھیرے سے بولی ’’اور تم بھی، جو بہادر بھی ہو اور سچے بھی اور سچ ہی تو اصل خوب صورتی ہے، چلو یہ اچھا ہی ہے کہ ہمیں پرانی کتابوں کے بازار میں بیچا نہیں جا رہا بلکہ صرف کچھ دنوں کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑے گا، ہاں آج سے تین ہفتے کے لئے خدا حافظ‘‘ شہزادی نے مسکرا کر کہا۔
’’دیکھو بچو! انہیں سنبھال کر رکھنا، یہ لائبریری کی سب سے پرانی کتابیں ہیں‘‘ لائبریرین نے بچوں کو ہلکی سی سرزنش کے انداز میں کہا جو کتابوں کو ہاتھ میں لیتے ہی لا پرواہی سے بھاگنا شروع ہو گئے تھے، لیکن ہوا یہ کہ بچی تو شہزادی کی کتاب کو بس میں ہی بھول گئی جو سیٹ سے پھسل کر بس کے کونے میں جا گری اور بعد ازاں گرد سے اٹ گئی۔ ایک دن بس کی صفائی کے دوران ڈرائیور کی نظر اس پر پڑی تو جھک کر اٹھا لیا اور جھاڑ پونچھ کر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔ گھر پہنچ کر اس نے کتاب اپنی بیوی کی طرف اچھال دی جو لاؤنج میں بیٹھی کوئی ٹی وی ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھی۔ اس نے جو یہ مٹی بھری کتاب دیکھی تو جل کر بولی ’’ارے یہ گندی کتاب تم گھر کیوں لے آئے اسے تو باہر ہی کسی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا تھا۔ بہتر ہو گا کہ اسے تم جلا ڈالو‘‘ ڈرائیور کو بیوی کی بات بہت بری لگی۔ وہ تاسف سے بولا ’’مجھے ایسے لوگ بالکل پسند نہیں جو کتابوں کو جلانے کی بات کرتے ہیں۔ اچھا ٹھیک ہے تمہیں ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں میں کل ہی اسے پرانی کتابوں کے بازار میں بیچ آؤں گا‘‘
دوسری طرف لڑکا سپاہی کی کتاب گھر تو لے آیا لیکن اپنے ایلکٹرانک کھیلوں میں اتنا مگن ہوا کہ اسے کتاب پڑھنے کا خیال تک نہ آیا۔ اس نے کتاب الماری میں رکھنے کی بجائے کھڑکی سے جڑی ایک شیلف کے کونے پر دھر دی جو ایک دن ہوا کے زور سے باہر جا گری، جسے بعد میں ردی والوں نے اٹھا کر پرانی کتابوں کے بازار میں بیچ دیا۔
اب ان کے ورق پھٹے ہوئے، بھدے اور بد نما ہو چکے تھے، ان کی تصویروں میں رنگ باقی نہ رہا تھا اور نہ وہ چمک تھی جو بچوں کو اپنی طرف راغب کرتی تھی۔
پرانی کتابوں کی شیلف پر وہ ایک بار پھر ساتھ ساتھ رکھی تھیں شہزادی نے سپاہی کو تسلی دیتے ہوئے کہا ’’تم دیکھنا ہماری کتابوں کا سچ باقی رہے گا اور ان کے اندر کی خوب صورتی کبھی کم نہ ہو گی چاہے ان کا سر ورق کتنا ہی بے جان بد رنگ کیوں نہ ہو جائے‘‘ سپاہی خاموش تھا وہ اپنی بے قدری پر بہت دل برداشتہ تھا اور بڑی حد تک کمپیوٹر کی بات سے متفق تھا کہ کتابیں متروک ہو چکی ہیں ابھی وہ انہی باتوں میں مصروف تھے کہ یکایک ایک نوجوان لڑکی ان کی شیلف کی طرف آتی دکھائی دی۔ دونوں کے دل امید اور خوف کی ملی جلی کیفیت سے دوچار تھے۔ یہ نوجوان لڑکی ماریا تھی جو کہانیاں لکھنا سیکھ رہی تھی۔ پرانی کتابوں کے بازار میں اسے پہلے بھی کئی ایسی کتابیں ملیں جن سے اسے لکھنے میں بہت مدد مل سکتی تھی۔ آج بھی اس نے اپنے ابو سے فرمائش کی کہ وہ مزید کتابیں لینے اس بازار جانا چاہتی ہے۔ اسی سلسلے میں وہ مختلف الماریوں میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتی ہوئی اس شیلف کے قریب آئی اور دونوں کتابیں دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑھی۔ ارے نڈر سپاہی اور جلترنگ شہزادی! یہ تو میری پسندیدہ کتابیں ہیں۔ ان سے ہی تو میں نے پڑھنے کی ابتدا کی تھی، مجھے آج بھی اپنی ماں کی یاد آتی ہے جب وہ گود میں لٹا کر مجھے سپاہی کی ہمت اور بہادری کے قصے سنایا کرتی تھی۔ شہزادی کے جلترنگ قہقہوں نے مجھے زندگی میں رنگ بھرنا سکھایا اب تو میں انہیں ضرور گھر لے جاؤں گی، دونوں کتابیں اس نے اپنے سینے سے ایسے بھینچ لیں جیسے اپنی ماں کے پیار کو پا لیا ہو۔ گھر لا کر کچن کی دراز سے ٹیپ نکالا اور پھٹے ہوئے اوراق درست کیے اور بولی ’’میں اپنے پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتی۔‘‘
اب شہزادی اور سپاہی دونوں ساتھ ساتھ لکڑی کے بنے ہوئے ایک خوبصورت شیلف میں رہتے تھے جو خاص طور پر ان کے لئے ہی بنایا گیا تھا جہاں وہ ایک دوسرے سے سچائیاں شیئر کرتے اور کتابوں کے اوراق میں چھپی دل کی دھڑکنیں سنا کرتے انھیں اس بات پر یقین آ گیا تھا کہ کہانیاں کبھی نہیں مرتیں وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور سینہ با سینہ نسلوں کا سفر کرتی ہوئی آگے ہی آگے بڑھتی رہتی ہیں۔
(مرکزی خیال نیوزی لینڈ کی بچوں کی رائٹر سوزن ڈوریکس کی ایک کہانی سے ماخوذ)
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں