زین شکیل کی طویل نظم
بول اُداسی بول
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
مکمل کتاب پڑھیں …..
انتساب
اس اداسی کے نام جو ہمیشہ اس سے مل کر آتی ہے اور مسلسل خاموش رہتی ہے۔
بول اداسی بول،
بڑا انمول،
کہاں ہے میرا سانول ڈھول؟
وے کچھ تو بول
نہ جندڑی رول
کبھی تو پریم کی گتھی کھول
اداسی بول۔۔!
کہاں پر لگ گئی تیری آنکھ
کہ دل میں پھیل گیا اک ڈر
کہ جس سے آن ملا اک درد،
بڑا بے درد
کہ جس کی بات نہ ٹالی جائے
یہ جیون رو رو نیر بہائے
تو نکلے ہائے
مسیحا دور کھڑا گھبرائے
جو نکلے آہ۔
کہ جم گئی سانس
کہاں پر لگ گئی تیری آنکھ؟
اداسی بول!
بتا اک بار
کہاں ہے میرا ڈھولن یار
کہ دنیا یار بنا بے کار
اداسی بول!
ترے بن کون مرا غمخوار
ملے جو سنگ ترا ہر بار
میں جگ سے کبھی نہ مانوں ہار
اداسی بول!
کبھی تو کانوں میں رس گھول!
اداسی بول!
جنوں کی کیسے بھڑکی آگ؟
جو اڑ گئی راکھ،
کہ جل گئی بات!
بکھر گئی ذات!
ہمارے اجڑ گئے دن رات!
یہ کیسے تو نے بدلی ذات؟
کبھی لب کھول
کبھی تو پوچھ مرے حالات
کبھی تو کر لے من کی بات
کبھی تو بھول ہماری ذات
کبھی تو تھام ہمارا ہاتھ
اداسی بول!
ترس گئے کان
تری اب سننے کو آواز
کبھی تو بن میری ہمراز
ہمارے گیت میں چپ مت گھول
اداسی بول!
تری ہر بات ہمیں منظور
ہمارا ساجن ہم سے دور
ہوئے ہم جل کر کوہِ طور
بنیں اب کن آنکھوں کا نور
اداسی بول
بھلا کیوں ساجن ہیں مجبور
وچھوڑا کیونکر ہے دستور
اداسی بول
ہمیں سمجھا
ہماری کیونکر بدلی راہ
ہماری جلتی آنکھوں کی
نہیں کیوں خوابوں کو پرواہ
کہ جب سے ہجر ہوا آباد
لگے کیوں بستی مقتل گاہ
بنا کر تو نے جا اپنی
ہمارا لوٹ لیا ہے جاہ
اداسی بول
ہمیں سمجھا
کبھی یہ بھید بھی ہم پر کھول
اداسی بول!
ہوئی کیوں کوئل بھی خاموش
اسے ہے کس موسم کا دکھ
اداسی بول!
بتا کس بات سے ڈر گئے پیڑ
بھلا کیوں جڑ میں اتر گئی دھوپ
زمیں کیوں کھا گئی ان کے سائے
کہ پھل بھی آنے سے گھبرائے
اداسی بول!
بتا کس بات سے ڈر گئی رات
کرے کیوں ہجر اکیلا شور
فضا میں پھیلی کیوں تعذیر
ہے کیونکر آنے میں تاخیر
اداسی بول!
بتا کیوں رات سے ڈر گئے دن
یہ روٹھا کیوں تاروں سے چاند
یہ کس کی بیوہ ہو گئی رات
اسے کیوں بھول گئی ہر بات؟
اداسی بول!
بتا کیوں لفظ ہوئے بے چین
کریں کیوں رو رو اتنا بین
اداسی آج مجھے بتلا
اداسی آج لبوں کو کھول!
اداسی بول!
سمندر، شہر، محبت، پہر، دکھوں کا قہر، رگوں میں زہر،
نظر کا دکھ، اثر کا سکھ، ہجر کا جال،
کسی کے گہرے کالے بال،
سفر کی دھول، دکھوں کا طول، غمِ معمول، تڑپتے پھول،
کشندہ لب، کشندہ رُو، کشندہ زلف، نین، ابرو
کوہِ آدم، کوہِ سینا، کوہِ صفا یا کوہِ قاف
کوئی چوڑی، کوئی کنگن، کھنا کھن کھن، کھنا کھن کھن،
وہی آزار، کبھی اک بار، کبھی سو بار، کبھی ہر بار،
گرفتہ لب، نڈھال آنکھیں، رکی سانسیں، گھنے ابرو،
شبِ ہجراں کی اک سوزش، یا بے چینی، یا بے تابی
کسی کے ہونٹ کا ہونٹوں پہ رکھا سا حسیں تحفہ،
کسی کے خط، کسی کے پل، کوئی لمحے، کئی صدیاں،
نشیلی رُت، کسی کی بات، کسی کا لمس، کسی کی ذات،
کسی کے ہاتھ میں رکھے ہوئے تنہائیوں کے ہاتھ،
نکلتے اُس حسیں کے لب سے کوئی میٹھے میٹھے بول،
کبھی تو بول
اداسی!
آج لبوں کو کھول!
اداسی بول!
یہ تو نے بدلے کتنے بھیس؟
بتا اب تیرا کون سا دیس؟
بتا کس حال میں ہے سانول؟
کہ جس کے ہجر میں بیٹھے جل
وہ کس نگری میں ہے آباد؟
بتا کیا ہم ہیں اس کو یاد؟
اداسی دیکھ!
تو چپ مت رہ
ترے جو منہ میں آئے کہہ
ہمیں تو جیسے چاہے رول
مگر کچھ بول
ہمیں بتلا
کہ اب بھی اتنے ہی شیریں
ہیں اس کے لب؟
اداسی دیکھ!
یہ دل بے چین،
بتا کس نگری ہے سانول
کہ اب یہ ترس گئے دو نین
لگی ان نینوں میں برسات
کریں اب بین
نہ بیتے دن
نہ گزرے رین
اداسی دیکھ!
نہ یوں تڑپا
بگاڑا ہم نے تیرا کیا؟
ہوا کیا ہم سے ایسا دوش؟
کہ تو نے سادھ لی ایسی چپ
کہ پھیلا خوف،
کہ بن گئے دل کے اندر زخم
اجڑ گئی روح
یہ تیری چپ لے لے گی جاں
اداسی ایسے تو مت رول
ذرا اَب چپ کے تالے توڑ
ذرا اَب دھیرے سے لب کھول
اداسی بول!
یہ کیسا تو نے کھیلا کھیل
بتا کس جنم میں ہو گا میل
اداسی بول!
یہ کیسی اس نے لگائی پریت
گئی اس بار جدائی جیت
اداسی بول!
اسے کس بات سے آیا خوف؟
یہ اس کے پیر بندھی کیوں ذات؟
اداسی بول!
اسے اب کون کرے گا پیار
کرے گا نیناں زار قطار
اداسی بول!
ہمارا رکھے گا وہ مان؟
ہمیں وہ لے گا نا پہچان؟
اداسی بول!
چھپائی کیونکر اس نے ذات؟
ہمارا کیونکر تھاما ہاتھ؟
اداسی بول!
سنے گا کون اب چیخ پکار
اسے کب جائے گی آواز
اداسی بول ناں
کچھ تو بول!
کہاں ہے جیون کا سنگھار
کہاں ہے میرا سانول ڈھول
اداسی بول ناں
کچھ تو بول!
ہماری ہستی ہے انمول
اسے مت درد ترکڑی تول
اداسی آج لبوں کو کھول!
اداسی بول!
اداسی جا!
نہیں اب کرنی تجھ سے بات
کہ تو نے توڑا خواب کا دل
گئی تُو سب دکھڑوں سے مل
ملائے تو نے درد سے ہاتھ
اداسی جا
ہمیں اب روز ملا نہ کر
کہ تیری باتیں بڑی عجیب
کہ تیری ہستی ہے بے چین
یہ تیری روح میں پھیلا سوگ
یہ تیری بستی میں ماتم
اداسی جا!
کسی اب اور نگر بھی جا
کہ تیرے ہاتھوں ہم معز ور
ہمارا بہرا ہو گیا دل
ہماری گوں گی ہو گئی آنکھ
ہمارے اندھے سب جذبات
اداسی جا!
کس کی یاد چرا کر لا
کسی کے خواب سجا کر لا
کسی کی آنکھ بنا کر لا
ہمارے نین وہاں لے جا
اسے کچھ اشک دکھا کر لا
ہمارے اشکوں میں اسکی
اسے تصویر دکھا کر لا
اداسی جا!
اسے بتلا!
کہ ان آنکھوں کو تو پہچان
کہ ان میں اب بھی سلامت ہیں
تمہارے خواب
تمہاری ذات
اسے بتلا!
کہ دیکھ ان نینوں کو پہچان
ترے بن گونگے ہو گئے نین
اب ان سے کون کرے گا بات
اداسی جا!
اسے اک بار بتا کر آ
ہمارا بہرا ہو گیا دل
یا تو نے دی نہ ہمیں آواز
اداسی جا!
اگر ہم روٹھ گئے اک بار
کبھی نہ تجھ سے کریں گے بات!
اداسی سن!
ہمارے سینے کان لگا
ذرا سن دھڑکن کا سنگیت
کہ جس سنگیت کے ہر سُر میں
سجا ہے اس مہ وش کا نام
اداسی سن تو لے اک بار
ہیں کتنے میٹھے میٹھے بول
ہے کتنا میٹھا اس کا نام
اداسی کان لگا کر سن!
اداسی آج ہماری سن!
کہ تُو تو صدیوں سے ہے چپ
تری تو سانسیں اجڑا گیت
تری تو بانہوں میں ماتم
نجانے کیسا تجھ کو غم
اداسی آج ہماری سن!
اداسی آج ہماری مان!
ذرا سنگھار تو کر کے آ
ذرا ان بکھرے بالوں کی
کوئی ترتیب لگا کر آ
اداسی آج ہماری مان!
اداسی آج ہماری سُن!
اداسی بول!
یہ تیرا کیسا میل ملاپ
کہ جس سے سپنے ہو گئے چاک
اتر گئی خوشیوں کی پوشاک
ہوئے ہم خاک
کہ اڑ گئی نیند
بگڑ گئے خواب
بچھڑ گئی رات
اجڑ گئے دن
بکھر گئی سانسوں کی ہر بات
تڑپ گئے نین
گیا سکھ چین
سمٹ گئی دھڑکن کی آواز
ہوا بھی پھرتی ہے ناراض
کہ چھڑ گئے ہر سو غم کے ساز
دکھوں نے کھول دئیے سب راز
سکھوں نے پہن لیے آزار
ہوئے ہم جینے سے بیزار
نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں یار
تلاشیں ایک ادھورا پیار
بچھڑ گئے یار
اتر گیامہندی کا وہ رنگ
بچھڑ گئی پھولوں سے خوشبو
وہ کوئل بھول گئی ہر سُر
کہ سونے ہو گئے سارے باغ
اداسی بول
یہ تیرا کیسا میل ملاپ
اداسی بول!
یہ تیرا کیسا چال چلن
کہ جل کر راکھ ہوا یہ تن
ہوا مفلوج ہمارا من
کہ دِکھ گئی موت
لحد کے سب رستے سنسان
ڈلی ہو جیسے ان میں جان
لگیں ہم خود کو خود بے جان
وہ رستے ہم پر ہنستے جائیں
کہیں، اب رو!
اور اتنا رو
کہ مشکل ہو جائے آسان
مگر پھر آنسو بھی نا آئیں
پڑے پھر سینے پر اک بوجھ
کہ جس کا بھار اٹھا نا پائیں
کھڑا ہو تان کے سینا ہجر
سو اس کے پیر میں جھکتے جائیں
کہیں آ مل!
ہمیں اپنا!
گلے سے لگ!
اٹھا ہم کو!
کہ ہم یہ بوجھ اٹھا نا پائیں
مگر وہ ہم سے پوچھے ذات
اسے کس منہ سے ذات بتائیں
ہلائیں تھوڑے سے بھی لب
زباں پر چھالے بنتے جائیں
بتا ہم کس کو پاس بلائیں
کسے اب اپنا حال سنائیں
اداسی!
تو ہی اب کچھ بول
بتا اک بار
یہ تیرا کیسا چال چلن
اداسی بول!
اور اتنا بول،
کہ کچھ بھی اور نہ سننے پائیں
تو اتنا بول
کہ تجھ کو غور سے سنتے جائیں
اداسی بول!
اداسی آ!
ہمیں اپنا
کہ تیرے سینے سے لگ جائیں
ترے ہم صدقے واری جائیں
ترے ہم ایسے بال بنائیں
کہ جڑ دیں پھول
کہ جن سے ہر دم خوشبو آئے
تری ہر سانس مہکتی جائے
اداسی آ!
تری ہم مانگ میں چاند سجائیں
کریں ہم تجھ سے اتنا پیار
بھلا کر اپنی، تیری ذات
کہ تُو پھر دن دیکھے نہ رات
بکھرتی جائے
کسی کو لیکن راس تو آئے
اداسی آ!
ترے ہم اتنے ناز اٹھائیں
ترے ہم آنسو بھی پی جائیں
مگر تُو راس کبھی تو آ
اداسی آ!
ہمارے پاس کبھی تو آ!
اداسی بول!
ترا کیوں جنگل سے ہے بیر؟
ترے کیوں زخمی زخمی پیر؟
تری کیوں گھائل گھائل سانس؟
ترے کیوں بکھرے بکھرے بال؟
تری کیوں درد بھری ہے چال؟
یہ کس نے لوٹا امن امان؟
یہ وحشی کس کی لے گئے جان؟
کیا ہے کس نے ہوا کا خون؟
بہائے سورج نے کیوں اشک؟
جلایا کس نے چاند کا گھر؟
لگی اب کیوں تاروں کو آگ؟
یہ لگ گئی کیوں بارش کو پیاس؟
اجڑ گئے کیوں ساون کے لیکھ؟
نکل گئی کیوں دیوار سے روح؟
زمیں کیوں کھانے لگ گئی پیڑ؟
اداسی بول!
بتا کیا اس میں تیرا دوش؟
ہمیں تو سب کچھ ہے معلوم
کہ تو ہے ازلوں سے معصوم!
اداسی بول!
کبھی کچھ اپنے بارے بول
بتا دے کون سا تیرا گاؤں
وہاں کیا ہے پیڑوں کی چھاؤں ؟
بتا اب تیرے کتنے میت؟
لگائی کیا تو نے بھی پریت؟
بتا کیا تجھ سے بچھڑے یار؟
ہوا کب تجھ کو پہلا پیار؟
کبھی تجھ سے بھی روٹھا دن؟
کبھی کیا سہمی تجھ سے رات؟
کبھی کیا ٹوٹے تیرے خواب؟
ہوئی کب آنکھوں سے برسات؟
ہوا کیا تیرے دل میں درد؟
تجھے کیا بھولے اپنے سکھ؟
بتا کیا آڑے آئی ذات؟
بتا اب کیسے ہیں حالات؟
تو ہم سے اپنے دکھ سکھ پھول
کہ کھل کر من کی باتیں بول
اداسی بول!
کبھی کچھ اپنے بارے بول!
اداسی چھوڑ!
ہمارا اب تو پیچھا چھوڑ
نہیں ہم اب تیرے قابل
کہ ٹوٹا دل
کہ جڑ گئے غم
نہ اس کی زلف کے نکلے خم
اداسی چھوڑ
تو منہ مت لگ
ہمیں تُو اور اب یاد نہ کر
ہوئے ہم پہلے ہی برباد
اجڑ گئی دھوپ
چرایا کس نے اس کا روپ
ہمیں اب اپنے حال پہ چھوڑ
اداسی جا!
ہمیں اب ملنے بھی مت آ
ہمیں اب خود سے کر لے دور
اداسی چھوڑ ہماری جان
کھڑے اب اور نہ کر طوفان
اداسی چھوڑ ہمارا ہاتھ
نبھایا تو نے کیسا ساتھ
اداسی چھوڑ ہمیں اب جا
ہمارے رُخ سے نین ہٹا
اداسی دیکھ!
گئے ہم ہار
ہماری آنکھیں زار قطار
ہمارے پیر میں چبھ گئے خار
ہمارے جی سے اتر گئے دن
ہمارے سر پہ اٹک گئی رات
اداسی دیکھ!
نہیں اب آنکھوں میں بھی سکت
نہیں اب زندہ بھی جذبات
اداسی دیکھ!
کہ ہم نے جوڑے اپنے ہاتھ
ہماری معاف تو کر تقصیر
ہماری روتی ہے تقدیر
اداسی دیکھ اسے بھی دیکھ
وہ ہم سے سات سمندر دور
ہمارے اندر ہم سے دور
کہ اب تو آنکھ ہوئی بے نور
اداسی!
ہم سے روٹھا یار
اداسی دیکھ!
گئے ہم ہار!
اداسی جا!
ہمارا لے جا تو پیغام
ہمارے اک سانول کے نام
ہمارے پیار بھرے جذبات
تو اس کے ہاتھ تھما کر آ
کہ اس بن سب جذبے بے چین
نہ ہم کو لینے دیں آرام
ہمیں اب جانا ہے اس پار
تمہاری دنیا سے بھی دور
یہاں ہم رہتے ہیں مجبور
وہاں ہم رکھیں گے پھر آس
کسی کی دیکھیں گے ہم راہ
اداسی جا!
اسے پیغام تو دے کر آ
اسے بتلا!
پیا کے پاس نہیں اب وقت
سکھی تو رہ گئی کون سے دیس
تو اپنے ہونٹوں کا اک لمس
تو واپس بھیج
کہ جس سے مشکل ہو آساں
ہماری آخر نکلے جاں
اداسی جا!
اب مکھڑا موڑ،
اداسی ہم سے ناتہ توڑ۔۔!
٭٭٭
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/blog-page.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں