اے سین پوئی کے انگریزی ترجمے سے تدوین کی گئی کتاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
از قلم
ن م راشد
جمع و ترتیب: اے سین پوئی
(باز ترتیب: اعجاز عبید)
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں ……
بادل (سانیٹ)
چھائے ہوئے ہیں چار طرف پارہ ہائے ابر
آغوش میں لئے ہوئے دنیائے آب و رنگ
میرے لئے ہے ان کی گرج میں سرودِ چنگ
پیغامِ انبساط ہے مجھ کو صدائے ابر
اٹّھی ہے ہلکے ہلکے سروں میں نوائے ابر
اور قطر ہائے آب بجاتے ہیں جلترنگ
گہرائیوں میں روح کی جاگی ہے ہر امنگ
دل میں اتر رہے ہیں مرے نغمہ ہائے ابر
مدّت سے لٹ چکے تھے تمنّا کے بار و برگ
چھایا ہوا تھا روح پہ گویا سکوتِ مرگ
چھوڑا ہے آج زیست کو خوابِ جمود نے
ان بادلوں سے تازہ ہوئی ہے حیات پھر
میرے لیے جوان ہے یہ کائنات پھر
شاداب کر دیا ہے دل ان کے سرود نے!
لارنس باغ میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
چھایا ہوا ہے چار طرف باغ میں سکوت
تنہائیوں کی گود میں لیٹا ہوا ہوں میں
اشجار بار بار ڈراتے ہیں بن کے بھوت
جب دیکھتا ہوں ان کی طرف کانپتا ہوں میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار
وہ موسمِ نشاط! وہ ایّامِ نو بہار
بھولے ہوئے مناظرِ رنگیں بہار کے
افکار بن کے روح میں میری اتر گئے
وہ مست گیت موسمِ عشرت فشار کے
گہرائیوں کو دل کی غم آباد کر گئے
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اژدہام
ہونے لگی ہے وقت سے پہلے ہی آج شام
دنیا کی آنکھ نیند سے جس وقت جھک گئی
جب کائنات کھو گئی اسرارِ خواب میں
سینے میں جوئے اشک ہے میرے رکی ہوئی
جا کر اسے بہاؤں گا کنجِ گلاب میں
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اژدہام
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!
ـ ستارے (سانیٹ)
نکل کر جوئے نغمہ خلد زارِ ماہ و انجم سے
فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ
بہ سوئے نوحہ آبادِ جہاں آہستہ آہستہ
نکل کر آ رہی ہے اک گلستانِ ترنّم سے!
ستارے اپنے میٹھے مد بھرے ہلکے تبسّم سے
کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ
سناتے ہیں اسے اک داستاں آہستہ آہستہ
دیارِ زندگی مد ہوش ہے ان کے تکلم سے
یہی عادت ہے روزِ اوّلیں سے ان ستاروں کی
چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرّت کی حکومت ہو
چمکتے ہیں کہ انساں فکرِ ہستی کو بھلا ڈالے
لیے ہے یہ تمنّا ہر کرن ان نور پاروں کی
کبھی یہ خاک داں گہوارۂ حسن و لطافت ہو
کبھی انسان اپنی گم شدہ جنّت کو پھر پا لے!
ـ وادیِ پنہاں
وقت کے دریا میں اٹّھی تھی ابھی پہلی ہی لہر
چند انسانوں نے لی اک وادیِ پنہاں کی راہ
مل گئی ان کو وہاں
آغوشِ راحت میں پناہ
کر لیا تعمیر اک موسیقی و عشرت کا شہر،
مشرق و مغرب کے پار
زندگی اور موت کی فرسودہ شہ راہوں سے دور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس جگہ ہر صبح کو ملتا ہے ایمائے ظہور
اور بنے جاتے ہیں راتوں کے لیے خوابوں کے جال
سیکھتی ہے جس جگہ پرداز حور
اور فرشتوں کو جہاں ملتا ہے آہنگِ سرور
غم نصیب اہریمنوں کو گریہ و آہ و فغاں!
کاش بتلا دے کوئی
مجھ کو بھی اس وادیِ پنہاں کی راہ
مجھ کو اب تک جستجو ہے
زندگی کے تازہ جولانگاہ کی
کیسی بیزاری سی ہے
زندگی کے کہنہ آہنگِ مسلسل سے مجھے
سر زمینِ زیست کی افسردہ محفل سے مجھے
دیکھ لے اک بار کاش
اس جہاں کا منظرِ رنگیں نگاہ
جس جگہ ہے قہقہوں کا اک درخشندہ وفور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمّتِ یزداں ہے چور
جس جگہ ہے وقت اک تازہ سرور
زندگی کا پیرہن ہے تار تار!
جس جگہ اہریمنوں کا بھی نہیں کچھ اختیار
مشرق و مغرب کے پار! ٭٭٭
ـ گناہ اور محبّت
گناہ
گناہ کے تند و تیز شُعلوں سے روح میری بھڑک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی
مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلود عشرتوں میں
مری جوانی کے مے کدوں میں گناہ کی مے چھلک رہی تھی
مرے حریمِ گناہ میں عشق دیوتا کا گزر نہیں تھا
مرے فریبِ وفا کے صحرا میں حورِ عصمت بھٹک رہی تھی
مجھے خسِ نا تواں کے مانند ذوقِ عصیاں بہا رہا تھا
گناہ کی موجِ فتنہ ساماں اٹھا اٹھا کر پٹک رہی تھی
شباب کے اوّلیں دنوں میں تباہ و افسردہ ہو چکے تھے
مرے گلستاں کے پھول، جن سے فضائے طفلی مہک رہی تھی
غرض جوانی میں اہرمن کے طرب کا سامان بن گیا میں
گنہ کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا اک انسان بن گیا میں
محبّت
اور اب کہ تیری محبّتِ سر مدی کا بادہ گسار ہوں میں
ہوس پرستی کی لخّتِ بے ثبات سے شرم سار ہوں میں
مری بہیمانہ خواہشوں نے فرار کی راہ لی ہے دل سے
اور ان کے بدلے اک آرزوئے سلیم سے ہم کنار ہوں میں
دلیلِ راہ وفا بنی ہیں ضیائے الفت کی پاک کرنیں
پھر اپنے "فردوسِ گمشدہ” کی تلاش میں رہ سپار ہوں میں
ہوا ہوں بے دار کانپ کر اک مہیب خوابوں کے سلسلے سے
اور اب نمودِ سحر کی خاطر ستم کشِ انتظار ہوں میں
بہارِ تقدیسِ جاوداں کی مجھے پھر اک بار آرزو ہے
پھر ایک پاکیزہ زندگی کے لیے بہت بے قرار ہوں میں
مجھے محبّت نے معصیت کے جہنّموں سے بچا لیا ہے
مجھے جوانی کی تیرہ و تار پستیوں سے اٹھا لیا ہے
ـ مکافات
رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری
رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
گزر گئی ہے تقدّس میں زندگی میری
دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری
رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں
زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو
کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انہیں
یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
فشارِ ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
پیامِ مرگِ جوانی تھا اجتناب مرا
لو آ گئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں
وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے
لو آ گئے ہیں وہی پے روانِ اہریمن
کیا تھا جن کو سیاست سے سر نگوں میں نے
کبھی نہ جان پہ دیکھا تھا یہ عذابِ الیم
کبھی نہیں اے مرے بختِ واژ گوں میں نے
مگر یہ جتنی اذیّت بھی دیں مجھے کم ہے
کیا ہے روح کو اپنی بہت زبوں میں نے
اسے نہ ہونے دیا میں نے ہم نوائے شباب
نہ اس پہ چلنے دیا شوق کا فسوں میں نے
اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے
ـ حزنِ انسان
(افلاطونی عشق پر ایک طنز)
جسم اور روح میں آہنگ نہیں،
لخّت اندوزِ دل آویزیِ موہوم ہے تو
خستۂ کشمکشِ فکر و عمل!
تجھ کو ہے حسرتِ اظہارِ شباب
اور اظہار سے معذور بھی ہے
جسم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے
اس قدر سادہ و معصوم ہے تو
پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو
جسم ہے روح کی عظمت کے لیے زینۂ نور
منبعِ کیف و سرور!
نا رسا آج بھی ہے شوقِ پرستارِ جمال
اور انساں ہے کہ ہے جادہ کشِ راہ طویل
(روحِ یوناں پہ سلام!)
اک زمستاں کی حسیں رات کا ہنگامِ تپاک
اس کی لخّات سے آگاہ ہے کون؟
عشق ہے تیرے لیے نغمۂ خام
کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!
جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو!
ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی بے کار نہیں
اور نہ بے سود ہیں ایّامِ بہار!
آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے!
ٹوٹ جائیں گے کسی روز مزامیر کے تار
مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب
ہے یہی حضرتِ یزداں کے تمسخر کا
ـ اتّفاقات
ان میں بھی دستیاب: English हिन्दी
آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نا یاب میں بھی،
جسم ہے خواب سے لخّت کشِ خمیازہ ترا
تیرے مژگاں کے تلے نیند کی شبنم کا نزول
جس سے دھل جانے کو ہے غازہ ترا
زندگی تیرے لیے رس بھرے خوابوں کا ہجوم
زندگی میرے لیے کاوشِ بیداری ہے؛
اتّفاقات کو دیکھ
اس حسیں رات کو دیکھ
توڑ دے وہم کے جال
چھوڑ دے اپنے شبستانوں کو جانے کا خیال،
خوفِ موہوم تری روح پہ کیا طاری ہے!
اتنا بے صرفہ نہیں تیرا جمال
اس زمستاں کی جنوں خیز حسیں رات کو دیکھ!
آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نا یاب میں بھی
تشنگی روح کی آسودہ نہ ہو
جب ترا جسم جوانی میں ہے نیسانِ بہار
رنگ و نکہت کا فشار!
پھول ہیں، گھاس ہے، اشجار ہیں، دیواریں ہیں
اور کچھ سائے کہ ہیں مختصر و تیرہ و تار،
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں؟
دیکھ پتّوں میں لرزتی ہوئی کرنوں کا نفوذ
سرسراتی ہوئی بڑھتی ہے رگوں میں جیسے
اوّلیں بادہ گساری میں نئی تند شراب،
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں؟
کہکشاں اپنی تمنّاؤں کا ہے راہ گذار
کاش اس راہ پہ مل کر کبھی پرواز کریں
اک نئی زیست کا در باز کریں!
آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آ اسی خاک کو ہم جلوہ گہ راز کریں!
روحیں مل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں،
آ اسی لخّتِ جاوید کا آغاز کریں!
صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے
اس کے بوسوں سے ہوں مد ہوش سمن اور گلاب
شبنمی گھاس پہ دو پیکرِ یخ بستہ ملیں،
اور خدا ہو تو پشیماں ہو
شاعرِ در ماندہ
زندگی تیرے لیے بسترِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشیِ آبا کے طفیل،
میں ہوں در ماندہ و بے چارہ ادیب
خستۂ فکرِ معاش!
پارۂ نانِ جویں کے لیے مُحتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
تجھے اک شاعرِ در ماندہ کی اُمّید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وا بستہ ہوا
تو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہنِ رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
میرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے!)
اے مری شمعِ شبستانِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سرا پردۂ نسیان میں ہے
تو "مسرّت” ہے مری، تو مری "بیداری” ہے
مجھے آغوش میں لے
دو "انا” مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے
انتقام
اس کا چہرہ، اس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھّر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتشداں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں
اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس
ان فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ!
اس کا چہرہ اس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے "ہونٹوں” نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!
ہمہ اوست
خیابانِ سعدی میں
رُوسی کتابوں کی دکّان پر ہم کھڑے تھے
مجھے رُوس کے چیدہ صنعت گروں کے
نئے کار ناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!
مجھے رُوسیوں کے "سیاسی ہمہ اوست” سے کوئی رغبت نہیں ہے
مگر ذرّے ذرّے میں
انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنّا ہمیشہ رہی ہے!
اور اُس شام تو مرسدہ کی عروسی تھی،
اُس شوخ، دیوانی لڑکی کی خاطر
مجھے ایک نازک سی سوغات کی جستجو تھی۔
وہ میرا نیا دوست خالد
ذرا دُور، تختے کے پیچھے کھڑی
اک تنو مند لیکن فسوں کار،
قفقاز کی رہنے والی حسینہ سے شیر و شکر تھا!
یہ بھوکا مسافر،
جو دستے کے ساتھ
ایک خیمے میں، اک دُور افتادہ صحرا میں
مدّت سے عزلت گزیں تھا،
بڑی التجاؤں سے
اِس حورِ قفقاز سے کہہ رہا تھا:
"نجانے کہاں سے ملا ہے
تمہاری زباں کو یہ شہد
اور لہجے کو مستی!
میں کیسے بتاؤں
میں کس درجہ دلدادہ ہوں رُوسیوں کا
مجھے اشتراکی تمدّن سے کتنی محبّت ہے،
کیسے بتاؤں!
یہ ممکن ہے تم مجھ کو رُوسی سکھا دو؟
کہ رُوسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کو میں دیکھنا چاہتا ہوں!”
وہ پروردۂ عشوہ بازی
کنکھیوں سے یوں دیکھتی تھی
کہ جیسے وہ اُن سر نگوں آرزوؤں کو پہچانتی ہو،
جو کرتی ہیں اکثر یوں ہی رو شناسی
کبھی دوستی کی تمنّا،
کبھی علم کی پیاس بن کر!
وہ کولہے ہلاتی تھی، ہنستی تھی
اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے،
جیسے وہ اُن خفیہ سر چشمہ گاہوں کے ہر راز کو جانتی ہو،
وہ تختے کے پیچھے کھڑی، قہقہے مارتی، لوٹتی تھی!
کہا میں نے خالد سے:
"بہروپئے!
اِس ولایت میں ضربِ مثل ہے
کہ اونٹوں کی سودا گری کی لگن ہو
تو گھر اُن کے قابل بناؤ۔۔۔
اور اِس شہر میں یوں تو استانیاں ان گنت ہیں
مگر اِس کی اُجرت بھلا تم کہاں دے سکو گے!”
وہ پھر مضطرب ہو کے، بے اختیاری سے ہنسنے لگی تھی!
وہ بولی:
"یہ سچ ہے
کہ اُجرت تو اک شاہی بھر کم نہ ہوگی،
مگر فوجیوں کا بھروسہ ہی کیا ہے،
بھلا تم کہاں باز آؤ گے
آخر زباں سیکھنے کے بہانے
خیانت کرو گے!”
وہ ہنستی ہوئی
اک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو گئی تھی!
تو خالد نے دیکھا
کہ رومان تو خاک میں مل چکا ہے۔۔
اُسے کھینچ کر جب میں بازار میں لا رہا تھا،
لگاتار کرنے لگا وہ مقولوں میں باتیں:
"زباں سیکھنی ہو تو عورت سے سیکھو!
جہاں بھر میں رُوسی ادب کا نہیں کوئی ثانی!
وہ قفقاز کی حور، مزدور عورت!
جو دنیا کے مزدور سب ایک ہو جائیں
آغاز ہو اک نیا دورۂ شادمانی!”
مرے دوستوں میں بہت اشتراکی ہیں،
جو ہر محبّت میں مایوس ہو کر،
یوں ہی اک نئے دورۂ شادمانی کی حسرت میں
کرتے ہیں دلجوئی اک دوسرے کی،
اور اب ایسی باتوں پہ میں
زیرِ لب بھی کبھی مسکراتا نہیں ہوں!
اور اُس شام جشنِ عروسی میں
حسن و مئے و رقص و نغمہ کے طوفان بہتے رہے تھے،
فرنگی شرابیں تو عنقا تھیں
لیکن مئے نابِ قزوین و خُلارِ شیراز کے دورِ پیہم سے،
رنگیں لباسوں سے،
خوشبو کی بے باک لہروں سے،
بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے،
مزامیر کے زیر و بم سے،
وہ ہنگامہ برپا تھا،
محسوس ہوتا تھا
طہران کی آخری شب یہی ہے!
اچانک کہا مرسدہ نے:
"تمہارا وہ ساتھی کہاں ہے؟
ابھی ایک صوفے پہ دیکھا تھا میں نے
اُسے سر بزانو!”
تو ہم کچھ پریشان سے ہو گئے
اور کمرہ بہ کمرہ اُسے ڈھونڈنے مل کے نکلے!
لو اک گوشۂ نیم روشن میں
وہ اشتراکی زمیں پر پڑا تھا
اُسے ہم ہلایا کیے اور جھنجھوڑا کیے
وہ تو ساکت تھا، جامد تھا!
رُوسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کی اُس کو خبر ہو گئی تھی؟
تیل کے سوداگر
بخارا سمرقند اک خالِ ہندو کے بدلے!
بجا ہے، بخارا سمرقند باقی کہاں ہیں؟
بخارا سمرقند نیندوں میں مد ہوش،
اک نیلگوں خامشی کے حجابوں میں مستور
اور رہروؤں کے لئے ان کے در بند،
سوئی ہوئی مہ جبینوں کی پلکوں کے مانند،
روسی "ہمہ اوست” کے تازیانوں سے معذور
دو مہ جبینیں!
بخارا سمرقند کو بھول جاؤ
اب اپنے درخشندہ شہروں کی
طہران و مشہد کے سقف و در و بام کی فکر کر لو،
تم اپنے نئے دَورِ ہوش و عمل کے دل آویز چشموں کو
اپنی نئی آرزوؤں کے ان خوب صورت کنایوں کو
محفوظ کر لو!
ان اونچے درخشندہ شہروں کی
کوتہ فصیلوں کو مضبوط کر لو
ہر اک برج و بارد پر اپنے نگہباں چڑھا دو،
گھروں میں ہوا کے سوا،
سب صداؤں کی شمعیں بجھا دو!
کہ باہر فصیلوں کے نیچے
کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن،
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر،
وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں،
چلے آئیں گے بن کے مہماں
تمہارے گھروں میں،
وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے
ناچیں گے، گائیں گے،
بے ساختہ قہقہوں ہمہموں سے
وہ گرمائیں گے خونِ محفل!
مگر پو پھٹے گی
تو پلکوں سے کھو دو گے خود اپنے مردوں کی قبریں
بساطِ ضیافت کی خاکسترِ سوختہ کے کنارے
بہاؤ گے آنسو!
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو!
۔۔گو اب خالِ ہندو کی ارزش نہیں ہے
عذارِ جہاں پر وہ رستا ہوا گہرا ناسور
افرنگ کی آزِ خوں خوار سے بن چکا ہے۔۔
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو،
ہماری نگاہوں نے دیکھے ہیں
سیّال سایوں کے مانند گھلتے ہوئے شہر
گرتے ہوئے بام و در
اور مینار و گنبد،
مگر وقت محراب ہے
اور دشمن اب اس کی خمیدہ کمر سے گذرتا ہوا
اس کے نچلے افق پر لڑھکتا چلا جا رہا ہے!
ہمارے برہنہ و کاہیدہ جسموں نے
وہ قید و بند اور وہ تازیانے سہے ہیں
کہ ان سے ہمارا ستمگر
خود اپنے الاؤ میں جلنے لگا ہے!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
کہ دیکھی ہیں میں نے
ہمالہ و الوند کی چوٹیوں پر انا کی شعاعیں،
انہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر
بخارا سمرقند بھی سالہا سال سے
جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں
منّ و سلویٰ
"خدائے بر تر،
یہ داریوشِ بزرگ کی سر زمیں،
یہ نوشیروانِ عادل کی داد گاہیں،
تصوّف و حکمت و ادب کے نگار خانے،
یہ کیوں سیہ پوست دشمنوں کے وجود سے
آج پھر ابلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں؟”
"ہم اس کے مجرم نہیں ہیں، جانِ عجم نہیں ہیں
وہ پہلا انگریز
جس نے ہندوستاں کے ساحل پہ
لا کے رکھی تھی جنسِ سوداگری
یہ اس کا گناہ ہے
جو ترے وطن کی
زمینِ گل پوش کو
ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں!
یہ شہر اپنا وطن نہیں ہے،
مگر فرنگی کی رہزنی نے
اسی سے نا چار ہم کو وا بستہ کر دیا ہے،
ہم اس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں!
وہ راہزن جو یہ سوچتا ہے:
"کہ ایشیا ہے کوئی عقیم و امیر بیوہ
جو اپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلا اک فشار میں ہے،
اور اس کا آغوشِ آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے،
اور ایشیائی،
قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژادِ کاہل،
اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جا رہے ہیں”۔۔
مگر یہ ہندی
گرسنہ و پا برہنہ ہندی
جو سالکِ راہ ہیں
مگر راہ و رسمِ منزل سے بے خبر ہیں
گھروں کو ویران کر کے،
لاکھوں صعوبتوں سہ کے
اور اپنا لہو بہا کر
اگر کبھی سوچتے ہیں کچھ تو یہی،
۔کہ شاید انہی کے بازو
نجات دلوا سکیں گے مشرق کو
غیر کے بے پناہ بپھرے ہوئے ستم سے۔
یہ سوچتے ہیں:
۔یہ حادثہ ہی کہ جس نے پھینکا ہے
لا کے ان کو ترے وطن میں
وہ آنچ بن جائے،
جس سے پھنک جائے،
وہ جراثیم کا اکھاڑا،
جہاں سے ہر بار جنگ کی بوئے تند اٹھتی ہے
اور دنیا میں پھیلتی ہے!۔
میں جانتا ہوں
مرے بہت سے رفیق
اپنی اداس، بے کار زندگی کے
دراز و تاریک فاصلوں میں
کبھی کبھی بھیڑیوں کے مانند
آ نکلتے ہیں، رہگزاروں پہ
جستجو میں کسی کے دو "ساقِ صندلیں” کی!
کبھی دریچوں کی اوٹ میں
نا تواں پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ پہ
ہوش سے بے نیاز ہو کر وہ ٹوٹتے ہیں؛
وہ دستِ سائل
جو سامنے ان کے پھیلتا ہے
اس آرزو میں
کہ ان کی بخشش سے
پارۂ نان، من و سلویٰ کا روپ بھر لے،
وہی کبھی اپنی نازکی سے
وہ رہ سجھاتا ہے
جس کی منزل پہ شوق کی تشنگی نہیں ہے!
تو ان مناظر کو دیکھتی ہے!
تو سوچتی ہے:
۔۔یہ سنگدل، اپنی بز دلی سے
فرنگیوں کی محبّتِ نا روا کی زنجیر میں بندھے ہیں
انہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن رہا ہے۔۔!
محبّتِ نا روا نہیں ہے
بس ایک زنجیر،
ایک ہی آہنی کمندِ عظیم
پھیلی ہوئی ہے،
مشرق کے اک کنارے سے دوسرے تک،
مرے وطن سے ترے وطن تک،
بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں
ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں!
مغول کی صبحِ خوں فشاں سے
فرنگ کی شامِ جاں ستاں تک!
تڑپ رہے ہیں
بس ایک ہی دردِ لا دوا میں،
اور اپنے آلامِ جاں گزا کے
اس اشتراکِ گراں بہا نے بھی
ہم کو اک دوسرے سے اب تک
قریب ہونے نہیں دیا ہے۔
تماشاگہ لالہ زار
تماشا گہ لالہ زار،
"تیاتر” پہ میری نگاہیں جمی تھیں
مرے کان "موزیک” کے زیر و بم پر لگے تھے،
مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا
عرب اور عجم کے غموں کا شمار
تماشا گہ لالہ زار!
تماشا گہ لالہ زار،
اب ایراں کہاں ہے؟
یہ عشقی کا شہکار۔ ” ایران کی رستخیز!”
اب ایراں ہے اک نوحہ گر پیر زال
ہے مدّت سے افسردہ جس کا جمال،
مدائن کی ویرانیوں پر عجم اشک ریز،
وہ نوشیرواں اور زردشت اور داریوش،
وہ فرہاد و شیریں، وہ کیخسرو و کیقباد
"ہم اک داستاں ہیں وہ کردار تھے داستاں کے!
ہم اک کارواں ہیں وہ سالار تھے کارواں کے!”
تہ خاک جن کے مزار
تماشا گہ لالہ زار!
تماشا گہ لالہ زار،
مگر نوحہ خوانی کی یہ سر گرانی کہاں تک؟
کہ منزل ہے دشوار غم سے غمِ جاوداں تک!
وہ سب تھے کشادہ دل و ہوش مند و پرستارِ ربِّ کریم
وہ سب خیر کے راہ داں، رہ شناس
ہمیں آج مُحسن کش و نا سپاس!
وہ شاہنشہانِ عظیم
وہ پندارِ رفتہ کا جاہ و جلالِ قدیم
ہماری ہزیمت کے سب بے بہا تار و پو تھے،
فنا ان کی تقدیر، ہم ان کی تقدیر کے نوحہ گر ہیں
اسی کی تمنّا میں پھر سوگوار
تماشا گہ لالہ زار
تماشا گہ لالہ زار،
عروسِ جواں سالِ فردا، حجابوں میں مستور
گرسنہ نگہ، زود کاروں سے رنجور
مگر اب ہمارے نئے خواب کابوسِ ماضی نہیں ہیں،
ہمارے نئے خواب ہیں، آدمِ نو کے خواب
جہانِ تگ و دو کے خواب!
جہانِ تگ و دو، مدائن نہیں،
کاخِ فغفور و کسریٰ نہیں
یہ اس آدمِ نو کا ماویٰ نہیں
نئی بستیاں اور نئے شہریار
تماشا گہ لالہ زار!
ـ نمرود کی خدائی
یہ قدسیوں کی زمیں
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں،
ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جاں فروز کی آرزو کا پرتو!
یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:
"وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟
۔وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟
اے فلسفہ گو،
کہاں وہ رویائے آسمانی؟
کہاں یہ نمرود کی خدائی!
تو جال بنتا رہا ہے، جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے
ہم اس یقیں سے، ہم اس عمل سے، ہم اس محبّت سے،
آج مایوس ہو چکے ہیں!
کوئی یہ کس سے کہے کہ آخر
گواہ کس عدلِ بے بہا کے تھے عہدِ تاتار کے خرابے؟
عجم، وہ مرزِ طلسم و رنگ و خیال و نغمہ
عرب، وہ اقلیمِ شیر و شہد و شراب و خرما
فقط نوا سنج تھے در و بام کے زیاں کے
جو ان پہ گزری تھی
اس سے بد تر دنوں کے ہم صیدِ نا تواں ہیں!
کوئی یہ کس سے کہے:
در و بام،
آہن و چوب و سنگ و سیماں کے
حسنِ پیوند کا فسوں تھے
بکھر گیا وہ فسوں تو کیا غم؟
اور ایسے پیوند سے امیدِ وفا کسے تھی؟
شکستِ مینا و جام بر حق،
شکستِ رنگِ عذارِ محبوب بھی گوارا
مگر۔یہاں تو کھنڈر دلوں کے،
(۔یہ نوعِ انساں کی
کہکشاں سے بلند و بر تر طلب کے اجڑے ہوئے مدائن۔)
شکستِ آہنگِ حرف و معنی کے نوحہ گر ہیں!
میں آنے والے دنوں کی دہشت سے کانپتا ہوں
مری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
کہ حرف و معنی کے ربط کا
خوابِ لخّت آگیں بکھر چکا ہے،
کہ راستے نیم ہوشمندوں سے،
نیند میں راہ پو گداؤں سے
"صوفیوں” سے بھرے پڑے ہیں
حیات خالی ہے آرزو سے
ہماری تہذیب، کہنہ بیمار جاں بلب ہے!
وہ حرفِ تنہا (جسے تمنّائے وصلِ معنا)
ہمارے اعضا جو آسماں کی طرف دعا کے لیے اُٹھے ہیں،
(تم آسماں کی طرف نہ دیکھو!)
مقامِ نازک پہ ضربِ کاری سے جاں بچانے کا ہے وسیلہ
کہ اپنی محرومیوں سے چھپنے کا ایک حیلہ؟
بزرگ و بر تر خدا کبھی تو (بہشت بر حق)
ہمیں خدا سے نجات دے گا
کہ ہم ہیں اِس سر زمیں پہ جیسے وہ حرفِ تنہا،
(مگر وہ ایسا جہاں نہ ہوگا) خموش و گویا،
جو آرزوئے وصالِ معنی میں جی رہا ہو
جو حرف و معنی کی یک دلی کو ترس گیا ہو!
ہمیں معرّی کے خواب دے دو
(کہ سب کو بخشیں بقدرِ ذوقِ نگہ تبسّم)
ہمیں معرّی کی روح کا اضطراب دے دو
(جہاں گناہوں کے حوصلے سے ملے تقدّس کے دکھ کا مرہم)
کہ اُس کی بے نور و تار آنکھیں
درونِ آدم کی تیرہ راتوں
کو چھیدتی تھیں
اُسی جہاں میں فراقِ جاں کاہ حرف و معنی
کو دیکھتی تھیں
بہشت اُس کے لیے وہ معصوم سادہ لوحوں کی عافیت تھا
جہاں وہ ننگے بدن پہ جابر کے تازیانوں سے بچ کے
راہ فرار پائیں
وہ کفشِ پا تھا، کہ جس سے غربت کی ریگِ ہزیاں
سے روزِ فرصت قرار پائیں
کہ صُلبِ آدم کی، رحمِ حوّا کی عزلتوں میں
نہایتِ انتظار پائیں!
(بہشت صفرِ عظیم، لیکن ہمیں وہ گم گشتہ ہندسے ہیں
بغیر جن کے کوئی مساوات کیا بنے گی
وصالِ معنی سے حرف کی بات کیا بنے گی؟)
ہم اِس زمیں پر ازل سے پیرانہ سر ہیں، مانا
مگر ابھی تک ہیں دل توانا
اور اپنی ژولیدہ کاریوں کے طفیل دانا
ہمیں معرّی کے خواب دے دو
(بہشت میں بھی نشاط، یک رنگ ہو تو، غم ہے
ہو ایک سا جامِ شہد سب کے لیے تو سم ہے)
کہ ہم ابھی تک ہیں اِس جہاں میں وہ حرفِ تنہا
(بہشت رکھ لو، ہمیں خود اپنا جواب دے دو!)
جسے تمنّائے وصلِ معنا..۔
زندگی سے ڈرتے ہو؟
۔۔زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اِس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رستہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اِس سے تم نہیں ڈرتے!
"ان کہی” سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
اُس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
۔۔پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دَور نا رسائی کے، "بے ریا” خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہ خداوندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!
۔۔شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک اٹّھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں، ابھی تو تم بھی ہو، ہاں، ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!
ـ دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
نغمہ در جاں، رقص بر پا، خندہ بر لب
دل، تمنّاؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب!
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
ریگ کے دلشاد شہری، ریگ تو
اور ریگ ہی تیری طلب
ریگ کی نکہت تری پیکر میں، تیری جاں میں ہے!
ریگ صبحِ عید کے مانند زر تاب و جلیل،
ریگ صدیوں کا جمال،
جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال،
شوق کے لمحات کے مانند آزاد و عظیم!
ریگ نغمہ زن
کہ ذرّے ریگ زاروں کی وہ پا زیبِ قدیم
جس پہ پڑ سکتا نہیں دستِ لئیم،
ریگِ صحرا زر گری کی ریگ کی لہروں سے دور
چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دور!
ریگ شب بیدار ہے، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ
ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت
ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت
ریگ جب اٹھتی ہے، اُڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی، سب شہنشاہوں کے خواب!
(ریگ، اے صحرا کی ریگ
مجھ کو اپنی جاگتے ذرّوں کے خوابوں کی
نئی تعبیر دے!)
ریگ کے ذرّو، اُبھرتی صبح تم،
آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روزِ طرب
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
آ چوم ریگ!
ہے خیالوں کے پریزادوں سے بھی معصوم ریگ!
ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں رہے
اس کا ابریشم ملائم، نرم خو، خنداں رہے!
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ
راہ گم کردوں کی مشعل، اس کے لب پر "آؤ! آؤ!”
تیرے ماضی کے خزف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ
آگ کی قرمز زباں پر انبساطِ نو کے راگ
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
سر گرانی کی شبِ رفتہ سے جاگ!
کچھ شرر آغوشِ صرصر میں ہیں گم،
اور کچھ زینہ بہ زینہ شُعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوئے
اور کچھ تہ میں الاؤ کی ابھی،
مضطرب، لیکن مذبذب طفلِ کمسن کی طرح!
آگ زینہ، آگ رنگوں کا خزینہ
آگ ان لخّات کا سرچشمہ ہے
جس سے لیتا ہے غزا عشّاق کے دل کا تپاک!
چوبِ خشک انگور، اُس کی مے ہے آگ
سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح!
آگ کاہن، یاد سے اُتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں
آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں
دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!
آگ آزادی کا، دل شادی کا نام
آگ پیدائش کا، افزائش کا نام
آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سمبل، شقیق و نسترن
آگ آرائش کا، زیبائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے ہیں جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرم
عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
اِس لق و دق میں نکل آئیں کہیں سے بھیڑیے
اِس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ،
بھیڑیوں کی چاپ تک آتی نہیں!)
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
آگ سے صحرا کے ٹیڑھے، رینگنے والے،
گرہ آلود، ژولیدہ درخت
جاگتے ہیں نغمہ در جاں، رقص بر پا، خندہ بر لب
اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشنِ ماہتاب
اُن کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال
بیخ و بُن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا!
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
رہروؤں، صحرا نوردوں کے لئے ہے رہنما
کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ
اور صہراؤں کی تنہائی کو ہم کرتی ہے آگ!
آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے
افسانہ گو
جیسے گردِ چشم مژگاں کا ہجوم؛
اُن کے حیرت ناک، دلکش تجربوں سے
جب دمک اٹھتی ہے ریت،
ذرّہ ذرّہ بجنے لگتا ہے مثالِ سازِ جاں
گوش بر آواز رہتے ہیں درخت
اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کبھی!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ریگ اپنی خلوتِ بے نور و خود بیں میں رہے
اپنی یکتائی کی تحسیں میں رہے
اِس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ایشیا، افریقہ پہنائی کا نام
(بے کار پہنائی کا نام)
یوروپ اور امریکہ دارائی کا نام
(تکرارِ دارائی کا نام!)
میرا دل، صحرا نوردِ پیر دل
جاگ اٹھا ہے، مشرق و مغرب کی ایسی یک دلی
کے کاروانوں کا نیا رویا لئے:
یک دلی ایسی کہ ہوگی فہمِ انساں سے وراء
یک دلی ایسی کہ ہم سب کہہ اٹھیں
"اس قدر عجلت نہ کر
اژدہامِ گل نہ بن!”
کہہ اُٹھیں ہم:
"تُو غمِ کُل تو نہ تھی
اب لخّتِ کُل بھی نہ بن
روزِ آسائش کی بے دردی نہ بن
یک دلی بن، ایسا سنّاٹا نہ بن،
جس میں تابستاں کی دو پہروں کی
بے حاصل کسالت کے سوا کچھ بھی نہ ہو!”
اِس "جفا گر” یک دلی کے کارواں یوں آئیں گے
دستِ جادو گر سے جیسے پھوٹ نکلے ہوں طلسم،
عشقِ حاصل خیز سے، یا زورِ پیدائی سے جیسے نا گہاں
کھُل گئے ہوں مشرق و مغرب کے جسم،
۔۔جسم، صدیوں کے عقیم!
کارواں فرخُندہ پے، اور اُن کا بار
کیسہ کیسہ تختِ جم و تاجِ کے
کوزہ کوزہ فرد کی سطوت کی مے
جامہ جامہ روز و شب محنت کا خے
نغمہ نغمہ حرّیت کی گرم لِے!
سالکو، فیروز بختو، آنے والے قافلو
شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے
ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے "شکوہ ہائے نے” سے وہ
ریت کی تہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے حرّیت کی لَے سے وہ!
اِتنی دوشیزہ تھی، اِتنی مرد نا دیدہ تھی صبح
پوچھ سکتے تھے نہ اُس کی عمر ہم!
درد سے ہنستی نہ تھی،
ذرّوں کی رعنائی پہ بھی ہنستی نہ تھی،
ایک محجوبانہ بے خبری میں ہنس دیتی تھی صبح!
اب مناتی ہے وہ صحرا کا جلال
جیسے عزّ و جل کے پاؤں کی یہی محراب ہو!
زیرِ محراب آ گئی ہو اُس کو بیداری کی رات
خود جنابِ عزّ و جل سے جیسے اُمّیدِ زفاف
(سارے نا کردہ گناہ اُس کے معاف!)
صبحِ صحرا، شاد باد!
اے عروسِ عزّ و جل، فرخندہ رُو، تابندہ خُو
تو اک ایسے حجرۂ شب سے نکل کر آئی ہے
دستِ قاتل نے بہایا تھا جہاں ہر سیج پر
سینکڑوں تاروں کا رخشندہ لہو، پھولوں کے پاس!
صبحِ صحرا، سر مرے زانو پہ رکھ کر داستاں
اُن تمنّا کے شہیدوں کی نہ کہہ
اُن کی نیمہ رس امنگوں، آرزوؤں کی نہ کہہ
جن سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
شہد تیرا جن کو نوشِ جاں نہیں!
آج بھی کچھ دور، اِس صحرا کے پار
دیو کی دیوار کے نیچے نسیم
روز و شب چلتی ہے مبہم خوف سے سہمی ہوئی
جس طرح شہروں کی راہوں پر یتیم
نغمہ بر لب تا کہ اُن کی جاں کا سنّاٹا ہو دور!
آج بھی اِس ریگ کے ذرّوں میں ہیں
ایسے ذرّے، آپ ہی اپنے غنیم
آج بھی اِس آگ کے شُعلوں میں ہیں
وہ شرر جو اِس کی تہ میں پر بریدہ رہ گئے
مثلِ حرفِ نا شنیدہ رہ گئے!
صبحِ صحرا، اے عروسِ عزّ و جل
آ کہ اُن کی داستاں دہرائیں ہم
اُن کی عزّت، اُن کی عظمت گائیں ہم
صبح، ریت اور آگ، ہم سب کا جلال!
یک دلی کے کارواں اُن کا جمال
آؤ!
اِس تہلیل کے حلقے میں ہم مل جائیں
آؤ!
شاد باد اپنی تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ!
ایک اور شہر
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں رو پوش،
تاریکی خود بے چشم و گوش!
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند
دریا کے دو ساحل ہیں اور دونوں ہی نا پید
شر ہے دستِ سیہ اور خیر کا حامل روئے سفید!
اک بارِ مژگاں، اک لب خند!
سب پیمانے بے صرفہ جب سیم و زر میزان
جب ذوقِ عمل کا سر چشمہ بے معنی ہذیان
جب دہشت ہر لمحہ جاں کند!
یہ سب اُفقی انساں ہیں، یہ ان کے سماوی شہر
کیا پھر اِن کی کمیں میں وقت کے طوفاں کی اک لہر؟
کیا سب ویرانی کے دلبند؟
ریگِ دیروز
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پا کوبی کا حاصل پایا!
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پا مالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا!
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ،
اور کبھی فتنۂ نا گاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رہیں سدِّ نگہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں!
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو
ایک، بس ایک، صدا گونجتی ہو
شبِ آلام کی "یا ہو! یا ہو!”
ہم محبّت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ نا پید تھا، سایے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے!
زمانہ خدا ہے
"زمانہ خدا ہے، اِسے تم بُرا مت کہو”
مگر تم نہیں دیکھتے۔۔زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، نازک، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل!
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں،
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہونگی،
اُنہیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی، موجود ہیں وہ کہیں،
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسّی تنی ہے
اِسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدّت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال!
مرے صحن میں ایک کمسن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اُس کے سر پر سے گذرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیّارہ، اس کی محبّت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت ربا ہی سے گذرا!
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے:
"لو دیکھو، کیسے اِسی ایک رسّی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں!
یہ رسّی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہ وصال؟”
مگر ہجر کے اُن وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں!
جہاں یہ زمانہ۔۔ہنوزِ زمانہ
فقط اک گرہ ہے!
افسانۂ شہر
شہر کے شہر کا افسانہ، وہ خوش فہم، مگر سادہ مسافر
کہ جنہیں عشق کی للکار کے رہزن نے کہا: "آؤ!
دکھلائیں تمہیں ایک درِ بستہ کے اسرار کا خواب۔”
شہر کے شہر کا افسانہ، وہ دل جن کے بیاباں میں
کسی قطرۂ گم گشتہ کے نا گاہ لرزنے کی صدا نے یہ کہا:
"آؤ دکھلائیں تمہیں صبح کے ہونٹوں پہ تبسّم کا سراب!”
شہر کے شہر کا افسانہ، وہی آرزوئے خستہ کے لنگڑاتے ہوئے پیر
کہ ہیں آج بھی افسانے کی دزدیدہ و ژولیدہ لکیروں پہ رواں
اُن اسیروں کی طرح جن کے رگ و ریشہ کی زنجیر کی جھنکار
بھی تھم جائے تو کہہ اُٹّھیں: "کہاں؟
اب کہاں جائیں گے ہم؟
جائیں اب تازہ و نا دیدہ نگاہوں کے زمستاں میں کہاں؟”
اُن اسیروں کی طرح جن کے لیے وقت کی بے صرفہ سلاخیں
نہ کبھی سرد نہ گرم، اور نہ کبھی سخت نہ نرم
نہ رہائی کی پذیرا، نہ اسیری ہی کی شرم!
شہر کے شہر کا افسانہ، وہ روحیں جو سرِ پُل کے سوا
اور کہیں وصل کی جویا ہی نہیں
پُل سے جنہیں پار اترنے کی تمنّا ہی نہیں
اِس کا یارا ہی نہیں!
یہ خلا پر نہ ہوا
ذہن خالی ہے
خلا نور سے، یا نغمے سے
یا نکہتِ گم راہ سے بھی
پر نہ ہوا
ذہن خالی ہی رہا
یہ خلا حرفِ تسلی سے،
تبسّم سے،
کسی آہ سے بھی پر نہ ہوا
اک نفی لرزشِ پیہم میں سہی
جہدِ بے کار کے ماتم میں سہی
ہم جو نا رس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں
اس خلا کو
(اسی دہلیز پہ سوئے ہوئے
سر مست گدا کے مانند)
کسی مینار کی تصویر سے،
یا رنگ کی جھنکار سے
یا خوابوں کی خوشبوؤں سے
پر کیوں نہ کریں؟
کہ اجل ہم سے بہت دور
بہت دور رہے؟
نہیں، ہم جانتے ہیں
ہم جو نا رس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں
جانتے ہیں کہ خلا ہے وہ جسے موت نہیں
کس لیے نور سے، یا نغمے سے
یا حرفِ تسلی سے اسے "جسم” بنائیں
اور پھر موت کی وا رفتہ پذیرائی کریں؟
نئے ہنگاموں کی تجلیل کا در باز کریں
صبحِ تکمیل کا آغاز کریں؟
طلب کے تلے
گُل و یاسمن کل سے نا آشنا،
کل سے بے اعتنا
گُل و یاسمن اپنے جسموں کی ہیئت میں فرد
مگر۔۔کل سے نا آشنا، کل سے بے اعتنا
کسی مرگِ مبرم کا درد
اُن کے دل میں نہیں!
فقط اپنی تاریخ کی بے سر و پا طلب کے تلے
ہم دبے ہیں!
ہم اپنے وجودوں کی پنہاں تہیں
کھولتے تک نہیں
آرزو بولتے تک نہیں!
یہ تاریخ میری نہیں اور تیری نہیں
یہ تاریخ ہے ازدحامِ رواں
اُسی ازدحامِ رواں کی یہ تاریخ ہے،
یہ وہ چیخ ہے
جس کی تکرار اپنے من و تُو میں ہے
وہ تکرار جو اپنی تہذیب کی ہو میں ہے!
تجھے اِس پہ حیرت نہیں
ہم اِس ازدحامِ رواں کے نشانِ قدم پر چلے جا رہے ہیں
بڑھے جا رہے ہیں
کہ ہم ظلمتِ شب میں تنہا
پڑے رہ نہ جائیں۔۔
بڑھے جا رہے ہیں،
نہ جینے کی خاطر
نہ اِس سے فزوں زندہ رہنے کی خاطر
بڑھے جا رہے ہیں، کسی عیب سے
رہزنِ مرگ سے بچ نکلنے کی خاطر،
جدائی کی خاطر!
کسی فرد کے خوف سے بڑھ رہے ہیں
جو باطن کے ٹوٹے دریچوں کے پیچھے
شرارت سے ہنستا چلا جا رہا ہے۔
گماں کا ممکن۔ جو تو ہے میں ہوں!
کریم سورج،
جو ٹھنڈے پتّھر کو اپنی گولائی
دے رہا ہے
جو اپنی ہمواری دے رہا ہے۔۔
(وہ ٹھنڈا پتّھر جو میرے مانند
بھورے سبزوں میں
دورِ ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے)
جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی
سرشاری دے رہا ہے
۔۔وہی مجھے جانتا نہیں ہے
مگر مجھی کو یہ وہم شاید
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!
مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے
کہ میری دھیمی صدا
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے
سے آ رہی ہے
یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اُوپر
ہزاروں انساں
اُفق کے متوازی چل رہے ہیں
اُفق کے متوازی چلنے والوں کو پار لاتی ہے
وقت لہریں۔۔
جنہیں تمنّا، مگر، سماوی خرام کی ہو
انہی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہیں
وقت لہریں
انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!
تمام ملاح اِس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں
کہ جھیل میں اک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے
اُس کے گیسو اُفق کی چھت سے لٹک رہے ہیں۔۔
پکارتا ہے: "اب آؤ، آؤ!
ازل سے میں منتظر تمہارا۔۔
میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں
درخت، مینار، برج، زینے مرے ہی ساتھی
مرے ہی متوازی چل رہے ہیں
میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا
سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا
اب آؤ، آؤ!
تمہارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے اُن کے
ابد کے آغوش میں اُتارا۔”
تمام ملاح اِس کی آواز سے گریزاں
اُفق کی شہ راہ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں۔۔
مگر سماوی خرام والے
جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں
عمود کے اِس طناب ہی سے اُتر رہے ہیں
اِسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!
اسی طرح میں بھی ساتھ اِن کے اُتر گیا ہوں
اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں
جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے
جہاں خدا کی ضعیف آنکھیں
ابھی سلامت بچی ہوئی ہیں
یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا
یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا۔۔
مگر نجانے
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے؟
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
جو رک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے؟
وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن
جو تو ہے میں ہوں!
مگر یہ سچ ہے،
میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں
نکل پڑا تھا
اُس ایک ممکن کی جستجو میں
جو تو ہے میں ہوں
میں ایسے چہرے کو دھونڈتا تھا
جو تو ہے میں ہوں
میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا
جو تو ہے میں ہوں!
میں اِس تعاقب میں
کتنے آغاز گن چکا ہوں
(میں اُس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا
ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے)
میں اِس تعاقب میں کتنی گلیوں سے
کتنے چوکوں سے،
کتنے گونگے مجسّموں سے، گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے باغوں سے،
کتنی اندھی شراب راتوں سے
کتنی باہوں سے،
کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے
گزر گیا ہوں
میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے،
کتنے ایماں کے گنبدوں سے
گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں۔۔
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے
نہ کوئی آتا ہوا زمانہ
ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے
فقط گزرتا ہوا فسانہ
تمام رستے، تمام پوچھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں
جواب، تاریخ روپ دھارے
بس اپنی تکرار کر رہے ہیں۔۔
"جواب ہم ہیں۔۔جواب ہم ہیں۔۔
ہمیں یقیں ہے جواب ہم ہیں۔۔”
یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے!
مگر وہ سب آپ اپنی ضد ہیں
تمام، جیسے گماں کا ممکن
جو تو ہے میں ہوں!
تمام کُندے (تو جانتی ہے)
جو سطحِ دریا پہ ساتھ دریا کے تیرتے ہیں
یہ جانتے ہیں یہ حادثہ ہے،
کہ جس سے اِن کو،
(کسی کو) کوئی مفر نہیں ہے!
تمام کُندے جو سطحِ دریا پہ تیرتے ہیں،
نہنگ بنّا۔ یہ اُن کی تقدیر میں نہیں ہے
(نہنگ کی ابتدا میں ہے اک نہنگ شامل
نہنگ کا دل نہنگ کا دل!)
نہ اُن کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بنّا
(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل
درخت کا دل درخت کا دل!)
تمام کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
وہ سطحِ دریا پہ جبرِ دریا سے تیرتے ہیں
اب اِن کا انجام گھاٹ ہیں جو
سدا سے آغوش وا کیے ہیں
اب اِن کا انجام وہ سفینے
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
اب اِن کا انجام
ایسے اوراق جن پہ حرفِ سیہ چھپے گا
اب اِن کا انجام وہ کتابیں۔۔
کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہونگے
اب اِن کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے
ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے
کہ اُن پہ آنسو کے رنگ اُتریں،
اور ان میں آیندہ
اُن کے رویا کے نقش بھر دے!
غریب کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
بقائے موہوم کے جو رستے کھُلے ہیں اب تک
ہے اُن کے آگے گماں کا ممکن۔۔
گماں کا ممکن، جو تو ہے میں ہوں!
جو تو ہے، میں ہوں!
حسن کوزہ گر
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حَسَن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دُکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دَور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا۔۔
وہ کوزے مرے دستِ چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے:
"حسن کوزہ گر اب کہاں ہے؟
وہ ہم سے، خود اپنے عمل سے،
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!”
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہرِ مدفون پر وقت گزرے؛
تغاروں میں مٹّی
کبھی جس کی خوش بو سے وا رفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہارِ فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود، میں حَسَن کوزہ گر پا بہ گل، خاک بر سر، برہنہ،
سرِ "چاک” ژولیدہ مو، سر بزانو،
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا۔
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو نا داں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حَسَن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ہے وہ تابناکی کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابر و مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات،
وہ رودِ دجلہ کا ساحل،
وہ کشتی، وہ ملاح کی بند آنکھیں،
کسی خستہ جاں، رنج بر، کوزہ گر کے لئے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود۔۔
اس کی جاں، اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حَسَن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!
جہاں زاد، اُس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آ کر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل، سر بزانو،
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی۔۔
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی:
"حَسَن کوزہ گر ہوش میں آ
حَسَن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے؟
حَسَن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
حَسَن، اپنے دیوار و در پر نظر کر”
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرِ گرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حَسَن کوزہ گر شہرِ اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغِ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سر و مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حَسَن کوزہ گر آج اک تودۂ خاک ہے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
اِن آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹّھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اِس خاک کو گل بنا دے!
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے، جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے
جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں اُن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے، اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ہوں روشن!
حسن کوزہ گر ٢
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زورِ مے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا۔۔
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت۔۔
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو میں سوچتا ہوں۔۔
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سرِ بازار، دریچے میں، سرِ بسترِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائیِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوحِ آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ، آئینوں پہ،
پیمانوں پہ، شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ کے آئے گا حسن کوزہ گرِ سوختہ جاں بھی شاید!
اب جو لوٹا ہوں، جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی۔۔
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں میں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا میں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
میں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آ کے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔
کھیل اک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں۔۔
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں۔۔
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)
میرے اس جھونپڑے میں
کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں۔۔
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں کی، تمنّاؤں کی خوشبوئیں بھی،
پھر بھی اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پرا گندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو میں جی اٹھتا ہوں
تو میں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی میں
اور اشیا کے پرستار بھی میں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی میں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے!
اے جہاں زاد
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اک فن کا
ہر اک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
ـ
حسن کوزہ گر ٣
جہان زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیرتے رہے
تو کہہ اٹھی: "حسن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!”
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا میں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا۔
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا۔۔
میں سب سے پہلے "آپ” ہوں
اگر ہمیں ہوں۔۔تو ہو اور میں ہوں۔۔پھر بھی میں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر میں زندہ ہوں تو کیسے "آپ” سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہان زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں "سلجھ” سکا
جو میں کہوں کہ میں "سلجھ” سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں۔۔
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا۔۔
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو میں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے۔۔میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صد نوا و یک نوا خرامِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے ساز گار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
جہان زاد،
ایک تُو اور ایک وہ اور ایک میں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے۔۔
مثلثِ قدیم کو میں توڑ دوں، جو تُو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
میں سیلِ نورِ اندروں سے دھل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے "تو” ہی بن کے رہ گئے
نشاط اس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی۔۔
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیرِ آب و گل سے وہ جدا ہوئے
تو ان کو سمتِ راہ نو کا کامرانیاں ملیں۔۔
(میں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبر؟)
جہان زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دورِ نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گنہ کی لخّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اک انتظارِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آ کے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اتر گیا
تمام رفتہ و گذشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سُست قافلے
مرے دروں میں جاگ اٹھے
مرے دروں میں اک جہانِ باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اٹھی
بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں!
میں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
۔مرے وجود سے بروں۔
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقصِ بے زماں بنے
وہ رویتِ ازل بنے!
حسن کوزہ گر ۴
جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حسن نام کا اک جواں کوزہ گر۔۔اک نئے شہر میں۔۔
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نو جواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں!)
جہاں زاد۔۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے الٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ ان کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کس دھنک سے مرے رنگ آئے۔۔
(مرے اور اس نو جواں کوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خدّ و خال سے
میں نے کوزوں کے چہرے اتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اس کے اسیروں میں ہیں۔۔
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نا رسا کے۔۔
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حسن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!”
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حسن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک!
جہاں زاد میں نے۔۔حسن کوزہ گر نے۔۔
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کے چنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پہنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں۔۔
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حسن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم، ہمہ بے خبر ہم
خدا کی طرح اپنے فن کے خدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پا یاب تو سَر یاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ ان کا
کہاں سے پائے؟
کس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پا یاب تو سر یاب کبھی!)
یہ کوزوں کے لاشے، جو ان کے لیے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ۔۔
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر اک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اک حسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرے، درختوں کی شاخوں کے مانند
اک اور چہرہ پہ جھک کر، ہر انساں کے سینے میں
اک برگِ گل رکھ گیا تھا
اسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!
میرے بھی ہیں کچھ خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے،
پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے،
آلودگیِ گردِ سرِ راہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
اے کاہنِ دانشور و عالی گہر و پیر
تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر
تو نے ہی سجھائی غمِ دلگیر کی تسخیر
ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
اجڑے ہوئے مذہب کے بنا ریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
شیراز کے مجذوبِ تنک جام کے افکار کے نیچے
تہذیبِ نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے!
کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ہوئے نور سے مرعوب
نے حوصلۂ خوب ہے، نے ہمّتِ نا خوب
گو ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی اُنہیں محبوب
ہیں آپ ہی اُس ذات کے جاروب
۔۔ذات سے محجوب
کچھ خواب ہیں جو گردشِ آلات سے جویندۂ تمکین
ہے جن کے لیے بندگیِ قاضیِ حاجات سے اِس دہر کی تزئین
کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تامین
کچھ خواب کہ جن کا ہوسِ جور ہے آئین
دنیا ہے نہ دین!
کچھ خواب ہیں پروردۂ انوار، مگر اُن کی سحر گُم
جس آگ سے اٹھتا ہے محبّت کا خمیر، اُس کے شرر گُم
ہے کُل کی خبر اُن کو مگر جُز کی خبر گم
یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبۂ دیدۂ تر ہیچ
دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ
۔۔عرضِ ہنر ہیچ!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
یہ خواب مرے خواب نہیں ہیں کہ مرے خواب ہیں کچھ اور
کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دَور
خوابوں کے نئے دَور میں نے مور و ملخ نے اسد و ثور
نے لخّتِ تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوسِ جور
۔۔سب کے نئے طور!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
ہر خواب کی سوگند!
ہر چند کہ وہ خواب ہیں سر بستہ و رو بند
سینے میں چھپائے ہوئے گویائیِ دوشیزۂ لب خند
ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند
عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیِ شوق کے مانند
(اے لمحۂ خورسند!)
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
٭٭٭
ماخذ:
/https://seanpue.com/ur/itoohavesomedreams
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں