اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


بے نام سی زندگی ۔۔۔ خدیجہ مغل

ایک نو آمیز ادیبہ کی کاوش

بے نام سی زندگی

از قلم

خدیجہ مغل

جمع و ترتیب : اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل 

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں……

بے نام سی زندگی

(ناول)

خدیجہ مغل

جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

کمرے میں ہر سو اندھیرا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کوٹھری میں ہو۔ وہ اپنے آپ کو کسی گہری کھائی میں جاتا محسوس کر رہا تھا۔ اسے اپنے جسم میں بے حد درد محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ایک بار پھر اس نے پوری کوشش کر کے آنکھیں کھولیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کہاں ہے؟ اس نے کروٹ بدلنی چاہی لیکن زبردست چکر نے اسے کروٹ بدلنے نہ دیا مجبوراً وہ سیدھا ہی لیٹا رہا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اسے بہت شدید قسم کے چکر آ رہے تھے۔ وہ کیا کرتا؟ جانے وہ کب تک ایسے ہی لیٹا رہا جب کمرے میں لائٹ آن کی گئی اس نے سر اٹھا کر دوسری طرف دیکھنا چاہا لیکن پھر وہی ہوا، سر چکرانے سے وہ اٹھ نہ سکا تو اس نے اپنا سر تکیے پہ گرا دیا۔

’یہ کیا ہو گیا ہے مجھے؟‘ اونچی آواز میں بولا۔

آنے والا اس کی آواز کی پروا کیے بِنا باہر چلا گیا۔

روشنی ہوتے ہی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا ایک چھوٹا سا کمرہ جس میں ایک بیڈ تھا جس پہ وہ تھا اور پاس ہی ایک کرسی پڑی تھی۔ کمرے میں نہ تو کوئی کھڑکی تھی اور نہ ہی ہوا آنے کے لیے کوئی اور راستہ۔ حتیٰ کہ اٹیچ واش روم تھا۔ اچانک ہی اس نے محسوس کیا کہ اس کا بدن کسی شے میں جکڑا ہوا ہے اس نے فوراً ہی اپنی جانب دیکھا تو رسیوں کی قید میں اپنا آپ دکھائی دیا۔ وہ گھبرا گیا۔

’ایں۔۔۔ یہ کیوں باندھا ہے مجھے؟‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا اور ہاتھوں کو ہلانے جھلانے لگا۔ اپنے جسم کو حرکت کرتے وقت اسے کسی چیز کی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ پہچان نہیں پا رہا تھا۔ کہیں تو کچھ تو کمی تھی۔ اس کا سارا بدن سُن سا ہو رہا تھا، اور مسلسل چکر آ رہے تھے اسے۔ جانے کتنا ہی وقت گزر گیا اسے وہیں پڑے پڑے۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟ کون کر سکتا ہے ایسا۔۔۔؟ اور کیوں؟ میں نے تو کسی کا کچھ بگاڑا بھی نہیں۔۔۔ اور پھر یہ سب کیوں؟ ضرور کسی کو غلط فہمی ہوئی ہے جو میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ پر یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ میں یہاں کب تک رہوں گا؟ اور یہاں سے میں باہر نکلوں گا کیسے۔۔۔؟ اس کے ذہن میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے تھے۔ لیکن ان سب کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ اس نے سامنے لگے کیلنڈر پہ نظر دوڑائی جہاں آج کی تاریخ تین جولائی تھی۔ اور وقت شام چھ بج چکے تھے۔ اسے ملائیشیا سے آئے ایک دن ہو چکا تھا۔ مطلب مجھے چوبیس گھنٹے ہو چکے ہیں یہاں۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ اپنے آپ کو رسیوں سے چھٹکارا پانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ ہار گیا۔ جس نے بھی اسے باندھا ہو گا، کافی محنت کی ہو گی ورنہ اتنی آسانی سے وہ اپنے آپ کو چھڑوا ضرور لیتا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

شام چھ سے رات کے نو بج چکے تھے وہ کب سے مسلسل چھت کو گھورے جا رہا تھا جب کمرے میں کوئی داخل ہوا۔ اس نے گردن اونچی کر کے پیچھے دیکھا تو ساکت رہ گیا۔

’تم۔۔۔‘ اتنا کہہ کر اس نے ایک بار پھر اپنا سر تکیے پہ گِرا دیا کیونکہ اس میں اتنی ہمت ہی نہ رہی تھی کہ وہ اپنی گردن کو سہارا دے سکے۔ اتنی دیر میں وہ بھی اس کے پاس پہنچ چکی تھی۔ وہ چپ رہا۔ آنکھیں غصے سے سرخ انگارے بنی ہوئی تھیں۔ ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد اس نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں شاید کوئی کھڑا تھا۔

’آج میں ثابت کر دوں گی کہ ایک بیٹی ہی اپنے باپ کی عزت خراب نہیں کرتی۔ تم جیسے بیٹے بھی ہیں جو اپنے باپ کی عزت کو داؤ پہ لگا کر دوسروں کی زندگیاں حرام کر دیتے ہیں اور باپ۔۔۔۔‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

’کیسا لگا آج یہاں آ کر۔۔۔؟‘ انتہائی غصیلے انداز میں بولی۔

’تم۔۔۔ مجھے یہاں کیوں لائی ہو؟‘ وہ چیخا تھا۔

’بہت جلد جان جاؤ گے۔ آخر اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ تم ہی کہا کرتے تھے نا جو کام جلدی میں کیا جائے وہ کام شیطان کا کام ہوتا ہے۔ اور پھر میں شیطان تو ہوں نہیں۔ تمھارا یہ قانون مجھے تم پہ ہی اپلائی کرنا پڑے گا نا۔‘ قریبی کرسی پہ اپنا پاؤں رکھتے ہوئے بولی۔

’شاکر اندر آ جاؤ۔ اور اس کی مرہم پٹی کر دو۔ تب تک اس کے لیے کھانا بھی آ جائے گا۔‘ واپس مڑتے ہوئے بولی۔

’مرہم پٹی۔۔۔۔؟ وہ نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی شاید سمجھ گئی تھی۔ اسی لیے بولی

’ڈونٹ وری۔ بہت جلد سمجھ جاؤ گے۔ گھبراؤ مت، تمھاری مرہم پٹی کرنی ہے تمھیں کِل نہیں کروا رہی میں سمجھے۔۔‘ وہ واپس مڑ گئی۔

آج بھی اس نے نوک دار ہیل پہنی ہوئی تھی اور چال بھی بالکل ویسی ہی تھی جیسے پہلے دن تھی۔ وہ ذرا بھی نہیں بدلی تھی۔ وہ کمرے سے جا چکی تھی۔ شاکر اس کے پاس آیا تو اس نے اس سے پوچھا

’مرہم پٹی کہاں سے کرنی ہے؟‘

’مجھے تو کوئی چوٹ نہیں آئی۔ پھر مرہم پٹی۔۔؟‘ شاکر نے کوئی جواب نہ دیا۔ چپ چاپ اپنا کام کرتا رہا۔

’بتاؤ نا۔۔‘ اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ شاکر نے اس کی بات سنے بغیر اسے انجکشن لگا دیا۔ جس سے وہ نیند کی وادیوں میں گم سا ہو گیا اور شاکر اپنا کام ایمانداری سے کرنے لگا۔ کام مکمل کرنے کے بعد مطمئن سا ہو کر اس نے بیڈ صاف کیا اور اپنا سامان اٹھا کر کمرے سے باہر آ گیا۔

٭٭

’۔۔۔۔۔ یار سمجھا کرو نا۔ میں نہیں کر سکتی ایسا۔ اور تم تو جانتے ہونا میں صرف تمھاری دوست ہوں۔‘

’دوستی کرنے کو کون کہہ رہا ہے جان۔‘ معاذ نے رجسٹر بند کیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔

’میں نے کہا نا میں نہیں کر سکتی ایسا۔‘

’بس نہیں کر سکتی۔‘ اس نے اسے جواب دیا۔ وہ بھی بہت ڈھیٹ تھا اسے منوانے کا ارادہ کر کے آیا تھا۔

’تم میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں۔ بس یہی دوستی ہے ہماری؟‘ وہ اس سے خفا ہوا۔

’دوستی میں یہ سب ٹھیک نہیں ہوتا۔ تمھیں تو پتا ہے میں کسی ایرے غیرے کو منہ نہیں لگاتی۔ اور پھر دوستی تو کہاں رہ جاتی ہے۔‘

’یار ایک بار ٹرائی تو کر لو۔ شاید اچھا ہو۔ مجھے تو اس نے بہت کہا ہے لیکن میں نے بھی کہا کہ تمھاری مرضی کے بغیر میں کچھ کر نہیں سکتا۔ اسی لیے میں اب تم سے پوچھ رہا ہوں۔ پلیز مان جاؤ نا۔ ورنہ میں کُٹی کر لوں گا۔‘

ماروا کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔ وہ اپنے دوست کو ناراض نہیں کر سکتی تھی۔ اسی لیے چپ رہی۔

’اچھا میں سوچوں گی اس بارے میں۔ فی الحال یہ اسائمنٹ کمپلیٹ کرو کل ہی چیک ہو نے والی ہے۔‘ اس نے رجسٹر دوبارہ کھولتے ہوئے کہا۔

 وہ بولا ’ٹھیک ہے میں رات کو تم سے پوچھ لوں گا۔‘ وہ مطمئن سا ہو گیا تھا۔ ’ٹھیک ہے۔‘ وہ دونوں اسائمنٹ بنانے میں مگن ہو چکے تھے۔

٭٭

معاذ کو رات کا بے قراری سے انتظار تھا۔ وہ جانتا تھا وہ ضرور مان جائے گئی۔ خوشی سے چہرہ دمک رہا تھا ایک نظر ماروا کو کام کرتے دیکھ کر اس نے فواد کو میسج کر ہی ڈالا۔ ’اب مزہ آئے گا فواد۔۔۔ دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے؟ اور کون ہارتا ہے؟‘ وہ اپنے دماغ میں کئی کئی پلان سوچے بیٹھا تھا اور اسے امید تھی جیت اسی کی ہو گی۔

چنانچہ رات کے نو بجے اس نے ماروا کو کال کر ڈالی لیکن اس کا سیل آف جا رہا تھا۔ ایک پل کو تو وہ حیران ہوا۔ اس نے اسے میسج کر دیا تھا جب بھی سیل آن کرے گی تو وہ خود ہی کال کر لے گی۔ مطمئن سا ہو کر وہ ٹی وی دیکھنے لگا۔ جہاں نیوز چل رہی تھیں۔

اتنے میں بازل بھی آ گیا ’اُف یار۔۔۔ آج کل ملک کے حالات کتنے خراب ہو گئے ہیں۔ کوئی بھی سکون کی سانس نہیں لے سکتا۔ اب ان بے چاروں کا کیا قصور تھا۔‘ بازل اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔

’یار تم یہ سب اتنے شوق سے کیوں دیکھتے ہو؟‘ معاذ نے چینل بدلتے ہوئے کہا

’ملک میں کیا کچھ ہوتا ہے اور کیا ہو رہا ہے؟ یہ سب ہمیں پتا تو ہونا چاہیے نا۔‘

’یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ سب دیکھنے کے بعد دل کچھ برا سا نہیں ہو جاتا؟‘ معاذ بولا ’ظاہر ہے مرنے والوں کے لیے دل کچھ غمگین تو ہو گا ہی۔ اینی وے تم سناؤ آج کل کیا ہو رہا ہے؟‘

آج وہ کافی دنوں بعد یہاں پایا گیا تھا اسی لیے وہ دونوں باتوں میں مشغول تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں کھانا آ گیا تو وہ کھانے میں مشغول ہو گئے جبکہ معاذ کو پروا ہو رہی تھی ماروا کی۔ وہ جانتا تھا اسے کوئی نیوز ملی ہے اسی لیے وہ وہیں گئی ہوئی ہے لیکن اب تک تو اسے واپس آ جانا چاہیے تھا کیونکہ رات کے دس بج رہے تھے۔ اس نے ایک بار پھر ماروا کو کال ملائی۔ اس کا سیل ابھی بھی آف جا رہا تھا۔ اس نے بے دلی سے اپنا سیل بیڈ پہ پھینکا اور خود صوفے پہ لیٹ گیا۔

’لگتا ہے آج کچھ زیادہ ہی کام آ گیا ہے‘ وہ اپنے آپ سے بولا۔

وہ کب لیٹے لیٹے سو گیا اسے پتہ ہی نہ لگا اچانک آنکھ کھلی تو اس نے بے اختیار ہی گھڑی کی جانب دیکھا جہاں صبح کے چھ بج چکے تھے۔ کروٹ بدل کر وہ اٹھ بیٹھا تھا۔ اس نے موبائل چیک کیا تو ماروا کے کافی میسجز آئے ہوئے تھے۔ اگر یہی حالت رہی پھر تو کبھی ایسا نہیں ہو گا۔ اس نے سوچا اور ماروا کو میسج کر دیا۔ وہ جانتا تھا ماروا بھولی ہے جلد ہی اس کی باتیں مان لے گی اور یقیناً کامیابی اسے ہی ہو گی۔ سوچتا ہوا وہ واش روم میں گھس گیا۔

٭٭

کمرے میں ہنوز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ ابھی تک بے ہوشی کے عالم میں تھا۔ ’شاکر! اس کی رسیاں کھول دو۔ اور دھیان سے یہ یہاں سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ سمجھے!‘ وہ اسے تاکید دیتی ہوئی ہولے ہولے چلتے ہوئے دروازے تک آئی۔ پھر کچھ یاد آنے پہ واپس مڑی۔ ’تمھیں پتا ہے نا یہ کام کتنا مشکل ہے اور تمھیں جو کام دیا گیا ہے وہ کام ایمانداری سے کرنا۔‘

’جی بیگم صاحبہ!میں کبھی اپنے کام میں دھوکہ نہیں کرتا۔ محنت کی کماتے ہیں کوئی فراڈ نہیں۔‘ شاکر ادب سے بولا

’گڈ۔۔ تو جب یہ ہوش میں آ گیا تو مجھے بتا دینا۔‘

’جی بیگم صاحبہ!‘

وہ کمرے سے جاچکی تھی۔ ایک نظر اس نے بیڈ پہ لیٹے فواد پہ ڈالی اور اس کے پاس آ گیا بے چارہ۔۔۔ کہاں پھنس گیا؟ سوچتے ہوئے اس نے اس کے ہاتھوں کی رسی کھول دی۔ اور خود کرسی پہ بیٹھ گیا۔ یہ زندگی بھی عجیب امتحان لیتی ہے۔ کبھی ہمیں قسمت کے سامنے ہارنا پڑتا ہے اور کبھی قسمت ہمیں جیت سے روشناس کرواتی ہے۔ بعض اوقات ہم جیتنا چاہتے ہیں اور قسمت ہمیں ہرا دیتی ہے اور پھر شاید ہماری قسمت میں ہارنا ہی لکھا ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوا۔ اس نے جیتنا چاہا لیکن قسمت میں ہارنا ہی تھا سو وہ ہار گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ہارنے سے انسان کو تجربہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بار ہار جائے تو دوسری بار جیتنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ آج اسی اُمید سے وہ یہاں تھی اور اُسے اُمید تھی کہ اس بار وہ ضرور جیت جائے گی۔ آخر ہارنے کے بعد ایک بار جیت تو بنتی ہی ہے نا۔ وہ کب سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شاید کسی نے اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا یا اس کی آنکھیں وزنی بہت ہو چکی تھیں اسی وجہ سے کھل نہیں پا رہی تھیں۔ بار بار کوشش کرنے کے بعد اسے تھوڑی سی روشنی نظر آ ہی گئی۔ اسے شدید قسم کی پیاس محسوس ہو رہی تھی اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن آواز کہیں گلے میں ہی اٹک گئی۔ اس کی حالت دیکھ کر شاکر کمرے سے باہر آ گیا۔ وہ جانتا تھا اگر اس نے دیر کر دی تو بیگم صاحبہ غصہ کریں گی اور وہ بیگم صاحبہ کو غصے میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ حالت کچھ سنبھلی تو اس نے کروٹ بدلنی چاہی لیکن وہ جلد ہی نیچے گِر گیا۔ ’اوہ گاڈ۔۔۔‘ اس سے اٹھا ہی نہ گیا تو وہ وہیں پڑا رہا۔ ’آخر کب تک میں اس جہنم میں رہوں گا؟ مجھے کوئی باہر نکالے خدا کے لیے۔‘ وہ اونچی آواز میں بولا۔ کمرے کی جانب آتے ہوئے وہ ایک پل کو رُکی۔

’شاکر اس کے لیے کھانا لے آؤ۔‘ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی جبکہ وہ اس کے لیے کھانے کے لیے چلا گیا۔

’سناؤ کیسی حالت ہے اب تمھاری؟‘

کمرے میں جاتے اس نے اس سے پوچھا۔

’مجھے بچا لو خدا کے لیے۔ پلیز‘

وہ بمشکل ہی بولا تھا

’ہنہ۔۔۔ بچانے والی وہ خدا کی ذات ہے۔ اس سے کہو شاید وہ تمھیں بچا لے‘

’میں تمھارے۔۔۔ تمھارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔‘

’شٹ اپ۔۔۔ اپنی یہ بکواس بند کرو۔ میرے سامنے اپنی زبان کھولی تو کاٹ کے ہاتھ پہ رکھ دوں گی۔ تم سمجھتے کیا ہو؟ جو کچھ کر لو تمھارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پائے گا؟‘

’بھول ہے یہ تمھاری۔ تمھیں تو اب سبق سکھانا ہی پڑے گا۔ اور بہت جلد تم یہ سب دیکھو گے۔ اور میرا پہلا کام تو تم دیکھ ہی چکے ہو گے، یا تمھیں ابھی محسوس ہی نہیں ہوا؟‘ اس کے قریب آتے ہوئے بولی۔

’کک۔۔۔ کیا کام۔۔۔؟‘ وہ تھوڑا پیچھے ہوا۔

’لگتا ہے بے ہوشی کے ساتھ ساتھ تمھاری عقل ختم ہو گئی ہے۔ چلو ابھی تھوڑی دیر میں پتا لگ جائے گا تمھیں۔ اور دوسرا کام میرا تم جانو گے یا بتائے بغیر ہی کر لوں؟‘ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی

’تم۔۔۔ تم میرے ساتھ کچھ نہیں کر سکتیں۔‘

’سمجھی۔ میں نے کب تمھارے ساتھ کچھ کیا۔۔۔؟‘

’کیا تو تم نے تھا جس کی سزا تمھیں مل رہی ہے۔ ابھی تو یہ شروعات ہے آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘

اتنی دیر میں شاکر کھانا لے کر آ گیا تو وہ کھڑی ہو گئی۔ شاکر نے اسے بیڈ پہ بٹھایا اور کھانا اس کے سامنے کر دیا ’شاکر اسے بتا دینا اس کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔ کہیں کچھ اور ہی نہ کر بیٹھے ورنہ اور ہی نقصان اٹھائے گا۔‘

وہ باہر جانے کو تھی۔

’مجھے یہاں نہیں رہنا۔ مجھے جانے دو۔‘ وہ ایک بار پھر بولا۔

’شاکر اسے سمجھا دینا یہ یہاں کیوں لایا گیا ہے۔ اگر کچھ کمی رہ گئی تو وہ میں پوری کر دوں گی۔‘ کہہ کر وہ باہر جا چکی تھی۔

٭٭

’کھانا کھا لو، اس کے بعد تمھیں آرام بھی کرنا ہے۔‘ شاکر ہولے سے بولا۔

’مجھے کیوں لائے ہو یہاں؟‘

’تم بہت جلد جان جاؤ گے۔ آخر تمھارے گناہوں کی ہی سزا مل رہی ہے تمھیں۔ جانتے ہو کیا ہو گیا ہے تمھارے ساتھ۔۔۔؟‘ فواد نے نفی میں سر ہلایا۔

’تمھاری مردانگی طاقت ختم کر دی گئی ہے۔ اب تم کبھی بھی اپنی طاقت کا استعمال نہیں کر سکتے۔‘

’کک۔۔۔ کیا۔۔ وہ دنگ رہ گیا یہ۔۔۔ کیسے ہوا۔۔۔؟‘

’جب تمھیں یہاں لایا گیا تھا تب یہ سب ہوا تھا۔ اب جلدی سے کھانا کھاؤ ورنہ پھر بے ہوش ہو جاؤ گے۔‘

وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ اس کے کانوں میں ابھی بھی شاکر کی آواز گونج رہی تھی۔

’میں نامرد ہو گیا ہوں۔۔۔؟ میری مردانگی طاقت۔۔۔۔ ختم کر دی گئی ہے۔۔‘

اس نے محسوس کر لیا تھا۔ اور محسوس کیا جانا 100% درست تھا، تو آج وہ سب اس نے سچ کر ڈالا تھا۔ یہ سب اتنی آسانی سے کر دیا اس نے۔ کیا وہ واقعی اتنی سمجھدار تھی؟‘

اس کا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ یہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا؟ اس کے ساتھ یہ سب بھی ہو جائے گا یہ اس کے وہم و گماں میں نہ تھا۔

٭٭

’پپا مجھے نہیں کرنی شادی۔ آپ مما کو سمجھاتے کیوں نہیں؟ دیکھیں نا کیا کر رہی ہیں۔‘ ارحم جھنجھلا گیا۔

’میں نے نبیلہ باجی کو زبان دے دی ہے۔ اب زیادہ بحث مت کرو۔ کل وہ آئیں گی تو ہم سب مل لیں گے کیا۔۔۔‘

’زبان دے دی۔۔۔‘ وہ حیران ہو گیا۔ ’آپ نے میرے بغیر یہ سب کیسے کر لیا؟ آپ زبردستی کر رہی ہیں۔ دیکھ لیں پپا‘

’میں نے کہہ دیا نا۔۔۔ بس تم مان جاؤ‘

’پپا آپ کبھی بھی میری طرف داری نہیں کرتے۔ ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔‘ وہ تنگ آ کر بولا۔ تو ڈیڈی بولے

’بیٹا میں تو ان معاملات میں دخل اندازی نہیں کر تا۔ بعد میں اگر کچھ ہو گیا تو برا میں ہی بنوں گا۔ اسی لیے بہتر ہے تم ماں بیٹا خود ایک دوسرے سے اچھے طریقے سے بات کرو۔ ہاں۔۔۔ اب اور ڈرامے بازی نہ کرو۔ تم جہاں اور جس کے پیچھے بھاگ رہے ہو تمھیں وہاں سے کچھ بھی نہیں ملنے والا۔‘

’مما۔۔۔ یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہیں۔ اور پپا آپ۔۔۔ آپ سب خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔‘ اس نے روٹھی روٹھی آواز میں باپ سے گِلہ کیا۔

’ٹھیک ہے آپ کچھ بھی کریں۔ میں آج سے گھر ہی نہیں آؤں گا۔۔‘

تیزی سے چلتا ہوا وہ ہال سے باہر چلا گیا۔ جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔

’انسان کے بس میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ کوئی بھی کام وہ نہیں کر سکتا جس میں الله کی رضا مندی شامل نہ ہو۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مما نے اپنی مرضی سے میری شادی لاریب سے فِکس کروا دی۔ میں کافی دنوں سے گھر نہیں آیا تھا اور اب آیا تو یہ قیامت دیکھنے کو مل رہی تھی۔‘

شادی کے دن قریب آ رہے تھے اور میں اپنی موت کی دُعائیں مانگ مانگ پاگل ہو رہا تھا۔

’خالہ ثمرہ جانتی تھیں میری شادی ہے۔ میں نے انہیں بے حد سمجھایا کہ نبیرہ کو وہ میرے ساتھ بھیج دیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’تم میری بہن کی عزت ہو۔ تم نبیرہ کو ساتھ لے گئے تو میری بہن معاشرے میں اپنا منہ نہیں دکھا سکے گی۔ ہماری جو قسمت میں ہوا ہم دیکھ لیں گے۔۔ تم یہ شادی کر لو بیٹا۔‘ میں مجبور ہو چکا تھا۔ نبیرہ کو اس بات سے بالکل بے خبر کر رکھا تھا ہم نے۔ لیکن ایک نہ ایک دن تو اسے بھی معلوم ہو ہی جانا تھا۔۔‘

٭٭

شام کے سائے کب کے ڈھل چکے تھے وہ ڈور بیل بجا نے کے لیے آگے بڑھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھل چکا تھا۔۔

’اوہ۔۔۔ آپ۔۔ آج یہاں کیسے؟ ہماری یاد کیسے آ گئی آپ کو۔‘ ایک طرف ہوتے ہوئے اس کے لیے راستہ بناتی ہوئی نبیرہ بولی۔

’ہم ذرا اپنی خالہ جان سے ملنے آئے تھے۔‘ اس نے چھیڑتے ہوئے کہا

’کون خالہ جان؟ ۔۔ یہاں آپ کی کوئی خالہ جان نہیں رہتیں۔‘

’مگر میری انفارمیشن کے حساب سے تو ان کا گھر یہی تھا۔ کہیں میں غلط پتے پہ تو نہیں آ گیا۔‘ ہنسی روکتے ہوئے بولا۔

’ممی ہیں وہ میری۔ خالہ نہیں۔‘

’اوہ۔۔ مما۔۔۔ کہاں ہیں؟‘

’ہم کون ہیں؟ کیا رشتہ ہے ہمارا آپ کے ساتھ؟ آپ تو ہمیں جانتے تک نہیں۔۔‘ ’ہنہ۔۔۔‘ اس نے منہ بسورا ’آپ کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔۔۔؟ آپ تو ہماری جانِ۔۔۔‘ وہ اس کے پاس آیا۔

’بس۔۔۔ بس۔۔۔ رہنے دیں۔۔ پتہ ہے ہمیں۔ لو آگ ئیں آپ کی پیاری خالہ جان۔۔۔‘

’اور آپ جناب کہاں جا رہی ہیں؟‘ اسے جاتا دیکھ کر ارحم بولا۔

’آپ کے لیے کچھ ٹھنڈا گرم لانے جا رہی ہوں۔۔ گرمی ہے نا۔۔۔‘

’اوہ۔۔۔ اچھا اچھا۔ میرا کتنا خیال رکھتی ہو تم مائی ڈئیر۔۔۔ ضرور لائیں جناب۔‘ وہ مسکراتا ہوا بولا تو نبیرہ بھی مسکراتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئی۔

٭٭

۔۔۔۔۔ بالآخر وہ گھڑی آن ہی پہنچی جب اسے کسی کے لیے دُلہا بننا پڑا۔ وہ چپ چاپ سب تماشے دیکھ رہا تھا۔ نبیرہ کا خیال اسے بھول ہی نہ رہا تھا۔ کوئی دس دفعہ اس نے خالہ ثمرہ سے اس کا پوچھا تھا۔

وہ بارات کے ساتھ نہیں آئی تھی۔ وہ اس کے لیے فکر مند تھا، یہ سب کچھ اس نے اپنی والدہ کی عزت اور خوشی کی خاطر کیا۔ اسے کوئی شوق نہیں تھا لاریب سے شادی کرنے کا۔ ساری رسومات مکمل ہونے کے بعد بالآخر وہ گھر پہنچ ہی گیا۔ لیکن آج وہ اکیلے گھر نہیں آیا تھا اس کی ہمسفر، ایک بیوی اور ایک فرض اس کے ساتھ تھا۔ جسے اسے نبھانا تھا۔ جسے اس نے دیکھا تک نہیں تھا۔

’ایک تو ان ویڈیو والے نے تنگ کر رکھا ہے۔‘ اسے غصہ آ رہا تھا، خالہ ثمرہ کی بار بار آتی کال اسے مسلسل پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی۔ اس نے مما کو بلایا اور باہر آ گیا۔ کال اٹینڈ کرتے ہی اس کا دل ساکت رہ گیا۔۔۔ قدم وہیں کے وہیں جم گئے۔ مگر اسے چلنا تھا۔

وہ وہاں سے کیسے ہاسپٹل پہنچا وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔

’نبیرہ۔۔۔ نبیرہ کہاں ہے؟‘ بھاگتے ہوئے وہ خالہ ثمرہ کے پاس آیا۔

’ڈاکٹرز اندر لے گئے ہیں۔‘

’خالہ آپ پریشان مت ہوں۔۔۔ میں ہوں نا۔۔۔‘ اس نے خالہ کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا

’میری نبیرہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔‘ وہ پریشانی سے بولیں۔

’خالہ۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا نبیرہ کو۔۔‘ اس نے خالہ کو حوصلہ دیا۔

تھوڑی دیر میں دو نرسز کمرے سے باہر آئیں۔ ’آپ کو جلد از جلد بلڈ کا انتظام کرنا پڑے گا۔ کیونکہ مریضہ کی طبیعت بے حد نازک ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کوشش کر کے جلد یہ کام مکمل کر دیں تاکہ ہم باقی اپنا کام کر سکیں۔۔‘

’بلڈ۔۔۔‘ ارحم نے یہ لفظ دو تین بار دوہرایا

’نبیرہ کا بلڈ گروپ تو o- ہے۔‘

’اب۔۔۔‘ وہ سوچنے لگا۔ ہر ماہ یہی مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ نبیرہ کا بلڈ گروپ نہایت مشکل سے ملتا تھا۔ لیکن اب تو یہ ارجنٹ تھا۔ اب یہ کیسے ممکن تھا۔ اس نے اپنے تمام دوستوں سے بات کی تھی۔۔ خالہ مسلسل روئے جا رہی تھیں۔ وہ انہیں تسلی دیتا تھا۔ لیکن کام کرتے کرتے بھی دو گھنٹے لگ ہی گئے تھے۔

خدا کا شکر تھا کہ انہیں بلڈ مل گیا تھا۔ اب وہ خاموشی سے روم کے باہر کھڑا تھا۔ مما کی کال اسے بار بار آ رہی تھی اس نے سیل آف کر دیا تھا۔ وہ خود کو کسی اور ٹینشن میں نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس وقت اسے صرف اور صرف نبیرہ کی پریشانی تھی۔۔

’بیٹا۔۔۔ تم گھر جاؤ۔ وہاں سب تمھارا انتظار کر رہے ہوں گئے۔‘

’ہوں۔۔۔‘ وہ چونکا تھا۔ ’نہیں خالہ، مجھے نبیرہ سے ضروری کوئی شے نہیں۔ اور میں آپ کو اکیلے کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں۔ میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا۔‘

’بیٹا۔۔۔ تمھاری ابھی ابھی شادی ہوئی ہے۔ تمھاری بیوی۔۔۔۔‘

’نہیں ہے کوئی میری بیوی۔‘ اس نے خالہ کی بات کاٹ دی

’مما کو مجھ سے زیادہ اچھے جواب دینے آتے ہیں لوگوں کو۔ وہ ان کا منہ بند کر دیں گی۔ مجھے نہیں جانا۔ بس‘

خالہ سمجھ گئیں تھیں کہ ارحم اب غصے میں آ چکا ہے۔ اسی لیے چپ رہیں۔

٭٭

وہ بار بار دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی۔ آنے والے کا انتظار کرنا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کبھی وہ سجے ہوئے کمرے میں نظریں دوڑاتی کبھی اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتی اور خود سے شرما جاتی، کبھی اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی دیکھ کر ہولے سے مسکراتی۔۔۔ آخر کب تک وہ یوں کرتی۔ دروازہ ویسے کا ویسے بند تھا۔ اس نے گھڑی کی جانب نظر دوڑائی رات کے دو بج چکے تھے۔

اس نے اپنی پوزیشن بدلی اور سر جھکا کر ایک بار پھر آنے والے کا انتظار کرنے لگی۔ اور واقعی تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا تھا۔

وہ نہیں جانتی تھی اندر کون آ رہا ہے۔ اتنا ضرور یقین تھا اس کا ہمسفر ہی آ رہا ہے۔

’لاریب بیٹا۔۔۔ عالیہ آفندی لاریب کے پاس آ کر بولیں۔ ’لاریب بیٹا، ارحم کو کسی کام کے سلسلے میں باہر جانا پڑا اسی لیے وہ ہیں آیا۔ آپ چینج کر لو۔ وہ شاید لیٹ ہو جائے۔ آپ تھک گئی ہوں گی۔ آرام کر لو۔ وہ جوں ہی آیا میں اسے آپ کے پاس بھیجوں گی۔۔‘

لاریب جو کچھ اور سوچے بیٹھی تھی۔ اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ مگر وہ چپ رہی۔ اور آہستہ سے اٹھتی ہوئی وہ واش روم میں چلی گئی۔

٭٭

’۔۔۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے؟ میں نے کیا کہا تھا آپ کو۔۔۔؟‘

’سر ہم نے پوری کوشش کی تھی۔۔۔‘

’میں نے کہا تھا نا میری نبیرہ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔‘ اس نے ڈاکٹر کو گردن سے پکڑ لیا تھا۔ ’سر۔۔۔‘ نرسز ڈاکٹر کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو اس نے ان سب کو زور سے دھکا دے دیا۔ خالہ ثمرہ نے اسے بہت روکا مگر۔۔۔ وہ کمرے میں جا چکا تھا۔ وہ اب رکنے والا نہیں تھا۔ ’نبیرہ پلیز واپس آ جاؤ۔ پلیز نبیرہ واپس آ جاؤ۔ وہ اس کے ساتھ لگ کر رو رہا تھا اٹھو نبیرہ۔۔۔‘ اتنی دیر میں نرسز اندر آ چکی تھیں۔

’سر پلیز آپ پیچھے ہٹ جایئے۔‘ انہوں نے اسے نبیرہ سے الگ کرنے میں بہت زور لگایا۔۔۔ خالہ ثمرہ بے تحاشہ رو رہی تھیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی آج انہیں چھوڑ کر جا چکی تھی۔

’میں مما کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ ان کی وجہ سے میری نبیرہ مجھ سے دُور ہو گئی۔۔‘ وہ اسی حالت میں گھر واپس آیا تھا۔ مما اس کا حلیہ دیکھ کر حیران رہ گئی تھیں۔ ولیمہ کی دعوت کو فی الحال ملتوی کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ نبیرہ کی وفات سے سارا خاندان میں اداس اور غمگین ہو گیا تھا۔

گھر بھر میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ بیڈ پہ لیٹا مسلسل چھت کو گھورے جا رہا تھا۔۔ لاریب دو بار کھانے کا پوچھنے آئی تھی اس نے منع کر دیا تھا۔

’میں نے آپ کو کتنی دفعہ کہا ہے آپ میرے سامنے مت آیا کریں۔ میری مما نے آپ کو بتایا نہیں میرے بارے میں؟ مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔‘ اس نے اس کے تیار ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چپ کھڑی رہی اس کے سامنے۔۔۔

’اب۔۔ مجھے ہی چلا جانا چاہیے یہاں سے۔‘ ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔ لاریب بند دروازہ دیکھتے گئی۔۔۔

’ممی آجکل میں شاید میرا ویزا او کے ہو جائے۔ میں نے آپ سے کہنا تھا کہ لاریب سے بات کریں کہ وہ اپنے گھر چلی جائے۔ میں تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر جا سکتا۔ اور آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ میں نے اسے اپنی بیوی تسلیم نہیں کیا۔۔۔ تو بہتر یہی ہے کہ آپ۔۔۔۔‘

’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘

’آپ کچھ بھی سمجھ لیں۔ کیونکہ مجھ سے زیادہ سمجھ دار تو آپ ہیں۔ مجھے آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔‘

’میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔ لاریب تمھاری بیوی ہے۔ تم خود اس کے ساتھ اچھی طرح سے رہنے کی کوشش کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

’سب کچھ ٹھیک ہی ہے مما۔۔ میں بس پاکستان نہیں رہنا چاہتا۔ میں جب تک یہاں رہا۔ مجھے بھی تکلیف ہو گی اور آپ کو بھی۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف ہو۔۔‘

’تو ٹھیک ہے۔ لاریب کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ اس کا بھی دل خوش ہو جائے گا۔ اور پھر تم دنوں شادی کے بعد کہیں باہر گئے بھی نہیں۔‘

’فار گاڈ سیک مما۔۔۔‘ اس نے اپنا ماتھا چھوا۔

’پیٹا۔۔۔ آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے تو بس وہی کرنا ہے جو آپ کی مرضی ہوتی ہے۔‘

’میں خود ہی کچھ کر لوں گا۔‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔

وہ اپنے ساتھ لاریب کو سزا نہیں دے سکتا تھا۔ اسی لیے بہتر یہی تھا کہ وہ اسے آزاد کر دے۔ اور یہ شاید سب سے بہتر تھا۔ اس نے خالہ ثمرہ سے مشورہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے اسے سمجھایا کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔

’میں رہنا نہیں چاہتا کسی کے ساتھ بھی۔ مجھے اکیلے رہنا ہے بس۔۔ میں آج ہی وکیل سے بات کر کے تمام کاغذات او کے کروا دیتا ہوں۔ میں کم از کم اس کی زندگی خراب نہیں کر سکتا۔۔۔‘ اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔

چند ہی دنوں میں یہ سب کچھ ہو گیا۔۔

آج صبح وہ جلد ہی اٹھ گیا تھا۔ اور لاریب اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔ ناشتہ کرتے ہوئے اس نے اسے شام میں تیار ہونے کا کہا تھا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے گا۔

آج پہلی بار اس نے لاریب سے بات کی تھی۔ لاریب خوش ہو گئی۔ کافی دنوں سے وہ گھر نہیں گئی تھی۔ آج اس نے تمام کام جلد ہی پورے کر لیے تھے۔ سارا سامان تیار تھا۔ اب بس ایک کام ادھورا تھا۔۔۔ اس نے گاڑی کا رُخ گھر کی طرف کر دیا۔۔ آدھ گھنٹے میں گھر تھا۔ لاریب پہلے سے ہی تیار تھی اسے زیادہ دیر نہ لگی۔ اسے گاڑی میں بٹھا کر اس نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کر دی۔ وہ ان لمحات کو جلد از جلد گزارنا چاہتا تھا۔۔۔ آدھ راستے میں اس نے اسے بتایا تھا کہ بیگ میں اس کے کاغذات ہیں۔ گھر جا کر وہ دیکھ لے۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس نے اس کا مہر بھی ادا کر دیا تھا۔ اب وہ لاریب کو آزاد کر چکا تھا۔۔

’آپ کو مجھ سے زیادہ اچھے انسان مل جائیں گے۔ میں نے آپ کو آزاد کیا۔ کیونکہ میں آپ کو خوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔ آپ اچھی طرح جانتی بھی ہیں کہ میرے دل میں صرف اور صرف نبیرہ ہے۔۔ میں آپ کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ رب کریم آپ کو بیحد خوشیاں دے گا۔ یہ میری دُعا ہے آپ کو۔ آپ نے جتنا بھی وقت میرے ساتھ گزارا بہت اچھا تھا۔ آپ بہت اچھی ہیں۔۔ بس آپ خوش رہیں۔‘

لاریب بُت بنی سب باتیں سن رہی تھیں۔ وہ ایک لفظ بھی نہ بول پائی۔۔ آنسو پلکوں کی بھاڑ سے آزاد ہو کر گالوں پہ پھسل گئے۔۔۔ اس کا گھر آ چکا تھا۔ ایک نظر اس نے ارحم کی جانب دیکھا تو وہ ساکت رہ گئی۔ ارحم خود رو رہا تھا۔۔

’تو کیا یہ سب آپ کی مجبوری تھی؟‘ ’آپ کچھ ایسا ہی سمجھ لیں۔۔۔‘ کہہ کر وہ نیچے اترا اور سارا سامان اتارنے لگا۔۔

لاریب کو گھر تک چھوڑنے کے بعد وہ ایک بار پھر ٹوٹ گیا تھا۔

‘کاش۔۔۔ نبیرہ ایسا نہ ہوتا۔ نبیرہ تم آ جاؤ۔۔۔‘ وہ ایک بار پھر رونے لگا۔۔۔

٭٭

                                                                                                                                                زندگی میں بہت سے واقعات ایسے ہیں جنھیں ہم کبھی بھول نہیں سکتے۔ مگر جو ارحم کے ساتھ ہوا کیا وہ بھول پائے گا۔۔۔؟ وہ نبیرہ کے بغیر جی تو لے گا لیکن کیا وہ واقعی نبیرہ کا مجرم تھا؟ یہ فیصلہ آپ کا ہے۔۔۔

٭٭

’کہاں تھی؟ کل رات بھی تم نے بات نہیں کی۔ کیوں۔۔۔؟‘

جانتے ہوئے بھی وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔

’آئی ایم سوری۔۔ کل مجھے آفس جانا پڑا اور جو نیوز مجھے ملیں تمھیں تو پتا ہی چل گیا ہو گا۔ جب میں گھر آئی تب تک بہت تھک چکی تھی اور تب تک سیل کی بیٹری اینڈ ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے میں تم سے بات نہیں کر سکی تھی۔‘

‘اٹس او کے۔ تو کچھ پرافٹ ہوا تمھیں؟‘

’یس شیور۔۔‘ وہ مسکراتے ہوئے بولی تو وہ بھی ہولے سے مسکرانے لگا

’آج کل مس ماروا کچھ زیادہ ہی مصروف نہیں ہو گئیں نیوز میں۔۔۔‘ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔

’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ نیوز آتی ہیں تو مجھے جانا پڑتا ہے۔‘

’پھر تو پارٹی بنتی ہے۔‘

’بالکل بنتی ہے لیکن اس کلاس کے بعد۔‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی تو وہ بھی اس کے پیچھے اٹھ گیا۔

’ویسے میں سوچ رہا ہوں میں بھی تمھارے ساتھ آ جاؤں۔‘ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا

’کہاں۔۔۔۔؟‘

’ارے یار تمھارے ساتھ کام کرنے۔۔‘

’کوئی ضرورت نہیں۔ تم جو کام کرتے ہو وہی کرو تو بہتر ہے۔‘ اس نے اسے جواب دیا

’آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ ہم دونوں ساتھ پڑھتے ہیں تو کام بھی ایک ساتھ کریں گے۔‘

’اچھا۔۔۔ تم کل سے آفس جوائن کر لو میں آج ہی سے آفس سے چھٹی کر لیتی ہوں۔ کیونکہ جب ہم دونوں نے کام ساتھ کیا تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے اس لیے بہتر یہی ہے مجھے کام کرنے دو اگر تم نے کام کرنا ہے تو تم کسی اور نیوز ایجنٹ سے رابطہ کرو۔‘ وہ کہہ کر کلاس کی جانب بڑھ گئی اور وہ اس کے پیچھے چل دیا۔

معاذ جانتا تھا وہ کبھی بھی اسے اپنے ساتھ کام کرنے نہیں دے گی اس لیے اس نے اس کی بات مان لی۔

٭٭

۔۔۔۔۔ وہ جانے کب سے ساکت بیٹھا رہا تھا، اس کے ساتھ یہ بھی ہو گیا۔ ’میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔‘

’اب پکڑنے والا کیا رہ گیا ہے مسٹر فواد۔۔ سب کچھ تو لوٹ چکے ہو تم۔‘ کہیں سے آواز آئی۔

وہ ہولے ہولے سمجھ رہا تھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اور کس مقصد کے لیے ہو رہا ہے؟ وہ اب بے بس ہو چکا تھا۔ اس کے پاس دو ہی راستے تھے ایک راستہ وہ یا تو اپنی زندگی سے ہار جائے یا اسی سزا کو جھیلے۔

اور اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو لازمی چننا تھا۔

اس نے اپنا سر تکیے پہ گِرا دیا اور اس کمرے سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈنے لگا۔ وہ بھاگ جانا چاہتا تھا یہاں سے۔ وہ نہیں رہنا چاہتا تھا یہاں ایک پل بھی۔

کچھ دیر لگی تھی اسے سوچنے میں۔ وہ ہولے سے بیڈ سے اٹھا او ر دروازے تک پہنچا۔ باہر سے آنے والی آواز کچھ جانی پہچانی سی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر لگی تھی اسے یہ آواز جاننے میں۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا۔ ’معاذ یہاں۔۔۔؟ کک۔۔۔ کیا اس کے ساتھ بھی ایسا۔۔۔؟‘ اس کے دماغ میں کئی کئی باتیں آ رہی تھیں۔ ’مجھے نکلنا چاہیے یہاں سے، ابھی۔۔۔‘ وہ جلدی سے دروازے کے پاس آیا۔ دروازہ کھولنے کی اس نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس نے دروازے پہ مکے مارنے شروع کر دیے۔ اس کے ان مکوں کا کسی پہ بھی کوئی اثر نہیں تھا۔

صدمے کی سی حالت میں وہ نیچے گرتا جا رہا تھا۔ وہ کیا کرے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔

’مبارک ہو آپ بالکل سیو ہیں۔‘ اس کے قریب آتے ہوئے وہ بولی تھی۔

’ماروا تم۔۔۔ تم ایسے کیوں کر رہی ہو۔۔؟ تم جانتی ہو نا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔‘ وہ بولا تھا۔

ماروا نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا۔

’کس پیار کی بات کر رہے ہو مسٹر معاذ؟ تم نے تو کبھی مجھ سے پیار کیا ہی نہ تھا وہ صرف حرص تھی حرص۔۔۔ اور اس حرص میں تم اتنے آگے پہنچ چکے تھے کہ اپنی آخرت بھی بھول چکے تھے تم۔ اب تم یہاں سے تو بچ نہیں سکتے اور آخرت کی میں کوئی گارنٹی نہیں دیتی۔‘ وہ آج اتنے غصے سے بول رہی تھی اور معاذ حیرانگی سے دیکھ رہا تھا کیا اسے بھی غصہ آتا ہے؟ وہ سوچتا رہ گیا۔

’پلیز ماروا۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔ تم جو کہو گی میں کروں گا لیکن مجھے چھوڑ دو۔۔‘

’یاد کرو وہ وقت جب میں نے تمھارے پاؤں پکڑے تھے گڑگڑائی تھی تمھارے پاؤں میں گر کر۔ تمھیں، تمھیں اس وقت تو میرا خیال نہ آیا کہ میں کون ہوں؟ کیا لگتی ہوں تمھاری؟ اور آج تم مجھے کہتے ہو کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو۔‘

’ماروا خدا کے لیے۔۔۔‘ اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن اس نے بات کاٹ دی۔

’شاکر! اسے لے جاؤ۔ اور خبردار جو میرے سامنے اپنی زبان کھولنے کی کوشش کی تو۔‘

کہہ کر وہ ٹک ٹک کرتی کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔ وہ اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔ اب افسوس کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا دکھائی دیا۔ وہ قریبی کرسی پہ ڈے سا گیا۔

٭٭

۔۔۔۔۔ آج ماروا کی سالگرہ تھی وہ آج کچھ خاص تیاری سے آئی تھی۔ معاذ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔

کلاسز کے بعد انہوں نے کینٹین کا رخ کیا۔ اور آج معاذ نے پھر اس سے فواد کی بات چھیڑ دی۔ جو ماروا کو ناگوار گزرتی تھی۔

’یار پلیز بات مان بھی لیتے ہیں۔ کیا بچوں جیسے ضد کرتی ہو تم۔‘

’او کے تمھاری خوشی کے لیے۔‘ وہ اس کے سامنے ہار گئی تھی۔

اتنا کہنا تھا معاذ کی تو گویا عید ہی ہو گئی تھی وہ خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔ اس نے جھٹ سے ماروا کو فواد کا سیل نمبر دیا۔

’میں کیوں لوں گی اس کا سیل نمبر؟ اسے کہو وہ خود بات کرے مجھ سے‘

’او کے مائی ڈئیر۔‘ کہہ کر اس نے فواد کو میسج کر دیا تھا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ماروا کو بھی میسج مل چکا تھا۔

اب معاذ کو اس دن کا انتظار تھا جس دن وہ کامیاب ہو جائے گا۔ دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے وہ کیک کاٹ رہا تھا۔ بے چاری ماروا اس کے ہاتھوں بے وقوف بن گئی تھی وہ جان نہ پائی۔

دن اسی طرح گزرتے گئے وہ فواد سے بات کرتی تھی یہ بات ہولے ہولے معاذ کو چبھنے لگی تھی۔

کبھی کبھی اسے خود پہ غصہ آتا لیکن وہ کنٹرول کر جاتا آخر ایسا کرنے سے اسے ہی فائدہ ہوا تھا۔

کلاس سے فارغ ہونے کے بعد وہ دونوں لائبریری کی جانب جا رہے تھے جب ماروا بولی ’فواد مجھ سے ملنا چاہتا ہے، لیکن میں اس سے ملنا نہیں چاہتی۔ کہہ دو اسے میں نہیں مل سکتی‘

’ارے۔۔۔ واؤ۔۔۔ وہ مل رہا ہے تو تم انکار کیوں کر رہی ہو؟‘

’معاذ بی سیریس۔۔۔ تم کہہ رہے ہو یا میں خود با ت کروں اس سے؟‘ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بولی۔

’تمھارا مسئلہ ہے تم خود حل کرو نا۔ اگر میں اندر آیا تو۔۔۔‘

’او کے میں کہہ دوں گی۔‘ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی۔ جس کا مطلب تھا وہ ناراض ہو کر گئی تھی۔ ’اُف۔۔۔ اب میں۔۔۔‘ اس نے کندھے اچکائے اور ڈھیلے قدموں سے آگے بڑھ گیا۔

٭٭

اس کا پلان کامیاب ہو رہا تھا۔ آج شام کو اس نے فواد سے ملنا تھا اور ماروا اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی۔ وہ اس کی پروا کیے بنا شام کے وقت فواد کے پاس تھا۔ وہ ان دونوں کے ہاتھوں اتنی جلدی بے وقوف بن جائے گی انہوں نے سوچا نہیں تھا۔ کل شام کو وہ فواد سے ملنے آ رہی تھی۔ معاذ کے لیے یہ سب سے بڑی خوشی تھی۔ گویا وہ آج جیت گیا تھا۔

اور فواد۔۔۔ اس کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ماروا کو اس نے اتنی آسانی سے استعمال کر لیا تھا یہ سوچ تھی اس کی۔

معاذ نے ماروا سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ آج بالکل چپ تھی اس نے کافی دفعہ بلانے کی کوشش کی تو اس نے اپنا رخ بدل لیا۔ اس نے زیادہ کوشش نہ کی اسے بلانے کی اور یوں ہی اپنے کام میں لگا رہا

’کوئی بات نہیں کل منا لوں گا۔ آج جا رہی ہے فواد سے ملنے۔‘ دل ہی دل میں سوچنے لگا۔

آج معمول کے مطابق وہ جلدی گھر آ گیا تھا۔ اسے رات کا بے چینی سے انتظار تھا جب فواد اسے کال کر کے اسے خوشخبری سنائے گا۔ وہ ٹی وی لگا کر ریلکس ہو کر لیٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

٭٭

گھڑی نے شام کے چھ بجا دیے تھے۔ گویا اس سے ملنے کا وقت آن پہنچا تھا، وہ بے دلی سے اٹھی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس نے اپنا حلیہ درست کیا اور گاڑی کی چابی پکڑی اور گھر سے باہر نکل آئی۔ فواد نے جو جگہ اسے بتائی تھی وہ کچھ زیادہ دور نہ تھی پندرہ منٹ میں وہ وہاں موجود تھی لیکن وہاں کوئی آبادی نہ تھی سڑک ویران پڑی تھی وہ ایک پل کو رُکی لیکن کچھ سوچتے ہوئے اس نے فواد کو کال کر لی جو اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ ایک منٹ کی دیر کیے بِنا وہ اس خوبصورت عمارت سے باہر آیا اور ماروا کشمکش میں مبتلا ہو گئی کہ اس کے ساتھ اندر جائے یا نہیں؟ لیکن اسے اندر جانا ہی تھا اور وہ اندر آ چکی تھی۔ سب کچھ اس کے معمول کے بر عکس ہو رہا تھا۔ ’کیا اس گھر میں کوئی نہیں رہتا؟‘ اس نے گھر میں چھائی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔

’نہیں۔۔ یہ گھر دراصل کچھ مہینوں سے خالی پڑا ہے۔ کوشش کر رہا ہوں جلد ہی کوئی اس گھر میں آ جائے۔‘ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا

ماروا دل ہی دل میں معاذ کو کوس رہی تھی ’کیا ضرورت تھی اسے یہ سب کرنے کی؟ میرا وقت ایویں ضائع ہو رہا ہے۔‘ اس نے دیوار پہ لگی پینٹنگ دیکھتے ہوئے سوچا۔ فواد اس کے لیے مشروم لینے کے لیے اٹھا تھا۔ ’مجھے اب جانا چاہیے‘ خود سے بولتی ہوئی گویا ہوئی۔

فواد کو آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی۔ ’مجھے جانا چاہیے‘

’ارے۔۔۔ اتنی بھی کیا جلدی کیا ہے؟ مشروم تو لو‘

’نن۔۔۔ نہیں اس کی ضرورت نہیں۔‘ اس کے ہاتھوں میں تھامے مشروم کی بوتل دیکھ کر بولی ’اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ بیٹھو نا میرے پاس۔ تھوڑی باتیں کرتے ہیں۔‘ مشروم کی بوتل ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا۔

’میں تم سے ملنے آ گئی ہوں یہی کافی ہے۔‘ نہ جانے کیوں ماروا کو اس سے بات کرنا ناگوار محسوس ہو رہا تھا۔ وہ تو وہاں ایک پل بھی نہ رکتی یہ تو بس معاذ کے لیے کر رہی تھی وہ۔ وہ اسے کبھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔

’اگر ملنے آئی ہو تو مجھ سے بات بھی نہیں کرو گی؟‘ وہ اس کے قریب آ گیا۔ ماروا ایک قدم پیچھے ہٹی ’فواد۔۔۔‘ اس نے کچھ کہنے کیے منہ کھولا تو فواد نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ اس کے اس ری ایکشن پہ وہ شاکڈ رہ گئی۔ اس نے اس کا ہاتھ ہٹانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ شاید انسان نہ تھا اسے ایک لمحہ اس معصوم لڑکی پہ ترس نہ آیا۔ اور وہ سب کر گزرا جو اسے کبھی کرنا نہیں تھا۔

ماروا کے آنسو تھمنے کو نہ آ رہے تھے لیکن وہ بے حس انسان اسے وہیں چھوڑ کر باہر جا چکا تھا۔

ماروا اب صرف اور صرف ایک لڑکی رہ گئی تھی صرف نام کی ماروا۔۔۔ جو اندر سے بالکل خالی ہو۔

٭٭

وقت تیزی سے گزر رہا تھا اس نے ایک نظر اپنے آپ کو دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ کیسے گھر پہنچی؟ وہ نہیں جانتی تھی اور بیڈ پہ لیٹے اسے کتنی ہی دیر ہو چکی تھی وہ ساکت نظروں سے چھت کو گھورے جا رہی تھی۔ سائیڈ ٹیبل پہ پڑا سیل فون بار بار بج کر بند ہو رہا تھا۔ وہ جانتی تھی معاذ اسے کالز کر رہا ہے۔ لیکن اب وہ اس کی ماروا نہ رہی تھی اس کی ماروا تو مر گئی تھی، مر گئی تھی۔

اس کا ذمہ دار شاید معاذ تھا یا وہ خود؟ وہ کیسے فیصلہ کرتی؟ اس میں اب جینے کی ہمت باقی نہ رہی تھی وہ ختم ہو جانا چاہتی تھی مِٹ جانا چاہتی تھی اس ہستی سے۔ لیکن اسے جینا تھا اپنے ڈیڈی کے لیے ان کو وہ کبھی روتا نہیں دیکھ سکتی۔ ڈیڈی کا خیال اسے ستائے جا رہا تھا اور انہیں کیا معلوم کہ آج ان کی بیٹی کی عزت پہ ہاتھ ڈالا گیا ہے۔

٭٭

’نہ جانے کہاں چلا گیا ہے؟ کوئی فون کال نہیں کوئی میسج نہیں؟ آخر وہ گیا کہاں؟‘ ڈرائنگ روم کے دروازے کے پاس کھڑے اشرف صاحب کا غصہ آسماں کی ساتویں حد پار کر گیا تھا۔

’آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ جہاں بھی گیا ہو گا واپس آ جائے گا۔‘ صدیقہ انہیں حوصلہ دے رہی تھیں اور وہ۔۔۔۔

’تم جانتی ہو نا وہ پاکستان آ چکا ہے۔ اسی نے مجھے کہا تھا کہ آپ مجھے پِک کرنے آئیں وہ تو قسمت خراب میری گاڑی کی جو وقت پہ کام نہ آئی میں نہ جا سکا اور میرا بیٹا گھر ہی نہیں آیا کیوں؟ کیوں؟؟؟‘

’آپ حوصلہ رکھیں خدا سب ٹھیک کرے گا۔ کسی دوست سے ملنے چلا گیا ہو گا۔ باپ سے اب اتنی بھی کیا ناراضگی؟؟ مجھے کال یا میسج تو کرے کم از کم میری کالز کا ہی جواب دے دے

آپ ٹرائی کرتے رہیں وہ ضرور بات کرے گا آپ سے۔‘

’دن میں کوئی ہزار بار ٹرائی کرتا ہوں اس کا نمبر ہی آف آ رہا ہے۔ اب میں کیا کروں؟‘

’پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ ابھی آپ آفس جائیں، لیٹ ہو رہے ہیں۔ ‘

ایک نظر صدیقہ کو دیکھنے کے بعد وہ بیگ اٹھا کر باہر چلے گے۔

٭٭

’ماروا پلیز مجھے معاف کر دو میں ہی تمھارا گناہ گار ہوں۔ معافی چاہتا ہوں‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

اب ماروا کو ان آنسوؤں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا

’ماروا پلیز مجھے چھوڑ دو تم جو کہتی ہو میں مانتا ہوں لیکن مجھے۔۔۔۔‘

’پٹاخ۔۔۔ چپ نہیں رہا جاتا تم سے؟ کب سے بے فضول ہی بولے جا رہے ہو‘

ماروا کا تھپڑ کھانے سے وہ کچھ دیر کے لیے چپ ہوا تھا تم شاید پیار کی زبان سمجھتے ہی نہیں۔

’اب بولو تمھارے ساتھ کیا کیا جائے؟‘ وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی تھی وہ اسے یک ٹک دیکھے گیا۔

’مجھے کچھ نہیں۔۔۔؟ بس تم مجھے معاف کر دو‘

’معافی تو اس خدا سے مانگو فی الحال میرے پاس تمھارے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں‘

’ماروا یوں نہ کرو۔۔۔‘

’تم مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں؟‘ اسے غصہ آیا

’میرے ساتھ بحث مت کرو تمھارا بھی وہی حشر ہو گا جو فواد کا ہوا۔‘

وہ ایک پل کو حیران رہ گیا کہ اس نے فواد کے ساتھ کیا کیا ہے اور میرے ساتھ اب کیا کرنے والی ہے؟

’کک۔۔۔ کیا ہوا ہے فواد کے ساتھ۔۔۔؟‘

’جاننا چاہتے ہو؟‘ ایک ٹانگ پہ دوسری ٹانگ چڑھاتے ہوئے بولی۔

’ہاں۔۔۔ سوچ لو۔۔۔ ‘

’دیکھو تم یہ ٹھیک نہیں کر رہی۔۔۔؟ میں پولیس میں جاؤں گا تمھارے خلاف الٹا کیس ہو جائے گا‘

’اور جو تم نے میرے ساتھ کیا کیا وہ ٹھیک تھا؟ میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں بھی پولیس میں جا کر تمھارے خلاف کیس کرواؤں۔‘ وہ چلائی تھی۔

’اور رہی پولیس میں جانے کی بات تم یہاں سے ٹھیک نکلو گے تو مجھے بتانا۔ اس نیک شریف کام کے لیے میری مدد بھی لے لینا‘

’تم مجھے کچھ نہیں کر سکتیں۔‘

’کیوں۔۔۔ کیوں نہیں کر سکتی۔۔۔؟ اگر تم لوگ اتنا کچھ کر سکتے ہو تو سوچو میں کیا کر سکتی ہوں؟ قاتل ہو تم میرے۔ اس کے ثبوت بھی ہیں میرے پاس اگر تم چاہو تو دیکھا بھی سکتی ہوں۔ جب تم دونوں میرے ساتھ اتنا برا کر سکتے ہو تو کیا میرا اتنا بھی حق نہیں کہ میں تم سے بدلہ ہی لے لوں۔‘

’شرارت تھی نہ وہ۔۔؟‘

’تو اب اس شرارت کی سزا پاؤ‘ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی اور وہ یوں منہ سا لے کر بیٹھ گیا۔

اس کے کیے کی سزا اسے اتنی بھیانک ہو گی اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔

٭٭

’مس ماروا آپ نے ریزائن کیوں دے دیا؟ کیا آپ کو اس جاب سے کوئی پرابلم تھی؟‘ اس وقت وہ نیوز ایجنٹ کے آفس میں منیجر وہاب کے سامنے بیٹھی تھی۔ جو اس کا ریزائننگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ ماروا اس ادارے کی سب سے پرانی اور سب سے بہادر لڑکی تھی اور اس کا یوں چلے جانے کا سوچ کر وہ چپ کے چپ رہ گئے۔

’سوری سر میں یہ جاب نہیں کر سکتی، کافی مشکل آ رہی ہیں میرے لیے میری اسٹڈی کا حرج ہو رہا ہے۔‘

’پھر بھی آپ خوب سوچ سمجھ لیں۔‘

’سر آپ جانتے ہیں میں ہر کام سوچ سمجھ کر ہی کرتی ہوں۔‘

اس نے تیزی سے جواب دیا ’او کے۔ ہم آپ کے واپس آنے کا انتظار کریں گے‘

’انتظار۔۔۔۔؟ لیکن کیوں؟‘

’آپ کے لیے ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں آپ جب مرضی آئیں ہمیں منظور ہو گا۔‘

’تھینکس۔‘ کہہ کر وہ اٹھ گئی۔ اب اس کا یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ آنسوؤں کو روکتے ہوئے وہ گھر آ پہنچی لیکن کب تک وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتی؟

بیڈ پہ لیٹتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ نہ جانے کیوں وہ بکھرتی ہی چلی جا رہی تھی۔ اسے کسی اپنے کی تلاش تھی جو اسے بے حد پیار کرتا اس کا خیال رکھتا لیکن ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو اسے سینے سے لگاتا ڈھیر سارا پیار کرتا۔

معاذ کا چہرہ تو کہیں بہت دور ہو گیا تھا اس کی نظروں سے۔

٭٭

کلاس ختم ہونے کے بعد وہ خاموشی سے باہر آ گئی ہولے ہولے قدم اٹھاتی ہوئی وہ گراؤنڈ کی جانب بڑھ رہی تھی جب اسے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا

’ماروا۔۔۔‘ یہ آواز وہ کبھی بھول ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ آواز سن کر رکی نہیں تھی بلکہ اب تیز تیز قدموں سے چلنے لگی تھی۔

’ماروا رک جاؤ۔۔۔۔‘ آواز ایک بار پھر آئی

ماروا کو اب اس آواز سے کیا لینا دینا؟

’کیا ہو گیا ہے ماروا۔۔۔؟ تم میری بات کیوں نہیں سن رہی ہو؟‘ اب وہ اس کے سامنے آن پہنچا تھا۔ وہ رک گئی تھی

’جانے دو مجھے۔‘

’مجھے میرے سوال کا جواب دو؟‘

’میں نے کہا مجھے جانے دو۔ یہاں تماشا مت بناؤ میرا۔‘ ہولے سے بولی لیکن اسے اس کی بات کا اثر نہ ہوا

’تم جب سے فواد سے ملی ہو مجھے اگنور کیوں کرتی چلی آ رہی ہو کیوں؟ کیوں؟‘

’نیچی آواز میں بات کرو سمجھے۔‘

’بتاؤ پھر۔‘ اسے چپ دیکھ کر وہ ایک بار پھر بولا۔

’یہ تم اپنے پیارے دوست سے ہی پوچھ لو تو زیادہ بہتر ہے۔‘ وہ آگے بڑھی تھی

معاذ نے اس کی کلائی سے پکڑ کر اسے روک لیا تھا۔

’ہاتھ چھوڑو میرا‘

’کیوں؟‘

’کیونکہ اب اس ماروا پہ تمھارا کوئی حق نہیں۔ تمھاری ماروا مر چکی ہے۔‘ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہ آگے بڑھ گئی جبکہ وہ اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔

٭٭

آج کے بعد ماروا کو یونیورسٹی میں کسی نے نہ دیکھا تھا وہ کہاں گئی تھی؟ کوئی نہ جانتا تھا۔ معاذ کی تو گویا جان چھوٹ گئی تھی۔

فائنل ائیر کے ایگزام سے فارغ ہو کر معاذ کی جلد ہی شادی ہو گئی اور وہ فواد کے دیے ہوئے ویزے پہ دوبئی جا چکا تھا۔

اور فواد خود ملائیشیا جا چکا تھا ان دونوں کی واپسی تین سال بعد تھی۔ ان کی دوستی بالکل ویسی ہی تھی جیسے پہلے دن تھی۔

وہ بھول گئے تھے کہ وہ جو کر کے جا رہے ہیں اس کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ اور بے حد ملے گی جس کا نتیجہ بہت ہی بھیانک ہو گا۔

٭٭

بے بی کدھر ہے؟ ابھی فریش نہیں ہوئی؟ مسٹر عالم صاحب اخبار پڑھنے میں مگن تھے۔ جب نوکر نے ان کے سامنے ناشتہ رکھا تو انہیں اچانک ہی ماروا کا خیال آیا۔

’بے بی صاحبہ کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ ابھی سو رہی ہیں۔‘

’کیا ہوا۔۔۔؟‘ انہیں ماروا کی فکر ہوئی۔

’بتا رہی تھیں سر میں درد ہے۔‘

’دوا دی تم نے۔‘ اخبار سائڈ پہ رکھتے ہوئے بولے۔

’جی صاحب جی ابھی دے کر آ رہا ہوں‘

’گڈ۔ جب وہ اٹھ جائے، ٹائم پہ ناشتہ دے دینا اسے۔ اور میرا بیگ گاڑی میں رکھ آؤ‘

’جی صاحب جی۔‘ کہہ کر نوکر بیگ اٹھا کر باہر چلا گیا۔

عالم صاحب کا شمار دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کبھی لالچ نہیں کیا تھا، یہی ان میں بڑی صفت ہے۔ غریبوں پہ بہت رحم کرتے تھے۔ خدا نے انہیں سب کچھ دے رکھا تھا۔ گھر میں نوکر چاکر تھے۔ جو ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا صرف ایک ہی اصول رہا ہے کہ عزت کروانے کے لیے دوسروں کی عزت کرو، دوسرے تمھارے قدموں میں آئیں گے۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی اور ان کی بیوی بیٹی کی ولادت پہ وفات پا گئی۔ انہیں بہت پیار تھا اپنی بیوی سے اور بیٹی سے اس سے کہیں زیادہ پیار کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے ادیبہ کی جان میری بیٹی میں ہی ہے۔

اپنے باپ کے پیار نے ماورا کو بگاڑا نہ تھا۔ بلکہ وہ ایک اچھی بیٹی ثابت ہوئی تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ اٹھ کر آفس کی جانب بڑھ گئے۔ وہ جانتے تھے آج ماروا گھر ہے اس لیے مجھے آج جلدی آنا ہو گا۔ سوچتے ہوئے انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھ گئے۔

’بے بی جی! ناشتہ کر لیں۔‘ نصیبہ اس کے لیے ناشتہ لے آئی تھی۔

’نہیں۔۔ مجھے ناشتہ نہیں کرنا‘

’بے بی جی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ ناشتہ کر لیں ورنہ صاحب ناراض ہو جائیں گئے‘

’او کے۔ لاؤ۔‘

اس نے بے دلی سے ناشتہ کیا اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہی تھی۔ پپا کو وہ کیا بتائے؟ سب میری ہی تو غلطی ہے۔ میں کیوں اس کی باتوں میں آ گئی؟ سب میری غلطی ہے۔ وہ ایک بار پھر رو دی۔

وہ منظر اس کی آنکھوں سے جاتا ہی نہ تھا۔ وہ کیسے بھول جاتی کہ وہ اب کسی کے قابل نہیں۔

اس نے فیصلہ کر لیا تھا اسے کیا کرنا ہے؟ اسے جینا تو تھا مرنے سے سارے مسئلے حل نہیں ہوتے۔

آج پپا کچھ جلدی ہی واپس آ گئے تھے، وہ خوش ہو گئی۔

نہ جانے کیوں پپا کے گلے لگتے وہ رو دی۔ عالم صاحب نے کبھی اپنی بے بی کی آنکھوں میں آنسو نہ دیکھے تھے لیکن آج۔۔۔۔؟

’کچھ نہیں پپا۔۔۔ آج آپ میرے لیے جلدی واپس آ گئے تو۔۔۔۔‘ اس نے بہانہ بنا دیا۔

’تو میری پیاری سی بیٹی جلدی سے تیار ہو جائے ہم اپنی بیٹی کو اچھی سی شاپنگ کرواتے ہیں‘

’واؤ پپا۔۔۔ آئی لو یو پپا۔‘ وہ ایک بار پھر ان کے گلے لگ گئی۔

ایسی ہی خوشیاں تھیں اس گھر میں۔

ماروا جلد ہی تیار ہو کر نیچے آ گئی اور پپا کے ساتھ شاپنگ کے لیے گیٹ سے باہر جاتے ہوئے اس نے ایک نظر نصیبہ کو دیکھا جو ان کی خوشیوں میں خوش تھی اور ہولے ہولے گیٹ بند کر رہی تھی۔

٭٭

’آخر وہ ہے کہاں۔ زمیں کھا گئی یا آسماں پہ اٹھا لیا گیا ہے؟ مجھے کوئی بتاتا کیوں نہیں؟‘ وہ چلائے۔

’ہم نے پوری کوشش کی ہے۔ اس کے سب دوستوں سے پتہ کروایا ہے لیکن وہ وہاں نہیں گیا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں جلد ہی مل جائے گا آپ پریشان نہ ہوں۔‘ فہد نے مؤدبانہ انداز میں کہا۔

’بیٹا ہے وہ میرا۔۔۔ کیسے نہ پریشان ہوں میں؟‘

پریشانی سے ان کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔

اتنے میں ان کے سیل کی ٹون بجی۔ انہوں نے کال اٹینڈ کی، دوسری جانب شاید کوئی انجان سی آواز تھی۔

’گھبرانے کی ضرورت نہیں آپ کا سپوت بالکل ٹھیک ہے۔‘

’کک۔۔۔ کون ہیں آپ؟ کہاں ہے وہ۔۔۔؟‘ علوی صاحب چیئر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

’اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ آ جائے گا واپس‘

’بتاؤ تو وہ ہے کہاں اور آپ کون ہیں؟‘

’یہ بھی بہت جلد جان جائیں گئے۔‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

’میرا بیٹا کہاں ہے؟‘ وہ چلائے تھے لیکن ان کی آواز سننے سے پہلے ہی کال کاٹی جا چکی تھی۔ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہے تھے۔ ’یہ سب کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ؟‘ وہ اپنا سر پکڑ کر چیئر پہ بیٹھ گئے۔

٭٭

’میڈم جی وہ۔۔۔۔ ‘ شاکر بھاگتا ہوا اس کے کمرے میں آیا۔

’کیا ہوا شاکر؟‘ ماروا بولی

’میڈم جی وہ۔۔۔۔‘

‘بولو بھی کیا ہوا ہے؟ اتنے گھبرا کیوں رہے ہو؟‘

‘میڈم جی وہ فواد کمرے میں بے ہوش پڑا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی اسے ہوش میں لانے کی لیکن وہ بے ہوش ہے۔‘

‘کیا کہہ رہے ہو تم؟‘ ماروا کو جھٹکا لگا۔ ’چلو میرے ساتھ۔‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور جلدی سے فواد کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ شاکر بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔

وہ واقعی بے ہوش تھا۔ اس نے اس کی نبض چیک کی۔ ‘زندہ ہے۔ ہاسپٹل لے جانا پڑے گا‘

‘میڈم جی کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے؟‘ شاکر بولا۔

’یہ بھی تو کسی گڑ بڑ سے کم نہیں۔ ہری اپ ایمبولینس منگواؤ‘

چند دیر میں ایمبولینس بھی آن پہنچی تھی اور اب وہ ہاسپٹل میں آئی سی روم کے باہر کھڑی ڈاکٹر کے آنے کا ویٹ کر رہی تھی۔

‘نہ جانے کیا ہوا ہو گا اسے؟‘ اسے پریشانی ہو رہی تھی۔ ’اس نے تو کوئی الٹی حرکت بھی نہ کی تھی پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟‘

’اب ڈاکٹر ہی بہتر بتا سکیں گے کہ کیا ہوا ہے اسے‘ شاکر کو اس نے واپس بھیج دیا تھا معاذ کے پاس۔ اب اس کا پلان انہیں جلد از جلد فارغ کرنے کا تھا۔ وہ اب کوئی اور مشکل مول نہیں لے سکتی تھی۔

اب یہی فیصلہ کیا تھا اس نے۔ اور شاید یہی بہتر وقت کا تھا اس کا فیصلہ کرنے کا۔ دو گھنٹے بعد ڈاکٹر کمرے سے باہر آئے اور اسے اپنے پیچھے آنے کو کہا وہ ان کے پیچھے چل دی۔

کمرے میں پہنچ کر وہ کرسی پہ بیٹھ گئی اور ڈاکٹر کے بولنے کا انتظار کرنے لگی ’پیشنٹ کی حالت بہت نازک ہے۔ آپ انہیں گھر تو لے جا سکتی ہیں لیکن ان کی صحت کا بہت احتیاط سے خیال کرنا ہو گا۔‘

‘ڈاکٹر انہیں ہوا کیا ہے؟‘ اس سے رہا نہ گیا تو بولی۔

’ایکچولی ان کی دماغی حالت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ مطلب انہیں کوئی ٹینشن تھی جن کا اثر ان کے دماغ پہ ہوا ہے اور وہ کوما میں ہیں۔ اب ان کی یہ حالت کب تک رہتی ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ آپ ان کی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ میں آپ کو میڈیسنز دے دیتا ہوں آپ انہیں مکمل کورس کروائیں خدا کرم کرے گا۔‘

’کک۔۔۔۔ فواد کوما میں۔۔۔؟‘ اسے یقین نہ ہو رہا تھا۔ یہ سب کیسے ہو گیا؟ میں نے تو ابھی اسے سزا بھی نہ دی تھی، اور یہ خدا کا کرنا ایسا ہو گیا۔

’یا میں ان سے مل سکتی ہوں؟‘

’یس۔۔۔۔‘ دواؤں کا پرچہ لے کر وہ روم میں آ گئی جہاں فواد گہری نیند سو رہا تھا۔ کیا اس نے ٹینشن لی تھی؟

’اونہہ۔۔۔ میری ٹینشن کی پروا نہیں تھی۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ خدا کی پکڑ تو ایک نہ ایک دن لازمی ہے۔‘

اس نے شاکر کو کال کی وہ جلدی ہی اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔ دو دن اسے ہاسپٹل میں رکھنے کے بعد وہ اسے وہیں لے آئی تھی۔ معاذ اس کا یہ حشر دیکھ کر گھبرا گیا۔ لیکن وہ اب ان جیسے ہی ظالم بن چکی تھی۔

٭٭

دو دن گزر چکے تھے، کوئی اتا پتہ نہیں تھا کہ فواد ہے کہاں؟ پریشانی سے ان سب کے حال برے تھے۔

آج بھی انہیں اپنا بیٹا بہت یاد آتا تھا۔ آفس سے لوٹتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ اپنے آپ کو روک نہ پائے۔ گھر پہنچتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔

فون کی بار بار بجتی گھنٹی نے انہیں ہوش میں لا پٹخا۔ انہوں نے کال اٹینڈ کی دوسری طرف وہی انجان آواز تھی۔

’کیا۔۔۔؟‘ وہ ساکت رہ گئے ’یہ سب۔۔۔۔ یہ سب کیسے ہو گیا۔۔۔؟‘

’شکر کریں آپ کا بیٹا زندہ ہے ورنہ لاش ہی ملتی آپ کو۔ آ کر لے جائیں اپنے بیٹے کو۔‘

کال کٹ چکی تھی وہ سیل فون ہاتھ میں پکڑے ساکت ہو چکے تھے۔

’نہیں۔۔۔ میرے بیٹے کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘ وہ جلد ہی ہاسپٹل پہنچ چکے تھے۔

’ہمیں یہ بے ہوشی کے عالم میں ملا تھا۔ جب ہم نے ڈاکٹرز کو دکھایا تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ کوما میں ہیں۔ ہم نے آپ کو کال کی اور پھر آپ کو یہاں بلا لیا۔‘ شاکر بولا۔

’خدا کا شکر ہے میرا بیٹا مجھے مل گیا۔‘ وہ فواد کے سینے لگ گئے۔ افسوس۔۔۔ صد افسوس۔ باپ کا پیار دیکھنے کے لیے بیٹے کی آنکھیں بند ہو چکی ہیں۔ افسوس۔۔۔ وہ صدمے کی حالت میں واپس پلٹ گئی۔ اب کچھ دیر وہاں رکتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔

’ماروا۔۔۔‘ گھر پہنچتے ہی اسے آواز آئی وہ کمرے کی جانب بڑھی۔

’تم نے مجھے کیوں بلایا۔۔۔؟‘

معاذ چپ ہو گیا۔

’بولو۔۔۔۔؟‘ اسے غصہ آیا۔

’ماروا۔۔۔ مجھے معاف کر دو‘

’معاف تو تم نے بھی مجھے نہیں کیا تھا۔ اور معاف تمھیں میں بھی نہیں کرنے والی اور نہ ہی وہ ذات۔‘ اس نے اوپر کی طرف اشارہ کیا

’مجھ سے غلطی ہو گئی تھی مجھے معاف کر دو۔ میں تمھارے پاؤں پکڑتا ہوں۔‘ وہ اس کے قدموں میں جھک گیا

وہ جلدی سے پیچھے ہوئی۔

’یہ کیا پا گل پن ہے۔۔؟ تم جانتے بھی ہو تمھاری غلطی کیا تھی اور سزا کیا۔۔۔۔؟‘

’ماروا۔۔۔ ایسا مت کرو۔ میری بیٹی میرا انتظار کر رہی ہو گی مجھے جانے دو۔۔۔‘

’بیٹی۔۔۔۔؟ کیا تم نے شادی کر لی؟ اور مجھے بتایا تک نہیں؟‘ وہ سوچے گئی۔ ’مجھے بتانے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ آخر کیا رشتہ تھا میرا اور تمھارا؟‘

’بیٹی کو یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ میرا باپ کیسا ہے؟‘ وہ اس کے پاس آئی

’نن۔۔۔ نہیں ماروا‘

’تو گھبرا کیوں رہے ہو۔۔۔؟ میں تمھیں جان سے تو نہیں مار رہی‘

’مجھے اپنی بیٹی کے پاس جانا ہے۔ جانے دو پلیز‘

’خاموش۔۔۔۔ میرے سامنے باپ کی رحمدلی مت جگاؤ۔ تمھیں تو مجھ سے محبت تھی! شادی کرنا چاہتے تھے میرے ساتھ؟‘

’شادی کرتے وقت میرا خیال ایک بار بھی نہیں آیا تھا تمھیں؟ کہ کس حال میں ہوں گی میں؟‘ اسے پھر غصہ آ گیا

‘سوری ماروا۔۔۔ میں فواد کی ڈیل کے لالچ میں اندھا ہو گیا تھا۔ یہ سب مجھے فواد نے کہا تھا کرنے کو اور میں نے بھی ویسا ہی کر ڈالا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ ایسا بھی ہو گا۔ ہاں تو چور کو کیا پتہ ہو تا ہے کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اسے کیا سزا ہو گی۔۔۔؟ وہ نہیں جانتا اور تم دونوں بھی یہی سمجھے کہ اسے فارغ کرو اور بس اپنے اپنے کام میں مصروف۔۔۔‘

’ہنہ اتنا ہی بے وقوف سمجھ لیا تھا مجھے۔ کھلونا بنا کر استعمال کیا ہے تم دونوں نے میرا۔ اب میں کیا کروں گی تم سمجھتے ہو؟ اسے تو خدا نے ہی سزا دے ڈالی اور تم۔۔۔ تمھیں تو میں خود اپنے ہاتھوں سے ماروں گی‘

اس نے اپنی کمر سے گن نکالی اور اس کے سامنے تان دی۔

’ماروا۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ کیا کر رہی ہو۔۔۔؟‘ وہ سکتے کی حالت میں ہو گیا تھا۔ اسے سمجھ نہ آئی وہ اب کرے بھی تو کرے کیا! مرتے وقت اس کے سامنے صرف اور صرف اپنی بیٹی کا چہرہ تھا۔ اسی سوچ سے وہ پاگل ہو گیا تھا کہ جو میں نے ماروا کے ساتھ کیا کہیں وہ میری بیٹی کے ساتھ نہ ہو جائے۔ لیکن افسوس اسے بچانے کے لیے اب اس کا باپ اس دنیا میں نہ رہا تھا۔ معاذ اس کے سامنے مر گیا۔ اسے کوئی افسوس نہیں۔ کوئی دکھ نہیں ہوا تھا۔ اسے گویا آج اس نے میدان فتح کر لیا تھا اور جیت اسی کی ہوئی تھی۔

’یہ زندگی بس اتنی ہی تھی۔ کیا نام دو گے اپنی اس زندگی کو؟‘ گن پاؤڈر صاف کرتے ہوئے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے بولی۔

اس زندگی کا شاید کوئی نام نہیں۔ سوچتے ہوئے وہ کمرے سے باہر جا چکی تھی۔ آخر آج اس کا انتقام مکمل ہو گیا اس نے سچ کر دکھایا کہ بیٹی ہی اپنے باپ کی عزت کو داؤ پہ نہیں لگایا کرتی۔ فواد اور معاذ جیسے بے حس انسان بھی ہوتے ہیں جنھیں دوسروں کی زندگیوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔

٭٭

’مما پپا۔۔۔ کدھر چلے گئے ہیں؟‘

ننھی سی وثیقہ اپنی توتلی زبان سے جب پپا کا نام لیتی تو ضوبیہ کا دل بھر آتا۔ وہ اس ننھی سی جان کو کیسے بتائے کہ اس کے پپا وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اتنی سی عمر میں وہ یتیم ہو چکی ہے باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ چکا ہے۔ ضوبیہ جانتی تھی۔ معاذ وثیقہ سے بیحد محبت کرتے تھے۔ اب ان کا یوں اچانک چلے جانا اسے بے حد غمگین کر رہا تھا۔ اب وہ ہی اس کی ماں تھی اور وہ ہی اس کا باپ بھی۔ اس دوہری ذمہ داری کو اس نے بہت اچھے طریقے سے نبھانا تھا۔ یہی فیصلہ کر کے اس نے وثیقہ کو اپنے سینے سے لگا لیا اور آنسو بے ربط سے پلکوں کی باڑ سے آزاد ہو گئے، جنھیں اس نے روکنے کی ناکام کوشش کی۔

٭٭

’بے بی اب تمھیں شادی کر لینی چاہیے۔‘

’پپا۔۔۔‘ اس نے روٹھے موڈ میں کہا تو پپا مسکرا اٹھے۔

’لیکن بیٹا اب آپ کو شادی بھی تو کرنی ہے نا۔‘

’اچھا پپا میں سوچوں گی اس بارے میں۔‘ اس نے کہہ کر ٹال دیا۔

’اونہوں۔۔۔ سوچنا نہیں ہے۔ میں نے کہا تھا آپ سے سمر میں آپ کی شادی کر دینی ہے۔ تو سمر اب اتنا دور نہیں ہے۔‘

’پپا۔۔۔ آپ نے کیا لڑکا ڈھونڈ لیا ہے جو اتنی جلدی ہے؟‘

’ارے لڑکا۔۔۔ تو کب سے ڈھونڈ رکھا ہے میں نے اپنی بے بی کے لیے۔‘ وہ مسکراتے ہوئے بولے

’کک۔۔۔ کون ہے پپا۔۔۔۔؟‘

’میرے دوست دلاور حسن کا بیٹا عارفین۔۔‘

’پپا۔۔۔ آپ ایک بار پھر سوچ لیں‘

’بے بی سوچنا تو اب آپ نے ہے کہ آپ کو وہ قبول ہے؟‘

’پپا نے جو چنا وہ مجھے قبول ہے۔‘ ہولے سے بولی تو علوی صاحب خوشی سے جھوم اٹھے۔

انہیں اپنی بیٹی سے کبھی مایوس نہیں ہونا پڑا تھا اور آج تو ان کی بیٹی نے ان کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔

’میں کل ہی بات کرتا ہوں پھر‘

’پپا یو آر ویری۔۔۔‘ وہ ہنستے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی جبکہ وہ پیچھے خوشی سے جھومتے رہے۔ سب نوکر چاکر شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

٭٭

آج اتنی بڑی تقریب تھی اس کوٹھی میں جس کی رونق صرف اور صرف بے بی جی سے تھی۔ آج وہ رخصت ہو کر پیا کے گھر جا رہی تھیں۔ سب کے چہرے اداس و خوشی کے سے ہو رہے تھے۔

ان کے جانے کے بعد اس گھر میں کس کی کلکاریاں گونجیں گی۔ اور ہماری خوشیاں۔۔۔؟ صاحب جی بھی آج کافی اداس بھی تھے اور خوش بھی۔ ان کی لختِ جگر آج رخصت ہو رہی تھی۔

بارات آ چکی تھی۔ بے بی دولہن بنی بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ ہر کوئی اس کی تعریف کر رہا تھا۔

اور جب اسے عارفین کے پہلو بٹھایا گیا تو گویا ان کی جوڑی مکمل ہو گئی۔ علوی صاحب بے بی کو سینے سے لگا کر غمگین ہو گئے۔ بیٹی کا رخصت ہونا ان کے لیے نہایت مشکل وقت تھا لیکن اسے تو جانا تھا۔

بے بی کو گاڑی میں بٹھا کر وہ اپنے داماد کے سینے لگ گئے۔ ’میری چاند جیسی بیٹی کا خیال رکھنا‘

انہیں نہ جانے کیوں بے بی کی پریشانی ہو رہی تھی۔

’انکل جی آپ پریشان مت ہوں۔ میں اسے ہمیشہ خوش رکھوں گا۔‘ وہ انہیں دلاسہ دینے لگا۔

جوں جوں بارات کی گاڑیاں ان سے دور ہو رہی تھیں ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔

اور بار بار ان کے منہ سے یہی الفاظ نکل رہے تھے۔ ’بے بی کا خیال رکھنا بے بی کا خیال رکھنا۔۔۔‘

٭٭٭

جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

ماخذ: آسمانی کہانی (مرحوم ڈومین)

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید