مشہور زمانہ جہازی کی مشہور زمانہ داستان
سند باد جہازی کے حیرت انگیز سفر
از قلم
احمد خاں خلیل
پیشکش: انیس الرحمٰن( اردو محفل)
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……..
پہلا سفر
خلیفہ ہارون الرشید کا پائے تخت بغداد تھا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا بھر کے شہروں کا شہزادہ تھا۔ اس میں عالی شان محل اور خوبصورت حویلیاں تھیں۔ اس کے بازار بڑے بڑے اور با رونق تھے۔ شہر میں امیر اور غریب، بہادر اور شہہ سوار، عالم اور فاضل، ہنرمند اور کاریگر ہر طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہر روز دور دراز سے کئی قافلے آتے اور کئی کارواں کوچ کرتے۔ صبح سے شام تک ہر بازار اور ہر منڈی میں میلے کا سا سماں نظر آتا تھا۔
اس شان دار شہر کے ایک خوبصورت مکان میں ایک مالدار شخص رہتا تھا۔ اس کا نام تھا سندباد جہازی۔ وہ بڑا مہمان نواز، سخی اور دوستوں کا دوست تھا۔ وہ زندگی کے سرد گرم جھیل چکا تھا۔ گرمی کے موسم میں ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے باغ میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میدان مارنے، سخت مشکلات کو سر کرنے اور مہم جیتنے کی بات چل نکلی۔ کہنے لگا، ’’دوستو! میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ہر طرح کے مال و متاع سے نوازا ہے، لیکن میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا کہ میں بھی غریب و نادار تھا۔ میری زندگی خوشیوں سے خالی تھی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے جوانی کی منزل میں قدم رکھا تھا۔ میرے پاس کوئی روزگار نہ تھا۔ وقت مشکل سے گزرتا تھا۔ ایک دن جب کہ میں بہت تنگ دست تھا میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے شیخ چلّی کی طرح خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے اپنا مکان اور گھر کا سارا سامان بیچ دیا۔ مجھے کل تین ہزار درہم ملے۔ اس رقم سے میں نے تجارت کا سامان خریدا۔ اسے بصرہ لے گیا۔ جہاں سے بحری جہاز دوسرے ملکوں کو مال تجارت لے کر جاتے تھے۔
بصرہ میں جا کر میں نے معلوم کیا کہ کون سا جہاز سفر کے لیے تیار ہے۔ ایک عرب جہاز کے کپتان سے میں نے بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ چھے تاجر اپنا مال تجارت اس کے جہاز پر لے جا رہے ہیں۔ یہ جہاز مشرقی جزیروں کو جائے گا۔ تاجر وہاں اپنا مال بیچ کر ہیرے اور جواہرات خرید کر پھر اسی جہاز سے بصرہ واپس آئیں گے۔ میں نے بھی اسی جہاز پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاملہ طے ہو گیا اور میں نے بھی اپنا اسباب اس میں لاد دیا۔
اگلے ہفتے جہاز کا لنگر اٹھا اور ہم دعائیں مانگتے ہوئے روانہ ہوئے۔ جہاز نے مشرق کا رخ کیا۔ ہم کھلے سمندر میں سفر کرنے لگے۔ کئی دن اور کئی راتیں یونہی گزر گئیں۔ آخر ایک بندر گاہ آئی۔ ہم نے کچھ سامان اور خریدا اور آگے چل پڑے۔ اس طرح ایک دو اور بندر گاہیں آئیں اور مزید خرید و فروخت ہوئی۔
ایک دن ہم ایک چھوٹے سے جزیرے پر پہنچے۔ بحری سفر میں چند باتیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو وقفے وقفے سے پینے کا پانی ملتا رہے۔ دوسرے ہوا موافق ہو اور تیسرے یہ کہ الله تعالی طوفان سے بچائے رکھے۔ جہاز کے کپتان نے کہا، ’’حیرت ہے۔ یہ جزیرہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی گھاس پھوس بتاتی ہے کہ یہاں تازہ پانی بھی ہو گا۔‘‘
چنانچہ وہ جہاز کو ساحل کے قریب لے گیا۔ ہم میں سے کئی آدمی برتن لے کر اترے کہ پانی تلاش کریں۔ کچھ محض سیر کے لیے اترے۔ انہی کے ساتھ میں بھی کنارے پر گیا۔ سوچا کہ ذرا آگے جا کر جزیرے کی زمین دیکھ لوں۔ ٹہلتا ٹہلتا اپنے ساتھیوں سے کچھ دور چلا گیا۔
جزیرہ ہلنے لگا
کچھ ملّاح کھانا پکانے کے لیے ساحل پر آئے۔ گھاس پھوس جمع کر کے آگ جلائی۔ اچانک اس وقت دو عجیب و غریب باتیں ہوئیں۔ اوّل یہ کہ جزیرہ ہلنے لگا۔ مسافر حیران و پریشان ہو گئے۔ کپتان تجربے کار آدمی تھا۔ وہ فوراً چلّایا، ’’جلدی سے جہاز پر سوار ہو جاؤ۔ یہ جزیرہ نہیں، یہ تو حوت مچھلی ہے۔ جو برسوں سے پانی کی سطح پہ سو رہی تھی۔ تم نے جو آگ جلائی ہے۔ اس کی تپش سے جاگ اٹھی ہے۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔‘‘
جو لوگ جہاز کے بالکل قریب ہی کنارے پر تھے وہ دوڑ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں لوگوں سے دور تھا۔ مجھے زیادہ فاصلہ طے کرنا تھا۔ میں سرپٹ دوڑا۔ لیکن جزیرہ جو صرف پہلے ہلا تھا۔ اب پانی کے اندر گھسے جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت آندھی آئی۔ اس نے جہاز کو دور لے جا پھینکا۔ پھر مجھے نہیں معلوم مجھ پر کیا گزری۔ جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا میں پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ جزیرہ بھی غائب اور جہاز بھی غائب تھا۔ میں اپنے دل میں دعا مانگنے لگا، ’’اے اللہ! کیا میں بے گور و کفن سمندر میں تن تنہا ڈوب کر مروں گا۔ اے میرے اللہ مجھ پر رحم فرما۔‘‘
الله تعالی بڑا رحیم و کریم ہے۔ ادھر میں نے دعا مانگی ادھر پانی کی ایک لہر ایک بڑے برتن کو میرے قریب لے آئی۔ میں نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ جان بچانے کا سہارا مل گیا، لیکن آزمائشیں ابھی باقی تھیں۔ سمندر کی لہریں مجھے اور میرے برتن کو پٹک پٹک کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں۔ زندگی اور موت کی آپس میں زبردست کشمکش جاری تھی۔ اسی حال میں رات گزر گئی۔ دن بیت گیا۔ پھر دوسری رات اور دوسرا دن گزر گیا۔ مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ حوصلے پست ہوتے جا رہے تھے۔ انگلیاں سن اور بازو شل ہو گئے تھے۔ مجھے یہ ڈر کھائے جاتا تھا کہ کہیں برتن ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
زمین! زمین! میرے اللہ زمین
جب بھی مجھے ہوش آتا تو میں گڑگڑا کر دعا ضرور مانگتا تھا۔ ہوا کے تھپیڑے مجھے ساحل کی طرف لے گئے، لیکن میں خود اس بات سے بے خبر تھا۔ دراصل میرے جسم میں طاقت نام کو نہیں تھی۔ بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ایک بار ہوش آیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوں۔ پھر غشی کا دورہ پڑا۔ ایسی حالت میں کس کو دن اور وقت یاد رہ سکتا ہے، لیکن اندازے سے کہہ رہا ہوں کہ دو دن اسی حال میں بے خبر پڑا رہا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ الله جو کرتا ہے اس میں بندے کی بہتری ہوتی ہے۔ اس طرح پڑے رہنے سے میری تھکن اور کوفت قدرے کم ہو گئی۔ پھر مجھے مشہور مثل یاد آ گئی، اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ میں اٹھا کہ پانی اور غذا تلاش کروں۔ پیروں پر نظر پڑی تو داغ نظر آئے۔ شاید مچھلیوں نے جگہ جگہ کاٹا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’سندباد الله کا شکر ادا کرو اور آگے بڑھ کر تازہ پانی تلاش کرو۔ تازے پانی سے پیر دھوؤ گے تو یہ زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
میں اٹھا تو اٹھا نہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی نے لاٹھی سے میری چول چول ڈھیلی کر دی تھی۔ کبھی گھسٹ گھسٹ کر کبھی بازوؤں پر چل کر میں آگے بڑھتا رہا۔ طبیعت میں تازگی تو تھی نہیں کہ میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں۔ میں تو اندھے کی طرح چل رہا تھا۔ اچانک کسی چیز سے ٹکرایا دیکھا کہ ایک پھل دار درخت سے ٹکّر لگی ہے۔ نظر اٹھائی تو پاس ہی صاف شفاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی۔
’’لاکھ لاکھ شکر تیرا، اے میرے پالن ہار۔‘‘ یہ ورد کرتے ہوئے میں نے ندی کا رخ کیا۔ گھونٹ گھونٹ پانی پی کر پیاس بجھائی۔ بدن میں کچھ تازگی آئی۔ پھر اپنے پیر دھوئے اور کچھ دیر سستانے کے بعد اس درخت کے پھل کھا کر میں وہیں سو گیا۔ میرا کئی روز تک یہی معمول رہا۔ اب ایسا لگتا تھا کہ بدن میں طاقت لوٹ آئی ہے اور پاؤں ٹھیک ہو گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند محسوس کرنے لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ بے فکر زندگی گزارنے کو یہ بہترین جگہ تھی۔ لیکن پاؤں کے چکّر کا کیا علاج۔
اگرچہ یہ سمندر کا ساحل تھا اور یہ امید تھی کہ شاید کبھی کوئی جہاز یہاں آ جائے، لیکن میں اٹھا اور الله کا نام لے کر آگے بڑھا۔ خیال تھا کہ اگر یہاں ندی اور درخت ہیں تو آگے بھی ہوں گے۔ دن بھر چلتا رہا مگر ہو کا عالم تھا۔ نہ چرند نہ پرند، نہ ندی نہ درخت۔ پھر سے مجھ پر وحشت طاری ہونے لگی۔ پیچھے مڑوں کہ آگے بڑھوں، اسی کشمکش میں چلتا رہا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔ کہاں بغداد جہاں آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا تھا اور کہاں یہ سنسان بیابان جہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔
ویرانے میں ایک گھوڑا
میں سہما سہما چپکے چپکے چلا جا رہا تھا۔ سوچوں میں گم، ناظرین اپنے پیروں پر گری ہوئی کہ اچانک ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو ایک گھوڑا نظر آیا۔ یا الہی! اس ویرانے میں گھوڑا! گھوڑا بھی اس قدر خوبصورت! کیا سچ مچ کا گھوڑا ہے یا چھلاوا۔ اگر سچ مچ کا گھوڑا ہے تو یہاں کیسے آیا، کیا کھاتہ ہے، کہاں رہتا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے گرج دار آواز آئی، ’’خبر دار! گھوڑے کو ہاتھ نہ لگانا ورنہ تیر تمہارے سینے کے پار نکل جائے گا۔‘‘
ایک آدمی بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔ میں اسے دیکھ کر خوش بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ میں نے کہا، ’’بھئی، معاف رکھنا۔ میں تو ایک مسافر ہوں۔ گھوڑے کو فقط ایک نظر دیکھا ہے۔ کیا نام ہے جناب والا کا؟‘‘
اس نے للکار کر کہا، ’’کون ہو تم اور یہاں کیوں اے ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’الله تعالیٰ کے رحم و کرم سے میں سمندر میں ڈوبنے سے بچ کر ساحل پر آ گیا۔‘‘ پھر میں نے اپنی آپ بیتی اس کو سنائی تو اسے اعتبار آیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک غار میں لے گیا، مجھے پانی پلایا اور پھر کھانے کے دستر خون پر بٹھایا۔
اس نے کہا، ’’واقعی الله نے آپ پر برا کرم کیا ہے۔‘‘
ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ ہر سال بادشاہ سلامت ایک ہفتے کے لیے اس جزیرے پر اپنے بہترین گھوڑوں کو بھیجتے ہیں۔ اس جگہ کی ہوا گھوڑوں کے لیے بہت عمدہ ہے۔ جزیرہ بالکل سنسان ہے، لیکن سرکار کے ملازم ضروری سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ ہفتہ بھر یہاں رہ کر گھوڑوں کو واپس لے جاتے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد دوسرے ملازم بھی اپنے اپنے گھوڑے لے اے۔ انہوں نے بھی میری سرگزشت سنی۔ سب نے مجھ سے ہمدردی کی اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی ہامی بھر لی۔
دوسرے دن ہمارا قافلہ وہاں سے چلا۔ سواری کے لیے انہوں نے مجھے بھی ایک خوبصورت گھوڑا دیا۔ راستے میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا بادشاہ برا مہربان اور قدردان ہے۔ وہ ریا کو اپنی مہربانیوں سے خوش رکھتا ہے اور ریا اس پر جان چھڑکتی ہے۔ نزدیک اور دور سے لوگ ہمارے شہر میں آتے ہیں۔ شہر پہنچ کر ہم بادشاہ سے آپ کا ذکر کریں گے۔
جب ہم شہر پہنچے تو ملازموں نے بادشاہ تک خبر پہنچائی۔ میری طلبی ہوئی۔ انہوں نے توجہ سے میری دکھ بھری داستان سنی۔ ان کے حکم سے مجھے نیا لباس دیا گیا۔ میری امید سے بڑھ کر میری خاطر داری کی۔ چند دنوں میں بادشاہ کا مجھ ناچیز پر اعتماد قائم ہو گیا۔ میرے سپرد یہ ذمہ داری تھی کہ میں روزانہ بندر گاہ اور بازار جا کر تاجروں اور جہاز کے کپتانوں سے مل کر حال احوال معلوم کر کے بادشاہ کو با خبر رکھا کروں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز تھا۔ میں روزانہ پہلے بندر گاہ جاتا۔ جہاز کے کپتانوں سے ملتا، ملاحوں سے باتیں کرتا اور پھر بازاروں میں تاجروں کا حال احوال معلوم کرتا۔ شام کو دربار میں بادشاہ کے سامنے اپنی کار گزاری پیش کرتا۔
ایک دن بندر گاہ پر ایک بڑا جہاز لنگر انداز ہوا۔ حسب معمول میں وہاں گیا۔ جہاز پر سوار تاجر مال اسباب بیچنے کے لیے باہر لائے۔ جہاز کے کپتان سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا تمام مال فروخت کے لیے نکال لیا گیا ہے یا کچھ باقی ہے؟‘‘
کپتان نے کہا، ’’اور تو سب مال بازار چلا گیا ہے۔ چند صندوق باقی ہیں۔ یہ ایک نوجوان کے ہیں جس نے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ خیال ہے کہ وہ ڈوب گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کا اسباب بیچ کر رقم بغداد لے جاؤں اور اس کے وارثوں کو دیدوں۔‘‘
میں نے غور سے دیکھا تو اسے پہچان لیا۔ میں نے پوچھا، ’’اس کا نام کیا تھا؟‘‘
کپتان نے کہا، ’’اس کا نام سندباد تھا۔‘‘
یہ سن کر پہلے تو میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا۔ پھر میں نے پورے زور سے ’’الله اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کپتان ہکا بکا ہو کر میرا منہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا، ’’میں ہی تو سندباد ہوں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایمانداری سے میرے مال کی حفاظت کی۔‘‘
کپتان نے کہا، ’’بیشک آپ بھلے آدمی لگتے ہیں، لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ سندباد ہیں۔ سندباد تو ڈوب کر مر چکا ہے۔ ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرے ملاح اور جہاز پر سوار تاجر سب اس بات کے گواہ ہیں۔‘‘
میں نے کپتان سے کہا، ’’جناب من، پہلے آپ میری سرگزشت سن لیجیے۔ پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا میں وہ نوجوان ہوں جس کا یہ مال ہے۔‘‘
میں نے بصرہ سے لے کر اس ہلنے والے جزیرے تک کے تمام حالات بیان کیے۔ یہاں تک کہ اسے وہ تمام باتیں یاد آ گئیں۔
کپتان نے کہا، ’’اس دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ ہمیں اس بات پر یقین تھا کہ آپ ڈوب کر مر چکے ہیں اور آج آپ کی باتیں سن کر ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو گیا ہے۔‘‘
اس نے مجھے میرا مال دے دیا ہے۔ میں نے اسے بیچا اور بادشاہ کے لیے ایک عمدہ تحفہ خریدا اور اسے اٹھو کر دربار میں لے گیا۔ بادشاہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے کپتان کی ایمانداری کا قصّہ سنایا۔ اس نے میرا تحفہ قبول کیا اور اس سے بڑھ چڑھ کر مجھے تحفہ دیا۔
بغداد کو واپسی
جب میرا جہاز بغداد روانہ ہونے لگا تو میں اس مہربان بادشاہ کے پاس گیا اور اسے بتایا، ’’آپ جیسے مہربان بادشاہ اور اس خوبصورت ملک سے جانے کو میرا دل تو نہیں کر رہا، لیکن وطن کی محبت سے میں مجبور ہوں اور آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔‘‘
بادشاہ نے اجازت دے دی اور ساتھ ہی سونا چاندی، ہیرے جواہرات، قیمتی لباس اور کئی انمول چیزیں تحفے کے طور پر مجھے عطا کیں۔ آخر جہاز روانہ ہوا۔ طویل مسافت کے بعد ہم بغداد پہنچے۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔
انشاء اللہ میں کل آپ کو اپنے دوسرے سفر کا حال سناؤں گا۔
***