عقیدتایک نعتیہ نظم
سیداؐاک نظر
شاعر
زین شکیل
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
سیداؐ اِک نظر
(طویل نعتیہ نظم)
زینؔ شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
اللھم صلی علیٰ محمدِِ وآلِہ وعترتیہ بعد دِ کلِ معلوم اللک
انتساب!
سرورِ کونین
حضرت محمد مصطفیٰﷺ
کے نام
زندگی خاک ہے
دھول ہے
راکھ ہے
سیّدؐا!
مہربانی کی چادر میں
لپٹے ہوئے فیصلے بھیجئے
دیکھیئے، سیّداؐ
یہ غموں کا اماوس ہے بکھرا ہوا
چار سو ہے اندھیرا
کہ جو جسم و جاں کو مسلنے کی کوشش میں مصروف ہے
چہرۂ والضحیٰ سے
یہ واللیل زلفیں ہٹائیے ذرا
چار سو نور ہو
اے مرے سیّداؐ
سوہنیا، بادشاہا
کریں مہربانی!
٭٭
فقط آس ہے
آس بھی ہے کچھ ایسی
کہ یہ عمر بھی بیت جائے
فقط آپؐ کے نام کی ایک مالا کو سانسوں کے دھاگے میں ایسے پروتے ہوئے
کہ نظر میں فقط ایک ہی نام ہو
ایک ہی نام جو اسمِ اعظم بھی ہے
جو معظم بھی ہے
جو مدثر، مطہر، معطر بھی ہے
یہ زمیں یہ زماں
یہ مکاں لا مکاں
رات، دن، چاند، تارے یہ بحر و حجر
بس اسی نام کا ورد کرتے ہیں
پانی کو بھرتے ہیں
دَر کا
مرے سوہنیا!
آپؐ ہی ہیں فقط
آپؐ ہی آس ہیں
آپؐ ہی راس ہیں
آپؐ دیدار ہیں
آپؐ ہی تو نگاہوں کی بس پیاس ہیں
سیّداؐ، بادشاہا
کریں مہربانی!
٭٭
مرے سوہنیا
یہ جو چاروں طرف پھیلتی جا رہی ہے
مسلسل سے زیادہ مسلسل اداسی
اور ایسی اداسی کہ اپنے ہی اندر سمیٹے ہوئے
بے بسی، بے کسی، بے حسی
جو فقط روح کو دیر تک یونہی گھائل کیے جا رہی ہے
مرے سوہنیا
روح میں دور تک
اپنے قدموں کو ایسے جمائے ہوئے
ہر طرف اپنا ڈیرہ لگائے ہوئے
یہ مسلسل سے زیادہ مسلنے لگی ہے
کسی رات کو،
رات کی بات کو،
بات کی ذات کو۔
اے مرے شہنشاہا
اے سارے جہانوں کی تقدیر لکھنے، مٹانے، بدلنے پہ قادر خدا کے حبیبا!
مرے سوہنیا، عربیا
مہربانی کریں!
بے بسی، بے کلی، بے کسی، بے حسی
اور ان سے جڑے ہر مصائب کا
اکلوتا حل آپؐ ہیں
آپؐ کی ذات ہے
آپؐ کی اک نظر جو اٹھے تو زمانے میں جتنے اندھیرے ہیں چھائے ہوئے
اپنا رُخ موڑ لیں
عربیا، ماہیا
اپنے دندانِ یٰسین اپنے لبوں کے کناروں سے ہلکے سے باہر تو کیجے
کہ سارے زمانوں پہ حاوی سبھی آفتیں رحمتِ حق میں تبدیل ہونے لگیں
پیاریا،
سب جہانوں کے واحد خدا کے حبیبا!
کریں مہربانی!
٭٭
مرے سوہنیا، سانولا، مدنیا!
اے مقدر میں لکھی محبت کے سارے حوالوں کے مرکز
مرے عربیا!
ڈھولنا،
مسندِ دل پہ بیٹھے ہوئے بادشاہا
بڑا حبس ہے
جو دل و جاں پہ ایسا مسلط ہے
سانسوں میں ویرانیاں ہیں
مسلسل ہی سانسوں میں اٹکی ہوئی
کتنی بے چینیاں ہیں
جو حبسِ مسلسل ہے جاں پہ مسلط کسی طور بھی اب یہ ٹلتا نہیں ہے
مرے سانولا،
اے مری روح کے مالکا، عربیا!
آپؐ اپنا عمامۂ اعظم ہٹا کر ذرا
ایک کنڈل تو واللیل زلفوں کا لہرائیں
تو میں بھی دیکھوں کہ کیسے
یہ حبسِ مسلسل یہاں ایک پل بھی
ٹھہرنے کا پھر نام لیتا ہے
اے سانولا
آپؐ کا ایک سوہنا سجیلا سا کنڈل ہی لہرائے تو
سب جہانوں میں ایسی ہوا چل پڑے
حبس بھی ہاتھ جوڑے
کرے معذرت
روح میں ایسی ٹھنڈک کہ جیسے محبت کی بانہیں کھلی ہوں
مرے بادشاہا
ذرا آپؐ لہرائیں نا!
ایک کنڈل کہ جس کی ہواؤں کی خیرات
جنت کی ساری ہوائیں بھی مانگیں
ذرا اپنی زلفوں کا سایہ کریں
مہربانی کریں، سیّداؐ!
٭٭
آپؐ تو جانتے ہیں سبھی
دیکھتے بھی ہیں سب اور دیکھا بھی ہے آپؐ نے
کیسے کربل میں وعدوں کو روندا گیا
کس طرح ننھی کلیوں کو
جنت کے باغوں کے، خوشبو سے لبریز پھولوں کو مسلا گیا!
سیّداؐ،
اے رحیما، کریما، عظیما،
مرے صابرا!
اس سے آگے ذرا سا بھی سوچیں تو آنسو ٹھہرتے نہیں
سوہنیا،
روح جسمِ فنا سے کہیں دور باہر نکل جانے کو دوڑ پڑتی ہے،
اور کائناتوں کا سینا دھل جاتا ہے،
سانس رک جاتی ہے
اے مرے سیّداؐ، صابرا
آپؐ کا صبر ہے
جس طرح آپؐ نے اپنی اولاد کو
ربِ کعبہ سے وعدہ نبھاتے ہوئے دیکھا ہے
آپؐ کا صبر ہے!
سیّداؐ سوہنیا!
آپؐ کی آل نے
ربِ کعبہ سے جتنے بھی وعدے کیے تھے
نبھائے ہیں
جتنی بھی قربانیاں دی ہیں
رب کی رضا سے وہ امت کی خاطر تھیں
امت کو ہر ایک آفت سے ایسے بچایا ہے
اپنے گھرانے کو قربان کر کے
یہ احسان ہے آپؐ کا، سیّداؐ!
آپؐ کی آل کا
جس کو صدیاں بھی چاہیں
اگر کائناتیں سمٹ کر بھی چاہیں تو تب بھی فراموش کر ہی نہ پائیں
یہ احسان ہے آپؐ کا سیّداؐ
جو کسی طور بھی نہ اتر پائے گا
مہربانا مرے عربیا، ڈھولنا
امتی تو بڑا ہی خطا کار ہے
آپؐ کے ان گلابی لبوں پر ہے پھر بھی
صدا اک یہی
امتی، امتی
اے خدا معاف کر ہے مرا امتی
سوہنیا بخش دے ہے مرا امتی
عربیا، ماہیا!
آپ پر میں بھی قربان اور میرے ماں باپ بھی سیّداؐ،
میرے سارے اثاثے، مری بات اور ذات بھی
ذات کے جس قدر ہیں حوالے مرے ماہیا
تجھ پہ قربان ہیں
اے مرے سیّداؐ،
صابرا!
٭٭
انبیا، اولیاء کی محبت، عقیدت، ارادت کے مرکز
بقا کے شہنشاہ
فنا کی سبھی منزلوں کی حدوں سے بہت پاک اور ماورا
بادشاہا مدینے کے سلطان
سارے جہانوں کے ہادی
مرے عربیا، ماہیا،
بات بھی آپؐ کی
ذات بھی آپؐ کی
عمر، صدیاں بھی، لمحات، دن اور یہ رات بھی آپؐ کی
سیّداؐ! آپؐ تو
شاہِ لولاک ہیں
آپؐ ہی پاک ہیں
اہلِ تطہیر ہیں
اے مرے سیّداؐ، سوہنیا
ہم ہیں کیا، کچھ نہیں
ہم تو سب خاک ہیں
آپؐ کے جو یہ نعلین ہیں
عرش روتا ہے ان کے لئے
ہم تو کچھ بھی نہیں
دیر تک، دور تک،
نہ ہی شَد، نہ ہی مَد
نہ ہی زیرو زبر
نہ ہی پیش و جزم
ہم تو کچھ بھی نہیں
چند لمحوں کا بس ایک دھوکا سا ہیں
آپ سچ ہیں، حقیقت ہیں، حق ہیں، امر ہیں
مرے سیّداؐ!
ہم تو سب جھوٹ ہیں
بس یہی ہے حقیقت کہ جب آپؐ کا نام لیتے ہیں تو پھر
خدا بھی ہمیں جانتا ہے وگرنہ
ہماری بھلا کیسی اوقات
کیا ذات؟
اے سیّداؐ!
٭٭
مالکا!
لاکھ وارث کی ہیریں بھی ہوتیں اگر
ساری قربان تھیں آپؐ پر
سیّداؐ!
قیس، رانجھے، مہینوال، سارے پُنل
آپؐ کے دَر کے باندے ہیں بردے ہیں
اے ماہیا، سوہنیا
حسن جتنا بھی ہے کائناتوں کی حد میں یا پھر اس سے باہر
وہ سارے کا سارا
کھڑا ہے نگاہیں جھکائے
مرے سیّداؐ، سوہنیا آپؐ کے در پہ ہاتھوں کو باندھے ہوئے
آپؐ کی شان میں
جس قدر شاعری، جس قدر بھی ہیں الفاظ
کچھ بھی نہیں ہیں
کوئی ایک بھی حرف ایسا نہیں
جو بیاں کر سکے آپؐ کی ذات کو
سیّداؐ!
یہ تو بس حاضری کے وسیلے ہیں
حیلے بہانے ہیں
میرے لبوں پر فقط یہ دعا ہے
مرے بادشاہا،
گزارش بھی ہے
التجا بھی یہی ہے
کہ جتنے بھی الفاظ لکھے گئے
آپؐ کی چاہتوں میں وہ مقبول ٹھہریں
یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ آپؐ کی شان پر
یوں تو ہر گز بھی پورا اترتے نہیں
پھر بھی مقبول رکھنا
مرے سیّداؐ
بادشاہا!
٭٭
مرے سوہنیا!
اے اذانِ بلالی میں مخفی عقیدت، محبت کے مرکز
مرے عربیا،
سانولا،
دیکھ لیں
راستے ایسے مجبور ہوتے نہیں ہیں مگر ہو گئے ہیں
نگاہیں جو راہوں کو تکنے پہ معمور تھیں
وہ سبھی سو گئی ہیں
لکیریں جو ہاتھوں پہ بکھری ہوئی تھیں
سبھی مٹ چلی ہیں
مرے سیّداؐ،
اک نظر دیکھ لیں
ہاتھ تھامیں ہمارا کہ دشتِ رگِ جاں میں پھر سے بہاروں کے موسم تو مہکیں
مرے سیّداؐ
اک نظر کی طلب ہے
جو سیراب کرنے کو کافی ہے
صدیوں کو
سارے زمانوں کو
سارے حوالوں کو
خواہش کے سارے دریچوں کو
کافی ہے بس اِک نظر
اے مرے سیّداؐ!
٭٭
دیکھیے، حالتِ زار ہے
رو رہا ہے کوئی،
اپنی بے چارگی پہ سسکنے لگا ہے
کوئی اپنی حالت کی بے مائے گی پر فقط ہنس رہا ہے
مگر خوش نہیں ہے
مرے بادشاہا،
مدینے کی گلیوں کی،
سارے زمانے کے سینے کی بے چین آنکھوں کی ٹھنڈک
ذرا بھیک دے دیں
کوئی بھیک مسکان کی
چاہ کی، رحم کی
اک نظر کی کوئی بھیک دے دیں
واسطہ آپؐ کو
آپؐ کے ان مبارک سے شانوں کا
جن کو حُسینؑ و حسنؑ پاک
شہزادگانِ علیؑ نے سواری بنایا،
کوئی بھیک دے دیں
فقط آپؐ کی مسکراہٹ کی کافی ہے
دونوں جہانوں کی عصمت
بچانے کی خاطر مرے سوہنیا
اک ذرا بھیک دے دیں
٭٭
مرے سیّداؐ!
اے بشیر النذیرا،
بلالِ حبش کی عقیدت، محبت کے والی
مرے سوہنیا!
منجمد ہیں سبھی راستے
راہ دکھتی نہیں راہ میں۔
راہ بھی راہ سے ایسی بھٹکی ہوئی
کہ کسی اور بھی راہ سے راہ بدلنے کا
کوئی تصور بھی ممکن نہیں
سیّداؐ تھام لیں ہاتھ،
راہوں کی سختی سے ہم کو نکالیں
یہ راہیں مسلسل ہی پیروں کو گھائل کیے جا رہی ہیں
ذرا ہاتھ تھامیں
کہ بیماریِ روح کو بھی شفا مل سکے
حبس آلود جذبوں کی شدت کو ٹھنڈی ہوا مل سکے
ہاتھ تھامیں ذرا کہ یہ تاریک راہیں منور رہیں
آپؐ سے آپؐ کی ذات سے
سیّداؐ!
٭٭
معذرت!
سیّداؐ! معذرت!
ایک پل بھی جو غافل رہے آپؐ سے
آپؐ کی ذات سے
آپؐ کی بات سے
سیّداؐ! معذرت
منزلت، معرفت کے ارادوں، حوالوں میں ڈوبے ہوئے
اپنی ہستی سے غافل ہیں
کھوئے ہوئے یہ سبھی لوگ ہیں
چھوڑ کر اک الف بابا بلھے نے تھی جو بتائی اسے
ب(بے ) کی جانب رواں ہیں
ہواؤں کو تسخیر کرنے کی خواہش میں بکھرے ہوئے یہ سبھی لوگ
یہ جانتے ہی نہیں
کربلا میں پڑے ایک پیغام کو
سیّداؐ! معذرت
لوگ فرقوں کو یوں طول دینے میں ماہر ہیں
ایسے مگن ہیں
نہیں جانتے کون کب،
کس طرح بھینٹ چڑھنے لگا
بے سبب سازشوں میں
انہی بے رحم اور سفاک لوگوں کی آلائشوں میں
مگر اے مرے سیّداؐ
آپؐ کا ظرف ہے
آپؐ ہی کی دعاؤں کے باعث
روانی ہے سانسوں میں
سب جی رہے ہیں
خبر بھی نہیں ہے
بری ہیں سبھی لوگ احساس سے
سیّداؐ! معذرت!
٭٭
سیّداؐ! دید دیں
دید کی عید دیں
عید دیں
عید میں دید کی بھیک دیں
سیّداؐ!
یہ نگاہیں بھی راہوں پہ مدت سے اٹکی ہوئی ہیں
کہ کس راہ سے آئیں گے
آپؐ اے سیّداؐ
کون سی وہ نصیبوں کی اعلیٰ و ارفع گھڑی ہو کہ جس میں
زیارت کی برکت کی دولت ملے
خواہشیں مر گئیں سیّداؐ!
ایک پردے کے ہٹنے کی خواہش ہے بس
آپؐ کی اک جھلک
جان کی روح کی
ایک تابندگی کا سبب ہے فقط
دید میں ہے شفا
دید میں ہے رضا
دید میں ہے بقا
دید میں ہی ہے سب
دید میں ہی ہے رب
دید ہی نور ہے
دید ہی ہے تجلی یہی طور ہے
سیّداؐ!
بھیک دیں
سیّداؐ
دید دیں!
٭٭
سیّداؐ!
میں نہیں،
ہم نہیں،
کچھ نہیں
آپؐ ہی آپؐ ہیں
آپؐ حامد ہیں، مشہود و محمود ہیں
آپؐ عالم ہیں، عالم کی زینت،
مفکر، مدبّر، مطہّر، منور، فقط سیّداؐ آپؐ ہیں
آپؐ ہی داورِ حشر ہیں سیّداؐ!
جانِ عالم ہیں، محبوبِ عالم بھی ہیں
آپؐ سلطانِ عالم ہیں
مقبولِ عالم بھی ہیں سیّداؐ
بادشاہا مرے سوہنیا عربیا
آپؐ ہی آپؐ ہیں
آپؐ ہیں سیّدہ پاک زہراؑ کے بابا
علیؑ کے ولی
آپؐ مولا حسینؑ و حسنؑ کی سواری ہیں
سرتاج ہیں
آپؐ مہراج ہیں، آپؐ معراج ہیں
خواجہ ہندالولیؒ کے معین آپؐ ہیں
آپؐ تسکین ہیں
روح کی سانس کی
زندگی آپؐ ہیں
سیّداؐ
اس جہاں میں
زمین و زماں میں
یہاں بھی وہاں بھی۔
ہمارا تو کچھ بھی نہیں ہے مگر جو بھی کچھ ہے
سبھی کا سبھی آپؐ ہیں
سیّداؐ! زندگی،
موت کے بعد پھر
زندگی آپؐ ہیں
٭٭
سیّداؐ
لاج رکھنا کہ ہم روز ہی
آپؐ ہی سے محبت، عقیدت کا دعویٰ تو کرتے ہیں
کرتے رہیں گے مگر
آپؐ سب جانتے ہیں کہ کس کی محبت ہے کتنی کھری
سیّداؐ
آپؐ تو ظرف والے ہیں
اے سوہنیا
آپؐ رکھنا ہمیشہ بھرم
اس محبت کا جیسی بھی ہے سیّداؐ
لاج رکھنا کہ ہم آپؐ کے بن کہاں جائیں گے
اور ہے بھی بھلا کون ایسا کوئی بادشہ
جو سنے داستاں ان دکھوں کے ستائے ہوئے،
غم کے ماروں کی
اے سیّداؐ،
لاج رکھنا سدا!
٭٭
سیّداؐ
مرسلوں کے شہنشاہ
مرے سوہنیا
اے رحیما، کریما
غریبوں کے اے دوستا
آپؐ کے بن بھلا کون ہے جو سنے
کون ہے اس طرح کا کوئی بادشاہ
کہ جو بھوکا رہے
دوسروں کو کھلائے
کوئی بھی نہیں
آپؐ ہی کے سوا
سیّداؐ
سوہنیا!
٭٭
محرماں حال کے
اے مرے دل کی دھڑکن
مرے دل کے ہر تار میں، سُر میں، ہر ساز میں
ایک ہی نام ہے
سیّداؐ،
آپؐ کا!
سوہنیا
آپ اتنے حسیں ہیں کہ جی چاہتا ہے مرا
آپ کے سامنے بیٹھ جاؤں
نگاہوں کو باندھے ہوئے اور پلکوں کو جھپکے بِنا
پر کروں کیا
ادب و حیا کا یہ دامن
کبھی میری آنکھیں اور آنکھوں کے سارے اشارے کبھی
کبھی چھوڑ سکتی نہیں ہیں
مرے سیّداؐ
سوہنیا آپؐ تو جانتے ہیں سبھی اے مرے
محرماں حال کے!
سیّداؐ!
٭٭
محرماں حال کے
حال میں حال کی بے سکونی کا غم
روح پر جال ہے
جال کی بے کلی
بے قراری کا غم
جال دردوں کے کانٹوں سے بھرپور ہے
دکھ کے دھاگوں سے گانٹھیں لگی ہیں
جو کاٹے سے کٹتی نہیں
اور کھولے سے کھلتی نہیں
سوہنیا!
دل پریشان ہے
دل میں بیٹھا ہے اک ازدحامِ الم
شور کرتا ہے جو رات دن بے سبب
جو کسی طور جاتا نہیں اور پھر
دل تڑپتا ہے، روتا ہے، آہوں کو بھرتا ہے
معصوم بچے کی مانند سسکی بھی لیتا ہے
فریاد کرتا ہے اے سوہنیا
محرماں حال کے
حال پر اِک نظر ہو کہ
رحمت کے بادل امڈنے لگیں
اک نظر محرماں
بے سکونی کے سارے سِحر ٹوٹ کر
رحمتِ حق میں تبدیل ہونے لگیں
محرماں حال کے
اک نظر کیجیے!
٭٭
اے حبیبا!
اے میری محبت کے سوہنے نصیبا!
مسیحا!
مری روح کے
اور مری روح کی ساری بیماریوں کے طبیبا!
بدن کو جلانے لگی ہے یہ آفت کی گرمی،
نجانے کہاں کھو گئی ہے یہاں سے
صداقت کی ٹھنڈک
زباں سے فصاحت، بلاغت کی گرمی
مرے مٹھڑیا
یہ زبانیں عجب ہیں
کہ دل سے کوئی جن کا ناتا نہیں اب
بڑی بے اثر ہیں
بڑی بے ثمر ہیں
کبھی اس سے پہلے تو ایسا کبھی ہم نے دیکھا نہیں تھا
طبیبا!
یہ کیسی ہوا چل پڑی ہے
کہ تھم جانے کا نام لیتی نہیں،
اس قدر تیز لو ہے، بلاؤں کی، اِس میں
کہ جس نے زباں کے اثر توڑ ڈالے
محبت کے، چاہت کے سارے کے سارے
سحر توڑ ڈالے
مسیحا اے میرے طبیبا
بھلا کون ہے آپؐ ہی کے سوا کہ جو
امت کی دکھتی ہوئی رگ پہ شفقت سے ہاتھوں کو پھیرے
فقط اک نظر سے ہی
سارے دکھوں کے اثر توڑ ڈالے
کریں مہربانی
کہ امت کو اک مسکراہٹ کی حاجت ہے
اے سیّداؐ
محرماں حال کے
٭٭
شاہِ ابرار
سوہنے مصور کے شہکار
خواجہؒ پیا کے پیا
اے غریبوں کے غمخوار،
جتنے بھی عالم ہیں موجود
سب کے لیے رحمتِ حق
اے سارے زمانے کی راحت
اے جنت کے ہر ایک پتے کی رگ میں مہکتی ہوئی سانس
اے سیّداؐ، سوہنیا
ہو کرم کی نظر!
٭٭
سیّداؐ
سوہنیا
جس قدر علم ہے رب کعبہ کا، حد میں جو آتا نہیں ہے
کسی طور بھی
اس قدر ہوں سلام آپؐ کی ذات پر
اس قدر ہوں درود آپؐ کی ذات پر
آپؐ کی آل پر
آپؐ کی ان گلابی نگاہوں پہ
واللیل زلفوں کے کنڈل پہ
دندانِ یٰسین پر
اور سوہنے سجیلے سے مکھڑے پہ
اور ان مبارک سے شانوں پہ
جن کے سوارِ حسیں ہیں
مرے پاک مولا علیؑ کے دلارے
حسینؑ و حسنؑ
سیّداؐ!
جس قدر بھی ہیں اعداد دنیا میں موجود یا کائناتوں سے باہر
تو ان سب کی ساری حدوں سے بھی زیادہ درود آپؐ پر
آپؐ کی ذات ہر
آپؐ کی بات پر
آپؐ کی آل پر بے تحاشہ درود و سلام اے مرے سوہنیا، سیّداؐ
ان سلاموں، درودوں سے بھرپور معصوم تحفے کو
مقبول و منظور فرمائیں
اے سیّداؐ،
٭٭
پیاس ہے!
مالکا! حوضِ کوثر کے!
اک بوند بھیجیں
کہ صدیوں کی یہ تشنگی مٹ سکے
سیّداؐ
سوہنیا
آس ہے
آس بھی آپؐ کی
ایک دیدار کی
سیّداؐ دید دیں
سیّداؐ
پیار ہے
پیار بھی آپؐ سے
آپؐ کی آل سے
پیار ہی پیار ہے
پیار دیں
سیّداؐ
سوہنیا!
بے بسی اب رلانے لگی،
بے کلی بھی ہمیں اب ستانے لگی ہے
مرے پیاریا
عربیا، ڈھولنا
ہاتھ کو تھام لیں!
٭٭
اے مرے سیّداؐ
اے خدا کی بنائی ہوئی نعمتوں سے
شناسائیاں دینے والے
مرے شہنشاہا،
اے طائف کے لوگوں سے پتھر بھی کھا کر
دعا دینے والے
اے میرے رحیما، کریما
مرے سوہنیا، سیّداؐ
صابرا
بس دعا کی طلب ہے
مرے سوہنیا
اک نظر کی طلب ہے
ذرا ایک پل اپنا رخ اس طرف موڑ لیں
مسکرا دیں کہ آسان ہو زندگی
ہو کرم کی نظر!
٭٭
اے مرے سیّداؐ
آپؐ جیسا حسیں اس سے پہلے کبھی آنکھ نے بھی نہ دیکھا
ہمیں یاد ہے
پیارے حسان کی بات بھی آج تک
آپؐ اتنے حسیں ہیں
مرے سیّداؐ
کہ عمر ابن خطاب بھی آپؐ کو مارنے کے ارادے سے آنے لگے تھے مگر بے خبر تھے
کہ وہ قتل کرنے نہیں
بلکہ خود اپنا سر پیش کرنے چلے آئے ہیں
سیّداؐ
آپؐ کے سوہنے دربار میں،
آ گئے اور خود ہی فدا ہو گئے
آپؐ کی نازنیں ان گلابی نگاہوں پہ،
واللیل زلفوں پہ
اورچہرۂ والضحیٰ پہ
مرے سوہنیا
آپؐ کتنے حسیں ہیں
کہ جتنے اجالے ہیں
سب آپؐ کے حُسن کی بھیک ہیں
سیّداؐ!
آپؐ جیسا کوئی بھی حسیں آنکھ نے پہلے دیکھا نہیں!
٭٭
سیّداؐ!
آپؐ ہی کا تو صدقہ ہے
یہ جان بھی
مان بھی اور ایمان بھی
سوہنیا!
اس جہاں میں ہمیں
آج تک جو ملا
وہ سب آپؐ ہی کے توصل سے اور آپؐ ہی کے تو صدقے ملا ہے ملے گا ہمیشہ
مرے سوہنیا
آپؐ اپنے کرم کی نگاہیں سدا ہم پہ رکھنا
اے دونوں جہانوں کے والی
مرے عربیا، سوہنیا، سیّداؐ!
٭٭
مہرباں!
خیر ہو
سارے منگتوں کی جو آپؐ کے نام پر
آرزو، آبرو کو
لٹائے ہوئے ہیں
مرے سیّداؐ
خیر ہو ان کی جو آپؐ کا نام آتے ہی
تکریم سے اپنی آنکھیں جھکاتے ہیں
جیسے کہ عرشِ معلی کے سارے ہی در کھل گئے ہوں
کہ جن سے حیائیں نکل کر سمانے لگیں روح میں دور تک
خیر ہو سیّداؐ
ان سبھی کی کہ جو آپؐ کا نام لیتے ہوئے کانپتے ہیں
کہ ادب و وفا پر کوئی حرف بھی آ نہ جائے کہیں
اے مرے سیّداؐ خیر ہو ان سبھی کی کہ جو
آپؐ کے نام پر، آپؐ کی ذات کی شان کی عصمتوں پر
ذرا سا بھی ڈرتے، جھجکتے نہیں، سوچتے بھی نہیں
جان دینے پہ اور جان دیتے بھی ہیں
خیر ہو سیّداؐ
سوہنیا خیر ہو!
٭٭
سیّداؐ!
ٹھیک ہے
منزلت، معرفت،
مصلحت، عاقبت،
ٹھیک ہے سیّداؐ
یہ طلب اور پھر ٍ اِک طلب
آپؐ کی ذات کی
اور ہم جاں بلب
سیّداؐ سوہنیا
ٹھیک ہے
عابدوں کی نظر
زاہدوں کا وہ ڈر
سیّداؐ ٹھیک ہے
اور ہم عشق کے عین سے بے خبر
منزلوں کے ستائے ہوئے
آرزوؤں کا لاشہ بنے
جنگلوں میں بھٹکتے ہوئے
دشت کی ریت پر
بے ثباتی کی تصویر
نوحہ کناں ایک ہم
اور ہم پھر وہی
بدحواسی کے مارے
اداسی سے ہارے
کسی ریت پر
چند ذروں میں بکھرے ہوئے
ٹھیک ہیں سیّداؐ
اور راضی بھی ہیں
پھر بھی نظرِ کرم کی طلب ہے
مرے سوہنیا
سیّداؐ
مہربانی کریں!
٭٭
بات ہے اور پھر
ایک ہی بات ہے
بات ہے مختصر
اور پھر اس قدر مختصر بھی نہیں
پر سنانی تو ہے
ایک روداد ہے
ایک لمبی سی روداد ہے سیّداؐ
یہ جو روداد ہے
اس میں بھی طول ہے
طول اتنا اہم بھی نہیں ہے
مرے سیّداؐ سوہنیا
پھر بھی کہنا تو ہے
یہ بھی معلوم ہے
بن کہے، بن سنے
آپؐ کی اک نظر
جان لیتی ہے سب
پھر بھی کہنی تو ہے
کہ بہانہ ملے آپؐ سے بات کا
ایک لمحہ عنایت کریں کہ سکون کی گھڑی آن پہنچے
سبھی درد رَدّ ہوں
مرے عربیا،
ماہیا، سوہنیا!
٭٭
آپؐ کے در کا پانی تو بھرتے رہے
رومی، جامی بھی
شبلی بھی، عطار بھی
عمر بھر کی ریاضت تو پڑتی ہے
راہوں میں
اے سیّداؐ
سوہنیا ایک ہم
ہم تو کچھ بھی نہیں
پھر بھی جیتے ہیں اس شان سے
کہ گلے میں فقط
آپؐ ہی کی غلامی کا پٹہ تو ہے
آرزو بھی یہی ہے کہ یونہی
بسر ہو یہ عمرِ رواں آپ ہی کی غلامی کے گن گاتے گاتے
مرے سیّداؐ!
٭٭
کون ہے جو تڑپتی ہوئی رگ پہ
رحمت کے ہالے دھرے
سیّداؐ
آپؐ ہیں
کون ہے جو محبت کی باتیں کرے
دوسروں پر نچھاور کرے ہر خوشی
جو کرے ہر دعا دوسروں کے لئے
رات بھر آنسوؤں کو بہائے دعائیں کرے
دوسروں کے لئے
سیّداؐ
آپؐ ہیں سوہنیا!
آپؐ کا ظرف اعلیٰ و ارفع ہے
میرے مسیحا
مرے ناخدا
سوہنیا
بادشاہا کرو مہربانی!
٭٭
مرے سانولا
سوہنیا،
ذات کالی ہے اور اتنی کالی ہے
جیسے اماوس کی اک رات ہو
جس میں کوئی ستارہ کوئی چاند بھی تو نہیں
روح بے تاب ہے روشنی کے لیے
میرے سانول، مِٹھل
میرے منٹھار
مکھڑے سے گھونگھٹ اٹھائیں
کہ بس نور ہی نور پھیلے
سماعت میں بھی
اور بصارت میں بھی
سانولا، سوہنیا
مکھ دکھا دیں
مرے عربیا!
٭٭
سوہنیا اے صدیق و امیں سیّداؐ
اے غنی سیّداؐ
اے مسیحائے کل
اے شہنشاہِ عرب و عجم
اے مرے مالکا
مہرباں سیّداؐ
محرماں سیّداؐ
میری جاں سیّداؐ
عرضیاں لکھ کے بھیجی تو ہیں
آپؐ ہی کے غلاموں نے ہاتھوں صبا کے
مدینے کی جانب ذرا
اک نظر دیکھ لیں
عالمِ کُل کے واحد حبیبا
حبیبِ خدا، سیّداؐ
اک نظر دیکھ لیں!
٭٭
دیکھ لیں کہ زمانہ کہاں راس آتا ہے
کس کو ملا ہے
کوئی اپنی نفسانی خواہش کے بھی پورا ہونے پہ راضی نہیں
اور پھر لوگ بے صبر ہیں
اک ذرا سی اذیت کا یوں بول بالا جو ہوتا ہے پھر
ہو کوئی اپنی خواہش پہ ہی خون روتا ہے اپنے لئے
دوسروں کے لیے کوئی روتا نہیں
سیّداؐ
دیکھ لیں اک نظر!
٭٭
سیّداؐ!
لوگ باتیں بنانے میں آگے ہیں بس
طعنہ و طنز کرتے ہیں
آواز کستے ہیں
معصوم لوگوں کی خواہش پہ۔
کتنی اذیت ہے،
کتنی پشیمان پھرتی ہے خواہش
کہ یہ کس لئے آ گئی راستہ بھول کر
سادہ لوگوں کی بستی میں
معصوم خواہش کی ہستی کہاں
زندگی جو کہ تھی بیش قیمت
اسی کی تو قیمت ہے اب
اور سستی بہت ہے مرے سیّداؐ
دیکھ لیں اک نظر!
٭٭
سیّداؐ
نور ہی نور ہے آپؐ کا
دید بھی آپؐ کی
طور بھی آپؐ کا
سوہنیا
دائمی اک ظہور آپؐ کا
پاس بھی آپؐ کا دور بھی آپؐ کا
ہر بصارت کی حد
ہر سماعت کی حد
اور حد سے پرے کے سبھی راز و اسرار
بھی آپؐ کے
میرے جذبات کی حد سے نکلی ہوئی
ایک مہکی ہوئی
اک معطر سی آواز، اے سیّداؐ
مہربانی کریں
دیکھ لیں!
٭٭
خواب ہیں
خواب آنکھوں میں خاروں کی مانند چبھتے ہیں
تعبیر سے بے خبر
آنکھ جانے کہاں کھوئی رہتی ہے
تکمیلِ چاہت کی خواہش ہے
جاں کو مسلتی بھی ہے
پھر بھی سانسیں تو چلتی ہیں
لیکن مشقت سے، مشکل سے۔
کٹھنائیاں ہیں یہاں
سانس لینے میں دقت تو ہے
پھر بھی چلتی تو ہے
سیّداؐ
دیکھ لیں
مہربانی طلب ہیں نگاہیں،
یہ راتیں، یہ نیندیں، یہ خواب اور تعبیر بھی
سیّداؐ
دیکھ لیں!
٭٭
بچپنا بیتنے لگ گیا ہے مگر
یہ نکلتا نہیں
خواہشوں سے بھی اور روح سے
سیّداؐ
ایک لاوا تو ہے ذات میں چاہتوں کا
مچلتا تو ہے پر ابلتا نہیں
ہاتھ پر پاؤں کے نقش موجود ہیں
ہاتھ مسلے گئے ہیں کسی پاؤں کے زور سے
سیّداؐ
مہربانی طلب ہیں سبھی ہاتھ بھی
یہ زبانیں، یہ لب
اور ہر بات بھی
سیّداؐ
مہربانی کریں
دیکھ لیں!
٭٭
چال بھی
حال بھی
حالتِ زار بھی
نین ترسے ہوئے
نین برسے ہوئے
گال بھیگے ہوئے
بال بکھرے ہوئے
آپؐ کی یاد میں
دیکھ لیں اک نظر
تیرگی تو مٹے
آبروؤں کی تسکین کا اِک سبب
آپؐ کی اک نظر
سیّداؐ
دیکھ لیں
سارے رنج و الم کے ستائے ہوئے
آپؐ کے سب غلاموں کے لب پر
فقط ایک فریاد ہے
سیّداؐ
دیکھ لیں!
٭٭
منتظر
با خبر آنکھ
راہوں پہ لٹکی ہوئی
دیکھتی ہے مسلسل وہ رستہ
کہ جس پر کبھی دور سے ہی سہی
اک جھلک تو دکھے
آپؐ کی سیّداؐ
سوہنیا
زندگی ہے یہ کیا
عمر بے کار ہے
ایک دیدار بن
آپؐ کے سیّداؐ
واسطہ آپؐ کو آپؐ کی آل کا
دیکھ لیں!
٭٭
شہنشاہا مرے، سوہنیا عربیا
مہرباں، دیکھ لیں!
مسکرا دیں کہ سانسوں کو تسکین ہو
روح کی بے کلی کو ملے آسرا
مسکرا دیں کہ سارے مصائب ہٹیں
سیّداؐ
زیست الجھی ہوئی ہے نظر کیجیے
مسکراتی نگاہیں ادھر کیجیے
دیکھ لیں ضبط بھی آج رو کر
یہی کہہ رہا
اک نظر دیکھ لیں
سیّداؐ
آپ اپنی گلابی نگاہیں ذرا
اس طرف موڑ لیں
مسکرا دیں،
حوادث کی آندھی رُکے
غم کے بادل چھٹیں
واسطہ ہے حسینؑ و حسنؑ کا
مرے سانولا
مسکرا دیں ذرا،
اک نظر دیکھ لیں
ہجر کے سارے موسم نظر پھیر لیں
ذیست آسان ہو
مسکرا دیں ذرا
اے مسیحائے کون و مکاں دیکھ لیں
یہ محبت کے بیمار بھی آپ کو
عمر بھر دیکھ لیں
اے مدینے کے سرتاج
کالی کملیا کے صدقے
ذرا مسکرا دیں کہ
تاریکیاں روح کی دور ہوں!
اے مرے بادشاہا،
مرے سوہنیا،
مہرباں، دیکھ لیں!
عربیا، اک نظر!
٭٭
سوہنیا، سانولا، ماہیا، عربیا،
اک نظر پیار کی
رحم کی، چاہ کی
واسطہ آپؐ کو پیارے مولا علیؑ کا
مرے سوہنیا
فاطمہؑ پاک بی بی کے پردے کے صدقے
حُسینؑ و حسنؑ کی شہادت کے صدقے
مرے سوہنیا! پاک زینبؑ کی چادر مبارک کے صدقے
حبیبا، طبیبا، مرے سوہنیا
آپؐ کے پاک عباس ؑ کی کربلا میں وہ بکھری ہوئی
سب وفاؤں کے صدقے
مرے سوہنیا
اک نظر دیکھ لیں
دیکھ لیں آپؐ کے آگے فریاد ہے
دیکھ سکتا نہیں اور کوئی بھی ایسے
سوا آپؐ کے
سیّداؐ
بادشاہا،
خدا کے حبیبا!
کہ کم ظرف ہیں ہم سبھی
اور بس آپؐ کا آسرا
آپؐ کا نام لے کر جیئے جا رہے ہیں
ہمیشہ ہی رکھنا ہماری طرف
بس یونہی نیک نظریں
کہ کوئی نہیں آپؐ کے بن ہمارا
مرے سیّداؐ، دوستا، ماہیا
اک نظر ہو فقط
اک نظر ہو کرم کی
خدا کے حبیبا
مرے سیّداؐ!
٭٭٭
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/blog-page_21.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں