دلی میں بیاہ کی ایک محفل
اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ
دہلی کے قدیم معاشرے کی ایک تصویر
ناصر نذیر فراق دہلوی
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
اقتباس
میری بڑی آپا ملکہ زمانی صاحبہ
آداب!
میں اصل خیر سے دلّی پہونچ گئی اور سب چھوٹے بڑوں کو تندرست دیکھ کر اور ان سے مل جل کر خوش بھی ہو لی۔ مگر اللہ جانتا ہے کہ میرا دم آپ میں ہی پڑا ہے۔ کیا کروں آپا جان! سسرال والوں کا پاس آن پڑا، نہیں تو زچہ خانہ میں آپ کو چھوڑ کر خدائیوں میں بھی نہ آتی۔ ویسے تو خدا رکھے دولہا بھائی نے نوکر چاکر، ماما اصیلیں آپ کی ٹہل کے لیے بہت سی لگا رکھی ہیں مگر جو ہمدردی ماں بہنیں کرتی ہیں وہ نوکریں کب کر سکتی ہیں۔ خیر بہت گئی، تھوڑی رہی ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب کے اٹھوارہ کو سلامتی سے آپ بڑا چلّہ نہا لیں گی اور پلنگ کو لات مار کر کھڑی ہو جائیں گی۔ میاں ننھے مجھے ہر وقت یاد آتے ہیں اور ان کی ہُواں ہُواں میرے کانوں میں بسی ہوئی ہے۔ خدا وہ دن بھی کرے گا جب میں اسے پھر موٹا تازہ آپ کی گود میں دیکھوں گی۔
نوشابہ کے بیاہ کا حال تو پیچھے لکھوں گی پہلے آپ یہ سن لیجیے کہ میں کن توائیوں سے دلی پہونچی۔ اول تو پندرہ میل بگّی میں چلنا پڑا۔ بیٹھے بیٹھے نگوڑا دم گھبرا اٹھا۔ ڈگڈگیوں دن ہو گا جو پشاور کے اسٹیشن پر پہونچی۔ بگی کا دروازہ کھول کر آپ کے بہنوئی بولے ’’برقعہ اوڑھ کر اتر پڑو‘‘۔ میں نے کہا ’’ڈولی ذری پاس لگوا دو تو میں جھپ سے اس میں بیٹھ جاؤں‘‘۔ ہنس کر کہنے لگے ’’یہ دلی کا اسٹیشن نہیں ہے جہاں ہر وقت ڈولیاں مستعد رہتی ہیں۔ یہاں تو بس اللہ کا نام ہے۔ بے ڈولی کے ہی چلنا پڑے گا‘‘۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ برقع اوڑھ لپیٹ کر بگی سے اتر، ان کے ساتھ ہو لی۔ مگر مارے شرم کے چلنا دوبھر تھا۔ کہیں پیر ڈالتی تھی اور کہیں پڑتا تھا۔
اسٹیشن کے اندر پہونچی تو وہ دھوم دھام اور آدمیوں کی چلت پھرت کہ الٰہی توبہ۔ لمبی ساری ایک کرسی بچھی ہوئی تھی۔ انھوں نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اس پر بٹھا دیا۔ مجھے بیٹھے ہوئے دو ہی گھڑی گزری ہوں گی جو ایک موٹا سا مردوا کالے کپڑے پہنے جھپ سے میرے پاس آن ٹُھسا۔ وہ میری دہنی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اشارہ سے کہا ’’اچھی یہ ظلم ہے، اس پر خدا کی مار ہے جو پرائی عورت کے پاس آن گھسڑا‘‘۔ انھوں نے چپکے سے جواب دیا ’’اس بینچ پر بیٹھنے کا حق سب کو حاصل ہے، عورت ہو یا مرد کچھ برا ماننے کی بات نہیں‘‘۔ ڈاک گاڑی کے آنے کا وقت تو رات ۹ بجے مقرر تھا مگر معلوم ہوا رستہ بگڑ گیا ہے، اس لیے دس بجے آئے گی۔ میں نے اپنے دل میں کہا غریبوں نے روزہ رکھے دن بڑے آئے۔ وہ جو مثل مشہور تھی ہنوز دلی دور، آج اصل ہو گئی۔ کس کا کھانا کس کا پینا۔ انھوں نے کہا بھی کہ کھانا کھالو۔ مگر میں نے الٹ کر انھیں یہی جواب دیا کہ صاحب میرا تو ستر سے بہتر مردوؤں میں ہواؤ نہیں پڑتا کہ بیٹھ کر نوالے ماروں۔ ریل میں بیٹھنے کو کوئی کونہ مل جائے گا تو کھا لوں گی، نہیں فاقہ ہی بھلا ہے۔
بیٹھے بیٹھے ٹانگیں شل ہو گئیں۔ سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں مگر ریل نہ آنی تھی پر نہ آئی؛ اور غضب یہ ہوا کہ اسٹیشن میں قدم قدم پر بجلی کے ہنڈے روشن ہو گئے؛ رات کا دن بن گیا۔ وہ اجالا کہ زمین پر سوئی پڑے تو الگ دکھائی دے۔
فرنگی، ریل کے بابو، چپراسی، خلاصی، قلی، مسافر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پڑے پھرتے ہیں۔ کیا مقدور جو کوئی ڈھب پردہ کا نکل آئے۔ جوں جوں ریل کے آنے کا وقت قریب آتا جاتا تھا، اسٹیشن کے اندر مسافر بھرے چلے آتے تھے۔ ڈاک گاڑی کے آنے میں پندرہ منٹ باقی ہوں گے جو اسٹیشن کا سارا چبوترہ آدمیوں سے بھر گیا۔ گھنٹی بجی اور ریل اس قہر کے ساتھ دندناتی ہوئی اسٹیشن میں داخل ہوئی کہ در و دیوار لرز گئے۔ میں سمجھی یہ لوہے کا سائبان جس میں ہم سب بیٹھے ہیں، دہل سے ٹوٹ کر اور اُڑ اُڑا کر سر پر آرہے گا۔ پھر جو مسافر بھاگے ہیں اور آپا دھاپی مچی ہے تو حشر برپا ہو گیا۔ تو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ سب سے آگے تو چار قُلی، اُن کے سروں پر ہمارے ٹرنک، بکس، بچھونے؛ ان کے پیچھے وہ، اُن کے پیچھے مَیں۔
ابھی ریل کا درجہ کوئی پانچ قدم پر ہو گا جو آگے سے ریلا آیا تو آپ کے بہنوئی الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ ان کا ہٹنا کہ میں پیچھے سَرکی۔ اگر اگلے آدمی اور ذرا دھکیلیں تو میں پس ہی گئی ہوتی۔ مگر خدا نے بال بال بچا لیا۔ بارے ہزار مشکل اور مصیبت کے ساتھ ریل کے اندر پہونچی تو معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے اس درجہ میں دس آدمی اور ٹھسے بیٹھے ہیں۔ بیٹھنے کیا کھڑے رہنے کا بھی ٹھکانا نہیں۔ وہ الگ بغلیں جھانک رہے ہیں، میں جدا حق حیران کھڑی ہوں۔ اس میں انھیں کچھ خیال آیا اور ساتھ ہی ایک بھلے مانس نے کہا ’’حضرت ان کو اوپر والے پلنگ پر چڑھا دیجیے‘‘۔ کیا بیان کروں کس مصیبت سے اوپر پہونچی۔ وہ پلنگ دو موٹی موٹی لوہے کی زنجیروں میں پڑا جھول رہا تھا۔ میری سلیم شاہی جوتی کی نوک جو ایک زنجیر میں اٹکی تو جوتی پنجہ سے نکل، نیچے جو ایک بوڑھے آدمی بیٹھے تھے اُن کی سفید ڈاڑھی پر جا گری۔ وہ بیچارے جھینپ کر یہ کہنے لگے ’’ریل کے سفر میں پردہ نشین عورتوں کے لیے انگریزی جوتی اچھی ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس سے چلا اچھا جاتا ہے، دوسرے بھاگ دوڑ میں پاؤں سے نکلنے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ ‘‘
ابھی میں سنبھل کر بیٹھنے بھی نہ پائی تھی، جو ایک اور آفت کا سامنا ہوا۔ آگے آگے ایک بابو، اس کے پیچھے ایک فرنگن بھبوکا رنگ، سادہ پن میں لاکھ لاکھ بناؤ، چھلّا جیسی کمر اور وہ بھی چمڑے کی پیٹی سے کسی ہوئی، گلے میں ڈھیلا سا ایک کوٹ جس کی سنجاف سمور کی تھی، سیاہ سایہ گھیر دار سر پر ٹوپی اور ٹوپی میں دو تین گلاب کے پھول اوڑھے ہوئے، مگر گلاب کے لال لال پھول اس کے چہرہ کی بہار کے سامنے بالکل پھیکے دکھائی دیتے تھے۔ ہاتھ میں ننھا سا کالے چمڑے کا ایک بیگ۔ ان کے پیچھے ان کے صاحب۔ بابو نے ٹکٹ کاٹنے کی قینچی گاڑی کے کواڑ میں زور سے مار کر کہا ’’تم ہندوستانی دیکھتا ہے نہ بھالتا ہے، گاڑی میں یونہی گھس جاتا ہے۔ اترو اس میں سے، یہ صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا گاڑی ہے‘‘۔ اس صدا کو سن کر میرا تو جی چھوٹ گیا۔ نیچے جو لوگ بیٹھے تھے پہلے وہ اپنا اپنا اسباب سنبھالتے ہوئے نکل کر بھاگے۔ آپ کہیں گی کہ جو کمرا صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا ہوتا ہے، اس پر لکھا ہوا ہوتا ہے اور تمہارے میاں تو انگریزی پڑھے ہیں، وہ تمہیں انجانوں کی طرح اس کمرے میں لے کر کس طرح گھس گئے۔ آپا جان! مسافروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ رات کا وقت، ہول جول میں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ بندریا کی طرح پھر اس پلنگ پر سے نیچے اتری۔ یہ بھلا ہوا تھا کہ قُلیوں کو ابھی چُکایا نہیں تھا اور وہ ریل سے لگے کھڑے تھے۔ نہیں تو اسباب کا اتارنا دوبھر ہو جاتا اور ریل ہنک جاتی۔ نکلتے نکلتے بابو نے ہمارے پیچھے دھیری لگا دی ’’ڈاک گاڑی جاتا ہے جلدی اترو‘‘۔
اب کی دفعہ مجھے ایک زنانہ کمرا مل گیا۔ جس میں میرے سوائے عورت کیا کوئی چڑیا بھی نہ تھی۔ پاس ہی مردانہ کمرا تھا وہ اس میں بیٹھ گئے۔ ڈاک گاڑی چل دی۔ چلتی ریل میں ہمارا اسباب دھر دیا اور ایک قلی ریل کے پٹرے پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مزدوری لے کر جھپ سے کود گیا۔ اب کیا تھا، بلی کے بختوں چھینکا ٹوٹا۔ بے مہتا اکیلا کمرا مل گیا۔ کھانا بھی کھایا، پان بھی کھائے۔ اگلے اسٹیشن پر انھوں نے آ کر بستر بند میں سے میرا بچھونا کھول کر بچھا دیا اور جو میں پاؤں پھیلا کر سوئی ہوں تو دلی تک مجھے ہوش نہ ہوا۔ جب ریل اسٹیشن پر آ کر ٹھہر گئی تو انھوں نے مجھے آ کر جگایا کہ اٹھو گھر آگیا۔ اس میں میاں ناصر بھی آن پہونچے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر کہنے لگے ’’باجی جان! آداب۔ میں ڈولی لے آیا ہوں‘‘۔ میں نے کہا شکر ہے۔
گھر پہونچی۔ سب سے ملی جلی۔ منہ دھونے بیٹھی تھی جو خلیا ساس کی پرانی نوکر امامن آ موجود ہوئی۔ کہنے لگی بیگم صاحب نے دعا کہی ہے اور یہ فرمایا ہے جب تم سلامتی سے نوشابہ کے بیاہ میں میری بلائی ہوئی آئی ہو تو تم اپنے گھر کیوں اتریں۔ سیدھی میرے ہاں آئی ہوتیں۔ میں اس کا جواب دینے کو ہی تھی جو وہ بول اٹھے ’’خالہ جان سے کہہ دینا کہ آپ کی بہو نے تو مجھ سے اسٹیشن پر ہی کہا تھا کہ مجھے خالہ جان کے گھر لے چلو، مگر میں ان کو یہاں لے آیا۔ کیونکہ برس دن سے کپڑوں کے صندوق بند پڑے ہیں۔ کیڑے نے کھا کھا کر خدا جانے کیا نیواں ناس کیا ہو گا۔ آج اور کل اَور معاف کیجیے۔ دو دن میں یہ کپڑوں کو دھوپ بھی لگا لیں گی اور رستہ کی تکان بھی اتر جائے گی۔ اللہ چاہے تو پرسوں شام کو بن بلائے حاضر ہو جائیں گی‘‘۔
واقعی صندوق کھولے تو معلوم ہوا، کوئی چادر جوڑا ایسا نہ رہا جسے کیڑے نے نہ چاٹا ہو۔ ایک شالی رومال کے تو کم بختوں نے کھا کھا کر چِندیاں کر ڈالی تھیں۔ دو ٹرنک بیاہ کے پہننے کے قابل کپڑوں سے منوا منہ ساتھ لے جانے کے لیے بھرے۔ نو رتن، جوشن، چمپا کلی، ٹھسی، پہونچیوں کے ڈورے بدلوائے۔ نہائی دھوئی، کپڑے بدلے اور تیسرے دن خلیا ساس کے ہاں جا پہونچی۔ کہاروں نے پینس ڈیوڑھی میں رکھ کر کہا سواری اتروا لو۔ خالہ جان ڈیوڑھی تک خود آئیں، مجھے گلے سے لگا لیا۔ میں بھی جھک کے ان کے سینے سے لگ گئی۔
جب مل چکیں تو الگ ہو کر کہنے لگیں ’’ان سے ملو یہ بھی تمہاری نند ہوتی ہیں، لکھنؤ سے آئی ہیں‘‘۔ مڑ کر دیکھتی ہوں تو ایک نازنین بیگم کوئی بیس برس کی عمر ، بوٹا سا قد، رنگت زرد اور شہاب سر سے پاؤں تک، سنہری گہنا، بالوں کا جوڑا بندھا ہوا، کوئی پچاس کلی کا پیجامہ، لکھنؤ کی کامدانی کا ہلکا دوپٹہ، ایسے ہی اور کپڑے؛ بالکل پری بنی ہوئی کھڑی ہے۔ آگے بڑھ، انھوں نے مجھے سلام کیا۔ کیونکہ قرینہ سے وہ میری ہم عمر معلوم ہوتی تھیں۔ جب وہ بھی گلے مل چکیں تو میں نے کہا ’’بہن آپ کا نام‘‘، ہنس کر کہا ’’مجھ شد خوری کو حسن جہاں کہتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر زور سے ایک قہقہہ مارا۔ خالہ جان نے کہا ’’بوا، یہ نند تمہاری چبلّی ہے۔ ابھی کیا ہے، دو چار دن جب تم ان کے پاس رہو گی تو معلوم ہو گا بے ہنسی کے نوالہ بھی نہیں توڑتی ہیں‘‘۔
میں سیدھی اس کمرے میں گئی جہاں نوشابہ مائیوں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے میلے کپڑے اور میلے کپڑوں میں گورا گورا پنڈا دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا :
اگری کا ہے گماں شک ہے ملاگیری کا
رنگ لایا یہ دوپٹہ ترا میلا ہو کر
حیا کے مارے اٹھی نہیں۔ بیٹھے ہی بیٹھے کہنے لگی ’’بھابھی جان آداب‘‘۔ میں اس کے پاس جا بیٹھی اور کہنے لگی ’’نوشابہ! خدا کو گواہ کر کے کہتی ہوں، آپا جان کو زچہ خانہ میں چھوڑ کر تیرے ہی کارن کالے کوسوں کو لانگ کر دوڑی چلی آئی ہوں کہ خدا جانے پھر کب ملنا ہو‘‘۔ اس بات کا میرے منہ سے نکلنا اور نوشابہ کا بلک کر رونا۔ میرا بھی جی بھر آیا، خالہ جان بھی رونے لگیں۔ ہمیں روتا دیکھ کر حسن جہاں بیگم گہک کر بولیں ’’بس بی بس۔ اپنے رونے دھونے کو تہ کر رکھو۔ خدا نے تو یہ دن دکھایا ہے کہ لڑکی عزت آبرو کے ساتھ اپنے گھر جاتی ہے۔ تم لوگ نا شکری کی لیتے ہو، بد شگونی کرتے ہو‘‘۔ خالہ جان نے کہا ’’میں تو دن رات مالک کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اے بے نیاز! میرا منہ اس قابل نہ تھا،یہ تیری مہربانی ہے۔ رونا مجھے اس پر آیا کہ حیدرآباد جائے گی۔ دلی سے ہزاروں کوس دور‘‘۔
میں نے کہا ’’خالہ جان آپ دور کا وہم نہ کیجیے۔ خدا فرنگیوں کے اقبال کو ہمیشہ ہمیشہ برقرار رکھے اور یہ قوم سو بس بسے۔ ان کو اپنی رعایا کا بڑا خیال رہتا ہے۔ ہماری آسانی کے کارن انھوں نے وہ وہ انوکھے اور نئی نئی کلیں نکال کر کھڑی کر دی ہیں کہ اس سے چین پا کر ہر ایک کے منہ سے بے اختیار دعا نکل جاتی ہے۔ ذرا تار برقی کو ہی دیکھیے کہ چھ آنہ کے پیسے خرچیے اور فوراً لاکھوں کوس کی خبر منگا لیجیے۔ موئے ایک پیسہ کے پوسٹ کارڈ کی بھی کچھ اصل ہے۔ آج لکھ کر ڈالیے پرسوں بمبئی کلکتہ جا پہونچے گا۔ کہیں آنا جانا ہو تو ریل میں بیٹھ جائیے اور ایک دن رات میں ہندوستان کے اِس سرے سے اُس سرے تک ہو آئیے۔ کل کے گھوڑے ٹریم، موٹر کار تو ہماری دلی میں ٹانگ برابر لونڈے گلی گلی لیے پھرتے ہیں۔ سنا ہے ولایت میں اڑن کھٹولے بھی چلنے لگے ہیں۔ کوئی دن جاتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی آ جائیں گے اور ہم لوگ اس میں بیٹھ کر بے پر کے اڑنے لگیں گے۔ پھر فرنگیوں کی ایک اور نیکی دیکھیے، بمبئی میں سمندر کے اندر جہاز ہر وقت کھڑے رکھتے ہیں جو آگ کے زور سے ریل کی طرح چلتے ہیں اور مسلمانوں کو مکہ، مدینہ، بغداد، کربلا لسکہ کے ساتھ پہونچا دیتے ہیں‘‘۔
بیاہ میں ابھی آٹھ دن باقی تھے۔ دن رات گیت سہاگ غزلیں گائی جاتیں اور بی حسن جہاں بیگم وہ باتیں کرتیں کہ پیٹ میں بل پڑ پڑ جاتے۔ جیسی اچھی صورت، اس سے بڑھ کر گلا۔ گانے بیٹھ گئیں تو یہ معلوم ہوا مینہ برس رہا ہے۔ سلام مرثیہ پڑھنے لگیں تو دل ہلا دیے، آنکھوں سے آنسو جاری کر دیے، پتھر کا کلیجہ بھی پانی ہو جائے۔ خدا نے پھرتی اور شوخی ان کی بوٹی بوٹی میں بھر دی ہے۔ چنچل کہوں، چھلاوہ کہوں، تُرتُریا کہوں۔ ظاہر تو ایسی بے باک چالاک مگر دل بالکل پاک۔ کیا مقدور جو کسی وقت کی نماز قضا ہو جائے۔ ماما اصیلیں تو محل کی سوا پہر دن چڑھے سوتی اٹھتیں، مگر بی حسن جہاں منہ اندھیرے اٹھ کر وضو کر کے چوکی پر جا نماز بچھا، خاک شفا کی سجدہ گاہ سامنے دھر، نادِ علیؓ زور زور سے پڑھا کرتی ہیں۔
اس راؤ چاؤ میں بیاہ کی تاریخ آ گئی۔ مہمان تین دن پہلے سے آنے شروع ہو گئے تھے۔ پانچ روپیہ روز ڈولیوں کے کرایہ میں دیے جاتے تھے۔ ساچق والے دن تو محل سرا بیویوں سے کھچا کھچ بھر گئی۔ نیچے اوپر تل رکھنے کو جگہ نہ رہی۔ پلنگ چارپائیاں سب اٹھوا دی گئیں۔ خالہ جان نے کہہ دیا بھئی ہدّی ہزار آدمیوں کے لیے نرالے نرالے پلنگ اور چھپرکھٹ تو میں بچھانے سے رہی۔ دالان، کمرا، صحنچیاں، سہ دریاں موجود ہیں۔ ہر ایک میں دری چاندنیاں بچھی ہوئی ہیں۔ ان میں اپنے اپنے بچھونے بچھاؤ اور پاؤں پھیلا کر سوؤ، بیاہ شادی میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
مختار خالہ جان نے حسن جہاں بیگم کو بنا دیا تھا اور حقیقت میں وہ ہیں بھی اسی لیاقت کی بیوی۔ اس نزاکت اور دبلاپے پر وہ سارے سارے دن اور ساری ساری رات مہمانوں کی خاطر تواضع میں تیتری کا ناچ ناچتی تھیں۔ ادھر اُدھر سے آئیں اور مجھ سے کہا ’’بھاوج!‘‘ میں کہتی ’’ہاں بی نند‘‘، کہتیں ’’بس میں تمہیں دیکھ کر خوش ہو جاتی ہوں‘‘۔ میں جواب دیتی آپ کی مہربانی ہے۔ ہنسی دل لگی تو ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ چلتے چلتے چھیڑ خانی کر دیتیں؛ کسی عورت سے کہہ دیا ’’او رنڈی تو کہاں جاتی ہے۔ لے یہ چنگیر پاندان تو ذرا باہر دے آ‘‘۔ کسی نے سنی ان سنی کر دی۔ کوئی غمخوار ہوئی تو ہنس کر چپ ہو گئی۔ کوئی جھکّی اور غصیلی ہوئی تو کہنے لگی ’’اوئی بی! تم کون ہو جو گھر گرہستنوں کو دور پار رنڈی بناتی ہو۔ نوج ہم رنڈی کیوں ہونے لگے تھے، رنڈی ہوں ہمارے بیری‘‘۔ رنڈی ہوں کہتے سنتے خالہ اماں کہہ دیتیں ’’بُوا! برا ماننے کی بات نہیں ہے، رنڈی عورت کو کہتے ہیں۔ شہر بستی میں ہمارے لال قلعہ کی بیگمیں بولا کرتی تھی۔ لال قلعہ اجڑ گیا، اس کے ساتھ وہ بولیاں بھی غارت ہو گئیں۔ لکھنؤ میں اب تک یہ لفظ بولا جاتا ہے‘‘۔
ایک بیوی کالے محل سے مہمان آئی تھیں، ان کا نام تھا حضرت بیگم۔ وہ بڑی اکھل کھری اور مزاج کی بڑی کڑوی تھیں۔ حسن جہاں کی باتیں سن کر بہت گھٹتی تھیں اور بیٹھی بیٹھی کچھ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا کرتی تھیں۔ بی دولتی اپنے تیہے میں آپ ہی کھولتی۔ کھانا پینا، پان چھالیہ، زردہ الائچی، چٹنی، اچار، مربّہ، مٹھائی، ناشتہ سب کچھ حسن جہاں کے تحت میں تھا۔ سچ مچ خالہ جان نے انھیں کُل کُلاں کا مالک کر دیا تھا۔ اس مارے بعض بیوقوفیں اُن سے اور کھسیانی تھیں۔ ایک دن حضرت بیگم اور حسن جہاں کا مُچیٹہ ہو گیا۔ حضرت بیگم کے دل میں حسن جہاں بیگم کی طرف سے نا حق کا بخار تو بھرا ہی ہوا تھا، انھیں دیکھ کر ایک بیوی سے کہنے لگیں ’’اے بوا رضیہ سلطان! سنتی بھی ہو، قلعہ کی بیگمیں بلّی کو نکٹی کہا کرتی تھیں۔ یہ چھوٹی ناک بھی کیا بری معلوم ہوتی ہے،کم بخت پیّا پھرا ہوا؛ اور بہن مجھے تو زیادہ گوری رنگت سے بھی نفرت ہے جیسے پھیکا شلجم‘‘۔ حسن جہاں کی ناک بھی چھوٹی تھی اور رنگ بھی ان کا ٹپکا پڑتا تھا، سمجھ گئیں کہ پھبتی مجھ پر ہی ڈھالی گئی ہے۔ وہ بھلا کب چوکنے والی تھیں، کہنے لگیں ’’پھیکا شلجم تمباکو کے پنڈے سے تو ہر طرح اچھا ہوتا ہے اور مجھے بڑی ناک دیکھ کر گھن آتی ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے سِل کا بٹہ کسی نے چہرہ پر دھر دیا ہے۔ اونچی ناک سوجھے کیا خاک، چھوٹی ناک سہاگ کا پُڑا، اونچی ناک کو لاؤ چُھرا۔ یہ مثل تو تم نے سنی ہو گی‘‘۔ حضرت بیگم کی رنگت بھی کالی بھٹ تھی اور ناک بھی ان کی بے ڈول اونچی تھی۔ حسن جہاں کے اس کہنے پر سب بیویاں بیگمیں ہنس پڑیں اور بی حضرت بیگم بگڑ گئیں۔ ہنسی میں کھسی ہو گئی اور بی حسن جہاں کی اور ان کی خوب دنگو دنگ ہوئی۔