ہند و پاک اور کشمیر کے مسائل کسے متعلق ایک نیا نظریہ
آخر کب تک؟
ڈرامہ
مصنف:
امجد علی راجا
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں …..
آخر کب تک؟
ڈرامہ
امجد علی راجا
ڈرامہ کا مقصد
اس کہانی کا مقصد انٹرنیشنل کمیونیٹی اور ہیومن رائیٹس کی توجہ پاکستانی، ہندوستانی اور کشمیری قوموں کی حالتِ زار کی طرف مبذول کرانا ہے، پاکستان اور ہندوستان کی عوام کو یہ شعور دینا ہے کہ پاک ہند دشمنی دونوں ممالک کی عوام کی خوشحالی اور ملکی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اپنے اقتدار اور بالا دستی کی بقا کی غرض سے دونوں قوموں کو ترقی اور خوشحالی سے دور رکھنے کے لئے اس دشمنی کو نہ صرف بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاتا رہا ہے بلکہ اس دشمنی کو استحکام دینے کے لئے مظلوم کشمیری قوم کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔
اگر دونوں ممالک کی عوام کو اپنی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی عزیز ہے تو انہیں اپنی اپنی حکومتوں کو مسئلۂ کشمیر کے حل کی طرف دھکیلنا ہوگا تاکہ پاک ہند دشمنی کی سب سے اہم وجہ کو ختم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے "تین قومی نظریہ” پیش کیا جا رہا ہے۔
کہانی کے کردار
- جج ’’انسانی عدالت‘‘ کا جج، جس کی عمر 50 سے 60 سال ہے۔ سنجیدہ مزاج، بات کو بغور سننے والا اور بات کی گہرائی تک پہنچنے والا لیکن اس کے چہرے کے تأثرات سے معلوم ہی نہیں پڑتا کہ اسے کون سی بات ٹھیک لگ رہی ہے اور کون سی غلط۔
- وکیل 25 سے 30 سال کی خاتون جو ہیومن رائیٹس کی حیثیت سے عدالت میں 3 قوموں کا مقدمہ پیش کرتی ہے اور انہیں حقائق سے آگاہ کر کے نہ صرف ان کی آنکھیں کھولتی ہے بلکہ ان کے حقوق کی جنگ بھی لڑتی ہے۔
- پاکستانی 30 سے 40 سال کی عمر کا مرد جو بطور پاکستانی قوم عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ تقسیمِ ہندوستان کے بعد ہونے والے خون ریز واقعات کی وجہ سے ہندوستانی قوم سے نفرت اس کے ایمان کا حصہ بن چکی ہے اور اس نفرت کو قائم رکھنا اپنی مذہبی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری سمجھتا ہے۔
- ہندوستانی 30 سے 40 سال کی عمر کا مرد جو بطور ہندوستانی قوم عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ تقسیمِ ہندوستان اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خون ریز واقعات کا ذمہ دار صرف اور صرف پاکستانی قوم کو مانتا ہے اس لئے پاکستانی قوم سے نفرت اس کی رگ رگ میں دوڑتی ہے۔
- پاکستانی وزیر 40 سے 45 سال کی عمر کا مرد جو بطور پاکستانی حکومت عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ ہندوستانی نیتاؤں کی طرح یہ بھی اپنے ذاتی مفادات کی خاطر عوام کو قربان کرنے کا عادی ہے اور پاکستانی قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے پاکستان ہندوستان دشمنی کو استعمال کرتا ہے۔
- ہندوستانی منتری 40 سے 45 سال کی عمر کا سانولے رنگ کا مرد جو بطور ہندوستانی حکومت عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ اپنی سیاسی ساکھ اور حکومت بچانے کی خاطر عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے انہیں مذہبی، معاشی معاملات اور پاکستان سے دشمنی میں الجھائے رکھتا ہے۔
- مولوی صاحب جعلی مسلمان مولوی۔ جو دینِ اسلام کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے دور رکھ کر فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ ہندو پاک دشمنی کو فروغ دیتا ہے تا کہ اس کی دکان چلتی رہے۔
- پنڈت ہندو دھرم کا جعلی پیشوا۔ جو مذہب کے نام پر اپنی دکان سجائے بیٹھا ہے اور ہندوستانی سیاستدانوں کے مفاد کے لئے کام کرتا ہے۔
- پاکستانی فوجی بطور پاکستانی فوج۔ مضبوط اور توانا جسم، با رعب چہرہ، تلوار جیسی مونچھیں۔ ہندوستانی فوج کو دیکھتے ہیں گردن میں اکڑ آ جاتی ہے اور سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔ ملک کی حفاظت کے لئے جان دینے اور لینے کو ہر وقت تیار اور قوم کی حفاظت کے لئے حکومت تک سے ٹکرانے کا حوصلہ۔
- ہندوستانی فوجی 40 سے 50 سال کی عمر کا مرد بطور ہندوستانی فوج۔ گردن میں تناؤ، با رعب چہرہ، مضبوط جسم لیکن کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کر کر کے اس کے چہرے سے نحوست ٹپک رہی ہے۔ چہرہ ہر وقت کرخت رہتا ہے لیکن جب کشمیر سے با عزت طریقے سے جانے کی صورت نظر آتی ہے تو چہرے کے تأثرات بدل جاتے ہیں۔
- کشمیر زیرِ انتظام ہند، بطور کشمیری قوم جو ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں رہتے ہیں۔ ہندوستانی فوج کے ظلم و ستم سے پریشان قوم، جو کم وسائل کے باوجود اپنی قوم کو ہندوستان کے تسلط سے آزاد کرانے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں۔
- کشمیر زیر انتظام پاک، بطور کشمیری قوم جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں رہتے ہیں۔
- پنڈت کا چیلا ہر وقت پنڈت کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہتا ہے، جہاں پنڈت بیٹھا ہو وہاں زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔ عدالت میں پنڈت کی کرسی کے پیچھے والی کرسی پر بیٹھا رہتا ہے۔
- مولوی کا مرید ۔ جو ہمہ وقت خدمت میں حاضر رہتا ہے۔ مولوی صاحب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتا۔ عدالت میں مولوی کی کرسی کے پیچھے والی کرسی پر بیٹھا رہتا ہے۔
- دربان عدالت کا انتظامی عملہ جس کا کام آواز لگا کر جج کے آنے جانے کی اطلاع دینا اور ملزمان کو حاضر کرنا ہے۔
[منظر: ’’انسانی عدالت‘‘ کا منظر۔ جج کی کرسی کے پیچھے "انسانی عدالت” لکھا ہوا ہے۔ ساتھ ہی دنیا کے بیشتر ممالک کے جھنڈے آویزاں ہیں۔
سامنے عوام کے بیٹھنے کی جگہ پر ایک طرف بوسیدہ لیکن صاف کپڑوں میں ملبوس پریشان حال پاکستانی بیٹھا ہے جس کے ساتھ ایک سیاسی رہنما، ایک مولوی اور ایک اعلیٰ فوجی افسر بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب ایک پریشان حال ہندوستانی پرانے لیکن صاف کپڑوں میں بیٹھا ہے، جس کے ساتھ ایک منتری، ایک پنڈت اور ایک اعلیٰ فوجی افسر بیٹھے ہیں۔
وکلاء کی دو میزوں کی بجائے ایک ہی میز رکھی ہوئی ہے جس پر ایک ہی وکیل بیٹھی ہے۔
جج کمرۂ عدالت میں داخل ہوتا ہے۔
All Rise کی آواز کے ساتھ سب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جج اپنی کرسی پر بیٹھ کر نظر کا چشمہ لگاتے ہوئے سامنے پڑی فائل کھولتا ہے اور چند سطور پڑھنے کے بعد اپنا چشمہ اتار کر فائل کے اوپر ہی رکھ دیتا ہے۔]
جج: عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔
وکیل ہیومن رائیٹس آگے بڑھ کر عدالت کے روبرو کھڑی ہو جاتی ہے۔
ہیومن رائیٹس: انسان، قدرت کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے اور سب سے عجیب بھی، جو قدرت کے لئے کبھی فخر کا باعث بنتا ہے تو کبھی افسوس کا۔ یہ خود حاکم بھی ہے محکوم بھی، یہ خود ظالم بھی ہے مظلوم بھی، یہ خود جہالت بھی ہے شعور بھی، یہ خود تاریکی بھی ہے اور نور بھی۔
(جج صاحب پوری توجہ سے ہیومن رائیٹس کی باتیں سن رہا ہے)
میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کی فلاح و بہبود کے راستے کی ہر رکاوٹ کو نہ صرف منظرِ عام پر لایا جائے بلکہ اس کے خاطرخواہ حل کی بھرپور کوشش بھی کی جائے۔
جج: ہیومن رائیٹس، عدالت آپ کی بیش قیمت خدمات کا اعتراف کرتی ہے اور آپ کے جذبے کی قدر کرتی ہے۔
ہیومن رائیٹس: میں انسانی عدالت کی شکرگزار ہوں۔ آج میں دو ایسی اقوام کو عدالت کے روبرو پیش کرنے کی اجازت چاہتی ہوں جو بیک وقت ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی۔
جج: اجازت ہے۔
دربان: پاکستانی قوم اور ہندوستانی قوم حاضر ہو۔
پاکستانی اور ہندوستانی اپنی اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں، گھبرائے ہوئے، ہچکچاتے ہوئے . ہندوستانی قوم کو منتری، پنڈت اور فوجی افسر کھڑے ہو کر حوصلہ دیتے ہیں۔
منتری: ڈرنا مت، پوری ہندوستانی قوم تمہارے ساتھ ہے۔ بس ایک بات یاد رکھنا سامنے پاکستانی قوم ہے، تمہاری دشمن، جس کا مقصد دنیا سے تمہارا نام و نشان مٹا دینا ہے۔
پنڈت: یاد رکھنا ہم ہندو دھرم کے رکشک ہیں، اور یہ پاکستانی قوم ہندو دھرم کی سب سے بڑی دشمن، اسے موقع ملے تو یہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ ہندو دھرم کا بھی سروناش کر دے۔ دکھا دو آج اس مسلمان قوم کو کہ ہندو قوم اپنے دھرم کی رکشا کرنا جانتی ہے۔
(ہندوستانی قوم پنڈت کے پاؤں چھو کر آشیرواد لیتا ہے اور کٹہرے کی طرف بڑھ جاتا ہے)
(دوسری جانب پاکستانی قوم کو وزیر، مولوی اور فوجی کھڑے ہو کر حوصلہ دیتے ہیں)
وزیر: دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ ایک غیرت مند قوم سے بات کر رہا ہے۔ ڈرنا مت، پوری قوم تمہارے ساتھ ہے۔
مولوی: (کندھے پر ہاتھ رکھ کر پھونک مارتا ہے) میری مسلمان قوم، تمہارے لئے بہت خوش نصیبی کی بات ہے کہ آج ہندوستانی قوم تمہارے سامنے ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رضا کے لئے مٹا دو اس قوم کو صفحۂ ہستی سے اور بن جاؤ جنت کی حقدار۔ جاؤ میری مسلمان قوم، تمہیں جنت کی بشارت ہے۔
(پاکستانی قوم اور ہندوستانی قوم ایک دوسرے کو نفرت بھری نظروں سے گھورتے ہوئے آمنے سامنے کے کٹہرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں)
ہندوستانی: گھور کیا رہا بے۔ آنکھیں نکال کر کتوں کو ڈال دوں گا۔
(ہندوستانی فوجی، منتری اور پنڈت اسے فخر سے دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں)
پاکستانی: کتوں کو ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، خود کھا لینا، ایک ہی بات ہے۔
(پاکستانی فوجی، وزیر اور مولوی اسے فخر سے دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں کہ ٹھیک جواب دیا)
ہندوستانی: (غصے میں کٹہرے سے نکلتے ہوئے) سالے، تو نے مجھے کتا کہا، آ جا پھر تجھے کاٹ کے بھی دکھاتا ہوں۔
پاکستانی: (آستینیں چڑھاتے ہوئے) آ جا بیٹا، جبڑوں سے پونچھ تک پھاڑ نہ دیا تو میرا نام بدل دینا۔
جج: آرڈر آرڈر، عدالت کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔
ہندوستانی: کیا جج صاحب، ہم بولیں تو آرڈر آرڈر، اس پاکستانی قوم کو بھی سمجھاؤ کہ اپنی اوقات میں رہے۔
پاکستانی: ابے اوئے ہندوستانی قوم، جہاں پر تیری اوقات ختم ہوتی ہے وہاں سے ہماری اوقات شروع ہوتی ہے، سمجھا؟
جج: آرڈر آرڈر، (دونوں قوموں کے نمائندوں سے) اپنی اپنی قوم کو سنبھالیں ورنہ عدالت سختی سے پیش آئے گی۔
منتری: ہماری قوم کسی سے ڈرنے والی نہیں مہاراج اور نہ ہی ہم چپ ہو کر بیٹھنے والوں میں سے ہیں۔
وزیر: ہماری قوم نے بھی کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں منتری صاحب، اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔
جج صاحب: عدالت کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے، سب لوگ اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔
(سب غصیلی انداز میں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور ہندوستانی واپس کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے)
ہیومن رائیٹس: (پاکستانی قوم سے) اتنی نفرت؟ کیا وجہ ہے اس نفرت کی؟
پاکستانی: وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ اس ہندوستانی قوم نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔
ہندوستانی: تو کیوں تسلیم کریں ہم ایک ایسے دیش کو جو ہمارے ہندوستان کو توڑ کر بنایا گیا۔
پاکستانی: تم ساری زندگی اسی بات کو روتے رہنا، توڑ کر بنایا گیا۔ ہاں توڑا ہے ہم نے ہندوستان کو، ہم میں جرأت تھی تو ہم نے ہندوستان کو توڑا، تم میں جرأت ہے تو توڑ کے دکھاؤ پاکستان کو۔
ہندوستانی: بیٹا، ہم تو وہ حال کریں گے کہ آنے والے وقت میں تاریخ کے پنوں پر لکھا ہو گا، ایک پاکستان ہوا کرتا تھا۔
(ہندوستانی نمائندے خوش ہو جاتے ہیں)
پاکستانی: غصے سے پاگل ہو جاتا ہے اور کٹہرے سے باہر نکل آتا ہے)
حرامزادے، کمینے، میں تیرا وہ حال کروں گا کہ تاریخ میں اس بات کا ذکر تک نہیں ہو گا کہ ایک ہندوستان ہوا کرتا تھا۔
وزیر: مارو، مارو، چھوڑنا مت پاکستان کے دشمن کو۔
(ہیومن رائیٹس سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے)
جج: آرڈر آرڈر
پاکستانی: آپ سامنے سے ہٹ جائیں میڈم جی، آج اس کافر کو واصلِ جہنم کر کے رہوں گا۔
ہیومن رائیٹس: اس قوم میں 17 کروڑ سے زیادہ مسلمان بھی ہیں، کیا انہیں بھی واصلِ جہنم کرو گے؟
(پاکستانی قوم حیران نظروں سے ہیومن رائیٹس کو دیکھتا ہے، پھر سر جھکا کر واپس کٹہرے میں لوٹ جاتا ہے)
ہیومن رائیٹس: (ہندوستانی قوم سے) تمہاری کیا دشمنی ہے پاکستانی قوم سے؟
ہندوستانی: اس قوم نے اپنے دو قومی نظریئے کو بنیاد بنا کر ہمارے اکھنڈ بھارت کے دو ٹکڑے کیئے۔
ہیومن رائیٹس: اگر چھوٹا بھائی اپنے بال بچے کے لئے اپنے گھر میں ایک کمرہ علیحدہ کر لے تو کیا اسے قتل کر دیا جاتا ہے؟
ہندوستانی: (چند لمحے کے لئے سوچ میں پڑ جاتا ہے) لیکن گھر کا بٹوارا تو ہو گیا نا۔
ہیومن رائیٹس: یہ کوئی اتنا بھی بڑا جرم نہیں جسے نسل در نسل یاد رکھا جائے۔
ہندوستانی: بات صرف بٹوارے کی ہوتی تو شاید ہم اس بے وقوفی کے لئے معاف بھی کر دیتے۔ لیکن اس بٹوارے کو لے کر ہماری قوم کا جو قتلِ عام ہوا، اس کے لئے ہماری نسلیں بھی انہیں معاف نہیں کریں گی۔
پاکستانی: تو کیا تمہاری قوم نے ہماری قوم کا قتلِ عام نہیں کیا؟
ہندوستانی: آغاز تمہاری قوم نے کیا۔ ہماری قوم کو بٹوارے پر مجبور کرنے کے لئے۔
پاکستانی: ہم تو اپنا گھر بار، زمین جائیداد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے خانہ بدوش ہو چکے تھے، بے بسی اور لاچاری کے عالم میں پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ ایک مسافر قوم کیا قتلِ عام کرے گی۔ ہم نے تو صرف بٹوارہ چاہا تھا، تا کہ دونوں قومیں تصادم کی بجائے اپنی اپنی تعلیمات اور کلچر کے مطابق زندگی بسر کریں لیکن تم اس بات کو سمجھنے کی بجائے انتقام پر اتر آئے اور ہماری قوم کا قتلِ عام شروع کر دیا۔
منتری: ہماری قوم نے اپنے پرکھوں کو کھویا ہے اور اس کے لئے ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔
وزیر: ہم نے بھی اپنے اسلاف سے ہاتھ دھوئے ہیں، ہماری قوم بھی تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
ہیومن رائیٹس: دو جذباتی قوموں کو صلح کی ترغیب دینے کی بجائے انتقام پر اکسا کر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں آپ؟
وزیر: یہ سیاست کی نہیں اپنے اسلاف کا انتقام لینے کی بات ہے؟
منتری: انتقام تو ہم لیں گے ایک ایک قتل کا انتقام۔
ہیومن رائیٹس: کس سے لیں گے انتقام؟ جنہوں نے قتل کیئے ان کی تو ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی۔
(چند لمحے کی خاموشی)
منتری: ان کی اولاد سے انتقام لیں گے ہم۔
وزیر: ان کی اولاد بھی اپنے اسلاف کے قاتلوں کی اولاد سے انتقام لینے کے لئے بہت بیتاب ہے۔
جج: آرڈر آرڈر۔ بحیثیت جج، میرا کام ثبوت او شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن یہاں میں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دنیا کے کسی قانون میں باپ کے جرم کی سزا اس کی اولاد کو نہیں دی جاتی۔ اور جہاں تک میں جانتا ہوں تو پنڈت صاحب کے دھرم میں اور مولوی صاحب کے دین میں بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے۔
(پنڈت اور مولوی دونوں خاموش ہو جاتے ہیں)
ہیومن رائیٹس: قتل و غارت اور آبروریزی کے ابتدائی چند واقعات کی وجہ یقیناً ہندوستان کی تقسیم کا انتقام، دولت کی لالچ یا جنسی ہوس ہوئی ہو گی لیکن اس کے بعد کے واقعات اپنے خاندان اور اپنی قوم کے تحفظ کے لئے ہوئے۔ اس طرح کے چند واقعات نے ہندوستان کی سبھی قوموں کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا، اس کے بعد جہاں بھی مخالف قوم کا کوئی فرد یا گروہ نظر آیا تو اپنے تحفظ کے لئے، صرف اور صرف تحفظ کے لئے اسے قتل کر دیا گیا۔ خوف کے ساتھ ساتھ انتقام کی آگ بھی بھڑک اٹھی۔ بہرحال اس قتل و غارت کی وجہ انتقام ہو، لالچ ہو یا دفاع، ہر صورت میں ساری قوموں کا ہی نقصان ہوا، ناقابلِ تلافی نقصان، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کے باوجود ہر قوم خود کو ہی مظلوم سمجھتی ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جتنا نقصان آپ کی قوم کا ہوا ہو اس سے زیادہ نقصان آپ کی قوم نے دوسری قوم کا کیا ہو۔
مولوی: (مولوی کھڑا ہو جاتا ہے) ہمارے مذہب میں قِصاص ہے، اسلام نے ہمیں انتقام لینے کا پورا حق دیا ہے۔
ہیومن رائیٹس: اور معاف کرنے کا پورا اختیار بھی۔ اور انتقام میں بھی تجاوز کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اسلام میں، بلکہ انتقام لینے کی بجائے معاف کرنے کو فضیلت دی گئی ہے۔
مولوی: تو آپ چاہتی ہیں کہ کوئی کافر ہمارے اسلام کو برا بھلا کہے اور ہم اسے معاف کر دیں؟
ہیومن رائیٹس: ہر گز نہیں۔ اُسے سزا دیں۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کے مذہب یا عقائد پر انگلی اٹھائے۔ لیکن جب کوئی آپ کے مذہب کی شان میں گستاخی کرے تب۔۔ ۔ لیکن یاد رہے کہ اسے سزا دینے کا اختیار صرف حکومتِ وقت کو حاصل ہے۔ مولوی صاحب، غیر مسلموں کو بھی زندہ رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کو اور یہ حق انہیں اللہ نے دیا ہے، ورنہ غیر مسلموں کو پیدا نہ کرنے یا ان کو ختم کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔
پنڈت: (پنڈت بھی کھڑا ہو جاتا ہے) انتقام لینا ہم بھی جانتے ہیں، اور انتقام لے کر رہیں گے۔
جج: اشتعال انگیز گفتگو سے پرہیز کی جائے ورنہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔
پنڈت: آپ ہمیں اپنی قوم کی حفاظت کرنے کے جرم میں عدالت سے باہر نکال دیں گے؟ اپنی قوم کی حفاظت کرنا کوئی جرم نہیں۔
ہیومن رائیٹس: یہی تو میں سمجھا رہی ہوں، جو کچھ ہوا وہ اپنی اپنی قوم کے تحفظ کے لئے ہوا، یا اپنے اہل و عیال کی حفاظت کی خاطر ہوا۔ جو حالات بن چکے تھے ان حالات میں ایسا ہی ہونا تھا۔ آپ کو اپنے علاوہ سب ظالم نظر آتے ہیں لیکن مجھے آپ سمیت سب مظلوم نظر آتے ہیں، ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے، اپنے اہل و عیال کی جان بچانے کے لئے اپنے ہاتھ ان لوگوں کے خون سے رنگتے ہوئے جن کو جانتے تک نہیں۔
منتری: آپ کی من گھڑت کہانیوں سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان قوم نے ہندوستانی قوم کا قتلِ عام کیا۔
پاکستانی: تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے پاکستان لانے والی ریل گاڑیاں لاشوں سے بھری ہوتی تھیں۔ عزت لٹنے کے غم میں نڈھال نیم مردہ عورتیں، اپنے خاندان کی لاشوں میں دبے ہوئے بوڑھے، معصوم بچوں کے بے جان دھڑ اٹھائے ان کے سر ڈھونڈتی ہوئی لاچار مائیں۔
(مسلمان قوم رونے لگتا ہے، تھوڑی دیر کے لئے خاموشی طاری ہو جاتی ہے)
ہیومن رائیٹس: (ہندوستانی قوم سے) تمہاری تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان ظالم تھے، (پاکستانی قوم سے) اور تمہاری تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو ظالم تھے۔ تم دونوں کی تاریخ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ آج ہندوستان میں جو مسلمان ہیں یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے تقسیم کے بعد ہندوستان کو اپنا ملک چنا۔ تمہاری تاریخ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ آج پاکستان میں جو ہندو اور سکھ آباد ہیں یہ وہی ہندو اور سکھ ہیں جنہوں نے پاکستان کو اپنا ملک چنا۔ تمہاری تاریخ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تقسیم کے وقت ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوؤں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہندوستان میں پناہ دی۔ اور پاکستانی ہندوؤں اور سکھوں کو مسلمانوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر پاکستان میں پناہ دی۔ تمہاری تاریخ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ مسلمان عید کے دن اپنے ہندو پڑوسی کو اسی اپنائیت سے سویاں بھجواتے تھے جتنی اپنائیت سے اپنے مسلمان بھائی کو۔ تمہاری تاریخ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ ہندو طبیب مسلمان مریض کا علاج بھی اسی خلوص سے کیا کرتے تھے جس خلوص سے ہندو مریض کا۔ تمہاری تاریخ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ ہندو مسلمانوں کی جان مال کے محافظ تھے اور مسلمان ہندوؤں کے۔ مسلمانوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ لاکھوں مسلمان مارے گئے، ہندوؤں کو اس بات کا دکھ ہے کہ لاکھوں ہندو مارے گئے، سکھوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ لاکھوں سکھ مارے گئے لیکن تم میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کا دکھ ہے کہ لاکھوں انسان مارے گئے؟
(کچھ لمحے خاموشی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو)
ہیومن رائیٹس: اگر تم دونوں کی تاریخ اس قدر بھیانک ہے کہ اس میں انسان سے نفرت ہے، انتشار ہے، انتقام ہے، درگزر اور رحم نام کی کوئی چیز نہیں تو چھوڑ دو ایسی تاریخ کو اور ایک نئی تاریخ لکھو۔ تمہاری آنے والی نسلوں کو ایک ایسی تاریخ کی ضرورت ہے جس میں انسانیت ہو، امن ہو، برداشت ہو، درگزر ہو، رحم ہو۔
(ہندوستانی قوم سے)
تمہاری تاریخ مہاتما گاندھی ہے، جن کی ایک آواز پر لوگ اپنی جان تک دینے کو تیار تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہندوستانی قوم کو ہمیشہ اہنسا کا درس دیا۔ ساری زندگی تشدد سے بچنے کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ یہ ہے تمہاری تاریخ۔
(ہندوستانی قوم شرم سے سر جھکا لیتا ہے)
(پاکستانی قوم سے)
اور تمہاری تاریخ تو دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، جو رحمت اللعلمین ہیں۔ جنہوں نے مکہ فتح کرنے پر اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی بھرپور طاقت رکھنے کے باوجود سب کو معاف کر دیا۔ انہوں نے تو اپنے چچا کا کلیجہ چبانے والی عورت تک کو معاف کر دیا۔ یہ ہے تمہاری تاریخ۔
(مسلمان قوم شرم سے سر جھکا لیتا ہے)
(تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے)
جج: (گھڑی دیکھتے ہوئے) عدالت کی کاروائی 2 بجے تک کے لئے ملتوی کی جاتی ہے۔
(جج صاحب کے اٹھتے ہی سب اٹھ کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپس میں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ پاکستانی کٹہرے سے نکل کر پاکستانیوں کے پاس آ جاتا ہے اور ہندوستانی کٹہرے سے نکل کر ہندوستانیوں کے پاس آ جاتا ہے، لیکن دونوں کے چہروں سے لگ رہا ہے کہ ہیومن رائیٹس کی باتوں پر شرمندہ بھی ہیں اور فکرمند بھی)
پنڈت: (ہندوستانی فوجی سے) بھوجن کر لیں مہاراج؟
منتری: کھانے کا وقت تو ہو گیا ہے۔
ہندوستانی: (سب کو جاتا دیکھ کر) سرکار، مجھے بھی بھوک لگی ہے۔
(پنڈت ایک ششیہ کو اشارہ کر کے بلاتا ہے جس کے ہاتھ میں پوجا کی تھالی پکڑی ہوئی ہے، پنڈت اس میں سے ناریل اٹھا کر ہندوستانی کو دیتا ہے، ہندوستانی جھک کر دونوں ہاتھوں سے ناریل تھام کر ماتھے سے لگاتا ہے)
پنڈت: یہ لو بھگوان کا پرشاد، تن اور من دونوں کو شانتی ملے گی۔
(منتری سے) مہاراج، ہم تو شاکا ہاری ہیں، لیکن آپ تو مٹن کھا سکتے ہیں نا، ہم بھی مکس ویجیٹیبل رائس سے گزارہ چلا لیں گے۔
(دونوں ہنستے ہوئے نکل جاتے ہیں، ساتھ ہندوستانی فوجی بھی ہے)
(دوسری جانب)
مولوی: (وزیر سے) چلیں حضور اتنی دیر میں کھانا کھا لیتے ہیں۔
پاکستانی : (سب کو جاتا دیکھ کر) جناب، کیا مجھے بھی کھانا ملے گا؟
مولوی: کیوں نہیں کیوں نہیں، ارے میرے مریدوں میں سے کوئی ہے یہاں؟ برخوردار کو لنگر شریف لا کر دو بھئی۔
(ایک مرید ہاتھ میں روٹی جس پر چنے کی دال پڑی ہے لا کر پاکستانی کو پکڑا دیتا ہے)
سب لوگ جا چکے ہیں، عدالت خالی ہو چکی ہے، صرف ہندوستانی اور پاکستانی کھڑے ہیں۔ ہندوستانی اپنے ہاتھوں میں پکڑے ناریل کو دیکھ رہا ہے اور پاکستانی اپنے ہاتھ میں پکڑی روٹی کو۔ ہندوستانی اداسی کے عالم میں چلتا ہوا کٹہرے کے پاس پہنچ جاتا ہے اور کٹہرے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستانی ہیومن رائیٹس کے میز پر روٹی رکھ کر وہیں بیٹھ جاتا ہے۔
کیمرہ کمرۂ عدالت کی دیوار پر لگی گھڑی پر جاتا ہے جس پر 12: 05 بج رہے ہیں۔ سوئیاں تیزی سے گھومتی ہیں اور 1: 50 پر رک جاتی ہیں۔
ہندوستانی کو کافی بھوک لگی ہوئی ہے، کچھ ہی دیر میں بھوک سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے۔ پاکستانی آگے بڑھ کر اسے سہارا دیتا ہے۔ ہندوستانی کے خشک ہونٹ اور نیم مردہ آنکھیں انسانی ہمدردی کی متقاضی نظر آتی ہیں۔ پاکستانی میز پر سے اپنی روٹی اٹھاتا ہے اور نوالہ توڑ کر ہندوستانی کے منہ میں ڈالنا چاہتا ہے لیکن ہندوستانی حقارت سے منہ موڑ لیتا ہے۔
پاکستانی: کھا لے، تیرے بڑے فائیو سٹار ہوٹل سے واپسی پر تیرے لئے کچھ نہیں لانے والے۔
ہندوستانی کچھ دیر سوچنے کے بعد لقمہ منہ میں لے لیتا ہے۔ پاکستانی اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک لقمہ توڑ کر ہندوستانی کے منہ میں ڈالتا ہے اور ایک لقمہ اپنے منہ میں۔
پاکستانی: (چند لقمے کھلانے کے بعد) میں تمہاری ماتا جی نہیں ہوں کہ سارا کھانا اپنے ہاتھ سے کھلاؤں گا، پکڑ اور کھا۔
(ہندوستانی مسکراتے ہوئے روٹی پکڑ لیتا ہے اور دونوں لقمے توڑ توڑ کر کھانے لگتے ہیں۔ اچانک ایک لقمہ پاکستانی کے حلق میں پھنس جاتا ہے، سانس بند ہو جاتا ہے۔ ہندوستانی فوراً اٹھ کر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد قریب کے میز پر روٹی رکھ کر لفافے کھولنے والا چاقو اٹھاتا ہے اور ناریل میں سوراخ کر کے پاکستانی کے منہ کے ساتھ لگا دیتا ہے۔ پاکستانی ناریل پکڑ کر پانی پیتا ہے تو اس کا سانس بحال ہوتا ہے۔ سرخ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ شکرگزار نظروں سے ہندوستانی کو دیکھتا ہے)
ہندوستانی: کیا؟
پاکستانی: کمینے، مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ایک مسلمان کو پرشاد پلا دیا؟
ہندوستانی: تو نے بھی تو ایک ہندو کو اپنی درگاہ کا لنگر کھلایا ہے۔
(دونوں مسکرانے لگتے ہیں اور دوبارہ کھانا کھانے لگتے ہیں)
پاکستانی: اچھا نہیں کیا تمہارے پنڈت نے۔ خود فائیو سٹار ہوٹل کے کھانے اور تمہارے لئے پرشاد کے نام پر یہ ناریل۔
ہندوستانی: تمہارے بڑے تو جیسے ساتھ لے گئے نا تمہیں۔
پاکستانی: میں تو غریب قوم ہوں بھئی، دال روٹی مل جائے بہت ہے۔
ہندوستانی: تمہارے نصیب میں دال روٹی اور ہمارے نصیب میں وڑا پاؤ۔
پاکستانی: وڑا پاؤ کیا ہوتا ہے؟
ہندوستانی: وڑا پاؤ ایک ایسی خوراک ہے جو پیٹ میں بھاری اور جیب پہ ہلکی ہوتی ہے۔
پاکستانی: تمہارے ہندوستانی کھانے تو بہت مشہور ہیں، ان میں سے کچھ تو ہم پاکستان میں بھی بناتے ہیں، کبھی کبھی۔
ہندوستانی: کبھی کبھی؟
پاکستانی: ہاں کبھی عید وغیرہ پر یا کبھی بچے بہت ضد کریں تب۔ (آنکھ مارتے ہوئے) یا کبھی کسی شادی پہ جانے کا موقع مل جائے تو۔ عام حالات میں تو دال روٹی پوری ہو جائے تو بڑی بات ہے۔
ہندوستانی: تمہیں کیا لگتا ہے، ہندوستان کے جو مشہور کھانے ہیں وہ ہم روز کھاتے ہیں؟ دیوالی یا ہولی وغیرہ پر ہی نصیب ہوتے ہیں، وہ بھی ہر کسی کو نہیں، یا وہ تمہارے والی بات کسی شادی ویواہ پر۔ ہاں البتہ امیر لوگ روز کھاتے ہیں۔
پاکستانی: اچھا؟ ہمارے ہاں تو امیر لوگ زیادہ تر چائینیز، اٹیلین اور کانٹیننٹل کھاتے ہیں۔
ہندوستانی: اپنی اپنی حیثیت کی بات ہے یار، ورنہ کس کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اچھے کھانے کھلائے، اچھے کپڑے پہنائے، اچھے سکولوں میں پڑھائے۔
پاکستانی: (مسکراتے ہوئے) تمہارے ہاں بھی سب کچھ بچوں کے لئے ہی کیا جاتا ہے؟
ہندوستانی: اپنے لئے بچتا ہی کب ہے۔
پاکستانی: ہمارے حالات بھی کچھ ایسے ہیں۔ ساری زندگی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے ترستے ہوئے اس امید پر گزر جاتی ہے کہ بچے پڑھ لکھ کے کچھ بن جائیں تو شاید اپنا بڑھاپا سکون سے گزرے۔
(ہیومن رائیٹس کمرۂ عدالت میں داخل ہوتی ہے، دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے پیچھے ہی بیٹھ جاتی ہے۔ دونوں کو اس کے آنے کی خبر نہیں ہوتی)
ہندوستانی: بچوں کو روزگار ملے تب نا۔ چناؤ کے دنوں میں سارے نیتا لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں، بے روزگاری ختم کریں گے، عام آدمی کو سُرکشا ملے گی، روزگار ملے گا، بچوں کو مفت اور معیاری شِکشا ملے گی، جنتا کو صحت کی ہر سہولت میسر ہو گی۔ اور چناؤ جیتنے کے بعد تو جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں۔ تمہارے ہاں کیا ہوتا ہے؟
پاکستانی: ہمارے ہاں انتظار ہوتا ہے۔ لیڈروں کے کیئے ہوئے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار۔ کب بے روزگاری ختم ہو گی، کب مہنگائی کم ہو گی، کب ٹیکسز میں کمی آئے گی، کب گیس اور بجلی کے بحران پر قابو پایا جائے گا۔ کب سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت بہتر ہو گی۔
ہندوستانی: ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے، لیکن دوش بھی تو ہمارا اپنا ہے نا بھائی، ہم لوگ ہی تو ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر چناؤ جتواتے ہیں۔
پاکستانی: ہم نہیں چنتے، یہ ہم پر مسلط کیئے جاتے ہیں۔ اول تو عوام کا کوئی نمائندہ الیکشن میں کھڑا ہوتا ہی نہیں، اگر کوئی کھڑا ہو بھی جائے تو اسے کوئی پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی۔ بہت زور لگایا تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ لیتا ہے۔ لیکن لوگ تو پارٹی کے نام پر ووٹ دیتے ہیں نا، چاہے پارٹی چلانے والے جیسے بھی ہوں۔ اور یہ جو الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں نا یہ عوام کے نمائندے نہیں سیاسی پارٹیز کے نمائندے ہوتے ہیں۔ بس ہمیں یقین دلا دیا جاتا ہے کہ یہ عوامی نمائندے ہیں اور ہم جمہوریت کے استحکام کے نام پر پارٹیز کے نمائندوں کو عوامی نمائندہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ الیکشن گھوڑوں کی ریس کی طرح کا کھیل ہے، جہاں پارٹی صرف اس گھوڑے پر داؤ لگاتی ہے جس کی جیت یقینی ہو۔ اب وہ قوم کے ساتھ مخلص ہے کہ نہیں کون پرواہ کرتا ہے۔ چور ہو، ڈاکو ہو، لٹیرا ہو، سمگلر ہو، ظالم ہو، جیسا بھی ہو بس الیکشن جیتنے کی طاقت رکھتا ہو۔ ہندوستان میں کیا ہوتا ہے؟
ہندوستانی: تمہیں کیا لگتا ہے، بھرشٹاچار صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے؟ یہ نیتا لوگ ہمارا خون بھی اسی طرح چوستے ہیں جس طرح تمہارا۔
پاکستانی: (کچھ لمحے سوچنے کے بعد) تو پھر دشمن کون ہوا؟
ہندوستانی: (سوچ میں پڑ جاتا ہے) میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔
(اسی دوران ہندوستانی پنڈت اور فوجی داخل ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے ہندوستانی منتری اور پاکستانی وزیر آپس میں خوش گپیاں لگاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں، ان کے پیچھے پاکستانی فوجی اور مولوی بھی ہیں۔ ہندوستانی قوم اور پاکستانی قوم کو ایک ساتھ دیکھ کر سب پریشان ہو جاتے ہیں اور غصہ بھی)
وزیر: واہ واہ واہ
(ہندوستانی اور پاکستانی گھبرا کر ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں)
وزیر: دیکھا مولوی صاحب، تھوڑی دیر کے لئے نگرانی کیا ہٹائی دشمنی دوستی میں بدل گئی۔
مولوی: بہت گھاٹے کا سودا کیا برخوردار، اس کافر کے ہاتھ سے ناریل پانی پی کر خود کو جامِ کوثر سے محروم کر دیا تم نے۔
پنڈت: (ہندوستانی سے) مورکھ، ایک تو مسلے کی روٹی کھائی اس پہ بھگوان کا پرشاد بھی دے دیا؟ نرک میں جائے گا تو، نرک میں۔
ہندوستانی: کسی انسان کی جان بچانے سے کوئی نرک میں جاتا ہے مہاراج؟
پنڈت: ہاں، جاتا ہے، اگر وہ کوئی مسلا ہو تو، (حقارت سے) اوپر سے پاکستانی بھی۔
مولوی: سن لیا؟ بھگوان کا پرشاد ملا ہے جناب کو، تب تو میدانِ حشر میں ان کی مغفرت کے لئے بھگوان کو ہی آنا پڑے گا۔
پاکستانی: مولوی صاحب میرے حلق میں لقمہ اٹک گیا تھا، اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
مولوی: ایمان کامل ہونا چاہیئے، جو پروردگار لقمہ اٹکا سکتا ہے وہ لقمہ حلق سے اتار بھی سکتا ہے۔
All rise کی صدا کے ساتھ ہی جج صاحب عدالت میں داخل ہوتے ہیں، سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جج اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ پاکستانی قوم اور ہندوستانی قوم اپنے اپنے کٹہرے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہیومن رائیٹس پیچھے سے اٹھ کر آگے جج کے روبرو آ جاتی ہے۔
جج: عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، ہم سب نے دیکھا کہ دونوں قوموں میں ایک دوسرے کے لئے کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ دونوں طرف کی حکومتیں اور مذہبی رہنما دونوں قوموں کو اکسانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان دونوں قوموں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی فکر کرنے کی بجائے اپنے اپنے ماضی کا سوگ منا رہے ہیں۔
(پاکستانی اور ہندوستانی قومیں شرم سے سر جھکا لیتی ہیں)
یا شاید انہیں مستقبل کی فکر سے دور رکھنے کے لئے ماضی سے باہر آنے ہی نہیں دیا گیا۔
(ہندوستانی اور پاکستانی حکومتوں کی طرف دیکھتے ہوئے)
مستقبل کی فکر سیاسی شعور بیدار کرے گی، سیاسی شعور آ گیا تو ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لئے عوام یا جنتا کی طرف سے قیادت کے انتخاب کا معیار بھی رکھا جائے گا۔ معیار پر پورے نہ اتر سکے تو سیاست تو گئی ہاتھ سے۔
(پاکستانی وزیر اور ہندوستانی منتری ایک دوسرے کی طرف پریشان کن نظروں سے دیکھتے ہیں)
ہیومن رائیٹس: (جج کی طرف مڑتی ہے) مائی لارڈ۔ میں ہندوستان اور پاکستان کے سیاستدانوں کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتی ہوں۔
جج: اجازت ہے۔
(ہیومن رائیٹس ہندوستانی عوام کو پاکستانی عوام والے کٹہرے میں جانے کا اشارہ کرتی ہے، ہندوستانی قوم پاکستانی قوم کے کٹہرے میں آ کھڑا ہوتا ہے اور ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں خالی کٹہرے میں کھڑی ہو جاتی ہیں)
ہیومن رائیٹس: (ہندوستانی حکومت سے) آپ نے چناؤ سے پہلے ہندوستانی قوم کو وچن دیا تھا کہ آپ کی سرکار بننے کے بعد آپ اپنی جنتا کو روزگار دیں گے، صحت کی سہولیات دینے کے لئے ہسپتال اور گراؤنڈز بنائیں گے، مفت اور معیاری تعلیم مہیا کریں گے۔ مہنگائی پر قابو پائیں گے، ایک عام ناگرک کا معیارِ زندگی بلند کریں گے۔ لیکن آپ کی سرکار بننے کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، کیوں؟
منتری: آپ جانتی ہیں کہ ہندوستان کی آبادی کتنی ہے؟ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں سہولیات مہیا کرنے میں وقت لگتا ہے۔
ہیومن رائیٹس: جی ہندوستان کی آبادی واقعی زیادہ ہے، اس لئے آپ کی حکومت کو ٹیکس بھی زیادہ ملتا ہے۔ اگر وہ ٹیکس آپ کے سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس میں جانے کی بجائے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہو تو آپ جانتے ہیں کہ آپ کی کرنسی کی ویلیو موجودہ ویلیو سے ڈبل یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
منتری: الزام لگانا تو آپ لوگوں کی عادت ہی بن چکا ہے، پاکستان کی طرح۔ اگر کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس تو بات کو آگے بڑھائیے گا۔
ہیومن رائیٹس: ثبوت تو آپ کے چہرے سے پسینہ بن کر ٹپک رہا ہے منتری مہودے۔
(ہندوستانی منتری فوراً رو مال نکال کر اپنا پسینہ خشک کرتا ہے)
ہیومن رائیٹس: (ہندوستانی قوم سے) آپ کے منتری تو بتا نہیں پائے، آپ ہی کچھ بتا دیں عدالت کو۔ آپ کی قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے کیا کرتی چلی آ رہی ہیں آپ کی حکومتیں؟
(ہندوستانی گھبرا جاتا ہے)
ہیومن رائیٹس: آج تمہیں کسی معقول پلیٹ فارم پر بولنے کا موقع ملا ہے، اگر آج بھی نہ بول سکے تو ایک مہربانی کرنا، آج کے بعد ہندوستانی قوم کی حالتِ زار کا ذمہ دار کسی بھی حکومت کو مت ٹھہرانا۔
(ہندوستانی قوم چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولنے کی ہمت کرتا ہے)
ہندوستانی: کچھ بھی نہیں ہوا۔ غریب آج بھی ترستی ہوئے زندگی گزارنے کے بعد بہت سی حسرتیں دل میں لئے بے بسی کی موت مر جاتا ہے۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنے بچوں کے لئے پھل نہیں خرید سکتی، چارٹ پر بنے پھلوں کی تصویریں دکھا کر A for Apple اور B for Banana سکھاتی ہے۔ روزگار؟ ہونہہ، ہماری مائیں اور بیویاں ان امیر زادوں کے گھروں پر کام کرتی ہیں، ان کا بچا ہوا کھانا لا کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہیں اور جب ہم روزگار کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد واپس گھر آتے ہیں تو وہی کھانا۔۔ ۔ بھگوان کی سوگند کھانے کو دل نہیں کرتا۔ ہماری ماں یا ہماری بیوی بے بسی اور لاچاری میں لپٹا ہوا لقمہ ہمارے منہ میں ڈال کر کہتی ہیں، چنتا مت کرو، کل کوئی نہ کوئی روزگار ضرور مل جائے گا، پھر ہم اپنا خود کا کھانا بنا کر کھائیں گے۔
(ہندوستانی رونے لگتا ہے، پاکستانی آنکھوں میں آنسو لئے ہندوستانی کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے اور ہندوستانی اس سے لپٹ کر روتا ہے۔ اس دوران عدالت میں اس کے رونے کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی)
(پاکستانی ہندوستانی کو حوصلہ دیتا ہے اور ہندوستانی چپ ہو کر اپنی آنکھیں پونچھتا ہے)
ہیومن رائیٹس: (پاکستانی وزیر سے) کچھ ایسے ہی وعدے آپ نے بھی الیکشن سے پہلے اپنی عوام سے کیئے تھے، کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔ کیوں؟
وزیر: میرا خیال ہے کہ یہ مقدمہ ہندوستانی اور پاکستانی قوم کے درمیان ہے نہ کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان۔
ہیومن رائیٹس: آپ کی سٹیٹمنٹ اس بات کی ترجمانی کر رہی ہے کہ آپ حکومت اور عوام کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔
وزیر: مائی لارڈ، پاکستان میں ہڑتالوں اور دھرنوں کے بعد میرے سیاسی مخالفین کی یہ ایک نئی چال ہے، (ہیومن رائیٹس سے) کتنے پیسے دیئے ہیں انہوں نے آپ کو ہماری حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کھڑا کرنے کے لئے؟
ہیومن رائیٹس: پاکستانی قوم سے لوٹے گئے جتنے پیسے آپ کے سوئس بینکوں میں پڑے ہیں ان کے مقابلے میں تو بہت کم۔
وزیر: آپ مجھے اور میری حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ہیومن رائیٹس: چلیں کوئی بات نہیں، آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں، میں آپ کی قوم سے پوچھ لیتی ہوں۔ (پاکستانی قوم سے) تم بتاؤ، الیکشن سے پہلے کیئے گئے کتنے وعدے پورے کیئے حکومت نے؟
(پاکستانی قوم وزیر کی طرف گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے)
ہیومن رائیٹس: کیا مہنگائی میں کمی ہوئی؟
(پاکستانی قوم سر جھکائے خاموش کھڑا رہتا ہے)
ہیومن رائیٹس: تو کیا بے روزگاری ختم ہوئی؟
(پاکستانی قوم سر جھکائے خاموش کھڑا رہتا ہے)
ہیومن رائیٹس: گیس اور بجلی کے بحران پر تو قابو پا لیا ہو گا حکومت نے؟
(پاکستانی قوم سر جھکائے خاموش کھڑا رہتا ہے)
ہیومن رائیٹس: سرکاری ہسپتالوں کی حالت تو لازمی بہتر ہوئی ہو گی؟
(پاکستانی قوم سر جھکائے خاموش کھڑا رہتا ہے)
ہیومن رائیٹس: مفت اور معیاری تعلیم کے لئے تو کچھ کیا ہو گا؟
(پاکستانی قوم سر جھکائے خاموش کھڑا رہتا ہے)
وزیر: میں نے اس قوم کے لئے اتنا کچھ کیا ہے جو آج تک کوئی حکومت نہیں کر سکی۔ اور پاکستانی قوم کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے۔
پاکستانی: (غصہ آ جاتا ہے) ابے چپ۔ ہماری خاموشی صرف تمہیں ووٹ دینے کے پچھتاوے کی دلیل ہے۔ فصلی بٹیرے ہو تم سب۔ الیکشن کے دنوں میں ووٹ چننے پاکستان آ جاتے ہو۔ الیکشن جیت گئے تو اسمبلیوں میں پہنچ کر عوام سے دور، ہار گئے تو ملک چھوڑ کر پاکستان سے دور۔ کیا حال کر دیا ہے تم نے قوم کا، سکول کالج ہیں تو تعلیم نہیں، ڈگری ہے تو روزگار نہیں۔ vacancy ہے تو میرٹ نہیں، روزگار ہے تو مہنگائی کے باعث قوتِ خرید نہیں۔ سرکاری ہسپتال جاؤ تو پرچی کاٹنے والا نہیں، پرچی کاٹنے والا آ جائے تو ڈاکٹر نہیں، خوش نصیبی سے ڈاکٹر مل جائے تو ڈاکٹر کو کمیشن دینے والی کمپنیوں کی مہنگی دوائیں خریدنے کی ہماری اوقات نہیں۔ کس کس بات کا رونا روئیں؟
وزیر: ایک تو اس قوم کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ پچھلی حکومت کے کارنامے بھی ہمارے پیٹے میں ڈال دیتی ہے۔ صبر کرو، حوصلہ رکھو، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
پاکستانی: پانچ سال ہونے کو ہیں، اب تک کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔
وزیر: ہاں تو وقت لگتا ہے نا بگڑے ہوئے معاملات کو ٹھیک کرنے میں، الیکشن کے بعد جب ہم دوبارہ حکومت میں آئیں گے تو باقی مسائل بھی حل کر دیں گے۔
پاکستانی: باقی مسائل، جیسے بہت سارے سائل تو حل کر چکے ہیں آپ۔ اور آپ کو لگتا ہے کہ ہم دوبارہ آپ کو ووٹ دینے کی غلطی کریں گے؟
وزیر: (مسکراتے ہوئے) الیکشن تو پھر بھی ہم ہی جیتیں گے بیٹا۔
ہیومن رائیٹس:(بات کو کریدنے کی کوشش کرتے ہوئے) جب پاکستانی قوم آپ کو ووٹ ہی نہیں دے گی تو پھر آپ الیکشن جیتیں گے کیسے؟
وزیر: یہ سیاسی باتیں ہیں محترمہ، آپ کو سمجھنے کی ضرورت نہیں۔
ہندوستانی: لیکن مجھے کچھ کچھ سمجھ آ رہی ہے۔
(سب فوراً متوجہ ہوتے ہیں)
(پاکستانی قوم سے) ہمارے ہاں جب چناؤ ہوتا ہے نا تو گاؤں کے بڑے زمیندار گاؤں والوں سے زبردستی اپنے نیتا کو ووٹ ڈلواتے ہیں۔ جن علاقوں میں بھائی لوگ ہوتے ہیں، بھائی بولے تو غنڈے، وہ محلے والوں سے زبردستی اپنے نیتا کو ووٹ ڈلواتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں یہ کام پولیس والے بھی کرتے ہیں۔ جس علاقے میں غربت زیادہ ہو وہاں پیسے دے کر ووٹ خریدے جاتے ہیں، کچھ لوگ تو دارو کی ایک بوتل کے بدلے بھی ووٹ دے دیتے ہیں۔
ہیومن رائیٹس: اور یہ سب لوگ عام جنتا سے اپنے من پسند نیتا کو ووٹ کیوں ڈلواتے ہیں؟
ہندوستانی: میڈم، غریب لوگوں کی زمینیں ہڑپنے میں زمینداروں کی مدد کون کرتا ہے؟ یہ نیتا لوگ۔ بھائی لوگوں کو پولیس پکڑ لے تو انہیں چھڑواتا کون ہے؟ یہ نیتا لوگ۔ پولیس افسروں کو دبا کے رکھنے کے لئے ان کا پروموشن کون کرواتا ہے؟ یہ نیتا لوگ۔ اور بدلے میں انہیں صرف ایک ہی چیز چاہیئے ہوتی ہے، ووٹ۔ اور جہاں کچھ نہ ہو سکے وہاں یہ پنڈت کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں، اب پنڈت مہاراج نے کہہ دیا کہ ووٹ فلاں نیتا کو دینا ہے تو کون مورکھ انکار کر سکتا ہے؟
پاکستانی: اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں بھی بڑے بڑے زمیندار اور وڈیرے اپنے مزیروں سے زبردستی اپنے من پسند سیاست دانوں کو ووٹ ڈلواتے ہیں، پٹواری اور غنڈے بھی سیاستدانوں کی مدد کرتے ہیں اور پیر صاحب اپنے مریدوں سے اور مولوی صاحب اپنے مقتدیوں سے ووٹ ڈلوا کر اپنے سیاستدان کو الیکشن جتوا دیتے ہیں۔ کیوں منسٹر صاحب کچھ غلط تو نہیں کہا میں نے؟
وزیر: (گھبرا جاتا ہے) یہ سب من گھڑت باتیں ہیں، ہر سیاستدان کی اپنی ایک ساکھ ہوتی ہے اور ہر سیاسی پارٹی کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھو گے۔
مولوی: برخوردار، باقی سب تو تم جانو اور منسٹر صاحب جانیں، لیکن تم نے مولوی صاحبان کا نام کیوں لیا۔
ہیومن رائیٹس: دونوں قوموں میں مذہب کے نام پر کیا کچھ ہوتا ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔
مولوی : (انتہائی غصے کے عالم میں) تم چند جھوٹے لوگوں کی وجہ سے دین کی خدمت کرنے والوں کی کردار کشی نہیں کر سکتیں۔
پاکستانی: یہاں دین کی خدمت کرنے والوں کی بات نہیں ہو رہی مولوی صاحب، ان چند لوگوں کی ہی بات ہو رہی ہے جو دیندار ہونے کے لبادے میں ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔
مولوی: (غصے سے لال پیلا ہو جاتا ہے) تم تو اپنا منہ بند ہی رکھو بدبخت، بے ایمان، ان لا دینوں کی باتوں میں آ کر اپنا ایمان ضائع کر بیٹھا، مرتد ہے تُو مرتد، دائرۂ اسلام سے خارج ہے تُو۔
پاکستانی: کوئی بات نہیں مولوی صاحب، آپ تو ان لوگوں کو بھی دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں جنہیں منبرِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بیٹھ کر خطبہ دینے کا اعزاز حاصل ہے، جن کے پیچھے لاکھوں کلمہ گو مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ان کا تعلق آپ کے مسلک سے نہیں۔
مولوی: استغفراللہ، استغفراللہ، مُرتد تُو سیدھا جہنم میں جائے گا اور ان کافروں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے وہیں سڑتا رہے گا۔
پاکستانی: بس کر دو مولوی صاحب، کب تک استغفر اللہ کا ڈنڈا لے کر ہمارے سروں پر کھڑے رہو گے۔ ہم کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں چلے جائیں تو استغفراللہ، کسی دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو استغفر اللہ، کبھی رفع یدین کرنے پر استغفر اللہ اور کبھی نہ کرنے پر استغفر اللہ، کبھی ہاتھ ناف پر باندھ کر نماز پڑھنے پر استغفراللہ تو کبھی ہاتھ کھلے چھوڑنے پر استغفر اللہ، کبھی بزرگوں کے آگے جھکنے پر استغفر اللہ تو کبھی ان کے آگے نہ جھکنے پر استغفر اللہ۔ جب بھی آپ کے بتائے ہوئے اسلام سے زیادہ اسلام کو سمجھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں آپ استغفراللہ کا ٹنڈا سر پر مار کر واپس بٹھا دیتے ہیں۔
مولوی: مجھ سے غلطی ہوئی جو تمہاری حمایت کرنے یہاں چلا آیا۔ تمہارا ایمان اتنا کمزور ہو گا اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ اب یہاں ایک لمحہ بھی رکنا میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔
(مولوی صاحب باہر جانے لگتے ہیں)
جج: مقدمہ کی سماعت کے دوران کسی کو بھی عدالت سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ اگر کسی نے باہر جانے کی کوشش کی تو توہینِ عدالت کے کیس میں لمبے عرصے تک باہر جانے کے قابل نہیں رہے گا۔
(وزیر اور فوجی مولوی کو پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں)
پاکستانی: اور مولوی صاحب، جب آپ ناریل کھاتے ہیں یا اس کا پانی پیتے ہیں تو کہاں سے چیک کرتے ہیں کہ یہ ناریل ہندو ہے یا مسلمان؟
مولوی: ناریل کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟
پاکستانی: جی بالکل ناریل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میرے پروردگار نے ناریل کو ہمارے لئے حلال کیا ہے اور میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو زندگی بچانے کے لئے حرام کو بھی حلال قرار دیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس ناریل کی وجہ سے میں جامِ کوثر سے محروم کر دیا جاؤں گا۔ آپ نے صحیح کہا کہ جو پروردگار لقمہ اٹکا سکتا ہے وہ لقمہ حلق سے اتار بھی سکتا ہے، لیکن کبھی کبھی وہ حلق اس لئے بند کر دیتا ہے تا کہ آنکھیں کھُل سکیں۔
(مولوی صاحب منہ پھلا کر اپنا رخ دوسری طرف کر لیتے ہیں)
ہندوستانی: پنڈت مہاراج، آپ بھی جانا چاہیں گے باہر؟
پنڈت: میں کیوں جانے لگا؟
ہندوستانی: کیونکہ جب ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں تب آپ بھی تو مولویوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
(پنڈت گھبرا جاتا ہے) کیا بکواس کر رہے ہو؟
ہیومن رائیٹس: وضاحت کریں گے آپ اس بات کی؟
ہندوستانی: میں بتاتا ہوں، جس طرح پاکستان میں قرآنِ کریم کی چند آیتیں اور چند حدیثیں یاد کر کے کوئی بھی شخص مولوی یا پیر بن جاتا ہے، چاہے وہ پولیس سے بھاگا ہوا مجرم ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح ہندوستان میں بھی پنڈت کا روپ دھارنے والے بہت بہروپیئے ہوتے ہیں، جو ان نیتاؤں کے لئے کام کرتے ہیں۔ جس طرح پاکستان میں نیتا لوگوں کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو جنتا کی توجہ ہٹانے کے لئے کوئی بڑا واقعہ کر دیا جاتا ہے اسی طرح ہندوستان میں بھی یہ نیتا لوگ اپنے خلاف کسی بات کو دبانے کے لئے کوئی بڑا واقعہ کر دیتے ہیں . ہندو مسلم فسادات تو بہت آسان سا کام ہے، جھوٹے پنڈتوں اور مولویوں کو ہمارے نیتا استعمال کرتے ہیں، پنڈت ہندوؤں کو بھڑکاتا ہے، مولوی مسلمانوں کو بھڑکاتا ہے، بس پھر کیا، فساد شروع، ہندو سورگ میں جانے کے لئے مسلمان کو قتل کرے گا، مسلمان جنت میں جانے کے لئے ہندو کو قتل کرے گا، پورا دیش یہ سب دیکھ کر روئے گا اور جنتا کی ساری توجہ اصل مدعے ہے ہٹ کر اس طرف آ جائے گی۔ بس۔
پنڈت: (غصہ آ جاتا ہے) بند کرو اپنی بکواس، ایک نمبر کے جھوٹے اور دغا باز ہو تم۔
ہندوستانی: میں جھوٹا اور دغا باز ہوں؟ (جج سے) مہاراج، کسی ایک نمبر پنڈت کو بلائیں جسے ہندو دھرم کا گیان تو ہو۔
پاکستانی: میری بھی معزز عدالت سے گزارش ہے کہ رہنمائی کے لئے کسی عالمِ دین کو بلایا جائے۔
جج: میری عدالت میں ہندوستانی قوم اور پاکستانی قوم کے درمیان مقدمہ چل رہا ہے، کبھی مناظرہ کروانا ہوا تو یقیناً کسی عالمِ دین کو ہی بلایا جائے گا۔ مقدمہ کی کاروائی آگے بڑھائی جائے۔
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ دشمن وہ ہوتا ہے جس سے کوئی خطرہ لاحق ہو، اور اب تک کی صورتِ حال سے تو ایسا نہیں لگتا کہ ان پریشان حال اور لاچار قوموں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ ہے۔
ہندوستانی: (پاکستانی قوم سے) ایک دم برابر بولی۔
ہیومن رائیٹس: تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں قوموں کا اصل دشمن ہے کون؟ کون ہے وہ جس نے دونوں قوموں کے دماغ میں یہ فتور کوٹ کوٹ کے بھر دیا کہ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو؟ کس نے کیا اور کیوں کیا؟
(کمرہِ عدالت میں بالکل سناٹا)
ہیومن رائیٹس: خوف۔۔ ۔۔ جان، مال، گھر، خاندان، عزت، شہرت، یا کسی بھی چیز کے چھن جانے کا خود ساختہ احساس، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تقسیمِ ہندوستان نے دونوں طرف عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا، یعنی دونوں قوموں میں خوف پیدا کر دیا۔ قوم کا تحفظ چونکہ قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے اس خوف نے دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو بہت تقویت دی۔ قیادت کے استحکام کے لئے یہ خوف بہت ضروری تھا اور اس خوف کے بقاء کے لئے دونوں قوموں میں ایک دوسرے سے نفرت بہت ضروری تھی۔ اس لئے تقسیمِ ہندوستان سے لے کر آج تک دونوں قوموں کو اس نفرت میں الجھا کر رکھا گیا ہے۔
وزیر: آپ یہ باتیں کر کے ہماری قوم کو ہمارے خلاف بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہماری قوم ہمارے ساتھ ہے (دھیان پاکستانی قوم کی طرف جاتا ہے) سوائے چند بے وقوفوں کے۔
پاکستانی: اسی بات کا تو افسوس ہے جناب، قوم تو آپ کے ساتھ ہے لیکن آپ قوم کے ساتھ نہیں ہیں۔
وزیر: جج صاحب، پہلے مجھے لگا کہ ان کے پیچھے میرے سیاسی مخالفین کا ہاتھ ہے لیکن اب لگنے لگا ہے کہ ان کے پیچھے میرے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے۔
منتری: تبھی تو دونوں قوموں میں اپنی اپنی سیاسی قیادتوں کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔ یقیناً اس کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا ہی ہاتھ ہے۔
ہیومن رائیٹس: (مسکراتی ہے) بہت بے وقوف بنا لیا آپ نے اپنی اپنی قوموں کو یہ سیاسی بیان دے کر، بیرونی طاقتیں۔ کون ہیں یہ بیرونی طاقتیں؟ ہندوستانی نیتا بیرونی طاقتیں کہے تو مطلب پاکستان، اور جب کوئی پاکستانی سیاستدان بیرونی طاقتیں کہے تو مطلب ہندوستان۔ (قریب آتے ہوئے) یا بیرونی طاقتیں کہہ کر اپنے حصے کی نفرت کا رخ مغرب کی طرف موڑ دیا جاتا ہے؟
منتری: بند کرو اپنے یہ بے بنیاد اور من گھڑت الزامات۔ تم دو قوموں کو بغاوت پر اکسا رہی ہو۔
ہیومن رائیٹس: (دونوں قوموں سے) میں آپ دونوں قوموں کو اکسا رہی ہوں نہ بھڑکا رہی ہوں، میں صرف آپ کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ جب تک آپ ایک دوسرے کو اپنی اپنی قیادت کی آنکھوں سے دیکھو گے، دشمن ہی دکھائی دے گا، لیکن جب اپنی آنکھوں سے دیکھو گے تو آپ کو اپنی ہی طرح کی ایک قوم دکھائی دے گی، مظلوم، بے بس، لاچار، سیاست کی بساط پر ایک خاص طبقے کی جیت کے لئے قربان ہونے والے پیادے۔
وزیر: اور کتنی آنکھیں کھولیں گی محترمہ، ان دونوں کی آنکھیں تو پھٹنے کو آ گئی ہیں۔ دیکھو ان احسان فراموش آنکھوں میں، اپنے مذہبی پیشواؤں کے لئے نفرت اور اپنی منتخب کی ہوئی سیاسی قیادت کے خلاف بغاوت نظر آ رہی ہے۔
پاکستانی: ہم نے آپ کو رہنمائی کے لئے چنا تھا ہمارے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کرنے کے لئے نہیں۔ ہم آپ کو ٹیکس اس لئے نہیں دیتے کہ آپ اپنی تجوریاں بھرتے رہیں اور ہم زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رہیں۔
وزیر: ٹیکس دیتے کہاں ہو تم لوگ؟ اپنے گریبان میں جھانکو، سب سے بڑے چور تو تم خود ہو۔ پورے سال کی محنت کے بعد تم سے کچھ تھوڑا بہت ٹیکس وصول ہوتا ہے، اس میں سے بھی ایک بڑا حصہ فوج کو دینا پڑتا ہے تمہاری حفاظت کے لئے اور جو تھوڑا بہت بچتا ہے اس میں ہم ملک کس طرح چلاتے ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
ہیومن رائیٹس: (کریدنے کی کوشش) کون سی حفاظت کی بات کر رہے ہیں؟
وزیر: ملک کی حفاظت کے لئے بارڈر پر کھڑی فوج کو جو اسلحہ اور جنگی ساز و سامان چاہیئے ہوتا ہے وہ مفت میں نہیں آتا۔
پاکستانی: جب پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے ہی جنگی ساز و سامان خریدنا پڑتا ہے تو ایک کام کیوں نہیں کرتے، دونوں ملک آپس میں معاہدہ کر لیں کہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے، اسلحہ اور جنگی ساز و سامان خریدنے پر جو پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ دونوں ملکوں سے بے روزگاری ختم کرنے کے کام آئے گا، غربت ختم کرنے کے کام آئے گا، سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کے کام آئے گا۔
(دونوں ملکوں کے سیاستدان گھبرا جاتے ہیں)
وزیر: اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں اس کا فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے تمہارا نہیں۔
ہندوستانی: قوم کے مفادات کی رکشا بھی تو سرکار کا ہی کام ہے۔ دونوں دیشوں کے جنگ نہ کرنے کے انوبندھ سے اگر قوم کے دیگر سمسیاؤں کا سمادھان ہو سکتا ہے تو کیوں نہیں؟
منتری: کس کس سے agreement کرواؤ گے؟ صرف پاکستان ہی نہیں ہے دوسری جانب چائینا بھی کھڑا ہے دیش کی سیما پر۔
ہندوستانی: چائینا کی چنتا نہ کریں، چائینا کو اس معاہدے میں پاکستان شامل کر لے گا، پاک چین دوستی زندہ باد۔ اور ویسے بھی چائینا کوئی بے وقوف ملک تھوڑی نا ہے جو قومی مفاد کی کسی بات کو اسویکار کرے گا۔
وزیر: اگر ہمارے پاس جنگی طاقت نہ ہوتی تو ہندوستان تو کب کا گھس گیا ہوتا پاکستان میں۔
پاکستانی: جب آپ معاہدہ کر لیں گے تو پھر کیوں گھسے گا ہندوستان پاکستان میں اور پاکستان ہندوستان میں؟
(پاکستانی وزیر مولوی صاحب کی طرف مدد کے لئے دیکھتا ہے)
مولوی: کوئی معاہدہ نہیں ہو گا، ہم مسلمان ہیں اور کفار سے کسی قسم کے معاہدے کو جائز نہیں مانتے۔
پاکستانی: اچھا؟ پھر تو آپ صلح حدیبیہ اور میثاقِ مدینہ کو بھی جائز نہیں مانتے ہوں گے۔
مولوی: (گھبرا جاتا ہے) وہ اور بات تھی۔
پاکستانی: کوئی اور بات نہیں تھی، اس معاہدے میں بھی ایک طرف مسلمان تھے اور دوسری طرف غیرمسلم۔ دونوں طرف سے نہ صرف آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ تحریر تھا، بلکہ دونوں میں سے کسی ایک پر بھی حملہ کرنے والے کا مل کر مقابلہ کرنی کی شرط بھی تھی۔ ویسے تو آپ جمعہ کے خطبے میں بیان فرماتے رہتے ہیں کہ جس نے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک سنت کو زندہ کیا اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔ تو امن و امان کی خاطر کی گئی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس سنت کو بھی زندہ کریں اور شامل ہو جائیں شہیدوں کی صف میں۔
وزیر: پہلے ہندوستان سے تو پوچھ لو، کیا وہ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کے لئے تیار ہو گا؟
ہندوستانی: تیار ہی سمجھیں مہاراج۔
منتری: تم کون ہوتے ہو اس بات کا فیصلہ کرنے والے؟
ہندوستانی: مہاراج آپ کے باپ کا کچھ نہیں جا رہا نقصان تو ہمارا ہو رہا ہے نا۔ جو پیسہ ہمارے بھلے کے لئے خرچ ہونا چاہیئے وہ آپ ہتھیار خریدنے پر لگا دیتے ہیں۔ اور یہ جو کشمیر میں 7 لاکھ فوج کو 14 لاکھ فوج کے برابر تنخواہ دیتے ہیں اور جو ان کو دی جانے والی مراعات پر خرچہ ہوتا ہے وہ تو ہمارے پیسے سے ہی ہوتا ہے نا۔
منتری: (غصے میں آگ بگولہ ہو جاتا ہے) خبردار کشمیر کا نام بھی لیا تو، کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
وزیر: کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیر پر کوئی compromise نہیں ہو گا۔
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، کشمیر کارڈ کا وہ پتہ ہے جسے کب اور کہاں استعمال کرنے کا ہنر جاننے والے کچھ خاص طبقات ہمیشہ سے بازی اپنے حق میں کرتے چلے آئے ہیں۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے یا پاکستان کی شہہ رگ، کیوں نہ یہ بات کشمیر سے ہی پوچھ لی جائے، آپ کی اجازت سے۔
جج: اجازت ہے۔
دربان: دونوں کشمیر حاضر ہوں۔
(دو ہم عمر جوان اندر داخل ہوتے ہیں، صاف ستھرے لباس میں ملبوس کشمیر زیر انتظام پاک اور پھٹے پرانے کشمیری لباس میں کشمیر زیر انتظام ہند۔ زخموں سے چور کشمیر زیر انتظام ہند ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں پا رہا، کشمیر زیر انتظام پاک اسے سہارا دیئے ہوئے ہے۔ عدالت میں موجود ہر شخص کی توجہ دونوں کشمیروں کی طرف ہو جاتی ہے۔ دونوں کشمیر آ کر عدالت کے روبرو کھڑے ہو جاتے ہیں)
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، یہ ہے وہ کشمیر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کہیں جنت ہے تو وہ کشمیر ہے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: معمولی سا فرق ہے، اُس جنت میں پھولوں کی مہک ہوتی ہے اور اِس جنت میں بارود کی، اُس جنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور اِس جنت میں بے گناہ کشمیریوں کے خون کی۔
جج: آپ نے جو بھی کہنا ہے کٹہرے میں آ کر کہیں۔
(کشمیر زیر انتظام ہند باری باری دونوں کٹہروں کی طرف دیکھتا ہے)
کشمیر زیر انتظام ہند: حضور میری مجبوری کو حکم عدولی نہ سمجھا جائے۔
جج: کیسی مجبوری؟
کشمیر زیر انتظام ہند: میں ان کے ساتھ کیسے کھڑا ہو جاؤں جو میرے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔
جج: تو کیا پاکستان کبھی آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا؟
کشمیر زیر انتظام ہند: پاکستان صرف آزاد کشمیر کے ساتھ کھڑا ہے۔
وزیر: ایسا تو مت کہو کشمیر بھائی، آپ کے مسئلے کو انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر پاکستان ہی لے کر آیا ہے۔ ہر ٹی وی چینل پر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے باقاعدہ ایک کشمیر کمیٹی بنائی ہے جو دنیا بھر کے ممالک میں جا کر مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کی کوشش کرتی ہے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: کون سی کشمیر کمیٹی؟ آپ اس کمیٹی کی بات تو نہیں کر رہے جو کشمیر کے نام پر صرف بیرونی ممالک کے دورے کرتی ہے؟ 5 سٹار ہوٹلوں میں قیام و طعام فرماتی ہے؟ سیر سپاٹے کرتی ہے اور چند سرکاری لوگوں سے گپ شپ کر کے واپس آ جاتی ہے، اپنے TADA وصول کرنے کے لئے؟
پاکستانی منسٹر: مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اتنے مظالم سہنے کے بعد آپ کی طبیعت میں سختی اور لہجے میں کرختگی آ گئی ہے لیکن ہماری کوششوں کو سراہنے کی بجائے اس طرح کی الزامات لگانا تو بے حد افسوس کی بات ہے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: منسٹر صاحب، جتنے ممالک کو آپ کی کشمیر کمیٹی نے دورہ کیا ان میں سے اگر آدھے ممالک نے بھی مل کر کشمیر کی آزادی کے لئے ہندوستان پر دباؤ ڈالا ہو یا مسئلۂ کشمیر حل ہونے تک ہندوستان سے بائیکاٹ کیا ہو تو میں اپنے الفاظ پر شرمندہ ہونے کو تیار ہوں۔
پاکستانی منسٹر: دیکھیئے ہمارا کام مسئلۂ کشمیر کو دنیا کے سامنے لے کر آنا ہے، اب ہم کسی کے سر پر بندوق تو تاننے سے رہے کہ وہ مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے میں ہمارا ساتھ دے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: البرٹ آئین سٹائن نے کہا تھا
"The definition of insanity is doing the same thing over and over again, but expecting different results”
پاکستانی منسٹر: تو پھر آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں؟ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں؟
کشمیر زیر انتظام ہند: (قدرے غصے میں) اگر آپ ہم پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کے لئے دنیا کو اعتماد میں نہیں لے سکتے تو پھر اپنی تفریح کے لئے اپنی قوم کا پیسہ برباد کرنے سے بہتر ہے کہ آپ خاموش ہو کر بیٹھ ہی جائیں۔
(پاکستانی منسٹر کے چہرے پر ناگواری کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں)
کشمیر زیر انتظام ہند: جج صاحب، انسان کی فطرت ہے کہ وہ جسے ناپسند کرتا ہے اس کے خلاف کوئی بھی بات سن کر خوش ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی دشمنی کو اسی لئے برقرار رکھا گیا ہے تا کہ ایک دوسرے کے بارے میں بری بات سن کر دونوں طرف کے لوگ خوش ہوں۔ اور اس دشمنی کو قائم دائم رکھنے کے لئے کشمیر کو آج تک بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے سے دونوں ملکوں کی روایتی دشمنی کی شدت میں کمی آنے کا خوف ہی اس مسئلہ کو حل نہ کرنے کی اصل وجہ ہے۔
(جج صاحب سمیت کچھ اور لوگ بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں)
مسئلہ کشمیر کا حل کوئی بھی نہیں چاہتا۔ (وقفہ) کیونکہ مسئلۂ کشمیر کو ہر کوئی کیش کر رہا ہے۔ دونوں ممالک میں کسی بھی ٹی وی چینل پر کشمیر کی خبر چلا دو، TRP فوراً اوپر چلی جائے گی۔ کسی بھی اخبار میں کشمیر کی خبر چھاپ دو، اخبار دگنا تعداد میں بکے گا، دھڑا دھڑ۔ کشمیر کے موضوع پر کوئی غیر معروف جرنلسٹ آرٹیکل لکھ دے یا کوئی فوٹوگرافر تصویری نمائش کر دے تو راتوں رات مقبول ہو جائے گا۔ کشمیر کے موضوع پر کوئی فلم بنا دو تو سینما گھر بھر جائیں گے۔ الیکشن کے دنوں میں ’’کشمیر پر کوئی Compromise نہیں ہو گا‘‘ کا نعرہ لگا دو تو ووٹ آپ کی جھولی میں آ آ کر گریں گے۔ لائن آف کنٹرول پر ٹینشن کا نام لیتے ہی کروڑوں اربوں روپے کا اسلحہ خریدنے کی فوراً Approval مل جاتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر کی وجہ سے اسلحہ ساز ممالک کے لئے پاکستان اور ہندوستان اسلحہ خریدنے والی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، تو پھر آپ ہی بتائیں کہ کشمیر کا مسئلہ کوئی کیوں حل ہونے دے گا؟
(چند لمحوں کی خاموشی کے بعد)
ہیومن رائیٹس: آپ کے شکووں کا جائز یا ناجائز ہونا ایک الگ بحث ہے لیکن آپ دونوں ممالک کی عوام سے کیوں اتنے ناراض ہیں کہ ان کے ساتھ کھڑے بھی نہیں ہوئے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: کیونکہ ان دونوں قوموں کو کشمیر میں ہونے والے غیر انسانی مظالم سے زیادہ آپس کی دشمنی عزیز ہے۔ آپس کی دشمنی کی خاطر وہ جان تو قربان کر سکتے ہیں لیکن مظلوم کشمیریوں کی جان اور آبرو کی خاطر آپس کی دشمنی قربان نہیں کر سکتے۔ کشمیر میں بہنے والے بے گناہ خون کے چھینٹے ان دونوں قوموں کے دامن پر بھی ہیں۔ آخرت میں بے گناہ کشمیریوں کے خون کا حساب انہیں بھی دینا ہو گا۔
(ہندوستانی قوم اور پاکستانی قوم حیرت سے کشمیر زیر انتظام ہند کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں)
ہیومن رائیٹس: کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے، اس میں دونوں قومیں کر بھی کیا سکتی ہیں۔
کشمیر زیر انتظام ہند: اگر یہ دونوں قومیں بھی آپ کی طرح سوچتی ہیں تو مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ یہ دونوں قومیں اپنے قوم ہونے کے احساس سے محروم ہو چکی ہیں۔
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، ہندوستان اور پاکستان کی روایتی دشمنی کی دو ہی اہم وجوہات ہیں، ایک تو ہندوستان کی تقسیم اور دوسرا کشمیر، اور ان دونوں وجوہات کو استعمال کر کے ایک مدت سے دونوں قوموں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں قومیں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو سلامت دیکھنا چاہتی ہیں، اگر اپنی قوم کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتی ہیں اور اگر یہ دونوں قومیں چاہتی ہیں کہ ان کا پیسہ شرپسند عناصر کی تجوریاں بھرنے کی بجائے ملک اور قوم کی ترقی کے کام آئے تو انہیں ماضی میں ہوئے واقعات کو ایک برے خواب کی طرح بھلانا ہو گا۔ اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہو گا۔
جج: مسئلۂ کشمیر کا کیا حل چاہتی ہیں آپ؟
ہیومن رائیٹس: مسئلۂ کشمیر کا سیدھا سادھا حل ہے الیکشن کے ذریعے کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے اظہار کا موقع دینا۔
کشمیر زیر انتظام پاک : غلط، بالکل غلط، اگر مسئلۂ کشمیر کا حل الیکشن ہوتا تو اب تک حل ہو چکا ہوتا۔ اور آپ کو کیا لگتا ہے جن طاقتوں نے آج تک الیکشن نہیں ہونے دیا وہ اب ہونے دیں گے؟ اور اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تو اس الیکشن کی شفافیت کیسے ممکن ہو گی؟ اور ویسے بھی کشمیر کی تین نسلوں نے اپنی جان کی قربانیاں کشمیر کی آزادی کے لئے دی ہیں الیکشن کے لئے نہیں۔
ہیومن رائیٹس: تو پھر آپ ہی بتا دیں کہ کیا حل ہے مسئلۂ کشمیر کا۔
کشمیر زیر انتظام ہند: (چند لمحوں کے توقف کے بعد) دستبرداری۔
(عدالت میں موجود سب لوگ چونک جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف حیران نظروں سے دیکھتے ہوئے سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں)
جج: آرڈر آرڈر۔
ہیومن رائیٹس: دست برداری؟
کشمیر زیر انتظام ہند: ہندوستان اور پاکستان دونوں کشمیر سے دستبردار ہو جائیں، کشمیر زیر انتظام ہند اور کشمیر زیر انتظام پاک سے اپنی اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور لائن آف کنٹرول ختم کر کے کشمیر کو ایک کر دیں۔ آزاد ریاست جموں و کشمیر۔
منتری: دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو؟ اس وقت کشمیر کا انتظام ہندوستان نے سنبھالا ہوا ہے اور اُس طرف کے کشمیر کا انتظام پاکستان نے۔ ملک چلانے کے لئے تمہارے پاس حکومت ہے اور نہ حفاظت کے لئے ملٹری پاور۔ تمہارا وجود اگر قائم ہے تو صرف ہماری وجہ سے۔ ہندوستان نے کشمیر کا دفاع چھوڑ دیا تو پاکستان تمہیں کھا جائے گا۔
وزیر: آج اگر کشمیر کا کچھ حصہ آزاد ہے تو صرف پاکستان کی وجہ سے۔ اگر پاکستانی فوجیں ہٹا دی گئیں تو کشمیر ۔۲ بھی آزاد نہیں رہے گا، پورے کشمیر پر ہندوستان مسلط ہو جائے گا۔ پوری آزادی کے چکر میں آدھی آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
کشمیر زیر انتظام پاک: ہم اپنی حکومت بھی بنا لیں گے اور اپنی فوج بھی کھڑی کر لیں گے۔
منتری: تو تب تک تمہاری حفاظت کون کرے گا؟
کشمیر زیر انتظام پاک: ہمیں کسی اور سے تو کوئی خطرہ نہیں۔
وزیر: ہندوستانی فوجیں واپس بلانے کا تقاضہ تو بالکل جائز ہے لیکن یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک طرف تو ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگاتے ہو آپ اور دوسری طرف پاکستان سے اس طرح کا تقاضہ؟
کشمیر زیر انتظام ہند: کچھ باتیں ہمیں بھی سمجھ نہیں آتیں۔ ٹیلیویژن پر جب کشمیر میں ہونے والا کوئی احتجاج دکھایا جاتا ہے تو اچانک ایک نقاب پوش پاکستان کا پرچم اٹھائے کیمرے کے سامنے منڈلانے لگتا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ وہ ہندوستان کے payroll پر ہے یا پاکستان کے؟ پاکستانی پرچم دکھا کر کیا ہندوستان دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس احتجاج کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ ہے؟ یا پاکستان یہ دکھانا چاہتا ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں؟ منسٹر صاحب آپ دونوں ملکوں کو ہی کشمیر سے جانا ہو گا۔ ہندوستان اس ڈر سے کشمیر نہیں چھوڑ رہا کہ کہیں کشمیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تو یہ ہندوستان کی تاریخ کی بدترین شکست ہو گی۔ اور پاکستان کو یہ مشکل درپیش ہے کہ کشمیر جیسی اسلامی ریاست سے دست بردار ہوا تو کشمیر کی آزادی کے لئے 7 دہائیوں سے کی گئی کوششوں پر پانی پھر جائے گا اور پاکستان کو ہندوستان کے ہاتھوں شکستِ فاش ہو گی۔ دونوں ملک اپنی اپنی عزت بچانے میں لگے ہیں اور بیچ میں پس رہے ہیں ہم۔ ہم آزاد جینا چاہتے ہیں، ہمیں کسی کے ساتھ الحاق کرنا ہے نہ کسی کے قبضے میں رہنا ہے۔
منتری: واہ، بہت خوب، 40 ہزار سے زیادہ فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد ہندوستانی فوجیں واپس چلی جائیں؟
کشمیر زیر انتظام ہند: (جذباتی انداز میں) تو کیا 40 لاکھ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد واپس جاؤ گے؟ 1 لاکھ کے قریب مجاہدین کی شہادتوں کے بعد بھی ہم تمہیں با عزت طریقے سے واپس جانے کا موقع دے رہے ہیں۔ 40 ہزار ہندوستانی اور 1 لاکھ کشمیری، اور کتنی جانیں ضائع ہونے کے بعد تمہیں عقل آئے گی؟
ہیومن رائیٹس: دونوں ملک اگر انسانی ہمدردی کے تحت کشمیر سے واپس چلے جائیں تو کسی کی انا مجروح نہیں ہو گی بلکہ انسانی ہمدردی کی ایک بہت بڑی مثال قائم ہو جائے گی اور دونوں ملکوں کو دنیا بھر میں عزت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔
منتری: آپ سمجھ نہیں رہیں میڈم، ان کشمیریوں کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں، آزاد ریاست کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہی کرنا ہے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: ٹھیک ہے، تو پھر بھیجتے رہو اپنے فوجی مرنے کے لئے۔
ہندوستانی فوج: تمہاری اتنی جرأت نہیں برخوردار، تمہاری ساری اکڑ پاکستانی فوج کے دم سے ہے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: تو یوں کہو نا کہ تم نے صرف پاکستانی فوج کو نیچا دکھانے کے لئے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے۔
ہندوستانی فوج: ایسا ہی سمجھ لو۔
پاکستانی فوج: پاکستانی فوج کو نیچا دکھانے کی حسرت کشمیر پر قابض رہنے سے پوری نہیں ہو گی، میدان میں اتر کر دیکھیئے آپ کی حسرت ارمان میں بدل جائے گی۔
ہندوستانی فوج: دنیا کی تیسری بڑی فوج کے ساتھ ٹکرانے کا انجام معلوم ہونا چاہیئے آپ کو۔
پاکستانی فوج: دنیا کی نمبر 1 انٹیلیجنس کو Own کرنے والی فوج سے ٹکرانے کا انجام آپ کو بھی معلوم ہونا چاہیئے۔
ہندوستانی فوج: ایٹمی طاقت بننے کے بعد اتنا غرور تو بنتا ہے آپ کا، لیکن یاد رہے ہندوستان ایٹمی طاقت میں پاکستان سے بہت آگے ہے۔
پاکستانی فوج: جنگ جیتے کے لئے ہتھیاروں سے زیادہ حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارا حوصلہ تو ہمارے ایٹمی طاقت بننے سے پہلے بھی آپ کئی بار دیکھ چکے ہیں۔
ہندوستانی فوج: اتنا سا ہے پاکستان، آدھا درجن ایٹم بمز کی مار بھی نہیں۔
پاکستانی فوج: اگر ہمارے ایٹمی حملے نے آپ کو Launch کرنے کی مہلت دی تو۔
ہیومن رائیٹس: (تالیاں بجاتی ہے) واہ واہ واہ، بہت خوب، آپ دونوں کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے پر کتنا ناز ہے لیکن اس کی زد میں کتنے بے گناہ لوگ مارے جائیں گے اس کا ذرا سا بھی احساس ہے آپ دونوں کو؟
پاکستانی فوج: ہم نے کبھی جنگ نہیں چاہی، لیکن دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
ہیومن رائیٹس: اپنی قوم کی حفاظت کے لئے آپ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن اپنی قوم کی ترقی کے لئے امن کا معاہدہ نہیں کر سکتے؟
پاکستانی فوج: معاہدے کرنا حکومت کا کام ہے ہمارا نہیں۔
ہیومن رائیٹس: حکومت کو تو فرصت نہیں ہے عوام کے بارے میں سوچنے کی تو کیا آپ کا فرض نہیں بنتا کہ اپنی قوم کی ترقی کے لئے آپ ہی کوئی مثبت قدم اٹھائیں۔
پاکستانی فوج: دیکھئے فوج کا کام ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، ترقی اور فلاح و بہبود حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہیومن رائیٹس: تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھا رہی ہے؟
(پاکستانی فوج خاموش)
ہیومن رائیٹس: ایمانداری کی بات کا جواب خاموشی؟
پاکستانی فوج: (کچھ لمحے سوچنے کے بعد) جی نہیں۔ حکومت کی کارکردگی ناقص ہے۔
وزیر: (غصہ آ جاتا ہے) حکومت کی کارکردگی ناقص ہے تو اس میں آپ کا بھی بھرپور ہاتھ ہے۔
(پاکستانی فوج کرخت انداز میں گھورتا ہے)
ہیومن رائیٹس: آپ اپنی ناقص کارکردگی پر شرمندہ ہونے کی بجائے فوج پر الزام لگا رہے ہیں؟
وزیر: ہاں تو ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہوں میں۔ جب بھی ہم ملک کے بگڑے ہوئے حالات کو ٹھیک کرنے کے قریب ہوتے ہیں یہ مارشل لاء لے آتے ہیں۔
پاکستانی فوج: مارشل لاء کے وجہ بھی آپ ہی ہوتے ہیں۔
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، چونکہ اب فوج بھی الزام کی زد میں ہے تو میں معزز عدالت سے دونوں ملزمان کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتی ہوں۔
جج: اجازت ہے۔
ہیومن رائیٹس: (پاکستانی اور ہندوستانی قوم سے) آپ لوگ اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں۔ میں دونوں ملکوں کی فوج سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ کٹہرے میں تشریف لے آئیں۔
وزیر: (طنزاً) تشریف لے آئیں، واہ۔
ہیومن رائیٹس: منسٹر صاحب، یہ عدالت ہے، یہاں انصاف ہوتا ہے، منہ دیکھ کر تھپڑ مارا جاتا ہے۔
(پاکستانی منسٹر منہ بنا لیتا ہے)
(پاکستانی فوجی اور ہندوستانی فوجی کٹہرے میں آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی ٹوپیاں اتار کر بغل میں داب لیتے ہیں)
ہیومن رائیٹس: (پاکستانی فوج سے) آپ پر پاکستانی حکومت کی طرف سے الزام ہے کہ آپ انہیں حکومت نہیں کرنے دیتے بلکہ انہوں نے قوم کی ترقی کے لئے جو اقدامات کیئے ہوتے ہیں آپ مارشل لاء کے ذریعے ان پر پانی پھیر دیتے ہیں۔
پاکستانی فوج: قوم کی ترقی کے اقدامات پر تو نہیں البتہ ان کے ارادوں پر ضرور پانی پھر جاتا ہے۔
ہیومن رائیٹس: کون سے ارادے؟
وزیر: کون سے ارادے؟
پاکستانی فوج: جس قوم کی سلامتی ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اس قوم کے حقوق کی پامالی جب برداشت کی حدیں پار کر جاتی ہے تو قوم کو لٹیروں سے بچانے کے لئے ہمیں مجبوراً حکومتی معاملات اپنے اختیار میں لینے پڑتے ہیں۔
وزیر: تو آپ کے دورِ اقتدار میں کون سے ترقی ہو جاتی ہے؟
پاکستانی فوج: ترقی ہو یا نہ ہو، کرپشن کی روک تھام ضرور ہو جاتی ہے اور عوام کو ایک موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے لئے کسی نیک نیت قیادت کا انتخاب کر سکیں۔
وزیر: قوم کے حقوق کی پامالی کی آڑ میں آپ حکومت کرنے کی اپنی خواہش کی تسکین کے لئے جمہوریت کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔
پاکستانی فوج: پاکستان میں جمہوریت ہے ہی کہاں؟ اقتدار چند سیاسی گھرانوں کی میراث بن چکا ہے۔ اور ہماری بھولی بھالی عوام (وقفہ) بلکہ سچ کہوں تو ہماری بے وقوف عوام آج بھی ان لوگوں کے نام پر ووٹ دیتی ہے جن کی قبروں میں شاید اب تک ان کی ہڈیاں بھی گل چکی ہوں، جیسے الیکشن جیتنے کے بعد وہ قبر سے اٹھ کر آئیں گے اور حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالیں گے۔ ہمارے سیاستدانوں کے پاس اتنی ڈگریاں نہیں ہوتیں جتنے ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہوتے ہیں۔ غنڈے موالی سیاسی ورکرز ہوتے ہیں، قبضہ گروپ سیاسی پارٹیز کے Donors and Sponsors ہوتے ہیں، کرپٹ لوگ صدر اور وزیرِ اعظم بن جاتے ہیں، سزا یافتہ لوگ منسٹرز بن جاتے ہیں۔ اس کرپشن کو جمہوریت کہا جاتا ہے پاکستان میں۔
ہیومن رائیٹس: پھر تو اس کرپشن میں عوام بھی برابر کی شریک ہوئی۔
پاکستانی فوج: جس معاشرے میں تعلیم کی کمی ہو وہاں شعور پھلنے پھولنے کی بجائے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتا ہے۔ آپ نے کبھی سنا کہ کسی حکومت نے پاکستان کے تعلیمی نظام میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی ہوں جن سے شعور کی بیداری ہو؟ اخلاقی تربیت ہو؟ صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں؟ نہیں۔ عوام کو معیاری تعلیم دیئے بغیر ان سے با شعور قوم بننے کی امید لگانے کا کوئی مطلب نہیں۔
وزیر: شاباش، یعنی اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ جناب بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ آپ کی نذر ہو جاتا ہے، پیچھے بچتا ہی کیا ہے جو ہم تعلیم پر خرچ کریں؟
پاکستانی فوج: فوج کو دیا جانے والا بجٹ عوام کے حفاظتی اقدامات کے لئے خرچ ہوتا ہے یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔ اور جو جنگی سازو سامان خریدا جاتا ہے وہ آپ کی حکومت کی منسٹری کے ذریعے ہی خریدا جاتا ہے، جس کے بجٹ کی Approval بھی آپ کی حکومت دیتی ہے اور اسلحہ بیچنے والے ممالک سے Deal بھی آپ کی حکومت ہی کرتی ہے۔ کن شرائط پر Deal کرتی ہے یہ آپ کو ہی معلوم ہو گا۔
وزیر: فوج کو یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ فوج صرف بارڈرز پر ڈیوٹی کرے جو اس کا کام ہے، حکومتی معاملات ہم سنبھال لیں گے۔
پاکستانی فوج: فوج کے بغیر پولیو کی ایک مہم تو سنبھالی نہیں جاتی آپ سے۔ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے ہوں تو فوج، گھر گھر جا کر مردم شماری کرنی ہو تو فوج، الیکشن میں پولنگ سٹیشنز پر امن و امان قائم رکھنا ہو تو فوج، ملک میں زلزلہ یا سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنا ہو تو فوج، دہشت گردی کے خلاف جان داؤ پر لگانی ہو تو فوج۔ فوج سب کچھ کرے صرف حکومت کے معاملات میں مداخلت نہ کرے، چاہے وہ قوم کو بربادی کی طرف ہی کیوں نہ لے کر جا رہے ہوں۔ قوم کی خدمت کرنا فوج اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور قوم کی حفاظت کرنا اپنا ایمان، حفاظت چاہے بیرونی دشمن سے ہو یا اندرونی دشمن سے۔
وزیر: ہاں تو کون سا احسان کرتے ہیں آپ، قوم کی خدمت اور حفاظت کرنا آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔
پاکستانی فوج: ابھی تو آپ نے کہا کہ فوج کا کام صرف بارڈرز پر ڈیوٹی کرنا ہے۔
(عدالت میں ہلکا سا قہقہہ)
وزیر: (بوکھلا جاتا ہے) ہاں تو مل جل کے ہی کام ہوتا ہے نا، کچھ کام فوج کرے کچھ کام حکومت کرے۔ اصل مقصد تو ملک و قوم کی ترقی ہے، عوام کی خوشحالی ہے۔
پاکستانی: ٹھیک کہا منسٹر صاحب نے، ترقی اور خوشحالی کے لئے مل جل کر ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ میرے گھر میں بھی بہت خوشحالی ہے۔ میری بیوی بھی منسٹر صاحب کی طرح مل جل کر کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ وہ لسٹ بنا کر دیتی ہے میں بازار سے سودا لاتا ہوں۔ میں کھانا پکاتا ہوں وہ کھانا کھاتی ہے۔ وہ برتن اٹھا کر کچن میں رکھتی ہے، میں برتن دھوتا ہوں۔ میں کپڑے دھو کر چھت پر ڈالتا ہوں، وہ سوکھنے کے بعد اتارتی ہے۔ میں کپڑے استری کر کے الماری میں لٹکاتا ہوں، وہ الماری سے کپڑے نکال کر پہنتی ہے۔ منسٹر صاحب بھی کچھ اسی طرح مل جل کر کام کرنے کا کہہ رہے ہیں، قوم کی خوشحالی کے لئے۔
(عدالت میں ہلکا سا قہقہہ)
وزیر: (غصہ آ جاتا ہے) جتنی مراعات فوج کی دی جاتی ہیں اتنی مراعات تو ہمارے منسٹرز کو بھی میسر نہیں ہوتیں۔ اچھی تنخواہیں، پینشن، زمینیں، پلاٹس، کتنا کچھ ملتا ہے فوج کو۔
ہیومن رائیٹس: خیر یہ بات تو عوامی سطح پر بھی سننے میں آتی ہے، جتنی مراعات فوج کو میسر ہیں کسی اور ادارے کو میسر نہیں ہیں۔
پاکستانی فوج: ہماری ملازمت کا زیادہ حصہ ایسے مقامات پر ڈیوٹی کرتے ہوئے گزرتا ہے جہاں کھانے کو پتے ملتے ہیں اور پینے کو کچھ بھی نہیں۔ کچھ علاقوں میں تو پتے بھی نہیں ملتے۔ کبھی برفیلے پہاڑوں پر دشمن کے ساتھ ساتھ جان لیوا سردی سے مقابلہ کرتے ہیں تو کبھی تپتے صحراؤں میں دشمن کے ساتھ ساتھ ریت کے تپتے ہوئے طوفانوں سے۔ جن مراعات کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ ہمارے لئے نہیں ہوتیں، وہ مراعات ہوتی ہیں ان بوڑھے ماں باپ کے لئے جو لاڈ پیار سے پالے ہوئے اپنے جوان بیٹے کو اپنی قوم پر قربان ہونے کے لئے فوج میں بھیج دیتے ہیں۔ وہ مراعات ہوتی ہیں اس بیوی کے لئے جو اپنے سہاگ کو اپنے ہاتھوں سے سجا کر اپنی قوم کی طرف آتی ہوئی گولیوں کو اپنے سینے پر روکنے کے لئے بھیج دیتی ہے۔ وہ مراعات ہوتی ہیں ان معصوم بچوں کے لئے جو اپنے باپ کی محبت سے محرومی کو صرف یہ سوچ کر برداشت کر لیتے ہیں کہ ان کا باپ ان جیسے بہت سے بچوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے گیا ہے۔ ہمیں مراعات کا لالچ ہوتا تو برفانی پہاڑوں، صحراؤں اور ویرانوں میں بھوک پیاس کاٹنے اور اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی بجائے سیاست میں آ کر یا کوئی اور سرکاری ملازمت کر کے آرام سے زندگی گزارتے۔
پاکستانی: جج صاحب، جو جوان ہماری آزادی اور حفاظت کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں ان کی فیملی کی جان، مال، عزت اور معاشی حفاظت کرنا پوری قوم کا فرض ہے۔ جن حکمرانوں کو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مارشل لاء کا ڈر ہوتا ہے وہ اکثر عوام میں اپنی فوج سے نفرت پیدا کرنے کے لئے اس طرح کی غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی اپنی فوج کی دیانتداری پر شک نہیں کیا اور نہ کبھی کریں گے۔
ہیومن رائیٹس: (ہندوستانی فوج سے) آپ پر بھی کچھ ایسے ہی الزامات ہیں، آپ کیا کہیں گے اپنی صفائی میں۔
ہندوستانی فوج: پاکستانی فوج نے جو بات کی، میں نہیں سمجھتا کہ میری بات مختلف ہو گی۔
ہیومن رائیٹس: (مسکراتے ہوئے) چلیں، کسی بات پر تو آپ دونوں کا اتفاق ہوا۔ اس اتفاق کے بعد کیا آپ کو نہیں لگتا کہ دونوں ممالک میں امن کا سمجھوتہ ہونا چاہیئے۔
ہندوستانی فوج: اس بات پر بھی میں پاکستانی فوج سے اتفاق کروں گا کہ سمجھوتے کرنا سرکار کا کام ہوتا ہے فوج کا نہیں۔
ہیومن رائیٹس: اگر سرکار امن کی بجائے جنگ کا فیصلہ کرے تو؟
ہندوستانی فوج: ہمیں صرف آدیش کا پالن کرنا ہوتا ہے۔
ہندوستانی: ہمیں جنگ نہیں چاہیئے۔
پاکستانی: ہمیں بھی جنگ نہیں چاہیئے۔
پاکستانی فوج: جنگ کسی کو بھی نہیں چاہیئے۔ اور جنہیں جنگ کے انجام کا علم ہو انہیں تو بالکل بھی نہیں۔ (توقف) اپنے ساتھیوں کی لاشیں سمیٹنا دشمن کی گولی کھانے سے بھی زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ اپنی بندوق کے نشانے پر کسی جیتے جاگتے انسان کو ٹارگٹ میں لے کر ٹریگر دبانا کتنی اذیّت دیتا ہے اس بات کا احساس صرف جنگ لڑتے ہوئے سپاہی کو ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر سپاہی کو اپنے وطن اور اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کی خاطر انسانیت سے منہ موڑنا ہی پڑتا ہے، چاہے وہ سپاہی پاکستانی ہو یا ہندوستانی۔
ہندوستانی فوج: کسی بھی دیش کے دیش واسی جب اپنے بچے کو پال پوس کر فوج میں بھرتی کرتے ہیں تو ان کی اِچھّا یہی ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ ہمارے دیش کا رکشک بنے، بے گناہوں کی جان لینے والا راکشس نہیں۔ سپاہی کسی بھی ملک کا ہو، اپنے دیش واسیوں کے نام کی گولی اپنے سینے پہ روکنا اپنا دھرم سمجھتا ہے اور اپنے دیش کی طرف بڑھنے والے ہر قدم کو روکنا اپنا کرتوّے۔ چاہے وہ سپاہی ہندوستانی ہو یا پاکستانی۔
کشمیر زیر انتظام پاک: نہتے کشمیریوں کے لئے تو تم راکشس ہی ہو۔
ہندوستانی فوج: (کچھ لمحے سوچنے کے بعد) اپنے دیش کی رکشا کے لئے اگر ہم پر راکشس ہونے کا الزام ہے تو ہمیں راکشس ہونے پر بھی گرو ہے۔
کشمیر زیر انتظام ہند: دوسروں کی آزادی پر قابض ہونے کو تم دیش کی رکشا کہتے ہو؟
ہندوستانی فوج: کبھی کبھی اپنی آزادی قائم رکھنے کے لئے دوسروں کی آزادی ضبط کرنا پڑتی ہے۔
ہیومن رائیٹس: جس دشمن سے آزادی کو خطرہ ہو اسے دوست بنا لینا چاہیئے اور دوستی کسی کی آزادی پر قابض ہونے سے نہیں ہو سکتی۔ فی الفور دوستی کرنا شاید ممکن نہ ہو لیکن سارے فریقین کی آزادی کے استحکام کا معاہدہ کر کے کم از کم دشمنی تو ختم کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی فوج: اگر مجھے معاہدہ کرنے کا اختیار ہوتا تو میں ہر وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہوں جس میں میری قوم کی ترقی اور خوشحالی ہو۔
ہندوستانی فوج: ہندوستانی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے میں بھی ہر طرح کے معاہدے کے لئے تیار ہوتا، اگر میرے اختیار میں ہوتا تو۔
ہیومن رائیٹس: دونوں طرف کی افواج تو امن کے معاہدے کے لئے تیار ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اپنی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے امن کا معاہدہ چاہتے ہیں کہ نہیں۔
وزیر: کیا معاہدہ چاہیئے آپ کو؟
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، بات جب دونوں قوموں کی ترقی، خوشحالی اور بقا کی ہے تو دونوں قوموں سے ہی پوچھ لینا چاہیئے کہ وہ کیا معاہدہ چاہتے ہیں، آپ کی اجازت سے۔
جج: اجازت ہے۔
ہیومن رائیٹس: (ہندوستانی اور پاکستانی فوج سے) آپ دونوں جا سکتے ہیں۔
(ہندوستانی فوج اور پاکستانی فوج واپس اپنی نشست پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور ہندوستانی قوم کٹہرے میں آ کھڑی ہوتی ہیں پاکستانی قوم کے ہاتھ میں ایک کاغذ بھی ہے)
ہیومن رائیٹس: پاکستانی قوم اور ہندوستانی قوم دونوں موجود ہیں اور دونوں طرف کی حکومتیں بھی موجود ہیں، تو بتائیے کہ کیا معاہدہ چاہتے ہیں آپ دونوں حکومتوں کے درمیان۔
پاکستانی: کسی بھی معاہدے کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے میں ہم دونوں قوموں کی طرف سے اس نظریئے کی بات کرنا چاہوں گا جو ہندوستان اور پاکستان کے قیام کا باعث بنا۔ "دو قومی نظریہ” جس کا مقصد مسلمانانِ ہند کے لئے الگ ریاست کا قیام تھا۔ ریاست بننے کے بعد دو قومی نظریہ پایہِ تکمیل کو پہنچ گیا لیکن ہم آج بھی دو قومی نظریہ پر قائم ہیں۔ اب ضرورت ہے ایک ایسے نظریئے کی جس میں کسی تقسیم کی بجائے ایک ہونے کی بات ہو۔ جس میں دوستی کی بات ہوتا کہ دشمنی ختم ہو سکے، جس میں محبت کی بات ہوتا کہ نفرت ختم ہو سکے، جس میں آزادی کی بات ہوتا کہ آزادی کو درپیش ہر خطرہ بے معنی ہو سکے۔ جو بھی معاہدہ ہو اسی نظریئے کے مطابق ہو۔
وزیر: کہانیاں سنانا چھوڑو اور مقصد کی بات کرو۔
پاکستانی: قوموں کی مستقبل کی بات سے اتنی بوریت اچھی نہیں جناب، تھوڑا حوصلہ رکھیں۔ ہم دونوں قوموں نے باہمی مشاورت سے ایک نیا نظریہ سوچا ہے۔ (کاغذ ہندوستانی کو پکڑاتے ہوئے) میں چاہوں گا کہ ہندوستانی قوم وہ نظریہ عدالت کے روبرو پیش کرے۔
(عزت افزائی پر پاکستانی قوم کو شکرگزار نظروں سے دیکھتا ہے اور کاغذ لے کر پڑھنا شروع کرتا ہے)
ہندوستانی: تقسیمِ ہندوستان کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاتھوں بہت جانی اور مالی نقصان اٹھایا جس کی وجہ سے دونوں طرف انتقام کی آگ آج تک بھڑک رہی ہے۔ انتقام اور عدم تحفظ کا احساس دونوں ممالک کی ترقی میں شدید رکاوٹ کا باعث ہے۔ غریب عوام سے لیا گیا پیسہ ان کی فلاح و بہبود اور ملک ترقی پر خرچ کرنے کی بجائے اس کا ایک کثیر حصہ ملکی دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک اس بات کے بالکل متحمل نہیں۔ اس لئے پاکستان اور ہندوستان کو روایتی دشمنی کو ختم کر کے امن سمجھوتہ کرنا چاہیئے . اس سے نہ صرف دونوں طرف عدم تحفظ کا احساس کم ہو گا بلکہ ملکی دفاع پر خرچ ہونے والا پیسہ جدید تعلیم، صحت کی سہولیات اور بے روزگاری کے خاتمے پر خرچ ہو گا جو کہ دونوں ممالک کی اشد ضرورت ہے۔
کشمیر نہ صرف دونوں ممالک کی روایتی دشمنی کی چکی میں پس رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کی دشمنی کی ایک اہم وجہ بھی ہے، اس لئے اس روایتی دشمنی کی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کی افواج کشمیر سے واپس چلی جائیں اور کشمیر کو آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ یہی دونوں ممالک کی ضرورت بھی ہے اور کشمیری قوم کا حق بھی۔
یہ ہے ہم دونوں قوموں کی طرف سے ’تین قومی نظریہ‘
(کشمیر زیر انتظام ہند اور کشمیر زیر انتظام پاک دونوں کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے اور مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ دونوں قوموں کی حکومتیں، پنڈت اور مولوی صاحب خوب ہنستے ہیں)
جج: آرڈر آرڈر، عدالت میں خاموشی کا ماحول رکھا جائے۔
وزیر: واہ واہ واہ، کیا خوب نظریہ ہے۔ لیکن جیسا کہ تم نے کہا کہ ہم آج بھی دو قومی نظریئے پر قائم ہیں، تو برخوردار ہم آج بھی قائم ہیں۔ ہمیں ضرورت نہیں کسی بھی تیسرے چوتھے نظریئے کی۔ کیوں مولوی صاحب آپ کیا کہیں گے اس بچگانہ نظریئے کے بارے میں؟
مولوی: بھئی اس میں کہنے لائق ہے ہی کیا۔ صاف سی بات ہے، دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے اسلام، اور دو قومی نظریہ سے انکار کا مطلب ہے اسلام سے انکار۔ اب اگر اس قوم کو مرتد ہونے کا شوق ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں، ماسوائے اس کے کہ یہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں رہنے کے لائق ہی نہیں، بلکہ یہ تو مسلمان ہی کہلانے کے لائق نہیں۔
منتری: کشمیر کا فیصلہ کرنے والے تم ہوتے کون ہو؟ کشمیر کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے کیا؟ اتنی قربانیوں کے بعد ہندوستان کشمیر کو چھوڑ دے، کیوں؟ یہ تو مسلمان ہیں، ان کا کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی رکھنا بنتا بھی ہے لیکن تم تو ہندو ہو تمہیں کیا دورہ پڑ گیا کشمیریوں سے ہمدردی کا؟
ہندوستانی: مجھے بس اتنی سی ہمدردی ہے کہ کشمیری بھی ہماری طرح کے انسان ہیں، انہیں بھی آزاد زندگی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہمیں۔ ان کے بچوں کا بھی مستقبل پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارے بچوں کا۔ اور اگر اس ہمدردی کو ایک طرف رکھ بھی دیں تو مہاراج کشمیر ہمارے باپ کی جاگیر نہ سہی لیکن جو پیسہ آپ کشمیر کو لے کر خرچ کرتے ہو وہ تو ہمارا ہی ہے نا آپ کے باپ کا تو نہیں۔ چھوڑو دو کشمیر کا پیچھا اور ہمارا جو پیسہ کشمیر پر قابض رہنے کے لئے خرچ کرتے ہو وہ ہم پر خرچ کرو، جن کا حق ہے ایک ایک پائی پر۔
پاکستانی: اور مولوی صاحب، دو قومی نظریہ کی بنیاد ضرور اسلام ہی ہے لیکن یہ نظریہ ملک بنانے کے لئے تھا، ملک چلانے کے لئے نہیں۔ اور اس بات کا ادراک قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کو بھی تھا، اس لئے ملک چلانے کے لئے دو قومی نظریہ کو نہیں بلکہ میرٹ کو بنیاد بنایا گیا۔ اگر دو قومی نظریہ پر ملک چلانے کی کوشش کی جاتی تو پاکستان آرمی کے پہلے کمانڈر ان چیف سرفرینک میسروی (Sir Frank Messervy) کی بجائے کوئی مسلمان ہوتا، کمانڈر ان چیف نیوی وائس ایڈمرل جیفورڈ جیمز ولفرڈ Vice Admiral Jafford James Wilfred اور کمانڈر ان چیف ایئر فورس ایئر وائس مارشل ایلن پیری کِین Air Vice Marshal Allan Perry Keane کی بجائے کوئی مسلمان ہوتا۔
وزیر: تو اس وقت دفاعی عہدے سنبھالنے کے لئے مسلمان جرنیل تھے ہی کہاں۔
پاکستانی: تو کیا پاکستان کے پاس اس وقت صوبے کے گورنر کے لئے کبھی کوئی مسلمان نہیں تھا کہ گورنر پنجاب کی ذمہ داری سر فرانسس موڈی Sir Francis Mudie)) اور گورنر NWFP کی ذمہ داری سر جارج کیننگھم (Sir George Cunningham) کو دینی پڑی؟ اور شاید اس وقت مسلمان معاشیات میں بھی اتنے پیچھے تھے کہ پاکستان کے پہلے فائنانس سیکرٹری سر وکٹر ٹرنر (Sir Victor Turner) کو منتخب کرنا پڑا۔
وزیر: (چند لمحے سوچنے کے بعد) دو قومی نظریہ ہندو اور مسلمان دو قوموں کے حوالے سے تھا، اور مسلمانوں نے ہندو قوم کی بجائے عیسائی قوم کو انتظامی معاملات میں شامل کر کے ثابت کر دیا کہ دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا۔ یہ نظریہ ابدی نظریہ ہے اور تا قیامت چلتا رہے گا۔
پاکستانی: پاکستان کے قیام سے کچھ دن پہلے غالباً 9 اگست کو قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ایک شاعر کو پاکستان کے لئے قومی ترانہ لکھنے کے لئے کہا، غالباً 12 اگست کو یہ ترانہ قائدِ اعظم کو پیش کیا گیا اور ان کی منظوری کے بعد 14 اگست 1947 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور ڈیڑھ سال تک نشر ہوتا رہا۔
اے سرزمینِ پاک!
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
تندیِ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک
دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک
اے سرزمینِ پاک!
جانتے ہیں پاکستان کا یہ پہلا قومی ترانہ کس نے لکھا؟ جگن ناتھ آزاد نے۔ اب یہ نہ کہنا کہ اس وقت مسلمان شاعر تھے ہی کہاں؟ پاکستان بننے کے بعد دو قومی نظریئے کا کوئی وجود باقی نہیں تھا اس حقیقت کو جاننے کے لئے اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی میں غیر مسلم اراکین بھی شامل تھے۔
پریم ہری برما
پروفیسر راج کمار چکرورتی
سریش چندر کمار
اکشے کمار دس
دھرمندر ناتھ دتہ
بھوپندر کمار دتہ
کل ملا کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی کے 14 غیر مسلم ارکان۔ اگر اب بھی آپ کی تسلی نہ ہوئی ہو تو میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا کہ پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون بھی ایک ہندو تھے، جگندر ناتھ منڈل۔ منسٹر صاحب اگر آپ دو قومی نظریہ پر ہی قائم رہنا چاہتے ہیں تو دو قومی نظریہ کے مطابق دنیا میں کہیں بھی بسنے والے مسلمان ایک ہی قوم ہیں، تو پھر آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک قوم ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی شہریت کیوں نہیں دیتے؟ پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ وغیرہ؟
وزیر: پاکستان کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
پاکستانی: اچھا؟ تو پھر کم از کم ہندوستانی مسلمانوں کو ہی پاکستانی شہریت دے دیں۔ وہ بے چارے تو ہندوستان کے شہری ہونے کے باوجود آج بھی ایک الگ قوم ہی سمجھے جاتے ہیں، شاید دو قومی نظریئے ہی کی وجہ سے۔
وزیر: تم خود بھی جانتے ہو کہ یہ ممکن نہیں۔
پاکستانی: اسی لئے تو کہا کہ دو قومی نظریہ ملک بنانے کے لئے تھا ملک چلانے کے لئے نہیں۔ ملک چلانے کے لئے ہمیں کسی اور نظریئے کی ضرورت تھی جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم ایک ہی نظریہ پر ٹکے رہے لیکن اب نہیں۔
وزیر: ہم نہیں مانتے تمہارے اس پھٹیچر سے تین قومی نظریئے کو۔
منتری: ایک منٹ رکیں مہاراج، پہلے یہ تو جان لینے دیں کہ ان افلاطون کے بچوں کے تین قومی نظریئے کے مطابق ہم دونوں حکومتوں کو کرنا کیا ہو گا؟
پاکستانی: (ہندوستانی سے کاغذ لیتا ہے) سب سے پہلے تو دونوں حکومتوں کو ایک معاہدہ کرنا ہو گا۔، یہ کہ اگلے پانچ سال تک، جتنی کہ آپ کی حکومت کی مدت ہوتی ہے، پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک آپس میں جنگ نہیں کریں گے، دونوں ممالک کی فوج اپنے اپنے بارڈر تک محدود رہے گی۔ دوسری بات یہ کہ دفاعی بجٹ کم کر کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ دونوں ممالک میں سے اگر کسی ایک پر بھی کوئی دشمن ملک حملہ کرے گا تو دونوں ممالک مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ ایسا کرنے سے دونوں ممالک کی عسکری طاقت دو گنا ہو جائے گی اور اسلحہ بھی دوگنا ہو جائے گا۔ تیسری اور آخری بات، دونوں حکومتیں یہ معاہدہ ہونے کے ایک مہینے کے اندر اندر اپنی اپنی فوجیں کشمیر سے واپس بلا لیں گی اور کشمیر کو اپنی فوج تیار کرنے تک دفاع بھی مہیا کریں گی یا کشمیر کے دفاع کے لئے UNO سے مدد لی جائے گی۔
منتری: (پاکستانی وزیر سے) منتری صاحب، کیا خیال ہے ہم اپنے آدھے ٹینک، توپیں، جہاز اور 2-4 سو بلین ڈالرز بھی نہ دے دیں کشمیر کو؟
پاکستانی: آپ یہ معاہدہ ہی کر لیں تو بہت ہے۔
وزیر: ابے چپ، (کھڑا ہو کر آگے بڑھنے لگتا ہے) سمجھ کیا رکھا ہے تم نے، تمہارے باپ کی حکومت ہے، جو تم کہو گے وہی ہو گا۔
(پاکستانی وزیر پاکستانی قوم کا گریبان پکڑ لیتا ہے۔ ہیومن رائیٹس چھڑانے کی کوشش کرتی ہے تو پاکستانی وزیر اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے)
وزیر: پیچھے ہٹ، ہیومن رائیٹس کی بچی۔
جج: آرڈر آرڈر
(ہندوستانی منتری ہندوستانی قوم کا گریبان پکڑ لیتا ہے)
منتری: بہن کے ٹکے، سالے، اتنے دیر سے تم دونوں کی بکواس سن رہے ہیں، گندی نالی کے کیڑو، تم لوگ ہمیں راج نیتی سکھاؤ گے۔
جج : آرڈر آرڈر
وزیر: کنجرو، شکر کرو کہ دو وقت پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے، تمہیں تو روٹی اور پانی کے لئے ترسا ترسا کر مارنا چاہیئے۔
(پاکستانی وزیر پاکستانی قوم کو تھپڑ مارتا ہے جس سے اس کے منہ سے خون آنے لگتا ہے، دوبارہ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے، پیچھے سے پاکستانی فوج آ کر پاکستانی وزیر کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کو جھٹکتا ہے جس سے وزیر پیچھے کی طرف لڑکھڑا جاتا ہے)
پاکستانی فوج: پھر آپ کہتے ہیں کہ فوج مارشل لاء لے آتی ہے۔
منتری: بہت شوق ہے تجھے نیتا گیری کرنے کا۔
(ہندوستانی فوج ہندوستانی قوم کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے، منتری صاحب کا ہاتھ رک جاتا ہے)
منتری: بہت ہمدردی ہے نا آپ کو اپنی قوم سے؟ لو سنبھالو، کشمیر دان کر رہی ہے آپ کی قوم، وہ بھی دشمن کو۔
(غصے میں پھر تھپڑ مارنے آگے بڑھتا ہے لیکن ہندوستانی فوج روک لیتا ہے)
ہندوستانی: بس منتری صاحب بس، بہت ہو گیا۔ میرا ہاتھ ابھی تک صرف اس لئے نہیں اٹھا کہ دنیا کے سامنے آپ کی عزت خراب نہ ہو، ورنہ۔۔ ۔
منتری: ورنہ کیا کر لے گا بے؟
ہندوستانی: ہم ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، کل ملا کر 1 سو 30 کروڑ ہندوستانی، منتری صاحب ہم ایک ساتھ مل کر تھوک بھی دیں نا تو تم سب نیتا لوگ ڈوب کے مر جاؤ گے۔
(منتری کا ہاتھ رک جاتا ہے)
جج: آرڈر آرڈر، آپ سب اپنی اپنی سیٹس پر بیٹھ جائیں۔
وزیر: (اپنی سیٹ کی طرف جاتے ہوئے) بدمعاشی بنا رکھی ہے کنجروں نے، نہیں کریں گے ہم کوئی معاہدہ، نہیں مانتے ہم اس تین قومی نظریئے کو۔
(سب لوگ اپنی اپنی سیٹس پر بیٹھ جاتے ہیں)
(ہندوستانی قوم پاکستانی قوم کے منہ سے خون صاف کرتے ہوئے روہانسا ہو جاتا ہے)
ہندوستانی: چھوٹے، دل چھوٹا نہ کرنا۔ جس طرح ہندوستان میں پاکستانی کلاکاروں کو سمان دیا جاتا ہے اسی طرح اس نظریئے کو بھی ہندوستان میں سمان دیا جائے گا۔ یہ وعدہ ہے ہندوستانی قوم کا اپنے چھوٹے بھائی سے۔
پاکستانی: (ہندوستانی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے) ارے بھائی جان، آپ میرے ساتھ ہیں تو معاہدہ تو ان کا باپ بھی کرے گا۔
وزیر: نہیں کریں گے ہم کوئی بھی معاہدہ، جو کر سکتے ہو کر لو۔
منتری: ہم سے بھی کسی معاہدے کی امید مت رکھنا، حکومت ہم کریں اور فیصلے تم کرو، اتنی اوقات نہیں تمہاری۔
پاکستانی: ٹھیک ہے، نہ کریں معاہدہ، ہم کچھ اور سوچ لیتے ہیں۔
وزیر: کچھ اور سوچ کر بھی کیا اکھاڑ لو گے۔
پاکستانی: کچھ ہی عرصے میں الیکشن ہونے والا ہے، ہم عوام صرف اس سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جو تین قومی نظریہ کی حمایت کرے گی اور ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار ہو گی۔
ہندوستانی: منتری مہاراج، آپ بھی نوٹ کر لیں، یہ چیتاؤنی آپ کے لئے بھی ہے۔
منتری: پھر تو تم گھر میں ہی چناؤ چناؤ کھیل لینا، کیونکہ تمہارے اس بے ہودہ قسم کے تین قومی نظریئے سے کوئی سیاسی پارٹی اتفاق نہیں کرے گی۔
ہندوستانی: تو پھر ہم کسی کو بھی ووٹ نہیں دیں گے۔ ووٹ نہیں ملے گا تو الیکشن کیسے ہو گا؟ حکومت کیسے بنے گی؟
وزیر: الیکشن سے بائیکاٹ کرو گے تو نگران حکومت کے ہتھے چڑھے رہو گے۔
پاکستانی: نگران حکومت بھی کب تک چلے گی؟
وزیر: (مسکراتے ہوئے) جب تک الیکشن نہیں ہو جاتا۔
پاکستانی: (کچھ سوچتے ہوئے) حکومت چلانے کے لئے جو پیسہ چاہیئے ہوتا ہے وہ عوام سے آتا ہے، ٹیکس کی صورت میں۔ اگر ہم ٹیکس ہی نہ دیں تو حکومت منتخب ہو یا نگران چلے گی کیسے؟
وزیر: ٹیکس تو ہم تمہارے گلے میں ہاتھ ڈال کر نکال لیں گے۔
پاکستانی: آپ ہمارے گلے تک پہنچنے کے لئے آئیں تو سہی، اس بہانے ہماری رسائی بھی آپ کے گریبان تک ہو جائے گی۔ ویسے بھی الیکشن کے بعد آپ لوگ ہاتھ ہی کب آتے ہیں۔
وزیر: ہم منہ نہیں لگاتے تم جیسے چھوٹے لوگوں کو، جب پولیس گرفتار کرے گی، تھرڈ ڈگری استعمال کرے گی تو بھاگے بھاگے آؤ گے ٹیکس جمع کروانے۔
پاکستانی: جناب، آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پولیس بھی عوام ہی ہے۔
وزیر: تو ہم فوج کی مدد لیں گے۔
(سب کی نظریں دونوں ممالک کی فوج پر ٹک جاتی ہیں)
پاکستانی فوج: فوج کا کام تو صرف بارڈر پر ڈیوٹی کرنا ہوتا ہے نا؟
(پاکستانی وزیر فوج کی حمایت سے ہاتھ دھونے کی وجہ سے پریشان ہو جاتا ہے لیکن پھر خود کو سنبھالتا ہے)
وزیر: ٹیکس نہیں دو گے تو بجلی کیسے ملے گی؟ پیٹرول کیسے ملے گا؟ گاڑیاں کیسے چلیں گی، کھاؤ گے پیو گے کہاں سے؟
پاکستانی: بجلی کا انتظام تو اللہ پاک نے پہلے سے ہی کر رکھا ہے، شمسی توانائی کی پلیٹیں چھت پر لگا لیں گے۔ نہ ہو سکا تو لالٹینیں جلا لیں گے۔ گاڑیوں کی بجائے سائیکل پر سفر کریں گے، اس بہانے ہماری صحت بھی اچھی رہے گی اور گلوبل وارمنگ میں بھی کمی آئے گی۔ جہاں تک کھانے پینے کی بات ہے تو گندم صوبائی اسمبلیوں میں اگتی ہے نہ قومی اسمبلی میں، سبزیاں سیکریٹیریٹ میں کاشت ہوتی ہیں نہ پریزیڈنسی میں۔
وزیر: حکومت کے بغیر کاروبار زندگی مفلوج ہو جائے گا۔ ہسپتال بند ہو جائیں گے، سکول بند ہو جائیں گے، ترقیاتی کام رک جائیں گے۔ سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا۔
پاکستانی: ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ انتظامی معاملات کو سنبھالنے کے لئے ہم بنا لیں گے CBG
وزیر: CBG?، اب یہ کیا ہے؟
پاکستانی: Community Based Government
یہ ہم دونوں قوموں نے ایک نیا طرزِ حکومت سوچا ہے۔ جس میں انتظامی معاملات قومی یا صوبائی سطح کی بجائے کمیونیٹی کی سطح پر سنبھالے جائیں گے۔ اور ہم حکومت کو ٹیکس دینے کی بجائے اپنی اپنی کمیونیٹی میں ٹیکس جمع کروائیں گے۔ جن سے ڈاکٹرز، ٹیچرز، پولیس اور تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جائیں گی، جب تنخواہیں مل رہی ہوں گی تو دفاتر کیوں بند ہوں گے؟ اور اپنی اپنی کمیونیٹی میں ترقیاتی کام بھی ہوں گے۔
وزیر: تمہیں اندازہ بھی نہیں کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ جانتے ہو پاکستان کا سالانہ بجٹ کتنا ہے؟ اتنے پیسے جمع کر پاؤ گے تم اپنے Community Based Government System سے؟
پاکستانی: ہندوستان کا ابھی میں نے حساب نہیں لگایا لیکن اگر پاکستان کا حساب لگائیں تو اگر ہر پاکستانی شہری روز کا 1 روپیہ ٹیکس دے تو مہینے کے ہو گئے 30 روپے، اور جب 22 کروڑ لوگ ہر مہینے 30 روپے دیں تو جناب ٹوٹل ہو گئے 6 سو 60 کروڑ روپے، اور سال کے ہو گئے 7 ہزار 9 سو 20 کروڑ روپے۔
(پاکستانی وزیر فوراً جیب سے موبائل نکال کر کیلکولیٹر پر حساب کرتا ہے اور ریزلٹ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے، چہرے پر پسینہ آ جاتا ہے، رو مال نکال کر پسینہ صاف کرتا ہے)
پاکستانی: میرا خیال ہے کہ پاکستان کا سالانہ بجٹ 5 ہزار کروڑ روپے کے لگ بھگ ہی ہو گا۔ اب آپ خود حساب لگا لیں اگر آپ لوگ خوب کھا پی کے اور منی لانڈرنگ کر کے بھی 5 ہزار کروڑ میں ملک چلا لیتے ہیں تو ہم 7 ہزار 9 سو 20 کروڑ روپے میں کیا کچھ نہیں کر سکتے۔
منتری: تم دونوں کو لگتا ہے کہ یہ طرزِ حکومت چل سکتا ہے؟
ہندوستانی: کیوں نہیں جب USA ہو سکتا ہے تو UCP اور UCH کیوں نہیں ہو سکتا؟
منتری: UCP اور UCH؟
ہندوستانی: United Communities of Hindostan اور United Communities of Pakistan
منتری: تم ہندوستان اور پاکستان کو کمیونیٹیز میں تقسیم کرنا چاہتے ہو؟ بغاوت کے کیس میں پھانسی تو پکی ہے تمہاری۔
ہندوستانی: نہیں، جس وقت تک ہم دونوں قوموں کو تین قومی نظریہ کی حامی حکومت نہیں مل جاتی اس وقت تک کا جگاڑ کیا ہے ہم نے۔
وزیر: (خود کو سنبھالتے ہوئے) بھول ہے تمہاری، تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم اتنی بڑی رقم جمع کر پاؤ گے؟ اتنا بڑا نظام سنبھال پاؤ گے تم لوگ؟
پاکستانی: ہم پاکستانی اور ہندوستانی بہت جذباتی قوم ہیں صاحب، اپنی آئی پر آئیں تو برطانوی حکومت کو برِصغیر سے باہر کر دیں، آپ کی اوقات ہی کیا ہے۔
(کشمیر زیر انتظام ہند آ کر ہندوستانی اور پاکستانی قوم کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے)
کشمیر زیر انتظام ہند: اب ہوا تم دونوں کو اپنے قوم ہونے کا احساس۔
(پاکستانی وزیر اور ہندوستانی منتری سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں)
جج: عدالت کے فیصلہ سنانے سے پہلے اگر کسی فریق کو کچھ کہنا ہے تو اجازت ہے۔
(عدالت میں خاموشی)
ہیومن رائیٹس: مائی لارڈ، کشمیر کے حوالے سے میں کچھ باتیں سب کے سامنے پیش کرنے کی اجازت چاہتی ہوں۔ کشمیر کی اصل اہمیت جاننے کے لئے ہندوستانی یا پاکستانی ہونے کے حصار سے نکل کر انسانیت کی آنکھ سے دیکھنا ہو گا کشمیر کو۔
جج: اجازت ہے۔
ہیومن رائیٹس: کشمیر انسانی بقا کے لئے قدرت کا بیش قیمت تحفہ ہے۔ اگر کشمیر کو کوئی نقصان پہنچا تو اس خطے میں موجود زندگی تو لقمۂ اجل بنے گی ہی بنے گی ساتھ ساتھ پوری انسانیت کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
کوئی بھی جاندار آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اور یہ آکسیجن مہیا کرتے ہیں درخت، یعنی جنگلات۔ دنیا کا 31 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جس میں کشمیر میں پائے جانے والے جنگلات بھی شامل ہیں۔ اگر ان جنگلات کو جنگ یا کسی بھی صورت میں کوئی نقصان پہنچا تو اس خطے میں بسنے والے لوگوں کو سانس لینے کے لئے آکسیجن کے سلنڈرز ساتھ لے کر گھومنا پڑ سکتا ہے، اور گلوبل وارمنگ کے بڑھنے سے جو نقصانات ہوں گے ان کا خمیازہ نہ صرف اس خطے کو بھگتنا پڑے گا بلکہ پوری دنیا پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ہمارے Planet پر زندگی Ecosystem کی مرہونِ منت ہے۔ سائنس سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ Ecosystem کے بغیر زندگی کی بقا نا ممکن ہے اور اس سسٹم کا مرکزی کردار ہے درخت۔ کشمیر میں موجود جنگلات کو کوئی نقصان پہنچا تو اس خطے کے Ecosystem میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے پورے خطے میں زندگی خطرات کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ خشک سالی اور قحط اس خطے کا مقدر بن جائے گی۔ اس کے بعد انسانوں، جانوروں اور پرندوں کی نقل مکانی کی وجہ سے اردگرد کے ممالک پر ناقابلِ برداشت بوجھ پڑے گا۔ اور اگر اس خطے کے لوگوں کو دوسرے ممالک میں پناہ نہ دی گئی تو خون خوار جنگ تو طے ہے۔
دنیا میں موجود پانی کا صرف 3 فیصد حصہ قابلِ استعمال ہے۔ اور تمام جانداروں کی بقا کے لئے پانی کی مسلسل دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے قدرت اس پانی کا دو تہائی حصہ گلیشیئرز کی شکل میں ہمہ وقت محفوظ رکھتی ہے۔ دنیا میں 198,000 گلیشیئرز ہیں، اگر یہ گلیشیئرز پگھل جائیں تو سمندر اپنی سطح سے 270 فٹ بلند ہو جائیں گے، اور ہماری زمین کا آدھے سے زیادہ خشک حصہ سمندر کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ شہر کے شہر ڈوب جائیں گے ملک کے ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائیں گے۔ ان 198,000 گلیشیئرز کا ایک بہت بڑا حصہ کشمیر کی سرزمین پر کھڑا ہے اور دنیا کا دوسرا بڑا گلیشیئر سیاچن بھی ان میں شامل ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی کے یہ قدرتی ذخائر پہلے ہی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں، ایسے میں اگر کشمیر میں جنگی کاروائی ہوئی تو پانی کی یہ ذخائر پگھل کر سیلاب کی صورت میں پورے خطے کو برباد کر دیں گے۔ اس خطے میں بسنے والے آدھے سے زیادہ انسان سیلاب میں بہہ جائیں گے، سیلاب سے بچنے والوں میں سے آدھے سے زیادہ پیاس کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے، اور جو انسان بچیں گے وہ پانی کی بوند بوند کے لئے ایک دوسرے کی گردنیں اڑاتے پھریں گے۔
کشمیر صرف زمین کے ایک خوبصورت ٹکڑے کا نام نہیں، کشمیر تو زندگی کی بقا کے لئے قدرت کا حسین تحفہ ہے پاکستان اور ہندوستان کو تو کشمیر کی خاطر لڑنے کی بجائے اس کی حفاظت کرنی چاہیئے بلکہ پوری دنیا کو کشمیر کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ مسئلۂ کشمیر دو ملکوں یا تین قوموں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بقا کا مسئلہ ہے۔ پوری انسانیت کی بقا کا۔ That’s all your highness
(کچھ دیر وقفہ)
جج: عدالت کا فیصلہ کچھ دیر بعد سنایا جائے گا۔
(All Rise کی آواز کے ساتھ جج صاحب اٹھ کر چلے جاتے ہیں، کچھ دیر اندھیرا، اور چند لمحوں بعد عدالت کا منظر، جج صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے فائل پڑھ رہے ہیں، فائل کھلی چھوڑ کر اپنا چشمہ اتارتے ہیں)
جج: تمام حالات و واقعات کا بغور جائزہ لینے کے بعد، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی عوام کو 7 دہائیوں سے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے کے اعزاز میں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا جائے۔ اور جس کمال بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے دونوں قومیں چند طبقات کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنی ہوئی ہیں اس کے لئے یہ عدالت Nobel Prize for Ignorance کی سفارش بھی کرتی ہے۔ پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے کشمیریوں کو آزادی سے محروم کرنے پر ہندوستان کو اعزازی طور پر Pride of Performance کا بھی حقدار قرار دیا جاتا ہے۔
(عدالت میں موجود سب لوگ ایک دوسری کی طرف حیران نظروں سے دیکھتے ہیں اور سرگوشیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں)
جج : آپ کو اپنے ہندوستانی ہونے پر گرو ہونا چاہیئے، اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیئے، لیکن اپنے انسان ہونے پر شرمندہ ہونا چاہیئے۔ دو قومی نظریہ ہندوستان کو دو ملکوں میں تقسیم کرنے کے لئے تھا، آپ نے تو انسانوں کو ہی تقسیم کر دیا۔ تقسیمِ ہندوستان کے بعد دو قومی نظریہ اپنے مقصد کے حصول کے بعد ختم ہو جانا چاہیئے تھا لیکن پاکستان آج بھی دو قومی نظریہ سے محبت کا وارث بنا بیٹھا ہے اور ہندوستان دو قومی نظریہ سے نفرت کا۔ ملا کیا ہے آپ دونوں کو اس وراثت سے؟ دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان کے تمام ریسورسز اور صلاحیتیں اپنی قوم کی ترقی پر مرکوز ہوئیں تب بنے وہ ممالک ترقی یافتہ۔ اور آپ دونوں کے ریسورسز اور صلاحیتوں کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں۔ آپس کی دشمنی سے کچھ نہیں ملنا آپ دونوں کو۔ دشمنی کرنی ہے تو اپنے اپنے ملک میں موجود غربت سے کیجیئے، بے روزگاری سے کیجیئے جن کی وجہ سے آپ دونوں کے معاشروں میں چوری چکاری، ہیرا پھیری، منشیات، جسم فروشی، اغوا اور قتل جیسے لعنتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ دشمنی کرنی ہے تو اپنے اپنے ملک میں ہونے والی کرپشن سے کیجیئے جس کی وجہ سے حقدار کو حق نہیں ملتا، مظلوم کو انصاف نہیں ملتا۔ دشمنی کرنی ہے تو اس سسٹم سے کیجیئے جس کی وجہ سے امیر اور غریب کو ایک جیسی تعلیم نہیں ملتی، ایک جیسی صحت کی سہولیات نہیں ملتیں، ایک جیسی خوراک نہیں ملتی، پانی نہیں ملتا۔ آپ کی سوچ تو آج سے 14-15 سو سال پہلے کے انسانوں سے بھی پسماندہ ہے۔ تم ایٹمی طاقتوں سے تو مکہ اور مدینہ کے مویشی پالنے والے وہ مسلم اور غیرمسلم زیادہ با شعور تھے جنہوں نے مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی اختلافات کے باوجود امن سے رہنے کا سمجھوتا کیا، دشمنی ختم کرنے کا سمجھوتا کیا، کندھے سے کندھا ملا کر ایک دوسرے کے دشمن سے مقابلہ کرنے کا سمجھوتا کیا۔
تمہیں آگے کا انسان بننا ہے تو ایک بار 14-15 سو سال پہلے کا انسان بننا پڑے گا۔ دو قومی نظریئے نے اگر تمہیں الگ کیا ہے تو تین قومی نظریہ تمہیں ایک کرے گا۔ ایک اور ایک گیارہ والا محاورہ تو سنا ہو گا تم نے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھو گے تو 11 سال کی ترقی کا سفر 1 سال میں طے کر لو گے۔ بھول جاؤ دو قومی نظریئے کو اور اپنا لو تین قومی نظریہ۔ ورنہ ذلت اور رسوائی تو ہے ہی، بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ عدالت اقوامِ متحدہ سے گزارش کرتی ہے کہ نہ صرف اس خطے میں رہنے والے انسانوں بلکہ پوری انسانیت کی بقا کی خاطر کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی متنازعہ زمین کی بجائے آزاد ریاست بنایا جائے اور پوری دنیا کو کشمیر کی حفاظت کا ذمہ دار مقرر کیا جائے۔ ہیومن رائیٹس نے جو حقائق پیش کیئے ہیں اس کے بعد اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اگر سرزمینِ کشمیر کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔ کشمیر کی سلامتی خطرے میں پڑنے کا مطلب ہے انسانی بقا خطرے میں پڑنا۔ کشمیر کے امن کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے کو انسانیت کی بقا کے خلاف اقدام سمجھا جائے اور اسے پوری انسانیت کا دشمن سمجھا جائے۔ کشمیر کی حفاظت کرنا، کشمیر میں امن قائم رکھنا کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام ممالک کی ذمہ داری ہونی چاہیئے کیونکہ کشمیر انسانی بقا کے لئے قدرت کے انمول تحفوں میں سے ایک ہے۔
The court is adjourned.
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں