اردو کی اولین تفسیروں میں ایک اہم تفسیر
تفسیر موضح القرآن
( ترجمہ + فوائد)
شاہ عبد القادر
کے قلم سے
جمع و ترتیب : محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں ……
۱۸۔ الکہف
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا (ہے)۔
۱۔ سراہئے (سب تعریف) اللہ کو جس نے اتاری اپنے بندے پر کتاب اور نہ رکھی اس میں کچھ کجی (ٹیڑھا پن)۔
۲۔ ٹھیک اتاری تا (کہ) ڈر سنائے ایک سخت آفت کا اس کی طرف سے، اور خوشخبری دے، یقین لانے والوں کو جو کرتے ہیں نیکیاں، کہ (یقیناً) ان کو اچھا نیگ (اجر) ہے۔
۳۔ جس میں رہا کریں ہمیشہ۔
۴۔ اور ڈر سنائے ان کو جو کہتے ہیں اللہ اولاد رکھتا ہے۔
۵۔ کچھ خبر نہیں ان کو اس بات کی، نہ ان کے باپ دادوں کو۔ کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے ان کے منہ سے۔ سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں۔
۶۔ سو کہیں تو گھونٹ (مار) ڈالے گا اپنی جان ان کے پیچھے، اگر وہ نہ مانیں گے اس بات (قرآن) کو پچتا پچتا کر (غم کر کے)۔
۷۔ ہم نے بنایا ہے جو کچھ زمین پر ہے اس کی رونق، تا (کہ) جانچیں لوگوں کو، کون ان میں اچھا کرتا ہے کام۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی اس کی رونق پر دوڑتا ہے یا اس کو چھوڑ کر آخرت کو پکڑتا ہے۔
۸۔ اور ہم کو کرنا ہے جو کچھ اس پر ہے میدان چھانٹ (چٹیل بنا) کر۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی گھاس اور درخت چھانٹ کر۔
۹۔ کیا تو خیال رکھتا ہے کہ غار اور کھوہ والے ہماری قدرتوں میں اچنبھا (عجیب) تھے۔
۱۰۔ جب جا بیٹھے وہ جوان اس کھوہ میں، پھر بولے، اے رب! دے ہم کو اپنے پاس سے مہر (رحمت) اور بنا ہمارے کام کا بناؤ (درستی)۔
۱۱۔ پھر تھپک دئیے ہم نے ان کے کان (سلا دیا) اس کھوہ میں، کئی برس گنتی کے۔
۱۲۔ پھر ہم نے ان کو اٹھایا کہ معلوم کریں دو فرقوں میں، کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے۔ ف
۔۔۔
ف: دو فرقے یا تاریخ لکھنے والوں میں ہیں کہ کوئی کہتے برس لکھتے ہیں کوئی کہتے یا وہی اصحاب کہف جاگ کر بعضے تجویز کرنے لگے کہ ہم ایک دن سوئے بعضے کہنے لگے اس سے کم۔
۱۳۔ ہم سنا دیں تجھ کو ان کا احوال تحقیق (ٹھیک ٹھیک)۔ وہ کئی جوان ہیں، کہ یقین لائے اپنے رب پر اور زیادہ دی ہم نے ان کو سوجھ (ہدایت)۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی ایمان سے زیادہ درجہ دیا اولیاء کا۔
۱۴۔ اور گرہ دی (مضبوط کر دئیے) ان کے دل پر جب کھڑے ہوئے، پھر بولے، ہمارا رب ہے رب آسمان و زمین کا، نہ پکاریں گے ہم اس کے سوا کسی کو ٹھاکر (معبود)، (اگر ایسا کہیں) تو کہی ہم نے بات عقل سے دور۔ ف
۔۔۔
ف: ایک شہر کا بادشاہ تھا ظالم جو اس کے بتوں کو نہ پوجتا اس کو عذاب سے مارتا یا بت پجاتا یہ کئی جوان ان کے نوکروں کے بیٹے تھے کوئی نان بائی کا کوئی باورچی کا اسی طرح کسی نے ان کی چغلی کی اس نے روبرو بلا کر پوچھا اس وقت حق تعالیٰ نے ان کے دل پر گرہ دی یعنی ثابت رکھا کہ اپنی بات صاف کہہ دی اس وقت بادشاہ نے موقوف رکھا کہ اور شہر سے پھر کر آؤں تو ان سے بت پوجنا قبول کرواؤں یا عذاب کروں وہ گیا اور شہر کو یہ چھپ کر نکل گئے۔
۱۵۔ یہ ہماری قوم ہے! پکڑے (بنا لئے) ہیں انہوں نے اس کے سوا اور پوجنے (معبود)۔ کیوں نہیں لاتے ان کے واسطے کوئی سند کھلی۔ پھر اس سے گنہگار کون جس نے باندھا اللہ پر جھوٹ۔
۱۷۔ اور جب تم نے کنارہ پکڑا ان سے اور جن کو وہ پوجتے ہیں اللہ کے سوا، اب جا بیٹھو اس کھوہ میں، پھیلا دے تم پر رب تمہارا کچھ اپنی مہر (رحمت) اور بنا (آسان کر) دے تم کو تمہارے کام کا آرام۔ ف
۔۔۔
ف: اس شہر سے نکل کر پاس ایک پہاڑ میں کھوہ تھی آپس میں مشورہ کر کر وہاں جا بیٹھے نیند غالب ہوئی سو گئے کسی کو معلوم نہ ہوا تب سے اب تک سوتے ہیں، بیچ میں ایک بار اللہ نے جگا دیا تھا جس سے لوگوں پر خبر کھلی پھر سو رہے۔
۱۸۔ اور تو دیکھے دھوپ، جب نکلتی ہے بچ جاتی ہے ان کی کھوہ سے داہنے کو، اور جب ڈوبتی ہے کترا جاتی ہے ان سے بائیں کو، اور وہ میدان میں ہیں اس کے۔ ہے یہ قدرتوں سے اللہ کی۔ جس کو راہ (ہدایت) دے اللہ وہی آئے راہ (ہدایت) پر۔ اور جس کو وہ بچلا دے (بھٹکا دے) پھر تو نہ پائے اس کا کوئی رفیق راہ پر لانے والا۔ ف
۔۔۔
ف: حق تعالیٰ کی قدرت سے نہ اس مکان میں ان پر دھوپ آوے نہ مینہ نہ برف اور کھلی جگہ ہے تنگ خفہ نہیں۔
۱۸۔ اور تو جانے وہ جاگتے ہیں اور وہ سوتے ہیں۔ اور کروٹ دلاتے ہیں ہم ان کو داہنے اور بائیں۔ اور کتّا ان کا پسار رہا اپنی با ہیں چوکھٹ پر۔ اگر تو جھانک دیکھے ان کو تو پیٹھ دے کر بھاگے ان سے اور بھر جائے تجھ (تمہارے دل) میں ان کی دہشت۔ ف
۔۔۔
ف: کہتے ہیں سوتے میں ان کی آنکھیں کھلی ہیں اس سے کوئی جانے جاگتے ہیں اور حق تعالیٰ نے اس مکان میں دہشت رکھی ہے تا لوگ تماشا نہ پکڑیں کہ وہ بے آرام ہوں ان کے ساتھ ایک کتا بھی لگ لیا تھا وہ بھی زندہ رہ گیا گرچہ کتا رکھنا برا ہے لیکن لاکھ بروں میں ایک بھلا بھی ہے۔
۱۹۔ اور اسی طرح ان کو جگا دیا ہم نے کہ آپس میں لگے پوچھنے۔ ایک بولا ان میں کتنی دیر ٹھہرے تم۔ بولے ہم ٹھہرے ایک دن یا دن سے کم۔ بولے، تمہارا رب بہتر جانے جتنی دیر رہے ہو۔ اب بھیجو اپنے میں سے ایک، یہ روپیہ لے کر اپنا اس شہر کو، پھر دیکھے کونسا ستھرا کھانا، سو لا دے تم کو اس میں سے کھانا، اور نرمی (ہوشیاری) سے جائے اور جتا (بتا) نہ دے تمہاری خبر کسی کو۔ ف
۔۔۔
ف: سینکڑوں برس رہنا ان کو ایک دن معلوم ہوا مردہ اور سوتا برابر ہے۔
۲۰۔ وہ لوگ اگر خبر پائیں تمہاری، پتھراؤ سے ماریں تم کو یا الٹا پھیریں تم کو اپنے دین میں، تب بھلا نہ ہو تمہارا کبھی۔
۲۱۔ اور اسی طرح خبر کھول دی ہم نے ان کی تا (کہ) لوگ جانیں کہ وعدہ اللہ کا ٹھیک ہے، وہ گھڑی آنی، اس میں دھوکا (شک) نہیں۔ جب جھگڑ رہے تھے اپنی بات پر، پھر کہنے لگے، بناؤ ان پر ایک عمارت۔ (ف ۱) ان کا رب بہتر جانے ان کو۔ بولے جن کا کام زبر تھا (جو غالب تھے)، ہم بنا دیں گے ان کے مکان پر عبادت خانہ۔ (ف ۲)
۔۔۔
ف ۱: ایک ان میں روپیہ لے کر گیا شہر کو وہاں سب چیز اوپری دیکھی اس مدت میں کئی قرن بدل گئے شہر کے دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس بادشاہ کا نام ہے اور کس عہد کا ہے جانا کہ اس شخص نے گڑا مال پایا قدیم کا آخر بادشاہ تک پہنچا اس نے پوچھ کر سب احوال معلوم کیا اور اس وقت شہر میں دو مذہب کے لوگ تھے ایک آخرت میں جینے کے قائل اور دوسرے منکر جھگڑا پڑ رہا تھا بادشاہ منصف تھا، چاہتا تھا ایک طرف کی کوئی سند ہاتھ لگے تو دوسروں کو سمجھا دیوے، اللہ نے یہ سند بھیج دی بادشاہ آپ جا کر غار میں سب کو دیکھ آیا ہر ایک سے احوال سن آیا اس شہر کے سب لوگ یقین لائے آخرت پر کہ یہ قصہ بھی دوسری بار جینے سے کم نہیں۔
ف ۲: یعنی اصحاب کہف کا دین و مذہب اللہ کو معلوم ہے کہ فقط توحید پر قائم تھے اور کسی نبی کی شریعت پکڑنے نہیں پائے مگر جو لوگ ان کی خبر پا کر معتقد ہوئے اور پاس مکان زیارت بنایا وہ نصاریٰ تھے اصحاب کہف سب لوگوں کو رخصت کر کر پھر سو گئے۔
۲۲۔ اب یہ بھی کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتّا، اور یہ بھی کہیں گے وہ پانچ ہیں اور چھٹا ان کا کتّا، بن دیکھے نشانہ پتھر چلانا (بے تکی باتیں)، اور یہ بھی کہیں گے وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتّا۔ تو کہہ، میرا رب بہتر جانے ان کی گنتی، ان کی خبر نہیں رکھتے مگر تھوڑے لوگ۔ سو تو مت جھگڑ ان کی بات میں مگر سرسری جھگڑا۔ اور مت تحقیق کر ان کا احوال ان میں کسی سے۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی ان باتوں میں جھگڑنا کچھ حاصل نہیں رکھتا ابن عباسؓ نے کہا کہ وہ سات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو باتوں کو بن دیکھا نشانہ کہا اور اس کو نہیں کہا۔
۲۳۔ اور نہ کہیو کسی کام کو کہ میں کروں گا کل۔
۲۴۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے، اور یاد کر لے اپنے رب کو جب بھول جائے، اور کہہ، امید ہے کہ میرا رب مجھ کو سجھائے، اس سے نزدیک راہ نیکی کی۔ ف
۔۔۔
ف: اصحاب کہف کا قصہ تاریخ کی کتابوں میں تورات میں لکھا تھا ہر کسی کو خبر کہاں ہو سکتی کافروں نے یہود کے سکھانے سے حضرت کو پوچھا آزمانے کو حضرت نے وعدہ کیا کہ کل بتا دوں گا اس بھروسے پر کہ جبرئیلؑ آویں گے تو پوچھ دوں گا جبرئیلؑ نہ آئے اٹھارہ دن تک حضرت نہایت غمگین ہوئے آخر یہ قصہ لے کر آئے اور پیچھے یہ نصیحت کہ اگلی بات پر وعدہ نہ کریے بغیر انشاء اللہ اگر ایک وقت بھول جاوے تو پھر یاد کر کر کہہ لیوے اور فرمایا کہ امید رکھ کر تیرا درجہ اللہ اس سے زیادہ کرے یعنی کبھی نہ بھولے۔
۲۵۔ اور مدت گذری ان پر اپنی کھوہ میں تین سو برس اور اوپر سے نو (۹)۔
۲۶۔ تو کہہ، اللہ خوب جانتا ہے جتنی مدت وہ رہے۔ اسی پاس ہیں چھپے بھید آسمان اور زمین کے۔ عجب (خوب) دیکھتا سنتا ہے۔ کوئی نہیں بندوں پر اس کے سوا مختار۔ اور نہیں شریک کرتا اپنے حکم میں کسی کو۔ ف
۔۔۔
ف: جتنی مدت وہ سو کر جاگے تھے تاریخ والے کئی طرح بتاتے تھے سب سے ٹھیک وہی جو اللہ تعالیٰ بتاوے یہاں تک قصہ ہو چکا۔
۲۷۔ اور پڑھ جو وحی ہوئی تجھ کو، تیرے رب سے اس کی کتاب کو۔ کوئی بدلنے والا نہیں اس کی باتیں اور کہیں نہ پائے گا تو اس کے سوا چھپنے کی جگہ۔
۲۸۔ اور تھام رکھ آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام، طالب ہیں اس کے منہ (رضا) کے، اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں ان کو چھوڑ کر تلاش میں رونق دنیا کی زندگی کی۔ اور نہ کہا مان اس کا جس کا دل غافل کیا ہم نے اپنی یاد سے، اور پیچھے لگا ہے اپنی چاؤ (خواہش) کے، اور اس کا کام ہے حد پر نہ رہنا۔ ف
۔۔۔
ف: ایک کافر حضرت کو سمجھانے لگا کہ اپنے پاس رذالوں کو نہ بیٹھنے دو کہ سردار تم پاس بیٹھیں رذالہ کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولتمند کافروں کو اسی پر یہ آیت آئی۔
۲۹۔ اور کہہ، سچی بات ہے تمہارے رب کی طرف سے، پھر جو کوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے نہ مانے۔ ہم نے رکھی ہے گنہگاروں کے واسطے آگ، جو گھیر رہی ہے ان کو اس کی قناتیں (لپٹیں)۔ اور اگر فریاد کریں گے تو ملے گا پانی جیسا پیپ، بھون ڈالے منہ کو، کیا برا پینا ہے اور کیا برا آرام۔
۳۰۔ جو لوگ یقین لائے اور کیں نیکیاں، ہم نہیں کھوتے (ضائع کرتے) نیگ (اجر) اس کا، جس نے بھلا کیا کام۔
۳۱۔ ایسوں کو باغ ہیں بسنے کے، بہتی ان کے نیچے نہریں، پہناتے ہیں ان کو وہاں کچھ کنگن سونے کے اور پہنتے ہیں کپڑے سبز پتلے اور گاڑھے ریشم کے، لگے بیٹھے ہیں ان میں تختوں پر۔ کیا خوب بدلہ ہے اور کیا خوب آرام۔ ف
۔۔۔
ف: حضرت نے فرمایا سونا اور ریشمی کپڑا مردوں کو ملنا ہے بہشت میں جو کوئی یہاں پہنے یہ چیزیں وہاں نہ پہنے۔
۳۲۔ اور بتا ان کو کہاوت دو مردوں کی، بنا دئیے ہم نے ایک کو دو باغ انگور کے اور گرد ان کے کھجوریں، اور رکھی دونوں کے بیچ میں کھیتی۔ ف
۔۔۔
ف: پہلے وقت میں ایک شخص مالدار مر گیا دو بیٹے رہے برابر مال بانٹ لیا ایک نے زمین خرید کی دو طرف میووں کے باغ لگائے بیچ میں کھیتی اور ندی کاٹ لا کر ان میں ڈالی کہ مینہ نہ ہو تو بھی نقصان نہ آوے اور عمدہ جگہ بیاہ کیا اولاد ہوئی اور نوکر رکھے تدبیر دنیا درست کر کر آسودہ گزران کرنے لگا دوسرے نے سب مال اللہ کی راہ خرچ کیا آپ قناعت سے بیٹھ رہا۔
۳۳۔ دونوں باغ لاتے اپنا میوہ اور نہ گھٹاتے اس میں سے کچھ، اور بہائی ہم نے ان دونوں کے بیچ نہر۔
۳۴۔ اور اس کو پھل ملا پھر بولا اپنے دوسرے سے، جب باتیں کرنے لگا اس سے، مجھ پاس زیادہ ہے تجھ سے مال اور آبرو کے (قدر و منزلت والے، طاقتور) لوگ۔ ف
۔۔۔
ف: مال تو اللہ تعالیٰ کی نعمت تھی پر اترانے سے اور کفر بکنے سے آفت آئی۔
۳۵۔ اور گیا اپنے باغ میں، اور وہ برا کر رہا تھا اپنی جان پر۔ بولا، مجھ کو نہیں آتا خیال میں کہ خراب ہو یہ باغ کبھی۔
۳۶۔ اور مجھ کو خیال میں نہیں آتا کہ قیامت ہونی ہے۔ اور اگر کبھی پہنچایا مجھ کو میرے رب کے پاس، پاؤں گا بہتر اس سے اس طرف پہنچ کر۔ ف
۔۔۔
ف: منکر لوگ جانتے ہیں کہ جیسے دنیا میں عیش کرتے ہیں ساتھ گناہوں کے وہی بات ہو گی آخرت میں سو ہر گز ہونا نہیں۔
۳۷۔ کہا اس کو دوسرے نے جب بات کرنے لگا، کیا تو منکر ہو گیا اس شخص (ذات) سے جس نے بنایا تجھ کو مٹی سے، پھر بوند سے پھر پورا کر دیا تجھ کو مرد۔
۳۸۔ پر میں تو کہوں، وہی اللہ ہے میرا رب اور نہ مانوں ساجھی (شریک) اپنے رب کا کسی کو۔
۳۹۔ اور کیوں نہ جب تو آیا تھا اپنے باغ میں کہا ہوتا؟ جو چاہا اللہ کا، کچھ زور نہیں مگر دیا اللہ کا۔ اگر تو دیکھتا ہے مجھ کو کہ میں کم ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں۔
۴۰۔ تو امید ہے کہ میرا رب دے مجھ کو تیرے باغ سے بہتر، اور بھیج دے اس پر ایک بھبوکا (آفت) آسمان سے، پھر صبح کو رہ جائے میدان پٹپڑ (چٹیل)۔
۴۱۔ یا صبح کو ہو رہے اس کا پانی خشک، پھر نہ سکے تو کہ اس کو ڈھونڈ لائے۔ ف
۔۔۔
ف: رسولﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی کو اپنے گھر بار میں آسودگی نظر آوے تو یہی لفظ کہے ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ کہ ٹوک نہ لگے۔
۴۲۔ اور سمیٹ لیا اس کا سارا پھل، پھر صبح کو رہ گیا ہاتھ نچاتا اس مال پر جو اس میں لگایا تھا، اور وہ ڈھیا (گرا) پڑا تھا اپنی چھتریوں (چھپروں) پر، اور کہنے لگا کیا خوب تھا اگر میں ساجھی (شریک) نہ بناتا اپنے رب کا کسی کو۔ ف
۔۔۔
ف: آخر اس کے باغ پر وہی ہوا جو اس نیک کی زبان سے نکلا رات کو آگ لگ گئی آسمان سے سب جل کر ڈھیر ہو گیا مال خرچ کیا پونجی بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔
۴۳۔ اور نہ ہوئی اس کی جماعت کہ مدد کریں اس کو اللہ کے سوا، اور نہ ہوا وہ کہ بدلہ لے سکے۔
۴۴۔ وہاں سب اختیار ہے اللہ سچے کا۔ اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا بدلہ۔
۴۵۔ اور بتا ان کو کہاوت دنیا کی زندگی کی، جیسے پانی اتارا ہم نے آسمان سے، پھر بھڑ کر نکلا اس سے زمین کا سبزہ، پھر کل کو ہو رہا چورا (بھس) باؤ (ہوا) میں اڑتا۔ اور اللہ کو ہے ہر چیز پر قدرت۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی جب چاہے پھر جل جاوے۔
۴۶۔ مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کے جیتے۔ اور رہنے والی نیکیوں پر بہتر ہے تیرے رب کے ہاں بدلہ اور بہتر ہے توقع۔ ف
۔۔۔
ف: رہنے والی نیکیاں یہ کہ علم سکھا جاوے جو جاری رہے یا نیک رسم چلا جاوے یا مسجد کنواں، سرائے، باغ کھیت وقف کر جاوے یا اولاد کو تربیت کر کر صالح چھوڑ جاوے۔
۴۷۔ اور جس دن ہم چلائیں پہاڑ اور تو دیکھے زمین کھل گئی، اور گھیر بلائیں (اکھٹا کریں) ان کو، پھر نہ چھوڑیں ان میں (کسی) ایک کو۔
۴۸۔ اور سامنے لائے (پیش کئے گئے پاس) تیرے رب کے قطار کر کر (صف در صف)۔ اور (بلا شبہ) آ پہنچے تم ہمارے پاس، جیسا ہم نے بنایا (پیدا کیا) تھا تم کو پہلی بار۔ نہیں (جبکہ) تم بتاتے (سمجھتے) تھے کہ نہ ٹھہرائیں گے ہم تمہارا کوئی وعدہ (پیشی کا وقت)۔ ف
۔۔۔
ف: یہ اللہ تعالیٰ ان کی تنبیہ کو فرما دے گا اور جیسا بنایا تھا پہلی بار یہ بھی ہے کہ بدن میں کچھ زخم و نشان نہ رہے گا ختنہ بھی نہ رہے گا۔
۴۹۔ اور رکھا جائے گا کاغذ (اعمالنامہ)، پھر تو دیکھے گنہگار ڈرتے ہیں اس کے بیچ لکھے سے، اور کہتے ہیں اے خرابی! کیسا ہے یہ لکھا؟ نہ چھوڑے چھوٹی بات نہ بڑی بات، جو اس میں نیں گھیری۔ اور پائیں گے جو کیا ہے سامنے۔ اور تیرا رب ظلم نہ کرے گا کسی پر۔ ف
۔۔۔
ف: رب جو کرے سو ظلم نہیں سب اسی کا مال ہے پر ظاہر میں جو ظلم نظر آوے وہ بھی نہیں کرتا بے گناہ دوزخ میں نہیں ڈالتا اور نیکی ضائع نہیں کرتا جو کوئی کہے گناہ میں ہمارا کیا اختیار سو بات نہیں اپنے دل سے پوچھ لے جب گناہ پر دوڑتا ہے اپنے قصد سے دوڑتا ہے اور جو کوئی کہے قصد بھی اسی نے دیا سو قصد دونوں طرف لگ سکتا ہے اور جو کہے اسی نے ایک طرف لگا دیا سو بندے کے دریافت سے باہر ہے بندے سے معاملت ہے اس کی سمجھ پر بندہ بھی پکڑے گا اسی کو جو اس سے بدی کرے نہ کہے گا کہ اس کا کیا قصور اللہ نے کروایا۔
۵۰۔ اور جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو،، تو سجدہ کر پڑے مگر ابلیس۔ تھا جِنّ کی قسم سے سو نکل بھاگا اپنے رب کے حکم سے۔ سو اب تم ٹھہراتے ہو اس کو اور اس کی اولاد کو رفیق میرے سوا، اور وہ تمہارے دشمن ہیں۔ برا ہاتھ لگا بے انصافوں کو بدلہ۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی اللہ کے بدلے شیطان پکڑا اس کی اولاد ہی ہیں جتنے بت پوجے جاتے ہیں۔
۵۱۔ دکھا نہیں لیا میں نے ان کو بنانا آسمان و زمین کا اور نہ بنانا ان کا۔ اور میں وہ نہیں کہ پکڑوں (بناؤں) بہکانے والوں کو بازو (مددگار)۔
۵۲۔ اور جس دن فرمائے گا، پکارو میرے شریکوں کو جو تم بتاتے تھے، پھر پکاریں گے، پھر وہ جواب نہ دیں گے، اور کر دیں گے ہم ان کے بیچ مرنے کے اسباب۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی خندق آگ سے بھری۔
۵۳۔ اور دیکھیں گے گنہگار آگ کو، پھر اٹکلیں (سمجھیں) گے کہ ان کو پڑنا ہے اس میں، اور نہ پائیں گے اس سے راہ بدلنی (بچنے کا راستہ)۔
۵۴۔ اور پھیر پھیر (طرح طرح سے) سمجھائی ہم نے، اس قرآن سے لوگوں کو ہر ایک کہاوت۔ اور ہے انسان سب چیز سے زیادہ جھگڑنے کو (لو)۔
۵۵۔ اور لوگوں کو اٹکاؤ (روک) جو رہا اس سے کہ یقین لائیں جب پہنچی ان کو راہ کی سوجھ (ہدایت) اور گناہ بخشوائیں اپنے رب سے، سو یہی کہ پہنچے ان پر رسم پہلوں کی، یا آ کھڑا ہو ان پر عذاب سامنے۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی کچھ اور انتظار نہیں رہا مگر یہی کہ پہلوں کی طرح ہلاک ہوں یا قیامت کا عذاب آنکھوں سے دیکھیں۔
۵۶۔ اور ہم جو رسول بھیجتے ہیں، سو خوشی اور ڈر سنانے کو۔ اور جھگڑے لاتے ہیں منکر جھوٹے جھگڑے، کہ ڈگا (گرا) دیں اس سے سچی بات، اور ٹھہرایا ہے میرے کلام کو، اور جو ڈر سنائے، ٹھٹھا (مذاق)۔
۵۷۔ اور کون ظالم اس سے؟ جس کو سمجھایا اس کے رب کے کلام سے، پھر منہ پھیرا اس کی طرف سے، اور بھول گیا جو آگے بھیج چکے ہیں اس کے ہاتھ۔ ہم نے رکھی ہے ان کے دلوں پر اوٹ کہ اس کو نہ سمجھیں، اور ان کے کانوں میں بوجھ (بہرہ پن)۔ اور جو تو ان کو بلائے راہ پر، تو ہرگز نہ آئیں راہ پر اس وقت کبھی۔
۵۸۔ اور تیرا رب بڑا بخشنے والا ہے مہر رکھتا (رحم فرمانے والا)۔ اگر ان کو پکڑے ان کے کِئے پر، تو جلد ڈالے ان پر عذاب۔ پر ان کا ایک وعدہ (وقت مقرر) ہے، کہیں نہ پائیں گے اس سے ورے سرکنے (بچ نکلنے) کو جگہ (راستہ)۔
۵۹۔ اور یہ سب بستیاں جن کو ہم نے کھپا (ہلاک کر) دیا، جب ظالم ہو گئے، اور رکھا تھا ان کے کھپنے (ہلاکت) کا ایک وعدہ (وقت مقرر)۔ ف
۔۔۔
ف: اوپر ذکر ہوا تھا کہ کافر اپنی دنیا پر مغرور مفلس مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر حضرت سے چاہتے تھے کہ ان کو پاس نہ بٹھاؤ تو ہم بیٹھیں اسی پر دو بھائیوں کی کہاوت بیان کی اور ابلیس کا خراب ہونا اپنے غرور سے اب قصہ فرمایا موسیٰ اور خضر کا کہ اللہ کے لوگ اگر بہتر بھی ہوں تو آپ کو کسی سے بہتر نہیں کہتے رسول نے فرمایا کہ موسیٰؑ اپنی قوم میں نصیحت فرماتے تھے ایک شخص نے پوچھا کہ یا موسیٰ تم سے زیادہ بھی کسی کو علم ہے کہا مجھ کو معلوم نہیں یہ بات تحقیق تھی پر اللہ تعالیٰ کی خوشی تھی کہ یوں کہتے مجھ سے بندے اللہ کے بہت ہیں سب کی خبر اسی کو ہے تب وحی آئی کہ ایک بندہ ہمارا ہے دو دریا کے ملاپ پاس اس کو علم زیادہ ہے تجھ سے موسیٰؑ نے دعا کی مجھ کو اس کی ملاقات میسر ہو حکم ہوا کہ ایک مچھلی تل کر ساتھ لو تو جہاں مچھلی گم ہو وہاں وہ لے۔
۶۰۔ اور جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان (خادم) کو، میں نہ ہٹوں گا جب تک نہ پہنچیں دو دریا کے ملاپ (سنگم) تک، یا چلتا جاؤں قرنوں (برسوں)۔ ف
۔۔۔
ف: یہ جوان فرمایا یوشعؑ کو حضرت موسیٰؑ کے خادم خاص تھے پیچھے ان کے روبرو پیغمبر ہوئے اور ان کے بعد خلیفہ ہوئے۔
۶۱۔ پھر جب پہنچے دونوں دریا کے ملاپ (سنگم) تک، بھول گئے اپنی مچھلی، پھر اس نے راہ لی دریا میں سرنگ بنا کر۔ ف
۔۔۔
ف: وہاں پہنچ کر حضرت موسیٰؑ سو رہے اور یوشع دریا سے وضو کرنے لگے وہ تلی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں نکل پڑی اور پانی میں بیٹھ گئی وہاں طاق سا کھلا رہ گیا ان کو دیکھ کر تعجب آیا چاہا کہ جب موسیٰؑ جاگیں تب ان سے کہوں وہ جاگے تو دونوں آگے چل کھڑے ہوئے کہنا بھول گئے۔
۶۲۔ پھر جب آگے چلے، کہا موسیٰ نے اپنے جوان (خادم) کو، لا ہمارے پاس ہمارا کھانا، ہم نے پائی ہے اپنے اس سفر میں تکلیف۔ ف
۔۔۔
ف: حضرت موسیٰؑ پہلے نہیں تھکے جب مطلب چھوٹ رہا اس چلنے سے تھکے۔
۶۳۔ بولا وہ دیکھا تو نے جب ہم نے جگہ پکڑی (ٹھہرے تھے) اس پتھر پاس، سو میں بھول گیا مچھلی۔ اور مجھ کو بھلایا شیطان ہی نے، کہ اس کا مذکور کروں۔ اور وہ کر (بنا) گئی اپنی راہ دریا میں عجب طرح۔
۶۴۔ کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے۔ پھر الٹے (واپس) پھرے اپنے پیر پہچانتے (نقوش قدم پر)۔
۶۵۔ پھر پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں کا جس کو دی تھی (نوازا تھا) ہم نے اپنی مہر اپنے پاس (رحمت خاص) سے، اور سکھایا تھا اپنے پاس سے ایک علم۔ ف
۔۔۔
ف: وہ بندہ خضر تھا مل کر سبب پوچھا آنے کا موسیٰ نے سبب بتایا خضر نے کہا تم کو اللہ نے تربیت فرمائی پر بات یوں ہے کہ اللہ کا ایک علم مجھ کو ہے تجھ کو نہیں ایک تم کو ہے مجھ کو نہیں ایک چڑیا دکھا دی دریا میں سے پانی پیتی کہا سارا علم سب خلق کا اللہ کے علم میں سے اتنا ہے جتنا دریا میں سے چڑیا کے منہ میں۔
۶۶۔ کہا اس کو موسیٰ نے، کہے تو تیرے ساتھ رہوں، اس پر کہ مجھ کو سکھا دے کچھ، جو تجھ کو سکھائی ہے بھلی راہ۔
۶۷۔ بولا تو نہ (کر) سکے گا میرے ساتھ ٹھہرنا (صبر)۔
۶۸۔ اور کیوں کر ٹھہرے (کرو صبر) دیکھ کر ایک چیز کو، جو تیرے قابو میں نہیں اس کی سمجھ؟
۶۹۔ کہا تو پائے گا اگر اللہ نے چاہا مجھ کو ٹھہرنے (صبر کرنے) والا، اور نہ ٹالوں گا تیرا کوئی حکم۔
۷۰۔ بولا، پھر اگر میرے ساتھ رہتا ہے، تو مت پوچھیو مجھ سے کوئی چیز، جب تک میں شروع نہ کروں تیرے آگے اس کا مذکور۔
۷۱۔ پھر دونوں چلے۔ یہاں تک جب چڑھے ناؤ میں، اس کو پھاڑ (اس میں سوراخ کر) ڈالا۔ موسیٰ بولا، تو نے اس کو پھاڑ (اس میں سوراخ کر) ڈالا کہ ڈبو دے اس کے لوگوں کو؟ تو نے کی ایک چیز (حرکت) انوکھی۔ ف
۔۔۔
ف: جب ناؤ پر چڑھنے لگے ناؤ والوں نے خضر کو پہچان کر مفت چڑھا لیا اس احسان کے بدلے یہ نقصان اور تعجب لگا لیکن کنارے کے قریب توڑی لوگ نہ ڈوبے توڑی یہ کہ ایک تختہ نکال ڈالا۔
۷۲۔ بولا، میں نے نہ کہا تھا تو نہ سکے گا میرے ساتھ ٹھہرنا (صبر)؟
۷۳۔ کہا، مجھ کو نہ پکڑ میری بھول پر، اور نہ ڈال مجھ پر میرا کام مشکل۔ ف
۔۔۔
ف: یہ پہلا پوچھنا حضرت موسیٰؑ سے بھول کر ہوا اور دوسرا اقرار کرنے کو اور تیسرا رخصت کو۔
۷۴۔ پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ملے ایک لڑکے سے، اس کو مار ڈالا، موسیٰ بولا، تو نے مار ڈالی ایک جان ستھری (معصوم) بن بدلے کسی جان کے۔ تو نے کی ایک چیز نامعقول۔ ف
۔۔۔
ف: ستھری یعنی بے گناہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہو اس پر کچھ گناہ نہیں ایک گاؤں پاس لڑکے کھیلتے تھے ایک لڑکے کو مار ڈالا اور چل کھڑے ہوئے۔
۷۵۔ بولا، میں نے تجھ کو نہ کہا تھا؟ تو نہ سکے گا میرے ساتھ ٹھہرنا (صبر)۔
۷۶۔ کہا، اگر تجھ سے پوچھوں کوئی چیز اس کے پیچھے (بعد)، پھر مجھ کو ساتھ نہ رکھیو۔ تو اتار چکا میری طرف سے الزام۔
۷۷۔ پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ پہنچے ایک گاؤں کے لوگوں تک، کھانا چاہا وہاں کے لوگوں سے، وہ نہ مانے کہ ان کو مہمان رکھیں، پھر پائی اس میں ایک دیوار گرا چاہتی تھی، اس کو سیدھا کیا۔ بولا موسیٰ اگر تو چاہتا، لیتا اس پر مزدوری۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی گاؤں کے لوگوں نے مسافر کا حق نہ سمجھا کہ مہمانی کریں۔
۷۸۔ کہا، اب جدائی ہے میرے تیرے بیچ۔ اب جتاتا (بتاتا) ہوں تجھ کو پھیر (حقیقت) ان باتوں کا، جس پر تو نہ ٹھہر (صبر کر) سکا۔ ف
۔۔۔
ف: اب کے موسیٰؑ نے جان کر پوچھا رخصت ہونے کو سمجھ لیا کہ یہ علم میرے ڈھب کا نہیں حضرت موسیٰؑ کا علم وہ تھا جس میں پیروی کرے خلق تو ان کا بھلا ہو حضرت خضرؑ کا علم وہ کہ دوسرے کو اس کی پیروی بن نہ آوے۔
۷۹۔ وہ جو کشتی تھی، سو تھی کتنے محتاجوں کی، محنت کرتے تھے دریا میں، سو میں نے چاہا کہ اس میں نقصان (عیب) ڈالوں، اور (کیونکہ) ان کے پر تھا ایک بادشاہ، (جو) لے لیتا ہو کشتی چھین کر۔
۸۰۔ اور جو لڑکا تھا، سو اس کے ماں باپ تھے ایمان پر، پھر ہم ڈرے کہ ان کو عاجز (تنگ) کرے، زبردستی (سرکشی) اور کفر کر کر (سے)۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی اگر وہ بڑا ہوتا تو موذی اور بد راہ ہوتا اس کے ماں باپ اس کے ساتھ خراب ہوتے بعضے آدمی کی بنیاد بری پڑتی ہے اور بعضے کی بھلی جیسے ککڑی کھیرا کوئی بیج میٹھا پڑا کوئی کڑوا اگرچہ اصل میں ککڑی کھیرا میٹھا ہے آدمی کی بنیاد بھی اصل میں بہتر ہے بگڑا کر کوئی پھل کڑوا نکلتا ہے اس کا علم اللہ کو ہے پیغمبر نے فرمایا ہر آدمی کی بنیاد مسلمانی پر ہے یہی معنے سمجھنے چاہئیں۔
۸۱۔ پھر ہم نے چاہا، کہ بدلا دے ان کو ان کا رب، اس سے بہتر ستھرائی میں، اور لگاؤ رکھتا محبت میں۔ ف
۔۔۔
ف: اس ماں باپ کو پیچھے ایک بیٹی ہوئی ایک نبی سے بیاہی گئی اور ایک نبی جنا جس سے ایک امت چلی۔
۸۲۔ اور وہ جو دیوار تھی، سو دو یتیم لڑکوں کی تھی، رہتے اس شہر میں، اور اس کے نیچے مال گڑا (دبا) تھا ان کا، اور ان کا باپ تھا نیک۔ پھر چاہا تیرے رب نے کہ وہ پہنچیں اپنے زور کو (جوان ہوں)، اور نکالیں اپنا مال گڑا (دبا ہوا)، مہربانی سے تیرے رب کی۔ اور میں نے یہ نہیں کیا اپنے حکم سے۔ یہ پھیر (حقیقت) ہے ان چیزوں کا، جن پر تو نہ ٹھہر (صبر کر) سکا۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی جو کام خدا کے حکم سے کرنا ضرور ہوا اس پر مزدوری نہیں لینی۔
فائدہ: آگے قصہ فرمایا: ذوالقرنین بادشاہ کا، یہ بھی یہود کے سکھائے سے مکہ کے لوگ پوچھتے تھے پیغمبر کے آزمانے کو جیسے اصحاب کہف کا احوال۔
۸۳۔ اور تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کو۔ کہہ، اب پڑھتا ہوں تمہارے آگے اس کا کچھ مذکور۔ ف
۔۔۔
ف: اس بادشاہ کو ذوالقرنین کہتے ہیں اس واسطے کہ دنیا کے دونوں سرے پر پھر گیا تھا مشرق اور مغرب پر بعضے کہتے ہیں یہ لقب سکندر کا بعضے کہتے ہیں کوئی بادشاہ پہلے گذرا ہے۔
۸۴۔ ہم نے اس کو جمایا تھا ملک میں، اور دیا تھا ہر چیز کا اسباب۔
۸۵۔ پھر پیچھے پڑا ایک اسباب کے۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی سرانجام کرنے لگا ایک سفر کا۔
۸۶۔ یہاں تک کہ جب پہنچا سورج ڈوبنے کی جگہ، پایا کہ وہ ڈوبتا ہے ایک دلدل کی ندی میں، اور پائے اس کے پاس ایک لوگ (ف ۱)۔ ہم نے کہا، اے ذوالقرنین! یا لوگوں کو تکلیف دے، اور یا رکھ ان میں خوبی (کے ساتھ اچھا رویہ)۔ ف ۳
۔۔۔
ف ۱: ذوالقرنین کو شوق ہوا کہ دیکھے دنیا کی بستی کہاں تک بسی ہے سو مغرب کی طرف اس جگہ پہنچا کہ دلدل تھی نہ گذر آدمی کا نہ کشتی کا اللہ کے ملک کی حد نہ پا سکا۔
ف ۲: اس کو یہ کہا یعنی دونوں بات کی قدرت دی ہر بادشاہ کو ہر حاکم کو قدرت ملتی ہے چاہے خلق کو ستاوے چاہے اپنی خوبی کا ذکر جاری رکھے۔
۸۷۔ بولا، جو کوئی ہو گا بے انصاف سو ہم اس کو مار دیں گے، پھر الٹا (لوٹ) جائے گا اپنے رب کے پاس، وہ مار دے گا اس کو بری مار۔
۸۸۔ اور جو کوئی یقین لایا اور کیا بھلا کام، سو اس کو بدلے میں بھلائی ہے، اور ہم کہیں گے اس کو اپنے کام میں آسانی۔ ف
۔۔۔
ف: حاکم جو عادل ہو اس کی یہی راہ ہے بروں کو سزا دے برائی کی اور پھلوں سے نرمی کرے اس نے یہ بات کہی یعنی یہ چال اختیار کی۔
۸۹۔ پھر لگا ایک اسباب کے پیچھے۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی اور سفر کا سر انجام کیا۔
۹۰۔ یہاں تک جب پہنچا سورج نکلنے کی جگہ، پایا کہ وہ نکلتا ہے ایک لوگوں پر، کہ نہیں بنا دی ہم نے ان کو اس سے ورے کچھ اوٹ۔ ف
۔۔۔
ف: شاید وہ لوگ جنگلی سے ہوں گے کہ گھر بنانا اور چھت ڈالنا ان میں دستور نہ ہو گا۔
۹۱۔ یوں ہی ہے! اور ہمارے قابو میں آ چکی ہے اس کے پاس کی خبر۔ ف
۔۔۔
ف: تاریخ والے شاید اس جگہ کچھ اور کہتے ہوں گے اور فی الحقیقت اتنا ہے جو فرما دیا۔
۹۲۔ پھر لگا ایک اسباب کے پیچھے۔
۹۳۔ یہاں تک کہ جب پہنچا دو آڑ (پہاڑوں) کے بیچ، پائے ان سے ورے (قریب) ایک لوگ، لگتے نہیں کہ سمجھیں ایک بات۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی کسی کی بولی ان سے نہ ملتی تھی اور دو آڑ دو پہاڑ تھے اس ملک میں اور یاجوج ماجوج کے ملک میں وہی اٹکاؤ تھے ان پر چڑھائی نہ تھی مگر بیچ میں کھلا تھا ایک گھاٹا اس راستے یاجوج ماجوج آتے اور لوگوں کو لوٹ مار کر چلے جاتے۔
۹۴۔ بولے اے ذوالقرنین! یہ یاجوج و ماجوج! دھوم اٹھاتے ہیں ملک میں، سو کہے تو ہم ٹھہرا دیں تجھ کو کچھ محصول اس پر کہ بنا دے تو ہم میں ان میں ایک آڑ۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی آپس میں باچھ ڈال کر کچھ مال جمع کر دیں اس کو دیکھا بادشاہ صاحب فوج و اسباب صاحب حکم جانا کہ اس سے یہ کام ہو سکے گا، یاجوج ماجوج عرب کی زبان میں نام ہے ایک قوم کا دو دادوں کی اولاد ہیں ایک یاجوج ایک ماجوج نہیں معلوم کہ اس ملک میں ان کا کیا نام تھا ترکوں کے ملک سے لگتے تھے اور قوم میں ترکوں کے بھائی تھے۔
۹۵۔ بولا جو مقدور دی (عطا کر رکھا ہے) مجھ کو میرے رب نے وہ بہتر ہے، سو مدد کرو میری محنت میں، بنا دوں تمہارے اور ان کے بیچ ایک دھابا (اوٹ)۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی مال میرے پاس بہت ہے مگر ہاتھ پاؤں سے ہمارے ساتھ تم بھی محنت کرو۔
۹۶۔ پکڑاؤ مجھ کو تختے لوہے کے۔ یہاں تک کہ جب برابر کر دیا دو پھانکوں (پاٹوں) تک پہاڑ کے، کہا، دھَونکو۔ یہاں تک جب کر دیا اس کو آگ، کہا، لاؤ میرے پاس کہ ڈالوں اس پر پگھلا تانبا۔ ف
۔۔۔
ف: اول لوہے کے بڑے بڑے تختے بنائے ایک پر ایک ایک دھرتا گیا کہ دو پہاڑوں کے برابر ملا دیا پھر تانبا پگھلا کر اس کے اوپر سے ڈالا وہ درزوں میں بیٹھ کر جم گیا سب مل کر ایک پہاڑ سا ہو گیا ہمارے پیغمبر پاس ایک شخص نے کہا میں سد تک گیا ہوں اور اس کو دیکھا ہے فرمایا اس کی طرح بیان کر اس نے کہا جیسے چار خانہ لنگی فرمایا تو سچا ہے وہ لوہے کے تختے سیاہ لگتے ہیں اور درزوں میں لکیر تانبے کی سرخ۔
۹۷۔ پھر نہ سکے کہ اس پر چڑھ آئیں اور نہ سکے اس میں (نقب) سوراخ کرنا۔ ف
۔۔۔
ف: ان میں ایسا بادشاہ صاحب عزم و صاحب حکم اس کام پر لگا نہیں اور تھوڑے لوگوں سے ہو نہیں سکتا۔
۹۸۔ بولا یہ ایک مہر (مہربانی) ہے میرے رب کی، پھر جب آئے وعدہ میرے رب کا، گرا دے اس کو (ریزہ ریزہ) ڈھا کر۔ اور ہے وعدہ میرے رب کا سچا۔ ف
۔۔۔
ف: حضرت کے وقت میں روپے برابر سوراخ اس میں پڑ گیا اور حضرت عیسیٰؑ کے وقت ان کا نکلنا وعدہ ہے سب دنیا کو لڑائی سے عاجز کریں گے آسمان پر تیر چلاویں گے وہ لہو بھرے آویں گے آخر حضرت عیسیٰؑ کی بد دعا سے یکبار سارے مر رہیں گے ذوالقرنین ایسی محکم دیوار پر بھی منتظر تھا کہ آخر یہ بھی فنا ہو گی نہ جیسے وہ باغ والا اپنے باغ پر مغرور۔
۹۹۔ اور چھوڑ دیں گے ہم خلق کو اس دن ایک دوسرے میں دھنستے، اور پھونک مارے صور میں، پھر جمع کر لائیں ہم ان کو سارے۔ ف
۔۔۔
ف: یہ قیامت کے دن ہو گا جو رب کا وعدہ ہے۔
۱۰۰۔ اور دکھا دیں ہم دوزخ اس دن کافروں کو سامنے۔
۱۰۱۔ جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا تھا میری یاد سے، اور نہ سکتے تھے سننا۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی اپنی عقل کی آنکھ نہ تھی کہ قدرتیں دیکھ کر یقین لاویں اور کسی کی بات نہ سنتے ضد سے کہ سمجھائے سمجھیں۔
۱۰۲۔ اب کیا سمجھے ہیں منکر؟ کہ ٹھہرا دیں میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی۔ ہم نے رکھی ہے دوزخ منکروں کی مہمانی۔
۱۰۳۔ کہہ ہم بتا دیں تم کو، کن کے کئے (اعمال) بہت اکارت (برباد)؟
۱۰۴۔ جن کی دوڑ بھٹک رہی ہے دنیا کی زندگی میں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ خوب بناتے (کرتے) ہیں کام۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی جو دوڑ کی سو واسطے دنیا کے اور آخرت ویران رکھی۔
۱۰۵۔ وہی ہیں جو منکر ہوئے اپنے رب کی نشانیوں سے اور اس کے ملنے سے، سو مٹ گئے ان کے کئے (اعمال)، پھر نہ کھڑی کریں گے ہم ان کے واسطے قیامت کے دن تول۔ ف
۔۔۔
ف: وہ آخرت کو مانتے تھے تو اس کے واسطے کچھ کام نہ کیا پھر ایک پلہ کیا تولے۔
۱۰۶۔ یہ بدلہ ہے ان کا دوزخ، اس پر کہ منکر ہوئے، اور ٹھہرائیں میری باتیں اور میرے رسول ٹھٹھا (مذاق)۔
۱۰۷۔ جو لوگ یقین لائے ہیں اور کئے ہیں بھلے کام، ان کو ہیں ٹھنڈی چھاؤں کے باغ، مہمانی۔
۱۰۸۔ رہا کریں ان میں، نہ چاہیں وہاں سے جگہ بدلنی۔
۱۰۹۔ تو کہہ، اگر دریا سیاہی ہو کہ لکھے میرے رب کی باتیں، بیشک دریا نبڑ چکے (ختم ہو جائے) ابھی نہ نبڑیں (ختم ہوں) میرے رب کی باتیں، اور اگر دوسرا بھی لا دیں ہم ویسا اس کی مدد کو۔
۱۱۰۔ تو کہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم، حکم آتا ہے مجھ کو کہ تمہارا صاحب ایک صاحب ہے۔ پھر جس کو امید ہو ملنے کی اپنے رب سے، سو کرے کچھ کام نیک، اور ساجھا نہ رکھے اپنے رب کی بندگی میں کسی کا۔
٭٭٭
۱۹۔ مریم
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا (ہے)۔
۱۔ کاف۔ ھا۔ یا۔ عین۔ صاد۔
۲۔ یہ مذکور (ذکر) ہے تیرے رب کی مہر (رحمت) کا اپنے بندے زکریا پر۔
۳۔ جب پکارا اپنے رب کو چھپی پکار (چپکے چپکے)۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی دل میں دعا کی یا پکارا ہو اکیلے مکان میں چھپے پکارا اس واسطے کہ بوڑھی عمر میں بیٹا مانگتے تھے اگر نہ ملے تو لوگ ہنسیں۔
۴۔ بولا، اے رب میرے! بوڑھی ہو گئیں ہڈیاں اور ڈیگ (بھڑک) نکلی سر سے بڑھاپے کی (سفیدی)، اور تجھ سے مانگ کر اے رب! میں محروم نہیں رہا۔ ف
۔۔۔
ف: ڈیگ بڑھاپے کی یعنی بال سفید۔
۵۔ اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے، اور عورت میری بانجھ ہے، سو بخش مجھ کو اپنے پاس سے ایک کام اٹھانے والا (وارث)۔ ف
۔۔۔
ف: بھائی بند راہ نیک نہ بگاڑیں یہ ڈر ہو گا۔
۶۔ جو میری جگہ بیٹھے، اور یعقوب کی اولاد کے، اور کر اس کو، اے رب! من مانتا (پسندیدہ)۔ ف
۔۔۔
ف: اللہ تعالیٰ نے ان کو قائم مقام ان کا اور اگلے پیغمبروں کا دیا لیکن روبرو ہی قائم مقام ان کے پیچھے نہیں رہا۔
۷۔ اے زکریا! ہم تجھ کو خوشی سنائیں ایک لڑکے کی جس کا نام یحییٰ۔ نہیں کیا ہم نے پہلے اس نام کا کوئی۔
۸۔ بولا، اے رب! کہاں سے ہو گا مجھ کو لڑکا اور میری عورت بانجھ ہے، اور میں بوڑھا ہو گیا یہاں تک کہ اکڑ گیا۔ ف
۔۔۔
ف: انوکھی چیز مانگتے تعجب نہیں آیا جب سنا کہ ہو گا تب تعجب کیا۔
۹۔ کہا یوں ہی! فرمایا تیرے رب نے، وہ مجھ پر آسان ہے، اور تجھ کو بنایا میں نے پہلے سے، اور تو نہ تھا کچھ چیز۔ ف
۔۔۔
ف: یہ فرشتے نے کہا۔
۱۰۔ بولا اے رب! ٹھہرا (مقرر کر) دے مجھ کو کچھ نشانی، فرمایا تیری نشانی یہ کہ بات نہ کرے تو لوگوں سے تین رات تک (حالانکہ تو ہے) چنگا بھلا۔
۱۱۔ پھر نکلا اپنے لوگوں پاس حجرے سے تو اشارے سے کہا ان کو، کہ یاد کرو (اللہ کو) صبح و شام۔ ف
۔۔۔
ف: منہ سے نہ بول سکے نشان ہوا کہ وہ وقت آیا۔
۱۲۔ اے یحییٰ اٹھا (تھام) لے کتاب زور (مضبوطی) سے۔ اور دیا (نوازا) ہم نے اس کو حکم کرنا لڑکپن میں۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی علم کتاب لوگوں کو سکھانے لگا اپنے باپ کی جگہ زور سے یعنی باپ ضعیف تھے اور یہ جوان۔
۱۳۔ اور شوق دیا اپنی طرف سے اور ستھرائی، اور تھا پرہیزگار۔ ف
۔۔۔
ف: ایک لڑکے نے ان کو بلایا کھیلنے کو کہا ہم اس واسطے نہیں بنے۔
۱۴۔ اور نیکی کرتا اپنے ماں باپ سے، اور نہ تھا زبردست بے حکم۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی آرزو کے لڑکے ایسے ہوتے ہیں وہ نہ تھا۔
۱۵۔ اور سلام ہے اس پر، جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے، اور جس دن اٹھ کھڑا ہو جی کر۔ ف
۔۔۔
ف: اللہ جو بندے پر سلام کہے اس کے معنی یہ کہ اس پر کچھ پکڑ نہیں۔
۱۶۔ اور مذکور (ذکر) کر کتاب میں مریم کا۔ جب کنارے (کنارہ کش) ہوئی اپنے لوگوں سے ایک شرقی مکان میں۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی غسل حیض کرنے کو یہی پہلا حیض تھا تیرہ برس کی عمر تھی یا پندرہ برس کی کنارے ہوئیں شرم سے وہ مکان مشرق کو تھا، اب نصاریٰ قبلہ کرتے ہیں شرق کو۔
۱۷۔ پھر پکڑ لیا ان سے ورے (کی طرف) ایک پردہ۔ پھر بھیجا ہم نے اس پاس اپنا فرشتہ، پھر بن آیا اس کے آگے آدمی پورا۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی جوان خوش صورت۔
۱۸۔ بولی مجھ کو رحمٰن کی پناہ تجھ سے، اگر تو ڈر رکھتا ہے۔
۱۹۔ بولا، میں تو بھیجا ہوں تیرے رب کا۔ کہ دے جاؤں تجھ کو ایک لڑکا ستھرا۔
۲۰۔ بولی کہاں سے ہو گا لڑکا، اور چھوا نہیں مجھ کو آدمی نے اور میں بدکار کبھی نہ تھی۔
۲۱۔ بولا یونہی! فرمایا تیرے رب نے، وہ مجھ پر آسان ہے۔ اور اس کو ہم کیا چاہیں لوگوں کی نشانی اور مہر (رحمت) ہماری طرف سے۔ اور ہے یہ کام ٹھہر چکا (مقرر شدہ)۔ ف
۔۔۔
ف: نشانی لوگوں کو یعنی بن باپ کا لڑکا پیدا ہو گا اللہ کی قدرت ہے۔
۲۲۔ پھر پیٹ میں لیا اس کو (حاملہ ہوئی)، پھر کنارے ہوئی اس کو لے کر ایک پرے مکان میں (دور دراز جگہ)۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی جننے کے وقت۔
۲۳۔ پھر لے آیا اس کو جننے کا درد ایک کھجور کی جڑ میں (کے نیچے)۔ بولی، کس طرح میں مر چکتی اس سے پہلے اور ہو جاتی بھولی بسری۔
۲۴۔ پھر آواز دی اس کو اس کے نیچے سے کہ غم نہ کھا، (رواں) کر دیا تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ۔ ف
۔۔۔
ف: آواز دی فرشتے نے اور زمین میں ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔
۲۵۔ اور ہلا اپنی طرف سے کھجور کی جڑ، اس سے گریں گی تجھ پر پکی کھجوریں۔
۲۶۔ اب کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ۔ سو کبھی تو دیکھے کوئی آدمی، تو کہیو، میں نے مانا ہے رحمٰن کا ایک روزہ، سو بات نہ کروں گی آج کسی آدمی سے۔ ف
۔۔۔
ف: ان کے دین میں یہ منت درست تھی کہ نہ بولنے کا بھی روزہ رکھتے ہمارے دین میں یہ منت درست نہیں۔
۲۷۔ پھر لائی اس کو اپنے لوگوں پاس گود میں۔ بولے، اے مریم! تو نے کی یہ چیز طوفان (بڑا پاپ)۔
۲۸۔ اے بہن ہارون کی! نہ تھا تیرا باپ برا آدمی اور نہ تھی تیری ماں بدکار۔ ف
۔۔۔
ف: بہن ہارون کی یعنی نبی ہارون کی بہن دادے کا نام بولتے ہیں قوم کو جیسی عاد و ثمود یہ تھیں اولاد حضرت ہارون میں۔
۲۹۔ پھر ہاتھ سے بتایا (اشارہ کیا) اس لڑکے کو۔ بولے، ہم کیوں کر بات کریں اس شخص سے کہ وہ ہے گود میں لڑکا۔
۳۰۔ وہ بولا، میں بندہ ہوں اللہ کا۔ مجھ کو اس نے کتاب دی، اور مجھ کو نبی کیا۔
۳۱۔ اور بنایا مجھ کو برکت والا، جس جگہ میں ہوں۔ اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکوٰۃ کی جب تک میں رہوں جیتا۔
۳۲۔ اور سلوک والا اپنی ماں سے، اور نہیں بنایا مجھ کو زبردست بدبخت۔
۳۳۔ اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، اور جس دن مروں اور جس دن کھڑا ہوں جی کر۔
۳۴۔ یہ ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا! سچی بات جس میں جھگڑتے ہیں۔
۳۵۔ اللہ ایسا نہیں کہ رکھے اولاد، وہ پاک ذات ہے۔ جب ٹھہراتا (فیصلہ کر لیتا) ہے کچھ کام، یہی کہتا ہے اس کو کہ ’ ہو ‘ وہ ہوتا ہے۔
۳۶۔ اور کہا، بیشک اللہ ہے رب میرا اور رب تمہارا، سو اس کی بندگی کرو، یہ ہے راہ سیدھی۔
۳۷۔ پھر کئی راہ ہو گئے فرقے ان میں سے۔ سو خرابی ہے منکروں کو، جس وقت دیکھیں گے ایک دن بڑا۔
۳۸۔ کیا سنتے دیکھتے ہوں گے جس دن آئیں گے ہمارے پاس، بے انصاف آج کے دن صریح بھٹکتے (کھلی گمراہی میں) ہیں۔
۳۹۔ اور ڈر سنائے ان کو اس پچھتاوے کے دن کا، جب فیصلہ ہو چکے گا کام (سارے معاملے کا)، اور وہ بھول رہے (غفلت میں) ہیں اور یقین نہیں لاتے۔ ف
۔۔۔
ف: جب تک حشر کا دن ہے دوزخ سے مسلمان نکل نکل بہشت میں جاویں گے تب تک کافر بھی توقع میں ہوں گے پھر موت کی مینڈھے کی صورت میں لا کر دوزخ بہشت کے بیچ سب کو دکھا کر ذبح کریں گے اور پکاریں گے کہ بہشتی بہشت میں اور دوزخی دوزخ میں رہ پڑے ہمیشہ کو وہ دن ہے کہ کافر نا امید ہوں گے۔
۴۰۔ ہم وارث ہوں گے زمین کے اور جو کوئی ہے زمین پر، اور ہماری طرف پھر آئیں گے۔
۴۱۔ اور مذکور کر کتاب میں ابراہیم کا۔ بیشک تھا وہ سچا نبی۔
۴۲۔ جب کہا اپنے باپ کو، اے باپ میرے! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے نہ دیکھے، اور نہ کام آئے تیرے کچھ؟
۴۳۔ اے باپ میرے! مجھ کو آئی ہے خبر ایک چیز کی جو تجھ کو نہیں آئی، سو میری راہ چل، سجھا دوں تجھ کو راہ سیدھی۔
۴۴۔ اے باپ میرے! مت پوج شیطان کو۔ بیشک شیطان ہے رحمٰن کا بے حکم۔
۴۵۔ اے باپ میرے! میں ڈرتا ہوں کہیں آ لگے تجھ کو ایک آفت رحمٰن سے، پھر تو ہو جائے شیطان کا ساتھی۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی کفر کے وبال سے کچھ آفت آوے اور تو مدد مانگنے لگے شیطان سے یعنی بتوں سے اکثر لوگ ایسے ہی وقت شرک کرتے ہیں۔
۴۶۔ وہ بولا، کیا تو پھرا ہوا ہے میرے ٹھاکروں (معبودوں) سے، اے ابراہیم! اگر تو نہ چھوڑے گا، تو تجھ کو پتھراؤ سے ماروں گا، اور مجھ سے دور جا ایک مدت۔
۴۷۔ کہا تیری سلامتی رہے۔ میں گناہ بخشواؤں گا تیرا اپنے رب سے۔ بیشک وہ ہے مجھ پر مہربان۔ ف
۔۔۔
ف: تیری سلامتی رہے یہ رخصت کا سلام ہے معلوم ہوا اگر دین کی بات سے ماں باپ ناخوش ہوں اور گھر سے نکالنے لگیں اور بیٹا بات میٹھی کہہ کر نکل جاوے وہ بیٹا عاق نہیں اور گناہ بخشوانے کو انہوں نے وعدہ کیا تھا جب اللہ کی مرضی نہ دیکھی تب موقوف کیا۔
۴۸۔ اور کنارہ پکڑتا ہوں تم سے اور جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا، اور پکاروں گا اپنے رب کو، امید ہے کہ نہ رہوں گا اپنے رب کو پکار کر محروم۔
۴۹۔ پھر جب کنارے ہوا ان سے اور جن کو وہ پوجتے تھے اللہ کے سوا، بخشا ہم نے اس کو اسحٰق اور یعقوب۔ اور دونوں کو نبی کیا۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت کی اپنوں سے دور پڑے اللہ نے ان سے بہتر اپنے دئیے انسیت کو یہاں اسمعیلؑ کا نام نہ فرمایا کہ وہ ان کے پاس نہیں رہے۔
۵۰۔ اور دیا ہم نے ان کو اپنی مہر (رحمت) سے، اور رکھا ان کے واسطے سچا بول اونچا۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی ہمیشہ لوگ ان کی تعریف کرتے رہیں اور ان پر رحمت بھیجتے۔
۵۱۔ اور مذکور (ذکر) کر کتاب میں موسیٰ کا۔ وہ تھا چنا ہوا اور تھا رسول نبی۔ ف
۔۔۔
ف: جس کو اللہ سے وحی آئی وہ نبی ان میں جو خالص ہیں امت رکھتے ہیں یا کتاب وہ رسول ہیں۔
۵۲۔ اور پکارا ہم نے اس کو داہنی طرف سے طور پہاڑ کے، اور نزدیک بلایا اس کو بھید کہنے کو۔ ف
۔۔۔
ف: ان سے کلام ہوا بیچ میں فرشتہ نہ تھا۔
۵۳۔ اور بخشا ہم نے اس کو اپنی مہر (رحمت) سے بھائی اس کا ہارون نبی۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی ان کے ساتھ مددگار ہوئے۔
۵۴۔ اور مذکور (ذکر) کر کتاب میں اسماعیل کا۔ وہ تھا وعدے کا سچا اور تھا رسول نبی۔ ف
۔۔۔
ف: ایک شخص سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک تو آوے میں اسی جگہ رہوں گا وہ ایک برس نہ آیا وہاں ہی رہے۔
۵۵۔ اور حکم کرتا تھا اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا۔ اور تھا اپنے رب کے ہاں پسند۔
۵۶۔ اور مذکور (ذکر) کر کتاب میں ادریس کا۔ وہ تھا سچا نبی۔
۵۷۔ اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان (مقام) پر۔ ف
۔۔۔
ف: لکھا ہے کہ حضرت ادریسؑ پہلے تھے حضرت نوحؑ سے حساب ستاروں کی چال کا اور سینا کہتے ہیں ان سے سیکھا خلق نے ملک الموت ان سے آشنا تھا ایک بار آزمانے کو اپنی جان بدن سے نکلوائی اور پھر ڈال دی اور بہشت کی سیر مانگی پھر وہاں رہ گئے اللہ کے حکم سے حضرت سے ملے تھے معراج کی رات آسمان پر اور بعضے کہتے ہیں حضرت الیاسؑ کا لقب ہے ادریس یہ بنی اسرائیل میں پیغمبر ہوئے تھے خضر کی طرح یہ بھی زندہ رہ گئے ہیں۔
۵۸۔ وہ لوگ ہیں جن پر نعمت دی اللہ نے پیغمبروں میں، آدم کی اولاد میں، اور ان میں جن کو لاد لیا ہم نے نوح کے ساتھ، اور ابراہیم کی اولاد میں، اور اسرائیل کی، اور ان میں جن کو ہم نے سوجھ دی اور پسند کیا۔ جب ان کو سنائے آیتیں رحمٰن کی، گرتے ہیں سجدے میں، اور روتے۔ (سجدہ)
۵۹۔ پھر ان کی جگہ آئے نا خلف (نا اہل)، گنوائی نماز اور پیچھے پڑے مزوں کے، سو آگے ملے گی گمراہی۔
۶۰۔ مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کی نیکی، سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں، اور ان کا حق نہ رہے گا کچھ۔
۶۱۔ باغوں میں بسنے کے، جن کا وعدہ دیا ہے رحمٰن نے اپنے بندوں کو، بن دیکھے۔ بیشک ہے اس کے وعدہ پر پہنچنا۔
۶۲۔ نہ سنیں گے وہاں بک بک (بے ہودہ بات)، سوا سلام۔ اور ان کو ہے ان کی روزی وہاں صبح اور شام۔ ف
۔۔۔
ف: بک بک نہ سنیں گے اور سلام علیک کی آواز بلند سنیں گے۔
۶۳۔ وہ بہشت ہے! جو میراث دیں گے ہم اپنے بندوں میں، جو کوئی ہو گا پرہیزگار۔ ف
۔۔۔
ف: میراث آدم کی کہ اول ان کو بہشت ملی ہے۔
۶۴۔ اور ہم نہیں اترتے مگر حکم سے تیرے رب کے۔ اسی کا ہے، جو ہمارے آگے اور جو ہمارے پیچھے، اور جو اس کے بیچ۔ اور تیرا رب نہیں بھولنے والا۔ ف
۔۔۔
ف: ایک بار جبرئیلؑ کئی روز نہ آئے جب آئے حضرت نے کہا تم ہر روز کیوں نہیں آتے اللہ تعالیٰ نے یہ کلام سکھایا جبرئیل کو کہ جواب یوں کہو کلام ہے اللہ کا جبرئیل کی طرف سے جیسا (آیت) ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘۔ ہم کو سکھایا ہمارے آگے پیچھے کہا آسمان اور زمین کو اترتے ہوئے زمین آگے آسمان پیچھے چڑھتے ہوئے وہ پیچھے یہ آگے۔
۶۵۔ رب آسمانوں کا اور زمین کا اور جو ان کے بیچ ہے، سو اسی کی بندگی کر اور ٹھہرا (ثابت قدم) رہ اس کی بندگی پر۔ کوئی پہچانتا ہے تو اس کے نام (برابر) کا۔ ف
۔۔۔
ف: اللہ کے نام سب اس کی صفت ہیں یعنی کوئی ہے اس صفت کا۔
۶۶۔ اور کہتا ہے آدمی، کیا جب میں مر گیا پھر نکلوں گا جی کر؟
۶۷۔ کیا یاد نہیں رکھتا آدمی کہ ہم نے اس کو بنایا پہلے سے، اور وہ کچھ چیز نہ تھا؟
۶۸۔ سو قسم ہے تیرے رب کی! ہم گھیر بلائیں گے ان کو اور شیطانوں کو، پھر سامنے لا دیں گے گرد دوزخ کے گھٹنوں پر گرے۔ ف
۔۔۔
ف: مارے دہشت کے کھڑے سے گر پڑیں گے اور چین سے بیٹھ نہ سکیں گے یہی ہوا گھٹنوں پر گرنا۔
۶۹۔ پھر جدا کریں گے ہم ہر فرقہ میں سے، جونسا ان میں سخت رکھتا تھا رحمٰن سے اکڑ۔
۷۰۔ پھر ہم کو خوب معلوم ہیں جو قابل ہیں اس میں پیٹھنے (پہنچنے) کے۔
۷۱۔ اور کوئی نہیں تم میں، جو نہ پہنچے گا اس پر۔ ہو چکا تیرے رب پر ضرور مقرر (طے شدہ)۔
۷۲۔ پھر بچا دیں گے ہم ان کو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اسی میں اوندھے گرے۔ ف
۔۔۔
ف: بہشت کو راہ نہیں مگر دوزخ کے منہ میں تنور کی شکل دوزخ ہے منہ اس کا دنیا سے بڑا کنارے سے کنارے تک راہ پڑی ہے بال برابر تیز جیسے تلوار اور کانپتے ایمان والے اس پر سے سلامت گذر جاویں گے اور گنہگار گر پڑیں گے پھر موافق عمل کئی روز کے نکلیں گے اور شفاعت سے اور ارحم الراحمین کی مہر سے آخر جس نے کلمہ کہا ہے سچے دل سے سب نکلیں گے اور کافر رہ جاویں گے پھر اس کا منہ بند ہو گا۔
۷۳۔ اور جب سنائے ان کو ہماری آیتیں کھلی، کہتے ہیں جو لوگ منکر ہیں ایمان والوں کو، دونوں فرقوں میں کس کا مکان (مقام) بہتر ہے اور اچھی لگتی ہے مجلس۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی دنیا کی رونق میں مقابلہ دیتے ہیں۔
۷۴۔ اور کتنی کھپا (ہلاک کر) چکے ہم پہلے ان سے سنگتیں (قومیں)، اور ان سے بہتر تھے اسباب میں اور نمود میں۔
۷۵۔ تو کہہ، جو کوئی رہا بھٹکتا، سو چاہئیے اس کو کھینچ لے جائے رحمٰن لمبا (ف ۱) (ڈھیل دے زیادہ)، یہاں تک کہ جب دیکھیں گے جو وعدہ پاتے ہیں یا آفت اور یا قیامت۔ سو تب معلوم کریں گے کس کا برا درجہ ہے اور کس کی فوج کمزور ہے۔ ف ۲
۔۔۔
ف ۱: یعنی بہکاوے میں جانے دے کیونکہ دنیا جانچنے کی جگہ ہے بھلا برا پاویں گے آخرت میں یہاں نیک و بد بھلائی برائی میں شامل ہیں۔
ف ۲: فوج یعنی مددگار کافر اپنا مددگار سمجھتے ہیں بتوں کو اور ایمان والے اللہ کو۔
۷۶۔ اور بڑھاتا جائے اللہ سوجھے ہوؤں (ہدایت یافتہ) کو سوجھ (ہدایت)۔ اور رہنے والی نیکیاں بہتر رکھتی ہیں تیرے رب کے ہاں بدلہ، اور بہتر پھر جانے کو جگہ۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی دنیا کی رونق رب کے ہاں کام کی نہیں نیکیاں رہیں گی اور دنیا نہ رہے گی۔
۷۷۔ بھلا تو نے دیکھا، جو منکر ہوا ہماری آیتوں سے، اور کہا مجھ کو ملنا ہے مال اور اولاد۔ ف
۔۔۔
ف: ایک کافر مالدار ایک لوہار مسلمان کو کہنے لگا تو مسلمانی سے منکر ہو تو تیری مزدوری دوں اس نے کہا اگر تو مرے اور پھر جیوے تو بھی میں منکر نہ ہوں اس نے کہا اگر پھر جیوں گا تو بھی مال اور اولاد وہاں بھی ہو گا تجھ کو مزدور وہاں دے دوں گا ایس پر یہ فرمایا یعنی وہاں دولت ملتی ہے ایمان سے کافر چاہے کہ یہاں کی دولت وہاں ملے سو نہیں۔
۷۸۔ کیا جھانک آیا غیب کو یا لے رکھا ہے رحمٰن کے ہاں اقرار؟
۷۹۔ یوں (ہر گز) نہیں! ہم لکھ رکھیں گے جو کہتا ہے اور بڑھاتے جائیں گے اس کو عذاب میں لمبا (اور زیادہ)۔
۸۰۔ اور ہم لے لیں گے اس کے مرے پر جو بتاتا ہے، اور آئے گا ہم پاس اکیلا۔ ف
۔۔۔
ف: جو بتاتا ہے یعنی مال اور اولاد اس کافر کے دونوں بیٹے مسلمان ہوئے۔
۸۱۔ اور پکڑا ہے لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو پوجنا، کہ وہ ہوں ان کی مدد۔
۸۲۔ یوں (ہر گز) نہیں! وہ منکر ہوں گے ان کی بندگی سے اور ہو جائیں گے ان کے مخالف۔
۸۳۔ تو نے نہیں دیکھا، کہ ہم نے چھوڑ رکھے ہیں شیطان منکروں پر؟ اچھلتے ہیں ان کو ابھار کر۔
۸۴۔ سو تو جلدی نہ کر ان پر۔ ہم تو پوری کرتے ہیں ان کی گنتی۔
۸۵۔ جس دن ہم اکھٹا کر لائیں گے پرہیزگاروں کو رحمٰن کے پاس مہمان بلائے۔
۸۶۔ اور ہانک لے جائیں گے گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسے۔
۸۷۔ نہیں اختیار رکھتے لوگ سفارش کا، مگر جس نے لے لیا رحمٰن سے اقرار۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی جس کو اللہ نے وعدہ دیا وہی سفارش کرے گا۔
۸۸۔ اور لوگ کہتے ہیں، رحمٰن رکھتا ہے اولاد۔
۸۹۔ تم آ گئے ہو بھاری چیز میں۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی بھاری گناہ۔
۹۰۔ ابھی آسمان پھٹ پڑیں اس بات سے اور ٹکڑے ہو زمین اور گر پڑیں پہاڑ ڈھے (پارہ پارہ ہو) کر،
۹۱۔ اس پر کہ پکارتے ہیں رحمٰن کے نام پر اولاد۔
۹۲۔ اور نہیں بن آتا رحمٰن کو کہ رکھے اولاد۔
۹۳۔ کوئی نہیں آسمان و زمین میں جو نہ آئے رحمٰن کا بندہ ہو کر۔
۹۴۔ اس پاس ان کا شمار ہے اور گن رکھی ہے ان کی گنتی۔
۹۵۔ اور ہر کوئی ان میں آئے گا اس پاس قیامت کے دن اکیلا۔
۹۶۔ جو یقین لائے ہیں اور کی ہیں نیکیاں، ان کو دے گا رحمٰن محبت۔ ف
۔۔۔
ف: یعنی ان سے محبت کرے گا یا ان کے دل میں اپنی محبت پیدا کرے گا یا خلق کے دل میں ان کی محبت۔
۹۷۔ سو ہم نے آسان کیا یہ قرآن تیری زبان میں، اس واسطے کہ خوشی سنائے تو ڈر والوں کو اور ڈرائے جھگڑا لو لوگوں کو۔
۹۸۔ اور کتنی کھپا (ہلاک کر) چکے ہم ان سے پہلے سینتیں (قومیں)، آہٹ پاتا ہے تو ان میں کسی کا یا سنتا ہے ان کی بھنک۔
٭٭٭