تفسیر الکتاب میں شامل قرآنی ترجمہ
ترجمہ الکتاب
از قلم
ڈاکٹر محمد عثمان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں …….
ترجمہ الکتاب
(تفسیر الکتاب میں شامل ترجمہ قرآن)
ڈاکٹر محمد عثمان
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
سورۃ ۲: البقرۃ
شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف۔ لام۔ میم۔ یہ وہ کتاب ہے جس (کے کلام الٰہی ہونے) میں کچھ بھی شک نہیں۔ ہدایت ہے متقی انسانوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں بھی) خرچ کرتے ہیں۔ اور (اے پیغمبر) جو (کتاب) تم پر اتری اور جو (کتابیں) تم سے پہلے اتریں ان (سب) پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں۔ جن لوگوں نے (ان باتوں کو ماننے سے) انکار کیا ان کے حق میں یکساں ہے کہ تم ان کو (انکار حق کے نتائج سے) ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ (کبھی) ایمان نہ لائیں گے اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ ۷؏ ۱
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ہرگز مومن نہیں۔ (یہ لوگ اپنے نزدیک) اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لا چکے ہیں دھوکا دینا چاہتے ہیں اور حقیقت میں دھوکا نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو اور (اس بات کو) نہیں سمجھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے سو اللہ نے ان کی بیماری بڑھا دی ہے، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو (تو) کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ یاد رکھو یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھتے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح (اور) لوگ ایمان لائے ہیں تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح احمق ایمان لائے ہیں؟ یاد رکھو (حقیقت میں) یہی لوگ احمق ہیں لیکن نہیں جانتے۔ اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (بھی تو) ایمان لا چکے ہیں۔ اور جب تنہائی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف (مسلمانوں کو) بناتے ہیں۔ اللہ انہیں بناتا ہے اور ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی۔ سو نہ تو ان کی تجارت ہی سود مند ہوئی اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور پھر جب آگ نے اس کے ارد گرد کو روشن کر دیا تو اللہ نے اس کا نور (بصارت) سلب کر لیا اور اس کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ (اب) اسے کچھ نہیں سوجھتا۔ (یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۔ یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے) جیسے آسمانی بارش کہ اس میں اندھیرے ہیں اور گرج اور بجلی۔ وہ کڑک کے سبب (اور) موت کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں اور اللہ منکروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی نگاہوں کو اچک لے جائے، وہ جب ان کے آگے چمکتی ہے تو اس (کی روشنی) میں کچھ (دور) چل لیتے ہیں۔ پھر جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے (کے کھڑے) رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی بصارت اور سماعت سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۲۰ ؏ ۲
لوگو، عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (وہی تو ہے) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنا دیا اور آسمان سے پانی اتارا اور اس سے تمہارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے۔ پس (جب) تم (یہ بات) جانتے (بوجھتے) ہو تو (دوسروں کو) اللہ کا ہمسر نہ ٹھہراؤ۔ اور اگر تم اس (کتاب کی سچائی کے بارے میں) شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو کوئی ایک سورت ہی اس جیسی تم بھی بنا لاؤ اور اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے مقابلے میں بلا لو اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر تم یہ نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور وہ) کافروں کے لئے تیار ہوئی ہے۔ اور (اے پیغمبر) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جب وہاں کا کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو پہلے بھی (کھانے کے لئے) مل چکا ہے اور (یہ اس لئے کہیں گے کہ) ان کے مشابہ پہلے (دنیا میں) ان کو ملے ہوں گے۔ ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغوں) میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن (تعلقات) کو جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ (آخرکار) نقصان اٹھائیں گے۔ (لوگو!) کس طرح تم اللہ کا انکار کر سکتے ہو حالانکہ (پہلے) تم بے جان تھے تو اس نے تم میں جان ڈالی پھر (وہی) تم کو مارتا ہے، پھر (وہی) تم کو (قیامت میں دوبارہ) زندہ کرے گا، پھر اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ وہی تو ہے جس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں، پھر وہ آسمان (کے بنانے) کی طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان ہموار بنا دیئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ۲۹ ؏ ۳
اور (اے پیغمبر! وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں (اپنا) ایک نائب بنانے والا ہوں (تو فرشتے) بولے، کیا تو زمین میں ایسے شخص کو (نائب) بنانا چاہتا ہے جو اس میں فساد برپا کرے اور خونریزیاں کرے؟ تیری حمد (و ثنا) کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا، میں وہ (مصلحتیں) جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (اس کے بعد اللہ نے) آدمؑ کو سب (چیزوں) کے نام بتا دیئے پھر ان (چیزوں) کو فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا ہم کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو۔ وہ بولے، تو پاک (ذات) ہے جو تو نے ہم کو بتا دیا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بیشک تو ہی علم والا (اور) حکمت والا ہے۔ (پھر اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو) حکم دیا کہ اے آدمؑ، تم فرشتوں کو ان (چیزوں) کے نام بتا دو۔ پھر جب آدمؑ نے فرشتوں کو ان (چیزوں) کے نام بتا دیئے تو (اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر) فرمایا، کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں کی اور زمین کی (سب) پوشیدہ چیزیں ہم کو معلوم ہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو اسے بھی ہم جانتے ہیں؟۔ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر میں آ گیا اور نافرمانوں میں سے ہو گیا۔ پھر ہم نے آدمؑ سے کہا، (اے آدمؑ) تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور اس میں جہاں کہیں سے تمہارا جی چاہے با فراغت کھاؤ (پیو) مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم ظالموں میں (شمار) ہو گے۔ پھر (ایسا ہوا کہ) شیطان ان کو (بہلا پھسلا کر) جنت سے ہٹا لے گیا اور جس (مزے) میں تھے اس سے ان کو نکلوا چھوڑا۔ اور ہم نے حکم دیا (تم سب یہاں سے) اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور (اب) زمین میں تمہارے لئے ایک (خاص) مدت تک ٹھکانا اور سامان (زیست) ہے۔ پھر آدمؑ نے اپنے رب سے (معذرت کے) کچھ کلمات سیکھ لئے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ ہم نے حکم دیا کہ تم سب (کے سب) یہاں سے اتر جاؤ پھر اگر تمہیں ہماری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو لوگ ہماری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر (آخرت میں) نہ تو (کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ نافرمانی کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے (اور) وہ ہمیشہ (ہمیشہ) دوزخ میں رہیں گے۔ ۳۹ ؏ ۴
اے بنی اسرائیل ہمارے وہ احسانات یاد کرو جو ہم تم پر کر چکے ہیں اور اس عہد کو پورا کرو جو (تم نے) ہم سے کیا ہے ہم اس عہد کو پورا کریں گے جو (ہم نے) تم سے کیا ہے اور ہم ہی سے ڈرتے رہو۔ اور اس (قرآن) پر ایمان لاؤ جو ہم نے (اب) نازل کیا ہے اور اس (کتاب تورات) کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی (سب سے) پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ بن جاؤ اور ہماری آیات کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچ ڈالو اور ہم ہی سے ڈرتے رہو اور سچ کو جھوٹ کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور جان بوجھ کر حق بات کو نہ چھپاؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (نماز میں) جھکنے والوں کے ساتھ تم بھی جھکا کرو۔ کیا تم (دوسرے) لوگوں سے نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم کتاب (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اور صبر اور نماز کا سہارا پکڑو اور البتہ نماز شاق ہے مگر ان پر نہیں جو عاجزی کرتے ہیں (اور) جو سمجھتے ہیں کہ (آخرکار) وہ اپنے رب سے ملنے والے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ۴۶ ؏ ۵
اے بنی اسرائیل، ہمارے وہ احسانات یاد کرو جو ہم تم پر کر چکے ہیں اور اس بات کو بھی کہ ہم نے تم کو دنیا جہان (کے لوگوں) پر فوقیت دی تھی۔ اور اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی سے معاوضہ لیا جائے گا اور نہ لوگوں کو (کہیں سے) کچھ مدد مل سکے گی۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو سخت ایذا پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا، پھر ہم نے تم کو تو نجات دی اور فرعون والوں کو تمہارے دیکھتے (دیکھتے) غرق کر دیا۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰؑ سے چالیس راتوں والا وعدہ کیا تھا تو تم اس کے پیچھے (پرستش کے لئے) بچھڑے کو لے بیٹھے اور تم (سخت) ظالم تھے۔ مگر اس کے بعد بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (تورات) اور فرقان عطا کی تاکہ تم ہدایت پاؤ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم (کے لوگو) تم نے بچھڑے (کی پرستش) کے اختیار کرنے سے اپنے اوپر (بڑا ہی) ظلم کیا ہے لہذا (اب) اپنے خالق کی جناب میں توبہ کرو اور اپنے اشخاص کو قتل کرو۔ اس میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔ چنانچہ اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا (اور) ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ ہم کھلم کھلا اللہ کو (تم سے کلام کرتا ہوا) نہ دیکھ لیں، اس پر تم کو بجلی نے آ دبوچا اور تم دیکھتے (کے دیکھتے) رہ گئے۔ پھر تمہارے مر جانے کے بعد ہم نے تم کو زندہ کیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور من و سلویٰ بھی اتارا (اور کہا کہ) جو پاک چیزیں ہم نے تم کو دی ہیں انہیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ اس بستی میں (جو تمہارے سامنے ہے) داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ (پیو) اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔ مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے ظالموں نے بدل کر کچھ اور کر دیا تو ہم نے ظلم کرنے والوں پر ان کی نافرمانی کی سزا میں آسمان سے عذاب نازل کیا۔ ۵۹ ؏ ۶
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعا مانگی تو ہم نے کہا کہ (اے موسیٰ) اپنا عصا (فلاں) چٹان پر مارو۔ (عصا کا مارنا تھا کہ) یکایک اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے پانی پینے کی جگہ معلوم کر لی۔ (اس وقت تم سے کہا گیا تھا کہ) اللہ کا دیا ہوا کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے (موسیٰؑ سے) کہا تھا کہ اے موسیٰ، ہم سے تو ایک کھانے پر نہیں رہا جاتا تو اپنے رب سے دعا کرو کہ زمین سے جو چیزیں اگتی ہیں یعنی ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز (وغیرہ جو مصر میں ہم کھایا کرتے تھے) ہمارے لئے پیدا کرے۔ (موسیٰؑ نے) کہا کیا تم لینا چاہتے ہو وہ چیز جو ادنیٰ ہے (یعنی غذا کی لذت) بدلے اس چیز کے جس میں خیر (و برکت) ہے؟ (اچھا تو) کسی شہر میں اتر پڑو کہ جو مانگتے ہو تم کو (وہاں) ملے گا۔ آخر کار ذلت اور محتاجی ان پر مسلط ہو گئی اور اللہ کے غضب میں آ گئے، اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر ڈالتے تھے (اور) یہ اس سبب سے کہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سے بڑھ (بڑھ) جاتے تھے۔ ۶۱ ؏ ۷
بیشک جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لا چکے ہیں (وہ ہوں)، یہودی، عیسائی (ہوں) یا صابی (غرض) جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ان (سب) کے لئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے نہ تو کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے (تورات کی تعمیل کا) اقرار لیا اور طور (پہاڑ) کو تمہارے اوپر بلند کیا (اور کہا کہ کتاب تورات) جو ہم نے تم کو دی ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو اس میں (لکھا) ہے اسے یاد رکھنا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ مگر اس کے بعد تم (اپنے عہد سے) پھر گئے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم ضرور تباہ ہو جاتے۔ اور البتہ تمہیں (اپنی قوم کے) ان لوگوں کا انجام تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ بندر بن جاؤ (کہ جہاں جاؤ) دھتکارے (جاؤ)پھر ہم نے اس واقعہ کو ان لوگوں کے لئے جو اس (واقعہ کے) وقت موجود تھے اور جو اس (واقعہ) کے بعد آئے تھے (موجب) عبرت بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ (موسیٰؑ نے) کہا اللہ مجھے اپنی پناہ میں رکھے کہ میں ایسا نادان بنوں۔ وہ بولے اپنے رب سے ہمارے لئے درخواست کرو کہ ہم کو اچھی طرح سمجھا دے کہ وہ (گائے) کیسی ہو؟ (موسیٰؑ نے) کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، (بس) درمیانی عمر کی ہو۔ لہذا جو تم کو حکم دیا گیا ہے (اس کی تعمیل) کرو۔ وہ بولے اپنے رب سے ہمارے لئے درخواست کرو کہ ہم کو اچھی طرح سمجھا دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ (موسیٰؑ نے) کہا کہ وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے زرد ہو، اس کا رنگ خوب گہرا ہو تاکہ دیکھنے والوں کو بھلی لگے۔ وہ بولے اپنے رب سے ہمارے لئے درخواست کرو کہ ہم کو اچھی طرح سمجھاوے کہ وہ (اور) کیا کیا (صفات رکھتی) ہو۔ ہم کو اس گائے کے بارے میں (قدرے) اشتباہ ہو گیا ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم (اس کا) ٹھیک پتہ لگا لیں گے۔ (موسیٰؑ نے) جواب دیا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے محنت کرنے والی نہ ہو، نہ زمین جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، صحیح سالم ہو، اس میں کسی طرح کا داغ (دھبہ) نہ ہو۔ وہ بولے (ہاں) اب تم ٹھیک (پتہ) لائے ہو۔ غرض انہوں نے اسے ذبح (تو) کیا لیکن وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ ۷۱ ؏ ۸
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا پھر اس (بارے) میں جھگڑنے لگے اور اللہ کو اس کا پردہ فاش کرنا (منظور) تھا جسے تم چھپا رہے تھے۔ پس ہم نے کہا کہ اس (میت) کو اس (گائے) کے کسی حصے سے ضرب لگاؤ۔ اسی طرح (قیامت میں) اللہ مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو پھر اس کے بعد تمہارے دل (ایسے) سخت ہو گئے کہ گویا وہ پتھر ہیں بلکہ (ان سے بھی) سخت تر اور پتھروں میں سے بھی کوئی ایسا ہوتا ہے کہ اس سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور ان میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو پھٹ جاتا ہے اور اس میں سے پانی نکلتا ہے، اور کوئی ان میں سے ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کے خوف سے (لرز کر) گر پڑتا ہے اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ (مسلمانو) کیا تم اس کی توقع رکھتے ہو کہ یہ (یہود) تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہو گزرے ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے تھے، پھر سمجھنے کے بعد دانستہ اس کو کچھ کا کچھ کر دیتے تھے۔ اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لا چکے ہیں اور جب تنہائی میں ایک دوسرے کے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جو کچھ (تورات میں) اللہ نے تم پر ظاہر کیا ہے کیا تم مسلمانوں کو بتا دیتے ہو تاکہ وہ تمہارے خلاف تمہارے رب کے حضور اس کو دلیل کے طور پر پیش کریں؟ تو کیا تم (اتنی بات بھی) نہیں سمجھتے؟ (لیکن) کیا ان لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں؟ اور ان میں (ایسے) ان پڑھ (بھی) ہیں جو کتاب (الٰہی) کا کوئی علم نہیں رکھتے بجز (جھوٹی) آرزوؤں کے اور فقط خیالی تکے چلایا کرتے ہیں پس بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے (شرعی) حکم لکھتے ہیں پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں سے (اترا) ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی قیمت حاصل کر لیں پس خرابی ہے ان کے لئے اس کی بدولت جو وہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں اور خرابی ہے ان کے لئے جو ایسی کمائی کرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ گنتی کے چند روز کے سوا دوزخ کی آگ ہم کو نہ چھوئے گی (اے پیغمبر! ان سے) کہو کہ کیا تم نے اللہ سے اقرار لے لیا ہے کہ اللہ اپنے اقرار کے خلاف کچھ نہیں کرے گا، یا بے جانے بوجھے اللہ پر جھوٹ بولتے ہو؟ البتہ جس کسی نے بھی (اپنے اعمال سے) برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں (اور) وہ ہمیشہ (ہمیشہ) دوزخ ہی میں رہیں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے تو ایسے ہی لوگ جنتی ہیں (اور) وہ ہمیشہ (ہمیشہ) جنت ہی میں رہیں گے۔ ۸۲ ؏ ۹
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، اور والدین سے حسن سلوک (کے ساتھ پیش آنا) اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ (نیک برتاؤ کرنا) اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔ پھر تم میں سے ایک قلیل تعداد کے سوا سب نے (ان احکام سے) رو گردانی کی اور تم لوگ (کچھ) ہو (ہی) رو گردان۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریزی نہ کرنا اور نہ اپنی بستیوں سے اپنے لوگوں کو جلا وطن کرنا پھر تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی یہ بات) تسلیم کرتے ہو۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکال بھی دیتے ہو، ظلم اور زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو اور اگر وہ قید ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو تم ان کو فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو حالانکہ (سرے سے) ان کا نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ تو کیا کتاب (الٰہی) کی بعض باتوں کو تم مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ پھر جو لوگ تم میں سے ایسا کریں ان کا اس کے سوا اور کیا بدلہ ہو سکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں (ان کی ذلت و) رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں اور جو کچھ بھی تم لوگ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مول لی سو (قیامت کے دن) نہ تو ان سے عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ (کہیں سے) ان کو مدد ہی پہنچے گی۔ ۸۶ ؏ ۱۰
اور ہم نے موسیٰؑ کو کتاب (تورات) دی اور اس کے بعد پے در پے (اور) رسول بھیجے اور (بالآخر) عیسیٰؑ ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر (بھیجا) اور روح القدس سے اس کی مدد کی۔ پھر جب تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری اپنی خواہشوں کے خلاف کوئی حکم لے کر آیا تو تم اکڑ بیٹھے پھر بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف (چڑھے ہوئے) ہیں (اور دعوت اسلام ہمارے اوپر کچھ اثر نہیں کر سکتی۔ یہ بات نہیں) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کو پھٹکار دیا ہے پس کم ہی یہ ایمان لاتے ہیں۔ اور اب جو اللہ کی طرف سے ایک کتاب ان کے پاس آئی ہے (اور وہ) اس (کتاب تورات) کی جو ان کے پاس ہے تصدیق بھی کرتی ہے اور اس سے پہلے (اس توقع پر) کافروں کے مقابلے میں یہ (اپنی) فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے تو جب وہی جانی بوجھی ہوئی (بات) سامنے آ گئی تو لگے اس سے انکار کرنے۔ پس منکروں پر اللہ کی پھٹکار! کیا ہی بری چیز ہے جس کے بدلے ان لوگوں نے اپنی جانوں کا سودا کر لیا ہے کہ انکار کر رہے ہیں اس (کتاب) کا جو اللہ نے اتاری ہے (محض) اس ضد کی بنا پر کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہا اپنا فضل نازل کر دیا لہذا وہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے۔ پس کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز پر ایمان لاؤ جو اللہ نے اتاری ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اسی (کتاب) پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی ہے اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے وہ اس سے انکار کرتے ہیں حالانکہ یہ (قرآن) خود (بھی) حق ہے (اور) اس (کتاب) کی بھی تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہے۔ (اے پیغمبر! ان سے یہ تو) پوچھو کہ بھلا اگر تم (اپنی کتاب پر) ایمان رکھنے والے ہو تو اس سے پہلے اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے رہے؟ تمہارے پاس موسیٰؑ روشن نشانیاں لے کر آئے (لیکن) پھر تم ان کے بعد بچھڑے کو (پرستش کے لئے) لے بیٹھے اور (حقیقت یہ ہے کہ) تم ظالم ہو۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے قول و قرار لیا تھا اور (کوہ) طور کو تمہارے اوپر بلند کیا تھا (اور حکم دیا تھا کہ یہ کتاب تورات) جو ہم نے تم کو دی ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور (توجہ سے) سنو۔ بولے، ہم نے سنا تو سہی مگر (دل میں کہا) مانیں گے نہیں اور ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑا ان کے دلوں میں بسا ہوا تھا۔ (اے پیغمبر! ان سے) کہو (کیسی) بری ہے وہ بات جس کا حکم تمہارا ایمان تمہیں دے رہا ہے اگر تم (واقعی) ایمان والے ہو! (اے پیغمبر! ان سے) کہو کہ اگر (تم کہتے ہو کہ) اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر صرف تمہارے ہی لئے ہے، دوسروں کے لئے نہیں اور تم (اس دعویٰ میں) سچے ہو تو (پھر) مرنے کی آرزو کرو مگر ان (اعمال بد) کی وجہ سے جن کو ان کے ہاتھوں نے پہلے سے (زاد آخرت بنا کر) بھیجا ہے یہ کبھی موت کی آرزو نہ کریں گے اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اور (اے پیغمبر!) تم انہیں سب لوگوں سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے یہاں تک کہ مشرکین سے بڑھ کر بھی۔ ان میں سے ایک ایک چاہتا ہے کہ کاش اس کی عمر ہزار برس کی ہو حالانکہ درازی عمر اس کو عذاب سے دور تو نہیں کر سکتی۔ اور جو کچھ بھی یہ لوگ کر رہے ہیں اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ ۹۶ ؏ ۱۱
(اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہو کہ جو کوئی جبرائیل سے عداوت رکھتا ہو (وہ جان لے کہ) اسی (فرشتہ) نے اللہ کے اذن سے یہ (قرآن) تمہارے قلب پر نازل کیا ہے (جو) ان (کتابوں) کی بھی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے (موجود) ہیں اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور خوشخبری ہے۔ جو شخص اللہ کا دشمن ہو اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا تو اللہ بھی ایسے کافروں کا دشمن ہے اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہارے پاس روشن آیتیں نازل کی ہیں اور ان سے کوئی (بھی) انکار نہیں کرتا بجز فاسقوں کے کیا (ایسا نہیں ہے کہ) جب کبھی ان لوگوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے کسی نہ کسی گروہ نے اسے توڑ پھینکا؟ بلکہ ان میں سے اکثر تو ایمان ہی نہیں لاتے۔ اور جب ان کے پاس اللہ کا رسول آیا اس کتاب (تورات) کی تصدیق کرتا ہوا جو ان کے پاس ہے تو (ان) اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو ایسا پیٹھ پیچھے پھینکا گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں۔ اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جن کو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، البتہ شیاطین (ہی) کفر کیا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ اور (اس کے علاوہ وہ لوگ اس علم کے پیچھے پڑے) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا تھا، اور وہ دونوں کسی کو بھی (یہ فن) نہ بتاتے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں سو تم کہیں کفر میں مبتلا نہ ہو جانا۔ مگر لوگ ان سے (ایسی باتیں ضرور) سیکھتے جن کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں حالانکہ اذن الٰہی کے بغیر وہ اس کے ذریعہ سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ غرض یہ لوگ (ان سے ایسی باتیں) سیکھتے جن سے (خود) ان (ہی) کو نقصان پہنچتا اور (کسی طرح کا بھی) فائدہ نہ پہنچتا، باوجودیکہ وہ جان چکے تھے کہ جو شخص اس چیز کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ (کتنی) بری (چیز) تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش ان کو (اتنی) سمجھ ہوتی! اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگار بنتے تو جو ثواب اللہ کے ہاں سے ملتا وہ (اس سے کہیں) بہتر تھا۔ کاش ان کو (اتنی) سمجھ ہوتی! ۱۰۳ ؏ ۱۲
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو راعنا مت کہا کرو بلکہ انظرنا کہو اور (توجہ سے) سنتے رہا کرو اور (یاد رکھو کہ) کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ جو لوگ کافر ہیں (خواہ) اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے وہ (ذرا بھی) پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑا فضل (رکھنے) والا ہے۔ (اے پیغمبر!) ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی دوسری لے آتے ہیں کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے؟ کیا تم کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے اور اللہ کے سوا کوئی تمہارا یارو مددگار نہیں؟ (مسلمانو!) کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے بھی (ویسے ہی) سوالات کرو جیسے سوالات (اب سے) پہلے موسیٰؑ سے کئے جا چکے ہیں؟ اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے تو وہ سیدھے راستہ سے بھٹک گیا۔ (مسلمانو) بہت سے اہل کتاب باوجودیکہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے (پھر بھی) اپنے دلی حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا دیں۔ پس تم عفو اور درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم صادر کر دے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے واسطے آگے بھیجو گے اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ بیشک جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔ اور (یہود) کہتے ہیں کہ یہود (کے سوا) اور نصاریٰ (کہتے ہیں کہ نصاریٰ) کے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا۔ یہ ان کی (نری) آرزوئیں ہیں۔ (اے پیغمبر! ان سے) کہو کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔ ہاں البتہ جس کسی نے بھی اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ نیکو کار بھی ہے تو اس کے لئے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں پر نہ (کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ۱۱۲ ؏ ۱۳
اور یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ نہیں کسی راہ پر، اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی نہیں کسی راہ پر، حالانکہ وہ (دونوں) کتاب (الٰہی) کے پڑھنے والے ہیں۔ اور اسی طرح کی باتیں وہ لوگ بھی کہنے لگے جو (اللہ کے حکم احکام کچھ بھی) نہیں جانتے۔ سو قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان اس کا فیصلہ کر دے گا جس بات میں یہ لوگ جھگڑ رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کی یاد سے منع کرے اور ان کی ویرانی میں کوشاں ہو؟ ایسے لوگ اس لائق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے (ڈرتے)۔ ان کے لئے دنیا میں (بھی) رسوائی ہے اور آخرت میں (بھی) بڑا بھاری عذاب ہے۔ اور اللہ ہی کے ہیں مشرق و مغرب، تو جس طرف بھی تم رخ کرو گے ادھر ہی اللہ کا رخ ہے۔ بیشک اللہ بڑی وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے (حالانکہ) وہ (اس بکھیڑے سے) پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کا وہی موجد ہے، اور جب کسی کام کا کرنا وہ ٹھان لیتا ہے تو اس کی نسبت حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ (مشرکین عرب) جو (کلام الٰہی کا) علم نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ اللہ (خود) ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ان ہی جیسی باتیں وہ لوگ بھی کہا کرتے تھے جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان سب کے دل (کچھ) ایک ہی طرح کے ہیں۔ جو لوگ یقین لانے والے ہیں ان کو تو ہم (اپنی) نشانیاں صاف طور پر دکھا چکے ہیں۔ (اور اے پیغمبر سب سے بڑی نشانی تو یہ ہے کہ) ہم نے تم کو دین حق دے کر (ایمان و عمل کی برکتوں کی) خوشخبری سنانے والا اور (انکار و بد عملی کے نتائج سے) خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور تم سے دوزخ میں جانے والوں کے بارے میں کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ اور (اے پیغمبر!) نہ تو یہودی تم سے راضی ہوں گے اور نہ نصاریٰ تاوقتیکہ تم ان ہی کے مذہب کی پیروی نہ کرو۔ (اے پیغمبر!) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی (اصلی) ہدایت ہے اور (اے پیغمبر!) اگر اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم آ چکا ہے تم ان کی خواہشوں پر چلے تو پھر تم کو اللہ (کے غضب) سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ وہ لوگ اس (قرآن) پر ایمان لے آئیں گے۔ اور جو اس کے منکر ہوں تو وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ۱۲۱ ؏ ۱۴
اے بنی اسرائیل، ہمارے وہ احسانات یاد کرو جو ہم نے تم پر کئے تھے، اور یہ کہ تم کو دنیا جہان کے لوگوں پر فوقیت دی تھی اور اس دن (کے عذاب) سے ڈرو کہ کوئی شخص کسی شخص کے کچھ (بھی) کام نہ آئے گا اور نہ کسی سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا، نہ کسی کی سفارش ہی فائدہ دے گی اور نہ لوگوں کو (کہیں سے) مدد ہی پہنچ سکے گی۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو ارشاد ہوا کہ ہم تم کو لوگوں کا پیشوا بنانے والے ہیں۔ (ابراہیمؑ نے) عرض کیا اور کیا میری نسل سے بھی (یہ وعدہ ہے)؟ فرمایا: ہمارا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور (لوگوں کو حکم دیا تھا کہ) ابراہیمؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ نماز کی جگہ بنا لی جائے اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے (اس) گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) رکھنا اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے دعا مانگی کہ اے میرے رب، تو اس (شہر) کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں ان کو ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔ (اللہ نے) فرمایا: اور جو کفر (کا راستہ اختیار) کرے گا ہم اسے بھی چند دن مزے اٹھانے دیں گے پھر اسے کشاں کشاں عذاب دوزخ میں پہنچائیں گے اور وہ (بہت ہی) برا ٹھکانا ہے۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیمؑ اور اسماعیل خانہ (کعبہ) کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (اور دعائیں مانگتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے رب، ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے بیشک تو ہی (سب کچھ) سننے والا (اور سب کچھ) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا دے، اور ہماری نسل سے ایک جماعت (پیدا کر) جو تیری فرمانبردار ہو اور ہم کو اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بیشک تو توبہ قبول کرنے والا (اور) رحم فرمانے والا ہے۔ اے ہمارے رب، ان میں ایک پیغمبر انہی میں سے بھیج کہ ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب (الٰہی) اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک (صاف) کرے۔ بیشک تو زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ ۱۲۹ ؏ ۱۵
اور کون ہے جو ابراہیمؑ کے طریقے سے انحراف کرے مگر وہی جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اور ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہ) صالحین میں (شامل) ہو گا۔ (اس کا حال یہ تھا کہ) جب اس کے رب نے کہا کہ اطاعت اختیار کر تو وہ پکار اٹھا کہ میں نے رب العالمین کی اطاعت اختیار کی۔ اور اسی (طریقے) کی وصیت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹوں کو اور (پوتے) یعقوب نے (اپنی اولاد کو) کی تھی۔ (اس نے کہا تھا) کہ میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے لہذا مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔ (اے یہودیو) کیا تم (اس وقت) موجود تھے جب یعقوب کے سامنے موت آ کھڑی ہوئی اس وقت اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا، میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود اللہ جو کہ اکیلا ہے کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (بہرحال) یہ ایک امت تھی جو گزر چکی اس کے لئے وہ کچھ تھا جو اس نے (اپنے اعمال سے) کمایا اور تمہارے لئے وہ ہو گا جو تم (اپنے اعمال سے) کماؤ گے اور جو کچھ وہ کرتے رہے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہو گی۔ اور (یہودی و نصرانی مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے (اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہو (نہیں) بلکہ ابراہیمؑ یکسو کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ (مسلمانو) کہو کہ ہم تو اللہ پر ایمان لائے ہیں اور (قرآن پر) جو ہم پر نازل ہوا ہے اور (ان تمام صحیفوں پر) جو ابراہیمؑ اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئے اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور (دوسرے) پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دیئے گئے۔ ہم ان (پیغمبروں) میں سے کسی کے درمیان بھی فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (ایک اللہ) کے فرمانبردار ہیں۔ پھر اگر وہ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو انہوں نے ہدایت پا لی۔ اور اگر انحراف کریں تو (سمجھ لو کہ) وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں۔ تو (اے پیغمبر) تمہاری طرف سے عنقریب اللہ ان سے نبٹ لے گا اور وہ (سب کچھ) سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ (مسلمانو، ان سے کہو کہ ہم تو) اللہ کے رنگ میں (رنگے گئے) ہیں اور اللہ (کے رنگ) سے اور کس کا رنگ بہتر ہو گا؟ اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ (اے پیغمبر! ان سے) کہو، کیا اللہ کے بارے میں تم ہم سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی اور ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، اور ہم خالص اسی کے لئے ہیں کیا تم (یہ) کہتے ہو کہ ابراہیمؑ، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب (سب کے سب) یہودی یا نصرانی تھے؟ (اے پیغمبر! ان سے) پوچھو، تم زیادہ جاننے والے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس اللہ کی ایک شہادت (موجود) ہو اور وہ اسے چھپائے، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ (بہرحال) یہ ایک امت تھی جو گزر چکی، اس کے لئے وہ تھا جو اس نے (اپنے عمل سے) کمایا اور تمہارے لئے وہ ہو گا جو تم (اپنے عمل سے) کماؤ گے، اور جو کچھ وہ کرتے رہے اس کی پوچھ گچھ تم سے نہیں ہو گی۔ ۱۶ ؏ ۱۴۱
نادان لوگ تو ضرور کہیں گے کہ کس چیز نے ان مسلمانوں کو (اس) قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے) تھے؟ (اے پیغمبر!) تم (یہ) جواب دو کہ مشرق اور مغرب (سب) اللہ ہی کے ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے اور اسی طرح تو (اے مسلمانو) ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم (دنیا کے) لوگوں پر گواہ بنو اور تم پر (تمہارا) رسول گواہ بنے۔ اور (اے پیغمبر!) جس قبلے پر تم (پہلے) تھے اسے تو ہم نے اسی لئے رکھا تھا تاکہ ہم ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے الگ کر دیں جو الٹے پھر جانے والے ہیں اور قبلے کا بدلا جانا (سب ہی پر) شاق ہوا مگر ان لوگوں پر نہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کر دے، وہ تو لوگوں پر بڑا ہی شفیق (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ (اے پیغمبر!) تمہارے منہ کا (یہ) بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں سو ہم ضرور تم کو اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جسے تم چاہتے ہو۔ (اچھا) تو اب (نماز پڑھتے وقت) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو۔ اور (اے مسلمانو) تم بھی جہاں کہیں ہو (نماز پڑھتے وقت) اسی کی طرف منہ کر لیا کرو۔ اور یہ اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ (حکم) بر حق ان کے رب کی طرف سے ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ اور (اے پیغمبر!) اگر تم (ان) اہل کتاب کے سامنے کوئی سی نشانی لے آؤ (تو بھی) یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے اور نہ تم ہی ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہو اور نہ وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو یقیناً تم ظالموں میں شمار ہو گے۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو دیدہ دانستہ حق (بات) کو چھپاتا ہے۔ (اے پیغمبر!) یہ تمہارے رب کی طرف سے بر حق ہے لہذا تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا۔ ۱۴۷؏ ۱۷
اور (دیکھو) ہر (گروہ) کے لئے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (نماز پڑھتے وقت) رخ پھیر لیتا ہے پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تم سب کو پالے گا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور (اے پیغمبر!) تم کہیں سے بھی نکلو تو (نماز میں) اپنا منہ (ہمیشہ) مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو اور یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک امر حق ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اور (اے پیغمبر) تم کہیں سے بھی نکلو تو (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہو (نماز میں) اپنا منہ اسی (مسجد حرام) کی طرف کر لیا کرو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے۔ ہاں جو ان میں ظالم ہیں (وہ تو کٹ حجتی کئے ہی جائیں گے) تو ان سے نہ ڈرو بلکہ (صرف) ہم سے ڈرو۔ اور تاکہ ہم اپنی نعمت تم پر پوری کر دیں اور تم ہدایت پا جاؤ۔ (مسلمانو، یہ احسان بھی اسی قسم کا ہے) جیسا ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک (صاف) کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ پس (ان نعمتوں پر) ہمیں یاد کرتے رہو، ہم بھی تم کو یاد کرتے رہیں گے، اور ہمارا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نہ کرو۔ ۱۵۲ ؏ ۱۸
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو جاتے ہیں تو انہیں مردہ نہ کہو۔ نہیں، وہ تو زندہ ہیں لیکن تم (ان کی زندگی کا) شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم تمہاری آزمائش کر کے رہیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور پیداوار کے کچھ نقصان سے اور (اے پیغمبر!) صبر کرنے والوں کو (فتح و کامرانی) کی بشارت دے دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی کوئی مصیبت ان پر آن پڑتی ہے تو بول اٹھتے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایات ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہذا جو کوئی (بیت اللہ کا) حج یا عمرہ کرے تو اس پر ذرا بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان طواف (کے پھیرے) کرے اور جو کوئی خوش دلی سے نیک کام کرے تو اللہ قدردان (اور سب کچھ) جاننے والا ہے۔ جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ ہم نے انہیں لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے (تو یقین کرو کہ) یہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے (بھی) ان پر لعنت کرتے ہیں مگر جنہوں نے توبہ کی اور (اپنی حالت کی) اصلاح کر لی اور (احکام حق کو چھپانے کی جگہ انہیں) بیان کرنے لگے تو ایسے لوگوں کی توبہ ہم قبول کر لیں گے اور ہم بڑے ہی درگزر کرنے والے (اور) رحم فرمانے والے ہیں۔ (لیکن) جن لوگوں نے کفر (کا راستہ اختیار) کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے، ایسے لوگوں پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ وہ ہمیشہ (ہمیشہ کے لئے) اسی (لعنت) میں مبتلا رہیں گے، نہ تو ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ اور (دیکھو، چاہے لوگوں نے اپنے اعتقاد و پرستش کے لئے کتنے ہی معبود بنا لئے ہوں مگر) تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس رحمن و رحیم کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ ۱۶۳ ؏ ۱۹
بلا شبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے سمندر میں چلتی ہیں اور (بارش کے) اس پانی میں جسے اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد جلا اٹھایا اور اس میں طرح طرح کے حیوانات پھیلا دیئے، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں (بڑی ہی) نشانیاں ہیں۔ (مگر توحید کی ان واضح نشانیوں کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہم پلہ بناتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی اللہ سے (رکھنا چاہئے)، حالانکہ اہل ایمان تو (سب سے) بڑھ کر صرف اللہ ہی کو محبوب رکھتے ہیں اور اگر یہ ظالم (اس وقت کو) دیکھ سکتے جب یہ عذاب سے دوچار ہوں گے (تو ان پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی) کہ ہر طرح کی قوت اللہ ہی کو حاصل ہے اور وہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ (جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ) وہ پیشوا جن کی (دنیا میں) پیروی کی جاتی تھی (بجائے اس کے کہ اپنے پیروؤں کے کام آئیں) ان سے بیزاری ظاہر کریں گے کیونکہ وہ عذاب (کی ہولنا کیاں اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیں گے اور ان کے (باہمی) تعلقات (سب) ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ (اس وقت ان کے) پیروکار پکار اٹھیں گے کہ کاش ہمیں (ایک دفعہ دنیا میں) پھر لوٹ کر جانا ملے تو جیسے یہ (آج) ہم سے بیزار ہو گئے اس طرح (کل کو) ہم بھی ان سے بیزار ہو جائیں۔ اس طرح اللہ ان کے اعمال انہیں دکھلا دے گا (جو) ان کے لئے (سرا سر موجب) حسرت (ہوں گے) اور ان کو دوزخ سے نکلنا (کبھی نصیب) نہ ہو گا۔ ۱۶۷ ؏ ۲۰
اے لوگو، زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں (بلا تامل) کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں بدی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور یہ (چاہتا ہے) کہ تم اللہ کے نام پر ایسی باتیں گھڑ لو جن کا کوئی علم تمہارے پاس نہیں ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو (احکام) نازل کئے ہیں ان کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اسی (طریقے) کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے خواہ ان کے باپ دادا (دین کی) کچھ بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں اور نہ (کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) جن لوگوں نے کفر (کا راستہ اختیار) کیا ہے ان کی مثال اس (چروا ہے) کی سی ہے جو (جانوروں کے) پیچھے پکار رہا ہے لیکن وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں اس لئے کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو اگر تم اللہ ہی کی بندگی کا دم بھرتے ہو۔ اس نے تم پر مردار (جانور) اور خون اور سور کا گوشت حرام کیا ہے اور (نیز) وہ (جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ لیکن جو شخص (بھوک سے) بے قرار ہو جائے (جب کہ وہ) حکم عدولی کرنے والا اور حد (ضرورت) سے تجاوز کرنے والا (بھی) نہ ہو تو اس پر (ان چیزوں میں سے کھا لینے کا) کچھ گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ جو لوگ ان احکام کو جو اللہ نے اپنی کتاب (تورات) میں نازل کئے ہیں، چھپاتے ہیں اور اس کے معاوضہ میں (دنیا کی) متاع قلیل خریدتے ہیں (تو یقین کرو) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں اور قیامت کے روز اللہ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لے لی ہے اور مغفرت کے بدلے عذاب (کا سودا کر لیا ہے)، پس کیا ہی (عجیب) ہے ان کا حوصلہ کہ دوزخ کے (عذاب کے) لئے تیار ہیں! یہ اس لئے ہوا کہ اللہ نے تو کتاب (تورات) ٹھیک ٹھیک نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ مخالفت (حق) میں بہت دور (نکل گئے)۔ ۱۷۶ ؏ ۲۱
(مسلمانو!) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لئے یا مغرب کی طرف، بلکہ (اصل) نیکی تو ان لوگوں کی ہے جو اللہ پر، روز آخرت پر، فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیا اور غلاموں کی رہائی پر (خرچ کیا)، اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہے اور جب قول و قرار کر لیا تو اپنے قول کے پورے اور تنگی اور مصیبت اور (حق و باطل کی) جنگ میں صبر کرنے والے (ثابت ہوئے)۔ یہی لوگ ہیں جو (دعویٰ اسلام میں) سچے نکلے اور یہی لوگ متقی ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر مقتولوں کے بارے میں قصاص فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت پھر جس (قاتل) کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی مل جائے تو (مدعی کے لئے) معقول طریقے پر (خون بہا کا) مطالبہ کرنا اور (قاتل کے ذمے) خوش معاملگی کے ساتھ (خوں بہا) ادا کر دینا۔ یہ (قانون دیت) تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور رحمت ہے۔ پھر اس کے بعد جو کوئی زیادتی کرے تو اس کے لئے (آخرت میں) دردناک عذاب ہے۔ عقل و خرد رکھنے والو، قصاص میں تمہاری زندگی ہے، (اور یہ سب کچھ اس لئے ہے) تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔ (مسلمانو!) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ موجود ہو (اور) وہ کچھ مال چھوڑنے والا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لئے معقول طریقے سے وصیت کر جائے۔ (یہ) لازم ہے متقی لوگوں پر۔ پھر جو کوئی وصیت سننے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اس کا گناہ انہی پر ہو گا جو اسے بدل ڈالیں۔ بیشک اللہ (سب کچھ) سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ البتہ جس کو وصیت کرنے والے کی طرف سے بے جا طرف داری کرنے یا کسی گناہ کا اندیشہ ہو اور وہ (معاملے سے تعلق رکھنے والے) لوگوں میں مصالحت کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ ۱۸۲ ؏ ۲۲
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزہ فرض کر دیا گیا جس طرح ان لوگوں پر فرض کر دیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (یہ روزے کے) چند مقررہ دن ہیں، پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو (اس کے لئے اجازت ہے کہ) دوسرے دنوں میں (روزے رکھ کر) گنتی (پوری کر لے) اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں (پھر نہ رکھیں) تو ان کے ذمہ (ایک روزے کا) فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پھر جو کوئی اپنی خوشی سے زیادہ نیکی کرے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا (بہرحال) تمہارے حق میں بہتر ہے۔ (وہ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا (جو) لوگوں کے لئے ہدایت (ہے) اور (اس میں) ہدایت اور (حق و باطل کے) امتیاز کے روشن دلائل (ہیں) پس جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو اس میں روزہ رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزے رکھ کر) گنتی (پوری کرے)۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا اور یہ (چاہتا ہے) کہ تم (روزوں کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ نے جو تم کو راہ راست دکھا دی ہے اس پر اس کی کبریائی (کا اظہار) کرو اور شکر گزار بن کر رہو۔ اور (اے پیغمبر!) جب ہمارے بندے تم سے ہمارے بارے میں دریافت کریں تو (ان کو بتا دو کہ) ہم ان سے قریب ہی ہیں۔ پکارنے والا جب ہمیں پکارتا ہے تو ہم اس کی پکار کا جواب دیتے ہیں۔ پس (لوگوں کو) چاہئے کہ ہمارے احکام قبول کریں اور ہم پر ایمان لائیں تاکہ راہ راست پا لیں۔ (مسلمانو!) روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم تھا کہ تم لوگ (چوری چوری ان کے پاس جا کر) اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے پس اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ سو اب روزوں میں (رات کے وقت) ان سے ہم بستر ہو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اس (کے حاصل کرنے) کی خواہش کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ (رات کی) کالی دھاری سے صبح کی سفید دھاری تم کو صاف دکھائی دینے لگے، پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف کر رہے ہو تو پھر (رات کو بھی) ان سے ہم بستر نہ ہونا۔ یہ اللہ کی (قائم کی ہوئی) حدیں ہیں، سو ان کے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ (اس کے حکم کی خلاف ورزی سے) بچیں۔ اور تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق خورد برد نہ کرو اور نہ اسے حکّام تک پہنچاؤ کہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ جان بوجھ کر ناحق ہضم کر جاؤ۔ ۱۸۸ ؏ ۲۳
(اے پیغمبر!) لوگ تم سے چاند (کی گھٹتی بڑھتی صورتوں) کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ (ان سے) کہو کہ یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کے تعین اور حج کے اوقات ہیں۔ (نیز ان سے کہو کہ) یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ آدمی تقویٰ اختیار کرے۔ لہذا تم گھروں میں (آؤ تو) ان کے دروازوں سے ہی (ہو کر) آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور (مسلمانو!) جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرنا، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور (جو لوگ تم سے لڑتے ہیں) ان کو جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے تم بھی ان کو (وہاں سے) نکال باہر کرو، فتنہ تو قتل سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے نہ لڑو۔ پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان کو (بے تامل) قتل کرو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو بلا شبہ اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اور ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لئے ہو جائے۔ پھر اگر وہ (لڑائی سے) باز آ جائیں تو (جان لو کہ) ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی (روا) نہیں۔ ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور حرمتوں کا بدلہ ہے، تو جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اس پر ویسی ہی دست درازی کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اور اللہ (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے (کی نیت کر لی ہو تو اس کو پورا کرو اور اگر (راہ میں کہیں) گھِر جاؤ تو قربانی (کر دو) جیسی کچھ میسر آئے اور اپنا سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ جائے۔ پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں (کوئی) تکلیف ہو (اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے) تو (اسے چاہئے کہ) فدیہ کے طور پر روزے (رکھے) یا صدقہ (دے) یا قربانی (کرے)۔ ۔ پھر اگر تم امن کی حالت میں ہو تو جو کوئی عمرے کو حج سے ملا کر فائدہ اٹھانا چاہے تو (اس کو) قربانی (کرنی ہو گی) جیسی کچھ میسر آئے اور جس کو (قربانی) میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں (رکھ لے) اور سات روزے واپس آ کر، پورے دس (روزے) ہوئے۔ یہ (رعایت) اس کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مسجد حرام کے قریب نہ رہتے ہوں۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ ۱۹۶ ؏ ۲۴
حج کے مہینے (سب کو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی ٹھان لے تو (حج کے دوران) نہ تو کوئی شہوت کی بات (جائز ہے) نہ کوئی بد عملی (درست ہے) اور نہ لڑائی جھگڑا (زیبا ہے) اور نیکی کا کوئی سا کام بھی تم کرو گے اللہ کو اس کا علم ہو کر رہے گا۔ اور (سفر حج کے لئے) زاد راہ لے لیا کرو اور سب سے بہتر زاد راہ تو تقویٰ ہے پس اے عقل والو، ہم سے ڈرتے رہا کرو۔ (حج کے ساتھ ساتھ) تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو (اس میں) تم پر کچھ گناہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس (ٹھہر کر) اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، اور اس سے پہلے تم یقیناً محض نا واقفوں میں سے تھے۔ پھر جہاں سے (اور) لوگ واپس آتے ہیں وہیں سے تم بھی واپس آؤ اور اللہ سے مغفرت چاہو بیشک اللہ بخشنے والا (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ پھر جب تم اپنے حج کے ارکان پورے کر چکو تو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کے ذکر میں لگ جاتے تھے اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بہت فرق ہے) ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، (جو کچھ) ہمیں (دینا ہے) دنیا ہی میں دے دے۔ ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی ان میں سے ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے عمل کے مطابق (دونوں جہانوں میں) حصہ ملے گا اور اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی۔ اور گنتی کے (ان چند) دنوں میں اللہ کو یاد کرتے رہو پھر جو شخص جلدی کرے اور دو (ہی) دن میں (چل کھڑا ہو) اس پر (بھی) کچھ گناہ نہیں، اور جو دیر تک ٹھہرا رہے اس پر (بھی) کچھ گناہ نہیں۔ (یہ رعایت) اس کے لئے ہے جس میں تقویٰ ہو۔ پس (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (قیامت کے دن) تم (سب) اس کے حضور جمع کئے جاؤ گے۔ اور (اے پیغمبر!) انسانوں میں کوئی (تو) ایسا ہے کہ دنیوی زندگی کے بارے میں اس کی باتیں تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ بدترین دشمن (حق) ہے۔ اور جب (تمہارے پاس سے) لوٹ کر جاتا ہے تو ملک میں دوڑ دھوپ میں رہتا ہے کہ اس میں فساد پھیلائے، اور کھیتی باڑی اور (آدمیوں اور جانوروں کی) نسل کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو نخوت اس کو گناہ پر (اور زیادہ) آمادہ کر دیتی ہے۔ سو ایسے شخص کے لئے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضا جوئی میں اپنی جان (تک) کھپا ڈالتا ہے اور (ایسے) بندوں پر اللہ بڑی ہی شفقت رکھتا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ پھر اگر تم اس کے بعد بھی ڈگمگا گئے جب کہ تمہارے پاس واضح نشانیاں آ چکی ہیں، تو جان رکھو کہ اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ (اگر جو کچھ ان لوگوں کے سامنے آ چکا ہے وہ ان کے ایمان و یقین کے لئے کافی نہیں ہے تو) کیا اب وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کے سائبانوں میں فرشتوں کو ساتھ لئے ان کے سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ اور (آخرکار) سارے معاملات تو اللہ ہی کی طرف رجوع ہونے والے ہیں۔ ۲۱۰؏ ۲۵
(اے پیغمبر! لوگوں کو چاہئے کہ پچھلی امتوں کے واقعات سے عبرت پکڑیں)، بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنی کھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں اور جو کوئی اللہ کی نعمت پانے کے بعد (اسے) بدل ڈالے تو اللہ سخت سزا دیتا ہے۔ جن لوگوں نے کفر (کا راستہ اختیار) کیا ہے ان کی نظر میں دنیا کی زندگی خوشنما بنا دی گئی ہے اور وہ ایمان والوں (کی موجودہ بے سر و سامانی پر ان) کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ جو لوگ متقی ہیں وہ قیامت کے دن ان کے مقابلہ میں بلند مرتبہ ہوں گے۔ (رہا دنیا کا رزق تو) اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ابتدا میں سب لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر (آپس میں لگے اختلاف کرنے تو) اللہ نے پیغمبر بھیجے جو (راست روی پر) خوشخبری دینے والے اور (کج روی کے نتائج سے) ڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ اس نے کتاب بر حق نازل کی تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں (کتاب الٰہی) ان میں ان باتوں کا فیصلہ کر دے، اور (کتاب الٰہی میں) یہ اختلاف آپس کی ضِدّم ضِدّا کی وجہ سے ان لوگوں نے کیا جنہیں وہ ملی تھی باوجودیکہ ان کے پاس واضح ہدایات آ چکی تھیں۔ پھر جو لوگ ایمان لے آئے انہیں اللہ نے اپنے حکم سے اس حق کا راستہ دکھا دیا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (مسلمانو) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ (محض ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے) تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم کو ان لوگوں کی سی حالت پیش نہیں آئی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں اور وہ جھنجھوڑے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد (آخر) کب آئے گی؟ (اس وقت انہیں بشارت دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ (اے پیغمبر!) تم سے (لوگ) پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر (خرچ کرو)، اور جو بھی نیکی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہو گا۔ (مسلمانو!) تم پر (اللہ کی راہ میں) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے اور وہ تم کو ناگوار ہے۔ عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور کیا عجب کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ۲۱۶ ؏ ۲۶
(اے پیغمبر) لوگ تم سے ماہ حرام میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، (ان سے) کہہ دو کہ اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے مگر اللہ کی راہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام میں نہ جانے دینا اور وہاں سے اس کے رہنے والوں کو نکال دینا اللہ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑھ کر (برا) ہے اور فساد (برپا کرنا) قتل سے (بھی) بڑھ کر (برا) ہے اور یہ لوگ تو تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر دیں اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے گا اور کفر ہی کی حالت میں مر جائے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت گئے اور ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ (ہمیشہ) دوزخ ہی میں رہیں گے۔ (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی آس لگائے (بیٹھے) ہیں اور (جو کوئی اللہ کی رحمت کا سچے طریقے پر امیدوار ہو تو) اللہ (بڑا ہی) بخشنے والا (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ (اے پیغمبر! لوگ) تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ ان دونوں (چیزوں) میں بڑا گناہ ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے (کچھ) فائدے بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ (اے پیغمبر! لوگ) تم سے دریافت کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کتنا خرچ کریں؟ (ان سے) کہہ دو کہ جتنا آسان ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو دنیا اور آخرت (کے معاملات) میں۔ (اے پیغمبر! لوگ) تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (ان سے) کہہ دو کہ (جس طرز عمل میں) ان کی اصلاح (اور درستگی ہو وہی) بہتر ہے۔ اور اگر تم اپنا (اور) ان کا خرچ ملا لو تو وہ تمہارے (دینی) بھائی (ہی) ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو مشکل میں ڈال دیتا۔ بیشک اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ (مسلمانو!) تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں کہ مومن لونڈی (ہزار درجہ) بہتر ہے مشرک عورت سے اگرچہ وہ تم کو کیسی ہی بھلی (کیوں نہ) لگے۔ اور اپنی عورتوں کو (بھی) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں کہ ایک مومن غلام بہتر ہے مشرک مرد سے اگرچہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا (کیوں نہ) لگے۔ یہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت و مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنے احکام لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ ۲۲۱ ؏ ۲۷
اور (اے پیغمبر! لوگ) تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ وہ گندگی (کی حالت) ہے، پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو لیں ان کے پاس نہ جاؤ۔ پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جدھر سے اللہ نے تم کو بتایا ہے۔ بیشک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے پاک و صاف رہنے والوں کو۔ تمہاری بیویاں (گویا) تمہاری کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ اور اپنے مستقبل کا بھی سر و سامان کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم کو اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ اور (اے پیغمبر!) جو (تمہاری ہدایات کو) مان لیں انہیں (فلاح و سعادت کی) خوشخبری دے دو۔ اور (مسلمانو) اللہ (کے نام) کو اپنی قسموں کے لئے آڑ نہ بناؤ یہ کہ (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے، پرہیزگاری (کی راہ) اختیار کرنے اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے سے باز رہو اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ تمہاری لغو قسموں پر اللہ تم سے مواخذہ نہ کرے گا لیکن ان (قسموں) پر تم سے (ضرور) مواخذہ کرے گا جو تمہارے دلی ارادے سے ہوں اور اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) بردبار ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھا بیٹھیں ان کو چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے اور اگر طلاق کی ٹھان لیں تو (جان لیں کہ) اللہ (سب کچھ) سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ اپنے آپ کو تین حیض تک (نکاح ثانی سے) روکے رکھیں، اور اگر اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لئے جائز نہیں کہ جو چیز اللہ نے ان کے رحم میں پیدا کر دی ہو اسے چھپائیں۔ اور ان کے شوہر اصلاح حال پر آمادہ ہوں تو اس (مدت کے) دوران وہ ان کو (اپنی زوجیت) میں واپس لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اور (دیکھو) عورتوں کے لئے بھی دستور (شرعی) کے مطابق ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر (ایک گونہ) فضیلت (حاصل) ہے اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ ۲۲۸ ؏ ۲۸
طلاق دو بار ہے، پھر یا تو دستور (شرعی) کے مطابق (عورت کو) روک لینا ہے یا (پھر) حسن سلوک کے ساتھ اسے الگ کر دینا۔ اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ (واپس) لے لو۔ الا ّ یہ کہ زوجین کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی (قائم کی ہوئی) حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ تو ان کے لئے اس میں کچھ گناہ نہ ہو گا اگر بیوی (اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے) بطور معاوضہ کے کچھ دے دے۔ یہ اللہ کی (قائم کی ہوئی) حدود ہیں، سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کریں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر اگر مرد عورت کو (تیسری) طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے بعد اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں (ہو سکتی) جب تک وہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔ پھر اگر دوسرے شوہر نے اس کو (خود اپنی مرضی سے) طلاق دے دی تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ ایک دوسرے کی طرف (پھر) رجوع کر لیں۔ بشرطیکہ دونوں کو توقع ہو کہ اللہ کی (قائم کی ہوئی) حدود پر وہ قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی (قائم کی ہوئی) حدود ہیں جنہیں وہ ان کے لئے بیان کرتا ہے جو (مصالح خانہ داری کو) سمجھتے ہیں۔ اور جب تم نے عورتوں کو (دو بار) طلاق دے دی اور ان کی عدت پوری ہونے کو آئی تو یا انہیں ٹھیک طریقے پر روک لو یا ٹھیک طریقے پر رخصت کر دو اور ان کو ایذا دہی کے لئے نہ روکو کہ یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا تو وہ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا اور اللہ کے احکام کو ہنسی (کھیل) نہ بنا لو اور اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو اور اس کتاب و حکمت کو بھی جو اس نے تم پر نازل کی ہے کہ اس کے ذریعہ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ۲۳۱؏ ۲۹
اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ (عدت کی) مدت پوری کر چکیں، تو تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے (زیر تجویز) شوہروں سے نکاح کر لیں جب کہ وہ معروف طریقے سے آپس میں رضا مند ہو جائیں۔ اس (حکم) کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تم میں سے ہر اس شخص کو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہی تمہارے لئے پاکیزہ تر اور شائستہ (طریقہ) ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اور جو شخص (اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اپنی اولاد کو) پوری مدت رضاعت تک دودھ پلوانا چاہے تو مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں اور جس کا بچہ ہے اس پر دستور کے مطابق ماں کو کھانا کپڑا دینا لازم ہے۔ (نان نفقے کے تعین میں) کسی کو تکلیف نہ دی جائے مگر جہاں تک اس کی گنجائش ہو، نہ تو ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے اور اسی طرح (نان نفقے کا انتظام) وارث کے ذمہ بھی ہے۔ پھر اگر (وقت سے پہلے ماں باپ) دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو (کسی انّا سے) دودھ پلوانا چاہو تب بھی تم پر کچھ گناہ نہیں (بشرطیکہ ماؤں کی حق تلفی نہ ہو اور) جو کچھ تم نے انہیں دستور کے مطابق دینا (طے) کیا تھا (ان کے) حوالہ کر دو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور (اپنے پیچھے) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پھر جب اپنی مدت پوری کر لیں تو جائز طور پر جو کچھ اپنے حق میں کریں اس کا تم (وارثان میت پر) کوئی الزام نہیں اور تم لوگ جو کچھ (بھی) کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ اور تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم ان عورتوں کو (زمانہ عدت میں) پیغام نکاح کے بارے میں کوئی بات اشارۃً کہو یا دل میں چھپائے رکھو، اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تمہیں آئے گا لیکن ان سے (نکاح کا) خفیہ وعدہ نہ کرنا الا یہ کہ کوئی بات مناسب طریقے سے کہہ دو۔ اور عقد نکاح کا عزم اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ میعاد مقررہ اختتام کو نہ پہنچ لے، اور جان لو کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے اللہ (اس کو) خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بخشنے والا (اور) بردبار ہے۔ ۲۳۵ ؏ ۳۰
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی عورتوں کو جنہیں تم نے ہاتھ نہ لگایا ہو اور نہ ان کا مہر مقرر کیا ہو، طلاق دے دو۔ (ہاں ایسی صورت میں) ان کے ساتھ کچھ سلوک کرو، مقدور والا اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق معروف طریقے سے دے۔ اور یہ حق ہے نیک لوگوں پر اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو اور ان کا مہر مقرر کر چکے ہو تو جو کچھ تم نے مہر مقرر کیا تھا اس کا آدھا (دینا) تم پر واجب ہے الا یہ کہ عورت (اپنی خوشی سے) کچھ معاف کر دے یا (مرد) جس کے ہاتھ میں نکاح (کے قائم رکھنے اور توڑنے) کا اختیار ہے رعایت کرے (اور نصف سے زیادہ یا پورا مہر دے دے)۔ اور اگر تم (مرد) درگزر کرو تو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ اور آپس میں احسان اور بھلائی کرنا نہ بھولو۔ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ (مسلمانو) اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو اور (خصوصاً) بیچ والی نماز کی اور اللہ کے آگے عاجز بنے ہوئے کھڑے ہوا کرو۔ پھر اگر تمہیں (دشمن کا) ڈر ہو تو پیدل ہو یا سوار، (جس حالت میں بھی ہو اور جس طرح بھی بن پڑے نماز پڑھ لو) پھر جب تم مطمئن ہو جاؤ تو اللہ کو یاد کیا کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھا دیا ہے (اور) جس کو تم پہلے جانتے نہ تھے۔ اور تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (ان کو چاہئے کہ) اپنی بیویوں کے حق میں ایک برس تک نان و نفقہ (دینے کی) اور (گھر سے) نہ نکالے جانے کی وصیت کر جائیں۔ پھر اگر وہ (اس مدت سے پہلے) خود نکل جائیں تو اپنی ذات کے معاملے میں جو کچھ وہ جائز طریقے پر کریں اس کے لئے تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اور (یاد رکھو کہ) اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ اور (اسی طرح) جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ ۲۴۲ ؏ ۳۱
(اے پیغمبر!) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال) پر نظر نہیں کی جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر کے مارے نکل کھڑے ہوئے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے تو اللہ نے ان سے کہا کہ مر جاؤ، پھر اللہ نے ان کو زندہ کر دیا۔ بیشک اللہ انسان پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (مسلمانو!) اللہ کی راہ میں لڑو اور جانے رہو کہ اللہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ اسے بڑھا چڑھا کر اس کے لئے کئی گنا کر دے؟ اور اللہ ہی تنگی بھی کرتا ہے اور فراخی بھی کرتا ہے اور اسی کی طرف تم (سب) کو لوٹنا ہے۔ (اے پیغمبر!) کیا تم نے سرداران بنی اسرائیل (کے واقعہ) پر نظر نہیں کی جب انہوں نے موسیٰؑ کے بعد اپنے (عہد کے) پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ (پیغمبر نے) کہا اگر تم پر جنگ فرض کر دی جائے تو تم سے کچھ بعید نہیں کہ تم نہ لڑو۔ وہ بولے کہ ہم اپنے گھروں اور اپنے بال بچوں سے تو نکالے جا چکے ہیں تو اب ہمارے لئے کون سا عذر ہے کہ اللہ کی راہ میں نہ لڑیں۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک قلیل تعداد کے سوا باقی سب پھر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے۔ (اس پر) انہوں نے کہا کہ اس کو ہم پر کیونکر حکومت مل سکتی ہے حالانکہ ہم اس سے بڑھ کر حکومت کے مستحق ہیں کہ اس کو تو مال (و دولت) میں بھی کوئی وسعت نہیں دی گئی ہے۔ (پیغمبر نے) کہا کہ اللہ نے تم پر (حکمرانی کے لئے) اسی کو منتخب کیا ہے اور علم و جسم (دونوں) میں اسے (بڑی) فراخی دی ہے اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہے دے اور اللہ بڑی وسعت رکھنے والا (اور سب کچھ) جاننے والا ہے اور (اس کے ساتھ ہی) ان کے پیغمبر نے ان کو یہ بھی بتایا کہ طالوت کے (من جانب اللہ) بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے (سامان) تسکین ہے اور جو (یادگاریں) آل موسیٰؑ اور آل ہارون چھوڑ گئے ہیں۔ اس (صندوق) کو فرشتے لے آئیں گے۔ اگر تم مومن ہو تو یہی ایک نشانی تمہارے لئے (کافی) ہے۔ ۲۴۸ ؏ ۳۲
پھر جب طالوت فوجوں سمیت (اپنے مقام سے) روانہ ہوا تو اس نے (اپنے ہمراہیوں سے) کہا کہ اللہ ایک نہر (کے ذریعہ) سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے تو جو کوئی (سیر ہو کر) اس (نہر) کا پانی پی لے گا وہ ہمارا (آدمی) نہیں اور جو اس کو نہیں پئے گا وہ ہمارا (آدمی) ہے مگر (ہاں) اپنے ہاتھ سے ایک (آدھ) چلو بھر (کر پی) لے (تو کوئی مضائقہ نہیں)۔ مگر ایک قلیل تعداد کے سوا سبھی نے اس (نہر) میں سے (سیر ہو کر) پی لیا۔ پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مومنین نہر کے پار ہو گئے تو انہوں نے (طالوت سے) کہا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کی فوجوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ (اس پر) وہ لوگ جنہیں یقین تھا کہ ان کو (ایک دن) اللہ سے ملنا ہے بول اٹھے کہ بارہا چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے غالب آئی ہے اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جب وہ جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابلے پر نکلے تو انہوں نے دعا کی کہ اے ہمارے رب، ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمارے قدم (میدان جنگ میں) جما دے اور کافروں کی جماعت پر ہم کو فتح دے۔ آخرکار انہوں نے اللہ کے حکم سے دشمنوں کو شکست دی اور جالوت کو داؤد نے قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا کی اور جو کچھ چاہا اسے سکھا دیا، اور اگر اللہ بعض لوگوں کے ذریعے سے بعض کو نہ ہٹاتا رہتا تو (روئے) زمین پر فساد پھیل جاتا لیکن اللہ دنیا جہان کے لوگوں پر بڑا فضل رکھنے والا ہے۔ (اے پیغمبر!) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں اور یقیناً تم پیغمبروں میں سے ہو۔ ان پیغمبروں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے کوئی تو ایسے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے کلام کیا، اور بعض کے درجے (اور طرح پر) بلند کئے، اور مریم کے بیٹے عیسیٰؑ کو روشن دلیلیں عطا کیں، اور روح القدس (جبریل) سے اس کی مدد کی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد آنے والے لوگ آپس میں نہ لڑتے بعد اس کے کہ ان کے پاس (ہدایت کی) روشن تعلیمات پہنچ چکی تھیں لیکن انہوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا، پھر ان میں سے کوئی ایمان لایا اور کوئی کافر رہا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ۲۵۳ ؏ ۳۳
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ (قیامت کا) دن آ جائے جس میں نہ (خرید و) فروخت ہو گی، نہ دوستی (کام آئے گی) اور نہ سفارش (چلے گی) اور (اس حقیقت سے) انکار کرنے والے ہی ظالم ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ حیّ و قیوم ہے ہے، نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کی جناب میں (کسی کی) سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کو پیش (آ رہا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ سب) اس کو معلوم ہے۔ لوگ اس کے علم میں سے کسی بات کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے۔ اِلّا یہ کہ جتنا وہ (خود ہی کسی کو دینا) چاہے۔ اس کا اقتدار (حکومت) آسمانوں اور زمین کی تمام وسعتوں پر چھایا ہوا ہے اور ان کی نگرانی اس کے لئے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے اور وہ بلند مرتبہ (اور) عظمت والا ہے۔ دین (کے بارے) میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے۔ ہدایت (کی راہ) گمراہی سے الگ کر دی گئی ہے، پھر جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (سب کچھ) سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو ایمان لائے، وہ ان کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لاتا ہے، اور جن لوگوں نے کفر (کا راستہ اختیار) کیا ہے، ان کے حمایتی طاغوت ہیں، وہ ان کو)ایمان کی) روشنی سے نکال کر (کفر کی) تاریکیوں میں لے جاتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخی ہیں، ہمیشہ (ہمیشہ) اس میں رہیں گے۔ ۲۵۷ ؏ ۳۴
(اے پیغمبر!) کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر نظر نہیں کی جو صرف اس وجہ سے کہ اللہ نے اس کو سلطنت دے رکھی تھی (گھمنڈ میں آ کر) ابراہیمؑ سے اس کے رب کے بارے میں حجت کرنے لگا۔ جب ابراہیمؑ نے (اس سے) کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو لوگوں کو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں (بھی) زندہ کرتا اور مارتا ہوں ابراہیمؑ نے کہا (اچھا) اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال لا (یہ سن کر) وہ کافر ہکا بکا ہو کر رہ گیا۔ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یا پھر مثال کے طور پر (اس شخص (یعنی عزیر) کے حال پر بھی غور کرو) جو ایک (ایسی) بستی پر سے (ہو کر) گزرا تھا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ (یہ حال دیکھ کر) وہ بول اٹھا کس طرح اللہ اس (آبادی) کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا؟ اس پر اللہ نے اس کو سو سال تک مردہ رکھا، پھر اسے زندہ کیا (اور) پوچھا تم (اس حالت میں) کتنی مدت رہے ہو؟ (اس نے) کہا ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم۔ فرمایا (نہیں) بلکہ تم سو برس (اسی حالت میں) رہے ہو۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی پر نظر ڈالو کہ سڑا (گلا) نہیں اور اپنے گدھے کی طرف نظر کرو (کہ سوائے پنجر کے اس کا کچھ باقی نہیں) اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ تمہیں لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی بنا دیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر کی طرف نظر کرو کہ ہم کس طرح اس کو اٹھا کر اس پر گوشت (و پوست) چڑھاتے ہیں۔ پھر جب اس شخص پر (حقیقت) ظاہر ہو گئی تو وہ بول اٹھا میں جان گیا ہوں کہ یقیناً اللہ ہی ہے (جو) ہر چیز پر قادر ہے۔ اور (اے پیغمبر! وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ابراہیمؑ نے کہا تھا اے میرے رب، مجھے دکھلا دے کہ کس طرح تو (قیامت کے دن) مردوں کو زندہ کرے گا۔ فرمایا کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ (ابراہیمؑ نے) عرض کیا کیوں نہیں، لیکن (بس) دل کا اطمینان درکار ہے۔ فرمایا تو (اچھا) چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ایک ایک پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور خوب جان لے کہ اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ ۲۶۰ ؏ ۳۵
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی (خیرات کی) مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں پیدا ہوئیں (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں۔ (اسی طرح) اللہ جس کو چاہتا ہے بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا (اور سب کچھ) جاننے والا ہے۔ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد احسان نہیں جتاتے اور نہ (لینے والوں کو) دکھ دیتے ہیں۔ ان (کے عمل) کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور (آخرت میں) نہ تو ان پر (کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ایک اچھا بول اور (سائل کے اصرار سے) درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔ اور اللہ بے نیاز (اور) بردبار ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور (سائل کو) دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔ اس (خیرات) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان (تھی) جس پر مٹی (کی ایک تہہ جمی ہوئی) تھی۔ پھر اس پر زور کی بارش ہوئی تو (مٹی کی ساری تہہ بہ گئی اور) چٹان کو سپاٹ چھوڑ گئی۔ ایسے لوگ (اپنے نزدیک خیرات کر کے) جو (نیکی) کماتے ہیں اس سے کچھ بھی حاصل نہ کر سکیں گے، اور اللہ کفران نعمت کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (برخلاف اس کے) جو لوگ اللہ کی رضا جوئی کے لئے دل کے پورے ثبات کے ساتھ اپنے مال خرچ کرتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ جو اونچی جگہ پر (واقع) ہو، اس پر زور کی بارش ہوئی تو دوگنا پھل لایا اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہوئی تو (اس کو) ہلکی پھوار (ہی کافی ہے)۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی شخص بھی یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، اس میں نہریں بہہ رہی ہوں، ہر طرح کے پھل اس کو وہاں میسر ہوں اور بڑھاپے نے اس شخص کو آ لیا ہو اور اس کی اولاد (ابھی) ناتواں ہو اور (اچانک) اس (باغ) پر ایک جھلستی ہوئی آندھی چل جائے اور (آناً فاناً) وہ باغ جھلس کر رہ جائے؟ اس طرح اللہ (اپنی) نشانیاں کھول کھول کر تمہارے لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم (غور و) فکر کرو۔ ۲۶۶ ؏ ۳۶
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ تم نے (محنت مزدوری یا تجارت سے) کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو اور ناکارہ چیز (کے دینے) کا ارادہ بھی نہ کرنا کہ (اللہ کی راہ میں) اس میں سے دینے لگو، حالانکہ (وہی چیز اگر کوئی دوسرا تمہیں دینا چاہے تو) تم اس کو (کبھی خوش دلی سے) نہ لو گے مگر یہ کہ (دیدہ و دانستہ) اس (کے لینے) میں چشم پوشی کر جاؤ اور جان لو کہ اللہ بے نیاز اور سب خوبیوں والا ہے۔ شیطان تم کو مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے مگر اللہ تمہیں اپنی طرف سے مغفرت اور فضل (و کرم) کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا (اور سب کچھ) جاننے والا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت مل گئی تو اس نے بہت بڑی بھلائی پا لی اور نصیحت تو وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو دانشمند ہیں۔ اور (دیکھو، خیرات کی قسم میں سے) تم جو کچھ بھی خرچ کرو یا کوئی نذر مانو وہ سب اللہ کو معلوم ہے، اور (یاد رکھو کہ) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اگر تم کھلے طور پر خیرات کرو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر اس کو چھپا کر محتاجوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ یہ (عمل) تمہارے گناہوں کو تم سے دور کر دے گا۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (اے پیغمبر!) لوگوں کو راہ راست پر لانا تمہارے ذمے نہیں، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے (اور ہدایت اسی کو دیتا ہے جو ہدایت کا طالب ہے) اور اپنے مال میں سے جو کچھ بھی (خیرات کے طور پر) تم لوگ خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے (فائدہ کے) لئے ہے۔ آخر تم اللہ ہی کی رضا جوئی کے لئے تو خرچ کرتے ہو۔ اور (اپنے) مال میں سے جو کچھ بھی (اللہ کی راہ میں) تم خرچ کرو گے (آخرت میں) اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہو گی۔ (خیرات تو) ان حاجت مندوں کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں گھرے بیٹھے ہیں، انہیں یہ طاقت نہیں کہ (کسب معاش کے لئے) زمین میں دوڑ دھوپ کریں۔ ان کی خود داری کی وجہ سے ناواقف آدمی انہیں خوش حال سمجھتا ہے۔ تم ان کے چہروں سے ان کی حالت پہچان سکتے ہو۔ وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر نہیں مانگتے اور جو کچھ مال تم (ایسے لوگوں پر) خرچ کرو گے تو (یقین رکھو کہ) اللہ اس کا خوب جاننے والا ہے۔ ۲۷۳ ؏ ۳۷
جو لوگ شب و روز پوشیدہ (طور پر) اور کھلے (طور پر) اپنے مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور (قیامت میں) ان پر نہ تو (کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (مگر) جو لوگ (حاجت مندوں کی مدد کرنے کے بجائے الٹا ان سے) سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) کھڑے نہ ہو سکیں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو۔ ان کا یہ حال اس وجہ سے ہو گا کہ انہوں نے (سود کے ناجائز ہونے سے انکار کیا اور) کہا کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے، اور سود کو حرام۔ سو جس کسی کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ (آئندہ کے لئے سود لینے سے) باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہو چکا ہے وہ اس کا رہا۔ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو کوئی (اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کا) اعادہ کرے تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں اور وہ دوزخ میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔ اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ (ہاں مگر) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے اور جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر (آخرت میں) نہ تو کسی قسم کا خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم (واقعی) ایمان والے ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کرتے ہو تو پھر اصل اموال تمہارے ہی ہیں۔ نہ تو تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اور اگر (مقروض) تنگ دست ہے تو (اس کے لئے) فراخی حاصل ہونے تک مہلت ہے اور (اگر) معاف کر دو تو تمہارے لئے یہ زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ اور اس دن (کی پرسش) سے ڈرو جبکہ تم (سب) اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص نے اپنے عمل سے جو کچھ کمایا ہے اس کا پورا پورا بدلہ اسے مل جائے گا اور لوگوں پر (ذرہ بھر) ظلم نہ ہو گا۔ ۲۸۳ ؏ ۳۸
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم مقررہ مدت کے لئے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور تمہارے درمیان ایک کاتب (ہو جو) انصاف کے ساتھ (دستاویز) قلمبند کرے اور کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جس طرح اللہ نے اسے (لکھنا پڑھنا) سکھایا ہے (اس طرح) اسے بھی چاہئے کہ (بے عذر) لکھ دے، اور املا وہ شخص کرائے جس کے ذمہ حق واجب ہے اور (ایسا کرتے ہوئے) وہ اپنے رب سے ڈرے اور کسی طرح کی کمی بیشی نہ کرے۔ پھر اگر وہ جس پر حق واجب ہے کم عقل یا ناتواں ہو یا املا نہ کرا سکتا ہو تو (اس صورت میں) اس کا مختار کار انصاف کے ساتھ املا کرائے۔ پھر اپنے آدمیوں میں سے دو آدمی (اس پر) گواہ کر لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہ کرنا پسند کرو، کہ اگر ایک (عورت) بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔ اور جب گواہ (شہادت کے لئے) بلائے جائیں تو وہ (گواہی دینے سے) انکار نہ کریں۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں تساہل نہ کرو۔ یہ (طریقہ) اللہ کے نزدیک تمہارے لئے انصاف کا زیادہ قائم رکھنے والا اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قرین (قیاس) ہے کہ تم شک (و شبہ) میں نہ پڑو۔ ہاں جو تجارتی لین دین تم دست بدست کرتے ہو تو اس (کی دستاویز) کے نہ لکھنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور جب (اس طرح کی) خرید و فروخت کرو تو (احتیاطاً) گواہ کر لیا کرو۔ اور کاتب اور گواہ کو (کسی قسم کی) تکلیف نہ دی جائے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہارے حق میں گناہ کی بات ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، وہ تمہیں (حکمت کی باتیں) سکھاتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے (اور قرض لینا ہو) تو کوئی چیز رہن رکھ کر اس کا قبضہ (قرض دینے والے کو) دے دیا جائے۔ پھر اگر تم میں سے ایک دوسرے کا اعتبار کرے (اور بے رہن قرض دیدے) تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے اس کو چاہئے کہ امانت ادا کرے اور اپنے رب اللہ سے ڈرے۔ اور (دیکھو!) گواہی نہ چھپاؤ اور جو اس کو چھپائے گا تو اس کا دل گنہگار ہو گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ ۲۸۳ ؏ ۳۹
(لوگو!) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کا ہے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم اسے ظاہر کرو یا چھپائے رکھو اللہ (بہرحال) اس کا حساب تم سے لے لے گا۔ پھر جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (اللہ کا) رسول اس (کلام) پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوا ہے اور مومنین (بھی)۔ یہ (سب کے) سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں باہم کوئی فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں (کہ اے ہمارے رب!) ہم نے (تیرا حکم) سنا اور تسلیم کیا۔ اے ہمارے رب، تیری مغفرت (ہمیں مطلوب ہے) اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔ اللہ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اسی قدر جس (کے اٹھانے) کی اس کو طاقت ہو۔ جس نے اچھے کام کئے تو (ان کا فائدہ بھی) اس کے لئے اور جس نے برے کام کئے (ان کا وبال بھی) اسی پر ہے۔ (پس اے اہل ایمان، تم یوں دعا کیا کرو کہ) اے ہمارے رب، اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو (ان گناہوں پر) ہماری گرفت نہ فرما۔ اور اے ہمارے رب، ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ اور اے ہمارے رب، ایسا بوجھ ہم سے نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے اور ہمارے قصوروں سے درگزر فرما اور ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے، پس کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ ۲۸۶ ؏ ۴۰
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں