’تفسیر ماجدی‘ میں شامل قرآن مجید کا ترجمہ
ترجمہ ماجدی
از قلم
عبد الماجد دریابادی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
ٹیکسٹ فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں ………
۲۔ البقرہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے
۱. الف لام میم
۲. یہ کتاب (کہ) کوئی شبہ اس میں نہیں ہدایت ہے (اللہ سے) ڈر رکھنے والوں کے لئے
۳. جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
۴. اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر اتارا گیا ہے۔ اور (اس پر) جو آپ سے قبل اتارا گیا ہے۔ اور آخرت پر بھی (وہ) پورا یقین رکھتے ہیں۔
۵. : یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ اور یہی (پورے) با مراد ہیں۔
۶. ترجمہ بیشک جو لوگ کفر (اختیار) کئے ہوئے ہیں۔ ان کے حق میں یکساں ہے خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا آپ انہیں نہ ڈرائیں۔ وہ ایمان نہ لائیں گے۔
۷. مہر لگا دی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کی شنوائی پر۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ اور ان کے لئے بڑا (ہی) عذاب ہے۔
۸. اور کچھ لوگ ایسے (بھی) ہیں جو کہتے ہیں۔ کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ اور روز آخرت پر حالانکہ وہ (بالکل ہی) ایمان والے نہیں
۹. دھوکا دینا چاہتے ہیں اللہ کو اور ایمان والوں کو۔ حالانکہ (فی الواقع) دھوکا کسی کو بھی نہیں دیتے بجز اپنی ذات کے۔ اور اس کا بھی احساس نہیں رکھتے۔
۱۰. ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ سو اللہ نے بڑھا دی ان کی بیماری۔ اور ان کے لیے عذاب درد ناک (ہونا) ہے۔: اس لئے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے
۱۱. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ ارے! ہم تو اصلاح کر رہے ہیں
۱۲. سن رکھو حقیقتاً یہی لوگ فسادی ہیں اور یہ اس کا بھی احساس نہیں رکھتے
۱۳. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آؤ جیسا کہ لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ کہا ہم (ایسا) ایمان لے آئیں جیسا کہ بیوقوف ایمان لائے ہیں؟ سن رکھو کہ بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں اور اس کبھی علم نہیں رکھتے۔
۱۴. اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تو ایمان لا چکے ہیں۔ اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو محض بنا رہے تھے۔
۱۵. انہیں اللہ بنا رہا ہے۔ اور وہ انہیں ڈھیل دے رہا ہے (تو) وہ اپنی سرکشی میں سرگرداں ہو رہے ہیں
۱۶. یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے گمراہی خرید کر لی ہدایت کے بدلے سو نہ ان کی تجارت ہی سود مند ہوئی اور نہ وہ راہ یاب ہوئے۔
۱۷. ان کی (عجیب) مثال تو ان کی سی (عجیب) مثال ہے۔ جنہوں نے آگ جلائی پھر جب آگ نے اپنے اردگرد کو روشن کر دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ دیکھتے بھالتے نہیں
۱۸. (وہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں۔ تو اب وہ واپس نہ ہوں گے۔
۱۹. یا پھر جیسے آسمان سے زور کا مینہ برس رہا ہو۔ اس میں اندھیرے ہیں اور گرج اور بجلی۔ وہ ٹھونسے ہوئے ہیں اپنے کانوں میں انگلیاں کڑک کے سبب موت کے اندیشہ سے۔ حالانکہ اللہ گھیرے ہوئے ہے کافروں کو۔
۲۰. قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی ہی اچک لے جائے۔ وہ جب ان پر چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں یہ چلتے ہیں اور جہاں ان پر اندھیرا ہوا (تو بس) کھڑے رہ جاتے ہیں۔ اللہ اگر چاہتا تو ان کے کان اور ان کی بینائی سلب کر لیتا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۱. اے انسانو!۔ عبادت (اختیار) کرو اپنے پروردگار کی۔ جس نے تمہیں پیدا کیا۔ اور تم سے قبل والوں کو (بھی)۔ عجب نہیں کہ تم پرہیز گا بن جاؤ۔
۲۲. (وہ) وہی (پروردگار) ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ایک فرش اور آسمان کو ایک چھت بنا دیا ہے۔ اور آسمان سے پانی اتارا۔ پھر تمہارے لئے غذا کو پھل پیدا کئے۔ سو تم اللہ کے ہمسر نہ ٹھہراؤ۔ تم جانتے (بوجھتے) بھی ہو۔
۲۳. اور اگر تم اس کتاب ہی کے بارے میں شک میں ہو۔ جو ہم نے اپنے بندہ پر اتاری ہے۔ تو کوئی ایک سورت اس جیسی تم بھی بنا لاؤ۔ اور اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے مقابلے میں بلالو۔ اگر تم سچے ہو۔
۲۴. اور اگر تم (یہ) نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے۔ تو پھر اس آگ سے ڈرو۔ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (اور) وہ کافروں کے لئے تیار کی ہوئی ہے۔
۲۵. اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ کہ ان کے لئے (بہشت کے) باغ ہیں کہ ان کے نیچے دریا بہ رہے ہوں گے۔ انہیں جب کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو وہ بول اٹھیں گے۔ کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں (اس کے) قبل مل چکا ہے۔ اور انہیں وہ (واقعی) دیا ہی جائے گا ملتا جلتا ہوا۔ اور ان کے لئے پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔ اور وہ ان (بہشتوں) میں ہمیشہ کے لئے ہوں گے۔
۲۶. اللہ اس سے ذرا نہیں شرماتا۔ کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی یا اس سے بھی بڑھ کر (کسی اور چیز کی) سو جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ تو یہی سمجھیں گے کہ وہ (مثال) یقیناً حق ہے ان کے پروردگار کی جانب سے۔ البتہ جو لوگ کفر اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یہی کہتے رہیں گے۔ کہ اللہ کا اس مثال سے مطلب کیا تھا؟۔ گمراہ بھی کرتا ہے بہتوں کو اسی سے۔ اور راہ بھی دکھاتا ہے بہتوں کو اسی سے۔ ہاں وہ گمراہ کسی کو (بھی) اس سے نہیں کرتا بجر بے حکمی کرنے والوں کے۔
۲۷. جو اللہ سے اپنے معاہدہ کو اس کے استحکام کے بعد توڑتے ہیں۔ اور جس چیز کو اللہ نے حکم دیا تھا جوڑے رکھنے کا اسے کاٹتے ہیں۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو بس یہی لوگ ہیں نقصان اٹھانے والے۔
۲۸. تم لوگ کس طرح کفر کر سکتے ہو اللہ سے درآنحالیکہ تم بے جان تھے۔ سو اس نے تمہیں جاندار کیا۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا۔ پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم واپس کئے جاؤ گے۔
۲۹. وہ وہی (خدا) ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لیے جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کا سب۔ پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ کی۔ اور انہیں سات آسمان درست کر کے بنا دیا۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
۳۰. اور (وہ وقت یاد کرو)۔ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا۔ میں زمین پر اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں۔ وہ بولے کیا تو اس میں ایسے کو بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا درآنحالیکہ ہم تیری حمد کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ اور تیری پاکی پکارتے رہتے ہیں؟ (اللہ نے) فرمایا یقیناً میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
۳۱. اور اللہ نے آدم کو نام سکھلا دیئے کل کے کل۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ پھر فرمایا بتلاؤ تو ان کے نام اگر تم سچے ہو۔
۳۲. وہ بولے تو پاک ذات ہے۔ ہمیں تو کچھ علم نہیں مگر ہاں وہی جو تو نے ہمیں علم دے دیا۔ بیشک تو ہی ہے بڑا علم والا۔ حکمت والا۔
۳۳. (اللہ نے) فرمایا اے آدم بتلا دو انہیں ان کے نام۔ پھر جب انہوں نے انہیں ان کے نام بتلا دیئے۔ تو فرمایا۔ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو کہ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو وہ سب جانتا ہوں۔
۳۴. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا۔ کہ آدمؑ کے آگے جھکو۔ تو (وہ سب) جھکے مگر ابلیس (نہ جھکا)۔ اس نے انکار کیا اور تکبر میں آ گیا۔ اور کافروں میں سے ہو گیا۔
۳۵. اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ۔ اور اس درخت کے پاس نہ جانا۔ ورنہ تم گنہ گاروں میں سے ہو جاؤ گے۔
۳۶. پھر شیطان نے دونوں کو پھسلایا اسی درخت کے باعث۔ اور جس میں تھے اس سے انہیں نکلوا دیا۔ اور ہم نے کہا (اب) تم سب نیچے اتر جاؤ۔ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر۔ اور تمہارے لئے زمین ہی پر ٹھکانا اور ایک میعاد تک نفع اٹھانا ہے۔
۳۷. پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے کچھ الفاظ سیکھ لئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی وہ تو ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا۔ بڑا مہربان۔
۳۸. (اور) ہم نے حکم دیا کہ تم سب اس سے نیچے اتر جاؤ۔ پھر اگر تمہیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے۔ تو جو جو کوئی پیروی میری ہدایت کی کرے گا سو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے۔
۳۹. اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے سو وہی دوزخی ہیں۔ اور وہ اس میں (ہمیشہ) پڑے رہیں گے۔
۴۰. اے بنی اسرائیل۔ میرا وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیا۔ اور مجھ سے وعدہ پورا کرو تو میں تم سے وعدہ پورا کروں۔ اور تم صرف مجھ سے ڈرتے رہو۔
۴۱. اور اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو میں نے (اب) نازل کی ہے تصدیق کرتی ہوئی اس (کتاب) کی جو تمہارے پاس ہے اور مت بنو اس کے ساتھ اولین کفر کرنے والے۔ اور میری آیتوں کو فروخت مت کر ڈالو تھوڑی سی قیمت پر۔ اور صرف مجھ سے ڈرو۔
۴۲. اور حق کو ناحق کے ساتھ خلط ملط مت کرو۔ اور حق کو مت چھپاؤ۔ درآنحالیکہ تم جان بھی رہے ہو۔
۴۳. ۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (نماز میں) جھکنے والوں کے ساتھ جھکتے رہو۔
۴۴. کیا تم دوسرے لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے کو بھول جاتے ہو؟۔ درآنحالیکہ تم کتاب (الٰہی) پڑہتے رہتے ہو۔ سو کیا تم عقل سے کام (ہی) نہیں لیتے؟
۴۵. اور صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ اور وہ بیشک گراں مگر خشوع رکھنے والوں پر (نہیں)
۴۶. جنہیں اس کا خیال رہتا ہے کہ انہیں اپنے پروردگار سے ملنا (بھی) ہے اور اس کا کہ انہیں اس کی طرف واپس ہونا ہے۔
۴۷. اے بنی اسرائیل میرا وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیا۔ اور تمہیں دنیا جہان والوں پر فضیلت دی۔
۴۸. اور اس دن سے ڈرتے رہو جب نہ کوئی کسی کے حق میں بدلہ بن سکے گا اور نہ کسی کے حق میں سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی سے معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ انہیں مدد ہی پہنچ سکے گی۔
۴۹. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی تھی جو تمہارے اوپر بڑا عذاب توڑ رہے تھے۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے۔ اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔
۵۰. : اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا۔ پھر ہم نے تمہیں نجات دے دی اور فرعون والوں کو غرق کر دیا درآنحالیکہ تم دیکھ رہے تھے۔
۵۱. ترجمہ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کر لیا تھا۔ پھر تم نے ان کے پیچھے گوسالہ کو اختیار کر لیا۔ اور تم (سخت) ظالم تھے۔
۵۲. پھر ہم نے تم کو اس کے بعد بھی معاف کر دیا۔ کہ شاید تم شکرگزار بن جاؤ۔
۵۳. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان دیئے تاکہ تم راہ یاب ہو جاؤ۔
۵۴. اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا۔ کہ اے میری قوم یقیناً! تم لوگوں نے اپنے اوپر (بڑا) ظلم کیا اپنی گوسالہ گیری سے۔ سو اب اپنے خدا سے توبہ کرو۔ پھر اپنے اشخاص کو قتل کرو۔ یہی بہتر ہے تمہارے حق میں تمہارے خدا کے نزدیک۔ پھر اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
۵۵. : اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز نہ باور کریں گے تمہارے (کہنے سے)۔ جب تک کہ ہم خدا کو دیکھ نہ لیں علانیہ۔ سو (اس پر) تم کو آ لیا کڑک نے۔ اور تم (اس کا آنا) دیکھ رہے تھے۔
۵۶. پھر ہم نے تم کو جلا اٹھایا تمہارے مرے پیچھے۔ کہ شاید تم شکر گزار بنو۔
۵۷. اور ہم نے تمہارے اوپر ابر کا سایہ کر دیا۔ اور ہم نے تمہارے اوپر من و سلویٰ اتارا۔ کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو دے رکھی ہیں۔ اور انہوں نے زیادتی ہم پر نہیں کی بلکہ زیادتی اپنی ہی جانوں پر کرتے رہے۔
۵۸. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا۔ کہ اس بستی میں داخل ہو جاؤ۔ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو۔ اور دروازہ (شہر) میں عاجزی سے جھکے ہوئے داخل ہونا۔ اور کہتے جانا توبہ ہے۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیک کاروں کو زیادہ ہی دیتے ہیں۔
۵۹. مگر ان زیادتی کرنے والوں نے جو انہیں بتایا گیا تھا اس کے خلاف ایک اور کلمہ بدل ڈالا۔ سو ہم نے ان زیادتی کرنے والوں پر ایک بلا آسمان سے نازل کی۔ اس سبب سے کہ وہ نافرمانی کرتے رہے تھے۔
۶۰. اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا مانگی۔ سو ہم نے کہا (اے موسی) اپنا عصا (فلاں) پتھر پر مارو۔ تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ (اور) ہر گروہ نے اپنا (اپنا) گھاٹ معلوم کر لیا۔ کھاؤ پیو اللہ کے (دیئے ہوئے) رزق میں سے اور زمین پر فسادی بن کر مت پھرو۔
۶۱. اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز ایک کھانے پر بس نہیں کر سکتے۔ سو اپنے پروردگار سے ہمارے لئے دعا کر دیجئے ان چیزوں کی جنہیں زمین اگاتی ہے۔ ساگ ہوا ککڑی ہوئی گیہوں ہوا مسور ہوئی پیاز ہوا۔ (موسیؑ نے) کہا تو کیا جو چیز ادنیٰ ہے تم اسے لینا چاہتے ہو اس چیز کے مقابلہ میں جو بہتر ہے (تو خیر) کسی شہر میں اتر پڑو (وہیں) مل جائے گا جو کچھ تم مانگتے ہو۔ اور ان پر جما دی گئی ذلت اور محتاجی۔ اور وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہو گئے۔ یہ (سب) اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی نشانیوں سے انکار کرتے رہتے تھے۔ اور انبیاء کو ناحق قتل (تک) کر ڈالتے تھے۔ یہ (سب) اس لئے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سے بڑھ بڑھ جاتے تھے۔
۶۲. بیشک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں۔ اور جو لوگ یہودی ہوئے۔ اور نصاریٰ۔ اور صابی۔ (غرض) جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے۔ اور نیک عمل کرے۔ سو ان (سب) کے لیے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ کوئی اندیشہ ان کے لیے ہے اور نہ وہ کوئی غم کریں گے۔
۶۳. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا۔ اور ہم نے تمہارے اوپر (کوہ) طور کو بلند کیا۔ مضبوطی کے ساتھ اس (کتاب) کو پکڑ رکھو جو ہم نے تم کو دی ہے۔ اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
۶۴. پھر تم اس (عہد) سے اس کے بعد (بھی پھر گئے۔ سو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم ضرور تباہ ہونے والوں میں ہوتے۔
۶۵. اور تم خوب جان چکے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے سبقت کے بارے میں تجاوز کیا تھا۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل بندر ہو جاؤ۔
۶۶. ہم نے اسے (موجب) عبرت بنا دیا اس زمانہ کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لیے۔ اور ایک (موجب) نصیحت (بنا دیا) خوف خدا کے رکھنے والوں کے لیے۔
۶۷. اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہیں اللہ حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ وہ بولے آپ ہم سے ہنسی کر رہے ہیں کیا؟۔ موسیٰ نے کہا خدا مجھے اس سے پناہ میں رکھے کہ میں جاہلوں میں ہو جاؤں۔
۶۸. وہ بولے ہماری طرف سے اپنے پروردگار سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمیں بتائے کہ وہ کیسی ہو کہا کہ وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو نہ بن بیائی (بلکہ) دونوں عمروں کے درمیان ہو سو (اب) کر ڈالو جو کچھ تمہیں حکم ملا ہے
۶۹. وہ بولے ہماری طرف سے اپنے پروردگار سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمیں بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہے۔ کہا کہ وہ فرماتا ہے کہ گائے خوب گہرے زرد رنگ کی ہو دیکھنے والوں کو اچھی معلوم ہوتی ہو۔
۷۰. وہ بولے اپنے پروردگار سے ہماری طرف سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمیں بتائے کہ وہ (اور) کیسی ہو؟ اس لیے کہ گائے میں ہمیں اشتباہ پڑ گیا ہے۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم ضرور راہ پاجائیں گے۔
۷۱. کہا کہ وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے محنت کرنے والی نہ ہو جو زمین کو جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو۔ اس میں (کوئی) داغ (دھبہ) نہ ہو۔ وہ بولے اب آپ ٹھیک پتہ لائے۔ پھر انہوں نے اسے ذبح کیا اور وہ ایسا کرتے معلوم نہیں ہوتے تھے۔
۷۲. اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ پھر تم آپس میں اس باب میں جھگڑنے لگے۔ اور اللہ کو وہ ظاہر کر دینا تھا جسے تم چھپا رہے تھے۔
۷۳. تو ہم نے کہا کہ اس (میت) پر اس (گائے) کا کوئی ٹکڑا مارو۔ یوں ہی اللہ مردوں کو زندہ کرے گا۔ اور وہ تم کو اپنی نشانیاں۔ دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔
۷۴. اس پر بھی تمہارے دل اس کے بعد بھی سخت ہی رہے۔ چنانچہ وہ مثل پتھر کے ہیں بلکہ سختی میں ان سے بھی بڑھ کر۔ اور پتھر تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس سے دریا پھوٹ نکلتے ہیں۔ اور کوئی ان میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھٹ جاتا ہے اور اس میں سے پانی نکلتا ہے۔ اور کوئی ان میں سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی ہیبت سے نیچے آ گرتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں۔
۷۵. تو کیا تم اس کی توقع رکھتے ہو۔ کہ وہ لوگ تمہارے (کہنے سے) ایمان لے آئیں گے۔ درآنحالیکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے ہیں پھر اسے کچھ کا کچھ کر دیتے ہیں بعد اس کے کہ اسے سمجھ چکے ہیں اور وہ اسے (خوب) جانتے بھی ہیں۔
۷۶. اور جب وہ ان سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے ہیں۔ اور جب آپس میں تنہا ہوتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ ارے کیا تم انہیں وہ بتا دیتے ہو جو خدا نے تم پر منکشف کیا ہے۔ جس سے وہ تمہیں تمہارے پروردگار کے حضور میں قائل کر دیں گے سو کیا تم نہیں سمجھتے؟۔
۷۷. کیا یہ (اتنا بھی) نہیں جانتے کہ اللہ کو اس کی بھی خبر ہے جسے یہ چھپاتے ہیں اور اس کی بھی جسے یہ جتلاتے ہیں؟۔
۷۸. اور ان میں ان پڑھ (بھی) ہیں جو کتاب (الٰہی) کا کوئی علم نہیں رکھتے بجز جھوٹی آرزوؤں کے اور یہ محض تخیلات میں پڑے رہتے ہیں۔
۷۹. سو (بڑی) خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو کتاب (الٰہی) کو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ تاکہ اس سے قدرے قلیل معاوضہ حاصل کریں۔ سو خرابی ہے ان کے لیے اس کی بدولت جو وہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں۔ اور خرابی ہے ان کے لیے اس کی بدولت جو وہ حاصل کرتے ہیں۔
۸۰. اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کو تو دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں بجز چند گنے چنے دنوں کے۔ آپ کہیے کیا تم اللہ کے ہاں سے کوئی وعدہ پا چکے ہو جو اللہ اب اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا؟) یا (یوں ہی) اللہ پر وہ جوڑ رہے ہو جس کا علم تم نہیں رکھتے۔
۸۱. (نہیں) بلکہ اصل یہ ہے کہ جو کوئی بھی بدی اختیار کرے گا اور اس کا گناہ اس کو گھیر لے گا سو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں۔ اس میں ہمیشہ پڑے رہنے والے۔
۸۲. اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو یہی لوگ اہل جنت ہیں اس میں ہمیشہ رہنے والے۔
۸۳. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔ کہ عبادت نہ کرنا (کسی کی) بجز اللہ کے۔ اور حسن سلوک سے پیش آنا (اپنے) ماں باپ سے اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے بھی)۔ اور لوگوں سے (بالعموم) بھلی بات کہنا۔ اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا۔ پھر تم (سب ان احکام سے) پھر گئے بجز تم میں سے (معدودے) چند کے اور تم ہی ہو گردن کش۔
۸۴. اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہانا۔ اور اپنے لوگوں کو اپنے وطن سے مت نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار کر لیا اور تم (اس کے) گواہ ہو۔
۸۵. پھر تم ہی وہ ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکال بھی دیتے ہو (اور) ان کے مقابلہ میں گناہ و ظلم کے ساتھ (ان کے مخالفین کی) مدد بھی کرتے ہو۔ اور اگر وہ تم تک اسیر ہو کر پہنچ جاتے ہیں تو تم انہیں فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ ان کا (وطن سے) نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصہ کو مانتے ہو اور ایک حصہ سے انکار کرتے ہو؟۔ پس تم میں سے جو ایسا کرے اس کی سزا کیا ہے بجز دنیوی زندگی میں رسوائی کے؟۔ اور قیامت کے دن یہ سخت ترین عذاب میں ڈالے بھی جائیں گے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں۔
۸۶. یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی خرید لی ہے آخرت کے معاوضہ میں۔ سو ان پر سے نہ عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ اور نہ انہیں مدد ہی پہنچے گی۔
۸۷. اور ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی۔ اور ان کے پیچھے ہم نے پے درپے پیغمبر بھیجے۔ اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے روشن نشانات عطا کئے۔ اور ہم نے روح القدس (کے ذریعہ سے ان کی تائید کی۔ تو کیا جب کبھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس ان (احکام) کے ساتھ آیا جو تمہارے نفس کو نہ بھائے۔ تو تم اکڑنے لگے۔ پھر بعض کو تم نے جھٹلایا۔ اور بعض کو تم قتل ہی کرنے لگے۔
۸۸. اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں۔ (نہیں) بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کر رکھی ہے ان کے کفر کے باعث۔ اور وہ ایمان بہت ہی تھوڑا رکھتے ہیں۔
۸۹. اور جب ان کے پاس ایک کتاب اللہ کے پاس سے پہنچ گئی تصدیق کرنے والی اس کی جو ان کے پاس (پہلے سے) موجود ہے۔ اور اس کے قبل یہ (خود ہی) کافروں سے بیان کیا کرتے تھے۔ پھر جب ان کے پاس وہ آ گیا جس کو (خوب) پہچانتے تھے تو اسی سے کفر کر بیٹھے۔ سو اللہ کی لعنت ہو کافروں پر۔
۹۰. بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے۔ کہ انکار کرتے ہیں اس (کلام) کا جو اللہ نے نازل کیا ہے (محض) اس ضد پر کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہا اپنا فضل (خاص) نازل کیا۔ سو وہ مستحق ہو گئے غضب بالائے غضب کے۔ اور کافروں کے لیے عذاب ذلت والا ہے۔
۹۱. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اس (کلام) پر جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر تو ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے اوپر نازل ہوا ہے۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے اس سے یہ کفر کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ (خود بھی) حق ہے اور اس کی (بھی) تصدیق کرنے والا ہے جو ان کے پاس ہے۔ آپ کہیے کہ اچھا تو تم اس کے قبل انبیاء کو کیوں قتل کرتے رہے ہو اگر تم واقعی ایمان والے تھے؟۔
۹۲. اور موسیٰؑ تمہارے پاس کھلے ہوئے نشان لے کر آئے۔ اس پر بھی تو تم نے ان کے پیچھے گوسالہ کو اختیار کر لیا۔ اور تم تو ہو ہی ظالم۔
۹۳. اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے قول و قرار لیا تھا۔ اور تمہارے اوپر کوہ طور کو بلند کیا تھا۔ (کہ) جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے۔ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور سنو۔ یہ (اس وقت) بولے تھے کہ (ہاں) ہم نے سن تو لیا مگر ہم نے مانا نہیں۔ اور ان کے دلوں میں گوسالہ ان کے کفر سابق کے سبب سے پیوست ہو گیا تھا۔ آپ کہہ دیجئے (کیسی) بری ہے وہ بات جس کا حکم تمہارا ایمان تمہیں دے رہا ہے اگر تم (واقعی) ایمان والے ہو۔
۹۴. آپ کہہ دیجیے کہ اگر عالم آخرت خاص تمہارے ہی لیے ہے دوسروں کو چھوڑ کر۔ تو موت کی آرزو کر دیکھو اگر تم سچے ہو۔
۹۵. لیکن وہ اس کی آرزو ہرگز کبھی بھی نہ کریں گے بہ سبب ان (اعمال بد) کے جو یہ اپنے ہاتھوں سمیٹ چکے ہیں۔ اور اللہ ظالموں سے (خوب) واقف ہے۔
۹۶. اور آپ انہیں زندگی پر حریص سب لوگوں کے بڑھ کر پائیں گے۔ (یہاں تک کہ) مشرکوں سے بھی بڑھ کر۔ ان میں سے ایک ایک یہ چاہتا ہے کہ ہزار (ہزار) برس کی عمر پائے۔ حالانکہ اگر اتنی عمر وہ پا بھی جائے تو یہ (امر) اسے عذاب سے تو نہیں بچا سکتا۔ اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے (خوب) دیکھ رہا ہے۔
۹۷. آپ کہہ دیجئے جو کوئی جبرائیل کا مخالف ہے۔ تو انہوں نے اس (قرآن) کو آپ کے قلب پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (وہ) تصدیق کرنے والا ہے اس (کلام) کا جو اس کے قبل سے ہے اور ہدایت ہے اور ایمان والوں کے لیے خوشخبری ہے۔
۹۸. جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرئیل کا یا میکائیل کا۔ تو اللہ (بھی) بالیقین مخالف ہے (ایسے) کافروں کا۔
۹۹. اور بالیقین ہم نے آپ پر روشن نشان اتارے ہیں۔ اور ان سے کوئی (بھی) انکار نہیں کرتا بجز نافرمانوں کے۔
۱۰۰. کیا یہ ہے کہ انہوں نے جب کبھی بھی کوئی عہد کیا ہے۔ تو انہیں میں سے کسی (نہ کسی) جماعت نے توڑ ہی پھینکا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تو اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔
۱۰۱. اور جب ان کے پاس پیغمبر اللہ کی طرف سے آئے تصدیق کرتے ہوئے اس (کتاب) کی جو ان کے پاس موجود تھی۔ تو (ان) اہل کتاب میں سے ایک جماعت نے کتاب اللہ کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک مارا۔ گویا وہ جانتے ہی (بوجھتے) نہیں۔
۱۰۲. اور (یہ لوگ) پیچھے لگ لئے۔ اس (علم) کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے۔ اور سلیمانؑ نے (تو کبھی) کفر نہیں کیا۔ البتہ شیطان (ہی) کفر کیا کرتے تھے۔ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے۔ اور (وہ پیچھے لگ لیے)۔ اس (علم) کے بھی جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اتارا گیا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو بھی (اس فن کی باتیں) نہیں بتاتے تھے۔ جب تک یہ نہ کہہ دیتے۔ کہ تم تو بس ایک (ذریعہ) امتحان ہیں۔ سو تم (کہیں) کفر نہ اختیار کر لینا۔ مگر (لوگ) ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ ہی لیتے۔ جس سے وہ جدائی ڈال دیتے درمیان مرد اور اس کی زوجہ کے۔ حالانکہ وہ (فی الواقع) کسی کو بھی اس کے ذریعہ سے نقصان نہ پہنچا سکتے مگر ہاں ارادہ الٰہی سے۔ اور یہ وہ چیز سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور انہیں نفع نہیں پہنچا سکتی۔ اور (یہ بھی) یہ خوب جانتے ہیں کہ جس نے اسے اختیار کر لیا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بہت ہی بری وہ چیز ہے جس کے عوض میں انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا ہے۔ کاش وہ (اتنا ہی) جانتے۔
۱۰۳. اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اس کا ثواب اللہ کے ہاں کہیں بہتر ہوتا کاش وہ (اتنا جانتے۔
۱۰۴. اے ایمان والو ”راعنا“ مت کہا کرو۔ اور ”انظرنا“ کہا کرو اور سنتے رہا کرو۔ اور کافروں کے لئے عذاب دردناک ہے۔
۱۰۵. جو لوگ کافر ہیں (خواہ) اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے۔ وہ اسے (ذرا بھی) پسند نہیں کرتے کہ تمہارے اوپر کوئی بھی بھلائی تمہارے پروردگار کی طرف سے اتر کر رہے حالانکہ اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہے مخصوص کر لے اور وہ بڑے ہی فضل والا ہے۔
۱۰۶. ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں۔ تو (کوئی) اس سے بہتر ہی۔ یا مثل اس کے لے آتے ہیں کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۰۷. کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے سلطنت آسمانوں اور زمین کی ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی تمہارا یار و مدد گار نہیں۔
۱۰۸. تم تو شاید یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے سوال کر ڈالو۔ جیسا کہ (اس کے) قبل موسیٰؑ سے سوال کئے جا چکے۔ اور جو کوئی ایمان کے بدلہ میں کفر اختیار کر لے گا۔ سو وہ یقیناً سیدھی راہ سے بھٹک گیا
۱۰۹. بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں۔ حسد کی راہ سے جو ان کے نفسوں میں ہے۔ (اور یہ بھی) بعد اس کے کہ ان پر حق واضح ہو چکا۔ سو معاف کرتے رہو۔ تا آنکہ اللہ اپنا حکم بھیج دے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۱۰. اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ اور جو کچھ بھلائی تم اپنے واسطے آگے بھیج دو گے اسے اللہ کے پاس پالو گے۔ یقیناً تم جو کچھ کر رہے اللہ اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔
۱۱۱. اور یہ کہتے ہیں کہ جنت میں کوئی ہرگز داخل نہ ہو گا مگر یہاں وہی جو یہودی یا نصرانی ہوں۔ یہ ان کی (نری) آرزوئیں ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنی سند لاؤ اگر تم سچے ہو۔
۱۱۲. ہاں البتہ۔ جو کوئی بھی اپنی ذات کو اللہ کے آگے جھکائے اور وہ مخلص بھی ہو۔ تو ایسے کے لیے اس کے پروردگار کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔
۱۱۳. اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں۔ اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کسی بنیاد پر نہیں۔ درآنحالیکہ وہ سب (ایک ہی) کتاب (آسمانی) پڑھتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کہنے لگے انھیں کا ساقول جو (کچھ بھی) علم نہیں رکھتے۔ سو اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن اس باب میں فیصلہ کر دے گا جس میں وہ جھگڑتے رہتے ہیں۔
۱۱۴. اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ کی مسجدوں کو اس سے روک دے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے۔ اور اس کی بربادی کی کوشش کرے۔ یہ لوگ اس لائق ہی نہیں کہ ان میں (داخل) ہوں مگر ہاں یہ کہ ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں (بھی بڑی) رسوائی ہے اور آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔
۱۱۵. اور اللہ ہی کا ہے مشرق (بھی) اور مغرب (بھی)۔ سو تم جدھر کو بھی منہ پھیرو۔ اللہ ہی کی ذات ہے۔ اللہ بڑا وسعت والا ہے۔ بڑا علم والا ہے۔
۱۱۶. اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے ایک بیٹا بنا لیا ہے پاک ہے وہ!۔ اصل یہی ہے کہ اسی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سب اسی کے حکم بردار ہیں۔
۱۱۷. (وہ) موجد ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اور جب کسی کام کا کرنا ٹھہرا لیتا ہے۔ تو بس اتنا ہی اس سے کہتا ہے (کہ) ہو جا۔ بس وہ ہو جاتا ہے۔
۱۱۸. اور جنہیں علم سے بہرہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا؟۔ یا ہمارے پاس کوئی نشان (عظیم) کیوں نہیں آ جاتا؟۔ اسی طرح وہ لوگ کہہ چکے ہیں جو ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہیں کا سا کہنا۔ ان کے قلوب متشابہ ہو گئے۔ ہم نے اپنے نشان تو کھول کھول دیے ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں۔
۱۱۹. ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور آپ سے اہل دوزخ کی بابت کچھ بھی پوچھ نہ ہو گی۔
۱۲۰. اور آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگز خوش نہ ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہو جائیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی (بتلائی ہوئی) تو راہ بس وہی ہے۔ اور اگر آپ بعد اس علم کے جو آپ کو پہنچ چکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے۔ تو آپ کے لیے اللہ (کی گرفت) کے مقابلہ میں نہ کوئی یار ہو گا نہ مددگار۔
۱۲۱. جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے اور وہ اسے اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ وہ لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے۔ اور جو کوئی اس سے کفر (اختیار) کر لے گا تو یہی لوگ (پورا) نقصان اٹھانے والے ہیں۔
۱۲۲. اے بنی اسرائیل میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم کو بخشیں۔ اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا جہاں والوں پر فضیلت دی۔
۱۲۳. اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی کسی کے بھی کام آئے گا اور نہ اس کے طرف سے معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے سفارش نفع پہنچا سکے گی اور نہ انہیں مد ہی پہنچ سکے گی۔
۱۲۴. اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم کو۔ ان کے پروردگار نے چند امور میں آزمایا۔ اور انہوں نے وہ انجام دے دئیے۔ ارشاد ہوا کہ میں یقیناً تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ بولے اور میری نسل سے بھی؟ ارشاد ہوا کہ میرا وعدہ نافرمانوں کو نہیں پہنچتا۔
۱۲۵. اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے خانہ (کعبہ)۔ کو لوگوں کے لئے ایک مقام رجوع اور مقام امن مقرر کیا۔ اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی طرف حکم بھیجا۔ کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک صاف رکھو۔ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کیلئے۔
۱۲۶. اور (وہ وقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب ابراہیمؑ نے عرض کی کہ اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا دے اور اس میں رہنے بسنے والوں کو روزی دے پھلوں۔ سے (یعنی) ان رہنے والوں کو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں۔ (اللہ نے) ارشاد فرمایا کہ جو کفر کرے گا میں اسے بھی کچھ دن مزہ اٹھانے دوں گا پھر اسے کشاں کشاں عذاب جہنم تک پہنچا دوں گا اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے۔
۱۲۷. اور (وہ وقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ خانہ (کعبہ) کی بنیادیں بلند کر رہے تھے۔ اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ) قبول کر۔ یقیناً تو ہی (سب کچھ) سننے والا ہے (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
۱۲۸. اے پروردگار ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا دے۔ اور ہماری نسل سے ایک فرمانبردار امت پیدا کر۔ اور ہم کو ہمارے دینی قاعدے بتلا دے۔ اور ہمارے حال پر توجہ رکھ۔ یقیناً تو تو بڑا توجہ فرمانے والا ہے بڑا مہربان ہے۔
۱۲۹. اے ہمارے پروردگار ان میں ایک پیغمبر انہیں میں سے بھیج۔ (جو) انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب (الٰہی) اور دانائی کی تعلیم دے اور انہیں پاک (وصاف) کرے۔ یقیناً تو تو بڑا زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔
۱۳۰. اور ابراہیمؑ کے مذہب سے کون پھرے گا مگر وہی جس نے اپنے کو احمق بنا لیا ہو۔ اور ہم نے تو انہیں دنیا میں بھی برگزیدہ کر لیا تھا۔ اور آخرت میں بھی وہ زمرۂ صالحین میں ہوں گے۔
۱۳۱. اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ حکم بردار ہو جاؤ۔ وہ بولے میں حکم بردار ہوں سارے جہان کے پروردگار کا۔
۱۳۲. : اور ابراہیمؑ اس کی ہدایت کر گئے اپنے بیٹوں کو اور اسی طرح یعقوبؑ بھی۔ (اپنے بیٹوں کو)۔ کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے تمہارے لئے دین کا انتخاب فرما لیا ہے۔ سو ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ تم مرتے وقت بجز مسلم کے کچھ اور ہو۔
۱۳۳. ترجمہ بھلا اس وقت تم کیا موجود تھے جب یعقوبؑ کو موت آ پہنچی۔ اور اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟۔ وہ بولے ہم عبادت کریں گے گے آپ کے اور آپ کے اپ دادوں ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ اور اسحاقؑ کے معبود کی (اس) معبود واحد کی اور ہم تو اس کین حکم بردار ہیں۔
۱۳۴. یہ ایک جماعت ہے جو گزر چکی۔ ان کے آگے ان کا کیا ہوا آئے گا اور تمہارے آگے تمہارا کیا ہوا اور وہ جو کچھ کرتے رہے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہ ہو گی۔
۱۳۵. اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ یہودی ہو جاؤ یا نصرانی ہو جاؤ تو راہ یاب ہو جاؤ گے۔ آپ کہہ۔ دیجے کہ نہیں بلکہ (ہم نے تو) ابراہیمؑ سیدھی راہ والے کا مذہب پا لیا۔ اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔
۱۳۶. کہہ دو کہ ہم تو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا۔ اور جو ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور اولاد (یعقوب علیہ السلام) پر اتارا گیا۔ اور جو موسیٰؑ و عیسیٰؑ کو دیا گیا اور اس پر جو دوسرے انبیاء کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیا گیا۔ اور ہم ان میں سے کسی کے درمیان بھی فرق نہیں کرتے۔ اور ہم اللہ ہی کے حکم بردار ہیں۔
۱۳۷. تو اگر یہ لوگ ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان رکھتے ہو تو بیشک وہ بھی راہ پا گئے۔ اور اگر منہ موڑے رہیں تو بس (بڑی) مخالفت میں پڑے ہیں۔ سو اب اللہ آپ کی طرف سے ان کے مقابلہ۔ ہے اور وہ (بڑا) سننے والا (بڑا) جاننے والا ہے۔
۱۳۸. (ہمارے اوپر) اللہ کا رنگ ہے۔ اور اللہ سے بہتر کون رنگ (دینے والا) ہے؟۔ ہم تو اس کی بندگی کرنے والے ہیں۔
۱۳۹. آپ کہیے کہ کیا تم ہم سے اللہ کے باب میں حجت کئے جاتے ہو۔ درآنحالیکہ وہ ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے۔ اور ہمارے عمل ہمارے لیے ہیں اور تمہارے عمل تمہارے لیے اور ہم تو اسی کے لیے خالص ہیں۔
۱۴۰. کیا تم (یہ) کہتے ہو کہ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور اولاد (یعقوب علیہ السلام) یہودی یا نصرانی تھے؟۔ آپ کہیے تم واقف تر ہو یا اللہ؟۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اس شہادت کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کے ہاں سے پہنچ چکی ہے؟۔ ورنہ اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر تو ہے نہیں۔
۱۴۱. یہ ایک جماعت ہے جو گزر چکی۔ ان کا کیا ہوا ان کے آگے آئے گا اور تمہارا کیا ہوا تمہارے آگے آئے گا۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے اس کی پوچھ کچھ تم سے نہ ہو گی۔
۱۴۲. اب بیوقوف لوگ (ضرور) کہیں گے۔ کہ کس چیز نے ان (مسلمانوں) کو ان کے (اس) قبلہ سے جس پر وہ اب تک تھے۔ ہٹا دیا آپ کہہ دیجئے۔ کہ مشرق و مغرب سب اللہ ہی کی ملک ہیں۔ وہ جسے چاہے۔ سیدھی راہ چلا دیتا ہے۔
۱۴۳. اور اسی طرح ہم نے تمہیں۔ ایک امت عادل بنا دیا ہے۔ تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر۔ اور رسول گواہ رہیں تم پر۔ اور جس قبلہ پر آپ (اب تک) تھے۔ اسے تو ہم نے اسی لئے رکھا تھا کہ ہم پہچان لیں رسول کا اتباع کرنے والوں کو الٹے پاؤں واپس چلے جانے والوں سے۔ اور یہ (حکم) بہت گراں ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جنہیں اللہ نے راہ دکھا دی ہے۔ اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہو جانے دے تمہارے۔ ایمان کو اور اللہ تو لوگوں پر بڑا شفیق ہے بڑا مہربان ہے۔
۱۴۴. بیشک ہم نے دیکھ لیا آپ کے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا۔ سو ہم ضرور آپ کو متوجہ کر دیں گے اس قبلہ کی طرف جسے آپ چاہتے ہیں۔ اچھا اب کر لیجیے اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف۔ اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اپنے چہرے کر لیا کرو اسی کی طرف۔ اور جن لوگوں کو کتاب مل چکی ہے وہ یقیناً جانتے ہیں کہ وہ (حکم) واقعی ہے ان کے پروردگار کی طرف۔ اور اللہ بے خبر نہیں ان کی کار روائیوں سے۔
۱۴۵. اور اگر آپ ان لوگوں کے سامنے جنہیں کتاب مل چکی ہے ساری ہی نشانیاں لے آئیں۔ (جب بھی) یہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے۔ اور نہ آپ ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے ہیں اور نہ وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے قبلہ کو ماننے والے ہیں۔ اور اگر (کہیں) آپ ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگیں۔ بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آ چکا ہے۔ تو یقیناً آپ (بھی) ظالموں میں (شمار) ہوں گے۔
۱۴۶. جن لوگوں کو ہم کتاب دے چکے ہیں۔ وہ آپ کو پہچانتے ہیں اس طرح جیسے کہ اپنی نسل والوں کو پہچانتے ہیں۔ اور بیشک ان میں کے کچھ لوگ خوب چھپاتے ہیں حق کو حالانکہ جانتے ہوتے ہیں۔
۱۴۷. یہ امر حق ہے تیرے پروردگار کی طرف سے پس تو کہیں شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو جانا۔
۱۴۸. اور ہر ایک کے لیے کوئی رخ ہوتا ہے جدھر وہ متوجہ رہتا ہے۔ سو تم نیکیوں کی طرف بڑھو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تم سب کو پالے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۴۹. اور آپ جس جگہ سے بھی (باہر) نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف موڑ لیا کریں۔ اور یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے امر حق ہے۔ اور اللہ اس سے بے خبر نہیں جو تم کر رہے ہو۔
۱۵۰. اور آپ جس جگہ سے بھی (باہر) نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف موڑ لیا کریں۔ اور تم لوگ (بھی) جہاں کہیں ہو اپنا منہ اس کی طرف موڑ لیا کرو۔ تاکہ لوگوں کو تمہارے مقابلہ میں حجت نہ رہ جائے۔ سوا ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہیں۔ سو تم ان سے ڈرو۔ بلکہ (صرف) مجھی سے ڈرو۔ تاکہ میں اپنا انعام تم پر پورا کروں۔ اور تاکہ تم راہ پر (قائم) رہو۔
۱۵۱. : (اسی طرح) جیسے ہم نے تمہارے درمیان ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا۔ جو تمہارے روبرو ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے۔ اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ جو تم نہیں جانتے تھے
۱۵۲. سو تم مجھے یاد کرتے رہو۔ میں بھی تمہیں یاد کرتا رہوں گا۔ اور میری شکر گزاری کرتے رہو اور میری ناشکری نہ کرو
۱۵۳. اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہے
۱۵۴. اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مردہ نہ کہو (نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں۔ البتہ تم ادراک نہیں کر سکتے۔
۱۵۵. اور ہم تمہاری آزمائش کر کے رہیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مال اور جان اور پھلوں کے کچھ نقصان سے۔ اور آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔
۱۵۶. کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں۔ کہ بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔
۱۵۷. یہ لوگ وہ ہیں کہ ان پر نوازشیں ہوں گی ان کے پروردگار کی طرف سے اور رحمت (بھی) یہی لوگ راہ یاب ہیں۔
۱۵۸. صفا و مروہ بیشک اللہ کی یادگاروں میں سے ہیں۔ سو جو کوئی بیت (اللہ) کا حج کرے یا عمرہ کرے۔ اس پر (ذرا بھی) گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمد و رفت کرے۔ اور جو کوئی خوشی سے کوئی امر خیر کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان ہے بڑا علم رکھنے والا ہے۔
۱۵۹. بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں اس چیز کو جو ہم کھلی ہوئی نشانیوں اور ہدایت میں سے نازل کر چکے ہیں بعد اس کے کہ ہم اسے لوگوں کے لیے کتاب (الٰہی) میں کھول چکے ہیں۔: یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور ان پر لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔
۱۶۰. البتہ جو لوگ توبہ کر لیں۔ اور درست ہو جائیں۔ اور ظاہر کر دیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ میں ان پر متوجہ ہو جاؤں گا رحمت سے۔ اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا ہوں بڑا رحمت والا ہوں۔
۱۶۱. بیشک جو لوگ کفر کرتے ہیں اور مر جائیں اسی حال میں کہ وہ کافر ہیں سو یہ وہی لوگ ہیں کہ ان پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور آدمیوں کی سب کی۔
۱۶۲. وہ اس میں پڑے رہنے والے ہیں۔ کہ نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہونے پائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
۱۶۳. اور تمہارا خدا ایک خدا ہے بجز اس کے کوئی خدا نہیں۔ بے انتہا رحم و کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا۔
۱۶۴. یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادل بدل میں اور جہازوں کے چلنے میں جو سمندر میں ان چیزوں کے ساتھ چلتے ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور (اس) پانی میں جسے اللہ نے اتارا پھر اس زمین کو اس کے رمادہ ہونے کے بعد جلا اٹھایا اور اس میں ہر طرح کے حیوانات پھیلا دیئے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں (جو) آسمان اور زمین کے درمیان مقید ہے (ان سب میں) ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں (موجود) ہیں۔
۱۶۵. اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی شریک بنائے ہوئے ہیں۔ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی اللہ سے (رکھنا چاہیے)۔ اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ کی محبت سب سے قوی رکھتے ہیں۔ اور کاش ظالم جب عذاب کو دیکھ لیتے۔ تو سمجھ لیتے کہ قوت اللہ ہی کی ہے ساری کی ساری۔ اور یہ کہ اللہ کا عذاب بہت ہی سخت ہے
۱۶۶. (اس وقت کا خیال کرو) جب مقتدا (یا متبوع) اپنے مقتدیوں (یا پیروؤں) سے الگ ہو جائیں گے۔ اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔
۱۶۷. اور پیرو کہنے لگیں گے۔ کاش ہم کو پھر ایک دفعہ (جانا) مل جاتا۔ تو ہم بھی ان سے الگ ہو جائیں جیسے یہ ہم سے الگ ہو گئے بس اسی طرح اللہ ان کے اعمال کو انہیں (خالی) ارمان (کر کے) دکھائے گا۔ اور وہ دوزخ سے کبھی بھی نہ نکل پائیں گے۔
۱۶۸. اے انسانو! زمین پر جو کچھ حلال اور پاکیزہ موجود ہے اس میں سے کھاؤ (پیو)۔ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
۱۶۹. وہ تو تمہیں بس برائی اور گندگی ہی کا حکم دیتا ہے۔ اور اس کا کہ تم اللہ پر ایسی باتیں گڑھ لو جس کا تم علم نہیں رکھتے ہو۔
۱۷۰. اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس کی پیروی کرو۔ تو کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ (دادوں) کو پایا ہے۔ خواہ ان کے باپ (دادا) نہ ذرا عقل بھی رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں۔
۱۷۱. اور جو لوگ کافر ہیں ان کا حال تو اس شخص جیسا ہے۔ جو ایسے (جانور) کے پیچھے چلا رہا ہے جو کچھ سنتا ہی نہیں بجز بلانے اور پکارنے کے (یہ) لوگ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو (کچھ بھی) نہیں سمجھتے۔
۱۷۲. اے ایمان والو پاک چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں کھاؤ پیو۔ اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔ اگر تم خاص اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔
۱۷۳. اس نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور جو (جانور) غیر اللہ کے لئے نامزد کیا گیا ہو حرام کیا ہے لیکن (اس میں بھی) جو شخص مضطر ہو جائے۔ اور نہ بے حکمی کرنے والا ہو اور نہ حد سے نکل جانے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں بیشک اللہ بڑا بخشنے والا ہے بڑا رحمت والا ہے۔
۱۷۴. بیشک جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے معاوضہ میں قلیل قیمت حاصل کرتے ہیں سو ایسے لوگ تو اپنے سینوں میں بس آگ ہی (آگ) بھر تے ہیں۔ اور اللہ قیامت کے دن ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
۱۷۵. یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو خرید لیا ہے ہدایت کے بدلہ میں اور عذاب کو نجات کے بدلہ میں اور یہ لوگ کیسی جیوٹ رکھتے ہیں دوزخ کے لیے۔
۱۷۶. اور یہ (سزا) اس لئے ہو گی کہ اللہ نے تو کتاب کو (بالکل) ٹھیک ٹھیک اتارا تھا۔ اور بیشک جو لوگ کتاب کے بارے میں اختلاف ڈال رہے ہیں وہ (بڑے) دور دراز کے خلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔
۱۷۷. طاعت یہ نہیں ہے۔ کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لیا کرو۔ بلکہ طاعت یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ اور قیامت کے دن اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائے۔ اور اس کی محبت میں مال صرف کرے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیروں اور سائلوں پر۔ اور گردنوں کے آزاد کر دینے میں۔ اور نماز کی پابندی کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے۔ اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جبکہ وعدہ کر چکے ہوں اور تنگی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے۔ یہی لوگ ہیں جو سچے اترے اور یہی لوگ تو متقی ہیں۔
۱۷۸. اے ایمان والو تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کر دیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلہ میں غلام اور عورت کے بدلہ میں عورت۔ ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقابل کی طرف سے کچھ معافی حاصل ہو جائے۔ سو مطالبہ معقول (اور نرم) طریق پر کرنا چاہیے۔ اور مطالبہ کو اس (فریق) کے پاس خوبی سے پہنچا دینا چاہیے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا اس کے لیے (آخرت میں) عذاب درد ناک ہے۔
۱۷۹. اور تمہارے لیے اے اہل فہم (قانون) قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
۱۸۰. تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو بشرطیکہ کچھ مال بھی چھوڑ رہا ہو تو وہ والدین اور عزیزوں کے حق میں معقول طریقہ سے وصیت کر جائے یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر۔
۱۸۱. پھر جو کوئی اسے اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے سو اس کا گناہ بس انہیں پر ہو گا جو اسے بدل ڈالیں۔ بیشک اللہ بڑا سننے والا ہے بڑا جاننے والا ہے۔
۱۸۲. البتہ جس کسی کو وصیت کرنے والے سے متعلق کسی بے عنوانی یا گناہ کا علم ہو جائے۔ وہ ان لوگوں کے آپس میں صلح کرا دے۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا مغفرت کرنے والا ہے بڑا رحم کرنے والا ہے۔
۱۸۳. اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے۔ جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں۔ عجب نہیں کہ تم متقی بن جاؤ۔
۱۸۴. یہ روزے) گنتی کے چند روز کے (ہیں)۔ پھر تم میں سے جو شخص بیمار ہو۔ یا سفر میں ہو۔ اس پر دوسرے دنوں کا شمار رکھنا (لازم ہے)۔ اور جو لوگ اسے مشکل سے برداشت کر سکیں۔ ان کے ذمہ فدیہ ہے (کہ وہ) ایک مسکین کا کھانا ہے۔ اور جو کوئی خوشی خوشی نیکی کرے۔ اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر تم علم رکھتے ہو۔ تو بہتر تمہارے حق میں یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔
۱۸۵. ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اور (اس میں) کھلے ہوئے (دلائل میں) ہدایت اور (حق و باطل میں) امتیاز کے۔ سو تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے لازم ہے کہ وہ (مہینہ بھر) روزہ رکھے۔ اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو (اس پر) دوسرے دنوں کا شمار رکھنا (لازم ہے)۔ اللہ تمہارے حق میں سہولت چاہتا ہے اور تمہارے حق میں دشواری نہیں چاہتا۔ اور یہ (چاہتا ہے) کہ تم شمار کی تکمیل کر لیا کرو۔ اور یہ کہ تم اللہ کی بڑائی کیا کرو اس پر کہ تمہیں راہ بتا دی۔ عجب نہیں کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
۱۸۶. اور جب آپ سے میرے بندے میرے باب میں دریافت کریں۔ تو میں تو قریب ہی ہوں۔ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔ (لوگوں کو) چاہئے کہ میرے احکام قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ عجب نہیں کہ ہدایت پاجائیں
۱۸۷. جائز کر دیا گیا ہے تمہارے لیے روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو خبر ہو گئی کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔ پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم سے درگزر کر دی۔ سو اب تم ان سے ملو۔ ملاؤ۔ اور اسے تلاش کرو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کا سفید خط سیاہ خط سے نمایاں ہو جائے۔ پھر روزہ کو رات (ہونے) تک پورا کرو۔ اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں۔ یہ اللہ کے ضابطے ہیں سو ان (سے نکلنے) کے قریب بھی نہ جانا۔ اللہ اسی طرح اپنے احکام لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ عجب نہیں کہ وہ پرہیزگار بن جائیں۔
۱۸۸. اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر مت کھاؤ اڑاؤ۔ اور نہ اسے حکام تک پہنچاؤ کہ جس سے لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ سے کھا جاؤ درآنحالیکہ تم جان رہے ہو۔
۱۸۹. آپ سے (لوگ) نئے چاندوں کے باب میں دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ وہ لوگوں کے لئے حج کے لئے آلہ شناخت اوقات ہیں۔ اور یہ تو (کوئی بھی) نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ۔ البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں ہی سے آؤ۔ اور اللہ سے تقویٰ اختیار کئے رہو تا آنکہ فلاح پا جاؤ۔
۱۹۰. اور اللہ کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں۔ اور حد سے باہر مت نکلو کہ اللہ حد سے باہر نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۱۹۱. اور انہیں جہاں کہیں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انہیں نے تمہیں نکالا ہے تم انہیں نکالو۔ فتنہ تو قتل سے (بھی) سخت تر ہے۔ اور ان سے مسجد حرام کے قریب قتال نہ کرو جب تک وہ (خود) تم سے قتال نہ کریں۔ ہاں اگر وہ (خود) تم سے قتال کریں تو (تم بھی) انہیں قتل کرو یہی سزا ہے کافروں کی۔
۱۹۲. پھر اگر وہ باز آ جائیں۔ تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔
۱۹۳. اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد (عقیدہ) باقی نہ رہ جائے۔ اور دین اللہ ہی کے لیے رہ جائے۔ سو اگر وہ باز آ جائیں۔ تو سختی (کسی پر بھی) نہیں بجز (اپنے حق میں) ظلم کرنے والوں کے۔
۱۹۴. حرمت والا مہینہ تو حرمت والے مہینہ کے عوض میں ہوتا ہے۔ اور حرمتیں معاوضہ کی چیزیں ہیں۔ تو جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو۔ جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
۱۹۵. اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو۔ اور اپنے کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور اپنے کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور اچھے کام کرتے رہو یقیناً اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
۱۹۶. : اور حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو۔ پھر اگر گھر جاؤ تو جو بھی قربانی کا جانور میسر ہو (اسے پیش کر دو)۔ اور جب تک قربانی اپنے مقام پر پہنچ جائے اپنے سر نہ منڈاؤ۔ لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو تو وہ روزوں سے یا خیرات یا ذبح سے فدیہ دے دے لیکن جب تم حالت اطمینان ہو۔ تو پھر جو شخص عمرہ سے مستفید ہو اسے حج سے ملا کر تو جو قربانی بھی اسے میسر ہو وہ کر ڈالے اور جس کسی کو میسر ہی نہ آئے۔ وہ تین دن کے روزے زمانہ حج میں رکھ ڈالے اور سات روزے جب تم واپس ہو یہ پورے دس (روزے) ہوئے۔ یہ۔ اس کے لیے (درست) ہے جس کے اہل مسجد حرام کے قریب نہ رہتے ہوں۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جانے رہو کہ اللہ سخت گرفت کرنے والا ہے۔
۱۹۷. اہم حج کے (چند) مہینے معلوم ہیں۔ جو کوئی ان میں اوپر حج مقرر کرے۔ تو پھر حج میں نہ کوئی فحش بات ہونے پائے اور نہ کوئی بے حکمی اور نہ کوئی جھگڑا۔ اور جو کوئی بھی نیک کام کرو گے اللہ کو اس کا علم ہو کر رہے گا۔ اور زاد راہ لے لیا کرو۔ اور بہترین زاد راہ تو تقویٰ ہے۔ سو اے اہل فہم میرا ہی تقویٰ اختیار کئے رہو۔
۱۹۸. تمہیں اس باب میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے ہاں سے تلاش معاش کرو۔ پھر جب تم جوق در جوق عرفات سے واپس ہونے لگو۔ تو اللہ کا ذکر مشعر حرام کے پاس کر لیا کرو۔ اور ان کا ذکر اس طرح کرو جیسا اس نے تمہیں بتایا ہے۔ اور اس سے قبل تم یقیناً محض نا واقفوں میں تھے۔
۱۹۹. ہاں تو تم وہاں جا کر واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں۔ اور اللہ سے مغفرت طلب کرو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۲۰۰. پھر جب تم اپنے مناسک ادا کر رہے ہو۔ تو اللہ کی یاد کرو اپنے باپ دادوں کی یاد کی طرح بلکہ یہ یاد اس سے بھی بڑھ کر ہو۔ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے ہمیں دنیا (ہی) میں دے دے۔ اور ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
۲۰۱. اور کوئی ان میں ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے ہم کو دنیا میں (بھی) بہتری دے اور آخرت میں (بھی) بہتری اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچائے رکھنا۔
۲۰۲. یہ وہ لوگ ہیں جنہیں۔ حصہ مل کر رہے گا بہ عوض اس کے کہ جو انہوں نے عمل کر رکھا ہے اور اللہ حساب بہت جلد لے لے گا۔
۲۰۳. اور اللہ کو (ان چند) گنے ہوئے (دنوں) میں (برابر) یاد کرتے رہو۔ جو شخص (ان) دو دونوں میں جلدی کرے اس پر (بھی) کوئی گناہ نہیں۔ اور جو تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (یہ) اس کے لئے جو ڈرتا رہتا ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ تم (سب) اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔
۲۰۴. اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے۔ کہ اس کی گفتگو جو دنیوی غرض سے اچھی معلوم ہوتی ہے اور جو اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ لاتا ہے! درآنحالیکہ وہ شدید ترین دشمن ہے۔
۲۰۵. اور جب پیٹھ پھیر کر جاتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں رہتا ہے کہ زمین پر فساد کرے اور کھیتی اور جانوروں کو تلف کرے۔ درآنحالیکہ اللہ فساد کو (بالکل) پسند نہیں کرتا۔
۲۰۶. اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خوف خدا کرو تو اسے نخوت گناہ پر (اور زیادہ) آمادہ کر دیتی ہے۔ سو اس کے لیے جہنم بس ہے اور بری سے بری آرام گاہ ہے!
۲۰۷. اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنی جان (تک) اللہ کی رضا جوئی میں بیچ ڈالتا ہے۔ اور اللہ بندوں کے حق میں بڑا شفیق ہے۔
۲۰۸. اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ۔ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
۲۰۹. پھر اگر تم بعد اس کے کہ تمہارے پاس کھلی ہوئی نشانیاں پہنچ چکی ہیں ڈگمگا گئے تو جانے رہو کہ اللہ بڑا زبردست ہے بڑا حکیم ہے
۲۱۰. (یہ لوگ) تو بس اسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس خدا بادل کے سائبانوں میں آ جائے اور فرشتے (بھی)۔ اور قصہ ہی ختم ہو جائے اور اللہ ہی کی طرف (سارے) معاملات رجوع کئے جائیں گے
۲۱۱. (آپ) بنی اسرائیل سے پوچھ دیکھئے ہم نے انہیں کھلی نشانیاں کتنی دے رکھی تھیں اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو بدل ڈالے بعد اس کے کہ وہ اس کو پہنچ چکی ہو تو اللہ بھی سزا دینے میں بڑا سخت ہے۔
۲۱۲. خوشنما کر دی گئی ہے دنیوی زندگی ان لوگوں کی نظر میں جو کافر ہیں اور وہ ان لوگوں سے تمسخر کرتے ہیں جو ایمان لے آئے ہیں۔ (درآنحالیکہ) جو لوگ ڈرتے رہتے ہیں وہ ان سے (کہیں) اوپر ہوں گے قیامت کے دن۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا رہتا ہے۔
۲۱۳. لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے۔ اور ان کے ساتھ کتب حق نازل کیں۔ کہ وہ لوگوں کے درمیان اس باب میں فیصلہ کرے جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے۔ اور کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہی نے جنہیں وہ ملی تھی انہی کی ضد کے باعث بعد اس کے کہ انہیں کھلی ہوئی نشانیاں پہنچ چکی تھیں۔ پھر اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو ایمان والے تھے وہ امر حق بتا دیا جس کے بارے میں وہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست بتا دیتا ہے۔
۲۱۴. کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ درآنحالیکہ (ابھی) تم پر ان لوگوں کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ انہیں تنگی اور سختی پیش آئی اور انہیں ہلا ڈالا گیا۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور جو لوگ ان کے ہمراہ ایمان لائے تھے بول اٹھے۔ کہ اللہ کی امداد (آخر) کب آئے گی۔ سن رکھو اللہ کی امداد یقیناً قریب ہی ہے۔
۲۱۵. آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں۔ آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ تمہیں مال سے خرچ کرنا ہے۔ سو وہ حق ہے والدین کا اور عزیزوں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا۔ اور جو بھی نیکی کرو گے اللہ کو اس کا پورا علم رہتا ہے۔
۲۱۶. تمہارے اوپر قتال فرض کر دیا گیا ہے۔ درآنحالیکہ وہ تم پر گراں ہے۔ لیکن کیا عجب کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور کیا عجب کہ تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں (باعث) خرابی ہو۔ اور علم تو اللہ ہی رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے۔
۲۱۷. اور آپ سے حرمت والے مہینے کی بابت (یعنی) اس میں قتال کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اس میں قتال کرنا بڑا (گناہ) ہے۔ اور اس سے کہیں بڑے (جرم) اللہ کے نزدیک اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روک دینا اور اس سے اس کے رہنے والوں کو نکال دینا ہیں۔ اور فتنہ سے (کہیں) بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ تم سے جنگ جاری ہی رکھیں گے تا آنکہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر ہی کر ہیں۔ اور جو کوئی بھی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے اور اس حال میں کہ وہ کافر ہے مر جائے تو یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے۔ اور یہ اہل دوزخ ہیں اسی میں (ہمیشہ) پڑے رہنے والے۔
۲۱۸. بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ تو یہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھیں گے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔
۲۱۹. (لوگ) آپ سے شراب اور قمار کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان میں بڑا گناہ ہے۔ اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں۔ اور ان کا گناہ ان کے فائدوں سے کہیں بڑھا ہوا ہے۔ اور (لوگ) آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں۔ آپ کہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔ اللہ اسی طرح تمہارے لئے کھول کر احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ لیا کرو
۲۲۰. دنیا اور آخرت کے (معاملات) میں۔ اور (لوگ) آپ سے یتیموں کے باب میں دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہ دیجئے کہ مصلحت کی رعایت رکھنا بہتر ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ (خرچ) شامل رکھو تو وہ تمہارے بھائی (ہی) ہیں۔ اللہ کو علم ہے کہ مفسد (کون) ہے اور مصلح (کون)۔ اور اللہ اگر چاہتا تو تم کو پریشانی میں ڈال دیتا۔ اللہ یقیناً زبردست ہے حکمت والا ہے۔
۲۲۱. اور نکاح مشرک عورتوں کے ساتھ نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ کہ مومنہ کنیز تک بہتر ہے (آزاد) مشرک عورت سے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کو (بھی) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور مومن غلام تک بہتر ہے۔ مشرک (آزاد) سے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو وہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔ اور اللہ جنت و مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔ اور لوگوں سے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
۲۲۲. اور لوگ آپ سے حیض کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہ دیجئے کہ وہ ایک (طرح کی) گندگی ہے۔ پس تم عورتوں کو حیض کے دوران میں چھوڑے رہو۔ اور جب تک وہ پاک نہ ہو ان سے قربت نہ کرو۔ پھر جب وہ پاک ہو جائیں۔ تو ان کے پاس آؤ جس جگہ سے اللہ نے تمہیں اجازت دے رکھی ہے۔ بیشک اللہ محبت رکھتا توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔
۲۲۳. تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں۔ سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ اور اپنے حق میں آیندہ کے لیے کچھ کرتے رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے۔ اور آپ ایمان والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
۲۲۴. اور اللہ (کے نام) کو اپنی قسموں کے ذریعہ سے اپنی نیکی کے اور اپنے تقویٰ کے اور اپنی اصلاح خلق کے کاموں کے حق میں حجاب نہ بنا لو۔ اور اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔
۲۲۵. اللہ تمہاری قسموں میں سے لایعنی (قسم) پر مؤاخذہ نہ کرے گا البتہ تم سے اس (قسم) پر مؤاخذہ کرے گا۔ جس پر تمہارے دلوں نے قصد کیا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے بڑا برد بار ہے۔
۲۲۶. جو لوگ اپنی بیویوں سے (ہمبستری کرنے کی) قسم کھا بیٹھے ہیں ان کے لیے مہلت چار ماہ تک ہے۔ پھر اگر یہ لوگ رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔
۲۲۷. اور اگر طلاق (ہی) کا پختہ ارادہ کر لیں۔ تو بیشک اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔
۲۲۸. اور طلاقنیں اپنے کو تین میعادوں تک روکے روکے رہیں۔ اور ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو پیدا کر رکھا ہے اسے وہ چھپائے رکھیں۔ اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے شوہران کے واپس لے لینے کے اس (مدت) میں زیادہ حقدار ہیں۔ بشرطیکہ اصلاح حال کا قصد رکھتے ہو۔ اور عورتوں کا (بھی) حق ہے جیسا کہ عورتوں پر حق ہے۔ موافق دستور (شرعی) کے۔ اور مردوں کو ان کے اوپر ایک گونہ فضیلت حاصل۔ اور اللہ بڑا زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔
۲۲۹. طلاق تو دو ہی بار کی ہے۔ اس کے بعد (یا تو) رکھ لینا ہے قاعدے کے مطابق یا پھر خوش عنوانی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو مال تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو۔ ہاں بجز اس صورت کے کہ جب اندیشہ ہو کہ اللہ کے ضابطوں کو دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے۔ سو اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم اللہ کے ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکو گے۔ تو دونوں پر اس (مال) کے باب میں کوئی گناہ نہ ہو گا جو عورت معاوضہ میں دے دے۔ یہ (سب) اللہ کے ضابطے ہیں سو ان سے باہر نہ نکلنا اور جو کوئی اللہ کے ضابطوں سے باہر نکل جائے گا سو ایسے لوگ تو (اپنے حق میں) ظلم کرنے والے ہیں۔
۲۳۰. پھر اگر کوئی اپنی عورت کو طلاق دے ہی دے۔ تو وہ عورت اس کے لیے اس کے بعد جائز نہ رہے گی یہاں تک یہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے۔ پھر اگر وہ (بھی) اسے طلاق دے دے۔ تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ پھر مل جائیں۔ بشرطیکہ دونوں گمان غالب رکھتے ہوں کہ اللہ کے ضابطوں کو قائم رکھیں گے۔ اور یہ بھی اللہ کے ضابطے ہیں انہیں وہ کھول کر ان لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔
۲۳۱. اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو۔ اور وہ اپنی مدت گزرنے پر پہنچ جائیں۔ تو (اب یا تو) انہیں عزت کے ساتھ روکے رکھو اور یا عزت کے ساتھ رہائی دے دو۔ اور ان کو تکلیف پہچانے کی غرض سے نہ روکے رہو۔ اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرے گا۔ اور اللہ کے احکام کو ہنسی (کھیل) نہ سمجھو۔ اور اللہ کی نعمتیں اپنے اوپر یاد کرو۔ اور (اس) کتاب و حکمت کو بھی جو اس نے تم پر اتاری ہے کہ اس سے وہ تمہیں نصیحت کرتا رہتا ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جاتے رہو کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
۲۳۲. اور جب تم طلاق دے چکو اپنی عورتوں کو اور پھر وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں۔ تو تم انہیں اس سے مت روکو۔ کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں جب کہ وہ آپس میں سب شرافت کے ساتھ راضی ہوں۔ اس (مضمون) سے نصیحت کی جاتی ہے تم میں سے اس شخص کو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہی تمہارے حق میں پاکیزہ تر اور صاف تر ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔
۲۳۳. اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں پورے دو سال۔ (یہ مدت) اس لیے ہے جو رضاعت کی تکمیل کرنا چاہے۔ اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان (ماؤں) کا کھانا اور کپڑا موافق دستور کے۔ کسی شخص کو حکم نہیں دیا جاتا بجز اس کی برداشت کے بہ قدر۔ نہ کسی ماں کو تکلیف پہنچائی جائے اس کے بچہ کے باعث اور نہ کسی باپ کو تکلیف پہنچائی جائے اس کے بچہ کے باعث۔ اور اسی طرح (کا انتظام) وارث کے ذمہ بھی ہے۔ پھر اگر دونوں اپنی باہمی رضامندی اور مشورہ سے دودھ چھڑا دینا چاہیں۔ تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر تم لوگ اپنے بچوں کو (کسی اور انا کا) دودھ پلوانا چاہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم (ان کے) حوالے کر دو جو کچھ انہیں دینا ہے موافق دستور کے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور جانے رہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔
۲۳۴. اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینہ اور دس دن تک روکے رکھیں۔ پھر جب وہ اپنی مدت تک پہنچ جائیں۔ تو تم پر اس باب میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے بارے میں کچھ (کاروائی) کریں کے ساتھ۔ اور جو تم کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
۲۳۵. اور تم پر کوئی گناہ میں نہیں کہ تم ان (زیر عدت) عورتوں کے پیغام نکاح کے باب میں کوئی بات اشارتاً کہو یا (یہ ارادہ) اپنے دلوں ہی میں پوشیدہ رکھ۔ اللہ کو تم کہ تم ان عورتوں کا ذکر مذکور کرو گے۔ البتہ ان سے کوئی وعدہ خفیہ (بھی) نہ کرو۔ مگر ہاں کوئی بات عزت و حرمت کے موافق (چاہو تو) کہہ دو۔ اور عقد نکاح کا عزم اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ میعاد مقرر اپنے ختم کو نہ پہنچ جائے۔ اور جانے رہو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے۔ سو اس سے ڈرتے رہو اور جانے رہو کہ اللہ بخشنے والا ہے بڑا بردبار ہے۔
۲۳۶. تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان بیویوں کو جنہیں تم نے نہ ہاتھ لگایا اور نہ ان کے لیے مہر مقرر کیا طلاق دے دو۔ وسعت والے کے ذمہ اس کی حیثیت کے لائق ہے اور تنگی والے کے ذمہ اس کی حیثیت کے لائق۔ (یہ) خرچ شرافت کے موافق ہو (اور یہ) واجب ہے خوش معاملہ لوگوں پر۔
۲۳۷. اور اگر تم نے انہیں طلاق دے دی ہے قبل اس کے کہ انہیں ہاتھ لگایا ہو لیکن ان کے لیے کچھ مقرر کر چکے ہو تو جتنا مہر تم نے مقرر کیا ہے اس کا آدھا واجب ہے بجز اس صورت کے کہ (یا تو) وہ عورتیں خود معاف کر دیں یا وہ (اپنا حق) معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ اور اگر تم (اپنا حق) معاف کر دو تو یہ بہت ہی قرین تقویٰ ہے۔ اور آپس میں لطف و احسان نظر انداز نہ کرو۔ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ یقیناً اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔
۲۳۸. (سب ہی) نمازوں کی پابندی رکھو۔ اور (خصوصاً) درمیانی نماز کی۔ اور اللہ کے سامنے عاجزوں (کی طرح) کھڑے رہا کرو۔
۲۳۹. لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو تو تم پیدل ہی (پڑھ لیا کرو) یا سواری پر۔ پھر جب تم امن میں آ جاؤ تو اللہ کو یاد کیا کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے جس کو تم جانتے (بھی) نہ تھے۔
۲۴۰. اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (ان پر لازم ہے) اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت (کر جانے) کی کہ وہ ایک سال تک (گھر سے) نکالی نہ جائیں۔ لیکن اگر (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں اس باب میں جسے وہ (بیویاں) اپنے باب میں شرافت کے ساتھ کریں۔ اور اللہ بڑا زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔
۲۴۱. اور طلاقنوں کے حق میں بھی نفع پہچانا دستور کے موافق مقرر ہے۔
۲۴۲. (یہ) پرہیزگاروں پر واجب ہے۔ اللہ اسی طرح تمہارے لئے کھول کر اپنے احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم سمجھو۔
۲۴۳. کیا تجھے خبر نہیں۔ ان لوگوں کی کہ جو اپنے گھروں سے نکل گئے تھے موت سے بچنے کے لئے اور وہ ہزاروں ہی تھے۔ تو اللہ نے ان سے کہا کہ مر جاؤ۔ پھر اس نے انہیں جلا دیا۔ بیشک اللہ انسانوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر انسان شکر نہیں ادا کرتے۔
۲۴۴. اور اللہ کی راہ میں قتال کرو۔ اور جانے رہو کہ اللہ بڑا سننے والا ہے خوب جاننے والا ہے۔
۲۴۵. کون ایسا ہے جو اللہ کو اچھا قرضہ قرض دے۔ پھر اللہ اسے بڑھا کر اس کے لیے کئی گنا کر دے۔ اور اللہ ہی تنگی بھی کرتا ہے اور فراخی بھی کرتا ہے۔ اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
۲۴۶. کیا تجھے خبر نہیں موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کی ایک جماعت کی۔ جب کہ ان لوگوں نے اپنے نبی سے کہا۔ کہ ہمارے لئے ایک امیر مقرر کر دیجئے کہ ہم خدا کی راہ میں قتال کریں۔ (نبی نے) کہا کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر تم پر قتال فرض کر دیا جائے تو تم قتال نہ کرو؟۔ وہ بولے بھلا ہمارے لیے کونسا ایسا سبب ہو سکتا ہے کہ ہم خدا کی راہ میں نہ لڑیں در آنحالیکہ ہم نکالے جا چکے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے فرزندوں سے۔ لیکن جب ان پر قتال فرض کر دیا گیا تو وہ (سب) پھر گئے بجز ان میں ایک قلیل تعداد کے۔ اور اللہ ظالموں سے خوف واقف ہے۔
۲۴۷. اور ان لوگوں سے ان کے نبی نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو امیر مقرر کر دیا ہے۔ وہ بولے اسے ہمارے اوپر کیسے امیری حاصل ہو سکتی ہے درآنحالیکہ ہم اس سے بڑھ کر امیری کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی تو وسعت نہیں دی گئی ہے۔ (نبی نے) کہا کہ اسے اللہ نے تمہارے مقابلہ میں انتخاب کر لیا ہے۔ اور اسے علم و جسم دونوں میں کشادگی زیادہ دی ہے۔ اور اللہ اپنا ملک جیسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اللہ بڑا وسعت والا ہے بڑا علم والا ہے۔
۲۴۸. اور ان سے ان کے نبی نے کہا کہ اس کی امارت کا نشان یہ ہے۔ کہ تمہارے پاس وہ صندوق (از خو د) آ جائے گا جس میں (سامان) تسکین تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ اور کچھ بچی ہوئی چیزیں بھی جنہیں آل موسیٰ اور آل ہارون چھوڑ گئے ہیں۔ اس (صندوق) کو فرشتے لے آئیں گے۔ بیشک اس واقعہ میں تمہارے لئے ایک نشان ہے۔ اگر تم ایمان والے ہو
۲۴۹. پھر جب طالوت فوجوں کو لے کر بڑھے تو بولے۔ کہ اللہ تمہارے امتحان ایک دریا کے ذریعہ سے لینا چاہتا ہے۔ سو جو کوئی اس میں سے پانی پی لے گا وہ میرا نہیں ہے۔ اور جو کوئی اسے نہ چکھے سو وہی میرا ہے مگر ہاں جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے لے (اس کا مضائقہ نہیں)۔ لیکن ان (سب) نے اس سے پی لیا بجز ان میں سے تھوڑے سے (آدمیوں) کے۔ پھر جب طالوت اور مومنین بھی ان کے ساتھ اس (دریا) سے اتر گئے تو وہ بولے کہ آج تو ہم میں جالوت اور اس کی فوجوں سے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ اور وہ لوگ جنہیں یقین تھا کہ اللہ کے روبرو پیش ہوں گے۔ بولے کہ بارہا چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتیں پر اللہ کے حکم سے غالب آ گئی ہیں۔ اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
۲۵۰. اور جب وہ جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابل آئے تو بولے اے ہمارے پروردگار ہمارے اوپر صبر ڈال دے اور ہمارے قدم جمائے رکھ اور ہمیں غالب کر کافر لوگوں پر۔
۲۵۱. پھر انہوں نے ان کو اللہ کے حکم سے شکست دے دی۔ اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اور اللہ نے داؤدؑ کو بادشاہت اور دانائی عطا کی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھایا۔ اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو (روئے) زمین پر فساد برپا ہو جاتا۔ لیکن اللہ تو جہان والوں پر بڑا فضل رکھنے والا ہے۔
۲۵۲. یہ اللہ کی آیتیں ہیں ہم انہیں آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں ٹھیک ٹھیک۔ اور آپ یقیناً مرسلین میں سے ہیں۔
۲۵۳. ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دے رکھی ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا ہے۔ ان میں سے بعض کے درجے اس نے بلند کئے ہیں۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریمؑ۔ کو شواہد عطاء کئے۔ اور ہم نے ان کی تائید روح القدس کے ذریعہ سے کی۔ اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو ان کے بعد کے لوگ آپس میں خونریزی نہ کرتے بعد ان کے کہ ان کے پاس شواہد آ چکے تھے۔ لیکن (لوگ) آپس میں جھگڑے۔ کوئی تو ان میں سے ایمان لے آیا اور کوئی ان میں سے کفر ہی کرتا رہا۔ اور اگر اللہ کی مشیت ہی ہوتی تو وہ آپس میں خونریزی نہ کرتے۔ لیکن اللہ وہی کرتا ہے جو ارادہ کر لیتا ہے۔
۲۵۴. اے ایمان والو جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے۔ جس میں نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی اور نہ سفارش اور کافر ہی تو ظالم ہیں۔
۲۵۵. اللہ (وہ ہے کہ) کوئی معبود اس کے سوا نہیں۔ وہ زندہ ہے سب کا سنبھالنے والا ہے۔ اسے نہ اونگھ آ سکتی ہے نہ نیند۔ اسی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ کون ایسا ہے جو اس کے سامنے بغیر اس کی اجازت کے سفارش کر سکے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اس سب کو۔ اور وہ اس کے معلومات کے میں سے کسی چیز کو بھی گھیر نہیں سکتے۔ سوا اس کے کہ جتنا وہ خود چاہے۔ اس کی کرسی نے سما رکھا ہے۔ آسمانوں اور زمین کو اور اس پر ان کی نگرانی ذرہ بھی گراں نہیں۔ اور وہ عالی شان ہے عظیم الشان ہے۔
۲۵۶. دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت و گمراہی سے صاف صاف کھل چکی ہے۔ تو جو کوئی طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئیں اس نے ایک بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا۔ جس کے لیے کوئی شکستگی نہیں۔ اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔
۲۵۷. اللہ ان کا ساتھی ہے جو ایمان لائے۔ اور انہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال کر لاتا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے ساتھی شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی لوگ اہل دوزخ ہیں اس میں ہمیشہ پڑے رہیں گے۔
۲۵۸. کیا تو نے اس شخص کے حال پر نظر نہیں کی۔ جس نے ابراہیمؑ سے اس کے رب کے بارے میں مباحثہ کیا تھا۔ اس سبب سے کہ اللہ نے اسے بادشاہت دے رکھی تھی۔ جبکہ ابراہیمؑ نے اس سے کہا کہ میرا رب۔ تو وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ بولا کہ زندگی اور موت تو میں دیتا ہوں ابراہیمؑ نے کہا اچھا اللہ تو آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال دکھا۔ اس پر وہ جو کافر تھا دنگ رہ گیا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو راہ ہدایت نہیں دکھاتا۔
۲۵۹. یا (پھر) اس شخص (کے حال پر نظر کی)۔ جو ایک بستی سے گزرا تھا اس حال میں کہ وہ (بستی) اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی۔ وہ کہنے لگا اللہ اس (آبادی) کو اس کے مرے پیچھے کیوں کر جلا اٹھائے گا؟۔ سو اللہ نے اس (شخص) کو سو سال تک مردہ رکھا پھر اسے جلا اٹھایا۔ (پھر) پوچھا تو کتنی مدت (اس حالت میں) رہا اس نے کہا میں رہا (اس حالت میں) کوئی دن بھر یا اس کا کچھ حصہ۔ فرمایا نہیں بلکہ تو سو سال (کی مدت) تک رہا۔ اپنے کھانے اور پینے کی طرف تو دیکھ (کہ اب تک) وہ سڑا گلا نہیں ہے۔ اور اپنے گدھے کو دیکھ۔ اور (یہ سب) اس لئے کہ ہم تجھے ایک نشان لوگوں کے لیے بنائیں۔ اور ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کس طرح ترتیب دیتے ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پھر جب اس پر (یہ سب) روشن ہو گیا تو اس نے کہا میں یقین رکھتا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۶۰. اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب ابراہیمؑ نے عرض کی کہ اے میرے پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح جلائے گا۔ ارشاد ہوا کیا آپ کو یقین نہیں ہے۔ عرض کی ضرور ہے لیکن (یہ درخواست) اس لیے ہے کہ قلب کو (اور) اطمینان ہو جائے۔ ارشاد ہوا کہ اچھا چار پرندے لیجئے۔ پھر انہیں اپنے سے ہلا لیجئے پھر ان میں کا ایک ایک حصہ پہاڑ پر رکھ دیجئے۔ پھر ان کو اپنی طرف بلائیے (تو) وہ دوڑتے ہوئے آپ کے پاس چلے آئیں گے۔ اور یقین رکھیے کہ اللہ بڑا زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔
۲۶۱. جو لوگ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کے مال کی مثال ایسی ہے۔ جیسے کہ ایک دانہ ہے کہ اس سے سات بالیاں اگیں ہر ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں۔ اور اللہ جسے چاہے افزونی دیتا رہتا ہے۔ اللہ بڑا وسعت والا ہے۔ بڑا علم والا ہے۔
۲۶۲. جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ خرچ کر چکے ہیں اس کے عقب میں احسان و اذیت سے کام نہیں لیتے۔ ان کے لیے اس کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوب (واقع) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۲۶۳. مناسب بات اور درگزر ایسی خیرات سے بہتر ہے جس کے عقب میں اذیت ہو۔ اللہ بڑا غنی ہے بڑا بردبار ہے۔
۲۶۴. اے ایمان والو اپنے صدقوں کو احسان (رکھ کر) اور اذیت (پہنچا کر) باطل نہ کر دو۔ جس طرح وہ شخص اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کے دکھاوے کو اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ سو اس کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہے جس پر کچھ مٹی ہے پھر اس پر زور کی بارش ہو سو وہ اس کو بالکل صاف کر دے۔ (ایسے لوگ) کچھ بھی نہ حاصل کر سکیں گے اپنی کمائی سے۔ اور اللہ کافر لوگوں کو راہ ہدایت نہ دکھائے گا۔
۲۶۵. اور ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال رضائے الٰہی کی طلب میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور اپنے نفس میں پختگی (پیدا کرنے کی غرض سے)۔ ایک باغ کی طرح ہے جو کسی ٹیکرے پر ہو اور اس پر زور کا مینہ پڑا ہو پھر وہ دوگنے پھل لایا ہو۔ اور اگر زور کا مینہ نہ بھی پڑے تو ہلکی پھوار (ہی کافی ہے)۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو خوب دیکھنے والا ہے۔
۲۶۶. کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ہو جس کے نیچے نہریں پڑی بہہ رہی ہوں (اور) اس کے ہاں اس باغ میں (اور بھی) ہر قسم کے میوے ہوں اور اس کا بڑھاپا آ چکا ہو اور اس کے عیال کمزور ہوں اس (باغ) پر ایک بگولا آئے کہ اس میں آگ ہو تو وہ (باغ) جل جائے اللہ اسی طرح تمہارے لیے کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم فکر سے کام لو۔
۲۶۷. اے ایمان والو جو تم نے کمایا ہے اس سے عمدہ چیزیں خرچ کرو۔ اور اس میں سے (بھی) جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں۔ اور خراب چیز کا قصد بھی نہ کرو کہ اس میں سے خرچ کرو گے حالانکہ تم خود بھی اس کے لینے والے نہیں ہو بجز اس صورت کے کہ چشم پوشی ہی کر جاؤ۔ اور جانے رہو کہ اللہ بے نیاز ہے ستودہ صفات ہے۔
۲۶۸. شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے اور حکم دیتا ہے تمہیں بخل کا۔ اور اللہ تم سے اپنی طرف سے مغفرت کا اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا وسعت والا ہے بڑا علم والا ہے۔
۲۶۹. وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطاء ہو گئی اسے یقیناً خیر کثیر عطا ہو گئی۔ اور نصیحت تو بس صاحبان فہم ہی قبول کرتے ہیں۔
۲۷۰. اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو یا جو نذر مانتے ہو یقیناً اللہ (سب کچھ) جانتا ہے اور نا انصافوں کا حامی کوئی بھی نہ ہو گا۔
۲۷۱. اگر تم صدقات کو ظاہر کر دو جب بھی اچھی بات ہے اور اگر انہیں چھپاؤ اور فقیروں کو دو جب تو یہ تمہارے حق میں اور بہتر ہے۔ اور اللہ تم سے تمہارے کچھ گناہ بھی دور کر دے گا۔ اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔
۲۷۲. A ان کی ہدایت آپ کے ذمہ نہیں۔ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور تم جو کچھ بھی مال میں سے خرچ کرتے ہو سوا پنے لئے (کرتے ہو)۔ اور تم اللہ ہی کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہو۔ اور تم مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو (سب) تم کو پورا پورا لوٹا دیا جائے گا اور تم پر (ذرا بھی) زیادتی نہ کی جائے گی۔
۲۷۳. (اصل) حق ان حاجتمندوں کے لیے جو اللہ کی راہ میں گھر گئے ہیں۔ ملک میں کہیں چل پھر نہیں سکتے۔ ناواقف انہیں غنی خیال کرتا ہے ان کی احتیاط سوال کے باعث۔ تو انہیں ان کی بشرہ ہی سے پہچان لے گا۔ وہ لوگ سے لگ لپٹ کر نہیں مانگتے۔ اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اس کا خوب جاننے والا ہے۔
۲۷۴. جو لوگ اپنا مال رات اور دن (اور) پوشیدہ اور آشکارا خرچ کرتے رہتے ہیں سو ان لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے پاس اجر ہے نہ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۲۷۵. جو لوگ سود کھاتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ نہ کھڑے ہو سکیں گے سو اس کے کہ جیسے وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے جنون سے خبطی بنا دیا ہو۔ یہ سزا اس لئے ہو گی کہ وہ کہتے ہیں۔ کہ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ پھر جس کسی کو نصیحت اس کے پروردگار کی طرف سے پہنچ گئی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ پہلے ہو چکا وہ اس کا ہو چکا۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ رہا۔ اور جو کوئی پھر عود کرے تو یہی لوگ دوزخ والے ہیں اس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔
۲۷۶. اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ کسی کفر کرنے والے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔
۲۷۷. بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ دی ان کے لیے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۲۷۸. اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔
۲۷۹. لیکن تم نے ایسا نہ کیا تو خبردار ہو جاؤ جنگ کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کر لو گے تو تمہارے اصل اموال تمہارے ہی ہیں۔ نہ تم (کسی پر) ظلم کرو گے نہ تم پر (کسی کا) ظلم ہو گا۔
۲۸۰. اور اگر تنگدست ہے تو اس کے لیے آسودہ حالی تک مہلت ہے۔ اور اگر معاف کر دو تو تمہارے حق میں (اور) بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
۲۸۱. اور اس دن سے ڈرتے رہو جس میں تم (سب) اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو اس کا معاوضہ پورا پورا ملے گا اور ان پر ظلم (ذرا بھی) نہ ہو گا۔
۲۸۲. اے ایمان والو جب ادھار کا معاملہ کسی مدت معین تک کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ اور لازم ہے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھا دیا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ لکھ دے اور چاہیے کہ وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق واجب ہے۔ اور چاہیے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتا رہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پھر اگر وہ جس کے ذمہ حق واجب ہے عقل کا کوتاہ ہو یا یہ کہ کمزور ہو۔ اور اس قابل نہ ہو کہ وہ خود لکھوا سکے۔ تو لازم ہے کہ اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک لکھوا دے۔ اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ کر لیا کرو۔ پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ تاکہ ان دو عورتوں میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے۔ اور گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور اس (معاملت) کو خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کی میعاد تک لکھنے سے اکتا نہ جاؤ یہ کتابت اللہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ قرین عدل ہے اور شہادت کو درست تر رکھنے والی ہے اور زیادہ سزاوار اس کی کہ تم شبہ میں نہ پڑو۔ بجز اس کے کہ کوئی سودا دست بدست ہو جسے تم باہم لیتے ہی رہتے ہو سو تم پر اس میں کوئی الزام نہیں کہ تم اسے نہ لکھو۔ اور جب خرید و فروخت کرتے ہو (تب بھی) گواہ کر لیا کرو۔ اور کسی کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے۔ اور اگر (ایسا) کرو گے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ (شمار) ہو گا۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔
۲۸۳. اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کاتب نہ پاؤ۔ سو رہن رکھنے کی چیزیں ہی جو قبضہ میں دے دی جائیں۔ اور تم میں سے کوئی کسی اور پر اعتبار رکھتا ہے۔ تو جس کا اعتبار کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت (کا حق) ادا کر دے اور چاہیے کہ اللہ (یعنی) اپنے پروردگار سے ڈرتا رہے۔ اور گواہی کو مت چھپاؤ اور جو کوئی اسے چھپائے گا اس کا قلب گنہگار ہو گا۔ اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس کا بڑا جاننے والا ہے۔
۲۸۴. اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور جو کچھ تمہارے نفسوں کے اندر ہے اگر تم اس کو ظاہر کر دو۔ یا اسے چھپائے رکھو بہرحال اللہ اس کا حساب تم سے لے گا۔ پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
۲۸۵. پیغمبر ایمان لائے اس پر جو ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اور مومنین (بھی) یہ سب ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیمبروں پر۔ ہم اس کے پیغمبروں میں باہم کوئی فرق بھی نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کی۔ اہم تیری مغفرت (طلب کرتے ہیں) اے ہمارے پروردگار۔ اور تیری ہی طرف واپسی ہے
۲۸۶. اللہ کسی کو ذمہ دار نہیں بناتا مگر اس کی بساط کے مطابق۔ اسے ملے گا وہی جو کچھ اس نے کمایا اور اس پر پڑے گا وہی جو کچھ اس نے کمایا۔ اے ہمارے پروردگار ہم پر گرفت نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ڈالا تھا ان لوگوں پر جو ہم سے پیشتر تھے۔ اے ہمارے پروردگار ہم سے وہ نہ اٹھوا جس کی برداشت ہم سے نہ ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہم کو بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ سو ہم کو غالب کر کافر لوگوں پر۔