اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


مثلث ۔۔۔ رشید سندیلوی

نثری نظموں کا مجموعہ

مثلث

شاعر:

رشید سندیلوی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

مثلث

 نثری نظمیں

رشید سندیلوی

فون نمبر 03316333910

 

 

نثری نظم نگاروں کے نام

خدائے لم یزل

وقت کی بہت بڑی فضا میں

خدا کی موجودگی روشنی کے ساتھ چمکتی ہے

ستاروں کا سمفونی، روشنی کا ایک رقص

سب کی تاریک راتوں میں راہنمائی کرتے ہیں

کہیں بھیجی ہوئی ہوا میں اور سمندر کے شور میں

ہر جانور بڑا یا چھوٹا خدا کا نام لیتا ہے

ہم عشق کی ایک دستار کے لئے تعریف کرتے ہیں

ہر دل میں ایک مقدس اسپارک ہے

تاریکیوں کی روشنی میں امید کا ایک شعلہ

ہنسی کی خوشی اور آنسوؤں کے نشانات میں

خدا کی موجودگی محسوس ہوتی ہے ایک بے پایاں دائرہ ہے

لہذا ہم کچھ دیر رکیں اور سر جھکائیں

سب کچھ جو بکھرا ہوا ہے ان کے لئے شکریہ ادا کریں

خدا کی محبت بے کراں ہے

جو ہمیشہ رہے گی

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

روشنی کا ایک چراغ

دنیا کی تاریکیوں میں

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

جو رحمت بن کر آئے

انسانیت کے لیے ایک مثال

محبت کا پیکر

ایمان کا علمبردار

ان کی زبان سے نکلی ہر بات

محبت کی گلیوں میں گونجتی رہی

ان کے اخلاق کی خوشبو

ہر دل میں بستی رہی

وہ جو ہر ایک کا دوست

ہر ایک کا رہنما

حق و صداقت کی تصویر

خود پر ہونے والے ظلم

اور ان کی صبر کی مثال

پہاڑوں سے بھی مضبوط

نفس کی جنگ میں

انہوں نے دکھایا

کہ حقیقی طاقت

محبت اور معافی میں ہے

مدینہ کی گلیوں میں

ایک نئی زندگی کا آغاز

جہاں بھائی چارے کی خوشبو

ہر طرف پھیلی

اور جہاں انسانیت کی خدمت

کا درس دیا گیا

کہ سب کو اپنے دل میں

محبت کا مقام دینا ہے

یہ وہ عظیم ہستی ہیں

جنہوں نے دنیا کو سکھایا

کہ فرقے، نسل اور رنگ

کسی کو ممتاز نہیں کرتے

بلکہ دل کی صفائی

اور نیت کی خلوص

ہی اصل معیار ہیں

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

کی سیرت کی روشنی میں

ہمیں چلنا ہے

آج کے اس دور میں بھی

ان کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے

محبت، رحم، اور امن کی راہوں پر

چلتے رہنا ہے

تاکہ ہم بھی

ان کی مثال بن سکیں

دنیا کی تاریکیوں میں

روشنی کی کرن

موت کا خیال

موت کا خیال آئے تو انسان کی فطرت

بے چین ہو جاتی ہے

یہ سوالات ذہن کو گھیر لیتے ہیں

موت کے بعد کا کیا ہو گا

ہم کہاں ہوں گے

کیا ہمارا وجود ابدی ہے یا صرف فانی

یہ خیالات انسان کو خود سے لے کر

کائنات کی وسعتوں تک لے جاتے ہیں

کیا کائنات کی ابدیت ہے

یا وہ بھی موت کی حدوں میں بند ہے

موت کے خیالات

انسان کی زندگی کو معنوں سے بھر دیتے ہیں

اور ہم اپنی وجودگی کے

اہم معنوں کو تلاش کرتے ہیں

ہیجڑے

ہیجڑے، جن کی دنیا  اپنی ہوتی نہیں

دلوں کا دکھ ہمیشہ یہیں چھپایا کرتے ہیں

محبت کی راہوں میں رنگ بھرتے ہیں

کسی صحیفے میں کہیں

ان کا ذکر مذ کور نہیں

امیدوں کی چمک، خوابوں کی روشنی

یہ ہیجڑے ہیں جو زندگی کو سنوارتے ہیں

غموں کی چادر اُٹھا کر، مسکراہٹ کی راہ دیتے ہیں

اپنے اندر کے دریا کو زندگی کے ساحلوں پر لے آتے ہیں

یہ ہیجڑے ہیں جو محبت کی ایک نئی مشعل چمکاتے ہیں

دلوں کی آواز کو پکارتے ہیں

ہمارے رنگ، ہماری شناخت

یہ ہیجڑے ہیں جو زندگی کو سجاتے ہیں

زرتشت

آفتاب کی روشنی لے کر زمین پر آیا

زرتشت الہامی پیغام کا علمبردار

انسانیت کی فکر کو روشن کیا

راہ دکھائی سب کو نیکی اور سچائی کی

ایک عظیم فریب گر نہیں بلکہ حق و عدل کا علمبردار

خوشیوں کی شاداب سرزمین روشنی کا منبر

تعلیم و تربیت کا وارث انسانیت کا رہنما

انسانی حقوق کا محافظ، سچائی و عدل کا سفیر

دلوں کو پیغام دے دنیا کو امن کی راہوں پر چلائے

زرتشت انسانیت کا ستارہ

روشنی کی راہنمائی

محبت ایک جذبہ ہے

محبت ایک جذبہ ہے، جو دو دلوں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے

یہ وہ حس ہے جو ہمیں دوسروں کی خوشیوں میں خوشی محسوس کرنے کی قوت دیتی ہے

محبت نے دنیا کو خوبصورت بنایا ہے اور دلوں کو روشنی دی ہے

یہ وہ راز ہے جو دو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھتا ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتا

محبت نے تاریکیوں کو دور کیا اور زندگی کو رنگین بنایا

یہ ایک انتہائی قوت ہے جو ہمیں دوسرے کی ذات کی قدر کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

محبت کے بغیر دنیا مانوس نہیں ہوتی، کیونکہ یہ انسانوں کے درمیان رشتے کو مضبوط کرتا ہے

یہ ایک انتہائی خوشی بھرا احساس ہے جو دو دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے

محبت ایک لطمہ ہے جو زندگی کو بیدار کرتا ہے اور ہمیں اپنی ذات کو سمجھاتا ہے

یہ وہ توڑ ہے جو ہمیں دوسرے کی طرف سے محبت کی عمق کو محسوس کرنے کی اجازت دیتا ہے

زندگی کی راہ پر

زندگی کی راہ پر چلتے چلتے

آدمی کبھی کبھار موت کی حقیقت سے ملتا ہے

جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی  کسی بھی لمحے میں ختم ہو سکتی ہے

زرد پتے جو زمین پر گرتے ہیں

اس طرح کی زندگی کی کمی کا علامتی روپ ہیں

جیسے ہی پتے زمین پر گرتے ہیں

وہ زندگی کی رونق و فروغات کے بارے میں بات کرتے ہیں

اسی طرح زندگی کے مختلف مواقع میں

فنا کی آواز سنائی دیتی ہے

جو انسان کو اس کی فانیت کی یاد دلاتی ہے

انار کلی

مغلِ اعظم بادشاہ اکبر کا بیٹا سلیم

اک کنیز کی زلفوں کا ہو گیا اسیر

اکبر اعظم کو یہ رشتہ یہ تعلق

پسند نہ تھا غیض و غضب کے ساتھ

کنیز  قید  میں پابندِ سلاسل

تڑپتی رہی سسکتی رہی

سلیم کی شاہزادگی دلاوری بہادری

آ  سکی نہ کام

موت کی سنسناہٹ ، تنہائی اور درد کی کسک

انارکلی  زندگی، خوابوں کا اژدہام

اکبر کا غضب ، انسان کی بے کسی و بے حسی

ظلم و جبر و شب و ستم

موت کے سائے لپکنے لگے زنداں کی طرف

دیوار میں چن دی بالآخر کنیز

اور  نیند میں ڈوبا رہا شاہ زادہ سلیم

صدیوں سے بج رہا ہے جبر کا جلترنگ

کیسے ممکن ہے کہ  مل جائے غلاموں کو نجات

احساس کا سفر

آنکھوں کی پیروی

جدید زمانے کی داستان

جو دیکھا ہم نے

وہی دنیا کی رنگا رنگی ہماہمی

دیواروں کے پیچھے

کچھ نہیں بس تصورات کا جہاں

آنکھوں کے درمیان

خوابوں کی فصل گلزار

روشنیوں کا عالم

بند کی جب آنکھیں

دور کا منظر  نظر آتا ہے

آسمان کی ابتداء سے

زمین کی سرحد تک کا سفر

آنکھوں کی گہرائیوں میں

کائنات کا خزانہ

ہر دل کا ایک راز

ہر خواب کی ایک کہانی

آنکھوں کی روشنی

گہری خوب صورت پانی کی جھیل

آوازوں کی گہرائیوں میں

ایک خاموش احساس کا سفر۔

زین رشید

(اپنے بیٹے کے لئے ایک نظم)

زین، انسانیت کی راہوں پر

ایک چمکتا ستارہ ہے

محبت کی روشنی بکھراتا ہے

دلوں میں امید کی کرن ہے

زندگی کے راستے میں

ایک شعلہ ہے

جو سب کو روشنی کی طرف لے جاتا ہے

ایثار کا جذبہ اس کے دل میں گہرا ہے

جیون کی اصل محبت کا اظہار کرتا ہے

کمائی کی لہر میں گریبانوں کو بھرتا ہے

امید کی گہرائیوں میں

والدین، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، بیوی اور بچوں کے

خوابوں کو مدھم نہیں ہونے دیتا بلکہ ان کے خوابوں کو حقیقت بناتا ہے

رشتوں سے اس کو عشق ہے

جو دلوں کو چھو جاتا ہے اور پیار کی ابدی کہانی سے اجاگر کرتا ہے

چاند

چاند اک عجیب خواب کا دیس  ہے

چمکتا ہے رات کی چادر میں مہکتا ہے

گریوٹی کی کمی ہے پروازیں بڑھاتا ہے

زمین کو بھول کر  خوابوں کی راہیں پا ہی جاتا ہے

پھیلاؤ اس کا فضا میں لہراتا ہے

سمندری مدار چمکتا ہے اور چمکتا ہے

ماہوارہ دورانیہ جدیدیت کا سفر

ہر روز نئی کہانی چاند کی زبانی

سنا ہی جاتا ہے

لیکن انجانے راہوں میں خطرات کی چھاؤں میں

سختیوں کا سامنا خوابوں کی محافل میں

چاند کے سفر میں ہمیشہ خواب ہیں

لیکن روانی سے راستہ میں ہمیشہ روشنی ہے

دل اور سمندر

دل اور سمندر دونوں ہی زندگی کی ایک عمیق حقیقت ہیں

دل انسان کی روح اور احساسات کا مرکز ہے

جبکہ سمندر زمین کی سطح پر سب سے بڑا جسمی اثاثہ ہے دونوں میں مشترکہ عناصر اور ان کی گہرائیاں کے باوجود ان کے تضادات بھی واضح ہیں

سمندر کی روانی اور آرام دہ منظر

انسان کی دل کی سکونت اور آرام کی تلاش کو یاد دلاتی ہے

اس کی طوفانی لہروں میں

دل کی غمگینیوں اور آزادی کی خواہشات کی تکمیل نظر آتی ہے

دل انسانیت کی حساسیت اور عمق کو ظاہر کرتا ہے

اس کی زندگی میں احساسات کا رنگ بھرا ہوتا ہے

جو اکثر انسان کو اس کی حقیقت سے جدا کر دیتا ہے

اس کی داستان، رازوں اور خوابوں کا مخزن ہوتی ہے

جسے سمجھنا اور سننا معقولیت کی طلب کا موضوع بناتا ہے

ان دونوں کی طویل داستان

انسانیت کی معنویت کو سمجھنے کی راہ میں روشنی فراہم کرتی ہے

ان کی گہرائیوں میں کچھ انتہائی خوبصورت

مگر انتہائی خطرناک بھی ہوتا ہے

جو انسانیت کو انسانیت بنانے کی دعوت دیتا ہے

الفاظ

وہ بھی کیا سہانا دور تھا

جب میں طویل خطوط لکھا کرتا تھا،

دل کا حال سپردِ قلم کر کے

ایک عجیب سا سکون پاتا تھا

ہر دکھ، ہر صدمہ

کاغذوں پر یوں بکھرتا تھا

جیسے دل کی ہر گرہ کھل جاتی ہو

مگر اب، افسوس!

مثلث

 نثری نظمیں

رشید سندیلوی

فون نمبر 03316333910

 

 

فہرست

خدائے لم یزل. 11

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم 13

موت کا خیال. 16

ہیجڑے… 17

زرتشت.. 18

محبت ایک جذبہ ہے… 19

زندگی کی راہ پر 20

انار کلی. 21

احساس کا سفر. 23

زین رشید 25

چاند 27

دل اور سمندر 28

الفاظ. 30

پانی پت کی جنگ.. 32

جنگ.. 35

خوشی 37

ماں کی تربت.. 39

خزاں کی راتیں.. 41

سیلابوں کی راتوں میں.. 42

بہاؤ 44

باپ کی قبر. 46

فرعونِ مصر.. 48

ورثے… 49

آبشار 51

تنہائی. 53

شام کی خاموشی 55

پاتال. 57

قلوپطرہ 59

تاج محل. 61

سکندر اور پورس.. 63

امید کا باب.. 65

جبر. 67

روشنی کی تلاش.. 68

امن. 70

تیسری جنگِ عظیم 72

جل پری. 73

سستی شہرت.. 75

عشق کی سچائی. 77

ہمیشگی. 79

میرے بعد 81

حسن جاودانی. 83

خوابوں کی تعبیر. 85

تیسری مخلوق. 87

روح. 89

لا شعور 91

کشش.. 94

خوابوں کی دنیا 95

دھمال. 96

محبت اور تلوار 98

ویران آنکھیں.. 100

بلیک ہول. 102

ماں کی محبت.. 104

زمان و مکاں. 106

درد 108

جنت.. 110

دوزخ. 112

میری کہانی. 114

نصیحت.. 116

کس طرح عید مناؤں. 118

خلا کی وسعت.. 120

چاند 122

وقت کیا ہے؟ 124

چاند گرہن. 126

ٹائی ٹینک جہاز 128

جنگل کا قانون. 131

جنگ عظیم اول. 133

جنگ عظیم دوم. 136

رومیو اور جولیٹ.. 140

ما بعد الطبیعیات.. 143

ٹائم ٹریول. 147

مہاتما بدھ. 150

افلاطونی محبت.. 154

جسمانی محبت.. 157

ریچھ اور کتے کی لڑائی. 160

خزاں رت کی اداسی 165

جہنم میں ایک دن. 167

ہیجڑا 169

تیسری دنیا 173

کوانٹم فزکس.. 176

پریوں کی کہانی. 178

برگد کا درخت.. 180

مثلث.. 182

مرزا غالب.. 184

شریک حیات.. 186

موت.. 189

الہام و کشف.. 190

دجال. 192

آٹھواں عجوبہ. 194

انعکاس.. 197

راہبہ 199

حجروں کی کہانی. 202

دریائے گنگا جمنا: ایک سفرِ خاموش.. 205

دریائے راوی. 208

چائے خانہ. 210

بھیڑیے… 212

تموچن. 214

یزید 217

ڈاکٹر ذاکر نائیک.. 220

مرتا ہوا بچہ اور گدھ. 223

بازارِ حسن. 226

میرے لئے تم کون ہو 230

نثری نظم نگاروں کے نام

خدائے لم یزل

وقت کی بہت بڑی فضا میں

خدا کی موجودگی روشنی کے ساتھ چمکتی ہے

ستاروں کا سمفونی، روشنی کا ایک رقص

سب کی تاریک راتوں میں راہنمائی کرتے ہیں

کہیں بھیجی ہوئی ہوا میں اور سمندر کے شور میں

ہر جانور بڑا یا چھوٹا خدا کا نام لیتا ہے

ہم عشق کی ایک دستار کے لئے تعریف کرتے ہیں

ہر دل میں ایک مقدس اسپارک ہے

تاریکیوں کی روشنی میں امید کا ایک شعلہ

ہنسی کی خوشی اور آنسوؤں کے نشانات میں

خدا کی موجودگی محسوس ہوتی ہے ایک بے پایاں دائرہ ہے

لہذا ہم کچھ دیر رکیں اور سر جھکائیں

سب کچھ جو بکھرا ہوا ہے ان کے لئے شکریہ ادا کریں

خدا کی محبت بے کراں ہے

جو ہمیشہ رہے گی

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

روشنی کا ایک چراغ

دنیا کی تاریکیوں میں

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

جو رحمت بن کر آئے

انسانیت کے لیے ایک مثال

محبت کا پیکر

ایمان کا علمبردار

ان کی زبان سے نکلی ہر بات

محبت کی گلیوں میں گونجتی رہی

ان کے اخلاق کی خوشبو

ہر دل میں بستی رہی

وہ جو ہر ایک کا دوست

ہر ایک کا رہنما

حق و صداقت کی تصویر

خود پر ہونے والے ظلم

اور ان کی صبر کی مثال

پہاڑوں سے بھی مضبوط

نفس کی جنگ میں

انہوں نے دکھایا

کہ حقیقی طاقت

محبت اور معافی میں ہے

مدینہ کی گلیوں میں

ایک نئی زندگی کا آغاز

جہاں بھائی چارے کی خوشبو

ہر طرف پھیلی

اور جہاں انسانیت کی خدمت

کا درس دیا گیا

کہ سب کو اپنے دل میں

محبت کا مقام دینا ہے

یہ وہ عظیم ہستی ہیں

جنہوں نے دنیا کو سکھایا

کہ فرقے، نسل اور رنگ

کسی کو ممتاز نہیں کرتے

بلکہ دل کی صفائی

اور نیت کی خلوص

ہی اصل معیار ہیں

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

کی سیرت کی روشنی میں

ہمیں چلنا ہے

آج کے اس دور میں بھی

ان کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے

محبت، رحم، اور امن کی راہوں پر

چلتے رہنا ہے

تاکہ ہم بھی

ان کی مثال بن سکیں

دنیا کی تاریکیوں میں

روشنی کی کرن

موت کا خیال

موت کا خیال آئے تو انسان کی فطرت

بے چین ہو جاتی ہے

یہ سوالات ذہن کو گھیر لیتے ہیں

موت کے بعد کا کیا ہو گا

ہم کہاں ہوں گے

کیا ہمارا وجود ابدی ہے یا صرف فانی

یہ خیالات انسان کو خود سے لے کر

کائنات کی وسعتوں تک لے جاتے ہیں

کیا کائنات کی ابدیت ہے

یا وہ بھی موت کی حدوں میں بند ہے

موت کے خیالات

انسان کی زندگی کو معنوں سے بھر دیتے ہیں

اور ہم اپنی وجودگی کے

اہم معنوں کو تلاش کرتے ہیں

ہیجڑے

ہیجڑے، جن کی دنیا  اپنی ہوتی نہیں

دلوں کا دکھ ہمیشہ یہیں چھپایا کرتے ہیں

محبت کی راہوں میں رنگ بھرتے ہیں

کسی صحیفے میں کہیں

ان کا ذکر مذ کور نہیں

امیدوں کی چمک، خوابوں کی روشنی

یہ ہیجڑے ہیں جو زندگی کو سنوارتے ہیں

غموں کی چادر اُٹھا کر، مسکراہٹ کی راہ دیتے ہیں

اپنے اندر کے دریا کو زندگی کے ساحلوں پر لے آتے ہیں

یہ ہیجڑے ہیں جو محبت کی ایک نئی مشعل چمکاتے ہیں

دلوں کی آواز کو پکارتے ہیں

ہمارے رنگ، ہماری شناخت

یہ ہیجڑے ہیں جو زندگی کو سجاتے ہیں

زرتشت

آفتاب کی روشنی لے کر زمین پر آیا

زرتشت الہامی پیغام کا علمبردار

انسانیت کی فکر کو روشن کیا

راہ دکھائی سب کو نیکی اور سچائی کی

ایک عظیم فریب گر نہیں بلکہ حق و عدل کا علمبردار

خوشیوں کی شاداب سرزمین روشنی کا منبر

تعلیم و تربیت کا وارث انسانیت کا رہنما

انسانی حقوق کا محافظ، سچائی و عدل کا سفیر

دلوں کو پیغام دے دنیا کو امن کی راہوں پر چلائے

زرتشت انسانیت کا ستارہ

روشنی کی راہنمائی

محبت ایک جذبہ ہے

محبت ایک جذبہ ہے، جو دو دلوں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے

یہ وہ حس ہے جو ہمیں دوسروں کی خوشیوں میں خوشی محسوس کرنے کی قوت دیتی ہے

محبت نے دنیا کو خوبصورت بنایا ہے اور دلوں کو روشنی دی ہے

یہ وہ راز ہے جو دو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھتا ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتا

محبت نے تاریکیوں کو دور کیا اور زندگی کو رنگین بنایا

یہ ایک انتہائی قوت ہے جو ہمیں دوسرے کی ذات کی قدر کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

محبت کے بغیر دنیا مانوس نہیں ہوتی، کیونکہ یہ انسانوں کے درمیان رشتے کو مضبوط کرتا ہے

یہ ایک انتہائی خوشی بھرا احساس ہے جو دو دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے

محبت ایک لطمہ ہے جو زندگی کو بیدار کرتا ہے اور ہمیں اپنی ذات کو سمجھاتا ہے

یہ وہ توڑ ہے جو ہمیں دوسرے کی طرف سے محبت کی عمق کو محسوس کرنے کی اجازت دیتا ہے

زندگی کی راہ پر

زندگی کی راہ پر چلتے چلتے

آدمی کبھی کبھار موت کی حقیقت سے ملتا ہے

جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی  کسی بھی لمحے میں ختم ہو سکتی ہے

زرد پتے جو زمین پر گرتے ہیں

اس طرح کی زندگی کی کمی کا علامتی روپ ہیں

جیسے ہی پتے زمین پر گرتے ہیں

وہ زندگی کی رونق و فروغات کے بارے میں بات کرتے ہیں

اسی طرح زندگی کے مختلف مواقع میں

فنا کی آواز سنائی دیتی ہے

جو انسان کو اس کی فانیت کی یاد دلاتی ہے

انار کلی

مغلِ اعظم بادشاہ اکبر کا بیٹا سلیم

اک کنیز کی زلفوں کا ہو گیا اسیر

اکبر اعظم کو یہ رشتہ یہ تعلق

پسند نہ تھا غیض و غضب کے ساتھ

کنیز  قید  میں پابندِ سلاسل

تڑپتی رہی سسکتی رہی

سلیم کی شاہزادگی دلاوری بہادری

آ  سکی نہ کام

موت کی سنسناہٹ ، تنہائی اور درد کی کسک

انارکلی  زندگی، خوابوں کا اژدہام

اکبر کا غضب ، انسان کی بے کسی و بے حسی

ظلم و جبر و شب و ستم

موت کے سائے لپکنے لگے زنداں کی طرف

دیوار میں چن دی بالآخر کنیز

اور  نیند میں ڈوبا رہا شاہ زادہ سلیم

صدیوں سے بج رہا ہے جبر کا جلترنگ

کیسے ممکن ہے کہ  مل جائے غلاموں کو نجات

احساس کا سفر

آنکھوں کی پیروی

جدید زمانے کی داستان

جو دیکھا ہم نے

وہی دنیا کی رنگا رنگی ہماہمی

دیواروں کے پیچھے

کچھ نہیں بس تصورات کا جہاں

آنکھوں کے درمیان

خوابوں کی فصل گلزار

روشنیوں کا عالم

بند کی جب آنکھیں

دور کا منظر  نظر آتا ہے

آسمان کی ابتداء سے

زمین کی سرحد تک کا سفر

آنکھوں کی گہرائیوں میں

کائنات کا خزانہ

ہر دل کا ایک راز

ہر خواب کی ایک کہانی

آنکھوں کی روشنی

گہری خوب صورت پانی کی جھیل

آوازوں کی گہرائیوں میں

ایک خاموش احساس کا سفر۔

زین رشید

(اپنے بیٹے کے لئے ایک نظم)

زین، انسانیت کی راہوں پر

ایک چمکتا ستارہ ہے

محبت کی روشنی بکھراتا ہے

دلوں میں امید کی کرن ہے

زندگی کے راستے میں

ایک شعلہ ہے

جو سب کو روشنی کی طرف لے جاتا ہے

ایثار کا جذبہ اس کے دل میں گہرا ہے

جیون کی اصل محبت کا اظہار کرتا ہے

کمائی کی لہر میں گریبانوں کو بھرتا ہے

امید کی گہرائیوں میں

والدین، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، بیوی اور بچوں کے

خوابوں کو مدھم نہیں ہونے دیتا بلکہ ان کے خوابوں کو حقیقت بناتا ہے

رشتوں سے اس کو عشق ہے

جو دلوں کو چھو جاتا ہے اور پیار کی ابدی کہانی سے اجاگر کرتا ہے

چاند

چاند اک عجیب خواب کا دیس  ہے

چمکتا ہے رات کی چادر میں مہکتا ہے

گریوٹی کی کمی ہے پروازیں بڑھاتا ہے

زمین کو بھول کر  خوابوں کی راہیں پا ہی جاتا ہے

پھیلاؤ اس کا فضا میں لہراتا ہے

سمندری مدار چمکتا ہے اور چمکتا ہے

ماہوارہ دورانیہ جدیدیت کا سفر

ہر روز نئی کہانی چاند کی زبانی

سنا ہی جاتا ہے

لیکن انجانے راہوں میں خطرات کی چھاؤں میں

سختیوں کا سامنا خوابوں کی محافل میں

چاند کے سفر میں ہمیشہ خواب ہیں

لیکن روانی سے راستہ میں ہمیشہ روشنی ہے

دل اور سمندر

دل اور سمندر دونوں ہی زندگی کی ایک عمیق حقیقت ہیں

دل انسان کی روح اور احساسات کا مرکز ہے

جبکہ سمندر زمین کی سطح پر سب سے بڑا جسمی اثاثہ ہے دونوں میں مشترکہ عناصر اور ان کی گہرائیاں کے باوجود ان کے تضادات بھی واضح ہیں

سمندر کی روانی اور آرام دہ منظر

انسان کی دل کی سکونت اور آرام کی تلاش کو یاد دلاتی ہے

اس کی طوفانی لہروں میں

دل کی غمگینیوں اور آزادی کی خواہشات کی تکمیل نظر آتی ہے

دل انسانیت کی حساسیت اور عمق کو ظاہر کرتا ہے

اس کی زندگی میں احساسات کا رنگ بھرا ہوتا ہے

جو اکثر انسان کو اس کی حقیقت سے جدا کر دیتا ہے

اس کی داستان، رازوں اور خوابوں کا مخزن ہوتی ہے

جسے سمجھنا اور سننا معقولیت کی طلب کا موضوع بناتا ہے

ان دونوں کی طویل داستان

انسانیت کی معنویت کو سمجھنے کی راہ میں روشنی فراہم کرتی ہے

ان کی گہرائیوں میں کچھ انتہائی خوبصورت

مگر انتہائی خطرناک بھی ہوتا ہے

جو انسانیت کو انسانیت بنانے کی دعوت دیتا ہے

الفاظ

وہ بھی کیا سہانا دور تھا

جب میں طویل خطوط لکھا کرتا تھا،

دل کا حال سپردِ قلم کر کے

ایک عجیب سا سکون پاتا تھا

ہر دکھ، ہر صدمہ

کاغذوں پر یوں بکھرتا تھا

جیسے دل کی ہر گرہ کھل جاتی ہو

مگر اب، افسوس!

ایک لفظ بھی لکھنے کی سکت نہیں

دل کی آواز کہیں گم ہو چکی ہے،

الفاظ کی روشنی دھندلا گئی ہے

میرا قلم، جو کبھی رنگوں سے لبریز تھا،

اب اُس کی یادوں میں جذب ہو چکا ہے

میرے کاغذ پر اب بھی

اُداسی کے وہی بے رنگ قطرے بکھرے ہیں،

مگر ان قطروں سے

کوئی لفظ تشکیل نہیں پاتا

پانی پت کی جنگ

پانی پت کی دھرتی پر

خون کی بو بسی ہوئی تھی

تلواروں کی چمک

نیزوں کی چبھن

اور گولوں کی گرج میں

ایک عہد کا سنگین امتحان جاری تھا

میدان میں مٹی کی سانسیں رکی ہوئی تھیں

جہاں ہتھیاروں کا شور

موت کا نقارہ بجاتا تھا

شہسواروں کے قدم

جیسے وقت کی دھڑکن روکنے کی کوشش میں تھے

ہوا میں جنگ کی چیخیں گونجتی تھیں

اور زمین پر انسانیت کا خون بکھرا پڑا تھا

دور آسمان پر

بادلوں کی اوٹ میں

ایک سناٹا چھپا تھا

جیسے قدرت بھی

اس معرکے کے فیصلے کی منتظر تھی

پانی پت کی تاریخ میں

شہادتیں رقم ہو رہی تھیں

خواب ٹوٹتے جا رہے تھے

اور دلوں کے ارمان

دھواں بن کر فضا میں تحلیل ہو رہے تھے

لیکن اس میدان میں

صرف ایک جنگ نہیں لڑی گئی تھی

یہ اقتدار کی جنگ تھی

قوموں کے نصیب کی جنگ تھی

خون سے لکھی گئی تقدیر کا

ایک اور باب تھا

وہ مقام جہاں

انسان کی عظمت بھی دفن ہوئی

اور غرور بھی خاک ہوا

مگر، پانی پت کی جنگ

صرف زمین پر نہیں

انسانی دلوں میں بھی لڑی گئی تھی

جہاں امید اور خوف

ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے

اور ہر دل

اپنے وجود کا بوجھ

وقت کی لکیروں پر محسوس کر رہا تھا

پانی پت کی مٹی

اب بھی وہ کہانیاں سناتی ہے

جہاں خون سے لال میدان

انسان کے خوابوں کا مدفن بن گیا تھا

اور وہ جنگ

ہمیشہ کے لیے تاریخ کی گہرائیوں میں

کھو گئی تھی

جنگ

دل کی دھڑکنوں کی زبان

جنگ کا فسانہ ہے

رنگوں کی دنیا میں

خوابوں کا پیغام ہے

دشمن کی نظر میں بھی

امن کی روشنی ہے

جنگ کی راہوں میں

امیدوں کی کہانی ہے

مٹی کی خوشبو

خوابوں کا کارواں ہے

ہر دل کی دھڑکن

امن کی گواہی ہے

لڑتے ہوئے بھی

امن کی طلب ہے

رنگوں کی دنیا میں

امیدوں کی جنگ ہے

دلوں کی دھڑکنوں میں

امن کا پیغام ہے

کسی کے بھی دل میں

جنگ کی کوئی جگہ نہیں

امن کی جھنکار

ہر دل کا افتخار ہے

خوشی

خوشی وہ حالت ہے جو آپ کو اندر سے خوش کر دیتی ہے

یہ وہ محسوس کرنے کی صلاحیت ہے

جو آپ کو ایک خوبصورت جھیل میں سمندر کا آرام دیتی ہے

خوشی سے معنی ہمیشہ ہمیشہ کی خوشی ہوتی ہے

جو زندگی کے رنگوں کو چمکاتی ہے

اس کے بغیر زندگی  کچھ خالی لگتی ہے جیسے ایک پرانی پتھریلی راہ بغیر رنگ و بو کی

خوشی وہ حالت ہے جو آپ کو دل کی سکون اور خوشی فراہم کرتی ہے

یہ وہ حالت ہے جب آپ کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے

اور آپ کو احساس ہوتا ہے

کہ زندگی کی ہر لمحہ قیمتی ہے

خوشی آپ کی زندگی کو رنگین بناتی ہے

اور آپ کو امید اور توقعات کے سمندر کی طرف کھینچتی ہے

خوشی زندگی کی ایک بہت قیمتی روحانیت ہے

جو ہمیں مثبت احساسات اور امیدوں کی راہ دکھاتی ہے

یہ وہ روشنی ہے جو تاریک راہوں کو روشن کرتی ہے

اور ہمیں مقبولیت کی جانب لے جاتی ہے خوشی ہمیں نہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کی روشنی میں بندھتی ہے

اور ہمیں دوسروں کی خوشی کا حصہ بناتی ہے

ماں کی تربت

سہ پہر کے وقت میں اپنی ماں کی  تربت پہ پہنچا

اداس و تنہا بے شمار قبروں کے درمیاں

وہ آخری آرام گاہ جس کے اندر

ماں سو رہی تھی

بہت دیر عالمِ وجد میں چوکڑی مار کر بیٹھا رہا

پرندے چہکتے رہے بھونرے گاتے رہے

سورۂ رحمان بہت دور کوئی پڑھتا رہا

چشمِ تصور میں دیکھا تھا ماں کو

جنت کے باغوں میں چلتے ہوئے

اور سینے سے مجھ کو لگاتے ہوئے

میں چپ چاپ گردن جھکائے

لحد کے سرہانے بیٹھا رہا

نجانے کتنے زمانے ہوئے

وقت پانی کی مانند بہتا رہا

میں گردن جھکائے بیٹھا رہا

تڑپتا رہا اور سسکتا رہا

کہ اچانک مجھے ایسے لگا

کہ میرا بدن سنگِ مر مر کی تربت میں ڈھلنے لگا ہے

مجھ کو جھٹکا لگا میں نے خود کو چھوا

میرا سارا بدن مقابر کی مانند

جلوہ فگن تھا

خزاں کی راتیں

خزاں کی راتوں میں، سنگھار شہزادیاں جاگتی ہیں

پتوں کی بوندوں کا، رقص میدانوں میں ہوتا ہے

درختوں کی پیشروئی، خزاں کی داستان کہتی ہے

سبزیوں کا رنگین باغ، دل کو چین اور سکون دیتا ہے

پتوں کی ہوا میں، خزاں کی آہٹ گونجتی ہے

سنگھار باغات میں، خوابوں کی جنگلی راتیں گزرتی ہیں

خزاں کی پیکر بازی، زمین کو رنگین بناتی ہے۔

درختوں کی پتیوں کی گرگراہٹ، خزاں کی داستان سناتی ہے

خزاں کی برفوں میں، خوابوں کی جاگراں کہانیاں ہوتی ہیں

پتوں کی روشنی میں، دل کی خوابوں کی دنیا بس جاتی ہے

سرما کی ہوا میں، خزاں کی بو محسوس ہوتی ہے

سنگھار باغات میں، خوابوں کی دنیا کی تصاویر دیکھی جاتی ہیں

پتوں کی برقی روشنی، خزاں کی کہانی سناتی ہے

درختوں کی گراہٹ میں، خزاں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے

سیلابوں کی راتوں میں

بہار آئی، گلابوں کی بہار لائی

سبزیوں کی جادوئی ہواوں نے دل بہکایا

پھولوں کی مسکراہٹ، باغات میں نغمہ گوئی

خوابوں کی دنیا میں، چمکتی راتیں آئیں

زمین کی آہٹ، آسمان کی بہار گلیاں

فصلوں کی رگوں میں، جاگتی ہوئی زندگی

سرمئی آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے،

پہاڑوں کی چٹانوں سے بہتا ہوا پانی

سمندر کی لہریں، ساحل کی چھائیں

دھڑکتے ہیں دل، یہ زندگی کا کارواں

گلابوں کی خوشبو، گھاس کی ہریالی

زندگانی، محبت کی جہانبانی

رات کا سانس، صبح کی بوسیدہ خوشبو

محبت کی راہیں، اخوت کی باتیں

خوابوں کا مینار، امیدوں کی منزل

یہ دنیا، یہ زندگی، یہ خوابوں کا سفر

سیلابوں کی راتوں میں بہنے لگا

بہاؤ

بہار آئی، گلابوں کی بہار لائی

سبزیوں کی جادوئی ہواؤں نے دل بہکایا

پھولوں کی مسکراہٹ، باغات میں نغمہ گوئی

خوابوں کی دنیا میں، چمکتی راتیں آئیں

زمین کی آہٹ، آسمان کی بہار گلیاں

فصلوں کی رگوں میں، جاگتی ہوئی زندگی

سرمئی آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے،

پہاڑوں کی چٹانوں سے بہتا ہوا پانی

سمندر کی لہریں، ساحل کی چھائیں

دھڑکتے ہیں دل، یہ زندگی کا کارواں

گلابوں کی خوشبو، گھاس کی ہریالی

زندگانی، محبت کی جہانبانی

رات کا سانس، صبح کی بوسیدہ خوشبو

محبت کی راہیں، اخوت کی باتیں

خوابوں کا مینار، امیدوں کی منزل

یہ دنیا، یہ زندگی، یہ خوابوں کا سفر

سیلابوں کی راتوں میں بہنے لگا

باپ کی قبر

باپ کی قبر میری پہنچ سے دور ہے

میں شہر کے قبرستان میں ہوں اور

میرا باپ گاؤں کے قبرستان میں دفن ہے

وہ دو یزار سات میں مرا تب سے

چند بار اس سے ملنے گیا

اس کی قبر پر عجب رکت طاری ہوتی ہے

دل زور سے دھڑکتا ہے اور آنکھوں سے

آنسو امڈتے ہیں

فاتحہ پڑھتا ہوں تو ماضی کا دریچہ کھلتا ہے

اس کا درود پڑھتا ہوا غمزدہ چہرہ عجب حسرت کی کہانی سناتا ہے افلاس کے دن

بچوں کے غم زدہ چہرے مگر انا کا سبق

احساسِ کہتری سے جنگ دو بدو لڑائی

احساسِ برتری کا پہناتا ہوا زیور

اپنی دھج میں مسکراتا  لڑکھڑاتا

نظر آتا ہے مرحبا

میں اس کی قبر پہ روز جا نہیں سکتا

گاؤں دور ہے شہر سے میرے

مگر میرا یہ جسم بن گیا ہے

اس کی تربت کا نشاں

اب کوئی دوری ہے نہ مجبوری ہے درمیاں

فرعونِ مصر

فرعونِ مصر کی حکومت کی بنیاد

اس زمین کے دلتا سے

نیل ندی کے ساتھ جڑی تھی

جس کا سیلاب اور اس کی زمین پر لہریں

زراعت کو دوام بخشتے تھے

زراعتی کارکنوں کی مہارت اور محنت سے

معیشت مضبوط تھی

عام تھی تعلیم کی نعمت

لوگ پڑھتے تھے ریاضی اور باقی فنون

روحانیت کے موضوعات بھی

اور مومیائی کی رسمیں عام تھیں

میں نے تمثال کے عالم میں فرعونوں کے

طور و اطوار و مقابر کو

روزِ روشن کی طرح دیکھا ہے

ورثے

رنگین دنیا کی باتیں گزری ہوئی یادیں

پرانے دنوں کی خوشبو میں بسی ہوئی راہیں

گزرا وقت بیتی ہوئی باتوں کا حسین خواب

یادوں کی گلیوں میں خوابوں کا گچھا

دور کی روشنی میں انجان راہوں کا سفر

خوابوں کی دنیا میں بسا ہوا ایک احساس

پل پل کی باتیں بیتی ہوئی یادیں

ماضی کی تصویریں دل میں بسی روشنیوں کا طلسم

سنگیت کی بوندوں میں وقت کی دھوپ میں چھپی یادیں

منزلوں کی راہوں میں دل کی دھڑکنوں کی آوازیں

گمشدہ خوابوں کی تلاش بیتی ہوئی راتوں کا سفر

ماضی کی داستانیں دل کی دھڑکنوں کی دھاپ

بیتی ہوئی راتوں کا سفر خوابوں کی دنیا میں

بسا ہوا ایک احساس گزری ہوئی زندگی کی باتیں

بسی ہوئی یادیں ماضی کی تصویریں

دل کی دھڑکنوں کی روشنی میں جگمگاہٹ

دور کی روشنی میں چمکتی یادیں

ماضی کے جھروکے بیش قیمت ورثے

آبشار

دریا کی بہاروں میں آوازوں کا رقص

پتھر کی چٹانوں سے زندگی کی داستان

سمندر کی آوازوں میں خوابوں کی روشنی

آسمان کی بلندیوں سے امیدوں کی پرواز

یہاں آتے ہیں انسان، اپنے خوابوں کے ساتھ

آبشار کی روانی میں پر امیدوں کا سفر

بلاز بہار کی تپش آبشار کی آواز

سرمایۂ زندگی پرانے روزوں کی یادوں کی داستان

پتھر کی چٹانوں سے  امیدوں کی روشنی

آسمان کی بلندیوں سے نئے خوابوں کا سفر

یہاں جوش و خروش آزادی کی پکار

آبشار کی روانی میں زندگی کی لہریں بکھریں

دریا کی گونج آسمان کی بلندیاں

آبشار کی زور و شور، جیون کی روشنی میں بدل جاتے ہیں

چمکتی ہوئی آنکھوں میں خوابوں کی طلب

آبشار کی لہریں زندگی کی بہاروں کا پیغام

یہاں سنگ و سنگ خوابوں کی پرواز

آبشار کی روشنی میں امیدوں کی تلا

تنہائی

تنہائی کی گہرائیوں میں چھپی بے قراریاں

راتوں کی سنگین خاموشیاں

چاندنی کی روشنی میں ادھوری خوابیں

سکون کی تلاش میں ہمیشہ

دل کو چھوئے بغیر

کہانیوں کی تلاش میں نگاہیں تھکیں

تنہائی کی سنگینی میں چھپی دعا

خدا کو پکارتی ہے

سنگینی سے بچنے کی دعا

انتظار کی لمبی راتوں میں

دل کی دھڑکن کی ترانہ

خوابوں کی دنیا میں گم رہنا

تنہائی کی گہرائیوں میں

زندگی کی حقیقتوں کو جاننا

خود سے محبت کی راہ میں بڑھنا

تنہائی کی گہرائیوں میں

روشنی کی تلاش میں

اندھیرے کی گود میں ڈوبتے رہنا

تنہائی کے سفر میں

خاموشی کے لبوں پر

خوابوں کی قسوت سمجھنا

تنہائی کی راتوں میں

ستاروں کی چمک میں

اپنے خوابوں کو جیونا

تنہائی کے اعماق میں،

خود کو پہچاننا

اپنی راہوں پر چلنا

تنہائی کی سکون بخش راتوں میں،

خود کے ساتھ بات کرنا

اپنی توجہ کو اپنی زندگی کے رازوں پر لگانا

شام کی خاموشی

شام کی خاموشی

ایک کہانی ہے بے زبانی کی

تاریک راتوں میں بستی ہے

کچھ خوابوں کی روشنی

چپکے چپکے گزرتی ہے

راتوں کے راز دار لمحات

جیسے کوئی چپکے سے

زندگی کی چھپی ہوئی بات بیان ہو

شام کی خاموشی

ایک راز کا پردہ ہے

چاندنی کی چمک

تاروں کی جھلک

اور ستاروں کا گلدستہ ہے

سنگین ہواؤں کا گداز

اور پرانی یادوں کی راتیں

شام کی خاموشی

ایک دل کی گہرائی کی سرگوشی ہے

شام کی خاموشی

ایک اداسی کی داستان ہے

جب دل کی باتوں کو

کہنے کا کوئی وقت نہیں

سکوت کی گود میں لپٹا

خاموشیوں کا سفر

جیون کی گہرائیوں میں چھپی

راز دار باتوں کی گہرائی ہے

پاتال

میں زرتشت ہوں

ایران کا قدیمی پیشوا

میرا تصرف تھا ہر طرف

حکم چلتا تھا میرا بحر و بر پر

ہوا چلتی تھی اور آگ جلتی تھی میرے نام پر

سر جھکاتی تھی خلقت میرے اگے

میں سکھاتا تھا علوم سب فنون سب

دولت علم اور روحانیت کا میں ہی تھا مرکز و محور

سب کائناتی قوتیں مجھ سے کرتی تھیں کلام

میں نے پانچ وقت کی  عبادات و مناجات

کا سکہ چلایا تھا

سب سے پہلے  دنیا کے صنم خانوں میں

میں نے توحید کی جلائی تھی شمع

عیسائیت یہودیت اور اسلام

میری تعلیم سے منور ہیں

آج میرے معبد  مقابر  اور  آتش کدے

ہو گئے ہیں زیر و زبر اور ٹھنڈے

آج بھی کچھ لوگ میرے ادھر ادھر ہیں معتقد

ایران کا میں  قدیمی پیشوا

گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوں

ہزاروں سال سے

کون نکالے گا مجھے پاتال سے

قلوپطرہ

چاندنی کی روشنی میں ہم بھٹکتے ہیں

بادلوں کی چادریں ہمیں چھپا لیتی ہیں

گلابوں کی خوشبو سے ہوا ہمیں چھو لیتی ہے

قلوپطرہ کی دنیا جادو کی دنیا ہے

ستاروں کی باتیں ہمارے دل کو سناتی ہیں

عشق کی داستان ہمیں خوابوں میں لبھاتی ہے

محبت کی گہرائیوں میں ہم بہتے ہیں

قلوپطرہ کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں

روشنی کی منزل کی طرف ہم راستہ بناتے ہیں

امیدوں کی راہوں پر ہم چلتے ہیں

خوابوں کی پرچھائیوں میں ہم خود کو پاتے ہیں

قلوپطرہ کی دنیا میں  ہم کھو سے جاتے ہیں

روشنی کی جھیل میں چمکتے ستارے ہمارے ساتھ رات کو باتیں کرتے ہیں

دل کی دھڑکنوں میں آنکھوں کی گہرائیوں کی سرگوشی ہمیں دلفریب محسوس ہوتی ہے

قلوپطرہ کے رازوں کا پتہ ہمیشہ کی طرح  سراب ہے

امیدوں کی پرچھائیوں میں ہم اپنے خوابوں کو زندہ رکھتے ہیں

قلوپطرہ کی دنیا میں،  محبت کی راہوں پر چلنے کا ہنر تعلیم ہوتا ہے

مگر ہم سب ہنر سیکھ کر بھی

قلوپطرہ کا دل نہیں جیت سکتے

وہاں عشقِ مسلسل کی ضرورت ہے

وہاں مسلسل دیکھنا ہے

اور ہم لگاتار ہمہ وقت کارِ مسلسل سے

ہار جاتے ہیں اور ہارے ہوئے لوگوں سے

قلوپطرہ اپنا جام چھین لیتی یے

جب جام چھنتا ہے تو زندگی کے سارے رس

پھیکے ہو  جاتے ہیں سارے رنگ مدھم پڑ جاتے ہیں

ہم بلیک اینڈ وائٹ زون میں چلے جاتے ہیں

اور کبھی واپس نہیں آتے

تاج محل

تاج محل شان اور عظمت کا نمائندہ

جس نے عشق کی قصہ گوئی کی

ایک شاہنشاہ کی عاشقانہ محبت کا نشان

سفرِ عشق کا پیغام، محبت کی بے پناہ قوت کا اظہار

محبت کی پیشگوئی کا سنگیت

عشق و محبت کی شہنشاہی

زمین و آسمان کو ملا کر رکھتی ہے

محبت کا یہ تاج ہمیشہ کی زندگی کا نشاں

محبت کی  عمارت

تاریخ کا ایک رومانیہ جو دلوں کو چھو جاتا ہے

پرانی داستانوں کی روشنی میں بہت روشن ہوئی

تاج محل اب بھی محبت کے قصوں کا امیں

عظیم معماری اور خوبصورت فن کا عجوبہ

جنون و جذبات کی داستان  سناتا ہے

تاج محل جیون کے ہر لمحہ کو عشق اور وفا کے ساتھ گزارنے کا نمونہ

جو دلوں کو مسکراہٹ اور خوشیوں کی طرف بولاتا ہے

تاج محل کا اثر دائمی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محبت ہمیشہ جیون کی عظیم توانائی ہے

زندگی نے جس سے جلا پائی ہے

سکندر اور پورس

دنیا کو فتح کرنے کا عزم لے کر

یونان سے نکلا لاؤ لشکر کے ساتھ

ایران پہنچ کر سکندر نے ہندوستانی راجوں مہاراجوں کو اطاعت کے پیغام بھیجے

کئی راجے مہاراجے  لڑ کر یا بن لڑے

ساتھ ملتے گئے سکندر کی فوج کے ساتھ

ٹیکسلا کے راجہ نے پورس کی دشمنی میں

سکندر کو بھاری کمک دی اپنے سپاہیوں کے ساتھ ساتھ

سکندر آگے بڑھتا رہا دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ

کئی راجے شکست کھاتے گئے ساتھ ملتے گئے کئی گھمسان کے رن پڑے

سکندر آگے بڑھتا رہا جیت کے خمار میں

جہلم کے مقام پر راجہ پورس نے مقابلے کی ٹھانی

سکندر پست قد جبکہ پورس تھا

طویل القامت جواں

اور ہاتھیوں کا لشکر الامان

دونوں سپہ سالار چلتے رہے چالیں

آخرش سکندر کے تیر اندازوں نے تاک کر

مارے ہاتھیوں کی آنکھوں میں تیر

ہاتھی روندے لگے اپنے ہی افواج کو

پورس کا ہاتھی بھی زخمی ہو گیا

لیکن اس کے باوجود وہ لڑتا رہا بے جگری کے ساتھ

بلآخر پورس پکڑ کر لایا گیا

سکندرِ اعظم کے سامنے

سکندر نے پورس سے کہا

کیا کروں سلوک تمہارے ساتھ میں

پورس بر جستگی سے بولا

"وہی سلوک جو بادشاہ بادشاہ سے کرتا ہے”

اس پر سکندر نے اللہ ٹپ

پورس کی بخش دی جان

اور جیتے ہوئے  اس کے سب علاقے

واپس کر کے  لوٹ گیا

امید کا باب

خواہشوں کی دنیا میں ہر خواب سجنا چاہیے

اُمیدوں کی اڑان میں اُڑنا چاہیے

رنگ بھری زندگی میں خوشیوں کو بانٹنا چاہیے چاہت کی دنیا میں ہر دل جیتنا چاہیے

چاندنی کی راہوں میں خوابوں کی باتیں ہوں

دل کی دھڑکنوں میں محبتوں کی چاندنی ہو

ہر سرگوشی میں عشق کی سرگوشی ہو

یہ خواہشوں کی دنیا میری ہستی ہو

ہر دل میں ایک خواہش ہے ایک آس ہے

جیون کا ہر لمحہ خوشیوں کی پیاس ہے

پرانے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی آرزو ہے

یہ خواہشوں کی دنیا ہمیشہ جوش و خروش سے معمور ہے

راستے بہت ہی ان گنت ہیں خوابوں کے

منزلیں بہت ہی دور ہیں محبتوں کی

پر چلتے رہو بس ایک قدم آگے بڑھو

کیونکہ ہر خواب کے پیچھے ایک نئی امید کا باب ہے

جبر

میں نے ایک معصوم بچی کو دیکھا

جو اپنی ماں کی میت پر

مسکرا رہی تھی اور

شام کا زرد سورج

بجھ رہا تھا جس طرح

پھانسی گھاٹ کی طرف

جاتا ہوا قیدی

روشنی کی تلاش

شام کی تنہائی میں، دل کی دھڑکنیں بھری  ہیں

سایہ بکھرا ہوا ہے روشنی کی تلاش میں

گلیوں کی راز دانیاں خاموشیوں کی باتیں کرتی ہیں

تاروں کی جھیل میں خوابوں کا سفر جاری ہے

شام کی گود میں دل کی راز دانیاں چھپی ہیں

روشنی کی تلاش میں سایہ بکھرا ہوا ہے

خوابوں کی پرواز آسمانوں کی بلندیوں میں

شام کی سنگینی میں دل کی آہٹیں بہکتی ہیں

اندھیرے کی چادر میں روشنی کی تلاش ہوتی ہے

گلیوں کی راز دانیاں خاموشیوں کی داستانیں بیان کرتی ہیں

شام کی تنہائی میں خوابوں کا رنگ چڑھتا ہے

روشنی کی تلاش میں سایہ بکھرا ہوا ہے

خوابوں کی پرواز آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتی ہے

شام کی سنگینی میں دل کی دھڑکنیں بہکتی ہیں

اندھیرے کی چادر میں روشنی کی تلاش جاری ہوتی ہے

امن

صبح کے خاموش لمحوں میں

امن کا سایہ چھا جاتا ہے

اک لہر  میں آہنگی کی آواز سنائی دیتی ہے

زمینوں پر اس کی ہلکی ہوائیں بہتی ہیں

ہر دل میں اس کا سکون بڑھتا ہے

امن کی گود میں خوفوں کی پیشگوئیاں گھل جاتی ہیں

اور اس کی گرمی میں مسائل حل ہو جاتے ہیں

جھگڑالو مواقع میں اس کی آرام دہ روشنی ہوتی ہے

روحوں کو امن کی راہنمائی ملتی ہے

فضلیتوں کے درمیان امن اپنا رنگ جماتا ہے

دلوں کو متحد کرتا ہے دہشت کو دور کرتا ہے

کھلے دلوں سب کو خوش آمدید کہتا ہے

رکاوٹوں کو توڑتا ہے بلند کھڑا ہوتا ہے

امن کی زبان میں ہر کوئی بولتا ہے

ایک معمولی زبان نرم اور مدھم

ساحل سے ساحل اس کی لہریں بہتی ہیں

قوموں کو گلے لگاتی ہیں

اسلحے کو زنگ لگ جاتا ہے

تیسری جنگِ عظیم

تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گا

امریکہ اور روس کے درمیان

سرد جنگ

ایٹمی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہو گی

اس جنگ سے ، جنگی تشدد، انسانی تباہی اور معاشی نقصان کا سامنا ہو گا

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیستی ہتھیاروں کے انتشار اور ماحولیاتی تباہی عام ہوگی

عالمی سطح پر امن و امان تباہ ہو جائے گا

انسانی حسن بد پیتی میں بدل جائے گا

سب ترقی نابود ہو جائے گی

انسان پتھر کے زمانے میں چلا جائے گا

از سرِ نو تاریخ مرتب ہو گی

نئے آدم کا ظہور ہو گا

نئے صحیفوں کا چپکے چپکے نزول ہو گا

پھر ترقی کے در کھلیں گے

تب مسیح کا ظہور ہو گا

جل پری

میں نے ساحل پر  جل پری کو دیکھا

میرا دل خوشی سے بھر گیا

اُن کی خوبصورتی میں ایک خواب چھپا تھا  جس نے دل کو مسرت عطا کی

اُس کی مسکراہٹ میں ایک خوشبو تھی جو دلوں کو محبت کی یاد دلاتی تھی

جل پری کی گفتگو کا احساس، دل کو چین اور سکون دیتا تھا

اس کی آواز میں ایک لذت اور ایک خوابیدگی  تھی

جل پری کے اشاروں میں  دلچسپی اور  مسرت کی کرن دیکھی تھی

اُن کی طرحیں اور اُن کا انداز، دل کو چھو جاتا تھا

اس کے حسن کا جادو دل کو بے قرار کر دیتا تھا

اس کی آنکھوں میں  گہرائی کی باتیں تھیں

میں نے اسے دیکھا اور اس نے مجھے

وہ مسکرانے لگی وہ مجھ سے محوِ تکلم تھی

میں اس کی سمندری زباں سے نابلد تھا

مگر پھر بھی وہ مجھ پر منکشف ہو گئی

وہ خوبصورت عورت کا چہرہ رکھتی تھی

مگر نچلا حصہ مچھلی کی  طرح تھا

وہ دیر تک مجھ سے ہمکلام رہی اور مجھ میں جذب ہوتی رہی

پھر  اس نے ایک حسرت سے مجھے دیکھا اور  سمندر میں کود گئی

پھر وہ کبھی نہیں لوٹی

میں ازل  کے ساحل پہ کھڑا

اسے بلاتا ہوں

سستی شہرت

کچھ لکھاری نظموں کے

راتوں رات سستی شہرت کے لئے

جنس زدہ تہذیب سے گری

اخلاق باختہ نظمیں لکھتے ہیں

اور خفتہ اعضا کا بر ملا اظہار کرتے ہیں

چونکا دینے والی تحیر زدہ جنس آلود

عبارتیں سوسائٹی کو مضطرب کرتی ہیں

لوگ ان عبارتوں کو سطروں کو حوالا بناتے ہیں

چیختے ہیں چلاتے ہیں

یہ پژمردہ ثولیدہ عبارت کار

خوشی سے ناچتے ہیں

ایک مصنوعی دنیا میں اپنے آپ کو

سمجھتے ہیں بڑے جغادری قد آور

حقیقت یہ ہے کہ  سب  اہلِ قلم

رد کرتے ہیں ان کی وہ نظمیں

جو تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں

عشق کی سچائی

دھوپ کے کتنے پرگندے بنا دیتے ہیں احساسات کو

اُن کے کہنے پر اُن کی دعا مانگ لیتے ہیں ہم

کسی بھی حال میں یہ عشق کا رنگ سیکڑوں سوالوں کا جواب ہوتا ہے

سانسیں ہی سانسوں کا وقت ہوتا ہے، یادیں ہی یادوں کا مزا ہوتا ہے

ظالمیوں کے ساتھ ہمیشہ چلنے والے دوستوں کی طرح

عشق کی راہیں ہمیشہ کہنے کی کوشش کرتی ہیں، محبت کی حقیقت پر اعتبار رکھتی ہیں

اپنی حقیقت کو چھپا کر ہم، اپنے احساسات کو بیان کرتے ہیں

کچھ کہتے ہوئے اور کچھ محبت کرتے ہوئے

ہماری باتوں کی عیاں علامتیں، ہمارے احساسات کی روشنی میں ہمیشہ ہوتی ہیں

عشق کی محافل میں جلسے اُنکے محافل، جہاں ہمیشہ چھائی رہتی ہے

جہاں سب چیزیں خوبصورتی سے ہوتی ہیں اور ہر اچھا لمحہ کی قیمت معلوم ہوتی ہے

کوئی نہ کوئی تبدیلی، کوئی نہ کوئی مصیبت، کوئی نہ کوئی مشکل

عشق کی شمع کے سامنے، ہر مصیبت کا ہمیشہ چراغ ہوتا ہے

عشق کی دعاؤں کے لبوں پر ہر گم کو دور کرنے والی مدد گار، ہر چیز کو حقیقت بنا دیتی ہے

سُنے اور کہے ہوئے، دُعاؤں کا احساس، عشق کی سچائی، ابدی عشق کے راستوں پر، ہمیشہ کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں

 ہمیشگی

دلوں کی گہرائیوں میں، محبت کی

جنوں کی کرنوں میں، روحوں کا رقص۔

مصائب، پریشانیوں، اور آنسوؤں کے درمیان،

محبت قائم رہتی ہے، خوفوں کو دور کرتی ہے۔

کہہ دی ہوئی باتوں میں، اور نرم چھونے میں،

محبت نئی شراکت، ایک دائمی گرہن۔

طوفانی راتوں اور دھوپی دنوں کے ذریعے،

محبت کی ثابت قدم نظر، ہمیشہ رہتی ہے۔

مشتعل ہنسی اور خوابوں کے انعام،

محبت کا ملازم، مٹا نہیں سکتے۔

کیونکہ راستہ مڑ سکتا ہے،

محبت کا سفر، آخری طرح تک جاری رہتا ہے۔

لہذا جب کہ مشکل ہو، اسے حاصل کرنا،

محبت کے اپنے قابو میں، ہمیں سکون پانے میں۔

کیونکہ آخر میں، یہ جھگڑنا قابل مذاق ہے،

محبت کی ہمیشہ کی روشنی میں اوپر بڑھنے کے لئے۔

میرے بعد

دھمکتی شام کی چپ چاپاہٹ میں،

جب سایے نرگس، اور ستارے آتے ہیں ظاہر،

میں ہلکی ہواؤں پر بہنے لگوں گا،

لامحدود آسمان کے زیر فرش

موتل زندگی کے بوجھ نہیں ہوں گے،

موتل زندگی کے شور شرابہ نہیں ہوں گے،

میں وقت کے پابند نہیں ہوں گا،

خوابوں اور روحوں کے میدانوں میں

یادیں بھول جائیں گی، رات کی سایہ میں

جب میں نور کے پردوں سے بیرون جاؤں گا،

مگر محبت، اہ! محبت، یہ قائم رہے گی،

ہمیشہ کی طرح، ہمیشہ کی طرح

پس گھبراہٹ کو اپنی نظر میں مت آنے دو،

کیونکہ لازمی نہیں، کیونکہ بناوٹ کے جال میں

میں ستاروں کے درمیان اپنی جگہ پاؤں گا،

ہمیشہ کا سما، جو سیموں کے پر پر

اور جب تم چاند کی نرم چمک کو دیکھتے ہو

یا جب محسوس کرتے ہو ہلکی ہوا، جو چلتا ہے،

تو جاننا کہ میں کبھی دور نہیں ہوں،

ہر ستارے کے پر کے بانگوں پر

 حسن جاودانی

دھکیل کر جوڑے ہوئے احساسات کے کھیتوں میں،

تمہاری خوبصورتی کی چمک چمکتی ہے، غم کو دور کرتی ہے۔

رات کی گہرائی میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح،

تمہاری روشنی ہمیشہ سچی ہے، ہمیشہ کاستوس۔

ہر لمحے میں، ایک خوشگوار ناچ،

ایک خوبصورت محبت کا سمفونیہ، ایک جادوئی گمراہی۔

ہر نظر میں، ایک ناقص کہانی،

تمہاری خوبصورتی، ایک شاہکار، بے پیر و بے کمال

وقت کی گلوکاری میں، تم خدا کی طرح باقی رہتے ہو،

ایک بے وقت موزوں، ایک کنواں برآورد کرنا۔

زندگی کی گوند میں، تم سنہری دھاگہ ہو،

ایک خوبصورتی کا سمفونیہ، جہاں خواب پیدا ہوتے ہیں

ہمیشہ دل کی میٹھی آواز میں کندھا ہوا،

تمہاری خوبصورتی گونجتی ہے، ہمیشہ مضبوط۔

ہر ہوا کے اڑنے کی سر گرمی میں،

تمہاری ذات چمکتی ہے، روشنی کا ایک چراغ

خوابوں کی تعبیر

نیند کے علاقے میں جہاں سایے ناچتے ہیں

جہاں خوابات رازوں میں بیاں ہوتے ہیں

ایک عالم علامات معانی گہری

جہاں رازوں کی چپائی خاموشی میں رکھی گئی ہے

چپکی چپکی کہانیوں میں، رات بہکاتی ہے

وہ حقیقت جو جاگتا دماغ چھپاتا ہے

ہر تصویر جڑوں کی طرح بنائی گئی ہے

خوابوں کے فریب میں وہ وقت پہنچاتے ہیں

پرندوں کا بہتا ہوا سفر

یا اندھیرے کی گہرائیوں میں گھومتے ہوئے

ہر منظر میں، ایک کہانی بنی ہوئی ہے

ہر پھوہڑ کی طرح حقیقت محسوس ہوتی ہے

لیکن کون خواب کے علاقے کو سمجھ سکتا ہے

یا خوابوں کی حکایات کا نصاب پڑھ سکتا ہے

کیونکہ دماغ کا فرار افواہوں میں

حقیقت صبح کی روشنی کے ساتھ ڈھل سکتی ہے

پس ہم بے خوف بے باک گمراہ ہو جائیں

چاندی کے علاقوں سے گزریں سونے سے بھرپور

اور حکمت تلاش کریں خوابوں کی درخواست کریں

دل کے سفر کی راہنمائی کرنے کے لیے

تیسری مخلوق

دیواروں جہاں حدیں دھندلی اور ملاپ کر جاتی ہیں

نامیاتی، روایاتی اور موجودہ موڈ کو عبور کرتے ہوئے

وہاں ایک روح چلتی ہے بہادر اور سچی

نئے رنگوں میں خود کو گلے لگاتی ہوئی

وہاں پیدا ہوتے ہی چھوڑیے گئے

وہ زندگی کے پیچیدہ متھے میں چلتے ہیں

بہادری، خوبصورتی اور شانداری کے ساتھ

معاشرت کے زنجیروں کو ناپسند کرتے ہیں

ان کا سفر انا کے مشاہد نہیں سرکاتا

لیکن طاقت اور ثابت قدمی مداخلت کرتی ہے

کیونکہ ان کے دلوں میں روشنی کا شعلہ

سب سے گہری رات کو بھی روشن کرتا ہے

ہر قدم کے ساتھ وہ راستہ بناتے ہیں

آزادی کی صبح روشن دن کی رات بناتے ہیں

ان کی روح اوڑھتی ہے بے بند اور آزاد

ممکنہ دائرہ کار میں

پس ہم انہیں محبت اور فخر کے ساتھ

اندر کی سچائی کی خوبصورتی کو اعزاز دیں

کیونکہ ان کی بہادری میں ہم اپنا بھی موازنہ کرتے ہیں

ہر دل میں ان کی کہانی بوئی گئی ہے

روح

آئینے کی نظروں میں روح رہتی ہے

سطح سے پرے جہاں سائے پھولتے ہیں

شک اور خوف کے درمیان ایک سفر شروع کیا

سچائی کی تلاش اپنے آپ کو عزیز رکھنا

لیبل سے پیدا ہوا، معاشرے کے ڈیزائن

پھر بھی اندر ایک دل دھڑکتا ہے جو مکمل طور پر غیر واضح ہے

ایک روح آزاد ہونے کی تڑپ

توقعات کی زنجیروں سے، بس ہونا

بائنریز سے ماورا، راستہ بنانا

دنیا کے غضب کے خلاف ہتھیار کے طور پر ہمت کے ساتھ

ہر قدم آگے ایک فتح کا اعلان

روحوں کی سمفنی میں خوبصورتی سے شیئر کیا گیا

سفر کو گلے لگاتے ہوئے ہر قدم کے ساتھ

سچائی میں سکون تلاش کرنا، کبھی چھپانے کے لیے نہیں

کیونکہ زندگی کی ٹیپسٹری میں، تنوع کھلتا ہے

اور محبت اپنے لامحدود کمروں میں کوئی حد نہیں جانتی

لا شعور

گہرے سائے میں جہاں خواب گھوم سکتے ہیں

بے ہوشی، ایک خاموش گھر

جہاں خیالات گھل جاتے ہیں اور حواس بھاگ جاتے ہیں

تاریک سکون کا ایک دائرہ

دماغ پر کوئی بوجھ نہیں

اس پاتال میں تمام پریشانیاں مل جاتی ہیں

ایک لمحہ بھر کا آرام ایک لمحے کی آسانی

جیسے جیسے شعور چھیڑنے لگتا ہے

نیند کی گرفت میں ہم بہک جاتے ہیں

نامعلوم دائروں میں جہاں روحیں ڈولتی ہیں

بے ہوشی ہلکی سی لہر

جس میں ہماری بے چین روحیں رہتی ہیں

پھر بھی اس خلا سے ہم لوٹیں گے

طلوع فجر کو سلام کرنے کے لیے ہمارے ذہنوں کو سمجھ آتی ہے

لیکن رات کی خاموشی میں

بے شعوری اپنا جائز حق مانگتی ہے

کشش

نظروں سے پوشیدہ لوہے کے کھیتوں میں

فطرت کی ایک طاقت خالص اور روشن ہے

غیر مرئی طاقت ان کہی طاقت کے ساتھ

دلوں کو ایک ساتھ کھینچنا محبت میں اتنی جرات مندی

دھاگوں کی طرح روحوں کو گلے میں جکڑنا

کشش کا ایک رقص ایک کائناتی ڈیزائن

دھات کی سرگوشیوں میں راز رکھے جاتے ہیں

کشش کی ایک طاقت ایک مضبوط رشتہ

زندگی کی سمفنی میں یہ اپنا گیت گاتا ہے

اے غیر مرئی طاقت اے غیر مرئی طاقت

ہمیں اس وسیع جگہ میں کنکشن ملتا ہے

ہمیشہ کے لیے بندھے اپنے صوفیانہ فن سے

کشش کے رقص میں ہم اپنا دل ڈھونڈتے ہیں۔

خوابوں کی دنیا

خوابوں کی دنیا

ایک راز کی داستان ہے

ہر آنکھ کی پلکوں کی پیشگوئی

راتوں کی سنگینی میں

خوابوں کی لہروں کی مانند بہتی ہے

اس کی آواز میں مَیں کھو جاتا ہوں

سرسبز باغوں کی گلیاں

اُڑنے والے پرندے

خوابوں کی دنیا میں

محوِ پرواز ہیں

ہر آنکھ کی پلکوں کی پیشگوئی

خواب کی دنیا میں

ایک راز کی داستان ہے

دھمال

شام کی ہلکی بزم کی سرگوشی میں

گھوم اے روح رازیائی فضا میں

جو قدیم ریتوں میں بنی، لیکن ہمیشہ بے باک

چاندنی کے جادوئی چمک میں

آپ کی روح کو آزادانہ بہاؤ

خاموش ہوا کی موسیقی میں

وہ جادو جو یہ خود کو آزاد کرتا ہے

ہر گھومنے میں ایک کہانی بنتی ہے

امیدوں کی خوابوں کی جو آغاز ہوتا ہے

ہر کود میں آپ آسمان کو چھو جاتے ہیں

اور ستاروں کو خوشی کے ساتھ رنگتے ہیں

رقص جیسے ہلکی آگ میں لہراتا ہے

جوش جوش ہمیشہ بلند تر

ہر حرکت میں اپنی حقیقت تلاش کرو

رقص میں اپنی جوانی کو تازہ کرو

کیونکہ رقص میں ہم برگشتگی پائی جاتی ہے

ایک لمحہ خوش امن کا پاؤں کو ہدایت دیتا ہے

اور رقص میں اپنے دل کی دھڑکن کی حس بھی ملتی ہے

محبت اور تلوار

جہاں روشنی کے ساتھ سائے رقص کرتے ہیں

اور رات بھر سرگوشیاں کرتے ہیں

محبت کے میٹھے فضل کی ایک کہانی کھلتی ہے

بے وقت تعاقب میں تلوار کے ساتھ جڑا ہوا

ہر تصادم کے ساتھ جذبے کی پکار

شدید لڑائیوں میں جہاں ہیرو مقابلہ کرتے ہیں

پھر بھی افراتفری کے درمیان دلوں کو سکون ملتا ہے

خاموش لمحوں میں محبت کی رہائی

کیونکہ محبت کوئی نازک چیز نہیں ہے

لیکن ایک جنگجو کی طاقت ایک بارڈ کا میٹھا گانا

یہ ہر لڑائی میں اپنی طاقت چلاتا ہے

اندھیری رات میں روحوں کی رہنمائی کرنا

تو تلواروں کو ٹکرانے دو محبت کو قائم رہنے دو

زندگی کی تپش میں وہ پاک رہتی ہے

محبت اور تلوار کے اتحاد میں ابدی کہانیاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں

ویران آنکھیں

ویران آنکھیں، جیسے کسی بوسیدہ عمارت کے کھڑکیوں میں جھانکتی خاموشی، جیسے وقت کی بے رحم گردش میں کہیں کھوئی ہوئی ہوں

ان میں نہ کوئی روشنی، نہ کوئی خواب، نہ کوئی امید کا چراغ

بس خالی پن، جیسے صحرا کی تپتی ریت پر چلتے قدموں کے نشان بھی وقت کے ساتھ مٹ جائیں

یہ آنکھیں کبھی چمکتی تھیں

ان میں زندگی کا رنگ تھا، خواب تھے، جذبے تھے

مگر اب جیسے سب کچھ سوکھ گیا ہو، جیسے کوئی سراب تھا جو آنکھوں کو دھوکہ دے کر گزر گیا

کوئی کرب تھا، جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر آنکھوں میں ٹھہر گیا، اور پھر ان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر گیا

آنکھیں آئینہ ہوتی ہیں دل کا، اور جب دل پر ویرانی چھا جائے، تو آنکھیں بھی جیسے شہر کی گلیوں کی طرح سنسان ہو جاتی ہیں

ان میں کوئی سوال نہیں، کوئی جواب نہیں، بس ایک خاموش چیخ، جو سننے والا کوئی نہیں

یہ ویران آنکھیں، جن میں ایک زمانہ دفن ہے، مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان میں کتنے طوفان چھپے ہیں

بلیک ہول

خلا میں ایک سایہ چھپا ہوا ہے

جہاں ستارے چپ چاپ سو جاتے ہیں فنا ہو جاتے ہیں

ایک دہن جو روشنی اور وقت کو نگل لیتا ہے

ایک خلا جس میں نہ کوئی اونچائی ہے نہ کوئی چڑھائی

اس کی کشش ایک راز ہے وسیع اور طاقتور

جہاں ماضی اور حال ایک ہو جاتے ہیں

نہ کوئی آواز اس کی گہرائی سے نکلتی ہے

نہ کوئی ستارہ اس کی طاقت سے بچ پاتا ہے

اس کے اندر کیا ہے کوئی نہیں جانتا

ایک ایسی جگہ جہاں لامحدودیت ہے

اندھیرے کا دل ٹھنڈا اور گہرا

جہاں کائنات کے راز چھپے ہوئے ہیں

اور اگرچہ لوگ اسے خوف سے دیکھتے ہیں

یہ خلا میں چھپے سچ کو سنبھالے ہوئے ہے

کیونکہ اس بلیک ہول کے اندر

کائنات اپنی پوشیدہ حقیقت کو بُنتی ہے

ماں کی محبت

ایک ماں اپنے بچے کو کھلاتی ہے

سہانی روشنی کی چمک میں سرخ ہوا کی گود میں

ایک ماں کی محبت اس کے چہرے پر چمکتی ہے

نرم ہاتھوں اور لطیف دیکھ بھال کے ساتھ

وہ اپنے بچے کو محبت کے ساتھ کھلاتی ہے

ایک رشتہ مضبوط ہوتا ہے

خاموشی میں میٹھی گفتگو وہ زندگی کا گانا گاتے ہیں

محبت اور فضیلت کا ایک سمندر

کھانے کے عمل میں

ایک ماں کا دل ہمیشہ گاتا ہے

ہر قدم میں کہانی بیان ہوتی ہے

وہ محبت جو کبھی بھی پرانی نہیں ہوگی

ایک محبت کی خوبصورت بات جو بیان نہیں ہو سکتی

ایک ماں کی محبت خالص

اور نرم ہوتی ہے

زمان و مکاں

ایسے دائروں میں جہاں وقت اور جگہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں

کائناتی فضلی رقص

دور دور تک وہ سفر کرتے ہیں

وقت کی خاموش سرگوشیاں قدیم

ستاروں کے آسمان کے نیچے گونجتی کہانیاں

ہر لمحہ ایک سمفنی ایک لمحاتی نظر،

کائناتی تھیٹر میں، زندگی کا کائناتی رقص

خلا، ایک کینوس جہاں خواب بکھرتے ہیں،

کہکشائیں گھومتی ہیں، نیبولاس گھومتی ہیں

اس کی لامحدود آغوش میں، ہم اپنا مقام پاتے ہیں،

لامتناہی فضل میں سٹارڈسٹ کا ایک ذرہ

وہ مل کر بُنتے ہیں، ایک کائناتی ڈیزائن،

جہاں ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے سے ملتے ہیں

وجود کی ٹیپسٹری میں، ہم سراغ لگاتے ہیں،

وقت اور جگہ کے اسرار

درد

گہرے سائے میں، جہاں خاموشی راج کرتی ہے

ایک ایسا دائرہ ہے جہاں مستقل درد رہتا ہے

ایک خوفناک تماشہ نادیدہ لیکن محسوس ہوتا ہے

ہر دل کی دھڑکن میں ہر آہ و زاری میں

یہ آہستہ سے سرگوشی کرتا ہے ایک ظالمانہ نوحہ سناتا ہے

غم کی ایک لے ہمیشہ موجود رہتی ہے

ہر سحر اور شام کے گلے سے

یہ اپنے دھاگے بُنتا ہے کوئی نشان نہیں چھوڑتا

رات کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ اپنا راج رکھتا ہے

جہاں خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں بے ترتیبی میں کھو جاتے ہیں

پھر بھی اس نہ ختم ہونے والی حالتِ زار کے درمیان

امید جھلکتی ہے ایک رہنمائی کی روشنی میں

اگرچہ درد دیرپا بے لگام اور شدید ہو سکتا ہے

چنگاری کو بھڑکانے کے لیے اندر طاقت ہے

سائے کی گرفت سے اوپر اٹھیں

اور نرمی سے تسکین حاصل کریں

تو آئیے رات کو بہادر کرنے کی

ہمت کریں  ہماری روشنی کے طور پر

کیونکہ گہرائیوں میں ہم اپنا راستہ تلاش کریں گے

ایک ایسی صبح کی طرف جو ایک روشن دن لائے

جنت

جہاں خوابوں کی پرواز ہوتی ہے

ستاروں بھرے آسمان کے نیچے

وہاں ایک جگہ ہے بے انتہا فضل کی

جہاں وقت اور فکریں کوئی جگہ نہیں پاتی

جنت میں، ہلکی ہوا لے جاتی ہے

درختوں کے درمیان رازوں کی باتیں کرتی ہے

اور دریاؤں میں نغموں کے ساتھ ناچتے ہیں

جو روح کو میٹھی آرام دیتے ہیں

پھول بہترین رنگوں میں کھلتے ہیں

خوشی کے مناظر کو پینٹ کرتے ہیں

اور ہر قدم زمین پر

اب تک نہیں پائی گئی خوشبو کے لئے

جنت میں، سورج کی گرمی کی روشنی

سب کو نرمی سے گلے لگاتی ہے

اور پرندے جدوجہد کرتے ہیں

ایک نغمہ جو دیر تک رہتا ہے

یہاں، محبت کی گلیاں ہمیشہ قریب ہیں

ہر قسم کے خوف کو دور کرتے ہیں

اور اس جنت میں، دلوں کی تصاویر

ایک محبت جو واقعی الوہی ہے

لہذا ہم جنت کا خواب دیکھیں

جہاں خوشی کبھی نہیں مرتی

اور ہمارے گھومنے کے اس دنیا کو

ہمارے آسمانی گھر کا عکس بنائیں

دوزخ

دنیا کے دور تاریکی کے اندر

جہاں سایہ اور چھپا ہوا ہے بے شمار

وہاں ایک جگہ ہے بے پایاں

جہاں تاریکی روشنی سے مل جاتی ہے

اس خوابوں اور خوفوں کی دنیا میں

جہاں ہنسی اور آنسوؤں کی سرگوشیاں ہوتی ہیں

دل اپنی سکون میں، جان اپنی خوشی میں پاتا ہے

جیسے اوپر کے تارے اپنے رازوں کو خارج کر دیتے ہیں

مگر اس ہنگامہ میں ایک لہر سرکتی ہے

امید کا ایک سمندر جہاں روح گاتی ہے

کیونکہ رات کے سب سے تاریک لمحے میں

تاریکی کی سب سے ہلکی روشنی میں خوبصورتی ہے

پس ہم مل کر چلیں، ہاتھوں کو جوڑ کر

گہری گھاٹیوں اور بلند پہاڑوں میں

کیونکہ اس سفر میں، ہم پائیں گے

انسانیت کی حقیقت کا جوہر

میری کہانی

میں اس وقت پینسٹھ سال کا ہوں

ریٹائر ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں

گریجوئیشن کے بعد مجھے نوکری ملی

جس دن تنخواہ ملتی

وہ دن زیادہ پریشانی اور تکلیف میں گزرتا

اخراجات زیادہ تھے اور آمدنی کم تھی

امید تھی کہ حالات سنور جائیں گے

مگر حالات حوالات بنے رہے

شادی ہوئی بچے ہوئے

مالی دباؤ بڑھا

دن رات شکنجے میں گزرے

کبھی قرض کبھی جی پی فنڈ سے

ضروریات اور  تعلیمی اخراجات پورے ہوئے

سب خواب پتھرا گئے

زندگانی کسی نہ کسی طرح رینگتی رہی

کئی خواہشیں کئی سپنے ادھورے رہے

بچے پڑھ لکھ کر  اپنے گھروں کے ہو گئے

بوڑھاپا وجود پر طاری ہوا

شوگر فشارِ  خون اور کھانسنے کی بیماری۔۔۔۔

بے چینی اور بے زاری

یہ ہے زندگی  کی گلکاری

اور ایک دن اجل کا آ جائے گا بلاوہ

کچھ یادیں کچھ تصویریں کچھ وڈیو کلپس اور کچھ وائس میسج

موبائلوں میں باقی رہ جائیں گے

اور  پھر  رفتہ رفتہ وہ بھی

ڈیلیٹ ہو جائیں گے

نصیحت

جن لوگوں کی تخلیق کے سوتے

سوکھ جاتے ہیں

وہ دوسروں کے کلام میں نقص نکالتے ہیں

علم بیان اور علمِ عروض کے ماہر

ہر وقت فعلن فاعلن فع کے چکر میں رہتے ہیں

ہر وقت منکر نکیر کی طرح

شاعروں کی غلطیاں نکالتے ہیں

یہ لوگ معاونت کی بجائے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں

تخلیق کے آگے بند باندھتے ہیں

بے ساختگی اور برجستگی کے خلاف

گرائمر اور علمِ بیان کے ناخوشگوار چوبی تیروں سے بدن چھیدتے ہیں

یہ جو بھی کریں جو بھی سند لائیں

آپ نے لکھنا نہیں چھوڑنا

اپنا دل نہیں توڑنا

لکھتے  جائیں لکھتے جائیں

اور تخلیق کے حسن میں ڈوبتے جائیں

بشر کا کلام الوہی نہیں ہوتا

ہر گھڑی غلطی کا احتمال ہوتا ہے

ہر عروج کو زوال ہوتا ہے

اپنا حوصلہ نہیں ہارنا آگے پڑھتے جانا ہے

آگے ہی آگے ایک دن مل جائے گی منزل

سوکھے پتے ہو جائیں گے سر سبز

بجلی کوندے گی اور حبس ختم ہو گا

چلنے لگے گی ٹھنڈی اور سبک ہوا

اور کھل جائے گا بند دریچہ

کس طرح عید مناؤں 

کس طرح عید مناؤں

جن کے دم سے میری  عیدیں تھیں

وہ لوگ مجھے تنہا چھوڑ کر اس جہاں آباد ہوئے

جہاں سے کوئی آ سکتا ہے

نہ کوئی پیغام موصول ہو سکتا ہے

اس جہان میں ہم بچھڑ کر مل جاتے ہیں

دور جا کر خط میسج یا فون سے رابطہ

کر سکتے ہیں مگر

وہ جہاں جسے ابد آباد کہتے ہیں

وہاں سوائے خواب کوئی ذریعہ نہیں ملنے کا

مگر خواب خیال ہوتے ہیں

دبی ہوئی خواہشیں

جانے والے کبھی نہیں لوٹیں گے

میں عید کیسے مناؤں

اپنے عم زادوں ماں اور باپ کے بغیر

مگر میرے بچوں کا بھی حق ہے مجھ پر

اور معصوم ہوتے پوتیاں جنہیں پتا نہیں

ان کے دادو کیوں اداس ہیں

موت کیا ہے انسان یہ دھرتی چھوڑ کر کہاں چلا جاتا ہے

ان معصوموں کو کیا پتہ

میں انہیں کیسے سمجھاؤں

جانے والوں نے نہیں آنا مگر جو ابھی زندہ ہیں

ان کو عید مبارک لازماً کہنی چاہیے

ان کی خوشیوں میں شامل ہو کر بھی

ہم غمزدہ ہی رہیں گے اور ان لوگوں کو کبھی نہیں بھولیں گے

جن کے ساتھ ہم رہتے تھے

خوشی میں ہنستے تھے غم میں روتے تھے

ان کے بغیر عید کیسے منائیں

خلا کی وسعت

خلا… ایک بے کراں سمندر

جہاں وقت گم ہو جاتا ہے

اور فاصلے معنی کھو دیتے ہیں

ستارے اپنی روشنی بکھیرتے ہیں

مگر ان کی چمک بھی اس بے کنار وسعت میں دب سی جاتی ہے

جہاں ہم کھڑے ہیں وہاں زمین چھوٹی وقت محدود اور فاصلہ معلوم ہے

مگر خلا میں نہ کوئی حد ہے  نہ کوئی انتہا

خلا کی خاموشی گہری ہے

ایسی خاموشی جس میں کہکشائیں جنم لیتی ہیں اور مر جاتی ہیں

ہر روشنی کا نقطہ ایک کہانی کا آغاز ہے اور ہر سایہ ایک بھولی بسری داستان

کہیں بہت دور کوئی سیارہ شاید ایک اور زندگی کے خواب دیکھ رہا ہو

اور کہیں اور کوئی بلیک ہول

خاموشی سے سب کچھ نگل رہا ہو

یہ وسعت ہمیں حیران کرتی ہے

ہمارا وجود اس میں ایک ذرہ بھی نہیں

مگر پھر بھی یہ وسعت ہمیں بلاتی ہے

ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے ہم ستاروں کے راز جاننا چاہتے ہیں

ہم ان دور دراز کی دنیاؤں کو چھونا چاہتے ہیں

خلا جہاں وقت کے کوئی معنی نہیں

جہاں لمحے صدیوں میں بدل جاتے ہیں

یہ وسعت ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی مختصر ہے

مگر یہ وسعت بے حد ہے

اور شاید کہیں اسی وسعت میں ہماری تقدیر لکھی ہوئی ہے

چاند

چاند آسمان پر تنہا  خاموش اور روشن

رات کے اندھیرے میں ایک مدھم روشنی کا دائرہ

جیسے کسی نے آسمان پر امید کا چراغ روشن کر دیا ہو

وہ زمین سے بہت دور ہے

پھر بھی ہماری نظروں میں ہمیشہ قریب رہتا ہے

اُس کی چمک ہمیں اپنے سحر میں لے لیتی ہے جیسے ہر رات وہ کوئی نیا راز اپنے ساتھ لے کر آتا ہو

چاند کبھی مکمل ہوتا ہے کبھی آدھا

اور کبھی تو محض ایک دھندلا سا ہلال جیسے وہ خود بھی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا عکاس ہو

کبھی روشن اور بھرپور اور کبھی دھندلا، خاموشں اور دور

رات کی تنہائی میں چاند کا نظارہ انسان کو سوچوں میں غرق کر دیتا ہے

کتنے خواب  کتنے افسانے کتنی داستانیں اس کے نام سے جڑی ہوئی ہیں

عاشقوں کے دلوں کی ترجمانی کرتا چاند شاعروں کے لئے ہمیشہ ایک الہام کی صورت

چاند کی روشنی سرد ہے

مگر اس میں سکون ہے

جیسے وہ آسمان سے ہمیں یہ پیغام دیتا ہو

کہ دنیا کی تپش کے بعد راحت آ ہی جاتی ہے یہ ایک دائمی حقیقت ہے چاند ہمیشہ طلوع ہوتا ہے

چاہے رات کتنی بھی اندھیری کیوں نہ ہو

چاند جو زمین کا ساتھی ہے

مگر پھر بھی ہمیشہ تنہا

وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تنہائی میں بھی خوبصورتی ہے

اور خاموشی میں بھی ایک زبان ہوتی ہے

جو صرف دل سے سننے والوں کو سنائی دیتی ہے

وقت کیا ہے؟

وقت کیا ہے

ایک خواب یا حقیقت کا دھوکا؟

ایک لمحہ جو پھسلتا ہے

جیسے ریت ہاتھوں سے

نہ کبھی ٹھہرتا ہے

نہ کبھی رکتا ہے

یہ سچائی ہے یا فقط فریب کا جال ہے؟

گزر جائے تو یادیں بن کر تڑپاتا ہے

نہ سنبھالو تو بکھر جاتا ہے

آنے والا لمحہ

امیدوں کا دیپک ہے

لیکن کیا وہ بھی وقت کے بہاؤ میں گم نہیں ہو جاتا؟

یہ لمحے گھنٹے دن اور سال سب دھندلے نقوش ہیں

جو ماضی کی گلی میں کھو جاتے ہیں

کیا وقت بس ایک سایہ ہے

یا زندگانی کا اصل راز؟

کیا ہمیں وقت کو سمجھنا ہے یا بس جینا ہے؟

وقت کیا ہے یہ سوال ہمیشہ قائم رہے گا

ہماری سانسوں میں ہمارے خوابوں میں

وقت کا ہر پل ایک سفر ہے

جو ہمیں کبھی سمجھ میں نہیں آئے گا

چاند گرہن

چاند گرہن رات کے آسمان پر ایک عجیب سا لمحہ

وہ چاند جو ہمیشہ روشنی بانٹتا ہے

آج دھیرے دھیرے سائے میں چھپ رہا ہے

جیسے کسی نے اس کی چمک چھین لی ہو

یا جیسے کوئی اداسی کی چادر اوڑھ لی ہو آسمان کی وسعتوں میں ہر ستارہ خاموش ہے جیسے وہ بھی اس منظر کا گواہ ہو

یہ لمحہ عارضی ہے

مگر پھر بھی اس میں ایک عجیب سی کشش ہے

یہ گرہن ہمیں یاد دلاتا ہے

کہ کبھی کبھی روشنی کو بھی آرام چاہیے

کبھی کبھی چاند کو بھی چھپنا پڑتا ہے

لیکن یہ چھپنا دائمی نہیں

جیسے رات کے بعد صبح ہوتی ہے

چاند بھی پھر سے نکلے گا

پھر سے روشنی پھیلائے گا

گرہن کا یہ لمحہ ایک خاموشی میں لپٹی ہوئی خوبصورتی ہے

ایک ایسا لمحہ جو ہمیں فطرت کی گہرائی اور اس کے رازوں کی یاد دلاتا ہے

ٹائی ٹینک جہاز

سمندر کی وسعتوں میں

خاموشی کا ایک طوفان

جہاز کی دیواروں پر

پانی کی آوازیں

نہ ختم ہونے والا سفر

تقدیر کی کمان میں،

ایک لمحے کی خطا

روشنیوں سے چمکتا ہوا

لوہے کا بے جان دیو

انسانی غرور کا نشان

پانی کی گہرائیوں سے لڑتا ہوا

مگر سمندر کے دل میں

اک پرانا راز تھا

جو جہاز کی چیخوں کو

خاموشی میں بدل گیا

نیلے آسمان تلے

یہ عظیم دیوار

ایک پل کی لغزش میں

دھیرے دھیرے

پانی کی آغوش میں جا سوئی

کہانیوں کا باب

ختم ہوا

مگر پانی کی موجوں میں

اب بھی

اس کی دھڑکنیں

گونجتی ہیں

ساحلوں کی ہوا میں

وہ جہاز اب بھی

کہیں نہ کہیں

زیرِ آب

اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے

خاموش

تنہا

اور بھاری

جنگل کا قانون

درختوں کی گھنی چھاؤں میں

جہاں روشنی کا راستہ بھول جاتا ہے

وہاں جنگل کا قانون جاگتا ہے

خاموشیوں میں سرگوشیاں

اور ہر سانس میں ایک جدوجہد

شکاری کی آنکھوں میں بھوک

شکار کی آنکھوں میں خوف

یہاں کوئی رحم نہیں،

بس بقا کی طلب ہے

ہر قدم ایک جنگ

ہر سانس ایک شرط

کوئی تخت نہیں

کوئی تاج نہیں

لیکن ہر جانور

اپنی سلطنت کا بادشاہ

اور اپنی بقا کا غلام ہے

یہاں کوئی ضابطے نہیں

صرف ایک قانون

زور کا ہے

جو طاقتور ہے، وہی حق دار

باقی سب

خاموشی کے سایوں میں گم ہو جاتے ہیں

یہی جنگل کا قانون ہے

ظلم نہیں، صرف فطرت

بقا کی بے رحم حقیقت

جو ہر قدم پر

سانس لیتا ہے

جنگ عظیم اول

گولیوں کی گھن گرج

توپوں کی دہاڑ

مٹی کے میدانوں میں

انسانیت کا لہو بہتا رہا

خاموش زمین پر

نوحہ کرتی قبریں

اور آسمان پر

آنسوؤں سے بھری بادلوں کی چادر

یہ جنگ تھی

زمین کے ٹکڑوں کے لیے

یا شاید اقتدار کے لیے

مگر اس میں گم ہو گیا

انسان

اپنی حقیقت کو بھولتا ہوا

آگ اور بارود میں

تقدیر کے کھیل کا مہرہ بن گیا

سروں پر بندوقیں

ہاتھوں میں زنجیریں

کانپتی ہوئی زمین

اور چیخیں

جو ہواؤں میں گم ہو گئیں

وقت کے ایک لمحے نے

صدیوں کا درد بھر دیا

یہ جنگ عظیم تھی

جہاں نسلوں نے

خواب کھو دیے

جہاں مستقبل نے

اپنے وجود کا احساس

مٹی کے ڈھیر میں دفن کر دیا

اور پیچھے رہ گئی

صرف یادیں

ایک ٹوٹے ہوئے دل کی

ہاتھوں میں خون

آنکھوں میں خالی پن

یہی تھا انجام

ایک ایسی جنگ کا

جو انسان نے شروع کی

مگر انسانیت نے ہار دی

جنگ عظیم دوم

دنیا کے نقشے پر

آگ کے شعلے پھیل گئے

ہر شہر ایک زندان

ہر ملک ایک میدان جنگ

انسانیت کی چیخیں

گولیوں کی آوازوں میں دب گئیں

اور خاکستر میں

تاریخ نے اپنا چہرہ چھپا لیا

زمین پر موت کے سائے

آسمان پر جنگی جہاز

معصوم خواب

بموں کی گونج میں ٹوٹ گئے

میدانوں میں،

آدمی آدمی سے لڑا

نہ قوم رہی، نہ مذہب

بس جنگ کا شور

اور انسان کا زوال

حکمرانوں کی ہوس

دھرتی کے بیٹوں کا خون پی گئی

نقشے بدلتے گئے

قلب دھڑکتے رہے

مگر وہ دل

جو جنگ کے آغاز میں دھڑک رہے تھے

ختم ہوتے ہوتے

پتھر بن چکے تھے

برلن کی گلیاں

ہیروشیما کا آسمان

سب گواہ ہیں

اس آگ کے طوفان کے

جس نے تہذیب کو

راکھ میں بدل دیا

اور انسان کو

خوف کا پتلا بنا دیا

یہ جنگ

صرف ہتھیاروں کی نہ تھی

بلکہ انسان کی روح کی تھی

جہاں نفرت جیت گئی

محبت ہار گئی

اور دنیا نے

اپنے ہی ہاتھوں

خود کو فنا کر ڈالا

جب دھواں چھٹا

اور زمین نے سکون پایا

تب تک

کروڑوں خواب

خاک میں دفن ہو چکے تھے

یہی تھی

جنگ عظیم دوم کی کہانی

جہاں ہر فتح میں

انسانیت کی شکست لکھی تھی

رومیو اور جولیٹ

دو دل

دو دنیا

ایک کہانی

جہاں محبت نے

نفرت کے سائے میں جنم لیا

روشنی کے ہر ذرے میں

چھپی تھی ان کی محبت

مگر قسمت کی تاریکی

ان کے قدموں میں بچھ گئی

رومیو کا دل

جولیٹ کی دھڑکن سے بندھا تھا

اور جولیٹ کی آنکھیں

رومیو کے خوابوں میں بسی تھیں

مگر خاندانوں کی دیواریں

اونچی تھیں

اور روایات کی زنجیریں

بہت بھاری

محبت کے اس میدان میں

انہوں نے جینے کا خواب دیکھا

مگر موت کی وادی

زیادہ قریب تھی

ہر لمحہ

ان کے دلوں کے درمیان

ایک خنجر بن کر آتا

اور تقدیر کی لکیر

ان کے راستوں کو جدا کرتی گئی

یہاں وفا نے اپنا وعدہ نبھایا

مگر دنیا نے

اپنے اصول نہ بدلے

دو روحیں

جو ایک تھیں

زمیں کی مٹی میں

الگ الگ دفن ہو گئیں

رومیو اور جولیٹ

محبت کی وہ کہانی

جو کبھی نہ مٹی

وقت کے پنوں پر لکھی ہوئی

ایک ایسی داستان

جس کا انجام

اب بھی ہر دل میں

ایک درد کی صورت گونجتا ہے

محبت جیت کر بھی

شکست کھا گئی

ما بعد الطبیعیات

آسمانوں کے پار

ستاروں کے پیچھے

جہاں عقل کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں

وہاں سے شروع ہوتی ہے

ما بعد الطبیعیات کی کہانی

ایک ایسی دنیا

جو نظر سے پرے ہے

اور فہم سے دور

وجود کیا ہے؟

کیا ہم محض جسم ہیں

یا روح کا کوئی سایہ؟

وقت کی قید میں ہم

کب سے ہیں؟

یا یہ سب

بس ایک خواب ہے

جو ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟

کائنات کا یہ پھیلاؤ

کیا واقعی حقیقی ہے؟

یا ایک دھوکا،

ایک سراب

جو ہر لمحے ہمارے سامنے

حقیقت کا نقاب اوڑھے ہوئے ہے

اور پیچھے

خاموشی کی گہرائی میں

چھپا ہے وہ راز

جسے ہم سمجھنا چاہتے ہیں

مگر سمجھ نہیں پاتے

خدا کی موجودگی

یا عدم موجودگی

کیا وہ ہمارا خیال ہے؟

یا ہم اس کی سوچ کا عکس؟

یہ سوالات

جو دماغ کی لکیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں

ہر جواب

ایک نئے سوال کو جنم دیتا ہے

اور حقیقت

ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی

کہیں دور نکل جاتی ہے

مابعد الطبیعیات

محض فلسفہ نہیں

بلکہ وہ آئینہ ہے

جس میں ہم

اپنے وجود کے اصل چہرے کو

دھندلا سا دیکھتے ہیں

پکڑنا چاہتے ہیں

مگر پکڑ نہیں پاتے

یہی تو ہے

وہ دائمی جستجو

جو کبھی ختم نہیں ہوتی

ٹائم ٹریول

وقت کے دھارے میں

چھپی ہے ایک راہ

جس پر ہم سفر کر سکتے ہیں

ماضی کی گلیوں میں

یا مستقبل کے جنگلوں میں

ایک قدم

اور پلٹ سکتے ہیں

اس لمحے میں

جو کبھی ہمارا تھا

یا چھو سکتے ہیں

اس وقت کو

جو ابھی آیا نہیں

کیا ہو

اگر ہم ماضی کو بدل دیں؟

کیا یادیں بھی بدل جائیں گی؟

یا وہ لمحے

پتھر کی طرح مضبوط ہیں

جو ٹوٹ تو سکتے ہیں

مگر اپنی شکل نہیں کھوتے؟

مستقبل کا سفر

کیا ہمیں وہ دکھائے گا

جو ہم بن سکتے ہیں؟

یا وہ سایے ہیں

جو ابھی تک نامکمل ہیں

اور ہر قدم

ایک نئے راستے کی طرف موڑ سکتا ہے؟

ٹائم ٹریول

محض ایک خواب

یا حقیقت کے قریب

ایک ایسا دروازہ

جو کھلتا تو ہے

مگر اس کے پیچھے

صرف سوالات کا جنگل ہے

جو بڑھتا جاتا ہے

وقت کا یہ کھیل

ہمیں بانٹ دیتا ہے

ماضی اور حال میں

ایک سفر

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

اور ہم

بس ان لمحوں کی گردش میں

کھو جاتے ہیں

جو کبھی تھے

یا کبھی ہوں گے

مگر اب نہیں

مہاتما بدھ

سکوت کی گہرائیوں میں

ایک روشنی کا چمکتا ستارہ

مہاتما بدھ،

جو حقیقت کی تلاش میں نکلے

دکھ کی وادیوں سے گزرتے ہوئے

انہوں نے سکھایا

کہ سکون صرف اندر کی دنیا میں ہے

چوپال کی گلیوں میں

جہاں زندگی کا شور تھا

وہ چلے ایک نیا راستہ

دھوکے اور خواہشات کے سائے

جن کا بوجھ

انسانیت کو کچل رہا تھا

ان کی آنکھوں میں

علم کی چمک اور

پرامن زندگی کا خواب تھا

“سب کچھ عارضی ہے”

یہ ان کی صدا تھی

ہر خوشی، ہر دکھ

جیسے ہوا کا جھونکا

بے خودی میں گزرنے والے

کیا جانتے تھے

کہ محبت اور علم

ان کے اندر ہی موجود ہیں؟

تدریس کی روشنی میں

انہوں نے دکھایا

کہ نیک اعمال

اور مہربانی کی راہ

ہی حقیقی آزادی کی کنجی ہے

محبت کی لہروں میں

بنے اس نے ایک عزم

جو سب کو ملا کر

امن کا پیغام بن گیا

مہاتما بدھ کا پیغام

انسانیت کے دلوں میں بسا

وہ علم کا سمندر

جو بہتا رہا

ہر ایک کے دل کو

سکون عطا کرتا رہا

وہ ایک چراغ تھے

جو آج بھی

ہمارے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں

ان کی سادگی

اور گہرائی

ہمیں یاد دلاتی ہے

کہ حقیقی خوشی

دوسروں کی خدمت میں ہے

اور محبت کی راہ پر

چلنا ہے

تاکہ ہم بھی

ان کے نقش قدم پر

پرامن دنیا کی تعمیر کر سکیں

افلاطونی محبت

چاہت کی ایک عجیب دنیا

جہاں جسم کی قید سے آزاد

محبت کی پرواز

نہ رنگ کا پھیراؤ

نہ شکل کا قیدی

صرف روح کا رشتہ

اور دل کی سچائی

یہ محبت

ایک خواب کی مانند ہے

ایک خیال،

جو دل میں سرگوشی کرتا ہے

نظروں کی گہرائیوں میں

بنا ہوا ایک پل

جو دو دلوں کو جوڑتا ہے

محبت کی زبان میں

الفاظ کی ضرورت نہیں

افلاطونی محبت

جسمانی تعلقات سے مبرا

ایک عظیم احساس

جو روح کو سیراب کرتا ہے

جہاں محبت کی چاشنی

ہر بات میں گونجتی ہے

ایک دوسرے کی آنکھوں میں

دیکھنے سے بڑھ کر

دل کے آئینے میں

خود کو پانا

یہ عشق،

محبت کی اعلیٰ شکل

جہاں دو روحیں

ایک دوسرے کی تکمیل ہیں

نہ کوئی مادی خواہش

نہ کوئی عارضی لذت

صرف خلوص اور سچائی

جو وقت کی قید سے آزاد ہے

افلاطونی محبت

ایک روشنی کی کرن

جو اندھیروں میں چمکتی ہے

ایک سفر

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

چاہے فاصلہ ہو یا وقت

دل کی گہرائیوں میں

وہ محبت ہمیشہ زندہ رہتی ہے

یہی تو ہے

محبت کی اصل بنیاد

جو روحوں کو جڑتا ہے

اور زندگی کو معانی دیتا ہے

جسمانی محبت

آنسوؤں کی چمک میں

چاہت کی لہر دوڑتی ہے

جہاں جسم کی حدود

محبت کی گہرائیوں میں کھلتی ہیں

ایک چھوٹی سی دنیا

جہاں صرف تم اور میں ہیں

ہوا کی سرگوشیاں

اور دل کی دھڑکنیں

ہاتھوں کی گرمی

لبوں کی نرم چھوئیں

ہر لمس میں

ایک داستان پوشیدہ

یہ جسموں کی باتیں

پھر بھی روحوں کا رقص

ایک نازک توازن

جہاں دو دل ملتے ہیں

محبت کی شدت

نرمی میں بکھر جاتی ہے

مکاشفہ کی ایک نئی شکل

ایک دوسرے کے قریب

وقت جیسے رک جاتا ہے

چہرے پر چمک

اور آنکھوں میں خواب

جو خاموشی سے باتیں کرتے ہیں

یہ جسمانی محبت

محض خواہش کا نام نہیں

بلکہ ایک گہرائی ہے

جو روح کے عریاں ہونے کا احساس دیتی ہے

جہاں ہر لمس میں

خوابوں کی دنیا بستی ہے

محبت کی ایک نئی جہت

جو دلوں کو جڑتا ہے

یہاں ہر لمحہ

پھر ایک وعدہ ہے

آج کی رات کا

محبت کی لہروں میں

غرق ہونے کا

جہاں جسم کو چھوڑ کر

روحیں آسمانوں کی بلندیوں پر اڑتی ہیں

ایک سفر

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

یہی تو ہے

جسمانی محبت کی حقیقت

ریچھ اور کتے کی لڑائی

ایک دن کی شام

جب سورج اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا

جنگل کی خاموشی میں

دو طاقتور مخلوقوں کا سامنا ہوا

ایک طرف تھا

ایک بڑا ریچھ،

جس کی آنکھوں میں

خود اعتمادی کی چمک تھی

دوسری طرف

ایک چالاک کتا،

جس کی وفاداری

ہر لمحے محسوس ہوتی تھی

ریچھ کی دھمکی

جنگل کے ہر کونے میں گونجی

لیکن کتے نے

خوف کو پس پشت ڈالتے ہوئے

اپنی بہادری دکھانے کا عزم کیا

دونوں کے درمیان

ایک لمحہ،

جہاں ہوا نے سانس روک لیا

ایک چنگاری چمکی

اور جنگل کی زمین پر

لڑائی کا آغاز ہوا

کتے نے پھرتی سے

ریچھ کی جانب چھلانگ لگائی

لیکن ریچھ کی طاقت

جنگل کی طاقتور نشانی تھی

وہ اپنی طاقت سے

کتے کو پیچھے دھکیلتا

آہستہ آہستہ

لڑائی کی شدت بڑھتی گئی

ایک شور، ایک گرج

زمین کو ہلا دینے والی

لیکن کتا

اپنی چالاکی سے

ریچھ کی طاقت کو

اپنی سرعت سے بھٹکاتا

دو طاقتوں کی اس ٹکر میں

وفاداری اور طاقت

ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے

کتنے لمحے گزرے

یہ جاننے کے بغیر

کہ کون جیتے گا،

کون ہارے گا

آخرکار

دونوں نے ایک لمحے کی خاموشی میں

ایک دوسرے کو دیکھا

ایک خاموشی جو

مکالمے کی صورت بن گئی

پھر اچانک

کتنے میں ایک ہنکار

اور ریچھ نے اپنی طاقت سے

کتا کو ایک طرف دھکیل دیا

کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو

کبھی کبھار طاقت ہی جیتتی ہے

ریچھ کی فتح کے بعد

کتا پیچھے ہٹ گیا

لیکن اس کی آنکھوں میں

خود اعتمادی کا جھماکا تھا

کیونکہ ہر لڑائی

کسی نہ کسی سبق کے ساتھ ختم ہوتی ہے

کہ طاقت کے ساتھ ساتھ

چالاکی اور وفاداری بھی

زندگی کے میدان میں اہم ہیں

یہی ہے

ریچھ اور کتے کی لڑائی کی کہانی

جنگل کے قانون کی ایک مثال

جہاں جیت اور ہار

صرف ایک لمحے کی بات ہے

خزاں رت کی اداسی

خزاں کا موسم آتا ہے

درختوں سے پتے یوں جھڑتے ہیں جیسے کسی خواب کا رنگ آہستہ آہستہ مٹ رہا ہو

ہوا میں ایک عجیب سی خاموشی ہوتی ہے

جیسے قدرت نے اپنی ساری زندگی کو سمیٹ لیا ہو اور اب بس ایک لمحہ سکون میں ٹھہر گئی ہو

ہر طرف زردی چھائی ہوتی ہے

یہ زردی زندگی کی نہیں موت کی علامت لگتی ہے

ایک اداسی جو ہر شے پر طاری ہے

جیسے یہ پتے زمین پر گر کر بھی کچھ کہہ رہے ہوں

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دل بھی جیسے اس فطرت کی اداسی کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے

وہ خواہشیں وہ خواب جو کبھی بہار کی طرح کھلے تھے

اب خزاں کی ہواؤں میں بکھر گئے ہیں

یہ موسم دل کے کونے میں دبی ہوئی یادوں کو بھی جگا دیتا ہے

جیسے کسی پرانی کتاب کے بوسیدہ ورق پلٹ جائیں اور ہر لفظ ایک کہانی بیان کرنے لگے

یہ اداسی ایسی ہے جیسے کوئی انمول چیز کھو دی ہو

جیسے زندگی سے کچھ چھن گیا ہو اور اب وہ واپس نہیں آ سکتا

مگر اس اداسی میں بھی ایک عجیب سی خوبصورتی ہے

یہ سکون دیتی ہے

یہ یاد دلاتی ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے

اور خزاں بھی زندگی کا حصہ ہے

جہنم میں ایک دن

آگ کے شعلے لپکتے ہیں

جلتی ہوا میں سانس لینا بھی مشکل ہے

جلتی زمین پر چلتے قدموں میں زنجیریں ہیں

ہر سانس میں درد ہر پل میں عذاب

کوئی سایہ نہیں کوئی پناہ نہیں

چیخیں ہیں جو کبھی رکتی نہیں

آوازیں ہیں جو کبھی خاموش نہیں ہوتیں

یہاں وقت تھم چکا ہے لمحے بے معنی ہیں

گناہوں کا بوجھ کندھوں پر بھاری

دل کی دھڑکن خوف کی لپیٹ میں

آنکھیں بند بھی ہوں تو خواب نہیں بس آگ کا سمندر

یہاں کوئی راہ فرار نہیں

بس انتظار ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا

ایک دن جو ہمیشہ کے برابر ہے

جہنم میں ایک دن

کبھی نہ ختم ہونے والا دن

ہیجڑا

نہ مرد، نہ عورت

نہ کسی صنف کی پہچان

بس وجود کا بوجھ

جسے وہ ہر روز اٹھائے پھرتا ہے

جسم میں سانس تو ہے

مگر زندگی کہیں دور کھڑی ہے

نہ کوئی آواز

نہ کوئی پکار

بس خاموشی کا زخم

جو ہر لمحے گہرا ہوتا جاتا ہے

اس کے اندر ایک چیخ ہے

جو باہر نکلنا چاہتی ہے

مگر زبان قفل ہے

دھتکار کی گونج

اس کے کانوں میں روز بجتی ہے

ہر نگاہ میں نفرت

ہر ہنسی میں تمسخر

جیسے وہ انسان نہیں

بس ایک تماشا ہے

جس کا کوئی دل نہیں

کوئی خواب نہیں

خواہشیں دل میں آ کر

سسکیاں بھر کر لوٹ جاتی ہیں

محبت کے لمس کو ترستا وہ وجود

جیسے صدیوں کا پیاسا

لیکن کوئی پانی نہیں

کوئی قطرہ نہیں

نہ سینہ، جہاں وہ رو سکے

نہ وہ ہاتھ، جو اس کے آنسو پونچھے

بس تنہائی کا عذاب

جو ہر پل کا ساتھی ہے

وہ چلتا ہے

مگر ہر قدم بوجھل

ہر راستہ سنسان

منزل جیسے کبھی تھی ہی نہیں

کبھی خواب تھا

یا شاید فریب

اس کے اندر جو دل ہے

وہ بھی اب سوال کرتا ہے

کہ کیا وہ زندہ ہے؟

یا محض سانسوں کا بوجھ

بس ایک سایہ

جو روشنی میں بھی اندھیرا ہے

اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں

بس درد ہے

جو دل کے اندر چھپ کر

ہر روز نوحہ کرتا ہے

وہ کون ہے؟

یہی سوال ہے

جو ہر پل اس کے اندر

ایک آگ کی طرح جلتا ہے

اور وہ، اس آگ میں جلتا ہوا

خاموشی سے پگھلتا جاتا ہے

بے نام بے نشان

تیسری دنیا

تیسری دنیا

یہاں خواب دھول میں لپٹے ہیں

یہاں آسمان کا رنگ

گہرے سرمئی بادلوں میں گم ہے

یہاں زندگی سانس لیتی ہے

مگر زندہ نہیں لگتی

یہاں بھوک کے دیپ جلتے ہیں

اور امیدوں کے چاند

کھڑکیوں سے دور کہیں ڈوبتے ہیں

محنت کی چکّی میں پیسنے والے ہاتھ

پھٹے ہوئے دامن کو سلتے ہیں

مگر تقدیر کا کپڑا چھوٹا ہی رہتا ہے

یہاں بچپن

جلدی بڑے ہو جاتے ہیں

اور خوابوں کا بوجھ

کندھوں پہ محسوس کرتے ہیں

کہیں تعلیم کے صفحے

پانی میں بہہ جاتے ہیں

اور کہیں خواب

گلیوں کی خاک میں رُل جاتے ہیں

یہاں سوال بہت ہیں

مگر جواب خاموش ہیں

آوازیں اٹھتی ہیں

مگر سننے والے کان بند ہیں

یہاں روشنی ہے

مگر اندھیرے کی قید میں

یہاں ترقی کی باتیں ہیں

مگر حقیقت میں

قدم وہیں کے وہیں ہیں

یہ تیسری دنیا ہے

جہاں سانس لینا زندگی ہے

اور جینا ایک خواب

کوانٹم فزکس

کوانٹم کی دنیا، ایک راز بھری داستان

جہاں ذرات میں چھپے ہیں لاکھوں جہان

نہ کوئی ٹھوس حقیقت، نہ کوئی مکمل گمان

ہر لمحہ نیا، ہر پل ایک امکان

روشنی کبھی ذرے، کبھی موج بنے

چھوٹے الیکٹران کبھی آئیں، کبھی چھپیں

فاصلے کی قید میں بھی آزادی کا سرور

کائنات کے ہر گوشے سے جڑے ہیں سب دستور

نیوٹن کے قوانین یہاں خاموش کھڑے

ہر ذرے کا اپنا ایک سفر، ایک کھیلا

پروٹون اور نیوٹران کے بیچ کی باتیں

عجیب رقص میں مگن، انمول حرکاتیں

یہاں وقت بھی رکتا، یہاں وقت بھی چلتا

ایک ہی لمحے میں سب کچھ بدلتا

غیب کی چادر میں لپٹا ہر سوال

جواب کہیں پر، مگر رسائی بے مثال

کوانٹم کی کہانی میں چھپا ہے کائنات کا راز

ایک لمحہ میں دنیا، دوسرے میں اک آغاز

ہر ذرے میں ایک خواب کی جھلک

یہ ہے قدرت کا کھیل، اک لامتناہی پلک

پریوں کی کہانی

ایک خواب سی دنیا،

جہاں ہر شے میں ہے جادو

پہاڑوں کے پیچھے چھپے جنگل

شیشے کی جھیلوں پر اڑتی ہوئی روشنی

اور ہوا میں تحلیل ہوتی سرگوشیاں

پریوں کے پروں کی نرم سرسراہٹ

رات کی چاندنی میں رقص کرتی،

جھلملاتی، خوشبو میں لپٹی

ایک مسکراہٹ کی مانند

جو پل میں چھپ جائے، پل میں ظاہر ہو

وہ دنیا جہاں وقت ٹھہر جاتا ہے

اور پلک جھپکتے ہی

نئی راہیں کھل جاتی ہیں

پتوں کی سرسراہٹ میں

کوئی بھولا ہوا راز

یا ہوا کے جھونکے میں

چھپا ہوا کوئی پیغام

پریوں کی کہانی

صرف بچپن کا خواب نہیں

بلکہ دل کی گہرائی میں چھپی

وہ خواہش

جو ہمیں سحر کی دنیا کی طرف بلاتی ہے

جہاں ہر خواب ممکن

ہر خیال حقیقت بن سکتا ہے

پریوں کی دنیا

ہمیں یاد دلاتی ہے

کہ کبھی کبھی

حقیقت سے پرے

ایک جادوئی دنیا بھی ہوتی ہے

جو بس ہمیں دیکھنے کی دیر میں چھپی ہوئی ہے

پریوں کے پروں کے نیچے، خوابوں کی چمک میں

برگد کا درخت

پرانے وقتوں کی ایک داستان

اپنی جڑوں میں چھپائے ہوئے صدیوں کا سفر

پھیلی ہوئی شاخیں، جیسے کائنات کی وسعتیں

اور زمین میں گہرائی تک اترتی ہوئی جڑیں

جو ماضی سے رشتہ جوڑتی ہیں

اس کی چھاؤں میں وقت ٹھہر سا جاتا ہے

بوڑھے برگد کے نیچے بیٹھے قصے سنانے والے

جن کی باتوں میں صدیوں کا علم

اور آنکھوں میں گزری یادوں کی جھلک

برگد کے سائے میں

دن ڈھلتا ہے، رات اترتی ہے

مگر درخت ویسا ہی کھڑا رہتا ہے

شانت، گہرا، اپنے اندر ایک پوری دنیا لیے

ہر پتہ، ہر شاخ، وقت کی کہانی سناتا

جیسے کوئی خاموش گواہ

برگد کے تنے سے لپٹ کر

محسوس ہوتا ہے جیسے زمین کا دل دھڑک رہا ہو

ہر جڑ میں دھڑکتی ایک صدی

ہر شاخ میں جھومتی زندگی

یہ درخت

بس ایک درخت نہیں

بلکہ زمین کی گود میں چھپی ایک پرانی داستان

جس میں وقت کی پرچھائیاں،

اور زندگی کی گہرائیاں

ہمیشہ ساتھ چلتی ہیں

مثلث

ایک سادہ شکل مگر بے شمار رازوں کی حامل

تین طرفیں تین زاویے اور ایک دلکش توازن

اس کی بنیاد میں چھپا ہے استحکام

اور اوپر کی جانب بڑھتا ہوا خوابوں کا سفر

ہر طرف کا ایک الگ منظر

ہر زاویے کی کہانی

جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں

جیسے زندگی کے مختلف پہلو

جو ایک ہی حقیقت کو بیان کرتے ہیں

مثلث کی سادگی میں ایک پیچیدگی ہے

جس میں چھپے ہیں خفیہ معانی

چاہے وہ ریاضی کی دنیا ہو

یا فنون لطیفہ کی بات

مثلث ہمیشہ ایک منفرد مقام رکھتا ہے

یہ صرف ایک شکل نہیں

بلکہ توازن اور ہم آہنگی کا علامت ہے

جہاں تین عناصر مل کر

ایک نئی زندگی کی تخلیق کرتے ہیں

اور ہر گوشہ ہر زاویہ

کسی نئے خیال کا آغاز بن جاتا ہے

مثلث ہمیں سکھاتا ہے

کہ سادگی میں بھی ایک خوبصورتی ہوتی ہے

اور زندگی کے تین بنیادی پہلو

محبت علم اور خواب

ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں

اور مل کر ہی ہمیں ایک مکمل تصویر دیتے ہیں

مرزا غالب

شاعری کی دنیا کا ایک درخشاں ستارہ

جو لفظوں کے جال میں بُنے گئے خوابوں کی طرح

دل کی گہرائیوں سے نکل کر

محبت، درد اور حقیقت کی تصویر کشی کرتا ہے

اس کی غزلیں

درد کی شاعری میں جڑی ہوئی

جیسے ہر شعر میں چھپا ایک راز

زندگی کی تلخی اور محبت کی مٹھاس

اس کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے

مرزا کا کلام

نہ صرف اردو کا سرمایہ ہے

بلکہ انسانی جذبات کی عکاسی بھی

اس کی سوچوں میں کھلتا ہے

کائنات کا ہر پہلو، ہر احساس

وہ کسی اور دور میں زندہ تھا

مگر اس کی آواز آج بھی سنائی دیتی ہے

ایک چراغ کی طرح، جو کبھی مدھم نہیں ہوتا

ہر نسل کے دلوں میں روشنی بکھیرتا ہے

اور محبت کا ایک نیا مفہوم پیش کرتا ہے

مرزا غالب

صرف ایک شاعر نہیں

بلکہ ایک فلسفی، ایک داستان گو

جس نے زندگی کی سچائیوں کو

الفاظ کی خوبصورت شکل دی

اور ہمیں سکھایا کہ

درد اور محبت کا سفر

ہمیشہ جاری رہتا ہے

ایک لامتناہی داستان کی طرح

جو کبھی ختم نہیں ہوتی

شریک حیات

زندگی کا ایک خوبصورت سفر

جہاں دل کی دھڑکنیں

ایک ہی سر میں گنگناتی ہیں

محبت کی گلیوں میں

ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے

آگے بڑھنے کا عہد

وہ ایک دوست، ایک ساتھی

جو خوشیوں کے لمحوں میں

ہنستی ہے اور گیت گاتی ہے

اور دکھ کے لمحات میں

ایک سکون کی صورت

دل کو تسلی دیتی ہے

شریک حیات کا پیار

سورج کی روشنی کی مانند

ہر صبح کو نئی امید دیتا ہے

رات کی چاندنی میں

پیار کے خواب سجاتا ہے

زندگی کی کتاب کے ہر صفحے پر

محبت کے رنگ بکھیرتا ہے

وہ ایک خوبصورت کہانی

جو وقت کے ساتھ بڑھتی ہے

ہر دن ایک نیا باب

ہر لمحہ ایک نیا احساس

پھولوں کی خوشبو سے مہکتا

اور چاند کی چمک میں چمکتا

شریک حیات، زندگی کی سب سے قیمتی نعمت

جس کے بغیر دنیا خالی سی لگتی ہے

شریکِ حیات ایک راز

جو ہر پل میں رنگ بھرتا ہے

اور محبت کی دھن پر رقص کرتا ہے

ہمیشہ ساتھ رہنے کا وعدہ

ایک سفر کی مانند

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

موت

زندگی کی راہوں میں

موت کا سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے

ابتدا سے انتہا تک

روشنی کی چمک میں بھی

اندھیرے کی گہرائیوں میں بھی

موت کوئی غمگین بات نہیں

یہ تو ایک نیا آغاز ہے

سوال یہ نہیں کہ موت کیسے آتی ہے

بلکہ یہ ہے کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے

چلتے چلتے ہم اکثر بھول جاتے ہیں

کہ یہ زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی

مگر موت ہمیں یاد دلاتی ہے

کہ اصل میں زندگی کیا ہے

الہام و کشف

کائنات کی خاموشی میں چھپے ہوئے راز

روح کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے

کہاں سے آتا ہے یہ الہام

کون سا جھونکا ہے جو دل کو جگاتا ہے

چاندنی رات میں

جب ستارے چپکے چپکے بولتے ہیں

پھر وہ لمحے آتے ہیں

جب حقیقت کی چادر اترتی ہے

اور خوابوں کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں

کچھ لمحے ہیں

جب خیالوں کی دنیا میں

روشنی کی کرنیں بکھرتی ہیں

اور دل کی کثافتیں دھل جاتی ہیں

یہی ہے کشف

یہی ہے الہام

کبھی تو یہ ہوا کی سرگوشی میں

کبھی خاموشی کی گہرائیوں میں

ہمیں خود سے ملاتا ہے

ان دیکھی راہوں کی طرف لے جاتا ہے

یہ نازک لمحے

یہ پروازیں

ہمیں خود سے متعارف کراتی ہیں

ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ

چپکے چپکے خوابوں کی دنیا میں

ہر آہٹ  ہر سرگوشی

کائنات کا ایک راز ہے

یہی الہام ہے

یہی کشف ہے

جو ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے متعارف کرتا ہے

اور دل کی گہرائیوں میں

ایک نئی روشنی بکھیرتا ہے

دجال

وہ ایک سایہ ہے جو زمین پر چھا جاتا ہے

اپنے دلفریب چہرے سے ہر دل کو لبھاتا ہے

خوابوں کی دنیا میں چلتے ہوئے قدموں کی آہٹ

خود کو خدا کا پیغمبر کہتا ہے

اس کی آنکھوں میں چمک ہے

لیکن اس کے دل میں تاریکی چھپی ہے

وہ آتا ہے نیکی کا لبادہ اوڑھ کر

لیکن اس کی باتوں میں فریب کی خوشبو ہے

دنیا کے لالچ میں بے شمار لوگ کھینچے جاتے ہیں

دولت اور عیش و عشرت کی جال میں پھنس جاتے ہیں

وہ دکھاتا ہے خوابوں کی رنگین دنیا

لیکن حقیقت کی آغوش میں سب کچھ کھو دیتے ہیں

خود کو نجات دہندہ سمجھنے والے

سچائی کی چادر کو بھول جاتے ہیں

وقت کے اس جال میں

کتنے ہی انسانیت کے چہرے مسکراہٹوں کے پیچھے چھپے ہیں

لیکن یاد رکھو

یہ صرف ایک امتحان ہے

یہ صرف ایک دھوکا ہے

سچائی ہمیشہ زندہ رہے گی

اور حق کا علم کبھی مٹے گا نہیں

دجال کا دور بھی گزر جائے گا

لیکن ایمان کا چراغ کبھی مدھم نہیں ہوگا

حق اور باطل کی اس جنگ میں

ہمیں اپنی راہ کو درست رکھنا ہے

اور اپنے دل میں سچائی کا نور جگانا ہے

آٹھواں عجوبہ

دنیا کے سات عجوبے سبھی جانتے ہیں

پتھر، لوہا، فن، اور ہاتھ کی صفائی

لیکن ایک عجوبہ ایسا ہے

جو نظر سے اوجھل ہے

نہ کتابوں میں لکھا

نہ تاریخ کے صفحات میں درج

آٹھواں عجوبہ وہ ہے

جو ہر روز پیدا ہوتا ہے

مگر کبھی مر نہیں پاتا

ہمارے دلوں میں، ہمارے دماغوں میں

یہ عجوبہ ہے

انسان کا خواب دیکھنے کی طاقت

جو وقت کی گردش کو روکنے کا ہنر رکھتا ہے

جو وقت کے دھارے میں

اپنے لیے راستے بنا لیتا ہے

یہ عجوبہ ہے

ہماری بے چینی، ہماری تڑپ

جو ہمیں وہ کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے

جو ناممکن لگتا ہے

یہ عجوبہ ہے

ہمارے اندر کا وہ شور

جو خاموشی کو توڑ دیتا ہے

اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیتا ہے

آٹھواں عجوبہ

نہ دیواروں میں قید ہے، نہ ستونوں میں

یہ تو ہمارے اندر ہے

ہمارے خوابوں میں، ہماری خواہشوں میں

یہ عجوبہ وہ ہے

جو ہمیں خود سے بڑا بناتا ہے

جو ہمیں ناممکن کو ممکن کرنے کی ہمت دیتا ہے

اور شاید

یہی اصل عجوبہ ہے

جس نے سات عجوبے تخلیق کیے ہیں

انعکاس

آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر

اپنا چہرہ دیکھتا ہوں

وہی آنکھیں، وہی ناک، وہی ہونٹ

لیکن کچھ اور بھی ہے

ایک گہرا عکس

جو صرف میری ظاہری شکل نہیں،

میرے اندر کے حال کو بھی ظاہر کرتا ہے

یہ عکس

صرف ایک شبیہہ نہیں

یہ میرے خیالات کا، میری یادوں کا

میرے خوف اور خوابوں کا عکس ہے

جس میں چھپے ہیں وہ راز

جو میں خود سے بھی چھپانے کی کوشش کرتا ہوں

انعکاس

صرف روشنی کی بازی نہیں

یہ تو میری زندگی کی کہانی ہے

جو ہر بار مختلف لگتی ہے

کبھی روشن، کبھی دھندلی

کبھی مکمل، کبھی ادھوری

آئینہ ہمیشہ سچ بولتا ہے

مگر کبھی کبھی

میں اس سچ کو دیکھنا نہیں چاہتا

جو میرے دل کی گہرائیوں میں چھپا ہوتا ہے

آئینہ تو بس انعکاس کرتا ہے

لیکن

کیا میں اپنے اندر کے عکس کو سمجھ سکتا ہوں؟

یا یہ عکس ہمیشہ دھندلا ہی رہے گا؟

راہبہ

خاموشی میں لپٹی ہوئی

ایک تنہا وجود

چادر میں چھپی، سر جھکائے

راہبہ اپنے اندر کی دنیا میں سفر کرتی ہے

کلیسا کی دیواروں کے اندر

وہ ایک خاموش دعا ہے

ایک بے آواز فریاد

دنیا سے دور، خواہشوں سے ماورا

راہبہ کی زندگی

ایک راستہ ہے

جو ہمیشہ اندر کی طرف جاتا ہے

جہاں کوئی شور نہیں

کوئی ہنگامہ نہیں

صرف دل کی دھڑکن

اور روح کی صدائیں

اس کے قدموں کی چاپ

چپکے سے عبادت کی گلیوں میں گونجتی ہے

وقت جیسے تھم سا جاتا ہے

اور وہ

سکون کی تلاش میں

اپنی ذات کی گہرائیوں میں ڈوب جاتی ہے

راہبہ

اپنے آپ کو دنیا سے کاٹ کر

ایک بلند مقصد سے جوڑ لیتی ہے

مگر اس کا دل بھی

کبھی کبھی دھڑکتا ہے

کسی انجانی چاہت کے لیے

کسی نامعلوم خواب کے لیے

جو شاید کبھی پورا نہ ہو

لیکن وہ جانتی ہے

کہ اس کی زندگی

قربانی ہے

اور اس قربانی میں

اسے وہ آزادی ملتی ہے

جو دنیا کی ہر قید سے بلند ہے

راہبہ

اپنے اندر کے سکون کی مجسم تصویر ہے

جو ہر چیز کو خاموشی سے قبول کرتی ہے

اور پھر

اسے خدا کے قدموں میں رکھ دیتی ہے۔

حجروں کی کہانی

قدیم دیواروں کے اندر

گہرے سناٹے میں لپٹے حجرے

جہاں وقت ٹھہر سا گیا ہے

یہاں زندگی کی ہلچل نہیں

صرف سانسوں کی مدھم آواز

اور سوچوں کا سمندر

حجروں کی دنیا

ایک الگ کائنات ہے

جہاں خواب اور حقیقت آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں

یہ حجرے

کہانیاں سناتے ہیں

ان لوگوں کی

جنہوں نے خود کو یہاں قید کیا

نہ زنجیروں میں جکڑے گئے

نہ کسی کے حکم سے بند ہوئے

یہ اپنی مرضی کی قید تھی

ایک خاموش بغاوت

دنیا کے شور سے،

خواہشوں کی جنگ سے

ایک ایسی قید

جو دراصل آزادی تھی

حجروں کی کہانی

خوابوں کی نہیں

بلکہ جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے حقائق کی ہے

یہاں ایک کتاب پڑی ہے

جس کے صفحے وقت کی گرد میں چھپے ہیں

یہاں ایک چراغ جلتا ہے

جو روشنی سے زیادہ سایے دیتا ہے

ان حجروں میں

خاموشیاں بولتی ہیں

اور تنہائیاں مسکراتی ہیں

یہاں ہر دیوار

ایک راز چھپائے ہوئے ہے

ہر دروازہ

ایک نئی دنیا کی دہلیز پر لے جاتا ہے

لیکن وہ دنیا باہر کی نہیں

اندر کی ہے

حجرے

صرف اینٹ اور پتھر کا نام نہیں

یہ تو وہ مقام ہیں

جہاں انسان خود سے ملتا ہے

اپنے اندر کے سچ کو دیکھتا ہے

اور شاید

اس سچائی کو پا لیتا ہے

جو دنیا کی ہلچل میں کھو گئی تھی۔

دریائے گنگا جمنا: ایک سفرِ خاموش

گنگا اور جمنا

دو بہنیں

جن کی داستان صدیوں پر محیط ہے

یہ دریا نہیں

تاریخ کی گود میں لیٹے ہوئے گواہ ہیں

دونوں کناروں پر پھیلے ہوئے قصے

انسان کی اڑان

اس کے زوال اور اس کی امیدوں کا عکس ہیں

گنگا مقدس اور پرسکون

جیسے کسی ماں کی آغوش میں سونا

وہ اپنے راستے میں آنے والے ہر چہرے کو سکون اور محبت سے دھوتی ہے

اس کے کنارے دعائیں

چرنوں کی چھاپ اور دیپک کی لو

سب مل کر ایک سرگم باندھ دیتے ہیں

وہ انجان مسافروں کو بھی وہی محبت دیتی ہے

جو برسوں سے اس کے دامن میں بیٹھنے والوں کو ملی ہے

جمنا قدرے شوخ

بہتی ہوئی نوجوانی کی طرح

اس کا پانی ایک عجیب سی تڑپ لیے ہوتا ہے

جیسے اسے کہیں پہنچنا ہو

کسی گمشدہ خواب کی تلاش میں

وہ اپنے راستے میں موجود ہر رکاوٹ کو جیسے ہنس کر پار کرتی ہے

خود سے باتیں کرتی ہے

اور اپنے کناروں کو نئی کہانیاں سناتی ہے

گنگا اور جمنا کا ملنا

ایک ایسا لمحہ ہے جب دو دنیائیں آپس میں ملتی ہیں

دونوں کا بہاؤ ایک دوسرے میں ضم ہوتا ہے

جیسے دو مختلف شخصیات کی روحیں آپس میں گھل مل گئی ہوں

گنگا کی محبت اور جمنا کی جوش

دونوں مل کر ایک نئی ہستی کو جنم دیتی ہیں

یہ ملاپ صرف پانی کا نہیں

بلکہ روحوں کا ہے

وہ روحیں جو ابدیت کے سفر پر روانہ ہوتی ہیں

کنارے کے پتھر

مٹی

اور درخت

خاموشی سے دیکھتے ہیں

وہ جانتے ہیں کہ یہ سفر رکتا نہیں

یہ پانی ہمیشہ بہتا رہے گا

کبھی سکون سے

کبھی جوش میں

مگر ہمیشہ آگے کی جانب

گنگا اور جمنا

تاریخ کی دو دھاریں

جن کا سفر جاری ہے

اور شاید ہمیشہ جاری رہے گا

دریائے راوی

راوی وہ دریا ہے

جس کی گہرائی میں صدیوں کی کہانیاں پوشیدہ ہیں

یہ شہر لاہور کے ساتھ جڑی ہوئی روح ہے

کبھی جوش و ولولے سے بھرا یہ دریا

آج وقت کی چپ کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ہے

ایک وقت تھا جب اس کے کنارے محبت کے قصے پروان چڑھتے تھے

جہاں کچے گھروں کی روشنی اور مٹی کی خوشبو آپس میں گُھل جاتی تھی

اب کناروں پر پتھروں کی چپ لگی ہے

پانی کی وہ آواز جو کبھی دلوں کو سکون بخشتی تھی

اب مشینی شور میں کہیں دب سی گئی ہے

اور راوی کے پانی میں وہ چمک

جو کبھی آسمان کا عکس ہوا کرتی تھی

اب دھندلا سا منظر بن چکی ہے

لیکن یہ دریا اب بھی زندہ ہے

شاید تھکا ہوا

شاید زخمی

لیکن زندہ

اس کے اندر وہی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں

جو ہوا کے جھونکے کے ساتھ سنائی دیتی ہیں

چائے خانہ

چائے خانہ ایک چھوٹا سا عالم ہے

جہاں زندگی کی تیز رفتاری تھم جاتی ہے

دھوئیں کے مرغولے، چائے کی مہک

اور دوستوں کی ہنسی

سب مل کر ایک خوشگوار محفل بناتے ہیں

کبھی ایک پیالی چائے کے گرد بیٹھ کر

آنسوؤں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں

کبھی خوابوں کی تعبیر پر بات ہوتی ہے

یہاں ہر چہرے پر ایک سکون ہے

دھوپ کی کرنیں جب چائے کی پیالی میں

رقص کرتی ہیں تو دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے

چائے خانہ صرف ایک جگہ نہیں

یہ خوابوں کا ایک جزیرہ ہے

جہاں لمحے رکتے ہیں

چائے کی چسکی کے ساتھ

زندگی کی تلخیوں کو بھلایا جاتا ہے

یہاں ہر کوئی اپنی کہانی کا ہیرو ہے

اور چائے ایک دل کا دوست

جو درد کو کم کرتا ہے

اور خوشیوں کو بڑھاتا ہے

چائے خانہ کی زندگی میں

محبت اور دوستی کی چاشنی ہے

یہاں ہر پیالی میں ایک امید ہے

کہ کل کا دن بہتر ہوگا

اور چائے کی مہک

ہمیشہ دل کو بہلائے گی

بھیڑیے

یہ بھیڑیے رات کی خاموشی میں چپکے چپکے چلتے ہیں

ان کی آنکھوں میں جنگل کی چمک، اور دل میں بھوکے پن کی سچائی ہوتی ہے

یہ اپنے شکار کے پیچھے گزرے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہیں

ان کی موجودگی میں ہوا بھی سہم جاتی ہے۔

دور تک پھیلا ہوا اندھیرا

صرف بھیڑیوں کی بھوک کو نہیں چھپاتا

بلکہ انسان کی کمزوریوں کو بھی نمایاں کرتا ہے

یہ بھوکے ہوتے ہیں نہ صرف جسم کے لئے

بلکہ روح کی تاریکی کو چیرنے کے لئے

یہ بھیڑیے، ایک دوسرے کے ساتھ

محنت کی طاقت کے ساتھ

گھر بنانے کی کوشش کرتے ہیں

ایک جماعت، ایک عزم

پھر بھی، ایک دوسرے کے لئے خطرہ

کہانی میں بھیڑیے

ایک ہی وقت میں

خوف اور وفاداری کی علامت ہیں

وہ بھاگتے ہیں اور پھر آتے ہیں

دنیا کے اس اندھیروں میں

مگر کیا ہم بھی نہیں

کیا ہم بھی اس جنگل کا حصہ نہیں ہیں

جہاں خوف، خواہش، اور بقاء کی جنگ چلتی ہے

جہاں بھیڑیے صرف جنگل کے نہیں

ہمارے اندر بھی رہتے ہیں

تموچن

تموچن ایک نام جو زمین کی تاریخ میں گونجتا ہے

چنگیز خان جس کی کہانیوں میں طاقت اور وحشت کا سنگم ہے

گھڑ سواروں کی تیز رفتاری

تلواروں کی چمک اور جنگلوں میں گونجتی دھمک

یہ سب اس کی میراث ہیں

ایک نوجوان کی صورت میں

چاند کی چمک کے نیچے

تموچن نے اپنی زندگی کی پہلی قید کی

نئے عزم کی دھندلی سی تصویر بنائی

وہ جیت کے لئے جنگ لڑتا رہا

دوستی اور دشمنی کی لکیریں مٹاتا ہوا

ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھتا ہوا

اس کی بصیرت نے اسے عظیم بنایا

اس کی حکمت نے اسے طاقتور

لیکن ساتھ ہی

اس کے دل میں چھپی ہوئی تشنگی بھی تھی

ایک ایسا خالی پن جو فتحوں سے بھی بھرا نہیں ہوتا

چنگیز خان کی فتح کی راہوں میں

انسانیت کے مختلف رنگ

عزت و ذلت محبت و نفرت

سب کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں

ہر قدم پر وہ دشمنوں کا سامنا کرتا

اور اپنے قبیلے کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دیتا

لیکن آخر میں

تموچن چنگیز خان

ایک انسان ہے

جو خود کو تاریخ کے ستم کا شکار پایا

اس کی طاقت اس کی عظمت

اس کے اندر کی کمزوریوں کے سایے میں چھپی ہوئی ہے

اس کا نام ایک عہد کی داستان ہے

ایک ایسی کہانی جو آج بھی زندہ ہے

جہاں بھیڑیوں کی مانند وہ ہر دل میں بسا ہوا ہے

آزادی طاقت اور زندگی کی جستجو میں

یزید

یزید ایک نام جو تاریخ کے صفحات پر بکھرا ہوا ہے

ایک بادشاہ، ایک حکمران

مگر اس کی کہانی میں جیت اور شکست کا ملاپ ہے

جو بھی اس کے قریب آیا

اس کے ساتھ ایک سوال آیا

کیا یہ حقیقت ہے یا افسانہ

وہی یزید، جس کی زندگی نے

خاندان کی روایات اور سیاسی کھیل کا سامنا کیا

خون کی بوندوں سے رنگی ہوئی تاریخ

ایک ٹوٹے ہوئے وعدے کی مانند

جس کی قیمت بے شمار جانوں کی صورت میں چکائی گئی

عاشورہ کی رات

آنسوؤں کی بارش

کربلا کا میدان

جہاں یزید کی فوج نے حق کی آواز کو خاموش کر دیا

یہ ایک لمحہ تھا جب دھرتی نے خون سے اپنی گود بھر لی

اور آسمان نے خاموش تماشائی بن کر دیکھا

اس کے حکمرانی کی داستان میں

عیش و عشرت کی جھلک

مگر اس کے دل میں ایک کھنچاؤ

کیا یہ سب کچھ اس کے لئے کافی تھا؟

کیا طاقت کی یہ چمک اس کے اندر کی تاریکی کو مٹا سکی

یزید، ایک انسان کی کہانی

جو اپنی کامیابیوں کے باوجود

خود کو تسلی نہیں دے سکا

آج بھی اس کا نام ایک سوال ہے

کیا وہ صرف ایک بادشاہ تھا

یا تاریخ کا ایک کردار جس نے انسانیت کی روح کو چھیڑا

یہی یزید

ایک عہد کی گواہی

جہاں حق و باطل کی جنگ نے

آج بھی دلوں میں بیداری پیدا کی ہے

کہ یزید کے نام کے ساتھ

ہمیشہ ایک یادگار سبق جڑا رہے گا

ڈاکٹر ذاکر نائیک

ڈاکٹر ذاکر نائیک علم کا ایک روشن ستارہ

جس نے حق اور باطل کے درمیان ایک پل بنایا

منطق اور دلیل کی روشنی میں

اسلام کی خوبصورتی کو پیش کیا

ایک پلیٹ فارم پر

جہاں سوالات کے طوفان آئے

آپ نے ہر جواب کو سنجیدگی سے لیا

دین کی سچائی کو عزم کے ساتھ بیان کیا

نظریاتی اختلافات کے درمیان

آپ نے محبت اور علم کا پیغام دیا

خطاب کی مہارت اور دلائل کی طاقت

آپ کے الفاظ میں ایک خاص جادو ہے

ہر سوال کا جواب ہر تردید کا سامنا

آج بھی لاکھوں دلوں میں آپ کی باتیں زندہ ہیں

مگر ہر سچائی کے ساتھ ایک چیلنج ہے

آپ کی زندگی میں بھی خنجر کی طرح موجود

تنقیدوں کی بارش اور الزامات کی تلواریں

پھر بھی آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا

ڈاکٹر ذاکر نائیک

ایک سچائی کا علمبردار

جس نے دنیا کو بتایا کہ

اسلام امن اور علم کا پیغام ہے

آپ کی کوششیں ایک مشعل راہ ہیں

ان لوگوں کے لئے جو سچائی کی تلاش میں ہیں

آج بھی آپ کی آواز

دنیا کے کونے کونے میں گونجتی ہے

علم کی روشنی بکھیرتی

محبت اور امن کا پیغام سناتی ہے

یہی ہے آپ کا پیغام

جو دلوں کو جوڑتا اور سمجھتا ہے

کہ سچائی ہمیشہ جیتتی ہے

اور علم کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا

مرتا ہوا بچہ اور گدھ

ایک بے آب و گیاہ ویران صحرا

جہاں زمین سوکھ چکی ہے اور ہوا میں اداسی چھائی ہے

یہاں ایک بچہ، تھکا ہوا، کمزور،

بھوک اور پیاس سے نڈھال زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے

اس کی آنکھوں میں امید کا چراغ مدھم پڑ رہا ہے

چہرے کی رنگت زرد جسم چٹیل زمین پر بکھرا ہوا

کبھی وہ دور افق کی طرف دیکھتا ہے

شاید کسی مسیحا کی تلاش میں

پر سناٹا ہی سناٹا ہے کوئی جواب نہیں

کچھ فاصلے پر گدھ منڈلا رہے ہیں

ان کی آنکھوں میں چمک

نئی زندگی کی تلاش میں نہیں

بلکہ ایک بوجھ کو بھنبھوڑنے کے انتظار میں

یہ گدھ زندگی کے ستم کا نشانہ بنے ہوئے

ایک کمزور جسم کی مہک کے منتظر

یہ منظر انسانی درد کی ایک تصویر ہے

جہاں زندگی کی آخری کرن بھی چپ ہو گئی

کیا انسانیت نے اس بچہ کو بھلا دیا؟

کیا ہم سب اپنی آنکھیں بند کر کے

اس درد کو دیکھنے سے گریز کر رہے ہیں؟

یہ صحرا صرف ایک جغرافیائی حقیقت نہیں

بلکہ وہ تصویر ہے جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے

جہاں بھوک غربت اور بے حسی کی کہانیاں چلتی ہیں

یہ بچہ اس کی آہیں

ہمیں جگانے کی ایک کوشش ہیں

کہ ہماری دنیا میں

کیا ہم اپنے ہمسایے کی درد کو محسوس کرتے ہیں؟

گدھوں کی موجودگی

ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ

زندگی کی قیمت صرف جسم کے ہونے میں نہیں

بلکہ انسانیت کے احساس میں ہے

آؤ، اس درد کو سمجھیں

آؤ، ایک نئی شروعات کریں

کہ ہم سب مل کر

زندگی کے اس صحرا کو سرسبز بنائیں

بازارِ حسن

شہر کے ایک کنارے پر

جہاں زندگی اپنے ہی دھندلکوں میں لپٹی ہے

ایک بازار آباد ہے

یہ بازار

جہاں خواہشیں اور خواب بکتے ہیں

جہاں دلوں کی دھڑکنیں داموں میں تولی جاتی ہیں

بازارِ حسن کہلاتا ہے

یہاں جسموں کی روشنی میں ایک ایسا اندھیرا چھپا ہوا ہے

جسے دنیا کی چمک کبھی محسوس نہیں کر سکتی

دروازے بند ہیں

لیکن نظریں کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں

کچھ خریدنے والے

کچھ بیچنے والے

اور کچھ وہ

جو تماشا دیکھنے آئے ہیں

ان چہروں پر رنگ ہیں

مگر دلوں میں سنّاٹا

خواہشوں کے رقص میں بے بسی کا ساز بجاتے ہیں

حسن یہاں صرف ایک سامان ہے

ایک ایسی شے جو بکتی ہے

پگھلتی ہے

اور پھر سے سانچے میں ڈھلتی ہے

ہر شام ایک نیا چہرہ

ہر رات ایک نئی کہانی

مگر ان کہانیوں میں ایک گمشدہ درد چھپا ہے

ایک ایسا دکھ

جو کبھی لفظوں میں بیان نہیں ہو پاتا

بازار کے شور میں

ہنسی کی آوازیں

گفتگو کے قہقہے

اور جذبات کی بیوپار میں وہ خاموشیاں ہیں

جو چیخ چیخ کر سوال کرتی ہیں

کیا یہاں کوئی محبت ہے

یا یہ سب فقط ایک سودا ہے

کیا وہ چمکتے بدن

وہ مسکراتے لب

سچ بولتے ہیں

یا یہ سب محض ایک کھیل ہے

یہاں ہر شے کی قیمت ہے

لیکن وہ قیمت کیا ہے

ایک رات

ایک لمحہ

یا پوری زندگی

بازارِ حسن میں

جہاں ہر دروازہ ایک نئی کہانی کو جنم دیتا ہے

وہاں سب کچھ بکتا ہے

مگر شاید سب کچھ لٹتا بھی ہے

میرے لئے تم کون ہو

تم ہو جیسے بارش کی پہلی بوند جو زمین کو مہکا دیتی ہے

جیسے ہوا کا وہ جھونکا جو تھکے ہوئے بدن کو راحت بخشتا ہے

تم ہو جیسے وہ خاموشی جو شور میں بھی سنائی دیتی ہے

جیسے اندھیرے میں جلتا ہوا ایک چراغ جو دل کو تسلی دیتا ہے

تم وہ ہنسی ہو جو غم کے بیچ اچانک لبوں پر آ جاتی ہے

تم وہ یاد ہو جو کبھی نہیں بھولتی جیسے صبح کی پہلی کرن

تم ہو جیسے سمندر کی گہرائی جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے

جیسے خوابوں کا وہ جہاں جس میں سب کچھ ممکن ہے

تم ہو میرے خیالوں کی روشنی میرے لفظوں کی خاموشی

تم ہو جیسے ایک داستان جو کبھی ختم نہیں ہوتی

میرے لئے تم ہو زندگی کی وہ لَے جو ہمیشہ دھڑکتی رہتی ہے

تم ہو اور شاید تمہاری یہ موجودگی ہی کافی ہے

٭٭٭

شاعر کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے اس کی فائل مہیا کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ایک لفظ بھی لکھنے کی سکت نہیں

دل کی آواز کہیں گم ہو چکی ہے،

الفاظ کی روشنی دھندلا گئی ہے

میرا قلم، جو کبھی رنگوں سے لبریز تھا،

اب اُس کی یادوں میں جذب ہو چکا ہے

میرے کاغذ پر اب بھی

اُداسی کے وہی بے رنگ قطرے بکھرے ہیں،

مگر ان قطروں سے

کوئی لفظ تشکیل نہیں پاتا

پانی پت کی جنگ

پانی پت کی دھرتی پر

خون کی بو بسی ہوئی تھی

تلواروں کی چمک

نیزوں کی چبھن

اور گولوں کی گرج میں

ایک عہد کا سنگین امتحان جاری تھا

میدان میں مٹی کی سانسیں رکی ہوئی تھیں

جہاں ہتھیاروں کا شور

موت کا نقارہ بجاتا تھا

شہسواروں کے قدم

جیسے وقت کی دھڑکن روکنے کی کوشش میں تھے

ہوا میں جنگ کی چیخیں گونجتی تھیں

اور زمین پر انسانیت کا خون بکھرا پڑا تھا

دور آسمان پر

بادلوں کی اوٹ میں

ایک سناٹا چھپا تھا

جیسے قدرت بھی

اس معرکے کے فیصلے کی منتظر تھی

پانی پت کی تاریخ میں

شہادتیں رقم ہو رہی تھیں

خواب ٹوٹتے جا رہے تھے

اور دلوں کے ارمان

دھواں بن کر فضا میں تحلیل ہو رہے تھے

لیکن اس میدان میں

صرف ایک جنگ نہیں لڑی گئی تھی

یہ اقتدار کی جنگ تھی

قوموں کے نصیب کی جنگ تھی

خون سے لکھی گئی تقدیر کا

ایک اور باب تھا

وہ مقام جہاں

انسان کی عظمت بھی دفن ہوئی

اور غرور بھی خاک ہوا

مگر، پانی پت کی جنگ

صرف زمین پر نہیں

انسانی دلوں میں بھی لڑی گئی تھی

جہاں امید اور خوف

ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے

اور ہر دل

اپنے وجود کا بوجھ

وقت کی لکیروں پر محسوس کر رہا تھا

پانی پت کی مٹی

اب بھی وہ کہانیاں سناتی ہے

جہاں خون سے لال میدان

انسان کے خوابوں کا مدفن بن گیا تھا

اور وہ جنگ

ہمیشہ کے لیے تاریخ کی گہرائیوں میں

کھو گئی تھی

جنگ

دل کی دھڑکنوں کی زبان

جنگ کا فسانہ ہے

رنگوں کی دنیا میں

خوابوں کا پیغام ہے

دشمن کی نظر میں بھی

امن کی روشنی ہے

جنگ کی راہوں میں

امیدوں کی کہانی ہے

مٹی کی خوشبو

خوابوں کا کارواں ہے

ہر دل کی دھڑکن

امن کی گواہی ہے

لڑتے ہوئے بھی

امن کی طلب ہے

رنگوں کی دنیا میں

امیدوں کی جنگ ہے

دلوں کی دھڑکنوں میں

امن کا پیغام ہے

کسی کے بھی دل میں

جنگ کی کوئی جگہ نہیں

امن کی جھنکار

ہر دل کا افتخار ہے

خوشی

خوشی وہ حالت ہے جو آپ کو اندر سے خوش کر دیتی ہے

یہ وہ محسوس کرنے کی صلاحیت ہے

جو آپ کو ایک خوبصورت جھیل میں سمندر کا آرام دیتی ہے

خوشی سے معنی ہمیشہ ہمیشہ کی خوشی ہوتی ہے

جو زندگی کے رنگوں کو چمکاتی ہے

اس کے بغیر زندگی  کچھ خالی لگتی ہے جیسے ایک پرانی پتھریلی راہ بغیر رنگ و بو کی

خوشی وہ حالت ہے جو آپ کو دل کی سکون اور خوشی فراہم کرتی ہے

یہ وہ حالت ہے جب آپ کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے

اور آپ کو احساس ہوتا ہے

کہ زندگی کی ہر لمحہ قیمتی ہے

خوشی آپ کی زندگی کو رنگین بناتی ہے

اور آپ کو امید اور توقعات کے سمندر کی طرف کھینچتی ہے

خوشی زندگی کی ایک بہت قیمتی روحانیت ہے

جو ہمیں مثبت احساسات اور امیدوں کی راہ دکھاتی ہے

یہ وہ روشنی ہے جو تاریک راہوں کو روشن کرتی ہے

اور ہمیں مقبولیت کی جانب لے جاتی ہے خوشی ہمیں نہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کی روشنی میں بندھتی ہے

اور ہمیں دوسروں کی خوشی کا حصہ بناتی ہے

ماں کی تربت

سہ پہر کے وقت میں اپنی ماں کی  تربت پہ پہنچا

اداس و تنہا بے شمار قبروں کے درمیاں

وہ آخری آرام گاہ جس کے اندر

ماں سو رہی تھی

بہت دیر عالمِ وجد میں چوکڑی مار کر بیٹھا رہا

پرندے چہکتے رہے بھونرے گاتے رہے

سورۂ رحمان بہت دور کوئی پڑھتا رہا

چشمِ تصور میں دیکھا تھا ماں کو

جنت کے باغوں میں چلتے ہوئے

اور سینے سے مجھ کو لگاتے ہوئے

میں چپ چاپ گردن جھکائے

لحد کے سرہانے بیٹھا رہا

نجانے کتنے زمانے ہوئے

وقت پانی کی مانند بہتا رہا

میں گردن جھکائے بیٹھا رہا

تڑپتا رہا اور سسکتا رہا

کہ اچانک مجھے ایسے لگا

کہ میرا بدن سنگِ مر مر کی تربت میں ڈھلنے لگا ہے

مجھ کو جھٹکا لگا میں نے خود کو چھوا

میرا سارا بدن مقابر کی مانند

جلوہ فگن تھا

خزاں کی راتیں

خزاں کی راتوں میں، سنگھار شہزادیاں جاگتی ہیں

پتوں کی بوندوں کا، رقص میدانوں میں ہوتا ہے

درختوں کی پیشروئی، خزاں کی داستان کہتی ہے

سبزیوں کا رنگین باغ، دل کو چین اور سکون دیتا ہے

پتوں کی ہوا میں، خزاں کی آہٹ گونجتی ہے

سنگھار باغات میں، خوابوں کی جنگلی راتیں گزرتی ہیں

خزاں کی پیکر بازی، زمین کو رنگین بناتی ہے۔

درختوں کی پتیوں کی گرگراہٹ، خزاں کی داستان سناتی ہے

خزاں کی برفوں میں، خوابوں کی جاگراں کہانیاں ہوتی ہیں

پتوں کی روشنی میں، دل کی خوابوں کی دنیا بس جاتی ہے

سرما کی ہوا میں، خزاں کی بو محسوس ہوتی ہے

سنگھار باغات میں، خوابوں کی دنیا کی تصاویر دیکھی جاتی ہیں

پتوں کی برقی روشنی، خزاں کی کہانی سناتی ہے

درختوں کی گراہٹ میں، خزاں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے

سیلابوں کی راتوں میں

بہار آئی، گلابوں کی بہار لائی

سبزیوں کی جادوئی ہواوں نے دل بہکایا

پھولوں کی مسکراہٹ، باغات میں نغمہ گوئی

خوابوں کی دنیا میں، چمکتی راتیں آئیں

زمین کی آہٹ، آسمان کی بہار گلیاں

فصلوں کی رگوں میں، جاگتی ہوئی زندگی

سرمئی آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے،

پہاڑوں کی چٹانوں سے بہتا ہوا پانی

سمندر کی لہریں، ساحل کی چھائیں

دھڑکتے ہیں دل، یہ زندگی کا کارواں

گلابوں کی خوشبو، گھاس کی ہریالی

زندگانی، محبت کی جہانبانی

رات کا سانس، صبح کی بوسیدہ خوشبو

محبت کی راہیں، اخوت کی باتیں

خوابوں کا مینار، امیدوں کی منزل

یہ دنیا، یہ زندگی، یہ خوابوں کا سفر

سیلابوں کی راتوں میں بہنے لگا

بہاؤ

بہار آئی، گلابوں کی بہار لائی

سبزیوں کی جادوئی ہواؤں نے دل بہکایا

پھولوں کی مسکراہٹ، باغات میں نغمہ گوئی

خوابوں کی دنیا میں، چمکتی راتیں آئیں

زمین کی آہٹ، آسمان کی بہار گلیاں

فصلوں کی رگوں میں، جاگتی ہوئی زندگی

سرمئی آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے،

پہاڑوں کی چٹانوں سے بہتا ہوا پانی

سمندر کی لہریں، ساحل کی چھائیں

دھڑکتے ہیں دل، یہ زندگی کا کارواں

گلابوں کی خوشبو، گھاس کی ہریالی

زندگانی، محبت کی جہانبانی

رات کا سانس، صبح کی بوسیدہ خوشبو

محبت کی راہیں، اخوت کی باتیں

خوابوں کا مینار، امیدوں کی منزل

یہ دنیا، یہ زندگی، یہ خوابوں کا سفر

سیلابوں کی راتوں میں بہنے لگا

باپ کی قبر

باپ کی قبر میری پہنچ سے دور ہے

میں شہر کے قبرستان میں ہوں اور

میرا باپ گاؤں کے قبرستان میں دفن ہے

وہ دو یزار سات میں مرا تب سے

چند بار اس سے ملنے گیا

اس کی قبر پر عجب رکت طاری ہوتی ہے

دل زور سے دھڑکتا ہے اور آنکھوں سے

آنسو امڈتے ہیں

فاتحہ پڑھتا ہوں تو ماضی کا دریچہ کھلتا ہے

اس کا درود پڑھتا ہوا غمزدہ چہرہ عجب حسرت کی کہانی سناتا ہے افلاس کے دن

بچوں کے غم زدہ چہرے مگر انا کا سبق

احساسِ کہتری سے جنگ دو بدو لڑائی

احساسِ برتری کا پہناتا ہوا زیور

اپنی دھج میں مسکراتا  لڑکھڑاتا

نظر آتا ہے مرحبا

میں اس کی قبر پہ روز جا نہیں سکتا

گاؤں دور ہے شہر سے میرے

مگر میرا یہ جسم بن گیا ہے

اس کی تربت کا نشاں

اب کوئی دوری ہے نہ مجبوری ہے درمیاں

فرعونِ مصر

فرعونِ مصر کی حکومت کی بنیاد

اس زمین کے دلتا سے

نیل ندی کے ساتھ جڑی تھی

جس کا سیلاب اور اس کی زمین پر لہریں

زراعت کو دوام بخشتے تھے

زراعتی کارکنوں کی مہارت اور محنت سے

معیشت مضبوط تھی

عام تھی تعلیم کی نعمت

لوگ پڑھتے تھے ریاضی اور باقی فنون

روحانیت کے موضوعات بھی

اور مومیائی کی رسمیں عام تھیں

میں نے تمثال کے عالم میں فرعونوں کے

طور و اطوار و مقابر کو

روزِ روشن کی طرح دیکھا ہے

ورثے

رنگین دنیا کی باتیں گزری ہوئی یادیں

پرانے دنوں کی خوشبو میں بسی ہوئی راہیں

گزرا وقت بیتی ہوئی باتوں کا حسین خواب

یادوں کی گلیوں میں خوابوں کا گچھا

دور کی روشنی میں انجان راہوں کا سفر

خوابوں کی دنیا میں بسا ہوا ایک احساس

پل پل کی باتیں بیتی ہوئی یادیں

ماضی کی تصویریں دل میں بسی روشنیوں کا طلسم

سنگیت کی بوندوں میں وقت کی دھوپ میں چھپی یادیں

منزلوں کی راہوں میں دل کی دھڑکنوں کی آوازیں

گمشدہ خوابوں کی تلاش بیتی ہوئی راتوں کا سفر

ماضی کی داستانیں دل کی دھڑکنوں کی دھاپ

بیتی ہوئی راتوں کا سفر خوابوں کی دنیا میں

بسا ہوا ایک احساس گزری ہوئی زندگی کی باتیں

بسی ہوئی یادیں ماضی کی تصویریں

دل کی دھڑکنوں کی روشنی میں جگمگاہٹ

دور کی روشنی میں چمکتی یادیں

ماضی کے جھروکے بیش قیمت ورثے

آبشار

دریا کی بہاروں میں آوازوں کا رقص

پتھر کی چٹانوں سے زندگی کی داستان

سمندر کی آوازوں میں خوابوں کی روشنی

آسمان کی بلندیوں سے امیدوں کی پرواز

یہاں آتے ہیں انسان، اپنے خوابوں کے ساتھ

آبشار کی روانی میں پر امیدوں کا سفر

بلاز بہار کی تپش آبشار کی آواز

سرمایۂ زندگی پرانے روزوں کی یادوں کی داستان

پتھر کی چٹانوں سے  امیدوں کی روشنی

آسمان کی بلندیوں سے نئے خوابوں کا سفر

یہاں جوش و خروش آزادی کی پکار

آبشار کی روانی میں زندگی کی لہریں بکھریں

دریا کی گونج آسمان کی بلندیاں

آبشار کی زور و شور، جیون کی روشنی میں بدل جاتے ہیں

چمکتی ہوئی آنکھوں میں خوابوں کی طلب

آبشار کی لہریں زندگی کی بہاروں کا پیغام

یہاں سنگ و سنگ خوابوں کی پرواز

آبشار کی روشنی میں امیدوں کی تلا

تنہائی

تنہائی کی گہرائیوں میں چھپی بے قراریاں

راتوں کی سنگین خاموشیاں

چاندنی کی روشنی میں ادھوری خوابیں

سکون کی تلاش میں ہمیشہ

دل کو چھوئے بغیر

کہانیوں کی تلاش میں نگاہیں تھکیں

تنہائی کی سنگینی میں چھپی دعا

خدا کو پکارتی ہے

سنگینی سے بچنے کی دعا

انتظار کی لمبی راتوں میں

دل کی دھڑکن کی ترانہ

خوابوں کی دنیا میں گم رہنا

تنہائی کی گہرائیوں میں

زندگی کی حقیقتوں کو جاننا

خود سے محبت کی راہ میں بڑھنا

تنہائی کی گہرائیوں میں

روشنی کی تلاش میں

اندھیرے کی گود میں ڈوبتے رہنا

تنہائی کے سفر میں

خاموشی کے لبوں پر

خوابوں کی قسوت سمجھنا

تنہائی کی راتوں میں

ستاروں کی چمک میں

اپنے خوابوں کو جیونا

تنہائی کے اعماق میں،

خود کو پہچاننا

اپنی راہوں پر چلنا

تنہائی کی سکون بخش راتوں میں،

خود کے ساتھ بات کرنا

اپنی توجہ کو اپنی زندگی کے رازوں پر لگانا

شام کی خاموشی

شام کی خاموشی

ایک کہانی ہے بے زبانی کی

تاریک راتوں میں بستی ہے

کچھ خوابوں کی روشنی

چپکے چپکے گزرتی ہے

راتوں کے راز دار لمحات

جیسے کوئی چپکے سے

زندگی کی چھپی ہوئی بات بیان ہو

شام کی خاموشی

ایک راز کا پردہ ہے

چاندنی کی چمک

تاروں کی جھلک

اور ستاروں کا گلدستہ ہے

سنگین ہواؤں کا گداز

اور پرانی یادوں کی راتیں

شام کی خاموشی

ایک دل کی گہرائی کی سرگوشی ہے

شام کی خاموشی

ایک اداسی کی داستان ہے

جب دل کی باتوں کو

کہنے کا کوئی وقت نہیں

سکوت کی گود میں لپٹا

خاموشیوں کا سفر

جیون کی گہرائیوں میں چھپی

راز دار باتوں کی گہرائی ہے

پاتال

میں زرتشت ہوں

ایران کا قدیمی پیشوا

میرا تصرف تھا ہر طرف

حکم چلتا تھا میرا بحر و بر پر

ہوا چلتی تھی اور آگ جلتی تھی میرے نام پر

سر جھکاتی تھی خلقت میرے اگے

میں سکھاتا تھا علوم سب فنون سب

دولت علم اور روحانیت کا میں ہی تھا مرکز و محور

سب کائناتی قوتیں مجھ سے کرتی تھیں کلام

میں نے پانچ وقت کی  عبادات و مناجات

کا سکہ چلایا تھا

سب سے پہلے  دنیا کے صنم خانوں میں

میں نے توحید کی جلائی تھی شمع

عیسائیت یہودیت اور اسلام

میری تعلیم سے منور ہیں

آج میرے معبد  مقابر  اور  آتش کدے

ہو گئے ہیں زیر و زبر اور ٹھنڈے

آج بھی کچھ لوگ میرے ادھر ادھر ہیں معتقد

ایران کا میں  قدیمی پیشوا

گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوں

ہزاروں سال سے

کون نکالے گا مجھے پاتال سے

قلوپطرہ

چاندنی کی روشنی میں ہم بھٹکتے ہیں

بادلوں کی چادریں ہمیں چھپا لیتی ہیں

گلابوں کی خوشبو سے ہوا ہمیں چھو لیتی ہے

قلوپطرہ کی دنیا جادو کی دنیا ہے

ستاروں کی باتیں ہمارے دل کو سناتی ہیں

عشق کی داستان ہمیں خوابوں میں لبھاتی ہے

محبت کی گہرائیوں میں ہم بہتے ہیں

قلوپطرہ کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں

روشنی کی منزل کی طرف ہم راستہ بناتے ہیں

امیدوں کی راہوں پر ہم چلتے ہیں

خوابوں کی پرچھائیوں میں ہم خود کو پاتے ہیں

قلوپطرہ کی دنیا میں  ہم کھو سے جاتے ہیں

روشنی کی جھیل میں چمکتے ستارے ہمارے ساتھ رات کو باتیں کرتے ہیں

دل کی دھڑکنوں میں آنکھوں کی گہرائیوں کی سرگوشی ہمیں دلفریب محسوس ہوتی ہے

قلوپطرہ کے رازوں کا پتہ ہمیشہ کی طرح  سراب ہے

امیدوں کی پرچھائیوں میں ہم اپنے خوابوں کو زندہ رکھتے ہیں

قلوپطرہ کی دنیا میں،  محبت کی راہوں پر چلنے کا ہنر تعلیم ہوتا ہے

مگر ہم سب ہنر سیکھ کر بھی

قلوپطرہ کا دل نہیں جیت سکتے

وہاں عشقِ مسلسل کی ضرورت ہے

وہاں مسلسل دیکھنا ہے

اور ہم لگاتار ہمہ وقت کارِ مسلسل سے

ہار جاتے ہیں اور ہارے ہوئے لوگوں سے

قلوپطرہ اپنا جام چھین لیتی یے

جب جام چھنتا ہے تو زندگی کے سارے رس

پھیکے ہو  جاتے ہیں سارے رنگ مدھم پڑ جاتے ہیں

ہم بلیک اینڈ وائٹ زون میں چلے جاتے ہیں

اور کبھی واپس نہیں آتے

تاج محل

تاج محل شان اور عظمت کا نمائندہ

جس نے عشق کی قصہ گوئی کی

ایک شاہنشاہ کی عاشقانہ محبت کا نشان

سفرِ عشق کا پیغام، محبت کی بے پناہ قوت کا اظہار

محبت کی پیشگوئی کا سنگیت

عشق و محبت کی شہنشاہی

زمین و آسمان کو ملا کر رکھتی ہے

محبت کا یہ تاج ہمیشہ کی زندگی کا نشاں

محبت کی  عمارت

تاریخ کا ایک رومانیہ جو دلوں کو چھو جاتا ہے

پرانی داستانوں کی روشنی میں بہت روشن ہوئی

تاج محل اب بھی محبت کے قصوں کا امیں

عظیم معماری اور خوبصورت فن کا عجوبہ

جنون و جذبات کی داستان  سناتا ہے

تاج محل جیون کے ہر لمحہ کو عشق اور وفا کے ساتھ گزارنے کا نمونہ

جو دلوں کو مسکراہٹ اور خوشیوں کی طرف بولاتا ہے

تاج محل کا اثر دائمی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محبت ہمیشہ جیون کی عظیم توانائی ہے

زندگی نے جس سے جلا پائی ہے

سکندر اور پورس

دنیا کو فتح کرنے کا عزم لے کر

یونان سے نکلا لاؤ لشکر کے ساتھ

ایران پہنچ کر سکندر نے ہندوستانی راجوں مہاراجوں کو اطاعت کے پیغام بھیجے

کئی راجے مہاراجے  لڑ کر یا بن لڑے

ساتھ ملتے گئے سکندر کی فوج کے ساتھ

ٹیکسلا کے راجہ نے پورس کی دشمنی میں

سکندر کو بھاری کمک دی اپنے سپاہیوں کے ساتھ ساتھ

سکندر آگے بڑھتا رہا دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ

کئی راجے شکست کھاتے گئے ساتھ ملتے گئے کئی گھمسان کے رن پڑے

سکندر آگے بڑھتا رہا جیت کے خمار میں

جہلم کے مقام پر راجہ پورس نے مقابلے کی ٹھانی

سکندر پست قد جبکہ پورس تھا

طویل القامت جواں

اور ہاتھیوں کا لشکر الامان

دونوں سپہ سالار چلتے رہے چالیں

آخرش سکندر کے تیر اندازوں نے تاک کر

مارے ہاتھیوں کی آنکھوں میں تیر

ہاتھی روندے لگے اپنے ہی افواج کو

پورس کا ہاتھی بھی زخمی ہو گیا

لیکن اس کے باوجود وہ لڑتا رہا بے جگری کے ساتھ

بلآخر پورس پکڑ کر لایا گیا

سکندرِ اعظم کے سامنے

سکندر نے پورس سے کہا

کیا کروں سلوک تمہارے ساتھ میں

پورس بر جستگی سے بولا

"وہی سلوک جو بادشاہ بادشاہ سے کرتا ہے”

اس پر سکندر نے اللہ ٹپ

پورس کی بخش دی جان

اور جیتے ہوئے  اس کے سب علاقے

واپس کر کے  لوٹ گیا

امید کا باب

خواہشوں کی دنیا میں ہر خواب سجنا چاہیے

اُمیدوں کی اڑان میں اُڑنا چاہیے

رنگ بھری زندگی میں خوشیوں کو بانٹنا چاہیے چاہت کی دنیا میں ہر دل جیتنا چاہیے

چاندنی کی راہوں میں خوابوں کی باتیں ہوں

دل کی دھڑکنوں میں محبتوں کی چاندنی ہو

ہر سرگوشی میں عشق کی سرگوشی ہو

یہ خواہشوں کی دنیا میری ہستی ہو

ہر دل میں ایک خواہش ہے ایک آس ہے

جیون کا ہر لمحہ خوشیوں کی پیاس ہے

پرانے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی آرزو ہے

یہ خواہشوں کی دنیا ہمیشہ جوش و خروش سے معمور ہے

راستے بہت ہی ان گنت ہیں خوابوں کے

منزلیں بہت ہی دور ہیں محبتوں کی

پر چلتے رہو بس ایک قدم آگے بڑھو

کیونکہ ہر خواب کے پیچھے ایک نئی امید کا باب ہے

جبر

میں نے ایک معصوم بچی کو دیکھا

جو اپنی ماں کی میت پر

مسکرا رہی تھی اور

شام کا زرد سورج

بجھ رہا تھا جس طرح

پھانسی گھاٹ کی طرف

جاتا ہوا قیدی

روشنی کی تلاش

شام کی تنہائی میں، دل کی دھڑکنیں بھری  ہیں

سایہ بکھرا ہوا ہے روشنی کی تلاش میں

گلیوں کی راز دانیاں خاموشیوں کی باتیں کرتی ہیں

تاروں کی جھیل میں خوابوں کا سفر جاری ہے

شام کی گود میں دل کی راز دانیاں چھپی ہیں

روشنی کی تلاش میں سایہ بکھرا ہوا ہے

خوابوں کی پرواز آسمانوں کی بلندیوں میں

شام کی سنگینی میں دل کی آہٹیں بہکتی ہیں

اندھیرے کی چادر میں روشنی کی تلاش ہوتی ہے

گلیوں کی راز دانیاں خاموشیوں کی داستانیں بیان کرتی ہیں

شام کی تنہائی میں خوابوں کا رنگ چڑھتا ہے

روشنی کی تلاش میں سایہ بکھرا ہوا ہے

خوابوں کی پرواز آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتی ہے

شام کی سنگینی میں دل کی دھڑکنیں بہکتی ہیں

اندھیرے کی چادر میں روشنی کی تلاش جاری ہوتی ہے

امن

صبح کے خاموش لمحوں میں

امن کا سایہ چھا جاتا ہے

اک لہر  میں آہنگی کی آواز سنائی دیتی ہے

زمینوں پر اس کی ہلکی ہوائیں بہتی ہیں

ہر دل میں اس کا سکون بڑھتا ہے

امن کی گود میں خوفوں کی پیشگوئیاں گھل جاتی ہیں

اور اس کی گرمی میں مسائل حل ہو جاتے ہیں

جھگڑالو مواقع میں اس کی آرام دہ روشنی ہوتی ہے

روحوں کو امن کی راہنمائی ملتی ہے

فضلیتوں کے درمیان امن اپنا رنگ جماتا ہے

دلوں کو متحد کرتا ہے دہشت کو دور کرتا ہے

کھلے دلوں سب کو خوش آمدید کہتا ہے

رکاوٹوں کو توڑتا ہے بلند کھڑا ہوتا ہے

امن کی زبان میں ہر کوئی بولتا ہے

ایک معمولی زبان نرم اور مدھم

ساحل سے ساحل اس کی لہریں بہتی ہیں

قوموں کو گلے لگاتی ہیں

اسلحے کو زنگ لگ جاتا ہے

تیسری جنگِ عظیم

تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گا

امریکہ اور روس کے درمیان

سرد جنگ

ایٹمی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہو گی

اس جنگ سے ، جنگی تشدد، انسانی تباہی اور معاشی نقصان کا سامنا ہو گا

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیستی ہتھیاروں کے انتشار اور ماحولیاتی تباہی عام ہوگی

عالمی سطح پر امن و امان تباہ ہو جائے گا

انسانی حسن بد پیتی میں بدل جائے گا

سب ترقی نابود ہو جائے گی

انسان پتھر کے زمانے میں چلا جائے گا

از سرِ نو تاریخ مرتب ہو گی

نئے آدم کا ظہور ہو گا

نئے صحیفوں کا چپکے چپکے نزول ہو گا

پھر ترقی کے در کھلیں گے

تب مسیح کا ظہور ہو گا

جل پری

میں نے ساحل پر  جل پری کو دیکھا

میرا دل خوشی سے بھر گیا

اُن کی خوبصورتی میں ایک خواب چھپا تھا  جس نے دل کو مسرت عطا کی

اُس کی مسکراہٹ میں ایک خوشبو تھی جو دلوں کو محبت کی یاد دلاتی تھی

جل پری کی گفتگو کا احساس، دل کو چین اور سکون دیتا تھا

اس کی آواز میں ایک لذت اور ایک خوابیدگی  تھی

جل پری کے اشاروں میں  دلچسپی اور  مسرت کی کرن دیکھی تھی

اُن کی طرحیں اور اُن کا انداز، دل کو چھو جاتا تھا

اس کے حسن کا جادو دل کو بے قرار کر دیتا تھا

اس کی آنکھوں میں  گہرائی کی باتیں تھیں

میں نے اسے دیکھا اور اس نے مجھے

وہ مسکرانے لگی وہ مجھ سے محوِ تکلم تھی

میں اس کی سمندری زباں سے نابلد تھا

مگر پھر بھی وہ مجھ پر منکشف ہو گئی

وہ خوبصورت عورت کا چہرہ رکھتی تھی

مگر نچلا حصہ مچھلی کی  طرح تھا

وہ دیر تک مجھ سے ہمکلام رہی اور مجھ میں جذب ہوتی رہی

پھر  اس نے ایک حسرت سے مجھے دیکھا اور  سمندر میں کود گئی

پھر وہ کبھی نہیں لوٹی

میں ازل  کے ساحل پہ کھڑا

اسے بلاتا ہوں

سستی شہرت

کچھ لکھاری نظموں کے

راتوں رات سستی شہرت کے لئے

جنس زدہ تہذیب سے گری

اخلاق باختہ نظمیں لکھتے ہیں

اور خفتہ اعضا کا بر ملا اظہار کرتے ہیں

چونکا دینے والی تحیر زدہ جنس آلود

عبارتیں سوسائٹی کو مضطرب کرتی ہیں

لوگ ان عبارتوں کو سطروں کو حوالا بناتے ہیں

چیختے ہیں چلاتے ہیں

یہ پژمردہ ثولیدہ عبارت کار

خوشی سے ناچتے ہیں

ایک مصنوعی دنیا میں اپنے آپ کو

سمجھتے ہیں بڑے جغادری قد آور

حقیقت یہ ہے کہ  سب  اہلِ قلم

رد کرتے ہیں ان کی وہ نظمیں

جو تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں

عشق کی سچائی

دھوپ کے کتنے پرگندے بنا دیتے ہیں احساسات کو

اُن کے کہنے پر اُن کی دعا مانگ لیتے ہیں ہم

کسی بھی حال میں یہ عشق کا رنگ سیکڑوں سوالوں کا جواب ہوتا ہے

سانسیں ہی سانسوں کا وقت ہوتا ہے، یادیں ہی یادوں کا مزا ہوتا ہے

ظالمیوں کے ساتھ ہمیشہ چلنے والے دوستوں کی طرح

عشق کی راہیں ہمیشہ کہنے کی کوشش کرتی ہیں، محبت کی حقیقت پر اعتبار رکھتی ہیں

اپنی حقیقت کو چھپا کر ہم، اپنے احساسات کو بیان کرتے ہیں

کچھ کہتے ہوئے اور کچھ محبت کرتے ہوئے

ہماری باتوں کی عیاں علامتیں، ہمارے احساسات کی روشنی میں ہمیشہ ہوتی ہیں

عشق کی محافل میں جلسے اُنکے محافل، جہاں ہمیشہ چھائی رہتی ہے

جہاں سب چیزیں خوبصورتی سے ہوتی ہیں اور ہر اچھا لمحہ کی قیمت معلوم ہوتی ہے

کوئی نہ کوئی تبدیلی، کوئی نہ کوئی مصیبت، کوئی نہ کوئی مشکل

عشق کی شمع کے سامنے، ہر مصیبت کا ہمیشہ چراغ ہوتا ہے

عشق کی دعاؤں کے لبوں پر ہر گم کو دور کرنے والی مدد گار، ہر چیز کو حقیقت بنا دیتی ہے

سُنے اور کہے ہوئے، دُعاؤں کا احساس، عشق کی سچائی، ابدی عشق کے راستوں پر، ہمیشہ کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں

 ہمیشگی

دلوں کی گہرائیوں میں، محبت کی

جنوں کی کرنوں میں، روحوں کا رقص۔

مصائب، پریشانیوں، اور آنسوؤں کے درمیان،

محبت قائم رہتی ہے، خوفوں کو دور کرتی ہے۔

کہہ دی ہوئی باتوں میں، اور نرم چھونے میں،

محبت نئی شراکت، ایک دائمی گرہن۔

طوفانی راتوں اور دھوپی دنوں کے ذریعے،

محبت کی ثابت قدم نظر، ہمیشہ رہتی ہے۔

مشتعل ہنسی اور خوابوں کے انعام،

محبت کا ملازم، مٹا نہیں سکتے۔

کیونکہ راستہ مڑ سکتا ہے،

محبت کا سفر، آخری طرح تک جاری رہتا ہے۔

لہذا جب کہ مشکل ہو، اسے حاصل کرنا،

محبت کے اپنے قابو میں، ہمیں سکون پانے میں۔

کیونکہ آخر میں، یہ جھگڑنا قابل مذاق ہے،

محبت کی ہمیشہ کی روشنی میں اوپر بڑھنے کے لئے۔

میرے بعد

دھمکتی شام کی چپ چاپاہٹ میں،

جب سایے نرگس، اور ستارے آتے ہیں ظاہر،

میں ہلکی ہواؤں پر بہنے لگوں گا،

لامحدود آسمان کے زیر فرش

موتل زندگی کے بوجھ نہیں ہوں گے،

موتل زندگی کے شور شرابہ نہیں ہوں گے،

میں وقت کے پابند نہیں ہوں گا،

خوابوں اور روحوں کے میدانوں میں

یادیں بھول جائیں گی، رات کی سایہ میں

جب میں نور کے پردوں سے بیرون جاؤں گا،

مگر محبت، اہ! محبت، یہ قائم رہے گی،

ہمیشہ کی طرح، ہمیشہ کی طرح

پس گھبراہٹ کو اپنی نظر میں مت آنے دو،

کیونکہ لازمی نہیں، کیونکہ بناوٹ کے جال میں

میں ستاروں کے درمیان اپنی جگہ پاؤں گا،

ہمیشہ کا سما، جو سیموں کے پر پر

اور جب تم چاند کی نرم چمک کو دیکھتے ہو

یا جب محسوس کرتے ہو ہلکی ہوا، جو چلتا ہے،

تو جاننا کہ میں کبھی دور نہیں ہوں،

ہر ستارے کے پر کے بانگوں پر

 حسن جاودانی

دھکیل کر جوڑے ہوئے احساسات کے کھیتوں میں،

تمہاری خوبصورتی کی چمک چمکتی ہے، غم کو دور کرتی ہے۔

رات کی گہرائی میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح،

تمہاری روشنی ہمیشہ سچی ہے، ہمیشہ کاستوس۔

ہر لمحے میں، ایک خوشگوار ناچ،

ایک خوبصورت محبت کا سمفونیہ، ایک جادوئی گمراہی۔

ہر نظر میں، ایک ناقص کہانی،

تمہاری خوبصورتی، ایک شاہکار، بے پیر و بے کمال

وقت کی گلوکاری میں، تم خدا کی طرح باقی رہتے ہو،

ایک بے وقت موزوں، ایک کنواں برآورد کرنا۔

زندگی کی گوند میں، تم سنہری دھاگہ ہو،

ایک خوبصورتی کا سمفونیہ، جہاں خواب پیدا ہوتے ہیں

ہمیشہ دل کی میٹھی آواز میں کندھا ہوا،

تمہاری خوبصورتی گونجتی ہے، ہمیشہ مضبوط۔

ہر ہوا کے اڑنے کی سر گرمی میں،

تمہاری ذات چمکتی ہے، روشنی کا ایک چراغ

خوابوں کی تعبیر

نیند کے علاقے میں جہاں سایے ناچتے ہیں

جہاں خوابات رازوں میں بیاں ہوتے ہیں

ایک عالم علامات معانی گہری

جہاں رازوں کی چپائی خاموشی میں رکھی گئی ہے

چپکی چپکی کہانیوں میں، رات بہکاتی ہے

وہ حقیقت جو جاگتا دماغ چھپاتا ہے

ہر تصویر جڑوں کی طرح بنائی گئی ہے

خوابوں کے فریب میں وہ وقت پہنچاتے ہیں

پرندوں کا بہتا ہوا سفر

یا اندھیرے کی گہرائیوں میں گھومتے ہوئے

ہر منظر میں، ایک کہانی بنی ہوئی ہے

ہر پھوہڑ کی طرح حقیقت محسوس ہوتی ہے

لیکن کون خواب کے علاقے کو سمجھ سکتا ہے

یا خوابوں کی حکایات کا نصاب پڑھ سکتا ہے

کیونکہ دماغ کا فرار افواہوں میں

حقیقت صبح کی روشنی کے ساتھ ڈھل سکتی ہے

پس ہم بے خوف بے باک گمراہ ہو جائیں

چاندی کے علاقوں سے گزریں سونے سے بھرپور

اور حکمت تلاش کریں خوابوں کی درخواست کریں

دل کے سفر کی راہنمائی کرنے کے لیے

تیسری مخلوق

دیواروں جہاں حدیں دھندلی اور ملاپ کر جاتی ہیں

نامیاتی، روایاتی اور موجودہ موڈ کو عبور کرتے ہوئے

وہاں ایک روح چلتی ہے بہادر اور سچی

نئے رنگوں میں خود کو گلے لگاتی ہوئی

وہاں پیدا ہوتے ہی چھوڑیے گئے

وہ زندگی کے پیچیدہ متھے میں چلتے ہیں

بہادری، خوبصورتی اور شانداری کے ساتھ

معاشرت کے زنجیروں کو ناپسند کرتے ہیں

ان کا سفر انا کے مشاہد نہیں سرکاتا

لیکن طاقت اور ثابت قدمی مداخلت کرتی ہے

کیونکہ ان کے دلوں میں روشنی کا شعلہ

سب سے گہری رات کو بھی روشن کرتا ہے

ہر قدم کے ساتھ وہ راستہ بناتے ہیں

آزادی کی صبح روشن دن کی رات بناتے ہیں

ان کی روح اوڑھتی ہے بے بند اور آزاد

ممکنہ دائرہ کار میں

پس ہم انہیں محبت اور فخر کے ساتھ

اندر کی سچائی کی خوبصورتی کو اعزاز دیں

کیونکہ ان کی بہادری میں ہم اپنا بھی موازنہ کرتے ہیں

ہر دل میں ان کی کہانی بوئی گئی ہے

روح

آئینے کی نظروں میں روح رہتی ہے

سطح سے پرے جہاں سائے پھولتے ہیں

شک اور خوف کے درمیان ایک سفر شروع کیا

سچائی کی تلاش اپنے آپ کو عزیز رکھنا

لیبل سے پیدا ہوا، معاشرے کے ڈیزائن

پھر بھی اندر ایک دل دھڑکتا ہے جو مکمل طور پر غیر واضح ہے

ایک روح آزاد ہونے کی تڑپ

توقعات کی زنجیروں سے، بس ہونا

بائنریز سے ماورا، راستہ بنانا

دنیا کے غضب کے خلاف ہتھیار کے طور پر ہمت کے ساتھ

ہر قدم آگے ایک فتح کا اعلان

روحوں کی سمفنی میں خوبصورتی سے شیئر کیا گیا

سفر کو گلے لگاتے ہوئے ہر قدم کے ساتھ

سچائی میں سکون تلاش کرنا، کبھی چھپانے کے لیے نہیں

کیونکہ زندگی کی ٹیپسٹری میں، تنوع کھلتا ہے

اور محبت اپنے لامحدود کمروں میں کوئی حد نہیں جانتی

لا شعور

گہرے سائے میں جہاں خواب گھوم سکتے ہیں

بے ہوشی، ایک خاموش گھر

جہاں خیالات گھل جاتے ہیں اور حواس بھاگ جاتے ہیں

تاریک سکون کا ایک دائرہ

دماغ پر کوئی بوجھ نہیں

اس پاتال میں تمام پریشانیاں مل جاتی ہیں

ایک لمحہ بھر کا آرام ایک لمحے کی آسانی

جیسے جیسے شعور چھیڑنے لگتا ہے

نیند کی گرفت میں ہم بہک جاتے ہیں

نامعلوم دائروں میں جہاں روحیں ڈولتی ہیں

بے ہوشی ہلکی سی لہر

جس میں ہماری بے چین روحیں رہتی ہیں

پھر بھی اس خلا سے ہم لوٹیں گے

طلوع فجر کو سلام کرنے کے لیے ہمارے ذہنوں کو سمجھ آتی ہے

لیکن رات کی خاموشی میں

بے شعوری اپنا جائز حق مانگتی ہے

کشش

نظروں سے پوشیدہ لوہے کے کھیتوں میں

فطرت کی ایک طاقت خالص اور روشن ہے

غیر مرئی طاقت ان کہی طاقت کے ساتھ

دلوں کو ایک ساتھ کھینچنا محبت میں اتنی جرات مندی

دھاگوں کی طرح روحوں کو گلے میں جکڑنا

کشش کا ایک رقص ایک کائناتی ڈیزائن

دھات کی سرگوشیوں میں راز رکھے جاتے ہیں

کشش کی ایک طاقت ایک مضبوط رشتہ

زندگی کی سمفنی میں یہ اپنا گیت گاتا ہے

اے غیر مرئی طاقت اے غیر مرئی طاقت

ہمیں اس وسیع جگہ میں کنکشن ملتا ہے

ہمیشہ کے لیے بندھے اپنے صوفیانہ فن سے

کشش کے رقص میں ہم اپنا دل ڈھونڈتے ہیں۔

خوابوں کی دنیا

خوابوں کی دنیا

ایک راز کی داستان ہے

ہر آنکھ کی پلکوں کی پیشگوئی

راتوں کی سنگینی میں

خوابوں کی لہروں کی مانند بہتی ہے

اس کی آواز میں مَیں کھو جاتا ہوں

سرسبز باغوں کی گلیاں

اُڑنے والے پرندے

خوابوں کی دنیا میں

محوِ پرواز ہیں

ہر آنکھ کی پلکوں کی پیشگوئی

خواب کی دنیا میں

ایک راز کی داستان ہے

دھمال

شام کی ہلکی بزم کی سرگوشی میں

گھوم اے روح رازیائی فضا میں

جو قدیم ریتوں میں بنی، لیکن ہمیشہ بے باک

چاندنی کے جادوئی چمک میں

آپ کی روح کو آزادانہ بہاؤ

خاموش ہوا کی موسیقی میں

وہ جادو جو یہ خود کو آزاد کرتا ہے

ہر گھومنے میں ایک کہانی بنتی ہے

امیدوں کی خوابوں کی جو آغاز ہوتا ہے

ہر کود میں آپ آسمان کو چھو جاتے ہیں

اور ستاروں کو خوشی کے ساتھ رنگتے ہیں

رقص جیسے ہلکی آگ میں لہراتا ہے

جوش جوش ہمیشہ بلند تر

ہر حرکت میں اپنی حقیقت تلاش کرو

رقص میں اپنی جوانی کو تازہ کرو

کیونکہ رقص میں ہم برگشتگی پائی جاتی ہے

ایک لمحہ خوش امن کا پاؤں کو ہدایت دیتا ہے

اور رقص میں اپنے دل کی دھڑکن کی حس بھی ملتی ہے

محبت اور تلوار

جہاں روشنی کے ساتھ سائے رقص کرتے ہیں

اور رات بھر سرگوشیاں کرتے ہیں

محبت کے میٹھے فضل کی ایک کہانی کھلتی ہے

بے وقت تعاقب میں تلوار کے ساتھ جڑا ہوا

ہر تصادم کے ساتھ جذبے کی پکار

شدید لڑائیوں میں جہاں ہیرو مقابلہ کرتے ہیں

پھر بھی افراتفری کے درمیان دلوں کو سکون ملتا ہے

خاموش لمحوں میں محبت کی رہائی

کیونکہ محبت کوئی نازک چیز نہیں ہے

لیکن ایک جنگجو کی طاقت ایک بارڈ کا میٹھا گانا

یہ ہر لڑائی میں اپنی طاقت چلاتا ہے

اندھیری رات میں روحوں کی رہنمائی کرنا

تو تلواروں کو ٹکرانے دو محبت کو قائم رہنے دو

زندگی کی تپش میں وہ پاک رہتی ہے

محبت اور تلوار کے اتحاد میں ابدی کہانیاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں

ویران آنکھیں

ویران آنکھیں، جیسے کسی بوسیدہ عمارت کے کھڑکیوں میں جھانکتی خاموشی، جیسے وقت کی بے رحم گردش میں کہیں کھوئی ہوئی ہوں

ان میں نہ کوئی روشنی، نہ کوئی خواب، نہ کوئی امید کا چراغ

بس خالی پن، جیسے صحرا کی تپتی ریت پر چلتے قدموں کے نشان بھی وقت کے ساتھ مٹ جائیں

یہ آنکھیں کبھی چمکتی تھیں

ان میں زندگی کا رنگ تھا، خواب تھے، جذبے تھے

مگر اب جیسے سب کچھ سوکھ گیا ہو، جیسے کوئی سراب تھا جو آنکھوں کو دھوکہ دے کر گزر گیا

کوئی کرب تھا، جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر آنکھوں میں ٹھہر گیا، اور پھر ان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر گیا

آنکھیں آئینہ ہوتی ہیں دل کا، اور جب دل پر ویرانی چھا جائے، تو آنکھیں بھی جیسے شہر کی گلیوں کی طرح سنسان ہو جاتی ہیں

ان میں کوئی سوال نہیں، کوئی جواب نہیں، بس ایک خاموش چیخ، جو سننے والا کوئی نہیں

یہ ویران آنکھیں، جن میں ایک زمانہ دفن ہے، مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان میں کتنے طوفان چھپے ہیں

بلیک ہول

خلا میں ایک سایہ چھپا ہوا ہے

جہاں ستارے چپ چاپ سو جاتے ہیں فنا ہو جاتے ہیں

ایک دہن جو روشنی اور وقت کو نگل لیتا ہے

ایک خلا جس میں نہ کوئی اونچائی ہے نہ کوئی چڑھائی

اس کی کشش ایک راز ہے وسیع اور طاقتور

جہاں ماضی اور حال ایک ہو جاتے ہیں

نہ کوئی آواز اس کی گہرائی سے نکلتی ہے

نہ کوئی ستارہ اس کی طاقت سے بچ پاتا ہے

اس کے اندر کیا ہے کوئی نہیں جانتا

ایک ایسی جگہ جہاں لامحدودیت ہے

اندھیرے کا دل ٹھنڈا اور گہرا

جہاں کائنات کے راز چھپے ہوئے ہیں

اور اگرچہ لوگ اسے خوف سے دیکھتے ہیں

یہ خلا میں چھپے سچ کو سنبھالے ہوئے ہے

کیونکہ اس بلیک ہول کے اندر

کائنات اپنی پوشیدہ حقیقت کو بُنتی ہے

ماں کی محبت

ایک ماں اپنے بچے کو کھلاتی ہے

سہانی روشنی کی چمک میں سرخ ہوا کی گود میں

ایک ماں کی محبت اس کے چہرے پر چمکتی ہے

نرم ہاتھوں اور لطیف دیکھ بھال کے ساتھ

وہ اپنے بچے کو محبت کے ساتھ کھلاتی ہے

ایک رشتہ مضبوط ہوتا ہے

خاموشی میں میٹھی گفتگو وہ زندگی کا گانا گاتے ہیں

محبت اور فضیلت کا ایک سمندر

کھانے کے عمل میں

ایک ماں کا دل ہمیشہ گاتا ہے

ہر قدم میں کہانی بیان ہوتی ہے

وہ محبت جو کبھی بھی پرانی نہیں ہوگی

ایک محبت کی خوبصورت بات جو بیان نہیں ہو سکتی

ایک ماں کی محبت خالص

اور نرم ہوتی ہے

زمان و مکاں

ایسے دائروں میں جہاں وقت اور جگہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں

کائناتی فضلی رقص

دور دور تک وہ سفر کرتے ہیں

وقت کی خاموش سرگوشیاں قدیم

ستاروں کے آسمان کے نیچے گونجتی کہانیاں

ہر لمحہ ایک سمفنی ایک لمحاتی نظر،

کائناتی تھیٹر میں، زندگی کا کائناتی رقص

خلا، ایک کینوس جہاں خواب بکھرتے ہیں،

کہکشائیں گھومتی ہیں، نیبولاس گھومتی ہیں

اس کی لامحدود آغوش میں، ہم اپنا مقام پاتے ہیں،

لامتناہی فضل میں سٹارڈسٹ کا ایک ذرہ

وہ مل کر بُنتے ہیں، ایک کائناتی ڈیزائن،

جہاں ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے سے ملتے ہیں

وجود کی ٹیپسٹری میں، ہم سراغ لگاتے ہیں،

وقت اور جگہ کے اسرار

درد

گہرے سائے میں، جہاں خاموشی راج کرتی ہے

ایک ایسا دائرہ ہے جہاں مستقل درد رہتا ہے

ایک خوفناک تماشہ نادیدہ لیکن محسوس ہوتا ہے

ہر دل کی دھڑکن میں ہر آہ و زاری میں

یہ آہستہ سے سرگوشی کرتا ہے ایک ظالمانہ نوحہ سناتا ہے

غم کی ایک لے ہمیشہ موجود رہتی ہے

ہر سحر اور شام کے گلے سے

یہ اپنے دھاگے بُنتا ہے کوئی نشان نہیں چھوڑتا

رات کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ اپنا راج رکھتا ہے

جہاں خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں بے ترتیبی میں کھو جاتے ہیں

پھر بھی اس نہ ختم ہونے والی حالتِ زار کے درمیان

امید جھلکتی ہے ایک رہنمائی کی روشنی میں

اگرچہ درد دیرپا بے لگام اور شدید ہو سکتا ہے

چنگاری کو بھڑکانے کے لیے اندر طاقت ہے

سائے کی گرفت سے اوپر اٹھیں

اور نرمی سے تسکین حاصل کریں

تو آئیے رات کو بہادر کرنے کی

ہمت کریں  ہماری روشنی کے طور پر

کیونکہ گہرائیوں میں ہم اپنا راستہ تلاش کریں گے

ایک ایسی صبح کی طرف جو ایک روشن دن لائے

جنت

جہاں خوابوں کی پرواز ہوتی ہے

ستاروں بھرے آسمان کے نیچے

وہاں ایک جگہ ہے بے انتہا فضل کی

جہاں وقت اور فکریں کوئی جگہ نہیں پاتی

جنت میں، ہلکی ہوا لے جاتی ہے

درختوں کے درمیان رازوں کی باتیں کرتی ہے

اور دریاؤں میں نغموں کے ساتھ ناچتے ہیں

جو روح کو میٹھی آرام دیتے ہیں

پھول بہترین رنگوں میں کھلتے ہیں

خوشی کے مناظر کو پینٹ کرتے ہیں

اور ہر قدم زمین پر

اب تک نہیں پائی گئی خوشبو کے لئے

جنت میں، سورج کی گرمی کی روشنی

سب کو نرمی سے گلے لگاتی ہے

اور پرندے جدوجہد کرتے ہیں

ایک نغمہ جو دیر تک رہتا ہے

یہاں، محبت کی گلیاں ہمیشہ قریب ہیں

ہر قسم کے خوف کو دور کرتے ہیں

اور اس جنت میں، دلوں کی تصاویر

ایک محبت جو واقعی الوہی ہے

لہذا ہم جنت کا خواب دیکھیں

جہاں خوشی کبھی نہیں مرتی

اور ہمارے گھومنے کے اس دنیا کو

ہمارے آسمانی گھر کا عکس بنائیں

دوزخ

دنیا کے دور تاریکی کے اندر

جہاں سایہ اور چھپا ہوا ہے بے شمار

وہاں ایک جگہ ہے بے پایاں

جہاں تاریکی روشنی سے مل جاتی ہے

اس خوابوں اور خوفوں کی دنیا میں

جہاں ہنسی اور آنسوؤں کی سرگوشیاں ہوتی ہیں

دل اپنی سکون میں، جان اپنی خوشی میں پاتا ہے

جیسے اوپر کے تارے اپنے رازوں کو خارج کر دیتے ہیں

مگر اس ہنگامہ میں ایک لہر سرکتی ہے

امید کا ایک سمندر جہاں روح گاتی ہے

کیونکہ رات کے سب سے تاریک لمحے میں

تاریکی کی سب سے ہلکی روشنی میں خوبصورتی ہے

پس ہم مل کر چلیں، ہاتھوں کو جوڑ کر

گہری گھاٹیوں اور بلند پہاڑوں میں

کیونکہ اس سفر میں، ہم پائیں گے

انسانیت کی حقیقت کا جوہر

میری کہانی

میں اس وقت پینسٹھ سال کا ہوں

ریٹائر ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں

گریجوئیشن کے بعد مجھے نوکری ملی

جس دن تنخواہ ملتی

وہ دن زیادہ پریشانی اور تکلیف میں گزرتا

اخراجات زیادہ تھے اور آمدنی کم تھی

امید تھی کہ حالات سنور جائیں گے

مگر حالات حوالات بنے رہے

شادی ہوئی بچے ہوئے

مالی دباؤ بڑھا

دن رات شکنجے میں گزرے

کبھی قرض کبھی جی پی فنڈ سے

ضروریات اور  تعلیمی اخراجات پورے ہوئے

سب خواب پتھرا گئے

زندگانی کسی نہ کسی طرح رینگتی رہی

کئی خواہشیں کئی سپنے ادھورے رہے

بچے پڑھ لکھ کر  اپنے گھروں کے ہو گئے

بوڑھاپا وجود پر طاری ہوا

شوگر فشارِ  خون اور کھانسنے کی بیماری۔۔۔۔

بے چینی اور بے زاری

یہ ہے زندگی  کی گلکاری

اور ایک دن اجل کا آ جائے گا بلاوہ

کچھ یادیں کچھ تصویریں کچھ وڈیو کلپس اور کچھ وائس میسج

موبائلوں میں باقی رہ جائیں گے

اور  پھر  رفتہ رفتہ وہ بھی

ڈیلیٹ ہو جائیں گے

نصیحت

جن لوگوں کی تخلیق کے سوتے

سوکھ جاتے ہیں

وہ دوسروں کے کلام میں نقص نکالتے ہیں

علم بیان اور علمِ عروض کے ماہر

ہر وقت فعلن فاعلن فع کے چکر میں رہتے ہیں

ہر وقت منکر نکیر کی طرح

شاعروں کی غلطیاں نکالتے ہیں

یہ لوگ معاونت کی بجائے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں

تخلیق کے آگے بند باندھتے ہیں

بے ساختگی اور برجستگی کے خلاف

گرائمر اور علمِ بیان کے ناخوشگوار چوبی تیروں سے بدن چھیدتے ہیں

یہ جو بھی کریں جو بھی سند لائیں

آپ نے لکھنا نہیں چھوڑنا

اپنا دل نہیں توڑنا

لکھتے  جائیں لکھتے جائیں

اور تخلیق کے حسن میں ڈوبتے جائیں

بشر کا کلام الوہی نہیں ہوتا

ہر گھڑی غلطی کا احتمال ہوتا ہے

ہر عروج کو زوال ہوتا ہے

اپنا حوصلہ نہیں ہارنا آگے پڑھتے جانا ہے

آگے ہی آگے ایک دن مل جائے گی منزل

سوکھے پتے ہو جائیں گے سر سبز

بجلی کوندے گی اور حبس ختم ہو گا

چلنے لگے گی ٹھنڈی اور سبک ہوا

اور کھل جائے گا بند دریچہ

کس طرح عید مناؤں 

کس طرح عید مناؤں

جن کے دم سے میری  عیدیں تھیں

وہ لوگ مجھے تنہا چھوڑ کر اس جہاں آباد ہوئے

جہاں سے کوئی آ سکتا ہے

نہ کوئی پیغام موصول ہو سکتا ہے

اس جہان میں ہم بچھڑ کر مل جاتے ہیں

دور جا کر خط میسج یا فون سے رابطہ

کر سکتے ہیں مگر

وہ جہاں جسے ابد آباد کہتے ہیں

وہاں سوائے خواب کوئی ذریعہ نہیں ملنے کا

مگر خواب خیال ہوتے ہیں

دبی ہوئی خواہشیں

جانے والے کبھی نہیں لوٹیں گے

میں عید کیسے مناؤں

اپنے عم زادوں ماں اور باپ کے بغیر

مگر میرے بچوں کا بھی حق ہے مجھ پر

اور معصوم ہوتے پوتیاں جنہیں پتا نہیں

ان کے دادو کیوں اداس ہیں

موت کیا ہے انسان یہ دھرتی چھوڑ کر کہاں چلا جاتا ہے

ان معصوموں کو کیا پتہ

میں انہیں کیسے سمجھاؤں

جانے والوں نے نہیں آنا مگر جو ابھی زندہ ہیں

ان کو عید مبارک لازماً کہنی چاہیے

ان کی خوشیوں میں شامل ہو کر بھی

ہم غمزدہ ہی رہیں گے اور ان لوگوں کو کبھی نہیں بھولیں گے

جن کے ساتھ ہم رہتے تھے

خوشی میں ہنستے تھے غم میں روتے تھے

ان کے بغیر عید کیسے منائیں

خلا کی وسعت

خلا… ایک بے کراں سمندر

جہاں وقت گم ہو جاتا ہے

اور فاصلے معنی کھو دیتے ہیں

ستارے اپنی روشنی بکھیرتے ہیں

مگر ان کی چمک بھی اس بے کنار وسعت میں دب سی جاتی ہے

جہاں ہم کھڑے ہیں وہاں زمین چھوٹی وقت محدود اور فاصلہ معلوم ہے

مگر خلا میں نہ کوئی حد ہے  نہ کوئی انتہا

خلا کی خاموشی گہری ہے

ایسی خاموشی جس میں کہکشائیں جنم لیتی ہیں اور مر جاتی ہیں

ہر روشنی کا نقطہ ایک کہانی کا آغاز ہے اور ہر سایہ ایک بھولی بسری داستان

کہیں بہت دور کوئی سیارہ شاید ایک اور زندگی کے خواب دیکھ رہا ہو

اور کہیں اور کوئی بلیک ہول

خاموشی سے سب کچھ نگل رہا ہو

یہ وسعت ہمیں حیران کرتی ہے

ہمارا وجود اس میں ایک ذرہ بھی نہیں

مگر پھر بھی یہ وسعت ہمیں بلاتی ہے

ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے ہم ستاروں کے راز جاننا چاہتے ہیں

ہم ان دور دراز کی دنیاؤں کو چھونا چاہتے ہیں

خلا جہاں وقت کے کوئی معنی نہیں

جہاں لمحے صدیوں میں بدل جاتے ہیں

یہ وسعت ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی مختصر ہے

مگر یہ وسعت بے حد ہے

اور شاید کہیں اسی وسعت میں ہماری تقدیر لکھی ہوئی ہے

چاند

چاند آسمان پر تنہا  خاموش اور روشن

رات کے اندھیرے میں ایک مدھم روشنی کا دائرہ

جیسے کسی نے آسمان پر امید کا چراغ روشن کر دیا ہو

وہ زمین سے بہت دور ہے

پھر بھی ہماری نظروں میں ہمیشہ قریب رہتا ہے

اُس کی چمک ہمیں اپنے سحر میں لے لیتی ہے جیسے ہر رات وہ کوئی نیا راز اپنے ساتھ لے کر آتا ہو

چاند کبھی مکمل ہوتا ہے کبھی آدھا

اور کبھی تو محض ایک دھندلا سا ہلال جیسے وہ خود بھی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا عکاس ہو

کبھی روشن اور بھرپور اور کبھی دھندلا، خاموشں اور دور

رات کی تنہائی میں چاند کا نظارہ انسان کو سوچوں میں غرق کر دیتا ہے

کتنے خواب  کتنے افسانے کتنی داستانیں اس کے نام سے جڑی ہوئی ہیں

عاشقوں کے دلوں کی ترجمانی کرتا چاند شاعروں کے لئے ہمیشہ ایک الہام کی صورت

چاند کی روشنی سرد ہے

مگر اس میں سکون ہے

جیسے وہ آسمان سے ہمیں یہ پیغام دیتا ہو

کہ دنیا کی تپش کے بعد راحت آ ہی جاتی ہے یہ ایک دائمی حقیقت ہے چاند ہمیشہ طلوع ہوتا ہے

چاہے رات کتنی بھی اندھیری کیوں نہ ہو

چاند جو زمین کا ساتھی ہے

مگر پھر بھی ہمیشہ تنہا

وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تنہائی میں بھی خوبصورتی ہے

اور خاموشی میں بھی ایک زبان ہوتی ہے

جو صرف دل سے سننے والوں کو سنائی دیتی ہے

وقت کیا ہے؟

وقت کیا ہے

ایک خواب یا حقیقت کا دھوکا؟

ایک لمحہ جو پھسلتا ہے

جیسے ریت ہاتھوں سے

نہ کبھی ٹھہرتا ہے

نہ کبھی رکتا ہے

یہ سچائی ہے یا فقط فریب کا جال ہے؟

گزر جائے تو یادیں بن کر تڑپاتا ہے

نہ سنبھالو تو بکھر جاتا ہے

آنے والا لمحہ

امیدوں کا دیپک ہے

لیکن کیا وہ بھی وقت کے بہاؤ میں گم نہیں ہو جاتا؟

یہ لمحے گھنٹے دن اور سال سب دھندلے نقوش ہیں

جو ماضی کی گلی میں کھو جاتے ہیں

کیا وقت بس ایک سایہ ہے

یا زندگانی کا اصل راز؟

کیا ہمیں وقت کو سمجھنا ہے یا بس جینا ہے؟

وقت کیا ہے یہ سوال ہمیشہ قائم رہے گا

ہماری سانسوں میں ہمارے خوابوں میں

وقت کا ہر پل ایک سفر ہے

جو ہمیں کبھی سمجھ میں نہیں آئے گا

چاند گرہن

چاند گرہن رات کے آسمان پر ایک عجیب سا لمحہ

وہ چاند جو ہمیشہ روشنی بانٹتا ہے

آج دھیرے دھیرے سائے میں چھپ رہا ہے

جیسے کسی نے اس کی چمک چھین لی ہو

یا جیسے کوئی اداسی کی چادر اوڑھ لی ہو آسمان کی وسعتوں میں ہر ستارہ خاموش ہے جیسے وہ بھی اس منظر کا گواہ ہو

یہ لمحہ عارضی ہے

مگر پھر بھی اس میں ایک عجیب سی کشش ہے

یہ گرہن ہمیں یاد دلاتا ہے

کہ کبھی کبھی روشنی کو بھی آرام چاہیے

کبھی کبھی چاند کو بھی چھپنا پڑتا ہے

لیکن یہ چھپنا دائمی نہیں

جیسے رات کے بعد صبح ہوتی ہے

چاند بھی پھر سے نکلے گا

پھر سے روشنی پھیلائے گا

گرہن کا یہ لمحہ ایک خاموشی میں لپٹی ہوئی خوبصورتی ہے

ایک ایسا لمحہ جو ہمیں فطرت کی گہرائی اور اس کے رازوں کی یاد دلاتا ہے

ٹائی ٹینک جہاز

سمندر کی وسعتوں میں

خاموشی کا ایک طوفان

جہاز کی دیواروں پر

پانی کی آوازیں

نہ ختم ہونے والا سفر

تقدیر کی کمان میں،

ایک لمحے کی خطا

روشنیوں سے چمکتا ہوا

لوہے کا بے جان دیو

انسانی غرور کا نشان

پانی کی گہرائیوں سے لڑتا ہوا

مگر سمندر کے دل میں

اک پرانا راز تھا

جو جہاز کی چیخوں کو

خاموشی میں بدل گیا

نیلے آسمان تلے

یہ عظیم دیوار

ایک پل کی لغزش میں

دھیرے دھیرے

پانی کی آغوش میں جا سوئی

کہانیوں کا باب

ختم ہوا

مگر پانی کی موجوں میں

اب بھی

اس کی دھڑکنیں

گونجتی ہیں

ساحلوں کی ہوا میں

وہ جہاز اب بھی

کہیں نہ کہیں

زیرِ آب

اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے

خاموش

تنہا

اور بھاری

جنگل کا قانون

درختوں کی گھنی چھاؤں میں

جہاں روشنی کا راستہ بھول جاتا ہے

وہاں جنگل کا قانون جاگتا ہے

خاموشیوں میں سرگوشیاں

اور ہر سانس میں ایک جدوجہد

شکاری کی آنکھوں میں بھوک

شکار کی آنکھوں میں خوف

یہاں کوئی رحم نہیں،

بس بقا کی طلب ہے

ہر قدم ایک جنگ

ہر سانس ایک شرط

کوئی تخت نہیں

کوئی تاج نہیں

لیکن ہر جانور

اپنی سلطنت کا بادشاہ

اور اپنی بقا کا غلام ہے

یہاں کوئی ضابطے نہیں

صرف ایک قانون

زور کا ہے

جو طاقتور ہے، وہی حق دار

باقی سب

خاموشی کے سایوں میں گم ہو جاتے ہیں

یہی جنگل کا قانون ہے

ظلم نہیں، صرف فطرت

بقا کی بے رحم حقیقت

جو ہر قدم پر

سانس لیتا ہے

جنگ عظیم اول

گولیوں کی گھن گرج

توپوں کی دہاڑ

مٹی کے میدانوں میں

انسانیت کا لہو بہتا رہا

خاموش زمین پر

نوحہ کرتی قبریں

اور آسمان پر

آنسوؤں سے بھری بادلوں کی چادر

یہ جنگ تھی

زمین کے ٹکڑوں کے لیے

یا شاید اقتدار کے لیے

مگر اس میں گم ہو گیا

انسان

اپنی حقیقت کو بھولتا ہوا

آگ اور بارود میں

تقدیر کے کھیل کا مہرہ بن گیا

سروں پر بندوقیں

ہاتھوں میں زنجیریں

کانپتی ہوئی زمین

اور چیخیں

جو ہواؤں میں گم ہو گئیں

وقت کے ایک لمحے نے

صدیوں کا درد بھر دیا

یہ جنگ عظیم تھی

جہاں نسلوں نے

خواب کھو دیے

جہاں مستقبل نے

اپنے وجود کا احساس

مٹی کے ڈھیر میں دفن کر دیا

اور پیچھے رہ گئی

صرف یادیں

ایک ٹوٹے ہوئے دل کی

ہاتھوں میں خون

آنکھوں میں خالی پن

یہی تھا انجام

ایک ایسی جنگ کا

جو انسان نے شروع کی

مگر انسانیت نے ہار دی

جنگ عظیم دوم

دنیا کے نقشے پر

آگ کے شعلے پھیل گئے

ہر شہر ایک زندان

ہر ملک ایک میدان جنگ

انسانیت کی چیخیں

گولیوں کی آوازوں میں دب گئیں

اور خاکستر میں

تاریخ نے اپنا چہرہ چھپا لیا

زمین پر موت کے سائے

آسمان پر جنگی جہاز

معصوم خواب

بموں کی گونج میں ٹوٹ گئے

میدانوں میں،

آدمی آدمی سے لڑا

نہ قوم رہی، نہ مذہب

بس جنگ کا شور

اور انسان کا زوال

حکمرانوں کی ہوس

دھرتی کے بیٹوں کا خون پی گئی

نقشے بدلتے گئے

قلب دھڑکتے رہے

مگر وہ دل

جو جنگ کے آغاز میں دھڑک رہے تھے

ختم ہوتے ہوتے

پتھر بن چکے تھے

برلن کی گلیاں

ہیروشیما کا آسمان

سب گواہ ہیں

اس آگ کے طوفان کے

جس نے تہذیب کو

راکھ میں بدل دیا

اور انسان کو

خوف کا پتلا بنا دیا

یہ جنگ

صرف ہتھیاروں کی نہ تھی

بلکہ انسان کی روح کی تھی

جہاں نفرت جیت گئی

محبت ہار گئی

اور دنیا نے

اپنے ہی ہاتھوں

خود کو فنا کر ڈالا

جب دھواں چھٹا

اور زمین نے سکون پایا

تب تک

کروڑوں خواب

خاک میں دفن ہو چکے تھے

یہی تھی

جنگ عظیم دوم کی کہانی

جہاں ہر فتح میں

انسانیت کی شکست لکھی تھی

رومیو اور جولیٹ

دو دل

دو دنیا

ایک کہانی

جہاں محبت نے

نفرت کے سائے میں جنم لیا

روشنی کے ہر ذرے میں

چھپی تھی ان کی محبت

مگر قسمت کی تاریکی

ان کے قدموں میں بچھ گئی

رومیو کا دل

جولیٹ کی دھڑکن سے بندھا تھا

اور جولیٹ کی آنکھیں

رومیو کے خوابوں میں بسی تھیں

مگر خاندانوں کی دیواریں

اونچی تھیں

اور روایات کی زنجیریں

بہت بھاری

محبت کے اس میدان میں

انہوں نے جینے کا خواب دیکھا

مگر موت کی وادی

زیادہ قریب تھی

ہر لمحہ

ان کے دلوں کے درمیان

ایک خنجر بن کر آتا

اور تقدیر کی لکیر

ان کے راستوں کو جدا کرتی گئی

یہاں وفا نے اپنا وعدہ نبھایا

مگر دنیا نے

اپنے اصول نہ بدلے

دو روحیں

جو ایک تھیں

زمیں کی مٹی میں

الگ الگ دفن ہو گئیں

رومیو اور جولیٹ

محبت کی وہ کہانی

جو کبھی نہ مٹی

وقت کے پنوں پر لکھی ہوئی

ایک ایسی داستان

جس کا انجام

اب بھی ہر دل میں

ایک درد کی صورت گونجتا ہے

محبت جیت کر بھی

شکست کھا گئی

ما بعد الطبیعیات

آسمانوں کے پار

ستاروں کے پیچھے

جہاں عقل کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں

وہاں سے شروع ہوتی ہے

ما بعد الطبیعیات کی کہانی

ایک ایسی دنیا

جو نظر سے پرے ہے

اور فہم سے دور

وجود کیا ہے؟

کیا ہم محض جسم ہیں

یا روح کا کوئی سایہ؟

وقت کی قید میں ہم

کب سے ہیں؟

یا یہ سب

بس ایک خواب ہے

جو ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟

کائنات کا یہ پھیلاؤ

کیا واقعی حقیقی ہے؟

یا ایک دھوکا،

ایک سراب

جو ہر لمحے ہمارے سامنے

حقیقت کا نقاب اوڑھے ہوئے ہے

اور پیچھے

خاموشی کی گہرائی میں

چھپا ہے وہ راز

جسے ہم سمجھنا چاہتے ہیں

مگر سمجھ نہیں پاتے

خدا کی موجودگی

یا عدم موجودگی

کیا وہ ہمارا خیال ہے؟

یا ہم اس کی سوچ کا عکس؟

یہ سوالات

جو دماغ کی لکیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں

ہر جواب

ایک نئے سوال کو جنم دیتا ہے

اور حقیقت

ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی

کہیں دور نکل جاتی ہے

مابعد الطبیعیات

محض فلسفہ نہیں

بلکہ وہ آئینہ ہے

جس میں ہم

اپنے وجود کے اصل چہرے کو

دھندلا سا دیکھتے ہیں

پکڑنا چاہتے ہیں

مگر پکڑ نہیں پاتے

یہی تو ہے

وہ دائمی جستجو

جو کبھی ختم نہیں ہوتی

ٹائم ٹریول

وقت کے دھارے میں

چھپی ہے ایک راہ

جس پر ہم سفر کر سکتے ہیں

ماضی کی گلیوں میں

یا مستقبل کے جنگلوں میں

ایک قدم

اور پلٹ سکتے ہیں

اس لمحے میں

جو کبھی ہمارا تھا

یا چھو سکتے ہیں

اس وقت کو

جو ابھی آیا نہیں

کیا ہو

اگر ہم ماضی کو بدل دیں؟

کیا یادیں بھی بدل جائیں گی؟

یا وہ لمحے

پتھر کی طرح مضبوط ہیں

جو ٹوٹ تو سکتے ہیں

مگر اپنی شکل نہیں کھوتے؟

مستقبل کا سفر

کیا ہمیں وہ دکھائے گا

جو ہم بن سکتے ہیں؟

یا وہ سایے ہیں

جو ابھی تک نامکمل ہیں

اور ہر قدم

ایک نئے راستے کی طرف موڑ سکتا ہے؟

ٹائم ٹریول

محض ایک خواب

یا حقیقت کے قریب

ایک ایسا دروازہ

جو کھلتا تو ہے

مگر اس کے پیچھے

صرف سوالات کا جنگل ہے

جو بڑھتا جاتا ہے

وقت کا یہ کھیل

ہمیں بانٹ دیتا ہے

ماضی اور حال میں

ایک سفر

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

اور ہم

بس ان لمحوں کی گردش میں

کھو جاتے ہیں

جو کبھی تھے

یا کبھی ہوں گے

مگر اب نہیں

مہاتما بدھ

سکوت کی گہرائیوں میں

ایک روشنی کا چمکتا ستارہ

مہاتما بدھ،

جو حقیقت کی تلاش میں نکلے

دکھ کی وادیوں سے گزرتے ہوئے

انہوں نے سکھایا

کہ سکون صرف اندر کی دنیا میں ہے

چوپال کی گلیوں میں

جہاں زندگی کا شور تھا

وہ چلے ایک نیا راستہ

دھوکے اور خواہشات کے سائے

جن کا بوجھ

انسانیت کو کچل رہا تھا

ان کی آنکھوں میں

علم کی چمک اور

پرامن زندگی کا خواب تھا

“سب کچھ عارضی ہے”

یہ ان کی صدا تھی

ہر خوشی، ہر دکھ

جیسے ہوا کا جھونکا

بے خودی میں گزرنے والے

کیا جانتے تھے

کہ محبت اور علم

ان کے اندر ہی موجود ہیں؟

تدریس کی روشنی میں

انہوں نے دکھایا

کہ نیک اعمال

اور مہربانی کی راہ

ہی حقیقی آزادی کی کنجی ہے

محبت کی لہروں میں

بنے اس نے ایک عزم

جو سب کو ملا کر

امن کا پیغام بن گیا

مہاتما بدھ کا پیغام

انسانیت کے دلوں میں بسا

وہ علم کا سمندر

جو بہتا رہا

ہر ایک کے دل کو

سکون عطا کرتا رہا

وہ ایک چراغ تھے

جو آج بھی

ہمارے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں

ان کی سادگی

اور گہرائی

ہمیں یاد دلاتی ہے

کہ حقیقی خوشی

دوسروں کی خدمت میں ہے

اور محبت کی راہ پر

چلنا ہے

تاکہ ہم بھی

ان کے نقش قدم پر

پرامن دنیا کی تعمیر کر سکیں

افلاطونی محبت

چاہت کی ایک عجیب دنیا

جہاں جسم کی قید سے آزاد

محبت کی پرواز

نہ رنگ کا پھیراؤ

نہ شکل کا قیدی

صرف روح کا رشتہ

اور دل کی سچائی

یہ محبت

ایک خواب کی مانند ہے

ایک خیال،

جو دل میں سرگوشی کرتا ہے

نظروں کی گہرائیوں میں

بنا ہوا ایک پل

جو دو دلوں کو جوڑتا ہے

محبت کی زبان میں

الفاظ کی ضرورت نہیں

افلاطونی محبت

جسمانی تعلقات سے مبرا

ایک عظیم احساس

جو روح کو سیراب کرتا ہے

جہاں محبت کی چاشنی

ہر بات میں گونجتی ہے

ایک دوسرے کی آنکھوں میں

دیکھنے سے بڑھ کر

دل کے آئینے میں

خود کو پانا

یہ عشق،

محبت کی اعلیٰ شکل

جہاں دو روحیں

ایک دوسرے کی تکمیل ہیں

نہ کوئی مادی خواہش

نہ کوئی عارضی لذت

صرف خلوص اور سچائی

جو وقت کی قید سے آزاد ہے

افلاطونی محبت

ایک روشنی کی کرن

جو اندھیروں میں چمکتی ہے

ایک سفر

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

چاہے فاصلہ ہو یا وقت

دل کی گہرائیوں میں

وہ محبت ہمیشہ زندہ رہتی ہے

یہی تو ہے

محبت کی اصل بنیاد

جو روحوں کو جڑتا ہے

اور زندگی کو معانی دیتا ہے

جسمانی محبت

آنسوؤں کی چمک میں

چاہت کی لہر دوڑتی ہے

جہاں جسم کی حدود

محبت کی گہرائیوں میں کھلتی ہیں

ایک چھوٹی سی دنیا

جہاں صرف تم اور میں ہیں

ہوا کی سرگوشیاں

اور دل کی دھڑکنیں

ہاتھوں کی گرمی

لبوں کی نرم چھوئیں

ہر لمس میں

ایک داستان پوشیدہ

یہ جسموں کی باتیں

پھر بھی روحوں کا رقص

ایک نازک توازن

جہاں دو دل ملتے ہیں

محبت کی شدت

نرمی میں بکھر جاتی ہے

مکاشفہ کی ایک نئی شکل

ایک دوسرے کے قریب

وقت جیسے رک جاتا ہے

چہرے پر چمک

اور آنکھوں میں خواب

جو خاموشی سے باتیں کرتے ہیں

یہ جسمانی محبت

محض خواہش کا نام نہیں

بلکہ ایک گہرائی ہے

جو روح کے عریاں ہونے کا احساس دیتی ہے

جہاں ہر لمس میں

خوابوں کی دنیا بستی ہے

محبت کی ایک نئی جہت

جو دلوں کو جڑتا ہے

یہاں ہر لمحہ

پھر ایک وعدہ ہے

آج کی رات کا

محبت کی لہروں میں

غرق ہونے کا

جہاں جسم کو چھوڑ کر

روحیں آسمانوں کی بلندیوں پر اڑتی ہیں

ایک سفر

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

یہی تو ہے

جسمانی محبت کی حقیقت

ریچھ اور کتے کی لڑائی

ایک دن کی شام

جب سورج اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا

جنگل کی خاموشی میں

دو طاقتور مخلوقوں کا سامنا ہوا

ایک طرف تھا

ایک بڑا ریچھ،

جس کی آنکھوں میں

خود اعتمادی کی چمک تھی

دوسری طرف

ایک چالاک کتا،

جس کی وفاداری

ہر لمحے محسوس ہوتی تھی

ریچھ کی دھمکی

جنگل کے ہر کونے میں گونجی

لیکن کتے نے

خوف کو پس پشت ڈالتے ہوئے

اپنی بہادری دکھانے کا عزم کیا

دونوں کے درمیان

ایک لمحہ،

جہاں ہوا نے سانس روک لیا

ایک چنگاری چمکی

اور جنگل کی زمین پر

لڑائی کا آغاز ہوا

کتے نے پھرتی سے

ریچھ کی جانب چھلانگ لگائی

لیکن ریچھ کی طاقت

جنگل کی طاقتور نشانی تھی

وہ اپنی طاقت سے

کتے کو پیچھے دھکیلتا

آہستہ آہستہ

لڑائی کی شدت بڑھتی گئی

ایک شور، ایک گرج

زمین کو ہلا دینے والی

لیکن کتا

اپنی چالاکی سے

ریچھ کی طاقت کو

اپنی سرعت سے بھٹکاتا

دو طاقتوں کی اس ٹکر میں

وفاداری اور طاقت

ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے

کتنے لمحے گزرے

یہ جاننے کے بغیر

کہ کون جیتے گا،

کون ہارے گا

آخرکار

دونوں نے ایک لمحے کی خاموشی میں

ایک دوسرے کو دیکھا

ایک خاموشی جو

مکالمے کی صورت بن گئی

پھر اچانک

کتنے میں ایک ہنکار

اور ریچھ نے اپنی طاقت سے

کتا کو ایک طرف دھکیل دیا

کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو

کبھی کبھار طاقت ہی جیتتی ہے

ریچھ کی فتح کے بعد

کتا پیچھے ہٹ گیا

لیکن اس کی آنکھوں میں

خود اعتمادی کا جھماکا تھا

کیونکہ ہر لڑائی

کسی نہ کسی سبق کے ساتھ ختم ہوتی ہے

کہ طاقت کے ساتھ ساتھ

چالاکی اور وفاداری بھی

زندگی کے میدان میں اہم ہیں

یہی ہے

ریچھ اور کتے کی لڑائی کی کہانی

جنگل کے قانون کی ایک مثال

جہاں جیت اور ہار

صرف ایک لمحے کی بات ہے

خزاں رت کی اداسی

خزاں کا موسم آتا ہے

درختوں سے پتے یوں جھڑتے ہیں جیسے کسی خواب کا رنگ آہستہ آہستہ مٹ رہا ہو

ہوا میں ایک عجیب سی خاموشی ہوتی ہے

جیسے قدرت نے اپنی ساری زندگی کو سمیٹ لیا ہو اور اب بس ایک لمحہ سکون میں ٹھہر گئی ہو

ہر طرف زردی چھائی ہوتی ہے

یہ زردی زندگی کی نہیں موت کی علامت لگتی ہے

ایک اداسی جو ہر شے پر طاری ہے

جیسے یہ پتے زمین پر گر کر بھی کچھ کہہ رہے ہوں

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دل بھی جیسے اس فطرت کی اداسی کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے

وہ خواہشیں وہ خواب جو کبھی بہار کی طرح کھلے تھے

اب خزاں کی ہواؤں میں بکھر گئے ہیں

یہ موسم دل کے کونے میں دبی ہوئی یادوں کو بھی جگا دیتا ہے

جیسے کسی پرانی کتاب کے بوسیدہ ورق پلٹ جائیں اور ہر لفظ ایک کہانی بیان کرنے لگے

یہ اداسی ایسی ہے جیسے کوئی انمول چیز کھو دی ہو

جیسے زندگی سے کچھ چھن گیا ہو اور اب وہ واپس نہیں آ سکتا

مگر اس اداسی میں بھی ایک عجیب سی خوبصورتی ہے

یہ سکون دیتی ہے

یہ یاد دلاتی ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے

اور خزاں بھی زندگی کا حصہ ہے

جہنم میں ایک دن

آگ کے شعلے لپکتے ہیں

جلتی ہوا میں سانس لینا بھی مشکل ہے

جلتی زمین پر چلتے قدموں میں زنجیریں ہیں

ہر سانس میں درد ہر پل میں عذاب

کوئی سایہ نہیں کوئی پناہ نہیں

چیخیں ہیں جو کبھی رکتی نہیں

آوازیں ہیں جو کبھی خاموش نہیں ہوتیں

یہاں وقت تھم چکا ہے لمحے بے معنی ہیں

گناہوں کا بوجھ کندھوں پر بھاری

دل کی دھڑکن خوف کی لپیٹ میں

آنکھیں بند بھی ہوں تو خواب نہیں بس آگ کا سمندر

یہاں کوئی راہ فرار نہیں

بس انتظار ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا

ایک دن جو ہمیشہ کے برابر ہے

جہنم میں ایک دن

کبھی نہ ختم ہونے والا دن

ہیجڑا

نہ مرد، نہ عورت

نہ کسی صنف کی پہچان

بس وجود کا بوجھ

جسے وہ ہر روز اٹھائے پھرتا ہے

جسم میں سانس تو ہے

مگر زندگی کہیں دور کھڑی ہے

نہ کوئی آواز

نہ کوئی پکار

بس خاموشی کا زخم

جو ہر لمحے گہرا ہوتا جاتا ہے

اس کے اندر ایک چیخ ہے

جو باہر نکلنا چاہتی ہے

مگر زبان قفل ہے

دھتکار کی گونج

اس کے کانوں میں روز بجتی ہے

ہر نگاہ میں نفرت

ہر ہنسی میں تمسخر

جیسے وہ انسان نہیں

بس ایک تماشا ہے

جس کا کوئی دل نہیں

کوئی خواب نہیں

خواہشیں دل میں آ کر

سسکیاں بھر کر لوٹ جاتی ہیں

محبت کے لمس کو ترستا وہ وجود

جیسے صدیوں کا پیاسا

لیکن کوئی پانی نہیں

کوئی قطرہ نہیں

نہ سینہ، جہاں وہ رو سکے

نہ وہ ہاتھ، جو اس کے آنسو پونچھے

بس تنہائی کا عذاب

جو ہر پل کا ساتھی ہے

وہ چلتا ہے

مگر ہر قدم بوجھل

ہر راستہ سنسان

منزل جیسے کبھی تھی ہی نہیں

کبھی خواب تھا

یا شاید فریب

اس کے اندر جو دل ہے

وہ بھی اب سوال کرتا ہے

کہ کیا وہ زندہ ہے؟

یا محض سانسوں کا بوجھ

بس ایک سایہ

جو روشنی میں بھی اندھیرا ہے

اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں

بس درد ہے

جو دل کے اندر چھپ کر

ہر روز نوحہ کرتا ہے

وہ کون ہے؟

یہی سوال ہے

جو ہر پل اس کے اندر

ایک آگ کی طرح جلتا ہے

اور وہ، اس آگ میں جلتا ہوا

خاموشی سے پگھلتا جاتا ہے

بے نام بے نشان

تیسری دنیا

تیسری دنیا

یہاں خواب دھول میں لپٹے ہیں

یہاں آسمان کا رنگ

گہرے سرمئی بادلوں میں گم ہے

یہاں زندگی سانس لیتی ہے

مگر زندہ نہیں لگتی

یہاں بھوک کے دیپ جلتے ہیں

اور امیدوں کے چاند

کھڑکیوں سے دور کہیں ڈوبتے ہیں

محنت کی چکّی میں پیسنے والے ہاتھ

پھٹے ہوئے دامن کو سلتے ہیں

مگر تقدیر کا کپڑا چھوٹا ہی رہتا ہے

یہاں بچپن

جلدی بڑے ہو جاتے ہیں

اور خوابوں کا بوجھ

کندھوں پہ محسوس کرتے ہیں

کہیں تعلیم کے صفحے

پانی میں بہہ جاتے ہیں

اور کہیں خواب

گلیوں کی خاک میں رُل جاتے ہیں

یہاں سوال بہت ہیں

مگر جواب خاموش ہیں

آوازیں اٹھتی ہیں

مگر سننے والے کان بند ہیں

یہاں روشنی ہے

مگر اندھیرے کی قید میں

یہاں ترقی کی باتیں ہیں

مگر حقیقت میں

قدم وہیں کے وہیں ہیں

یہ تیسری دنیا ہے

جہاں سانس لینا زندگی ہے

اور جینا ایک خواب

کوانٹم فزکس

کوانٹم کی دنیا، ایک راز بھری داستان

جہاں ذرات میں چھپے ہیں لاکھوں جہان

نہ کوئی ٹھوس حقیقت، نہ کوئی مکمل گمان

ہر لمحہ نیا، ہر پل ایک امکان

روشنی کبھی ذرے، کبھی موج بنے

چھوٹے الیکٹران کبھی آئیں، کبھی چھپیں

فاصلے کی قید میں بھی آزادی کا سرور

کائنات کے ہر گوشے سے جڑے ہیں سب دستور

نیوٹن کے قوانین یہاں خاموش کھڑے

ہر ذرے کا اپنا ایک سفر، ایک کھیلا

پروٹون اور نیوٹران کے بیچ کی باتیں

عجیب رقص میں مگن، انمول حرکاتیں

یہاں وقت بھی رکتا، یہاں وقت بھی چلتا

ایک ہی لمحے میں سب کچھ بدلتا

غیب کی چادر میں لپٹا ہر سوال

جواب کہیں پر، مگر رسائی بے مثال

کوانٹم کی کہانی میں چھپا ہے کائنات کا راز

ایک لمحہ میں دنیا، دوسرے میں اک آغاز

ہر ذرے میں ایک خواب کی جھلک

یہ ہے قدرت کا کھیل، اک لامتناہی پلک

پریوں کی کہانی

ایک خواب سی دنیا،

جہاں ہر شے میں ہے جادو

پہاڑوں کے پیچھے چھپے جنگل

شیشے کی جھیلوں پر اڑتی ہوئی روشنی

اور ہوا میں تحلیل ہوتی سرگوشیاں

پریوں کے پروں کی نرم سرسراہٹ

رات کی چاندنی میں رقص کرتی،

جھلملاتی، خوشبو میں لپٹی

ایک مسکراہٹ کی مانند

جو پل میں چھپ جائے، پل میں ظاہر ہو

وہ دنیا جہاں وقت ٹھہر جاتا ہے

اور پلک جھپکتے ہی

نئی راہیں کھل جاتی ہیں

پتوں کی سرسراہٹ میں

کوئی بھولا ہوا راز

یا ہوا کے جھونکے میں

چھپا ہوا کوئی پیغام

پریوں کی کہانی

صرف بچپن کا خواب نہیں

بلکہ دل کی گہرائی میں چھپی

وہ خواہش

جو ہمیں سحر کی دنیا کی طرف بلاتی ہے

جہاں ہر خواب ممکن

ہر خیال حقیقت بن سکتا ہے

پریوں کی دنیا

ہمیں یاد دلاتی ہے

کہ کبھی کبھی

حقیقت سے پرے

ایک جادوئی دنیا بھی ہوتی ہے

جو بس ہمیں دیکھنے کی دیر میں چھپی ہوئی ہے

پریوں کے پروں کے نیچے، خوابوں کی چمک میں

برگد کا درخت

پرانے وقتوں کی ایک داستان

اپنی جڑوں میں چھپائے ہوئے صدیوں کا سفر

پھیلی ہوئی شاخیں، جیسے کائنات کی وسعتیں

اور زمین میں گہرائی تک اترتی ہوئی جڑیں

جو ماضی سے رشتہ جوڑتی ہیں

اس کی چھاؤں میں وقت ٹھہر سا جاتا ہے

بوڑھے برگد کے نیچے بیٹھے قصے سنانے والے

جن کی باتوں میں صدیوں کا علم

اور آنکھوں میں گزری یادوں کی جھلک

برگد کے سائے میں

دن ڈھلتا ہے، رات اترتی ہے

مگر درخت ویسا ہی کھڑا رہتا ہے

شانت، گہرا، اپنے اندر ایک پوری دنیا لیے

ہر پتہ، ہر شاخ، وقت کی کہانی سناتا

جیسے کوئی خاموش گواہ

برگد کے تنے سے لپٹ کر

محسوس ہوتا ہے جیسے زمین کا دل دھڑک رہا ہو

ہر جڑ میں دھڑکتی ایک صدی

ہر شاخ میں جھومتی زندگی

یہ درخت

بس ایک درخت نہیں

بلکہ زمین کی گود میں چھپی ایک پرانی داستان

جس میں وقت کی پرچھائیاں،

اور زندگی کی گہرائیاں

ہمیشہ ساتھ چلتی ہیں

مثلث

ایک سادہ شکل مگر بے شمار رازوں کی حامل

تین طرفیں تین زاویے اور ایک دلکش توازن

اس کی بنیاد میں چھپا ہے استحکام

اور اوپر کی جانب بڑھتا ہوا خوابوں کا سفر

ہر طرف کا ایک الگ منظر

ہر زاویے کی کہانی

جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں

جیسے زندگی کے مختلف پہلو

جو ایک ہی حقیقت کو بیان کرتے ہیں

مثلث کی سادگی میں ایک پیچیدگی ہے

جس میں چھپے ہیں خفیہ معانی

چاہے وہ ریاضی کی دنیا ہو

یا فنون لطیفہ کی بات

مثلث ہمیشہ ایک منفرد مقام رکھتا ہے

یہ صرف ایک شکل نہیں

بلکہ توازن اور ہم آہنگی کا علامت ہے

جہاں تین عناصر مل کر

ایک نئی زندگی کی تخلیق کرتے ہیں

اور ہر گوشہ ہر زاویہ

کسی نئے خیال کا آغاز بن جاتا ہے

مثلث ہمیں سکھاتا ہے

کہ سادگی میں بھی ایک خوبصورتی ہوتی ہے

اور زندگی کے تین بنیادی پہلو

محبت علم اور خواب

ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں

اور مل کر ہی ہمیں ایک مکمل تصویر دیتے ہیں

مرزا غالب

شاعری کی دنیا کا ایک درخشاں ستارہ

جو لفظوں کے جال میں بُنے گئے خوابوں کی طرح

دل کی گہرائیوں سے نکل کر

محبت، درد اور حقیقت کی تصویر کشی کرتا ہے

اس کی غزلیں

درد کی شاعری میں جڑی ہوئی

جیسے ہر شعر میں چھپا ایک راز

زندگی کی تلخی اور محبت کی مٹھاس

اس کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے

مرزا کا کلام

نہ صرف اردو کا سرمایہ ہے

بلکہ انسانی جذبات کی عکاسی بھی

اس کی سوچوں میں کھلتا ہے

کائنات کا ہر پہلو، ہر احساس

وہ کسی اور دور میں زندہ تھا

مگر اس کی آواز آج بھی سنائی دیتی ہے

ایک چراغ کی طرح، جو کبھی مدھم نہیں ہوتا

ہر نسل کے دلوں میں روشنی بکھیرتا ہے

اور محبت کا ایک نیا مفہوم پیش کرتا ہے

مرزا غالب

صرف ایک شاعر نہیں

بلکہ ایک فلسفی، ایک داستان گو

جس نے زندگی کی سچائیوں کو

الفاظ کی خوبصورت شکل دی

اور ہمیں سکھایا کہ

درد اور محبت کا سفر

ہمیشہ جاری رہتا ہے

ایک لامتناہی داستان کی طرح

جو کبھی ختم نہیں ہوتی

شریک حیات

زندگی کا ایک خوبصورت سفر

جہاں دل کی دھڑکنیں

ایک ہی سر میں گنگناتی ہیں

محبت کی گلیوں میں

ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے

آگے بڑھنے کا عہد

وہ ایک دوست، ایک ساتھی

جو خوشیوں کے لمحوں میں

ہنستی ہے اور گیت گاتی ہے

اور دکھ کے لمحات میں

ایک سکون کی صورت

دل کو تسلی دیتی ہے

شریک حیات کا پیار

سورج کی روشنی کی مانند

ہر صبح کو نئی امید دیتا ہے

رات کی چاندنی میں

پیار کے خواب سجاتا ہے

زندگی کی کتاب کے ہر صفحے پر

محبت کے رنگ بکھیرتا ہے

وہ ایک خوبصورت کہانی

جو وقت کے ساتھ بڑھتی ہے

ہر دن ایک نیا باب

ہر لمحہ ایک نیا احساس

پھولوں کی خوشبو سے مہکتا

اور چاند کی چمک میں چمکتا

شریک حیات، زندگی کی سب سے قیمتی نعمت

جس کے بغیر دنیا خالی سی لگتی ہے

شریکِ حیات ایک راز

جو ہر پل میں رنگ بھرتا ہے

اور محبت کی دھن پر رقص کرتا ہے

ہمیشہ ساتھ رہنے کا وعدہ

ایک سفر کی مانند

جو کبھی ختم نہیں ہوتا

موت

زندگی کی راہوں میں

موت کا سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے

ابتدا سے انتہا تک

روشنی کی چمک میں بھی

اندھیرے کی گہرائیوں میں بھی

موت کوئی غمگین بات نہیں

یہ تو ایک نیا آغاز ہے

سوال یہ نہیں کہ موت کیسے آتی ہے

بلکہ یہ ہے کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے

چلتے چلتے ہم اکثر بھول جاتے ہیں

کہ یہ زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی

مگر موت ہمیں یاد دلاتی ہے

کہ اصل میں زندگی کیا ہے

الہام و کشف

کائنات کی خاموشی میں چھپے ہوئے راز

روح کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے

کہاں سے آتا ہے یہ الہام

کون سا جھونکا ہے جو دل کو جگاتا ہے

چاندنی رات میں

جب ستارے چپکے چپکے بولتے ہیں

پھر وہ لمحے آتے ہیں

جب حقیقت کی چادر اترتی ہے

اور خوابوں کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں

کچھ لمحے ہیں

جب خیالوں کی دنیا میں

روشنی کی کرنیں بکھرتی ہیں

اور دل کی کثافتیں دھل جاتی ہیں

یہی ہے کشف

یہی ہے الہام

کبھی تو یہ ہوا کی سرگوشی میں

کبھی خاموشی کی گہرائیوں میں

ہمیں خود سے ملاتا ہے

ان دیکھی راہوں کی طرف لے جاتا ہے

یہ نازک لمحے

یہ پروازیں

ہمیں خود سے متعارف کراتی ہیں

ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ

چپکے چپکے خوابوں کی دنیا میں

ہر آہٹ  ہر سرگوشی

کائنات کا ایک راز ہے

یہی الہام ہے

یہی کشف ہے

جو ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے متعارف کرتا ہے

اور دل کی گہرائیوں میں

ایک نئی روشنی بکھیرتا ہے

دجال

وہ ایک سایہ ہے جو زمین پر چھا جاتا ہے

اپنے دلفریب چہرے سے ہر دل کو لبھاتا ہے

خوابوں کی دنیا میں چلتے ہوئے قدموں کی آہٹ

خود کو خدا کا پیغمبر کہتا ہے

اس کی آنکھوں میں چمک ہے

لیکن اس کے دل میں تاریکی چھپی ہے

وہ آتا ہے نیکی کا لبادہ اوڑھ کر

لیکن اس کی باتوں میں فریب کی خوشبو ہے

دنیا کے لالچ میں بے شمار لوگ کھینچے جاتے ہیں

دولت اور عیش و عشرت کی جال میں پھنس جاتے ہیں

وہ دکھاتا ہے خوابوں کی رنگین دنیا

لیکن حقیقت کی آغوش میں سب کچھ کھو دیتے ہیں

خود کو نجات دہندہ سمجھنے والے

سچائی کی چادر کو بھول جاتے ہیں

وقت کے اس جال میں

کتنے ہی انسانیت کے چہرے مسکراہٹوں کے پیچھے چھپے ہیں

لیکن یاد رکھو

یہ صرف ایک امتحان ہے

یہ صرف ایک دھوکا ہے

سچائی ہمیشہ زندہ رہے گی

اور حق کا علم کبھی مٹے گا نہیں

دجال کا دور بھی گزر جائے گا

لیکن ایمان کا چراغ کبھی مدھم نہیں ہوگا

حق اور باطل کی اس جنگ میں

ہمیں اپنی راہ کو درست رکھنا ہے

اور اپنے دل میں سچائی کا نور جگانا ہے

آٹھواں عجوبہ

دنیا کے سات عجوبے سبھی جانتے ہیں

پتھر، لوہا، فن، اور ہاتھ کی صفائی

لیکن ایک عجوبہ ایسا ہے

جو نظر سے اوجھل ہے

نہ کتابوں میں لکھا

نہ تاریخ کے صفحات میں درج

آٹھواں عجوبہ وہ ہے

جو ہر روز پیدا ہوتا ہے

مگر کبھی مر نہیں پاتا

ہمارے دلوں میں، ہمارے دماغوں میں

یہ عجوبہ ہے

انسان کا خواب دیکھنے کی طاقت

جو وقت کی گردش کو روکنے کا ہنر رکھتا ہے

جو وقت کے دھارے میں

اپنے لیے راستے بنا لیتا ہے

یہ عجوبہ ہے

ہماری بے چینی، ہماری تڑپ

جو ہمیں وہ کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے

جو ناممکن لگتا ہے

یہ عجوبہ ہے

ہمارے اندر کا وہ شور

جو خاموشی کو توڑ دیتا ہے

اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیتا ہے

آٹھواں عجوبہ

نہ دیواروں میں قید ہے، نہ ستونوں میں

یہ تو ہمارے اندر ہے

ہمارے خوابوں میں، ہماری خواہشوں میں

یہ عجوبہ وہ ہے

جو ہمیں خود سے بڑا بناتا ہے

جو ہمیں ناممکن کو ممکن کرنے کی ہمت دیتا ہے

اور شاید

یہی اصل عجوبہ ہے

جس نے سات عجوبے تخلیق کیے ہیں

انعکاس

آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر

اپنا چہرہ دیکھتا ہوں

وہی آنکھیں، وہی ناک، وہی ہونٹ

لیکن کچھ اور بھی ہے

ایک گہرا عکس

جو صرف میری ظاہری شکل نہیں،

میرے اندر کے حال کو بھی ظاہر کرتا ہے

یہ عکس

صرف ایک شبیہہ نہیں

یہ میرے خیالات کا، میری یادوں کا

میرے خوف اور خوابوں کا عکس ہے

جس میں چھپے ہیں وہ راز

جو میں خود سے بھی چھپانے کی کوشش کرتا ہوں

انعکاس

صرف روشنی کی بازی نہیں

یہ تو میری زندگی کی کہانی ہے

جو ہر بار مختلف لگتی ہے

کبھی روشن، کبھی دھندلی

کبھی مکمل، کبھی ادھوری

آئینہ ہمیشہ سچ بولتا ہے

مگر کبھی کبھی

میں اس سچ کو دیکھنا نہیں چاہتا

جو میرے دل کی گہرائیوں میں چھپا ہوتا ہے

آئینہ تو بس انعکاس کرتا ہے

لیکن

کیا میں اپنے اندر کے عکس کو سمجھ سکتا ہوں؟

یا یہ عکس ہمیشہ دھندلا ہی رہے گا؟

راہبہ

خاموشی میں لپٹی ہوئی

ایک تنہا وجود

چادر میں چھپی، سر جھکائے

راہبہ اپنے اندر کی دنیا میں سفر کرتی ہے

کلیسا کی دیواروں کے اندر

وہ ایک خاموش دعا ہے

ایک بے آواز فریاد

دنیا سے دور، خواہشوں سے ماورا

راہبہ کی زندگی

ایک راستہ ہے

جو ہمیشہ اندر کی طرف جاتا ہے

جہاں کوئی شور نہیں

کوئی ہنگامہ نہیں

صرف دل کی دھڑکن

اور روح کی صدائیں

اس کے قدموں کی چاپ

چپکے سے عبادت کی گلیوں میں گونجتی ہے

وقت جیسے تھم سا جاتا ہے

اور وہ

سکون کی تلاش میں

اپنی ذات کی گہرائیوں میں ڈوب جاتی ہے

راہبہ

اپنے آپ کو دنیا سے کاٹ کر

ایک بلند مقصد سے جوڑ لیتی ہے

مگر اس کا دل بھی

کبھی کبھی دھڑکتا ہے

کسی انجانی چاہت کے لیے

کسی نامعلوم خواب کے لیے

جو شاید کبھی پورا نہ ہو

لیکن وہ جانتی ہے

کہ اس کی زندگی

قربانی ہے

اور اس قربانی میں

اسے وہ آزادی ملتی ہے

جو دنیا کی ہر قید سے بلند ہے

راہبہ

اپنے اندر کے سکون کی مجسم تصویر ہے

جو ہر چیز کو خاموشی سے قبول کرتی ہے

اور پھر

اسے خدا کے قدموں میں رکھ دیتی ہے۔

حجروں کی کہانی

قدیم دیواروں کے اندر

گہرے سناٹے میں لپٹے حجرے

جہاں وقت ٹھہر سا گیا ہے

یہاں زندگی کی ہلچل نہیں

صرف سانسوں کی مدھم آواز

اور سوچوں کا سمندر

حجروں کی دنیا

ایک الگ کائنات ہے

جہاں خواب اور حقیقت آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں

یہ حجرے

کہانیاں سناتے ہیں

ان لوگوں کی

جنہوں نے خود کو یہاں قید کیا

نہ زنجیروں میں جکڑے گئے

نہ کسی کے حکم سے بند ہوئے

یہ اپنی مرضی کی قید تھی

ایک خاموش بغاوت

دنیا کے شور سے،

خواہشوں کی جنگ سے

ایک ایسی قید

جو دراصل آزادی تھی

حجروں کی کہانی

خوابوں کی نہیں

بلکہ جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے حقائق کی ہے

یہاں ایک کتاب پڑی ہے

جس کے صفحے وقت کی گرد میں چھپے ہیں

یہاں ایک چراغ جلتا ہے

جو روشنی سے زیادہ سایے دیتا ہے

ان حجروں میں

خاموشیاں بولتی ہیں

اور تنہائیاں مسکراتی ہیں

یہاں ہر دیوار

ایک راز چھپائے ہوئے ہے

ہر دروازہ

ایک نئی دنیا کی دہلیز پر لے جاتا ہے

لیکن وہ دنیا باہر کی نہیں

اندر کی ہے

حجرے

صرف اینٹ اور پتھر کا نام نہیں

یہ تو وہ مقام ہیں

جہاں انسان خود سے ملتا ہے

اپنے اندر کے سچ کو دیکھتا ہے

اور شاید

اس سچائی کو پا لیتا ہے

جو دنیا کی ہلچل میں کھو گئی تھی۔

دریائے گنگا جمنا: ایک سفرِ خاموش

گنگا اور جمنا

دو بہنیں

جن کی داستان صدیوں پر محیط ہے

یہ دریا نہیں

تاریخ کی گود میں لیٹے ہوئے گواہ ہیں

دونوں کناروں پر پھیلے ہوئے قصے

انسان کی اڑان

اس کے زوال اور اس کی امیدوں کا عکس ہیں

گنگا مقدس اور پرسکون

جیسے کسی ماں کی آغوش میں سونا

وہ اپنے راستے میں آنے والے ہر چہرے کو سکون اور محبت سے دھوتی ہے

اس کے کنارے دعائیں

چرنوں کی چھاپ اور دیپک کی لو

سب مل کر ایک سرگم باندھ دیتے ہیں

وہ انجان مسافروں کو بھی وہی محبت دیتی ہے

جو برسوں سے اس کے دامن میں بیٹھنے والوں کو ملی ہے

جمنا قدرے شوخ

بہتی ہوئی نوجوانی کی طرح

اس کا پانی ایک عجیب سی تڑپ لیے ہوتا ہے

جیسے اسے کہیں پہنچنا ہو

کسی گمشدہ خواب کی تلاش میں

وہ اپنے راستے میں موجود ہر رکاوٹ کو جیسے ہنس کر پار کرتی ہے

خود سے باتیں کرتی ہے

اور اپنے کناروں کو نئی کہانیاں سناتی ہے

گنگا اور جمنا کا ملنا

ایک ایسا لمحہ ہے جب دو دنیائیں آپس میں ملتی ہیں

دونوں کا بہاؤ ایک دوسرے میں ضم ہوتا ہے

جیسے دو مختلف شخصیات کی روحیں آپس میں گھل مل گئی ہوں

گنگا کی محبت اور جمنا کی جوش

دونوں مل کر ایک نئی ہستی کو جنم دیتی ہیں

یہ ملاپ صرف پانی کا نہیں

بلکہ روحوں کا ہے

وہ روحیں جو ابدیت کے سفر پر روانہ ہوتی ہیں

کنارے کے پتھر

مٹی

اور درخت

خاموشی سے دیکھتے ہیں

وہ جانتے ہیں کہ یہ سفر رکتا نہیں

یہ پانی ہمیشہ بہتا رہے گا

کبھی سکون سے

کبھی جوش میں

مگر ہمیشہ آگے کی جانب

گنگا اور جمنا

تاریخ کی دو دھاریں

جن کا سفر جاری ہے

اور شاید ہمیشہ جاری رہے گا

دریائے راوی

راوی وہ دریا ہے

جس کی گہرائی میں صدیوں کی کہانیاں پوشیدہ ہیں

یہ شہر لاہور کے ساتھ جڑی ہوئی روح ہے

کبھی جوش و ولولے سے بھرا یہ دریا

آج وقت کی چپ کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ہے

ایک وقت تھا جب اس کے کنارے محبت کے قصے پروان چڑھتے تھے

جہاں کچے گھروں کی روشنی اور مٹی کی خوشبو آپس میں گُھل جاتی تھی

اب کناروں پر پتھروں کی چپ لگی ہے

پانی کی وہ آواز جو کبھی دلوں کو سکون بخشتی تھی

اب مشینی شور میں کہیں دب سی گئی ہے

اور راوی کے پانی میں وہ چمک

جو کبھی آسمان کا عکس ہوا کرتی تھی

اب دھندلا سا منظر بن چکی ہے

لیکن یہ دریا اب بھی زندہ ہے

شاید تھکا ہوا

شاید زخمی

لیکن زندہ

اس کے اندر وہی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں

جو ہوا کے جھونکے کے ساتھ سنائی دیتی ہیں

چائے خانہ

چائے خانہ ایک چھوٹا سا عالم ہے

جہاں زندگی کی تیز رفتاری تھم جاتی ہے

دھوئیں کے مرغولے، چائے کی مہک

اور دوستوں کی ہنسی

سب مل کر ایک خوشگوار محفل بناتے ہیں

کبھی ایک پیالی چائے کے گرد بیٹھ کر

آنسوؤں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں

کبھی خوابوں کی تعبیر پر بات ہوتی ہے

یہاں ہر چہرے پر ایک سکون ہے

دھوپ کی کرنیں جب چائے کی پیالی میں

رقص کرتی ہیں تو دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے

چائے خانہ صرف ایک جگہ نہیں

یہ خوابوں کا ایک جزیرہ ہے

جہاں لمحے رکتے ہیں

چائے کی چسکی کے ساتھ

زندگی کی تلخیوں کو بھلایا جاتا ہے

یہاں ہر کوئی اپنی کہانی کا ہیرو ہے

اور چائے ایک دل کا دوست

جو درد کو کم کرتا ہے

اور خوشیوں کو بڑھاتا ہے

چائے خانہ کی زندگی میں

محبت اور دوستی کی چاشنی ہے

یہاں ہر پیالی میں ایک امید ہے

کہ کل کا دن بہتر ہوگا

اور چائے کی مہک

ہمیشہ دل کو بہلائے گی

بھیڑیے

یہ بھیڑیے رات کی خاموشی میں چپکے چپکے چلتے ہیں

ان کی آنکھوں میں جنگل کی چمک، اور دل میں بھوکے پن کی سچائی ہوتی ہے

یہ اپنے شکار کے پیچھے گزرے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہیں

ان کی موجودگی میں ہوا بھی سہم جاتی ہے۔

دور تک پھیلا ہوا اندھیرا

صرف بھیڑیوں کی بھوک کو نہیں چھپاتا

بلکہ انسان کی کمزوریوں کو بھی نمایاں کرتا ہے

یہ بھوکے ہوتے ہیں نہ صرف جسم کے لئے

بلکہ روح کی تاریکی کو چیرنے کے لئے

یہ بھیڑیے، ایک دوسرے کے ساتھ

محنت کی طاقت کے ساتھ

گھر بنانے کی کوشش کرتے ہیں

ایک جماعت، ایک عزم

پھر بھی، ایک دوسرے کے لئے خطرہ

کہانی میں بھیڑیے

ایک ہی وقت میں

خوف اور وفاداری کی علامت ہیں

وہ بھاگتے ہیں اور پھر آتے ہیں

دنیا کے اس اندھیروں میں

مگر کیا ہم بھی نہیں

کیا ہم بھی اس جنگل کا حصہ نہیں ہیں

جہاں خوف، خواہش، اور بقاء کی جنگ چلتی ہے

جہاں بھیڑیے صرف جنگل کے نہیں

ہمارے اندر بھی رہتے ہیں

تموچن

تموچن ایک نام جو زمین کی تاریخ میں گونجتا ہے

چنگیز خان جس کی کہانیوں میں طاقت اور وحشت کا سنگم ہے

گھڑ سواروں کی تیز رفتاری

تلواروں کی چمک اور جنگلوں میں گونجتی دھمک

یہ سب اس کی میراث ہیں

ایک نوجوان کی صورت میں

چاند کی چمک کے نیچے

تموچن نے اپنی زندگی کی پہلی قید کی

نئے عزم کی دھندلی سی تصویر بنائی

وہ جیت کے لئے جنگ لڑتا رہا

دوستی اور دشمنی کی لکیریں مٹاتا ہوا

ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھتا ہوا

اس کی بصیرت نے اسے عظیم بنایا

اس کی حکمت نے اسے طاقتور

لیکن ساتھ ہی

اس کے دل میں چھپی ہوئی تشنگی بھی تھی

ایک ایسا خالی پن جو فتحوں سے بھی بھرا نہیں ہوتا

چنگیز خان کی فتح کی راہوں میں

انسانیت کے مختلف رنگ

عزت و ذلت محبت و نفرت

سب کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں

ہر قدم پر وہ دشمنوں کا سامنا کرتا

اور اپنے قبیلے کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دیتا

لیکن آخر میں

تموچن چنگیز خان

ایک انسان ہے

جو خود کو تاریخ کے ستم کا شکار پایا

اس کی طاقت اس کی عظمت

اس کے اندر کی کمزوریوں کے سایے میں چھپی ہوئی ہے

اس کا نام ایک عہد کی داستان ہے

ایک ایسی کہانی جو آج بھی زندہ ہے

جہاں بھیڑیوں کی مانند وہ ہر دل میں بسا ہوا ہے

آزادی طاقت اور زندگی کی جستجو میں

یزید

یزید ایک نام جو تاریخ کے صفحات پر بکھرا ہوا ہے

ایک بادشاہ، ایک حکمران

مگر اس کی کہانی میں جیت اور شکست کا ملاپ ہے

جو بھی اس کے قریب آیا

اس کے ساتھ ایک سوال آیا

کیا یہ حقیقت ہے یا افسانہ

وہی یزید، جس کی زندگی نے

خاندان کی روایات اور سیاسی کھیل کا سامنا کیا

خون کی بوندوں سے رنگی ہوئی تاریخ

ایک ٹوٹے ہوئے وعدے کی مانند

جس کی قیمت بے شمار جانوں کی صورت میں چکائی گئی

عاشورہ کی رات

آنسوؤں کی بارش

کربلا کا میدان

جہاں یزید کی فوج نے حق کی آواز کو خاموش کر دیا

یہ ایک لمحہ تھا جب دھرتی نے خون سے اپنی گود بھر لی

اور آسمان نے خاموش تماشائی بن کر دیکھا

اس کے حکمرانی کی داستان میں

عیش و عشرت کی جھلک

مگر اس کے دل میں ایک کھنچاؤ

کیا یہ سب کچھ اس کے لئے کافی تھا؟

کیا طاقت کی یہ چمک اس کے اندر کی تاریکی کو مٹا سکی

یزید، ایک انسان کی کہانی

جو اپنی کامیابیوں کے باوجود

خود کو تسلی نہیں دے سکا

آج بھی اس کا نام ایک سوال ہے

کیا وہ صرف ایک بادشاہ تھا

یا تاریخ کا ایک کردار جس نے انسانیت کی روح کو چھیڑا

یہی یزید

ایک عہد کی گواہی

جہاں حق و باطل کی جنگ نے

آج بھی دلوں میں بیداری پیدا کی ہے

کہ یزید کے نام کے ساتھ

ہمیشہ ایک یادگار سبق جڑا رہے گا

ڈاکٹر ذاکر نائیک

ڈاکٹر ذاکر نائیک علم کا ایک روشن ستارہ

جس نے حق اور باطل کے درمیان ایک پل بنایا

منطق اور دلیل کی روشنی میں

اسلام کی خوبصورتی کو پیش کیا

ایک پلیٹ فارم پر

جہاں سوالات کے طوفان آئے

آپ نے ہر جواب کو سنجیدگی سے لیا

دین کی سچائی کو عزم کے ساتھ بیان کیا

نظریاتی اختلافات کے درمیان

آپ نے محبت اور علم کا پیغام دیا

خطاب کی مہارت اور دلائل کی طاقت

آپ کے الفاظ میں ایک خاص جادو ہے

ہر سوال کا جواب ہر تردید کا سامنا

آج بھی لاکھوں دلوں میں آپ کی باتیں زندہ ہیں

مگر ہر سچائی کے ساتھ ایک چیلنج ہے

آپ کی زندگی میں بھی خنجر کی طرح موجود

تنقیدوں کی بارش اور الزامات کی تلواریں

پھر بھی آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا

ڈاکٹر ذاکر نائیک

ایک سچائی کا علمبردار

جس نے دنیا کو بتایا کہ

اسلام امن اور علم کا پیغام ہے

آپ کی کوششیں ایک مشعل راہ ہیں

ان لوگوں کے لئے جو سچائی کی تلاش میں ہیں

آج بھی آپ کی آواز

دنیا کے کونے کونے میں گونجتی ہے

علم کی روشنی بکھیرتی

محبت اور امن کا پیغام سناتی ہے

یہی ہے آپ کا پیغام

جو دلوں کو جوڑتا اور سمجھتا ہے

کہ سچائی ہمیشہ جیتتی ہے

اور علم کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا

مرتا ہوا بچہ اور گدھ

ایک بے آب و گیاہ ویران صحرا

جہاں زمین سوکھ چکی ہے اور ہوا میں اداسی چھائی ہے

یہاں ایک بچہ، تھکا ہوا، کمزور،

بھوک اور پیاس سے نڈھال زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے

اس کی آنکھوں میں امید کا چراغ مدھم پڑ رہا ہے

چہرے کی رنگت زرد جسم چٹیل زمین پر بکھرا ہوا

کبھی وہ دور افق کی طرف دیکھتا ہے

شاید کسی مسیحا کی تلاش میں

پر سناٹا ہی سناٹا ہے کوئی جواب نہیں

کچھ فاصلے پر گدھ منڈلا رہے ہیں

ان کی آنکھوں میں چمک

نئی زندگی کی تلاش میں نہیں

بلکہ ایک بوجھ کو بھنبھوڑنے کے انتظار میں

یہ گدھ زندگی کے ستم کا نشانہ بنے ہوئے

ایک کمزور جسم کی مہک کے منتظر

یہ منظر انسانی درد کی ایک تصویر ہے

جہاں زندگی کی آخری کرن بھی چپ ہو گئی

کیا انسانیت نے اس بچہ کو بھلا دیا؟

کیا ہم سب اپنی آنکھیں بند کر کے

اس درد کو دیکھنے سے گریز کر رہے ہیں؟

یہ صحرا صرف ایک جغرافیائی حقیقت نہیں

بلکہ وہ تصویر ہے جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے

جہاں بھوک غربت اور بے حسی کی کہانیاں چلتی ہیں

یہ بچہ اس کی آہیں

ہمیں جگانے کی ایک کوشش ہیں

کہ ہماری دنیا میں

کیا ہم اپنے ہمسایے کی درد کو محسوس کرتے ہیں؟

گدھوں کی موجودگی

ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ

زندگی کی قیمت صرف جسم کے ہونے میں نہیں

بلکہ انسانیت کے احساس میں ہے

آؤ، اس درد کو سمجھیں

آؤ، ایک نئی شروعات کریں

کہ ہم سب مل کر

زندگی کے اس صحرا کو سرسبز بنائیں

بازارِ حسن

شہر کے ایک کنارے پر

جہاں زندگی اپنے ہی دھندلکوں میں لپٹی ہے

ایک بازار آباد ہے

یہ بازار

جہاں خواہشیں اور خواب بکتے ہیں

جہاں دلوں کی دھڑکنیں داموں میں تولی جاتی ہیں

بازارِ حسن کہلاتا ہے

یہاں جسموں کی روشنی میں ایک ایسا اندھیرا چھپا ہوا ہے

جسے دنیا کی چمک کبھی محسوس نہیں کر سکتی

دروازے بند ہیں

لیکن نظریں کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں

کچھ خریدنے والے

کچھ بیچنے والے

اور کچھ وہ

جو تماشا دیکھنے آئے ہیں

ان چہروں پر رنگ ہیں

مگر دلوں میں سنّاٹا

خواہشوں کے رقص میں بے بسی کا ساز بجاتے ہیں

حسن یہاں صرف ایک سامان ہے

ایک ایسی شے جو بکتی ہے

پگھلتی ہے

اور پھر سے سانچے میں ڈھلتی ہے

ہر شام ایک نیا چہرہ

ہر رات ایک نئی کہانی

مگر ان کہانیوں میں ایک گمشدہ درد چھپا ہے

ایک ایسا دکھ

جو کبھی لفظوں میں بیان نہیں ہو پاتا

بازار کے شور میں

ہنسی کی آوازیں

گفتگو کے قہقہے

اور جذبات کی بیوپار میں وہ خاموشیاں ہیں

جو چیخ چیخ کر سوال کرتی ہیں

کیا یہاں کوئی محبت ہے

یا یہ سب فقط ایک سودا ہے

کیا وہ چمکتے بدن

وہ مسکراتے لب

سچ بولتے ہیں

یا یہ سب محض ایک کھیل ہے

یہاں ہر شے کی قیمت ہے

لیکن وہ قیمت کیا ہے

ایک رات

ایک لمحہ

یا پوری زندگی

بازارِ حسن میں

جہاں ہر دروازہ ایک نئی کہانی کو جنم دیتا ہے

وہاں سب کچھ بکتا ہے

مگر شاید سب کچھ لٹتا بھی ہے

میرے لئے تم کون ہو

تم ہو جیسے بارش کی پہلی بوند جو زمین کو مہکا دیتی ہے

جیسے ہوا کا وہ جھونکا جو تھکے ہوئے بدن کو راحت بخشتا ہے

تم ہو جیسے وہ خاموشی جو شور میں بھی سنائی دیتی ہے

جیسے اندھیرے میں جلتا ہوا ایک چراغ جو دل کو تسلی دیتا ہے

تم وہ ہنسی ہو جو غم کے بیچ اچانک لبوں پر آ جاتی ہے

تم وہ یاد ہو جو کبھی نہیں بھولتی جیسے صبح کی پہلی کرن

تم ہو جیسے سمندر کی گہرائی جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے

جیسے خوابوں کا وہ جہاں جس میں سب کچھ ممکن ہے

تم ہو میرے خیالوں کی روشنی میرے لفظوں کی خاموشی

تم ہو جیسے ایک داستان جو کبھی ختم نہیں ہوتی

میرے لئے تم ہو زندگی کی وہ لَے جو ہمیشہ دھڑکتی رہتی ہے

تم ہو اور شاید تمہاری یہ موجودگی ہی کافی ہے

٭٭٭

شاعر کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے اس کی فائل مہیا کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید