اردو محفل ادبیات عالیہ کی ایک اور پیشکش
نو طرزِ مرصّع
قصہ چہار درویش کا ایک اردو روپ
عطا خاں تحسین
1846ء کی مطبوعہ کتاب جسے ریختہ کی ای بکس سے گُلِ یاسمین نے ٹائپ کیا
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
ابتدائیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نظم:
کہاں تاب و طاقت کہ میری زبان
کرے حق تعالیٰ کی قدرت بیان
وہ صنعت ہے اس کی زمین تا فلک
کہ حیرت میں ہیں جملہ جن و ملک
زبان مو بمو ہو اگر تن میرا
سر مو نہ ہو حمد اس کی ادا
مگر اس گدا کی یہی ہے صدا
میں ہوں اس کا بندہ وہ میرا خدا
پھر اس کے سوا اور جو ہے کلام
نبیؐ و علیؓ پر درود و سلام:
پوشیدہ نہ رہے کہ سوائے تذکرہ الٰہی سب گفتگو واہی ہے مگر حکایات عشق انگیز اور روایات درد آمیز رسیدگان عالم امکان کو نیرنگی روزگار سے گوش گزار اور صنائع بدائع قادر برحق سے خبردار کرتے ہیں اس لئے اس خاک پائے درویشان حق بین محمدؐ عوض زریں نے قصہ چار درویش زبان فارسی میں ترتیب دیا اور عبارت شگفتہ سے گلدستہ مجالس کیا۔ راجہ صاحب سراپا حلم حاتم و تمکین راجہ رام دین کہ اوس عالی منش کے برادر بزرگ خداوند عدل دوا و راجہ سیتل پرشاد اور برادمبیانہ فیاض زمانہ راجہ بھوانی پرشاد ادام اللہ اقبالہم ہیں۔ اس نحیف کی تصنیف مطالعہ فرماتے اور حظ وافر اٹھاتے۔ ایک روز فرمایا کہ اگر کلام زبان ہندی میں انتظام پائے سامع کو بسہولت سرور آئے۔ میں نے خوشنودی آقا کو بہبودی دنیا و عقبیٰ جان کر سر رشتۂ ادب کو ہاتھ سے نہ دیا اور زبان اردو میں قلمبند کیا۔
اشعار:
الٰہی رہے وہ سدا کامیاب
کہ جس کی بدولت بنی یہ کتاب
جوان و جوان بخت و روشن جبین
گرامی منش راجۂ رام دین
ہوئی اس کی خواہش کہ یہ داستان
عبارات رنگیں سے ہو گلستان
بنا کر یہ گلدستہ روزگار
لکھی اس کی تاریخ باغ بہار
جو کوئی کرے سیر یہ گل زمین
اسے دے دعا اور مجھے آفرین
قصہ اول
سرزمین ولایت روم میں ایک بادشاہ عادل دریا دل، صاحب تاج و تخت نام آزاد بخت۔ اس کی عمر پچاس کے قریب مگر اولاد سے بے نصیب ایک روز آئینہ رو برو تھا بال سفید نظر آیا فرمایا بے اولاد زندگی بے مزہ ہے اور دنیا دو روزہ ہے گوشہ لیجئے اور عبادت کیجئے۔
ابیات
نکلنے لگے بال میرے سفید
رہی اب کسے زندگی کی امید
اگر سو برس تک رہے جان و تن
پھر آخر وہی گور ہے اور کفن
بس گوشہ لیا اور حکم کیا کہ جب تک اجازت نہ پائے اپنا اور بیگانہ کوئی نہ آئے۔ امیر اور وزیر سب حیران ہر ایک کو اور ہی گمان کوئی کہتا موا کوئی کہتا فقیر ہوا تیسرے روز خرد مند نام وزیر صاحب تدبیر نے جا کر عرض کی کہ بے جمال عالم آرا جہان تاریک ہے اور غلام رنج و راحت کا شریک ہے جو پیر و مرشد فرمائیں سب عمل میں لائیں۔ کہا میرا تخت بے جانشین اور انگشتری بے نگین ہے خدا نے مجھے ملک کا مالک کیا مگر فرزند نہ دیا اب دنیا سے نفرت اور فکر آخرت ہے۔
نظم:
یہ لازم ہے جو آدمی پیر ہو
اسے زاد عقبیٰ کی تدبیر ہو
میرے حق میں اکسیر ہے بندگی
کہ بے بندگی ہیچ ہے زندگی
وزیر نے عرض کی کہ صدقہ دافعِ ہر مرض ہے اور خیرات کفیل ہر عرض ہے۔ ظل سبحانی تخت سلطانی پر جلوس فرمائیں اور خدمت فقرا بجا لائیں یقین ہے کہ گوہر مراد ملے اور گل مقصد کھلے۔ بارے التماس وزیر نے حسن اجابت پایا بار عام فرمایا کہ تمام روز عدل اور انصاف سے حکمرانی کرتا اور شب کو تنہا گور بزرگان پر فاتحہ خوانی کرتا ایک روز باد تند تھی شہر سے باہر ایک چراغ نظر آیا فرمایا اس شدت ہوا میں چراغ روشن کرنا کرشمۂ جنات ہے یا کسی بزرگ کی کرامات ہے قدم آگے رکھا دیکھا ایک مقبرے میں چار خرقہ پوش خاموش بیٹھے ہیں۔ پوشیدہ کھڑا ہوا تا دریافت کرے انسان ہیں یا شیطان۔ ناگاہ ایک فقیر بولا کہ ہم تم ہر ایک نے بہت سا رنج اٹھایا اور آج آب و دانہ یہاں لایا۔ کل دیکھئے پردہ غیب سے کیا باہر آئے اور یہ چرخ شعبدہ باز کیا بازی لائے۔ شب دراز ہے اور دردِ دل جان گداز ہے۔ اپنی اپنی سرگزشت کہو تا روز روشن ہو۔ کہا بہتر ہے اول آپ ہی آغاز اور ہم غریبوں کو سرفراز کیجیے۔
قصہ اول
درویش اول بولا کہ یہ آوارۂ وطن باشندۂ یمن ہے اس بندۂ ہے مقدار کا والد بزرگوار ملک التُجّار اور صاحب اقتدار تھا۔ دولت مند اس سے قرض لاتے اور فقیر روز روزینہ پاتے دو فرزند رکھتا تھا ایک یہ فقیر دوسری ہمشیر۔ لیکن کار خیر ہمشیر سے اپنے عین حیات میں فراغت کی اور میری پرورش بناز و نعمت کی۔ جو میں بلوغت کو پہنچا میرے باپ نے پیالہ اجل پیا اور میری ماں نے خانۂ گور کو آباد کیا۔ تین روز تک میری وہ حالت رہی کہ نہ کسی کی سنی اور نہ اپنی کہی۔ چوتھے روز خویش اور اقربا آئے۔ حرف نصیحت درمیان لائے کہ گریہ زاری سے درگذر اور صبر اختیار کر۔
نظم:
جسے دی ہے خلاق عالم نے جان
وہ اک دم کا دنیا میں ہے میہمان
جہاں میں کسی کو نہیں ہے قرار
سراسر زمیں گور ہے اور مزار
ناچار دل کو تسلی دی اور گھر کی خبر لی۔ نقد و جنس باپ کا پایا مال فراواں ہاتھ آیا۔ آغاز جوانی و موسم نادانی تھا۔ چند اوباش طعام تلاش یار اور دخیل کار ہوئے طبیعت عیاشی پر آئی اور عالم بے پروائی۔ ہر وقت راگ و رنگ اور طبلہ و مردنگ تھا۔
نظم:
شب و روز رہتا تھا دور شراب
کہ ہوتا تھا دل دشمنوں کا کباب
وہ دلچسپ مجلس شگفتہ بہار
کہ باغِ ارم کیجے اس پر نثار
تھوڑی مدت میں یاروں نے ہزاروں کو برباد کیا اور کنارہ کیا۔ نہ آشنا رفیق نہ بیگانہ شفیق۔ اپنا احوال بایں نوبت پہنچا کہ نہ سر پر تاج اور روٹی کا محتاج۔ جو کسی طرف راہ نہ پائی ہمشیرہ یاد آئی۔ دست تاسف ملا۔ تن تنہا چلا نہ زادِ راعلہ نہ یار قافلہ۔ غم و غصہ کھایا آپ کو وہاں پہنچایا۔ ہمشیر صورت فقیر دیکھ کر روئی۔ کہا اے بھائی دولت مفت کھوئی۔ پھر غذائے لطیف لائی۔ پوشاک فاخرہ پہنائی۔ کئی مہینے رہا۔ ایک دن ہمشیر نے کہا بھائی بیکاری باعث بے قدری ہے اور دلیل بے ہنری ہے۔ سوداگر شام کو جاتے ہیں تو بھی متاع تجارت خرید لا اور ان کے ساتھ جا۔ پریشانی دور اور فراغت بدستور ہو گی۔ میں بدست و پا کچھ نہ بولا اس نے صندوقچہ کھولا دو سو اشرفی دی اور تشفی کی۔ میں نے متاع کفایت سے لی اور ایک معتمد کو سپرد کی۔ قافلے نے کوچ کیا۔ میں نے رہ کر گھوڑا لیا۔ چند روز کے بعد با ساز خوب اور لباس مرغوب چلا۔ دو منزلہ طے کر کے جا ملا۔ سوداگر دن کو استراحت اور رات کو سیاحت کرتے ہر روز باتفاق دعوت کھاتے منزل بمنزل خوش جاتے۔ جب قافلہ شام کے نزدیک پہنچا میں سرِ شام سوار ہوا کہ پیشتر شہر کو جاؤں۔ کارواں سرا میں فرود آؤں۔ گھوڑا خیز کر آیا دروازہ شہر پناہ بند پایا۔ ناچار زیر دیوار منزل کی۔ جب کہ زلف شب کمر تک پہنچی اس وقت کسی نے ایک صندوق دیوار سے نیچے چھوڑا۔ میں نے ادھر باگ کو موڑا کہ یہ مال لیجئے اور خرچ کیجئیے۔ دیکھا تو ایک نازنین چار دہ سالہ آتش کا پرکالہ کہ آفتاب اس سے شرمندہ اور ماہتاب اس کا بندہ۔ زخمی صندوق میں تڑپتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ کہتی ہے کہ اے بے درد میں نے کیا تقصیر کی کہ تو نے میری جان لی۔
نظم:
جو ہیں دیکھا اس نازنیں کا جمال
ہوئی زلف اس کی محبت کا جال
اسے دیکھ گھائل مرا دل ہوا
یہ تڑپا یہ تڑپا کہ بسمل ہوا
میں نے کہا اے جانِ جہاں تیرا گھر کہاں ہے۔ کس ظالم نے بے رحمی سے ترا تن نازک زخمی کیا اور یہ وبال سر پر لیا اگر میں اسے پاؤں قیمہ بناؤں۔ میری آواز جاں گداز سن کر آنکھ کھولی اور بولی اے عزیز کیا فائدہ۔ کام تمام ہے اگر مجھ کو زمین کھود کے گاڑ دے ثواب عظیم لے۔ میں نے دل ہاتھ سے دیا تامل نہ کیا۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ اس کا صندوق اٹھایا کارواں سرائے میں لایا جراح کو طلب کیا مگر خوف نے لیا۔ مبادا کشف راز اور قصہ دراز ہو۔ القصہ جراح نے اس کا منہ کھولا تند ہو کر بولا کہ اے بے معنی یہ کیا نادانی ہے۔ میری زبان سے نکلا بندہ بے تقصیر ہے اور یہ میری ہمشیر ہے۔ قافلہ یمن سے آتا تھا رات کو چوروں نے لوٹ لیا اور اس کو زخمی کیا۔ شہر نزدیک پایا اٹھا لایا۔ بارے جرّاح نے رحم کیا۔ زخموں کو سیا اور کہا امید ہے خدا فضل کرے یہ نہ مرے۔ جو سوداگر داخل شہر ہوئے میں نے اپنا مال لیا اور سب اسی پہ خرچ کیا۔ آرام مجھ پر حرام ہوا۔ جو وہ کھاتی تو میں کھاتا۔ جو وہ سوتی تو میں سوتا۔
نظم:
نہ آرام جی کو نہ تن کی خبر
اسی پر مری رات دن تھی نظر
جو کرتی تھی میری طرف وہ نگاہ
تو میرے جگر سے نکلتی تھی آہ
قدرت خدا سے صحت پائی۔ چالیس روز کے بعد نہائی۔ اے درویشو جس وقت وہ نہائی اور مسند ناز پر آئی کیا عرض کروں۔
نظم:
وہ چہرے پر اس ناز پرور کے نور
مگر آسماں پر سے اتری تھی حور
خدا جانے انسان تھی یا پری
درخشاں تر از زہرہ و مشتری
وہ نازنین ہمیشہ چپ رہتی۔ اپنا احوال کچھ نہ کہتی۔ میں بھی بے اجازت کچھ نہ کہتا اور اس کی رضا میں رہتا۔ آخر میرے پاس خرچ نہ رہا۔ ملول بیٹھا تھا فرمایا میں نے جانا کہ جو تیرے پاس تھا سب خرچ کیا۔ لکھنے کا سامان حاضر کر۔ اس کے کہنے کے موافق حاضر کیا۔ اس نے لکھ دیا اور کہا فلانی طرف ایک سوداگر صاحب اقتدار ہے۔ اس کا نام سیدی بہار ہے۔ یہ رقعہ لے جا اسے دے۔ میں نے رقعہ پہنچایا۔ وہ آداب بجا لایا فوراً ایک خوان سر بمہر محل سرا سے لا کر غلام کو دیا اور حکم کیا کہ جس مکان سے یہ جوان رخصت کرے تو وہاں سے پھرے۔ میں نے سر دروازۂ کارواں سرا خوان لیا اور اسے رخصت کیا۔ خوان بھاری تھا۔ بدشواری حجرے میں لایا۔ اس جان جہاں نے فرمایا۔ دیکھ سیدی نے کیا بھیجا۔ سر پوش اٹھایا پُر از طلا پایا۔ مجھ کو حیرت آئی کہ اس عزیز نے اس قدر زر دیا اور کچھ تفحص نہ کیا۔ الٰہی یہ نادرۂ روزگار کس خاندان بزرگ سے ہے پھر مہربانی سے کہا اے فلاں تو نے میری خدمت بہت کی۔ اور اپنی دولت برباد دی۔ یہ مشت زر لے خرچ کر۔ میں بازار سے طعام لذیذ لایا اور اس نے تناول فرمایا۔ کہا کہ ایک حویلی خرید کر کہ گو گھر اپنا علیٰحدہ بہتر ہے۔ میں نے تمام روز گردش کھائی ایک عمارت بہم پہنچائی۔ کئی ہزار اشرفی قیمت دے کر خرید کی۔ جب عمارت میں آئی۔ بشارت فرمائی کہ بازار کی طرف جا پوشاک طیار لا۔ میں نے کہا اے جان جہاں پوشاک طیار کہاں۔ فرمایا قلعہ بادشاہی کے متصل یوسف نامی سوداگر مالدار ہے۔ اور اس کی دکان پر طرح طرح کا اسباب طیار ہے۔ میں گیا۔ دیکھا ایک جوان خوشرو چار ابرو بالائے مسند ناز بامتیاز بیٹھا ہے۔
نظم:
بہت نازک اندام و خوش قد جواں
چمن میں نزاکت کے سروِ رواں
نہایت حسین اور صاحب جمال
گلستان خوبی کا تازہ نہال
میں نے کہا کہ ایک بزرگ زادی صاحب اقتدار ہے اس کے واسطے پوشاک درکار ہے کہا کرم کیجئے لیجئے۔ پوچھا وطن عرض کی یمن۔ پھر پوشاک بے بہا لی اور قیمت بے تکرار دی۔ وہ عزیز محبت سے پیش آیا۔ حرف دعوت درمیان لایا میں نے عذر کیا کہ بندہ اس شہر میں بیگانہ ہے اور ساتھ صاحب خانہ ہے اس کی تنہائی ناگوار اور جدائی دشوار ہے ہر چند میں نے منہ موڑا اس نے دامن نہ چھوڑا۔ ناچار قسم یاد کی کہ اب جاؤں شام کو آؤں۔ اس اقرار سے اس زیبا نگار کے نزدیک رخت لایا پسند آیا پوچھا دیر کیوں ہوئی۔ میں نے اس کی مہربانی کا حال سب بیان کیا کہا بہتر وعدہ وفا کر۔ مجھ کو اس سراپا زیبائی کی جدائی منظور نہ تھی میں نے حیلہ کیا اس نے غصہ کیا۔ ناچار رضا درکار شام کو گیا وہ عزیز دکان بند کر کے منتظر تھا اس کی خاطر اس قدر بشاشت لائی گویا گئی ہوئی چیز ہاتھ آئی ایک باغ میں نشست کی اور مجلس ترتیب دی۔
نظم:
کروں کیا اب میں اس باغ کی ثنا
بہشت بریں کا نمونہ بنا
درخت اس میں جتنے تھے سب میوہ دار
چمن در چمن کھل رہی تھی بہار
اس میں ایک حوض آب شیریں سے لبریز فوارہ گہر ریز مکان خوب اور فرش مرغوب شب مہتاب بزم شراب گروہ مطرب آیا اس مزے سے گایا اگر زہرہ سنتی تنکے چنتی جب دماغ گرم اور دل نرم ہوا اس کی آنکھوں سے دریائے اشک بہا مجھ سے کہا دوست دمساز سے پردہ بعید از وفاق بلکہ علامت نفاق ہے اگر یہ عاجز پائے اپنی معشوقہ کو بلائے کہ وہ میری آرام جان اور درد دل کی درمان ہے۔ میں نے کہا اے دوستدار تیری خوشی درکار ہے۔ جلد بُلوا کہنے کے بموجب بلوائی۔ ایک عورت خوبصورت پردے سے باہر آئی۔ قدرت خدا نظر آئی۔
نظم:
نگہ اس کی ہوتی تھی جس دم دوچار
گزر جاتی تھی تیر سی دل کے پار
کہا اے یار دلنواز تو بھی اپنا ساز منگا اور کچھ گا اس نے ساز منگایا اس خیال سے ترانہ گایا کہ پانی چلنے سے اور پرند اڑنے سے رہا۔ تین رات دن وہ مزا رہا کہ ہر ایک مست و مد ہوش اور میں از خود فراموش۔ چوتھے روز دل میں گزرا کہ اے نادان وہ گرمجوشی اور اس کی جدائی ناگوار اور مفارقت دشوار تھی اب کیا عذر لائے گا کہ شرمندگی سے سر نہ اٹھائے گا، اس عزیز سے رخصت طلب کی اجازت نہ دی۔ کہا خدمت میں کیا کوتاہی پائی کہ خاطر پر کدورت آئی۔ میں نے یہ کیا بات ہے تم تو موصوف جمیع الصفات ہو۔ پھر رخصت ہوا۔ اس جان جہان کے پاس آیا شرمندگی سے سر نہ اٹھایا۔ متبسم ہو کر فرمایا کہو دعوت کی کیا حلاوت پائی۔ میں نے اس کا حسن اخلاق اور معشوقہ کا وافاق سب بیان کیا کہا اے فلانے صاحب غیرت جو کہیں کھاتے ہیں آپ بھی کہلاتے ہیں۔ میں نے کہا وہ اہل معاش میں صاحب افلاس۔ کہا بے سامانی سے ڈر تو بھی ضیافت کر۔ میں نے حیلہ لیا۔۔ ۔۔ ۔۔، جو مبالغہ حد سے گزرا ہر چند دریائے فکر میں غوطہ کھایا بھید کا کنارا پایا۔ ناچار دوسرے روز گیا اس نے تپاک سے بلایا۔ اخلاص برادرانہ کیا۔ حاضری منگوائی باتفاق کھائی۔ تمام روز اختلاط رہا شام کو میں نے کہا آج اگر غریب خانے کی طرف قدم رنجہ فرمائیے اور نان و نمک ایک جا کھائیے۔ عالم محبت میں گنجائش رکھتا ہے۔ ہنس دیا اور قبول کیا۔ باتفاق روانہ ہوئے اس کو میرا پاس خاطر کمال اور مجھے بے سامانی کے سبب سے یہ خیال کہ تھوڑی رات اور گزرے اسے فریب دوں اور راہ گریز لوں۔ فرصت نہ پائی حویلی نزدیک آئی۔ دیکھا صحن خانہ کے دروازے پر جاروب دی آب پاشی کی۔ دو رویہ جھاڑ روشن کئے کار پرداز کار فرما برپا ہیں۔ میں نے جانا شراب بہت پی راہ غلط کی جو خوب ملاحظہ کیا۔ وہی در اور وہی گھر ہے۔ خراماں خراماں دیوان خانے میں آیا۔ بخوبی آراستہ پایا۔ چاندنی کے فرش پر سراسر ناچنے والے پری پیکر شمع ہائی بلوریں روشن ارباب نادرہ فن گلاب کے شیشے دھرے قرابے شراب سے بھرے مہمان کو صدر مجلس میں جگہ دی اور ارباب نشاط کو اجازت کی۔ خدمتگار شربت خوشگوار لایا۔ میں نے اپنے ہاتھ سے پلایا۔ بعد ازاں میں اٹھا کہ دیکھوں وہ جان جہان اس مکان میں کہاں ہے۔ دیکھا تو ایک پال کے اندر چادر سفید سر پر سامان دعوت کرتی ہے۔ میں دوڑ کے نثار اور حیرت زدۂ روزگار ہوا کہ الٰہی یہ کیا نقش غریب اور طلسم عجیب ہے، میری طرف آنکھ اٹھائی اور غصے میں آئی کہ اے بے خبر نادانی نہ کر۔ مجلس میں جا مہمانداری بجا لا۔
نظم:
توقف نہ کر جلد جا اس کے پاس
مبادا تیرا میہمان ہو اداس
جو کھائے خوشی سے کھلانا اسے
مئے پرتگالی پلانا اسے
سب کو انعام دے۔ ہر ایک سے کام لے۔ خدمت سے منہ نہ موڑ تین رات دن نہ چھوڑ۔ اور اگر ہو سکے اس کی معشوقہ بھی آئے کہ مہمان حظ تمام پائے۔ غرض مجلس میں راگ رنگ خوب رہا۔ میں نے کہا عالم آشنائی میں کسی طرح کی جدائی نہیں۔ اگر تکلف درمیان نہ لائے اپنی معشوقہ کو بلائے۔ جو اس کو وہ غمگسار تھی اور بے اس کے زندگی ناگوار تھی۔ وہ بھی میانہ پر سوار ہو کر آئی۔ جوان نے بشاشت کمال پائی۔ ترین رات دن وہ صحبت رہی کہ زمانے نے واہ واہ کہی۔ چوتھے روز میں سو گیا۔ جب آفتاب نے گرمی کی۔ جاگا۔ اس انبوہ سے ایک آدمی نظر نہ آیا۔ خوف کھایا کہ طلسمات تھا یا عالم جنات تھا
نظم:
نہ پایا کسی آدمی کا نشان
ہوا خانہ عیش ہو کا مکان
نہ وہ گھر میں مالک نہ وہ شور و شر
مگر ایک مدت سے خالی تھا گھر۔
سراسیمہ اٹھا دیکھا کہ ایک کوٹھری میں سوداگر بچہ مع معشوقہ تیغ ستم سے کشتہ اور خاک و خون میں آغشتہ ہے۔
نظم:
جو دیکھا پڑا وہ جواں سرنگوں
بہا میری آنکھوں سے دریائے خوں
پھٹا غم اور درد سے سینہ میرا
گرا سنگ پر آبگینہ مرا خون سے ڈرا
وہاں سے پھر ایک خدمتگار اس نادرۂ روزگار کا نظر آیا۔ میں نے بلایا ہر چند پوچھا جواب نہ دیا۔ مگر مجھے ساتھ لیا۔ متصل حصار ایک مسجد کنگرہ دار تھی۔ کہا اس مکان سے باہر نہ جانا اور جانا تو پھر نہ آنا۔ شام کو خواجہ سرا آئے گا تجھے لے جائے گا۔ میں نے شکر خدا کیا اور گوشے میں چھپ رہا۔ شام کو خواجہ سرا آیا۔ مجھ کو آہستہ بلایا۔ میں اس کے ساتھ دست بدعا ایک باغ میں داخل ہوا۔ وہ باغ اگر رضوان پاتا بہشت کو نہ جاتا۔ ایک لمحے کے بعد وہ سرو گلستان رعنائی خراماں خراماں آئی۔ خواجہ سرا سے فرمایا دو توڑے اشرفیوں کے اسے دے اور کہہ کہ اپنی راہ لے۔ میں نے کہا اے جان جہان خدا سے ڈرو۔ اس وقت کو یاد کرو۔ اگر بندے کو اشرفیوں کی آرزو ہوتی تو جان اور مال سے فدا نہ ہوتا۔ یہی آرزو ہے کہ اب مجھ کو اپنی خدمتگاری میں لے یا جہاں تیری گذر گاہ ہو وہاں مار کر گاڑ دے۔ یہ سن کر ہنسی اور برخاست کی۔ میں روتا مسجد میں آیا، زندگی سے ہاتھ اٹھایا۔ ہر دم آہ سرد بھرتا اور نالہ گرم کرتا۔ نہ دن کو کھاتا نہ رات کو سوتا۔
نظم:
گیا بھول سب کھانا پینا مجھے
ہوا سخت دشوار جینا مجھے
کباب اپنے لختِ جگر سے کیا
پیاسا ہوا خون دل کا پیا
رفتہ رفتہ بیمار اور درد میں گرفتار ہوا۔ نہ اٹھنے کی طاقت نہ بیٹھنے کی قوت۔ جو کوئی پاس آتا افسوس کھاتا۔ اتفاقاً وہ خواجہ سرا چالیس روز کے بعد مسجد میں آیا۔ جاں بلب پایا۔ خدا نے اسے رحم دیا۔ میرا ذکر حرم میں کیا اس بے رحم کو بھی رحم آیا۔ فرمایا وقت شام فلانے مقام پر لانا اور دوا کھلانا۔ خواجہ سرا صاحب درد بلکہ جواں مرد تھا۔ مجھے باغ میں لایا۔ شربت مقوی پلایا۔ پہر رات گئے وہ نازنین آئی۔ میں نے عمر دوبارہ پائی۔ اگر سچ پوچھو تو میری خاطر اس قدر مسرور ہوئی کہ اسی دم نصف بیماری دور ہوئی۔ مجھے تسلی دی اور تشفی کی۔ اسی طرح ہر شب آتی دلداری کر جاتی۔ ایک شب تن تنہا آئی۔ نہایت مہربانی فرمائی۔ معلوم کیا وہ نادرۂ روزگار فقط میری صحبت کی نہیں طلبگار، حرصِ نفسانی غالب ہے۔ اور کچھ اور بات کی بھی طالب ہے۔ میں نے کہا اے ماہِ دل افروز اس روز دوپہر میں وہ سب اسباب کہاں پایا چوتھے روز کچھ نظر نہ آیا۔ یہ کیا طلسمات تھا۔ کہا اے عزیز میں شاہزادی ہوں۔ تجھ کو اس طرف رخصت کیا۔ آپ برقع سر پر لیا۔ ماں کے پاس آئی اسباب لائی۔ میں نے کہا اے سراپا ناز و زیبائی احوال جدائی کس طرح بیان کیا۔ کہا میرا باپ شکار کھیلنے کے طریق پر تین مہینے سے باہر ہے اور ماں قلعے کے اندر ہے۔ بے حرمتی جان کر کسی سے نہ کہتی خفیہ تلاش میں رہتی۔ میں جو آئی اس نے جان پائی۔ مجھے گود میں لیا تفحص حال کیا۔ میں نے کہا اے مادر مہربان تین روز اور مجھ سے درگزر بالفعل حکم کر کہ کار پرواز جمیع کارخانہ سب اسباب ضیافت کا آج ہی اس مکان میں پہنچائیں اور چوتھے روز چلے آئیں۔ چنانچہ سب آئے اور خدمت بجا لائے۔ میں نے کہا اے معشوقہ دلپذیر سوداگر بچے کی کیا تقصیر۔ فرمایا میں دائم الخمر اور گردشِ زمانہ سے بے خبر تھی۔ ایک ایّام میں شراب سے پرہیز تھا اور مسکرات سے گریز۔ مجھ کو خمار نے لیا اور خواجہ سرا نے التماس کیا اگر ملکہ جرعہ کو کنار نوش فرمائے مزاج فرحت پائے۔ میں نے کبھی اس کو نہ پیا تھا جواب نہ دیا۔ خواجہ سرا ایک ساعت کے بعد باہر سے آیا گھڑا بھر کے چھوکری کے سر پہ لایا۔ میں نے پیا اور ان کو دیا۔ خاطر مسرور اور کلفت دور ہوئی۔ وہ چھوکرا مسخرا تھا عجائب بولیاں بولتا دل کی گرہیں کھولتا۔ اس کا کوزہ زر سفید سے بھر دیا اور ہر روز آنے کا حکم کیا۔ میں اس کی باتیں سنتی اور ہنستی۔ مرد کچھ مہینے تک ہر روز آتا سیم سفید اور زر سرخ سے کوزہ بھر لے جاتا مگر اس کا لباس وہی رہا۔ ایک روز میں نے کہا کہ تو نے اس قدر زر پا لیا۔ کچھ لباس نہ بنایا۔ کہا میں غریب یتیم ہوں۔ سب مال دکاندار لیتا ہے مجھ کو روٹی دیتا ہے۔ میں نے رحم کیا لباس فاخرہ دیا۔ آغاز جوانی تھا جمال نے جلوہ اور حسن نے بلوا کیا، میرا دل طالب ہوا اور عشق غالب ہوا۔ اس قدر فریفتہ ہوئی اگر ایک روز ملاقات نہ ہوتی شب کو نہ سوتی۔ آخر راز فاش ہوا اور ہر ایک در پے تلاش ہوا۔ دایہ نے کہا اس کا آنا خوب نہیں۔ مبادا بادشاہ سنے کہیں۔ وہ بھی خوف سے نہ آیا دل تاب نہ لایا۔ خواجہ سرا میرا ہمراز تھا اس کے واسطے دکان علیٰحدہ لی اور کئی ہزار دینار کی تھیلی دی۔ دولت سے معمور اور تجارت میں مشہور ہوا۔ میں نے اپنی خوابگاہ کے نزدیک حویلی تیار کی اور نقب ترتیب دی۔ رات کو آتا صبح دم جاتا۔ چند روز کے بعد عرض کی کہ ایک باغ بکتا ہے طیار اور اس کی قیمت دو ہزار۔ لینا منظور مگر بے مقدور۔ میں نے اس کی خاطر سے زر دیا اور خود جا کے ملاحظہ کیا۔ فی الواقع باغ دلکشا اور جانفزا تھا۔ ایک روز پھر سے اختلاط سے باز رہا۔ میں نے کہا کہ کیا حالت ہے کہ ملالت ہے۔ عرض کی ایک کنیز طنبورہ نواز خوب گاتی ہے اور پان سو دینار کو ہاتھ آتی ہے۔ اگر اجازت پاؤں خرید لاؤں۔ میں نے اس کی خاطر کی قیمت دی۔ حقیقت میں کنیز نغمہ و سرور میں نادرۂ روزگار اور کامل عیار تھی۔ ایک شب میں نقب کی راہ سے حویلی میں اکیلی گئی وہ نہ تھا۔ غلام بچہ سے معلوم ہوا سیر باغ کرتا ہے اور لونڈی پر مرتا ہے۔ میں آتشِ غیرت سے جلی۔ تنہا باغ کو چلی۔ گرتے پڑتے آپ کو وہاں پہنچایا دونوں کو ایک جا پایا۔ لونڈی پیچ و تاب کھا کر گھبرائی۔ جانا آفت آئی۔ کہا اے عزیز میں نہ کہتی تھی دیوانہ نہ ہو، اپنی جان نہ کھو۔ میں نے لونڈی کو پچھاڑا گریبان پھاڑا۔ اس نمک حرام نے قدرت پائی میرے پیش قبض لگائی۔ میں بے ہوش ہو کر گری۔ پھر خدا جانے کیا گزری۔ اس نے اپنی دانست میں میرا کام تمام کیا اور صندوق میں بند کر کے نیچے پھینک دیا۔ میری حیات باقی تھی خدا تجھے لایا تو نے اٹھایا۔ اے فلانے وہ سوداگر کہ اس قدر زر تیرے ساتھ کر دیا اور عذر نہ کیا وہی کوکنار فروش تھا کہ میری ہدایت پہ عمدگی پائی اور عمارت بنائی۔ اور وہ جوان کہ تیرا مہمان ہوا وہی مسخرا تھا کہ یہ امتیاز پایا اور سوداگر بچہ کہلایا۔ میرے ساتھ وہ سلوک کیا میں نے یہ بدلہ لیا۔ اے درویشو شاہزادی یہ حکایت کہہ کر دو گھڑی تک روتی رہی۔ ہنوز اس کے دل میں زخم کاری اور آنکھوں سے خون جاری تھا۔ پھر اس کے بعد فرمایا اے فلانے جب سے مجھ کو تیری حضوری میسر آئی تو نے یہ راحت نہ پائی۔ اب تجھ کو دغا دینا گردن پر خون لینا ہے۔ فی الحال زیرِ دیوار خواجہ سرا رہ اور کسی سے کچھ نہ کہہ۔ جب فرصت پاؤں گی تیرے پاس آؤں گی۔ میں اس کے گرد نثار ہوا اور شکر گزار ہوا۔
نظم:
جو اس ماہ رو نے کیا یہ کلام
میں خوش ہو گیا صورت شاہ شام
خوشی سے کھلے میرے دل کے کواڑ
بسا پھر وہ گھر جو ہوا تھا اجاڑ