ایک طویل کہانی
پالتو
از قلم
عبد الصمد
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
اقتباس
اس کے اچانک اور قدرے بے ہنگم قہقہے سے سبھی چونک پڑے اور اسے خوف زدہ نظروں سے گھورنے لگے۔ قہقہہ لگانے والا شرمندہ سا ہو گیا اور معذرت خواہ لہجے میں بولا۔
’’معاف کرنا۔۔۔ دراصل میرے ذہن میں اچانک ایک بات آ گئی تھی۔۔۔‘‘
وہ رک گیا تو سبھی بے ساختہ دریافت کر نے لگے۔
’’کون سی بات۔۔۔؟ کون سی بات۔۔۔؟‘‘
وہ تھوڑا جھجک کر بولا۔
’’آسیب کی۔۔۔ آسیب والی بات۔۔‘‘
’’آسیب۔۔۔؟؟؟‘‘
وہ سب گویا اچھل پڑے اور اسے یوں دیکھنے لگے جیسے اسی میں کوئی آسیب سما گیا ہو۔ وہ مسکرایا اور دھیرے سے بولا۔
’’امکان کی بات ہے۔ آخر ہم لوگ بار بار غور و خوض کے لئے بیٹھتے ہیں اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نا۔۔۔‘‘
وہ سب ابھی تک اسے ان نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جنہوں نے اسے ان کے سامنے اچانک ایک مشکوک چیز بنا دیا تھا۔
ان میں سے ایک نے کچھ تیز لہجے میں دریافت کیا۔
یعنی اب یہ صورت حال ہو گئی کہ ہم بھوت، پریت، آسیب وغیرہ پر یقین کر نے لگیں۔۔۔‘‘
’’یقین کرنے کو کون کہہ رہا ہے، مگر جب ہم اتنے دنوں سے چاروں طرف نظر یں دوڑا دوڑا کے تھک چکے تو اس امکان پر بھی غور کر لینے میں نقصان کیا ہے۔۔۔؟‘‘
تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی، یوں سب کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اس کی بات انہیں ہضم نہیں ہو رہی۔ ان میں سے ایک نے دریافت کیا۔
’’پھر تم اتنی زور سے ہنسے کیوں۔۔۔؟‘‘
’’جیسے تم اسے بے وقوفی سمجھ رہے ہو، ویسے ہی میں بھی سمجھتا ہوں۔ دراصل میں اپنی ہی سوچ پر ہنسا تھا، مگر اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح سے ایک دم آنکھیں موند لینا بھی مناسب نہیں۔۔۔‘‘
’’لیکن اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ ہم زمینی حقائق سے اٹھ کر آسمان میں کچھ ڈھونڈ نے لگیں۔۔۔ آسمان میں بھی نہیں، زمین آسمان کے درمیان خلا میں۔۔۔‘‘
بولنے والے کے الفاظ تو اتنے سخت نہیں تھے مگر انداز ایسا تھا کہ سب خاموشی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔
دراصل یہ گنتی کے چند لوگ تھے، یوں یہ لاتعداد نفوس کی نمائندگی کر تے تھے۔ ادھر کافی عرصے سے ان کے آس پاس جو کچھ ہو رہا تھا، اس پر ان کا فکر مند ہونا واجب تھا۔ مشکل یہ تھی کہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ پکڑ میں نہیں آتا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے ہونی انہونی کی کئی انجانی سبیلیں کھل گئی ہیں اور لگاتار اپنے کام میں مصروف ہیں۔ انہیں روکنے کی جتنی تدبیریں اختیار کی جاتیں یا سوچی جاتیں، وہ سب کی سب الٹی پڑ رہی تھیں، یعنی کوئی تدبیر بھی ہونی انہونی کو روک نہیں پا رہی تھی۔ ایسے میں اس طبقے کا فکر مند ہونا لازم تھا، جو تدبیریں اختیار کر نے اور طرح طرح کی سوچ کو بے لگام کر نے پر مامور تھا۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ وہ جب بھی سر جوڑ کے بیٹھتے، درمیان خاموشی کے وقفے بہت آتے اور کبھی کبھی تو اتنے طویل ہو جاتے کہ محسوس ہوتا کہ وہ صرف یہاں خاموش بیٹھنے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ یوں بھی ان کی باتیں زیادہ تر ادھوری ہی ہوتیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے کا تو معاملہ ہی نہیں بنتا تھا۔ پھر بھی وہ وقفے وقفے سے بیٹھنے کے لئے مجبور تھے کہ نہ بیٹھتے تو پتہ نہیں کون سی نئی ہونی انہونی کا انہیں سامنا کرنا پڑے۔
طویل ہوتی ہوئی خاموشی کو ایک نے توڑنے کی کوشش کی۔
’’اصل مشکل یہ ہے کہ جب ہم اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق کسی ایک راستے کو اختیار کر لیتے ہیں تو فوراً ہی کوئی انجان ہاتھ ہمیں کسی نا معلوم راستے پر اچھال دیتا ہے، اور ہم اپنے طور پر پھر صفر پر پہنچ جاتے ہیں۔۔۔‘‘
’’کوئی نہ کوئی غلطی ضرور رہ جاتی ہو گی جو ہماری پکڑ میں نہیں آتی۔ اس میں کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔۔۔؟‘‘
باتوں کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔
’’کمال ہے کہ ہم لوگ اتنے وسائل اور انتظام کے رہتے ہوئے بھی اصل مجرم کو پکڑ نہیں پاتے اور ہر بار ہمیں سب کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔‘‘
ایک تاسف بھرا خیال۔۔۔
ایک طنز یہ ہنسی۔۔۔
’’مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اصل مجرم خود ہمارے اندر ہے اور شاید ہم اس سے واقف بھی ہیں، مگر ہمت نہیں ہوتی کہ اس پر ہاتھ ڈال سکیں۔۔۔‘‘
’’یہ تو اصل بات کو الجھانے والا خیال ہو گیا۔ ایک ایسا بے معنی فلسفہ جس کا کبھی کوئی حل نکل ہی نہیں سکتا۔۔۔‘‘
قدرے غصہ بھری آواز۔۔۔
’’ارے بھائی، میرا مطلب یہ نہیں، دراصل ہم جانی پہچانی را ہوں پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں، نیا راستہ ہمیں نہیں سوجھتا، جبکہ ہمارے مبینہ دشمن نئے نئے راستوں سے خوب واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم ان کے راستوں کو اختیار نہیں کریں گے، اس لئے۔۔۔‘‘
وضاحت۔۔۔
’’اتنے بے شمار لوگوں میں، جس کے اُور چھور کا ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا، صحیح جگہ پر نشانہ لگانا ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔۔۔‘‘
اعتراف۔۔۔
’’اتنی سائنسی ترقی، اتنی خلائی کامیابی، آسمانوں کے اوپر اور پاتال میں پوشیدہ علم سے واقفیت کا ہم وعدہ کرتے ہیں، نہیں جانتے تو بس اپنی قسموں کا۔۔۔‘‘
شکست کی آواز۔۔۔
’’ذرا صاف صاف بولو بھائی، اس وقت ہمارے ذہنوں پر اتنے غبار ہیں کہ اشاروں میں کچھ سمجھنا تقریباً ناممکن ہے۔۔۔‘‘
سرزنش۔۔۔
’’ہم نے جانوروں، پرندوں، مچھلیوں اور کیڑے مکوڑوں کی قسمیں تو دریافت کر لیں، ان پر طرح طرح کے ریسرچ کر کے مطمئن ہو گئے، مگر اپنی قسمیں نہیں جان سکے، ہم میں سے کتنے ایسے قابل ہیں جو انسانوں کی قسمیں جاننے کا دعوی کر سکتے ہیں۔۔۔؟
ایک تیکھا سوال۔۔۔
’’اس سے کیا ہو گا۔۔۔؟‘‘
تمسخربھرا سوال۔۔۔
’’اس سے ہو گا یہ کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا رشتہ ہم صحیح ستون سے باندھ سکیں گے اور فضاؤں، ہواؤں میں جو ہاتھ پیر مار رہے ہیں، اس سے بچ جائیں گے۔۔۔‘‘
اعتماد۔۔۔
قدرے خاموشی۔۔۔ طویل خاموشی۔۔۔ پھر۔۔۔
’’مگر ہم جو اپنے اختیار کردہ راستوں پر اتنے آگے بڑھ چکے اس کا کیا ہو گا۔۔۔؟‘‘
ایک سنجیدہ سوال۔۔۔
’’اصل بات تو یہی ہے، ہم غلطی پر غلطی کرتے جاتے ہیں، ایک طرح سے اس کا انبار لگا دیتے ہیں، اس وقت تو ہم بڑے شیر ہو جاتے ہیں مگر کوڑے کے اس انبار کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے ہیں۔۔۔‘‘
تلخ حقیقت۔۔۔
’’لیکن بھیا، یہ بھی تو سوچو، ہمیں جواب بھی تو دینا پڑتا ہے، فوراً جواب نہ دیں تو طرح طرح کے الزامات کے گھیرے میں آ جاتے ہیں، اس لئے اس موقع پر سب سے پہلے تو اپنا ہی سر بچانا پڑتا ہے۔۔۔‘‘
لاچاری۔۔۔
’’اگر ہم انسانوں کی قسمیں جان لیتے تو شاید ہمیں کچھ کامیابی مل سکتی تھی۔۔۔‘‘
حسرت۔۔۔
’’شاید افسوس کر نے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے لئے ہمیں نئے سرے سے اپنی بنیادوں کو تلاش کرنا پڑے گا، اور حالات ہیں کہ سر پر چڑھے آتے ہیں، ہمیں تو ہر حال میں فوری حل ڈھونڈ نا پڑتا ہے، لہٰذا اب کف افسوس ملنے سے بہتر ہے کہ ہم سوچ کی کچھ نئی وادیاں تلاش کریں۔ ہم بیٹھتے تو ہیں مگر کسی نتیجے کے ساتھ نہیں اٹھتے۔۔۔‘‘
اظہار حقیقت۔۔۔
’’کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ شاید انسان یہ کام انجام ہی نہیں دیتے، ضرور کوئی ایسی قوت ہے جو۔۔۔
نیا خیال۔۔۔
’’تم تو پھر آسیب والی بات پر لوٹ رہے ہو، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے لا شعور نے کہیں شکست کو تسلیم کر لیا ہے، صرف اس کا باقاعدہ اعلان باقی ہے۔۔۔‘‘
تلخ حقیقت۔۔۔
’’یہ کام دوسرے جاندار بھی تو انجام دے سکتے ہیں۔
چونکانے والا خیال۔۔۔
’’یعنی۔۔۔ یعنی۔۔۔ یعنی ہم کٹہرے میں کھڑا کر نے کے لئے انسانوں کے علاوہ کسی اور جاندار کو تلاش کریں۔۔۔؟‘‘
حیرت۔۔۔ حیرت۔۔۔ حیرت۔۔۔
’’کیوں۔۔۔؟ اس میں اس قدر حیرت کی بات کیا ہے؟
آج تک انسانوں نے جو بھی تجربے کئے ہیں وہ جانوروں ہی پر تو کئے ہیں، جانور احتجاج نہیں کر سکتے، چپ چاپ تجربے سہ لیتے ہیں اور انسان۔۔۔‘‘
حقیقت بیانی۔۔۔
پھر خاموشی ان کے درمیان چپکے سے آ کے بیٹھ گئی۔ جس شخص نے جانور کے نام پر حیرانی کا اظہار کیا تھا، سب کی نگاہیں بار بار اس پر پڑ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے بند تالے میں چابی ڈال دی ہو اور اب وہ اندر سے کچھ خاص بر آمد ہو نے کے منتظر ہوں۔ مگر دیر تک کچھ بر آمد نہیں ہوا اور خاموشی بھی طویل ہو گئی تو اچانک جیسے ان کے اندر زندگی کی لہر سی دوڑ گئی۔ ایک قدرے تیز اور خوشیوں سے بھری آواز نے سب کو جگا دیا۔
’’ارے بھائی، تم نے ایک بڑی روشنی دکھا دی جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم سے اوجھل تھی۔ ہم اپنی سعی میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں۔ اس پر تو بڑے پیمانے پر غور و خوض کرنا ہو گا۔ فی الحال تو ہمیں اپنی ناکامیوں کو کس طرح کامیابی میں بدلنا ہے اور جو حالات ہمارے سامنے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ انسان کا کام ہی نہیں، انسانی دماغ ضرور اس کے پیچھے ہے اور انہوں نے یقیناً جانوروں کو استعمال کیا ہے۔‘‘
’’مگر یہ نہ بھولو کہ جانوروں کی تعداد انگنت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ جانکاری حاصل کرنی ہو گی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس جانور کی وابستگی ممکن ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘