کچھ نئے شاعروں پر مضامین
معاصر شعری کہکشاں
از قلم
حقانی القاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
کنڈل فائل
….. کتاب کا نمونہ پڑھیں
یاور وارثی
حرف حرف حیرتوں کے در کھولنے والی شاعری روبرو ہو تو ذہنی وجود ایک عجب ارتعاشی کیفیت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ باطن کی قندیلیں خارج میں روشن تو تخیل کی نئی لہریں ماورائے امکاں سمتوں کا سفر کرنے لگتی ہیں۔:
چومنے آتی ہے اک شوخ کرن سورج کی
عارض گل پہ چمکتا ہے گہر پانی کا
ہر برگ رہگزر نے مری رہنمائی کی
ہر پھول میرے واسطے قندیل ہو گیا
ندرت و تحیر سے معمور یہ شعر جہاں ایک نئی تخلیقی رہ گزر کا پتہ دیتے ہیں وہیں شاعر کے آئینہ ادراک کا اشارہ بھی بن گئے ہیں۔
تازہ پانی کے لمس سے ہی سخن چہرہ کو شادابی ملتی ہے اس لئے اچھی شاعری ہمیشہ احساس و اظہار کے نئے در کی تلاش میں رہتی ہے۔ یاور وارثی نے اپنے تخلیقی بہاو کے عمل میں تازہ کاری سے رشتہ جوڑے رکھا ہے مگر تازگی کی رو میں کلاسیکیت کی روح سے تعلق نہیں توڑا ہے کہ جدت اور روایت کے حسن امتزاج سے ہی تخلیقی اظہارات کو تمکنت اور تمازت نصیب ہوتی ہے۔۔
کلاسیکی شعری لوازمات سے آراستگی کے باوجود احساس و اظہار کے نئے امکانات کی جستجو وہ وصف ہے جس نے یاور وارثی کے تخیل کو تکرار اور اظہار کو یکسانیت سے بچائے رکھا ہے۔ نئی رت اور نئے موسموں کی تلاش نے بھیڑ میں بھی ان کی شناخت کو گم نہیں ہونے دیا ہے۔:
میں نے اک در جو کیا بند کسی طور تو پھر
تیشہ موج نے کھولا نیا در پانی کا
کس کو دیتا ہے صدا رات کے سناٹے میں
کس کے آنے کی دعا روز کھنڈر مانگتا ہے
یاور وارثی کلاسیکی شعریات کے رموز و اسرار سے آگاہ ہیں۔ قدیم اساتذہ سخن کے رنگ و آہنگ سے آگہی بھی ہے۔ ان تلمیحات کا بھی علم ہے جن کے اندر حکمت و دانش کی ایک دنیا آباد ہے۔ ان کے ادراک اور اطلاق نے بھی ان کی فکر کو نئے زاویے اور شعروں ٓ کو معانی کی نئی قبائیں دی ہیں:
رعب بلقیس نوا کے ہیں لبوں پر تالے
میں سلیماں ہوں مگر شہر سبا میں چپ ہوں
اب کہاں کوئی یوسف ہے بازار میں
اس قدر رونقیں کیوں دکانوں میں ہیں
عمر سفر میں تمام کی چھوڑ کے فکر قیام کی
ہفت بلائیں کہیں ملیں اور کہیں کوہ ندا ملا
دشت تلمیحات کی سیاحت آسان سہی مگر لمحہ موجود سے اس کی مطابقت مشکل ہوتی ہے۔ یاور کے یہ اشعار قدیم و جدید دونوں ذہنی زمانوں کا سفر کرتے ہوئے قارئین تک پہنچے ہیں۔ بلقیس، سلیماں، شہر سبا، یوسف اور کوہ ندا اپنے جلو میں جہان معانی سمیٹے ہوئے ہیں۔ اور یہ تلمیحات مرور ایام کے ساتھ اپنے تلازمات تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ یاور کے اشعار میں تلمیحات کی معنوی تبدیلی کی اس رو کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور اسے عصری حسیت سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ عتیقیت اور جدیدیت کا یہی وہ سنگم ہے جس نے یاور وارثی کے تخلیقی وجود کو تحریکی تعینات سے ما ورا کر دیا ہے۔ انہوں نے ماضی کو مستقبل کے کینوس پر اس طرح نقش کر دیا ہے کہ زمانوں سے مربوط احساسات اور اظہارات بھی ایک تسلسل کی صورت نظر آتے ہیں۔
یاور کے موضوعی منطقہ میں افکار کی وہ لہریں مرکزی اہمیت رکھتی ہیں جن کا رشتہ ان ازلی تہذیبی قدروں سے ہے جن سے انسانیت کو معراج ملتی ہے۔ جذباتی وحدت کی فضا میں پرواز کرنے والی یہی تہذیبی اخلاقی اقدار انسان کو اپنے وجود، منشا و مقصد حیات سے متعارف کراتی ہیں۔ تقدیس انسانیت، احترام آدمیت یاور کی شاعری کا روشن نقطہ ہیں۔۔
یاور کے احساس میں اثبات ہے، منفیت نہیں۔ ایقان ہے تذبذب نہیں۔ امید ہے، مایوسی نہیں۔ ان کا فلسفہ حیات اس طرح شعر کا روپ لیتا ہے:
ہر صبح ہے رات کی نشانی
ہر رات ہے صبح کا حوالا
بے ثباتی اور تغیر کا یہی فلسفہ ہے جس نے یاور کے ذہن کو اس منفیت سے محفوظ رکھا ہے جو نہایت مہلک ہوتی ہے اور یہی تغیر تحرک کی علامت بھی ہے۔:
ہر بھنور میں رقص کرتی ہیں قضا کی ساعتیں
ہاں مگر تازہ تحرک کی نشانی بھی تو ہے
اسی خیال کی روشنی اس شعر میں بھی ہے:
کچھ دیر میں عروج کی ساعت بھی آئے گی
پہونچیں اب اختتام پہ صدیاں زوال کی
یاور نے وقت کے فلسفہ کو صحیح تناظر میں سمجھا ہے اسی لئے وقت ان کی شاعری میں انسانی تقدیر کی تبدیلی کا مرکز قرار پاتا ہے اور یہی وقت انسانی وجود کو مختلف کیفیات اور مراحل سے گزارتا ہے۔ اور جو فرد وقت کی روح اور رمز سے آشنا ہوتا ہے وہ تبدیلی حالات سے مضطرب نہیں ہوتا۔ اس کا یقین متزلزل نہیں ہوتا۔ یاور کہتے ہیں:
مرکز حرف کائنات ہوں میں
وقت نے مجھ میں انعکاس کیا
اسی سلسلہ خیال کی لو ان شعروں میں جگمگا رہی ہے:
جہت در جہت سر پٹکنا ہے مجھ کو
کہ جہد مسلسل مقدر ہے میرا
اے شب ہجر نہ حیراں ہو بہت
تو ہے سرمایہ تقدیر مرا
اک وصل کی ساعت نے کیا روز کنارا
اک ہجر کا لمحہ مرا مہمان بنا روز
یہ احساس کا ایک اثباتی جزیرہ ہے۔ اس میں حرکت و عمل اور تقدیر کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے وہی انسانی زندگی کی حقیقت ہے۔
یاور کی تخلیقی آنکھ پس غبار منظر کی تلاش میں ہے جس کی معرفت سے بہت سی منزلیں روشن ہوئی جاتی ہیں۔ وہ منزلیں جن کا ادراک عام انسانی آنکھیں نہیں کر سکتیں۔:
ادھر غبار کے میں ہوں پس غبار بھی میں
یہ شش جہات مرے عکس کے سوا کیا ہیں
میرا ہی وجود ہے کائنات انجذاب
میری سمت شعلگی منعطف ہوا کرے
انسانی وجود کی معرفت کا اس سے بہتر شعری حوالہ نہیں مل سکتا۔ یاور نے انسانی وجود اور اس کے مقدرات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
افلاک سے زمیں کا سفر کر رہا تھا میں
سرشاریوں کی ریت مگر بال و پر میں تھی
جو فلک پہ میں نے دیکھا رخ آفتاب روشن
تو زمین پر جواب تب و تاب میں نے دیکھا
زمین اور مٹی کے حوالے سے جو شعر ہیں وہ انسانی عظمت اور قوت و حرکت کے اشارہ کناں ہیں۔ ان کے شعروں میں وہ معاشرتی زمینیں ہیں جن میں تعلقات اور رشتوں کی حدت و حرارت، دراڑ اور دوریاں تلاش کی جا سکتی ہیں۔
یہ شاعری ان کی جذباتی، ذہنی اور داخلی زندگی کا منظرنامہ نہیں بلکہ اجتماعی شعور و ادراک کا بھی مظہر ہے۔
یاور کو ’خاک‘ سے خصوصی نسبت ہے۔ اور اسی ’خاک‘ نے ان کی شاعری کو آسماں کیا ہے۔ یہ لفظ خاک معنوی تلازمے کی تبدیلی کے ساتھ ان کی شخصیت اور فکر کا شناس نامہ بن گیا ہے۔:
پیرہن موسم باراں نے دیا پانی کا
سلسلہ ختم ہوا خاک کی عریانی کا
اس نے اڑائی تھی جو کبھی کھیل کھیل میں
وہ خاک رہ گزار ہی یہ آسماں ہے اب
ہوا کے دست ہنر کا کمال ہے ورنہ
مزاج شعلگی برگ شجر میں خاک نہیں
برائے نام جہاں رہ گزر میں خاک نہیں
کشش مرے لئے ایسے سفر میں خاک نہیں
یاور کے یہاں خاک اور آدم خاکی کی عظمت کا نغمہ علامہ اقبال کی اس فکر سے ان کا ذہنی رشتہ جوڑتا ہے جس کا مرکز انسان کامل ہے۔ یاور کا انسان بھی اقبال کے انسان کی طری فاتح فطرت اور فاعل مختار ہے۔ اور یاور کی خاک بھی ایسی ہے جس کی سرشت میں کوکبی و مہتابی ہے۔:
آسماں خاک بسر پھرتے ہیں قریہ قریہ
رو نما مرکز لولاک ہوا چاہتا ہے
فصیل ارض و سما سے دعاؤں کے ہمراہ
لباس نیست پہن کر گزر گیا میں بھی
یاور کا فکری کینوس وسیع ہے۔ ان کے چراغ جستجو سے نادیدہ اور بے نشاں جزیرے تک روشن ہو گئے ہیں۔ ان کے مشاہدات، تجربات اور مطالعات کی وسعت نے ان کے تخلیقی اظہاری تجربوں کو تازگی اور وسعتوں سے ہم آغوش کیا ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے شاعری کے لئے تخیل، تفحص الفاظ اور مطالعہ کائنات کی جو شرطیں رکھی ہیں۔ یاور کی شاعری ان شرطوں سے بھی آگے کا سفر کرتی ہے۔ اور خذف نچوڑ کے آب گہر نکال لاتی ہے۔
یاور کی لفظیات بھی ان کے ذہنی سرشتوں کا سراغ دیتی ہے۔ ان کا سلسلہ ان جہانوں سے جوڑتی ہے جہاں لفظ معانی کے ہجوم میں بھی اپنی مخصوص شناخت اور کردار کے سا تھ زندہ ہے۔ ان لفظوں میں تہذیب اور تشخص کا نگار خانہ ہے۔ یاور کو لفظوں کی قوت کا احساس ہے اسی لئے ان کے شعروں میں وہی لفظ جگہ پاتے ہیں جو ان کے داخلی جذبات کی مکمل ترسیل کر سکیں اور ما ورائے جذبات کا بھی اشارہ دے سکیں۔ چراغ طاق بدن، کف شاخ تمنا، سکوتِ دشتِ سماعت جیسی تراکیب بھی ان کی ذہنی قوت اور اظہاری کیفیت کا سراغ دیتی ہیں۔
یاور کا سخن چراغ روشن ہے۔ اور سدا روشن رہے گا کہ اس کا رشتہ اس مرکز نور سے ہے جس سے پوری کائنات اکتساب نور کرتی ہے۔
انسانی احساس کے سمندر کو انہوں نے اپنی شاعری میں جس طرح سمو یا ہے یہ ہم عصروں میں ان کے امتیاز کے لئے کافی ہے۔ جس شاعر کی زنبیل میں ایسے خوبصورت شعر ہوں:
جمال یار تہوں میں اتر گیا شاید
سیاہ جھیل کے اندر ہے روشنی کیسی
اس کی یادوں نے تعلق کا بھرم رکھا ہے
دستکیں دینے چلی آتی ہیں در تک اب بھی
یہ رشتہ سنگ و ثمر کا بہت پرانا ہے
چلے ہیں سنگ بھی جب شاخ پر ثمر آئے
ایسی شاعری پر زندگی کے دستخط ہمیشہ ثبت ہوتے رہیں گے۔۔