ایک اور طویل معاصر شعری منظر نامہ
معاصر شاعری کی تنقیدی بیاض
از قلم
حقانی القاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں …..
فلسفی اور دانشور افلاطون نے تعلیمی اخلاقی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے شاعری کو نہ صرف مسترد کیا تھا بلکہ شاعروں کو مثالی ریاست سے جلا وطن کرنے کی بات بھی کہی تھی۔ شاعری کے بارے میں افلاطون کا خیال یہ تھا کہ یہ معاشرے کے لیے مضر اور مخرب اخلاق ہے اس کی بنیاد کذب اور فریب پر ہے۔ افلاطون کا ارتکاز اخلاقی اقدار پر تھا وہ شاعری کو فضول اور توانائی کا زیاں سمجھتے تھے افلاطون کے اس شاعری مخالف بیانیے کے باوجود پوری دنیا کے ادبیات میں شاعروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اسی لیے دہائی کے اعتبار سے شاعری کے انتخابات بھی شائع ہوتے رہے ہیں اور ہر معاشرے میں شاعری کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت بھی رہی ہے۔ اردو کے تشکیلی اور ارتقائی مراحل میں بھی شاعری کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاعری کی اہمیت و معنویت کسی بھی عہد میں کم نہیں رہی ہے۔ عصر حاضر میں بھی سلسلہ شاعری میں بہت سے اہم نام ملتے ہیں جن میں سے بہتوں کو شہرت اور مقبولیت بھی نصیب ہوئی مگر بہت سے ایسے شعرا بھی ہیں جو اپنے حصے کی شہرت سے بھی محروم ہیں اور معاشرے نے بھی ان کی وہ قدر و تحسین نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں۔ آج کی تنقید کا فرض یہ ہے کہ ایسے لعل و گہر اور جواہر کی جستجو کرے اور ان کے فنی اور فکری محاسن کے حوالے سے گفتگو کرے۔ معاصر شعری منظر نامے میں بہت سے ایسے نام ہیں جن پر کماحقہ گفتگو نہیں ہو پائی ہے۔ ان میں سے چند شاعروں کے حوالے سے معروضات پیش ہیں۔
ظفر اقبال ظفر
ظفر اقبال ظفر کا تخلیقی سفر نصف صدی سے ذرا کم ہے۔ وہ اپنے اس سفر میں بہت سے مشاہدات، محسوسات اور تجربات کے عمل سے گزرے ہیں اور اُن ہی تجربات و حوادث کو انھوں نے شعری پیکر عطا کیا ہے۔ ان کے سامنے کلاسیکیت، ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے بہت سے شعری رویے اور نمونے تھے، راہیں بھی بہت سی تھیں مگر انھوں نے عمومی راستے سے اجتناب برتا اسی لیے ان کی شعری صوت و صدا، طرز احساس و اظہار اپنے اقران سے ذرا الگ ہے۔
ظفر اقبال ظفر کو شعر کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور احساس، اسلوب کی شائستگی کا ہنر بھی ہے۔ موضوعات کی عمومیت بھی ان کے انفرادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ مطالعاتی وسعت، طویل تخلیقی ممارست اور ریاضت نے ان کے اندر فکری اور فنی پختگی پیدا کر دی ہے۔ ان کے شعروں میں کوئی سقم اور شکستگی نہیں ہے۔ وہ شاعری کے جمالیاتی معیارات اور فنی لوازمات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں جہاں خیال و الفاظ کی خوب صورتی، قوت اور روشنی ہے وہیں تکنیکی عمدگی، موسیقیت اور اصلیت جیسی خوبیاں بھی ان کی شاعری میں موجود ہیں مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود بابِ شاعری میں ظفر اقبال ظفر کو وہ ظفریابی نہیں ملی جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جس سے بہت سے جینوئن تخلیق کاروں کو گزرنا پڑا ہے۔ زندگی میں بہت سے تخلیق کار نظر انداز کیے گئے اور بہتوں کو ناقدری کا شکوہ بھی رہا مگر ان شکایتوں پر اربابِ نقد نے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے فن کاروں کے تخلیقی احساس میں اضمحلال بھی آیا اور ان کے تخلیقی جذبے پر پژمردگی بھی چھائی رہی۔ ہاں کچھ خوش نصیب تخلیق کار ایسے ضرور ہوئے جنھیں زندگی میں اتنی پذیرائی تو نہیں ملی مگر موت کے بعد انھیں قدرے شہرت اور شناخت ضرور ملی اور تنقیدی حوالوں میں بھی شامل کیے گئے۔ فرانز کافکا، سیلویا پلاتھ، ڈکنسن، ایڈگر ایلن پو، جان کیٹس یہ وہ بڑے نام ہیں جنھیں عالمی ادب میں امتیاز حاصل ہے مگر ان کی زندگی میں انھیں بھی نظر انداز کیا گیا اور ان کے فکری اور تخلیقی انتاجات کے حوالے سے تنقیدی گفتگو نہ ہو سکی۔ ظفر اقبال ظفر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ معاصر غزلیہ شاعری کے حوالے سے جو تنقیدی مطالعات سامنے آئے ہیں ان میں ان کا ذکر نہ کے برابر ہے خاص طور پر اتر پردیش کے شعری منظر نامے پر گفتگو کرنے والے بھی ظفر اقبال کو پیش منظر میں نہیں رکھتے۔ یہ بہت بڑی نا انصافی ہے جو ظفر اقبال ظفر اور ان کے جیسے کئی شاعروں کے ساتھ کی جاتی رہی ہے جب کہ ان کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں اور خصائص ہیں جو ان کی عظمت کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کی غزلیہ شاعری کا کسی بھی تنقیدی زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو وہ ان تمام معیارات پر کھری اترے گی جو اچھی اور عمدہ شاعری کے لیے متعین کیے گئے ہیں۔ موضوع کی معنویت، اسلوب کی تخلیقیت اور زبان کی صفائی اور سلاست کے اعتبار سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری پختہ نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں کلاسیکی شعریات کی پاس داری کے ساتھ ساتھ نئی شعریات اور نئے شعور کا اظہار بھی ہے۔ انھوں نے بہت سی تحریکوں کے عروج و زوال کو بھی دیکھا ہے مگر ان کی شاعری کسی تحریک کے زیر اثر نہیں ہے۔ جدیدیت کے پیش کردہ وجودی مسائل کا اثر ضرور ہے مگر جدیدیت کی اسیری نہیں ہے۔ ان کی پوری شاعری فطرت اور مظاہر کائنات کے ارد گرد طواف کرتی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ’ نمودِ سبز‘ نقوشِ فطرت کا تخلیقی مظہر ہے۔ ان کی شاعری میں وہی رموز و علائم، تشبیہات و استعارات اور لفظیات ہیں جن کا فطرت سے گہرا رشتہ ہے۔ عشرت ظفر مرحوم نے فطرت سے ظفر اقبال کی شاعری کے ارتباط و انسلاک کی طرف لطیف اشارے کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ظفر اقبال ظفر نے اپنی غزل میں فطرت کے حوالے سے بہت گفتگو کی ہے ان کی غزلوں میں بہت کم ایسے اشعار ہیں جن میں مظاہر فطرت کا حوالہ نہ ہو‘‘
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ظفر اقبال کے یہاں فطرت کے مظاہر و مناظر کا بہت عمدہ عکس و نقش ملتا ہے۔ فطرت سے متعلق جن لفظیات کا عمومی طور پر ذکر کیا جاتا ہے ان میں آسمان، زمین، چاند، سورج، ستارہ، صحرا، پھول، سمندر، پرند، پانی، آگ ہوا اور بادل شامل ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے اپنی شاعری میں فطرت کی ان لفظیات کے ذریعے اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیات کی بہت عمدہ عکاسی کی ہے۔ ان لفظیات کے حوالے سے ظفر اقبال ظفر کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جن سے ان لفظیات کی قوت، توانائی، تازگی کے ساتھ معنیاتی ابعاد اور کثرتِ مفاہیم کا اندازہ ہو گا۔
آسمان فطرت کی ایک نا قابل تسخیر قوت ہے اور خدائی احساس کا مظہر بھی۔ یہ لافانیت، وسعت اور بے کرانی کی ایک علامت ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں آسمان کے تعلق سے مختلف علامتی تصورات ہیں۔ یہ بلندی رفعت اور نا رسائی کا بھی ایک اشاریہ ہے۔ ظفر اقبال ظفر کے یہاں آسمان کا استعمال اسی فطری مظہر کی وسعت اور نا رسائی کے حوالے سے ملتا ہے کہ اگر یقین ہو تو گمان کو چھونا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ آسمان تک رسائی در اصل ایک گمان ہی تو ہے مگر یقین سے آسمان کی بلندیوں کو بھی چھوا جا سکتا ہے۔ زمین و آسمان دونوں ہم رشتہ ہیں اور انسانی وجود سے ان دونوں کا بہت گہرا رشتہ ہے اور شاید اسی رشتے کی طرف شاعر نے بہت خوب صورت انداز میں اشارہ کیا ہے:
تھک کے بیٹھوں تو آسماں چھو لوں
گر یقیں ہو تو میں گماں چھو لوں
زمیں بچھائے ہوئے آسمان اوڑھے ہوئے
میں چل رہا ہوں سفر کی تکان اوڑھے ہوئے
زمین بھی زرخیزی اور لامحدود تخلیقیت کی ایک علامت ہے۔ نسائیت سے اس کی ایک خاص نسبت ہے۔ قدیم و جدید شاعروں نے بھی زمین کا علامتی اور استعاراتی استعمال کیا ہے۔ میر، آتش، یگانہ، فانی کے یہاں بھی زمین کی علامتی معنویتیں ملتی ہیں۔ جدید شاعروں میں منیر نیازی اور بانی کے یہاں زمین بطور علامت و استعارہ موجود ہے۔
ظفر اقبال نے اپنی شاعری میں زمین کے حوالے سے کئی شعر کہے ہیں جن میں اس کے علامتی اور عمومی تصورات سامنے آتے ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ جن میں زمین بطور علا مت بھی ہے اور بطور عمومی استعمال بھی۔
زمیں پر پاؤں دنیا کے کہاں ہیں
خلا میں پر کوئی لٹکا ہوا ہے
زمین پیروں کے نیچے سرک رہی تھی ظفر
لہو اگلتا ہوا سر پہ آسماں تھا بہت
تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں
ہم اپنے سر پہ کئی آسمان رکھتے ہیں
چاند محبت، روشنی، تنہائی، حیرت، خوبصورتی، داخلی آگہی کی علامت ہے۔ شعور، لاشعور کے درمیان کی ایک کیفیت، مرد عورت کے رشتوں میں وحدت بھی اس میں شامل ہے۔ چاند معشوق اور محبوب کا استعارہ ہے۔ مہتاب، قمر، چاند، ہلال جیسے لفظوں کا استعمال شاعری میں کثرت سے ملتا ہے اور اسی سے جڑی ہوئی ماہ پارہ، ماہ رُخ اور مہ جبیں جیسی ترکیبیں بھی ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے چاند کو اسی علامتی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اس تعلق سے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
چاند اپنی چاندنی کے ساتھ رخصت ہو گیا
اور میرے احساس سے ایک روشنی لپٹی رہی
زندگی بھر تو رہا خواب ہی آنکھوں میں مری
پھر مرے پہلو میں یہ چاند کہاں سے آیا
سورج زندگی، توانائی، اعتماد، طاقت اور مثبت توانائی کے ساتھ ساتھ منفی علامات سے بھی تحفظ کی علامت ہے۔ طاقت اور امن کا مظہر ہے۔ اس کے کئی علامتی اور استعاراتی مفاہیم ہیں۔ قدیم شاعروں میں آرزو، سودا، مصحفی، شاہ نصیر، غالب، ثاقب لکھنوی، جلیل مانکپوری وغیرہ نے سورج کو بطور علامت استعمال کیا ہے۔ جدید شاعروں کے یہاں بھی بطور علامتی اور اسطوری کردار کے اس کا استعمال ملتا ہے۔ وزیر آغا، احسان دانش، زیب غوری، بانی، عبید اللہ علیم، اطہر نفیس، پرکاش فکری اور شہاب جعفری وغیرہ کے یہاں سورج کے استعمال کی کئی اہم مثالیں ملتی ہیں۔
ظفر اقبال ظفر نے بھی سورج کے تعلق سے بہت با معنی شعر کہے ہیں:
ہر اک نگاہ کو حیرت میں ڈال دیتا ہوں
زمیں کی تہ سے میں سورج نکال دیتا ہوں
مقید کر لیا سورج کو کس نے
اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا ہے
ستارہ بھی فطرت کا ایک خوب صورت مظہر ہے۔ اس کا تعلق بھی روشنی اور تحرک سے ہے۔ قدیم و جدید دونوں شاعروں کے یہاں ستارہ بطور علامت موجود ہے۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی اپنی شاعری میں ستارے کو اس کی علامتی معنویت کے ساتھ استعمال کیا ہے:
جگنو دیکھا نہ ستارہ میں نے
شب کو اس طرح گزارا میں نے
کوئی صورت نہیں آنے کی اس کے
ستاروں کو بھی نیند آنے لگی ہے
پھول مسرت اور تازگی کی ایک علامت ہے۔ ظفر اقبال ظفر نے اپنی شاعری میں پھول کی معنویت کو یوں واضح کیا ہے اور انسانی زندگی سے اس کے گہرے رشتے کو بھی بیان کیا ہے:
بنایا پھول تو پتھر بنا ہے
عجب انداز سے منظر بنا ہے
نہ پھول ہی کوئی رکھا نہ آرزو نہ چراغ
تمام گھر کو بیابان کر دیا میں نے
ہر پھول سے ٹپکنے لگا ہے لہو ظفر
مجھ کو جراحتوں کا شجر دے گیا ہے وہ
درخت بنیادی طور پر ذاتی ارتقا، وحدت اور زرخیزی، طبعی اور روحانی غذائیت کی علامت ہے۔ اس کا انسانی زندگی اور اس کے ارتقا سے گہرا رشتہ ہے۔ شجر اور درخت کا شاعری میں استعمال عام ہے اور اس کی کئی معنویتیں ہیں۔ قدیم شاعروں میں حاتم، میر، آتش، غالب، داغ، فانی، ثاقب تو جدید شاعروں میں ضیا جالندھری، طہور نظر، شکیب جلالی، شہزاد احمد، کمار پاشی، شہریار، ظفر اقبال کے یہاں درخت کا استعمال ملتا ہے۔
ظفر اقبال ظفر نے بھی درخت کا رشتہ شادابی، تازگی اور ارتقا سے جوڑا ہے:
دل میں شاداب جو شجر تھا ظفر
خشک ہو کر بکھر گیا مجھ میں
دعائیں سایہ بن کر چل رہی تھیں
درختوں کا کہیں سایہ نہیں تھا
وہ شجر سب کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے بہت
راہ میں جس نے ہر اک کے واسطے سایہ کیا
سمندر بنیادی طور پر زندگی، طاقت اور فطرت کی ایک مضبوط قوت ہے۔ یہ انسانیت کا الوہی سرچشمہ ہے۔ انسانی زندگی سے سمندر کا ایک گہرا لگاؤ ہے۔ یہ ارتعاش اور تحرک کی بھی ایک علامت ہے۔ قدیم شاعروں میں سودا، میر، غالب، فانی، یگانہ اور جدید شاعروں میں ظفر اقبال، بانی، ناصر کاظمی، شہریار، عادل منصوری، بشیر بدر، آشفتہ چنگیزی کے یہاں مختلف مفاہیم میں سمندر کا استعمال ملتا ہے اور اس کی مختلف معنویتیں سامنے آتی ہیں۔ سودا کا ایک شعر ہے:
وہ سمندر ہے جس کا نہ کوئی پاٹ لگے
کشتی عمر مری دیکھیے کس گھاٹ لگے
ظفر اقبال ظفر نے بھی سمندر کو مختلف معنیاتی سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے:
صحرا کی طرف ہے نہ سمندر کی طرف ہے
رخ ساری بلاؤں کا میرے گھر کی طرف ہے
ہے دشت میں سراب بھی چاروں طرف مرے
سیراب کرنے والا سمندر چلا گیا
کیا کھلے آنکھ میں منظر کوئی
چاند سبزہ نہ سمندر کوئی
ہماری پیاس نہ بجھ پائی جب سمندر سے
لہو کشید کیا ہم نے اپنے خنجر سے
ناؤ کاغذ کی سمندر سے نکل آئی ہے
ایک کہانی اسی منظر سے نکل آئی ہے
پتھر صلابت، استقامت اور استحکام کی علامت ہے۔ یہ طاقت کا بھی مظہر ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، درد، مصحفی، آتش، غالب، داغ، ریاض تو جدید شاعروں میں شکیب جلالی، ناصر کاظمی، مصحف اقبال توصیفی، زیب غوری اور شہریار کے یہاں پتھر کا بہت ہی خوب صورت معنی خیز استعمال ملتا ہے۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی پتھر کو اس کی مختلف معنویتوں کے ساتھ اپنے شعروں میں استعمال کیا ہے:
انگلیاں زخمی ہیں اور پتھر سے ہے رشتہ میرا
نقش ہر دیوار پر ہے خون سے لکھا میرا
لوگ کہتے ہیں بستیِ انساں
آدمی ہیں یہاں تو پتھر کے
پانی تبدیلی، تحرک، حرکت اور بہاؤ کی علامت ہے۔ تزکیہ و تطہیر سے بھی اس کی مناسبت ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، سودا، آتش، مصحفی، اور ثاقب لکھنوی کے یہاں اس کا استعمال ملتا ہے۔ جدید شاعروں نے نئے تلازمے کے ساتھ پانی پر شعر کہے ہیں۔ شکیب جلالی، ساقی فاروقی، شہزاد احمد، عزیز قیسی، عدیم ہاشمی، اعجاز عبید نے بہت اچھے شعر کہے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی پانی کو اس کے حقیقی مفہوم میں استعمال کیا ہے:
چار جانب ہے پانی ہی پانی
کیسے پاؤں سراغ ساحل کا
آگ بقا اور زندگی کی علامت ہے۔ انسانی زندگی سے آگ کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں مفاہیم ہیں جو اردو شاعری میں استعمال ہوئے ہیں۔ قدیم شاعروں میں سراج اورنگ آبادی، میر، میر حسن، سودا، مصحفی، غالب، آتش، یگانہ، اصغر کے یہاں آگ کا مختلف معنیاتی سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے۔ جدید شاعروں میں ظفر اقبال، اطہر نفیس، بانی، محمود ایاز، لطف الرحمن، شمس الرحمن فاروقی، احمد مشتاق وغیرہ نے عمدہ شعر کہے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے آگ کو مختلف معنویتوں کے ساتھ اپنی شاعری میں جگہ دی ہے:
آگ ہی آگ ہے ہر سمت یہاں
زد سے اس کی نہیں باہر کوئی
آگ سی محسوس ہوتی ہے بدن میں
ذہن میں گویا کمانیں ٹوٹتی ہیں
ہوا تبدیلی اور تباہی کی ایک علامت ہے جو ایک غیر مرئی قوت ہے۔ یہ تعمیری بھی ہے اور تخریبی بھی۔ اردو شاعری میں منفی اور مثبت دونوں طور پر ہوا کا استعمال ملتا ہے۔ قدیم شاعروں میں سراج اورنگ آبادی، میر تقی میر، ذوق، نسیم دہلوی، جلیل مانک پوری، انیس، یگانہ نے ہوا کو مختلف معنویتوں میں استعمال کیا ہے تو جدید شاعروں میں احمد ندیم قاسمی، اختر ہوشیار پوری، حمید الماس، مظہر امام، زیب غوری کے یہاں ہوا کے مختلف تصورات اور مفاہیم نظر آتے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی ہوا کو اس کے مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھیں:
ہوا کا شور سننا چاہتا ہوں
خلا سے اپنا رشتہ چاہتا ہوں
زندگی میری ہواؤں کی ہے زد پر لیکن
فصل خوابوں کی ابھی آنکھ میں تیار نہیں
الزام دوں ہواؤں کو میں کس طرح ظفر
اپنے شکستہ جسم کی دیوار میں ہی تھا
فطرت اور اس کے مظاہر سے متعلق ان ہی لفظیات سے ظفر اقبال ظفر کی شعری تشکیل ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے یہاں فطرت اور کائنات کی کیفیات کا بہت ہی پر اثر بیانیہ نظر آتا ہے۔ ماں بھی فطرت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اس لئے ماں کے حوالے سے بھی ان کے یہاں بہت خوبصورت شعر ملتے ہیں۔
ساتھ میں ماں کی دعا اپنے ہمیشہ رکھو
یہ ہمیں غم سے نکلنے کا ہنر دیتی ہے
ماں کے قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی
ماں کی ہر حال میں ہر طرح سے خدمت کی جائے
سکھایا اس نے ہے انگلی پکڑ کے چلنا ہمیں
ہم اپنی ماں کا کہاں پھر بھی دھیان رکھتے ہیں
ظفر اقبال ظفر کے یہاں فطرت کی جن لفظیات کا استعمال ہوا ہے ان کی کئی معنیاتی جہتیں ہیں۔ ایک ہی معنی یا مفہوم پر مرتکز نہیں ہیں بلکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے ان کے مفاہیم بدلتے رہتے ہیں کہ در اصل فطرت بھی تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے اور زمان و مکاں کے لحاظ سے اپنی صورت و کیفیت بدلتی رہتی ہے۔
موضوعات اور اسالیب دونوں زاویے سے ظفر اقبال ظفر کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے اہم نکتے سامنے آئیں گے۔ انھوں نے شعری کمپوزیشن کے عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ عوامی ترجیحات کے موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور بدلتے زمانے کے مسائل، واردات، مشکلات، مصائب، آلام و آزا ر، جدید انسان کے بحران اور بے چہرگی پر بھی شعر کہے ہیں۔ جدید غزل کے جو مخصوص موضوعات ہیں مثلاً محرومی، مایوسی، نا امیدی، اداسی، انتشار، اضطراب، ٹوٹ پھوٹ، شکستگی، بے گھری، قنوطیت، یاسیت، بیگانگی، بے زاری، اجنبیت، تنہائی، تشکیک، بے تعلقی، خوف، عدم تحفظ، شکست و ریخت، قدروں کا زوال وغیرہ یہ تمام ان کے موضوعاتی کینوس کا حصہ ہیں۔ آج کی متناقض اور متخالف زندگی کا منظر نامہ ان کی شاعری میں منقش ہے۔ ظفر اقبال ظفر کی شاعری میں یک رنگی ٔ احساس نہیں بلکہ احساسات کی مختلف سطحیں ہیں جو وقت حالات یا سچویشن کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں اسی لیے کبھی روشنی، کبھی اندھیرا، کبھی مسرت، کبھی اذیت، کبھی امید، کبھی نا امیدی، کبھی شگفتگی، کبھی شکستگی، زمین و زماں کے موسم کے ساتھ ساتھ ذہنی موسموں میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ شعری احساس کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں ہے بلکہ سیال پانی کی طرح اپنی کیفیت اور رنگ بدلتا رہتا ہے۔ خیال اور احساس کو کسی ایک مقام یا مرکز پر قرار نہیں بلکہ یہ اضطراب کی کئی موجوں سے گزر کر منزلوں تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے۔ یہی اضطرابی لہریں ظفر اقبال کی شاعری کو ہمارے احساس کا حصہ بنا دیتی ہیں اور پڑھنے والا بھی ان ہی کیفیتوں سے ہم کنار ہوتا ہے جن سے ان کی شاعری گزرتی ہے۔ کہیں تلاطم، کہیں تصادم، کہیں تفاہم، کہیں تقسیم وتفریق، کہیں ترابط و توافق یہی ہے زندگی کا رنگ اور اسی رنگ کی آئینہ دار ہے ظفر اقبال ظفر کی شاعری۔ زندگی کے تضادات کو جس طور پر انہوں نے معاشرے میں محسوس کیا ہے اسی طور سے انھوں نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ صحرا، پہاڑ، ندی، سمندر سب ان ہی تضادات کے استعارے ہیں۔ ان سے جو تصویر بنائی جاتی ہے وہی کلی تصویر ہوتی ہے کیوں کہ صرف انسانی ذہن ہی نہیں زمین وزماں بھی ان ہی تضادات کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے جہاں اپنے شعروں میں بے گھری کے کرب کا ذکر کیا ہے وہیں گھر کی عافیت و آسائش کا بھی بیان ہے، جہاں جڑوں سے جدائی کی بات ہے وہیں جڑوں سے پیوستگی کا بھی ذکر ہے۔ یعنی اپنی شاعری کے ذریعہ انھوں نے یہ بتایا ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، زمانے بدلتے ہیں تو ذہنیتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ قدریں بدل جاتی ہیں۔ سالمیت شکستگی کا روپ لے لیتی ہے تو کبھی اجنبیت قربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تبدیلیوں کا یہی تدویری عمل حیات و کائنات کی حقیقت ہے اور اسی حقیقت کی عکاسی ظفر اقبال کی شاعری میں ہوئی ہے:
یہ شہر مرا ہے کہ آشوب کی بستی
انسانوں میں اب بوئے وفا تک نہیں آتی
یہاں تو آشنا ہیں سارے چہرے
سبھی کے ہاتھ میں خنجر کھلے ہیں
ظفر تنہائی اب ڈسنے لگی ہے
تری تصویر اب رکھنا چاہتا ہوں
ہماری بستی میں ہر سمت ہو کا عالم ہے
کوئی تو چیخے کہیں سے تو کچھ صدا نکلے
اے خدا کس کرب سے دو چار ہے میرا وجود
ٹوٹتے لمحوں کی یہ کیسی صدا ہے ہر طرف
انسانی زندگی کے یہ شعری منظر نامے ہیں۔ انسان کی وجودی صورت حال کی یہ شاعرانہ تفہیم و تعبیر ہے جس میں اقدار کا زوال بھی ہے، بے چہرگی بھی، ماحول کی کثافت بھی ہے، بے وفائی و بے اعتباری بھی، خوف و دہشت بھی، ٹوٹتے، بکھرتے رشتوں کی کہانی بھی، شکستگی، افسردگی، آزردگی، آشفتگی، افتادگی، محزونی، لا حاصلی، بے رونقی بھی ہے اور انسانی کرب و اضطراب کا منظر بھی، انسانی معاشرے کے جو شب و روز، واردات، وقوعات، حادثات ہیں وہ سب موضوعاتی سطح پر ظفر اقبال کی شاعری کا حصہ ہیں۔
جدید غزل ان ہی طرح کے خیالات، جذبات اور محسوسات سے معمور ہے۔ جدید دور کا شاعر اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھ رہا ہے یا جو کچھ محسوس کر رہا ہے اسے وہ من و عن بیان کر دیتا ہے یہ ہمارے عہد کی وہ حقیقتیں ہیں جن کا ادراک معاشرے کے ہر حساس فرد کو ہے۔ آج کی غزل کے یہ حاوی اور غالب موضوعات ہیں جن کے حوالے سے زیادہ تر جدید غزل کے شعرا شعر کہتے رہے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر کا بھی موضوعاتی دائرہ عصری حسیت سے جڑا ہوا ہے اس لیے ان کے یہاں بھی آج کے زمینی اور زمانی مسائل سے جڑے ہوئے شعر مل جاتے ہیں۔
اسلوبیاتی لحاظ سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری جدید غزل کی لفظیات، علامات، اشارات سے ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے جدید لفظیاتی نظام سے اپنا رشتہ جوڑا ہے اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ علائم و رموز میں جو معنیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان کا انھوں نے بطور خاص خیال رکھا ہے۔ قدیم لفظیات اور اس کے تلازموں سے الگ انھوں نے جدید غزل کی لفظیات کو اپنی شاعری میں بہت ہی ہنر مندی کے ساتھ برتا ہے۔ جدید غزل میں عموماً جن لفظیات، علامات اور استعارات پر زیادہ زور ہے پروفیسر مغنی تبسم کے مطابق ان کی فہرست کچھ یوں ترتیب پاتی ہے:
’’سمندر، دریا، ندی، پانی، لہر، موج، گرداب، بھنور، برف، ساحل، ریت، کشتی، ناؤ، بادل، بادبان، پتوار، جزیرہ،، بارش، برسات، ابر، بادل، تالاب، کنواں، دلدل، بارش، تشنگی، سراب، دشت، جنگل، صحرا، خرابہ، کھنڈر، سانپ، خوف، خطر، ڈر، دہشت، آسیب، عفریت، آہٹ، چاپ، پرچھائیں، زمین، خاک، مٹی، چاک، پتھر، سنگ، چٹان، کنکری، پہاڑ، درخت، شجر، پیڑ، ہتا، برگ، چھاؤں، پرند، اُڑان، آگ، خاکستر، چنگاری، شر ر، دھواں، آسمان، چاند، چاندنی، ستارہ، تارہ، خلا، سورج، دھوپ، صبح، سحر، سویرا، دن، شام، رات، شب، تاریکی، اندھیرا، تیرگی، نیند، خواب، تعبیر، چراغ، روشنی، سکوت، خامشی، سناٹا، گونج، شور، ہوا، آندھی، غبار، گرد، ذرہ، گاؤں، کھیت، فصل، بستی، شہر، آبادی، بھیڑ، اجنبی، تنہائی، بے حسی، بے دلی، آئینہ، عکس، تصویر، چہرہ، فصیل، حصار، گھر، مکان، مکین، دیوار، چھت، دروازہ، دریچہ، کھڑکی، دہلیز، دستک، آنگن، صحن، عمارت، تعمیر، سیڑھی، سلسلہ، دشمن، فوج، لشکر، جنگ، لڑائی، زخم، لہو، تلوار، خنجر، حادثہ، سانحہ، قبر، تربت، زمانہ، صدی، لمحہ، وقت، سفر، مسافر، رستہ، رہ گزر، سرائے، مہمان، مہمان سرا، قافلہ، مسافت، تھکن، بدن، لباس، ملبوس، روح، گناہ، جرم، سزا، دعا، راز، زنجیر، قید، کاغذ، کتاب، لفظ، خرف، خبر، اشتہار، اخبار‘‘(جدید اردو غزل کی لفظیات، مشمولہ زبان و ادب، ص 190)
جدید غزل کے جو نمائندہ شعرا ہیں ان میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، منیر نیازی، ظفر اقبال، شہریار، بانی، زیب غوری، عرفان صدیقی وغیرہ بہت اہم ہیں۔ انھوں نے غزل میں بہت سے ایسے تجربے کیے جن کی بنیاد پر انھیں اعتبار اور امتیاز حاصل ہے۔ انھوں نے جن علامتوں کو اپنی شاعری میں وسیع تر معنیاتی تناظر میں استعمال کیا ہے ان میں شہر، جنگل، بستی، گھر، دشت، لہو، زہر، دھوپ، دریا، مکان، خواب، صحرا، ہوا، روشنی، سمندر، پیاس، ریت، سایہ، بیاناں، ندی، غبار، رات، شام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی ان شاعروں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ اس لیے ان کے یہاں بھی یہی لفظیات اور علامتیں بکثرت ملتی ہیں۔ لیکن ظفر اقبال ظفر نے ان لفظیات اور علامتوں کو اپنے زاویے سے اپنی شاعری میں برتا ہے اور کچھ نئے مفاہیم اخذ کیے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر کے پیش رو اور معاصر شعرا نے جن لفظیات اور علامات کو کثرت سے استعمال کیا ہے ان میں سے بہت سی لفظیات اور علامات ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی ہیں۔ ان میں گھر، سفر، سمندر، دشت، صحرا، دریا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ گھر ایک ایسی علامت ہے جسے تحفظ، آسائش اور عافیت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ظفر اقبال ظفر کے یہاں جو گھر ہے وہ کرب و اضطراب اور بے سکونی سے عبارت ہے۔ پتھر کا گھر، بے درو دیوار کا گھر جو اضطراب و انتشار، آلام و آزار کا اشاریہ ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
آندھیوں کے شہر میں رہنا تھا شاید اس لیے
بے در و دیوار کا رہنے کو گھر مجھ کو دیا
زندگی مجھ کو تھکا دیتی ہے گھر کے اندر
راہ دیتی ہے نہ یہ اذنِ سفر دیتی ہے
لگتا ہے مقدر میں میرے سایہ نہیں ہے
مدت سے سفر مَیں ہی ہوں گھر کیوں نہیں آیا
بکھری ہے ہر طرف یہاں اشیائے زندگی
لگتا ہے میرا گھر کوئی بازار ہو گیا
سفر بھی ان کے یہاں ایک علامت ہے اور اس کا استعمال ظفر اقبال ظفر کے یہاں مختلف زاویوں سے ملتا ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، سودا، درد، مصحفی، آتش، فانی، وحشت اور جدید شاعروں میں حفیظ ہشیار پوری، میرا جی، احسان دانش، شکیب جلالی، منیر نیازی، جمال احسانی، زبیر رضوی اور سلطان اختر کے یہاں سفر اور اس کے تلازمات کے متعلق بہت اچھے اشعار ملتے ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی سفر ان ہی معانی اور مفاہیم میں استعمال ہوا ہے گو کہ سفر وسیلہ ظفر ہے مگر ظفر کے یہاں یہ اذیتوں، صعوبتوں سے عبارت ہے۔ اس تعلق سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ کیسا سفر ہے کہ ہوا تک نہیں آتی
قدموں کی کہیں کوئی صدا تک نہیں آتی
گھوم پھر کر ہے اسی وادی غربت میں سفر
گردشِ وقت کا پیروں میں یہ چکر ہی تو ہے
اک عمر سرابوں کے سفر میں میری گزری
اک عمر سے آنکھوں نے سمندر نہیں دیکھا
ایڑیاں میری اگلتی ہیں لہو
کیسی راہوں کا سفر آیا ہے
زندگی بھر سفر میں رہنا ہے
کب ہمیں اپنے گھر میں رہنا ہے
سمندر دریا بھی ایک علامت ہے۔ جو قدیم اور جدید دونوں شاعروں کے یہاں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ بانی کا ایک شعر ہے:
عجب نظارہ تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
ظفر اقبال ظفر نے سمندر اور دریا کو مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جس سے سمندر اور دریا کی علامتی معنویت واضح ہوتی ہے:
دریا دریا میں پھرا تشنہ لبی لپٹی رہی
میرے قدموں سے ہمیشہ ریت ہی لپٹی رہی
صحرا کی طرف ہے نہ سمندر کی طرف ہے
رخ ساری بلاؤں کا میرے گھر کی طرف ہے
ہر قدم پر ریت کا دریا بچھایا جائے گا
پھر ہماری پیاس سے پہرا اٹھایا جائے گا
دشت و صحرا بھی ایک ایسی علامت ہے۔ جس کا قدیم و جدید شاعری میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ آبرو، میر، میر سوز، آتش، غالب، فانی اور اصغر کے یہاں دشت و صحرا کی جو علامتی معنویت ہے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شکیب جلالی، منیر نیازی، زیب غوری، وقار خلیل، شاذ تمکنت کے یہاں بھی ملتی ہے۔
دشت و صحرا اور اس کے تلازمات کا استعمال ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی ملتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہم اپنی تشنگی کیسے بجھائیں
جو دریا تھا وہ اب صحرا ہوا ہے
ہر ایک سمت تھا تنہائیوں کا اک صحرا
کہ کس دیار میں لے آیا ہے سفر مجھ کو
راہ میں تھا کوئی سایہ نہ شجر تھا کوئی
ہم تو تپتے ہوئے صحرا کا سفر رکھتے تھے
صحرا کی مسافت میں شجر کیوں نہیں آیا
مانگی تھیں دعائیں تو اثر کیوں نہیں آیا
ظفر اقبال ظفر کی شاعری میں وہی انسانی جذبات و احساسات ہیں جن سے شب و روز ہر فردِ بشر گزرتا ہے۔ ان کے الفاظ ان کے احساس سے مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور شاعری میں بھی انھوں نے جن استعارات کا استعمال کیا ہے وہ آج کی زندگی سے مربوط ہیں۔ در اصل یہ استعارے نہیں ان کی داخلی شکست و ریخت کا اشاریہ ہیں۔ ہر لمحہ ٹوٹتی بکھرتی زندگی کا عکس ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی زندگی کے تمام تضادات اور تناقضات بھی در آئے ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کی شاعری کا فطرت سے بہت گہرا رشتہ ہے ان کے بیشتر شعر ان کے وجودی، ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کا اظہار ہیں۔ ان کی زندگی جس شکل، جس کرب، جس المیے، جس اضطراب، جس انتشار اور جس درد سے گزری ہے وہی ساری کیفیتیں ان کی شاعری میں ڈھل گئی ہیں اس لیے ظفر اقبال ظفر کی شخصیت کی تفہیم کے لیے ان کی شاعری سے بڑا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ یہ پورے طور پر ان کے وجود کا انعکاس ہے۔ یہ ان کی ذات اور ذہن کا تخلیقی مظہر ہے۔
سلیم شیرازی
سلیم شیرازی اس شعری کہکشاں کا حصہ ہیں جس نے معاصر غزلیہ شاعری کے رنگ و آہنگ کو اعتبار اور وقار کے ساتھ نئی جہتوں سے بھی آشنا کیا ہے۔ انھوں نے جس عہد میں اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا وہ شاید اضطراب و انتشار کا عہد رہا ہو گا۔ اس کے بعد زمانے نے بہت سی کروٹیں بدلیں، ماحول اور زندگی کے آداب و اطوار میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ سیاست اور معاشرت کا رنگ بدلا جس کا اثر تخلیقی احساس و اظہار پر بھی ہوا۔ شاعری میں ہیئت، زبان اور موضوع کی سطح پر بھی بہت سے تغیرات نمایاں ہوئے۔ ان تبدیلیوں کے محرکات معاشی، سماجی، اور سیاسی بھی تھے، کارپوریٹ اکانومی اور نیو ورلڈ آرڈر نے بھی اظہار و احساس کے اسالیب اور طریق کار کو بدلا۔ ان ساری تبدیلیوں کا اثر ان شعراء پر بھی پڑا جنھوں نے کلاسیکی شعری روایت اور معاصر شاعری کے درمیان تسلسل کو قائم رکھا۔ سلیم شیزاری بھی انہیں شاعروں میں سے ہیں جن کے یہاں روایت سے انحراف اور انکار نہیں ہے اور عصری حسیت سے بھی ہم آہنگی برقرار ہے۔ مگر پیش روؤں کے تجربوں اور مشاہدوں سے ان کی جستجو اور جہت الگ بھی ہے۔ ان کے یہاں ماضی کے اقدار و روایات اور عصری افکار و مطالبات میں ہم رشتگی قائم ہے۔ سلیم شیرازی کی شاعری پڑھتے ہوئے ان کے یہاں جس سرشاری کی کیفیت، سلاست، سادگی اور شائستگی کا احساس ہوتا ہے وہ ان کا رشتہ کلاسیکی نظام سے جوڑ دیتا ہے مگر انھوں نے تخلیقی اظہار کی نئی راہ چنی ہے۔
سلیم شیرازی نے خیال کی ایک لمبی مسافت طے کی ہے اور زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ان کا تخیلی ذہن بہت سے تجربات و مشاہدات جذبات اور واردات سے گزرا ہے۔ بہت سے حوادث کو انہوں نے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اس لیے ان کے یہاں بدلتی ہوئی صورت حال اور سیناریو کا عکس بھی ہے اور ماضی کا نقش بھی جس کی وجہ سے ان کی شاعری منجمد نہیں بلکہ متحرک ہے جو مختلف سمتوں میں سفر کرتی ہے اور کلیشوں میں گم نہ ہو کر نئے نئے تجربات و واردات کو اپنی تخلیقی فکر و فرہنگ کا حصہ بناتی ہے۔
سلیم شیرازی کے یہاں وہ تمام موضوعات ہیں جن سے ان کی متجسس، مضطرب اور بیدار آنکھوں کا رشتہ رہا ہے۔ انہوں نے دشت صحافت میں بھی ایک عمر گزاری ہے اس لیے ان کی شاعری میں صحافتی مخاطبہ بھی ہے اور شاید اسی صحافت نے انہیں اسرار حیات و کائنات کے انکشاف و اکتشاف کے ایک الگ طریق کار سے روبرو کرایا ہے۔ جن سے ان کے شعری موضوعات کو نئی وسعت نصیب ہوئی ہے اور ان کا رنگ و آہنگ بھی تبدیل ہوا ہے۔ صحافت اور شاعری کے داخلی ارتباط نے ان کے احساس اور اظہار کو نیا طور و طرز عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری کو عصری وقوعات اور واردات کی دستاویز کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے کیونکہ جن تجربات اور حوادث کو انہوں نے اپنے شعری کمپوزیشن کا حصہ بنایا ہے وہ حوادث اخبار ات کی شہ سرخیاں بھی ہیں۔ صحافتی مدرکات کو شعری مضمرات و ممکنات میں تبدیل کرنے کی ان کے اندر بے پناہ قوت ہے جس کا اندازہ اس نوع کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے ؎
تم میں رہنمائی کے سارے گن سلامت ہیں
تم کو خوب آتا ہے آگ کو ہوا دینا
کیسا حاکم ہے دور میں جس کے
قتل کا جرم بھی معاف ہوا
قرض مٹی کا چکائیں سر سے
پھر بھی کہلاتے ہیں غدار جناب
بھوک کھیتوں میں اگا کرتی ہے
فصل سب کھا گئے ہتھیار جناب
یہ وہ اشعار ہیں جو ترتیب کی ذرا سی تبدیلی سے اخبار کی سرخیاں اور عنوانات بن سکتے ہیں۔ یہ شعری شکل و صورت میں صحافتی بیانیے ہیں اور ان میں ہمارے سماج اور زندگی کی جو تلخ حقیقتیں ہیں انہیں تفصیل کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ صحافت جس تفصیل سے عبارت ہے شاعری اسی کو اجمال میں بدل دیتی ہے اور اسے ہی کمالِ ہنر کہا جاتا ہے۔ سلیم شیرازی نے اپنی شاعری میں اسی کمال ہنر کا ثبوت دیا ہے اور اپنے عہد کی سفاکیوں، کربناکیوں اور ناہمواریوں کو شعری زبان عطا کی ہے۔ ان کی شاعری میں اپنے عہد کی تلخیاں، تصادم، تناؤ، تفریق، طبقاتی کشمکش اور جبر استحصال کا بھی بیان ہے جو ہمارے معاشرے کی پہچان بن چکا ہے۔ ان کے یہاں تنہائی بھی ہے، ہجوم بھی، درد بھی ہے، درماں بھی، انا بھی ہے، انکساری بھی، خموشی بھی، اور اندر کے زخمی پرندے کا شور بھی، حزنیہ آہنگ بھی ہے، نشاطیہ رنگ بھی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو اس شب و روز کو شامل کیا ہے جس سے ہمارے معاشرے کا گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے ثقافت و معاشرت کے اضطراب و انتشار، تضادات و تناقضات کی بہت خوبصورت عکاسی ان کی شاعری میں ملتی ہے ؎
شہر و بازار مقتل میں ڈھل جائیں گے
سرفروشی کا اب کے ہنر دیکھنا
رسم و راہ عاشقی کیسے نبھا پاتے کہ ہم
زندگی بھر پیٹ کی مزدوریاں کرتے رہے
سارے رشتے ہوا لے گئی اور ہم
اپنے ہی شہر میں مہماں ہو گئے
اس نوع کے بہت سے اشعار ہیں جن میں ان کی داخلیت اور خارجیت کے امتزاج کے ساتھ ان کی تخلیقیت اور تنوع کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
سلیم شیرازی کی زبان و بیان میں جو لکھنوی نزاکت، نفاست اور دہلوی جدت و ندرت ہے وہ ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے شاعری کے جمالیاتی معیار اور فنی نزاکتوں کا پورا خیال رکھا ہے ان کی شاعری در اصل اس شمع کی مانند ہے جو ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔ سلیم شیرازی کی شاعری اس سے الگ ہے جو سانسوں کو تھکن اور سینے کو جلن عطا کرتی ہے۔ بلکہ یہ ایسی شاعری ہے جو دلوں کی دھڑکن بن کر وجود میں مہکتی رہتی ہے ؎
وضعداری نہیں، نہیں نہ سہی
پاسداری تو کیجئے صاحب
دل توڑتے ہو توڑ دو لیکن رہے خیال
نازک سا آئینہ ہے ذرا دیکھ بھال کے
یاد کے موسم نے کیا جادو کیا
ہجر کی شب بھی سہانی ہو گئی
آ بسے تنہائی کی بستی میں ہم
دل میں غم کی راجدھانی ہو گئی
چودھویں شب کا چاند گھٹا میں چھپ کر یوں شرمائے ہے
جیسے اودھ کی الہڑ گوری پی کو دیکھ لجائے ہے
سلیم شیرازی کی شاعری میں کیفیات اور تجربات کی جو دنیا آباد ہے اس سے ہر حساس فرد مانوس ہے۔ انہیں لفظیات کو برتنے کا ہنر آتا ہے۔ ان کے شعری اسلوب میں اجنبیت، غرابت، دقاقت و ثقالت نہیں ہے بلکہ مانوسیت کی فضا ہے اور یہی ان کی شاعری سے عوام و خواص کا رشتہ جوڑتی ہے۔ ان کے یہاں حرارت کے ساتھ لطافت بھی ہے سوز کے ساتھ ساز بھی ہے۔ ان کی شاعری ذہن میں تحریک اور تحرک پیدا کرتی ہے۔ دھیمے سروں میں گنگناتی ہوئی یہ شاعری سیدھے سینے میں اتر جاتی ہے۔ ان کے چند اشعار دیکھئے ؎
سادگی کی لوگوں کو اب کے یوں سزا دینا
روشنی اگر مانگیں بستیاں جلا دینا
ہر سمت بسی ہے وہی مانوس سی خوشبو
شاید کہ تو گذرا ہے مری راہ گذر سے
سلیم شیرازی کی شاعری میں فکرو خیال کی یہی مانوس سی خوشبو ہے جو ہر قاری کے مشام جاں کو معطر رکھتی ہے۔
غزل سے سلیم شیرازی کی ذہنی مناسبت ہے مگر نظم اور دیگر شعری ہئیتوں سے بھی ان کا رشتہ ہے ان کے نعتیہ اور منقبتی اشعار قلب کو نور اور روشنی بخشتے ہیں اور نظم میں بھی ان کا رنگ معاصر نظمیہ شاعری سے الگ ہے ایک نظم ملاحظہ فرمائیں:
بیزار آدم کے بیٹوں کے نام
تو پھر ایسا کرو
سارے صحیفے طاق نسیاں پر سجا دو
پھاڑ ڈالو سارے کلینڈر
مدھر کومل سروں میں گنگناتی
دیو کنیا کے لبوں سے
چوس لو چمکیلی مسکانیں
دشاؤں کے
حسیں چہروں پہ
تیزاب اپنے ہونے کا چھڑک دو
اور سو جاؤ
کہ ان اندھی ہوائیں
اپنے کاندھوں پہ لیے
شکر کی بارات آنے والی ہے
اس نظم میں جو تلمیحات و اشارات ہیں اسی نوع کے تلمیحی اور تشبیہی اشارے ان کی غزلیہ شاعری میں بھی ہیں۔
تو پھر مجبور ہو کر اس کو بھی بننا پڑا شِو
وہ پیاسا تھا اور اک نیلا سمندر سامنے تھا
چاندنی میں دھلا ترا چہرہ
مے میں ڈوبا گلاب لگتا ہے
بچپن کا جو رشتہ تھا چندا کی کہانی سے
محفوظ نہ رہ پایا بہتے ہوئے پانی سے
سلیم شیرازی معاصر شاعری کی ایک معتبر اور موثر آواز ہیں مگر ان کے ساتھ بھی المیہ یہ ہوا کہ تنقیدی حوالوں میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ معاصر غزل کے حوالے سے جو تنقیدی مطالعات منظر عام پر آئے ہیں ان میں شاید ہی سلیم شیرازی کا ذکر آتا ہو جب کہ سلیم شیرازی کی شاعری میں حوالہ بننے کی پوری قوت موجود ہے۔ ارباب نقد کو اس کے ازالے یا حسن تلافی کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ ایک اچھی شاعری دشت فراموشی میں کھو جائے گی۔
شکیل جمالی
شکیل جمالی کے جس شعر کی بلیغ رمزیت نے ان کی تخلیقی حساسیت کو ذہن میں تابدار کیا۔ وہ شعر یوں ہے:
میں اپنے گھر کا اکیلا کمانے والا ہوں
مجھے تو سانس بھی آہستگی سے لینا ہے
خدائے سخن میر تقی میر کے مصرعے: لے سانس بھی آہستہ سے ہم آہنگ یہ شعر میرے لاشعور میں اکثر گونجتا رہتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ اس کیفیت کا شعر ہے جس سے بنی نوع انسان کا ہر فرد گزرتا رہا ہے۔ زندگی کی حقیقت بیان کرتا ہوا یہ شعر زمانی و مکانی تعینات سے ماورا ہر فرد کے احساس کا حصہ ہے کہ آج کے دور کا ہر شخص عدم تحفظ، خوف اور بے یقینی کا شکار ہے۔
اس کیفیت کے بہت سے شعر شکیل جمالی کے ہاں ملتے ہیں اور اسی کیفیت کی شاعری نے شکیل جمالی کو ذہنوں میں زندہ کیا ہوا ہے۔ یہ ان کی خوش بختی ہے کہ ان کے شعر سفر کرتے ہوئے ان ذہنی منطقوں تک پہنچے ہیں جہاں سے اشعار کو زندگیاں نصیب ہوتی ہیں ورنہ اکثر خاص ذہنوں، علاقوں کی سیاحت میں ہی شعروں کی عمر گزر جاتی ہے۔
اسی احساس کو سمیٹے ہوئے شکیل جمالی کا ایک شعر ہے:
سو غزلیں ہوتی ہیں اور مر جاتی ہیں
اک مصرع تاریخ رقم کر دیتا ہے
اور یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک مصرع یا ایک شعر نے بہت سے شاعروں کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔ رام نارائن موزوں صرف اس شعر کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں زندہ ہیں:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
شکیل جمالی کے ہاں بھی حیاتیاتی توانائی سے بھرپور اشعار ملتے ہیں اور انہی شعروں نے انھیں تنقیدی مرکزہ میں شامل کیا ہے۔ وہ انبوہ کا حصہ نہیں ہیں، بھیڑ سے الگ ان کی تخلیقی شناخت ہے۔ شکیل جمالی کا اپنا رنگ و آہنگ ہے جو دور سے ہی پہچانا جاتا ہے:
ہر اک آنسو کی قیمت جانتی ہے
غزل شاعر کا دکھ پہچانتی ہے
بھیڑ سے بچ کر نہ چلنے میں یہی نقصان ہے
اب تمہارا کوئی چہرہ ہے نہ کچھ پہچان ہے
(2)
حیات و کائنات کے مشاہدے سے جو تجربے اور مناظر ان کے حصے میں آئے ہیں، ان تجربوں کو انھوں نے اظہار کی زبان عطا کی ہے۔ ہر وہ جذبہ جو انسانی وجود سے تعلق رکھتا ہے، وہ ان کے تخلیقی بیانیہ کا حصہ بنا ہے۔ ’وضع احتیاط‘ کی وجہ سے نہ تو کسی جذبہ کے جنین کا اسقاط ہوا ہے اور نہ ہی کسی جذبہ نے خودکشی کی ہے۔ ہر اس جذبہ کو ان کے شعروں میں زندگی ملی ہے جس کا ہمارے معاشرتی وجود سے رشتہ ہے۔ اسی لیے ان کے ہاں جذبوں کی وسیع تر کائنات نظر آتی ہے۔ ان کے جذبوں کی سانسوں میں خنکی یا حرارت جو بھی ہے، وہ بالکل فطری ہے۔ جذبہ میں کسی قسم کی ملاوٹ، آمیزش یا تصنع نہیں ہے۔ مشاہدے اور تجربے سے ان جذبوں کی صورت گری ہوئی ہے اسی لیے یہ جذبے مختلف رنگ اور روپ میں سامنے آئے ہیں:
سفر دو کشتیوں میں آدمی کر ہی نہیں سکتا
محبت کو بچانے میں قبیلہ چھوٹ جاتا ہے
ہم سمندر سے نکل آئے تو دلدل میں گرے
سر اصولوں سے بچایا تو وفاؤں میں گیا
زندگی ایسے بھی حالات بنا دیتی ہے
لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں
عام آدمی کے جذبہ و احساس سے شکیل جمالی کی شاعری کا بہت گہرا رشتہ ہے، یہ وہ عام آدمی ہے جو ہمیشہ معاشرے کے حاشیے پر رہا ہے۔ جو استحصال زدہ ہے جس کی ہر آواز جبر کی قوت داب دیتی ہے۔ شکیل جمالی نے عام آدمی کے درد و کرب کو بھی اپنے بیانیہ میں مرکزیت عطا کی ہے۔
کسی غریب کو انصاف بھی نہیں ملتا
گواہ جا کے عدالت میں ٹوٹ جاتے ہیں
اشتہارات لگے ہیں مری خوشحالی کے
اور تھالی میں مری ایک نوالا بھی نہیں
شکیل جمالی نے ان کمزوروں کی قوت کا ادراک بھی کرایا ہے:
تو نے ابھی کمزور کی طاقت نہیں دیکھی
فرعون تری بارہ دری جاتی رہے گی
(3)
شکیل جمالی کی شاعری میں فردیت نہیں اجتماعیت کا طرز احساس ہے۔ یہ انسانی روابط کی شاعری ہے۔ انسانی رشتوں اور تعلقات کی ڈور سے بندھی ہوئی۔ اس میں گھر آنگن کی رونق و رعنائی ہے۔ رشتوں کی حرارت کا احساس ہے۔ وہ تنہائی، افسردگی نہیں ہے جو جدید شاعروں کا شیوہ ہے۔ شاعری کا یہی اجتماعی رنگ انھیں مریضانہ جدیدیت سے جدا کرتا ہے:
دنیا ہے تو گلزار ہے چاہت سے تمہاری
گھر ہے تو یہ آباد ہے بچے سے ہمارے
میں نے ہاتھوں سے بجھائی ہے دہکتی ہوئی آگ
اپنے بچّے کے کھلونے کو بچانے کے لیے
موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا مگر آج
اپنے بچّوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
شکیل جمالی کی شاعری میں بچوں کا جو کردار ہے، وہ مصور سبزواری کی یاد دلاتا ہے۔
(4)
شکیل جمالی نے شہر میں رہتے ہوئے بھی اپنے قصباتی ذہن کو زندہ رکھا ہے۔ اپنی مٹی اور جڑوں سے گہری وابستگی نے قمقموں میں بھی ان کے باطن کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا ہے۔ قصبات کی قدریں ان کے شعروں میں زندہ ہیں۔ قصبات کے تہذیبی بیانیے بھی روشن ہیں:
اُسی دنیا کے اُسی دور کے ہیں
ہم تو دلّی میں بھی بجنور کے ہیں
ناراض ہے مجھ سے مرے بجنور کی مٹّی
دلّی میں گزارے ہوئے لمحات کو لے کر
اسی قصباتی ذہنیت نے انھیں شہر کی بے چہرگی، مردم بیزاری، اجنبیت اور بیگانگی اور شہر کی سائیکی سے سراسیمہ کرایا ہے۔ شہر ان کے نزدیک رشتوں کے انقطاع اور سفاکیت کا استعارہ ہے۔ جہاں صنعتی، مادی اور صارفی تہذیب کا تسلط ہے۔ شکیل جمالی کے شعروں میں شہر کا زاویہ کچھ یوں ابھرتا ہے:
چہروں پہ کوئی رنگ سکوں نام کا نئیں ہے
یہ شہر بڑا ہے مگر آرام کا نئیں ہے
یہ کیسے علاقے میں ہم آ بسے
گھروں سے نکلتے ہی بازار ہے
(5)
یاس یگانہ چنگیزی اور شاد عارفی جیسی نشتریت نے شکیل جمالی کے تخلیقی اظہار کو شعلگی عطا کی ہے اور ان کے احساس کو شعلہ فشاں کیا ہے۔ لہجے میں یہ شعلگی، یہ تمازت، یہ تپش در اصل معاشرتی مکروہات اور جبر زمانہ کا رد عمل ہے۔ اس میں ان کے مشاہدے اور تجربے کی شدت نظر آتی ہے۔ یہ رد عمل فطری ہے۔ ایک با ضمیر اور حساس فن کار جبر، استحصال اور منافقت سے مصالحت نہیں کر سکتا۔ وہ ایک باغیانہ اور انحرافی روش اختیار کرتا ہے۔ شکیل جمالی کے ہاں یہ مزاحمتی لہجہ یوں روشن ہوا ہے کہ انھیں اپنے عہد کے ضمیر کا ادراک ہے اور انھوں نے اس تہذیبی ضمیر کو مرنے نہیں دیا ہے جو قدرت ایک حساس، با شعور اور صالح وجود کو عطا کرتی ہے، شکیل جمالی کے سیاسی، سماجی طنز یے ان کے مشاہدات اور تجربات کا پر تو ہیں:
کون ہے خادمِ اردو، صاحب!
سب نے دوکان، لگا رکھّی ہے
ہمارا حق دبا رکھّا ہے جس نے
سنا ہے حج کو جانا چاہتا ہے
جن کو دعوا تھا مہمان نوازی کا
دروازے پر تالا ڈالے بیٹھے ہیں
اسپتالوں میں دوا ہے نہ مساجد میں دعا
یعنی بیمار کے کاندھے پہ ہے بیمار کا بوجھ
شہر میں دو چار کمبل بانٹ کر
وہ سمجھتا ہے مسیحا ہو گیا
یہ ان کے داخلی ضمیر کا احتجاج ہے۔ جذبہ کا شعلہ جوالہ جب شعر کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے تیور تلخ اور تند ہو جاتے ہیں۔ شکیل جمالی کے شعر میں جو ’تندی صہبا‘ ہے وہ منفیت کا مثبت رد عمل ہے۔
ان کے شعروں میں جو شوریدگی ہے، وہ ان کے مزاج کی ایک نئی جہت کا انکشاف ہے۔ اضطراب و التہاب ان کی سرشت کا حصہ ہے یا حالات کے جبر نے ان کے باطنی ہیجان کو جنم دیا ہے۔
(6)
یہ آج کے مسائل کی شاعری ہے۔ اکیسویں صدی نے بہت سے نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ سائنس و تکنالوجی کی ترقی اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے بہت سے انسانی مسئلے وجود میں آئے ہیں۔ دہشت، وحشت، مادیت، صارفیت، فرد کی تنہائی، بے چارگی— اکیسویں صدی میں انسانی وجود سے بہت سے المیے جڑ گئے ہیں۔ شکیل جمالی کی شاعری انہی المیوں کا اظہار ہے معاشرے کے تضادات، بدلتی قدری ترجیحات کو بھی انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ جدید انسان کے ذہن و شعور کی شکست و ریخت، بے گھری کا کرب، بھیڑ میں اکیلا پن— وہ تمام مسائل اور موضوعات جو انسان کے سماجی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی وجود سے جڑے ہوئے ہیں۔ فرد کی ان تمام اکائیوں کا مجموعہ ان کے شعروں میں ہے۔
شکیل جمالی کا موضوعاتی کینوس وسیع ہے۔ موضوعات میں تنوع اور رنگارنگی ہے۔ آج کے عہد کا آشوب اُن کے مرکزی شعری حوالے میں شامل ہے۔
مکمل طور پر معاشرہ سے مربوط یہ شاعری کسی بھی زاویے سے مضمحل یا منجمد نظر نہیں آتی بلکہ مضبوط اور متحرک ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
(7)
شکیل جمالی نے ایک کوزہ گر کی طرح اپنے ذہنی خلیے میں رقص کرنے والے الفاظ کو موزوں اور متناسب سانچہ عطا کیا ہے۔ لفظوں کو صورت کے ساتھ شخصیت میں ڈھالا ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ اپنے شخصی اور کرداری اوصاف کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے لفظ برف زدہ نہیں بلکہ حرارت آمیز ہیں۔ ان کے الفاظ ان کے خیالات کی شعلگی اور حرارت کا ثبوت ہیں۔ الفاظ کا بہترین تخلیقی استعمال انھیں آتا ہے اس لیے احساس و اظہار دونوں ہی سطح پر ان کے ہاں تحرک کی کیفیت ہے۔
بے چہرگی کے اس دور میں شکیل جمالی اپنی شاعری کو ایک چہرہ دینے میں کامیاب ہیں اور اس انبوہی دور میں یہ بہت بڑی عطا ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
مجیب قاسمی
مجیب الرحمن کے مجموعہ ’نغمہ بہار‘ کی قرأت کے دوران مجھے ان کے تخلیقی وجود میں اسی مٹی کا آہنگ اور احساس نظر آیا، جو ان کی زاد گاہ ہے یعنی ارریا۔ ان کے داخلی جذبہ (Inner emotion) اور تخلیقی وژن میں اس مٹی کی مہک اور خوشبو بھی محسوس ہوئی۔ ان کے داخلی شعور میں وہی موسم، مٹی اور رنگ و بو شامل ہے اور اسی داخلی شعور سے تخلیق کار کی توانائی کا بھی احساس ہوتا ہے۔
مجیب الرحمن کی شاعری مٹی کے اسی معصوم احساس و ادراک پر مبنی ہے، شہر کے شیزوفرینیا نے ان کی تہذیبی شناخت اور کردار کو سلب نہیں کیا ہے۔ اس لیے اپنی تخلیق میں وہ اپنے اس مکمل ’تہذیبی کردار‘ میں نظر آتے ہیں جسے شہر کی سفاکیت عموماً چھین لیتی ہے۔
مجیب الرحمن کے تخلیقی نظام پر وہی عنصر حاوی ہے جس میں اپنی مٹی کی سلاست، نفاست، نزاکت شامل ہے اور وہ اشارت و عبارت بھی جو شہر کی روشنی میں کھو جاتی ہے۔ عہد طفلی کا وہ لاشعور ابھی روشن ہے جس سے ان کے تخلیقی احساس کو یادوں کا نگار خانہ میسر ہوا ہے۔ مجیب الرحمن کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اس محبت کی بازیافت ہے، جو ان دنوں شاعری سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ گلوبلائزیشن اور مادیت پرستی کے اس دور میں شاید یہ بہت بڑا اجتماعی المیہ ہے جس کا احساس صرف اور صرف خلاق اور دراک ذہنوں کو ہی ہے۔ ولیم بلیک، ولیم ورڈس ورتھ، سمویل ٹیلر کولرج، لارڈ بائرن، پی بی شیلے، جون کیٹس کے نغمات محبت نے نہ صرف انسانی ادراک و احساس کو معطر و منور کیا تھا بلکہ انسان کے ذہنی وجود کی تقلیب و تطہیر میں بھی نمایاں کردار عطا کیا تھا۔ انسانی کائنات سے بوئے عشق اور آہنگ محبت کا خاتمہ کیا کسی المیے سے کم ہے؟
محبت کا ہی تو آہنگ ہے جس نے انسانی ذہنوں کو روشنی عطا کی ہے۔ انسانی احساس و جذبہ میں حدت و شدت پیدا کی ہے۔ یہی تو انسانی وجودات کے داخلی ربط کا ایک ذریعہ ہے، یہی کیمیائی عنصر ہے جو انسانی وجود کو مجلی و معفی کرتا ہے۔ یہی آہنگ ہے جو انسانی وجود کو مرتعش و مضطرب رکھتا ہے اور یہی انسان کو آنند بھی عطا کرتا ہے۔
مجیب الرحمن کی شاعری اسی ’آنند‘ سے عبارت ہے۔ انہوں نے اپنے داخلی تخیلی انبساط میں قاری/کائنات کو بھی شریک رکھا ہے اور اپنے و جود میں مخفی آہنگ کی توانائیوں کا اکتشاف کر کے تخیل کی جمالیاتی مسرت سے قاری کو محروم نہیں رکھا ہے اور ساتھ ہی حیات کائنات اور اس کی میکانزم کے تعلق سے ہمارے تجسس کی تسکین کا سامان بھی کیا ہے۔
مجیب الرحمن کی شاعری میں دو لہریں نمایاں ہیں۔ ایک لہر شعور ذات کی ہے اور دوسری لہر خود فراموشی کی اور دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ باب محبت کی شاعری عرفان ذات سے عبارت ہے جبکہ بادہ و مے کی شاعری خود فراموشی کی مکمل انبساطی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ شعری اظہار میں احساس محبت کے رنگ یوں ہیں:
مسکرا کر پاس آنا، روٹھ کر جانا ترا
کیا مزہ دیتا ہے تجھ کو مجھ کو تڑپانا ترا
جسم گداز کی ہے لطافت عذاب جاں
اور اس پہ نازنیں کی نزاکت عذاب جاں
تم بے وفا ہوئے تو نئی بات کیا ہوئی
برسوں سے ہے یہ رسم و روایت عذاب جاں
آغوش آرزو میں تو زلفیں بچھا کے دیکھ
جوش جنوں کے حوصلے بھی آزما کے دیکھ
الجھی ہے زلف یار میں میری نگاہ شوق
مجھ کو نہ کعبہ اور نہ بت خانہ چاہئے
یہ رنگ عاشق اور معشوق کے مزاج، ماہیت اور کردار کا بھی تعین کرتے ہیں اور اس پورے تلازمہ کی بھی جو کلاسیکی روایتی شاعری کا حصہ یا شناخت نامہ ہیں۔ اس میں میر کی محرونی محرومی بھی ہے اور غالب کا نشاط غم بھی۔ داخلی وجود میں رقصاں جذبہ و احساس کی یہ خوب صورت تعبیریں ہیں جن میں کلاسیکی فکر و فرہنگ سے کسب فیض کی روایت بھی روشن ہے، شاید اسی وجہ سے ان کے کچھ شعروں کی گونج داخلی سماعت میں بھی سنائی دیتی ہے۔
کلاسیکی شعری روایت سے آگہی کی وجہ سے مجیب الرحمن کے ساتھ معاملہ غالب کا سا ہے کہ ؎
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
مگر یہاں بادہ و مے ایک تہذیبی علامت اور کلچرل سمبل ہے۔ یہ وہ مے نہیں ہے بلکہ اس ’مے ‘ کی تہذیبی مابعد الطبیعاتی معنویت ہے اور اس مے کا رشتہ معرفت الٰہی سے ہے۔ یہ مے لا الہ الا اللہ ہے جسے پینے کے بعد انسان پر وجدان و عرفان کی نئی منزلیں روشن ہوتی ہیں۔
کیا کہوں کیا کیا ہوا کل رات بزم ناز میں
یہ نگاہ شوق اس کافر پہ جم کر رہ گئی
توبہ توبہ توڑ دی ہے گھٹا نے برس کے آج
ساقی شراب وہ نرگس مستانہ چاہئے
رسم مے نوشی یہی ہے بڑھ کے خود ہی جام لے
بزم میں سب ایک ہیں، پیر مغاں کچھ بھی نہیں
سرشار نگاہوں سے پھر اس نے پلا ڈالی
توبہ کی قبا میری ساون میں اڑا ڈالی
مجیب الرحمن کے تخلیقی شعور میں وہی بادہ معرفت اور شراب عشق ہے جو انسانی روح، ضمیر، ذہن کا تزکیہ تطہیر اور کتھارسس کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں ’مے ‘ کا مطلب ہے روحانی وجد (Spiritual Ecstasy)۔
مجیب الرحمن کی شاعری میں جو Sensual Images ہیں، ان کی تفہیم کے لیے فارسی کی غزلیہ صوفیانہ روایت سے آگہی ناگزیر ہے۔ خاص طور سے عشق اور شراب کے امیجز کو صوفی مابعد الطبیعات کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
’نغمہ بہار‘ انسانی وجود کے رومانس، جذبہ اور جمالیاتی تخیل کا خوب صورت اظہاریہ ہے۔ اس میں Intoxication کی جو کیفیت ہے، وہ ان کی تخلیقی حرارت اور تابندگی کو قائم رکھے گی اور قاری کے جذبہ و احساس کو بھی مرتعش کرتی رہے گی۔
یہ شاعری انسانی تجربہ کے ادراک و احساس سے عبارت ہے اور اس میں زمین کا وہ آہنگ ہے، جو ہر رنگ میں زندہ و تابندہ رہتا ہے۔ جون کیٹس کی زبان میں کہیں تو
The poetry of the earth is never dead
’نغمہ بہار‘ فطرت حیات اور انسان کے تعلق سے شاعر کا جو تعبیری اور وجدانی وژن ہے، وہی اس کی توانائی اور قوت ہے اور یہی اس دور جمود میں ان کی شاعری کا جواز بھی ہے۔
نور الحسن نور عزیزی، نوابی
سید محمد نور الحسن نور نوابی عزیزی میری طرح بہتوں کے لئے شاید یہ نام اجنبی ہو کہ ان کا تعلق اُن بستیوں میں سے کسی ایسی بستی سے ہے جس کی تخلیقی موجوں کا شور مرکزی شہروں اور دبستانوں میں سنائی نہیں دیتا اور جہاں کی تخلیقی زرخیزی تنقیدی ذہنوں کا حصہ نہیں بن پاتی۔ موضوعات اور لفظیات کے اعتبار سے معتبر شاعری کا تنقیدی حوالہ کا حصہ نہ بننا بہت بڑا المیہ ہے۔ مگر یہ المیہ اب عام ہے کہ معاصر تنقید روابط کے ضوابط میں اسیر ہے اور قربت و قرابت کی روش پر چل پڑی ہے۔
حضرتِ نور کا شمار بھی ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جن سے شاید معاصر ادب کا ایک بڑا حلقہ اچھی طرح واقف نہ ہو جب کہ ان کی شاعری ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ اسے تنقیدی افکار و اقدار کا حصہ بنایا جائے اور تنقیدی زاویے سے مفصل اور مربوط گفتگو بھی ہو۔ شاعری گو کہ اُن کے وجود کا بنیادی حوالہ نہیں ہے مگر اُن کی ذات کا ایک لاینفک حصہ ہے۔ اُن کے یہاں شاعری سے ہجر اور فراق کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا:
نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیند آتی ہے
یہ شعر گوئی تو مجھ کو بہت ستاتی ہے
جب ہجر کی ساعتیں ہوں گھیرے
ملتا ہے سکون شاعری میں
نور اپنے وجودی افکار کو شاعری کے ذریعے پیش کرتے ہیں اور حیات و کائنات کی تفہیم کا ایک نیا زاویہ عطا کرتے ہیں۔ ان کے یہاں انسانی وجود سے جڑے ہوئے وہ سارے مسائل اور موضوعات ہیں جو آج کی معاصر شاعری میں عام ہیں۔ انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، محسوس کیا ہے، اس کے تضادات، تناقضات کو پرکھا ہے اس لئے وہ مسئلے ان کی شاعری میں شامل ہیں جن سے آج بنی نوع انسان کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر ایک ایسی بدلتی ہوئی دنیا ہمارے روبرو ہے جہاں انسانوں کی تقدیریں اقتدار کی زبانوں اور سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جاتی ہیں اور بدلتا ہوا وقت لفظوں کے معانی اور مفاہیم بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ نور نے اپنے عصر کے نشیب و فراز اور مد و جزر کو سخن کائنات کا حصہ بنایا ہے اور اُن کے لوحِ ذہن پر جو واردات، واقعات، حادثات، مشاہدات نقش ہوتے گئے انہیں شاعری کی صورت عطا کی ہے۔
وہ ایک خاص سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں جس کا عکس اُن کی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ مادیت اور صارفیت کے دور میں نور نوابی کی شاعری مادّی نہیں بلکہ اخلاقی وجود کی شاعری ہے۔ یہ شاعری آدمیت نہیں انسانیت سے عبارت ہے۔ اُن کے ہر لفظ میں نور ہے، نکہت ہے، نزاکت ہے، لطافت ہے اور باطن کی وہ روشنی بھی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ نور کی پوری شاعری کشفیہ نوعیت کی ہے۔ جس میں اُن کی ذات، ذہن، ضمیر اور رویے کا مکمل انعکاس ہے۔ جس تہذیبی، ثقافتی، روحانی سلسلے سے اُن کا تعلق رہا ہے اُس کی بھی عکاسی اُن کے شعروں میں ملتی ہے۔ روایت سے ربط بھی ہے اور جدّت سے جڑاؤ بھی۔ شعر و سخن کے باب میں وہ کسی تحریک کے تابعِ مہمل نہیں بلکہ تحرک کے قائل ہیں:
کسی کا رنگ مرے رنگ سے نہیں ملتا
میں اپنا طرزِ سخن بے مثال رکھتا ہوں
منفرد سب سے ہے ہنر میرا
ہے ہر اک حرف معتبر میرا
میں جب بھی کوئی منظر دیکھتا ہوں
ذرا اوروں سے ہٹ کر دیکھتا ہوں
نئی ردیف نئے قافیے تلاش کریں
سخن کے اور بھی کچھ راستے تلاش کریں
نور نوابی عزیزی کے شعری مجموعوں کے عنوانات بھی اُن کے تخلیقی مزاج، نفسیاتی رویے، فکری تعینات، ذہنی تشخصات اور اظہاری انفراد و اختصاص کا اشاریہ ہیں۔ برگ سحر، شاخِ نوا، ساحل توجہ، تحرک، سخن زار، تفرید جیسے عنوانات کے آئینے میں اُن کی شاعری کا رنگا رنگ اور متنوع چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے شعری مجموعوں سے سرسری گزرتے ہوئے بہت سے شعروں پر میری نگاہ ٹھہر سی گئی اور دیر تک سوچا کیا، خیال کی ندرت اور لفظوں کی لطافت کو محسوس کیا۔ تو راز یہ کھلا کہ سوز و ساز اور جذب و جنون کے بغیر ایسی شاعری وجود میں نہیں آ سکتی۔ یہ شاعری کیا ہے یہ در اصل عشق کائنات ہے جس کے ہر حرف کا رشتہ دل سے ہے اور اس میں:
جذب ہے روحِ حیات
صرف یہ شاعری نہیں
نور نوابی کی یہ شاعری عشق کا خوبصورت استعاراتی اظہار ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اشارہ کیا ہے:
میں عشق کا بن کے استعارہ
ہر شاخِ سخن پہ کھل چکا ہوں
یہ شاہراہ عام کی نہیں بلکہ ان ویران گلیوں اور سنسان پگڈنڈیوں سے گزر کر آتی ہوئی وہ شاعری ہے جن پر بہت کم قدموں کے نشانات ملتے ہیں:
جس کی جانب کوئی نہیں جاتا
اس گلی سے ہوا گزر میرا
نور نوابی عزیزی نے اپنی منزل اور اپنی راہ خود ہی تلاش کی ہے اس لئے انفرادیت ان کی شاعری کا نشانِ شناخت ہے۔ یہ وہ شاعری ہے جو تنقیدی تحسین و ستائش سے نہیں بلکہ اپنی تخلیقی قوت اور فکری طاقت سے زندہ رہنے والی ہے۔ ان کے ہر حرف میں تحرک، تلاطم، تموج اور تفرید ہے۔ دریا کی سی روانی، جولانی اور طغیانی ہے۔ شاعری میں جو موسیقیت اور خوش آہنگی ہے وہ بہت کم لوگوں کے یہاں نظر آتی ہے۔
نور کا لفظیاتی نظام نہایت مضبوط اور مستحکم ہے۔ ہنر مندی سے لفظوں کا استعمال کوئی اِن سے سیکھے۔ لفظوں کے درو بست پر نگاہ پڑتے ہی زبان و بیان پر اُن کی بے پناہ قدرت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کون سا لفظ کہاں اور کیسے استعمال کیا جائے یہ ہنر انہیں آتا ہے۔ ان کے شعر پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے روشنی دستک دے رہی ہو اور خوشبوئیں ذہن کو معطر کر رہی ہوں۔ اس خیال کی تائید و توثیق کے لئے یہ اشعار:
میں آسمانِ سخن پر دیے جلاتا ہوں
فضا چمکنے لگے تو سکون پاتا ہوں
آنکھوں کو تیرے چہرے سے ہٹنے نہیں دیتے
ہم چاند کو آنگن میں اُترنے نہیں دیتے
ایک دھڑکا سا اسے اب بھی لگا رہتا ہے
اس لئے چاند دریچے میں کھڑا رہتا ہے
حوصلہ پاؤں میں باندھے جو قبیلے نکلے
رکھ دیئے پاؤں سمندر میں تو رستے نکلے
حسن میں اس کے وہ لطافت ہے
برف چھولے تو ہاتھ جل جائے
نور نوابی کا جنوں سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی جنون نے اُن کے جذبہ کو مہمیز کیا ہے اور اسی جنون کی وجہ سے ان پر ذات اور کائنات کے اسرار منکشف ہوئے ہیں۔ اگر یہ جنون نہ ہوتا تو شاید اُن کے شعر خرد کے فلسفوں میں الجھ کر بے کیف ہو جاتے۔ اُن کی شاعری میں جو کیفیت اور تاثیر ہے وہ سب جنوں کا نتیجہ ہے:
وہ تھی خرد، جو ایک قدم بھی نہ چل سکی
وہ تھا جنوں جو ساری حدیں پار کر گیا
ہم ہیں ایسے جنوں پرست کہ جو
گھر میں صحرا سمیٹ لاتے ہیں
اہلِ جنوں نے دھوپ کے دامن میں لی پناہ
دنیا تمام دھوپ میں زیرِ شجر گئی
نور نوابی نے اپنی پوری شاعری میں جنوں سے فکرو شعور کا کام لیا ہے۔ ان کی شاعری میں جنون کے بہت سے زاویے ہیں اور ہر زاویہ ایک نیا پن لئے ہوئے ہے۔
نور نوابی کی پسندیدہ لفظیات میں فلک، چاند، جنوں، رات، رتجگا، صحرا، شہر، دریا، تشنگی، خوشبو، دریچہ، شجر، سمندر، سورج، شام، عشق، خوشبو، گھر اور تنہائی اہم ہیں۔ اِن لفظوں سے انہوں نے اپنی ذہنی اور نفسی کیفیات کو شاعری میں پیش کیا ہے۔ جنوں کا تلازمہ عشق سے ان کا رشتہ جوڑتا ہے تو رات کا تلازمہ ان کی شاعری کا رشتہ اس صبح سے جوڑتا ہے جو انسانی زندگی سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ در اصل رات ایک رمز ہے اور اسے انہوں نے بہت خوبصورت استعاراتی پیرائے میں اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ ان کے یہاں رات صرف اندھیرے سے عبارت نہیں ہے بلکہ اس رات کا رشتہ رتجگوں سے بھی ہے اور تنہائی سے بھی۔ اور یہی تنہائی ان کو ایک نئی قوت اور طاقت بہم پہنچاتی ہے۔ کیوں کہ یہ صرف ان کی ذات کی تنہائی نہیں بلکہ یہ ان کی فکر اور اسلوب کا تفرد بھی ہے۔ وہ اپنے احساس کی انجمن میں تنہا ہیں اور یہی تنہائی ان کی تخلیق کو ایک امتیاز اور انفراد عطا کرتی ہے۔
چلو کہ جاگ کے سمجھیں تمام رات یہ رمز
فلک پہ پھرتا ہے کیوں چاند رات بھر تنہا
کرتے ہیں سخن مجھ سے تری یاد کے جگنو
بیکار ہی میں رات میں جاگا نہیں کرتا
ترے خیال نے سونے نہیں دیا مجھ کو
سو تیرے نام لکھے سارے رتجگے میں نے
رات، رتجگے اور تنہائی سے انہوں نے اپنی شاعری کو ایک نیا پیکر عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں وہ دریچہ بھی ہے جس سے ان کا ایک خاص رشتہ ہے۔ وہ شاید طلسماتی دریچہ ہے جس سے بہت سارے تخیلات اور تجلیات ان کے ذہن میں در آتے ہیں اور شاعری کو ایک نئی شکل و صورت عطا کر جاتے ہیں:
یہ عجب راز چھپا رکھا ہے کمرے میں مرے
بند کرتا ہوں دریچے تو ہوا آتی ہے
تیرا دریچہ ہے مانوس اس قدر مجھ سے
کبھی کبھی مری آغوش میں مچلتا ہے
احساس کی ہری ہری شاخ پر اُن کے لفظوں کے جگنو جگمگاتے ہیں تو اک عجب سی روشنی ہر سو پھیلتی ہے اور پورے وجود کو منور کر جاتی ہے اور اس طرح کے شعر وجود میں آتے ہیں:
عجوبہ ساتواں دیکھا یہ ہم نے
اُگا تھا پیڑ اک آتش فشاں پر
سکتہ طاری تھا روئے منظر پر
اڑ رہے تھے دیے سمندر پر
نور نوابی کی شاعری کا تلمیحاتی اور استعاراتی نظام بھی مختلف ہے۔ یہ صرف ماضی کی طرف ذہنی مراجعت نہیں ہے بلکہ ان تلمیحات میں ماضی کے تسلسل کو حال کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ منارِ بابل، سامری، فرات، عمر وعیار، ہابیل، ابابیل، منصور، تیشۂ فرہاد، شہر سبا، دیوارِ گریہ، شمر، کربلا اس کے علاوہ بہت سی تلمیحات ہیں جو ان کی شاعری کا حصہ بنی ہیں۔ در اصل ان کی شاعری میں رموز و علائم اور تلمیحات کا بیش بہا خزینہ ہے۔ ان کی شاعری میں تلمیحات کا اتنا ہنرمندانہ استعمال ہے کہ اس پر گفتگو کی جائے تو ایک خاصی ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ کچھ تلمیحی اشعار سے ان کے انفرادی تخلیقی اظہار سے آشنائی کی صورت سامنے آتی ہے:
مٹھی میں قید کرنے لگا ہوں ہوا کو میں
دو گام اب سمجھتا ہوں شہرِ سبا کو میں
اُدھر سے رُخِ نگاہ کو اس نے پھیر لیا
جدھر کی طرف فرات عطش کا دھارا ہوا
عمرو عیار کے آگے نہ چلی عیاری
لشکرِ ہوش و خرد داخل زنبیل ہوا
ننھی چڑیوں نے جو برسا دیئے کنکر اے نور
روئی دھنکی ہوئی اک قافلۂ فیل ہوا
خدا نے حفاظت جو چاہی ہماری
تو دیوار مکڑی کے جالے ہوئے ہیں
ہزاروں شمر بڑھتے آ رہے ہیں
کھڑا ہے نور تنہا کربلا میں
اس نوع کے اور بہت سے اشعار ان کے مجموعے میں ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم تلمیحات سے ان کا بہت گہرا ذہنی اور فکری رشتہ ہے اور موجودہ حالات سے اُن تلمیحات کی وہ مطابقت بھی تلاش کرتے رہے ہیں۔ چونکہ زمانہ لاکھ بدل جائے انسانوں کی جبلت تبدیل نہیں ہوتی اور اسی جبلت انسانی کو انہوں نے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ عصری حالات پر بھی اُن کی گہری نظر ہے۔ اس لئے انہوں نے اخلاقی اقدار کے زوال، ٹوٹتے بکھرتے رشتے، حرص و ہوس، مادیت و منفعت، جبر و ظلم، قتل و خون کے حوالے سے بھی فکر انگیز شعر کہے ہیں۔ اس تعلق سے چند اشعار جس میں عصری معاشرت کی منظر کشی ہے:
ہائے یہ دورِ ہوس ہے کیسا
ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے کیسے
کسے اپنا کہیں ہم غیر کس کو
کہ ہر چہرے پہ اب چہرے بہت ہیں
یہ تو دنیا ہے ضرورت سے ملا کرتی ہے
ایک ماں ہے جو مرے حق میں دعا کرتی ہے
پہلے ہوتا تھا پڑوسی کا بھی آنگن اپنا
اب ترستے ہیں بھرے شہر میں اک چھت کے لئے
یہ آج کے معاشرے اور ماحول کے احوال و کوائف ہیں جنہیں شاعر نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور اس طرح کے بہت سے شعر ان کے مجموعہ میں ملتے ہیں جن سے ان کے تجربات اور مشاہدات کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نور نوابی عزیزی کے ہاں خیال کی ندرت بھی ہے اور ادا کی جدت بھی۔ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر میں پامال راستوں کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اپنا راستہ سب سے جداگانہ رکھا۔ انہی کا شعر ہے:
پسند آیا نہ پامال راستوں کا سفر
سو اپنا راستہ سب سے جدا بنا رہا ہوں
اپنی شاعری میں بھی انہوں نے انفرادیت پر زور دیا ہے۔ اور اس نوع کے شعر کہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ جو راہ عام ہو جائے اس پر چلنا انہیں منظور نہیں۔
شعر گوئی کے نئے زاویے ڈھونڈو اے نور
جتنے پیمانے پرانے ہیں وہ سب ہیں بیکار
شعر کہنے کی آرزو ہے تو پھر
اپنا لہجہ ذرا نیا کیجئے
زمانہ مجھ کو مرے نام ہی سے پہچانے
غزل کا مجھ کو وہ اسلوب وہ زبان ملے
نور کی تمنا پوری ہوئی کہ قدرت نے انہیں سحر انگیز منفرد اسلوب عطا کیا اور نہایت شیریں، سادہ سلیس زبان عطا کی جس کے ذریعے وہ شاعری کے میدان میں اپنی انفرادیت اور امتیاز کے نقوش ثبت کرتے جا رہے ہیں۔ اُن کے اس شعر پر اس مضمون کا تمت بالخیر:
نور دنیائے شاعری کو میں
منفرد لفظیات دیتا ہوں
جاوید صدیقی
جاوید صدیقی کی شاعری قرأت اور سماعت دونوں کو راس آتی ہے۔ پڑھتے ہوئے ایک ارتکازی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو روبرو ان کے شعر سنتے ہوئے عجب طرح کا اہتزاز اور ارتعاش محسوس ہوتا ہے۔ ان کی آواز اور شاعری میں جو کشش اور توانائی ہے وہ قاری اور سامع کو اپنی طرف پوری طرح متوجہ کر لیتی ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری کی مرکوز قرأت سے ان کی بہت وہ سب خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں جو اچھی شاعری کے لوازمات میں ہیں۔ جاوید صدیقی کی شاعری اس لئے بھی پسند آتی ہے کہ اس میں موسیقیت کا آہنگ ہے اور وجد آفریں کیفیت بھی ہے۔ کلاسیکی، لفظیاتی اور استعاراتی نظام کا التزام کرتے ہوئے انہوں نے احساس و اظہار کو جدتوں اور ندرتوں سے ہمکنار کیا ہے۔ اور روایت کی زنجیریں توڑے بغیر اس کی روشنی سے رشتہ قائم کر کے اس میں وسعت اور امکانات کے نئے دروا کئے ہیں۔ تخلیقی عمل میں یہ کام آسان نہیں ہوتا مگر جاوید صدیقی نے اپنے شعری سفر میں یہ سارے مشکل معرکہ سر کئے ہیں اور وہ قندیلیں روشن کی ہیں جو شاید احساس کی راہوں میں معدوم تھیں۔ انہوں نے تخیل کے نئے چراغ روشن کر کے اظہار کو نئی راہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبوہ شاعراں میں ان کا لہجہ اور آہنگ اوروں سے الگ نظر آتا ہے۔
جاوید صدیقی کے مشاہدات، محسوسات اور تجربات کی زمین بہت وسیع ہے اور اس وسعت میں ان کی ہجرت کا بھی خاصہ دخل ہے۔ اسی لئے اُن کے احساس و اظہار کا افق بھی وسیع اور متنوع نظر آتا ہے۔ انہوں نے شاعری کی تنگ زمینوں سے اپنا رشتہ نہیں رکھا کہ اس سے احساس کی کونپلیں مرجھا جاتی ہیں۔ خیال کا پودا تناور درخت نہیں بن پاتا۔ جاوید صدیقی نے اپنے تخیل کو اتنی وسعت اور توانائی بخشی ہے کہ چھوٹی چھوٹی کونپلیں بھی شجر سایہ دار بن جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مصرعے بولتے ہوئے سے نظر آتے ہیں۔ یہ مصرعے در اصل چراغ مردہ نہیں بلکہ شمع آفتاب کی طرح اُن کی شاعری میں چمکتے رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں حکایتیں بھی ہیں، شکایتیں بھی، رویے بھی ہیں، روایتیں بھی۔
آج لگ جائیے گلے ہم سے
بھول کر سب دشمنی صاحب
جس کو ڈس لیں نہ وہ مانگے کبھی اٹھ کر پانی
آستینوں میں عجب سانپ وہ پالے ہوئے ہیں
اُمید ہے کہ آپ بھی ہوں سکون سے
ہم بھی بخیر زندہ ہیں اپنی انا کے ساتھ
کاٹ کر وہ زباں میری کہنے لگے
اب بتاؤ تمہیں کیا گلہ رہ گیا
اسے یہ ضد ہے کہ وہ بجلیاں گرائے گا
مجھے ہے شوق نئے آشیاں بنانے کا
میں کانپ اٹھتا ہوں جاوید اس تصور سے
وفا کی راہ میں جو دیکھا ہے گزرتے ہوئے
ان کے مشاہدات اور محسوسات کی زنبیل میں وہ قندیل روشن ہے جسے صرف حساس آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ وہ سارے تجربے ان کی شاعری کا حصہ ہیں جن کا تعلق جاوید کی ذات، ذہن اور ضمیر سے ہے۔ زندگی کے یہ تجربے جنہیں جاوید نے شعری پیرہن عطا کیا ہے انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اس میں اپنی ذات کا نوحہ بھی ہے اور معاشرے کا مرثیہ بھی۔
جس میں اخلاص ہو اس کو ڈھونڈیں کہاں
ایسا ملنا تو ہے اب محال آدمی
جس کے آگے فرشتوں نے سجدہ کیا
کر گیا ہے وہ کیا انتقال آدمی
جو گاؤں تھا مرا کبھی وہ گاؤں اب نہیں رہا
وہ سادگی وہ شوخیاں ہوا اڑا کے لے گئی
سب روئے مل کے دیر تک اس کی وفات پر
پھر ختم ہو گئی یہ کہانی دعا کے ساتھ
جلتا رہا چراغ کی صورت میں روز و شب
پوچھا نہ اس نے حال نہ مجھ سے بیاں ہوا
گردش نے وقت کی مجھے جینے نہیں دیا
برہم کبھی زمیں تو کبھی آسماں ہوا
میری زبان کاٹ لی جاوید اس کے بعد
مجھ پر امیرِ شہر بہت مہرباں ہوا
کل میں تنہا تھا اور وحشت تھی
موت آئی تو میں مرا بھی نہیں
جانے کس سمت چل پڑا ہوں میں
مجھ سے اب کوئی پوچھتا بھی نہیں
جاوید صدیقی نے اپنے التہاب و اضطراب کو بھی بہت متانت اور تمکنت سے پیش کیا ہے اور آسان لفظوں میں حیات و کائنات کے پیچیدہ فلسفے بھی بیان کر دیئے ہیں۔ وہ حیات و کائنات جس کی تعبیر میں تخلیقی اذہان لا یعنی فلسفوں کا سہارا لیتے ہیں۔ مگر جاوید صدیقی کا فلسفہ ان کے مشاہدات اور تجربات سے تشکیل پاتا ہے۔ ان کی پوری شاعری زندگی کے براہ راست مشاہدے سے کشید کئے ہوئے فلسفے اور تجربے سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کی ذات میں ایک جام جہاں نما ہے جہاں ہر جذبہ اور احساس حقیقی صورت میں نظر آتا ہے۔
جاوید کی شاعری کسی ایسے پڑاؤ پر نہیں رُکتی جہاں اکثر شاعری ٹھہر سی جاتی ہے بلکہ آگے کی مسافت اس خیال کے ساتھ طے کرتی ہے کہ کچھ نئے در وا ہوں گے۔ کچھ نئی رُتیں ساتھ ہوں گی تو شاعری کا چہرہ کچھ اور نکھر جائے گا۔
جاوید صدیقی کو نئی سمتوں کی تلاش رہتی ہے اور یہ سمتیں ان کے شعروں میں الگ الگ صورتوں میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔ ان کے یہاں قنوطیت میں رجائیت کی جستجو ہے اور فنائیت میں زندگی کی تلاش، سرمستیاں بھی ہیں تلخیاں بھی ہیں۔ معاشرہ کا محاسبہ بھی ہے اور اس سے مکالمہ بھی۔
رہِ وفا میں حوادث ملے بہت لیکن
قدم ہٹے نہیں پیچھے کسی سے ڈرتے ہوئے
ہمارے عزم کو ملتی ہے پختگی اس سے
وہ جب ستم کی روش اختیار کرتے ہیں
سمجھ کے حادثہ نکلا ہے تو مٹانے ہمیں
سو ہم بھی آج ترا انتظار کرتے ہیں
موت سے لگ گیا گلے جاوید
تب ملی اس کو زندگی صاحب
جاوید زندگانی کا کچھ بھی پتہ نہیں
رشتہ جڑا ہوا ہے ہر ایک کا فنا کے ساتھ
جاوید صدیقی کا موضوعاتی کینوس وسیع ہے۔ ان موضوعات میں اور بھی شاعروں کا اشتراک ہو سکتا ہے۔ مگر جاوید نے اپنا انداز جداگانہ رکھا ہے۔ ان کے اکثر شعر کسی کی صدائے بازگشت نہیں بلکہ اپنے باطن کی آواز ہیں۔
صبر آ جائے تو پھر نیند بھی آ جائے گی
درد مٹ جائے گا تو زخم بھی بھر جائیں گے
بجھ گیا اِک دن زندگی کا چراغ
آرزوؤں کا جلتا دیا رہ گیا
بجھے چراغ تو جاوید جل اٹھا خیمہ
ہوا تمام نہ قصہ مرے فسانے کا
چراغ بجھتے ہی آ جائے گا یقین اُن کو
جو زندگی کا بہت اعتبار کرتے ہیں
میں بھی رسماً سلام کرتا ہوں
دل سے وہ بھی دعا نہیں دیتے
اس سے بچھڑ کے میں بھی ادھورا ہوں مگر
مرے بغیر وہ بھی مکمل کہاں ہوا
جاوید صدیقی کو زندگی کی حقیقتوں کا عرفان و ادراک ہے اسی لئے زندگی سے جڑے ہوئے موضوعات و مسائل کو ہی شاعری کا پیکر عطا کرتا ہیں۔ اُن کی شعری آواز اُن کے دروں کی صدا ہے اور اس صدا میں سکوت کی ایک ایسی طلسماتی کیفیت ہے کہ قاری اُن کے شعر پڑھتے ہوئے خموشی سے گفتگو کرنے لگتا ہے۔ یہی خموشی ہے جس کے اندر ہزاروں آوازیں چھپی ہوئی ہیں۔ بس ان آوازوں کے در اُنہی کے لئے کھلتے ہیں جو اہل دل ہوتے ہیں۔ جاوید صدیقی کی پوری شاعری میں اُن کے دل کی شکستگی اور سرشاری کی ساری کیفیتیں نقش ہیں اور یہی کیفیتیں ان کی شاعری کا رشتہ حساس ذہنوں سے جوڑتی ہیں۔
آدتیہ پنت ناقدؔ
آدتیہ کا شعری طریقۂ کار استبعادی ہے، تضادات سے اشیاء کی حقیقت اور ماہیت کا ادراک اُن کے یہاں نمایاں ہے۔ لفظیات اور تراکیب میں بھی جدت طرازی کا عمل روشن ہے۔ نئی لسانی تشکیلات سے اُن کا شعری سرمایہ مزین ہے۔ قالینِ شفق، مخزنِ خاطر، صحبت طائر، دودِ دلِ سوزندہ، طاقِ دلِ تیرہ، تعظم، توصل، تغار غم، تصلیب، مشر بے، احتشام، رباط، خدنگ، تفنگ، الزامِ نسخ تعلق، آبِ ملوث، گلِ بوسیدہ اور اس طرح کی نئی نئی لفظیات و تراکیب ان کی شاعری میں ہیں۔ توالیِ اضافات نے ان کی شعری لفظیات کو جدت اور ندرت بھی عطا کی ہے۔ یہ ایک مخصوص لسانی رنگ و روپ کی شاعری ہے جو اُن کی جدت طرازی کا مظہر ہے۔ ان کے یہاں اردو اور بھاشا کا امتزاج بھی ہے مگر مغائرت کا احساس نہیں ہوتا۔
کچھ تو اوروں کی بھی سوچ
آخر کب تک آپم دھاپ
دھرتی چھوٹی پڑ رہی ہے اسیم ہے آکاش
کہاں دھریں یہ پاؤں ہم اَدھر میں جھول
چین کی بنسی کا گونجتا سر مدھر
چھل کپٹ ڈھونگ دھوکا دھڑی دیکھئے
آدتیہ پنت نے بھی اس اختلاط اور امتزاج کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
کیا ناقد آپ نے کیوں بھلا ملاپ یہ ہندوی اردو کا
چلو ایک بھید مٹا دیا یوں تو پُر تضاد ہے زندگی
ناقد کے شبدوں میں شکتی ہے، حرفوں میں حرارت ہے، اُن کی لفظیات یا ڈکشن تہذیب و تاریخ کا حوالہ بھی ہیں، اُن کے یہاں لفظ کی نئی معنیاتی ترتیب بھی نظر آتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ہر لفظ کا صحیح تناظر اور سیاق و سباق بھی ہے۔ اُنہوں نے اپنے اس شعری مجموعہ میں عروضی تجربے کئے ہیں خاص طور پر اُن بحور اور آہنگوں میں غزلیں کہی ہیں جن میں عام طور پر غزلیں نہیں کہی جاتی ہیں۔ ان کے بقول: ’’اس مجموعہ میں چوبیس بحور کے پینسٹھ مختلف آہنگوں میں غزلیں، نظمیں، قطعے اور فرد شامل ہیں۔ چند غزلیں، دوہا اور رباعی کے آہنگوں میں بھی ہیں۔ حالانکہ عام طور پر ان میں غزلیں نہیں کہی جاتی ہیں۔ ‘‘یہ عروضی ریاضت اُن کے لئے ایک نیا تجرباتی منطقہ ہے اور شاید انہی عروضی زنجیروں کی وجہ سے کہیں کہیں ان کی شاعری میں ترسیل و ابلاغ کا المیہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ در اصل اظہار کی پیچیدگی اور خیال کی ژولیدگی کبھی کبھی تفہیم و تعبیر کی راہ کو مشکل بنا دیتی ہے۔ عروض سے اُن کا گہرا شغف ہے۔ یہ اشعار اُسی عروضی دلچسپی کا مظہر ہیں:
فکر پہ ناقد ہے عروضی بیڑی
اپنے قلم کو نہ سمجھ خود مختار
شاعری کے حسن کو آزاد کر
ناقد اپنا بحر کی پابندیاں
ناقد آ کے پڑی بحرِ مشاکل
قافیے کے قدم کانپ رہے ہیں
ایک نئے تجربے کی ناقد کوشش جاری کب سے تھی
آخر بحر میر اٹھائی کہہ ڈالے اشعار کئی
آج کل کی شاعری بس قافیہ پیمائی ہے
بس زباں کی رو سیاہی لفظوں کی رسوائی ہے
وزن بھی ہلکا ہوا اور بحر تک ہے ناروا
معنی و مضمون کی اب رہ گئی وقعت کہاں
عروضی الجھاوے میں اکثر شعریت مجروح ہو جاتی ہے اور لطفِ تغزل بھی جاتا رہتا ہے اور کبھی کبھی بد آہنگی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر آدتیہ پنت نے شعریت کو قائم رکھا ہے، یہ بڑی بات ہے۔
آدتیہ پنت ناقد نے اپنی شاعری میں حیات و کائنات کی حقیقتوں کا ادراک کرایا ہے۔ تہذیب و تاریخ اور اساطیر سے جڑی ہوئی تلمیحات، علامات، استعارات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ ان کے یہاں قدیم تہذیبی، تاریخی، تلمیحات اور علامتوں کا بامعنی استعمال ہوا ہے۔ اس تعلق سے یہ چند اشعار ان کے اساطیری، علامتی اور تلمیحی اظہار کا خوبصورت نمونہ ہیں:
خونخواری کا دور سدا رہتا ہے کہاں
غرق ہوا فرعون بچا چنگیز نہیں
کبھی یہ برج کا ہے جمنا تٹ، کبھی بھومی ہے کرشیت کی
کبھی کرشن کی مرلی کا سور، کبھی شنکھ ناد ہے زندگی
کردار کچھ نئے پیدا کر نئے داستانِ عشق میں
آتے رہیں گے کب تلک رانجھا و قیس و کوہ کن
باوجود فتح تھا پورس کے سامنے
چور کیوں انائے سکندر کا آئینہ
دوستی کرشن سداما سی جو ہو
سوکھا چاول بھی پکا بھات لگے
انہوں نے عہدِ نو میں ان اساطیر و علامات کی ایک نئی معنویت دریافت کی ہے اور ماضی کی تاریخی و تہذیبی روایتوں سے اپنا رشتہ جوڑا ہے۔
آدتیہ پنت کی شاعری کی پہلی قرأت قاری کو اجنبیت کا احساس دلا سکتی ہے مگر دوسری قرأت ایک جہانِ دِگر سے روبرو کراتی ہے۔ کائنات کے ادراک و عرفان کا اُن کا اپنا ایک زاویۂ نظر ہے۔ اس لئے ہر شے کو اُنہوں نے صرف اور صرف اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اور اسے شعری صورت میں ڈھال دیا ہے۔ اُن کے یہاں ذات زمانہ اور زندگی کے واردات، وقوعات، تجربات، تغیرات، مشاہدات اور مطالعات کے حوالے اور اشارے بھی ہیں۔ زندگی کی فنا پذیری اور تضادات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اُن کے خوبصورت اشعار ملاحظہ فرمائیں:
پرتوِ آفتاب سے روز ہوا تمام ہے
اپنا وجود دہر میں مثلِ چراغ شام ہے
ٹھہرے ہوئے پانی سا لا موج وجود اپنا
پھر کیسے رواں ہو گا، ترغیب نہیں ملتی
اُن کی شاعری میں عصری موضوعات اور مسائل بھی ہیں جن میں آئرنی اور طنزیاتی تاثر بھی۔ اُنہوں نے آج کے مسائل کو اپنے زاویے سے دیکھا ہے اور اسے فن کا روپ دیا ہے:
ارضِ وطن کی حقداری ہے سب کو ملی
حرج نہیں گر ہاتھ میں دستاویز نہیں
تبدیل کرنا چاہتے ہیں صورتِ آئینِ ہند
لیکن لگاتے پھر رہے ہیں نعرۂ حب وطن
اَمن ہی اَمن ہو لازم تو نہیں
بس تشدد میں نہ ایزاد کریں
تاریک گپھا یا اندھا کنواں اُن تک تو رسائی محال نہیں
پر ذہن کی ظلمت تک کا سفر خورشید کرے تو کیسے کرے
آج کے تناظر میں اِن اشعار کی معنویت سبھی کی سمجھ میں بہ آسانی آ جائے گی کہ شاعر در اصل اس منفی اور مروج سیاسی ڈسکورس اور بیانیے سے برہم ہے جس کی وجہ سے کشادگیِ قلب و نظر، کشیدگیِ جسم و جاں میں تبدیل ہو گئی ہے۔
ناقد کو ایک نیا جہانِ فکر آباد کرنے کی آرزو ہے اسی لئے اُن کے یہاں اس نوع کے اشعار بھی ملتے ہیں:
ہم دوسری دنیا میں بسا لیں گے نیا گھر
آباد نہیں خانۂ ویران کریں گے
اپنی ہرگز نہیں اُڑان بدل
تو ہوا اور آسمان بدل
ان کے شعری مجموعہ کا عنوان بہت خوبصورت اور پُر کشش ہے۔ ’ادھورے حافظے‘ جو اس شعر سے ماخوذ ہے:
کئی خوابوں کے ٹکڑے سرہانے پر پڑے ہیں
تمناؤں کے گویا ادھورے حافظے ہیں
ان کی پوری شاعری کا سلسلہ کسی ادھورے حافظے سے جڑا ہوا ہے۔ در اصل زندگی میں یادداشت کی بڑی معنویت ہے۔ خاص طور پر اجتماعی حافظے سے تہذیب اور تاریخ کو زندگی ملتی ہے اور اسی سے اس کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ مگر جب حافظے ادھورے رہ جائیں تو معاشرت اور ثقافت کی روشن عبارتیں گم ہونے اور تہذیبی قدریں غائب ہونے لگتی ہیں۔ اس شاعری میں تہذیبی، ثقافتی حافظہ کی مراجعت کا عمل روشن ہے۔ کیوں کہ اگر انسانی ذہن کا اس حافظے سے رشتہ ٹوٹ جائے تو انسان بے چہرگی اور بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اُن کی شاعری میں تہذیبی اور معاشرتی اقدار کی گمشدگی کا نوحہ اور فرد معاشرے کی رویہ جاتی منفیت کا بھی بیان ہے:
شہر دل کی وسعتیں اس طرح سمٹ گئیں
ہر گلی حصار میں کوچہ کوچہ تنگ ہے
کہاں ہیں زندگی کے نظم و انضباط کہاں
بکھر بکھر سے گئے ربط و اختلاط تمام
صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے
وفاداری کی کچھ قیمت نہیں ہے
آدتیہ پنت کی شاعری میں عصری حسیت بھی ہے۔ انسانی زندگی سے جڑے ہوئے بیشتر مسائل ان کی شاعری کا حصہ بنے ہیں۔ خاص طور پر آج کا تعفن زدہ غلیظ ماحول اور ماحولیاتی آلودگی بھی ان کا ایک خاص موضوع عنصر ہے۔ اس حوالہ سے ان کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
بدستِ خلق خدا زمیں ذلیل ہوئی
شجر حجر کا کہیں اتا پتا بھی نہیں
خوب توڑے ہیں قواعدِ قدرتی
ٹوٹیں گی اب قہر کی پابندیاں
آدتیہ پنت نے عمومی اظہارات میں بھی اختصاصی اور انفرادی راہ اختیار کی ہے۔ اُن کے شعر پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے بھی کسی شعر میں یہ خیال باندھا گیا ہو گا مگر اُن کا طرز بیان بالکل الگ ہوتا ہے۔ طرز بیان کی یہی انفرادیت آدتیہ پنت ناقد کو بھیڑ کا حصہ بنانے سے بچائے رکھتی ہے۔ وہ عمومی جذبات و احساسات میں بھی اپنے تشخصاتی زاویے کو شامل رکھتے ہیں۔ وہ ایک نئی نئی سی رہ گزر کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اُن پر عمومیت کا الزام نہ آئے۔ آدتیہ پنت کی یہی شعری ریاضت اور نئی راہوں کی جستجو ان کی تخلیقی شناخت کا ایک روشن حوالہ بنے گی۔
’ادھورے حافظے‘ میں جمالیاتی اور لسانی تجربے کی ایک نئی دنیا آباد نظر آتی ہے۔
راکیش دلبر
آدمی کی طرح شاعری کے بھی کئی چہرے ہوتے ہیں۔ ہر چہرے پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ کچھ ہی چہرے ایسے ہوتے ہیں جس کے تیکھے نین نقش اور دلآویز خطوط پر آنکھ ٹھہر سی جاتی ہے اور ذہن میں بہت سے زاویے بنتے جاتے ہیں۔ ایسے چہرے ہمیشہ کے لئے ذہنوں میں نقش ہو جاتے ہیں۔ یہ مادی اور روحانی دونوں طرح کے چہرے ہو سکتے ہیں۔ روحانی چہرے کی شناخت زیادہ مشکل ہوتی ہے کہ در اصل روحانیت کا تعلق باطن سے ہوتا ہے۔ تخلیق بھی بنیادی طو رپر ایک روحانی اور مابعدالطبیعاتی عمل ہے۔ اس لئے تخلیقی نگارخانہ میں جو چہرے ہوتے ہیں ان میں ہر چہرہ نہ آنکھوں کو بھاتا ہے اور نہ ہی ذہن و دل کو سرور بخشتا ہے۔ وہ چہرے تو قدرت نے الگ سے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جو پہلی نظر میں ہی اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ ایسے کچھ جاذبِ نظر چہرے شعر و ادب میں بھی ملتے ہیں۔ ان چہروں پر چاہے کتنی خزائیں اُتر چکی ہوں مگر ہر عہد میں ایسے چہروں پر بہار رہتی ہے۔ ماضی میں بہت سے پُر بہار شعری چہرے رہے ہیں اور موجودہ شعری منظر نامے میں بھی کچھ ایسے چہرے نگاہ میں آ جاتے ہیں۔ انہی میں ایک تازہ چہرہ راکیش دلبر کا بھی ہے۔ شاعری کا یہ وہ چہرہ ہے جس نے پہلی نگاہ ہی میں دل کو موہ لیا اور جب اس چہرے کے تخلیقی، فکری زاویے نگاہ میں روشن ہوئے تو حیرتوں کے در وا ہوتے گئے۔
پہلی نظر میں یہ سیاہ رات میں مہتاب ڈھونڈھنے والا، روشنی کے شجر اُگانے والا اور محبت کے استعاروں والا شاعر نظر آیا۔ اُن کے لفظ دیکھے بھالے سنے سنائے لگے۔ مگر اظہار کی جدت اور احساس کی ندرت الگ ہونے کا احساس بھی دلاتی رہی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا ہو۔ کوئی نئی نئی سی رہگزر ہو۔
شاعری میں احساس و اظہار کی عمومیت سے گریز آسان نہیں ہوتا اس کے لئے بڑی ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ بڑے بڑے شعراء کے یہاں عمومیت، تکرار اور اعادہ کی کیفیت ملتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے ان خیالات، تصورات سے انسانی ذہن کا پرانہ رشتہ رہا ہو۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عمومیت میں بھی انفرادیت کی راہ نکال لیتے ہیں اور اس راستے سے بچ نکلتے ہیں جو عام ہو جائے۔ راکیش کے یہاں بھی بہت سی جگہوں پر عمومیت سے انحراف اور گریز نظر آتا ہے۔ اسی لئے ان کی شاعری انبوہ میں بھی ایک الگ سرشاری اور سکر کا احساس دلاتی ہے۔ اپنے شعری متون میں یہ ایک ایسے شاعر کے طور پر ابھرتے ہیں جن کی تشنگی سے دریا اور خاموشی سے شور ہار جاتا ہے۔
لبوں پہ تھی کوئی وحشت، کہ پیاس تھی، کیا تھا
ہر ایک دریا مری تشنگی سے ہار گیا
ہر اِک صدا پہ اثر کر گیا طلسم سکوت
ہر ایک شور مری خامشی سے ہارگیا
دریا اور شور کی یہ شکست بہت معنی خیز ہے اور یہ جذبات اور کیفیات کے بہت سے دروازے کھولتی ہے۔ تشنگی اور خاموشی کے نئے مفاہیم سامنے آتے ہیں۔ در اصل شاعری اسی تشنگی اور خاموشی کا نام ہے۔ کیوں کہ خموشی ایک قوت ہے۔ اسی سے کائنات کی تخلیق و تشکیل عمل میں آئی ہے اور اسی خموشی سے الفاظ و افکار نمو پذیر ہوئے ہیں۔ اظہار، انکشاف اور انفجار کی ساری قوت خموشی ہی میں پوشیدہ ہے۔ راکیش دلبر کے احساس اور الفاظ کا خموشی سے گہرا رشتہ ہے کہ اسی خموشی سے ان کے صوت و صدا کے سارے سلسلے جڑے ہوئے ہیں۔ اور تشنگی اس اضطراب کا اظہار ہے جو انسانی وجود میں تحرک کی کیفیت پیدا کرتا رہتا ہے۔ تشنگی ختم ہو جائے تو انسان جمود و اضمحلال کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ یہی تشنگی اسے نئی نئی منزلیں تلاش کرنے کے لئے مہمیز کرتی ہے۔ اگر یہ تشنگی اور خاموشی ختم ہو جائے تو شاعری بے کیف ہو جاتی ہے۔
راکیش دلبر کی شاعری میں الگ الگ زمانوں کی صحبیں، شامیں اور عصری تجربات و مشاہدات کے روزنامچے ہیں۔ اس شاعری کی صبح میں ایک سرمئی شام ہے اور شام کے شفق میں صبح کی تازگی بھی۔ ان کی صبح شام کی داستان لکھتی ہے اور شاعری کی شام صبح کی حکایت تحریر کرتی ہے۔ صبح و شام کا یہ ہجر و وصال ایک نیا خیال لوحِ شاعری پر نقش کرتا ہے۔ راکیش کے یہاں ہجر و وصال ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اسی طرح تاریکی اور روشنی کا بھی ایک گہرا رشتہ ہے۔ اُن کے شہرِ تمنا کا دشتِ جنوں سے بھی تعلق ہے۔ دشت و شہر کا یہ وصال اُن کی طلسمی خیال کا ایک جمال ہے:
نواحِ شہرِ تمنا میں اب اندھیرا ہے
کوئی چراغ درِ اشتیاق میں رکھ دے
نواحِ دشتِ جنوں میں اُداس سارے لگے
درخت جتنے ملے سب خزاں کے مارے لگے
اُن کی شاعری میں شام و سحر کی ساری کیفیتیں ہیں۔ اس شاعری کی قرآت کسی بھی پہر میں کی جائے ایک نئی تازگی کا احساس دلاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پوری شاعری پدمنی پہر میں لکھی گئی ہو اور اس میں رات کی آخری ساعتوں کی سرگوشیاں بھی شامل ہوں اور وہ تنہائیاں بھی جن سے خیال کی انجمن آباد رہتی ہے۔
راکیش کا لہجہ بالکل نیا نیا سا لگتا ہے۔ اس میں کہیں غربت، غرابت نظر نہیں آتی۔ ان کی شاعری سے گزرئیے تو تجربات اور مشاہدات کی ایک وسیع ترین دنیا روبرو ہوتی ہے۔ شعر کی تہوں میں اُترنے سے احساسات کے کئی جہاں روشن ہوتے ہیں اور ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ قاری اُس میں کھو سا جاتا ہے اور قاری ان شعروں کی گہرائیوں میں اتر کر افکار و تصورات کے نئے جزیرے تلاش کر سکتا ہے اور خیالات کی ایک نئی دنیا ذہن میں بسا سکتا ہے۔ اُن کے یہاں ادراکِ حقیقت کو اظہار کی ندرت ایک نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔ اُن کی شاعری میں خیالوں کا ایک نیا شہر آباد ہوتا نظر آتا ہے۔ راکیش دلبر کے ان چند اشعار میں کیسی کیسی کیفیتیں خلق کی گئی ہیں ملاحظہ کیجئے:
اُگیں گے دیکھنا اِک روز روشنی کے شجر
یہاں زمین میں ہم نے دیئے لگائے ہیں
ہمارے تکئے پہ کل نیند سر پٹکتی رہی
ہماری آنکھ تھی اک ایسا خواب پہنے ہوئے
یہ کیا ہوا کہ اُگ آئے عذاب کھیتوں میں
یہاں کسان نے بوئے تھے خواب کھیتوں میں
اِک شعر رات ذہن کے کاغذ پہ نیند میں
ہونے سے رہ گیا تھا مگر بعد میں ہوا
جگنو، چراغ چاند نہ تارا کوئی یہاں
دیوار شب سیاہ میں در کون دے گیا
سورج کو احساس دلایا جا سکتا ہے
جگنو سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے
اس طرح کے مصرعے گہری مراقباتی کیفیت میں ہی وجود میں آ سکتے ہیں اور یہی مصرعے کسی بھی شاعر کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ وامق جونپوری نے بہت اچھا شعر کہا ہے:
کیا ضروری ہے کہ دیوان پر دیوان لکھوں
ایک شعر ایسا کہو زندۂ جاوید رہو
شاعری جس طرح کی ریاضت مانگتی ہے راکیش کے یہاں ریاضت کی وہ ساری راہیں اور منزلیں روشن ہیں۔ اُن کا تخلیقی سفر تابناک ہے۔ کہیں بھی فکری اور اظہاری سطح پر تھکن کا احساس نہیں ملتا۔ وہ تازہ دم ہیں اور شاعری کی نئی نئی راہوں کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی جستجو کا یہ سفر نہ جانے اُنہیں خیالوں کے کن سمندروں، پہاڑوں، آبشاروں، صحراؤں تک لے جائے گا۔ انہوں نے خیالوں کی ایک الگ دنیا بسائی ہوئی ہے جس میں اُن کی خلوتیں بھی ہیں، جلوتیں بھی۔ مگر اُن کے خیال کے خلوت کدے میں کوئی اور شامل نہیں ہے۔ اُنہوں نے خود کو بازگشت بننے سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر کہیں کہیں قدیم رنگ و آہنگ کا انش بھی شامل ہے کہ یہ اُس سے مفر نہیں۔ کائنات میں کوئی بھی خیال نیا نہیں ہوتا۔ ہر خیال کا رشتہ ازل سے ہے۔ لوحِ ازل پر سارے مضامین پہلے سے مرقوم ہیں۔ سارا مسئلہ خیالات کی باز تعمیر کا ہے اور اُسلوب بیاں کا ہے۔ راکیش دلبر کا جن تصورات اور لفظیات سے رشتہ ہے وہ حیات و کائنات کی بہت سی حقیقتوں کا ادراک کراتے ہیں۔ اُن کے یہاں خواب، چراغ، عشق، شجر، پھول، مٹی، سورج، جگنو جیسے الفاظ ہیں جن میں رموز و علائم کی ایک دنیا آباد ہے۔ یہ وہ کثیر الابعاد الفاظ ہیں جن کے مفاہیم عصری سیاق و سباق کی تبدیلی سے بدلتے رہتے ہیں۔ ہر عہد میں جن کے نئے معنی تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ راکیش دلبر اپنی شاعری میں مانوس، نامانوس اور اجنبی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں کیفیت ہے اور اس کیفیت ہی کی اہمیت ہے جس نے میر کی شعروں کو معراج عطا کیا۔ جو تجربات اور ادراکات اُن کے احساسات کا حصہ بنے ہیں اُنہی کو انہوں نے شعری کولاژ اور اسمبلاژ کی صورت میں پیش کیا ہے۔
میں جس کے واسطے کبھی تریاق تھا یہاں
اس شخص نے ہی زہر کا پیالہ دیا مجھے
جن کے پرکھوں کی کٹی عمر سیاہ کاری میں
اب وہی لوگ مرا نام و نسب دیکھتے ہیں
شجر لگائے تھے جن راستوں میں ہم نے کبھی
مسافرت میں وہی راستے محال ہوئے
یہ مشاہدے اور تجربے کا ایک رنگ ہے جس میں قدروں کے زوال کا نوحہ ہے اور معاشرتی بے چہرگی کا منظرنامہ بھی۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے تجربات و حوادث ہیں جنہیں انہوں نے شعری صورت عطا کی ہے۔ حیات و کائنات کی حقیقتوں سے اُن کی آنکھوں کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے بھی آگہی ہے۔ زندگی کے ہر رنگ کو اُنہوں نے دیکھا ہے مگر تخلیقی سطح پر اُن کے لئے بڑی مشکل یوں آن پڑی ہے جس کا اظہار یوں کیا گیا ہے:
زندگی تجھ کو میں اشعار میں ڈھالوں کیسے
قافیہ تو نے بہت تنگ بنا رکھا ہے
راکیش دلبر نے اپنی شاعری میں دلبری کے انداز بھی دکھائے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس طرح کے شعر وجود میں آئے ہیں:
ہمیں تو عشق کے آداب مت سکھا دلبر
اسی خرابے میں اپنے سفید بال ہوئے
میں شاعری فقط عشق لکھتا تھا دلبر
مری غزل میں محبت کے استعارے لگے
کوزہ گر کون سی مٹی سے بنایا مجھ کو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آیا مجھ کو
دلبر نے بار بار اجاڑا ہے لوٹ کر
آباد اپنے دل کا نگر بعد میں ہوا
بچھڑ گیا اسی سلابِ عشق میں دلبر
اب اس کی موج تہہ آب ڈھونڈھتے رہنا
پرچمِ عشق تو لہرا گیا ایسے دلبر
اب کسی کو بھی نہ فرہاد کہے گی دنیا
اُس کا بدن خوشبو کا تھا نام پہ اس کے
صندل کا اِک پیڑ لگایا جا سکتا ہے
ہماری آنکھ سے اب حسنِ ظن نکل گیا ہے
حصارِ خواب سے وہ گُل بدن نکل گیا ہے
ہم خانقاہِ عشق کے پہلے مرید ہیں
مجنوں کا تو اِدھر سے گزر بعد میں ہوا
رقص میں ہے جو محبت مری شریانوں میں
یہ اجل سے ہی مری ذات میں لائی گئی ہے
عشق کی کیفیات اور تلازمات کا نہایت ہی خوبصورت بیانیہ ہے۔ راکیش نے زندگی سے جڑے ہوئے اور بھی موضوعات پر اچھے شعر کہے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس اپنے تجربات اور مشاہدات کے اظہار و ابلاغ کا خوبصورت سلیقہ ہے۔ اُنہوں نے بہت قرینے سے اپنی شاعری کی زمین میں ایسے تخلیقی دئیے لگائے ہیں جو صدیوں جلتے رہیں گے۔ راکیش دلبر نے اپنی شاعری کے ذریعے احساس کی ایک نئی دنیا تعمیر کی ہے۔ اس میں ہر ایک اینٹ ان کے نام کی ہے۔
احمد معراج
احمد معراج کا تعلق جس جدید تر نسل سے ہے اسے ورثے میں جو کلاسیکی شعری کائنات ملی ہے اس کا کینوس بہت وسیع ہے اس کے بعد کئی اور شعری کائناتیں وجود میں آئیں جن میں بہت سے نئے رنگ شامل ہوئے آج کے عہد میں جدید تر نسل کو گلوبلائزیشن نے ایک اور کائنات سے روبرو کرایا ہے جس نے اس قلزم کائنات کو قطرے میں بدل دیا ہے جس کی وجہ سے اب دنیا ایک مٹھی میں سمٹ آئی ہے۔ یہ ایک طرح سے ورچوئل کائنات ہے جس نے ہر فرد کو ایک جامِ جہاں نما عطا کر دیا ہے۔ اسی لیے عالمی احوال و حوادث کی سطح پر پہلے کے مقابلے میں زیادہ بیداری محسوس کی جا سکتی ہے۔ اور اس بیداری نے احساس و اظہار کی رو اور رویے کو بھی بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ آج کی نسل کو جہاں کلاسیکیت سے تخیل کی ثروت ملی ہے وہیں گلوبلائزیشن سے مشاہداتی قوت حاصل ہوئی ہے۔ آج کی شاعری کا ایک بڑا حصہ بیان کنندہ یا راوی کے بیان پر نہیں بلکہ براہ راست مشاہدے پر مرکوز ہے اور یہی مشاہدہ جب تخلیقی تجربے میں تبدیل ہوتا ہے تو اس کی نوعیت اور کیفیت الگ ہوتی ہے۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے موضوعاتی سطح پر بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں اور ان تبدیلیوں کا عکس آج کی جدید تر شاعری میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
احمد معراج کی شاعری بھی نئی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ مگر کلاسیکی افکار و اظہار سے بھی حسیاتی انسلاک اور اسلوبیاتی ارتباط ہے بھی قائم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عصری میلانات و رجحانات سے بھی ربط ہے۔ اب یہ پتہ کرنا شاید آسان نہیں کہ کلاسیکیت اور عصریت میں مشابہت اور مغائرت کا تناسب کیا ہے؟ ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ احمد معراج نے کلاسیکیت سے انحراف یا انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی باغیانہ رشتہ ہے بلکہ کلاسیکی شعریات سے استفادہ کرتے ہوئے جدید حسیت اور عصریت سے اپنی شاعری کو ہم آہنگ رکھا ہے اور خیال کی نئی جہتیں اور نئے زاوئے تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی شاعری کا مرکزی حوالہ وہی کلاسیکی رموز و علائم، لفظیات، استعارے اور تراکیب ہیں۔ انھوں نے ان لفظیات و علائم کو نئے افکار و معانی سے ہم رنگ کیا ہے۔ اس طور پر احمد معراج کی شاعری روایت اور عصری حسیت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی شاعری محض پرانی آوازوں کی توسیع و تجدید نہیں بلکہ اس میں احساس و اظہار کی نئی سمتیں بھی ہیں۔ شاعری کے بارے میں خود احمد معراج کا جو خیال یا تصور ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں کون سی رو زیادہ روشن ہے:
پرانے قصے سناتے ہو تم سناؤ مگر
نیا نیا سا ہو طرز بیاں ضروری ہے
در اصل احمد معراج بھی کلاسیکی افکار و اقدار کے ساتھ جدید طرز اظہار کو لازمی تصور کرتے ہیں کہ آج کا ابلاغی اور ترسیلی طریق کار بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ غیر روایتی ابلاغی اسلوب سے ہی خیال میں قوت اور تاثیر پیدا ہو سکتی ہے۔ جدید ترین بصری اور تکنیکی ذرائع نے بھی نئے طرز کو خلق کیا ہے۔ اب جدید ترین شاعری میں visualsکے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں کیوں کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے تمام واقعات و واردات کو اب با آسانی انٹر نیٹ، یوٹیوب یا دیگر ذرائع سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان واردات کا تخلیقی ذہنوں پر جو اثر مرتب ہوتا ہے اسے شاعری کے قالب میں ڈھالنا یقیناً آسان عمل نہیں ہے شاعر ان واردات کو اپنے اندرون میں جذب کرتا ہے پھر اسے کوئی اظہاری پیکر عطا کرتا ہے۔ احمد معراج کی شاعری میں بھی بہت سے سماجی، سیاسی وقوعات و واردات ہیں۔ آج کے حالات سے جڑے ہوئے موضوعات کا ایک شعری منظر نامہ بہت ہی فن کاری کے ساتھ انھوں نے ترتیب دیا ہے۔ جبر و استحصال، منافرت، خوں ریزی، مذہبی احیا پرستی، ذات پات کی کشمکش، عدم رواداری اور تعصب اور وہ سارے بیانیے جو سیاست اور سماج کی سطح پر تشکیل دیے جا رہے ہیں وہ ان کی شاعری کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
احمد معراج کی شاعری حادثات حیات، زندگی کے تضادات و تموجات، انتشار و آویزش کی تعبیر بھی ہے اور عصری کرب و کشمکش کا بیانیہ بھی۔ ان کی شاعری کا روح اور روحانیت، عشق اور رومانیت سے بھی گہرا رشتہ ہے۔ اس میں تزکیہ نفس، تطہیر باطن کے ساتھ ساتھ، جمالیاتی اور جذباتی تسکین کا عنصر بھی ہے۔ ایک ہی کیفیت پر احمد معراج کی شاعری مرکوز یا منحصر نہیں بلکہ مختلف کیفیات ہیں جن سے ہر فرد یا معاشرے کو گزرنا پڑتا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھیے جن سے زندگی کے الگ الگ رنگوں کے ساتھ شاعر کی الگ الگ ذہنی کیفیات کا بھی اندازہ ہو گا:
دامن وفا کا اس نے کشادہ نہیں کیا
ہم نے بھی اس کو پیار زیادہ نہیں کیا
ہماری ذات فقیری میں مست رہتی ہے
خیال لعل و گہر کی طرف نہیں جاتا
ان چراغوں کو جلانے سے بھلا کیا حاصل
جن چراغوں سے اُجالا نہیں ہونے والا
ہجر کی رات اس سے بہتر ہے
وصل جو صدمۂ جدائی دے
عجیب کشمکش زیست سے گزرنا پڑا
ذرا سی جینے کی چاہت میں روز مرنا پرا
پہلے بیمار ہم کو کیا
پھر دوا دے کے مارا گیا
زیر آب ہے زندہ کوئی
کوئی مر گیا پانی میں
احمد معراج نے طنز و تلمیح میں بھی اپنی خلاقانہ ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
عزا داری فقط ایک رسم بن کر رہ گئی ہے
کسی کی موت پر کسے بھلا فرصت ہے ماتم کی
خوش لباسی پر ناز کرتا ہے
بے لباسی میں جس کی عمر کٹی
ایسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں
جن کی گردن پر اپنا سر ہی نہیں
جب ہم کو شیخ تنگ نظر نے دعا نہ دی
آشیر واد لے کے چلے برہمن سے ہم
وہ اکیلا ہی نکلتا تو کوئی بات نہ تھی
ساتھ آدم کو لیے خلد سے شیطاں نکلا
نئی تہذیب کی دیکھی یہ عجب عریانی
خوش لباسی میں بدن حسن کا عریاں نکلا
راہ میں بھی کچھ چراغ ان کو جلانا چاہیے
لوگ کیوں دیر و حرم میں جلاتے ہیں چراغ
آگ پانی میں لگانا چاہتے ہیں کیا وہ لوگ
جو جلا کر موج دریا میں بہاتے ہیں چراغ
پھوس کے گھر کا اندھیرا کیوں دور کرتے نہیں
روشنی اونچے محل میں جو لٹاتے ہیں چراغ
احمد معراج کی کچھ پسندیدہ لفظیات بھی ہیں۔ جن سے ان کی ذہنی اور جذباتی سمتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ خواب، یاد، تنہائی، اشک، غم، زندگی اور چراغ ان کے مخصوص الفاظ ہیں۔ اس حوالے سے بھی چند اشعار:
تمہاری یاد بھی آئی تو اس طرح آئی
کہ آنسو آ گئے بے اختیار آنکھوں میں
اب اور ان میں کوئی خواب بس نہیں سکتا
بسا ہوا ہے تمہارا دیار آنکھوں میں
دیکھتا ہے خواب وہ معراج آنکھوں سے مری
اور اس کے خواب کی تعبیر بن جاتا ہوں میں
میں اسے ڈھونڈنے نکلوں تو کدھر جاؤں گا
خواب آوارہ کی صورت میں بکھر جاؤں کا
جب بھی روتا ہوں اکیلے میں سکوں پاتا ہوں
میرا غم بانٹنے والی میری تنہائی ہے
محفل ناز میں تم اپنے مجھے رہنے دو
دشت تنہائی میں بھٹکوں گا تو مر جاؤں گا
ہے بعد موت شدت غم من و عن ہنوز
دل مبتلائے کرب ہے زیر کفن ہنوز
مارے گئے حیات کے ہاتھوں جو بد نصیب
ان کو لحد کی گود میں آرام مل گیا
دیکھنے میں کل جو تھی گلعذار زندگی
چبھ رہی ہے کیوں آج مثل خار زندگی
احمد معراج نے شعری صنعتوں کا بھی بہت فن کارانہ استعمال کیا ہے۔ تکرار یا تکریر اصوات سے بھی ایک کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے:
چاہے منزل ملے، ملے نہ ملے
مجھ کو چلنا ہے چل رہا ہوں میں
احمد معراج کا تصوف سے بھی گہرا رشتہ ہے۔ اس لیے معرفت حیات و کائنات میں متصوفانہ زاویہ بھی نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت حیات کی جستجو اور معرفت ذات کا ایک سفر ہے۔ اس لیے ان کے یہاں زندگی کا جو تصور ہے وہ بہت کچھ صوفیوں سے ملتا جلتا ہے:
بعد قضا بھی عشق نے دکھلایا معجزہ
زیر لحد چمکتا ہے میرا کفن ہنوز
ہے غازۂ جبینِ نیاز اب لحد کی خاک
کمخواب کی طرح ہے لباس کفن ہنوز
تیرے نزدیک فرد واحد ہے
ہم جسے گل جہاں سمجھتے ہیں
ہے وہ لا انتہا خلائے بسیط
ہم جسے آسماں سمجھتے ہیں
پھول کی مانند کھل اٹھتا ہوں رہ کر چھاؤں میں
دھوپ میں جلتا ہوں تو اکسیر بن جاتا ہوں میں
سانس لیتا ہے سمندر کا تلاطم مجھ میں
میں غریق تہہ دریا نہیں ہونے والا
مجھ کو خالق نے بنایا ہے اجالوں کا نقیب
میں اسیر شب یلدا نہیں ہونے والا
احمد معراج کی شاعری نظریاتی مشروطیت اور جبر سے آزاد ہے۔ ان کی شاعری میں متوجہ اور متاثر کرنے کی پوری قوت ہے۔ ان کے یہاں شور نہیں شعریت ہے اور یہی چیز ان کی شاعری کو ایک سکر اور سرشاری سے ہمکنار کرتی ہے۔ انھیں فکر و خیال کی ایک نئی فضا، احساس و اظہار کا نیا موسم نصیب ہے۔ ان کا پاؤں اگلے پانی میں ہے جس میں موجوں کی روانی ہے اور امکانات کی جلوہ سامانی ہے۔ ابھی ان کا یہ پہلا شعری پڑاؤ ہے۔ کئی اور منزلیں اور مقامات ان کی منتظر ہیں۔ میری دعا ہے کہ احمد معراج کی تخلیقی اڑان کو نیا آسمان اور ان کے سخن سفر کو معراج نصیب ہو۔
اختر اعظمی
شاعری در اصل ایک کیمیائی قوت ہے جو اظہار و احساس اور جذبہ و خیال کی تعبیر و تاثیر بدل دیتی ہے، جس طرح نسخۂ کیمیا سے کیفیتیں بدل جاتی ہیں، اسی طرح شاعری بھی قلبی کیفیات کو تبدیل کر دیتی ہے۔ شاعری اور کیمیا کا ایک بہت ہی خوبصورت رشتہ ہے، جس طرح کیمیا مالیکیول پر مرکوز ہے اسی طرح شاعری انسانی دل پر مرتکز ہے، دونوں میں ایک ارتباطی کیفیت ہے۔ سائنس اور جمالیات کا یہی وہ تعلق ہے جس کی وجہ سے شاعری کی تجربہ گاہ اور سائنس کی لیباریٹری میں بہت حد تک ہم آہنگی ملتی ہے۔
جذبہ و احساس کے مرکب یعنی شاعری سے اختر اعظمی کی اچھی کیمسٹری ہے۔ وہ شاعری کے تمام رموز و اسرار سے واقف ہی نہیں بلکہ اس کی اداؤں سے بھی آشنا ہیں۔ شاعری ان کی رگوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے اور لفظ اُن کے ذہنی اُفق پر آفتاب و ماہتاب کی طرح طلوع ہوتے ہیں، ان لفظوں کو وہ خوبصورت پیکر عطا کر کے شاعری میں ڈھالتے ہیں اور ان شبدوں کی صورت اتنی حسین ہوتی ہے کہ اپنی طرف کھینچنے لگتی ہے۔ ظ۔ انصاری کو انٹرویو دیتے ہوئے انگریزی کے پروفیسر اور اردو کے ممتاز شاعر فراقؔ گورکھپوری نے اپنی شاعری میں رمزیت، استعجاب اور خواب ناکی کی بات کہی تھی اور مظاہر فطرت سے اپنی شاعری کی قربت کا اشارہ دیا تھا، نئی نسل کے تازہ کار شاعر اختر اعظمی کی شاعری میں بھی خواب ناکی اور استعجاب کی کچھ ایسی ہی کیفیت ملتی ہے۔ اختر کی شاعری چھوٹی چھوٹی سانسوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ گہری سانس کی شاعری ہے۔ اس شاعری میں وژن بھی ہے، عرفان بھی ہے، حیات و کائنات کے تجربات و تغیرات کی داستان بھی ہے اور کہیں کہیں سیلف ریفلکشن بھی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں جن موضوعات کو برتا ہے وہ بیشتر شاعروں کے موضوعات سے مماثل ہیں، مگر انہوں نے اپنے انداز اور آہنگ سے ان موضوعات میں کئی نئی راہیں تلاش کر لی ہیں اور یہی تلاش انہیں بھیڑ میں ایک الگ پہچان عطا کرتی ہے۔ انہوں نے کلاسیکی یا جدید شاعری سے صرف تشبیہات اور استعارات اخذ نہیں کیے ہیں بلکہ اپنے طور پر تراشے بھی ہیں، اس لیے ان کے خیال میں ایک طرح کی ندرت اور جودت دکھائی دیتی ہے۔ ان کا ایک تشبیہی شعر ہے۔
تری زلفوں کے سائے میں جو یہ آنکھوں کا منظر ہے
کہ جیسے رات کی آغوش میں گہرا سمندر ہے
اختر اعظمی کے یہاں بہت سے ایسے شعر ہیں جن میں حیرتوں کے دروا ہوتے نظر آتے ہیں اور انسان ایک نئے جہان میں کھو سا جاتا ہے۔
جہانِ ریگ ترا آب دیکھنے کے لیے
ملی ہے آنکھ مجھے خواب دیکھنے کے لیے
یہ کیا ستم ہے کہ صحرا بھی دیکھنا ہو گا
ذرا سی گھاس کو شاداب دیکھنے کے لیے
یہ کیسا اُجالا ہے اندھیروں سے دبا ہے
روشن تو تری زلف ہے رخسار نہیں ہے
اخترؔ یہ شب غم بھی مگر جائے کدھر کو
اب میرے علاوہ تو کوئی در بھی نہیں ہے
اس طرح کے بہت سے اشعار ہیں جو ایک نئے شاعر کی تازہ کاری کے ثبوت کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اخترؔ اعظمی کے ہاتھوں میں اپنے چراغ ہیں، اپنی روشنی ہے، اپنی نظر ہے، اپنا نظریہ ہے، وہ اپنا راستہ آپ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ اگر اپنی پہچان بنانی ہے تو اپنا جداگانہ رنگ پیدا کرنا ہو گا اور انہوں نے واقعی اپنا ایک الگ انداز اختیار کیا۔
پھینک کر سارے خواب پانی میں
دیکھتا ہوں سراب پانی میں
شام کو لے کے تیرے لب کی شفق
آ گیا آفتاب پانی میں
ہم عشق والے فلسطین ہو گئے اخترؔ
ہمارا کون ہے ہمدرد اس زمانے میں
اختر اعظمی نے اس صارفی معاشرے کو بھی انہیں آنکھوں سے دیکھا ہے جہاں متاع ہنر کی کوئی قیمت نہیں، اور مادیت ہی افضلیت کا معیار ہے، ان کی شاعری میں جہاں صحرا ہے، شہر ہے، وہیں وہ بازار بھی ہے جو انسانی قدروں کو ڈس رہا ہے، یہ بازار واد کا وہ بھیانک روپ ہے جس نے انسانوں سے ساری تہذیبی قدریں چھین لی ہیں، یہ اشعار دیکھئے۔
شہروں میں بڑے قاتل و جلاد ملیں گے
صحرا میں چلو شیریں و فرہاد ملیں گے
دل میں کچھ ہے ہی نہیں حسن کی باتیں نہ کرو
جیب خالی ہو تو بازار سے ڈر لگتا ہے
جب بھی بازار گیا خوب لٹا کر آیا
میری دولت تو گئی میری شرافت بھی گئی
بازار کا ایک نیا تصور ہے جہاں انسان بھی ایک متاع کوچۂ بازار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ آج کی صارفی معاشرت کی ایک سفاک حقیقت ہے جسے اخترؔ اعظمی نے شعری پیکر میں ڈھالا ہے، مجھے نہیں معلوم اخترؔ اعظمی کی شاعری کے مرکزی محرکات کیا ہیں اور یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کی شاعری کا سبب کیا ہے، مگر ان کے شعروں سے ان کے شعری محرکات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ در اصل شاعری ان کے لیے بھی کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے۔ انہوں نے بھی شکستگی، محزونی اور محرومی کا منظر دیکھا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں وہ سارے مناظر قید ہو گئے ہیں، اس میں ان کی شکست آرزو بھی ہے اور اقدار کی شکست و ریخت بھی، ان کی شاعری میں اپنی ذات کا غم بھی ہے اور جہاں کا درد بھی، یعنی ان کی ذات کائناتی واردات اور واقعات سے ہم رشتہ ہے اور یہی ہم رشتگی ان کی شاعری کے موضوعاتی کینوس کو وسیع سے وسیع تر کرتی ہے، ان کی شخصیت اور شاعری میں اثبات و نفی اور اقرار و انکار کی کش مکش بھی ہے۔
یہ وہ یقیں ہے جو الجھے یقیں سے نکلا ہے
ہماری ہاں کا یہ دھاگا ’نہیں‘ سے نکلا ہے
اخترؔ اعظمی کے یہاں غم و نشاط کی وحدت بھی ہے، اس لیے جہاں ان کی شاعری میں نشاطی کیفیات ہیں، وہیں حزنیہ احساسات بھی ہیں۔ در اصل یہ دونوں انسانی زندگی کے جزو لاینفک ہیں، کبھی خوشی، کبھی غم، لمحے اور ماحول بدلتے رہتے ہیں تو دل کی کیفیات بھی بدلتی رہتی ہیں اور یہ شاعری بھی ایسی ہی تبدیل ہوتی کیفیتوں کا آئینہ ہے۔
اختر اعظمی کی شاعری میں شورش دوراں بھی ہے اورغم جاناں بھی، جہاں اُن کی شاعری میں شب و روز کے تجربات، زندگی کی اداسیوں، محرومیوں، تناؤ کا بیان ہے، سماجی حقیقت پسندی ہے، سوشل ازم ہے، وہیں رومانٹک آئیڈیلزم بھی ہے، مگر ان کی محبت، صرف ایک فرد سے یا ذات سے مشروط یا مربوط نہیں ہے، بلکہ ملک اور معاشرے سے بھی ان کی محبت کا سلسلہ جڑا ہوا ہے، جہاں وہ اس طرح کے شعر کہتے ہیں:
عشق میں اپنا گھر جلا ڈالا
یہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے
وہیں اس طرح کا شعر بھی کہتے ہیں:
کوئی دیوار نفرت کی گرے نفرت سے نا ممکن
محبت سے تو اک کو ہِ گراں مسمار کر لیتا
ان کے یہاں محبت کا ایک تصور اور بھی ہے:
نہیں نہیں وہ ہی گلستان چاہئے
مجھ کو میرا والا ہندوستان چاہئے
جس میں رادھا کانہا کی محبت کا تھا پھول
جس میں تھی تلوار نہ کوئی خنجر نہ ترشول
جس میں رکھے تھے کچھ بھائی چارے کے گلاب
جس میں اتنی ساری نفرتوں کی تھی نہ دھول
پیارا پیارا وہ ہی گل دان چاہئے
مجھ کو میرا والا ہندوستان چاہئے
اخترؔ کے یہاں محبت کا ایک وسیع تر تصور ہے۔ ان کی شاعری سماج کے مشاہدات اور تجربات کا تخلیقی رد عمل اور انسانی نفسیات، جذبات کا ایک دریچہ ہے۔ ان کے یہاں ادراک و اظہار کے نئے انداز ہیں، کیونکہ عہد جب بدلتا ہے تو اظہار کے آداب بھی بدل جاتے ہیں، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اپنے جذباتی تناقض کا بہت خوبصورت اظہار کیا ہے۔
اختر اعظمی کی شاعری کا سلسلہ سائنس سے بھی جڑا ہوا ہے اور انہوں نے اس کے ذریعے سائنس اور آرٹ کے مابین تطابق اور تفاہم کی صورت بھی پیدا کی ہے وہ خود بھی سائنس سے جڑے ہوئے ہیں اور شاید اس حقیقت سے واقف ہیں کہ:
’’Science is the poetry of Reality‘‘
اور انہوں نے اسی Reality کو ایک Imagination کی صورت عطا کی ہے، انہی کا شعر ہے:
منحصر ہے فضا پہ رنگ حیات
جانتا ہوں میں کیمیا کیا ہے
پوچھئے کیمیا سے اخترؔ کی
’’آخر اس درد کی دوا کیا ہے ‘‘
آگے مریض عشق ہیں، پیچھے ہے کیمیا
میں کیمیا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
ان کے علاوہ یہ اشعار بھی دیکھیں جن میں اختر اعظمی نے حیرتوں کے در وا کر گئے ہیں۔
اک ترے غم پر بہا ہے ایک جلوے سے ترے
اشک دیدہ اور ہے دیدہ کا پانی اور ہے
یہ نہیں وہ آب باراں بارہا جو مل سکے
کام ہی میں لا کہ آب زندگانی اور ہے
ان دو اشعار میں اخترؔ اعظمی نے علم حیاتیات اور علم طبیعیات کے موتی کو اپنے شعور فن کی مالا میں بہت ہی خوبصورتی سے پرو دیا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے سائنس کے طالب علموں کے لیے منظوم کیمسٹری کا تجربہ بھی کیا ہے اور کیمیائی اصطلاحات کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔
ایچ سی این آر این اے آ نہ جائیں سائڈ میں
ہم کو رہنا ہو گا کیمسٹری کی گائڈ میں
میں ایسڈ بن جاؤں گا لیکن تو سوچ لے
تو ٹوٹے گا میتھین، ایتھن ایتھک سائڈ میں
میں ہوں ڈائی ایتھل، ایتھر تو ہے ایسی ٹون
تو کیسے انزائم بنے اور میں ہارمون
اس طرح کی شاعری سے سائنسی ذوق بھی پروان چڑھتا ہے اور اظہاری صلاحیت میں بھی قوت اور کشش پیدا ہوتی ہے۔ ماضی میں اس طرح کے تجربے کیے جا چکے ہیں۔ ریاضیات، طبیعیات، حیاتیات اور نباتیات جیسے سائنسی علوم سے وابستہ بہت سے شعراء ہیں جنھوں نے سائنسی نظمیں لکھی ہیں، رولڈ ہافمین (Roald Hoffmann) کیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ تھے، مگر شاعری اور ڈراما نگاری میں ان کی اپنی الگ پہچان تھی، اسی طرح Humphry Davy سائنٹسٹ بھی تھے جنہوں نے سوڈیم اور پوٹیشیم کے عناصر دریافت کئے، وہ ایسے شاعر تھے جن کی تعریف ورڈس ورتھ اور کولرج جیسے شاعروں نے کی ہے، اور اس طرح کے بہت سے مجموعے شاعری کے منظر عام پر آئے ہیں جو سائنسی مسائل اور موضوعات سے متعلق ہیں۔ بہت پہلے Mario Marky کی نظموں کا ایک مجموعہ ’کیمیکل پوئم‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، جس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ سائنس اور آرٹ کا رشتہ بہت گہرا ہے کیونکہ سائنس کو شاعری سے بڑی معاونت ملتی ہے۔ انبساطی کیفیات کا صحیح ادراک سائنس کے فارمولے سے نہیں بلکہ شاعری کی سحر انگیزی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ Nitrous oxide کو منطق یا سائنس سے زیادہ شاعری کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ یہ ایک سائنسی فارمولہ ہے۔ اختر اعظمی نے کیمیا اور شاعری کے مابین ایک نئے رشتے کی جستجو کی ہے اور اس حقیقت کا ادراک کرایا ہے کہ شاعری در اصل ایک کیمیا ہے۔ شکستہ دلوں کے درد کا درماں اور ہجر کے مارے ہوئے لوگوں کی راحت کا ساماں۔ اخترؔ اعظمی کے لیے شاعری ایک جنون ہے، ایک دیوانگی ہے، ایک آشفتہ سری ہے اور اس جنوں کے سارے انداز شاعری میں موجود ہیں اور اپنے جنون کے اظہار کے لیے انہوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ ایسی ہے جسے سب لوگ جانتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ سادہ، سلیس اور عام فہم الفاظ جن میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی زولیدگی نہیں۔ اختر اعظمی کی شاعری میں جہاں اردو زبان کی شیرینی ہے وہیں بھوجپوری لہجے کی مٹھاس بھی ہے، ان کی ایک نظم مزدور میں ایک نیا لسانی تجربہ کیا گیا ہے۔:
کھڑی دوپہر یا میں سونی ہے ڈگریا
نازک کلین سے کوٹے لی پتھریا
رات کے اندھیروں سا ہے یہ اجیروا
ہاتھ لگ جیہن کا ہوئی جو سویروا
جر جائی گوری گوری کھال
بھوکے نہ سوئیں مورے لال
شاعری اسی سویروا کا نام ہے اور ہر شاعر اپنی تخلیق کے ذریعہ اسی سویروا کی تلاش میں لگا ہوا ہے، یہ سویروا نہ ہو تو پھر شاعری شام کی طرح ڈوبنے لگتی ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں