اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ کی سوانح
حیاتِ ماہ لقا
سلطنت دکن کی ایک جھلک
غلام صمدانی خان گوہر
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
تمہید
ماہ لقا بائی کے نام سے کون واقف نہیں ہے اور چندا جی کا نام کون ہے جو سنا نہیں۔ اس کو انتقال کیے ابھی سو برس بھی پورے نہیں ہوئے، جس کا مقبرۂ عالیشان اور سرا کوہ شریف کے پائیں میں واقع ہیں، جہاں ہر سال عرس شریف کے موقع پر ہزاروں تماش بین اور زائرین فروکش ہوتے ہیں، جس کو حیدرآباد دکن کا ہر امیر فقیر اور برنا و پیر جانتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہر ایک کو معلوم ہے کہ ماہ لقا بائی لطیفہ گوئی، بذلہ سنجی، شاعری، مروت، اخلاق، فیاضی، دولت و ثروت، حکومت میں اپنے زمانہ میں یکتائے روزگار مانی جاتی تھیں۔ بارہ کم سو برس ۸۸ کے پیشتر ہزاروں اشخاص بلکہ لاکھوں مہ لقا بائی کے جمال جہاں آرا کے مشتاق اور اس کی نظر عنایت کے امیدوار رہتے تھے۔ افسوس ہے کہ اب وہ ماہ لقا بائی موجود ہے اور نہ اس کے چاہنے والوں کا وجود باقی ہے۔ امتداد زمانہ نے بالکل کایا پلٹ دیا ہے۔ ایک ماہ لقا بائی پر ہی کیا منحصر ہے، ہر ایک انسان کے لیے یہی معاملہ درپیش ہے۔
مگر اب بھی ماہ لقا بائی کا کلام اور حالات، اس کے نام کو باقی رکھنے والے اور اس کی یاد کو تازہ کرنے والے زمانہ میں موجود ہیں۔ عام دستور کے موافق ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اب جو کچھ بچا بچایا قبر کا نشان اور مقبرہ و سرا موجود ہیں، ان کا بھی پتہ نہ ملے گا۔ سب زمین کے برابر ہو جائیں گے۔ لیکن یہی کلام اور حالات اب تک باقی رہے اور آئندہ بھی باقی رہیں گے۔
چنانچہ ہم نے بڑی جستجو اور بے حد تلاش سے ماہ لقا بائی کا ہندی دیوان اور خاندانی حالات پیدا و فراہم کر کے طبع کرائے ہیں جو ہدیۂ ناظرین ہیں۔ اگر ہماری خوش قسمتی سے پبلک نے اس کو قدردانی کی نظر سے دیکھا اور لطف اٹھایا تو ہماری محنت و مشقت چیز ہو گئی اور بصورت بالعکس کسی سے شکایت اور گلہ بھی نہیں ہے۔ فقط
۲۱؍ ربیع الاول ۱۳۲۴ھ
سلطنت آصفیہ کا نمک خوار
حیدرآباد دکن۔ دار الشفا
گوہرؔ حیدرآبادی
چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے خاندانی حالات اور حسبی و نسبی واقعات
جس زمانہ میں کہ ہندوستان جنت نشان کی زمامِ فرماں روائی حضرت ابو الفتح نصیر الدین محمد شاہ بادشاہ فردوس آرامگاہ کے دست قدرت میں تھی اور شہر شاہ جہاں آباد (دہلی) پر سرسبزی و شادابی کے باعث جوبن پھٹا پڑتا تھا، ایک شخص غریب الوطن مُفلس و آوارہ، لیکن شریف خاندان، عالی ہمت خواجہ محمد حسین خاں نام قصبۂ بارہہ (جو سادات زیدی کا مسکن و مقام ہے) کا رہنے والا واردِ دہلی ہوا۔ چونکہ ملکی و مالی حالات سے ماہر، سلیقہ شعار، بلند فطرت تھا؛ اس لیے بہت جلد اپنی جوہرِ کاردانی کے باعث احمد آباد (گجرات) کے ناظم کی طرف سے کڑوڑ گیری پر مامور ہوا۔ مزاج میں عیاشی اور حسن پرستی کا چسکا بہت تھا، اس لیے عقد کے لیے کسی خوبصورت عورت کی تلاش شروع کی۔ اتفاقاً ایک بزرگ خواجہ زادگان سے کاٹھیاواڑ کے رہنے والے احمد آباد (گجرات) میں مقیم تھے لیکن غربت کے باعث نہایت مستغنی المزاج، دولت دنیا سے فارغ و بے فکر رہتے تھے۔ ان کو ایک لڑکی ماہ پیکر، رشک حور چندا بی بی نام موجود تھی۔ چنانچہ خواجہ محمد حسین خاں نے پیام بھیج کر ان بزرگ کو راضی کیا اور اس لڑکی کو اپنے حبالۂ عقد میں لایا۔ ایک مدت کے عیش و کامرانی میں ۱۹ بچے پیدا ہوئے۔ مگر حوادث روزگار کے باعث اکثر کم سنی میں چل بسے۔ صرف پانچ بچے مثل حواس خمسہ زندہ باقی رہے جو آئندہ عمر طبعی کو پہنچے۔ ان میں دو لڑکے غلام حسین و غلام محمد نام تھے اور تین لڑکیاں جن کو نور بی بی، بولن بی بی، میدا بی بی کہتے تھے۔
چونکہ فلک کج رفتار کی چال ایک وضع پر نہیں رہتی اور خواجہ محمد حسین خاں کی زندگی ہمیشہ عیش و طرب میں گزرتی تھی۔ اس کے ساتھ اسراف و فضول خرچی بھی طبیعت میں بہت تھی، چنانچہ اس اسراف و فضول خرچی کے بدولت ذاتی رقم کے علاوہ بہت کچھ سرکار کی امانتی رقم بھی خان مذکور کے تصرف میں آ گئی۔ دشمنوں نے اس کی خبر ناظم احمد آباد کو پہنچائی۔ فوراً حساب کی جانچ پڑتال کی گئی جس میں کچھ واجبی اور کچھ غیر واجبی بدر نکالی گئی۔ بدر کی مقدار ایسی زیادہ تھی کہ جس کی ادائی محال تھی۔ آخر خواجہ محمد حسین خاں نے بہ پاسِ آبرو کمال سراسیمگی کی حالت میں فرار پر کمر باندھی اور اپنے وطن مالوفہ کو روانہ ہو گیا۔ بیوی بچوں کو مصیبت کا شکار بنایا اور بلدۂ احمد آباد میں بے کس و لا وارث چھوڑ گیا۔ جب ناظم گجرات کو محمد حسین خاں کے فرار کی خبر لگی تو تمام نقد و جنس جو کچھ موجود تھا، ضبط کر لیا۔ بلکہ چندا بی بی کو بھی مع اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے نظر بند کیا۔
چندا بی بی کی فراری
چند روز ان بے کسوں نے تھوڑے بہت متفرق اشیا جو ضبطی سے بچے ہوئے تھے، ان کو بیچ کر غربت کے ساتھ جوار باجرا کھا کر نظر بندی میں گزارا۔ جب کچھ بھی نہ رہا تو چندا بی بی نے فاقہ کشی سے تنگ آ کر آخر فرار کی ٹھہرائی اور بچوں کو لے کر آبادی کو چھوڑ جنگل کا راستہ لیا۔
چندا بی بی کا قصبہ دیولیہ میں پہنچنا
چنانچہ چند روز کی صحرا نوردی کے بعد چندا بی بی کا گزر بہ مقتضائے قضا و قدر قصبہ دیولیہ میں ہوا جہاں یہ غمزدہ مع اپنے کم سن بچوں کے اتفاقات و شامت کے باعث بھگتیوں کے محلہ میں قیام پذیر ہوئی اور بھگتیوں نے ان غریب الوطنوں پر ترس کھا کر چندے ان کی قوت بسری کا سامان کر دیا۔ لیکن چند روز کے بعد ان بھگتیوں نے چندا بی بی کو یہ ترغیب دی کہ اب حسب و نسب کو طاق پر رکھ کر ان لڑکیوں کو جو حسن و جمال میں ماہِ چہاردہ ہیں، رقص و سرود کی تعلیم دلائی جائے تاکہ کسب معاش و تحصیل قوت کا ذریعہ نکلے اور فراغت سے گزرے۔ اول تو چندا بی بی نے اس تجویز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا، لیکن جب بے کسی اور فاقہ کشی پر نظر ڈالی تو آخر اس تجویز پر کاربند ہونا پڑا۔ چنانچہ لڑکیوں کو رقص و سرود کی تعلیم دلانا شروع کی۔
راجا سالم سنگھ کی خبر گیری
ان دنوں قصبہ دیولیہ کا حاکم (راجا) سالم سنگھ نام نہایت نامور، شجیع، حسن و جمال میں بے نظیر، مال و دولت، جمعیت و حشمت کی زیادتی کے باعث صوبۂ گجرات میں مشہور تھا۔ جب اس کو خواجہ محمد حسین خاں کے عیال و اطفال کی بے سر و سامانی کی کیفیت معلوم ہوئی تو بلحاظ سرداری ان کی خبرگیری شروع کی اور ان مصیبت زدوں کے رہنے کے لیے ایک مکان بھی دیا اور اس کے ساتھ ضروری اسباب بھی مہیا کر دیا۔
راجا سالم سنگھ کا عشق میدا بی بی کے ساتھ
چند روز کے بعد چندا بی بی کی چھوٹی لڑکی میدا بی بی کے حسن و جمال نے سالم سنگھ کو ایسا شیفتہ و شیدا کیا کہ صبر و قرار جاتا رہا۔ چنانچہ اس دوشیزہ حور پیکر کے رام کرنے کے لیے تحفہ و تحائف بھیجنا شروع کیا۔ بعد چند روز کے چندا بی بی سے اپنا ما فی الضمیر ظاہر کیا جس کو چندا بی بی نے بمصلحت وقت قبول کیا اور میدا بی بی کو ہم آغوشی کے لیے راجا سالم سنگھ کے گھر بھیج دیا۔