اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


معارف القرآن، جلد چہارم ۔۔۔ مفتی محمد شفیع عثمانی

اہم تفسیر کی ایک اور جلد پیش ہے

معارف القرآن، جلد چہارم

منزل 4، سورۃ الاسراء تا الفرقان

مفتی محمد شفیع عثمانی

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں….. 

۲۳۔ سورۃ مؤمنون

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔

سورة مومنون مکہ میں اتری اور اس کی ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور چھ رکوع

فضائل و خصوصیات سورة مومنون:

مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب کی روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو پاس والوں کے کان میں ایسی آواز ہوتی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے۔ ایک روز آپ کے قریب ایسی ہی آواز سنی گئی تو ہم ٹھہر گئے کہ تازہ آئی ہوئی وحی سن لیں۔ جب وحی کی خاص کیفیت سے فراغت ہوئی تو آنحضرتﷺ قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے اور یہ دعا کرنے لگے اللھم زدنا ولا تنقصنا و اکرمنا ولاتھنا واعطنا ولا تحرمنا واثرنا ولا توثر علینا وارض عنا و ارضنا (یعنی یا اللہ ہمیں زیادہ دے کم نہ کر اور ہماری عزت بڑھا ذلیل نہ کر اور ہم پر بخشش فرما، محروم نہ کر اور ہمیں دوسروں پر ترجیح دے ہم پر دوسروں کو ترجیح نہ دے اور ہم سے راضی ہو اور ہمیں بھی اپنی رضا سے راضی کر دے) اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس آیتیں ایسی نازل ہوئی ہیں کہ جو شخص ان پر پورا پورا عمل کرے تو وہ (سیدھا) جنت میں جائے گا۔ پھر یہ دس آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں پڑھ کر سنائی۔ (ابن کثیر)

اور نسائی نے کتاب التفسیر میں یزید بن بابنوس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے سوال کیا کہ رسول اللہﷺ کا خلق کیسا اور کیا تھا، انہوں نے فرمایا آپ کا خلق یعنی طبعی عادت وہ تھی جو قرآن میں ہے اس کے بعد یہ دس آیتیں تلاوت کر کے فرمایا کہ بس یہی خلق و عادت تھی رسول اللہﷺ کی۔ (ابن کثیر)

023: 001

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝۱

ترجمہ:

کام نکال لے گئے ایمان والے۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

بالتحقیق ان مسلمانوں نے (آخرت میں) فلاح پائی جو (تصحیح عقائد کے ساتھ صفات ذیل کے ساتھ بھی موصوف ہیں یعنی وہ) اپنی نماز میں (خواہ فرض ہو یا غیر فرض) خشوع کرنے والے ہیں اور جو لغو (یعنی فضول) باتوں سے (خواہ قولی ہوں یا فعلی) برکنار رہنے والے ہیں اور جو (اعمال و اخلاق میں) اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی (حرام شہوت رانی سے) حفاظت رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیونکہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلبگار ہو ایسے لوگ حد (شرعی) سے نکلنے والے ہیں اور جو اپنی (سپردگی میں لی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہد کا (جو کسی عقد کے ضمن میں کیا ہو یا ویسے ہی ابتداء کیا ہو) خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی (فرض) نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس (بریں) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

معارف و مسائل

فلاح کام چزا ہے اور کہاں اور کسےد ملتی ہے:

قد افلح المؤمنون، لفظ فلاح قرآن و سنت میں بکثرت استعمال ہوا ہے اذان و اقامت میں پانچ وقت ہر مسلمان کو فلاح کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ فلاح کے معنے یہ ہیں کہ ہر مراد حاصل ہو اور ہر تکلیف دور ہو (قاموس) یہ لفظ جتنا مختصر ہے اتنا ہی جامع ایسا ہے کہ کوئی انسان اس سے زیادہ کسی چیز کی خواہش کر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مکمل فلاح کہ ایک مراد بھی ایسی نہ رہے جو پوری نہ ہو اور ایک بھی تکلیف ایسی نہ رہے جو دور نہ ہو، یہ دنیا میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس میں نہیں چاہے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہفت اقلیم ہو یا سب سے بڑا رسول اور پیغمبر ہو۔ اس دنیا میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز خلاف طبع پیش نہ آئے اور جو خواہش جس وقت دل میں پیدا ہو بلا تاخیر پوری ہو جائے۔ اگر اور بھی کچھ نہیں تو ہر نعمت کے لئے زوال اور فنا کا کھٹکا اور ہر تکلیف کے واقع ہو جانے کا خطرہ، اس سے کون خالی ہو سکتا ہے؟

اس سے معلوم ہوا کہ فلاح کامل تو ایسی چیز ہے جو اس ملک دنیا میں دستیاب ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیا تو دار التکلیف و المحنت بھی ہے اور اس کی کسی چیز کو بقاء و قرار بھی نہیں۔ یہ متاع گرانمایہ ایک دوسرے عالم میں ملتی ہے جس کا نام جنت ہے۔ وہ ہی ایسا ملک ہے جس میں انسان کی ہر مراد ہر وقت بلا انتظار حاصل ہو گی ولہم ما یدعون (یعنی ان کو ملے گی ہر وہ چیز جو وہ چاہیں گے) اور وہاں کسی ادنیٰ رنج و تکلیف کا گزر نہ ہو گا اور ہر شخص یہ کہتا ہوا وہاں داخل ہو گا الحمد للٰہ الذیٓ اذہب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور، الذیٓ احلنا دار المقامة من فضلہٖ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا بلا شبہ ہمارا رب معاف کرنے والا قدر دان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے ایک مقام میں پہنچا دیا جس کی ہر چیز قائم و دائم ہے اس آیت میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ دار دنیا میں کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جس کو کبھی کوئی رنج و غم نہ پہنچا ہو۔ اس لئے جنت میں قدم رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہے گا کہ اب ہمارا غم دور ہوا۔ قرآن کریم نے سورة اعلیٰ میں جہاں فلاح حاصل کرنے کا یہ نسخہ بتلایا کہ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے قد افلح من تزکٰى اس کے ساتھ ہی یہ بھی اشارہ فرمایا کہ کامل فلاح کی جگہ اصل میں آخرت ہے صرف دنیا سے دل لگانا طالب فلاح کا کام نہیں۔ فرمایا بل تؤ ثرون الحیٰوة الدنیا، والاٰخرة خیر وابقٰى، یعنی تم لوگ دنیا ہی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے کہ اسی میں ہر مراد حاصل اور ہر تکلیف دور ہو سکتی ہے اور وہ باقی رہنے والی بھی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کامل و مکمل فلاح تو صرف جنت ہی میں مل سکتی ہے دنیا اس کی جگہ ہی نہیں۔ البتہ اکثری حالات کے اعتبار سے فلاح یعنی با مراد ہونا اور تکلیفوں سے نجات پانا یہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔ آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے کا وعدہ ان مومنین سے کیا ہے جن میں وہ سات صفات موجود ہوں جن کا ذکر ان آیات کے اندر آیا ہے۔ یہ فلاح عام اور شامل ہے جس میں آخرت کی کامل مکمل فلاح بھی داخل ہے اور دنیا میں جس قدر فلاح حاصل ہونا ممکن ہے وہ بھی۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ صفات مذکور کے حامل مومنین کو آخرت کی کامل فلاح ملنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دنیا میں فلاح تو بظاہر کفار فجار کا حصہ بنی ہوئی ہے اور ہر زمانے کے انبیاء اور ان کے بعد صلحا امت عموماً تکلیفوں میں مبتلا رہے ہیں۔ مگر جواب اس کا ظاہر ہے کہ دنیا میں مکمل فلاح کا تو وعدہ نہیں کہ کوئی تکلیف پیش ہی نہ آوے بلکہ کچھ نہ کچھ تکلیف تو یہاں پر صالح و متقی کو بھی اور ہر کافر فاجر کو بھی پیش آنا ناگزیر ہے اور یہی حال حصول مراد کا ہے کہ کچھ نہ کچھ یہ مقصد بھی ہر انسان کو خواہ وہ صالح و متقی ہو خواہ کافر و بدکار ہو حاصل ہوتا ہی ہے۔ پھر ان دونوں میں فلاح پانے والا کس کو کہا جائے تو اس کا اعتبار عواقب اور انجام پر ہے۔

دنیا کا تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے کہ جو اہل صلاح ان سات اوصاف کے حامل اور ان سے متصف اور ان پر قائم ہیں گو دنیا میں وقتی تکلیف ان کو بھی پیش آ جائے مگر انجام کار ان کی تکلیف جلد دور ہوتی ہے اور مراد حاصل ہو جاتی ہے ساری دنیا ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور دنیا میں نیک نام انہی کا باقی رہتا ہے۔ جتنا دنیا کے حالات کا غور و انصاف سے مطالعہ کیا جائے گا ہر دور ہر زمانے ہر خطہ میں اس کی شہادتیں ملتی چلی جائیں گی۔

مومن کامل کے وہ سات اوصاف جن پر آیات مذکورہ مںے فلاح دنا و آخرت کا وعدہ ہے:

سب سے پہلا وصف تو مومن ہونا ہے مگر وہ ایک بنیادی چیز اور اصل الاصول ہے اس کو الگ کر کے سات اوصاف جو یہاں بیان کئے گئے ہیں یہ ہیں۔

اول نماز میں خشوع، خشوع کے لغوی معنے سکون کے ہیں اصطلاح شرع میں خشوع یہ ہے کہ قلب میں بھی سکون ہو۔ یعنی غیر اللہ کے خیال کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے اور اعضاء بدن میں بھی سکون ہو کہ عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے (بیان القرآن) خصوصاً وہ حرکتیں جن سے رسول اللہﷺ نے نماز میں منع فرمایا ہے اور فقہاء نے ان کو مکروہات نماز کے عنوان سے جمع کر دیا ہے۔ تفسیر مظہری میں خشوع کی یہی تعریف حضرت عمرو بن دینار سے نقل کی ہے اور دوسرے بزرگوں سے جو خشوع کی تعریف میں مختلف چیزیں نقل کی گئی ہیں وہ در اصل اسی سکون قلب و جوارح کی تفصیلات ہیں۔ مثلاً حضرت مجاہد نے فرمایا کہ نظر اور آواز کو پست رکھنے کا نام خشوع ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ دائیں بائیں التفات یعنی گوشتہ چشم سے دیکھنے سے بچنا خشوع ہے۔ حضرت عطاء نے فرمایا کہ بدن کے کسی حصہ سے کھیل نہ کرنا خشوع ہے۔ حدیث میں حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے جب دوسری طرف التفات کرتا ہے یعنی گوشہ چشم سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے رخ پھیر لیتے ہیں۔ (رواہ احمد والنسائی و ابو داؤد وغیرہم۔ مظہری) اور نبی کریمﷺ نے حضرت انس کو حکم دیا کہ اپنی نگاہ اس جگہ رکھو جس جگہ سجدہ کرتے ہو اور یہ کہ نماز میں دائیں بائیں التفات نہ کرو (رواہ البیہقی فی السنن الکبریٰ و مظہری)

اور حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے تو فرمایا لو خشع قلب ھذا الخشعت جوارحہ (رواہ الحاکم والترمذی بسند ضعیف) یعنی اگر اس شخص کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔ (مظہری)

نماز مںس خشوع کی ضرورت کا درجہ:

امام غزالی و قرطبی اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ نماز میں خشوع فرض ہے اگر پوری نماز خشوع کے بغیر گزر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہو گی۔ دوسرے حضرات نے فرمایا کہ اس میں شبہ نہیں کہ خشوع روح نماز ہے اس کے بغیر نماز بے جان ہے مگر اس کو رکن نماز کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خشوع نہ ہوا تو نماز ہی نہ ہوئی اور اس کا اعادہ فرض قرار دیا جائے۔

حضرت سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ خشوع صحت نماز کے لئے موقوف علیہ تو نہیں اور اس درجہ میں وہ فرض نہیں مگر قبول نماز کا موقوف علیہ اور اس مرتبہ میں فرض ہے حدیث میں طبرانی نے معجم کبیر میں بسند حسن حضرت ابو الدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو چیز اس امت سے اٹھ جائے گی یعنی سلب ہو جائے گی وہ خشوع ہے یہاں تک کہ قوم میں کوئی خاشع نظر نہ آئے گا۔ کذا فی مجمع الزوائد (بیان)

مومن کامل کا دوسرا وصف، لغو سے پرہیز کرنا ہے والذین ہم عن اللغو معرضون لغو کے معنے فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدہ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے اس سے پرہیز واجب ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا من حسن اسلام المرا ترکہ مالا یعنیہ یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہو سکتا ہے جبکہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لئے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے۔

تیسرا وصف، زکوٰة ہے لفظ زکوٰة کے معنے لغت میں پاک کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں شرح مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوٰة کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں عام طور پر یہ لفظ اسی اصطلاحی معنے میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں یہ معنے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور اس پر جو شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مکہ میں زکوٰة فرض نہ ہوئی تھی ہجرت مدینہ کے بعد فرض ہوئی، اس کا جواب ابن کثیر وغیرہ مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوٰة کی فرضیت مکہ ہی میں ہو چکی تھی سورة مزمل جو بالاتفاق مکی ہے اس میں بھی اقیموا الصلٰوة کے ساتھ اٰتوا الزکٰوة کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا عام انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ طیبہ جانے کے بعد جاری ہوئیں۔ جن لوگوں نے زکوٰة کو مدنی احکام میں شمار کیا ہے ان کا یہی منشاء ہے۔ اور جن حضرات نے فرضیت زکوٰة کو مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حکم قرار دیا ہے انہوں نے اس جگہ زکوٰة کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے خلاصہ تفسیر میں بھی یہی لیا گیا ہے اس معنے کا قرینہ اس آیت میں یہ بھی ہے کہ عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوٰة فرض کا ذکر آیا ہے تو اس کو (آیت) ایتاء الزکوٰة یوتون الزکوٰة اور اتوا الزکوة کے عنوان سے بیان کیا گیا، یہاں عنوان بدل کر للزکٰوة فٰعلون فرمایا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوٰة کے وہ اصطلاحی معنے مراد نہیں اس کے علاوہ فاعلون کا بے تکلف تعلق فعل سے ہوتا ہے اور زکوٰة اصطلاحی فعل نہیں بلکہ ایک حصہ مال ہے اس حصہ مال کے لئے فاعلون کہنا بغیر تاویل کے نہیں ہو سکتا۔ اگر آیت میں زکوٰة کے معنی اصطلاحی زکوٰة کے لئے جاویں تو اس کا فرض ہونا اور مومن کے لئے لازم ہونا کھلا ہوا معاملہ ہے اور اگر مراد زکوٰة سے تزکیہ نفس ہے یعنی اپنے نفس کو رذائل سے پاک کرنا تو وہ بھی فرض ہی ہے کیونکہ شرک، ریا، تکبر، حسد، بغض، حرص، بخل جن سے نفس کو پاک کرنا تزکیہ کہلاتا ہے یہ سب چیزیں حرام اور گناہ کبیرہ ہیں۔ نفس کو ان سے پاک کرنا فرض ہے۔

چوتھا وصف، شرمگاہوں کی حفاظت حرام سے والذین ہم لفروجہم حٰفظون، الا علٰٓی ازواجہم او ما ملکت ایمانہم، یعنی وہ لوگ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ سب سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ان دونوں کے ساتھ شرعی ضابطہ کے مطابق شہوت نفس پوری کرنے کے علاوہ اور کسی سے کسی ناجائز طریقہ پر شہوت رانی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اس آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا فانہم غیر ملومین، یعنی شرعی قاعدے کے مطابق اپنی بیوی یا لونڈی سے شہوت نفس کو تسکین دینے والوں پر کوئی ملامت نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھنا ہے مقصد زندگی بنانا نہیں۔ اس کا درجہ اتنا ہی ہے کہ جو ایسا کرے وہ قابل ملامت نہیں واللہ اعلم۔

023: 002

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۝۲

ترجمہ:

جو اپنی نماز میں جھکنے والے ہیں۔

023: 003

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ۝۳

ترجمہ:

اور جو نکمی بات پر دھیان نہیں کرتے۔

023: 004

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ۝۴

ترجمہ:

اور جو زکوٰة دیا کرتے ہیں۔

023: 005

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۝۵

ترجمہ:

اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں۔

023: 006

اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ۝۶

ترجمہ:

مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر سو ان پر نہیں کچھ الزام۔

023: 007

فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ۝۷

ترجمہ:

پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔

تفسیر:

فمن ابتغٰى ورآء ذٰلک فاولٰٓىٕک ہم العٰدون، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاء شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکم زنا ہے اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کر لینا بھی اس میں داخل ہے۔ (از تفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ)

023: 008

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ۝۸

ترجمہ:

اور جو اپنی امانتوں سے اپنے اقرار سے خبر دار ہیں۔

تفسیر:

پانچواں وصف امانت کا حق ادا کرنا والذین ہم لامٰنٰتہم وعہدہم رٰعون لفظ امانت کے لغوی معنے ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسہ کیا گیا ہو۔ اس کی قسمیں چونکہ بیشمار ہیں اسی لئے باوجود مصدر ہونے کے اس کو بصیغہ جمع لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہو جائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا تو معروف و مشہور ہے کہ کسی شخص نے کسی کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا یہ اس کی امانت ہے اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی وہ بھی اس کی امانت ہے بغیر اذن شرعی کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ مزدور، ملازم کو جو کام سپرد کیا گیا اس کے لئے جتنا وقت خرچ کرنا باہم طے ہو گیا اس میں اس کام کو پورا کرنے کا حق ادا کرنا اور مزدوری ملازمت کے لئے جتنا وقت مقرر ہے اس کو اسی کام میں لگانا بھی امانت ہے کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا بڑا جامع لفظ ہے۔ سب مذکورہ تفصیلات اس میں داخل ہیں۔

چھٹا وصف عہد پورا کرنا ہے۔ عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملے کے سلسلے میں لازم قرار دیا جائے اس کا پورا کرنا فرض اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے جو حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں یعنی یکطرفہ صورت سے کوئی شخص کسی شخص سے کسی چیز کے دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کر لے۔ اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہو جاتا ہے۔ حدیث میں ہے العدة دین یعنی وعدہ ایک قسم کا قرض ہے۔ جیسے قرض کی ادائیگی واجب ہے ایسے ہی وعدہ کا پورا کرنا واجب ہے۔ بلا عذر شرعی اس کے خلاف کرنا گناہ ہے۔ فرق دونوں قسموں میں یہ ہے کہ پہلی قسم کے پورا کرنے پر دوسرا آدمی اس کو بذریعہ عدالت بھی مجبور کر سکتا ہے یکطرفہ وعدہ کو پورا کرنے کے لئے بذریعہ عدالت مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ دیانة اس کا پورا کرنا بھی واجب اور بلا عذر شرعی خلاف کرنا گناہ ہے۔

023: 009

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ۝۹

ترجمہ:

اور جو اپنی نمازوں کی خبر رکھتے ہیں۔

تفسیر:

ساتواں وصف نماز پر محافظت ہے والذین ہم علیٰ صلوٰتہم یحافظون، نماز کی محافظت سے مراد اس کی پابندی کرنا اور ہر ایک نماز کو اس کے وقت مستحب میں ادا کرنا ہے۔ (کذا فسرہ ابن مسعود، روح) یہاں صلوات کا لفظ جمع اس لئے لایا گیا ہے کہ مراد اس سے پانچ وقت کی نمازیں ہیں جن کو اپنے اپنے وقت مستحب میں پابندی سے ادا کرنا مقصود ہے اور شروع میں جہاں مقصود بالذکر خشوع تھا وہاں لفظ مفرد لایا گیا ہے کہ مطلقا جنس نماز خواہ فرض ہو یا واجب، سنت ہو یا نفل سب کی روح خشوع ہے۔ غور کیا جائے تو ان سات اوصاف مذکورہ میں تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد اور ان سے متعلقہ احکام آ جاتے ہیں جو شخص ان اوصاف کے ساتھ متصف ہو جائے اور اس پر جما رہے وہ مومن کامل فلاح دنیا و آخرت کا مستحق ہے۔

یہ بات قابل نظر ہے کہ ان سات اوصاف کو شروع بھی نماز سے کیا گیا اور ختم بھی نماز پر کیا گیا اس میں اشارہ ہے کہ اگر نماز کو نماز کی طرح پابندی اور آداب نماز کے ساتھ ادا کیا جائے تو باقی اوصاف اس میں خود بخود پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ واللہ اعلم

023: 010

اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ۝۱۰

ترجمہ:

وہی ہیں میراث لینے والے۔

تفسیر:

اولٰٓىٕک ہم الوٰرثون، الذین یرثون الفردوس، اوصاف مذکورہ کے حامل لوگوں کو اس آیت میں جنت الفردوس کا وارث فرمایا ہے۔ لفظ وارث میں اشارہ اس طرف ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کے وارث کو پہنچنا قطعی اور لازمی ہے اسی طرح ان اوصاف والوں کا جنت میں داخلہ یقینی ہے اور قد افلح کے بعد اوصاف مفلحین پورے ذکر کرنے کے بعد اس جملے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ فلاح کامل اور اصلی فلاح کی جگہ جنت ہی ہے۔

023: 011

الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۱۱

ترجمہ:

جو میراث پائیں گے باغ ٹھنڈی چھاؤں کے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔

023: 012

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ۝۱۲

ترجمہ:

اور ہم نے بنایا آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

(اول بیان ہے ایجاد انسان کا) اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (یعنی غذا) سے بنایا (یعنی اول مٹی ہوتی ہے پھر اس سے بذریعہ نباتات کے غذا حاصل ہوتی ہے) پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ (ایک مدت معینہ تک) ایک محفوظ مقام (یعنی رحم) میں رہا (اور وہ غذا سے حاصل ہوا تھا) پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو (گوشت کی) بوٹی بنا دیا پھر ہم نے اس بوٹی (کے بعض اجزاء) کو ہڈیاں بنا دیا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا (جس سے وہ ہڈیاں ڈھک گئیں) پھر (ان سب انقلابات کے بعد) ہم نے (اس میں روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری ہی (طرح کی) مخلوق بنا دیا (جو حالات سابقہ سے نہایت ہی متمائز و متبائن ہے کیونکہ اس سے پہلے سب انقلابات ایک جماد بے جان میں ہو رہے تھے اور اب یہ ایک ذی حیات زندہ انسان بن گیا) سو کیسی شان ہے اللہ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے (کیونکہ دوسرے صناع تو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں جوڑ توڑ کر کے ہی بنا سکتے ہیں۔ زندگی پیدا کرنا یہ خاص اللہ ہی کا کام ہے اور نطفہ پر مذکورہ انقلاب کی تفصیل اسی ترتیب کے ساتھ قانون وغیرہ کتب طبیہ میں بھی مذکور ہے آگے انسان کے آخری انجام فنا کا بیان ہے) پھر تم بعد اس (تمام قصہ عجیبہ) کے ضرور ہی مرنے والے ہو (آگے بیان ہے اعادہ کا یعنی) پھر تم قیامت کے روز دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے (اور جس طرح ہم نے تم کو ابتداء وجود عطا فرمایا اسی طرح تمہاری بقا کا سامان بھی کیا کہ) ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان (جن میں ملائکہ کے آمد و رفت کے لئے راہیں ہیں) بنائے (کہ اس سے تمہاری بھی بعض مصلحتیں متعلق ہیں) اور ہم مخلوق (کی مصلحتوں) سے بے خبر نہ تھے۔ (بلکہ ہر مخلوق کو مصالح و حکم کی رعایت کر کے بنایا) اور ہم نے (انسان کی بقاء اور نشو و نما کے لئے آسمان سے (مناسب) مقدار کے ساتھ پانی برسایا پھر ہم نے اس کو (مدت تک) زمین میں ٹھہرایا (چنانچہ کچھ پانی تو زمین کے اوپر رہتا ہے اور کچھ اتر جاتا ہے جو وقتاً فوقتاً نکلتا رہتا ہے) اور ہم (جس طرح اس کے برسانے پر قادر ہیں اسی طرح) اس (پانی) کے معدوم کر دینے پر (بھی) قادر ہیں (خواہ ہوا کی طرف مستحیل کر کے خواہ اتنی دور زمین کی گہرائی میں اتار کر کہ آلات کے ذریعہ سے نہ نکال سکو مگر ہم نے باقی رکھا) پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ سے باغ پیدا کئے کھجوروں کے انگوروں کے تمہارے واسطے ان (کھجوروں انگوروں) میں بکثرت میوے بھی ہیں (جبکہ ان کو تازہ تازہ کھایا جاوے تو میوہ سمجھا جاتا ہے) اور ان میں سے (جو بچا کر خشک کر کے رکھ لیا جاتا ہے اس کو بطور غذا کے) کھاتے بھی ہو اور (اسی پانی سے) ایک (زیتون کا) درخت بھی (ہم نے پیدا کیا) جو کہ طور سینا میں (بکثرت) پیدا ہوتا ہے جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے (یعنی اس کے پھل سے دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں خواہ روشن کرنے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے (یعنی اس کے پھل سے دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں خواہ روشن کرنے کے اور مالش کرنے کے کام میں لاؤ خواہ اس میں روٹی ڈبو کر کھاؤ یہ سامان مذکور پانی اور نباتات سے تھا) اور (آگے حیوانات کے ذریعہ انسان کے منافع اور آسانیوں کا بیان ہے کہ) تمہارے لئے مواشی میں (بھی) غور کرنے کا موقع ہے کہ ہم تم کو ان کے جوف میں کی چیز (یعنی دودھ) پینے کو دیتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں (کہ ان کے بال اور اون کام آتی ہے) اور (نیز) ان میں سے بعض کو کھاتے بھی ہو اور ان (میں جو باربرداری کے قابل ہیں ان) پر اور کشتی پر لدے لدے پھرتے (بھی) ہو۔

معارف و مسائل

پچھلی آیات میں انسان کی فلاح دنیا و آخرت کا طریقہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی تعمیل میں اپنے ظاہر و باطن کو پاک رکھنے اور تمام انسانوں کے حقوق ادا کرنے سے بیان کیا گیا تھا۔ آیات مذکورہ میں اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ اور بنی نوع انسان کی تخلیق میں اس کے مظاہر خاص کا ذکر ہے جس سے واضح ہو جائے کہ انسان جس کو عقل و شعور ہو وہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کر ہی نہیں سکتا۔

ولقد خلقنا الانسان من سلٰلة من طین، سلالہ بمعنے خلاصہ اور طین، گیلی مٹی، جس کے معنے یہ ہیں کہ زمین کی مٹی کے خاص اجزاء نکال کر اس سے انسان کو پیدا کیا گیا۔ انسان کی تخلیق کی ابتداء حضرت آدمؑ سے اور ان کی تخلیق اس مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اس لئے ابتدائی تخلیق کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا۔ اس کے بعد ایک انسان کا نطفہ دوسرے انسان کی تخلیق کا سبب بنا۔ اگلی آیت میں اسی کا بیان ثم جعلنٰہ نطفة سے فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ ابتدائی تخلیق مٹی سے ہوئی پھر آگے سلسلہ تخلیق اسی مٹی کے جزء لطیف یعنی نطفہ سے جاری کر دی گئی۔ جمہور مفسرین نے آیت مذکورہ کی تفسیر یہی لکھی ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سلٰلة من طین سے مراد بھی نطفہ انسانی ہو کیونکہ وہ غذا سے پیدا ہوتا ہے اور غذا انسانی مٹی سے بنتی ہے۔ واللہ اعلم۔

تخلقو انسانی کے سات مدارج:

آیات مذکورہ میں انسان کی تخلیق کی سات دور ذکر کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے سلٰلة من طین، دوسرے درجہ میں نطفہ، تیسرے میں علقہ، چوتھے میں مضغہ پانچویں میں عظام یعنی ہڈیاں، چھٹے دور میں ہڈیوں پر گوشت چڑھانا، ساتواں دور تکمیل تخلیق کا ہے یعنی روح پھونکنا۔

ایک لطفہت عجبہے از حضرت ابن عباس:

تفسیر قرطبی میں اس جگہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے اسی آیت سے استدلال کر کے ایک عجیب لطیفہ شب قدر کی تعیین میں نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ اکابر صحابہ کے مجمع سے سوال کیا کہ شب قدر رمضان کی کون سی تاریخ میں ہے؟ سب نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ اللہ اعلم کوئی تعیین بیان نہیں کی۔ حضرت ابن عباس ان سب میں چھوٹے تھے ان سے خطاب فرمایا کہ آپ کیا کہتے ہیں تو ابن عباس نے فرمایا کہ امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے آسمان سات پیدا کئے، زمینیں سات پیدا کیں، انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی۔ انسان کی غذا سات چیزیں بنائیں اس لئے میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب ہو گی۔ فاروق اعظم نے یہ عجیب استدلال سن کر اکابر صحابہ سے فرمایا کہ آپ سے وہ بات نہ ہو سکی جو اس لڑکے نے کی جس کے سر کے بال بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے۔ یہ حدیث طویل ابن ابی شیبہ کے مسند میں ہے۔ حضرت ابن عباس نے تخلیق انسانی کے سات درجات سے مراد وہی لیا ہے جو اس آیت میں ہے اور انسان کی غذا کی سات چیزیں سورة عبس کی آیت میں ہیں فانۢبتنا فیہا حبا، وعنبا وقضبا، وزیتونا ونخلا، وحدآىٕق غلبا، وفاکہة وابا، اس آیت میں آٹھ چیزیں مذکور ہیں جن میں پہلی سات انسان کی غذا ہے اور آخری یعنی اب یہ جانوروں کی غذا ہے۔ (قرطبی)

پھر تخلیق انسانی پر جو سات دور گزرتے ہیں قرآن کریم کی بلاغت دیکھئے کہ ان سب کو ایک ہی انداز سے بیان نہیں فرمایا بلکہ کہیں ایک دور سے دوسرے دور تک انقلاب کو لفظ ثم سے تعبیر کیا ہے جو تراخی یعنی کچھ دیر سے ہونے پر دلالت کرتا ہے کہیں اس انقلاب کا ذکر حرف فاء سے کیا ہے جو بلا تاخیر ہونے پر دلالت کرتا ہے اس میں اشارہ اس ترتیب کی طرف ہے جو ایک انقلاب سے دوسرے انقلاب کے درمیان فطرة ہوتی ہے کہ بعض انقلابات انسانی عقل کے لحاظ سے بہت مشکل اور بہت دیر طلب ہوتے ہیں۔ بعض اتنے دیر طلب نہیں ہوتے چنانچہ قرآن کریم نے ابتدائی تین دور کو لفظ ثم کے ساتھ بیان کیا ہے اول سلالہ طین پھر اس کو نطفہ کی صورت میں تبدیل کرنا۔

023: 013

ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪۝۱۳

ترجمہ:

پھر ہم نے رکھا اس کو پانی کی بوند کر کے ایک جمے ہوئے ٹھکانہ میں۔

تفسیر:

اس کو لفظ ثم سے فرمایا ثم جعلنٰہ نطفة کیونکہ مٹی سے غذا کا پیدا ہونا پھر غذا کا جزو بدن ہونا پھر اس میں سے جزء خاص کا نطفہ کی صورت میں تبدیل ہونا انسانی قیاس کی رو سے بڑا وقت چاہتا ہے۔

023: 014

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ۝۱۴

ترجمہ:

پھر بنایا اس بوند سے لہو جما ہوا پھر بنایا اس لہو جمے ہوئے سے گوشت کی بوٹی پھر بنائیں اس بوٹی سے ہڈیاں پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔

تفسیر:

اسی طرح اس کے بعد تیسرا درجہ نطفہ کا گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں تبدیل ہونا، یہ بھی ایک طویل وقت چاہتا ہے اس کو بھی ثم خلقنا النطفة علقة سے تعبیر فرمایا۔ اس کے بعد کے تین دور علقہ سے مضغہ مضغہ سے ہڈیاں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھانا ان سب کا تھوڑی تھوڑی مدت میں ہو جانا مستبعد نہیں معلوم ہوتا تو ان تینوں کو حرف فاء سے بیان فرمایا ہے۔ پھر آخری دور جو نفخ روح اور زندگی پیدا کرنے کا ہے اس کو بھی لفظ ثم سے تعبیر فرمایا کیونکہ ایک غیر ذی روح جماد میں روح اور حیات پیدا کرنا قیاس عقل میں بڑی مدت چاہتا ہے اس لئے یہاں پھر لفظ ثم لایا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک دور سے دوسرے دور کی طرف انقلاب جن صورتوں میں انسانی عقل و قیاس کے مطابق دیر طلب اور مدت کا کام تھا وہاں لفظ ثم سے اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا اور جہاں عام انسانی قیاس کی رو سے زیادہ مدت درکار نہیں تھی وہاں حرف فاء سے تعبیر کر کے اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا۔ اس لئے اس پر اس حدیث سے شبہ نہیں ہو سکتا جس میں یہ بیان فرمایا ہے کہ ہر دور سے دوسرے دور تک منقلب ہونے میں چالیس چالیس دن صرف ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کام ہے جو انسانی قیاس کے تابع نہیں۔

تخلقا انسانی کا آخری مقام یینر اس مںج روح و حایت پدکا کرنا:

اس کا بیان قرآن کریم نے ایک خاص اور ممتاز انداز سے اس طرح فرمایا ثم انشانٰہ خلقا اٰخر، یعنی پھر ہم نے اس کو ایک خاص قسم کی اور پیدائش عطا کی۔ اس امتیاز بیان کی وجہ یہ ہے کہ پہلے چھ دور تخلیق کے عالم عناصر اور مادیات سے اور ان میں انقلاب و تبدیل سے متعلق تھے اور یہ آخری ساتواں دور دوسرے عالم یعنی عالم ارواح سے روح کو اس کے جسم میں منتقل کرنے کا دور تھا اس لئے اس کو خلقا آخر سے تعبیر کیا گیا۔

روح حقیکر اور روح حواانی:

یہاں خلقا اٰخر کی تفسیر حضرت ابن عباس، مجاہد، شعبی، عکرمہ، ضحاک، ابو العالیہ (رحمہم اللہ) وغیرہ نے نفخ روح سے فرمائی ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ غالباً مراد اس روح سے روح حیوانی ہے کہ وہ بھی مادی اور ایک جسم لطیف ہے جو جسم حیوانی کے ہر ہر جزو میں سمایا ہوا ہوتا ہے جس کو اطباء اور فلاسفہ روح کہتے ہیں۔ اس کی تخلیق بھی تمام اعضاء انسانی کی تخلیق کے بعد ہوتی ہے اس لئے اس کو لفظ ثم سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور روح حقیقی جس کا تعلق عالم ارواح سے ہے، وہیں سے لا کر اس روح حیوانی کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ حق تعالیٰ اپنی قدرت سے پیدا فرما دیتے ہیں جس کی حقیقت کا پہچاننا انسان کے بس کا نہیں اس روح حقیقی کی تخلیق تو تمام انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہے انہیں ارواح کو حق تعالیٰ نے ازل میں جمع کر کے الست بربکم فرمایا اور سب نے بلیٰ کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ ہاں اس کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ تخلیق اعضاء انسانی کے بعد ہوتا ہے۔ اس جگہ نفح روح سے اگر یہ مراد لی جائے کہ روح حیوانی کے ساتھ روح حقیقی کا تعلق اس وقت قائم فرمایا گیا تو یہ بھی ممکن ہے۔ اور در حقیقت حیات انسان اسی روح حقیقی سے متعلق ہے جب اس کا تعلق روح حیوانی کے ساتھ ہو جاتا ہے تو انسان زندہ کہلاتا ہے جب منقطع ہو جاتا ہے تو انسان مردہ کہلاتا ہے وہ روح حیوانی بھی اپنا عمل چھوڑ دیتی ہے۔

فتبٰرک اللٰہ احسن الخٰلقین، خلق و تخلیق کے اصلی معنے کسی چیز کو ازسرنو بغیر کسی مادہ سابقہ کے پیدا کرنا ہے جو حق تعالیٰ جل شانہ، کی مخصوص صفت ہے۔ اس معنے کے اعتبار سے خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے کوئی دوسرا شخص فرشتہ ہو یا انسان کسی ادنیٰ چیز کا خالق نہیں ہو سکتا۔ لیکن کبھی کبھی یہ لفظ خلق و تخلیق صنعت کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور صنعت کی حقیقت اس سے زائد نہیں کہ اللہ جل شانہ نے جو مواد اور عناصر اس جہان میں اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرما دئیے ہیں ان کو جوڑ توڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ مرکب کر کے ایک نئی چیز بنا دی جائے یہ کام ہر انسان کر سکتا ہے اور اسی معنے کے لحاظ سے کسی انسان کو بھی کسی خاص چیز کا خالق کہہ دیا جاتا ہے۔ خود قرآن کریم نے فرمایا تخلقون افکا اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں فرمایا انىٓ اخلق لکم من الطین کہیِة الطیر، ان تمام مواقع میں لفظ خلق مجازی طور پر صنعت کے معنے میں بولا گیا ہے۔

اسی طرح یہاں لفظ خٰلقین بصیغہ جمع اسی لئے لایا گیا ہے کہ عام انسان جو اپنی صنعت گری کے اعتبار سے اپنے کو کسی چیز کا خالق سمجھتے ہیں اگر ان کو مجازاً خالق کہا بھی جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب خالقوں یعنی صنعت گروں میں سب سے بہتر صنعت کرنے والے ہیں۔ واللہ اعلم

023: 015

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَؕ۝۱۵

ترجمہ:

پھر تم اس کے بعد مرو گے۔

تفسیر:

ثم انکم بعد ذٰلک لمیتون، پچھلی تین آیتوں میں انسان کے مبدا یعنی ابتداء آفرینش کا ذکر تھا۔ اب دو آیتوں میں اس کے معاد یعنی انجام کار کا ذکر ہے۔ آیت مذکورہ میں فرمایا کہ پھر تم سب اس دنیا میں آنے اور رہنے کے بعد موت سے دوچار ہونے والے ہو جس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔

023: 016

ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ۝۱۶

ترجمہ:

پھر تم قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے۔

تفسیر:

پھر فرمایا کہ ثم انکم یوم القیٰمة تبعثون، یعنی مرنے کے بعد پھر قیامت کے روز تم سب زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے تاکہ تمہارے اعمال کا حساب لے کر اصلی ٹھکانے جنت یا دوزخ تک پہنچا دیا جائے۔ یہ انسان کا انجام ہوا، آگے آغاز و انجام یعنی مبدا و معاد کے درمیانی حالات اور ان میں انسان پر حق تعالیٰ کے احسانات و انعامات کی تھوڑی سی تفصیل ہے جس کو اگلی آیت میں آسمان کی تخلیق کے ذکر سے شروع فرمایا ہے۔

023: 017

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ ۖۗ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ۝۱۷

ترجمہ:

اور ہم نے بنائے تمہارے اوپر سات رستے اور ہم نہیں ہیں خلق سے بے خبر۔

تفسیر:

ولقد خلقنا فوقکم سبع طرآىٕق، طرائق، طریقة کی جمع ہے اس کو بمعنی طبقہ بھی لیا جا سکتا ہے جس کے معنے یہ ہوں گے کہ تہ بہ تہ سات آسمان تمہارے اوپر بنائے گئے اور طریقہ کے معنے مشہور راستہ کے ہیں۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ سب آسمان فرشتوں کی گزرگاہیں ہیں جو احکام لے کر زمین پر آتے جاتے ہیں۔

وما کنا عن الخلق غٰفلین اس میں یہ بتلایا کہ ہم نے انسان کو صرف پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا اور اس سے غافل نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے نشو و نما اور رہائش و آسائش کے سامان بھی مہیا کئے جس کی ابتداء آسمانوں کی تخلیق سے ہوئی پھر آسمان سے بارش برسا کر انسان کے لئے غذا اور اس کی آسائش کا سامان پھلوں پھولوں سے پیدا کیا جس کا ذکر بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا۔

023: 018

وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰی ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ۝۱۸

ترجمہ:

اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی ماپ کر پھر اس کو ٹھہرا دیا زمین میں اور ہم اس کو لے جائیں تو لے جا سکتے ہیں۔

تفسیر:

انسانوں کو آب رسانی کا قدرتی عجبد و غریب نظام:

اس آیت میں آسمان سے پانی برسانے کے ذکر کے ساتھ ایک قید بقدر کی بڑھا کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ انسان ایسا ضعیف الخلقت ہے کہ جو چیزیں اس کے لئے مدار زندگی ہیں اگر وہ مقدار مقدر سے زائد ہو جاویں تو وہی اس کے لئے وبال جان اور عذاب بن جاتی ہیں۔ پانی جیسی چیز جس کے بغیر کوئی انسان و حیوان زندہ نہیں رہ سکتا اگر ضرورت سے زیادہ برس جائے تو طوفان آ جاتا ہے اور انسان اور اس کے سامان کے لئے وبال و عذاب بن جاتا ہے۔ اس لئے آسمان سے پانی برسانا بھی ایک خاص پیمانے سے ہوتا ہے جو انسان کی ضرورت پوری کر دے اور طوفان کی صورت اختیار نہ کرے بجز ان خاص مقامات کے جن پر اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہی کسی وجہ سے طوفان مسلط کرنے کا سبب ہو جائے۔ اس کے بعد بڑا غور طلب مسئلہ یہ تھا کہ پانی اگر روزانہ کی ضرورت کا روزانہ برسا کرے تو بھی انسان مصیبت میں آ جائے روز کی بارش اس کے کاروبار اور مزاج کے خلاف ہے۔ اور اگر سال بھر یا چھ مہینے یا تین مہینے کی ضرورت کا پانی ایک دفعہ برسایا جائے اور لوگوں کو حکم ہو کہ اپنا اپنا کوٹہ پانی کا چھ مہینے کے لئے جمع کر کے رکھو اور استعمال کرتے رہو تو ہر انسان کیا اکثر انسان بھی اتنے پانی کے جمع رکھنے کا انتظام کیسے کریں اور کسی طرح بڑے حوضوں اور گڑھوں میں بھر لینے کا انتظام بھی کر لیں تو چند روز کے بعد یہ پانی سڑ جائے گا جس کا پینا بلکہ استعمال کرنا بھی دشوار ہو جائے گا اس لئے قدرت حق جل شانہ نے اس کا نظام یہ بنایا کہ پانی جس وقت برستا ہے اس وقت وقتی طور پر جتنے درخت اور زمینیں سیرابی کے قابل ہیں وہ سیراب ہو جاتے ہیں پھر زمین کے مختلف تالابوں، حوضوں اور قدرتی گڑھوں میں یہ پانی جمع رہتا ہے جس کو انسان اور جانور ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں مگر ظاہر ہے یہ پانی چند روز میں ختم ہو جاتا ہے۔ دائمی طور پر روزانہ انسان کو تازہ پانی کس طرح پہنچے جو ہر خطے کے باشندوں کو مل سکے؟ اس کا نظام قدرت نے یہ بنایا کہ پانی کا بہت بڑا حصہ برف کی صورت میں ایک بحر منجمد بنا کر پہاڑوں کے سروں پر ایسی پاک صاف فضاء میں رکھ دیا جہاں نہ گرد و غبار کی رسائی نہ کسی آدمی اور جانور کی اور جس میں نہ سڑنے کا امکان ہے نہ اس کے ناپاک یا خراب ہونے کی کوئی صورت ہے۔ پھر یہ برف کا پانی آہستہ آہستہ رس رس کر پہاڑوں کی رگوں کے ذریعہ زمین کے اندر پھیلتا ہے اور یہ قدرتی پائپ لائن پوری زمین کے گوشہ گوشہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں سے کچھ تو چشمے خود پھوٹ نکلتے ہیں اور ندی نالے اور نہروں کی شکل میں زمین پر بہنے لگتے ہیں، تازہ بتازہ جاری پانی کروڑوں انسانوں اور جانوروں کو سیراب کرتا ہے اور کچھ یہی پہاڑی برف سے بہنے والا پانی زمین کی تہ میں اتر کر نیچے نیچے بہتا رہتا ہے اور اس کو کنواں کھود کر ہر جگہ نکالا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس پورے نظام کو ایک لفظ فاسکنٰہ فی الارض سے بیان فرما دیا ہے آخر میں اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ زمین کی تہ سے جو پانی کنوؤں کے ذریعہ نکالا جاتا ہے یہ بھی قدرت کی طرف سے آسانی ہے کہ بہت زیادہ گہرائی میں نہیں بلکہ تھوڑی گہرائی میں یہ پانی رکھا گیا ہے۔ ورنہ یہ بھی ممکن تھا بلکہ پانی کی طبعی خاصیت کا تقاضا یہی تھا کہ یہ پانی زمین کی گہرائی میں اترتا چلا جاتا، جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ اسی مضمون کو آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا وانا علیٰ ذہابۢ بہٖ لقٰدرون۔

023: 019

فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ ۘ لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ۝۱۹

ترجمہ:

پھر اگا دئیے تمہارے واسطے اس سے باغ کھجور اور انگور کے، تمہارے واسطے ان میں میوے ہیں بہت اور انہی میں سے کھاتے ہو۔

تفسیر:

آگے پانی کے ذریعہ پیدا ہونے والی خاص خاص چیزوں کو عرب کے مزاج و مذاق کے مطابق ذکر فرمایا کہ کھجور اور انگور کے باغات اس سے پیدا ہوئے اور دوسرے پھلوں کو ایک عام لفظ میں جمع کر کے ذکر فرمایا لکم فیہا فواکہ کثیرة، یعنی ان باغات میں تمہارے لئے کھجور و انگور کے علاوہ ہزاروں قسم کے پھل پیدا کئے جن کو تم محض تفریحی اور شوقیہ طور پر بھی کھاتے ہو اور ان میں سے بعض پھلوں کا ذخیرہ کر کے تمہاری مستقل غذا بھی ان سے تیار ہوتی ہے ومنہا تاکلون کا یہی مطلب ہے۔ آگے خصوصیت سے زیتون اور اس کے تیل کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا کیونکہ اس کے منافع بیشمار ہیں۔ اور چونکہ زیتون کے درخت کوہ طور پر زیادہ پیدا ہوتے ہیں اس لئے اس کی طرف نسبت کر دی گئی

023: 020

وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ۝۲۰

ترجمہ:

اور وہ درخت جو نکلتا ہے سینا پہاڑ سے لے اگتا ہے تیل اور روٹی ڈبونا کھانے والوں کے واسطے۔

تفسیر:

وشجرة تخرج من طور سینآء، سیناء اور سینین اس مقام کا نام ہے جس میں کوہ طور واقع ہے۔ زیتون کا تیل، تیل کی ضروریات مثلاً بدن کی مالش اور چراغ میں جلانے کے بھی کام آتا ہے اور کھانے میں سالن کا بھی کام دیتا ہے اسی کو فرمایا تنۢبت بالدہن وصبغ للاٰکلین، زیتون کے درخت کے لئے کوہ طور کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ درخت سب سے پہلے کوہ طور ہی پر پیدا ہوا ہے اور بعض نے کہا کہ طوفان نوح کے بعد سب سے پہلا درخت جو زمین پر اگا ہے وہ زیتون تھا۔ (مظھری)

023: 021

وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ۝۲۱

ترجمہ:

اور تمہارے لئے چوپایوں میں دھیان کرنے کی بات ہے پلاتے ہیں ہم تم کو ان کے پیٹ کی چیز سے اور تمہارے لئے ان میں بہت فائدے ہیں اور بعضوں کو کھاتے ہو۔

تفسیر:

اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے جانوروں، چوپایوں کے ذریعہ انسان کو عطا فرمائی تاکہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور رحمت کاملہ پر استدلال کر کے توحید و عبادت میں مشغول ہو۔ اسی لئے فرمایا وان لکم فی الانعام لعبرة، یعنی تمہارے لئے چوپایہ جانوروں میں ایک عبرت و نصیحت ہے آگے اس کی کچھ تفصیل اس طرح بتائی نسقیکم مما فی بطونہا، کہ ان جانوروں کے پیٹ میں ہم نے تمہارے لئے پاکیزہ دودھ تیار کیا جو انسان کی بہترین غذا ہے اور پھر فرمایا کہ صرف دودھ ہی نہیں، ان جانوروں میں تمہارے لئے بہت سے (بیشمار) منافع اور فوائد ہیں ولکم فیہا منافع کثیرة، غور کرو تو جانوروں کے جسم کا ایک ایک جزء، رواں رواں انسان کے کام آتا ہے اور اس سے انسان کی معیشت کے لئے بیشمار قسم کے سامان تیار ہوتے ہیں۔ جانوروں کے بال، ہڈی، آنتیں، پٹھے اور سبھی اجزاء سے انسان اپنی معیشت کے کتنے سامان بناتا اور تیار کرتا ہے اس کا شمار بھی مشکل ہے ان بیشمار منافع کے علاوہ ایک بڑا نفع یہ بھی ہے کہ ان میں سے جانور حلال ہیں ان کا گوشت بھی انسان کی بہترین غذا ہے ومنہا تاکلون۔ آخر میں ان جانوروں کا ایک اور عظیم فائدہ ذکر کیا گیا کہ تم ان پر سوار بھی ہوتے ہو اور بار برداری کا بھی ان سے کام لیتے ہو۔ اس آخری فائدہ میں چونکہ جانوروں کے ساتھ دریا میں چلنے والی کشتیاں بھی شریک ہیں کہ سواری اور بار برداری کا بڑا کام ان سے نکلتا ہے اس لئے کشتیوں کو بھی اس کے ساتھ ذکر فرما دیا۔

023: 022

وَ عَلَیْهَا وَ عَلَی الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ۠۝۲۲

ترجمہ:

اور ان پر اور کشتیوں پر لدے پھرتے ہو۔

تفسیر:

وعلیہا وعلی الفلک تحملون، فلک یعنی کشتیوں ہی کے حکم میں وہ تمام سواریاں بھی ہیں جو پہیوں کے ذریعہ چلنے والی ہیں۔

023: 023

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۲۳

ترجمہ:

اور ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کے پاس تو اس نے کہا اے قوم بندگی کرو اللہ کی تمہارا کوئی حاکم نہیں اس کے سوائے کیا تم ڈرتے نہیں۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

(اس سے پہلی آیتوں میں انسان کی تخلیق اور اس کی بقاء و آسائش کے لئے مختلف قسم کے سامان پیدا کرنے کا ذکر تھا آگے اس کی روحانی تربیت اور دینی فلاح کا جو انتظام فرمایا اس کا ذکر ہے اور ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر کر کے بھیجا سو انہوں نے (اپنی قوم سے) فرمایا کہ اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کیا کرو اس کے سوا کوئی تمہارے لئے معبود بنانے کے لائق نہیں (اور جب یہ ایک بات ثابت ہے تو) پھر کیا تم (دوسروں کے معبود بنانے سے) ڈرتے نہیں ہو پس (نوحؑ کی یہ بات سن کر) ان کی قوم میں جو کافر رئیس تھے (عوام سے) کہنے لگے کہ یہ شخص بجز اس کے کہ تمہاری طرح کا ایک (معمولی) آدمی ہے اور کچھ (رسول وغیرہ) نہیں ہے (اس دعوے سے) ان کا (اصل) مطلب یہ ہے کہ تم سے برتر ہو کر رہے (یعنی اس کا مقصد محض اپنی جاہ و عزت ہے) اور اگر اللہ کا (رسول بھیجنا) منظور ہوتا تو (اس کام کے لئے) فرشتوں کو بھیجتا (پس دعویٰ ان کا غلط ہے اسی طرح ان کی دعوت کرنا توحید کی طرف یہ دوسری غلطی ہے کیونکہ) ہم نے یہ بات (کہ اور کسی کو معبود مت قرار دو) اپنے پہلے بڑوں میں (کبھی) نہیں سنی بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہو گیا ہے (اس واسطے ساری دنیا کے خلاف باتیں کرتا ہے کہ میں رسول ہوں اور معبود ایک ہے) سو ایک وقت خاص (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس (کی حالت) کا انتظار کر لو (آخر ایک وقت پر پہنچ کر ختم ہو جاوے گا اور سب پاپ کٹ جاوے گا) نوحؑ نے (ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو کر جناب باری تعالیٰ میں) عرض کیا کہ اے میرے رب (ان سے) میرا بدلہ لے بوجہ اس کے کہ انہوں نے مجھ کو جھٹلایا ہے پس ہم نے (ان کی دعا قبول کی اور) ان کے پاس حکم بھیجا کہ تم کشتی تیار کر لو ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے (کہ اب طوفان آوے گا اور تم اور مومنین اس کے ذریعہ سے محفوظ رہو گے) پھر جس وقت ہمارا حکم (عذاب کا قریب) آ پہنچے اور (علامت اس کی یہ ہے کہ) زمین سے پانی ابلنا شروع ہو جاوے تو (اس وقت) ہر قسم (کے جانوروں) میں سے (جو کہ انسان کے کارآمد ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے، جیسا بھیڑ، بکری، گائے، بیل، اونٹ، گھوڑا گدھا وغیرہ) ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ یعنی دو دو عدد اس (کشتی) میں داخل کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (سوار کر لو) باستثناء اس کے جس پر ان میں سے (غرق ہونے کا) حکم نافذ ہو چکا ہے (یعنی آپ کے اہل و عیال میں جو کافر ہو اس کو مت سوار کرو) اور (یہ سن لو کہ عذاب آنے کے وقت) مجھ سے کافروں کی (نجات) کے بارے میں کچھ گفتگو مت کرنا (کیونکہ) وہ سب غرق کئے جاویں گے پھر جس وقت تم اور تمہارے ساتھی (مسلمان) کشتی میں بیٹھ چکو تو یوں کہنا کہ شکر ہے خدا کا جس نے ہم کو کافر لوگوں سے (یعنی ان کے افعال سے اور ان کے وبال سے) نجات دی اور (جب بعد فرو ہونے طوفان کے کشتی سے زمین پر آنے لگو تو) یوں کہنا کہ اے میرے رب مجھ کو (زمین پر) برکت کا اتارنا اتاریو (یعنی اطمینان ظاہری و باطنی کے ساتھ رکھیو) اور آپ سب (اپنے پاس بطور مہمانی کے) اتارنے والوں سے اچھے ہیں (یعنی اور لوگ جو مہمان کو اتار لیتے ہیں وہ اپنے مہمان کی مقصد براری اور مصائب سے نجات پر قدرت نہیں رکھتے آپ کو ان سب چیزوں پر قدرت ہے) اس (واقعہ مذکورہ) میں (اہل عقل کے لئے ہماری قدرت کی) بہت سی نشانیاں ہیں اور ہم (یہ نشانیاں معلوم کرا کر اپنے بندوں کو) آزماتے ہیں (کہ دیکھیں کہ کون ان سے نفع اٹھاتا ہے کون نہیں اٹھاتا، اور نشانیاں یہ ہیں۔ رسول بھیجنا، ایمان داروں کو بچا لینا، کافروں کو ہلاک کر دینا دفعتاً طوفان پیدا کر دینا، کشتی کو محفوظ رکھنا وغیرہ وغیرہ)۔

023: 024

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىِٕكَةً ۖۚ مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَۚ۝۲۴

ترجمہ:

تب بولے سردار جو کافر تھے اس کی قوم میں یہ کیا ہے آدمی ہے جیسے تم چاہتا ہے کہ برائی کرے تم پر اور اگر اللہ چاہتا تو اتارتا فرشتے ہم نے یہ نہیں سنا اپنے اگلے باپ دادوں میں۔

023: 025

اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰی حِیْنٍ۝۲۵

ترجمہ:

اور کچھ نہیں یہ ایک مرد ہے کہ اس کو سودا ہے سو راہ دیکھو اس کی ایک وقت تک۔

023: 026

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۝۲۶

ترجمہ:

بولا اے رب تو مدد کر میری کہ انہوں نے مجھ کو جھٹلایا۔

023: 027

فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ۙ فَاسْلُكْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۚ وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ۝۲۷

ترجمہ:

پھر ہم نے حکم بھیجا اس کو کہ بنا کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے پھر جب پہنچے ہمارا حکم اور ابلے تنور تو تو ڈال لے کشتی میں ہر چیز کا جوڑا دو دو اور اپنے گھر کے لوگ مگر جس کی قسمت میں پہلے سے ٹھہر چکی ہے بات اور مجھ سے بات نہ کر ان ظالموں کے واسطے بیشک ان کو ڈوبنا ہے۔

معارف و مسائل

وفار التنور، تنور، اس خاص جگہ کو بھی کہا جاتا ہے جو روٹی پکانے کے لئے بنائی جاتی ہے اور یہی معنے معروف و مشہور ہیں۔ دوسرے معنے میں تنور پوری زمین کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ خلاصہ تفسیر میں اسی معنے کے اعتبار سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس سے ایک خاص تنور روٹی پکانے والا مراد لیا ہے جو کوفہ کی مسجد میں اور بعض کے نزدیک ملک شام میں کسی جگہ تھا۔ اس تنور سے پانی ابلنے لگنا حضرت نوحؑ کے لئے طوفان کی علامت یہ قرار دی گئی تھی (مظھری) حضرت نوحؑ اور ان کے طوفان اور کشتی کا واقعہ پچھلی سورتوں میں تفصیل سے گزر چکا ہے)۔

023: 028

فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَی الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۝۲۸

ترجمہ:

پھر جب چڑھ چکے تو اور جو تیرے ساتھ ہے کشتی پر تو کہہ شکر اللہ کا جس نے چھڑایا ہم کو گنہگار لوگوں سے۔

023: 029

وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ۝۲۹

ترجمہ:

اور کہہ اے رب اتار مجھ کو برکت کا اتارنا اور تو ہے بہتر اتارنے والا۔

023: 030

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ۝۳۰

ترجمہ:

اس میں نشانیاں ہیں اور ہم ہیں جانچنے والے۔

023: 031

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَۚ۝۳۱

ترجمہ:

پھر پیدا کی ہم نے ان سے پیچھے ایک جماعت اور۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

پھر (قوم نوح کے بعد) ہم نے دوسرا گروہ پیدا کیا (مراد عاد ہے یا ثمود) پھر ہم نے ان میں ایک پیغمبر کو بھیجا جو ان ہی میں کے تھے (مراد ہودؑ یا صالح علیہ السلام) ہیں، ان پیغمبر نے کہا کہ) تم لوگ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود (حقیقی) نہیں، کیا تم (شرک سے) ڈرتے نہیں ہو، اور (ان پیغمبر کی یہ بات سن کر) ان کی قوم میں سے جو رئیس تھے جنہوں نے (خدا اور رسول کے ساتھ) کفر کیا تھا اور آخرت کے آنے کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو دنیوی زندگانی میں عیش بھی دیا تھا کہنے لگے کہ بس یہ تو تمہاری طرح ایک (معمولی) آدمی ہیں (چنانچہ) یہ وہی کھاتے ہیں جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتے ہیں جو تم پیتے ہو اور (جب یہ تمہارے ہی جیسے بشر ہیں تو) اگر تم اپنے جیسے ایک (معمولی) آدمی کے کہنے پر چلنے لگو تو بیشک تم (عقل کے) گھاٹے میں ہو (یعنی بڑی بے وقوفی ہے) کیا یہ شخص تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور (مر کر) مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤ گے (چنانچہ جب اجزاء لحمیہ خاک ہو جاتے ہیں تو ہڈیاں بے گوشت رہ جاتی ہیں پھر بعد چندے وہ بھی خاک ہو جاتی ہیں تو یہ شخص کہتا ہے کہ جب اس حالت پر پہنچ جاؤ گے) تو (پھر دوبارہ زندہ کر کے زمین سے) نکالے جاؤ گے (تو بھلا ایسا شخص کہیں قابل اطاعت و اتباع ہو سکتا ہے اور) بہت ہی بعید اور بہت ہی بعید ہے جو بات تم سے کہی جاتی ہے بس زندگی تو یہی ہماری دنیوی زندگی ہے کہ ہم میں کوئی مرتا ہے اور کوئی پیدا ہوتا ہے اور ہم دوبارہ زندہ نہ کئے جاویں گے بس یہ ایک ایسا شخص ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے (کہ اس نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور کوئی دوسرا معبود نہیں اور قیامت آوے گی) اور ہم تو ہرگز اس کو سچا نہ سمجھیں گے۔ پیغمبر نے دعا کی کہ اے میرے رب میرا بدلہ لے اس وجہ سے کہ انہوں نے مجھ کو جھٹلایا، ارشاد ہوا کہ یہ لوگ عنقریب پشیمان ہوں گے چنانچہ ان کو ایک سخت آواز نے (یا سخت عذاب نے) موافق وعدہ برحق کے (کہ لیصبحن نٰدمین) آ پکڑا (جس سے وہ سب ہلاک ہو گئے) پھر (ہلاک کرنے کے بعد) ہم نے ان کو خس و خاشاک (کی طرح پامال) کر دیا سو خدا کی مار کافر لوگوں پر۔

معارف و مسائل

اس سے پہلی آیات میں حضرت نوحؑ کا قصہ بسلسلہ ہدایت ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کچھ حال اجمالا بغیر نام متعین کئے ذکر کیا گیا ہے۔ آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد امتوں سے عاد یا ثمود یا دونوں ہیں۔ عاد کی طرف حضرت ہودؑ کو بھیجا گیا تھا اور ثمود کے پیغمبر حضرت صالحؑ تھے۔ اس قصہ میں ان قوموں کا ہلاک ہونا ایک صیحہ یعنی غیبی سخت آواز کے ذریعہ بیان فرمایا ہے اور صیحہ کے ذریعہ ہلاک ہونا دوسری آیات میں قوم ثمود کا بیان ہوا ہے اس سے بعض حضرات نے فرمایا کہ ان آیات میں قرنا اٰخرین سے مراد ثمود ہیں مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صیحہ کا لفظ اس جگہ مطلق عذاب کے معنے میں لیا گیا ہو تو پھر یہ قوم عاد کے ساتھ بھی لگ سکتا ہے۔ واللہ اعلم

023: 032

فَاَرْسَلْنَا فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۠۝۳۲

ترجمہ:

پھر بھیجا ہم نے ان میں ایک رسول ان میں کا کہ بندگی کرو اللہ کی کوئی نہیں تمہارا حاکم اس کے سوائے پھر کیا تم ڈرتے نہیں۔

023: 033

وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ۝۳۳

ترجمہ:

اور بولے سردار اس کی قوم کے جو کافر تھے اور جھٹلاتے تھے آخر کی ملاقات کو اور آرام دیا تھا ان کو ہم نے دنیا کی زندگی میں اور کچھ نہیں یہ آدمی ہے جیسے تم کھاتا ہے جس قسم سے تم کھاتے ہو اور پیتا ہے جس قسم سے تم پیتے ہو۔

023: 034

وَ لَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَۙ۝۳۴

ترجمہ:

اور کہیں تم چلنے لگے کہنے پر ایک آدمی کے اپنے برابر کے تو تم بیشک خراب ہوئے۔

023: 035

اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَ كُنْتُمْ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْرَجُوْنَ۪ۙ۝۳۵

ترجمہ:

کیا تم کو وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مر جاؤ اور ہو جاؤ مٹی اور ہڈیاں تو تم کو نکلنا ہے۔

023: 036

هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۪ۙ۝۳۶

ترجمہ:

کہاں ہو سکتا ہے کہاں ہو سکتا ہے جو تم سے وعدہ ہوتا ہے۔

023: 037

اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۪ۙ۝۳۷

ترجمہ:

اور کچھ نہیں یہی جینا ہے ہمارا دنیا کا مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو پھر اٹھنا نہیں۔

تفسیر:

ان ہى الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما نحن بمبعوثین (اس دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں۔ پس مرنا جینا اسی دنیا کا ہے اور پھر دوبارہ زندہ ہونا نہیں) یہی قول عام کفار کا ہے جو قیامت کے منکر ہیں۔ یہ انکار جو زبان سے کرتے ہیں وہ تو کھلے کافر ہیں ہی، لیکن افسوس اور بہت فکر کی چیز یہ ہے کہ اب بہت سے مسلمانوں میں بھی عملی طور پر یہ انکار ان کے ہر قول و فعل سے مترشح ہوتا ہے کہ آخرت اور قیامت کے حساب کی طرف کبھی دھیان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس مصیبت سے نجات عطا فرماویں۔

023: 038

اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُ ِ۟افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا وَّ مَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۳۸

ترجمہ:

اور کچھ نہیں یہ ایک مرد ہے باندھ لایا ہے اللہ پر جھوٹ اور اس کو ہم نہیں ماننے والے۔

023: 039

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۝۳۹

ترجمہ:

بولا اے رب میری مدد کر کہ انہوں نے مجھ کو جھٹلایا۔

023: 040

قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْنَۚ۝۴۰

ترجمہ:

فرمایا اب تھوڑے دنوں میں صبح کو رہ جائیں گے پچھتاتے۔

023: 041

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءً ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۝۴۱

ترجمہ:

پھر پکڑا ان کو چنگھاڑ نے تحقیق پھر کر دیا ہم نے ان کو کوڑا سو دور ہو جائیں گنہگار لوگ۔

023: 042

ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِیْنْؕ۝۴۲

ترجمہ:

پھر پیدا کیں ہم نے ان سے پیچھے جماعتیں۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

پھر ان (عاد یا ثمود) کے (ہلاک ہونے کے) بعد ہم نے اور امتوں کو پیدا کیا (جو کہ تکذیب رسول کے سبب وہ بھی ہلاک ہوئے اور ان کے ہلاک ہونے کی جو مدت علم الٰہی میں مقرر تھی) کوئی امت (ان امتوں میں سے) اپنی (اس) مدت معینہ سے (ہلاک ہونے میں نہ پیش دستی کر سکتی تھی اور نہ (اس مدت سے) وہ لوگ پیچھے ہٹ سکتے تھے (بلکہ عین وقت پر ہلاک کئے گئے غرض وہ امتیں اول پیدا کی گئیں) پھر (ان کے پاس) ہم نے اپنے پیغمبروں کو یکے بعد دیگرے (ہدایت کے لئے) بھیجا (جس طرح وہ امتیں یکے بعد دیگرے پیدا ہوئیں مگر ان کی حالت یہ ہوئی کہ) جب کبھی کسی امت کے پاس اس امت کا (خاص) رسول (خدا کے احکام لے کر) آیا انہوں نے اس کو جھٹلایا سو ہم نے (بھی ہلاک کرنے میں) ایک کے بعد ایک کا تار باندھ دیا اور ہم نے ان کی کہانیاں بنا دیں (یعنی وہ ایسے نیست و نابود ہوئے کہ بجز کہانیوں کے ان کا کچھ نام و نشان نہ رہا) سو خدا کی مار ان لوگوں پر جو (انبیاء کے سمجھانے پر بھی) ایمان نہ لاتے تھے۔ پھر ہم نے موسیٰؑ اور ان کے بھائی ہارونؑ کو اپنے احکام اور کھلی دلیل (یعنی معجزہ صریحہ کہ دلیل نبوت ہے) دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس (بھی پیغمبر بنا کر) بھیجا اور (بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونا بھی معلوم ہے) سو ان لوگوں نے (ان کی تصدیق و اطاعت سے) تکبر کیا اور وہ لوگ تھے ہی متکبر (یعنی پہلے ہی سے ان کا دماغ سڑا ہوا تھا) چنانچہ وہ (باہم) کہنے لگے کہ کیا ہم ایسے دو شخصوں پر جو ہماری طرح کے آدمی ہیں (ان میں کوئی بات امتیاز کی نہیں) ایمان لے آویں (اور ان کے فرمانبردار بن جاویں) حالانکہ ان کی قوم کے لوگ (تو خود) ہمارے زیر حکم ہیں (یعنی ہم کو تو خود ان کی قوم پر ریاست حاصل ہے پھر ان دونوں کے اقتدار اور ریاست کو ہم کیسے تسلیم کر سکتے ہیں، ان لوگوں نے ریاست دینیہ کو ریاست دنیویہ پر قیاس کیا کہ ہم کو ایک قسم کی ریاست یعنی دنیوی حاصل ہے تو دوسری قسم کے بھی ہم ہی مستحق ہیں اور جب ان کو دنیوی ریاست نہیں ملی تو دینی کیسے مل سکتی ہے اور فساد اس قیاس کا ظاہر ہے) غرض وہ لوگ ان دونوں کی تکذیب ہی کرتے رہے پس (اس تکذیب کی وجہ سے) ہلاک کئے گئے اور (ان کے ہلاک ہونے کے بعد) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (یعنی توراة) عطا فرمائی تاکہ (اس کے ذریعہ سے) وہ لوگ (یعنی موسیٰؑ کی قوم بنی اسرائیل) ہدایت پائیں اور ہم نے (اپنی قدرت و توحید پر دلالت کے لئے اور نیز بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے) مریم کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کو ان کی ماں (حضرت مریم علیہا السلام) کو بڑی نشانی (اپنی قدرت کی اور ان کے صدق کی) بنایا (کہ بے باپ تولد ہونا دونوں کے متعلق آیت عظیمہ ہے) اور (چونکہ ان کو نبی بنانا منظور تھا اور ایک ظالم بادشاہ بچپن ہی میں ان کے درپئے قتل ہو گیا تھا اس لئے) ہم نے (اس سے بچا کر) ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جا کر پناہ دی جو (بوجہ غلات اور میوہ جات پیدا ہونے کے) ٹھہرنے کے قابل اور (بوجہ نہر جاری ہونے کے) شاداب جگہ تھی (یہاں تک کہ امن و امان سے جوان ہوئے اور نبوت عطا ہوئی تو توحید و دعویٰ رسالت میں ان کی تصدیق ضروری تھی مگر بعض نے نہ کی)۔

023: 043

مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَؕ۝۴۳

ترجمہ:

اور نہ آگے جائے کوئی قوم اپنے وعدہ سے اور نہ پیچھے رہے۔

023: 044

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ؕ كُلَّمَا جَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَّ جَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۝۴۴

ترجمہ:

پھر بھیجتے رہے ہم اپنے رسول لگاتار جہاں پہنچا کسی امت کے پاس ان کا رسول اس کو جھٹلا دیا، پھر چلاتے گئے ہم ایک کے پیچھے دوسرے اور کر ڈالا ان کو کہانیاں سو دور ہو جائیں جو لوگ نہیں مانتے۔

023: 045

ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ ۙ۬ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ۝۴۵

ترجمہ:

پھر بھیجا ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیاں دے کر اور کھلی سند۔

023: 046

اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَۚ۝۴۶

ترجمہ:

فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس پھر لگے بڑائی کرنے اور وہ لوگ زور پر چڑھ رہے تھے۔

023: 047

فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ۝۴۷

ترجمہ:

سو بولے کیا ہم مانیں گے اپنی برابر کے دو آدمیوں کو اور ان کی قوم ہماری تابعدار ہیں۔

023: 048

فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَكِیْنَ۝۴۸

ترجمہ:

پھر جھٹلایا ان دونوں کو پھر ہو گئے غارت ہونے والوں میں۔

023: 049

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ۝۴۹

ترجمہ:

اور ہم نے دی موسیٰ کو کتاب تاکہ وہ راہ پائیں۔

023: 050

وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠۝۵۰

ترجمہ:

اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی اور ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلہ پر جہاں ٹھہرنے کا موقع تھا اور پانی نتھرا۔

023: 051

یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ۝۵۱

ترجمہ:

اے رسولو! کھاؤ ستھری چیزیں اور کام کرو بھلا جو تم کرتے ہو میں جانتا ہوں۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

ہم نے جس طرح تم کو اپنی نعمتوں کے استعمال کی اجازت دی اور عبادت کا حکم دیا اسی طرح سب پیغمبروں کو اور ان کے واسطے سے ان کی امتوں کو بھی حکم دیا کہ) اے پیغمبرو! تم (اور تمہاری امتیں) نفیس چیزیں کھاؤ (کہ خدا کی نعمت ہیں) اور (کھا کر شکر ادا کرو کہ) نیک کام کرو (یعنی عبادت اور) میں تم سب کے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں (تو عبادت اور نیک کاموں پر ان کی جزا اور ثمرات عطا کروں گا) اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ جو طریقہ تمہیں ابھی بتایا گیا ہے) یہ ہے تمہارا طریقہ (جس پر تم کو چلنا اور رہنا واجب ہے) کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے (سب انبیاء اور ان کی امتوں کا کسی شریعت میں یہ طریقہ نہیں بدلا) اور (حاصل اس طریقہ کا یہ ہے کہ) میں تمہارا رب ہوں تم مجھ سے ڈرتے رہو (یعنی میرے احکام کی مخالفت نہ کرو کیونکہ رب ہونے کی حیثیت سے تمہارا خالق و مالک بھی ہوں اور منعم ہونے کی حیثیت سے تم کو بیشمار نعمتیں بھی دیتا ہوں، ان سب چیزوں کا تقاضا اطاعت و فرمانبرداری ہے) سو (اس کا نتیجہ تو یہ ہونا تھا کہ سب ایک ہی طریقہ مذکورہ پر رہتے مگر ایسا نہ کیا بلکہ) ان لوگوں نے اپنے دین اپنا طریق الگ الگ کر کے اختلاف پیدا کر لیا ہر گروہ کے پاس جو دین (یعنی اپنا بنایا ہوا طریقہ) ہے وہ اسی پر مگن اور خوش ہے (اس کے باطل ہونے کے باوجود اسی کو حق سمجھتا ہے) تو آپ ان کو ان کی جہالت میں ایک خاص وقت تک رہنے دیجئے (یعنی ان کی جہالت پر آپ غم نہ کیجئے جب مقرر وقت ان کی موت کا آ جاوے گا تو سب حقیقت کھل جاوے گی اور اب جو فوری طور پر ان پر عذاب نہیں آتا تو) کیا (اس سے) یہ لوگ یوں گمان کر رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال و اولاد دیتے ہیں تو ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچا رہے ہیں (یہ بات ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ (اس ڈھیل دینے کی وجہ) نہیں جانتے (یعنی یہ ڈھیل تو ان کو بطور استدراج کے دی جا رہی ہے جو انجام کار ان کے لئے اور زیادہ عذاب کا سبب بنے گی کیونکہ ہماری مہلت اور ڈھیل دینے سے یہ اور مغرور ہو کر سرکشی اور گناہوں میں زیادتی کریں گے اور عذاب زیادہ ہو گا)۔

معارف و مسائل

یٰٓایہا الرسل کلوا من الطیبٰت واعملوا صالحا، لفظ طیبات کے لغوی معنی ہیں پاکیزہ نفیس چیزیں۔ اور چونکہ شریعت اسلام میں جو چیزیں حرام کر دی گئی ہیں نہ وہ پاکیزہ ہیں نہ اہل عقل کے لئے نفیس و مرغوب۔ اس لئے طیبات سے مراد صرف حلال چیزیں ہیں جو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے پاکیزہ و نفیس ہیں۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ تمام انبیاءؑ کو اپنے اپنے وقت میں دو ہدایات دی گئی ہیں ایک یہ کہ کھانا حلال اور پاکیزہ کھاؤ، دوسرے یہ کہ عمل نیک صالح کرو۔ اور جب انبیاءؑ کو یہ خطاب کیا گیا ہے جن کو اللہ نے معصوم بنایا ہے تو ان کی امت کے لوگوں کے لئے یہ حکم زیادہ قابل اہتمام ہے اور اصل مقصود بھی امتوں ہی کو اس حکم پر چلانا ہے۔

علماء نے فرمایا کہ ان دونوں حکموں کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بعض لوگ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور غبار آلود رہتے ہیں پھر اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر ان کا کھانا بھی حرام ہوتا ہے پینا بھی، لباس بھی حرام ہی تیار ہوتا ہے اور حرام ہی کی ان کو غذا ملتی ہے ایسے لوگوں کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (قرطبی)

اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور دعا کے قبول ہونے میں حلال کھانے کو بڑا دخل ہے جب غذا حلال نہ ہو تو عبادت اور دعا کی مقبولیت کا بھی استحقاق نہیں رہتا۔

023: 052

وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ۝۵۲

ترجمہ:

اور یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں تمہارا رب سو مجھ سے ڈرتے رہو۔

تفسیر:

وان ہٰذہٖٓ امتکم امة واحدة، لفظ امت، ایک جماعت اور کسی خاص پیغمبر کی قوم کے معنی میں معروف و مشہور ہے اور کبھی یہ لفظ طریقہ اور دین کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے قرآن کی ایک آیت (آیت) وجدنا ابآءنا علی امة، اس میں امت سے مراد ایک دین اور طریقہ ہے۔ یہی معنے اس جگہ بھی مراد ہیں۔

023: 053

فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ۝۵۳

ترجمہ:

پھر پھوٹ ڈال کر کر لیا اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے، ہر فرقہ جو ان کے پاس ہے اس پر ریجھ رہے ہیں۔

تفسیر:

فتقطعوٓا امرہم بینہم زبرا، زبر، زبور کی جمع ہے جو کتاب کے معنے میں آتا ہے اس معنے کے اعتبار سے مراد آیت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو سب انبیاء اور ان کی امتوں کو اصول اور عقائد کے مسائل میں ایک ہی دین اور طریقہ پر چلنے کی ہدایت فرمائی تھی مگر امتوں نے اس کو نہ مانا اور آپس میں ٹکڑے مختلف ہو گئے ہر ایک نے اپنا اپنا طریقہ الگ اور اپنی کتاب الگ بنا لی۔ اور زبر کبھی زبرہ کی جمع بھی آتی ہے جس کے معنے قطعہ اور فرقہ کے ہیں۔ یہی معنے اس جگہ زیادہ واضح ہیں اور مراد آیت کی یہ ہے کہ یہ لوگ عقائد اور اصول میں بھی مختلف فرقے بن گئے لیکن فروعی اختلاف ائمہ مجتہدین کا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ ان اختلافات سے دین و ملت الگ نہیں ہو جاتا اور ایسا اختلاف رکھنے والے الگ الگ فرقے نہیں کہلاتے۔ اور اس اجتہادی اور فروعی اختلاف کو فرقہ واریت کا رنگ دینا خالص جہالت ہے جو کسی مجتہد کے نزدیک جائز نہیں۔

023: 054

فَذَرْهُمْ فِیْ غَمْرَتِهِمْ حَتّٰی حِیْنٍ۝۵۴

ترجمہ:

سو چھوڑ دے ان کو ان کی بیہوشی میں ڈوبے ایک وقت تک۔

023: 055

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ۝۵۵

ترجمہ:

کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم ان کو دئیے جاتے ہیں مال اور اولاد۔

023: 056

نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِ ؕ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶

ترجمہ:

سو دوڑ دوڑ کر پہنچا رہے ہیں ہم ان کو بھلائیاں یہ بات نہیں وہ سمجھتے نہیں۔

023: 057

اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ۝۵۷

ترجمہ:

البتہ جو لوگ اپنے رب کے خوف سے اندیشہ رکھتے ہیں۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور (باوجود اللہ کی راہ میں دینے اور خرچ کرنے کے) ان کے دل اس سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں (دیکھئے وہاں جا کر ان صدقات کا کیا ثمرہ ظاہر ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دینا حکم کے موافق نہ ہو مثلاً مال حلال نہ ہو یا نیت اللہ کے لئے خالص نہ ہو اور نیت میں اخلاص کامل نہ ہونا یا مال کا حرام ہونا ہمیں معلوم نہ ہو تو الٹا اس پر مواخذہ ہونے لگے تو جن لوگوں میں یہ صفات ہوں) یہ لوگ اپنے فائدے جلدی جلدی حاصل کر رہے ہیں اور وہ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں اور (یہ اعمال مذکورہ کچھ سخت بھی نہیں جن کا کرنا مشکل ہو کیونکہ) ہم کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کام کرنے کو نہیں کہتے (اس لئے یہ سب کام آسان ہیں اور اس کے ساتھ ان کا اچھا انجام اور ثمرہ یقینی ہے کیونکہ) ہمارے پاس ایک دفتر (نامہ اعمال کا محفوظ) ہے جو ٹھیک ٹھیک (سب کا حال) بتلا دے گا اور لوگوں پر ذرا ظلم نہ ہو گا۔

023: 058

وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَۙ۝۵۸

ترجمہ:

اور جو لوگ اپنے رب کی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔

023: 059

وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِكُوْنَۙ۝۵۹

ترجمہ:

اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتے۔

023: 060

وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰی رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ۝۶۰

ترجمہ:

اور جو لوگ کہ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈر رہے ہیں اس لئے کہ ان کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

معارف و مسائل

والذین یؤ تون مآ اٰتوا وقلوبہم و جلة، لفظ یوتون، ایتاء سے مشتق ہے جس کے معنے دینے اور خرچ کرنے کے ہیں اس لئے اس کی تفسیر صدقات کے ساتھ کی گئی ہے اور حضرت صدیقہ عائشہ سے ایک قرات اس کی یاتون ما ا تو بھی منقول ہے یعنی عمل کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں اس میں صدقات نماز، روزہ اور تمام نیک کام شامل ہو جاتے ہیں اور مشہور قرات پر اگرچہ ذکر یہاں صدقات ہی کا ہو گا مگر مراد بہرحال عام اعمال صالحہ ہیں جیسا کہ ایک حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یہ کام کر کے ڈرنے والے لوگ وہ ہیں جو شراب پیتے یا چوری کرتے ہیں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا، اے صدیق کی بیٹی یہ بات نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے اور نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اس کے باوجود اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ہمارے یہ عمل اللہ کے نزدیک (ہماری کسی کوتاہی کے سبب) قبول نہ ہوں ایسے ہی لوگ نیک کاموں میں مسارعت اور مسابقت کیا کرتے ہیں (رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ۔ مظہری) اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نیک عمل کر کے اتنے ڈرتے تھے کہ تم برے عمل کر کے بھی اتنا نہیں ڈرتے (قرطبی)

023: 061

اُولٰٓىِٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ۝۶۱

ترجمہ:

وہ لوگ دوڑ دوڑ کر لیتے ہیں بھلائیاں اور وہ ان پر پہنچے سب سے آگے۔

تفسیر:

اولٰٓىٕک یسٰرعون فی الخیرٰت وہم لہا سٰبقون، مسارعت فی الخیرات سے مراد یہ ہے کہ جیسے عام لوگ دنیا کے منافع کے پیچھے دوڑتے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے ہیں یہ حضرات دین کے فوائد میں ایسا ہی عمل کرتے ہیں اسی لئے وہ دین کے کاموں میں دوسروں سے آگے رہتے ہیں۔

023: 062

وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۶۲

ترجمہ:

اور ہم کسی پر بوجھ نہیں ڈالتے مگر اس کی گنجائش کے موافق اور ہمارے پاس لکھا ہوا ہے جو بولتا ہے سچ اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔

023: 063

بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ۝۶۳

ترجمہ:

کوئی نہیں ان کے دل بیہوش رہیں اس طرف سے اور ان کو اور کام لگ رہے ہیں اس کے سوائے کہ وہ ان کو کر رہے ہیں۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

(یہ تو اوپر مومنین کی حالت سنی مگر کفار ایسے نہیں ہیں) بلکہ (برعکس) ان کفار کے قلوب اس دین کی طرف سے (جس کا ذکر باٰیٰت ربہم میں ہے) جہالت (اور شک) میں (ڈوبے ہوئے ہیں (جن کا حال اوپر بھی معلوم ہو چکا فذرہم فی غمرتہم) اور اس (جہالت و انکار) کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی (برے برے خبیث) عمل ہیں جن کو یہ (مسلسل) کرتے رہتے ہیں (یہ لوگ شرک اور اعمال سیہ کے برابر خوگر رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو (جن کے پاس مال و دولت اور نوکر چاکر سب کچھ ہے) عذاب (بعد الموت) میں دھر پکڑیں گے (اور غریب غرباء تو کس گنتی میں ہیں اور وہ تو عذاب سے کیا بچاؤ کر سکتے ہیں، غرض یہ کہ جب ان سب پر عذاب نازل ہو گا) تو فوراً چلا اٹھیں گے (اور سارا انکار و استکبار جس کے اب عادی ہیں کافور ہو جاوے گا اس وقت ان سے کہا جاوے گا کہ) اب مت چلاؤ (کہ کوئی فائدہ نہیں کیونکہ) ہماری طرف سے تمہاری مطلق مدد نہ ہو گی (کیونکہ یہ دار الجزاء ہے دار العمل نہیں ہے جس میں چلانا اور عاجزی کرنا مفید ہو جو دار العمل تھا اس میں تو تمہارا یہ حال تھا کہ) میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر (رسول کی زبان سے) سنائی جایا کرتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے تکبر کرتے ہوئے قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے (اس قرآن کی شان) میں بیہودہ بکتے ہوئے (کہ کوئی اس کو سحر کہتا تھا کوئی شعر کہتا تھا اور مشغلہ کا یہی مطلب ہے پس تم نے دار العمل میں جیسا کیا آج دار الجزاء میں ویسا بھگتو۔ اور یہ لوگ جو قرآن کی اور صاحب قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں تو اس کا کیا سبب ہے) کیا ان لوگوں نے اس کلام (الٰہی) میں غور نہیں کیا (جس سے اس کا اعجاز ظاہر ہو جاتا اور یہ ایمان لے آتے) یا (تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ) ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے بڑوں کے پاس نہیں آئی تھی (مراد اس سے احکام الٰہیہ کا آنا ہے جو کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے انبیاءؑ کے ذریعہ ان کی امتوں کو یہی احکام دئیے جاتے رہے ہیں کقولہ تعالیٰ ما کنت بدعا من الرسل، پس تکذیب کی یہ وجہ بھی باطل ٹھہری اور یہ دو وجہ تو قرآن کے متعلق ہیں۔ آگے صاحب قرآن کے متعلق فرماتے ہیں یعنی) یا (وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے رسول (کی صفت دیانت و صدق و امانت) سے واقف نہ تھے اس وجہ سے ان کے منکر ہیں، (یعنی یہ وجہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کے صدق و دیانت پر سب کا اتفاق تھا) یا (یہ وجہ ہے کہ) یہ لوگ (نعوذ باللہ) آپ کی نسبت جنون کے قائل ہیں (سو آپ کا اعلیٰ درجہ کا صاحب عقل اور صاحب الرائے ہونا بھی ظاہر ہے۔ سو واقع میں ان میں سے کوئی وجہ بھی معقول نہیں) بلکہ (اصلی وجہ یہ ہے کہ) یہ رسول ان کے پاس حق بات لے کر آئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ حق بات سے نفرت رکھتے ہیں۔ (بس یہ تمام تر وجہ ہے تکذیب کی اور عدم اتباع حق کی اور یہ لوگ اس دین حق کا اتباع تو کیا کرتے یہ تو اور الٹا یہ چاہتے ہیں کہ وہ دین حق ہی ان کے خیالات کے تابع کر دیا جاوے اور جو مضامین قرآن میں ان کے خلاف ہیں ان کو خارج یا ترمیم کر دیا جاوے کقولہ تعالیٰ فی سورة یونس قال الذین لا یرجون لقآءنا ائت بقراٰن غیر ھٰذآ او بدلہ) اور (بفرض محال) اگر (ایسا امر واقع ہو جاتا) اور دین حق ان کے خیالات کے تابع (اور موافق) ہو جاتا تو (تمام عالم میں کفر و شرک پھیل جاتا اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ حق تعالیٰ کا غضب تمام عالم پر متوجہ ہو جاتا اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ) تمام آسمان اور زمین اور جو ان میں (آباد) ہیں سب تباہ ہو جاتے (جیسا قیامت میں تمام انسانوں میں گمراہی عام ہو جانے کے سبب اللہ تعالیٰ کا غضب بھی سب پر عام ہو گا اور غضب الٰہی عام ہونے سے سب کی ہلاکت بھی عام ہو گی اور اول تو کسی امر کا حق ہونا مقتضی ہے اس کے وجوب قبول کو گو نافع بھی نہ ہو۔ اور اس کا قبول نہ کرنا خود عیب ہے مگر ان لوگوں میں صرف یہی ایک عیب نہیں کہ حق سے کراہت ہو) بلکہ (اس سے بڑھ کر دوسرا عیب اور بھی ہے کہ حق کا اتباع جو انہیں کے نفع کا سامان ہے اس سے دور بھاگتے ہیں بس) ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت (اور نفع) کی بات بھیجی سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے بھی روگردانی کرتے ہیں یا (علاوہ وجوہ مذکورہ کے ان کی تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ ان کو یہ شبہ ہوا ہو کہ) آپ ان سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں تو (یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب آپ جانتے ہیں کہ) آمدنی تو آپ کے رب کی سب سے بہتر ہے اور وہ سب دینے والوں سے اچھا ہے (تو آپ لوگوں سے کیوں مانگتے ہیں) اور (خلاصہ ان کی حالت کا یہ ہے کہ) آپ تو ان کو سیدھے رستہ کی طرف (جس کو اوپر حق کہا ہے) بلا رہے ہیں اور ان لوگوں کی جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یہ حالت ہے کہ اس (سیدھے) رستہ سے ہٹے جاتے ہیں (مطلب یہ کہ حق ہونا اور مستقیم ہونا اور نافع ہونا یہ سب مقتضیات ایمان کے جمع ہیں اور جو وجوہات مانع ہو سکتی تھیں وہ کوئی موجود نہیں، پھر ایمان نہ لانا اشد درجہ کی جہالت اور ضلالت ہے) اور (ان کی قسادت وعناد کی یہ حالت ہے کہ جس طرح یہ لوگ آیات شرعیہ سے متاثر نہیں ہوتے اسی طرح آیات قہریہ مصائب و بلیات سے بھی متاثر نہیں ہوتے گو مصیبت کے وقت طبعی طور پر ہم کو پکارتے بھی ہیں لیکن وہ دفع الوقتی ہوتی ہے چنانچہ) اگر ہم ان پر مہربانی فرما دیں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کر دیں تو وہ لوگ (پھر) اپنی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے اصرار کرتے رہیں (اور وہ قول وقرار جو مصیبت میں کئے تھے سب ختم ہو جاویں کقولہ تعالیٰ واذا مس الانسان الضر دعانا الخ وقولہ تعالیٰ اذا رکبوا فی الفلک الخ) اور (شاہد اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات) ہم نے ان کو گرفتار عذاب بھی کیا ہے سو ان لوگوں نے نہ اپنے رب کے سامنے (پورے طور پر) فروتنی کی اور نہ عاجزی اختیار کی (پس جب عین مصیبت میں اور مصیبت بھی ایسی سخت جس کو عذاب کہا جا سکے جیسے قحط جو مکہ میں حضورﷺ کی بددعا سے ہوا تھا انہوں نے عاجزی اختیار نہیں کی تو بعد زوال مصیبت کے تو بدرجہ اولیٰ ان سے اس کی توقع نہیں مگر ان کی یہ ساری بے پروائی و بیباکی ان مصائب تک ہے جن کے عادی ہو چکے ہیں) یہاں تک کہ ہم جب ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے (جو کہ فوق العادة ہو خواہ دنیا ہی میں کہ کوئی غیبی قہر آ پڑے یا بعد الموت کہ ضرور ہی واقع ہو گا) تو اس وقت بالکل حیرت زدہ رہ جاویں گے (کہ یہ کیا ہو گیا اور سب نشہ ہرن ہو جاوے گا)

معارف و مسائل

غمرة، ایسے گہرے پانی کو کہتے ہیں جس میں آدمی ڈوب جائے اور جو اس میں داخل ہونے والے کو اپنے اندر چھپا لے اسی لئے لفظ غمرہ پردہ اور ہر ڈھانپ لینے والی چیز کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ یہاں ان کی مشرکانہ جہالت کو غمرہ کہا گیا ہے جس میں ان کے دل ڈوبے ہوئے اور چھپے ہوئے ہیں کہ کسی طرف سے ان کو روشنی کی کرن نہیں پہنچتی۔

ولہم اعمال من دون ذٰلک، یعنی ان کی گمراہی کے لئے تو ایک شرک و کفر ہی کا پردہ غفلت کافی تھا مگر وہ اسی پر بس نہیں کرتے اس کے ساتھ دوسرے اعمال خبیثہ بھی مسلسل کرتے ہی رہتے ہیں۔

023: 064

حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ یَجْـَٔرُوْنَؕ۝۶۴

ترجمہ:

یہاں تک کہ جب پکڑیں گے ہم ان کے آسودہ لوگوں کو آفت میں تبھی وہ لگیں گے چلانے۔

تفسیر:

مترفیہم، مترف، ترف سے مشتق ہے جس کے معنے تنعم اور خوشحالی کے ہیں۔ اس جگہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کا ذکر ہے جس میں امیر غریب خوشحال بدحال سبھی داخل ہوں گے مگر مترفین اور خوشحالوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا کہ ایسے ہی لوگ دنیا کے مصائب سے اپنے بچاؤ کا کچھ سامان کر لیا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو سب سے پہلے یہی لوگ بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس آیت میں جس عذاب کے اندر ان کے پکڑے جانے کا ذکر ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار سے ان کے سرداروں پر پڑا تھا۔ اور بعض حضرات نے اس عذاب سے مراد قحط کا عذاب لیا ہے جو رسول اللہﷺ کی بددعا سے مکہ والوں پر مسلط کر دیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ مردار جانور اور کتے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے۔ نبی کریمﷺ نے کفار کے لئے بددعا بہت کم کی ہے لیکن اس موقع میں مسلمانوں پر ان کے مظالم کی شدت سے مجبور ہو کر یہ بددعا کی تھی۔ اللھم اشدد وطاتک علی مضر واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (رواہ البخاری و مسلم)۔ (قرطبی و مظھری)

023: 065

لَا تَجْـَٔرُوا الْیَوْمَ ۫ اِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ۝۶۵

ترجمہ:

مت چلاؤ آج کے دن تم ہم سے چھوٹ نہ سکو گے۔

023: 066

قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَۙ۝۶۶

ترجمہ:

تم کو سنائی جاتی تھیں میری آیتیں تو تم ایڑیوں پر الٹے بھاگتے تھے۔

023: 067

مُسْتَكْبِرِیْنَ ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ۝۶۷

ترجمہ:

اس سے تکبر کر کے ایک قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے۔

تفسیر:

مستکبرین بہٖ سٰمرا تہجرون، اس میں لفظ بہ کی ضمیر اکثر مفسرین نے حرم کی طرف راجع قرار دی جو اگرچہ اوپر کہیں مذکور نہیں مگر حرم سے قریش مکہ کا گہرا تعلق اور ان پر ان کا ناز اتنا معروف و مشہور تھا کہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور معنے اس کے یہ ہیں کہ قریش مکہ کا اللہ کی آیتیں سن کر پچھلے پاؤں بھاگنے اور نہ ماننے کا سبب حرم مکہ کی نسبت اور اس کی خدمت پر ان کا تکبر اور ناز تھا۔ اور سامرا، سمر سے مشتق ہے جس کے اصل معنے چاندنی رات کے ہیں۔ عرب کی عادت تھی کہ چاندنی رات میں بیٹھ کر قصے کہانیاں کہا کرتے تھے اس لئے لفظ سمر قصہ کہانی کے معنے میں استعمال ہونے لگا اور سامر قصہ گو کو کہا جاتا ہے یہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر معنی میں جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے اس جگہ سامر بمعنے سامرین جمع کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مشرکین کا ایک حال جو آیات الٰہیہ سے انکار کا سبب بنا ہوا تھا حرم مکہ کی نسبت و خدمت پر ان کا ناز تھا۔ دوسرا حال یہ بیان فرمایا کہ یہ لوگ بے اصل اور بے بنیاد قصے کہانیوں میں مشغول رہنے کے عادی ہیں ان کو اللہ کی آیات سے دلچسپی نہیں۔

تھجرون، یہ لفظ ہجر بضم الہاء سے مشتق ہے جس کے معنے فضول بکواس اور گالی گلوچ کے ہیں یہ تیسرا حال ان مشرکین کا بیان کیا گیا کہ یہ لوگ فضول بکواس اور گالی گلوچ کے عادی ہیں۔ رسول اللہﷺ کی شان میں بعض ایسے ہی گستاخانہ کلمات کہتے رہتے ہیں۔

عشاء کے بعد قصہ گوئی کی ممانعت اور خاص ہدایات:

رات کو افسانہ گوئی کا مشغلہ عرب و عجم میں قدیم سے چلا آتا ہے اور اس میں بہت سے مفاسد اور وقت کی اضاعت تھی۔ نبی کریمﷺ نے اس رسم کو مٹانے کے لئے عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد فضول قصہ گوئی کو منع فرمایا۔ حکمت یہ تھی کہ عشاء کی نماز پر انسان کے اعمال یومیہ ختم ہو رہے ہیں جو دن بھر کے گناہوں کا بھی کفارہ ہو سکتا ہے۔ یہی اس کا آخری عمل اس دن کا ہو تو بہتر ہے اگر بعد عشاء فضول قصہ گوئی میں لگ گیا تو اولا یہ خود فعل عبث اور مکروہ ہے اس کے علاوہ اس کے ضمن میں غیبت جھوٹ اور دوسرے طرح طرح کے گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور ایک برا انجام اس کا یہ ہے کہ رات کو دیر تک جاگے گا تو صبح کو سویرے نہیں اٹھ سکے گا اسی لئے حضرت فاروق اعظم جب کسی کو عشاء کے بعد فضول قصوں میں مشغول دیکھتے تو تنبیہ فرماتے تھے اور بعض کو سزا بھی دیتے تھے اور فرماتے کہ جلد سو جاؤ شاید آخر رات میں تہجد کی توفیق ہو جائے۔ (قرطبی)

023: 068

اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَؗ۝۶۸

ترجمہ:

سو کیا انہوں نے دھیان نہیں کیا اس کلام میں یا آئی ہے ان کے پاس ایسی چیز جو نہ آئی تھی ان کے پہلے باپ دادوں کے پاس۔

تفسیر:

افلم یدبروا القول سے ام یقولون بہٖ جنة تک ایسی پانچ چیزوں کا ذکر ہے جو مشرکین کے لئے رسول اللہﷺ پر ایمان لانے سے کسی درجہ میں مانع ہو سکتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک وجہ کے منفی ہونے کا بیان اس کے ساتھ کر دیا ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ جو وجوہ ان لوگوں کے لئے ایمان سے مانع ہو سکتی تھیں ان میں سے کوئی بھی وجہ موجود نہیں اور ایمان لانے کے لئے جو اسباب و وجوہ داعی ہیں وہ سب موجود ہیں اس لئے اب ان کا انکار خالص عناد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں جس کا ذکر اس کے بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا ہے بل جآءہم بالحق واکثرہم للحق کٰرہون۔ یعنی انکار رسالت کی کوئی عقلی یا طبعی وجہ تو موجود نہیں پھر انکار کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ رسول اللہﷺ حق بات لے کر آئے ہیں اور یہ لوگ حق بات ہی کو برا سمجھتے ہیں سننا نہیں چاہتے جس کا سبب ہوا، وہ ہوس کا غلبہ اور جاہلوں کو جو ریاست و اقتدار حاصل ہے اس کی محبت اور جاہلوں کی تقلید ہے۔ یہ پانچ وجوہ جن کا ذکر ایمان اوراقرار بالنبوت سے مانع ہونے کی حیثیت میں کیا گیا ہے ان میں ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے۔

023: 069

اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَؗ۝۶۹

ترجمہ:

یا پہچانا نہیں انہوں اپنے پیغام لانے والے کو سو وہ اس کو اوپرا سمجھتے ہیں۔

تفسیر:

ام لم یعرفوا رسولہم، یعنی ان کے انکار کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ جو شخص دعوت حق اور دعوائے نبوت لے کر آیا ہے یہ کہیں باہر سے آیا ہوتا تاکہ یہ لوگ اس کے نام و نسب اور عادات و خصال اور کردار سے واقف نہ ہوتے تو یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس مدعی کے حالات سے واقف نہیں اس کو کیسے نبی و رسول مان کر اپنا مقتدا بنا لیں۔ مگر یہاں تو یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ رسول اللہﷺ قریش ہی کے اعلیٰ نسب میں اسی شہر مکہ میں پیدا ہوئے اور بچپن سے لے کر جوانی اور مابعد کا سارا زمانہ انہیں لوگوں کے سامنے گزرا۔ آپ کا کوئی عمل کوئی عادت ان سے چھپی ہوئی نہیں تھی اور دعوائے نبوت سے پہلے تک سارے کفار مکہ آپ کو صادق و امین کہا کرتے تھے آپ کے کردار و عمل پر کسی نے بھی کبھی کوئی شبہ ظاہر نہیں کیا تھا تو اب ان کا یہ عذر بھی نہیں چل سکتا کہ وہ ان کو پہچانتے نہیں۔

023: 070

اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ ؕ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ۝۷۰

ترجمہ:

یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے، کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات اور انہیں بہتوں کو سچی بات بری لگتی ہے۔

023: 071

وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ ؕ بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ۝۷۱

ترجمہ:

اور اگر سچا رب چلے ان کی خوشی پر تو خراب ہو جائیں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے کوئی نہیں ہم نے پہنچائی ہے ان کو ان کی نصیحت سو وہ اپنی نصیحت کو دھیان نہیں کرتے۔

023: 072

اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ ۖۗ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۷۲

ترجمہ:

یا تو ان سے مانگتا ہے کچھ محصول سو محصول تیرے رب کا بہتر ہے اور وہ ہے بہتر روزی دینے والا۔

023: 073

وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۷۳

ترجمہ:

اور تو تو بلاتا ہے ان کو سیدھی راہ پر۔

023: 074

وَ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ۝۷۴

ترجمہ:

اور جو لوگ نہیں مانتے آخرت کو راہ سے ٹیڑھے ہو گئے ہیں۔

023: 075

وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۷۵

ترجمہ:

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور کھول دیں جو تکلیف پہنچی ان کو تو بھی برابر لگے رہیں گے اپنی شرارت میں بہکے ہوئے۔

023: 076

وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ۝۷۶

ترجمہ:

اور ہم نے پکڑا تھا ان کو آفت میں پھر نہ عاجزی کی اپنے رب کے آگے اور نہ گڑ گڑائے۔

تفسیر:

ولقد اخذنٰہم بالعذاب فما استکانوا لربہم وما یتضرعون، اس سے پہلی آیت میں مشرکین کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ لوگ جو عذاب میں مبتلا ہونے کے وقت اللہ سے یا رسول سے فریاد کرتے ہیں اگر ہم ان کی فریاد پر رحم کھا کر عذاب ہٹا دیں تو ان کی جبلی شرارت و سرکشی کا عالم یہ ہے کہ عذاب سے نجات پانے کے بعد پھر اپنی سرکشی اور نافرمانی میں مشغول ہو جائیں گے اس آیت میں ان کے ایک اسی طرح کے واقعہ کا بیان ہے کہ ان کو ایک عذاب میں پکڑا گیا مگر عذاب سے بدعا نبی کریمﷺ نجات پانے کے بعد بھی یہ اللہ کے سامنے نہیں جھکے اور برابر اپنے کفر و شرک پر جمے رہے۔

اہل مکہ پر قحط کا عذاب اور رسول اللہﷺ کی دعا سے اس کا دفع ہونا:

پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اہل مکہ پر قحط کا عذاب مسلط ہونے کی دعا کی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے اور مردار وغیرہ کھانے پر مجبور ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ابو سفیان رسول اللہﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور صلہ رحمی کی، کیا آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں اہل عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، آپ نے فرمایا بیشک کہا ہے اور واقعہ بھی یوں ہی ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ آپ نے اپنی قوم کے بڑوں کو تو بدر کے معرکہ میں تلوار سے قتل کر دیا اور جو اب رہ گئے ہیں ان کو بھوک سے قتل کر رہے ہیں اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہم سے ہٹ جائے رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی یہ عذاب اسی وقت ختم ہو گیا اسی پر یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی ولقد اخذنٰہم بالعذاب فما استکانوا لربہم۔

اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ عذاب میں مبتلا ہونے پھر اس سے نجات پانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے چنانچہ واقعہ یہی تھا کہ رسول اللہﷺ کی دعا سے قحط رفع بھی ہو گیا مگر مشرکین مکہ اپنے شرک و کفر پر اسی طرح جمے رہے۔ (مظھری وغیرہ)

023: 077

حَتّٰۤی اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ۠۝۷۷

ترجمہ:

یہاں تک کہ جب کھول دیں ہم ان پر دروازہ ایک سخت آفت کا تب اس میں ان کی آس ٹوٹے گی۔

023: 078

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۷۸

ترجمہ:

اور اسی نے بنا دئیے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل تم بہت تھوڑا حق مانتے ہو۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

اور وہ (اللہ) ایسا (قادر اور منعم) ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے (کہ آرام بھی برتو اور دین کا بھی ادراک کرو لیکن) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو (کیونکہ اصلی شکر یہ تھا کہ اس منعم کے پسندیدہ دین کو قبول کرتے اور دوبارہ قیامت میں زندہ کرنے کا انکار نہ کرتے) اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلا رکھا ہے اور تم سب (قیامت میں) اسی کے پاس لائے جاؤ گے (اس وقت اس کفران نعمت کی حقیقت معلوم ہو گی) اور وہ ایسا ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور اسی کے اختیار میں ہے رات اور دن کا گھٹنا بڑھنا سو کیا تم (اتنی بات) نہیں سمجھتے (کہ یہ دلائل قدرت توحید اور قیامت میں دوسری زندگی، دونوں پر دال ہیں مگر) پھر بھی مانتے نہیں، بلکہ یہ بھی ویسی ہی بات کہتے ہیں جو اگلے (کافر) لوگ کہتے چلے آئے ہیں (یعنی) یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم جب مر جاویں گے اور ہم مٹی اور ہڈیاں رہ جاویں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کئے جاویں گے اس کا تو ہم سے اور (ہم سے) پہلے ہمارے بڑوں سے وعدہ ہوتا چلا آیا ہے یہ کچھ بھی نہیں محض بے سند باتیں ہیں جو اگلوں سے منقول ہوتی چلی آتی ہیں (چونکہ اس قول سے انکار قدرت لازم آتا ہے اور اس سے مثل انکار بعث کے انکار توحید کا بھی ہوتا ہے اس لئے اس قول کے جواب میں اثبات قدرت کے ساتھ اثبات توحید کا بھی ارشاد ہے یعنی) آپ (جواب میں) یہ کہہ دیجئے کہ (اچھا یہ بتلاؤ کہ) یہ زمین اور جو اس پر رہتے ہیں کس کی ملک ہیں، اگر تم کو کچھ خبر ہے۔ وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ کے ہیں (تو) ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں غور کرتے (کہ قدرت علی البعث اور توحید دونوں کے حکم کا ثبوت ہو جاوے اور) آپ یہ بھی کہئے کہ (اچھا یہ بتاؤ کہ) ان سات آسمانوں کا مالک اور عالیشان عرش کا مالک کون ہے (اس کا بھی) وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ یہ بھی (سب) اللہ کا ہے آپ (اس وقت) کہئے کہ پھر تم (اس سے) کیوں نہیں ڈرتے (کہ اس کی قدرت اور آیات بعث کا انکار کرتے ہو اور) آپ (ان سے) یہ بھی کہئے کہ (اچھا) وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے اور وہ (جس کو چاہتا ہے) پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا اگر تم کو کچھ خبر ہے (تب بھی جواب میں) وہ ضرور یہی کہیں گے کہ یہ سب صفتیں بھی اللہ ہی کی ہیں آپ (اس وقت) کہئے کہ پھر تم کو کیسا خبط ہو رہا ہے (کہ ان سب مقدمات کو مانتے ہو اور نتیجہ کو کہ توحید اور قیامت کا اعتقاد ہے نہیں مانتے۔ یہ تو استدلال تھا مقصود پر ان کے جواب میں، آگے ان کے مقدمہ کی دلیل یعنی ان ھٰذآ الآ اساطیر الاولین الخ کا ابطال ہے یعنی یہ جو ان کو بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت آوے گی اور مردے زندہ ہوں گے یہ اساطرس الاولین نہیں ہے) بلکہ ہم نے ان کو سچی بات پہنچائی ہے اور یقیناً یہ (خود ہی) جھوٹے ہیں (یہاں تک مکالمہ ختم ہو چکا اور توحید و بعث دونوں ثابت ہو گئے مگر ان دونوں مسئلوں میں چونکہ توحید کا مسئلہ زیادہ مہتمم بالشان اور حقیقت میں مسئلہ قیامت و آخرت کا بھی مبنیٰ اور محل کلام بھی زیادہ تھا اس لئے تتمہ تقریر میں اس کو مستقلا ارشاد فرماتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا (جیسا مشرکین ملائکہ کی نسبت کہتے تھے) اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو (تقسیم کر کے) جدا کر لیتا اور (پھر دنیا کے بادشاہوں کی عادت کے مطابق دوسرے کی مخلوقات چھیننے کے لئے) ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا (پھر مخلوق کی تباہی کی تو کیا انتہا ہے لیکن نظام عالم بدستور قائم ہے اس سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ ان (مکروہ) باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ (اس کی نسبت) بیان کرتے ہیں، جاننے والا ہے سب پوشیدہ اور آشکارا کا، غرض ان لوگوں کے شرک سے وہ بالاتر (اور منزہ) ہے۔

023: 079

وَ هُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۹

ترجمہ:

اور اسی نے تم کو پھیلا رکھا ہے زمین میں اور اسی کی طرف جمع ہو کر جاؤ گے۔

023: 080

وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۸۰

ترجمہ:

اور وہی ہے جلاتا اور مارتا اور اسی کا کام ہے بدلنا رات اور دن کا سو کیا تم کو سمجھ نہیں۔

023: 081

بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ۝۸۱

ترجمہ:

کوئی بات نہیں یہ تو وہی کہہ رہے جیسا کہا کرتے تھے پہلے لوگ۔

023: 082

قَالُوْۤا ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲

ترجمہ:

کہتے ہیں کیا جب ہم مر گئے اور ہو گئے مٹی اور ہڈیاں کیا ہم کو زندہ ہو کر اٹھنا ہے۔

023: 083

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا هٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۸۳

ترجمہ:

وعدہ دیا جاتا ہے ہم کو اور ہمارے باپ دادوں کو یہی پہلے سے اور کچھ بھی نہیں یہ نقلیں ہیں پہلوں کی۔

023: 084

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۴

ترجمہ:

تو کہہ کس کی ہے زمین اور جو کوئی اس میں ہے بتاؤ اگر تم جانتے ہو۔

023: 085

سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۸۵

ترجمہ:

اب کہیں گے سب کچھ اللہ کا ہے، تو کہہ پھر تم سوچتے نہیں۔

023: 086

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۝۸۶

ترجمہ:

تو کہہ کون ہے مالک ساتوں آسمانوں کا اور مالک اس بڑے تخت کا۔

023: 087

سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ؕ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۸۷

ترجمہ:

اب بتائیں گے اللہ کو تو کہہ پھر تم ڈرتے نہیں۔

023: 088

قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸

ترجمہ:

تو کہہ کس کے ہاتھ میں ہے حکومت ہر چیز کی اور وہ بچا لیتا ہے اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا بناؤ اگر تم جانتے ہو۔

معارف و مسائل

وہو یجیر ولا یجار علیہ، یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عذاب اور مصیبت رنج و تکلیف سے پناہ دے دے اور یہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے مقابلہ پر کسی کو پناہ دے کر اس کے عذاب و تکلیف سے بچا لے۔ یہ بات دنیا کے اعتبار سے بھی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو کوئی نفع پہچانا چاہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس کو کوئی تکلیف و عذاب دینا چاہے اس سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اور آخرت کے اعتبار سے بھی یہ مضمون صحیح ہے کہ جس کو وہ عذاب میں مبتلا کرے گا اس کو کوئی بچا نہ سکے گا اور جس کو جنت اور راحت دے گا اس کو کوئی روک نہ سکے گا (قرطبی)

023: 089

سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ؕ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ۝۸۹

ترجمہ:

اب بتائیں گے اللہ کو تو کہہ پھر کہاں سے تم پر جادو آ پڑتا ہے۔

023: 090

بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِالْحَقِّ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۹۰

ترجمہ:

کوئی نہیں ہم نے ان کو پہنچایا سچ اور وہ البتہ جھوٹے ہیں۔

023: 091

مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَۙ۝۹۱

ترجمہ:

اللہ نے کوئی بیٹا نہیں کیا اور نہ اس کے ساتھ کسی کا حکم چلے یوں ہوتا تو لے جاتا ہر حکم والا اپنی بنائی چیز کو اور چڑھائی کرتا ایک پر ایک اللہ نرالا ہے ان کی بتلائی باتوں سے۔

023: 092

عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۠۝۹۲

ترجمہ:

جاننے والا چھپے اور کھلے کا وہ بہت اوپر ہے اس سے جس کو یہ شریک بتلاتے ہیں۔

023: 093

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیْ مَا یُوْعَدُوْنَۙ۝۹۳

ترجمہ:

یوں کہہ اے رب اگر تو دکھانے لگے مجھ کو جو ان سے وعدہ ہوا ہے۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

آپ (حق تعالیٰ سے) دعا کیجئے کہ اے میرے رب جس عذاب کا ان کافروں سے وعدہ کیا جا رہا ہے (جیسا اوپر اذا فتحنا علیہم سے بھی معلوم ہوا) اگر آپ مجھ کو دکھا دیں (مثلاً یہ کہ وہ عذاب ان پر میری زندگی میں اس طور سے آوے کہ میں بھی دیکھوں کیونکہ اس عذاب موعود کا کوئی وقت خاص نہیں بتلایا گیا ہے چنانچہ آیت مذکورہ بھی مبہم ہے جس میں یہ احتمال مذکور بھی ہے غرض اگر ایسا ہوا) تو اے میرے رب مجھ کو ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجئے اور ہم اس بات پر کہ جو ان سے وعدہ کر رہے ہیں آپ کو بھی دکھلا دیں قادر ہیں (باقی جب تک ان پر عذاب نہ آوے) آپ (ان کے ساتھ یہ معاملہ رکھئے کہ) ان کی بدی کا دفعیہ ایسے برتاؤ سے کر دیا کیجئے جو بہت ہی اچھا (اور نرم) ہو (اور اپنی ذات کے لئے بدلہ نہ لیجئے بلکہ ہمارے حوالہ کر دیا کیجئے) ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ (آپ کی نسبت) کہا کرتے ہیں اور (اگر آپ بمقتضائے بشریت غیظ آ جایا کرے تو) آپ یوں دعا کیا کیجئے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے وسوسوں سے (جو مفضی ہو جاویں کسی ایسے امر کی طرف جو خلاف مصلحت ہو گو خلاف شریعت نہ ہو) اور اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان میرے پاس بھی آویں (اور وسوسہ ڈالنا تو درکنار پس اس سے وہ غیظ جاتا رہے گا۔ یہ کفار اپنے کفر و انکار معاد سے باز نہیں آتے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی (کے سر) پر موت آ (کھڑی) ہوتی ہے (اور آخرت کا معائنہ ہونے لگتا ہے) اس وقت (آنکھیں کھلتی ہیں اور اپنے جہل و کفر پر نادم ہو کر) کہتا ہے کہ اے میرے رب (مجھ سے موت کو ٹال دیجئے اور) مجھ کو (دنیا میں) پھر واپس بھیج دیجئے تاکہ جس (دنیا) کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں (پھر جا کر) نیک کام کروں (یعنی تصدیق و اطاعت حق تعالیٰ اس درخواست کو رد فرماتے ہیں کہ) ہرگز (ایسا) نہیں (ہو گا) یہ (اس کی) ایک بات ہی بات ہے جس کو یہ کہے جا رہا ہے (اور پوری ہونے والی نہیں) اور (وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان لوگوں کے آگے ایک (چیز) آڑ (کی آنے والی) ہے (کہ جس کا آنا ضروری ہے اور وہی دنیا میں واپس آنے سے مانع ہے مراد اس سے موت ہے کہ اس کا وقوع بھی وقت مقدر پر ضروری ہے ولن یؤ خر اللٰہ نفسا اذا جآء اجلہا اور موت کے بعد دنیا میں لوٹ کر آنا بھی) قیامت کے دن تک (قانون الٰہی کے خلاف ہے)

023: 094

رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۝۹۴

ترجمہ:

تو اے رب مجھ کو نہ کر لو ان گنہگار لوگوں میں۔

معارف و مسائل

قل رب اما ترینی ما یوعدون، رب فلا تجعلنی فی القوم الظٰلمین

مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مشرکین و کفار پر عذاب کی وعید مذکور ہے جو عام ہے قیامت میں تو اس کا وقوع قطعی اور یقینی ہے دنیا میں ہونے کا بھی احتمال ہے پھر یہ عذاب اگر دنیا میں ان پر واقع ہو تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ کے بعد آئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں آپ ہی کے سامنے ان پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے اور دنیا میں جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو بعض اوقات اس عذاب کا اثر صرف ظالموں ہی پر نہیں رہتا بلکہ نیک لوگ بھی اس سے دنیاوی تکلیف میں متاثر ہوتے ہیں گو آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہ ہو بلکہ اس دنیا کی تکلیف پر جو ان کو پہنچتی ہے اجر بھی ملے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے واتقوا فتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خآصة، یعنی ایسے عذاب سے ڈرو جو اگر آ گیا تو صرف ظالموں ہی تک نہیں رہے گا دوسرے لوگ بھی اس کے لپیٹ میں آئیں گے۔

ان آیات میں رسول اللہﷺ کو یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے کہ یا اللہ اگر ان لوگوں پر آپ کا عذاب میرے سامنے اور میرے دیکھتے ہوئے ہی آنا ہے تو مجھے ان ظالموں کے ساتھ نہ رکھئے۔ رسول اللہﷺ کا معصوم اور عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا اگرچہ آپ کے لئے یقینی تھا مگر پھر بھی اس دعا کی تلقین اس لئے فرمائی گئی کہ آپ ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھیں اس سے فریاد کرتے رہیں تاکہ آپ کا اجر بڑھے۔ (قرطبی)

023: 095

وَ اِنَّا عَلٰۤی اَنْ نُّرِیَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ۝۹۵

ترجمہ:

اور ہم کو قدرت ہے کہ تجھ کو دکھلا ویں جو ان سے وعدہ کر دیا ہے۔

تفسیر:

وانا علٰٓی ان نریک ما نعدہم لقٰدرون، یعنی ہم کو اس پر پوری قدرت ہے کہ ہم آپ کے سامنے ہی آپ کو ان پر عذاب آتا ہوا دکھلا دیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اگرچہ اس امت پر آنحضرتﷺ کی برکت سے عذاب عام نہ آنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا ہے وما کان اللٰہ لیعذبہم وانت فیہم، یعنی ہم ان لوگوں کو اس حالت میں ہلاک کرنے والے نہیں کہ آپ ان کے اندر موجود ہوں لیکن خاص خاص لوگوں پر خاص حالات میں عذاب دنیا ہی میں آ جانا اس کے منافی نہیں۔ اس آیت میں جیسا کہ فرمایا ہے کہ ہم اس پر قادر ہیں کہ آپ کو بھی ان کا عذاب دکھلا دیں وہ اہل مکہ پر قحط اور بھوک کا عذاب پھر غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار کا عذاب آپ کے سامنے ہی ان پر پڑچکا تھا (قرطبی)

023: 096

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ ؕ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ۝۹۶

ترجمہ:

بری بات کے جواب میں وہ کہہ جو بہتر ہے ہم خوب جانتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں۔

تفسیر:

ادفع بالتی ہى احسن السیئة، یعنی آپ برائی کو بھلائی کے ذریعہ ظلم کو انصاف کے ذریعہ اور بے رحمی کو رحم کے ذریعہ دفع فرما دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی تعلیم ہے جو رسول اللہﷺ کو دی گئی ہے جو مسلمانوں کے باہم معاملات کے لئے ہمیشہ جاری ہے البتہ کفار و مشرکین سے ان کے مظالم کے مقابلے میں عفو و درگزر ہی کرتے رہنا، ان پر ہاتھ نہ اٹھانا، یہ حکم آیات جہاد سے منسوخ ہو گیا مگر عین حالت جہاد میں بھی اس حسن خلق کے بہت سے مظاہر باقی رکھے گئے کہ عورت کو قتل نہ کیا جائے، بچے کو قتل نہ کیا جائے جو مذہبی لوگ مسلمانوں کے مقابلے پر جنگ میں شریک نہیں ان کو قتل نہ کیا جائے اور جس کو بھی قتل کریں تو اس کا مثلہ نہ بنا دیں کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیں، وغیر ذلک من احکام مکارم الاخلاق۔ اسی لئے بعد کی آیت میں آنحضرتﷺ کو شیطان اور اس کے وساوس سے پناہ مانگنے کی دعا تلقین کی گئی کہ عین میدان قتال میں بھی آپ کی طرف سے عدل و انصاف اور مکارم اخلاق کے خلاف کوئی چیز شیطان کے غصہ دلانے سے صادر نہ ہونے پائے وہ دعا یہ ہے:۔

023: 097

وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ۝۹۷

ترجمہ:

اور کہہ اے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان کی چھیڑ سے۔

تفسیر:

وقل رب اعوذ بک من ہمزٰت الشیٰطین، واعوذ بک رب ان یحضرون، لفظ ھمز کے معنے دھکا دینے اور دبانے کے آتے ہیں۔ اور پیچھے کی طرف سے آواز دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دعا اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے ایک جامع دعا شیطان کے شر اور مکر سے بچنے کے لئے ہے۔ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اس دعا کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ایسے غصہ اور غیظ و غضب کی حالت میں جبکہ انسان کو اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا اور اس میں ھمز شیطان کا دخل ہوتا ہے اس سے محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ شیاطین اور جنات کے دوسرے آثار اور حملوں سے بچنے کے لئے بھی یہ دعا مجرب ہے۔ حضرت خالدؓ کو شب میں نیند نہ آتی تھی رسول اللہﷺ نے ان کو یہ کلمات دعا تلقین فرمائے کہ یہ پڑھ کر لیٹا کریں۔ انہوں نے پڑھا تو یہ شکایت جاتی رہی وہ دعا یہ ہے اعوذ بکلمات اللہ التامة من غضب اللہ و عقابہ و من شر عبادہ و من ھمزت الشیطین و ان یحضرون۔

023: 098

وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ۝۹۸

ترجمہ:

اور پناہ تیری چاہتا ہوں اے رب اس سے کہ میرے پاس آئیں۔

تفسیر:

ان یحضرون، صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ شیطان تمہارے ہر کام میں ہر حال میں تمہارے پاس آتا ہے اور ہر کام میں گناہوں اور غلط کاموں کا وسوسہ دل میں ڈالتا رہتا ہے (قرطبی) اسی سے پناہ مانگنے کے لئے یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے۔

023: 099

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۝۹۹

ترجمہ:

یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت کہے گا اے رب مجھ کو پھر بھیج دو۔

تفسیر:

رب ارجعون، یعنی موت کے وقت کافر پر جب آخرت کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے تو وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں پھر دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کر لوں۔ ابن جریر نے بروایت ابن جریج نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کے سامان سامنے دیکھنے لگتا ہے تو فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ پھر تمہیں دنیا میں واپس کر دیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو اب اللہ کے پاس لے جاؤ اور کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے رب ارجعون یعنی مجھے دنیا میں لوٹا دو۔

023: 100

لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا ؕ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰

ترجمہ:

شاید کچھ میں بھلا کام کر لوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتا ہے اور ان کے پیچھے پردہ ہے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں۔

تفسیر:

کلا انہا کلمة ہو قآىٕلہا ومن ورآىٕہم برزخ الٰى یوم یبعثون، برزخ کے لفظی معنے حاجز اور فاصل کے ہیں۔ دو حالتوں یا دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اس کو برزخ کہتے ہیں اسی لئے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیاوی حیات اور آخرت کی حیات کے درمیان حد فاصل ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ جب مرنے والا کافر، فرشتوں سے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کو کہتا ہے تو یہ کلمہ تو اس کو کہنا ہی تھا کیونکہ اب عذاب سامنے آ چکا ہے مگر اس کلمہ کا اب کوئی فائدہ اس لئے نہیں کہ وہ اب برزخ میں پہنچ چکا ہے جس کا قانون یہ ہے کہ برزخ سے لوٹ کر کوئی دنیا میں نہیں آتا اور قیامت اور بعث و نشر سے پہلے دوسری زندگی نہیں ملتی۔ واللہ اعلم۔

023: 101

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ۝۱۰۱

ترجمہ:

پھر جب پھونک ماریں صور میں تو نہ قرابتیں ہیں ان میں اس دن اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

پھر جب (قیامت کا روز ہو گا اور) صور پھونکا جاوے گا تو (ایسی ہول وہیبت میں گرفتار ہوں گے کہ) ان میں (جو) باہمی رشتے ناتے (تھے) اس روز (وہ بھی گویا) نہ رہیں گے (یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا جیسے اجنبی اجنبی ہوتے ہیں) اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا (کہ بھائی تم کس حالت میں ہو، غرض نہ رشتہ ناتا کام آوے گا نہ دوستی اور تعارف، پس وہاں کام کی چیز ایک ایمان ہو گا جس کی عام شناخت کے لئے کہ سب پر ظاہر ہو جاوے ایک ترازو کھڑی کی جاوے گی اور اس سے اعمال و عقائد کا وزن ہو گا) سو جس شخص کا پلہ (ایمان کا) بھاری ہو گا (یعنی وہ مومن ہو گا) تو ایسے لوگ کامیاب (یعنی نجات پانے والے) ہوں گے (اور مذکور ہول وہیبت کے حالات کہ نہ کسی کا رشتہ کام آوے نہ دوستی اور نہ کوئی کسی کو پوچھے کہ کس حال میں ہو، یہ ان مومنین کو پیش نہ آئیں گے لقولہ تعالیٰ لا یحزنہم الفزع الاکبر۔ الایة) اور جس شخص کا پلہ (ایمان کا) ہلکا ہو گا (یعنی وہ کافر ہو گا) سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کر لیا اور جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے ان کے چہروں کو (اس جہنم کی) آگ جھلسی ہو گی اور اس (جہنم) میں ان کے منہ بگڑے ہوں گے (اور ان سے حق تعالیٰ بالواسطہ یا بلا واسطہ ارشاد فرما ویں گے کہ) کیوں کیا میری آیتیں (دنیا میں) تم کو پڑھ کر سنائی نہیں جایا کرتی تھیں، اور تم ان کو جھٹلایا کرتے تھے (یہ اس کی سزا مل رہی ہے) وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب (واقعی) ہماری بدبختی نے ہم کو (ہمارے ہاتھوں) گھیر لیا تھا اور (بیشک) ہم گمراہ لوگ تھے (یعنی ہم جرم کا اقرار اور اس پر ندامت و معذرت کا اظہار کر کے درخواست کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ہم کو اس (جہنم) سے (اب) نکال دیجئے (اور دوبارہ دنیا میں بھیج دیجئے لقولہ تعالیٰ فی الم السجدة فارجعنا نعمل صالحا) پھر اگر ہم دوبارہ (ایسا) کریں تو ہم بیشک پورے قصور وار ہیں (اس وقت ہم کو خوب سزا دیجئے اور اب چھوڑ دیجئے) ارشاد ہو گا کہ اسی (جہنم) میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو (یعنی ہم نہیں منظور کرتے، کیا تم کو یاد نہیں رہا کہ) میرے بندوں میں ایک گروہ (ایمانداروں کا) تھا جو (بیچارے ہم سے) عرض کیا کرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو بخش دیجئے اور ہم پر رحمت فرمائیے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں سو تم نے (محض اس بات پر جو ہر طرح قابل قدر تھی) ان کا مذاق مقرر کیا تھا (اور) یہاں تک (اس کا مشغلہ کیا) کہ ان کے مشغلہ نے تم کو ہماری یاد بھی بھلا دی اور تم ان سے ہنسی کیا کرتے تھے (سو ان کا تو کچھ نہ بگڑا چند روز کی کلفت تھی کہ صبر کرنا پڑا جس کا یہ نتیجہ ملا کہ) میں نے ان کو آج ان کے صبر کا یہ بدلہ دیا، کہ وہی کامیاب ہوئے (اور تم اس ناکامی میں گرفتار ہوئے مطلب جواب کا یہ ہوا کہ تمہارا قصور اس قابل نہیں کہ سزا کے وقت اقرار کرنے سے معاف کر دیا جاوے کیونکہ تم نے ایسا معاملہ کیا جس سے ہمارے حقوق کا بھی اتلاف ہوا اور حقوق العباد کا بھی۔ اور عباد بھی کیسے ہمارے مقبول اور محبوب جو ہم سے خصوصیت خاصہ رکھتے تھے کیونکہ ان کو سخریہ بنانے میں ان کی ایذاء کہ اضاعة حق العبد ہے اور تکذیب حق جو منشا سخریہ کا ہے کہ اضاعة حق اللہ ہے دونوں لازم آئے پس اس کی سزا کے لئے دوام اور تمام ہی مناسب ہے اور مومنین کو ان کے سامنے جنت کی نعمتوں سے کامیاب کرنا یہ بھی ایک سزا ہے کفار کے لئے کیونکہ اعداء کی کامیابی سے روحانی ایذا ہوتی ہے یہ تو جواب ہو گیا ان کی درخواستوں کا آگے تنبیہ ہے ان کے بطلان اعتقاد و مشرب پر تاکہ ذلت پر ذلت و حسرت پر حسرت ہونے سے عقوبت میں شدت ہو، اس لئے) ارشاد ہو گا کہ (اچھا یہ بتلاؤ) تم برسوں کے شمار سے کس قدر مدت زمین میں رہے ہو گے (چونکہ وہاں کے ہول وہیبت سے ان کے ہوش و حواس گم ہو چکے ہوں گے اور اس دن کا طول بھی پیش نظر ہو گا) وہ جواب دیں گے کہ (برس کیسے، بہت رہے ہوں گے تو) ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ہم رہے ہوں گے (اور سچ یہ ہے کہ ہم کو یاد نہیں) سو گننے والوں سے (یعنی فرشتوں سے کہ اعمال و اعمار سب کا حساب کرتے تھے) پوچھ لیجئے، ارشاد ہو گا کہ (یوم اور بعض یوم تو غلط ہے مگر اتنا تو تمہارے اقرار سے جو کہ صحیح بھی ہے ثابت ہو گیا کہ) تم (دنیا میں) تھوڑی ہی مدت رہے (لیکن) کیا خوب ہو تاکہ تم (یہ بات اس وقت) سمجھتے ہوتے (کہ دنیا کی بقا ناقابل اعتبار ہے اور اس کے سوا اور کوئی دار القرار ہے مگر وہاں تو بقاء کو دنیا ہی میں منحصر سمجھا اور اس عالم کا انکار کرتے رہے وقالوٓا ان ہى الا حیاتنا الدنیا وما نحن بمبعوثین، اور اب جو غلطی ظاہر ہوئی اور صحیح سمجھے تو بیکار، اور غلطی اعتقاد پر تنبیہ کے بعد آگے پھر اس اعتقاد پر زجر ہے، جو بطور خلاصہ مضمون فرد قرار داد جرم کے ہے کہ) ہاں تو کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی مہمل (خالی از حکمت) پیدا کر دیا ہے اور یہ (خیال کیا تھا) کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے (مطلب یہ کہ جب ہم نے آیات میں جن کا صدق دلائل صحیحہ سے ثابت ہے قیامت اور اس میں اعمال کے بدلے کی خبر دی تھی تو معلوم ہو گیا تھا کہ مکلفین کی تخلیق کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کا منکر ہونا کتنا بڑا امر منکر تھا)۔

معارف و مسائل

فاذا نفخ فی الصور فلآ انساب بینہم، قیامت کے روز صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا نفخہ اولیٰ یعنی پہلے صور کا یہ اثر ہو گا کہ سارا عالم زمین و آسمان اور جو اس کے درمیان ہے فنا ہو جائے گا اور نفخہ ثانیہ سے پھر سارے مردے زندہ ہو کر کھڑے ہو جائیں گے قرآن کریم کی آیت ثم نفخ فیہ اخرٰى فاذا ہم قیام ینظرون میں اس کی تصریح موجود ہے۔ اس آیت میں صور کا نفخہ اولیٰ مراد ہے یا نفخہ ثانیہ، اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس سے بروایت ابن جبیر منقول ہے کہ اس آیت میں مراد نفخہ اولیٰ ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا اور بروایت عطا یہی بات حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے کہ مراد اس جگہ نفخہ ثانیہ ہے۔ تفسیر مظہری میں اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول یہ ہے کہ قیامت کے روز ایک ایک بندے مرد و عورت کو محشر کے میدان میں لایا جائے گا اور تمام اولین و آخرین کے اس بھرے مجمع کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ایک منادی یہ نداء کرے گا کہ یہ شخص فلاں بن فلاں ہے اگر کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ ہے تو سامنے آ جائے اس سے اپنا حق وصول کر لے۔ یہ وہ وقت ہو گا کہ بیٹا اس پر خوش ہو گا کہ میرا حق باپ کے ذمہ نکل آیا، اور باپ کا کوئی حق بیٹے پر ہوا تو باپ خوش ہو گا کہ اس سے وصول کروں گا اسی طرح میاں بیوی اور بھائی بہن جس کا جس پر کوئی حق ہو گا یہ منادی سن کر اس سے وصول کرنے پر آمادہ اور خوش ہو گا، یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اس آیت مذکورہ میں آیا ہے فلآ انساب بینہم، یعنی اس وقت باہمی نسبی رشتے اور قرابتیں کام نہ آئیں گی کوئی کسی پر رحم نہ کرے گا، ہر شخص کو اپنی اپنی فکر لگی ہو گی یہی مضمون اس آیت کا ہے یوم یفر المرء من اخیہ، وامہٖ وابیہ، وصاحبتہٖ وبنیہ، یعنی وہ دن جس میں ہر انسان اپنے بھائی سے، ماں اور باپ سے، بیوی اور اولاد سے دور بھاگے گا۔

محشر مںئ مومننا اور کفار کے حالات مںا فرق:

مگر یہ حال کافروں کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر اس کا ذکر موجود ہے مومنین کا یہ حال نہیں ہو گا کیونکہ مومنین کا حال خود قرآن نے یہ ذکر کیا ہے الحقنا بہم ذریتہم، یعنی مومنین صالحین کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ (بشرط ایمان) اپنے آباء صالحین کے ساتھ لگا دیں گے اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز جس وقت محشر میں سب پیاسے ہوں گے تو مسلمان بچے جو نابالغی کی حالت میں مر گئے تھے وہ جنت کا پانی لئے ہوئے نکلیں گے لوگ ان سے پانی مانگیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہے ہیں یہ پانی ان کے لئے ہے (رواہ ابن ابی الدنیا عن عبد اللہ بن عمر و عن ابی ذر۔ مظہری)

اسی طرح ایک صحیح حدیث میں جس کو ابن عساکر نے بسند صحیح حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہر نسبی تعلق یا زوجیت کے تعلق سے جو رشتے پیدا ہوں گے وہ سب منقطع ہو جائیں گے (کوئی کسی کے کام نہ آوے گا) بجز میرے نسب اور میری زوجیت کے رشتہ کے، علماء نے فرمایا کہ اس نسب نبوی میں ساری امت کے مسلمان بھی داخل ہیں کیونکہ رسول اللہﷺ امت کے باپ اور آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ رشتہ اور دوستی کا کوئی تعلق کسی کے کام نہ آنا یہ حال محشر میں کافروں کا ہو گا مومنین ایک دوسرے کی شفاعت اور مدد کریں گے اور ان کے تعلقات ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔

ولا یتسآءلون، یعنی آپس میں کوئی کسی کی بات نہ پوچھے گا اور دوسری ایک آیت میں جو یہ مذکور ہے واقبل بعضہم علیٰ بعض یتسآءلون، یعنی محشر میں لوگ باہم ایک دوسرے سے سوالات کریں گے اور حالات پوچھیں گے۔ اس کے بارے میں حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ محشر میں مختلف موقف ہوں گے ہر موقف کا حال مختلف ہو گا۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کوئی کسی کو نہ پوچھے گا پھر کسی موقف میں جب وہ ہیبت اور ہول کا غلبہ کم ہو جائے گا تو باہم ایک دوسرے کا حال بھی دریافت کریں گے۔ (مظھری)

023: 102

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲

ترجمہ:

سو جس کی بھاری ہوئی تول تو وہی لوگ کام لے نکلے۔

تفسیر:

فمن ثقلت موازینہٗ فاولٰٓىٕک ہم المفلحون، ومن خفت موازینہٗ فاولٰٓىٕک الذین خسروٓا انفسہم فی جہنم خٰلدون، یعنی میزان عمل میں جس شخص کا نیکیوں کا پلہ بھاری ہو گا وہ ہی فلاح پانے والے ہیں اور جس کا پلہ نیکیوں کا ہلکا رہے گا تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں خود اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اور اب وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنے والے ہیں۔ اس آیت میں مقابلہ صرف مومنین کاملین اور کفار کا ہے اور انہیں کے وزن اعمال کا اور ان میں سے ہر ایک کے انجام کا ذکر کیا گیا کہ مومنین کاملین کا پلہ بھاری ہو گا ان کو فلاح حاصل ہو گی، کفار کا پلہ ہلکا رہے گا ان کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا۔

اور قرآن کریم کی دوسری تصریحات سے ثابت ہے کہ اس جگہ مومنین کاملین کا پلہ بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پلے یعنی سیئات و معاصی کے پلے میں کوئی وزن ہی نہ ہو گا وہ خالی نظر آئے گا۔ اور کفار کا پلہ ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے پلہ میں کوئی وزن ہی نہ ہو گا بالکل خالی جیسا ہلکا رہے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے فلا نقیم لہم یوم القیٰمة وزنا، یعنی ہم کفار اور ان کے اعمال کا قیامت کے دن کوئی وزن ہی قائم نہ کریں گے۔ یہ حال تو مومنین کاملین کا ہوا اور جن سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوئے یا توبہ وغیرہ سے معاف کر دئیے گئے وزن اعمال کے وقت سیئات کے پلہ میں ان کے نام پر کچھ نہ ہو گا۔ دوسری طرف کفار ہیں جن کے نیک اعمال بھی شرط ایمان موجود نہ ہونے کے سبب میزان عدل میں بے وزن ہوں گے۔ باقی رہا معاملہ گنہگار مسلمانوں کا جن کے نیکیوں کے پلہ میں بھی اعمال ہوں گے اور سیئات کے پلہ میں بھی اعمال ہوں گے ان کا ذکر اس آیت میں صراحتاً نہیں کیا گیا بلکہ عموماً قرآن کریم میں گنہگار مسلمانوں کی سزا و جزاء سے سکوت ہی اختیار کیا گیا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ نزول قرآن کے زمانے میں جتنے مومنین صحابہ کرام تھے وہ سب کے سب عدول تھے یعنی عموماً تو وہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہی رہے اور اگر کسی سے کوئی گناہ ہو بھی گیا تو اس نے توبہ کر لی توبہ سے معاف ہو گیا۔ (مظھری)

قرآن مجید کی ایک آیت خلطوا عملاً صالحا واٰخر سیِا میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے نیک و بد اعمال مل جلے ہیں۔ ان کے متعلق حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قیامت کے روز ان لوگوں کے اعمال کا حساب اس طرح ہو گا کہ جس شخص کی نیکیاں اس کے گناہوں سے بڑھ جائیں خواہ ایک ہی نیکی کی مقدار سے بڑھے وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کی سیئات اور گناہ نیکیوں سے بڑھ جائیں خواہ ایک ہی گناہ کی مقدار سے بڑھے وہ دوزخ میں جائے گا مگر اس مومن گنہگار کا دوزخ میں داخلہ تطہیر اور پاک کرنے کے لئے ہو گا جیسے لوہے، سونے وغیرہ کو آگ میں ڈال کر میل اور زنگ سے صاف کیا جاتا ہے اس کا جہنم میں جانا بھی ایسا ہی ہو گا۔ جس وقت جہنم کی آگ سے اس کے گناہوں کا زنگ دور ہو جاوے گا تو جنت میں داخل ہونے کے قابل ہو جاوے گا، جنت میں بھیج دیا جائے گا اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قیامت کی میزان عمل ایسا صحیح وزن کرنے والی ہو گی کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کمی بیشی ہو گی تو پلہ جھک جائے گا یا اٹھ جائے گا۔ اور جس شخص کی حسنات اور سیئات میزان عمل میں بالکل برابر سرابر رہیں گے تو وہ اصحاب اعراف میں داخل ہو گا اور ایک زمانہ تک دوزخ اور جنت کے درمیان حکم ثانی کا منتظر رہے گا اور بالآخر اس کو بھی جنت میں داخلہ مل جائے گا (رواہ ابن ابی حاتم۔ مظہری)

ابن عباس کے اس قول میں کفار کا ذکر نہیں صرف مومنین گنہگاروں کا ذکر ہے۔

وزن اعمال کی کتےن :

بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انسان مومن و کافر کو میزان عدل میں رکھ کر تولا جائے گا۔ کافر کا کوئی وزن نہ ہو گا خواہ وہ کتنا ہی فربہ اور موٹا ہو۔ (بخاری و مسلم من حدیث ابی ہریرة) اور بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے۔ ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے یہ مضمون حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے۔ اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے اعمال جو دنیا میں بے وزن بے جسم اعراض ہوتے ہیں محشر میں ان کو مجسم کر کے میزان عمل میں رکھا جائے گا وہ تولے جائیں گے۔ طبرانی وغیرہ نے یہ روایت ابن عباس رسول اللہﷺ سے نقل کیا ہے۔ ان سب روایات حدیث کے الفاظ اور متن تفسیر مظہری میں مکمل موجود ہیں وہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی آخری قول کی تائید میں ایک حدیث عبد الرزاق نے فضل العلم میں ابراہیم نخعی سے نقل کی ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کے اعمال وزن کے لئے لائے جائیں گے اور ترازو کے پلہ میں رکھے جائیں گے تو یہ پلہ ہلکا رہے گا پھر ایک چیز ایسی لائی جائے گی جو بادل کی طرح ہو گی اس کو بھی اس کے حسنات کے پلہ میں رکھ دیا جائے گا تو یہ پلہ بھاری ہو جائے گا اس وقت اس شخص سے کہا جائے گا کہ تم جانتے ہو یہ کیا چیز ہے (جس نے تمہاری نیکیوں کا پلہ بھاری کر دیا) وہ کہے گا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرا علم ہے جو تو لوگوں کو سکھایا کرتا تھا۔ اور ذہبی نے فضل علم میں حضرت عمران بن حصین سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز شہیدوں کا خون اور علماء کی روشنائی (جس سے انہوں نے علم دین کی کتابیں لکھی تھیں) باہم تولے جائیں گے تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون سے زیادہ نکلے گا۔ (مظھری)

وزن اعمال کی کیفیت کے متعلق تینوں قسم کی روایات نقل کرنے کے بعد تفسیر مظہری میں فرمایا کہ اس میں کوئی بعد نہیں کہ خود انسان اور اس کے اعمال کو جسمانی شکل میں تولا جائے یا اس کے نامہ اعمال کو اس کے ساتھ رکھ کر تولا جائے اس لئے ان تینوں روایتوں میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں۔

023: 103

وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ۝۱۰۳

ترجمہ:

اور جس کی ہلکی نکلی تول تو وہی لوگ ہیں جو ہار بیٹھے اپنی جان دوزخ ہی میں رہا کریں گے۔

023: 104

تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ۝۱۰۴

ترجمہ:

جھلس دے گی ان کے منہ کو آگ اور وہ اس میں بد شکل ہو رہے ہوں گے۔

تفسیر:

وہم فیہا کٰلحون، کالح لغت میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے دونوں ہونٹ اس کے دانتوں کو نہ چھپائیں ایک اوپر رہے دوسرا نیچے دانت نکلے ہوئے نظر آئیں جو نہایت بدصورت ہے جہنم میں جہنمی کا اوپر کا ہونٹ اوپر چڑھ جائے گا اور نیچے کا ہونٹ نیچے لٹک جائے گا دانت کھلے نکلے نظر آویں گے۔

023: 105

اَلَمْ تَكُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۰۵

ترجمہ:

کیا تم کو سنائی نہ تھیں ہماری آیتیں پھر تم ان کو جھٹلاتے تھے۔

023: 106

قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ۝۱۰۶

ترجمہ:

بولے اے رب زور کیا ہم پر ہماری کم بختی نے اور رہے ہم لوگ بہکے ہوئے۔

023: 107

رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷

ترجمہ:

اے ہمارے رب نکال لے ہم کو اس میں سے اگر ہم پھر کریں تو ہم گنہگار۔

023: 108

قَالَ اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸

ترجمہ:

فرمایا پڑے رہو پھٹکارے ہوئے اس میں اور مجھ سے نہ بولو۔

تفسیر:

لا تکلمون، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اہل جہنم کا یہ آخری کلام ہو گا جس کے جواب میں حکم ہو جائے گا کہ ہم سے کلام نہ کرو پھر وہ کسی سے کچھ کلام نہ کر سکیں گے جانوروں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بھونکیں گے۔ اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن کعب سے نقل کیا ہے کہ قرآن میں اہل جہنم کی پانچ درخواستیں نقل کی گئی ہیں ان میں سے چار کا جواب دیا گیا اور پانچویں کے جواب میں حکم ہو گیا لا تکلمون بس یہ ان کا آخری کلام ہو گا اس کے بعد کچھ نہ بول سکیں گے۔ (مظھری)

023: 109

اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ۝۱۰۹

ترجمہ:

ایک فرقہ تھا میرے بندوں میں جو کہتے تھے اے رب ہمارے ہم یقین لائے سو معاف کر ہم کو اور رحم کر ہم پر اور تو سب رحم والوں سے بہتر ہے۔

023: 110

فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰۤی اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِیْ وَ كُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ۝۱۱۰

ترجمہ:

پھر تم نے ان کو ٹھٹھوں میں پکڑا یہاں تک کہ بھول گئے ان کے پیچھے میری یاد اور تم ان سے ہنستے رہے۔

023: 111

اِنِّیْ جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْۤا ۙ اَنَّهُمْ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۝۱۱۱

ترجمہ:

میں نے آج دیا ان کو بدلہ ان کے صبر کرنے کا وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔

023: 112

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲

ترجمہ:

فرمایا تم کتنی دیر رہے زمین میں برسوں کی گنتی سے۔

023: 113

قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّیْنَ۝۱۱۳

ترجمہ:

بولے ہم رہے ایک دن یا کچھ دن سے کم تو پوچھ لے گنتی والوں سے۔

023: 114

قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱۴

ترجمہ:

فرمایا تم اس میں بہت نہیں تھوڑا ہی رہے ہو اگر تم جانتے ہوتے۔

023: 115

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵

ترجمہ:

سو کیا تم خیال رکھتے ہو کہ ہم نے تم کو بنایا کھیلنے کو اور تم ہمارے پاس پھر کر نہ آؤ گے۔

023: 116

فَتَعٰلَی اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیْمِ۝۱۱۶

ترجمہ:

سو بہت اوپر ہے اللہ وہ بادشاہ سچا کوئی حاکم نہیں اس کے سوائے مالک اس عزت کے تخت کا۔

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

(اور یہ سب مضامین جب معلوم ہو چکے) سو (اس سے یہ کامل طور پر ثابت ہو گیا کہ) اللہ تعالیٰ بہت ہی عالیشان ہے جو کہ بادشاہ (ہے اور بادشاہ بھی) حقیقی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں (اور وہ) عرش عظیم کا مالک ہے اور جو شخص (اس امر پر دلائل قائم ہونے کے بعد) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی بھی عبادت کرے کہ جس (کے معبود ہونے) پر اس کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں سو اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہو گا (جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ) یقیناً کافروں کو فلاح نہ ہو گی (بلکہ ابد الآباد معذب رہیں گے) اور (جب حق تعالیٰ کی یہ شان ہے تو آپ (اور دوسرے لوگ بدرجہ اولیٰ) یوں کہا کریں کہ اے میرے رب (میری خطائیں) معاف کر اور (ہر حالت میں مجھ پر) رحم کر (معاش میں بھی، توفیق طاعات میں بھی، نجات آخرت میں بھی، عطائے جنت میں بھی) اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

معارف و مسائل

یہ سورة مومنون کی آخری آیتیں افحسبتم انما خلقنٰکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون سے آخر سورت تک خاص فضیلت رکھتی ہیں۔ بغوی اور ثعلبی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ ان کا گزر ایک ایسے بیمار پر ہوا جو سخت امراض میں مبتلا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اس کے کان میں سورة مومنون کی یہ آیتیں افحسبتم سے آخر تک پڑھ دی وہ اسی وقت اچھا ہو گیا۔ رسول اللہﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اس کے کان میں کیا پڑھا؟ عبد اللہ بن مسعود نے عرض کیا کہ یہ آیتیں پڑھی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی جو یقین رکھنے والا ہو یہ آیتیں پہاڑ پر پڑھ دے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے۔ (قرطبی و مظھری)

023: 117

وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝۱۱۷

ترجمہ:

اور جو کوئی پکارے اللہ کے ساتھ دوسرا حاکم جس کی سند نہیں اس کے پاس سو اس کا حساب ہے اس کے رب کے نزدیک، بیشک بھلا نہ ہو گا منکروں کا۔

023: 118

وَ قُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۠۝۱۱۸

ترجمہ:

اور تو کہہ اے رب معاف کر اور رحم کر اور تو ہے بہتر سب رحم والوں سے۔

تفسیر:

رب اغفر وارحم یہاں اغفر اور ارحم دونوں کا مفعول ذکر نہیں کیا گیا کہ کیا معاف کریں اور کس چیز پر رحم کریں اس سے اشارہ عموم کی طرف ہے کہ دعاء مغفرت شامل ہے ہر مضر اور تکلیف دہ چیز کے ازالہ کو اور دعا رحمت شامل ہے ہر مراد اور محبوب چیز کے حاصل ہونے کو۔ کیونکہ دفع مضرت اور جلب منفعت جو انسانی زندگی اور اس کے مقاصد کا خلاصہ ہیں دونوں اس میں شامل ہو گئے (مظھری) اور رسول اللہﷺ کو دعا مغفرت و رحمت کی تلقین باوجودیکہ آپ معصوم اور مرحوم ہی ہیں در اصل امت کو سکھانے کے لئے ہے کہ تمہیں اس دعا کا کتنا اہتمام کرنا چاہئے (قرطبی)

انہٗ لا یفلح الکٰفرون، سورة مومنون کی ابتدا قد افلح المؤمنون سے ہوئی تھی اور انتہا لا یفلح الکٰفرون پر کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ فلاح یعنی مکمل کامیابی مومنین ہی کا حصہ ہے کفار اس سے محروم ہیں۔

٭٭٭

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید