نوعرسیماب اکبر آبادی کے ایک شاگرد کا نظموں کا مجموعہ
نورِ مشرق
از قلم
ضیاؔ فتح آبادی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں …..
سجدے میں
(شاعر کی تکمیل صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب شاعر اپنے ماحول کی حقیر سے حقیر چیز کی پرستِش کرنے لگے)
اے زمیں، اے آسماں، اے زندگی، اے کائنات
اے ہوا، اے موج دریا، اے نشاطِ بے ثبات
اے پہاڑوں کی بلندی، اے سرودِ آبشار
اے گھٹا جھومی ہوئی، اے نغمہ بر لب جوئبار
اے مسرّت خیز وادی، اے فضائے کیف ریز
اے دِلِ آبادِ وحشت، اے رگوں کے خونِ تیز
اے بساطِ ریگِ صحرا، بے کس و بے خانماں!
اے بگولوں کے مسلسل رقص، اے سیلِ رواں
اے سمندر ہر طرف آغوش پھیلائے ہوئے!
اے حوادث کے تھپیڑے روز و شب کھائے ہوئے
اے بہار صحنٕ گلشن، اے نظام رنگ و بُو
اے گلوں کی سادگی، اے بلبلوں کی آرزو
اے پھلوں کے بوجھ سے سر بر زمیں شاخ شجر
اے پریشاں زلفِ سُنبل، چشم نرگس بے بصر
اے عروسِ صبح مستی شام بزم مے کدہ
اے جوانی کی نظر، دزدیدہ و ہوش آزما
اے ستاروں کی چمک، اے گردشِ خورشید و ماہ
اے سرور بے گناہی، اے تقاضائے گناہ
اے دلِ بے تاب، اے موہوم امیدِ سکوں
اے سکوتِ یاس، اے طوفان امواج جنوں
اے وقارِ حسن، بزم زیست پر چھائے ہوئے ِ
اے جنونِ عشق، سرد آہوں سے گرمائے ہوئے
اے نگاہِ مست و بیخود، مائلِ تخریبِ ہوش!
اے نیازِ میکشانِ زیست، ناز مے فروش
اے چراغِ آرزو، اے بزم ہستی کے شباب
اے پر پروانہ، اے رقصِ نشاطِ کامیاب
اے حرم، اے دیر، اے مذہب کے انداز حسیں
اے تخیل کی بلندی کے فریبِ بہتریں
اے فلک پر اڑ نے والے طائرانِ خوش جمال
اے زمیں پر رینگنے والے وجودِ بے مقال
اے قفس میں پلنے والے، بے زباں و بے اماں
اے اسیرانِ محن، مفلس، غریب و نا تواں
اے غم ایّام، اے فکرِ حصولِ روزگار
اے خیابانِ عمل، اے بازوئے مصروفِ کار
اے خمارِ بادۂ دولت میں بے ہوش و حواس
اے کہ تم سے ذرّہ ذرّہ زندگی کا ہے اداس
بے نیازِ مستی و جام و سُبو کر دو مجھے
اپنے کیفِ مستقل سے اس طرح بھر دو مجھے
میں تمہارا بن کے سوز و جذب کا ماہر بنوں
دل سے وہ نغمے اٹھیں، جن کے لئے شاعر بنوں
٭٭٭
طلوُعِ سحر
ہوا طلوُع افق پر ستارۂ سحری
ملی تمام جہاں کو نویدِ جلوہ گری
سفر کا حکم ملا کاروانِ انجم کو
سواریِ سحر آتی ہے راہ صاف کرو
غبارِ ظلمتِ شب لے اُڑی نسیمِ سحر
کلی چمن میں ہوئی باعِثِ شگفتِ نظر
چٹک کے غنچے نے آواز دی کہ اے گلچیں
جھُکا بھی دے درِ فطرت پر آج اپنی جبیں
گلوں نے بلبلِ شیدا سے مُسکرا کے کہا
خموش کس لئے بیٹھی ہے چھیڑ گیت نیا
فضائیں گونج اُٹھیں دل نواز نغموں سے
ہوئی بلند صدائے رباب پتّوں سے
چمن میں جاگ اٹھے اشجار لے کر انگڑائی
بساطِ خاک پر اک موجِ نور لہرائی
تڑپ کے لہر نے دریا سے یوں خطاب کیا
’تری خموش روی نے مجھے خراب کیا‘
خموشیاں ہوئیں رخصت کہ دورِ نور آیا
رگوں میں خون نیا دوڑتا بزور آیا
کسان بیل لئے دوُر جھونپڑے سے چلا
سحر کے نشّے میں مخمور، جھونپڑے سے چلا
ہوئی بلند صدا مندروں سے گھنٹوں کی
اذاں موذنِ مسجد نے دی، فِضا جاگی
عبادتِ سحری میں جھُکا دلِ شاعر
اب ایک وجد کی منزل ہے منزلِ شاعر
خیال لے کے اُڑاتا بہ چرخِ نیلی فام
سحر کی پہلی کرن نے دیا اسے پیغام
’کہ تجھ میں مجھ میں کوئی فرق و امتیاز نہیں‘
’ہمارا نغمۂ نو ہے، سحر کا ساز نہیں‘
’ترے کلام میں میرا ہی تو گداز ہے یہ‘
’نمودِ صبح نہیں زندگی کا راز ہے یہ‘
٭٭٭
انقلابِ بہار
مژدہ اے دل، پھر گلستاں میں بہار آنے کو ہے
از سرِ نو لالہ و گل پر نکھار آنے کو ہے
بھیگی بھیگی ہیں ہوائیں روح پرور ہے فضا
پھر کوئی کالی گھٹا دیوانہ وار آنے کو ہے
انقلابی صور پھُونکا جا رہا ہے دہر میں
غم زدوں کو عشرتِ غم سازگار آنے کو ہے
چاندنی سوئی ہوئی ہے واد یِ گل پوش میں
کوہ سے گاتا ہوا اک آبشار آنے کو ہے
غرقِ مے ہونے کو ہے پھر عالمِ امکاں تمام
ساقیِ مخمور سوئے جوئبار آنے کو ہے
گونجتے ہیں ساز پیمانہ پہ نغماتِ شراب
میکدے کی سمت ہر پرہیزگار آنے کو ہے
پھر نظر کے سامنے ہے جلوہ زار روئے دوست ِ
روح کو آرام اور دل کو قرار آنے کو ہے
دل سے داغِ سوزِ ناکامی فنا ہو جائے گا
اب بہار آتی ہے، عالم ’گل کدا‘ ہو جائے گا
٭٭٭
دعوتِ سیر
لطافتیں بھری ہوئی ہیں دامنِ بہار میں
جوانیاں تڑپ رہی ہیں باغ کے نکھار میں
فضائے رنگ و حسن ہے ہمارے انتظار میں
لو آؤ، سیر کو چلیں
شعاعِ آفتاب وہ اُفق پہ جلوہ گر ہوئی
تمام بزم کائنات جنّتِ نظر ہوئی
اُٹھا یہ شور ہر طرف سحر ہوئی، سحر ہوئی
لو آؤ، سیر کو چلیں
پرندے بے خودی کے گیت گا رہے ہیں ہر طرف
فضاؤں میں پروں کو پھڑ پھڑا رہے ہیں ہر طرف
فسانہ صبحِ باغ کا سُنا رہے ہیں ہر طرف
لو آؤ، سیر کو چلیں
چمک رہے ہیں اور جگمگا رہے ہیں راستے
قدم قدم پر آئنے دکھا رہے ہیں راستے
سکوت کی زبان سے بُلا رہے ہیں راستے
لو آؤ، سیر کو چلیں
تمام رات کٹ گئی، سحر کے انتظار میں
تسلیوں میں قول کی، فریبِ اعتبار میں
نہ ٹالو کہہ کے یوں کہ ’ہم ہیں نیند کے خمار میں‘
لو آؤ، سیر کو چلیں
یہ وقت اور یہ سماں بھلا نصیب پھر کہاں
یہ نو طلوع مستیاں بھلا نصیب پھر کہاں
یہ صبحِ مستِ گلستاں بھلا نصیب پھر کہاں
لو آؤ، سیر کو چلیں
چٹک چٹک کے ہر کلی پیام دے رہی ہے یہ
ہوا کی روح پروری پیام دے رہی ہے یہ
سحر میں چھُپ کے زندگی پیام دے رہی ہے یہ
لو آؤ، سیر کو چلیں
ضرورتوں کا ذکر کیا، ضرورتوں کو چھوڑ دو
کرو نہ غور علتوں پہ، علّتوں کو چھوڑ دو
خدا کے واسطے تمام حجّتوں کو چھوڑ دو
لو آؤ، سیر کو چلیں
تمہیں قسم ہے تابشِ جمال لا زوال کی
کہ جس نے میرے دل کی کائنات پائمال کی
مآل کی کسے خبر ہے، فکر کیا مآل کی
لو آؤ، سیر کو چلیں
٭٭٭
ابرِ بہار
ابرِ بہار آیا
دیوانہ وار آیا
بے اختیار آیا
گاتا ہوا فضا پر
اُڑتا ہُوا ہوا پر
دنیا و ما سوا پر
انگڑائی لی چمن نے
نرگس نے، یاسمن نے
مرغانِ نغمہ زن نے
بدلا نظامِ عالم
رو پوش ہو گیا غم
اُٹھا خزاں کا پرچم
ہر سمت نور پھیلا
کیف و سرور پھیلا
نزدیک و دور پھیلا
پروانے رقص میں ہیں
پیمانے رقص میں ہیں
دیوانے رقص میں ہیں
ہر روح مست و بے خود
بادہ پرست و بے خود
کوثر پرست و بے خود
بادہ بدوش ساقی
مستی فروش ساقی
ہے نشّہ کوش ساقی
اس فصلِ عنبریں میں
اس دور دلنشیں میں
اس موسمِ حسیں میں
فطرت پرست شاعر
جذبات کا مُصوّر
حالات کا مبصّر
سب کچھ بھُلا چُکا ہے
تخئیل آزما ہے
تخلیق کر رہا ہے
نظریں ہیں کہکشاں پر
اُڑتا ہے آسماں پر
پہنچا ہے یہ کہاں پر
یاد آ رہے ہیں اس کو
تڑپا رہے ہیں اس کو
بہکا رہے ہیں اس کو
بھُولے ہوئے فسانے
گزرے ہوئے زمانے
گائے ہوئے ترانے
کچھ گنگنا رہا ہے
گویا کہ گا رہا ہے
اور مسکرا رہا ہے
عنوان نظمِ شاعر
’ابرِ بہار ہستی‘
دو لفظ ہیں یہی تو
کیف و خمار ہستی
٭٭٭
نیا سال
لوگ کہتے ہیں سال ختم ہوا
درد و رنج و ملال ختم ہوا
عشرتوں کا پیام آ پہنچا
عہدِ نو شاد کام آ پہنچا
گونجتی ہیں فضائیں گیتوں سے
رقص کرتے ہیں پھُول اور تارے
مُسکراتی ہے کائنات تمام
جگمگاتی ہے کائنات تمام
مجھ کو کیونکر مگر یقیں آئے
میرے دل کو نہیں قرار اب تک
میری آنکھیں ہیں اشکبار اب تک
ہیں مرے واسطے وہی راتیں
قصّۂ غم، فراق کی باتیں
آج کی رات تم اگر آؤ
ابر بن کر فضا پہ چھا جاؤ
مجھے چمکاؤ اپنے جلووں سے
دل کو بھر دو نئی اُمیدوں سے
تو میں سمجھوں کہ سالِ نو آیا
٭٭٭
گھٹائیں
کافر گھٹائیں
ٹھنڈی ہوائیں
جلوہ نما ہیں
راحت فزا ہیں
رنگینیوں کا
طوفاں ہے برپا
حسن و لطافت
عیش اور نزہت
عالم پہ طاری
جاری و ساری
دامن میں بھرکر
لائی ہیں کوثر
میخوار آئیں
ہشیار آئیں
بے تاب آئیں
بے خواب آئیں
آئیں حسیں بھی
اندوہ گیں بھی
دیر و حرم کے
آئیں فرشتے
مفلس، تونگر
سب آئیں مل کر
ساغر بھرے ہیں
کوثر بھرے ہیں
میکش اُٹھا لیں
پی لیں، پلا لیں
ہے عام رحمت
ہنگام عشرت
خالی نہ جائیں
کافر گھٹائیں
٭٭٭
آ جاؤ
آ جاؤ حُسن و نور کی دنیا لئے ہوئے
کیفیت و سرور کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ بجلیوں کو چھُپائے نگاہ میں
زیر نقاب طور کی دنیا لئے ہوئے ِ
آ جاؤ حشر خیز ادائے خرام سے
رفتار میں غرور کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ اضطراب کی دنیا لئے ہوئے
رنگینی و شباب کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ چھیڑتی ہوئی ساز سرور و کیف
میخانہ و شراب کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ پھر جھکائے ہوئے چشم نیم باز
نظروں میں اک حجاب کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ سوز و ساز کی دنیا لئے ہوئے
راز و نیاز و ناز کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ مُسکراتی ہوئی سادگی کے ساتھ
ہونٹوں میں اک مجاز کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ دل کو دیتی ہوئی درد کا پیام
حُسنِ جنوں نواز کی دنیا لئے ہوئے
آ جاؤ، اب کہ دل کو نہیں تابِ انتظار
حد سے گزر چُکا ہے نگاہوں کا اضطرار
آدابِ عشق سے نہیں واقف اگر چہ میں
پھر بھی مجھے ہے حُسن کے وعدوں کا اعتبار
تم بھی ضرور آؤ گی، مجھ کو یقین ہے
آئی ہوئی ہے آج چمن زار میں بہار
٭٭٭
بسنت کا ترانہ
بسنت کیف ریز ہے
بسنت حُسن بیز ہے
بسنت عشق خیز ہے
ہوائیں دل پذیر ہیں
فضائیں دل پذیر ہیں
ادائیں دل پذیر ہیں
ہیں کیاریاں گلوں سے پُر
درخت چہچہوں سے پُر
چمن تجلیوں سے پُر
دلوں میں جوشِ عاشقی
سروں میں شوقِ بندگی
سرور اور بے خودی
برس پڑیں لطافتیں
گزر گئیں کثافتیں
کہاں ہیں اب وہ آفتیں
نئی امنگ اور جنوں
جدید حُسن کا فسوں
رگوں میں تیز تیز خوں
ہیں رنگ و بو کے کارواں
زمین پر رواں دواں
اِدھر اُدھر، یہاں وہاں
اٹھاؤ جس طرف نظر، خوشی ہے انبساط ہے
بسنت کے نکھار میں نشاط ہی نشاط ہے
٭٭٭
کس طرح قرار ہو
فضائے کوہسار میں سرودِ آبشار ہے
سمن کدے میں جلوہ گر عروسِ نو بہار ہے
تجلیوں کی بار گاہ، صحنِ لالہ زار ہے
طلوعِ صبحِ کائنات، دشمنِ قرار ہے
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
زبانِ کائنات پر ہے داستاں شباب کی
بڑھی ہوئی ہیں شوخیاں شعاعِ ماہتاب کی
فضاؤں میں بسی ہوئی ہیں مستیاں شراب کی
کِسی کو فکر ہی نہیں ہے زہد و اجتناب کی
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
جہاں کے میکدے کا ساقیِ حسیں ہے آسماں
برس رہی ہیں کیا ہی ننھی ننھی رس کی بوندیاں
ہوئے ہیں کیف یاب سب زبان دار و بے زباں
رگوں میں ہے شراب، بن کے خونِ زندگی رواں
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
وفائے عشق اور حُسن کی جفا بھی یاد ہے
کِیا تھا جس نے بے قرار وہ ادا بھی یاد ہے
نظر سے جو خطا ہوئی تھی وہ خطا بھی یاد ہے
تمہارا مُسکرا کے مجھ کو دیکھنا بھی یاد ہے
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
تمہاری آنکھ میں وہی شرابِ لالہ فام ہے
اُسی طرح لبوں پہ رنگِ مستیِ دوام ہے
وہی ہے قامت جواں، وہی حسیں خرام ہے
تمہارا حُسن ہے تمام، چاند نا تمام ہے
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
اسیر عشق سر نثار و دل فروش ہے وہی
جہانِ رنگ و بو میں بے نیاز ہوش ہے وہی
سکوں سے نا اُمید، اضطراب کوش ہے وہی
تصورات حسن میں جنوں بدوش ہے وہی
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
تمہاری یادِ جاں نواز آ رہی ہے رات دن
جنونِ آرزو مرا بڑھا رہی ہے رات دِن
مناظر سکوں مجھے دکھا رہی ہے رات دن
ستا رہی ہے رات دن، مٹا رہی ہے رات دن
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
نہ تم یہاں، نہ مدتوں سے نامہ و پیام ہے
نہ میرے عشق کا تمہارے دل میں احترام ہے
تمہاری بزمِ ناز میں جفا وفا کا نام ہے
وفا پرست ہوں مگر مجھے وفا سے کام ہے
تمہیں کہو کہ میرے دل کو کس طرح قرار ہو
٭٭٭
آمدِ حسن
ہر پھُول ہے نشاط گلستاں لئے ہوئے
افسانۂ بہار کا عنواں لئے ہوئے
وہ آ رہی ہے صحن چمن زار میں پھر آج
رنگینیِ حیات کا ساماں لئے ہوئے
آنکھوں میں ایک منظرِ سحر و فسوں اثر
ہونٹوں پر اک تبسّمِ رقصاں لئے ہوئے
شرمندہ کر رہی ہے عروس بہار کو
دامن پہ داغ خونِ شہیداں لئے ہوئے
تفسیر کر رہی ہے کتاب حیات کی
ہر جنبش نظر میں چراغاں لئے ہوئے
کالی گھٹا کا ہوش کسے ہے بہار میں
وہ آ گئی ہے زلف پریشاں لئے ہوئے
اے ہمنشیں ذرا مرے دل کو سنبھالنا
اک حشر سا ہے فتنۂ دوراں لئے ہوئے
ہنگامہ در نظر ہوں میں صد فتنہ در نگاہ
ششدر کھڑا ہوں دیدۂ حیراں لئے ہوئے
دل ہے ازل سے حُسن پرست و سکوں فروش
پہلو میں اضطراب فراواں لئے ہوئے
بیٹھا ہوں کشتیِ جگر پاش پاش پر
آنکھوں میں اپنی حاصل طوفاں لئے ہوئے
٭٭٭
بوندوں کا ساز
نشاط افروز شام رنگیں لطافتوں کو بڑھا رہی ہے
لئے ہوئے ساز بدلیوں کا شباب کے گیت گا رہی ہے
دلوں میں بیتاب ولولے ہیں، دماغ اور ہوش کھو چلے ہیں
نگاہ کے سامنے تجلّی بہار کی جگمگا رہی ہے
اگرچہ خورشید چھپ گیا ہے مگر ابھی تک شعاعِ آخر
کہیں کہیں بادلوں میں منظر حسین و دل کش بنا رہی ہے
نشاط تقسیم ہو رہی ہے، چمن چمن جنّتیں بنیں گی
ٹپک رہی ہے جو بوند رس کی فلک سے، غنچے کھلا رہی ہے
دلوں میں وحشت، سروں میں سودا، نگاہ مضطر، حواس غائب
گرج گرج کر سیاہ بدلی ہزار فتنے جگا رہی ہے
ہوا بھی رنگیں، فضا بھی رنگیں، زمیں بھی رنگیں، فلک بھی رنگیں
غروب خورشید بھی ہے رنگیں،
طلوع شب کی جھلک بھی رنگیں
وہ پیکرِ حسن جس نے میرے دماغ کو جذب کر لیا ہے
نثار قدموں پہ جس کے، مدت ہوئی، دل زار ہو چکا ہے
مرے تصوّر کے آئنے میں ہے جس کا پرتو جمالِ ایمن
جو میرے ٹوٹے ہوئے سفینے کا بحرِ ہستی میں نا خدا ہے
جو میری آنکھوں کی روشنی ہے، جو میرے دل کا قرارِ مطلق
جسے مرا ہر نفس، سمجھ کر خدا کا اوتار، پوجتا ہے
سمٹ کے جس میں سما رہی ہیں تمام تابانیاں جہاں کی
غلط سراسر غلط جو میں یہ کہوں کہ وہ ماہتاب سا ہے
کہ اُس کا دونوں جہاں میں ثانی نہیں ہے کوئی نہیں ہے کوئی
وہ آپ ہی ہے نظیر اپنی، وہ آپ ہی اپنا دوسرا ہے
وہ سن رہی ہے میں داستاں اُس کو اپنے دل کی سنا رہا ہوں
جو ساز بوندوں کا بج رہا ہے اُسی پہ میں گیت گا رہا ہوں
نہ ختم ہو گیت یہ ابد تک، یہ کیف یونہی رہے الٰہی
رہے ہمیشہ محیط عالم یہ شام کی پر فسوں سیاہی
ٹھہر ابھی آفتاب روشن نہ ڈوب مغرب کی پستیوں میں
کہ عہدِ الفت کی میرے دینی پڑے گی اک دن تجھے گواہی
گھٹاؤ تم آج خوب برسو، اُچھال دو کل سمندروں کو
محل و موقع سے بے تعلق ہے اب تمہاری یہ کم نگاہی
وہ سُن رہی ہے فسانۂ شوق میرا اور مُسکرا رہی ہے
خموشی حسن پھر ہے آمادۂ ستم، مائلِ تباہی
یہ بندگانِ ہوس سمجھتے ہیں عشق کو بھی گناہ و عصیاں
کھٹک رہی ہے تمام دنیا کی آنکھ میں میری بے گناہی
ہوا زمانے کی ہے مخالف، خدا مجھے کامیاب کر دے
یہیں ٹھہر جائے توسن وقت، یہ دعا مستجاب کر دے
٭٭٭
مطربہ سے
وہ گیت چھیڑ جس سے جھُوم جائے روحِ زندگی
بجے رباب کائنات، گائے روحِ زندگی
وہ سوز ہو، وہ ہو اثر
تڑپ اُٹھیں دل و جگر
تمام دل قرار اور سکوں سے بے نیاز ہوں
خودی کے عالم خدا نما میں سر فراز ہوں
مری بہار ہے یہی کہ گائے جا بجائے جا
دل و دماغ میں مرے اک آگ سی لگائے جا
طرب کی ندیاں بہا
چراغ کیف کے جلا
تمام کائنات نغمہ ریز و نغمہ بار ہو
بہارِ صد نشاط ہو، نشاطِ صد بہار ہو
مرے مزار پر نہ رو، نہ جھونک مجھ کو آگ میں
کہ میری جنّتیں چھپی ہوئی ہیں تیرے راگ میں
نہ روک ہاتھ مطربہ
لطیف گیت گائے جا
مری اس آخری امید کو نہ پائمال کر
شہیدِ آرزو کی التجاؤں کا خیال کر
٭٭٭
تصویر
تری تصویر سے پیدا کمال حسن و شوخی ہے
نشاط روح تنویرِ جمالِ حسن و شوخی ہے
نگاہِ شوق ساماں پائمال حسن و شوخی ہے
برستی ہے تری چشمِ فسوں گر سے نئی مستی
وہ مستی منحصر جس پر ہے کیف عالم ہستی
وہ مستی جس سے ہے مدہوش ہر ویرانہ، ہر بستی
ترے رخسار رنگیں پر گماں ہے صبحِ گلشن کا
ترے انوار پر ہوتا ہے دھوکا برق خرمن کا
چراغِ طور ہے گویا ستارہ تیرے دامن کا
ترے جلووں کا ہے ممنوں اُجالا محفلِ دل کا
نہیں خورشید کو تاب رخ پر نور کا یارا
ضیائے حسن عالم گیر سے روشن ہے کل دنیا
تیری تصویر سے وابستہ ہے رنگینی عالم
تری تصویر ہے پیغامِ تسکین دلِ پر غم
مگر دل میں مرے کیوں بڑھ رہی بے کلی ہر دم
ستارے رات کو جب آسماں پر جگمگاتے ہیں
شعاعوں کا خزانہ ظلمتستاں میں لٹاتے ہیں
تری تصویر کے آگے مجھے سجدے میں پاتے ہیں
منادی صبح کی کرتا ہے جب خورشید مشرق سے
ہویدا سب پہ کر دیتا ہے دھوکے خواب غفلت کے
مجھے سجدے میں پاتا ہے تری تصویر کے آگے
بہار آتی ہے جب لے کر چمن میں لالہ و گُل کو
سِکھا دیتی ہے فردوسی ترانے حِنسِ بلبل کو
مرا مسجود پاتی ہے تری تصویر کاکل کو
تری تصویر سے میں داستانِ شوق کہتا ہوں
امیدِ ساحل مقصود کی موجوں میں بہتا ہوں
فریب آرزو کی اپنے دل پر چوٹ سہتا ہوں
سہارا ہے یہی طوفان امواج تمنّا میں
اسی سے روشنی ہوتی ہے پیدا چشم بینا میں
جھلکتا ہے اسی کا رنگِ مستی جامِ صہبا میں
بھروسے پر تری تصویر کے زندا ہوں میں اب تک
ستم سہتا ہوں دنیا کے، وفا کرتا ہوں میں اب تک
تجھی سے ہم کلام و ہم سخن گویا ہوں میں اب تک
٭٭٭
آئنے کے سامنے
تمہارے رخسار رنگ و نورِ شباب سے جگمگا رہے ہیں
تمہارے رنگین ہونٹ ساز بہار میں مسکرا رہے ہیں
تمہارے شبگوں سیاہ گیسو، حواس عالم اُڑا رہے ہیں
تمہاری آنکھوں میں مستیاں ہیں
کہ مستیوں کی یہ بستیاں ہیں
جہاں فقط مے پرستیاں ہیں
تمہاری روشن جبیں میں تارے نشاط کے جھلملا رہے ہیں
تم آئنے میں سنور رہی ہو
کہیں کہیں بادلوں کے ٹکڑے بساط گردوں پہ جلوہ گر ہیں
یہ عالم جذب و بیخودی ہے کہ فرض سے اپنے بے خبر ہیں
یہ جاتے خورشید کی شعاعیں نڈھال ہو کر بھی شوخ تر ہیں
تمہیں دریچے سے جھانکتی ہیں
تجلّیاں نذر کر رہی ہیں
تمہیں پہ گویا مٹی ہوئی ہیں
سرور نظارۂ جمال و نشاط رنگیں سے کیف پر ہیں
تم آئنے میں سنور رہی ہو
مرے دل پُر اُمید میں آرزوئیں کروٹ بدل رہی ہیں
وہ آرزوئیں جو میرے سینے سے آہ بن کر نکل رہی ہیں
وہ آرزوئیں جو میرے ہونٹوں پہ کھیلنے کو مچل رہی ہیں
بنا ہوا ہوں نظر سراپا
ہے خشک اب آنسوؤں کا دریا
تمہارا چہرہ ہے کتنا پیارا
بر آئیں گی اب وہ سب امیدیں جو دل میں برسوں سے پل رہی ہیں
تم آئنے میں سنور چُکی ہو
٭٭٭
حسنِ گمراہ
مجھ کو معلوم ہے تو حُسن میں لا ثانی ہے
ساری دنیا تری سودائی ہے دیوانی ہے
تیری آنکھوں میں ہے کیفیت
جام مئے ناب
سو بہاروں کا ہے آئینہ ترا حُسنِ شباب
رخ رنگیں سے ترے پھُول بھی شرماتے ہیں
سامنے آتے ہوئے ڈرتے ہیں، کتراتے ہیں
کالی زلفیں تری لہراتی ہیں جب شانوں پر
بجلیاں کوندھتی ہیں عشق کے ایوانوں پر
مُسکراتی ہے تو گوہر سے لُٹا دیتی ہے
میٹھی آواز سے فطرت کو جگا دیتی ہے
نور پاتی ہیں زمانے کی نگاہیں تجھ سے
روشن امید و تمنّا کی ہیں راہیں تجھ سے
نو جوانی سے بھی تیری مجھے انکار نہیں
میں مگر تیری محبت میں گرفتار نہیں
کچھ بھی ہو مجھ کو نہیں حُسن کے یہ طور پسند
میری تخئیل کو ہے رنگ کوئی اور پسند
دیکھنا مجھ کو کنکھیوں سے ترا ٹھیک نہیں
اور پھر کیا ہے جو یہ حُسن کی تضحیک نہیں
ہر سہیلی سے مرا ذکر کیا کرتی ہے
مجھے پیغام محبت کا دیا کرتی ہے
انگلیوں سے مری جانب یہ اشارے تیرے
خوب معلوم ہیں دھوکے مجھے سارے تیرے
تجھ کو دراصل محبّت سے نہیں کوئی لگاؤ
تیری دانست میں سب کچھ ہے سنگھار اور بناؤ
تو مجھے کس لئے بد نام کیا کرتی ہے
اور رُسوا سحر و شام کیا کرتی ہے
میری غیرت جو کبھی جوش پر آ جائے گی
حُسنِ گمراہ کو رستے پہ لگا لائے گی
٭٭٭
سال کی آخری رات
ختم ہوتا ہے سال آ جاؤ
دور کر دو ملال آ جاؤ
بھُول جاؤ مرے گناہوں کو
شب کے نالوں کو، دن کی آہوں کو
جو ہوا اس کا غم فضول ہے اب
داستان الم فضول ہے اب
نا مرادی کا ذکر، جانے دو
کامرانی کا دور آنے دو
آؤ پھر بیٹھ جاؤ پاس مرے
ولولے کیوں رہیں اُداس مرے
آؤ ہم پھر پئیں، پلائیں کہیں
موسمِ نو کا لطف اٹھائیں کہیں
آؤ پھر چھیڑ دیں شباب کا ساز
ہونے والا ہے سال نو آغاز
سرد و تاریک اور طویل ہے رات
عشرت صبح کی دلیل ہے رات
آج کی رات غم کسی کو نہیں
رقص کرتے ہیں آسمان و زمیں
یہ ستارے جو جھلملاتے ہیں!
پریم کی راگنی سُناتے ہیں
٭٭٭
دعوت نظر
سحر کے آفتاب کی طرف تو دیکھتی ہو تم
لطافت گلاب کی طرف تو دیکھتی ہو تم
حیات کامیاب کی طرف تو دیکھتی ہو تم
مری طرف بھی دیکھ لو
طلوع ماہتاب کی طرف تو دیکھتی ہو تم
صراحی شراب کی طرف تو دیکھتی ہو تم
بہار کے شباب کی طرف تو دیکھتی ہو تم
مری طرف بھی دیکھ لو
تبسّمِ بہارِ گلستاں بھی دیکھتی ہو تم
شباب و رنگ و بو کے کارواں بھی دیکھتی ہو تم
زمیں بھی دیکھتی ہو آسماں بھی دیکھتی ہو تم
مری طرف بھی دیکھ لو
نکھار دیکھتی ہو تم عروسِ کائنات کا
عروسِ کائنات کا، سمن کدے کی رات کا
اگر تمہیں ہے پاس کچھ بھی عشق کی حیات کا
مری طرف بھی دیکھ لو
مری طرف بھی دیکھ لو نگاہِ نیم باز سے
نگاہِ نیم باز سے، ادائے دل نواز سے
ادائے دل نواز سے، غرور اور ناز سے
مری طرف بھی دیکھ لو
تمہاری اک نظر کا انتظار مدّتوں سے ہے
دل الم نصیب بے قرار مدّتوں سے ہے
مری نگاہِ شوق اشکبار مدّتوں سے ہے
مری طرف بھی دیکھ لو
مری طرف بھی دیکھ لو کہ میں بھی کم نصیب ہوں
سکوں سے بے نیاز و بے قرار و غم نصیب ہوں
تمہارے حُسن کا اسیر ہوں، ستم نصیب ہوں
مری طرف بھی دیکھ لو
خموش ہو گئی ہو کس لئے مرے سوال پر
گراؤ بجلیاں مرے دل شکستہ حال پر
دل شکستہ حال پر، حیات پائمال پر
مری طرف بھی دیکھ لو
٭٭٭
نہ جاؤ ابھی
ہیں مواج ندیاں تو پُر شور نالے
کناروں نے بھی اپنے ہتھیار ڈالے
نہ کشتی، نہ کشتی کو ہیں کھینے والے
نہ جاؤ نہ جاؤ ابھی تم نہ جاؤ
فلک پر ہیں رو پوش چاند اور تارے
ہیں ظلمت بداماں زمیں کے نظارے
ہیں سہمے ہوئے خوف و ہیبت سے سارے
نہ جاؤ نہ جاؤ ابھی تم نہ جاؤ
اندھیرا سا ہر سمت چھایا ہوا ہے
فضاؤں میں طوفان آیا ہوا ہے
زمانے کا دل ڈگمگایا ہوا ہے
نہ جاؤ نہ جاؤ ابھی تم نہ جاؤ
مری زندگی کا سہارا تمہیں ہو
مری چشم حسرت کا تارا تمہیں ہو
مرے دردِ الفت کا چارا تمہیں ہو
نہ جاؤ نہ جاؤ ابھی تم نہ جاؤ
ذرا مسکراؤ، ذرا مسکراؤ
اُمنگوں میں میری قیامت اُٹھاؤ
سما جاؤ میرے دل و جاں میں آؤ
نہ جاؤ نہ جاؤ ابھی تم نہ جاؤ
٭٭٭
محویت محبّت
ہوا پھُولوں سے دل بہلا رہی ہے
عجب نزہت سی ہر سُو چھا رہی ہے
فضائے باغ نغمے گا رہی ہے
ستاروں میں چمک سی آ رہی ہے
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
نظر میں مستیاں لے کر چلی ہو
ادائیں، شوخیاں لے کر چلی ہو
جنوں سامانیاں لے کر چلی ہو
عجب رعنائیاں لے کر چلی ہو
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
بہاریں ہیں چمن زاروں میں آؤ
گلوں کے ساتھ تم بھی مُسکراؤ
شباب و کیف کے نغمے سُناؤ
گھٹا بن کر جہان دل پہ چھاؤ
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
خمار آلود آنکھوں میں تمہاری
سمٹ آئی ہے کوثر کی جوانی
جو یہ ہے برہمی زلف رسا کی
ہواؤں کو کبھی تسکیں نہ ہو گی
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
گل و لالہ کی رنگیں شوخیوں کا
زباں پر سارے گلشن کی ہے چرچا
مسلسل بج رہا ہے ساز دریا
جوانی ہر طرف ہے رقص فرما
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
قیامت ہے تمہارا مُسکرانا
نظر ملتے ہی وہ آنکھیں جھُکانا
لب خاموش سے نغمے سنانا
گلوں کو زینت گیسو بنانا
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
زمیں مرکز سے ہٹ کر جھُومتی ہے
نظر میں موج کوثر جھُومتی ہے
اِدھر زلف معنبر جھُومتی ہے
اُدھر ناگن سی دل پر جھُومتی ہے
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
چمن میں ایک تم ہو اور میں ہوں
نہ دیکھوں میں تمہیں تو کس کو دیکھوں
اجازت ہو تو میں اک بات پوچھوں
تمہارے نقش پا پر سجدہ کر لوں؟
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
غرورِ حسن کا انجام ہو تم
نظر کے میکدے کا جام ہو تم
دماغ و قلب کا آرام ہو تم
مجسم شعر ہو، الہام ہو تم
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
خرد سے کر چکا ہوں میں کنارا
ورائے راہ ہے دل کا اشارا
میں لوں کیا دین و ایماں کا سہارا
تصوّر مجھ کو سب کچھ ہے تمہارا
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
نہ ہوش اپنا نہ دنیا کی خبر ہے
یہ دردِ دل ہے یا سوز جگر ہے
یہ نغمہ ہے کہ آہِ بے اثر ہے
مجھے معلوم لیکن اس قدر ہے
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
تمہیں ہو یا نہ ہو مجھ سے محبّت
نہیں یہ سوچنے کی مجھ کو فرصت
یقیں اس کا بھی ہے مجھ کو غنیمت
مرے دل کو یہی کافی ہے راحت
مجھے تم سے محبّت ہو رہی ہے
٭٭٭
کرن
جب ابھرتا ہے اُفق کی سُرخیوں سے آفتاب
کھیلتا ہے سرمدی نغموں سے فطرت کا رباب
دوڑتی ہے پیکر عالم میں جب روح شباب
کیف میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے چشم نیم خواب
آسماں کی رفعتوں کو چھوڑ کر آتی ہے تو
تیرگی کے آئینوں کو توڑ کر آتی ہے تو
تو بظاہر اک کرن ہے بے ثبات و بے وقار
تیری آمد ہے فقط خورشید کا اک اشتہار
ہر روش سے تیری ظاہر ہے مذاقِ اضطراب
تو بھی فانی ہے، ترا جلوہ بھی ہے نا پائیدار
منتظر تیرا مگر ہر دم کلی کا سینہ ہے
تیرے ہی جلووں سے پُر انوار یہ آئینہ ہے
اجنبی ہوں مطلقاً میں شب ستانِ دہر میں
سب سے پیچھے ہوں ابھی تک رہروانِ دہر میں
کامیاب اب تک نہیں ہوں امتحانِ دہر میں
میرا دل بھی اک کلی ہے گلستانِ دہر میں
اس کلی کو بھی تبسّم کی کبھی تعلیم دے
میرے اوراقِ پریشاں کو نئی تنظیم دے
اے کرن، مجھ کو عطا کر ایک شعلہ نور کا
دے مرے ذوقِ نظر کو ظرف کوہِ طور کا
میرا دل مرکز بنے کیفیت مسرور کا
راز سارا کھول دوں میں ناظر و منظور کا
مادیت مطمئن ہو روح تو کیا چیز ہے
میں بتا دوں گا کہ سب نا چیز ہے نا چیز ہے
٭٭٭
ڈیوک آف ونڈسر
محبّت کا جہاں میں بول بالا کر دیا تو نے
فضاؤں میں محبّت کی اجالا کر دیا تو نے
زمانہ قیس کی تاریخ کو افسانہ سمجھا تھا
محبّت کرنے والوں کو فقط دیوانہ سمجھا تھا
یقیں آتا نہ تھا فرہاد کے ایثار پر اس کو
ہنسی آتی تھی شاعر کے نشاط کار پر اس کو
سمجھتا تھا محبّت اک فریب خوبصورت ہے
نہ کچھ اس کی حقیقت تھی، نہ کچھ اس کی حقیقت ہے
مگر تو نے یہ ثابت کر دیا افرادِ عالم پر
کہ ہیں موجود اب بھی مٹنے والے ’شوق مبہم‘ پر
کلاہ و تاج کی پرواہ نہیں دیوانۂ غم کو
ہوس ہے طوف حسنِ شمع کی پروانۂ غم کو
یہ اہل عشق ہیں آزاد دنیا کے بکھیڑوں سے
انہیں تو کام ہے امواجِ طوفاں کے تھپیڑوں سے
محبّت رہ نہیں سکتی کبھی خاموش سینے میں
جھلکتی ہیں ہزاروں بجلیاں سی آبگینے میں
بغیرِ عشق کیف زندگی حاصل نہیں ہوتا
بغیر اس کے کوئی انساں کبھی کامل نہیں ہوتا
محبّت میں ہیں وہ آزادیاں جو مل نہیں سکتیں
ہلانے سے بھی بنیادیں جنوں کی ہل نہیں سکتیں
صدا تحسیں کی اُٹھے گی وفا کے آبشاروں سے
لِکھا جائے گا تیرا نام گردوں پر ستاروں سے
٭٭٭
خوبصورت ارادے
جب گھٹائیں آسماں پر چار جانب چھائیں گی
بادۂ تسنیم و کوثر خاک پر برسائیں گی
مجھ کو تڑپائیں گی لیکن تجھ کو بھی تڑپائیں گی
تو مجھے یاد آئے گی اور میں تجھے یاد آؤں گا
جب چمن میں منعقد ہو گی گلوں کی انجمن
رقص پر آمادہ ہو گی عندلیب نغمہ زن
ہر کلی کے لب پہ ہو گا نعرۂ توبہ شکن
دل مجھے تڑپائے گا اور دل کو میں تڑپاؤں گا
جب مرا ساقی مجھے بھر بھر کے دے گا جامِ مے
بھُول جاؤں گا کہ دنیا میں کوئی شے غم بھی ہے
سازِ ہستی سے کروں گا اک نئی ایجاد نے
اور اسی سے میں نئی مستی کے نغمے گاؤں گا
طور کا رومان پھر دنیا میں ہو گا جلوہ گر
نور سے بھر کر چھلک جائے گا ہر جامِ نظر
منتظر گُل ہوں گے آغوشِ مسرّت کھول کر
میں بھی اپنے بازوؤں کو دوُر تک پھیلاؤں گا
جب مہ و خورشید ہو جائیں گے بے نور و ضیا
ہر طرف چھا جائے گا جب ظلمتوں کا سلسلہ
رہنما کو بھی نہ ہو گا راہِ منزل کا پتا
خود بھی بہکوں گا، زمانے کو بھی میں بہکاؤں گا
جب خودی کو بھُول کر ہو جائے گی دنیا تباہ
ہر دلِ ناکام سے نکلے گی اک پر سوز آہ
دین و دنیا میں کسی صورت نہ ہو گا جب نباہ
میں ہی پھر بھٹکے ہوؤں کو راستے پر لاؤں گا
جب طلسمِ رنگ و بو کو توڑ کر نکلوں گا میں
گلشنِ ہستی کا بھانڈا پھوڑ کر نکلوں گا میں
شورش آبادِ جہاں کو چھوڑ کر نکلوں گا میں
اپنے ماضی پر نظر ڈالوں گا اور پچھتاؤں گا
جب سکوں کی گود میں مدہوش ہو گی کائنات
نغمہ زاروں میں سراپا گوش ہو گی کائنات
صورت ہنگامۂ خاموش ہو گی کائنات
میں اُٹھوں گا اور سکوں پر بجلیاں چمکاؤں گا
جب نہیں ہو گا بلند و پست میں کچھ امتیاز
نیکیاں ہوں گی نگوں سر، عیب ہوں گے سر فراز
بھُول جائے گا زمانہ جب حق و باطل کا راز
پھر وہی دور شعور و عقل واپس لاؤں گا
جب خزاں بے کیفیتوں کو ساتھ لے کر آئے گی
جب گل و لالہ کے چہرے پر اداسی چھائے گی
جب بساطِ بادہ گلشن سے اٹھا لی جائے گی
کھو کے اس دنیا کو پھر میں آپ بھی کھو جاؤں گا
٭٭٭
روح کا پیمانہ
بھر دے میرا جام اے ساقی بھر دے میرا جام
آیا ہوں میں دوُر سے ساقی، بھر دے میرا جام
کیفیت اور نور سے ساقی، بھر ساقی، بھر دے میرا جام
نور وہ جس سے روشن دل کا کاشانہ ہو جائے
کیف وہ جس میں ڈوب کے ہستی میخانہ ہو جائے
زیست جسے کہتی ہے دنیا، مستی کا ہے نام
بھر دے میرا جام
مشرق سے وہ سورج ابھرا، پہنے زرّیں تاج
چاند ستارے چھوڑ کے بھاگے اپنا اپنا راج
بیداری کے نغموں سے بے تاب ہوا ہر ساز
تو بھی اے میرے ساقی، دے مجھ کو آواز
میری امیدیں بھی کیوں رہ جائیں تشنہ کام
بھر دے میرا جام
بے خود ہے نشّے میں رنگ و بو کے کل گلزار
فرق نہیں ہے مطلق کوئی گل ہو یا ہو خار
دوُر کہیں اک گلشن ہے اس گلشن سے بھی خوب
دل تو دل، ہو جاتی ہیں جس سے روحیں مغلوب
اس گلشن کے بھید بتا کر، مجھ کو کر لے رام
بھر دے میرا جام
بادل کرتے ہیں گردوں پر بے تابی کا رقص
خاک کا ہر ذرہ کرتا ہے شادابی کا رقص
بھُول چُکے ہیں اکثر تجھ کو، ہو کر نا امید
نا امیدی ہی تو ہے بربادی کی تمہید
مجھ کو بھی اس طرح نہ رکھ تو نومید و ناکام
بھر دے میرا جام
پی کر میں بے خود ہو جاؤں، گاؤں تیرے گیت
میری جیت حقیقت میں ہے ساقی، تیری جیت
دیکھ کے میری مستی دنیا پھر مستی میں آئے
اس عالم میں مجھ کو کھو دے اور تجھے پا جائے
مجھ سے غفلت کیوں، میں تو ہوں رندِ مے آشام
بھر دے میرا جام
مدّت سے تیرا میخانہ ہے بے رنگ و نور
کیا اس کا انجام تجھے ایسا ہی تھا منظور
ہار کے جا بیٹھے ہیں گوشے میں سارے مے خوار
جو بھی ہے اس محفل میں، ہے مستی سے بیزار
لیکن مجھ کو دیکھ، کہ میرا شوق نہیں ہے خام
بھر دے میرا جام
تیرے ہی یہ بندے ہیں سب با ہوش و بے ہوش
زیب نہیں دیتا ہے تجھ کو ہو جانا خاموش
اے کیف و مستی کے خالِق مستی کر تقسیم
پھر ان تشنہ روحوں کو دے تسکیں کی تعلیم
لا اپنی وہ خاص صُراحی، رنگین و گلفام
بھر دے میرا جام اے ساقی، بھر دے میرا جام
٭٭٭
شاعر
وہ عندلیب خزاں در نگاہ ہے شاعر
فضا بہار کی نغموں سے جس کے ہے مسحور
دہن میں جس کے زبانِ کلیم ہے گویا
ہے جس کے سینے میں روشن چراغ محفل طور
ہیں نقش ذہن پہ جس کے حقائقِ عالم
جسے نصیب ہوئی ہے عجیب طبعِ غیور
رسائی جس کے تخیل کی آسماں سے بلند
ہے جس کی جنبش لب غیرت تبسّم حور
ہر ایک چیز میں جو دیکھتا ہے حسنِ ازل
ہوا ہے جس پہ عیاں راز ناظر و منظور
چمن میں وجہِ شگفت گل و نشاط بہار
قفس میں باعثِ تسکینِ بلبل مہجور
نگاہ جس کی ہے آئینہ دار فطرت حسن
ہے جس کا ساغرِ دل کیفِ عشق سے معمور
جو اتحاد کا پیغام بر ہے دنیا میں
جو خانہ جنگی سے رہتا ہے دوُر اور نفور
مثال بانگِ درا راز دارِ منزل ہے
ہے ایک ذرۂ پامال منزل اس کے حضور
اسی کے گیت کا طاری ہے مجھ پہ کیف و سرور
اسی کے گیت میں پنہاں ہے ہستی جمہور
٭٭٭
خواب رند
اک رندِ خرابات سے گویا ہوا اک شیخ
مستی مئے عرفاں سے مئے تاک میں کم ہے
پینے ہی سے فرصت نہیں ملتی تجھے دن رات
اس ہست دو روزہ میں مرنے کا بھی غم ہے
کیا تجھ میں نہیں قوّتِ تمیز بد و نیک
پیتا ہے جسے شہد سمجھ کر وہی سم ہے
فانی ہے یہ ہستی بھی یہ بادہ بھی سبو بھی
باقی ہے نہ اب جام، نہ اب محفل جم ہے
اللہ کرے تجھ پہ کرم، رندِ بلا نوش
پینا بھی ستم ہے ترا جینا بھی ستم ہے
ہر جزو تری زیست کا رم اور برانڈی
اب نام خدا لے کہ تو آمادۂ رم ہے
دل میں حرکت بھی نہیں، بیکار ہیں اعضا
یہ عمر کا حصہ تو نہایت ہی اہم ہے
منہ پھیر کے ساقی سے مخاطب ہوا یوں رند
’گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے‘
’رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے‘
٭٭٭
شاہکارِ فطرت
ایک دن آدم نے فطرت سے کہا
مجھ سے مشکل ہے تری مدح و ثنا
خاک سے مجھ کو بنایا آدمی
آدمی کو دولت احساس دی
روشنی سے میں تری تابندہ ہوں
تیرے ظل عاطفت میں زندہ ہوں
حکم سے تیرے فرشتوں نے مجھے
سر جھُکا کر شوق سے سجدے کئے
میری خاطر تو نے اے درد آشنا
بزم سے ابلیس کو باہر کیا
وقف جنّت کو کیا میرے لئے
جامِ کوثر بھر دیا میرے لئے
جانتا ہوں میں کہ ہے اے با خبر
میری راحت ہی ترے مدّ نظر
کچھ پہنچ سکتا نہیں مجھ کو گزند
ہوں دل و جاں سے ترا احسان مند
میری گستاخی اگر کر دے معاف
بات دل کی تجھ سے کہہ دوں صاف صاف
سب مہیا ہیں یہاں سامان عیش
اس قدر ہوں گے کہاں سامان عیش
لیکن اِن حُسن آفریں نظاروں میں
کیف باراں نقرئی فوّاروں میں
نکہت گلہائے دل افروز میں
جرعۂ صہبائے وجد آموز میں
یہ حقیقت ہے کہ دلچسپی نہیں
راحت و تسکیں مرے دل میں نہیں
دل میں اٹھتا ہے مرے اک درد سا
جس سے ہو جاتا ہے چہرہ زرد سا
چاہتا ہوں کیا، بتا سکتا نہیں
چیر کر سینہ دکھا سکتا نہیں
سُن کے یہ، فطرت کو بھی صدمہ ہوا
سطح عالم پر اندھیرا چھا گیا
آدم اُس کو جان و دل سے تھا عزیز
اُس کے آگے ہیچ تھی ہر ایک چیز
دیکھ سکتی تھی کب اپنی آنکھ سے
اس کا بندہ اور رنج و غم سہے؟
محوِ حیرت تھی کہ ہے وہ درد کیا
جس میں دم آدم کا ہے اٹکا ہوا
مشورہ اس نے فرشتوں سے کیا
عقدۂ مشکل نہ لیکن حل ہوا
ہو کے فطرت اس طرح نا کامیاب
ہو گئی خلوت میں محو اضطراب
آگیا اس کو یکایک اک خیال
مٹ گئے چہرے سے آثار ملال
کامیابی کا وسیلہ مل گیا،
راحت آدم کا حیلہ مل گیا
آب کوثر سے روانی مانگ لی
باغ جنّت سے جوانی مانگ لی
لی گُلوں سے نکہت جان آفریں
بلبلوں سے نغمہ ہائے دل نشیں
مانگ لی نرگس سے چشم نیم باز
شاخ طوبیٰ سے ادائے دل نواز
موجِ بادِ صبح سے رفتار لی
سوسنِ خاموش سے گفتار لی
زلفِ سنبل سے درازی مانگ لی
سرو سے پھر سر فرازی مانگ لی
غنچہ ہائے نو سے لی معصومیت
لی فضائے جانفزا سے عطریت
لالۂ صحرا سے سُرخی مانگ لی
بادۂ کوثر سے مستی مانگ لی
انجم تاباں سے لیں تابانیاں
ماہ کے آئنے سے حیرانیاں
مہر روشن سے شعاعوں کو لیا
اقتباس جلوۂ سوزاں کیا
لیں فرشتوں سے سکوں آمیزیاں
موجِ غم سے اضطراب انگیزیاں
لی کشش کی تاب مقناطیس سے
اور مانگی سرکشی ابلیس سے
سب کو فطرت نے بہم یکجا کیا
اور اس کو نام ’عورت‘ کا دیا
شاہکار فطرتِ حسن آفریں
کس قدر ہے خوبصورت اور حسیں
اس کے جلوے سے ہے روشن کائنات
ہر نفس اس کا ہے دنیا کی نجات
آدمِ بے تاب کو چین آ گیا
ایک رنگیں کیف اس پر چھا گیا
٭٭٭
حیات و موت
طوفان سفر ہے ماہ و خورشید
ہو یا ہو سخت آندھی سر گرم
ہر دم ہے روانیوں میں تجدید
موجوں کو نہیں ہے فکر راحت
فطرت کو قیام سے نہیں کام
کرتا ہے زمانہ اس کی تائید
ہستی ہے سفر کا دوسرا نام
منزل کا نظارہ، موت کی دید
٭٭٭
انسان اور فرشتہ
انسان
قرار زیر فلک مجھ کو صبح و شام نہیں
فرشتہ
خدا کا دل میں ترے شاید احترام نہیں
انسان
عبادتوں سے ہے حاصل، نہ ہے دعا میں اثر
خدا گواہ، نہیں ہے ترے خدا میں اثر
فرشتہ
شکیب و صبر کی دولت؟
انسان
نہیں ہے میرے لئے
فرشتہ
اُمیدِ راحت جنّت؟
انسان
نہیں ہے میرے لئے
فرشتہ
دل و دماغ پہ قبضہ ہے تیرے شیطاں کا
گماں ہے قطرۂ باغی پہ تجھ کو طوفاں کا
انسان
ترے خدا ہی نے پیدا کیا ہے شیطاں کو
فرشتہ
مگر سمجھ بھی تو دی ہے اسی نے انساں کو
کہ خوب غور سے ہر ایک بات کو تولے
پھر اپنی منزل اصلی کی راہ پر ہو لے
انسان
یہ امتحان کا انداز دل پسند نہیں
خدا کی شان کے شایاں نہیں، بلند نہیں
اس امتحان میں مجبور عقلِ انساں ہے
ہے صرف نام کا انسان ورنہ حیواں ہے
خدا کے ایک اشارے پہ منحصر ہے جہاں
وہ چاہتا ہے جو ہوتا ہے صبح شام یہاں
قصور وار مگر آدمی ہی بنتا ہے
ذرا بتاؤ تو انصاف یہ کہاں کا ہے
فرشتہ
فریب دہر میں آ ہی گیا دماغ ترا
بُجھا دیا تری تاویل نے چراغ ترا
غلام خود کو بتاتا ہے تو خدا کا، مگر
یہ واقعہ ہے کہ شیطان ہے قوی تجھ پر
ابھی تو راز مشیّت کے کچھ نہیں سمجھا
ابھی تو فیصلے قدرت کے کچھ نہیں سمجھا
خدا نے تجھ کو نکالا ہے اپنی جنّت سے
کہ اپنی روح کو تو آشنائے غم کر لے
جسے سمجھ کے ’الم‘ مضطرب ہے تو دن رات
ترے لئے ارے وحشی، وہی ہے وجہِ نجات
ترے خیال میں جو ’غم‘ ہے وہ ’محبّت‘ ہے
جو خار زار ہے وہ گلستانِ جنّت ہے
مصیبتوں میں نہ اپنے خدا سے ہو باغی
دغا ، فریب، سے مکر و ریا ، سے ہو باغی
٭٭٭
اے مرے ہندوستان
آسماں پر جلوہ گر ہے آفتاب زر فشاں
ہو چکیں رخصت جہاں سے رات کی تاریکیاں
طائرانِ خوش نوا گاتے ہیں اپنی داستاں
ہیں اگر چہ نا تواں
نا توان و بے زباں
بے زباں و بے اماں
غفلتوں پر غالب آخر آ گئیں بیداریاں
آہ طاری ہے مگر تجھ پر ابھی خواب گراں
اے مرے ہندوستاں!
ہو گئی ہے غفلت اسلاف اب خواب و خیال
وہ گزشتہ رفعتیں سب ہو چکی ہیں پائمال
کارواں کے ساتھ اب چلنا بھی ہے تیرا محال
لڑکھڑاتے ہیں قدم
بارِ سر ہیں رنج و غم
زندگی بے کیف و کم
یہ زمانہ یہ زمانے کی زمانہ سازیاں
یہ تری تقدیر کی لا چاریاں، نا سازیاں
اے مرے ہندوستاں!
آہ راماین کا عہدِ دل فریب و دل نشیں
آستانِ عشق پر جب خم تھی انساں کی جبیں
بادۂ نور فلک تھا اور جام مرمریں
صبح، پیغامِ نشاط
شام، الہامِ نشاط
جذبۂ عامِ نشاط
آسمانی طاقتیں کرتی تھیں تنظیمِ جہاں
کاش تو دہرا سکے پھر اپنی رنگیں داستاں
اے مرے ہندوستاں!
وہ مہا بھارت کی جنگی داستانیں کیا ہوئیں
کیا ہوئے وہ تیر وہ بانکی کمانیں کیا ہوئیں
سرفروشی اور وفا داری کی آنیں کیا ہوئیں
وہ فسانے یاد ہیں؟
وہ ترانے یاد ہیں ؟
وہ زمانے یاد ہیں؟
وہ زمانے جبکہ تھا تو بھی جواں، دل بھی جواں
عشرت تازہ سے رہتا تھا ہمیشہ شادماں
اے مرے ہندوستاں!
وقت ہے اب بھی سنبھل اے کاروانِ منتشر
حال، ماضی سے بھی نازک ہے، ذرا تو غور کر
ساغر نو میں شراب کہنۂ اسلاف بھر
اٹھ قدامت کو مٹا
وضع کر آئیں نیا
قومِ خفتہ کو جگا
جگمگا دے نور شمعِ عشق سے کون و مکاں
پھر وہی جذبات ہوں ہر قلب مردہ میں جواں
اے مرے ہندوستاں!
اس طرح کب تک رہے گا تو اسیر یاس و غم
تا بہ کے مل کر نہ بیٹھیں گی تری قومیں بہم
تا بہ کے شیخ و برہمن، تا کجا دیر و حرم
یہ عداوت تا کجا
یہ جہالت تا کجا
بغض و نفرت تا کجا
اس طرح تو اور بھی بڑھ جائیں گی نا کامیاں
اتفاقِ باہمی سے ہے نشاط جاوداں!
اے مرے ہندوستاں!
کھول کر آنکھیں زمانے کی ذرا رفتار دیکھ
ہو رہی ہیں سازشیں کیا کیا پسِ دیوار دیکھ
آج ہے کس فکر میں ہر قافلہ سالار دیکھ
دیکھ رنگِ کارزار
دیکھ یہ خونیں بہار
دیکھ یہ جیت اور ہار
یا اسی لمحے سے کر آغاز تقلیدِ جہاں
یا جہاں والوں کو تو اپنا بنا لے ہم زباں
اے مرے ہندوستاں!
٭٭٭
چُپ
کلی سے یوں کہا بادِ سحر نے
تجھے پالا ہے آغوشِ قمر نے
ستارے رات بھر گاتے رہے ہیں
تجھے گیتوں سے بہلاتے رہے ہیں
گھٹا تیرے لئے پیمانہ بر کف
تُو خود اک ساقیِ میخانہ بر کف
بہاریں جس پہ نازاں ہیں وہ تو ہے
گلستاں جس سے خنداں ہیں وہ تو ہے
کلی نے جب سُنی تعریف اپنی
تو وہ بادِ سحر گاہی سے بولی
ہے بالکل ٹھیک جو تو کہہ رہی ہے
لبوں سے تیرے گنگا بہہ رہی ہے
چمن کی زندگی ہوں، جان ہوں میں چمن والوں کا دین ایمان ہوں میں
کلی یہ کہتے کہتے ہو گئی چُپ،
نسیم سادھ لی چُپ صبح نے بھی
٭٭٭
کرشن
جس طرح مشرق سے ہنگام طلوع آفتاب
چہرۂ گیتی سے اُٹھ جاتا ہے ظلمت کا نقاب
بالکل ایسے ہی ترے جلووں سے چمکی کائنات
پیکرِ مردہ میں تو نے پھُونک دی روح حیات
زندگی سے تیری اہلِ دہر پر روشن ہوا
زندگی سے زندگی کی کشمکش ہے مدعا
بے عمل تا دیر اس دنیا میں رہ سکتا نہیں
کاوشیں دشواریِ ہستی کی سہہ سکتا نہیں
فرض اوّل ہے عمل ہی آدمی کے واسطے
ہے یہی آوازِ منزل رہبری کے واسطے
کھل گیا جس پر بقیدِ زندگی سرِّ حیات
ہو گیا وہ کامیاب و کامگار کائنات
کرشن! تو نے کل جہاں کو درس آزادی دیا
دل جو تھے برباد اُن کو رنگِ آبادی دیا
جذب روحوں کو کیا اک بانسری کے گیت سے
کر لیا قابو میں آوارہ سروں کو پریت سے
تو نے دنیا پرکیا وہ راز فطرت آشکار
عقل انساں کس میں تھی اُلجھی ہوئی لیل و نہار
’روح لا فانی حقیقت ہے کبھی مرتی نہیں‘
’جسم ہوتا ہے فنا، یہ بے رُخی کرتی نہیں‘
سر زمینِ ہند کو اے کرشن تجھ پر ناز ہے
یہ جنم بھومی ہے تیری، اس لئے ممتاز ہے
٭٭٭
منصُور کی موت
دور وہ ہم سے بظاہر ہے مگر دور نہیں
کون کہتا ہے کہ اب بزم میں منصور نہیں
یوں بھی جاتا ہے کوئی چھوڑ کر اپنوں کو بھلا
مشرب عشق و وفا میں تو یہ دستور نہیں
مستیِ بادۂ عشرت میں جدائی کا الم
ہم کو منظور نہیں، اس کو بھی منظور نہیں
اور اگر سچ ہے کہ وہ چھوڑ گیا ہے ہم کو
نقص تقدیر ہے، انسان کا مقدور نہیں
اٹھ گیا محفلِ احباب سے منصور احمد
کوئی تسکین کی صورت، دل رنجور نہیں
منحصر قوّتِ بینائی تھی جس پر، نہ رہا
شمع روشن ہے مگر بزم میں وہ نور نہیں
یہ کرشمہ بھی ہے ادراک کی حد سے باہر
آدمی زیست پہ مجبور ہے، مجبور نہیں
چشم ظاہر سے اگر دور ہے منصور تو کیا
اے ضیا دیدۂ باطل سے تو مستور نہیں
٭٭٭
اے گُل
اے گل نو وارِدِ اقلیم حُسن
سوز کی لذّت سے تو واقف نہیں
مست تو اپنے ہی رنگ و بو سے ہے حُسن کی فطرت سے تو واقف نہیں
ہے تبسم ریز ہر شام و سحر
گردشِ قسمت سے تو واقف نہیں
راہِ تسکیں پر ہے سر گرم سفر
منزل وحشت سے تو واقف نہیں
خود نمائی، خود پرستی، خود روی دوسروں کی مت سے تو واقف نہیں
ہے اسیر تنگنائے ناز حُسن
عشق کی وسعت سے تو واقف نہیں
دل ترا آلائشِ غم سے ہے پاک
یاس اور حسرت سے تو واقف نہیں
اضطراب دل ترے نزدیک ہیچ
حاصل کلفت سے تو واقف نہیں
خود ہی ساقی، خود ہی میخانہ ہے تو
خود ہی بادہ خود ہی پیمانہ ہے تو
دیکھ، وہ مشرق سے نکلا آفتاب
نور ریز و نور پاش و نور بار
لے کر انگڑائی اٹھا گلشن تمام
خواب غفلت سے ہو تو بھی ہوشیار
دیکھ دنیا کی فنا انجامیاں
جاودانی یہ نہیں تیری بہار
ہر بہارے را خزانے لازم است
زندگی کا کس طرح ہو اعتبار
آ گیا ہے کیوں فریب حُسن میں
حُسن پر ناداں ہے کس کو اختیار
پھُول لاکھوں اور بھی ہیں باغ میں
یہ حقیقت ہے نہایت نا گوار
یہ تبسّم، یہ مسرّت، سب غلط
تُو تو ہے پروردۂ آغوشِ خار
عندلیبانِ چمن کے گیت سُن
کر جگر کے پیرہن کو تار تار
پی شراب کہنۂ عشق و جنوں
جاودانی کیف سے ہو ہم کنار
دل میں کر مہمان اپنے، سوز کو
بھُول جا فردا کو اور امروز کو
سوز ہے مضراب ساز زندگی
صورت نغمہ بغیر اس کے کہاں
سوز سے روشن ہے بزم کائنات
گود میں اس کی ہوئی دنیا جواں
سوز سے ہر دل حرارت آشنا
آرزو کا خون رگ رگ میں رواں
ساقیِ میخانۂ ہستی ہے سوز
اس کی نظروں میں شراب ارغواں
داستانِ سوز کے عنواں ہیں سب
آفتاب اور چاند، تارے، کہکشاں
وہ حقیقت در حقیقت سوز ہے
جس سے ہے یہ ربط باغ و باغباں
دل بغیر سوز دل ہوتا نہیں
سوز ہی ہے صرف دل کا راز داں
ہے یہی سعیِ مسلسل کا سبب
سوز سے ہوتا ہے انساں کامراں
کاروانِ زیست کی منزل ہے سوز
سوز ہے اصل نشاطِ جاوداں
میکشانِ درد کا ساقی ہے سوز
حُسن فانی ہے مگر باقی ہے سوز
٭٭٭
اگر خدا ہے
اگر خدا ہے تو پھر زمانے میں رنج و اندوہ و درد کیوں ہے
زبانِ بلبل پہ نالہ کیا ہے، یہ روئے گل زرد زرد کیوں ہے
اگر خدا ہے تو کیوں نہیں ہے بہار عالم کی جاودانی
ہر ایک شے بے ثبات اس کی، ہر ایک شے اس کی آنی جانی
اگر خدا ہے تو کس لئے ظلم ڈھائے جاتے ہیں بے کسوں پر
فلک سے کیوں بجلیاں سی گرتی ہیں بے نواؤں پہ، بے بسوں پر
اگر خدا ہے، اگر خدا نے بنائی ہے کائنات ساری
تو کیوں ہر اک سمت پھر ہیں فتنے فریب و مکر و ریا کے جاری
اگر خدا ہے تو ایک حالت پہ کیوں نہیں ہے نظامِ ہستی
کہیں شب و روز شورشیں ہیں، کہیں بلندی، کہیں ہے پستی
اگر خدا ہے تو کیوں نہیں ہے تمام دنیا وفا کی حامی
کہیں حکومت ہے مست و سرخوش، تڑپ رہی ہے کہیں غلامی
اگر خدا ہے تو کیوں نہیں ہیں نشاط و غم دونوں اختیاری
رگوں سے دنیا کی کیوں ہے دن رات خون بے چارگی کا جاری
اگر خدا ہے تو پھر امیدوں کے ساتھ خوف و ملال کیا ہے
زوال کیوں ہے مسرّتوں کو، غموں کو حاصل کمال کیا ہے
اگر خدا ہے تو کیوں نہیں ہے خدا کے بندوں میں عشق و الفت
نہ جسم کو ہے قرار حاصل، نہ روح کو ہے نصیب راحت
اگر خدا ہے تو کیوں نہیں اس کو اپنی دنیا کی فکر و پروا
ازل سے سویا ہے یوں کہ بیدار تا ابد اب نہ ہو گا گویا
اگر خدا ہے ترا یہی، اے فرشتۂ نیک نام سُن لے
میں حشر تک بھی نہیں بنوں گا ترے خدا کا غلام، سُن لے
نہ بھول اپنی حقیقتوں کو کہ ابنِ آدم ہے نام تیرا
ابھی فلک کی بلندیوں پر ہے تذکرہ صبح و شام تیرا
زباں پہ تاروں کی ہیں ابھی تک تری جوانی کے گیت جاری
ہیں آبشاروں کے سازِ دل کش پہ کامرانی کے گیت جاری
بہار تیرے لئے چمن کا سنگھار کرتی ہے رنگ و بو سے
خزاں پھر آگاہ اس کو کرتی ہے تیری فطرت سے اور خو سے
ترے ہی سامانِ دلکشی ہیں یہ روز و شب، مہر و ماہ تارے
عروسِ فطرت تجھی کو کرتی ہے پردۂ ابر سے اشارے
یہ واقعہ کل کا ہے کہ سجدے کئے مالک نے تیرے آگے
فضائے جنّت میں ہو رہے ہیں ابھی تری عظمتوں کے چرچے
وہ دن ہے محفوظ ذہنِ فطرت میں جب ہیولہ بنا تھا تیرا
خیال دل میں مصور دو جہاں کے پیدا ہوا تھا تیرا
خدا کو تو یاد ہے ابھی تک خدا تجھے یاد ہی نہیں ہے
بھلا کے جنّت کی عشرتوں کو تُو اب غلام غمِ زمیں ہے
ترے تغافل کا ہے یہ دھوکا، غم و الم ورنہ کچھ نہیں ہے
جھُکی ہوئی آستانِ شیطاں پہ روز و شب کیوں تری جبیں ہے
وجودِ شیطاں تو اک نتیجہ ہے ذہنیت کی غلط روی کا
یقین کر اس کی پیروی سے تجھے کوئی فائدہ نہ ہو گا
اگر نہ بزمِ جہاں کا مقصد تغیر و انقلاب ہوتا
اُبھر کے نا کامیوں کی پستی سے کیوں کوئی کامیاب ہوتا
خدا سے منکر ہے ابنِ آدم فریب عالم کا سحر، توبہ
چھپا لیا ہے گلوں کا پر تو، نمودِ شبنم کا سحر، توبہ
وہ دیکھ مشرق سے نور اُبھرا لئے ہوئے جلوۂ حقیقت
مجاز کی ترک کر غلامی کہ توُ تو ہے بندۂ حقیقت
٭٭٭
محروم سے
سکوں نہیں ہے مقدّر میں اہلِ عالم کے
نہ کر شکایت سامانِ اضطراب نہ کر
نہ چھوڑ دامن اُمید، نا اُمیدی میں
دل خراب کو یوں اور بھی خراب نہ کر
ازل سے رندی و مستی ہے مشرب ہستی
شراب و ساقی و ساغر سے اجتناب نہ کر
غمِ فراق ہی دراصل ہے نشاط وصال
یہ رازِ عشق زمانے پہ بے نقاب نہ کر
شکیب و صبر سے اونچی نہیں کوئی منزل
فریب دہر میں آ کر اسے خراب نہ کر
نشیب بھی ہے زمانے میں اور فراز بھی ہے
نیاز مند بھی انساں ہے، بے نیاز بھی ہے
٭٭٭
تلاش
گل فروشوں کو چمن میں جلوۂ گل کی تلاش
میگساروں کو صراحی اور قلقل کی تلاش
خشک کھیتوں کو نشاط ابر باراں کی تلاش
رہروانِ راہِ حق کو دین و ایماں کی تلاش
دیدۂ بیمار نرگس کو ضیاؤں کی تلاش
طائرانِ خار بر لب کو نواؤں کی تلاش
چشمِ پروانہ کو نور شمع محفل کی تلاش
کشتی بے نا خدا کو امن ساحل کی تلاش
وادیِ ایمن کو عزم پائے موسیٰ کی تلاش
بجلیوں کو خرمنِ ہوش و تمنا کی تلاش
بے خودوں کو عالم امکاں میں ہے اپنی تلاش
ہے مگر صحرائے ہستی میں مجھے تیری تلاش
٭٭٭
تعلیم اسلام
کرو تلاش حقیقت کی بزم باطل میں
کہ لغزشیں ہیں کہاں پائے عزمِ
کامل میں
خدا ہے ایک، نہیں ہے کوئی شریک اس کا
کہاں روا ہے بُتِ خانہ ساز کی پُوجا!
نجات مذہب و ملّت کی اتّحاد میں ہے نویدِ عشرت باقی خدا کی یاد میں ہے
غلط رووں کو رہِ مستقیم پر لاؤ!!
مقابلہ ہو اگر موت کا، نہ گھبراؤ
گدا و شاہ میں کچھ امتیاز تم نہ کرو کسی غلام سے بھی احتراز تم نہ کرو
ستم کا نام مٹا دو جہانِ ہستی سے
کرو دلوں کو مسخر سرور و مستی سے
پیام ملت و دیں کل جہاں کو پہنچاؤ
مثالِ ابر بہاراں فضا پہ چھا جاؤ
خدا کے نام کو سارے جہاں میں عام کرو دلوں کو بادۂ وحدت سے شاد کام کرو
بصد شکوہ، بصد شانِ احترام اُٹھو
خدا کے کام کو، لے کر خدا کا نام، اٹھو
جہاں کی ہیچ ہیں سب قوّتیں، جہاں تم ہو
زمیں پہ صورت پِنہائے آسماں تم ہو
جیؤ تو ذوقِ عبادت کی سُرخیاں لے کر
مرو تو خونِ شہادت کی مستیاں لے کر
٭٭٭
ہندوستان
ہوئی مدّت کہ اک تارہ فلک پر جگمگاتا تھا
سرور و کیف میں ڈوُبے ہوئے نغمے سُناتا تھا
بلندی سے شعاعیں پھینکتا تھا اہلِ عالم پر
رموز عیش کرتا تھا نمایاں بزم ماتم پر
زر و سیم و جواہر دہر والوں میں لٹاتا تھا
نشاں تاریکیوں کا نور سے اپنے مٹاتا تھا
کیا کرتا تھا صبح و شام سجدے آفتاب اس کو
دیا کرتا تھا بوسے بزم گردوں کا شباب اُس کو
گھٹا اٹھی اچانک سوئے مغرب ایک طوفانی
سکندر اور نادر شہ کا لے کے حوصلہ اٹھی
اٹھی اور دم زدن میں آسماں پر چھا گئی ہر سو
بلند و پست اور کون و مکاں پر چھا گئی ہر سو
بڑھایا ظلمتوں نے دست استبداد یوں اپنا
بنایا سارے عالم کو غلام و سر گرم اپنا
بقدرِ نور وہ تارا رہا محو ضیا باری
نقاب ابر لیکن ہو گیا آخر بہت بھاری
چھُپا ایسا کہ چشم دہر نے دیکھا نہ پھر اس کو
کسی محمود یا تیمور نے تاکا نہ پھر اس کو
٭٭٭
گل نو شگفتہ
نو شگفتہ پھُول، تیرا مُسکرانا ہے بجا
بلبلوں کے گیت سُن کر جھوم جانا ہے بجا
رنگِ جورِ گلستاں دیکھا نہیں تو نے ہنوز
جبرِ دورِ آسماں دیکھا نہیں تو نے ہنوز
تو ابھی نا آشنا ہے انقلاب دہر سے
تو ابھی واقف نہیں راز سراب دہر سے
تو نسیم صبح کی آغوش کا پالا ہوا
رنگ و بو کے دل نشیں سانچے میں ہے ڈھالا ہوا
ناچتی ہے تیرے ایوانِ تصوّر میں بہار
بج رہا ہے پتیوں کا دل کش و رنگیں ستار
تیرے کانوں تک خزاں کا نام بھی پہنچا نہیں
تجھ کو کیف حال میں اندیشۂ فردا نہیں
منہ دھلاتی ہے عروسِ صبح شبنم سے ترا
شیشۂ دل پاک ہے آلائشِ غم سے ترا
ذہن میں تیرے نہیں ہے صورت گلچیں ابھی
تو نے سمجھے ہی نہیں انداز بغض و کیں ابھی
تو ہے اک جامِ شگفتہ چشم ظاہر کے لئے
اور الہام مجسّم قلب شاعر کے لئے
٭٭٭
نیک و بد
وہ گل جو زینت بزمِ چمن ہے
وہی گل دیدۂ گلچیں میں ہے خار
وہ مے جو شیخ کی نظروں میں باطل
اُسی مے سے ہے تازہ روحِ میخوار
وہ بُت جن سے حرم کی شان و شوکت
وہی بت صحنِ کعبہ میں ہیں بے کار
وفا مغرب میں جنسِ ہیچ مایہ
مگر ہر مشرقی اس کا خریدار
وہی شے نیک بھی ہے اور بد بھی
تو پھر تمئیز نیک و بد ہے دشوار
٭٭٭
ہندوستانی نو جواں سے
ہیں جواں چہرے پہ کیوں آثار نومیدی عیاں
کیا پسند آئی نہیں تجھ کو بہار گلستاں
جلوہ زار گل سے کیا محظوظ تو ہوتا نہیں
نغمۂ بلبل سے کیا محظوظ تو ہوتا نہیں
کیا رگوں میں ہو گیا ہے منجمد خونِ شباب
کیوں نہیں ہے تو جوانی میں بھی مجنون شباب
سوچتا کیا ہے مآل گردشِ شام و سحر
تو زمیں پر ہے مگر افلاک پر تیری نظر
چشم بینا ہے تو کر نظارۂ بزم جہاں
یوں جوانی میں نہیں زیبا مآل اندیشیاں
تو نے دیکھے ہیں کہاں اب تک بلند و پست دہر
کیا کرے گا اے غلط اندیش، بندوبست دہر
تو جواں ہے، مست رہ، دنیا کی کچھ پروا نہ کر
خوف کیسا، مشکلوں کا سامنا کر بے خطر،
دوُر ہے منزل ابھی، دشوار راہوں سے گزر
قوّتوں سے کام لے، ذوقِ عمل پر رکھ نظر
دے جہاں والوں کو تو بھی زندگانی کا ثبوت
زندگانی کا ثبوت، اپنی جوانی کا ثبوت
یاس و غم کا اپنے چہرے سے اٹھا بھی دے نقاب
جلوہ گر پردوں سے ہے تیرا یہ خورشیدِ شباب
گل تبسّم ریز ہیں، سامان رست و خیز کر
خونِ گرم زندگی اپنی رگوں میں تیز کر
٭٭٭
بلند و پست
چلی جو تُند ہوا حادثات عالم کی
تو تاب لا نہ سکی گُل ہوا چمن کا چراغ
نہ وہ ترانۂ بلبل، نہ وہ تبسم گل
ہوا ہے جبرِ خزاں سے اداس منظرِ باغ
مگر یہ راز بھی اہل نظر پہ روشن ہے
بلند و پست جہاں سے نہیں نظر کو فراغ
٭٭٭
صبح کا ستارہ
ستارہ صبح کا بام فلک پہ جب چمکا
تو ہمکلام ہوا اس سے قطرہ شبنم کا
کہ تو پیامِ اجل بہرِ ہستیِ شب ہے
تری نمود سے لرزاں وجودِ کوکب ہے
ستارہ ہو کے بھی دشمن ہے تو ستاروں کا
تجھے پسند نہیں جلوہ ماہ پاروں کا
یہ راز کیا ہے، کہ اپنوں سے بے نیاز ہے تو
سحر کے دامنِ روشن سے سر فراز ہے تو
دیا جواب ستارے نے اس طرح ہنس کر تری نگاہ یقیناً نہیں نتیجے پر
ستارہ ہوں میں، ستاروں سے پیار ہے مجھ کو
مگر نظر پہ ابھی اختیار ہے مجھ کو
میں دیکھتا ہوں کہ انجام شب کا کیا ہو گا
مآل عشرت و عیش و طرب کا کیا ہو گا
پیام دیتا ہوں خطرے کا دہر والوں کو
پھر اپنی نذرِ حزیں صبح کے اجالوں کو
٭٭٭
آس
جیون ساگر ٹھاٹھیں مارے
گھور اندھیرا، دوُر کنارے
من کی نیّا، پریم سہارے
پیا ملن کی آس
سکھی ری! پیا ملن کی آس
کوئی پھول چڑھانے آئی
کوئی گیت سُنانے آئی
میں بھی پریم جتانے آئی
پریم ہی میرے پاس
سکھی ری! پیا ملن کی آس
پریم کی جوت جرے جس من میں
وہ من بھی رہتا ہے تن میں
کوئل کوُک رہی ہے بن میں
پھُولوں میں ہے باس
سکھی ری! پیا ملن کی آس
کیونکر روؤں، شور مچاؤں
پریمی منوا کو بہکاؤں
ان کے نینن سے گر جاؤں
موُرکھ ہوت اُداس
سکھی ری! پیا ملن کی آس
٭٭٭
کس اور؟
پیا گئے کس اور
پپیہے! پیا گئے کس اور
بدری روئے، شور مچائے
بجلی کو بھی چین نہ آئے
ناچیں کیونکر مور
پپیہے! پیا گئے کس اور
رات اندھیری کچھ نا سُوجھے
پی بن کوئی بات نا بُوجھے
جائے کہاں چکور
پپیہے! پیا گئے کس اور
پربت اونچا ہو کر دیکھے
اور ساگر پاتال میں ڈھُونڈے
ندی مچائے شور
پپیہے! پیا گئے کس اور
٭٭٭
من کی بھُول
دنیا والے، لوبھی بندے
مایا کے ہیں سارے پھندے
دنیا داری کے سب دھندے
پریم ہے من کی بھُول
سکھی ری پریم ہے من کی بھُول
جھُوٹا دن اور رات بھی جھُوٹی
مدھ ماتی برسات بھی جھُوٹی
ساون کی سوغات بھی جھُوٹی
جھُوٹے ہیں یہ پھُول
سکھی ری پریم ہے من کی بھُول
پریت کے جس نے بھید بتائے
پریت کے جس کو گیت سُنائے
وہ پریمی پردیش کو جائے
اڑتی جائے دھُول
ری پریم ہے من کی بھُول
٭٭٭
برہن کا گیت
پیتم ناہیں آئے
سکھی ری ساون بیتا جائے
پیتم بن سنسار ہے سُونا
دیس، نگر، گھر، بار ہے سُونا
یہ پھُولوں کا ہار ہے سُونا
کون اسے پہنائے
سکھی ری پیتم ناہیں آئے
پیتم کا پردیس میں باسا
بھاری ہے مجھ پر چو ماسا
ٹوُٹ چلی ہے من کی آسا
کون اب دھیر بندھائے
سکھی ری پیتم ناہیں آئے
نیلا امبر، کارے بادل
جیسے ہو نینوں میں کاجل
من مورا ہے پریم کی کونپل
کھلتے ہی مُرجھائے
سکھی ری پیتم ناہیں آئے
بجلی چمکے، پانی برسے
سکھیوں کا دل کانپے ڈر سے
پی کارن نکلی میں گھر سے
نکلی جوگ رمائے
سکھی ری پیتم ناہیں آئے
جھُوٹے جگ کی پریت ہے جھُوٹی
مایا، موہ، کی ریت ہے جھُوٹی
کیا میری بھی میت ہے جھُوٹی
کون مجھے جھُٹلائے
سکھی ری ساون بیتا جائے
چین نہیں ہے مورے من کو
پریت کی آگ لگی ہے تن کو
آگ لگاؤں اس جوبن کو
پی درشن نا پائے
سکھی ری ساون بیتا جائے
میں پاپن، قسمت کی ماری
کر کے پریت ہوئی دکھیاری
اب تو میں بھی رو رو ہاری
کوئی انہیں لے آئے
سکھی ری ساون بیتا جائے
٭٭٭
من کا گیت
پھُولوں پر بھنورا منڈلائے
جھرنا اپنی دھُن میں گائے
بدری جگ کا جی للچائے
میرے من کا گیت
اُن بن کون سُنے میرے من کا گیت
تارے چمکیں، چلیں ہوائیں
سکھیوں کا سُکھ چین بڑھائیں
دکھ میں یہ بھی آگ لگائیں
جھُوٹی جگ کی پریت
اُن بن کون سُنے میرے من کا گیت
چندرماں ہے مُرجھایا سا
دھرتی کا دل بھی ہے پیاسا
من کو کیا ہو دھیرج، آسا
گئی بسنت بھی بیت
اُن بن کون سُنے میرے من کا گیت
٭٭٭
نہ روک
پریم کا بیج جو من میں بوئے
اس کو کیونکر دھیرج ہوئے
رونے سے نہ روک
سکھی ری، رونے سے نہ روک
کاری کاری بدری روئے
آنسو سے آنچل کو دھوئے
اس کو بھی توُ ٹوک
سکھی ری، رونے سے نہ روک
پاپی من ہے پریم پُجاری
لگی کلیجے برہ کٹاری
ہوش گئے پرلوک
سکھی ری، رونے سے نہ روک
٭٭٭
پی بِن
پیا بن سُونا کل سنسار
کس کے نینوں میں چھپ جاؤں
کس کو پریم کے گیت سناؤں
سُونا کل سنسار
سُوکھا بیتا سارا ساون
کیونکر قابو میں آئے من
پیا بسیں اس پار
ڈگمگ ڈولے من کی نیّا
پریم بنا ہو کون کھویا!
پریم ہی ہے پتوار
٭٭٭
جوانی
بہار و شعر و موسیقی لئے دامانِ رنگیں میں
جوانی ہر نظر کو حُسن کا پیغام دیتی ہے
امید و آرزو اور شوق کے ایوانِ رنگیں میں
شراب بے خودی کے جام صبح و شام دیتی ہے
جوانی سرمدی نغمے کچھ اس ڈھب سے سُناتی ہے
جنہیں سُن کر یقیں انساں کو آ جاتا ہے ہستی پر
کہیں چشمے بہاتی ہے، کہیں غنچے کھلاتی ہے
کہیں مجبور کرتی ہے چمن کو خود پرستی پر
دلِ آزاد میرا بے نیاز بانگِ رہبر ہے
یہ جس رستے پہ لے جاتا ہے اس رستے پہ چلتا ہے
نہ ڈر تنقیدِ عالم کا، نہ خوف
قہر داور ہے
جوانی ڈھالتی ہے مجھ کو جس سانچے میں ڈھلتا ہوں
یہی دن ہیں جوانی کے، محبّت کے مسرت کے
ضعیفی کو مبارک حوصلے زہد و عبادت کے
٭٭٭
محبّت
محبّت لفظ تو سادہ سا ہے، لیکن ضیا اس میں
سمٹ آئی ہیں سب رنگینیاں گلزار ہستی کی
کرے تفسیر اس کی کوئی، اتنی تاب ہے کس میں
کہ یہ تو آخری منزل ہے راہِ کیف و مستی کی
محبّت سے ہے وابستہ ترقی روح انساں کی
یہ رازِ عالم ایجاد سے آگاہ کرتی ہے
یہی تنظیم کرتی ہے خیالات پریشاں کی
دلوں کو بے نیاز حُسنِ مہر و ماہ کرتی ہے
رواں ہیں میری رگ رگ میں محبّت کی حسیں لہریں
نفس کی ہر صدا سے راگنی الفت کی سُنتا ہوں
تماشا حُسن کا کرتا ہوں اکثر اس کے نغموں سے
محبّت کی نوا سامانیوں پر سر میں دھُنتا ہوں
محبّت اک حسیں نشتر ہے، جو جذب رگ جاں ہے
محبّت میرا مذہب ہے، محبّت میرا ایماں ہے
٭٭٭
دل
دل بظاہر خون کا اک قطرۂ نا چیز ہے
اس میں لرزاں ہے مگر موج شراب زندگی
اس کے آگے جلوۂ رنگِ شفق کیا چیز ہے
منحصر اس کی نمو پر ہے شباب زندگی
جیسے روشن ہو فلک پر آفتاب زرنگار
اس طرح دل خاک دانِ دہر میں ہے نور پاش
عقل کا رہتا نہیں احساس پر جب اختیار
دل ہی کرتا ہے فریب رنگ و بو کے راز فاش
دل اور الفت، لفظ تو دو ہیں مگر مطلب ہے ایک
منسلک دونوں ازل سے ایک ہی رشتے میں ہیں
جس طرح آغاز و انجام مہ و کوکب ہے ایک
ایک ہی منزل ہے ان کی، ایک ہی جادے میں ہیں
آدمی کو آشنائے غم بنا دیتا ہے دل
عشرت جاوید کا محرم بنا دیتا ہے دل
٭٭٭
اپنی میرا سے
کہوں میں آہ کیوں کر، مجھ کو تجھ سے پیار ہے میرا
تصوّر سے ترے دن رات ہم آغوش رہتا ہوں
کچھ ایسا کیف پرور عشق کا آغاز ہے میرا
کہ اس نشّے میں ہر دم بے خود و مدہوش رہتا ہوں
نہ دنیا کی خبر مجھ کو، نہ اپنا ہوش ہے مجھ کو
بس اتنا جانتا ہوں، تو ہے، تیری یاد ہے میرا
نہ فکر عالمِ فردا، نہ رنج دوش ہے مجھ کو
محبّت واقعی ہر قید سے آزاد ہے میرا
میں کہہ تو دوں مگر میرا دل مجبور ڈرتا ہے
کہ یہ جرات نہ باعث ہو پریشانی و وحشت کا
یہی غم میری امیدوں میں رنگِ یاس بھرتا ہے
یہی غم راہ بر ہے منزل دردِ محبّت کا
تجھے معلوم ہی ہے جو میرے دل پر گزرتی ہے
تو پھر کیوں امتحاں لے کر مجھے نا کام کرتی ہے
٭٭٭
یاد
وہ نغمے، وہ مناظر، وہ بہاریں یاد ہیں مجھ کو
یہی وہ نقش ہیں جو مٹ نہیں سکتے مٹانے سے
وہ راتیں اور وہ ساون کی پھواریں یاد ہیں مجھ کو
یہی افسانے اکثر کہتا رہتا ہوں زمانے سے
وہ تیرا مُسکرا کر چاند کو تا بندگی دینا
شراب عشق سے مخمور ہو جانا فضاؤں کا
وہ تیری مست آنکھوں کا نویدِ زندگی دینا
وہ اکثر کھیلنا زلف پریشاں سے ہواؤں کا
مرا دل ہو گیا ہے گردشِ ایّام سے واقف
بلند و پست عالم پھر رہے ہیں میری آنکھوں میں
مذاقِ دل بری ہے عشق کے پیغام سے واقف
تصوّر ہے مرا کھویا ہوا سا تیری آنکھوں میں
توُ مجھ سے دوُر ہے لیکن تجھے میں یاد کرتا ہوں
نہ جب فریاد کرتا تھا، نہ اب فریاد کرتا ہوں
٭٭٭
دھوکا
تم نے کیوں دیکھا مری جانب نگاہِ ناز سے
مجھ کو یہ دھوکا ہوا بیدار قسمت ہو گئی
وہ نگاہِ ناز، جس سے سینکڑوں پردے اُٹھے
داغ ناکامی مرے دامانِ دل سے دھو گئیں
ہو گیا خونِ تمنا میری رگ رگ میں رواں
فتنے جو سوئے ہوئے تھے لے کر انگڑائی اٹھے
چھا گیا دنیا پر افسونِ شباب جاوداں
بے نیاز ہوش ہو کر مست و سودائی اٹھے
تم نے دیکھا ہے اگر مجھ کو نگاہِ لطف سے
نکتہ چین سارا زمانہ ہے تو میں غم کیا کروں
جلوہ گر ہر دم رہو میری نظر کے سامنے
دیکھنے کی تاب ہے جب تک، تمہیں دیکھا کروں
دل لیا ہے، روح بھی لے لو خدا کے واسطے
میں تمہارے واسطے ہوں، تم ہو میرے واسطے
٭٭٭
اضطراب
ستارے آسماں پر مضطرب ہیں، خاک پر ذرے
نہ اِن کو چین حاصل ہے، نہ اُن کو چین حاصل ہے
فضا لرزاں، ہوا بے کل، سکوں نا آشنا پتّے
پریشاں بحر میں موجیں ہیں اور بے تاب ساحل ہے
گل و لالہ ہیں سینہ چاک، بے چینی کا ماتم ہے
فضا میں تھرتھراتی ہیں نوائیں عندلیبوں کی
اسیرِ اضطراب و درد و غم یہ بزم عالم ہے
تمناؤں سے ٹکراتی ہیں آہیں نا شکیبوں کی
مجھے بھی فطرت سیماب نے بخشی ہے اک دولت
مرا دل بھی کسی کی یاد میں بے تاب رہتا ہے
حقیقت میں یہی بے چینیاں ہیں باعثِ راحت
اسی تسکیں کی موجوں میں مرا ہر شعر بہتا ہے
شباب و اضطراب و عشق سے تخلیقِ ہستی ہے
اسی تثلیث پر قایم نظامِ کیف و مستی ہے
٭٭٭
جدائی
جدائی، آہ یہ اک لفظ کتنا یاس آگیں ہے
تصوّر اس کا امیدوں پہ پانی پھیر دیتا ہے
ہزاروں کوس اس سے منزل آرام و تسکیں ہے
جو اس سے ہو گیا واقف وہ پھر کب چین لیتا ہے
جدائی باغ کی رنگینیوں کو چھین لیتی ہے
شراب و رقص سے محروم کر دیتی ہے انساں کو
جہاں آرائیوں، خود بینیوں کو چھین لیتی ہے
چھُپا دیتی ہے مایوسی کی تاریکی میں ارماں کو
یہ سب کچھ ٹھیک ہے، مگر مجبور ہے میرا دل محزوں
محبّت پرورش پاتی رہی ہے اس کے دامن میں
جمالِ دوست سے مہجور ہے میرا دل محزوں
وہ دشمن دوست تڑپایا تھا جس نے مجھ کو ساون میں
نہیں ہاتھوں میں دیدی ہے عنانِ آرزو میں نے
بھروسے پر خدا کے چھوڑ دی ہے جستجو میں نے
٭٭٭
دیوی
تجھے دیوی بنا کر پُوجتا ہوں دل کے مندر میں
ترے ہی گیت ساز دو جہاں پر گاتا رہتا ہوں
جبینِ شوق جھُک کر تیرے قدموں سے نہیں اُٹھتی
امیدوں سے دل معصوم کو بہلاتا رہتا ہوں
پُجاری بن کے تیرا، بے نیاز دین و دنیا ہوں
تعلق اب خدا و حشر سے کچھ بھی نہیں مجھ کو
چمن میں رہ کے بھی اہلِ چمن سے دوُر رہتا ہوں
کہ ہر دم دیکھتا ہوں میں گلوں کے روُپ میں تجھ کو
پُجاری اور دیوی، دیکھنے کو ہستیاں دو ہیں
مگر دونوں کی روحیں ایک ہیں کیف محبّت میں
نیاز عشق و ناز حُسن یوں تو مستیاں دو ہیں
مگر دل پر اثر ہے ایک دونوں کا حقیقت میں
یہ تکمیلِ جنوں ہے، حاصل صد بیقراری ہے
پُجاری ہے کبھی دیوی، کبھی دیوی پُجاری ہے
٭٭٭
ماخذ:
https://ziafatehabadi.weebly.com/uploads/2/0/7/0/20704710/
پی ڈی ایف سے ترمیم، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں