قوم مسلم کے ایک مجاہد کی داستان
داستان ایک مردِ خرد مند و جنوں پسند کی
از قلم
غضنفر
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
اقتباس
داستان گو اوّل
نئے طرز کی اک کہانی سنو
نئی ایک سحر البیانی سنو
حقیقت بیانی تو سنتے رہے
ذرا اب بیاں داستانی سنو
سنو تیرگی میں اجالے کا راگ
سنو روشنی کے فسانے کا راگ
سنو جس سے ظلمات روشن ہوئے
زمینِ ضیا کے جیالے کا راگ
داستان گو دوئم
یہ قصہ کسی خطۂ خیالستان یا ملک ایران و طوران کا نہیں اور نہ ہی کسی شہر ِشبستان یا وادی پرستان کا ہے بلکہ اس جہانِ بے امان، بے سر و سامان اور پر از ہیجان کا ہے جس کی ایک قوم اپنے شاندار، پر وقار اور با اعتبار ماضی کے باوجود افلاس و ادبار، فکر و انتشار اور اضطراب و اضطرار کی شکار تھی۔ جس کی شاخِ نمودِ ذات بے برگ و بار تھی، شیرازۂ ہستیِ حیات تار تار تھی۔ جس کے آشیانے، آستانے، جلوت خانے، تعلیمی و تہذیبی سارے ٹھکانے، ہزیمت، فلاکت اور نحوست کے طوفان میں گھرتے جا رہے تھے اور ایک ایک کر کے اصالت، شرافت اور نیابت کے ستونِ عظیم الشان گرتے جا رہے تھے۔ جو اپنی بد اعمالی، بد خصالی اور تصورِ کنہ سالی کی بدولت پائے مال، تنگ حال اور کنگال ہوتی جا رہی تھی۔ جسمانی، روحانی اور ایمانی سبھی طرح کے مال و منال کھوتی جا رہی تھی۔ سرمایۂ صبر و سکون اور متاعِ جمال و جلال سے ہاتھ دھوتی جا رہی تھی۔
داستان گو اوّل
یہ اس تباہ حال، بد خصال اور آمادۂ زوال قوم کے ایک فردِ دردمند اورمردِ جنوں پسند کی داستان ہے جس کا سینہ ضربِ المِ ملّت سے فگار تھا۔ دل دردِ عزیزو اقارب سے بے قرار تھا۔ ذہن زیرِ شورِ شرار تھا۔ اعصاب وحواس پر احساسِ خم خواری کا ایسا جن سوار تھا کہ نہ صبر تھا نہ قرار تھا۔ یہ کیفیت اس لیے تھی کہ شعورکی آنکھیں کھلتے ہی اس کے سامنے ایک ایسا منظر لہرایا کہ دیدوں ایک زرد پیکر اُبھر آیا۔ پژمردگیوں سے پر یہ پیلا پیکر پتلیوں میں اس طرح پیوست ہوا کہ اس کا دل لہولہان، دیدہ حیران اور ذہن پریشان ہو گیا۔ آنسوؤں نے وہ جوش مارا کہ دلِ درد مند کو دریا بنا دیا۔ جذبۂ ترحم میں گرداب اٹھا دیا۔ جنونِ مداوائے درد کا جوش بڑھا دیا، دریا امنڈا، چڑھا، بڑھا اور اپنے سینے کی طغیانی و موجوں کی روانی کے ساتھ اچھلتا، پھسلتا اور سنبھلتا ہوا جانب صحرا نکل پڑا
داستان گو دوئم
چاہ ایسی کہ رگِ سنگ سے چشمہ ابلے
کہر کی کوکھ کٹے، سرخ سویرا نکلے
وقت کو سینک لگے، برف کا تودہ پگھلے
جسم میں جان پڑے، خونِ تمنا اچھلے
رنگ بھر جائے کسی طرح سے ویرانوں میں
جل اٹھے دیپ کوئی پھر سے سیہ خانوں میں
داستان گو اوّل
اس مردِ مہم پسند نے مانندِ عصائے موسوی اپنی چھڑی ایسی گھمائی کہ دور پاس کے سبھی سامریوں کے طلسمی سانپ اس کے بس میں آ گئے۔ سارے عصائے فتنہ پرداز اس کے سامنے بل کھا گئے۔ بار بار ڈسے جانے والے جسم و جان زہرِ ہلاہل سے نجات پا گئے۔ اس نے ہوش اور جوش کے وہ وہ کمالات دکھائے کہ دیدہ وروں کی آنکھوں میں حیرتیں لہرا اٹھیں۔ ایسی حکمتیں کیں کہ حکومتیں تھرّا اٹھیں۔ تدبّر کے ایسے تیر پھینکے کہ تقدیریں گھبرا اٹھیں۔
داستان گو دوئم
داناؤں کا سا ہوش اور نادانوں جیسا جوش رکھنے والا یہ مردِ جنوں خیز معدودے چند مردوں میں سے ایک تھا جو ایک طرف تو آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑتے ہیں اور دوسری جانب وادیِ گلگشت میں فرشِ گل پر بھی پھونک پھونک کر قدم دھرتے ہیں۔ جو ڈوب جانے کی پرواہ کیے بغیر منجدھار میں اتر جاتے ہیں۔ جنونِ شوق میں حد سے گزر جاتے ہیں۔ حیرت انگیز کار ہائے نمایاں کر جاتے ہیں۔ جن کی آنکھیں دوسروں کی تباہی کے منظرسے گیلی ہوتی ہیں۔ پلکیں اداس اور پیلی ہوتی ہیں۔ رگیں دوسروں کے حصے کے زہر سے نیلی ہوتی ہیں۔